مشکوٰة شر یف

جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بد دعا نہ کرنے کا بیان

جس پر حد جاری کی جائے اس کے حق میں بد دعا نہ کرنے کا بیان

اس باب میں یہ بیان کیا جائے گا کہ اگر کوئی شخص کسی ایسے گناہ کا ارتکاب کرے جس کی وجہ سے وہ حد (شرعی سزا) کا مستوجب ہوتا ہو اور پھر اس پر وہ حد جاری ہو جائے تو اس کے حق میں کسی طرح کی بد دعا نہ کی جائے جیسا کہ جب ایک شخص نے ایک شراب پینے والے کے حق میں یہ بددعا کی( اخزاک اللہ) یعنی اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل و رسوا کرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کہ یوں نہ کہو بلکہ اس کے حق میں مغفرت و رحمت کی دعا کرو۔

کسی گناہگار پر لعنت بھیجنا جائز ہے

حضرت عمر فرماتے ہیں کہ ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ تھا مگر اس کی بیوقوفی کی وجہ سے اس کو حمار یعنی گدھا کہا جاتا تھا وہ اپنی حماقت آمیز باتوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو ہنسایا کرتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مرتبہ شراب پینے کے جرم میں اس پر حد جاری فرما چکے تھے پھر وہ ایک اور دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کوڑے مارنے کا حکم دیا اور اس کو کوڑے مارے گئے حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ تیری لعنت ہو، اس کو کتنی کثرت کے ساتھ بار بار شراب پینے کے جرم میں پکڑ کر لایا جاتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس پر لعنت نہ بھیجو خدا کی قسم میں یہ جانتا ہوں کہ یہ شخص اللہ اور اس کے رسول کو دوست رکھتا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ کسی گنہگار کو مخصوص کر کے اس پر لعنت بھیجنا جائز نہیں ہے نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت قرب الٰہی کا سبب ہے لہٰذا اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت رکھنے والے پر لعنت بھیجنا کسی حالت میں بھی جائز نہیں ہے کیونکہ لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور کرنا۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک ایسے شخص کو پیش کیا گیا جس نے شراب نوشی کا ارتکاب کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کی پٹائی کرو چنانچہ ہم میں سے بعض نے اس کو اپنے ہاتھ سے مارا بعض نے اپنے جوتوں سے مارا اور بعض نے اپنے کپڑے کا کوڑا بنا کر اس سے مارا جب وہ شخص واپس جانے لگا تو بعض لوگوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ تجھ کو ذلیل و رسوا کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا اس طرح نہ کہو اور اس پر غالب ہونے میں شیطان کی مدد نہ کرو۔ (بخاری)

جو مجرم سزا پاچکا ہے اس کی آبروریزی مردار کھانے کے مترادف ہے

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے بارے میں چار بار یعنی چار مجلسوں میں یہ گواہی دی (یعنی یہ اقرار کیا) کہ اس نے ایک عورت کے ساتھ بطریق زنا، جماع کیا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہر بار (اس کے اقرار کرنے پر) منہ پھیر لیتے تھے (تاکہ وہ اپنے اقرار سے رجوع کرے اور حد سے بچ جائے) اور پھر پانچویں بار اس کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ  کیا تو نے اس عورت کے ساتھ صحبت کی ہے ؟ اس نے کہا کہ  ہاں !  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (کیا تو نے اس طرح صحبت کی کہ وہ (یعنی تیرا عضو مخصوص) اس (عورت کے حصہ مخصوص) میں غائب ہو گیا ؟  اس نے کہا کہ  ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا جانتے ہو زنا کیا ہے کہا  ہاں ! میں نے اس عورت کے ساتھ حرام طور پر وہ کام کیا ہے جو ایک مرد اپنی بیوی کے ساتھ حلال طور پر کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  (اچھا یہ بتا) یہ جو کچھ تو نے کہا ہے اس سے تیرا مقصد کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ  میں چاہتا ہوں کہ آپ (مجھ پر حد جاری فرما کر) مجھ کو (اس گناہ سے) پاک کر دیجئے۔ چنانچہ (اتنی جرح کرنے کے بعد جب اس کا جرم زنا بالکل ثابت ہو گیا تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو سنگساری کا) حکم جاری فرمایا اور اس کو سنگسار کر دیا گیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ میں سے دو آدمیوں کو یہ گفتگو کرتے ہوئے سنا کہ ان میں سے ایک اپنے ساتھی سے یہ کہہ رہا تھا  اس شخص کو دیکھو، اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی کی تھی لیکن اس کے نفس نے اس کو (اپنے اقرار گناہ سے) باز نہ رکھا یہاں تک کہ وہ ایک کتے کی مانند سنگسار کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اس وقت تو ان دونوں سے کچھ نہیں کہا البتہ کچھ دیر تک چلنے کے بعد ایک مرے ہوئے گدھے کے قریب سے گزرے جس کے پاؤں (اس کا جسم بہت زیادہ پھول جانے کے سبب) اوپر اٹھے ہوئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ فلاں فلاں (یعنی وہ دونوں) شخص کہا ہیں (جنہوں نے ماعز کی اس وجہ سے تحقیر کی تھی کہ اس کو سنگسار کیا گیا تھا ) انہوں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ ! ہم دونوں (حاضر) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم دونوں اترو اور اس گدھے کا مردار گوشت کھاؤ۔ انہوں نے (بڑی حیرت کے ساتھ) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس کا گوشت کون کھاتا ہے ؟ (یعنی اس کا گوشت کھائے جانے کے قابل نہیں ہے آپ ہم سے اس کے کھانے کو کیوں فرماتے ہیں ؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم نے ابھی اپنے بھائی کی جو آبروریزی کی ہے وہ اس گدھے کا گوشت کھانے سے بھی زیادہ سخت (بری بات) ہے قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے بلا شبہ وہ (ماعز) جنت کی نہروں میں غوطے لگا رہا ہے۔ (ابو داؤد)

 

 

٭٭  اور حضرت خزیمہ ابن ثابت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی ایسے گناہ کا مرتکب ہو جو حد کو واجب کرنے والا ہو اور پھر اس پر اس گناہ کی حد جاری کی جائے مثلاً کسی شخص نے زنا کیا اور اس کے کوڑے مارے گئے، یا کسی شخص نے چوری کی اور اس کا ہاتھ کاٹا گیا) تو وہ حد اس کے اس گناہ کا کفارہ ہے (یعنی حد جاری ہونے کے بعد وہ شخص اس گناہ سے پاک وصاف ہو جائے گا) (شرح السنۃ)

جس گناہ پر سزا جاری ہو چکی ہے اس پر آخرت میں مواخذہ نہیں ہو گا

اور حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص، حد کا سزاوار ہو (یعنی کوئی ایسا گناہ کرے جس پر حد متعین ہے) اور پھر اسی دنیا میں اس کو سزا دے دی گئی (یعنی اس پر حد جاری کی گئی یا تعزیری یعنی کوئی اور سزا دی گئی تو) آخرت میں اس کو اس گناہ کی کوئی سزا نہیں دی جائے گی کیونکہ) اللہ تعالیٰ کی شان عدل یہ بعید ہے کہ وہ آخرت میں اپنے بندے کو دوبارہ سزا دے، اور جو شخص کسی حد (یعنی گناہ) کا مرتکب ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے اس گناہ کو چھپا لیا اور اس کو معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی شان کریمی سے یہ بعید ہے کہ وہ اس چیز پر دوبارہ مؤاخذہ کرے جس کو وہ معاف کر چکا ہے (ترمذی، ابن ماجہ،) ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 اور اللہ تعالیٰ نے اس کے گناہ کو چھپا لیا الخ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے ندامت و شرم ساری کے ساتھ اپنے گناہ سے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و بخشش کا طلب گار ہوا یہاں تک کہ حق تعالیٰ نے اس کے اس گناہ کی پردہ پوشی فرمائی اور اس طرح اس کو اسی دنیا میں معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ اس کی شان کریمی سے یہ امید ہے کہ آخرت میں بھی اس کو معاف کر دے۔

اپنے گناہ کی پردہ پوشی کرنا اس کو ظاہر کرنے سے بہتر ہے

جمہور علماء کا یہ مسلک ہے کہ اگر کوئی بندہ کسی گناہ کا مرتکب ہو جائے تو (اسی دنیا میں اس سزا بھگتنے کے لئے) اس کو ظاہر کرنا (یعنی حاکم کے سامنے خود اپنے گناہ کا اقرار کرنا) اگرچہ اس کے ایمان کی پختگی، اس کے قلب و احساس کی سلامتی اور اس خدا ترسی کا مظہر ہو گا لیکن اس کے حق میں زیادہ بہتر اور اولی یہی ہے کہ وہ اپنے گناہ کو چھپا کر اپنے نفس کی پردہ پوشی کرے اور اللہ تعالیٰ سے توبہ و طلب مغفرت و بخشش کرے،