جس عورت کو تین طلاقیں دی جائیں اس کا حکم اس باب میں بیان کیا گیا ہے کہ اس عورت کو اگر اس کا خاوند کہ جس نے اسے تین طلاقیں دی پھر اپنی بیوی بنا کر رکھنا چاہے تو اس صورت میں ممکن ہے کہ جب کہ وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر کے اس سے ہم بستر ہو پھر وہ مرد اس کو طلاق دے اور وہ عورت اپنی عدت کے دن پورے کر کے از سر نو پہلے خاوند سے نکاح کرے ان مرحلوں سے گزرنے کے بعد ہی وہ عورت اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہو گی۔
مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں باب المطلقۃ ثلثا کے بعد یہ عبارت بھی لکھی ہے کہ (وفیہ ذکر الظہار والایلاء) یعنی اس باب میں ظہار اور ایلاء کا ذکر بھی کیا گیا ہے ظہار اور ایلاء کے معنی اور ان کے کچھ مسائل ان شاء اللہ آگے مذکور ہوں گے۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن رفاعہ قرظی کی عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میں رفاعہ کے نکاح میں تھی مگر انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور طلاقیں بھی تین دیں چنانچہ میں نے رفاعہ کے بعد عبد الرحمن ابن زبیر سے نکاح کر لیا لیکن عبد الرحمن کپڑے کے پھند کی مانند رکھتے ہیں (یعنی اس عورت نے از راہ شرم وحیا عبد الرحمن کی نامردی کو کنایۃ ان الفاظ کے ذریعہ بیان کیا کہ وہ عورت کے قابل نہیں ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ کیا تم پھر رفاعہ کے پاس جانا چاہتی ہو اس نے عرض کیا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس وقت تک رفاعہ سے دوبارہ نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ عبد الرحمن تمہارا مزہ نہ چکھ لے اور تم اس کا مزہ نہ چکھ لو (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہارا دوسرا شوہر تمہارے سات جماع نہ کرے اور پھر اس کی طلاق کے بعد تم عدت کے دن پورے نہ کر لو تم اپنے سابق خاوند یعنی رفاعہ سے نکاح نہیں کر سکتیں چنانچہ یہ حدیث مشہور اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حلالہ یعنی سابق خاوند کے واسطے حلال ہونے کے لیے کسی دوسرے مرد سے محض نکاح کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مجامعت بھی ضروری ہے البتہ مجامعت میں صرف دخول کافی ہے انزال شرط نہیں۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم نے محلل اور محلل لہ پر لعنت فرمائی ہے (دارمی) ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت علی حضرت ابن عباس اور حضرت عقبہ ابن عامر سے نقل کیا ہے۔
تشریح
فرض کیجئے کہ دو شخص ہیں ایک کا نام زید ہے اور دوسرے کا نام بکر ہے زید نے اپنی بیوی خالدہ کو تین طلاقیں دے دیں اور اس کی عدت کے دن پورے ہو گئے ہیں اب زید پھر چاہتا ہے کہ وہ خالدہ کو دوبارہ اپنی زوجیت میں لائے۔ لہذا دوسرا شخص یعنی بکر خالدہ سے اس شرط یا ارادہ کے ساتھ نکاح کرتا ہے کہ جماع کے بعد خالدہ کو طلاق دے دی جائے گی تاکہ خالدہ کا پہلا شوہر زید کہ جس نے اس کو تین طلاقیں دی تھیں اس سے دوبارہ نکاح کر سکے اور خالدہ کا پہلا شوہر محلل لہ یعنی جس کے لئے حلالہ کیا گیا) کہلائے گا۔
حدیث میں انہی دونوں کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر لعنت فرمائی ہے حلالہ کرنے والے پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس نے زبان سے تحلیل کی شرط کا اظہار و اقرار کرنے کے بعد اور محض جدائی اختیار کرنے کے قصد سے اس عورت سے نکاح کیا جب کہ نکاح اس لئے شروع ہوا ہے کہ اس کے ذریعہ مرد و عورت ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے رفیق حیات و دمساز رہیں، لہذا اس صورت میں نہ صرف یہ کہ نکاح کے اصل مقصد و منشاء پر زد پڑتی ہے بلکہ عورت کی حرمت و عزت بھی مجروح ہوتی ہے اسی لئے ایک حدیث میں اس کو مستعار بکری سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اور محلل لہ یعنی پہلے خاوند پر لعنت فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ اس صورت حال اور اس نکاح کا اصل باعث وہی بنا ہے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس صورت میں عقد باطل ہوتا ہے بلکہ حدیث کے الفاظ سے ثابت ہوتا ہے کہ عقد صحیح ہو جاتا ہے کیونکہ حدیث میں اس نکاح کرنے والے کو محلل کہا گیا ہے اور یہ ایک ظاہر بات ہے کہ کوئی شخص محلل اسی صورت میں ہوتا ہے جب کہ عقد صحیح ہو عقد فاسد سے محلل نہیں ہوتا لہذا ثابت ہوا کہ اس ارشاد گرامی میں لعنت کا حقیقی مفہوم مراد نہیں ہے بلکہ یہاں مراد محلل اور محلل لہ کی خساست طبع کو ظاہر کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ یہ ایک قبیح فعل ہے جس کو کوئی سلیم الطبع انسان پسند نہیں کر سکتا۔
ہدایہ اور فقہ کی دیگر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حلالہ کو زبان سے مشروط کیا گیا ہو یعنی محلل اس عورت سے کہ جس کو اس کا خاوند تین طلاقیں دے چکا ہے یہ کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ تمہیں اس خاوند کے لئے کہ جس نے تمہیں طلاق دی ہے حلال کر دوں یعنی میں تم سے صرف اس لئے نکاح کرتا ہوں کہ میں جماع کے بعد تمہیں طلاق دے دوں تا کہ تمہارے پہلے خاوند کے لے تم سے دوبارہ نکاح کرنا حلال ہو جائے یا وہ عورت محلل سے یوں کہے کہ میں تم سے اس لئے نکاح کرتی ہوں کہ میں اپنے پہلے خاوند کے لئے حلال ہو جاؤں تو اس صورت میں حلالہ مکروہ تحریمی ہو گا۔ ہاں اگر زبان سے یہ نہ کہا جائے مگر نیت میں یہ بات ہو تو پھر محلل نہ قابل مواخذہ ہو گا اور نہ لعنت کا مورد ہو گا کیونکہ اس صورت میں یہی کہا جائے گا کہ اس کا مقصد دراصل اصلاح احوال ہے۔
ابن ہمام نے کہا ہے کہ اس عورت نے کہ جس کو تین طلاقیں دی جا چکی ہیں غیر کفو سے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا اور پھر اس نے اس کے ساتھ جماع بھی کر لیا تو اس صورت میں وہ عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہو گی چنانچہ فتوی اسی قول پر ہے۔
اور حضرت سلیمان ابن یسار تابعی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دس بلکہ اس سے بھی زیادہ صحابیوں کو پایا ہے وہ سب یہ فرمایا کرتے تھے کہ ایلاء کرنے والے کو ٹھہرایا جائے (شرح السنۃ)
تشریح
ایلاء اس کو کہتے ہیں کہ کوئی مرد یہ قسم کھائے کہ میں چار مہینہ یا اس سے زائد مثلاً پانچ مہینہ یا چھ مہینہ) تک اپنی بیوی سے جماع نہیں کروں گا لہذا اگر اس مرد نے اپنی بیوی سے جماع نہیں کیا یہاں تکہ کہ چار مہینے گزر گئے تو اس صورت میں اکثر صحابہ کے قول کے مطابق اس مرد کی بیوی پر محض چار مہینے گزر جانے سے طلاق نہیں پڑے گی بلکہ ایلاء کرنے والے کو ٹھہرایا جائے گا یعنی حاکم و قاضی اس کو محبوس کریگا اور اس سے یہ کہے گا کہ یا تو اپنی عورت سے رجوع کرو یعنی اس سے جماع کر لو اور اپنی قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ دو یا اپنی بیوی کو طلاق دے دو۔ چنانچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا مسلک یہی ہے نیز حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ مرد حاکم و قاضی کی اس بات پر عمل نہ کرے یعنی نہ تو عورت سے رجوع کرے اور نہ طلاق دے تو حاکم کو اختیار ہے کہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دیدے۔
اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس صورت میں اگر اس مرد نے چار مہینے کے اندر اپنی بیوی سے جماع کر لیا تو اس کا ایلاء ساقط ہو جائے گا۔ مگر اس پر قسم پوری نہ کرنے کا کفارہ لازم آئے گا اور اگر اس نے جماع نہ کیا یہاں تک کہ چار مہینے گزر گئے تو اس کی بیوی پر ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی ایلاء کے دیگر مسائل اور اس کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
اور حضرت ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ایک صحابی سلمان ابن صخر نے کہ جن کو سلمہ ابن صخر بیاضی کہا جاتا تھا اپنی بیوی کو اپنے لئے اپنی ماں کی پشت کی مانند قرار دیا تاوقتیکہ رمضان ختم ہو (یعنی انہوں نے بیوی سے یوں کہا کہ ختم رمضان تک کے لیے تو مجھ پر میری ماں کی پشت کے مثل ہے گویا اس طرح انہوں نے اپنی بیوی کو رمضان کے ختم تک کے لئے اپنے اوپر حرام قرار دیا) مگر ابھی آدھا ہی رمضان گزرا تھا کہ انہوں نے اسی رات اپنی بیوی سے صحبت کر لی پھر جب صبح ہوئی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ ماجرا بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرو انہوں نے عرض کیا کہ میں اس کی استطاعت نہیں رکھتا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا دو مہینے یعنی پے درپے روزے رکھو انہوں نے عرض کیا کہ مجھ میں اتنی طاقت نہیں ہے کیونکہ حکم خداوندی تو یہ ہے کہ دو مہینے مسلسل اس طرح روزے رکھے جائیں کہ ان مہینوں میں جماع سے کلیۃً اجتناب کیا جائے اور میں اپنے جنسی ہیجان کی وجہ سے اتنے دنوں تک جماع سے باز نہیں رہ سکتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ! انہوں نے عرض کیا میں اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک اور صحابی حضرت فروہ ابن عمرو سے فرمایا کہ ان کو کھجوروں کا فرق دے دو فرق کھجور کے درخت کے پتوں سے بنے ہوئے تھیلے چھابے) کو کہتے ہیں جس میں پندرہ صاع یا سولہ صاع (یعنی تقریباً ساڑھے باون سیر یا چھپن سیر) کھجور سماتی ہیں (ترمذی ابو داؤد) اور دارمی نے اس روایت کو سلیمان ابن یسار سے اور انہوں نے حضرت سلمہ ابن صخر سے اسی طرح نقل کیا ہے جس میں حضرت سلمہ کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ میں اپنی عورتوں سے اس قدر قربت کیا کرتا تھا کہ کوئی اور شخص میری برابر قربت نہیں کرتا تھا چنانچہ جنسی ہیجان کے اتنے زیادہ غلبہ ہی کی وجہ سے میں اپنی بیوی سے صحبت کرنے سے نہ رک سکا) اور ان دونوں میں یعنی ابو داؤد اور دارمی کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ فرمانے کی جگہ یہ فرمایا کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ۔
تشریح
اس حدیث میں ظہار کا حکم بیان کیا گیا ہے ظہار اس کو کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی بیوی کو اس اس کے جسم کے کسی ایسے حصے کو کہ اس کو بول کر پورا بدن مراد لیا جاتا ہو اور یا اس کے جسم کے کسی ایسے حصہ کو جو شائع غیر متعین ہو محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن اور پھوپھی وغیرہ) کے جسم کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دے جس کی طرف نظر کرنا حلال نہ ہو جیسے وہ اپنی بیوی سے یوں کہے کہ تم مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی طرح حرام ہو یا تمہارا سر یا تمہارے بدن کا نصف حصہ میری ماں کی پیٹھ یا پیٹ کے مانند ہے یا میری ماں کی ران کے مانند ہے یا میری بہن یا میری پھوپھی کی پیٹھ کے مانند ہے اس طرح کہنے سے اس بیوی سے جماع کرنا یا ایسا کوئی بھی فعل کرنا جو جماع کا سبب بنتا ہے جیسے مساس کرنا یا بوسہ لینا اس وقت تک کے لئے حرام ہو جاتا ہے جب تک کہ کفارہ ظہار ادا نہ کر دیا جائے اور اگر کسی شخص نے کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لیا تو اس پر پہلے کفارہ کے علاوہ کچھ اور واجب نہیں ہو گا ہاں اسے چاہئے کہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرے اور پھر جب تک کفارہ ادا نہ کرے دوبارہ جماع نہ کرے۔
یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ کہ ظہار صرف بیوی سے ہوتا ہے اور بیوی خواہ آزاد عورت ہو اور خواہ کسی کی لونڈی ہو اسی طرح خواہ وہ مسلمان ہو یا کتابیہ یعنی عیسائی و یہودی ہو ظہار کے باقی مسائل فقہ کی کتابوں میں دیکھنے چاہئیں۔
علامہ طیب فرماتے ہیں کہ حدیث الفاظ (حتی یمضی رمضان) (جب تک کہ رمضان ختم ہو) کہ ظاہر موقت صحیح ہو جاتا ہے اور قاضی خان نے کہا ہے کہ جب کوئی شخص موقت یعنی کسی متعین مدت و عرصہ کے لیے ظہار کرتا ہے تو وہ اسی وقت ظہار کرنے والا ہو جاتا ہے اور جب وہ متعینہ عرصہ گزر جاتا ہے تو ظہار باطل ہو جاتا ہے۔
محقق علام حضرت ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص ظہار کرے اور مثلاً جمعہ کے دن استثناء کر دے تو صحیح نہیں ہوتا اور اگر ایک دن یا ایک مہینہ کے لئے ظہار کر دے (یعنی کسی مدت متعین کے لئے ظہار کرے) تو اس مدت کی قید لگانی صحیح ہے اور پھر اس مدت کے گزرے جانے کے بعد ظہار باقی نہیں رہتا۔
حدیث (اطعم ستین مسکینا) یعنی ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ سے دونوں باتیں مراد تھیں کہ یا تو تم ساٹھ مسکینوں کو دونوں وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلا دو یا ان میں سے ہر ایک کو صدقہ فطر کی مقدار کے برابر کچا اناج یا اس کی قیمت دے دو اور جس طرح کفارہ ادا کرنے کے لئے غلام آزاد کرنے کی صورت میں جماع سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا ضروری ہے یا کفارہ ادا کرنے کے لئے دو مہینے کے روزے رکھنے کی صورت میں جماع سے پہلے دو مہینے مسلسل روزے رکھنا ضروری ہے اس طرح ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا بھی جماع کرنے سے پہلے ضروری ہے۔
حدیث کے اس جملہ تا کہ یہ ساٹھ مسکینوں کو کھلا دیں کے بارے میں بظاہر ایک اشکال پیدا ہو سکتا ہے وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کے لئے حضرت سلمہ ابن صخر کو جو کھجوریں دلائیں انکی مقدار خود روایت کی وضاحت کے مطابق پندرہ یا سولہ صاع تھی اس سے معلوم ہوا کہ ہر مسکین کو ایک ایک صاع دینا واجب نہیں ہے جب کہ فقہ کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ اگر کھجوریں دی جائیں تو صدقہ فطر کی مقدار کے برابر یعنی ایک ایک صاع دی جائیں۔
گویا حدیث کے اس جملہ اور فقہی حکم میں تعارض واقع ہو گیا لیکن اگر اس جملہ کا یہ ترجمہ کیا جائے گا کہ تا کہ یہ ان کھجوروں کو ساٹھ مسکینوں کو کھلانے میں صرف کر دیں۔ تو پھر کوئی تعارض باقی نہیں رہے گا کیونکہ اس طرح اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے بھی کھجوریں ملا کر ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کر دو۔
اس کے علاوہ ابو داؤد دارمی کی دوسری روایت کے یہ الفاظ کہ ساٹھ مسکینوں کو ایک وسق کھجوریں کھلاؤ) بھی اس بات کی دلیل ہیں کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ صرف یہی کھجوریں ساٹھ مسکینوں کو کھلاؤ بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کھجوروں میں اپنے پاس سے کھجوریں ملا کر ایک وسق کی مقدار پوری کر لو اور پھر ہر ایک مسکین کو ایک ایک صاع کھجور دے دو واضح رہے کہ ایک وسق ساٹھ صاع کے برابر ہوتا ہے۔
اور حضرت سلیمان ابن یسار تابعی حضرت سلمہ ابن صخر سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ظہار کرنے والے کے بارے میں کہ جو کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لے فرمایا کہ اس پر ایک ہی کفارہ واجب ہو گا (ترمذی ابن ماجہ)
تشریح
اکثر علماء کا یہی مسلک ہے کہ اگر کوئی شخص ظہار کرے اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لے تو اس پر بھی ایک ہی کفارہ واجب ہو گا لیکن بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لینے کی صورت میں دو کفارے واجب ہو جاتے ہیں۔
اگر کوئی شخص اپنی ایک سے زائد دو یا تین اور چار بیویوں سے ظہار کرے یعنی ان سب سے یوں کہے کہ تم سب مجھ پر میری ماں کی پیٹھ کی مانند حرام ہو تو اس صورت میں متفقہ طور پر تمام علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ شخص ان سب سے ظہار کرنے والا ہو جاتا ہے البتہ اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس پر کفارہ ایک واجب ہو گا یا کئی واجب ہوں گے۔
چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی کے نزدیک تو اس پر کئی کفارے واجب ہوں گے یعنی وہ ان بیویوں میں سے جس کسی کے ساتھ بھی جماع کا ارادہ کرے گا پہلے کفارہ ادا کرنا واجب ہو گا حسن، زہری اور ثوری وغیرہ کا بھی یہی قول ہے جبکہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس پر ایک ہی کفارہ واجب ہو گا یعنی وہ پہلے ایک کفارہ ادا کر دے اس کے بعد ہر بیوی کے ساتھ جماع کرنا جائز ہو گا۔
حضرت عکرمہ، حضرت ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی سے ظہار کیا اور پھر کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر لیا اس کے بعد وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ واقعہ ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ کس چیز نے تمہیں ایسا کرنے پر آمادہ کیا یعنی کیا وجہ پیش آئی کہ تم کفارہ ادا کرنے سے پہلے جماع کر بیٹھے اس نے عرض کیا کہ چاندنی میں اس کی پازیب کی سفیدی پر میری نظر پڑ گئی اور میں جماع کرنے سے پہلے اپنے آپ کو نہ روک سکا۔ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہنس دیئے۔ اور اس کو یہ حکم دیا کہ اب دوبارہ اس سے اس وقت تک جماع نہ کرنا جب تک کفارہ ادا نہ کرو (ابن ماجہ،) ترمذی نے بھی اسی طرح کی یعنی اس کے ہم معنی روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، نیز ابو داؤد اور نسائی نے اس طرح کی روایت مسند اور مرسل نقل کی ہے اور نسائی نے کہا ہے کہ مسند کی بہ نسبت مرسل زیادہ صحیح ہے۔
حضرت معاویہ ابن حکم کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میری ایک لونڈی ہے جو میرا ریوڑ چراتی ہے میں جب اس کے پاس گیا اور ریوڑ میں اپنی بکری کم پائی تو میں نے اس بکری کے بارے میں پوچھا کہ کیا ہوئی؟اس نے کہا کہ بھیڑیا لے گیا مجھ کو اس پر غصہ آ گیا اور چونکہ میں بنی آدم میں سے ہوں یعنی ایک انسان ہوں اور انسان بتقاضائے بشریت مغلوب الغضب ہو جاتا ہے اس لیے میں نے اس لونڈی کے منہ پر ایک تھپڑ مار دیا اور اس وقت کفارہ ظہار یا کفارہ قسم کے طور پر اور یا کسی اور سبب سے مجھ پر ایک بردہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام آزاد کرنا واجب ہے تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تا کہ میرے ذمہ سے وہ کفارہ بھی ادا ہو جائے اور اس کو تھپڑ مار دینے کی وجہ سے میں جس ندامت و شرمندگی میں میں مبتلا ہوں اس سے بھی نجات پا جاؤں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو آزاد کر دو (مالک) مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت معاویہ نے کہا کہ میری ایک لونڈی تھی جو احد پہاڑ اور جوانیہ کے اطراف میں میرا ریوڑ چرایا کرتی تھی جوانیہ احد پہاڑ کے قریب ہی ایک جگہ کا نام ہے ایک دن جو میں نے اپنا ریوڑ دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ بھیڑیا میری ایک بکری کو ریوڑ میں سے اٹھا کر لے گیا ہے میں بنی آدم کا ایک مرد ہوں اور جس طرح کسی نقصان و اتلاف کی وجہ سے اولاد آدم کو غصہ آ جاتا ہے اسی طرح مجھے بھی غصہ آگیا (چنانچہ اس غصہ کی وجہ سے میں نے چاہا کہ اس لونڈی کو خوب ماروں لیکن میں اس کو ایک ہی تھپڑ مار کر رہ گیا پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ سارا ماجرا بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس واقعہ کو میرے حق میں ایک امر اہم جانا اور فرمایا کہ تم نے یہ بڑا گناہ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو میرے پاس بلاؤ میں لونڈی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بلا لایا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ کہاں ہے اس نے جواب دیا کہ آسمان میں پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس لونڈی کو آزاد کر دو کیونکہ یہ مسلمان ہے۔
تشریح
اس باب میں اس حدیث کو نقل کرنے سے مصنف کتاب کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہے کہ ظہار میں بطور کفارہ جو بردہ یعنی غلام یا لونڈی آزاد کیا جائے اس کا مسلمان ہونا ضروری ہے چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک یہی ہے لیکن حنفی مسلک میں چونکہ یہ ضروری نہیں ہے اس لئے حنفیہ اس حدیث کو افضلیت پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک اس حدیث کی مراد صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ کفارہ ظہار میں آزاد کیا جانے والا بردہ اگر مسلمان ہو تو یہ افضل اور بہتر ہے۔
اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ ان الفاظ کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد اللہ تعالیٰ کے مکان کے بارے میں سوال نہیں تھا کیونکہ اللہ تعالیٰ تو مکان و زمان سے پاک ہے بلکہ اس موڑ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد یہ سوال کرنا تھا کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ کا حکم کہاں جاری و ساری ہے اور اس کی بادشاہت و قدرت کس جگہ ظاہر و باہر ہے اور اس سوال کی ضرورت یہ تھی کہ اس وقت عرب کے کفار بتوں ہی کو معبود جانتے تھے اور جاہل لوگ ان بتوں کے علاوہ اور کسی کو معبود نہیں مانتے تھے لہذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ جاننا چاہا کہ آیا یہ لونڈی موحدہ یا مشرکہ ہے گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد دراصل ان بے شمار معبودوں کی نفی کرنی تھی جو زمین پر موجود تھے نہ کہ آسمان کو اللہ تعالیٰ کا مکان ثابت کرنا تھا چنانچہ جب اس لونڈی نے مذکورہ جواب دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہو گیا کہ یہ موحدہ ہے مشرکہ نہیں ہے۔
مالک کی روایت میں تو حضرت معاویہ سے یہ نقل کیا گیا ہے کہ ایک بردہ آزاد کرنا مجھ پر کسی اور سبب سے واجب ہے تو کیا میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تا کہ وہ کفارہ بھی ادا ہو جائے جو واجب ہے اور اس کو مارنے کی وجہ سے مجھے جو پشیمانی اور شرمندگی ہے وہ بھی جاتی رہے لیکن مسلم نے جو روایت نقل کی ہے اس کے الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت معاویہ نے اس لونڈی کو محض اس وجہ سے آزاد کرنا چاہا کہ انہوں نے اس کو غصہ میں مار دیا تھا۔
گویا دونوں روایتوں کے مفہوم میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ان دونوں میں قطعاً کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ مالک کی روایت میں تو اس مفہوم کو صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ یوں تو کسی اور سبب سے مجھ پر بردہ آزاد کرنا واجب ہے لیکن مارنے کی وجہ سے بھی اس کو آزاد کرنا میرے لئے ضروری ہو گیا ہے تو اگر میں اس کو آزاد کر دوں تو ان دونوں سبب کا تقاضا پورا ہو جائے گا اس کے برخلاف مسلم کی روایت اس بارے میں مطلق ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں باتوں پر محمول کیا جا سکتا ہے لہذا یہی کہا جائے گا کہ مسلم کی روایت کا مطلق مفہوم مالک کی روایت کے مقید مفہوم پر محمول ہے یعنی مسلم کی روایت کے الفاظ کا مطلب بھی وہی ہے جو مالک کی روایت کے الفاظ کا ہے کہ اگر میں اس لونڈی کو آزاد کر دوں تو کیا دونوں سبب پورے ہو جائیں گے یا نہیں؟
حنفی مسلک کے مطابق ظہار کے کفارہ میں سب سے پہلا درجہ بردہ لونڈی یا غلام) کو آزاد کرنے کا ہے بردہ خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلمان مرد ہو یا عورت چھوٹا ہو یا بڑا اور خواہ کانا ہو بہرا ہو لیکن اسی قدر بہرا ہو کہ اگر اس کو بآواز بلند مخاطب کیا جائے تو سن لے اور اگر کوئی ایسا بردہ ہو کہ اس کا ایک ہاتھ اور ایک پیر کٹا ہوا ہو تو اس کو آزاد کرنا بھی درست ہو گا بشرطیکہ یہ دونوں عضو مختلف جانب کے کٹے ہوئے ہوں مثلاً اگر دایاں ہاتھ کٹا ہوا ہو تو پیر بایاں کٹا ہوا ہو اسی طرح اس مکاتب کو آزاد کرنا بھی درست ہے جس نے اپنا بدل کتابت کچھ بھی ادا نہ کیا ہو۔
جو بردہ گونگا ہو یا ایسا بہرا ہو کہ سرے سے کچھ سن ہی نہ سکتا ہو (خواہ اسے کتنی ہی بلند آواز میں مخاطب کیا جائے) تو اس کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہو گا اسی طرح جس بردہ کے دونوں ہاتھ کٹے ہوئے ہوں یا دونوں پیر یا دونوں پیروں کے دونوں انگوٹھے کٹے ہوئے ہوں یا ایک ہاتھ اور ایک پیر دونوں ایک ہی طرف کے کٹے ہوئے ہوں مثلاً دایاں ہاتھ بھی کٹا ہوا ہو اور دایا پیر بھی کٹا ہوا ہو تو ایسے بردہ کو آزاد کرنا بھی کافی نہیں ہو گا ایسا بردہ جو مجنون ہو یعنی جس پر ہمیشہ دیوانگی طاری رہتی ہو یا جو مدبر یا ام ولد ہو یا ایسا مکاتب ہو جس نے بدل کتابت میں سے کچھ ادا کر دیا ہو تو ان میں سے بھی کسی کو آزاد کرنے سے کفارہ ظہار ادا نہیں ہو گا۔
دوسرا درجہ پے درپے روزے رکھنے کا ہے یعنی اگر ظہار کرنے والے کو بردہ نہ ملے تو پھر وہ دو مہینے مسلسل روزے رکھے اس طور پر کہ ان دونوں مہینوں میں نہ تو رمضان کا مہینہ آئے اور نہ وہ دن آئیں جن میں روزہ رکھنا ممنوع ہے جیسے عید اور بقرہ عید کا دن اور ایام تشریق اور جب تک روزے ختم نہ ہو جائیں یعنی دو مہینے کے مسلسل روزے پورے نہ ہو جائیں) تب تک عورت سے صحبت نہ کرے اگر روزے ختم ہونے سے پہلے اس عورت سے کہ جس سے ظہار کیا ہے صحبت کر لی تو اب سب روزے پھر سے رکھے چاہے دن میں اس عورت سے صحبت کی ہو یا رات میں اور چاہے قصداً ایسا کیا ہو یا بھولے سے سب کا ایک ہی حکم ہے اسی طرح اگر کسی عذر کی وجہ سے یا بلا عذر روزہ افطار کر لیا تو بھی از سرنو سب روزے رکھے۔
تیسرا درجہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا ہے یعنی اگر کوئی شخص مذکورہ بالا شرائط و قیود کے ساتھ روزے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو پھر وہ ساٹھ مسکینوں اور فقیروں کو دو وقت کا کھانا کھلائے یا ان کو کچا اناج دے دے کچا اناج دینے کی صورت میں یہ ہے کہ ہر مسکین و فقیر کو نصف صاع پونے دو سیر یعنی ایک کلو ٦٢٣ گرام گیہوں یا ایک صاع ساڑھے تین سیر یعنی تین کلو ٦٦ ٢ گرام جو یا کھجوریں یا ان میں سے کسی ایک مقدر کی قیمت دے دے اسی طرح اگر ان میں سے کوئی چیز دینے کی بجائے دو چیزیں دی جائیں تو بھی جائز ہے مثلاً چودہ چھٹانک یعنی ٨١٧ گرام گیہوں کے ساتھ پونے دو سیر یعنی ایک کلو ٦٣٣ گرام جو دیا جا سکتا ہے۔
اباحت کا مطلب یہ ہے کہ کھانا پکا کر فقیر کے سامنے رکھ دیا جائے تا کہ وہ اس میں سے جس قدر کھانا چاہے کھا لے چنانچہ یہ اباحت کفارات اور رمضان کے روزے کے بدلے میں دیئے جانے والے) فدیہ میں تو جائز ہے لیکن صدقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ میں جائز نہیں ہے کیونکہ صدقات واجبہ یعنی زکوٰۃ وغیرہ میں فقیر کو مال کا مالک بنا دینا ضروری ہے اس وضاحت کے بعد اب سمجھئے کہ ظہار کے کفارہ میں ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلایا جائے خواہ ایک ہی دن میں دو وقت یعنی دوپہر اور رات میں کھلا دیا جائے۔ اسی طرح کھلانے میں پیٹ بھرنے کا اعتبار ہے خواہ کتنے ہی تھوڑے کھانے میں ان کا پیٹ بھر جائے جہاں تک کھانے کی نوعیت کا سوال ہے تو اس کا انحصار کھلانے والے کی حیثیت و استطاعت پر ہے کہ وہ جیسا کھانا کھلا سکتا ہو کھلائے اگر کھانے میں جو کی روٹی ہو تو اس کے ساتھ سالن ہونا ضروری ہے البتہ گیہوں کی روٹی کے ساتھ سالن ضروری نہیں ہے اگر دو وقت ساٹھ فقیروں کو کھلانے کی بجائے ایک ہی فقیر کو ساٹھ دن تک دونوں وقت کھلائے تو بھی جائز ہے لیکن ایک ہی فقیر کو ایک ہی دن ساٹھ فقیروں کا کھانا دے دیا تو یہ جائز نہیں ہو گا اس صورت میں صرف ایک ہی دن کا ادا ہو گا۔