جزیہ اسلامی قانون کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا اطلاق اس خاص محصول (ٹیکس) پر ہوتا ہے جو اسلامی مملکت میں بسنے والے غیر مسلم افراد (ذمّیوں) سے طے شدہ مرضی کے مطابق لیا جاتا ہے۔ جزیہ اصل میں جزاء سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی بدلہ کے ہیں ! اس خاص محصول (ٹیکس) کو جزیہ اس لئے کہا جاتا ہے وہ گویا اسلامی ریاست میں ترک اسلام اور کفر پر قائم رہنے کا ایک بدلہ اور عوض ہے جو ان کے مال، جائداد، عزّت و آبرو کی حفاظت کے لئے وصول کیا جاتا ہے۔
حضرت بجالہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں حضرت جزء ابن معاویہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کے ہاں جو حضرت احنف رضی اللہ تعالیٰ عنہ (صحابی) کے چچا تھے، منشی تھا۔ ایک مرتبہ) ہمارے پاس حضرت (امیر المؤ منین) عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کی وفات سے ایک سال پہلے ایک مکتوب آیا جس میں یہ حکم دیا گیا تھا کہ مجو سیوں یعنی آتش پرستوں میں ان کے محارم کے درمیان تفریق کرا دو۔ نیز (راوی کہتے ہیں کہ) عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ (پہلے) مجو سیوں سے جزیہ نہیں لیا کر تے تھے یہاں تک کہ جب حضرت عبدالرحمٰن ابن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گواہی دی (یعنی انہوں نے یہ بیان کیا) کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجر کے مجوسیوں سے جزیہ لیا تھا (تب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجو سیوں سے جزیہ لینا شروع کیا۔ (بخاری) ِ
تشریح
محرم اس قریبی رشتہ دار کو کہتے ہیں جس سے نکاح جائز ہو ماں، بیٹی اور بہن وغیرہ۔ مجوسیوں میں یہ دستور تھا کہ وہ اپنے محرم سے شادی کر لیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ حکم بھیجا کہ جن مجوسیوں نے اپنے محارم سے شادی کر رکھی ہو ان میاں بیوی کے درمیان تفریق کرا دو یعنی ان کی شادی فسخ قرار دے دو۔ اگرچہ اسلامی قانون کا یہ ضابطہ ہے کہ جو غیر مسلم اسلامی ریاست کے ذمہ و حفاظت میں ہوں ان کے مذہبی معاملات میں مداخلت نہ کی جائے بلکہ ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی پوری آزادی دی جائے اور یہ بات (یعنی اپنے محرم سے شادی) چونکہ ان کے مذہب میں جائز تھی اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حکم دینا بظاہر ایک سوالیہ نشان ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگرچہ اسلامی ریاست کی طرف سے ذمّیوں کو اپنے مذہبی معاملات میں پوری آزادی حاصل ہوتی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امام وقت کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اسلامی قلم رو میں جہاں صرف خدا کا اتارا ہوا قانون نافذ و جاری ہوتا ہے کسی بھی ایسے عمل کو روک دے جو براہ راست اسلامی شعار کے منافی اور دین کے بنیادی اصولوں اور قانون حکومت کے مخالف ہو۔ چنانچہ مجوسیوں کا اپنے محرم سے شادی کرنا بھی چونکہ نہ صرف اسلامی شعار کے صریح مخالف ہی تھا بلکہ اخلاقی اور سماجی طور پر بھی نہایت مذموم اور شنیع فعل تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس طرح کی شادیوں کو ختم کر دینے کا حکم صادر فرمایا۔
مجوسیوں کے بارے میں جمہور علماء کا اس امر پر اتفاق ہے کہ ان سے جزیہ لیا جائے بلکہ حنفیہ کے نزدیک عجمی بت پرستوں سے بھی جزیہ لیا جائے لیکن اس میں حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا اختلافی قول ہے۔
ہجر ایک جگہ کا نام ہے جو بعض حضرات کے نزدیک یمن میں بحرین کے قریب ایک شہر تھا، مگر موجودہ محققین کے مطابق جزیرہ نمائے عرب کا مشرقی ساحل جو احساء کہلاتا ہے پہلے ہجر کے نام سے موسوم تھا اور اسی کو بحرین بھی کہتے تھے۔
وذکر حدیث بریدۃ اذا امرامیرا علی جیش فی باب الکتاب الی الکفار اور حضرت بریدہ کی روایت اذا امر امیرا الخ باب الکتاب الی الکفار میں نقل کی جاچکی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان (معاذ) کو (قاضی و حاکم بنا کر) یمن روانہ کیا تو ان کو یہ ہدایت کی کہ وہ (وہاں کے) ہر حاکم یعنی ہر بالغ سے ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کا معافری کپڑا جو یمن میں تیار ہوتا ہے (جزیہ کے طور پر) لیں (ابوداؤد)
تشریح
ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ جزیہ نہ تو عورت پر عائد ہوتا ہے اور نہ بچے پر۔ (اسی طرح مجنوں، اندھے، اور فالج زدہ پر بھی) جز یہ واجب نہیں ہوتا۔ نیز وہ بوڑھا جو لڑنے اور کام کرنے پر قادر نہ ہو اور وہ محتاج جو کوئی کام کرنے پر قادر نہ ہو جز یہ سے مستثنیٰ ہے
یہ حدیث بظاہر امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مسلک کی دلیل ہے جن کے نزدیک جزیہ کی واجب مقدار کے بارے میں غنی اور فقیر (یعنی امیر و غریب) برابر ہیں کیونکہ اس حدیث میں کوئی تخصیص کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن حنفیہ کے نزدیک غنی (امیر) پر ہر سال اڑتالیس درہم واجب ہو تے ہیں جو ہر مہینے چار درہم کے حساب سے ادا کر نے ہو تے ہیں، درمیانی درجہ والے پر ہر سال چوبیس درہم ہوتے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ دو دو درہم کر کے ادا کرے گا اور فقیر یعنی نچلے طبقہ والے پر جو کمانے والا ہو بارہ درہم واجب ہو تے ہیں جنہیں وہ ہر ماہ ایک ایک درہم کر کے ادا کرے گا۔
اسی حنفی مسلک کے بارہ میں ہدایہ میں لکھا ہے کہ یہ مسلک حضرت عمر، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے منقول ہے نیز انصار و مہاجرین میں سے کسی سے بھی اس کے خلاف منقول نہیں ہے اور جہاں تک اس حدیث کا سوال ہے جس میں ہر بالغ سے ایک ایک دینار لینا روایت کیا گیا ہے تو یہ صلح کی صورت پر محمول ہے کہ یمن چونکہ جنگ و جدال کے ذریعے فتح نہیں ہوا تھا بلکہ باہمی صلح کے ذریعہ یمن والوں نے اپنے آپ کو مسلمانوں کے تسلّط و اقتدار میں دے دیا تھا لہٰذا جزیہ کے بارہ میں بھی ان کے ساتھ مذکورہ مقدار پر مصالحت ہوئی۔ یا یہ اس پر محمول ہے کہ اہل یمن چونکہ مالی طور پر بہت پس ماندہ اور خستہ حال تھے اس لئے ان پر جزیہ کی وہی مقدار واجب کی گئی جو فقراء (غریبوں) پر واجب کی جانی چاہئے تھی۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک زمین میں دو قبلے نہیں ہونے چاہئیں اور مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہو سکتا۔ (احمد، ترمذی ابو داد'د)
تشریح
ایک زمین میں دو قبلے کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک علاقے میں دو مذہب برادری کی بنیاد پر نہیں ہونے چاہئیں۔ گویا اس کے ذریعہ مسلمانوں کو آگاہ کیا گیا ہے کہ وہ کافروں یعنی اپنے دین کے دشمنوں کے درمیان دارالحرب میں سکونت اختیار نہ کریں اور نہ اس کے ذر یعہ اپنے آپ کو ذلیل و رسوا کریں۔ اسی طرح اسلامی ریاست کو چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں کافروں یعنی دشمنان دین کو بغیر جزیہ کے سکونت اختیار نہ کرنے دے اور ان کے جزیہ دینے کی صورت میں ان کو اس طرح سر اٹھانے کا موقع نہ دے وہ علی الاعلان اسلامی ریاست کے بنیادی اصول و قوانین اور دینی عقائد و نظریات کے خلاف امور انجام دیں اور یہ آگاہی اس حقیقت کے پیش نظر ہے کہ ان دونوں ہی صورتوں میں دین اسلام اور کفر دونوں کا مساوی ہو جا نا لازم آتا ہے جب کہ اسلام کی نظر میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اسلام اس امر کا متقاضی ہوتا ہے کہ مسلمان جہاں بھی رہیں، قوت و شوکت اور عزت و رفعت کے مقام پر ہوں اور اسلام دشمن عنا صر ضعیف و کمزور اور بے وقعت رہیں۔
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرۃالعرب سے جلا وطن کر دینے کی طرف اشارہ ہے جو اہل کتاب ہونے کی وجہ سے اہل قبلہ بھی ہیں اور ان دونوں کا الگ الگ قبلہ ہے جو اہل اسلام کے قبلہ کے خلاف ہے، تاکہ اس علاقہ میں دو قبلوں کو ماننے والوں کا وجود نہ رہے بلکہ صرف ایک قبلہ حقیقی کو ماننے والے یعنی مسلمان ہی رہیں۔
مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہو سکتا۔ میں اس صورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مثلاً کوئی غیر مسلم، ذمی ہونے کی حیثیت میں اسلامی ریاست کا شہری بنا لیکن وہ جزیہ ادا کر نے سے پہلے مسلمان ہو گیا تو اب اس سے جزیہ کا مطالبہ نہ کیا جائے کیونکہ وہ مسلمان ہے اور مسلمان پر جزیہ عائد نہیں ہوتا۔
اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اکیدر دومہ کے مقابلے پر بھیجا، چنانچہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے ساتھیوں نے اس کو پکڑ لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے آئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا خون معاف کر دیا اور جزیہ پر اس سے صلح کر لی۔ (ابو داو'د)
تشریح
اکیدر الف کے پیش، کاف کے زیر یا کے جزم اور دال کے زیر کے ساتھ۔ دومہ کا بادشاہ تھا اور دومہ ایک شہر کا نام تھا۔ جو شام میں تبوک کے پاس واقع تھا اکیدر ایک نصرانی (عیسائی) تھا اس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دیا تھا کہ اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ زندہ پکڑ کر میرے پاس لایا جائے۔ چنانچہ جب اس کو دربار رسالت میں لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر جز یہ مقرر کیا۔ پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت بخشی اور وہ کامل مسلمان ہو گیا۔
حضرت حرب ابن عبیداللہ اپنے جد (نانا) سے اور وہ اپنے باپ سے نقل کر تے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ یہود و نصاریٰ پر عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہے مسلمانوں پر (چالیسواں حصہ واجب ہے، ان پر عشر واجب نہیں ہے۔ (احمد، ابو داوٗد)
تشریح
یہاں عشر یعنی دسویں حصہ کا تعلّق مال تجارت سے ہے صدقات واجبہ (یعنی زمینی پیداوار) کا عشر مراد نہیں ہے، کیونکہ مسلمانوں پر زمینی پید وار کا عشر واجب ہوتا ہے۔ خطابی کہتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ پر عشر کی قسم سے جو چیز واجب ہوتی ہے وہ بس وہی ہے جس پر ان کو ذمی بناتے وقت صلح ہوئی ہو اور جس کا ان کے ساتھ معاہدہ ہوا ہو، اور اگر ان کو ذمی بناتے وقت ان سے کسی چیز پر صلح نہیں ہوتی ہے تو اس صورت میں ان پر جزیہ کے علاوہ اور کچھ واجب نہیں ہو گا، چنانچہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مسلک یہی ہے۔
اس سلسلے میں حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر یہود و نصاریٰ اپنے شہروں میں مسلمانوں کے داخل ہونے کے وقت ان کے مال تجارت پر محصول (ٹیکس) وغیرہ لیتے ہوں تو مسلمانوں کو بھی یہ حق حاصل ہو گا کہ جب ان کے شہروں میں یہود و نصاریٰ آئیں تو ان کے تجارت پر مسلمان بھی ان سے محصول لیں اور اگر وہ مسلمانوں سے کسی طرح کا کوئی محصول نہ لیتے ہوں تو پھر مسلمان بھی ان سے کوئی محصول نہیں لیں گے۔
اور حضرت عقبہ ابن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم جب (جہاد کو جاتے) ہوئے ایک (فلاں) قوم (کی آبادی) میں سے گزرتے ہیں تو وہ لوگ نہ ہماری میزبانی کر تے ہیں اور نہ ہمیں وہ چیز دیتے ہیں جس کا ہم (از روئے اسلام) ان پر حق رکھتے ہیں (یعنی اسلام کی رو سے ان پر ہمارا جو یہ حق ہے کہ وہ قرض وغیرہ دے کر ہماری ضرورتیں پوری کریں اور ہماری دیکھ بھال کریں وہ اس کو پورا نہیں کر تے) اور (چونکہ) ہم ان سے کوئی چیز (زبردستی) حاصل نہیں کرتے (اس لیے ہم سخت پر یشان ہو تے ہیں اور ان کے اس رویہ کی وجہ سے ہمیں بڑی اضطراری حالت اور بڑے نقصان میں مبتلا ہو نا پڑتا ہے) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر وہ لوگ (تمہاری میزبانی کر نے یا تمہارے نقد و ادھار کوئی چیز فروخت کر نے سے انکار کریں اور (اس صورت میں) ان سے کوئی چیز زبردستی لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو (زبردستی) لے لو۔ (ترمذی)
تشریح
جن لوگوں کے بارہ میں ذکر کیا گیا ہے وہ دراصل ذمی تھے (جنہوں نے اسلام قبول کیا تھا بلکہ جزیہ ادا کر کے اسلامی قلم رو میں آباد تھے) اور ان کو ذمی بناتے وقت ان کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس میں ان پر یہ شرط عائد کی گئی تھی جو مسلمان جہاد کے لئے جاتا ہو اور ان کے ہاں سے گزرے وہ اس کی میز بانی کریں، لیکن انہوں نے اس شرط سے رو گردانی کی چنانچہ جو مسلمان جہاد کو جاتے ہوئے ان کے ہاں ٹھہر تے وہ نہ صرف یہ کہ ان کی میزبانی نہ کرتے بلکہ ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بھی فروخت نہیں کر تے تھے، جب مسلمانوں نے اس صورت حال سے تنگ آ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ حکم ارشاد فرمایا۔
لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان ذمیوں پر پہلے سے اس طرح کی کوئی شرط عائد نہ کی گئی ہو تو اس صورت میں ان کے ہاں ٹھہر نے والے مسلمان کے لئے جو غیر مضطر ہو، یہ جائز نہیں ہو گا کہ وہ ان کے مال و اسباب ان کی رضا اور خوشی کے بغیر لے۔
حضرت اسلم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (تابعی) کہتے ہیں کہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے (اپنے دور خلافت) ان (ذمیوں) پر، جو (بہت زیادہ) سونا رکھتے تھے، چار دینار جزیہ مقرر کیا اور جو (ذمی) چاندی رکھتے تھے ان پر چالیس درہم جز یہ مقرر کیا اور اس کے علاوہ ان پر مسلمانوں کا خورد و نوش اور تین دن کی میزبانی بھی مقرر کی تھی۔ (مالک)
تشریح
اور تین دن کی میزبانی الخ یہ اصل میں خوردو نوش کی وضاحت ہے، یعنی ان غیر مسلموں کو ذمی بناتے وقت ان پر جزیہ کی جو مذکورہ مقدار مقرر کی گئی تھی اس کے ساتھ ہی ان کے لئے یہ بھی ضروری قرار دیا گیا تھا کہ جب ان کے ہاں کوئی مسلمان پہنچے تو وہ کم سے کم تین دن تک اس کی میزبانی کے فرائض انجام دیں۔ چنانچہ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ ذمیوں سے ایک دینار سے زائد کی مقدار پر مصالحت کرنا کہ اگر ان کے ہاں سے مسلمان گزریں تو ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیں، یہ جائز ہے اور اس میزبانی کے اخراجات اصلی جزیہ سے وضع نہیں ہو نگے بلکہ وہ جزیہ کی مقررہ مقدار سے ایک زائد چیز ہو گی۔ اس مسئلہ کی باقی تفصیل مرقات وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔