حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنَّهُ قَالَ: "سَقَطَ عِقْدُ عَائِشَةَ فَتَخَلَّفَتْ لِالْتِمَاسِهِ، فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَتَغَيَّظَ عَلَيْهَا فِي حَبْسِهَا النَّاسَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرُّخْصَةَ فِي التَّيَمُّمِ، قَالَ: "فَمَسَحْنَا يَوْمَئِذٍ إِلَى الْمَنَاكِبِ"، قَالَ: فَانْطَلَقَ أَبُو بَكْرٍ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: مَا عَلِمْتُ إِنَّكِ لَمُبَارَكَةٌ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار ٹوٹ کر گر گیا، وہ اس کی تلاش میں پیچھے رہ گئیں، ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، اور ان پہ ناراض ہوئے، کیونکہ ان کی وجہ سے لوگوں کو رکنا پڑا، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی اجازت والی آیت نازل فرمائی، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت مونڈھوں تک مسح کیا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے، اور کہنے لگے: مجھے معلوم نہ تھا کہ تم اتنی بابرکت ہو ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۳ (۳۱۸، ۳۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۶۳)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۹۶ (۳۱۳)، مسند احمد (۴/۲۶۳، ۲۶۴، ۳۲۰، ۳۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہوئی، اسی طرح اس حدیث سے اور اس کی بعد کی احادیث سے مونڈھوں تک کا مسح ثابت ہوتا ہے، لیکن یہ منسوخ ہے، اب حکم صرف منہ اور پہنچوں تک مسح کرنے کا ہے، جیسا کہ آگے آنے والی احادیث سے ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْعَدَنِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ: "تَيَمَّمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَنَاكِبِ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مونڈھوں تک تیمم کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۹۸ (۳۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۵۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۳ (۳۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ حُمَيْدِ بْنِ كَاسِبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَرَوِيُّ، حَدَّثَنَاإِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ جَمِيعًا، عَنِ الْعَلَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا وَطَهُورًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زمین میرے لیے نماز کی جگہ اور پاک کرنے والی بنائی گئی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۱ (۵۲۳)، سنن الترمذی/السیر ۵ (۱۵۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۳۷، ۱۳۹۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ساری زمین پر نماز کی ادائیگی صحیح ہے، اور پاک کرنے والی کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک قسم کی زمین پر تیمم صحیح ہے، اور نبی اکرم ﷺ سے دیوار پر تیمم کرنا ثابت ہے، لیکن شافعی اور احمد اور ابوداؤد کے یہاں زمین سے مٹی مراد ہے، اور مالک، ابوحنیفہ، عطاء، اوزاعی اور ثوری کا قول ہے کہ تیمم زمین پر اور زمین کی ہر چیز پر درست ہے،مگر امام مسلم کی ایک روایت میں «تربت» کا لفظ ہے، اور ابن خزیمہ کی روایت میں «تراب» کا، اور امام احمد اور بیہقی نے باسناد حسن علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے: «و جعل التراب لي طهوراً» یعنی مٹی میرے لئے پاک کرنے والی کی گئی، اس سے ان لوگوں کی تائید ہوئی ہے، جو تیمم کو مٹی سے خاص کرتے ہیں، اور زمین کے باقی اجزاء سے تیمم کو جائز نہیں کہتے، اور قرآن میں جو «صعید» کا لفظ ہے اس سے بھی بعضوں نے مٹی مراد لی ہے، اور لغت والوں کا اس میں اختلاف ہے، بعضوں نے کہا: «صعید» روئے زمین کو کہتے ہیں، پس وہ زمین کے سارے اجزاء کو عام ہو گا، ایسی حالت میں احتیاط یہ ہے کہ تیمم پاک مٹی ہی سے کیا جائے، تاکہ سب لوگوں کے نزدیک درست ہو، «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا اسْتَعَارَتْ مِنْ أَسْمَاءَ قِلَادَةً فَهَلَكَتْ، "فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُنَاسًا فِي طَلَبِهَا، فَأَدْرَكَتْهُمُ الصَّلَاةُ فَصَلَّوْا بِغَيْرِ وُضُوءٍ، فَلَمَّا أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكَوْا ذَلِكَ إِلَيْهِ، فَنَزَلَتْ آيَةُ التَّيَمُّمِ"، فَقَالَ أُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ: جَزَاكِ اللَّهُ خَيْرًا، فَوَاللَّهِ مَا نَزَلَ بِكِ أَمْرٌ قَطُّ إِلَّا جَعَلَ اللَّهُ لَكِ مِنْهُ مَخْرَجًا، وَجَعَلَ لِلْمُسْلِمِينَ فِيهِ بَرَكَةً.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہوں نے اسماء رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریۃً لیا، اور وہ کھو گیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ڈھونڈنے کے لیے کچھ لوگوں کو بھیجا، اتنے میں نماز کا وقت ہو گیا، لوگوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی، جب لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے تو آپ سے اس کی شکایت کی، تو اس وقت تیمم کی آیت نازل ہوئی، اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے، اللہ کی قسم! جب بھی آپ کو کوئی مشکل پیش آئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نجات کا راستہ پیدا فرما دیا، اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھ دی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التیمم ۲ (۳۳۶)، فضائل الصحابة ۳۰ (۳۷۷۳)، النکاح ۶۶ (۵۱۶۴)، صحیح مسلم/التیمم ۲۸ (۳۶۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۸۰۲)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہا رة ۱۲۳ (۳۱۷)، سنن النسائی/الطہارة ۱۹۷ (۳۱۵)، موطا امام مالک/الطہارة ۲۳ (۸۹)، مسند احمد (۶ /۵۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۶۵ (۷۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جیسے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام تراشی اور بہتان کا نازیبا واقعہ پیش آیا تھا تو اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی عفت و پاکدامنی ظاہر کر دی، اور مومنات کے لئے احکام معلوم ہوئے، اسید رضی اللہ عنہ کا مقصد کلام یہ تھا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہمیشہ ہی رہی ہے، اور ہر تکلیف و آزمائش میں ایک برکت پیدا ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ذَرٍّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنِّي أَجْنَبْتُ فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَقَالَ عُمَرُ: لَا تُصَلِّ، فَقَالَعَمَّارُ بْنُ يَاسِرٍ: أَمَا تَذْكُرُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ"إِذْ أَنَا وَأَنْتَ فِي سَرِيَّةٍ فَأَجْنَبْنَا فَلَمْ نَجِدِ الْمَاءَ، فَأَمَّا أَنْتَ فَلَمْ تُصَلِّ، وَأَمَّا أَنَا فَتَمَعَّكْتُ فِي التُّرَابِ فَصَلَّيْتُ، فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ وَضَرَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَخَ فِيهِمَا وَمَسَحَ بِهِمَا وَجْهَهُ وَكَفَّيْهِ".
عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، اور کہا کہ میں جنبی ہو گیا اور پانی نہیں پایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: نماز نہ پڑھو، اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما نے کہا: امیر المؤمنین! کیا آپ کو یاد نہیں کہ جب میں اور آپ ایک لشکر میں تھے، ہم جنبی ہو گئے، اور ہمیں پانی نہ مل سکا تو آپ نے نماز نہیں پڑھی، اور میں مٹی میں لوٹا، اور نماز پڑھ لی، جب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس کا ذکر کیا، تو آپ نے فرمایا:"تمہارے لیے بس اتنا کافی تھا"، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے، پھر ان دونوں میں پھونک ماری، اور اپنے چہرے اور دونوں پہنچوں پر اسے مل لیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التیمم ۴ (۳۳۸)، ۵ (۳۳۹)، صحیح مسلم/الحیض ۲۸ (۳۶۸)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۳ (۳۲۲، ۳۲۳)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۱۰ (۱۴۴)، سنن النسائی/الطہارة ۱۹۶ (۳۱۳)، ۱۹۹ (۳۱۷)، ۲۰۰ (۳۱۸)، ۲۰۱ (۳۱۹)، ۲۰۲ (۳۲۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۶۳، ۲۶۵، ۳۱۹، ۳۲۰، سنن الدارمی/الطہارة ۶۶ (۷۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تیمم یہی ہے کہ زمین پر ایک بار ہاتھ مار کر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرے، اور جنابت سے پاکی کا طریقہ حدث کے تیمم کی طرح ہے، اور عمر رضی اللہ عنہ کو باوصف اتنے علم کے اس مسئلہ کی خبر نہ تھی، اسی طرح عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو، یہ دونوں جلیل القدر صحابہ جنبی کے لئے تیمم جائز نہیں سمجھتے تھے، اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ کبھی بڑے عالم دین پر معمولی مسائل پوشیدہ رہ جاتے ہیں، ان دونوں کے تبحر علمی اور جلالت شان میں کسی کو کلام نہیں ہے، لیکن حدیث اور قرآن کے خلاف ان کا قول بھی ناقابل قبول ہے، پھر کتاب و سنت کے دلائل کے سامنے دوسرے علماء کے اقوال کی کیا حیثیت ہے، اس قصہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں صرف رسول اکرم ﷺ کے اسوہ سے مطلب ہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنِ الْحَكَمِ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، أَنَّهُمَا سَأَلا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى عَنِ التَّيَمُّمِ؟ فَقَالَ: "أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَمَّارًا أَنْ يَفْعَلَ هَكَذَا وَضَرَبَ بِيَدَيْهِ إِلَى الْأَرْضِ، ثُمَّ نَفَضَهُمَا وَمَسَحَ عَلَى وَجْهِهِ"، قَالَ الْحَكَمُ: وَيَدَيْهِ، وَقَالَ سَلَمَةُ: وَمِرْفَقَيْهِ.
حکم اور سلمہ بن کہیل نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے تیمم کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمار رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے کا حکم دیا، پھر عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ زمین پر مارے، اور انہیں جھاڑ کر اپنے چہرے پر مل لیا۔ حکم کی روایت میں «يديه» اور سلمہ کی روایت میں «مرفقيه» کا لفظ ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۱۶۰، ومصباح الزجاجة: ۲۳۰) (صحیح) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلیٰ ضعیف الحفظ ہیں، اصل حدیث شواہد و طرق سے ثابت ہے لیکن «مرفقیہ» کا لفظ منکر ہے)
وضاحت: ۱؎: «يديه» یعنی دونوں ہاتھوں پر مل لیا، اور سلمہ بن کہیل کی روایت میں «مرفقيه» یعنی کہنیوں تک مل لیا کا لفظ ہے، جو منکر اور ضعیف ہے، جیسا کہ تخریج سے پتہ چلا «مرفقيه» کا لفظ منکر ہے، لہذا اس سے استدلال درست نہیں، اور یہ کہنا بھی صحیح نہیں کہ کہنیوں تک مسح کرنے میں احتیاط ہے بلکہ احتیاط اسی میں ہے جو صحیح حدیث میں آیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ الْمِصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ "حِينَ تَيَمَّمُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَمَرَ الْمُسْلِمِينَ فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ التُّرَابَ، وَلَمْ يَقْبِضُوا مِنَ التُّرَابِ شَيْئًا، فَمَسَحُوا بِوُجُوهِهِمْ مَسْحَةً وَاحِدَةً، ثُمَّ عَادُوا فَضَرَبُوا بِأَكُفِّهِمُ الصَّعِيدَ مَرَّةً أُخْرَى، فَمَسَحُوا بِأَيْدِيهِمْ".
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تیمم کیا، تو آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا، تو انہوں نے اپنی ہتھیلیاں مٹی پر ماریں اور ہاتھ میں کچھ بھی مٹی نہ لی، پھر اپنے چہروں پر ایک بار مل لیا، پھر دوبارہ اپنی ہتھیلیوں کو مٹی پر مارا، اور اپنے ہاتھوں پر مل لیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۳ (۳۱۸، ۳۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۶۳)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۹۶ (۳۱۳)، مسند احمد (۴/۳۲۰، ۳۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بعض علماء نے اس حدیث سے دلیل لی ہے، اور تیمم میں دو بار ہتھیلی کو مٹی پر مار کر چہرے اور ہاتھوں پر ملنے کی بات کہی ہے، لیکن صحیحین میں اس کے خلاف مروی ہے، اور ایک ہی بار منقول ہے، اور امام احمد نے باسناد صحیح عمار رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: " تیمم ایک بار ہے چہرہ کے لئے اور دونوں ہتھیلیوں کے لئے "۔ اور شاید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پہلی بار میں ہاتھ میں مٹی نہ لگنے کی وجہ سے دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارا، ورنہ عمار بن یاسر کی ایک ضربہ والی واضح حدیث کی بنا پر جمہور علماء اور عام اہل حدیث کا مذہب ایک ضربہ ہی ہے، جیسا کہ اوپر کی حدیث میں گزرا۔ (نیز ملاحظہ ہو: نیل الأوطار۱/۳۳۲)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ حَبِيبِ بْنِ أَبِي الْعِشْرِينِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يُخْبِرُ، "أَنَّ رَجُلًا أَصَابَهُ جُرْحٌ فِي رَأْسِهِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَصَابَهُ احْتِلَامٌ، فَأُمِرَ بِالِاغْتِسَالِ فَاغْتَسَلَ فَكُزَّ فَمَاتَ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "قَتَلُوهُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَفَلَمْ يَكُنْ شِفَاءَ الْعِيِّ السُّؤَالُ"، قَالَ عَطَاءٌ: وَبَلَغَنَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَوْ غَسَلَ جَسَدَهُ وَتَرَكَ رَأْسَهُ حَيْثُ أَصَابَهُ الْجِرَاحُ".
عطاء بن ابی رباح کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص کے سر میں زخم ہو گیا، پھر اسے احتلام ہوا، تو لوگوں نے اسے غسل کا حکم دیا، اس نے غسل کر لیا جس سے اسے ٹھنڈ کی بیماری ہو گئی، اور وہ مر گیا، یہ خبر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے فرمایا: "ان لوگوں نے اسے مار ڈالا، اللہ انہیں ہلاک کرے، کیا عاجزی (لاعلمی کا علاج مسئلہ) پوچھ لینا نہ تھا"۔ عطاء نے کہا کہ ہمیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "کاش وہ اپنا جسم دھو لیتا اور اپنے سر کا زخم والا حصہ چھوڑ دیتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۵۹۰۴، ومصباح الزجاجة: ۲۳۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۷ (۳۳۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۰ (۷۷۹) (حسن) (عطاء کا قول: «وبلغنا أن النبي صلى الله عليه وسلم»ضعیف ہے کیونکہ انہوں نے واسطہ نہیں ذکر کیا ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۳۶۴)
وضاحت: ۱؎: مصباح الزجاجۃ (ط۔ مصریہ) میں آخر متن میں «لأجزه» ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْكُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: "وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَاغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ بِشِمَالِهِ عَلَى يَمِينِهِ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى فَرْجِهِ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ فِي الأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفَاضَ الْمَاءَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا اور برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر انڈیلا، اور دونوں ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پہ پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور اپنا چہرہ اور بازو تین تین بار دھویا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۱ (۲۴۹)، ۵ (۲۵۷)، ۷ (۲۵۹)، ۸ (۲۶۰)، ۱۰ (۲۶۵)، ۱۱ (۲۶۶)، ۱۶ (۲۷۴)، ۱۸ (۲۷۶)، ۲۱ (۲۸۱)، صحیح مسلم/الحیض ۹ (۳۱۷)، سنن ابی داود/الطہارة ۹۸ (۲۴۵)، سنن الترمذی/الطہارة ۷۶ (۱۰۳)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۱ (۲۵۴)، الغسل ۱۴ (۴۰۸)، ۱۵ (۴۱۸، ۴۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۳۰، ۳۳۵، ۳۳۶)، سنن الدارمی/الطہارة ۴۰ (۷۳۹)، ۶۷ (۷۷۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ غسل کا مسنون طریقہ ہے، اور اس کی روشنی میں ضروری ہے کہ سارے بدن پر پانی پہنچائے، یا پانی میں ڈوب جائے، کلی کرنی اور ناک میں پانی ڈالنا بھی ضروری ہے، اور جس قدر ممکن ہو بدن کا ملنا بھی ضروری ہے، باقی امور آداب اور سنن سے متعلق ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا صَدَقَةُ بْنُ سَعِيدٍ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَيْرٍ التَّيْمِيُّ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ عَمَّتِي وَخَالَتِي، فَدَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ فَسَأَلْنَاهَا كَيْفَ"كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ غُسْلِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ قَالَتْ: كَانَ يُفِيضُ عَلَى كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُدْخِلُهَا فِي الْإِنَاءِ، ثُمَّ يَغْسِلُ رَأْسَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ يُفِيضُ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ يَقُومُ إِلَى الصَّلَاةِ"، وَأَمَّا نَحْنُ فَإِنَّا نَغْسِلُ رُؤْسَنَا خَمْسَ مِرَارٍ مِنْ أَجْلِ الضَّفْرِ.
جمیع بن عمیر تیمی کہتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی اور خالہ کے ساتھ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا، ہم نے ان سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دونوں ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالتے، پھر انہیں برتن میں داخل کرتے، پھر اپنا سر تین مرتبہ دھوتے، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے، پھر نماز کے لیے کھڑے ہوتے، لیکن ہم عورتیں تو اپنے سر کو چوٹیوں کی وجہ سے پانچ بار دھوتی تھیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۸ (۲۴۱)، (تحفةالأشراف: ۱۶۰۵۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۱۷ (۶۷)، مسند احمد (۶/۲۷۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۶۷ (۷۷۵) (ضعیف جدا) (سند میں جمیع بن عمیر رافضی اور واضع حدیث ہے، نیز صدقہ بن سعید کے یہاں عجائب وغرائب ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ صُرَدٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، قَالَ: تَمَارَوْا فِي الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَّا أَنَا فَأُفِيضُ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثَ أَكُفٍّ".
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس غسل جنابت کے بارے میں بحث و مباحثہ کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تو اپنے سر پہ تین چلو پانی ڈالتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۴ (۲۵۴)، صحیح مسلم/الحیض ۱۱ (۳۲۷)، سنن ابی داود/الطہارة ۹۸ (۲۳۹)، سنن النسائی/الطہارة ۲۵۱ (۲۵۰)، الغسل ۲۰ (۴۲۵)، (تحفة الأشراف: ۳۱۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍجَمِيعًا، عَنْ فُضَيْلِ بْنِ مَرْزُوقٍ، عَنْ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، "أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ: ثَلَاثًا، فَقَالَ الرَّجُلُ: إِنْ شَعْرِي كَثِيرٌ، فَقَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَكْثَرَ شَعْرًا مِنْكَ وَأَطْيَبَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ان سے غسل جنابت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا: تین بار (سارے جسم پر پانی بہائیں) تو وہ کہنے لگا: میرے بال زیادہ ہیں، اس پر انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ بال والے تھے، اور تم سے زیادہ پاک و صاف رہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: (تفرد بہ ابن ماجہ) (صحیح) (اس سند میں عطیہ ضعیف راوی ہیں، لیکن ابو ہریرہ کی اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، یہ حدیث تحفة الاشراف میں «فضيل بن مرزوق عن عطية عن أبي سعيد» کے زیر عنوان موجود نہیں ہے، اور نہ ہی ابن حجر نے «النكت الظراف» میں اس پر کوئی استدراک کیا ہے، اور نہ ہی یہ مصباح الزجاجة میں موجود ہے لیکن «غاية المقصد في زوائد المسند (ق 37)» میں موجود ہے، ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ابن ماجہ کے قدیم نسخوں میں یہ حدیث موجود نہیں ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "أَنَا فِي أَرْضٍ بَارِدَةٍ فَكَيْفَ الْغُسْلُ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا أَنَا فَأَحْثُو عَلَى رَأْسِي ثَلَاثًا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سرد علاقہ میں رہتا ہوں، غسل جنابت کیسے کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تو اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالتا ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۱ (۳۲۹)، (تحفة الأشراف: ۲۶۰۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل ۳ (۲۵۲)، مسند احمد (۳/ ۳۱۹، ۳۴۸، ۳۷۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بِنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، سَأَلَهُ رَجُلٌ كَمْ أُفِيضُ عَلَى رَأْسِي وَأَنَا جُنُبٌ؟ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَحْثُو عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ"، قَالَ الرَّجُلُ: إِنَّ شَعْرِي طَوِيلٌ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكْثَرَ شَعْرًا مِنْكَ وَأَطْيَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی شخص نے ان سے پوچھا: جب میں غسل جنابت کروں تو اپنے سر پر کتنا پانی ڈالوں؟ کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر پر تین پانی چلو ڈالتے تھے، اس پر اس شخص نے کہا: میرے بال لمبے ہیں، تو انہوں نے کہا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم سے زیادہ بال والے، اور زیادہ پاک و صاف رہنے والے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۶۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۱) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں واضح طور پر یہ بات موجود ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو سر پر ڈالنے کے لیے تین لپ پانی کافی ہوتا تھا، حقیقت یہ ہے کہ تین لپ میں سارا سر بخوبی تر ہو جاتا ہے، اور وہ غسل میں کافی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرِ بْنِ زُرَارَةَ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، قَالُوا: حَدَّثَنَاشَرِيكٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَا يَتَوَضَّأُ بَعْدَ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کے بعد وضو نہیں کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہارة ۷۹ (۱۰۷)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۰ (۲۵۳)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۱۹، ۱۶۰۲۵)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۹ (۲۵۰)، مسند احمد (۶/۶۸، ۱۱۹، ۱۵۴، ۱۹۲، ۲۵۳، ۲۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے وضو کر لیتے تھے، پھر غسل کے بعد آپ نیا وضو نہ فرماتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حُرَيْثٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ يَسْتَدْفِئُ بِي قَبْلَ أَنْ أَغْتَسِلَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرماتے، پھر میرے غسل کرنے سے پہلے مجھ سے گرمی حاصل کرتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہارة ۹۱ (۱۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۲۰) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں راوی «حریث» ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جنابت حکمی نجاست ہے، اور اگر اس پر اور کوئی نجاست نہ لگی ہو تو جنبی کا بدن پاک ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُجْنِبُ، ثُمَّ يَنَامُ، وَلَا يَمَسُّ مَاءً حَتَّى يَقُومَ بَعْدَ ذَلِكَ، فَيَغْتَسِلَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے، اور پانی چھوے بغیر سو جاتے، پھر اس کے بعد اٹھتے اور غسل فرماتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہارة ۸۷ (۱۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۲۴)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۰ (۲۲۸)، مسند احمد (۶/۴۳) (صحیح) (اس سند میں ابو اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِنْ كَانَتْ لَهُ إِلَى أَهْلِهِ حَاجَةٌ قَضَاهَا، ثُمَّ يَنَامُ كَهَيْئَتِهِ لَا يَمَسُّ مَاءً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر اپنی بیوی سے کوئی حاجت ہوتی تو اسے پوری فرماتے، پھر پانی چھوئے بغیر اسی حالت میں سو جاتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جنبی اگر بغیر غسل کے سونے کا ارادہ کرے تو مستحب یہ ہے کہ وہ وضو کر لے، اور اگر نہ کرے تو بھی جائز ہے جیسا کہ اس حدیث اور اس سے پہلے کی حدیث میں مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يُجْنِبُ، ثُمَّ يَنَامُ كَهَيْئَتِهِ لَا يَمَسُّ مَاءً"، قَالَ سُفْيَانُ: فَذَكَرْتُ الْحَدِيثَ يَوْمًا، فَقَالَ لِي إِسْمَاعِيل: يَا فَتَى يُشَدُّ هَذَا الْحَدِيثُ بِشَيْءٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے، پھر پانی چھوئے بغیر اسی حالت میں سو جاتے۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے ایک روز یہ حدیث بیان کی تو مجھ سے اسماعیل نے کہا: اے نوجوان! اس حدیث کو کسی دوسری حدیث سے تقویت دی جانی چاہیئے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۰ (۲۲۸)، سنن الترمذی/الطہارة ۸۷ (۱۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۲۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/ ۱۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیوں کہ اس کے راوی ابواسحاق ہیں، اگرچہ وہ ثقہ ہیں،لیکن اخیر عمر میں ان کا حافظہ بگڑ گیا تھا، پس حدیث میں غلطی کا شبہ ہوتا ہے، خصوصاً جب اس کے خلاف دوسری صحیح روایتیں وارد ہوں جو آگے مذکور ہوں گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، نَبَّأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ وَهُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے، اور جنبی ہوتے تو نماز جیسا وضو کرتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۵)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۹ (۲۲۲، ۲۲۳)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۴ (۲۵۷)، ۱۶۵ (۲۵۸)، ۱۶۶ (۲۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۶۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل ۲۵ (۲۸۶)، مسند احمد (۶/۸۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۳ (۷۸۴) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۵۹۱، ۵۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَر، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّعُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيَرْقُدُ أَحَدُنَا وَهُوَ جُنُبٌ؟ قَالَ: "نَعَمْ إِذَا تَوَضَّأَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا کوئی شخص حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، جب وضو کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۰۱۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل ۲۷ (۲۸۸)، صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۶)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۸ (۲۲۲)، سنن الترمذی/الطہارة ۸۸ (۱۲۰)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۶ (۲۶۰)، موطا امام مالک/الطہارة ۱۹ (۷۶)، مسند احمد (۲/۱۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۳ (۷۸۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ الْعُثْمَانِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ كَانَ تُصِيبُهُ الْجَنَابَةُ بِاللَّيْلِ فَيُرِيدُ أَنْ يَنَامَ، "فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَوَضَّأَ ثُمَّ يَنَامَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہیں رات میں جنابت لاحق ہوتی اور سونا چاہتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں حکم دیتے کہ وہ وضو کر کے سوئیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۴۱۰۱، ومصباح الزجاجة: ۲۳۲)، مسند احمد (۲/۷۵، ۳/۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ أَهْلَهُ، ثُمَّ أَرَادَ أَنْ يَعُودَ فَلْيَتَوَضَّأْ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص اپنی بیوی سے جماع کرے پھر دوبارہ ہمبستری کرنا چاہے، تو وضو کر لے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۸)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۶ (۲۲۰)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۷ (۱۴۱)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۹ (۲۶۳)، (تحفة الأشراف: ۴۲۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۷، ۲۱، ۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس میں نفاست، نظافت، صفائی اور لذت سب کچھ ہے، علماء نے کہا ہے کہ جنبی جب کھانے یا پینے یا جماع یا سونے کا ارادہ کرے، تو اپنا عضو تناسل دھو ڈالے، اور نماز کا سا وضو کر لے، اور بعضوں نے کہا کہ جنبی جب کھانے یا پینے کا ارادہ کرے تو صرف ہاتھ دھو لینا کافی ہے، اور وضو سے یہی مراد ہے، اور جمہور کا یہی قول ہے «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، وَأَبُو أَحْمَدَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْأَنَسٍ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ فِي غُسْلٍ وَاحِدٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ساری بیویوں کے پاس ہو آنے کے بعد آخر میں ایک غسل کر لیتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۶ (۱۴۰)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۰ (۲۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل ۱۲ (۲۶۸)، ۱۷ (۲۷۵)، النکاح ۴ (۵۰۶۸)، ۱۰۲ (۵۲۱۵)، صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۹)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۵ (۲۱۸)، مسند احمد (۳/ ۱۶۱، ۱۸۵، ۲۲۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۱ (۷۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي الْأَخْضَرِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، "فَاغْتَسَلَ مِنْ جَمِيعِ نِسَائِهِ فِي لَيْلَةٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے رات میں اپنی ساری بیویوں سے صحبت کے بعد (ایک ہی)غسل کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۴) (صحیح) (اگلی حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں صالح بن أبی الأخضر ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ باری کے خلاف نہیں ہے کیونکہ باری میں ایک عورت کے پاس رات کو صرف رہنا کافی ہے صحبت کرنا ضروری نہیں، دوسرے یہ کہ جب عورتوں سے صحبت کی تو یہ بھی باری کی طرح ہو گیا، اور بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ پر باری واجب نہ تھی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَمَّتِهِ سَلْمَى، عَنْ أَبِي رَافِعٍ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"طَافَ عَلَى نِسَائِهِ فِي لَيْلَةٍ، وَكَانَ يَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا تَجْعَلُهُ غُسْلًا وَاحِدًا؟ فَقَالَ: "هُوَ أَزْكَى وَأَطْيَبُ وَأَطْهَرُ".
ابورافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میں اپنی تمام بیویوں کے پاس ہو آئے ۱؎، اور ہر ایک کے پاس غسل کرتے رہے، آپ سے پوچھا گیا: اللہ کے رسول! آپ آخر میں ایک ہی غسل کیوں نہیں کر لیتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: "یہ طریقہ زیادہ پاکیزہ، عمدہ اور بہترین ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۸۶ (۲۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸، ۱۰، ۳۹۱) (حسن) (سند میں سلمی غیر معروف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے)۔
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ ہمارے نبی ﷺ نہایت نفیس مزاج اور صفائی پسند تھے، اور اسی وجہ سے آپ کو خوشبو بہت پسند تھی، اور بدبو سے بڑی نفرت تھی، آپ کو اپنے لباس، گھر، بدن اور ہر چیز کی طہارت اور پاکیزگی کا بڑا خیال رہتا تھا جیسے دوسری حدیثوں سے ثابت ہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ ان چیزوں کے کھانے سے بھی پرہیز کرتے تھے جن کی بو ناگوار ہوتی، جیسے: کچے پیاز یا لہسن وغیرہ۔ ۲؎: ممکن ہے ایسا نبی اکرم ﷺ نے سفر سے آنے پر یا ایک باری پوری ہو جانے، اور دوسری باری کے شروع کرنے سے پہلے کیا ہو، یا تمام بیویوں کی رضا مندی سے ایسا کیا ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، وَغُنْدَرٌ، وَوَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ وَهُوَ جُنُبٌ تَوَضَّأَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے کا ارادہ کرتے اور جنبی ہوتے، تو وضو کر لیتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۶ (۳۰۵)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۹ (۲۲۴)، سنن النسائی/الطہارة ۱۶۳ (۲۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۲۶، ۱۳۴، ۱۹۱، ۱۹۲، ۲۳۵، ۲۶۰، ۲۷۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۳ (۷۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ بْنِ هَيَّاجٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ صُبَيْحٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُوَيْسٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: "سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجُنُبِ هَلْ يَنَامُ، أَوْ يَأْكُلُ، أَوْ يَشْرَبُ؟ قَالَ: "نَعَمْ، إِذَا تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنبی کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا وہ (بحالت جنابت) سو سکتا ہے، یا کھا پی سکتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، جب وہ نماز جیسا وضو کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۲۲۸۰) (صحیح) (سند میں شرحبیل ہیں، جن کو آخری عمر میں اختلاط ہو گیا تھا، لیکن سابقہ حدیث ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْعَائِشَةَ "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ"إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْكُلَ وَهُوَ جُنُبٌ غَسَلَ يَدَيْهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے کا ارادہ کرتے اور آپ جنبی ہوتے، تو اپنے ہاتھ دھو لیتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۵۸۴)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۶۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس سے پہلے والے باب کی حدیث سے بظاہر متعارض ہے، مگر تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ کبھی بیان جواز کے لئے صرف دونوں ہاتھ دھونے پر اکتفا کرتے،اور کبھی مکمل وضو کرتے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَأْتِي الْخَلَاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ، وَاللَّحْمَ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلَا يَحْجُبُهُ، وَرُبَّمَا قَالَ: لَا يَحْجُزُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ إِلَّا الْجَنَابَةُ".
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، تو انہوں نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء جاتے اور اپنی حاجت پوری فرماتے، پھر واپس آ کر ہمارے ساتھ روٹی اور گوشت کھاتے، قرآن پڑھتے، آپ کو قرآن پڑھنے سے جنابت کے سوا کوئی چیز نہ روکتی تھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۱ (۲۲۹)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۱۱ (۱۴۶)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۱ (۲۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۴، ۱۲۴) (ضعیف) (سند میں عبد اللہ بن سلمہ ضعیف ہیں، امام بخاری نے ان کے بارے میں کہا: «لا يتابع على حديثه» ان حدیث کی متابعت نہیں ہوگی)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ صرف جنابت کی حالت میں قرآن نہیں پڑھتے تھے۔
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ الْجُنُبُ، وَلَا الْحَائِضُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہارة ۹۸ (۱۳۱)، (تحفة الأشراف: ۸۴۷۴) (منکر) (سند میں اسماعیل بن عیاش کی روایت اہل حجاز سے ضعیف ہے، اور موسیٰ بن عقبہ حجازی ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۱۹۲)
وضاحت: ۱؎: یعنی نہ کم نہ زیادہ، امام شافعی کا یہی قول ہے، لیکن ذکر و دعا کے مقصد سے «بسم اللہ» یا «الحمد للہ» کہنا درست اور جائز ہے، تلاوت کے مقصد سے نہیں اور امام مالک نے حائضہ عورت کے لئے قرآن کی تلاوت کو جائز کہا ہے۔
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ: وَحَدَّثَنَا أَبُو حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقْرَأُ الْجُنُبُ وَالْحَائِضُ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنبی اور حائضہ کچھ بھی قرآن نہ پڑھیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (منکر) (سابقہ حدیث ملاحظہ ہو)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ وَجِيهٍ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ تَحْتَ كُلِّ شَعَرَةٍ جَنَابَةً، فَاغْسِلُوا الشَّعَرَ، وَأَنْقُوا الْبَشَرَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر بال کے نیچے جنابت ہے، لہٰذا تم بالوں کو دھویا کرو، اور بدن کی جلد کو صاف کیا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة ۹۸ (۲۴۸)، سنن الترمذی/الطہا رة ۷۸ (۱۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۰۲) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں حارث بن وجیہ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ، حَدَّثَنِي عُتْبَةُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، حَدَّثَنِي طَلْحَةُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الصَّلَوَاتُ الْخَمْسُ، وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَأَدَاءُ الْأَمَانَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهَا"، قُلْتُ: وَمَا أَدَاءُ الْأَمَانَةِ؟ قَالَ: "غُسْلُ الْجَنَابَةِ فَإِنَّ تَحْتَ كُلِّ شَعَرَةٍ جَنَابَةً".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "روزانہ پانچوں نمازیں، ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، اور امانت کی ادائیگی ان کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہیں"، میں نے پوچھا: امانت کی ادائیگی سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غسل جنابت، کیونکہ ہر بال کے نیچے جنابت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۳۴۶۱، ومصباح الزجاجة: ۲۳۳) (ضعیف) (طلحہ بن نافع کا سماع ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے ثابت نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۳۸۰۱، و ضعیف ابی داود: ۳۷)
وضاحت: ۱؎: (فواد عبدالباقی کے نسخہ میں «بينها» ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْزَاذَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ تَرَكَ مَوْضِعَ شَعَرَةٍ مِنْ جَسَدِهِ مِنْ جَنَابَةٍ لَمْ يَغْسِلْهَا فُعِلَ بِهِ كَذَا وَكَذَا مِنَ النَّارِ"، قَالَ عَلِيٌّ: فَمِنْ ثَمَّ عَادَيْتُ شَعَرِي وَكَانَ يَجُزُّهُ.
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے غسل جنابت کے وقت اپنے جسم سے ایک بال کی مقدار بھی چھوڑ دیا اور اسے نہ دھویا، تو اس کے ساتھ آگ سے ایسا اور ایسا کیا جائے گا"۔ علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے میں نے اپنے بالوں سے دشمنی کر لی، وہ اپنے بال خوب کاٹ ڈالتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۸ (۲۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۴، ۱۰۱، ۱۳۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۶۹ (۷۷۸) (ضعیف) (سند میں عطاء بن سائب ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ جب بال بڑے ہوں تو اکثر احتمال رہ جاتا ہے کہ شاید سارا سر نہ بھیگا ہو، کوئی مقام سوکھا رہ گیا ہو، علی رضی اللہ عنہ بالوں کو کترتے تھے، بال کاٹنا سارے سر کے منڈانے سے افضل ہے، مگر حج میں پورے بال منڈانا افضل ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أُمِّ سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّهَا أَمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَسَأَلَتْهُ عَنِ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ قَالَ: "نَعَمْ إِذَا رَأَتِ الْمَاءَ فَلْتَغْتَسِلْ"، فَقُلْتُ: فَضَحْتِ النِّسَاءَ، وَهَلْ تَحْتَلِمُ الْمَرْأَةُ؟ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَرِبَتْ يَمِينُكِ، فَبِمَ يُشْبِهُهَا وَلَدُهَا إِذًا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے پوچھا کہ اگر عورت خواب میں ویسا ہی دیکھے جیسا مرد دیکھتا ہے تو کیا کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، جب پانی (منی) دیکھے تو غسل کرے"، میں نے ام سلیم رضی اللہ عنہا سے کہا: تم نے تو عورتوں کو رسوا کیا یعنی ان کی جگ ہنسائی کا سامان مہیا کرا دیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا بھلا ہو، اگر ایسا نہیں ہوتا تو کس وجہ سے بچہ اس کے مشابہ ہوتا ہے؟" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۵۰ (۱۳۰)، الغسل ۲۲ (۲۸۲)، الأنبیاء ۱ (۳۳۲۸)، الأدب ۶۸ (۶۰۹۱)، ۷۹ (۶۱۲۱)، صحیح مسلم/الحیض ۷ (۳۱۳)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۰ (۱۲۲)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۱ (۱۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۶۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۲۱ (۸۵)، مسند احمد (۶/ ۲۹۲، ۳۰۲، ۳۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تو معلوم ہوا کہ بچہ کی پیدائش میں مرد اور عورت دونوں کا نطفہ شریک ہوتا ہے، اور جب عورت کی منی بھی ثابت ہوئی تو خواب میں اس کی منی کا نکلنا کیا بعید ہے، جیسے مرد کی منی نکلتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَعَبْدُ الْأَعْلَى، عَنِ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ"سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَتْ ذَلِكَ فَأَنْزَلَتْ فَعَلَيْهَا الْغُسْلُ"، فَقَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَكُونُ هَذَا؟ قَالَ: "نَعَمْ مَاءُ الرَّجُلِ غَلِيظٌ أَبْيَضُ، وَمَاءُ الْمَرْأَةِ رَقِيقٌ أَصْفَرُ، فَأَيُّهُمَا سَبَقَ أَوْ عَلَا أَشْبَهَهُ الْوَلَدُ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ عورت اپنے خواب میں وہی چیز دیکھے جو مرد دیکھتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب وہ ایسا دیکھے اور اسے انزال ہو، تو اس پر غسل ہے"، ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ایسا بھی ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، مرد کا پانی سفید اور گاڑھا ہوتا ہے، اور عورت کا پانی زرد اور پتلا ہوتا ہے، ان دونوں میں سے جس کا پانی پہلے ماں کے رحم (بچہ دانی) میں پہنچ جائے یا غالب رہے، بچہ اسی کے ہم شکل ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۷ (۳۱۱)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۱ (۱۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۱، ۱۹۹، ۲۸۲)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۶ (۷۹۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ خَوْلَةَ بِنْتِ حَكِيمٍ، أَنَّهَا"سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَرْأَةِ تَرَى فِي مَنَامِهَا مَا يَرَى الرَّجُلُ؟ فَقَالَ: "لَيْسَ عَلَيْهَا غُسْلٌ حَتَّى تُنْزِلَ، كَمَا أَنَّهُ لَيْسَ عَلَى الرَّجُلِ غُسْلٌ حَتَّى يُنْزِلَ".
خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عورت کے اپنے خواب میں اس چیز کے دیکھنے سے متعلق سوال کیا جو مرد دیکھتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تک انزال نہ ہو اس پر غسل نہیں، جیسے مرد پر بغیر انزال کے غسل نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۷، ومصباح الزجاجة: ۲۳۴)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۳۱ (۱۹۸)، مسند احمد (۶/۴۰۹)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۶ (۷۸۹) (حسن) (سند میں علی بن زید ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: ۲۱۸۷)
وضاحت: ۱؎: یعنی مرد کو اگر صرف خواب دکھائی دے لیکن منی نہ نکلے تو غسل لازم نہیں ہے، اسی طرح عورت اگر خواب دیکھے اور منی نہ نکلے تو غسل لازم نہیں، اور تری یا پانی سے دوسری حدیث میں منی ہی مراد ہے، اگر منی کے سوا کسی اور چیز کی تری ہے تب غسل لازم نہ ہو گا، اکثر علماء کا یہی قول ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، "إِنِّي امْرَأَةٌ أَشُدُّ ضَفْرَ رَأْسِي أَفَأَنْقُضُهُ لِغُسْلِ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ: "إِنَّمَا يَكْفِيكِ أَنْ تَحْثِي عَلَيْهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ تُفِيضِي عَلَيْكِ مِنَ الْمَاءِ فَتَطْهُرِينَ"أَوْ قَالَ: "فَإِذَا أَنْتِ قَدْ طَهُرْتِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں چوٹی کو مضبوطی سے باندھنے والی عورت ہوں، کیا اسے غسل جنابت کے لیے کھولوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہیں یہی کافی ہے کہ تین چلو پانی لے کر اپنے سر پر بہا لو پھر پورے بدن پر پانی ڈالو، پاک ہو جاؤ گی"، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: "اس وقت تم پاک ہو گئیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۲ (۳۳۰)، سنن ابی داود/الطہارة ۹۹ (۲۵۱)، سنن الترمذی/الطہارة ۷۷ (۱۰۵)، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۰ (۲۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۷۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/ ۲۸۹، ۳۱۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۱۵ (۱۱۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جب ایسا کیا تو پاک ہو گئی کیونکہ مقصود سارے سر کا بھیگ جانا ہے، اور تین لپوں میں یہ سارا کام پورا ہو جاتا ہے، اگر پورا نہ ہو تو اس سے زیادہ بھی ڈال سکتی ہے، مگر بندھی ہوئی چوٹی کا کھولنا ضروری نہیں، اکثر علماء کے نزدیک رفع تکلیف کا یہ حکم عورتوں کے لئے خاص ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، قَالَ: بَلَغَ عَائِشَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَأْمُرُ نِسَاءَهُ إِذَا اغْتَسَلْنَ أَنْ يَنْقُضْنَ رُءُوسَهُنَّ، فَقَالَتْ: يَا عَجَبًا لِابْنِ عَمْرٍو هَذَا، أَفَلَا يَأْمُرُهُنَّ أَنْ يَحْلِقْنَ رُءُوسَهُنَّ، لَقَدْ"كُنْتُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ، فَلَا أَزِيدُ عَلَى أَنْ أُفْرِغَ عَلَى رَأْسِي ثَلَاثَ إِفْرَاغَاتٍ".
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ خبر پہنچی کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما اپنی بیویوں کو غسل کے وقت چوٹی کھولنے کا حکم دیتے ہیں، تو فرمایا: عبداللہ بن عمرو پر تعجب ہے، وہ عورتوں کو سر منڈانے کا حکم کیوں نہیں دے دیتے، بیشک میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے، میں اپنے سر پر تین چلو سے زیادہ پانی نہیں ڈالتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۲ (۳۳۱)، سنن النسائی/الغسل ۱۲ (۴۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴)، سنن الدارمی/الطہارة ۶۸ (۷۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عِيسَى، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى الْمِصْرِيَّانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا بْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، أَنَّ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زُهْرَةَ، حَدَّثَهُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَغْتَسِلْ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ"، فَقَالَ: كَيْفَ يَفْعَلُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ؟ قَالَ: يَتَنَاوَلُهُ تَنَاوُلًا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے"، پھر کسی نے کہا: ابوہریرہ! تب وہ کیا کرے؟ کہا: اس میں سے پانی لے لے کر غسل کرے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۲۹ (۲۸۳)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۹ (۲۲۱)، المیاہ ۳ (۳۳۲)، الغسل ۱ (۳۹۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۳۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ٹھہرے ہوئے پانی میں غوطہ لگانا منع ہے کیونکہ اس سے دوسرے لوگوں کو کراہت ہو گی، اس کا یہ مطلب نہیں کہ پانی ناپاک ہو جائے گا، اس لئے منع ہے کیونکہ پانی اگر دو قلہ سے زیادہ ہو تو وہ اس طرح کی نجاست سے ناپاک نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ ذَكْوَانَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَخَرَجَ رَأْسُهُ يَقْطُرُ، فَقَالَ: "لَعَلَّنَا أَعْجَلْنَاكَ"، قَالَ: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "إِذَا أُعْجِلْتَ، أَوْ أُقْحِطْتَ فَلَا غُسْلَ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ الْوُضُوءُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر قبیلہ انصار کے ایک شخص کے پاس ہوا، آپ نے اسے بلوایا، وہ آیا تو اس کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شاید ہم نے تم کو جلد بازی میں ڈال دیا"، اس نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم جلد بازی میں ڈال دئیے جاؤ، یا جماع انزال ہونے سے قبل موقوف کرنا پڑے تو تم پر غسل واجب نہیں بلکہ وضو کافی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۴ (۱۸۰)، صحیح مسلم/الحیض۲۱ (۳۴۵)، (تحفة الأشراف: ۳۹۹۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۱، ۲۶، ۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: آگے آنے والی احادیث سے یہ حدیث منسوخ ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ السَّائِبِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سُعَادَ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ".
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی (غسل) پانی (منی نکلنے) سے ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۳۲ (۱۹۹)، (تحفة الأشراف: ۳۴۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۴۱۶، ۴۲۱)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۴ (۷۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس کے دو معنی بیان کئے گئے ہیں: ایک یہ کہ انزال کے بغیر غسل واجب نہیں اس صورت میں «إذا التقى الختانان» والی روایت سے یہ روایت منسوخ ہو گی، دوسرے یہ کہ حدیث خواب کے متعلق ہے، بیدار ہونے کے بعد جب تک تری نہ دیکھے تو صرف خواب میں کچھ دیکھنے سے غسل واجب نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَاالْأَوْزَاعِيُّ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ، أَخْبَرَنَا الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: "إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ، فَعَلْتُهُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاغْتَسَلْنَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب مرد اور عورت کی شرمگاہیں مل جائیں تو غسل واجب ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا، تو ہم نے غسل کیا۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الطہارة ۸۰ (۱۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۹۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۱۸ (۷۲)، مسند احمد (۶/ ۱۶۱، ۱۶۱، ۲۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ، قَالَ سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ السَّاعِدِيُّ، أَنْبَأَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، قَال: "إِنَّمَا كَانَتْ رُخْصَةً فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، ثُمَّ أُمِرْنَا بِالْغُسْلِ بَعْدُ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ اجازت ابتداء اسلام میں تھی، پھر ہمیں بعد میں غسل کا حکم دیا گیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الطہارة ۸۴ (۲۱۴، ۲۱۵)، سنن الترمذی/الطہارة ۸۱ (۱۱۱)، (تحفة الأشراف: ۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/ ۱۱۵، ۱۱۶)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۴ (۷۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ کہ اب چاہے انزال ہو یا نہ ہو غسل واجب ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا جَلَسَ الرَّجُلُ بَيْنَ شُعَبِهَا الْأَرْبَعِ، ثُمَّ جَهَدَهَا، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مرد عورت کے چار زانوؤں کے درمیان بیٹھے، پھر مجامعت کرے، تو غسل واجب ہو گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الغسل ۲۸ (۲۹۱)، صحیح مسلم/الحیض۲۲ (۳۴۸)، سنن ابی داود/الطہارة ۸۴ (۲۱۶)، سنن النسائی/الطہارة ۱۲۹ (۱۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۳۴، ۳۴۷، ۳۹۳، ۴۷۱، ۵۲۰)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۵ (۷۸۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ حَجَّاجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا الْتَقَى الْخِتَانَانِ وَتَوَارَتِ الْحَشَفَةُ، فَقَدْ وَجَبَ الْغُسْلُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مرد اور عورت کی شرمگاہیں مل جائیں اور حشفہ (سپاری) چھپ جائے، تو غسل واجب ہو گیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۸۶۷۶، ومصباح الزجاجة: 235)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۸) (صحیح) (سند میں حجاج بن أرطاة ضعیف ہیں، لیکن حدیث صحیح مسلم وغیرہ میں متعدد طرق سے وارد ہے، اس لئے یہ حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی ۳/۲۶۰)
وضاحت: ۱؎: ابتداء اسلام میں انزال کے بغیر غسل واجب نہ تھا، اس کے بعد محض «التقى الختانان» یعنی شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب کر دیا گیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ الْعُمَرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ نَوْمِهِ فَرَأَى بَلَلًا، وَلَمْ يَرَ أَنَّهُ احْتَلَمَ اغْتَسَلَ، وَإِذَا رَأَى أَنَّهُ قَدِ احْتَلَمَ، وَلَمْ يَرَ بَلَلًا فَلَا غُسْلَ عَلَيْهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص نیند سے بیدار ہو، اور تری دیکھے، لیکن احتلام یاد نہ ہو تو غسل کر لے، اور اگر احتلام یاد ہو لیکن تری نہ دیکھے تو اس پر غسل نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۹۵ (۲۳۶)، سنن الترمذی/الطہارة ۸۲ (۱۱۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۵۶)، سنن الدارمی/الطہارة ۷۷ (۷۹۲) (حسن) (تراجع الألبانی: رقم: ۵۱۶)
وضاحت: ۱؎: لیکن تری سے مراد منی ہے، اگر تری محسوس نہ ہو تو اکثر اہل علم کے نزدیک غسل واجب نہ ہو گا، اگر گرمی یا دیری کے سبب منی خشک ہو جائے، تو غسل ضروری ہو گا۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَأَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ، وَمُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالُوا: حَدَّثَنَاعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْوَلِيدِ، أَخْبَرَنِي مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ، حَدَّثَنِي أَبُو السَّمْحِ، قَالَ: "كُنْتُ أَخْدُمُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَغْتَسِلَ، قَالَ: وَلِّنِي، فَأُوَلِّيهِ قَفَايَ، وَأَنْشُرُ الثَّوْبَ فَأَسْتُرُهُ بِهِ".
ابوالسمح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا، جب آپ غسل کا ارادہ کرتے تو فرماتے: "میری طرف پیٹھ کر لو" تو میں پیٹھ آپ کی طرف کر لیتا، اور کپڑا پھیلا کر پردہ کر دیتا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۳۷ (۳۷۶)، سنن النسائی/الطہارة ۱۴۳ (۲۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۵۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَوْفَلٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ فَلَمْ أَجِدْ أَحَدًا يُخْبِرُنِي، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبَّحَ فِي سَفَرٍ، حَتَّى أَخْبَرَتْنِي أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، أَنَّهُ قَدِمَ عَامَ الْفَتْحِ، "فَأَمَرَ بِسِتْرٍ فَسُتِرَ عَلَيْهِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ سَبَّحَ ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ".
عبداللہ بن عبداللہ بن نوفل کہتے ہیں: میں نے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں نفل نماز پڑھی ہے؟ تو مجھے کوئی بتانے والا نہیں ملا، یہاں تک کہ مجھے ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال آئے، پھر آپ نے ایک پردہ لگانے کا حکم دیا، پردہ کر دیا گیا، تو آپ نے غسل کیا، پھر نفل کی آٹھ رکعتیں پڑھیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۶ (۳۳۶)، المسافرین ۱۳ (۳۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۰۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الغسل ۲۱ (۲۸۰)، الصلاة ۴ (۳۵۷)، الأدب ۹۴ (۶۱۵۸)، سنن الترمذی/الاستئذان ۳۴ (۲۷۳۴)، سنن النسائی/الطہارة ۱۴۳ (۲۲۵)، موطا امام مالک/قصر الصلاة ۸ (۲۸)، مسند احمد (۶/۳۴۲، ۴۲۵) سنن الدارمی/الصلاة ۱۵۱ (۱۴۹۴) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۳۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس باب کی احادیث سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ غسل کرتے وقت پردہ کر لینا چاہئے، لیکن اگر کوئی کپڑے پہنے ہوئے ہے، تو بلا پردہ غسل کرنے کی اجازت ہے، نیز اس حدیث سے تو سفر میں نفل پڑھنا ثابت ہوا بعضوں نے کہا یہ نماز الضحیٰ نہیں تھی بلکہ یہ مکہ فتح ہونے پر نماز شکر تھی، اور سعید بن ابی وقاص نے جب کسریٰ کا خزانہ فتح کیا تو ایسا ہی کیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ أَبُو يَحْيَى الْحِمَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُمَارَةَ، عَنِالْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَغْتَسِلَنَّ أَحَدُكُمْ بِأَرْضِ فَلَاةٍ، وَلَا فَوْقَ سَطْحٍ لَا يُوَارِيهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ يَرَى فَإِنَّهُ يُرَى".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھلے میدان میں یا چھت پر بغیر پردہ کے کوئی شخص ہرگز غسل نہ کرے، اگر وہ کسی کو نہ دیکھتا ہو تو اسے تو کوئی دیکھ سکتا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۹۶۳۲، ومصباح الزجاجة: ۲۳۶) (ضعیف جدًا) (حسن بن عمارة متروک الحدیث ہے، بلکہ حدیث گھڑا کرتا تھا، اور عبد الحمید ضعیف الحدیث ہیں، نیز أبو عبیدہ کا سماع ابن مسعود سے رضی اللہ عنہ سے نہیں ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۴۸۱۸)
وضاحت: ۱؎: اگر ایسے مقام میں غسل کی ضرورت پڑے تو کسی چیز کی آڑ کر لے تاکہ ستر پر لوگوں کی نگاہیں نہ پڑیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلْيَبْدَأْ بِهِ".
عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص قضائے حاجت کا ارادہ کرے، اور نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو لے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۴۳ (۸۸)، سنن الترمذی/الطہا رة ۱۰۸ (۱۴۲)، سنن النسائی/ الإ مامة ۵۱ (۸۵۳)، (تحفة الأشراف: ۵۱۴۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصرالصلاة ۱۷ (۴۹)، مسند احمد (۴/۳۵)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۷ (۱۴۶۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنِ السَّفْرِ بْنِ نُسَيْر، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ: "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَهُوَ حَاقِنٌ".
ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ آدمی نماز پڑھے اور وہ پیشاب یا پاخانہ روکے ہوئے ہو۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۴۹۳۲، ومصباح الزجاجة: ۲۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۵۰، ۲۶۰، ۲۶۱) (صحیح) (سند میں بشر بن آدم، سفر بن نسیر ضعیف ہیں، لیکن حدیث دوسرے طرق سے صحیح ہے، دیکھئے اوپر کی حدیث (۶۱۶) نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبی داود: ۱۱، ۱۲)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ الْأَوْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَقُومُ أَحَدُكُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَبِهِ أَذًى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی پیشاب یا پاخانہ کی اذیت و تکلیف کی حالت میں نماز کے لیے نہ کھڑا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۸۵۰، ومصباح الزجاجة: ۲۳۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۴۳ (۸۹)، مسند احمد (۲/۴۴۲، ۴۷۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي حَيٍّ الْمُؤَذِّنِ، عَنْ ثَوْبَانَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "لَا يَقُومُ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَهُوَ حَاقِنٌ حَتَّى يَتَخَفَّفَ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی مسلمان پیشاب یا پاخانہ روکے ہوئے نماز کے لیے نہ کھڑا ہو جب تک کہ وہ قضائے حاجت کر کے ہلکا نہ ہو جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۴۳ (۹۰)، سنن الترمذی/الصلا ة ۱۴۸ (۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۲۰۸۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۸۰) (صحیح) (اس سند میں بقیہ مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز اور بھی کلام ہے لیکن دوسرے طرق سے یہ ثابت ہے)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۹۲۳)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ، حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَشَكَتْ إِلَيْهِ الدَّمَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَانْظُرِي إِذَا أَتَى قَرْؤُكِ فَلَا تُصَلِّي، فَإِذَا مَرَّ الْقَرْءُ فَتَطَهَّرِي، ثُمَّ صَلِّي مَا بَيْنَ الْقَرْءِ إِلَى الْقَرْءِ".
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے (کثرت) خون کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ رگ کا خون ہے، تم دیکھتی رہو جب مدت حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب حیض گزر جائے تو غسل کرو، پھر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھتی رہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۸ (۲۸۰)، ۱۱۰ (۲۸۶)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۴ (۲۰۱)، الحیض۲ (۳۵۰)، ۴ (۳۵۸)، ۶ (۳۶۲)، الطلاق ۷۴ (۳۵۸۳)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۱۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۲۹ (۱۰۴)، مسند احمد (۶/۴۲۰، ۴۶۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں عورت کا خون ہمیشہ جاری رہتا ہے، جس عورت کو یہ بیماری ہو اس کو مستحاضہ کہتے ہیں، اس کی دو قسمیں ہیں، ایک وہ مستحاضہ: جس کے حیض کی مدت اس بیماری کے شروع ہونے سے پہلے متعین اور معلوم ہو، دوسرے وہ جس کو شروع ہی سے یہ بیماری ہو جائے، اور حیض کی مدت متعین نہ ہوئی ہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: "لَا إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ، وَلَيْسَ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي"، هَذَا حَدِيثُ وَكِيعٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مسلسل خون آتا رہتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، یہ رگ کا خون ہے، حیض نہیں ہے جب حیض آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب وہ ختم ہو جائے تو خون دھو کر (یعنی غسل کر کے) نماز پڑھو"۔ یہ وکیع کی حدیث ہے۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث عبد اللہ بن الجراح قد أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۴ (۳۳۳)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۸ (۲۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۸۵۸)، وحدیث أبوبکر بن أبي شیبة أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۴ (۳۳۳)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۳ (۱۲۵)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۵ (۲۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۲۵۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء ۶۴ (۲۲۸)، الحیض ۹ (۳۰۶)، ۲ (۳۲۰)، ۲۵ (۳۲۵)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۹ (۲۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ إِمْلَاءً عَلَيَّ مِنْ كِتَابِهِ وَكَانَ السَّائِلُ غَيْرِي، أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً طَوِيلَةً، قَالَتْ: فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، قَالَتْ: فَوَجَدْتُهُ عِنْدَ أُخْتِي زَيْنَبَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي إِلَيْكَ حَاجَةً، قَالَ: "وَمَا هِيَ أَيْ هَنْتَاهُ"، قُلْتُ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً طَوِيلَةً كَبِيرَةً وَقَدْ مَنَعَتْنِي الصَّلَاةَ وَالصَّوْمَ، فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا؟ قَالَ: "أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ"، قُلْتُ: هُوَ أَكْثَرُ. فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيث شَرِيكٍ.
ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ مجھے بہت لمبا استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سے متعلق بتانے اور فتوی پوچھنے کے لیے آئی، میں نے آپ کو اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہا کے پاس پایا، میں نے عرض کیا: اے رسول اللہ! مجھے آپ سے ایک کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے خاتون! تجھے کیا کام ہے؟" میں نے کہا: مجھے ایک لمبے عرصہ تک خون آتا رہتا ہے جو نماز اور روزہ میں رکاوٹ کا سبب ہے، آپ اس سلسلے میں مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تمہارے لیے روئی تجویز کرتا ہوں (اس کو شرمگاہ پہ رکھ لیا کرو) کیونکہ یہ خون جذب کر لے گی"، میں نے عرض کیا: خون اس سے بھی زیادہ ہے، پھر راوی نے شریک کے ہم معنی حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۰ (۲۸۷)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۵ (۱۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۸۲، ۴۳۹، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۹) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۶۲۷) (حسن) (سند میں عبد اللہ بن محمد بن عقیل کی وجہ سے بعض کلام ہے کیونکہ ان کو مقارب الحدیث بلکہ منکر الحدیث کہا گیا ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: سَأَلَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: "لَا، وَلَكِنْ دَعِي قَدْرَ الْأَيَّامِ وَاللَّيَالِي الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي حَدِيثِهِ: "وَقَدْرَهُنَّ مِنَ الشَّهْرِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَصَلِّي".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ جن دنوں میں تمہیں حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑ دو"، ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی حدیث میں کہا: "ہر مہینہ سے بقدر ایام حیض نماز چھوڑ دو، پھر غسل کرو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ کر نماز ادا کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۸ (۲۷۴، ۲۷۵)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۴ (۲۰۹)، الحیض ۳ (۳۵۴، ۳۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۵۸)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۲۹ (۱۰۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اگرچہ خون آیا کرے، کیونکہ وہ حیض کا خون نہیں ہے، اس حدیث سے اور حدث والوں کا بھی حکم نکلا جیسے کسی کو پیشاب کی بیماری ہو جائے یا ریاح (ہوا خارج ہونے) کی، وہ بھی نماز ترک نہ کرے بلکہ ہر نماز کے لئے وضو کرے، اور جب تک وقت باقی رہے ایک ہی وضو سے فرض اور نفل ادا کرے، گو حدث ہوتا رہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْعُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ: "لَا إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ اجْتَنِبِي الصَّلَاةَ أَيَّامَ مَحِيضِكِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، وَتَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ وَإِنْ قَطَرَ الدَّمُ عَلَى الْحَصِيرِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے جس سے میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے، اپنے حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھو، پھر غسل کرو اور ہر نماز کے لیے الگ وضو کرو، (اور نماز پڑھو) خواہ خون چٹائی ہی پر کیوں نہ ٹپکے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۳ (۲۹۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۷۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضو ء ۶۴ (۲۲۸)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۸ (۲۱۹)، موطا امام مالک/الطہارة ۲۹ (۱۰۴)، مسند احمد (۶/۴۲، ۲۰۴، ۲۶۲)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۱) (صحیح) (آخری ٹکڑا: «وإن قطر الدم على الحصير» کے علاوہ بقیہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: ہر نماز کے لئے وضو کرنا زیادہ صحیح طریقہ ہے، اور اگر مستحاضہ دوسری نمازوں کو ملا کر پڑھنا چاہے، تو اس طرح کرے کہ ایک نماز میں دیر کرے، اس کو اخیر وقت پر ادا کرے، اور دوسری میں جلدی کرے، اس کو اول وقت پر ادا کرے، اور دونوں نمازوں کے لئے ایک ہی وضو کر لے، اور کسی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرنا واجب ہے یا ہر دو نماز کے لئے یا ہر روز ایک بار بلکہ غسل اسی وقت کافی ہے جب عادت کے موافق حیض سے پاک ہونے کا وقت آئے یا خون کی رنگت کے لحاظ سے معلوم ہو جائے کہ اب حیض کا خون جا چکا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ أَبِي الْيَقْظَانِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمُسْتَحَاضَةُ تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ، وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، وَتَصُومُ، وَتُصَلِّي".
عدی بن ثابت کے دادا دینار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مستحاضہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے، پھر غسل کرے، اور ہر نماز کے لیے وضو کرے، اور روزے رکھے اور نماز پڑھے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۳ (۲۹۷)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۴ (۱۲۶)، (تحفة الأشراف: ۳۵۴۲)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ: اسْتُحِيضَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ جَحْشٍ وَهِيَ تَحْتَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ سَبْعَ سِنِينَ، فَشَكَتْ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ هَذِهِ لَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، وَإِنَّمَا هُوَ عِرْقٌ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي"، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ، ثُمَّ تُصَلِّي، وَكَانَتْ تَقْعُدُ فِي مِرْكَنٍ لِأُخْتِهَا زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، حَتَّى إِنَّ حُمْرَةَ الدَّمِ لَتَعْلُو الْمَاءَ.
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا تھی، جو سات برس تک استحاضہ میں مبتلا رہیں، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ حیض نہیں ہے، بلکہ ایک رگ کا خون ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب ختم ہو جائے تو غسل کرو، اور نماز پڑھو"۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتیں پھر نماز پڑھتی تھیں، اور ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنی بہن زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے ایک ٹب میں بیٹھا کرتی تھیں یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی کے اوپر آ جاتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۷ (۳۲۷)، صحیح مسلم/الحیض ۱۴ (۳۳۴)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۰ (۲۸۵)، ۱۱۱ (۲۸۸)، سنن النسائی/الطہارة ۱۳۴ (۲۰۳)، الحیض ۴ (۳۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۵۱۶، ۱۷۹۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸۳، ۱۴۱، ۱۸۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ہر نماز کے لئے وضو کرنا ہی صحیح ترین طریقہ ہے، اور اگر کسی میں طاقت ہے، اور اس کے لئے سہولت ہے تو ہر نماز کے لئے غسل بھی کر سکتی ہے، ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے طور پر ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْإِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، أَنَّهَا اسْتُحِيضَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي اسْتُحِضْتُ حَيْضَةً مُنْكَرَةً شَدِيدَةً، قَالَ لَهَا: "احْتَشِي كُرْسُفًا"، قَالَتْ لَهُ: إِنَّهُ أَشَدُّ مِنْ ذَلِكَ إِنِّي أَثُجُّ ثَجًّا، قَالَ: "تَلَجَّمِي وَتَحَيَّضِي فِي كُلِّ شَهْرٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ سِتَّةَ أَيَّامٍ، أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ، ثُمَّ اغْتَسِلِي غُسْلًا فَصَلِّي وَصُومِي ثَلَاثَةً وَعِشْرِينَ، أَوْ أَرْبَعَةً وَعِشْرِينَ، وَأَخِّرِي الظُّهْرَ وَقَدِّمِي الْعَصْرَ، وَاغْتَسِلِي لَهُمَا غُسْلًا، وَأَخِّرِي الْمَغْرِبَ وَعَجِّلِي الْعِشَاءَ، وَاغْتَسِلِي لَهُمَا غُسْلًا، وَهَذَا أَحَبُّ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ".
حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں استحاضہ ہو گیا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: مجھے بری طرح سے سخت استحاضہ ہو گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "شرمگاہ کے اندر تھوڑی روئی رکھ لو"، وہ بولیں: وہ اس سے زیادہ سخت ہے، بہت تیز بہہ رہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک لنگوٹ کی طرح کس لو، اور اللہ کے علم کے موافق ہر مہینہ میں چھ یا سات روز حیض کے شمار کر لو، پھر غسل کر کے تیئس یا چوبیس دن تک نماز پڑھو اور روزہ رکھو، (آسانی کے لیے) ظہر میں دیر اور عصر میں جلدی کر کے دونوں نمازوں کے لیے ایک غسل کر لو، اسی طرح مغرب میں دیر اور عشاء میں جلدی کر کے دونوں کے لیے ایک غسل کر لو، ۱؎ اور مجھے ان دونوں طریقوں میں سے یہ زیادہ پسند ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۰ (۲۸۷)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۵ (۱۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۸۲، ۴۴۰)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۹) (حسن) (سند میں ضعف ہے اس لئے کہ اس میں شریک اور عبد اللہ بن محمد بن عقیل دونوں ضعیف ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، (ملاحظہ ہو: الإرواء: ۱۸۸)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۶۲۲)
وضاحت: ۱؎: اور فجر کی نماز کے لئے ایک غسل کر لو۔ ۲؎: دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر نماز کے لئے غسل کرے، تو دن رات میں پانچ بار غسل کرنا ہو گا، اور اس صورت میں صرف تین بار غسل کرنا پڑے گا، اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جنہوں نے مستحاضہ کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم دیا ہے، مگر یہ حکم نہایت سخت ہے، اور ضعیف اور کمزور عورتوں سے یہ بار اٹھانا مشکل ہے،خصوصاً سرد ملکوں میں، پس عمدہ طریقہ وہی ہے جو دوسری حدیثوں سے ثابت ہے کہ حیض کے ختم ہو جانے پر صرف ایک بار غسل کر لے، پھر ہر نماز کے لئے وضو کرتی رہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ثَابِتِ بْنِ هُرْمُزَ أَبِي الْمِقْدَامِ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مِحْصَنٍ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ دَمِ الْحَيْضِ يُصِيبُ الثَّوْبَ؟ قَالَ: "اغْسِلِيهِ بِالْمَاءِ، وَالسِّدْرِ، وَحُكِّيهِ وَلَوْ بِضِلَعٍ".
ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑوں میں لگ جانے والے حیض کے خون کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے پانی اور بیر کی پتی سے دھو ڈالو، اور اسے کھرچ ڈالو، اگرچہ لکڑی ہی سے سہی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۳۲ (۳۶۳)، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۵ (۲۹۳)، الحیض ۲۶ (۳۹۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۵۵، ۳۵۶)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۵ (۱۰۵۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، قَالَتْ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ دَمِ الْحَيْضِ يَكُونُ فِي الثَّوْبِ؟ قَالَ: "اقْرُصِيهِ وَاغْسِلِيهِ وَصَلِّي فِيهِ".
اسماء بنت ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑے میں حیض کا خون لگ جانے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے انگلیوں سے رگڑو اور پانی سے دھو ڈالو، پھر اس میں نماز پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الو ضوء ۶۳ (۲۲۷)، الحیض ۹ (۳۰۷)، صحیح مسلم/الطہارة ۳۳ (۲۹۱)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۴ (۱۳۸)، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۲ (۳۶۱)، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۵ (۲۹۴)، الحیض ۲۶ (۳۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۴۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۲۸ (۱۰۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۳ (۷۹۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: "إِنْ كَانَتْ إِحْدَانَا لَتَحِيضُ، ثُمَّ تَقْتَنِصُ الدَّمَ مِنْ ثَوْبِهَا عِنْدَ طُهْرِهَا فَتَغْسِلُهُ، وَتَنْضَحُ عَلَى سَائِرِهِ، ثُمَّ تُصَلِّي فِيهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کسی کو حیض آتا تو حیض سے پاک ہونے کے وقت وہ اپنے کپڑے میں لگے ہوئے حیض کے خون کو کھرچ کر دھو لیتی اور باقی حصہ پر پانی چھڑک دیتی، پھر اسے پہن کر نماز پڑھتی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۹ (۳۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُعَاذَةَ الْعَدَوِيَّةِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْهَا أَتَقْضِي الْحَائِضُ الصَّلَاةَ؟ قَالَتْ لَهَا عَائِشَةُ: أَحَرُورِيَّةٌ أَنْتِ؟"قَدْ كُنَّا نَحِيضُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَطْهُرُ وَلَمْ يَأْمُرْنَا بِقَضَاءِ الصَّلَاةِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک عورت نے ان سے پوچھا: کیا حائضہ نماز کی قضاء کرے گی؟ انہوں نے کہا: کیا تو حروریہ (خارجیہ) ہے؟ ۱؎ ہمیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حیض آتا تھا، پھر ہم پاک ہو جاتے تھے، آپ ہمیں نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیتے تھے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۰ (۲۳۱)، صحیح مسلم/الحیض ۱۵ (۳۳۵)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۵ (۲۶۲، ۲۶۳)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۷ (۱۳۰)، سنن النسائی/الحیض ۱۷ (۳۸۲)، الصوم ۳۶ (۲۳۲۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۲، ۹۷، ۱۲۰، ۱۸۵، ۲۳۱)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: حروریہ: حروراء کی طرف منسوب ہے جو کوفہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے، یہ خوارج کے ایک گروہ کا نام ہے، یہ لوگ حیض کے مسئلہ میں متشدد تھے ان کا کہنا تھا کہ حائضہ روزے کی طرح نماز کی بھی قضا کرے گی، اسی وجہ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس عورت سے کہا «أحرورية أنت» " کیا تو حروریہ ہے " یعنی تو بھی وہی عقیدہ رکھتی ہے جو حروری (خارجی) رکھتے ہیں۔ ۲؎: حائضہ پر نماز کی قضا نہیں ہے، لیکن روزہ کی قضا ہے، ابن منذر اور نووی نے اس پر امت کا اجماع نقل کیا ہے، نیز صحیحین میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث میں ہے کہ ہم کو روزے کی قضا کرنے کا حکم ہوتا، اور نماز کے قضا کرنے کا حکم نہیں ہوتا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَهِيِّ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ، قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَاوِلِينِي الْخُمْرَةَ مِنَ الْمَسْجِدِ"، فَقُلْتُ: إِنِّي حَائِضٌ، فَقَالَ: "لَيْسَتْ حَيْضَتُكِ فِي يَدِكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "مجھے مسجد سے چٹائی اٹھا کر دے دو"، میں نے کہا: میں حائضہ ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے حیض کی گندگی تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ، ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۹۷)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض ۲ (۲۹۸)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۴ (۲۶۱)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۱ (۱۳۴)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۳ (۲۷۲)، الحیض ۱۸ (۳۸۴)، مسند احمد (۶/۴۵، ۱۰۱، ۱۱۲، ۱۱۴، ۱۷۳، ۲۱۴، ۲۲۹، ۲۴۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۲ (۷۹۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کہ وہ ہاتھ کو مسجد میں داخل کرنے سے مانع ہو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حائضہ ہاتھ بڑھا کر مسجد سے کوئی چیز لے سکتی ہے یا مسجد میں کوئی چیز رکھ سکتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُدْنِي رَأْسَهُ إِلَيَّ وَأَنَا حَائِضٌ، وَهُوَ مُجَاوِرٌ تَعْنِي: مُعْتَكِفًا، فَأَغْسِلُهُ، وَأُرَجِّلُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں معتکف ہوتے، تو آپ اپنا سر مبارک میری طرف بڑھا دیتے، میں آپ کا سر دھو کر کنگھا کر دیتی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۲۸۸)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۶ (۳۰۱)، الاعتکاف ۴ (۲۰۲۱)، اللباس ۷۶ (۵۹۲۵)، صحیح مسلم/الحیض ۳ (۲۹۷) سنن النسائی/الطہارة ۱۷۶ (۲۷۸)، الحیض ۲۱ (۳۸۷)، موطا امام مالک/الطہارة ۲۸ (۱۰۲)، مسند احمد (۶/۳۲، ۵۵، ۸۶، ۱۷۰، ۲۰۴)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۸ (۱۰۹۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: حجرہ کا دروازہ مسجد ہی میں تھا تو رسول اللہ ﷺ حجرے کے اندر اپنا سر مبارک کر دیتے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کنگھی کر دیتیں، بال دھو دیتیں، آپ ہمیشہ بال رکھتے تھے، آپ نے صرف حج میں بال منڈائے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ صَفِيَّةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَضَعُ رَأْسَهُ فِي حِجْرِي وَأَنَا حَائِضٌ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حیض کی حالت میں ہوتی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں اپنا سر مبارک رکھتے، اور قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۳ (۲۹۷)، التوحید ۵۲ (۷۵۴۹)، صحیح مسلم/الحیض ۳ (۲۹۷)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۳ (۲۶۰)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۵ (۲۷۵)، الحیض ۱۶ (۳۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۵۸)، مسند احمد (۶/۱۱۷، ۱۳۵، ۱۹۰، ۲۰۴، ۲۵۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْالشَّيْبَانِيِّ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا كَانَتْ حَائِضًا، أَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَأْتَزِرَ فِي فَوْرِ حَيْضَتِهَا، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا، وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم (ازواج مطہرات) میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حیض کی تیزی کے دنوں میں تہبند باندھنے کا حکم دیتے، پھر اس کے ساتھ لیٹتے، اور تم میں سے کس کو اپنی خواہش نفس پر ایسا اختیار ہے جیسا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو تھا؟ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۵ (۳۰۲)، صحیح مسلم/الحیض ۱ (۲۹۳)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۷ (۲۷۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۰۰۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة ۹۹ (۱۳۲)، الصوم ۳۲ (۷۲۹)، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۰ (۲۸۷)، الحیض ۱۲ (۳۷۳)، موطا امام مالک/الطہارة ۲۶ (۹۴)، مسند احمد (۶/۴۰، ۴۲، ۹۸)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۷ (۱۰۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: خلاصہ یہ کہ جو آدمی اپنے نفس پر قابو نہ رکھ پاتا ہو، اس کا حائضہ سے بوس و کنار اور چمٹنا مناسب نہیں کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ اپنے نفس پر قابو نہ رکھ سکے، اور جماع کر بیٹھے، جب کہ حائضہ سے جماع کی ممانعت تو قرآن کریم میں آئی ہے، ارشاد باری ہے: «فاعتزلوا النساء في المحيض» " حالت حیض میں عورتوں سے دور رہو " (البقرة: 222)، اور بعضوں نے کہا: جماع کے علاوہ ہر چیز درست ہے، کیونکہ دوسری حدیث میں ہے: سب باتیں کرو سوائے جماع کے، نیز یہاں مباشرت کا لفظ لغوی معنی میں استعمال ہوا ہے، اصطلاحی معنی میں نہیں ہے، یعنی جسم کا جسم سے لگ جانا اور یہ جائز ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "كَانَتْ إِحْدَانَا إِذَا حَاضَتْ أَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَأْتَزِرَ بِإِزَارٍ، ثُمَّ يُبَاشِرُهَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی حیض سے ہوتی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تہبند باندھنے کا حکم دیتے پھر آپ اس کے ساتھ لیٹتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطہارة، ۴۷ (۲۹۹)، صحیح مسلم/الیض ۳ (۲۹۳)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۰ (۲۶۸)، سنن الترمذی/الطہارة ۹۹ (۱۳۲)، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۰ (۲۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۸۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطہارة ۲۶ (۹۵)، حم۷/ (۵۵، ۱۳۴، ۱۷۴، ۱۸۹)، دي الطہارة ۱۰۷ (۱۰۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لِحَافِهِ، فَوَجَدْتُ مَا تَجِدُ النِّسَاءُ مِنَ الْحَيْضَةِ، فَانْسَلَلْتُ مِنَ اللِّحَافِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَفِسْتِ"؟ قُلْتُ: وَجَدْتُ مَا تَجِدُ النِّسَاءُ مِنَ الْحَيْضَةِ، قَالَ: "ذَلِكِ مَا كَتَبَ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ"، قَالَتْ: فَانْسَلَلْتُ فَأَصْلَحْتُ مِنْ شَأْنِي، ثُمَّ رَجَعْتُ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَعَالَيْ فَادْخُلِي مَعِي فِي اللِّحَافِ"، قَالَتْ: فَدَخَلْتُ مَعَهُ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کے لحاف میں تھی، تو مجھے حیض کا احساس ہوا جو عورتیں محسوس کرتی ہیں، تو میں لحاف سے کھسک گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم کو حیض آ گیا ہے؟" میں نے کہا: مجھے وہی حیض محسوس ہوا جو عورتیں محسوس کیا کرتی ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے"، تو میں لحاف سے کھسک کر نکل گئی اور اپنی حالت ٹھیک کر کے واپس آ گئی، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آؤ میرے ساتھ لحاف میں داخل ہو جاؤ" تو میں آپ کے ساتھ لحاف میں داخل ہو گئی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۴۱، ومصباح الزجاجة: ۲۳۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض۵ (۲۹۸)، ۲۱ (۳۲۲۵)، ۲۲ (۳۲۳)، صحیح مسلم/الحیض ۲ (۲۹۶)، سنن النسائی/الطہارة ۱۷۹ (۲۸۴) الحیض ۱۰ (۳۱۷)، مسند احمد (۶/ ۲۹۴، ۳۰۰)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۷ (۱۰۸۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎: مساس، معانقہ، بوسہ وغیرہ سب درست ہے، ابوداؤد نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے اپنی عورت سے جب وہ حائضہ ہو کیا کرنا درست ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: " تہبند کے اوپر فائدہ اٹھانا، اور اس سے بھی بچنا افضل ہے "۔
حَدَّثَنَا الْخَلِيلُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُدَيْجٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: سَأَلْتُهَا كَيْفَ كُنْتِ تَصْنَعِينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَيْضَةِ؟ قَالَتْ: "كَانَتْ إِحْدَانَا فِي فَوْرِهَا أَوَّلَ مَا تَحِيضُ تَشُدُّ عَلَيْهَا إِزَارًا إِلَى أَنْصَافِ فَخِذَيْهَا، ثُمَّ تَضْطَجِعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے سوال کیا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حالت حیض میں کیسے کرتی تھیں؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم میں سے جسے حیض آتا وہ اپنے حیض کے شروع میں جس وقت وہ پورے جوش پر ہوتا ہے، اپنی ران کے نصف تک تہ بند باندھ لیتی، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لیٹتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۶۹، ومصباح الزجاجة: ۲۴۰) (حسن) (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حسن ہے، صحیح ابی داود: ۲۵۹)
وضاحت: ۱؎: مصباح الزجاجہ کے دونوں نسخوں میں، اور ابن ماجہ کے مشہور حسن کے نسخہ میں «الحيض» ہے، اور فوائد عبد الباقی کے یہاں «الحيضة» ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ حَكِيمٍ الْأَثْرَمِ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ أَتَى حَائِضًا، أَوِ امْرَأَةً فِي دُبُرِهَا، أَوْ كَاهِنًا فَصَدَّقَهُ بِمَا يَقُولُ، فَقَدْ كَفَرَ بِمَا أُنْزِلَ عَلَى مُحَمَّدٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص حائضہ کے پاس آئے (یعنی اس سے جماع کرے) یا عورت کے پچھلے حصے میں جماع کرے، یا کاہن کے پاس جائے اور اس کی باتوں کی تصدیق کرے، تو اس نے ان چیزوں کا انکار کیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتاری گئی ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطب ۲۱ (۳۹۰۴)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۲ (۱۳۵)، الرضاع ۱۲ (۱۱۶۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۸۶، ۶/۳۰۵)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۱۴ (۱۱۷۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ظاہر میں یہاں ایک اشکال ہے، وہ یہ کہ حیض کی حالت میں جماع کرنا حرام ہو گا، پھر اس سے کفر کیوں لازم آئے گا؟ بعضوں نے یہ جواب دیا ہے کہ مراد وہ شخص ہے جو حیض کی حالت میں جماع کو حلال سمجھ کر جماع کرے، اسی طرح دبر میں جماع کرنے کو حلال سمجھ کر ایسا کرے، ایسا شخص تو ضرور کافر ہو گا، اسی طرح وہ شخص جو کاہن اور نجومی کی تصدیق کرے وہ بھی کافر ہو گا، کیونکہ اس نے غیب کا علم اللہ کے علاوہ دوسرے کے لئے ثابت کیا، اور یہ قرآن کے خلاف ہے، نجومی کا جھوٹا ہونا قرآن سے ثابت ہے: «قل لا يعلم من في السماوات والأرض الغيب إلا الله» کہہ دیجئے " کہ آسمان اور زمین میں سے اللہ کے علاوہ کوئی بھی غیب کا علم نہیں رکھتا " (النمل:65) «وما تدري نفس ماذا تكسب غدا» " اور کسی بھی نفس کو یہ نہیں معلوم ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا " (لقمان:34) ہو سکتا ہے کہ اس حدیث میں کفر سے لغوی کفر مراد ہو نہ کہ شرعی، جس نے ایسی حرکتیں کیں اس نے گویا شریعت محمدی کا انکار کیا، یا بطور تشدید اور تغلیظ کے فرمایا تاکہ لوگ ان چیزوں کے کرنے سے باز رہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الَّذِي يَأْتِي امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ قَالَ: "يَتَصَدَّقُ بِدِينَارٍ، أَوْ بِنِصْفِ دِينَارٍ".
ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنی بیوی سے حیض کی حالت میں مجامعت کرے، وہ ایک دینار یا نصف دینار صدقہ کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۶ (۲۶۴)، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۲ (۲۹۰)، الحیض ۹ (۳۷۰)، (تحفة الأشراف: ۶۴۹۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۳ (۱۳۶)، مسند احمد (۱/۲۲۳۷، ۲۷۲، ۲۸۶، ۳۱۲، ۳۲۵، ۳۶۳، ۳۶۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۱۲ (۱۱۴۵) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۶۵۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا وَكَانَتْ حَائِضًا: "انْقُضِي شَعْرَكِ، وَاغْتَسِلِي"، قَالَ عَلِيٌّ فِي حَدِيثِهِ: "انْقُضِي رَأْسَكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب وہ حالت حیض میں تھیں تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اپنے بال کھول لو، اور غسل کرو" ۱؎، علی بن محمد نے اپنی حدیث میں کہا: "اپنا سر کھول لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۲۸۵، ومصباح الزجاجة: ۲۴۱)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۶ (۳۱۶)، ۱۷ (۳۱۷)، الحج ۳۱ (۱۵۵۶)، المغازي ۷۷ (۴۳۹۵)، صحیح مسلم/الحج ۱۷ (۱۲۱۱)، سنن ابی داود/الحج ۲۳ (۱۷۸۱)، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۱ (۲۴۳)، المناسک ۵۸ (۲۷۶۵)، مسند احمد (۶/۱۶۴، ۱۷۷، ۱۹۱، ۲۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ غسل حیض میں سر کا کھولنا ضروری ہے، اس میں بہ نسبت غسل جنابت کے زیادہ صفائی کی ضرورت ہوتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ جنابت کے غسل میں سر کا کھولنا ضروری نہ رکھا، کیونکہ وہ اکثر ہوا کرتا ہے، اور بار بار کھولنے سے عورتوں کو تکلیف ہوتی ہے، اور حیض کا غسل مہینے میں ایک بار ہوتا ہے، اس میں سر کھولنے سے کسی طرح کا حرج نہیں بلکہ ہر ایک عورت مہینے میں ایک دوبار اپنا سر کھولتی، اور بالوں کو دھوتی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ صَفِيَّةَ تُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ أَسْمَاءَ سَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْمَحِيضِ؟ فَقَالَ: "تَأْخُذُ إِحْدَاكُنَّ مَاءَهَا وَسِدْرَهَا فَتَطْهُرُ فَتُحْسِنُ الطُّهُورَ، أَوْ تَبْلُغُ فِي الطُّهُورِ، ثُمَّ تَصُبُّ عَلَى رَأْسِهَا فَتَدْلُكُهُ دَلْكًا شَدِيدًا حَتَّى تَبْلُغَ شُؤُونَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تَصُبُّ عَلَيْهَا الْمَاءَ، ثُمَّ تَأْخُذُ فِرْصَةً مُمَسَّكَةً فَتَطْهُرُ بِهَا"، قَالَتْ أَسْمَاءُ: كَيْفَ أَتَطَهَّرُ بِهَا؟ قَالَ: "سُبْحَانَ اللَّهِ تَطَهَّرِي بِهَا"، قَالَتْ عَائِشَةُ: كَأَنَّهَا تُخْفِي ذَلِكَ، تَتَبَّعِي بِهَا أَثَرَ الدَّمِ، قَالَتْ: وَسَأَلَتْهُ عَنِ الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ؟ فَقَالَ: "تَأْخُذُ إِحْدَاكُنَّ مَاءَهَا فَتَطْهُرُ فَتُحْسِنُ الطُّهُورَ، أَوْ تَبْلُغُ فِي الطُّهُورِ حَتَّى تَصُبَّ الْمَاءَ عَلَى رَأْسِهَا فَتَدْلُكُهُ حَتَّى تَبْلُغَ شُؤُونَ رَأْسِهَا، ثُمَّ تُفِيضُ الْمَاءَ عَلَى جَسَدِهَا"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: نِعْمَ النِّسَاءُ نِسَاءُ الْأَنْصَارِ لَمْ يَمْنَعْهُنَّ الْحَيَاءُ أَنْ يَتَفَقَّهْنَ فِي الدِّينِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اسماء بنت شکل انصاریہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل حیض کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی عورت بیر کی پتی ملا ہوا پانی لے، پھر وہ طہارت حاصل کرے (یعنی شرمگاہ دھوئے) اور خوب اچھی طرح طہارت کرے یا طہارت میں مبالغہ کرے، پھر اپنے سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب اچھی طرح ملے، یہاں تک کہ سر کے سارے بالوں کی جڑوں میں پانی پہنچ جائے، پھر اس پر پانی ڈالے، پھر خوشبو کو (کپڑے یا روئی کے) ایک ٹکڑے میں بھگو کر اس سے (شرمگاہ کی) صفائی کرے"، اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: میں اس سے کیسے صفائی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: "سبحان اللہ! اس سے صفائی کرو"، عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے چپکے سے کہا: اس کو خون کے نشان (یعنی شرمگاہ) پر پھیرو۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اسماء رضی اللہ عنہا نے غسل جنابت کے بارے میں بھی آپ سے پوچھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی عورت پانی لے اور طہارت کرے اور اچھی طرح کرے یا پاکی میں مبالغہ کرے، پھر سر پر پانی ڈالے اور اسے خوب ملے یہاں تک کہ سر کی جڑوں تک پانی پہنچ جائے، پھر اپنے پورے جسم پہ پانی بہائے"۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما نے کہا: انصارکی عورتیں کتنی اچھی ہیں، انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے شرم و حیاء نہیں روکتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: حدیث الغسل من الجنابة: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۴۸)، وحدیث الغسل من المحیض أخرجہ: صحیح مسلم/الحیض ۳۱ (۲۳۳)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۲ (۳۱۴، ۳۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۴۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۱۴ (۳۱۴ تعلیقاً)، سنن النسائی/الطہارة ۱۵۹ (۲۵۲)، مسند احمد (۶/۱۴۷)، سنن الدارمی/الطہارة ۸۴ (۸۰۰) (حسن) (ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود: ۳۳۱، ۳۳۳)
وضاحت: ۱؎: حق بات کہنا اور دین کی بات پوچھنا یہ شرم کے خلاف نہیں ہے، اور جو کوئی اس کو شرم کے خلاف سمجھے وہ خود بے وقوف ہے، شرم برے کام میں کرنا چاہئے، معصیت سے پاک عورتیں ناپاک باتوں سے پرہیز کرتی ہیں، آج کل کی عورتیں گناہ میں شرم نہیں کرتیں، اور دین کی بات دریافت کرنے میں شرم کرتی ہیں، ان کی شرم پر خاک پڑے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "كُنْتُ أَتَعَرَّقُ الْعَظْمَ وَأَنَا حَائِضٌ، فَيَأْخُذُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَضَعُ فَمَهُ حَيْثُ كَانَ فَمِي، وَأَشْرَبُ مِنَ الْإِنَاءِ، فَيَأْخُذُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَيَضَعُ فَمَهُ حَيْثُ كَانَ فَمِي وَأَنَا حَائِضٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں حالت حیض میں ہڈی چوستی تھی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لیتے اور اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا، اور میں برتن سے پانی پیتی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لیتے اور اپنا منہ وہیں رکھتے جہاں میں نے رکھا تھا، حالانکہ میں حیض کی حالت میں ہوتی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۳ (۳۰۰)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۰۳ (۲۵۹)، سنن النسائی/الطہارة ۵۶ (۷۰)، ۱۷۷ (۲۸۰)، ۱۷۸ (۲۸۱)، المیاہ ۹ (۳۴۲)، الحیض ۱۴ (۳۷۷)، ۱۵ (۳۸۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۴۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۶۲، ۶۴، ۱۲۷، ۱۹۲، ۲۱۰، ۲۱۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن، منہ اور لعاب ناپاک نہیں ہے، اس لئے کہ حیض کی نجاست حکمی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ الْيَهُودَ كَانُوا لَا يَجْلِسُونَ مَعَ الْحَائِضِ فِي بَيْتٍ، وَلَا يَأْكُلُونَ، وَلَا يَشْرَبُونَ، قَالَ: فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ سورة البقرة آية 222، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا الْجِمَاعَ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہود حائضہ عورتوں کے ساتھ نہ تو گھر میں بیٹھتے، نہ ان کے ساتھ کھاتے پیتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «ويسألونك عن المحيض قل هو أذى فاعتزلوا النساء في المحيض» "لوگ آپ سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیجئیے: وہ ایک گندگی ہے لہٰذا تم عورتوں سے حیض کی حالت میں الگ رہو" (سورة البقرہ: ۲۲۲) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جماع کے سوا عورتوں سے حیض کی حالت میں سب کچھ کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۳ (۳۰۲)، سنن ابی داود/الطہا رة ۱۰۳ (۲۵۸)، النکاح ۴۷ (۲۱۶۵)، سنن الترمذی/تفسیر البقرة ۳ (۲۹۷۷)، (تحفة الأشراف: ۳۰۸)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الطہارة ۱۸۱ (۲۸۹)، الحیض ۸ (۳۶۹)، مسند احمد (۳/۲۴۶)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۷ (۱۰۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، عَنْ أَبِي الْخَطَّابِ الْهَجَرِيِّ، عَنْ مَحْدُوجٍ الذُّهْلِيِّ، عَنْ جَسْرَةَ، قَالَتْ: أَخْبَرَتْنِي أُمُّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَرْحَةَ هَذَا الْمَسْجِدِ فَنَادَى بِأَعْلَى صَوْتِهِ: "إِنَّ الْمَسْجِدَ لَا يَحِلُّ لِجُنُبٍ، وَلَا لِحَائِضٍ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسجد کے صحن میں داخل ہوئے اور بآواز بلند اعلان کیا: "مسجد کسی حائضہ اور جنبی کے لیے حلال نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۵۱، ومصباح الزجاجة: ۲۴۲) (ضعیف) (اس سند میں ابوالخطاب الہجری، اور محدوج الذہلی دونوں مجہول الحال ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ شَيْبَانَ النَّحْوِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أُمِّ بَكْرٍ، أَنَّهَا أُخْبِرَتْ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَرْأَةِ تَرَى مَا يَرِيبُهَا بَعْدَ الطُّهْرِ، قَالَ: "إِنَّمَا هِيَ عِرْقٌ أَوْ عُرُوقٌ"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: يُرِيدُ بَعْدَ الطُّهْرِ بَعْدَ الْغُسْلِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بارے میں جو پاکی کے بعد ایسی چیز دیکھے جو اسے شبہ میں مبتلا کرے، فرمایا:"وہ تو رگوں سے خارج ہونے والا مادہ ہے" (نہ کہ حیض)۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں: پاکی کے بعد سے مراد غسل کے بعد ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: ۱۷۹۷۶، ومصباح الزجاجة: ۲۴۳)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۱ (۲۹۳)، مسند احمد (۶/۷۱، ۱۶۰، ۲۱۵، ۲۷۹) (صحیح) (سند میں ام بکر مجہول ہیں، لیکن متابعت و شواہد کی وجہ سے یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود: ۳۰۳- ۳۰۴)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "لَمْ نَكُنْ نَرَى الصُّفْرَةَ، وَالْكُدْرَةَ شَيْئًا".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم حیض سے (پاکی کے بعد) زرد یا گدلے مادہ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۵ (۳۲۶)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۱۹ (۳۰۸)، سنن النسائی/الحیض ۷ (۳۶۸)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۶، ۱۸۱۲۳)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الطہارة ۹۴ (۸۹۵) (صحیح)
قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقَاشِيُّ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "كُنَّا لَا نَعُدُّ الصُّفْرَةَ، وَالْكُدْرَةَ شَيْئًا"، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: وُهَيْبٌ أَوْلَاهُمَا عِنْدَنَا بِهَذَا.
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: (پاکی کے بعد) ہم پیلی اور مٹیالی رطوبت کا کوئی اعتبار نہیں کرتے تھے ۱؎۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں: وہیب اس سلسلے میں ہمارے نزدیک ان دونوں میں اولیٰ ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ (تحفة الأشراف: ۱۸۱۲۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۵ (۳۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ جب عورت کے حیض کی مدت ختم ہو جائے اور وہ غسل کر ڈالے، تو اس کے بعد زردی یا خاکی یا سفیدی نکلتی دیکھے تو شک میں نہ پڑے، وہ حیض نہیں ہے، البتہ حیض کی مدت کے اندر جب اول اور آخر حیض آئے، اور بیچ میں اس قسم کے رنگ دیکھے تو وہ حیض ہی میں شمار ہو گا، اہل حدیث کا یہی قول ہے اور یہی صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِي سَهْلٍ، عَنْ مُسَّةَ الْأَزْدِيَّةِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: "كَانَتِ النُّفَسَاءُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجْلِسُ أَرْبَعِينَ يَوْمًا، وَكُنَّا نَطْلِي وُجُوهَنَا بِالْوَرْسِ مِنَ الْكَلَفِ".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نفاس والی عورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چالیس دن نماز اور روزے سے رکی رہتی تھیں، اور ہم اپنے چہرے پہ جھائیں کی وجہ سے «ورس» ملا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۱ (۳۱۱)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۵ (۱۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۰۰، ۳۰۳، ۳۰۴، ۳۱۰)، سنن الدارمی/الطہارة ۹۹ (۹۹۵) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: «ورس»: یہ گھاس چہرے پر جھائیں کے علاج کے لئے مفید ہے، نفاس کی اکثر مدت چالیس دن ہے، اور کم کی کوئی حد نہیں ہے، جب خون بند ہو جائے تو عورت پاک ہو گئی، اب وہ غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دے، لیکن اگر چالیس دن کے بعد بھی نفاس کا خون جاری رہے تو اس کا حکم استحاضہ کا سا ہے، اور نفاس کا حکم جماع کی حرمت میں اور نماز روزہ نہ ادا کرنے میں حیض کے جیسا ہے، پھر جب نفاس سے پاک ہو تو نماز کی قضا نہ کرے، اور روزے کی قضا کرے، ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے ابوداؤد کی ایک روایت میں یوں ہے کہ نبی اکرم ﷺ کی ازواج مطہرات میں سے کوئی عورت نفاس میں چالیس راتوں تک بیٹھتی تو آپ ﷺ اس کو قضائے نماز کا حکم نہ دیتے، اور اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ سَلَّامِ بْنِ سُلَيْمٍ، أَوْ سَلْمٍ شَكَّ أَبُو الْحَسَنِ وَأَظُنُّهُ هُوَ أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"وَقَّتَ لِلنُّفَسَاءِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا إِلَّا أَنْ تَرَى الطُّهْرَ قَبْلَ ذَلِكَ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفاس والی عورتوں کے لیے مدت نفاس کی چالیس دن مقرر کی مگر یہ کہ وہ اس سے پہلے پاکی دیکھ لیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۹۰، ومصباح الزجاجة: ۲۴۴) (ضعیف جدًا) (سند میں سلام بن سلیم (یا سلم) أبوسلیمان الطویل المدائنی متروک الحدیث ہے، أبو الاحوص ثقہ متقن ہیں، جو صحاح ستہ کے روای ہیں، مدائنی سے صرف ابن ماجہ نے روایت کی ہے، اور سند میں یہی مدائنی ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: ۵۶۵۳)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْجَرَّاحِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ الرَّجُلُ إِذَا وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ وَهِيَ حَائِضٌ أَمَرَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِنِصْفِ دِينَارٍ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص حیض کی حالت میں بیوی سے جماع کر لیتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے آدھا دینار صدقہ کرنے کا حکم دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطہا رة ۱۰۳ (۱۳۷)، (تحفة الأشراف: ۶۴۹۱) (ضعیف) (سند میں مقسم ضعیف ہیں، ثابت شدہ حدیث: ۶۴۰، نمبر میں گذری)
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَرَامِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ مُؤَاكَلَةِ الْحَائِضِ؟ فَقَالَ: "وَاكِلْهَا".
عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حائضہ کے ساتھ کھانے کے متعلق پوچھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کے ساتھ کھاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۸۳ (۲۱۲)، سنن الترمذی/الطہارة ۱۰۰ (۱۳۳)، (تحفة الأشراف: ۵۳۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۹۳)، سنن الدارمی/الطہارة ۱۰۸ (۱۱۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُصَلِّي وَأَنَا إِلَى جَنْبِهِ وَأَنَا حَائِضٌ، وَعَلَيَّ مِرْطٌ لِي، وَعَلَيْهِ بَعْضُهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ادا کرتے تھے، اور میں حیض کی حالت میں آپ کے پہلو میں ہوتی تھی، اور میرے اوپر ایک چادر ہوتی جس کا کچھ حصہ آپ پر ہوتا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصلاة ۵۱ (۵۱۴)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۳۵ (۳۷۰)، سنن النسائی/القبلة ۱۷ (۷۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۰۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا ایک حصہ آپ ﷺ کے مبارک جسم پر ہوتا، اس سے بھی معلوم ہوا کہ حائضہ کا بدن اور کپڑا پاک ہے، ورنہ ایک نجس کپڑا آپ ﷺ اپنے بدن پر نماز کی حالت میں کیوں کر رکھ سکتے تھے۔
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى وَعَلَيْهِ مِرْطٌ عَلَيْهِ بَعْضُهُ وَعَلَيْهَا بَعْضُهُ وَهِيَ حَائِضٌ".
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر اوڑھ کر نماز پڑھی، اس چادر کا کچھ حصہ آپ پر تھا، اور کچھ مجھ پر تھا اور میں حیض کی حالت میں تھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۱۲۵ (۳۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۶۳)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحیض ۳۱ (۳۳۳)، صحیح مسلم/الصلا ة ۵۲ (۵۱۳)، مسند احمد (۶/۳۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا فَاخْتَبَأَتْ مَوْلَاةٌ لَهَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "حَاضَتْ؟ فَقَالَتْ: نَعَمْ، "فَشَقَّ لَهَا مِنْ عِمَامَتِهِ، فَقَالَ: اخْتَمِرِي بِهَذَا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو ان کی لونڈی چھپ گئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا یہ بالغ ہو گئی؟" انہوں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمامہ سے ٹکڑا پھاڑ کر دیا اور فرمایا: "اس کو اوڑھنی بنا لو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۱۷، ومصباح الزجاجة: ۲۴۵) (ضعیف) (سند میں عبد الکریم بن ابی المخارق ضعیف راوی ہے، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَأَبُو النُّعْمَانِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ صَفِيَّةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلَاةَ حَائِضٍ إِلَّا بِخِمَارٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ کسی بالغ عورت کی نماز بغیر اوڑھنی کے قبول نہیں فرماتا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۸۵ (۶۴۱)، سنن الترمذی/الصلا ة ۱۶۰ (۳۷۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۴۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۵۰، ۲۱۸، ۲۵۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُعَاذَةَ، أَنَّ امْرَأَةً سَأَلَتْعَائِشَةَ، قَالَتْ: تَخْتَضِبُ الْحَائِضُ؟ فَقَالَتْ: "قَدْ كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَخْتَضِبُ فَلَمْ يَكُنْ يَنْهَانَا عَنْهُ".
معاذہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: کیا حائضہ مہندی لگا سکتی ہے؟ انہوں نے کہا: "ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے مہندی لگاتے تھے، لیکن آپ ہمیں منع نہ فرماتے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۷۲، ومصباح الزجاجة: ۲۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ خَالِدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: انْكَسَرَتْ إِحْدَى زَنْدَيَّ، فَسَأَلْتُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟"فَأَمَرَنِي أَنْ أَمْسَحَ عَلَى الْجَبَائِرِ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری ایک کلائی ٹوٹ گئی، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا؟، تو آپ نے مجھے پٹیوں پر مسح کرنے کا حکم دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۷۷، ومصباح الزجاجة: ۲۴۷) (ضعیف جدا) (سند میں عمرو بن خالد کذاب ہے)
قَالَ أَبُو الْحَسَنِ بْنُ سَلَمَةَ: أَنْبَأَنَا الدَّبَرِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَامِلَ الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ عَلَى عَاتِقِهِ وَلُعَابُهُ يَسِيلُ عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ حسین بن علی رضی اللہ عنہما کو اپنے کندھے پر اٹھائے ہوئے تھے، اور ان کا لعاب آپ کے اوپر بہہ رہا تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۴۳۶۶، ومصباح الزجاجة: ۲۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کا لعاب پاک ہے، اسی طرح بڑے آدمی کا بھی لعاب پاک ہے۔
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ كَرَامَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أُتِيَ بِدَلْوٍ فَمَضْمَضَ مِنْهُ، فَمَجَّ فِيهِ مِسْكًا، أَوْ أَطْيَبَ مِنَ الْمِسْكِ، وَاسْتَنْثَرَ خَارِجًا مِنَ الدَّلْوِ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کی خدمت میں (پانی کا) ڈول حاضر کیا گیا، آپ نے اس میں سے پانی لے کر کلی کی، پھر ڈول میں کلی کی جو کستوری کی طرح یا کستوری سے پاکیزہ تر تھی اور آپ نے ڈول سے باہر ناک صاف کی۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۷، ومصباح الزجاجة: ۲۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/ ۳۱۶، ۳۱۸) (ضعیف) (یہ سند ضعیف ہے اس لئے کہ عبد الجبار بن وائل اور ان کے والد کے مابین انقطاع ہے، انہوں نے اپنے والد سے کچھ نہیں سنا ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ، "وَكَانَ قَدْ عَقَلَ مَجَّةً مَجَّهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دَلْوٍ مِنْ بِئْرٍ لَهُمْ.
محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کو وہ کلی یاد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈول میں کی تھی جس کا پانی ان کے کنوئیں سے بھرا گیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۱۹ (۷۷)، الوضوء ۴۱ (۱۸۹)، الدعوات ۳۱ (۶۳۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۷۵۰، ۱۱۲۳۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد ۴۷ (۱۴۹۴)، مسند احمد (۵/۴۲۷، ۴۲۹) (صحیح) (تفصیل کے لئے حدیث نمبر ۷۵۴، ملاحظہ کریں)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَنْظُرِ الْمَرْأَةُ إِلَى عَوْرَةِ الْمَرْأَةِ، وَلَا يَنْظُرِ الرَّجُلُ إِلَى عَوْرَةِ الرَّجُلِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عورت عورت کے اور مرد مرد کے ستر کو نہ دیکھے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحیض ۱۷ (۳۳۸)، سنن الترمذی/الأدب ۳۸ (۲۷۹۳)، سنن ابی داود/الحمام ۳ (۴۰۱۸)، (تحفةالأشراف: ۴۱۱۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/ ۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْمَوْلًى لِعَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَا نَظَرْتُ أَوْ مَا رَأَيْتُ فَرْجَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَانَ أَبُو نُعَيْمٍ يَقُولُ: عَنْ مَوْلَاةٍ لِعَائِشَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرمگاہ کبھی نہیں دیکھی۔ ابوبکر بن ابی شیبہ کہتے ہیں: ابونعیم «عن مولاة لعائشة» کہتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۱۶، ومصباح الزجاجة: ۲۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۶۳، ۱۹۰) (ضعیف) (اس حدیث کی سند میں مولیٰ عائشہ مجہول الحال ہیں، اس لئے یہ ضعیف ہے، ملاحظہ ہو: الإرواء: ۱۸۱۲، یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: ۱۹۲۲)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا مُسْتَلِمُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْأَبِي عَلِيٍّ الرَّحَبِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"اغْتَسَلَ مِنْ جَنَابَةٍ، فَرَأَى لُمْعَةً لَمْ يُصِبْهَا الْمَاءُ، فَقَالَ: بِجُمَّتِهِ فَبَلَّهَا عَلَيْهَا"، قَالَ إِسْحَاق فِي حَدِيثِهِ: "فَعَصَرَ شَعْرَهُ عَلَيْهَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کیا تو معمولی سی جگہ خشکی دیکھی، تو اپنے بالوں سے اس مقام کو تر کر دیا۔ اسحاق بن منصور نے اپنی حدیث میں کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اپنے بالوں کو نچوڑ کر تر کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۶۰۲۸، ومصباح الزجاجة: ۲۵۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۳) (ضعیف) (سند میں ابو علی الرحبی حسین بن قیس ہیں جن کی حدیثیں بہت زیادہ منکر ہیں)
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: إِنِّي اغْتَسَلْتُ مِنَ الْجَنَابَةِ وَصَلَّيْتُ الْفَجْرَ، ثُمَّ أَصْبَحْتُ فَرَأَيْتُ قَدْرَ مَوْضِعِ الظُّفْرِ لَمْ يُصِبْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ كُنْتَ مَسَحْتَ عَلَيْهِ بِيَدِكَ أَجْزَأَكَ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میں نے غسل جنابت کیا، اور فجر کی نماز پڑھی پھر جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ بدن کے ایک حصہ میں ناخن کے برابر پانی نہیں پہنچا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم اس پر اپنا گیلا ہاتھ پھیر دیتے تو کافی ہوتا"۔
تخریج دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۰۵، ومصباح الزجاجة: ۲۵۲) (ضعیف جدًا) (سند میں سوید بن سعید صدوق ہیں، اندھے ہونے کے بعد دوسروں سے احادیث کی بہت زیادہ تلقین قبول کرنے لگے، حتی کہ ابن معین نے ان کو حلال الدم قرار دیا، نیز محمد بن عبید اللہ العرزمی ضعیف اور متروک ہیں)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ تَوَضَّأَ وَتَرَكَ مَوْضِعَ الظُّفْرِ لَمْ يُصِبْهُ الْمَاءُ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ارْجِعْ فَأَحْسِنْ وُضُوءَكَ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی وضو کر کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے ناخن کی مقدار خشک جگہ چھوڑ دی تھی، جہاں پانی نہیں پہنچا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "جاؤ دوبارہ اچھی طرح وضو کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطہارة ۶۷ (۱۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۴۳، ۱۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: "رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا تَوَضَّأَ فَتَرَكَ مَوْضِعَ الظُّفْرِ عَلَى قَدَمِهِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُعِيدَ الْوُضُوءَ وَالصَّلَاةَ"، قَالَ: فَرَجَعَ.
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا، جس نے وضو کیا اور اپنے پاؤں پر ناخن برابر جگہ خشک چھوڑ دی، تو آپ نے اسے وضو اور نماز دونوں کو دوہرانے کا حکم دیا، عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس نے دوبارہ وضو کیا، اور نماز پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطہارة ۱۰ (۲۴۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۲۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الطہارة ۶۷ (۱۷۳) مسند احمد (۱/۲۱، ۲۳) (صحیح)