مشکوٰة شر یف

جمعہ کا بیان

جمعہ کا بیان

لفظ  جمعہ جو ہفتہ کے ایک دن کا نام ہے فصیح زبان و لغت کے اعتبار سے جیم اور میم دونوں کے پیش کے ساتھ ہے لیکن جیم کے پیش اور میم کے سکون کے ساتھ بھی مستعمل ہوا ہے۔

اس دن کو جمعہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق جمع اور پوری کی گئی تھی۔ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس دن کو جمعے کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام جب بہشت سے دنیا میں اتارے گئے تو اسی دن زمین پر وہ حضرت حوا کے ساتھ جمع ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ علماء نے اور بھی وجہ تسمیہ بیان کئے ہیں چنانچہ بعض حضرات کا قول ہے کہ اس دن چونکہ تمام لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز کے لیے جمع ہوتے ہیں اس لیے اسے یوم الجمعہ کہا جاتا ہے۔

جمعہ اسلامی نام ہے زمانہ جاہلیت میں اس دن کو عروبہ کہا جاتا تھا۔ لیکن بعض علماء کی تحقیق یہ ہے کہ عروبہ بہت قدیم نام تھا مگر زمانہ جاہلیت میں یہ نام بدل گیا تھا اور اس دن کو جمعہ کہا جانے لگا تھا۔

جمعہ کا روز نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی ایک امتیازی اور شرف و فضیلت کا دن مانا جاتا تھا مگر اسلام نے اس دن کو اس کی حقیقی عظمت و فضیلت کے پیش نظر بہت ہی زیادہ با عظمت و با فضیلت دن قرار دیا۔

گذشتہ صفحات میں یہ بات بیان کی جا چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نماز سے زیادہ اور کوئی عبادت پسند نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ بندوں پر اللہ جل شانہ کی طرف سے جو بے انتہا نعمتوں کی بارش ہوتی ہے اور جن کا سلسلہ انسان کی پیدائش سے لے کر موت تک ہے۔ بلکہ پیدائش سے قبل اور موت کے بعد بھی انسان اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے ہمکنار رہتا ہے۔ اس کے ادائے شکر کے لئے ہر دن میں پانچ وقت نماز مقرر کی اور جمعے کے دن چونکہ تمام دنوں سے زیادہ نعمتیں بندوں پر نازل ہوتی ہیں۔ اس لئے اس دن ایک خاص نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ جماعت کے باب میں جماعت کی حکمتیں اور اس کے فائدے بیان کئے جا چکے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہو چکا ہے کہ جماعت میں جتنی زیادہ کثرت ہو گی اور مسلمان جتنی بڑی تعداد میں نماز کے لیے جمع ہوں گے اسی قدر ان فوائد کا زیادہ ظہور ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے۔ جب کہ محلوں کے مسلمان اور اس مقام کے اکثر لوگ ایک جگہ جمع ہو کر نماز پڑھیں چونکہ ہر روز پانچوں وقت اس قدر اجتماع لوگوں کی پریشانی و تکلیف کے پیش نظر ممکن نہیں ہوتا اس لیے شریعت نے ہفتے میں ایک دن ایسا مقرر فرما دیا جس میں مختلف محلوں اور گاؤں کے مسلمان آپس میں ایک جگہ جمع ہو کر اس عبادت کو اداء کریں اور چونکہ جمعے کا دن تمام دنوں میں سے افضل و اشرف تھا لہٰذا یہ تخصیص اسی دن کے لیے کی گئی۔

اگلی امتوں کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس دن عبادت کا حکم فرمایا تھا مگر انہوں نے اپنے تمردوسرکشی اور اپنی بد نصیبی کی بناء پر اس میں اختلاف کیا اور ان کی اس سرکشی کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اس عظیم سعادت سے محروم رہے اور یہ فضیلت و سعادت بھی اسی امت مرحومہ کے حصے میں پڑی ہے۔ یہود نے سنیچر کا دن مقرر کر لیا اس خیال سے کہ اس دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے فارغ ہوا تھا۔ عیسائیوں نے اتوار کا دن مقرر کیا۔ اس خیال سے کہ یہ دن ابتدائے آفرینش کا ہے۔

چنانچہ اب تک یہ دونوں فرقے ان دنوں میں عبادت کا بہت زیادہ اہتمام کرتے ہیں، اپنے تمام کام کاج چھوڑ کر اس دن چرچ و عبادت گاہوں میں ضرور جاتے ہیں۔ عیسائی حکومتوں میں اتوار کے دن اسی سبب سے تمام دفاتر و تعلیم گاہوں میں تعطیل ہوتی ہے۔ بعض مسلم حکومتوں کی یہ مرعوبیت اور بد نصیبی ہے کہ وہ بھی عیسائی حکومتوں کے اس خالص مذہبی طرز عمل کو بدل نہ سکیں اور اپنے ملکوں میں بجائے جمعہ کے اتوار کے دن عام تعطیل کرنے پر مجبور ہیں۔

نماز جمعہ کی فرضیت: نماز جمعہ فرض عین ہے، قرآن مجید، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے ثابت ہے اور اسلام کے شعائر اعظم میں سے ہے نماز جمعہ کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر اور اس کو بلا عذر چھوڑنے والا فاسق ہے، نماز جمعہ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے۔

 آیت (یٰٓاَیهَا الَّذِینَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِی لِلصَّلٰوةِ مِنْ یوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَیعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَیرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ      ) 62۔ الجمعہ:9) اے ایمان والو! جب نماز جمعہ کے لیے اذان کہی جائے تو تم لوگ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے  ذکر سے مراد نماز جمعہ اور اس کا خطبہ ہے۔ دوڑنے سے مراد اس نماز کے لیے نہایت اہتمام کے ساتھ جانا۔ نماز جمعہ کی فرضیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو مکہ ہی میں معلوم ہو گئی تھی، مگر غلبہ کفر کے سبب اس کے ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا تھا۔ ہجرت کے بعد مدینہ منورہ تشریف لاتے ہی آپ نے نماز جمعہ شروع کر دی۔

مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد ابن زرارہ نے اپنے اجتہاد صائب اور کشف صادق سے جمعہ کی نماز شروع کر دی تھی۔ علم الفقہ)

نماز جمعہ کے بارے میں یہاں چند باتیں عرض کر دی گئی ہیں آئندہ ابواب میں حسب موقع نماز جمعہ کے احکام و مسائل اور اس کے فضائل کو بیان کیا جاتا رہے گا۔ 

جمعہ کی فضیلت سے یہود و نصاریٰ کا اعراض

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں اور قیامت کے دن شرف و مرتبے میں سب سے آگے ہوں گے علاوہ ازیں اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری) کو اللہ کی طرف سے ہم سے پہلے کتاب دی گئی ہے اور ہمیں بعد میں کتاب ملی ہے پھر یہ دن یعنی جمعے کا دن ان (اہل کتاب) پر فرض کیا گیا تھا لیکن انہوں نے اس میں اختلاف کیا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دن (یعنی جمعہ) کے بارے میں ہماری ہدایت فرمائی بایں طور کہ ہم نے اللہ کے حکم کی فرمانبرداری کرتے ہوئے اس دن کو اللہ کی عبادت کے لیے اختیار کیا۔ اور لوگ یعنی یہود و نصاریٰ نہ صرف شرف و فضیلت بلکہ دن کے اعتبار سے بھی ہمارے تابع ہیں، یہود نے کل (یعنی جمعہ کے بعد کے دن سینچر) کو اختیار کیا اور نصاریٰ نے پرسوں (یعنی سنیچر کے بعد کا دن اتوار) اختیار کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم) اور صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یوں منقول ہے کہ دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث کے آخر میں فرمایا۔ (دنیا میں آنے کے اعتبار سے) ہم سب سے پیچھے ہیں اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے کہ ساری مخلوق سے پہلے ہمارے لیے (حساب کا اور جنت میں داخل ہونے کا) حکم کیا جائے گا۔

 

تشریح

 

 حدیث کے الفاظ  ہمیں بعد میں کتاب ملی ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ گذشتہ امتوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب پہلے نازل ہوئی ہے اور پھر سب سے بعد میں ہماری امت کو قرآن کریم سے نوازا گیا ہے مگر درحقیقت یہی چیز ہماری امت کے لیے تمام امتوں کے مقابلے میں شرف و فضیلت کی دلیل ہے کیونکہ اصولی بات ہے کہ جو کتاب بعد میں آتی ہے وہ پہلی کتاب کو منسوخ قرار دے دیتی ہے اور ظاہر ہے کہ جو کتاب پہلی کتاب کو منسوخ قرار دے گی وہ اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے تمام کتابوں پر حاوی ہو گی۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا قول نحن الاخرون بھی امت محمدیہ کی فضیلت و عظمت کے بیان کے لیے ہے۔

ارشاد فاختلفوا فیہ کی وضاحت و فائدے میں شارحین حدیث کا اختلاف ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہود و نصاریٰ پر جمعہ کے روز کو فرض کرنے سے کیا مراد ہے؟ اور یہ کہ اہل کتاب نے اس میں کیا اختلاف کیا؟

چنانچہ بعض علماء نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح مسلمانوں پر جمعے کی نماز فرض کی ہے بعینہ اسی طرح اہل کتاب پر بھی جمعہ کے روز عبادت کرنا فرض قرار دیا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ وہ اسی روز عبادت خداوندی کے لیے آپس میں جمع ہوا کریں جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے معلوم ہوتا ہے مگر انہوں نے اپنی عادت کے مطابق اس معاملے میں بھی اللہ کے حکم سے اعراض کیا اور اپنی سرکشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا جمعے کو فرض کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ نے اپنے علم میں تمہارے لیے ایک ایسا دن فرض قرار دیا ہے جس میں تم اپنے دنیوی امور سے فارغ ہو کر اور تمام کام کاج چھوڑ کر اللہ کی عبادت اور ذکر میں مشغول رہو لہٰذا تم اپنے اجتہاد اور فکری قوت سے کام لیتے ہوئے اس دن کو متعین کر لو کہ وہ کونسا دن ہے؟ گویا اس طرح اللہ تعالیٰ کی جانب سے یہ اہل کتاب کے اجتہاد و فکر کا امتحان تھا کہ آیا یہ حق اور صحیح بات دریافت کر لینے اور اس پر مطلع ہو جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟ چنانچہ یہود نے تو سنیچر کے دن کو متعین کیا اور کہا کہ یہی دن عبادت خداوندی میں اجتماعیت کے ساتھ مشغول ہونے کا دن ہے اور اسی دن کی سب سے زیادہ فضیلت ہے کیونکہ اسی دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے پیدا کرنے سے فارغ ہوا تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اس دن دنیا کے کاروبار سے فراغت حاصل کر کے عبادت میں مشغول رہیں۔

نصاریٰ نے اتوار کا دن مقرر کیا انہوں نے اس دن کو بایں طور تمام دنوں سے زیادہ افضل و برکت جانا کہ یہی دن ابتدائے آفرینش کا ہے۔ انہوں نے سوچا کہ مبداء کمالات و انعامات ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ جل شانہ مخلوق پر اپنے فیض اور اپنی نعمتوں کے ساتھ متوجہ ہوا۔ لہٰذا اس مقصد کے لیے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و پرستش بہت زیادہ کی جائے اور بندے دنیا کی مصروفیتوں سے منہ موڑ کر اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے پالنہار کی بندگی میں مصروف رہیں یہی دن سب سے زیادہ مناسب اور بہتر ہو سکتا ہے۔ .

لیکن یہود و نصاریٰ دونوں اپنے اجتہاد اور اپنی رائے میں ناکام رہے اور ان کی طبیعت اور ان کے مزاج میں چونکہ تمرد و سر کشی کا مادہ زیادہ تھا۔ سعادت و بھلائی کے نور سے ان کے قلوب پوری طرح مستفید نہ تھے اس لیے وہ اصل مقصد اور اصل دن جو اللہ کے علم میں تھا اس کو تو پہچان نہ سکے بلکہ اپنی اپنی دلیلوں کا سہارا لے کر دوسرے دنوں کو اختیار کر بیٹھے۔

بر خلاف اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایت سے نوازا اور اپنے فضل و کرم سے اصل دن یعنی جمعہ کی معرفت عطا فرمائی چنانچہ جب اللہ جل شانہ نے اس آیت (یٰٓاَیهَا الَّذِینَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِی لِلصَّلٰوةِ مِنْ یوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَذَرُوا الْبَیعَ ۭ ذٰلِكُمْ خَیرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ      ) 62۔ الجمعہ:9) کے ذریعے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جمعہ کو اللہ کی عبادت کی جائے تو اس کے ساتھ انہیں اس حکم کی بجا آوری کی توفیق بھی عطا فرمائی اور اس امت کو اس مرحلے پر بھی تمرد و سر کشی اور خود ساختہ دلیلوں کے ذریعے گمراہ نہیں کیا چنانچہ مسلمانوں نے اللہ کے اس حکم کے آگے گردن اطاعت جھکا دی اور ایک سچی فرمانبردار امت ہونے کے ناطے جمعہ ہی کے دن کو اللہ کی عبادت و بندگی کے لیے اختیار کر لیا۔

 لوگ ہمارے تابع ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا روز چونکہ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کا دن ہونے کی وجہ سے نسل انسانی کے لیے مبداء اور انسانی زندگی کا سب سے پہلا دن ہے اس لیے اس دن عبادت کرنے والے عبادت کے اعتبار سے متبوع اور اس کے بعد کے دو دن یعنی سنیچر و اتوار کو عبادت کرنے والے تابع ہوئے۔

اسی بناء پر یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے۔ کہ شرعاً اور اصولاً جمعے کا دن ہی ہفتہ کا پہلا دن ہے۔ لیکن تعجب ہے کہ عرف عام اس کے برخلاف ہے۔ 

 

جمعہ کی فضیلت سے یہود و نصاریٰ کا اعراض

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ان دنوں میں سے کہ جن میں آفتاب طلوع ہوتا ہے سب سے بہتر دن جمعہ ہے اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے۔ (یعنی ان کی تخلیق مکمل ہوئی) اسی دن وہ بہشت میں داخل ہوئے اور اسی دن انہیں بہشت سے نکالا گیا (اور زمین پر اتارا گیا) اور قیامت بھی جمعہ ہی کے روز قائم ہو گی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے پہلے جملے کے ذریعے بطور مبالغہ جمعے کے دن کی فضیلت ظاہر کرنا مقصود ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل دن جمعہ ہے کیونکہ ایسا کوئی بھی دن نہیں ہے جس میں آفتاب طلوع نہ ہو۔ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش کا دن ہونے کی وجہ سے جمعہ کے دن کی فضیلت تو ظاہر ہے لیکن بہشت سے نکلنے کا دن ہونے کی وجہ سے جمعہ کی فضیلت اس لیے ہے کہ دراصل حضرت آدم علیہ السلام کا جنت سے نکل کر زمین پر آنا انبیاء اور اولیاء کی پیدائش کا سبب اور ان کی مقدس زندگیوں سے بے شمار احسانات کے ظہور کا باعث ہوا۔ ایسے ہی حضرت آدم علیہ السلام کی موت بارگاہ رب العزت میں ان کی حاضری کا سبب ہوئی اسی طرح قیامت کا قائم ہونا جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے جس میں پرہیز گاروں اور نیکو کاروں سے اللہ تعالیٰ کے کیے گئے وعدے ظاہر ہوں گے۔

 قیامت قائم ہونے سے مراد یا تو پہلا صور ہے کہ جس کی آواز سے زمین و آسمان فنا ہو جائیں گے اور پوری دنیا موت کی آغوش میں پہنچ جائے گی یا دوسرا صور بھی مراد لیا جا سکتا ہے جو تمام مخلوق کو دوبارہ زندہ کرنے اور انہیں احکم الحاکمین کی بارگاہ میں حساب کے لیے پیش کرنے کے واسطے پھونکا جائے گا۔

علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ تمام دنوں میں سے عرفہ کا دن افضل ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ جمعہ کا روز افضل ہے۔ جیسا کہ اس حدیث سے مفہوم ہوتا ہے لیکن یہ اختلاف و تضاد اس صورت میں ہے جب کہ مطلقاً یہ کہا جائے کہ دنوں میں سب سے افضل دن عرفہ ہے یا اسی طرح کہا جائے کہ جمعے کا دن سب سے افضل دن ہے اور اگر دونوں اقوال کا مفہوم اس طرح لیا جائے کہ جو حضرات عرفہ کی افضلیت کے قائل ہیں ان کی مراد یہ ہے کہ سال میں سب سے افضل دن عرفہ ہے اور جو حضرات فرماتے ہیں کہ جمعہ سب سے افضل دن ہے ان کی مراد یہ ہے کہ ہفتے کے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے۔

اس طرح نہ صرف یہ کہ دونوں اقوال میں کسی تطبیق اور تاویل کی ضرورت نہیں رہے گی بلکہ دونوں اقوال اپنی اپنی جگہ صحیح اور قابل قبول ہوں گے ہاں اگر حسن اتفاق سے عرفہ (یعنی ذی الحجہ کی نویں تاریخ) جمعے کے روز ہو جائے تو نور علی نور کہ یہ دن مطلقاً تمام دنوں میں سب سے زیادہ افضل ہو گا اور اس دن کیا جائے والا عمل تمام اعمال میں افضل ہو گا۔ یہی وجہ سے کہ خوش قسمتی سے اگر حج جمعے کے روز ہوتا ہے تو اس کو حج اکبر کہتے ہیں۔ کیونکہ جو حج جمعے کے دن ہوتا ہے وہ فضیلت و مرتبے کے اعتبار سے جمعے کے علاوہ دوسرے ایام میں ادا ہونے والے ستر حجوں پر بھاری ہوتا ہے۔

جمعہ کی فضیلت و عظمت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ ابن مسیب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک جمعہ نفل حج سے زیادہ محبوب ہے۔

جامع صغیر میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت مرفوعاً منقول ہے کہ جمعہ حج المساکین ہے۔ 

جمعے کے دن ساعت قبولیت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جمعے کے دن ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جسے اگر کوئی بندہ مومن پائے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی کا سوال کرے تو خدا اس کو وہ بھلائی عطا کر دیتا ہے۔ (یعنی اس ساعت میں مانگی جانے والی دعا ضرور مقبول ہوتی ہے) بخاری و مسلم کی ایک روایت میں صحیح مسلم نے یہ الفاظ مزید نقل کئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ساعت بہت تھوڑی ہوتی ہے۔ اور

صحیح البخاری و صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ منقول ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلاشک و شبہ جمعہ کے روز ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جسے اگر کوئی بندہ مومن جو نماز کے لیے کھڑا ہو پالے اور اللہ سے بھلائی کے لیے دعا کرے تو اس کو اللہ وہ بھلائی ضرور عطا فرما دیتا ہے۔

 

تشریح

 

  جمعہ کے روز ایک خاص ساعت ہے جس میں بندے کی جانب سے پروردگار کے سامنے پیش کی جانے والی ہر درخواست منظور ہوتی ہے مگر وہ ساعت متعین اور ظاہر نہیں ہے بلکہ اسے پوشیدہ رکھا گیا ہے یہ نہیں بتا گیا گیا کہ وہ ساعت کب آتی ہے اور اسے پوشیدہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ لوگ اس ساعت کی امید میں پورا دن عبادت میں مشغول رہیں اور جب وہ ساعت آئے تو ان کی عبادت و درخواست خاص ساعت میں واقع ہو۔

علامہ جزری فرماتے ہیں کہ  قبولیت کی جو ساعات منقول ہیں ان سب میں جمعے کے روز کی ساعت قبولیت میں مطلب برآوری اور دعا کے قبول ہونے کی امید بہت زیادہ ہوتی ہے۔

اعطاہ ایاہ کا مطلب یا تو یہ ہے کہ بندہ اس مقبول ساعت میں دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرتا ہے بایں طور پر کہ اس کا مقصد دنیا ہی میں پورا کر دیتا ہے یا قبولیت دعا کی یہ صورت ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی مصلحت اور بندہ کی بہتری کے لیے دنیا میں تو اس کی دعا کا کوئی اجر ظاہر نہیں فرماتا بلکہ وہ اس کے لیے ذرخیرہ آخرت ہو جاتی ہے کہ وہاں اس کا ثواب اسے دیا جائے گا۔

لفظ قائم یصلی کے معنی یہ ہیں کہ  نماز پابندی اور مداومت کے ساتھ پڑھتا ہو یا یہ معنی ہیں کہ دعا پر مواظبت و مزاولت کرتا ہو، یا یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ  نماز کا انتظار کرتا ہو۔ یہ تاویلات اس لیے کی گئی ہیں تاکہ تمام روایات میں مطابقت ہو جائے۔ 

جمعے کے دن ساعت قبولیت کب آتی ہے

اور حضرت ابی بردہ ابن ابی موسیٰ راوی ہیں کہ میں نے اپنے والد مکرم (حضرت ابو موسی) سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو جمعے (کے دن) کی ساعت قبولیت کے بارے میں فرماتے ہوئے سنا ہے کہ وہ ساعت (خطبے کے لیے) امام کے منبر پر بیٹھنے اور نماز پڑھی جانے تک کا درمیانی عرصہ ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

جمعے کے روز قبولیت دعا کی ساعت منقول ہے اور اس کی حقیقت میں کسی کو کوئی شبہ نہیں ہے لیکن علماء کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ وہ ساعت کونسی ہے؟ یعنی وہ کونسا وقت ہے جس میں ساعت قبولیت آتی ہے؟ چنانچہ بعض علماء کی تحقیق تو یہ ہے کہ شب قدر کی ساعت قبولیت اور اسم اعظم کی طرح جمعہ کے روز کی ساعت قبولیت بھی مبہم یعنی غیر معلوم ہے بعض حضرات کی رائے یہ ہے کہ وہ ساعت ہر جمعے کو بدلتی رہتی ہے کسی جمعے کو تو دن کے ابتدائی حصے میں آتی ہے کسی جمعے کو درمیانی حصے میں اور اسی طرح کسی جمعے کو دن کے آخری حصے میں آتی ہے لیکن اکثر علماء کا کہنا یہ ہے کہ وہ ساعت متعین اور معلوم ہے لیکن اس میں بھی اختلاف ہے کہ اگر وہ ساعت متعین اور معلوم ہے تو کونسی ساعت ہے۔ اور وہ کونسا وقت ہے جس میں یہ عظیم و مقدس سات پوشیدہ ہے۔ اس بارے میں پینتیس اقوال منقول ہیں:

(١) جمعے کے روز فجر کی نماز کے لیے مؤذن کے اذان دینے کا وقت۔

(٢) فجر کے طلوع ہونے سے آفتاب کے طلوع ہونے تک کا وقت۔

(٣) عصر سے آفتاب غروب ہونے تک کا وقت۔

(٤) خطبے کے بعد امام کے منبر سے اترنے سے تکبیر تحریمہ کہنے جانے تک کا وقت۔

(٥) آفتاب نکلنے کے بعد فوراً بعد کی ساعت۔

(٦) طلوع آفتاب کا وقت۔

(٧) ایک پہر باقی دن کی آخری ساعت۔

(٨) زوال شروع ہونے سے آدھا سایہ ہو جانے تک کا وقت۔

(٩) زوال شروع ہونے سے ایک ہاتھ سایہ آ جانے تک کا وقت۔

(١٠) ایک بالشت آفتاب ڈھلنے کے بعد سے ایک ہاتھ آفتاب ڈھل جانے تک کا وقت۔

(١١) عین زوال کا وقت۔

(١٢) جمعے کی نماز کے لیے موذن جب اذان کہے وہ وقت۔

(١٣) زوال شروع ہونے سے نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک کا وقت۔

(١٤) زوال شروع ہونے سے امام کے نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک کا قت۔

(١٥) زوال آفتاب تک کا وقت۔

(١٦) خطبے کے لیے امام کے منبر پر چڑھنے سے نماز جمعہ شروع ہونے تک کا وقت۔

(١٧) امام کے نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک کا وقت۔

(١٨) خطبے کے لیے امام کا منبر پر چڑھنے اور ادائیگی نماز کے درمیان کا وقت۔

(١٩) اذان سے ادائیگی نماز کے درمیان کا وقت۔

(٢٠) امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز پوری ہو جانے تک کا وقت۔

(٢١) خرید و فروخت کے حرام ہونے اور ان کے حلال ہونے کے درمیان کا وقت یعنی اذان کے وقت سے نماز جمعہ ختم ہو جانے تک۔

(٢٢) اذان کے قریب کا وقت۔

(٢٣) امام کے خطبہ شروع کرنے اور خطبہ ختم کرنے تک کا وقت۔

(٢٤) خطبے کے لیے امام کے منبر پر چڑھنے اور خطبہ شروع کرنے کا درمیانی وقت۔

(٢٥) دونوں خطبوں کے درمیان امام کے منبر سے اترنے کا وقت۔

(٢٦) نماز کے لئے تکبیر شروع ہونے سے امام کے مصلے پر کھڑے ہونے تک کا وقت۔

(٢٧) خطبہ سے فراغت کے بعد امام کے منبر سے اترنے کا وقت۔

(٢٨) تکبیر شروع ہونے سے اختتام نماز تک کا وقت۔

(٢٩) جمعہ کی نماز سے فراغت کے فوراً بعد کا وقت۔

(٣٠) عصر کی نماز سے غروب آفتاب تک کا وقت۔

(٣١) نماز عصر کے درمیان کا وقت۔

(٣٢) عصر کی نماز سے (غروب آفتاب سے پہلے) نماز کا آخری وقت مستحب رہنے تک کا وقت۔

(٣٣) مطلقاً نماز عصر کے بعد کا وقت۔

(٣٤) نماز عصر کے بعد کی آخری ساعت۔

(٣٥) اور وہ وقت جب کہ آفتاب ڈوبنے لگے۔

منقول ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ، حضرت فاطمہ الزہرا اور تمام اہل بیت نبوت رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنے خادموں کو متعین کرتے تھے کہ وہ ہر جمعے کے روز آخری گھڑی کا خیال رکھیں اور اس وقت سب کو یاد دلائیں تاکہ وہ سب اس گھڑی میں پروردگار کی عبادت، اس کے فکر اور اس سے دعا مانگنے میں مشغول ہو جائیں۔

یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس کے متعلق بلقینی سے پوچھا گیا کہ خطبے کے وقت دعا کیونکر مانگی جائے کیونکہ یہ حکم ہے کہ جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو اس وقت خاموشی اختیار کی جائے۔

اس کے جواب میں انہوں نے فرمایا کہ  دعا کے لیے تلفظ شرط نہیں ہے بلکہ اپنے مقصودو مطلوب کا دل میں دھیان رکھنا کافی ہے یعنی دعا کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ دعا کے الفاظ زبان سے ادا کئے جائیں بلکہ یہ بھی کافی ہے کہ دل ہی دل میں دعا مانگ لی جائے اس طرح مقصود بھی حاصل ہو جائے گا اور خطبے کے وقت خاموش رہنے کے شرعی حکم کے خلاف بھی نہیں ہو گا۔

حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ  یہ بات مجھے معلوم ہوئی ہے کہ جمعے کی شب میں بھی مانگی جانے والی دعا قبول ہوتی ہے۔ 

 

جمعے کے دن ساعت قبولیت کب آتی ہے

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) میں کوہ طور کی طرف گیا، اور وہاں کعب احبار سے ملاقات کی میں ان کے پاس بیٹھ گیا انہوں نے میرے سامنے تو رات کی کچھ باتیں کیں اور میں نے ان کے سامنے سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیثیں بیان کیں میں نے ان کے سامنے جو احادیث بیان کیں ان میں سے ایک حدیث یہ بھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دنوں میں جن میں آفتاب طلوع ہوتا ہے سب سے بہتر دن جمعے کا ہے، جمعے کے دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے۔ اسی روز وہ جنت سے (زمین پر) اتارے گئے، اسی دن (یعنی جس جمعہ کو جنت سے اتارے گئے) اسی جمعہ کو آخری گھڑی میں یا یہ کہ کسی دوسرے جمعے کے دن ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی دن ان کی وفات ہوئی اور جمعہ ہی کے دن قیامت قائم ہو گی اور ایسا کوئی چوپایہ نہیں ہے جو جمعے کے دن طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک قیامت قائم ہونے کا منتظر نہ رہا ہو (یعنی چو پاؤں کو بھی یہ معلوم ہے کہ قیامت جمعے کے روز آئے گی) اس لیے وہ ہر جمعے کو دن بھر اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں آج ہی قیامت قائم نہ ہو جائے، علاوہ جنات اور انسانوں کے (یعنی جن و انس کو اس انتظار سے غافل رکھا گیا ہے تاکہ اس ہولناکی سے انسانی زندگی کا شیرازہ منتشر نہ ہو جائے) اور جمعے کے دن ایک ایسی ساعت آتی ہے کہ جسے کوئی بندہ مسلمان کہ وہ (حکماً یا حقیقتاً) نماز پڑھتا ہوا ہو۔ (یعنی نماز کا انتظار کرتا ہوا ہو یا دعا مانگتا ہوا ہو) اسے پالے اور اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اسے وہ چیز ضرور دی جاتی ہے (یعنی وہ اس وقت جو دعا مانگتا ہے قبول ہوتی ہے) کعب احبار نے (یہ سن کر) کہا کہ یہ دن (جو ساعت قبولیت کو اپنے دامن میں چھپائے ہوئے ہوتا ہے) سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ میں نے کہا کہ نہیں!یہ دن تو ہر ہفتے میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ کعب نے (اس بات کی تصدیق کے لیے) تورات پڑھی اور (اس کے بعد) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سچ کہا ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ (اس کے بعد پھر) میں حضرت عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے کعب سے اپنی ملاقات کا تذکرہ کیا اور جمعے کے بارے میں کعب سے میں نے جو حدیث بیان کی تھی وہ بھی بتائی پھر میں نے عبداللہ ابن سلام سے یہ بھی کہا کہ کعب کہتے تھے کہ یہ دن سال میں ایک مرتبہ آتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ کعب نے غلط کہا۔ پھر میں نے کہا کہ لیکن کعب نے بعد میں تورات پڑھی اور کہا کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کہنا ٹھیک ہی ہے کہ) یہ ساعت ہر جمعہ کے روز آتی ہے۔ عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ کعب نے یہ سچ کہا۔ اور پھر کہنے لگے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ کونسی ساعت ہے؟ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر مجھ کو بتلائیے اور بخل سے کام نہ لیجئے۔ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا کہ وہ جمعہ کے دن کی آخری گھڑی میں ہے۔ میں نے کہا کہ وہ ساعت جمعہ کے دن کی آخری گھڑی کیونکر ہو سکتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ جو بندہ مومن اس ساعت کو پائے اور وہ اس میں نماز پڑھتا ہوا ہو؟ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ ساعت جمعہ کے دن کی آخری گھڑی ہے اس وقت تو نماز نہیں پڑھی جاتی کیونکہ مکروہ ہے؟ حضرت عبداللہ ابن سلام نے فرمایا (یہ تو صحیح ہے لیکن) کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے؟ کہ جو آدمی نماز کی انتظار میں اپنی جگہ بیٹھا رہے تو وہ حکماً) نماز ہی کے حکم میں ہے یہاں تک کہ وہ حقیقتاً نماز پڑھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔ کہ میں نے (یہ سن کر کہا کہ ہاں ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ فرمایا ہے۔ حضرت عبد اللہ بن سلام نے فرمایا۔ بس نماز سے مراد نماز کا انتظار کرنا ہے۔ (اور ان کے آخری حصے میں نماز کے انتظار میں بیٹھنا ممنوع نہیں ہے اس وقت اگر کوئی دعا مانگے تو وہ قبول ہو گی) مالک، سنن ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور امام احمد نے بھی یہ روایت صدق کعب تک نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ حین تصبح حتی طلع الشمس کا مطلب یہ ہے کہ قیامت چونکہ جمعے کے روز طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک کے درمیانی عرصہ میں ہی قائم ہو گی اس لیے چوپائے ہر جمعے کے روز اس عرصہ میں قیامت کے قائم ہونے کے منتظر رہتے ہیں۔ لہٰذا اس پورے وقت میں جب حیوان قیامت کا خیال رکھتے ہیں اور اس سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ تو انسانوں کو بطریق اولیٰ یہ چاہیے کہ وہ جمعے کے روز دن بھر اللہ کی عبادت اور اس کے ذکر میں مشغول رہیں اور اس چیز سے جو پیش آنے والی ہے (یعنی قیامت سے) ڈرتے رہیںَ

یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک اعجاز شان کی غمازی کر رہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے امی ہونے کے باوجود اس عظیم الشان چیز کی خبر دی جو یہود میں توراۃ کے ایک بڑے عالم سے بھی پوشیدہ تھی حالانکہ توراۃ میں اس کا ذکر موجود تھا۔ گویا توراۃ کا عالم توراۃ میں ذکر کی گئی چیز سے بے خبر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو امی تھے اس سے پوری طرح باخبر درحقیقت یہ بڑا زبردست معجزہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بظاہر تو امی تھے مگر خدا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سینے میں علم و معرفت کا بحر بیکراں موجزن کر رکھتا تھا۔

کعب احبار یہودیوں میں ایک بڑے پائے کے عالم اور بہت دانشمند مانے جاتے تھے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا زمانہ تو پایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے تھے بعد میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے زمانے میں اسلام کی نعمت سے مشرف ہوئے۔ حضرت عبداللہ ابن سلام بھی یہودیوں کے بڑے عالم تھے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانے ہی میں اسلام لا کر صحابیت کے شرف عظیم سے مشرف ہو گئے تھے رضی اللہ عنہ۔ 

 

جمعے کے دن ساعت قبولیت کب آتی ہے

٭٭ اور حضرت انس راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، جمعے کے دن کی اس ساعت کو کہ جس میں قبولیت دعا کی امید ہے عصر کے بعد سے غروب آفتاب تک تلاش کرو۔ (جامع ترمذی)

فضائل جمعہ

حضرت اوس بن اوس راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جمعہ کا دن تمہارے لیے بہترین دنوں میں سے ہے۔ (کیونکہ) اس دن آدم علیہ السلام کی تخلیق کی گئی اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن (دوسرا) صور پھونکا جائے گا۔ (جس کی آواز سے مردے زندہ ہو کر میدان حشر میں جمع ہوں گے۔)) اسی دن (پہلا) صور پھونکا جائے گا (جس کی آواز سے قیامت قائم ہو گی اور تمام مخلوق فنا کے گھاٹ اتر جائے گی) لہٰذا اس دن تم لوگ مجھ پر زیادہ درود بھیجو کیونکہ تمہارے درود میرے سامنے پیش کئے جائینگے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہمارے درود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کس طرح پیش کئے جائیں گے۔ جب کہ (ہمارے درود بھیجے کے وقت) آپ کی ہڈیاں بوسیدہ ہو چکی ہوں گی؟ راوی فرماتے ہیں کہ لفظ ارمت سے صحابہ کی مراد لفظ بلیت تھی یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا جسد مبارک بوسیدہ ہو چکا ہو گا۔ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے انبیاء کرام کے جسم حرام کر دئیے ہیں۔ (یعنی انبیاء کے جسم زمین فنا نہیں کرتی۔ (سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی، بیہقی)

 

تشریح

 

 ارشاد ان میں افضل ایامکم یوم الجمعۃ اس طرف اشارہ کر رہا ہے کہ یا تو عرفہ کا دن سب دنوں میں سے افضل ہے یا پھر عرفہ اور جمعہ دونوں دن فضیلت کے اعتبار سے مساوی ہیں۔

جمعے کے دن بہت زیادہ درود بھیجنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لیے حکم دیا ہے کہ درود افضل عبادات میں سے ہے اور چونکہ جمعہ کے دن ہر نیکی کا ثواب ستر درجہ زیادہ ملتا ہے اس لیے جمعے کے دن درود پڑھنا اولیٰ ہو گا۔ یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ جمعے کے دن اور جمعہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر درود بھیجنے کے وقت بہت زیادہ فضائل دوسری احادیث سے بھی ثابت ہیں اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ حق تعالیٰ کی جانب سے ایک عظیم الشان نعمت ہے لہٰذا جمعہ کے دن اور جمعہ کی شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بہت زیادہ درود بھیجا جائے اور اس سے غافل نہ رہا جائے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح زمین دوسرے مردوں کے ساتھ معاملہ کرتی ہے کہ چند ہی دنوں کے بعد ان کے اجسام زمین کے نذر ہو جاتے ہیں اور گل سڑ جاتے ہیں ایسا معاملہ انبیاء کے مبارک اجسام کے ساتھ نہیں ہوتا نہ تو ان کے اجسام فنا ہوتے ہیں نہ گلتے سڑتے ہیں۔ بلکہ وہ جوں کے توں قبروں میں دنیا کی طرح زندہ رہتے ہیں اور حق تعالیٰ کی جانب سے انہیں وہاں حیات جسمانی حقیقی عنایت فرمائی جاتی ہے۔ چنانچہ یہ مسئلہ بالکل صاف اور واضح ہے اور اس میں کسی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ انبیاء اپنی اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور انہیں بالکل دنیا کی طرح حقیقی جسمانی حیات حاصل ہے نہ کہ انہیں حیات معنوی روحانی حاصل ہے جیسا کہ شہداء کو حاصل ہوتی ہے۔ اگرچہ شہداء کے علاوہ دوسرے مردے بھی اپنی قبروں میں سلام کلام سنتے ہیں اور بعض ایام میں ان کے اقرباء کے اعمال بھی ان کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں۔ 

 

فضائل جمعہ

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دن موعود قیامت کا دن ہے مشہور عرفہ کا دن ہے اور شاہد جمعہ کا دن ہے۔ آفتاب کسی ایسے دن طلوع و غروب نہیں ہوتا جو جمعہ کے دن سے افضل ہو (یعنی جمعہ کا دن سب سے افضل ہے) اس دن ایک ایسی ساعت آتی ہے جسے اگر کوئی بندہ مومن پالے اور اس میں اللہ تعالیٰ سے بھلائی مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور بھلائی دیتا ہے یا جس چیز سے پناہ مانگے تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پناہ دیتا ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ایک آدمی موسیٰ بن عبیدہ کے اور کسی سے (اس کا نقل ہونا) معلوم نہیں ہوتا اور یہ (موسیٰ محدثین کے ہاں روایت میں) ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔ (احمد بن حنبل و جامع ترمذی)

 

تشریح

 

 سورہ بروج کی آیت ہے:

آیت (وَالْیوْمِ الْمَوْعُوْدِ           ۝ۙ         وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْد      ٍ) 85۔ البروج:2)

 اور قسم ہے اس دن کی جس کا وعدہ ہے اور حاضر ہونے والے کی اور جو اس کے پاس حاضر کیا جائے اس کی۔

اس آیت کی تفسیر یہ حدیث یہاں کر رہی ہے کہ یوم موعود سے مراد قیامت کا دن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے آنے کی خبر دی ہے اور مومنوں سے اس دن کے آنے کے بعد بہشت کی نعمتوں کا وعدہ کیا ہے۔

 شاہد سے مراد جمعے کا دن ہے کہ جو مخلوق کے پاس حاضر ہوتا ہے اور ہر ہفتہ آتا رہتا ہے۔

 مشہود سے مراد عرفہ کا دن ہے کہ تمام عالم سے مسلمان اور ملائکۃ اللہ اس دن حاضر ہوتے ہیں اور ایک جگہ جمعہ ہوتے اگرچہ امام ترمذی نے کہا ہے کہ اس حدیث کے راوی موسیٰ کو روایت حدیث کے سلسلے میں ضعیف کہا جاتا ہے لیکن یہ حدیث اپنی جگہ پر اس لیے قابل اسناد و قابل قبول ہے کہ اس متون کی دوسری حدیثیں جو دوسرے رایوں سے مروی ہیں اس حدیث کو تقویت دیتی ہیں۔ 

 

فضائل جمعہ

٭٭ حضرت ابو لبابہ ابن عبدا لمنذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جمعے کا دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنوں کا سردار ہے اور تمام دنوں کا سردار ہے اور تمام دنوں میں سب سے زیادہ با عظمت ہے اور اللہ کے نزدیک جمعے کے دن کی عظمت عید اور بقر عید کے دن سے بھی زیادہ ہے اور اس دن کی پانچ باتیں ہیں۔ (جو اس کی عظمت و فضیلت کی دلیل ہیں۔ (١) اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی (٢) اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمین پر اتارا (٣) اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو وفات دی (٤) اسی دن ایک ساعت آتی ہے کہ اس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے حرام چیز کے سوا جو کچھ بھی مانگتا ہے اللہ تعالیٰ ضرور عنایت فرماتا ہے یعنی حرام چیز مانگنا مقبول نہیں ہے (٥) اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔ تمام مقرب فرشتے آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور دریا سب جمعہ کے دن سے ڈرتے رہتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ قیامت جمعہ کے دن آنی ہے نہ معلوم کس وقت آ جائے۔ (سنن ابن ماجہ) اور امام احمد نے حضرت سعد ابن معاذ سے اس طرح نقل کیا ہے کہ ایک انصاری صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ مجھے جمعے کے بارے میں بتائیے کہ اس دن کی کیا خوبیاں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس دن کی پانچ باتیں ہیں باقی حدیث آخر تک اسی طرح نقل کی ہے (جو اوپر ذکر کی گئی ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث کے لافاظ وھو اعظم عند اللہ من یوم الاضحیٰ ویوم الفطر سے معلوم ہوتا ہے کہ یا تو عرفہ کا دن جمعے سے افضل ہے یا فضیلت کے اعتبار سے یہ دونوں دن مساوی ہیں لیکن حضرت رزین کی نقل کردہ روایت میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ تمام دنوں میں سب سے افضل دن عرفے کا دن ہے۔

وفیہ خمس اور اس دن کی پانچ باتیں ہیں جمعہ کے فضائل کے بیان میں تحدید اور حصر کے لیے نہیں فرمایا گیا جس کا مطلب یہ ہو کہ جمعے کے دن کی صرف یہی پانچ باتیں فضیلت کی ہیں بلکہ اس دن کی اور بھی ایسی باتیں ہیں جو فضلیت و عظمت کے اعتبار سے جمعے کو تمام دنوں میں امتیاز بخشتی ہیں مثلاً منقول ہے کہ جنت میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کا شرف بھی جمعے کے دن حاصل ہوا کرے گا یا اسی طرح دوسری باتیں منقول ہیں۔ 

جمعہ کی وجہ تسمیہ

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ جمعہ کا نام جمعہ کس سبب سے رکھا گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس وجہ سے کہ اس دن تمہارے باپ آدم کی مٹی جمع کی گئی اور اس کا خمیر بنایا گیا۔ اس دن (پہلا) صور پھونکا جائے گا (کہ اس کی آواز سے تمام دنیا والے مر جائیں گے) اور (دوسرا) صور پھونکا جائے گا (کہ اس کی آواز سے تمام مردے دوبارہ زندہ ہو جائیں گے) اور اس دن(قیامت) کی سخت داروگیر ہو گی نیز اس دن کے آخر کی تین ساعتوں میں ایک ایسی ساعت ہے (یعنی جمعے کی آخری ساعت) کہ اس وقت جو کوئی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے اس کی دعا قبول ہو گی۔ (احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اس دن کا نام جمعہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا ایسی عظیم الشان چیزیں اس دن میں جمع کر دی گئی ہیں۔

لیکن یہ بات بھی مخفی نہ رہے کہ قطع نظر اس بات کے کہ یہ تمام باتیں بہ ہیئت مجموعی  جمعہ کی وجہ تسمیہ کو ظاہر کرتی ہیں ان میں سے ہر ایک خود بھی اپنی اپنی جگہ جمعیت اور اجتماعیت کے مفہوم پر حاوی ہیں۔ 

جمعہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کثرت سے درود بھیجنا چاہیے

اور حضرت ابودرداء راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جمعے کے دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ جمعے کا دن مشہود (یعنی حاضر کیا گیا ہے) اس دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں اور جو آدمی بھی مجھ پر درود بھیجتا ہے اس کا درود میرے سامنے (بذریعہ مکاشفہ یا بذریعہ ملائکہ) پیش کیا جاتا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اس سے فارغ ہوتا ہے۔ ابودرداء کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر) عرض کیا کہ مرنے کے بعد بھی درود آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کئے جائیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء کے اجسام کا کھانا حرام کیا ہے چنانچہ اللہ کے نبی (اپنی اپنی قبر میں بالکل دنیا کی حقیقی زندگی کی طرح) زندہ ہیں اور رزق دئیے جاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 یہ حدیث حضرت عبداللہ ابن عباس کی تفسیر کی تائید کرتی ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ میں (وَالْیوْمِ الْمَوْعُوْدِ         ۝ۙ  وَشَاهِدٍ وَّمَشْهُوْدٍ       ۝ۭ) 85۔ البروج:2) میں مشھود سے مراد جمعے کا دن ہے جب کہ پہلے گزرنے والی حدیث نمبر ٨ حضرت علی المرتضیٰ کی تفسیر کی موید ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ شاہد سے مراد جمعے کا دن ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔ اگرچہ یہاں بھی  مشہود سے یوم جمعہ مراد لینا بایں اعتبار کہ اسی دن ملائکہ حاضر ہوتے ہیں۔ حضرت علی المرتضیٰ کی تفسیر کے منافی نہیں ہے تاہم یہ احتمال بھی قوی تر ہے کہ حدیث کے الفاظ میں  فَاِنَّہ کی ضمیر جمعے کی طرف نہیں بلکہ کثرت درود کی طرف راجع ہے جو کہ لفظ  اکثر وا  سے مفہوم ہوتا ہے اس طرح حدیث کے معنی یہ ہوں گے جمعے کے روز مجھ پر کثرت سے درود بھیجو کیونکہ کثرت درود مشہودہ (یعنی فرشتوں کے حاضر ہونے کا سبب) ہے۔

عُرِضَتْ صَلٰوتُہ کا مطلب یہ ہے کہ یوں تو ہمیشہ ہی جب مجھ پر کوئی آدمی درود بھیجتا ہے تو اس کا درود میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے مگر جمعہ کا دن چونکہ سب سے افضل دن ہے اس لیے جمعہ کے دن بھیجا جانے والا درود بطریق اولیٰ میرے سامنے پیش کیا جاتا ہے اگرچہ درود بھیجنے کی مدت کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو چنانچہ حَتَّی یَفْرُغَ فرما کر اس طرف اشارہ فرما دیا گیا ہے کہ جب تک درود پڑھنے والا خود ہی فارغ نہ ہو جائے یا درود پڑھنا ترک نہ کر دے اس وقت تک پوری مدت کے درود برابر میرے سامنے پیش کئے جاتے رہتے ہیں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد سن کر حضرت ابودرداء یہ سمجھے کہ شاید یہ حکم ظاہری حالت یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دنیاوی زندگی ہی سے متعلق ہے چنانچہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں جب سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ زمین پر انبیاء کے اجسام کھانا حرام ہے یعنی جس طرح دوسرے مردوں کے جسم قبر میں فنا ہو جاتے ہیں۔ اس طرح انبیاء کے جسم قبر میں فنا نہیں ہوتے بلکہ وہ اپنی اصلی حالت میں موجود رہتے ہیں اس لیے انبیاء کے لیے فنا حالت یعنی دنیا کی ظاہری زندگی اور موت میں کوئی فرق نہیں ہے جس طرح وہ یہاں ہیں اسی طرح وہاں ہیں اسی لیے کہا گیا ہے۔

اَوْلِیَا ءَ اللہ لَا یَمُوْتُوْنَ وَلٰکِنْ یَنْتَقِلُوْنَ مِنْ دَارْاِلَی دَارٍ۔

 اللہ کے دوست اور حقیقی بندے مرتے نہیں وہ تو صرف ایک مکان سے دوسرے مکان کو منتقل ہو جاتے ہیں۔

لہذا جس طرح یہاں دنیا کی زندگی میں میرے سامنے درود پیش کئے جاتے ہیں اسی طرح میری قبر میں بھی میرے سامنے درود پیش کئے جاتے رہیں گے۔

حدیث کے آخری الفاظ حتی یرزق کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء کو اپنی اپنی قبروں میں حق تعالیٰ کی طرف سے معنوی رزق دیا جاتا ہے اور  رزق سے اگر رزق حسی مراد لیا جائے تو یہ حقیقت کے منافی نہیں ہو گا بلکہ صحیح ہی ہو گا۔ کیونکہ جب شہداء کی ارواح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جنت کے میوے کھاتی ہیں تو انبیاء شہداء سے بھی اشرف و اعلیٰ ہیں اس لیے ان کے لیے بھی یہ بات بطریق اولیٰ ثابت ہو سکتی ہے کہ وہ اپنی قبروں میں رزق حسی دئیے جاتے ہوں

جمعے کو مرنے والے مومن کے لیے خوشخبری

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ایسا کوئی مسلمان نہیں ہے جو جمعے کے دن یا جمعے کی رات انتقال کرے اور اللہ تعالیٰ اسے فتنے (یعنی قبر کے سوال اور قبر کے عذاب) سے نہ بچائے۔ (احمد بن حنبل، جامع ترمذی) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اس کی اسناد متصل نہیں ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ کسی خوش قسمت مسلمان کا جمعے کے روز یا جمعے کی شب میں انتقال کرنا درحقیقت اس کی سعادت اور آخرت کی بھلائی کی دلیل ہے کیونکہ جمعہ کی مقدس ساعتوں میں انتقال کرنے والا آدمی اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں اور اس کی نعمتوں سے نوازا جاتا ہے چنانچہ جمعے کو انتقال کرنے والے مسلمانوں کے حق میں بہت زیادہ خوشخبری منقول ہیں۔

مثلاً ایک روایت میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو مسلمان جمعہ کے دن مرتا ہے وہ عذاب قبر سے نجات دیا جاتا ہے اور وہ قیامت کے دن اس حال میں (میدان حشر میں) آئے گا کہ اس کے اوپر شہیدوں کی مہر ہو گی۔

یا ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی جمعے کے دن مرتا ہے اس کے لیے شہید کا اجر و ثواب لکھا جاتا ہے اور وہ قبر کے فتنے سے بچایا جاتا ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ  جس مسلمان مرد یا عورت کا انتقال جمعہ کے روز یا جمعہ کی شب میں ہوتا ہے تو اسے فتنہ قبر اور عذاب قبر سے بچایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کی ملاقات اس حال میں ہو گی کہ قیامت کے دن اس سے کوئی محاسبہ نہیں ہو گا کیونکہ اس کے ساتھ گواہ ہوں گے جو اس کی سعادت و بھلائی کی گواہی دیں گے یا اس پر شہداء کی مہر ہو گی۔ 

جمعہ مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک دن) یہ آیت پڑھی آیت (اَلْیوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِینَكُمْ) 5۔ المائدہ:3)  جس کا مضمون یہ ہے کہ آج کے دن ہم نے تمہارے لیے دین مکمل کر دیا تمہارے اوپر اپنی تمام نعمتیں پوری کر دیں اور ہم نے تمہارے لیے از روئے دین اسلام کو پسند کیا ہے) ان کے پاس (اس وقت) ایک یہودی (بیٹھا ہوا) تھا اس نے (عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ آیت سن کر) کہا کہ اگر یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس کو (یعنی اس دن کو جس میں یہ آیت نازل ہوئی تھی) عید قرار دیتے۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ آیت دو عیدوں کے دن یعنی حجۃ الوداع کے موقع پر جمعہ اور عرفہ کے دن نازل ہوئی ہے امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

تشریح

 

 یہودی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر یہ آیت ہم پر اترتی تو اتنی عظیم الشان نعمت کی خوشی اور اس کے شکرانے کے طور پر ہم اس کو بڑی عید کا دن مناتے۔ مگر تعجب ہے کہ مسلمانوں نے اس دن کو یادگار اور عید کا دن قرار نہیں دیا؟ اس کے جواب میں حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ خود ہی اس آیت کو ایک ایسے دن نازل فرمایا جو ایک نہیں دو عیدوں پر حاوی تھا تو پھر ہمیں اس دن کو یادگار دن قرار دینے کی کیا ضرورت تھی۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو آخری حج ادا فرمایا تھا وہ جمعے کا دن تھا۔ گویا ایک تو جمعہ ہونے کی وجہ سے خود وہ دن افضل و اشرف تھا مزید یہ کہ وہ دن عرفہ (یعنی حج) ہونے کے سبب سے اس کی فضیلت و عظمت کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا اور اسی دن یہ آیت نازل ہوئی اور ظاہر ہے کہ اپنی عظمت و فضیلت کے اعتبار سے مسلمانوں کے لیے اس سے بڑا عید کا دن اور کون سا ہو سکتا ہے۔ 

جمعے کی رات روشن رات اور جمعے کا دن چمکتا دن ہے

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رجب کا مہینہ آتا تو سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! رجب اور شعبان کے مہینے (کی ہماری اطاعت و عبادات) میں ہمیں برکت دے اور ہمیں رمضان تک پہنچا نیز حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جمعہ کی رات روشن رات ہے اور جمعے کا دن چمکتا دن ہے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

 اور ہمیں رمضان تک پہنچا  کا مطلب یہ ہے کہ  اے خدایا! ہمیں یہ سعادت بخش کہ پورا رمضان پائیں اور رمضان کے تمام دنوں میں ہمیں روزے رکھنے اور نماز تراویح پڑھنے کی توفیق ہو۔

جمعے کے دن اور جمعے کی رات کی نورانیت معنوی یا تو بالذات ہوتی ہے یا پھر یہ کہ جمعے کے دن اور جمعے کی رات جو عبادت کی جاتی ہے اس کی برکت اور اس کے سبب سے معنوی نورانیت پیدا ہوتی ہے۔ 

جمعے کے واجب ہونے کا بیان

جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ جمعہ کی نماز فرض عین ہے چنانچہ یہاں وجوب سے مراد فرض ہے۔

علامہ یحییٰ فرماتے ہیں کہ نماز جمعہ فریضہ محکمہ ہے جو قرآن کریم، احادیث رسول اور اجماع امت سے ثابت ہے۔ نماز جمعہ کی فرضیت کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے قرآن کریم کی جس آیت سے جمعہ کی فرضیت ثابت ہے اس کے الفاظ (فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ) 62۔ الجمعہ:9) میں ذکر سے مراد جمعے کی نماز اور اس کا خطبہ ہے۔ 

نماز جمعہ ترک کرنے کی وعید

حضرت عبداللہ ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما دونوں راوی ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے منبر کی لکڑی (یعنی اس کی سیٹرھیوں) پر یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ لوگ نماز جمعہ کو چھوڑنے سے باز رہیں ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا اور وہ غافلوں میں شمار ہونے لگیں گے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں میں سے ایک چیز مقرر ہے یا تو نماز جمعہ کونہ چھوڑنا، یا دلوں پر مہر لگ جانا، اگر لوگ نماز جمعہ نہیں چھوڑیں گے تو ان کے دلوں پر مہر نہ لگے گی اور اگر چھوڑ دیں گے تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی جائے گی۔

 دلوں پر مہر لگانا  اس بات سے کنایہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے بدبخت لوگوں کے دلوں کو انتہائی غفلت میں مبتلا کر دے گا اور انہیں نصیحت و بھلائی قبول کرنے سے باز رکھے گا۔ جس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ ان کے حق میں یہی نکلے گا کہ ایسے لوگ اللہ کے سخت عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے۔ 

 

نماز جمعہ ترک کرنے کی وعید

٭٭ حضرت ابی الجعد ضمیری راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو آدمی محض سستی و کاہلی کی بنا پر تین جمعے چھوڑ دے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگائے دے گا۔ (سنن ابوداؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ، دارمی اور مالک نے اس روایت کو صفوان ابن سلیم سے اور امام احمد نے ابی قتادہ سے نقل کیا ہے)

بغیر عذر نماز چھوڑنے کی صورت میں صدقہ دینا چاہیے

اور حضرت سمرۃ ابن جندب راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی بغیر کسی عذر کے جمعہ چھوڑ دے تو چاہیے کہ ایک دینار صدقہ دے اور اگر ایک دینار میسر نہ ہو تو آدھا دینار دے۔ (احمد بن حنبل، سنن ابوداؤد، ابن ماجۃ)

جمعے کی اذان سننے والے پر نماز جمعہ واجب ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی (جمعہ کی) اذان سنے اس پر جمعہ کی نماز واجب ہو جاتی ہے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی آدمی جمعہ کی اذان سنے تو اس کے لیے جمعہ کی تیاری کرنا اور جمعہ کی نماز کے لیے جانا واجب ہے۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اگر اس حدیث کو علی الاطلاق اس کے ظاہری معنی پر محمول کیا جائے گا تو اس سے بڑے اشکالات پیدا ہوں گے اس لیے مناسب یہ ہے کہ اس حدیث کا مفہوم یہ لیا جائے کہ جمعہ اس آدمی پر واجب ہے جو کسی ایسی جگہ ہو جہاں اس کے اور شہر کے درمیان بقدر آواز پہنچنے کا فاصلہ ہو یعنی اگر کوئی شہر میں پکارے تو جہاں وہ ہے وہاں آواز پہنچ جائے۔

شرح منیہ میں ذکر کیا گیا ہے کہ  جمعہ اس آدمی پر لازم ہے جو شہر کے اطراف میں کسی ایسی جگہ ہو کہ اس کہ اور شہر کے درمیان فاصلہ نہ ہو بلکہ ملے ہوئے مکانات ہوں (اگرچہ وہ اذان کی آواز نہ سنے) اور اگر اس کے اور شہر کے درمیان کھیت اور چراگاہ وغیرہ حائل ہونے کی وجہ سے فاصلہ ہو تو اس پر جمعہ واجب نہیں اگرچہ وہ اذان سنے۔ مگر امام محمد سے منقول ہے کہ اگر وہ اذان کی آواز سنے تو اس پر جمعہ واجب ہو گا۔ فتوی حضرت امام محمد کے قول ہی پر ہے۔ 

 

جمعے کی اذان سننے والے پر نماز جمعہ واجب ہے

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جمعے کی نماز اس آدمی پر فرض ہے جو رات اپنے گھر بسر کر سکے۔ (امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا کہ اس حدیث کی اسناد ضعیف ہے۔) 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جمعہ ایسے آدمی پر واجب ہے جس کی جائے سکونت اور اس مقام کے درمیان کہ جہاں نماز جمعہ پڑھی جاتی ہے اتنا فاصلہ ہو کہ نماز جمعہ کے بعد بآسانی رات ہونے سے پہلے پہلے اپنے گھر لوٹ کر آ سکے اور رات اپنے اہل و اعیال کے ساتھ گزار سکے۔ 

وہ لوگ جن پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے

اور حضرت طارق ابن شہاب راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جمعہ حق ہے اور جماعت کے ساتھ ہر مسلمان پر واجب ہے علاوہ چار آدمیوں کے غلام جو کسی کی ملک میں ہو عورت بچہ اور مریض (ان پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے)

 

تشریح

 

 جمعہ حق ہے یعنی جمع کی فرضیت کتاب اللہ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعے ثابت ہے اسی طرح واجب ہے کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان پر علاوہ مذکورہ اشخاص کے جمعے کی نماز با جماعت فرض ہے۔

مذکورہ لوگوں پر جمعہ کیوں واجب نہیں: غلام چونکہ دوسرے کی ملکیت اور تصرف میں ہوتا ہے اس لیے اس پر جمعہ فرض نہیں کیا گیا۔ عورت پر جمعہ اس لیے فرض نہیں ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس کے ذمہ خاوند کے حقوق اتنے زیادہ متعلق ہیں کہ نماز جمعہ میں شمولیت ان کی ادائیگی سے مانع ہو گی، بلکہ جمعے کی نماز میں چونکہ مردوں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے اس لیے نماز جمعہ میں عورتوں کی شمولیت بہت سے فتنے فساد کا موجب بن سکتی ہے بچہ چونکہ غیر مکلف ہے اس لیے اس پر جمعہ فرض نہیں۔ اسی طرح مریض پر اس کی ضعف و ناتوانی اور دفع ضرر کے سبب جمعہ فرض نہیں ہے لیکن مریض سے مراد وہ مریض ہے جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے جمعے میں حاضر ہونا دشوارو مشکل ہو۔

ان کے علاوہ دوسری احادیث سے جن لوگوں پر جمعہ کا فرض نہ ہونا ثابت ہے ان میں دیوانہ بھی ہے جو بچے کے حکم میں ہے ایسے ہی مسافر، اندھے اور لنگڑے پر بھی جمعہ فرض نہیں ہے ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا ہے کہ ایسا بوڑھا جس کو ضعف و ناتوانی لاحق ہو بیمار کے حکم میں ہے اس لیے اس پر اور اس معذور پر بھی جو اپنے پیروں پر چل سکنے پر قادر نہ ہو جمعہ فرض نہیں نیز ایسے تیمار دار پر بھی جمعہ فرض نہیں جس کے جمعے میں چلے جانے کی وجہ سے بیمار کی تکلیف و وحشت بڑھ جانے یا اس کے ضائع ہو جانے کا خوف ہو۔ 

 

وہ لوگ جن پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے

٭٭ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کے بارے میں جو نماز جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں (یعنی نماز جمعہ نہیں پڑھتے) فرمایا کہ میں سوچتا ہوں کہ میں کسی آدمی سے کہوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور پھر میں (جا کر) ان لوگوں کے گھر بار جلا دوں جو (بغیر عذر) کے جمعہ چھوڑ دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث میں ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید ہے، جو بلا کسی عذر اور مجبوری کے نماز جمعہ نہیں پڑھتے ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اس حدیث سے عبرت حاصل کریں اور نماز جمعہ کبھی بھی نہ چھوڑ یں۔ 

 

وہ لوگ جن پر نماز جمعہ واجب نہیں ہے

٭٭ اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی بغیر کسی عذر کے نماز جمعہ چھوڑ دیتا ہے وہ ایسی کتاب میں منافق لکھا جاتا ہے جو نہ کبھی مٹائی جاتی ہے اور نہ تبدیل کی جاتی ہے  اور بعض روایات میں یہ ہے کہ  جو آدمی تین جمعے چھوڑ دے (یہ وعید اس کے لیے ہے)۔ (شافعی)

 

تشریح

 

 من غیر ضرورۃ کا مطلب یہ ہے کہ ترک جماعت کے جو عذر ہیں مثلاً کسی ظالم اور دشمن کا خوف، پانی برسنا، برف پڑنا یا راستے میں کیچڑ وغیرہ کا ہونا وغیرہ وغیرہ اگر ان میں سے کسی عذر کی بنا پر جمعہ کی نماز کیلئے نہ جائے تو وہ منافق نہیں لکھا جائے گا ہاں بغیر کسی عذر اور مجبوری کے جمعہ چھوڑنے والا منافق لکھا جائے گا۔

فی کتبا لا یمحی ولا یبدل میں کتاب سے مراد  نامہ اعمال ہے حاصل یہ ہے کہ نماز جمعہ چھوڑنے والا اپنے نامہ اعمال میں کہ جس میں نہ تنسیخ ممکن ہے اور نہ تغیر و تبدل، منافق لکھ دیا جاتا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھ نفاق جیسی ملعون صفت ہمیشہ کے لیے چپک کر رہ جاتی ہے تاکہ آخرت میں یا تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اسے عذاب میں مبتلا کر دے یا اپنے فضل و کرم سے درگزر فرماتے ہوئے اسے بخش دے غور و فکر کا مقام ہے کہ نماز جمعہ چھوڑنے کی کتنی شدید وعید ہے؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے عذاب سے محفوظ رکھے۔ 

نماز جمعہ چھوڑنے والا کچھ اپنا ہی کھوتا ہے

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعے کے دن نماز جمعہ فرض ہے علاوہ مریض مسافر، عورت بچے اور غلام کے (کہ ان پر جمعہ فرض نہیں ہے (لہٰذا جو آدمی کھیل کود اور تجارت وغیرہ میں مشغول ہو کر نماز جمعہ سے بے پروائی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے بے پرواہ اور تعریف کیا گیا ہے۔ (دار قطنی)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو آدمی کھیل کود، تجارت اور دنیا کی دوسری مشغولیتوں میں منہمک ہو کر نماز جمعہ کی پرواہ نہیں کرتا اور نماز جمعہ چھوڑنے کا اسے کوئی احساس نہیں ہوتا تو وہ اپنا ہی کچھ کھوتا ہے اور اپنا ہی کچھ نقصان کرتا ہے کیونکہ ایسے آدمی سے اللہ تعالیٰ بھی بے پروائی اختیار کر لیتا ہے اور اس پر اپنی عنایت و مہربانی اور کرم نہیں کرتا اور جس بد نصیب پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم اور اس کی مہربانی نہ ہو دین و دنیا دونوں جگہ اس کی تباہی و بربادی کے بارے میں کس کم بخت کو شبہ ہو سکتا ہے؟

پاکی حاصل کرنے اور جمعہ کے لیے سویرے جانے کا بیان

پاکی حاصل کرنے سے مراد ہے غسل کے ذریعے بدن پاک کرنا اور لبوں (مونچھوں) کا کتروانا، ناخن کٹوانا، زیر ناف بال صاف کرنا بغل کے بال دور کرنا، کپڑوں کا پاک کرنا اور خوشبو استعمال کرنا، جمعے کے دن یہ تمام چیزیں سنت ہیں اس کی تفصیل کتاب الطہارت میں مسواک کے بیان میں گزر چکی ہے۔

 جمعہ کے لیے سویرے جانے سے مراد ہے مسجد یا جہاں نماز ادا کی جاتی ہو وہاں جمعہ کے لیے نماز کے اول وقت پہنچ جانا۔ اگر کوئی آدمی نماز جمعہ کے لیے مسجد میں دن کے اول وقت میں ہی پہنچ جائے تو یہ افضل ہے چنانچہ امام غزالی نے بعض علماء سلف سے یہ معمول نقل کیا ہے کہ وہ عبادت کی طرف پیش روی اختیار کرنے کے جذبہ سے نماز جمعہ کے لیے جمعہ کے دن صبح ہی سے مسجد پہنچ جایا کرتے تھے۔ مگر اتنی بات ذہن نشین رہنی چاہیے۔ کہ مسجد نبوی میں نماز پڑھنے والوں نے جو یہ معمول بنایا ہے کہ وہ جمعہ کے روز صبح سویرے ہی مسجد مقدس میں جگہ روکنے کے لیے اپنے اپنے مصلی بچھا دیتے ہیں مگر وہاں بیٹھتے نہیں بلکہ چلے جاتے ہیں اور پھر نماز کے وقت آ جاتے ہیں۔ تو اس کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ اگر ایسے لوگ وہاں بیٹھ کر ذکر و فکر میں مشغول رہیں تو بہتر ہے ورنہ محض جگہ روکنے کی خاطر مصلی بچھا کر چلے جانا مناسب نہیں کیونکہ اس سے لوگوں کو تنگی ہوتی ہے۔

اس لیے مناسب معلوم ہوا کہ جامع مسجد میں جگہ روکنے کے لیے اول وقت پہنچ کر اپنے اپنے کپڑے بچھا دینا اور پھر وہاں سے کھانا وغیرہ کھانے کے لیے گھر چلے جانا مناسب نہیں ہے۔ 

نماز جمعہ کے آداب

حضرت سلمان راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو آدمی جمعے کے دن نہائے اور جس قدر ہو سکے پاکی حاصل کرے اور اپنے پاس سے (یعنی گھر میں جو بلا تکلف میسر ہو سکے) تیل ڈالے اور اپنے گھر سے عطر لگائے اور پھر مسجد کے لیے نکلے اور (مسجد پہنچ کر) دو آدمیوں کے درمیان فرق نہ رکے اور پھر جتنی بھی اس کے مقدر میں ہو (یعنی جمعے کی سنت نوافل یا قضاء نماز پڑھے اور امام کے خطبہ پڑھتے وقت خاموش رہے تو اس جمعے اور گذشتہ جمعے کے درمیان کے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

  اور جس قدر ہو سکے پاکی اختیار کرے کا مطلب یہ ہے کہ لبیں کتروائے، ناخن کٹوائے، زیر ناف کے بال صاف کرے بغلوں کے بال دور کرے اور پاک و صاف کپڑے پہنے۔

 دو آدمیوں کے درمیان فرق نہ کرے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر مسجد میں باپ بیٹا یا ایسے دو آدمی جو آپس میں محبت و تعلق رکھتے ہوں ایک جگہ پاس بیٹھے ہوں تو ان کے درمیان نہ بیٹھے یا دو آدمیوں کے درمیان اگر جگہ نہ ہو تو وہاں نہ بیٹھے کہ انہیں تکلیف ہو گی ہاں اگر جگہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔

یا  فرق نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ لوگوں کو پھلانگتا ہوا۔ ؟ صفوں کو چیرتا پھاڑتا آگے کی صفوں میں نہ جائے بلکہ جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جائے اور اگر بغیر پھلانگے اور بغیر صفوں کے چیرے پھاڑے پہلی صف میں پہنچ سکتا ہے تو آگے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں یہ حکم اس صورت کا ہے جب کہ آگے کی صفوں میں جگہ نہ ہو۔ ہاں اگر یہ سمجھتا ہے کہ اگر میں آگے کی صفوں میں جاؤں گا تو لوگ مجھے وہاں بیٹھنے کی جگہ دیدیں گے یا یہ کہ اگلی صفوں میں جگہ خالی پڑی ہو تو پھر صفوں کو چیر پھاڑ کر بھی آگے جانا درست ہو گا کیونکہ یہ پچھلی صفوں میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا قصور ہے کہ وہ آگے بڑھ کر پہلی صفوں میں کیوں نہیں بیٹھتے اور خالی جگہ کو پر کیوں نہیں کرتے۔

در حقیقت یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ نماز جمعہ کے لیے اول وقت مسجد پہنچ جانا چاہے۔ تاکہ وہاں فرق نہ کرنے اور صفوں کو چیرنے پھاڑنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ 

 

نماز جمعہ کے آداب

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے غسل کیا پھر جمعہ میں آیا اور جس قدر کہ اس کے نصیب میں تھی نماز پڑھی پھر امام کے خطبے سے فارغ ہونے تک خاموش رہا اور اس کے ساتھ نماز پڑھی تو اس جمعے سے گذشتہ جمعے تک بلکہ اس سے تین دن زیادہ کے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

  تین دن کی زیادتی اس لیے ہے کہ ہر نیکی کا ثواب دس گنا زیادہ ہوتا ہے لہٰذا جمعے سے جمعہ تک تو سات دن ہوئے اور تین دن کا اسی میں اضافہ کر دیا گیا تاکہ دہائی پوری ہو جائے۔ 

 

نماز جمعہ کے آداب

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی نے وضو کیا اور اچھا وضو کیا (یعنی آداب وضو کی رعایت کے ساتھ) پھر جمعہ میں آیا اور (اگر نزدیک تھا تو) خطبہ سنا اور (اگر دور تھا اور خطبہ نہ سن سکتا تھا) تو خاموش رہا تو اس (جمعے) کے اور گذشتہ جمعے کے درمیان بلکہ اس سے بھی تین دن زیادہ کے اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس نے کنکریوں کو چھوا اس نے لغو کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

  کنکریوں کو چھوا  یعنی نماز میں کنکریوں سے شغل کیا بایں طور کے سجدے کی جگہ برابر کرنے کے لیے انہیں ایک مرتبہ سے زیادہ برابر کیا  بعض حضرات فرماتے ہیں کہ  اس سے مراد یہ ہے کہ خطبے کے وقت کنکریوں سے کھیلتا رہا۔

 لغو کے معنی باطل اور بے فائدہ بات  لہٰذا نمازی کے کنکریوں سے کھیلنے یا کنکریوں کو چھونے کو لغو کے ساتھ مشابہت اس لیے دی گئی ہے کہ یہ فعل خطبہ سننے سے مانع ہوتا ہے۔ 

جمعہ میں اول وقت آنے والے کی فضیلت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب جمعے کا دن آتا ہے تو فرشتے مسجد کے دروازے پر آ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ جو آدمی مسجد میں اول وقت آتا ہے پہلے وہ اس کا نام لکھتے ہیں پھر اس کے بعد پہلے آنے والوں کا نام لکھتے ہیں اور جو آدمی مسجد میں اول (وقت) جمعہ میں آتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کوئی آدمی مکہ میں قربانی کے لیے اونٹ بھیجتا ہے۔ (کہ جس کا بہت زیادہ ثواب ہوتا ہے) پھر اس کے بعد جو آدمی جمعہ میں آتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی آدمی مکہ میں قربانی کے لیے گائے بھیجتا ہے۔ پھر اس کے بعد جو آدمی آتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی آدمی دنبہ بھیجتا ہے پھر اس کے بعد جو آدمی آتا ہے اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کوئی صدقہ میں مرغی دیتا ہے پھر اس کے بعد جو آدمی آتا ہے وہ صدقہ میں انڈا دینے والے کی مانند ہوتا ہے اور جب امام (خطبے کے لیے منبر پر) آتا ہے تو وہ اپنے صحیفے لپیٹ لیتے ہیں اور خطبہ سننے لگتے ہیں۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی حصے کا مطلب یہ ہے کہ جمعے کے دن یا تو صبح ہی سے یا طلوع آفتاب یا پھر (جیسا کہ بہتر اور راحج قول ہے۔) زوال کے وقت سے مسجد کے دروازے پر فرشتے آ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور جب ترتیب سے نمازی آتے ہیں اسی ترتیب سے ان کا نام لکھتے رہتے ہیں اس طرح جو لوگ اول وقت مسجد میں آتے ہیں ان کا نام سب سے پہلے ہوتا ہے گویا وہ سب سے افضل ہوتے ہیں۔ اور جو لوگ بعد میں آتے ہیں ان کا نام بعد میں لکھا جاتا ہے اسی طرح وہ لوگ اول وقت آنے والوں کی بہ نسبت کم فضیلت والے شمار کئے جاتے ہیں۔ اور یہ فرشتے ان فرشتوں کے علاوہ ہوتے ہیں۔ جو بندوں کے اعمال لکھنے پر مامور ہیں۔ 

خطبہ کے وقت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ممنوع ہے

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جمعہ کے دن جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو تو اگر تم نے اپنے پاس بیٹھے ہوئے آدمی سے یہ بھی کہا  چپ رہو تو تم نے بھی لغو کام کیا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 خطبہ کے وقت چونکہ کسی بھی قسم کے کلام اور گفتگو کی اجازت نہیں ہے۔ اس لیے اس وقت ایسے آدمی کو جو گفتگو کر رہا ہو خاموش ہو جانے کے لیے کہنا بھی اس حدیث کے مطابق  لغو ہے اس سے معلوم ہوا کہ خطبہ کے وقت مطلقاً کلام اور گفتگو ممنوع ہے اگرچہ وہ کلام و گفتگو امر بالمعروف (اچھی بات کے کرنے) اور نہی عن المنکر) بری بات سے روکنے ہی سے متعلق کیوں نہ ہو۔ ہاں اس وقت یہ فریضہ اشارہ کے ذریعے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن زبان سے کہنے کی اجازت نہیں ہے۔

خطبے کے وقت خاموشی اختیار کر نے کا مسئلہ: جب امام خطبہ پڑھ رہا ہو اس وقت خاموش رہنا اکثر علماء کے نزدیک واجب ہے امام ابو حنیفہ بھی انہیں میں شامل ہیں۔ بعض علماء کے نزدیک مستحب ہے چنانچہ امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے لیکن مذاہب لدنیہ میں لکھا ہے اس مسئلہ میں امام شافعی کے دو قول ہیں ایک قول وجوب کا ہے اور دوسرا استحاب کا، امام ابوحنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ جس وقت امام خطبے کے لیے چلے اس وقت بھی نماز شروع کرنا یا کلام کرنا دونوں ممنوع ہیں اگر کوئی آدمی نماز (مثلاً سنت وغیرہ) پڑھ رہا ہو اور امام خطبہ شروع کر دے تو اس آدمی کو دو رکعت پوری کر کے نماز توڑ دینی چاہیے، مگر حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک امام کے خطبے کے لیے چلنے اور خطبہ شروع کرنے کے درمیان اسی طرح اس کے خطبہ ختم کرنے کے بعد سے تکبیر تحریمہ شروع ہو جانے تک کلام کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ کراہیئت کلام اس وجہ سے ہے کہ کلام میں مشغول رہنے والا آدمی خطبہ نہیں سن سکتا اور ظاہر ہے کہ یہ مواقع خطبہ سننے کے نہیں ہیں اس لیے ایسے اوقات میں کلام کرنا جائز ہے۔

مگر حضرت امام ابو حنیفہ ان دونوں کی ممانعت کی یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ حدیث ہے اذا خرج الا مام فلا صلوۃ ولا کلام (جب امام خطبہ کے لیے چلے تو اس وقت نہ نماز جائز ہے اور نہ کلام) نیز صحابہ کے اقوال بھی اسی طرح ہیں۔ اور صحابی کے قول کو حجت اور دلیل قرار دینے میں نہ صرف یہ کہ کوئی شک و شبہ نہیں ہے بلکہ قول صحابی کی تقلید و پیروی واجب ہے علماء نے لکھا ہے کہ خطبے کے وقت صاحب ترتیب کے لیے قضا نماز پڑھنی مکروہ نہیں ہے۔

اس آدمی کے بارے میں جو امام سے دور ہو اور خطبے کی آواز اس تک نہ پہنچ رہی ہو علماء کے مختلف اقوال ہیں لیکن صحیح اور مختار قول یہ ہے کہ وہ آدمی بھی گفتگو و کلام نہ کرے بلکہ اس کے لیے بھی خاموش رہنا واجب ہے۔

خطبہ کے وقت کے آداب: علماء نے صراحت کی ہے کہ جس وقت امام خطبہ پڑھ رہا ہو اس وقت کھانا پینا یا کتابت وغیرہ دنیوی امور میں مشغول ہونا حرام ہے سلام اور چھینک کا جواب دینا بھی مکروہ ہے اس سلسلہ میں در مختار میں ایک کلمہ لکھا گیا ہے۔ کُلُّ شَیْئٍ حُرِّمَ فِیْ الصَّلٰوۃِ حُرِّمَ فِیْ الْخُطْبَۃِ یعنی جو چیزیں نماز میں حرام ہیں وہ خطبے کے وقت بھی حرام ہیں۔ خطبے کے وقت درود بھی زبان سے نہیں بلکہ دل میں کہہ لیا جائے۔ خطبے کے وقت کسی آدمی کو اس کی خلاف شرع حرکت سے روکنا زبان سے تو مکروہ ہے لیکن ہاتھ یا آنکھ کے اشارے سے اسے منع کر دینا مکروہ نہیں ہے۔

بہر حال اس حدیث کی باب سے وجہ مناسبت یہ ہے کہ اس باب کا مقتضی یہ ہے کہ جمعے کو صبح سویرے جانا ثواب کی زیادتی کا باعث ہے اور کوئی آدمی صبح سویرے سے مسجد پہنچ گیا مگر اس نے وہاں امام کے خطبہ پڑھتے وقت کسی کو زبان سے نصیحت کی تو گویا اس سے ایک لغو کام صادر ہوا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سویرے سے مسجد میں پہنچ جانے کا ثواب جاتا رہا۔ لہٰذا اسے چاہیے کہ جمعہ کی نماز کے لیے مسجد میں صبح سویرے پہنچ جائے اور وہاں ایسی کوئی حرکت نہ کی جائے جس سے ثواب جاتا رہے۔ 

مسجد میں کسی کو اس کی جگہ سے نہ ہٹانا چاہیے

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے کوئی آدمی جمعے کے دن (جامع مسجد میں پہنچ کر) اپنے مسلمان بھائی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھائے اور وہاں خود بیٹھنے کا ارادہ نہ کرے۔ ہاں (لوگوں سے) یہ کہہ دے کے (بھائیو) جگہ کشادہ کر دو۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مسئلہ یہ ہے کہ کسی آدمی کو ہٹا کر اس کی جگہ پر اس کی رضا کے بغیر بیٹھنا حرام ہے اور اگر رضا حاصل ہو تو وہ بھی حقیقۃ ہونی چاہیے۔ نہ کہ کسی خوف و حیا کی وجہ سے ہو اس طرح اگر کوئی آدمی کسی کو پہلے سے مسجد میں بھیج دے تاکہ وہ وہاں اس کے لیے جگہ روک لے تو اس آدمی کو بھی اس جگہ سے اٹھانا حرام ہے۔ کیونکہ کوئی آدمی بھی محض کسی کو بھیج کر جگہ رکوا لینے سے مسجد وغیرہ جیسی مقدس جگہوں کا حقدار نہیں ہوتا۔ بلکہ جو آدمی جس جگہ بیٹھا ہوا ہے وہ اس جگہ پہلے پہنچ جانے کی وجہ سے اس کا سب سے زیادہ حقدار ہے اگرچہ وہاں پہنچنے پر اس کی ہی نیت کیوں نہ ہو کہ جس آدمی نے مجھے بھیجا ہے اس کے لیے میں جگہ روک رہا ہوں اور یہاں وہی آدمی آ کر بیٹھے گا چنانچہ خود اس آدمی کے لیے اپنی جگہ سے اپنے بھیجنے والے کے لیے اٹھنا اور اس کے ساتھ اس سلسلہ میں ایثار کا معاملہ کرنا مکروہ ہے۔ بشرطیکہ وہ آدمی اس سے فضیلت میں کم درجے کا ہو یعنی اگر کوئی اس سے زیادہ افضل ہو تو اس کے ساتھ ایثار کا معاملہ کرنا مکروہ نہیں ہے اور اس کے لیے وہاں سے اٹھنا مکروہ اس لیے ہے کہ عبادات میں بلاعذر مکروہ ہے۔

جہاں تک اس آیت (وَیؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِهِمْ) 59۔ الحشر:9) کا تعلق ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کرنے والوں کی فضیلت بیان فرمائی ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں وہ ایثار مراد ہے جس کا تعلق حظ نفس (یعنی طبع ضروریات و خواہشات) سے ہو۔

اب تو غالباً کہیں یہ دستور نہیں ہے مگر پہلے زمانے میں بعض اصحاب ثروت و دولت جن کی زندگی کا بنیادی مقصد دوسروں پر ظلم کرنا تھا اپنے خادموں اور ملازموں کو جامع مسجد میں بھیجتے تھے اور وہاں پہنچ کر پہلے سے بیٹھے ہوئے کمزور و غریب لوگوں کو مار مار کر اور دھکے دے دے کر اٹھا دیتے تھے اور اپنے آقاؤں کے لیے جگہ بنا لیتے تھے اسی زمانے کے کسی عارف سے اس غلط طریقے کے بارے میں جب کہا گیا تو انہوں نے نہایت تاسف کے ساتھ یہ عارفانہ مقولہ ارشاد فرمایا کہ  جب ان کی عبادت کا یہ حال ہے تو ان کے ظلم و گناہ کا کیا عالم ہو گا؟

افسحوا (جگہ کشادہ کرو) اس طرح اس وقت کہنا چاہے جب کہ جگہ میں کشادگی کی گنجائش ہو ورنہ بصورت دیگر یہ بھی نہیں کہنا چاہے اور نہ لوگوں کو تنگ کرنا چاہے بلکہ جہاں بھی جگہ مل جائے وہیں نماز پڑھ لے اگرچہ مسجد کے دروازوں ہی میں جگہ کیوں نہ ملے۔

باب کے ساتھ حدیث کی مناسبت یہ ہے کہ اس حدیث میں یہ رغبت دلائی جا رہی ہے کہ نماز پڑھنے والا جامع مسجد میں صبح سویرے پہنچ جائے تاکہ کسی کو اٹھانے ہٹانے کی ضرورت نہ پڑے۔ 

جمعے کے روز عمدہ لباس زیب تن کرنا چاہیے

اور حضرت ابو سعید اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرتاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی جمعے کے دن غسل کرے عمدہ لباس پہنے اور اگر میسر ہو تو خوشبو لگائے پھر جمعہ میں آئے اور وہاں کے لوگوں کی گردنوں پر نہ پھلا نگے پھر جتنی اللہ نے اس کے مقدر میں لکھ رکھی ہو نماز پڑھے اور جب امام (خطبے کے لیے) چلے تو خاموشی اختیار کرے یہاں تک کہ نماز سے فراغت حاصل کرے تو یہ اس کے اس جمعہ اور اس پہلے جمعہ کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا۔ (ابوداؤد)۔

 

تشریح

 

عمدہ لباس سے مراد سفید کپڑے ہیں۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو سفید کپڑے ہی پسند تھے۔ 

جامع مسجد پیدل جانا افضل ہے

اور حضرت اوس بن اوس راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی جمعے کے دن نہلائے اور خود نہائے، صبح سویرے (جامع مسجد) جائے (تاکہ) شروع سے خطبہ پالے اور پیدل جائے، سوار نہ ہو اور امام کے قریب بیٹھے اور خطبے سنے نیز یہ کہ کوئی بیہودہ بات زبان سے نہ نکالے تو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزوں اور راتوں کی عبادت کا ثواب لکھا جائے گا۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ،)

 

تشریح

 

غسل (نہلانے) کا مطلب یہ ہے کہ اپنی بیوی کو نہلائے اور اس سے مراد یہ ہے کہ اپنی بیوی سے صحبت کرے تاکہ اس کے نہانے کا باعث ہو یا یہ مراد ہے کہ اپنے کپڑے صاف کرائے اور دھلوائے یا اپنا سر خطمی وغیرہ سے دھوئے جمعے کے روز اپنی بیوی سے ہم بستری بہتر اس لیے ہے کہ اس سے زنا کا خطرہ دل میں پیدا نہیں ہوتا اور نماز میں حضور قلب حاصل ہوتا ہے۔

اس حدیث میں لفظ  مشی کے بعد  لم یرکب کی قید کا مقصد اس بات کا ظاہر کرتا ہے کہ تمام راستہ یا پیادہ چلے بالکل سوار نہ ہو۔ چونکہ لفظ مشی اپنے عمومی مفہوم میں تھا۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ خواہ تمام راستہ پیدل چلے یا تھوڑی تھوڑی دور پیدل چل کر پھر سوار ہو جائے۔ اس لیے  لم یرکب ذکر کر کے اس بات کے تاکید فرما دی گئی کہ جامع مسجد جانے کے لیے سواری بالکل استعمال نہ کی جائے بلکہ تمام راستہ پیدل چل کر جامع مسجد پہنچے۔ 

جمعہ کے لیے بطور خاص اچھے کپڑے بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے

اور حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جسے مقدور ہو کہ نماز جمعہ کے لیے علاوہ کاروبار کے کپڑوں کے دو کپڑے اور بنا لے تو کوئی مضائقہ نہیں (سنن ابن ماجہ) اور امام مالک نے یہ روایت یحییٰ ابن سعد سے نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو سہولت و آسانی کے ساتھ یہ میسر ہو کہ وہ ان کپڑوں کے علاوہ جنہیں وہ ہمیشہ پہنتا ہے اور ان کپڑوں میں گھر باہر کا کاروبار کرتا ہے نماز جمعہ کے لیے دو مزید کپڑے بنا لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی آدمی بطور خاص جمعہ اور عیدین کے لیے اچھے کپڑے بنائے تو یہ زہد و تقویٰ کے منافی نہیں ہو گا چنانچہ خود سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ کے پاس دو ایسے کپڑتے تھے جنہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم بطور خاص جمعے ہی کے روز زیب تن فرماتے تھے۔ 

امام کے قریب بیٹھ کر خطبہ سنو

اور حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ خطبے کے وقت جلد حاضر ہوا کرو اور امام کے قریب بیٹھا کرو، کیونکہ آدمی (بھلائیوں کی جگہ سے بلا عذر) جتنا دور ہوتا جاتا جنت میں داخل ہونے سے پیچھے رہے گا۔ اگرچہ جنت میں داخل ہو بھی جائے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 اس حدیث کے ذریعے اس بات کی رغبت دلائی جا رہی ہے کہ ہمیشہ اعلیٰ امور اختیار کئے جائیں اور ادنی چیزوں پر قناعت نہ کی جائے۔

ہمت بلند دار کہ نزد اللہ و خلق

باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو

گردنوں کو پھلانگنے پر وعید

اور حضرت معاذ ابن انس جہنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی جمعے کے دن (جامع مسجد میں جگہ حاصل کرنے کے لیے) لوگوں کی گردنیں پھلانگے گا وہ جہنم کی طرف پل بنایا جائے گا  جامع ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 سید نے کہا ہے حدیث کی اسناد عن معاذ ابن انس عن ابیہ سھوا نقل ہو گئی ہے کیونکہ معاذ کے والد انس کونہ شرف روایت حاصل ہے اور نہ فیض صحبت ہی میسر ہوا ہے لہٰذا صحیح اسناد اس طرح ہے عن سہل ابن معاذ عن ابیہ (سہل ابن معاذ اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں) جیسا کہ جامع ترمذی میں منقول ہے۔

حدیث کے الفاظ  جہنم کی طرف پل بنایا جائے گا  کا مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ایسے آدمی کو اپنے فعل کی مثل بدلہ ملے گا یعنی جس طرح اس نے گردنوں کو پھلانگ کر لوگوں کو اپنی گزر گاہ بنایا اس طرح اس کو جہنم کی طرف پل بنا کر لوگوں کے لیے گزر گاہ بنایا جائے گا۔ 

خطبے کے وقت بیٹھنے کا ایک ممنوع طریقہ

اور حضرت معاذ ابن انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعے کے دن جب کہ امام خطبہ پڑھ رہا ہو گوٹ مارنے سے منع فرمایا ہے۔ (جامع ترمذی و سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

  گوٹ مارنا  ایک خاص نشست اور بیٹھنے کے ایک مخصوص طریقے کو کہتے ہیں جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ اکڑوں بیٹھ کر سرین کو زمین پر ٹیک کر کپڑے یا ہاتھوں کے ذریعے دونوں گھٹنے اور رانیں پیٹ کے ساتھ ملا لی جاتی ہیں۔

خطبے کے وقت اس طرح بیٹھنے سے منع فرمایا گیا ہے کیونکہ ایسی حالت میں نیند آ جاتی ہے جس کی وجہ سے خطبے کی سماعت نہیں ہو سکتی بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اس طرح بیٹھنے والا غنودگی کے عالم میں ایک پہلو پر گر جاتا ہے یا بیٹھے ہی بیٹھے اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اسے احساس بھی نہیں ہوتا۔ 

اونگھ آنے کی صورت میں جگہ بدل دینی چاہیے

اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی آدمی جمعے کے دن (مسجد میں بیٹھے ہوئے اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی جگہ بدل دے (یعنی جس جگہ بیٹھا ہے وہاں سے اٹھ جائے اور دوسری جگہ جا کر بیٹھ جائے اس طرح نیند کا غلبہ کم ہو جائے گا۔ (جامع ترمذی)

کسی کو اس کی جگہ سے نہ اٹھاؤ

حضرت نافع فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں بیٹھ جائے نافع سے پوچھا گیا کہ  کیا یہ ممانعت جمعے کے لیے ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ  جمعے کے لیے بھی اور جمعے کے علاوہ بھی۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 چونکہ اس طرزِ عمل سے منع فرمایا گیا ہے اس سے ایک مسلمان بھائی کو تکلیف پہنچتی ہے لہٰذا یہ ممانعت کیا جمعہ اور کیا غیر جمعہ ہر موقع سے متعلق ہے۔ 

آداب جمعہ کی رعایت کرنے والے کے لیے خوشخبری

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جمعہ (کی نماز) میں تین طرح کے لوگ آتے ہیں ایک وہ آدمی جو لغو کلام اور بیکار کام کے ساتھ آتا ہے (یعنی وہ خطبے کے وقت لغو بیہودہ کلام اور بیکار کام میں مشغول ہوتا ہے) چنانچہ جمعے کی حاضری میں اس کا یہی حصہ ہے (یعنی وہ جمعے کے ثواب سے محروم رہتا ہے اور لغو کلام و فعل کا وبال اس کے حصے میں آتا ہے) دوسرا وہ آدمی ہے جو جمعے میں دعا کے لیے آتا ہے (چنانچہ وہ خطبے کے وقت دعا میں مشغول رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی دعا اسے خطبے سننے یا خطبہ کے کمال ثواب سے باز رکھتی ہے) پس وہ دعا مانگتا ہے خواہ اللہ تعالیٰ (اپنے فضل و کرم کے صدقہ میں) اس کی دعا کو قبول فرمائے یا نہ قبول فرمائے تیسرا وہ آدمی جمعہ میں آتا ہے تو (اگر خطبہ کے وقت امام کے قریب ہوتا ہے تو خطبے سننے کے لیے) خاموش رہتا ہے اور (اگر امام سے دور ہوتا ہے اور خطبے کی آواز اس تک نہیں پہنچتی تب بھی خطبے کے احترام میں وہ) سکونت اختیار کرتا ہے نیز نہ تو وہ لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہے اور نہ کسی کو ایذاء پہنچاتا ہے لہٰذا اس کے واسطے یہ جمعہ اس (یعنی پہلے) جمعے تک جو اس سے ملا ہوا بلکہ اور تین دن زیادہ تک کا کفارہ ہو جائے گا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ جَاءَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہ عَشَر اَمْثَالِھَا یعنی جو ایک نیکی کرے گا۔ اس کو نیکی کا دس گناہ ثواب دیا جائے گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 ان شاء اعطاہ وان شاء منعہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آدمی چونکہ خلاف ادب اور خلاف حکم اس وقت دعا میں مشغول رہتا ہے اس لیے اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو محض اپنے فضل و کرم کے صدقے اس کی دعا کو قبول فرما لے گا ورنہ از راہ عدل اس کے اس فعل بد کی وجہ سے کہ وہ دعا میں مشغول رہ کر خطبہ سننے سے غافل رہا اس کی دعا قبول نہیں فرمائے گا۔ خطبے کے وقت دعا میں مشغول ہونا حنفیہ کے نزدیک مکروہ ہے جب کہ دوسرے علماء کے ہاں حرام ہے مشکوٰۃ کے ایک دوسرے نسخے میں لفظ بَلَغُوْا صیغہ مضارع کے ساتھ نقل کیا گیا ہے لیکن صحیح بلغو جیسا کہ یہاں نقل کیا گیا ہے کیونکہ یہ اگلے جملوں کے مطابق ہے۔

ولم یوذ احد کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں آ کر اس نے کسی آدمی کو ایذاء اور تکلیف نہیں پہنچائی بایں طور کہ مثلاً نہ تو کسی کو اس کی جگہ سے اٹھایا نہ کسی دوسرے کے جسم کے کسی عضو پر چڑھ کر بیٹھایا اسی طرح نہ تو کسی کے مصلیٰ پر اس کی مرضی کے بغیر بیٹھا اور نہ لہسن و پیاز جیسی اشیاء کی بدبو سے کسی کو تکلیف پہنچائی۔ 

خطبے کے وقت بات چیت کرنے والوں کے لیے وعید

اور حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو آدمی جمعے کے دن اس حالت میں جب کہ امام خطبہ پڑھ رہا ہو بات چیت میں مشغول ہو تو وہ اس گدھے کی مانند ہے کہ جس پر کتابیں لاد دی گئیں ہوں اور جو آدمی اس (بات چیت میں مشغول رہنے والے) سے کہے چپ رہو تو اس کے لیے جمعے کا ثواب نہیں ہے۔ (احمد بن حنبل)

 

تشریح

 

 کمثل الحمار کا مطلب یہ ہے کہ ایسا آدمی اس گدھے کی طرح ہے جس کی پشت پر کتابیں لاد دی جائیں یہ دراصل عالم کے علم پر عمل نہ کرنے سے کنایہ ہے نیز اس بات سے کنایہ ہے کہ اس آدمی نے انتہائی محنت و مشقت برداشت کر کے علم حاصل کیا مگر اس علم سے فائدہ نہیں اٹھایا۔

جو آدمی مشغول گفتگو کو خاموش ہونے کے لیے کہے اس کو بھی جمعے کا ثواب اس لیے نہیں ملتا کہ اس سے ایسا لغو اور بے فائدہ کلام صادر ہوا جس کی ممانعت ثابت ہو چکی ہے جیسا کہ اس کی تفصیل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت (نمبر ٥) میں بیان کی جا چکی ہے۔

خطبے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا کلام اور اس کی وضاحت: ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ جمعے کے روز جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ دے رہے تھے ایک اعرابی آیا اور اس نے عرض کیا  یا رسول اللہ ! میرا مال تباہ و برباد ہو گیا، میرے اہل و عیال بھوکے ہیں ہمارے لیے دعا کیجئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی حالت میں اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی  یا اسی طرح بعض روایتوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے خطبہ کی حالت میں بات چیت کرنا ثابت ہے تو ان روایتوں کے بارے میں کئی احتمال ہیں اول تو یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا دعا میں مشغول ہونا یا بات چیت کرنا خطبہ کی حالت میں نہیں تھا بلکہ یا تو خطبہ شروع ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا یا بات چیت میں مشغول ہوئے ایک احتمال یہ ہے کہ ان روایتوں کا تعلق اس زمانے سے ہے جب کہ خطبے کی حالت میں اس قسم کی مشغولیت ممنوع نہیں تھی یا پھر یہ کہا جائے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے۔

مسلمانوں کے لیے جمعہ عید ہے

اور حضرت عبید اللہ ابن سباق بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اے مسلمانوں کی جماعت ! یہ (جمعہ) کا وہ دن ہے جسے اللہ تعالیٰ نے (مسلمانوں) کی عید قرار دیا ہے۔ لہٰذا (اس دن) غسل کرو اور جس آدمی کو خوشبو میسر ہو اگر وہ اسے استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں نیز تم مسواک ضرور کیا کرو (مالک) ابن ماجہ نے بھی یہ حدیث عبید اللہ ابن سباق سے انہوں نے عبداللہ ابن عباس سے متصل نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جمعہ کا دن عید یعنی فقراء و مساکین اور اولیاء اللہ و صالحین کے لیے خوشی و مسرت اور زیب و زینت کرنے کا دن ہے اس دن نہاؤ یعنی خوب اچھی طرح طہارت اور ستھرائی حاصل کرو۔ اور خوشبو استعمال کرو خوشبو ایسی ہونی چاہیے جس میں خوشبو تو ہو مگر رنگ نہ ہو جیسے عطر وغیرہ علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ خوشبوؤں میں سب سے اعلیٰ خوشبو ایسا مشک ہے جس میں گلاب کی آمیزش ہو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر و بیشتر مشک ہی کا استعمال فرماتے تھے۔

حدیث کے الفاظ ومن کان عندہ طیب فلا یضرہ ان یمس کے بارے میں اگر یہ اشکال پیدا ہو کہ یہ پیرا یہ بیان وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں کسی گناہ کا گمان ہوتا ہے لیکن خوشبو استعمال کرنا اور خاص طور پر جمعے کے دن سنت موکدہ ہے لہٰذا اس موقعہ پر یہ پیرا یہ بیان کیوں اختیار کیا گیا ؟ تو جواب یہ ہو گا کہ بعض مسلمان یہ گمان کرتے تھے کہ خوشبو چونکہ عورتوں کے استعمال میں زیادہ آتی ہے اور عورتیں زیادہ تر اس کے استعمال کی عادی ہوتی ہیں اس لیے مردوں کے لیے اس کا استعمال مناسب نہ ہو گا چنانچہ اس گمان اور گناہ کی نفی اس پیرایہ بیان سے کی گئی ہے جیسا کہ طواف یعنی صفا و مروہ کی سعی ارکان حج میں سے ہے اور واجب ہے لیکن اس کے باوجود اس بارے میں حق تعالیٰ نے یہ پیرایہ بیان اختیار فرمایا لا جناح علیہ ان یطوف بھما (یعنی اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ صفا و مردہ کی سعی کی جائے) حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جمعے کے دن اور خاص طور پر غسل و وضو کے وقت مسواک ضرور استعمال کرنی چاہیے۔

جمعے کے دن غسل کرنے اور خوشبو لگانے کی اہمیت

اور حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسلمانوں پر جمعے کے دن نہاناواجب ہے نیز مسلمانوں کو چاہیے کہ ان میں سے ہر آدمی اپنے گھر میں سے خوشبو لیکر استعمال کرے اور اگر کسی کو خوشبو میسر نہ ہو تو اس کے لئے پانی ہی خوشبو ہے۔ یہ روایت احمد و ترمذی نے نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

 

تشریح

 

 من طیب اھلہ اس لئے فرمایا گیا ہے کہ عورتیں اکثر خوشبو لگاتی ہیں اس سے گویا اس طرف اشارہ ہے کہ اگر کسی کے پاس خوشبو نہ ہو وہ اپنی بیوی سے مانگ لے لیکن خوشبو زنانی یعنی ایسی نہ ہو کہ اس میں رنگ کی آمیزش ہو۔ فَالْمَاءُ لَہ طَیِّبٌ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس خوشبو نہ ہو اور اس کے گھر میں بھی بیوی وغیرہ کے پاس سے نہ ملے تو وہ پانی سے نہا لے کہ پانی بمنزلہ خوشبو کے ہے کیونکہ پانی پاکیزگی اور ستھرائی کا سبب ہے اور بدن کی بدبو اس سے جاتی رہتی ہے۔

یہ حدیث اور اوپر کی حدیث حضرت امام مالک کے مسلک کی موید ہے کیونکہ ان کے نزدیک جمعے کے دن غسل کرنا واجب ہے لیکن جمہور علماء کے نزدیک چونکہ جمعہ کے دن غسل واجب نہیں لہٰذا ان حضرات نے احادیث کو سنت پر محمول کیا ہے کیونکہ ان کے علاوہ دوسری اور بہت سے احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جمعہ کے دن غسل واجب نہیں ہے تاہم علماء لکھتے ہیں کہ جمعہ کے دن غسل نہ کرنا مکروہ ہے۔

خطبے اور جمعے کی نماز کا بیان

لغت میں خطبہ مطلقاً تقریر، گفتگو اور اس کلام کو کہتے ہیں کہ جس کے ذریعے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہو، لیکن شریعت کی اصطلاح میں  خطبہ اس کلام اور مجموعہ الفاظ کو کہتے ہیں جو پند و نصائح، ذکر و ارشاد، درود و سلام اور شہادتیں پر مشتمل ہو۔

نماز جمعہ میں خطبہ فرض اور شرط ہے، امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک خطبے کی کم سے کم مقدار سبحان اللہ یا الحمد اللہ یا لا الہ الا اللہ کہنا ہے۔ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے طویل خطبہ منقول ہے لیکن طویل خطبہ واجب یا سنت ہے شرائط اور فرائض میں سے نہیں ہے کہ بغیر طویل خطبے کے جمعے کی نماز درست نہ ہوتی ہو۔ مگر حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ تعالیٰ علیہما فرماتے ہیں کہ طویل ذکر اور پندو نصیحت کہ جسے عرف عام میں خطبہ کہا جاتا ہے ضروری ہے محض سبحان اللہ یا الحمد اللہ کہہ لینے کو خطبہ نہیں کہا جا سکتا۔ حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ جب تک دو خطبے نہ پڑھے جائیں خطبہ جائز ہی نہیں ہوتا۔ ان تمام ائمہ کے دلائل فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔

نماز جمعہ کا وقت

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے تھے جب کہ آفتاب ڈھل جاتا۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 نماز جمعہ پڑھنے کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معمول یہ تھا کہ جب سردی کا موسم ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم آفتاب ڈھلتے ہی جمعے کی نماز پڑھ لیتے تھے مگر شدید گرمی کے دنوں میں ٹھنڈے وقت پڑھتے تھے جیسا کہ آگے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک دوسری روایت سے معلوم ہو گا۔

 

 

٭٭ اور حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ جمعے کی نماز سے فارغ ہو کر قیلولہ کرتے تھے اور کھانا کھاتے تھے۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 دوپہر کے وقت استراحت کرنے کو قیلولہ کہتے ہیں خواہ سویا جائے یا نہ سویا جائے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ ہم جمعے کے روز دوپہر کے کھانے اور قیلولہ میں مشغول نہ رہتے تھے بلکہ صبح سویرے نماز جمعہ کے لیے چلے جاتے تھے نماز کے بعد کھانا کھاتے اور قیلولہ کر تے تھے۔

 

 

٭٭ اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سخت سردی کے موسم میں جمعے کی نماز سویرے پڑھ لیتے تھے اور جب شدید گرمی کے دن ہوتے تو دیر سے پڑھتے تھے۔ (صحیح البخاری)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جمعے کی پہلی اذان نہیں ہوتی تھی

اور حضرت سائب ابن یزید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانے میں جمعے کی پہلی اذان وہ ہوتی تھی جو امام کے منبر پر بیٹھنے کے بعد دی جاتی تھی مگر جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ ہوئے اور لوگوں کی کثرت ہو گئی تو تیسری اذان کا اضافہ کیا گیا جو وزراء میں دی جاتی تھی۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ مبارک میں جمعے کی اذان کے سلسلے میں معمول یہ تھا کہ جب آپ نماز جمعہ کے لیے تشریف لاتے اور منبر پر بیٹھتے تو اذان کہی جاتی تھی۔ جمعہ کی پہلی اذان جو نماز کا وقت شروع ہو جانے کے بعد کہی جاتی ہے اس وقت مقرر نہیں تھی۔ زمانۂ رسالت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے زمانہ خلافت میں بھی یہی معمول رہا۔ مگر جب حضرت عثمان غنی خلیفہ ہوئے تو انہوں نے یہ دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ میں مسلمان تعداد میں کم تھے اور یہ کہ مسجد کے قریب ہی سکونت پذیر تھے بلکہ اکثر مسلمان تو ہمہ وقت بارگاہ رسالت ہی میں حاضر رہتے تھے اور اب نہ صرف یہ کہ مسلمانوں کی تعداد بھی بہت بڑھ گئی ہے بلکہ اکثر مسلمان مسجد سے دور دراز علاقوں میں سکونت پذیر ہیں اور اپنے اپنے کاروبار میں مشغول رہتے ہیں تو انہوں نے یہ مناسب جانا کہ جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہی جائے تاکہ جو لوگ دور دراز علاقوں میں رہتے ہیں وہ بھی خطبے میں حاضر ہو جائیں۔ اسی طرح اسی وقت سے اذان اول کہی جانے لگی۔ لہٰذا  تیسری اذان  سے مراد یہی پہلی اذان ہے کہ حدیث میں اس کو  تیسری اذان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگرچہ یہ اذان وقوع کے اعتبار سے اول ہے کہ سب سے پہلے کہی جاتی ہے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں چونکہ مقرر شدہ دو اذانوں (یعنی ایک تو وہ اذان جو خطبے کے وقت کہی جاتی ہے اور دوسری تکبیر) کے بعد یہ اذان مقرر ہوئی ہے اس لیے اسے  تیسری اذان  کہا جاتا ہے۔

بہر حال وہ اذان جو نماز جمعہ کے لیے سب سے پہلی کہی جاتی ہے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مقرر کی ہے اور وہ بھی سنت ہے اسے بدعت نہیں کہا جائے گا کیونکہ حضرات خلفاء راشدین کا فعل اور ان کا مقرر کردہ طریقہ بھی سنت ہی میں شمار ہوتا ہے۔

اب تو غالباً کسی بھی جگہ طریقہ یہ رائج نہیں ہے مگر پہلے بعض مقامات پر یہ معمول تھا کہ سنتیں پڑھنے کے وقت مزید ایک اذان کہی جاتی تھی جو نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں مقرر تھی اور نہ صحابہ اور تابعین کے دور میں مقرر ہوئی اور نہ اکثر مسلم ممالک و بلاد میں اس وقت یہ اذان کہی جاتی تھی نہ معلوم کس آدمی نے یہ بدعت جاری کی تھی۔

علماء نے لکھا ہے کہ نماز جمعہ کے لیے پہلی اذان ہو جانے کے بعد خرید و فروخت (یا کوئی بھی دنیاوی مشغولیت) حرام ہو جاتی ہے اور نماز جمعہ میں جلدی پہنچنے کے لیے اس کی تیاریوں اور اہتمام میں مشغول ہو جانا واجب ہو جاتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو خطبے پڑھتے تھے اور دونوں کے درمیان بیٹھتے تھے

اور حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو خطبے پڑھا کرتے تھے اور دونوں (خطبوں) کے درمیان بیٹھتے تھے، ان خطبوں میں آپ قرآن کریم پڑھتے تھے اور لوگوں کو پند و نصیحت فرمایا کرتے تھے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز بھی اوسط درجہ کی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی اوسط درجے کا ہوتا تھا نہ بہت زیادہ طویل ہوتا تھا اور نہ بالکل ہی مختصر۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 آپ دونوں خطبوں کے درمیان اس قدر بیٹھا کرتے تھے کہ جسم مبارک کا ہر ہر عضو اپنی اپنی جگہ پر آ جاتا تھا۔ چنانچہ فقہاء نے دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کا صرف اتنا عرصہ مقرر کیا ہے کہ جس میں تین مرتبہ  سبحان اللہ  کہا جا سکے دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنا واجب نہیں ہے بلکہ سنت ہے۔ یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ صحیح طور پر یہ ثابت نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر کوئی دعا پڑھتے تھے۔

مختصر مگر پر تاثیر خطبہ خطیب کی دانائی کی علامت ہے

اور حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  لمبی نماز اور مختصر خطبہ پڑھنا آدمی کی دانائی کی علامت ہے۔ لہٰذا تم نماز کو طویل اور خطبہ کو مختصر کرو کیونکہ بعض بیان سحر (کی تاثیر لیے ہوئے ہوتا) ہے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

خطبہ کی حالت میں لوگوں کی توجہ مخلوق (یعنی خطبہ پڑھنے والے) کی طرف ہوتی ہے جب کہ نماز کی حالت میں توجہ کا مرکز خالق(یعنی اللہ تعالیٰ) کی ذات ہوتی ہے۔ چنانچہ حدیث بالا بڑے ہی بلیغ انداز میں یہ بتانا چاہتی ہے کہ انسان کی سمجھ داری اور اس کی دانائی کا تقاضہ یہ ہونا چاہیے کہ اس حالت کو زیادہ دراز اور طویل کیا جائے جس میں بندے کی توجہ اپنے خالق کی طرف ہو اور اس حالت کو مختصر کیا جائے جس میں توجہ مخلوق کی طرف منعطف ہو رہی ہو۔ لیکن اتنی بات سمجھ لیجئے کہ یہاں نماز طویل کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز سنت کے موافق ہو۔ یعنی نماز پڑھنے کے سلسلے میں جو درجے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول اور ثابت ہے نہ تو اس سے طویل ہو اور نہ اس سے مختصر ہی ہو۔ اس طرح اس حدیث میں اور اوپر والی حدیث میں مطابقت پیدا ہو جائے گی۔

و ان من البیان سحرا (کیونکہ بعض بیان سحر ہے) گویا یہ خطبے کو مختصر کرنے کے سلسلے میں دلیل بیان کی جا رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ خطبہ ایسا پڑھنا چاہیے جو قَلَّ وَ دَلَّ کا پورا پورا مصداق ہو۔ یعنی اس کے الفاظ مختصر ہوں مگر حقائق و معنی کے دریا اپنے اندر سموئے ہوئے ہو۔ کیونکہ جس طرح سحر کے مختصر ترین الفاظ میں بہت زیادہ تاثیر ہوتی ہے اسی طرح اس بیان اور اس تقریر میں بھی جو الفاظ کے معنی کے اعتبار سے جامع و مانع ہو، ایک عظیم تاثیر ہوتی ہے جس کی وجہ سے سامعین کے قلوب ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف مائل و منتقل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا حدیث کے ان الفاظ میں بیان و تقریر کی تعریف بھی ہے اور مذمت بھی بایں طور کہ اگر کوئی بیان سا معین کے قلوب و دماغ کو برائی کی طرف سے نیکی کی طرف مائل کر دے تو وہ اچھا ہے اور جو بیان سامعین کے ذہن و فکر کو نیکی کے راستہ سے ہٹا کر برائی کے راستہ پر موڑ دینے والا ہو وہ برا ہے۔

خطبہ ارشاد فرماتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی کیفیت

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب (جمعے کا یا کوئی) خطبہ ارشاد فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آنکھیں سرخ ہو جاتیں اور آواز بلند ہو جاتی اور غصہ تیز ہو جاتا تھا یہاں تک کہ (ایسا محسوس ہوتا) گویا آپ لوگوں کو (دشمن کے لشکر سے) ڈرا رہے ہوں اور فرما رہے ہوں کہ صبح و شام میں تم پر (دشمن کا لشکر ڈاکہ ڈالنے والا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبے میں ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ  مجھے اور قیامت کو اس طرح ساتھ ساتھ بھیجا گیا ہے  یہ کہہ کر آپ اپنی دو انگلیوں یعنی شہادت کی انگلی اور بیچ کی انگلی کو ملاتے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 انوار جلال کبریائی کی تجلی اور امت مرحومہ کی تقصیرات کے مشاہدے کی وجہ سے خطبے کے وقت آپ کی آنکھیں سرخ ہو جاتی تھیں اسی طرح اپنی امت کے غم و فکر کی وجہ سے یا یہ کہ سا معین کے کانوں تک اپنے الفاظ پہنچانے کے لیے آپ کی آوازبلند ہوتی تھیں تاکہ لوگوں کے قلوب متاثر ہوں۔ نیز اس وقت آپ کا غصہ امت کی اعتقادی و عملی بے راہ روی کے پیش نظر ہو جاتا تھا۔

بہر حال حاصل یہ ہے کہ جس طرح اپنی قوم اور اپنے لشکر کی غفلت شعاریوں اور کوتاہیوں کو دیکھ کر اس کو دشمن کے خطرناک ارادوں اور منصوبوں سے ڈرانے والا اپنی آواز کو بلند کرتا ہے۔ اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور غصہ تیز ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اپنی امت کی غفلت شعاریوں کی پیش نظر خطبے کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ کیفیت و حالت ہوتی تھی۔

حدیث کی آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ  جس طرح بیچ کی انگلی شہادت کی انگلی سے تھوڑی سی بڑھی ہوئی ہے اسی طرح میں بھی قیامت سے بس تھوڑا ہی پہلے دنیا میں آیا ہوں، قیامت کے آنے کا وقت میری بعثت کے وقت سے متصل ہی ہے میرے بعد جلد ہی قیامت آنے والی ہے۔

خطبے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم قرآن کی آیتیں پڑھا کرتے تھے

اور حضرت یعلی ابن امیہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو منبر پر یہ (آیت) پڑھتے ہوئے سنا ہے (یٰمٰلِكُ لِیقْضِ عَلَینَا رَبُّكَ) 43۔ الزخرف:77) اے سردار ! تو اپنے پروردگار سے کہہ کہ وہ ہمارا کام تمام کرے۔ (صحیح البخاری)

 

تشریح

 

 اس آیت میں دوزخیوں اور دوزخ کے سردار کے سوال و جواب کا بیان ہے کہ دوزخی دوزخ کے عذاب کی شدت سے گھبرا کر سردار یعنی داروغہ دوزخ سے کہیں گے کہ اے سردار تم اپنے پروردگار سے عرض کرو کہ وہ ہمارا کام تمام کرے یعنی ہمیں موت دے دے تاکہ اس عذاب سے ہمیں چھٹکارا مل جائے  اس کے آگے داروغہ دوزخ کا جواب بھی مذکورہ ہے وہ کہے گا کہ اِنَّکُمْ مَاکِثُوْنَ یعنی موت اور اس عذاب سے چھٹکارا کی تمہاری تمنائیں باطل اور بیکار ہیں تو تم ہمیشہ ہمیشہ اس آگ ہی میں جلتے اور اسی طرح عذاب میں مبتلا رہو گے۔ لہٰذا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کو دوزخ کے عذاب سے ڈرانے کے لیے یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ حارثہ ابن نعمان کی بیٹی حضرت ام ہشام فرماتی ہیں کہ میں نے سورہ  ق و القران المجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے صرف اس طرح سیکھی ہے کہ آپ ہر جمعے منبر پر جب لوگوں کے سامنے خطبہ ارشاد فرماتے تو یہ سورۃ پڑھا کرتے تھے اور میں سن سن کر یاد کر لیتی تھی۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 چونکہ خطبہ میں یکبارگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوری سورۃ کا پڑھنا ثابت نہیں ہے اس لیے اس حدیث کا مفہوم یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہر جمعہ کے روز خطبہ میں اس سورۃ کے تھوڑے تھوڑے حصے تلاوت فرماتے ہوں گے۔ اسی طرح ام ہشام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ہر جمعے میں تھوڑا تھوڑا سن کر پوری سورت یاد کر لی ہو گی۔ وا اللہ اعلم

عمامہ باندھ کر خطبہ پڑھنا

اور حضرت عمرو ابن حریث فرماتے ہیں کہ سر تاج دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے جمعے کی روز اس حال میں خطبہ ارشاد فرمایا ہے کہ آپ کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا جس کے دونوں کنارے آپ نے اپنے دونوں کندھوں کے درمیان چھوڑ رکھے تھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 ایک ضعیف حدیث میں منقول ہے کہ عمامہ باندھ کر پڑھی گئی نماز ان ستر نمازوں سے بہتر ہے جو بغیر عمامہ پڑھی گئی ہوں بہر حال علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حدیث بالا سے یہ مفہوم ثابت ہوتا ہے کہ جمعے کے روز زیبائش اختیار کرتا، اچھے اور عمدہ لباس زیب تن کرنا، سیاہ عمامہ باندھنا اور عمامہ کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں کے درمیان لٹکانا سنت ہے  میرک شاہ کا قول اس حدیث کے بارے میں یہ ہے کہ جس خطبے کے بارے میں یہاں بتایا جا رہا ہے۔ یہ خطبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مرض موت میں ارشاد فرمایا تھا۔ زیلعی کا کہنا ہے کہ سیاہ کپڑے کا استعمال کرنا سنت ہے۔ صاحب مدخل نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا عمامہ سات ہاتھ کا تھا۔ سیوطی نے ایسے صحابہ اور تابعین کا ذکر کیا ہے جو سیاہ عمامہ باندھتے تھے ان میں انس ابن مالک، عمار ابن یاسر، معاویہ، ابودردا، براء، عبدالرحمن ابن عوف، واثلہ، سعید ابن مسیب، حسن بصری اور سعید ابن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ شامل ہیں۔

نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لکھا ہے کہ عمامہ دونوں طریقوں سے باندھنا جائز ہے خواہ شملہ چھوڑا جائے یا نہ چھوڑا جائے۔ ان میں کسی طریقہ سے بھی مکروہ نہیں ہے۔

خطبہ کے وقت تحیۃ المسجد پڑھنے کا مسئلہ

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہ  جب تم میں سے کوئی آدمی جمعے کے روز (مسجد میں) آئے اور امام خطبہ پڑھ رہا ہو تو دو رکعتیں پڑھ لے مگر دونوں رکعتیں ہلکی (یعنی مختصر) پڑھے۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس روایت کو  تحیۃ المسجد پر محمول کیا ہے۔ ان کے نزدیک تحیۃ المسجد کی نماز واجب ہے اگرچہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ یہی مسلک امام احمد کا بھی ہے۔ یہ دونوں حضرات اس حدیث کو اپنی دلیل بناتے ہیں کہ تحیۃ المسجد واجب ہے جب ہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ کے دوران بھی اس کے پڑھنے کی تاکید فرمائی ہے۔

حنفیہ کے نزدیک تحیۃ المسجد جب کہ خطبے کے علاوہ دوسرے اوقات میں ہی واجب نہیں ہے تو خطبے کے دوران بطریق اولیٰ واجب نہیں ہو گی چنانچہ حضرت امام مالک اور سفیان ثوری کا بھی یہی مسلک ہے۔ نیز جمہور صحابہ اور تابعین ان کے ہم نوا ہیں۔

ان حضرات کی طرف سے اس حدیث کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہاں خطبے سے مراد خطبے کا ارادہ ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ دو رکعتیں اس وقت بھی پڑھی جا سکتی ہیں جب کہ امام خطبے کے لیے اٹھ جائے اور خطبہ پڑھنے کا ارادہ کر رہا ہو نہ یہ کہ بالفعل خطبہ پڑھ ہی رہا ہو۔ اسی تاویل کی بنیاد وہ قرائن اور صحیح احادیث ہیں جن سے خطبہ کے وقت حرمت نماز ثابت ہو چکی ہے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ  جب امام (خطبہ کے لیے) نکلے (یعنی خطبہ پڑھنے کے لیے منبر کی طرف چلے) تو اس وقت نہ بات چیت درست ہے اور نہ نماز ہی درست ہے نہ صرف یہ ارشاد نبوی ہے۔ بلکہ علی المرتضیٰ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے بارے میں منقول ہے کہ وہ بھی امام کے نکلنے کے بعد کلام اور نماز دونوں کو مکروہ جانتے تھے۔ لہٰذا قول صحابہ بھی حجت ہے اور ہمارے نزدیک اس کی تقلید واجب ہے اگر سنت سے منقول کوئی چیز اس کے معارض نہ ہو۔

اور بخاری و مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو یہ روایت متعدد طرق سے منقول ہے کہ  ایک آدمی مسجد میں اس وقت داخل ہوا جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آدمی سے پوچھا کہ اے فلاں آدمی ! تم نے (تحیۃ المسجد کی) نماز پڑھی ہے؟ اس نے عرض کیا ہم  نہیں آپ نے اس سے فرمایا کہ دو رکعت، نماز پڑھ لو اور مختصر پڑھو تو اس کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ یہ واقعہ اس وقت کا تھا جب کہ خطبے کے وقت نماز کی ممانعت نہیں ہوئی تھی، یا یہ کہ اجازت صرف اسی آدمی کے لیے مخصوص تھی، بعض حضرات کی تحقیق تو یہ ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبہ شروع کرنے سے پہلے پیش آیا تھا۔

حضرت شیخ ابن ہمام نے اس سلسلے میں جو بات فرمائی ہے وہ زیادہ مناسب ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور ان احادیث میں جن سے خطبے کے وقت نماز پڑھنے کی ممانعت ثابت ہوئی ہے کوئی معارضہ اور اختلاف ہی لازم نہیں آتا کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جب یہ آدمی مسجد میں داخل ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے نماز پڑھنے کے لیے فرمایا تو آپ نے خطبہ روک دیا ہو گا۔ جب وہ آدمی نماز سے فارغ ہو گیا ہو گا تب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے خطبہ مکمل فرمایا۔

حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی یہ بات محض قیاس اور تاویل کے درجے تک محدود نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ صورت حال یہی ہوئی تھی چنانچہ دارقطنی کی روایت نے بالکل واضح الفاظ میں یہ صراحت کی ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ دو رکعت نماز پڑھو، پھر جب تک وہ آدمی نماز سے فارغ نہیں ہوا آپ صلی اللہ علیہ و سلم خاموش رہے (نماز سے فراغت کے بعد آپ نے پھر خطبہ مکمل فرمایا)

جس نے امام کے ساتھ ایک رکعت پائی اس نے پوری نماز پا لی

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جس آدمی نے نماز کی ایک رکعت امام کے ساتھ پائی اس نے نماز پا لی۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

 

 

تشریح

 

 یہ حکم عام طور پر تمام نمازوں کے لیے ہے جمعہ ہی کے لیے مخصوص نہیں چنانچہ قسط نمبر ١٤ میں کتاب الصلوۃ کے باب ما علی الماموم میں تقریباً اسی مضمون کی یہ حدیث گزر چکی ہے کہ من ادرک رکعۃ فقدادرک الصلوۃ اس کی وضاحت وہاں بھی کی جا چکی ہے۔ لیکن اس حدیث کو جو یہاں نقل کی جا رہی ہے امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جمعے کی نماز کے ساتھ مخصوص و مقید کیا ہے اور اس کی بنیاد انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت پر رکھی ہے جو اسی باب کے آخر میں آ رہی ہے۔

فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے کہ  جس آدمی کی نماز میں امام کے ساتھ نماز کا جو حصہ بھی ملے اسے امام کے ساتھ ادا کرے اور اس حصہ پر جمعہ کی بناء کر کے بقیہ نماز پوری کر لے اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ ماادرکتم فصلوا وما فاتکم فاقضوا یعنی نماز کا جو حصہ امام کے ساتھ پاؤ اسے ادا کرو اور جو کچھ رہ جائے اسے پورا کرو۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کوئی آدمی جمعہ کی نماز میں بالکل آخر میں اس حال میں شریک ہوا کہ امام التحیات میں تھا یا سجدہ سہو میں تھا تو اسے چاہیے کہ وہ اسی حالت میں جماعت میں شریک ہو جائے اور امام کے ساتھ اسے نماز جمعہ کا جو بھی حصہ ہاتھ لگا ہے اسی پر جمعہ کی بناء کر کے بقیہ نماز پوری کر لے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف رحمہما اللہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ البتہ امام محمد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی امام کے ساتھ جمعے کی دوسری رکعت کا اکثر حصہ پائے تو اسے اس حصے پر جمعے کی بناء کرنی چاہیے۔ لیکن جس آدمی کو دوسری رکعت کا اکثر حصہ نہ ملے تو اس پر جمعہ کی بناء نہ کرے بلکہ ظہر کی بناء کرے۔

دوسری رکعت کا اکثر حصہ پانے سے مراد دوسری رکعت کا رکوع پانا ہے۔ یعنی اگر کوئی آدمی دوسری رکعت کے رکوع میں بھی شریک ہو گیا تو اسے اکثر حصہ مل گیا اور اگر امام کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد وہ جماعت میں شریک ہوا تو اسے اکثر حصہ پانا نہیں کہیں گے۔

شیخ ابن ہمام نے فرمایا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف نے اپنے مذکورہ بالا مسلک کی بنیاد جس حدیث پر رکھی ہے وہ حدیث بھی مطلق ہے جمعہ کے ساتھ اس کی تخصیص نہیں ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبہ پڑھنے کا طریقہ

حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دو خطبے اس طرح پڑھا کرتے تھے (کہ) جب آپ منبر پر چڑھتے تو (پہلے) بیٹھتے یہاں تک کہ فارغ ہوتا، راوی فرماتے ہیں کہ میرا گمان یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تھا کہ  یہاں تک کہ موذن فارغ ہوتا  پھر آپ اٹھتے اور (پہلا خطبہ ارشاد فرماتے، پھر تھوڑی سی دیر) بیٹھتے (لیکن اس بیٹھنے کے درمیان) کوئی کلام نہ کرتے، پھر کھڑے ہوتے اور (دوسرا) خطبہ ارشاد فرماتے۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 حدیث کے الفاظ اذا صعد المنبر کے پیش نظر علماء نے کہا ہے کہ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا مستحب ہے۔ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کی مقدار کے بارے میں علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشاد ہے کہ اولی یہ ہے کہ سورہ اخلاص پڑھنے کے بقدر بیٹھنا چاہیے  کوئی کلام نہ کرتے  کا مطلب یہ ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھنے کے عرصے میں نہ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دعا کرتے تھے اور نہ کچھ پڑھتے تھے۔

مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے خطبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے آل و اصحاب و ازواج مطہرات خصوصاً خلفاء راشدین اور حضرت حمزہ و عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے لیے دعا کرنا مستحب ہے، بادشاہ وقت کے لیے بھی دعا کرنا جائز ہے۔ لیکن  شرح منیہ میں لکھا ہے کہ بادشاہوں کی ایسی تعریف کرنا جو غلط ہو اور ان کے ایسے اوصاف بیان کرنا جن سے وہ متصف نہ ہوں اشد مکروہ (یعنی مکروہ تحریمی) ہے کیونکہ اس طرح عبادت کے ساتھ گناہ یعنی جھوٹ کو ملانا لازم آتا ہے۔ اس مسئلہ کی شدت اس سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ ہمارے بعض ائمہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ ہمارے زمانے کے بادشاہوں کو عاد کہنا حدود کفر کے قریب ہو جاتا ہے۔

حدیث میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم دونوں خطبوں کے درمیان کلام نہیں کر تے تھے تو اس کے بارے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے تو وہی تشریح کی ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے۔ لیکن ملا علی قاری نے شرح طیبی سے نقل کیا ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھتے تو کتاب اللہ کی آیتیں پڑھا کرتے تھے چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس عرصے میں سورہ اخلاص پڑھنا مستحب ہے۔ بہر حال ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے اس جملے کی فائدہ کے وقت حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے یہ روایت نہیں ہو گی۔ وا اللہ اعلم۔

خطبے کے وقت نمازی خطیب کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھیں

اور حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب (خطبے کے وقت) منبر پر تشریف فرما ہوتے تو ہم اپنے منہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف متوجہ کر لیتے  امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ اس حدیث کو ہم بجز محمد ابن فضل کی سند کے اور کسی سند سے نہیں جانتے اور وہ ضعیف ہیں انہیں حدیث یاد نہیں رہتی تھی۔

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ لوگوں کے لیے یہ مستحب ہے کہ وہ خطبے کے وقت خطبہ سننے کے لیے اپنے منہ خطیب کی طرف کر کے بیٹھیں۔ اسی طرح خطیب بھی لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر خطبہ پڑھے۔

حنفیہ کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ جب خطیب خطبے کے لیے منبر پر بیٹھے تو لوگوں کو سلام نہ کرے مگر حضرت امام شافعی و امام احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے اختلاف کیا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے

حضرت جابر ابن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر (پہلا) خطبہ ارشاد فرماتے پھر بیٹھتے، پھر (دوسرا) خطبہ (بھی) کھڑے ہو کر ارشاد فرماتے لہٰذا تم سے اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بیٹھ کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے تو بلا شبہ وہ آدمی جھوٹا ہے اللہ کی قسم ! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ہمراہ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھی ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

 تشریح

 

  دو ہزار سے زائد نمازوں  سے صرف جمعے کی نمازیں مراد نہیں ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ جمعے اور جمعے کے علاوہ دوسری دو ہزار سے زائد نمازیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ پڑھی ہیں۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے پہلا جمعہ مدینہ میں آ کر پڑھا ہے اور مدینہ میں آپ کی کل مدت اقامت دس سال تھی لہٰذا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات میں تمام جمعوں کی تعداد پانچ سو سے زائد نہیں ہوتی بہرحال حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ معیت و رفاقت کی کثرت بیان کرنا ہے۔

شرح منیہ میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے کہ جو شہر جنگ و جدل سے اور بذریعہ تلوار فتح ہوا ہو جیسا کہ مکہ فتح ہوا تھا تو وہاں خطیب تلوار کے ساتھ خطبہ پڑھے اور جس شہر کے باشندے بخوشی حلقہ بگوش اسلام ہو جائیں جیسے مدینہ تو وہاں بغیر تلوار کے خطبہ پڑھنا چاہیے۔ بنا بیع میں لکھا ہے کہ دوسرا خطبہ پہلے خطبہ کی بہ نسبت کم آواز سے پڑھنا چاہیے۔

 

 

٭٭ اور حضرت ابن عجرۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ (ایک مرتبہ جمعے کے روز) مسجد میں (اس وقت) داخل ہوئے جب کہ عبدالرحمن ابن ام الحکم (جو بنی امیہ میں سے تھا بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا تھا، کعب ابن عجرہ نے کہا کہ (ذرا) اس خبیث کی طرف دیکھو بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَةً اَوْ لَهْوَۨا انْفَضُّوْٓا اِلَیهَا وَتَرَكُوْكَ قَاۗىِٕماً) 62۔ الجمعہ:11) یعنی جب لوگ سوداگری یا کھیل دیکھتے ہیں تو اس کی طرف بھاگ جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کھڑا چھوڑ دیتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے مقدس زمانے میں ایک مرتبہ مدینے میں سخت قحط پڑا، اہل مدینہ سخت پریشانی اور تکلیف میں مبتلا ہوئے، انہیں دنوں ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جمعے کے روز منبر پر کھڑے خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ناگہاں ایک قافلہ تجارت کی غرض سے شام سے مدینہ میں داخل ہوا۔ صحابہ کرام جو فاقہ کشی اور بھوک سے بے حد بے حال ولاغر ہو رہے تھے خطبہ نبی کے دوران ہی اس قافلے کو دیکھنے کے لیے اضطراراً مسجد سے باہر چلے گئے کچھ صحابہ جن کی تعداد بارے تھی بدستور مسجد میں بیٹھے خطبہ سنتے رہے جب ہی آیت بالا نازل ہوئی حضرت کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ اللہ جل شانہ، کے اس قول سے یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ خطبہ کھڑے ہو کر پڑھا جاتا ہے اور صحیح احادیث سے بھی یہی ثابت ہے۔ اس کے باوجود جو یہ آدمی بیٹھ کر خطبہ پڑھ رہا ہے تو اس کی خبث باطن میں کیا شک ہے۔

بہرحال آیت بالا کے الفاظ  آپ کو کھڑا چھوڑ جاتے ہیں سے یہ بات واضح ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرماتے تھے، چنانچہ امام شافعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے نزدیک کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنا خطبے کی شرط ہے جب کہ حنفیہ کے نزدیک سنت ہے۔

جمعے اور خطبے کے اوقات : جمعے کی صحیح ادائیگی کے شرائط میں سے ایک شرط وقت ہے چنانچہ جمعہ کی نماز وقت کے بعد بخلاف دوسری نمازوں کے صحیح نہیں ہوتی۔ جمعہ کا وقت وقت ظہر ہے چنانچہ جمعہ کی نماز وقت سے پہلے جائز نہیں ہے مگر حضرت امام احمد ابن حنبل کے نزدیک درست ہے اسی طرح عصر کا وقت شروع ہو جانے کے بعد بھی نماز جمعہ جائز نہیں ہے مگر حضرت امام مالک کے نزدیک جائز ہے۔

حدیث بالا اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ حرام یا مکروہ چیزوں کے ارتکاب کرنے والے پر سختی کرنا یا اس کے ساتھ غصہ کا معاملہ کرنا جائز ہے اس لیے کہ اس چیز کے خلاف عمل کرنا جس کی مداومت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہو چکی ہے خبث باطن کی نشانی ہے۔

خطبے کے وقت ہاتھوں کو بلند کرنا چاہیے

اور حضرت عمارہ ابن رویبہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) بشر ابن مروان کو منبر پر (خطبے کے وقت) اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہوئے دیکھا (جیسا کہ آجکل مقررین دوران تقریر جوش خطابت میں اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں) تو فرمایا کہ  اللہ تعالیٰ ان دونوں ہاتھوں کو ستیا ناس کرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ہاتھ سے اس سے زیادہ اشارہ نہیں کرتے تھے۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔ (صحیح مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ حضرت عمارہ نے جب بشر کو دیکھا کہ وہ طریقے سنت کے خلاف اپنے ہاتھوں کو زیادہ بلند کر رہا ہے تو انہیں بہت زیادہ ناگواری ہوئی جس کا انہوں نے ان الفاظ میں اظہار فرمایا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کر کے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صرف اس قدر اشارہ کرتے تھے اور وہ بھی اس لیے کرتے تھے تاکہ لوگ پوری دل جمعی کے ساتھ مخاطب ہوں اور خطبہ سننے کی طرف راغب ہوں۔ نیز خطبے کے فرمودات پر عمل پیرا ہونے کا ولولہ اور جذبہ پیدا ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا خطبہ کے وقت منبر پر کھڑے ہو کر عبداللہ ابن مسعود کو مسجد میں بلانا

اور حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (ایک مرتبہ) جمعے کے روز (خطبے کے لیے) منبر پر کھڑے ہوئے اور صحابہ سے فرمایا کہ (خطبہ سننے کے لیے بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ ارشاد سنا تو وہ مسجد کے دروازے ہی پر بیٹھ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو دیکھا تو فرمایا کہ عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں آ جاؤ۔ (سنن ابوداؤد)

 

تشریح

 

 علامہ طیبی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ منبر پر خطبہ کے لیے کھڑے ہونے کی صورت میں کلام کرنا جائز ہے مگر حنفیہ کے نزدیک خطیب کے لیے خطبے کی حالت میں کلام کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ وہ کلام امر بالمعروف کے طور پر نہ ہو (مگر خطیب کو چاہیے کہ امر بالمعروف کے سلسلہ میں اگر کسی سے کچھ کہے تو عربی زبان میں کہے اگر کسی اور زبان میں کہے گا تو مکروہ ہو گا)

حضرت علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب خطبے کے لیے منبر پر کھڑے ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حاضرین میں سے کسی کو اس وقت نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتے دیکھ لیا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو بیٹھنے کا حکم فرمایا کیونکہ خطبے کے لیے منبر پر خطیب کے بیٹھنے کے وقت، نماز پڑھنی حرام ہے جیسا کہ تمام علما کا متفقہ مسلک ہے۔

جمعے کی نماز نہ ملنے کی صورت میں ظہر کی نماز پڑھ لینے کا مسئلہ

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس آدمی کو جمعے ایک رکعت (امام کے ساتھ مل جائے تو وہ اس کے ساتھ دوسری رکعت ملائے (یعنی تنہا کھڑا ہو کر پوری کرے) اور جس آدمی کو دونوں رکعتیں نہ ملیں تو اسے چاہیے کہ وہ چار رکعتیں پڑھے یا فرمایا کہ ظہر پڑھے۔ (دارقطنی)

 

تشریح

 

 اگرچہ نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ حدیث ضعف سے خالی نہیں ہے تاہم اگر اس حدیث کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ جس آدمی کو جمعہ کی دونوں رکعتوں سے مطلقاً کچھ بھی ہاتھ نہ لگے تو وہ ظہر کی چار رکعتیں پڑھ لے۔ اس مسئلے کی وضاحت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کی تشریح کے ضمن میں جو اس باب کے پہلی فصل کے آخر میں گزری ہے بیان کی جا چکی ہے۔