حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ إِلَّا فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي لُبَابَةَ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا، جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم کو پیدا کیا گیا، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا، اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابولبابہ، سلمان، ابوذر، سعد بن عبادہ اور اوس بن اوس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۵ (۸۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۸۸۲) ، مسند احمد (۲/۴۰۱، ۱۴۸، ۴۵۱، ۴۸۶، ۵۰۱، ۵۴۰) ، وانظر أیضا ما یأتي برقم۴۹۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس دن بڑے بڑے امور سرانجام پائے ہیں کہ جن سے جمعہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الصَّبَّاحِ الْهَاشِمِيُّ الْبَصْرِيُّ الْعَطَّارُ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الْحَنَفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْتَمِسُوا السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ يُضَعَّفُ ضَعَّفَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَيُقَالُ لَهُ: حَمَّادُ بْنُ أَبِي حُمَيْدٍ، وَيُقَالُ: هُوَ أَبُو إِبْرَاهِيمَ الْأَنْصَارِيُّ وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، وَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ السَّاعَةَ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَبِهِ يَقُولُ: أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وقَالَ أَحْمَدُ: أَكْثَرُ الْأَحَادِيثِ فِي السَّاعَةِ الَّتِي تُرْجَى فِيهَا إِجَابَةُ الدَّعْوَةِ أَنَّهَا بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ وَتُرْجَى بَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے روز اس گھڑی کو جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے عصر سے لے کر سورج ڈوبنے تک کے درمیان تلاش کرو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے، ۲- یہ حدیث انس رضی الله عنہ سے بھی کئی سندوں سے مروی ہے، ۳- محمد بن ابی حمید ضعیف گردانے جاتے ہیں، بعض اہل علم نے ان کے حفظ کے تعلق سے ان کی تضعیف کی ہے، انہیں حماد بن ابی حمید بھی کہا جاتا ہے، نیز کہا جاتا ہے کہ یہی ابوابراہیم انصاری ہیں اور یہ منکرالحدیث ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہ گھڑی جس میں قبولیت دعا کی امید کی جاتی ہے عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔ احمد کہتے ہیں: اس گھڑی کے سلسلے میں جس میں دعا کی قبولیت کی امید کی جاتی ہے زیادہ تر حدیثیں یہی آئی ہیں کہ یہ عصر کے بعد سے سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، نیز سورج ڈھلنے کے بعد بھی اس کے ہونے کی امید کی جاتی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۱۹) (حسن) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی محمد بن ابی حمید ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے بیان کیا)
وضاحت: ۱؎ : اس بابت متعدد روایات ہیں ، دیکھئیے اگلی حدیثیں۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يَسْأَلُ اللَّهَ الْعَبْدُ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ اللَّهُ إِيَّاهُ " قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَّةُ سَاعَةٍ هِيَ ؟ قَالَ: " حِينَ تُقَامُ الصَّلَاةُ إِلَى الِانْصِرَافِ مِنْهَا " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي مُوسَى، وَأَبِي ذَرٍّ، وَسَلْمَانَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَأَبِي لُبَابَةَ، وَسَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عمرو بن عوف مزنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ بندہ جو کچھ بھی اس میں مانگتا ہے اللہ اسے عطا کرتا ہے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کون سی گھڑی ہے؟ آپ نے فرمایا: "نماز (جمعہ) کھڑی ہونے کے وقت سے لے کر اس سے پلٹنے یعنی نماز ختم ہونے تک ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن عوف کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوموسیٰ، ابوذر، سلمان، عبداللہ بن سلام، ابولبابہ، سعد بن عبادہ اور ابوامامہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۹ (۱۱۳۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۷۷۳) (ضعیف جداً) (یہ سند معروف ترین ضعیف سندوں میں سے ہے، کثیر ضعیف راوی ہیں، اور ان کے والد عبداللہ عبداللہ بن عمرو بن عوف مزنی مقبول یعنی متابعت کے وقت ورنہ ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : قبولیت دعا کی اس گھڑی کے وقت کے بارے میں یہی ٹکڑا اس حدیث میں ضعیف ہے ، نہ کہ مطلق حدیث ضعیف ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ، عَنْمُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُهْبِطَ مِنْهَا، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يُصَلِّي، فَيَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ " قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَقِيتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَامٍ فَذَكَرْتُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِتِلْكَ السَّاعَةِ فَقُلْتُ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ، قَالَ: هِيَ بَعْدَ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ، فَقُلْتُ كَيْفَ تَكُونُ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ وَهُوَ يُصَلِّي " وَتِلْكَ السَّاعَةُ لَا يُصَلَّى فِيهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَلَامٍ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ جَلَسَ مَجْلِسًا يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ فَهُوَ فِي صَلَاةٍ " قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَهُوَ ذَاكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ طَوِيلَةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَمَعْنَى قَوْلِهِ أَخْبِرْنِي بِهَا وَلَا تَضْنَنْ بِهَا عَلَيَّ لَا تَبْخَلْ بِهَا عَلَيَّ، وَالضَّنُّ الْبُخْلُ، وَالظَّنِينُ الْمُتَّهَمُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہتر دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم پیدا کیے گئے، اسی دن وہ جنت میں داخل کیے گئے، اسی دن وہ جنت سے (زمین پر اتارے گئے) اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جسے مسلم بندہ نماز کی حالت میں پائے اور اللہ سے اس میں کچھ طلب کرے تو اللہ اسے ضرور عطا فرمائے گا، ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر میں عبداللہ بن سلام سے ملا اور ان سے اس حدیث کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: میں یہ گھڑی اچھی طرح جانتا ہوں، میں نے کہا: مجھے بھی اس کے بارے میں بتائیے اور اس سلسلہ میں مجھ سے بخل نہ کیجئے، انہوں نے کہا: یہ عصر کے بعد سے لے کر سورج ڈوبنے کے درمیان ہے، اس پر میں نے کہا: یہ عصر کے بعد کیسے ہو سکتی ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "اسے مسلمان بندہ حالت نماز میں پائے اور یہ وقت ایسا ہے جس میں نماز نہیں پڑھی جاتی؟ تو عبداللہ بن سلام نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ہے کہ جو شخص نماز کے انتظار میں کسی جگہ بیٹھا رہے تو وہ بھی نماز ہی میں ہوتا ہے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور فرمایا ہے تو انہوں نے کہا: تو یہی مراد ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث میں ایک طویل قصہ ہے، ۲- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۳- اور آپ کے اس قول «أخبرني بها ولا تضنن بها علي» کے معنی ہیں اسے مجھے بتانے میں بخل نہ کیجئے، «ضنّ» کے معنی بخل کے ہیں اور «ظنين» کے معنی، متہم کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۷ (۱۰۴۶) ، سنن النسائی/الجمعة ۴۵ (۱۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۰۰۰) ، موطا امام مالک/الجمعة ۷ (۱۶) (صحیح) وقد رواہ بدون ذکر القصة مقتصرا علی الحدیث المرفوع کل من: صحیح البخاری/الجمعة ۳۷ (۹۳۵) ، والطلاق ۲۴ (۵۲۹۴) ، والدعوات ۶۱ (۶۴۰۰) ، و صحیح مسلم/الجمعة ۴ (۸۵۲) ، و سنن النسائی/الجمعة ۴۵ (۱۴۳۲، ۱۴۳۳) ، و سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۹ (۱۱۳۷) ، وط/الجمعة ۷ (۱۵) و مسند احمد (۲/۲۳۰، ۲۵۵، ۲۷۲، ۲۰۸، ۲۸۴، ۴۰۳، ۴۵۷، ۴۶۹، ۴۸۱، ۴۸۹) ، وسنن الدارمی/الصلاة ۲۰۴ (۱۶۱۰)
وضاحت: ۱؎ : صحیح مسلم میں ابوموسیٰ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے لے کر خطبہ سے فراغت کے درمیان ہے " یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ، اس لیے بقول امام احمد اور ابن عبدالبر دونوں وقتوں میں دعا میں کوشش کرنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ أَتَى الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ " قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَجَابِرٍ، وَالْبَرَاءِ، وَعَائِشَةَ وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جو جمعہ کی نماز کے لیے آئے اسے چاہیئے کہ (پہلے) غسل کر لے"۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس بات میں عمر، ابو سعید خدری، جابر، براء، عائشہ اور ابو الدرداء سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة (۸۴۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۸۳۳) ، مسند احمد (۲/۴۱، ۴۲، ۵۳، ۷۵، ۱۰۱، ۱۱۵، ۱۴۱، ۱۴۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے بعض علماء نے جمعہ کے دن کے غسل کو واجب قرار دیا ہے ، اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہاں امر تاکید کے لیے ہے اس سے مراد وجوب اختیاری (استحباب) ہے جیسے آدمی اپنے ساتھی سے کہے " تیرا حق مجھ پر واجب ہے " یعنی مؤکد ہے ، نہ کہ ایسا وجوب جس کے ترک پر سزا اور عقوبت ہو۔ (اس تاویل کی وجہ حدیث رقم ۴۹۷ ہے)۔
وَرُوِي عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ، وقَالَ مُحَمَّدٌ: وَحَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، وَحَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ كِلَا الْحَدِيثَيْنِ صَحِيحٌ، وقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي آلُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَيْضًا، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نیز ابن شہاب زہری سے یہ حدیث بطریق: «الزهري عن عبد الله بن عبد الله بن عمر عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» بھی مروی ہے، محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے اور جو حدیث انہوں نے بطریق: «عبدالله بن عبدالله بن عمر عن أبيه عبدالله بن عمر» روایت کی ہے دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اور زہری کے بعض تلامذہ نے اسے بطریق: «الزهري عن آل عبد الله بن عمر عن عبد الله بن عمر» روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: جمعہ کے دن کے غسل کے سلسلہ میں بطریق: «ابن عمر عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» مرفوعاً مروی ہے، (جو آگے آ رہی ہے) اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۷۲۷) (صحیح)
وَرَوَاهُ يُونُسُ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ دَخَلَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيَّةُ سَاعَةٍ هَذِهِ ؟ فَقَالَ: مَا هُوَ إِلَّا أَنْ سَمِعْتُ النِّدَاءَ وَمَا زِدْتُ عَلَى أَنْ تَوَضَّأْتُ، قَالَ: " وَالْوُضُوءُ أَيْضًا، وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ،
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے روز خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران صحابہ میں سے ایک شخص ۱؎ (مسجد میں) داخل ہوئے، تو عمر رضی الله عنہ نے پوچھا: یہ کون سا وقت (آنے کا) ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے صرف اتنی دیر کی کہ اذان سنی اور بس وضو کر کے آ گیا ہوں، اس پر عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم نے صرف (وضو ہی پر اکتفا کیا) حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کا حکم دیا ہے؟
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲ (۸۷۸) ، صحیح مسلم/الجمعة (۸۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۵۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد عثمان رضی الله عنہ ہیں۔
قَالَ: وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو صَالِحٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنْالزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مَالِكٌ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، قَالَ: بَيْنَمَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا، فَقَالَ: الصَّحِيحُ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مَالِكٍ أَيْضًا، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ نَحْوُ هَذَا الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی زہری سے یہی حدیث مروی ہے۔ اور مالک نے بھی یہ حدیث بطریق: «عن الزہری عن سالم» روایت کی ہے، وہ سالم بن عمر کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے، آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے اس سلسلے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: صحیح زہری کی حدیث ہے جسے انہوں نے بطریق: «سالم عن أبیہ»روایت کی ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ مالک سے بھی اسی حدیث کی طرح مروی ہے، انہوں نے بطریق: «الزهري عن سالم عن أبيه» بھی روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ أَبِي حَيَّةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَّلَ وَبَكَّرَ وَابْتَكَرَ وَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا أَجْرُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا ". قَالَ مَحْمُودٌ: قَالَ وَكِيعٌ: اغْتَسَلَ هُوَ وَغَسَّلَ امْرَأَتَهُ. قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، أَنَّهُ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ، يَعْنِي غَسَلَ رَأْسَهُ وَاغْتَسَلَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَسَلْمَانَ، وَأَبِي ذَرٍّ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي أَيُّوبَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيُّ اسْمُهُ شَرَاحِيلُ بْنُ آدَةَ. وَأَبُو جَنَابٍ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْقَصَّابُ الْكُوفِيُّ.
اوس بن اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن غسل کیا اور غسل کرایا، اور سویرے پہنچا، شروع سے خطبہ میں شریک رہا، امام کے قریب بیٹھا اور غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اسے اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور رات کے قیام کا ثواب ملے گا"۔ وکیع کہتے ہیں: اس کا معنی ہے کہ اس نے خود غسل کیا اور اپنی عورت کو بھی غسل کرایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اوس بن اوس کی حدیث حسن ہے، ۲- عبداللہ بن مبارک نے اس حدیث کے سلسلہ میں کہا ہے کہ «من غسل واغتسل» کے معنی ہیں: جس نے اپنا سر دھویا اور غسل کیا، ۳- اس باب میں ابوبکر، عمران بن حصین، سلمان، ابوذر، ابوسعید، ابن عمر، اور ابوایوب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۲۹ (۳۴۵) ، سنن النسائی/الجمعة ۱۰ (۱۳۸۲) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۵) ، مسند احمد ۴/۸، ۹، ۱۰) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۴ (۱۵۸۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُفْيَانَ الْجَحْدَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ، وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُ أَصْحَابِ قَتَادَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ. وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ بَعْدَهُمْ، اخْتَارُوا الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَرَأَوْا أَنْ يُجْزِئَ الْوُضُوءُ مِنَ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَمِمَّا يَدُلُّ عَلَى أَنَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ أَنَّهُ عَلَى الِاخْتِيَارِ لَا عَلَى الْوُجُوبِ: حَدِيثُ عُمَرَ حَيْثُ قَالَ لِعُثْمَانَ: وَالْوُضُوءُ أَيْضًا. وَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِالْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلَوْ عَلِمَا أَنَّ أَمْرَهُ عَلَى الْوُجُوبِ لَا عَلَى الِاخْتِيَارِ لَمْ يَتْرُكْ عُمَرُ، عُثْمَانَ حَتَّى يَرُدَّهُ، وَيَقُولَ لَهُ: ارْجِعْ فَاغْتَسِلْ. وَلَمَا خَفِيَ عَلَى عُثْمَانَ ذَلِكَ مَعَ عِلْمِهِ، وَلَكِنْ دَلَّ فِي هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ فَضْلٌ مِنْ غَيْرِ وُجُوبٍ يَجِبُ عَلَى الْمَرْءِ فِي ذَلِكَ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اس نے رخصت کو اختیار کیا اور خوب ہے یہ رخصت، اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- قتادہ کے بعض تلامذہ نے تو یہ حدیث قتادہ سے اور قتادہ نے حسن بصری سے اور حسن بصری نے سمرہ بن جندب سے (مرفوعاً) روایت کی ہے۔ اور بعض نے قتادہ سے اور قتادہ نے حسن سے اور حسن نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۳-اس باب میں ابوہریرہ، عائشہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام اور ان کے بعد کے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، انہوں نے جمعہ کے دن کے غسل کو پسند کیا ہے، ان کا خیال ہے کہ غسل کے بدلے وضو بھی کافی ہو جائے گا، ۵- شافعی کہتے ہیں: جمعہ کے روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے حکم کے وجوبی ہونے کے بجائے اختیاری ہونے پر جو چیزیں دلالت کرتی ہیں ان میں سے عمر رضی الله عنہ کی حدیث بھی ہے جس میں انہوں نے عثمان رضی الله عنہ سے کہا ہے کہ تم نے صرف وضو پر اکتفا کیا ہے حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن غسل کا حکم دیا ہے، اگر انہیں یہ معلوم ہوتا کہ یہ حکم واجبی ہے، اختیاری نہیں تو عمر رضی الله عنہ عثمان رضی الله عنہ کو لوٹائے بغیر نہ چھوڑتے اور ان سے کہتے: جاؤ غسل کرو، اور نہ ہی عثمان رضی الله عنہ سے اس بات کے جاننے کے باوجود کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کو غسل کرنے کا حکم دیا ہے اس کے وجوب کی حقیقت مخفی رہتی، بلکہ اس حدیث میں صاف دلالت ہے کہ جمعہ کے دن غسل افضل ہے نہ کہ واجب۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الطہارة ۱۳۰ (۳۵۴) ، سنن النسائی/الجمعة ۹ (۱۳۸۱) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۸۷) ، مسند احمد (۵/۱۵، ۱۶، ۲۲) (صحیح) (یہ حدیث متعدد صحابہ سے مروی ہے، اور سب کی سندیں ضعیف ہیں، یہ سند بھی ضعیف ہے کیونکہ حسن بصری کا سماع سمرہ رضی الله عنہ سے حدیث عقیقہ کے سوا ثابت نہیں ہے، ہاں تمام طرق سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن لغیرہ کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے، متن کی تائید صحیح احادیث سے بھی ہوتی ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جمعہ کا غسل واجب نہیں کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے بلکہ اسے اچھا قرار دیا گیا ہے اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْجُمُعَةَ فَدَنَا وَاسْتَمَعَ وَأَنْصَتَ غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ وَزِيَادَةُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، وَمَنْ مَسَّ الْحَصَى فَقَدْ لَغَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "جس نے وضو کیا اور اچھی طرح کیا ۱؎ پھر جمعہ کے لیے آیا ۲؎، امام کے قریب بیٹھا، غور سے خطبہ سنا اور خاموش رہا تو اس کے اس جمعہ سے لے کر دوسرے جمعہ تک کے اور مزید تین دن کے ۳؎ کے گناہ ۴؎ بخش دیئے جائیں گے۔ اور جس نے کنکریاں ہٹائیں تو اس نے لغو کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۸ (۸۵۷) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۰۹ (۱۰۵۰) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۶۲ (۱۰۲۵) ، و۸۱ (۱۰۹۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۴۰۵) ، مسند احمد (۲/۴۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اچھی طرح وضو کیا کا مطلب ہے سنت کے مطابق وضو کیا۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ گھر سے وضو کر کے مسجد میں آنا زیادہ فضیلت کا باعث ہے۔ ۳؎: یعنی دس دن کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں کیونکہ ایک نیکی کا اجر کم سے کم دس گنا ہے۔ ۴؎ : اس سے صغیرہ گناہ مراد ہیں کیونکہ کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا أَقْرَنَ، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے روز جنابت کے غسل کی طرح (یعنی خوب اہتمام سے) غسل کیا پھر نماز جمعہ کے لیے (پہلی گھڑی میں) گیا تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں قربان کیا، اور جو اس کے بعد والی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک گائے قربان کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک سینگوں والا مینڈھا قربان کیا اور جو چوتھی گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک مرغی کا صدقہ کر کے اللہ کا تقرب حاصل کیا، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا تو گویا اس نے ایک انڈا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، پھر جب امام خطبہ کے لیے گھر سے نکل آیا تو فرشتے ذکر سننے کے لیے حاضر ہو جاتے ہیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو اور سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۴ (۸۸۱) ، و۳۱ (۹۲۹) ، وبدء الخلق ۶ (۳۲۱۱) ، صحیح مسلم/الجمعة ۷ (۸۵۰) ، سنن ابی داود/ الطہارة ۱۲۹ (۳۵۱) ، سنن النسائی/الإمامة ۵۹ (۸۶۵) ، والجمعة ۱۳ (۱۳۸۶) ، و۱۴ (۱۳۸۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۲ (۱۰۹۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۵۶۹) ، موطا امام مالک/الجمعة ۱ (۱) ، مسند احمد (۲/۲۳۹، ۲۵۹، ۲۸۰، ۵۰۵، ۵۱۲) سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۳ (۱۵۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کر کے خطبہ سننے لگتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ يَعْنِي الضَّمْرِيَّ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ فِيمَا زَعَمَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ تَهَاوُنًا بِهَا طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي الْجَعْدِ حَدِيثٌ حَسَنٌ. قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنِ اسْمِ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ، فَلَمْ يَعْرِفْ اسْمَهُ، وَقَالَ: لَا أَعْرِفُ لَهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا هَذَا الْحَدِيثَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو.
ابوالجعد ضمری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو جمعہ تین بار سستی ۱؎ سے حقیر جان کر چھوڑ دے گا تو اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوالجعد کی حدیث حسن ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ابوالجعد ضمری کا نام پوچھا تو وہ نہیں جان سکے، ۳- اس حدیث کے علاوہ میں ان کی کوئی اور حدیث نہیں جانتا جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۴- ہم اس حدیث کو صرف محمد بن عمرو کی روایت سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۱۰ (۱۰۵۲) ، سنن النسائی/الجمعة ۱ (۱۳۶۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۳ (۱۱۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۸۳) ، مسند احمد (۳/۴۲۴) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۵ (۱۶۱۲) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل جمعہ چھوڑنا ایک خطرناک کام ہے ، اس سے دل پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد اخروی کامیابی کی امید ختم ہو جاتی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَدُّوَيْهِ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ ثُوَيْرٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ قُبَاءَ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْهَدَ الْجُمُعَةَ مِنْ قُبَاءَ ". وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا وَلَا يَصِحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَابِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ ". وَهَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ ضَعِيفٌ، إِنَّمَا يُرْوَى مِنْ حَدِيثِ مُعَارِكِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، وَضَعَّفَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيَّ فِي الْحَدِيثِ. فَقَالَ: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، قَالَ بَعْضُهُمْ: تَجِبُ الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى مَنْزِلِهِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَجِبُ الْجُمُعَةُ إِلَّا عَلَى مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
اہل قباء میں سے ایک شخص اپنے والد سے روایت کرتا ہے - اس کے والد صحابہ میں سے ہیں - وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم قباء سے آ کر جمعہ میں شریک ہوں۔ اس سلسلے میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت کی گئی ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی کوئی چیز صحیح نہیں ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ اس پر فرض ہے جو رات کو اپنے گھر والوں تک پہنچ سکے"، اس حدیث کی سند ضعیف ہے، یہ حدیث معارک بن عباد سے روایت کی جاتی ہے اور معارک عبداللہ بن سعید مقبری سے روایت کرتے ہیں، یحییٰ بن سعید قطان نے عبداللہ بن سعید مقبری کی حدیث کی تضعیف کی ہے، ۳- اہل علم کا اس میں اختلاف ہے کہ جمعہ کس پر واجب ہے، بعض کہتے ہیں: جمعہ اس شخص پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر پہنچ سکے اور بعض کہتے ہیں: جمعہ صرف اسی پر واجب جس نے اذان سنی ہو، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۶۹) (ضعیف) (اس کی سند میں ایک راوی ’’ رجل من اھل قباء ‘‘ مبہم ہے)
سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فَذَكَرُوا عَلَى مَنْ تَجِبُ الْجُمُعَةُ، فَلَمْ يَذْكُرْ أَحْمَدُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا. قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: فَقُلْتُ لِأَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ فِيهِ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحْمَدُ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ نُصَيْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَارِكُ بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْجُمُعَةُ عَلَى مَنْ آوَاهُ اللَّيْلُ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ: فَغَضِبَ عَلَيَّ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَقَالَ لِي: اسْتَغْفِرْ، رَبَّكَ اسْتَغْفِرْ رَبَّكَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: إِنَّمَا فَعَلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ هَذَا لِأَنَّهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ شَيْئًا، وَضَعَّفَهُ لِحَالِ إِسْنَادِهِ.
میں نے احمد بن حسن کو کہتے سنا کہ ہم لوگ احمد بن حنبل کے پاس تھے تو لوگوں نے ذکر کیا کہ جمعہ کس پر واجب ہے؟ تو امام احمد نے اس سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی چیز ذکر نہیں کی، احمد بن حسن کہتے ہیں: تو میں نے احمد بن حنبل سے کہا: اس سلسلہ میں ابوہریرہ رضی الله عنہ کی روایت ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، تو امام احمد نے پوچھا کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے؟ میں نے کہا: ہاں (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے)، پھر احمد بن حسن نے «حجاج بن نصير حدثنا معارك بن عباد عن عبد الله بن سعيد المقبري عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: "جمعہ اس پر واجب ہے جو رات کو اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آ سکے"، احمد بن حسن کہتے ہیں کہ احمد بن حنبل مجھ پر غصہ ہوئے اور مجھ سے کہا: اپنے رب سے استغفار کرو، اپنے رب سے استغفار کرو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: احمد بن حنبل نے ایسا اس لیے کیا کہ انہوں نے اس حدیث کو کوئی حیثیت نہیں دی اور اسے کسی شمار میں نہیں رکھا، سند کی وجہ سے اسے ضعیف قرار دیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۹۶۵) (ضعیف جداً) (اس کے تین راوی ضعیف ہیں: عبداللہ بن سعید متروک، اور حجاج بن نصیر اور معارک دونوں ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " " يُصَلِّي الْجُمُعَةَ حِينَ تَمِيلُ الشَّمْسُ " ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی نماز اس وقت پڑھتے جب سورج ڈھل جاتا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۶ (۹۰۴) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۲۴ (۱۰۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۸۹) ، مسند احمد (۳/۱۲۸، ۲۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، وَجَابِرٍ، وَالزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَهُوَ الَّذِي أَجْمَعَ عَلَيْهِ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ وَقْتَ الْجُمُعَةِ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ كَوَقْتِ الظُّهْرِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ صَلَاةَ الْجُمُعَةِ إِذَا صُلِّيَتْ قَبْلَ الزَّوَالِ أَنَّهَا تَجُوزُ أَيْضًا، وقَالَ أَحْمَدُ: وَمَنْ صَلَّاهَا قَبْلَ الزَّوَالِ فَإِنَّهُ لَمْ يَرَ عَلَيْهِ إِعَادَةً.
اس سند سے بھی انس رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن الاکوع، جابر اور زبیر بن عوام رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اور اسی پر اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ جمعہ کا وقت ظہر کے وقت کی طرح اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج ڈھل جائے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض کی رائے ہے کہ جمعہ کی نماز جب زوال سے پہلے پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ احمد کہتے ہیں: جس نے جمعہ کی نماز زوال سے پہلے پڑھ لی تو اس پر دہرانا ضروری نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ الْفَلَّاسُ الصَّيْرَفِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَيَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ أَبُو غسان العنبري، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ فَلَمَّا اتَّخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ حَنَّ الْجِذْعُ حَتَّى أَتَاهُ فَالْتَزَمَهُ فَسَكَنَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَجَابِرٍ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَمُعَاذُ بْنُ الْعَلَاءِ هُوَ بَصْرِيٌّ، وَهُوَ أَخُو أَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے پر (کھڑے ہو کر) خطبہ دیتے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر بنا لیا تو وہ تنا رو پڑا یہاں تک کہ آپ اس کے پاس آئے اور اسے چمٹا لیا تو وہ چپ ہو گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، جابر، سہل بن سعد، ابی بن کعب، ابن عباس اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۵ (۳۵۸۳) ، (تحفة الأشراف : ۸۴۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ ثُمَّ يَجْلِسُ ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ ". قَالَ: مِثْلَ مَا تَفْعَلُونَ الْيَوْمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي رَآهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَفْصِلَ بَيْنَ الْخُطْبَتَيْنِ بِجُلُوسٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دیتے پھر (بیچ میں) بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے اور خطبہ دیتے، راوی کہتے ہیں: جیسے آج کل تم لوگ کرتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- یہی اہل علم کی رائے ہے کہ دونوں خطبوں کے درمیان بیٹھ کر فصل کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۷ (۹۲۰) ، و۳۰ (۹۲۸) ، صحیح مسلم/الجمعة ۱۰ (۸۶۱) ، (تحفة الأشراف : ۷۸۷۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَهَنَّادٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قَالَ: " كُنْتُ أُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَتْ صَلَاتُهُ قَصْدًا وَخُطْبَتُهُ قَصْدًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتا تھا تو آپ کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی اور خطبہ بھی درمیانا ہوتا تھا۔ (یعنی زیادہ لمبا نہیں ہوتا تھا)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمار بن یاسر اور ابن ابی اوفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۶۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۲۹ (۱۱۰۱) ، سنن النسائی/العیدین ۲۶ (۱۵۸۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۵ (۱۱۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۱۶۷) ، مسند احمد (۵/۹۱، ۹۳-۹۵، ۹۸، ۱۰۰، ۱۰۲) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۹ (۱۵۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ عَلَى الْمِنْبَرِ وَنَادَوْا يَا مَالِكُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَدِ اخْتَارَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَقْرَأَ الْإِمَامُ فِي الْخُطْبَةِ آيًا مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِذَا خَطَبَ الْإِمَامُ فَلَمْ يَقْرَأْ فِي خُطْبَتِهِ شَيْئًا مِنَ الْقُرْآنِ أَعَادَ الْخُطْبَةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر پڑھتے سنا: «ونادوا يا مالك» ۱؎ "اور وہ پکار کر کہیں گے اے مالک!"
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، اور یہی ابن عیینہ کی حدیث ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر بن سمرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے امام کے خطبہ میں قرآن کی کچھ آیتیں پڑھنے کو پسند کیا ہے ۲؎، شافعی کہتے ہیں: امام جب خطبہ دے اور اس میں قرآن کچھ نہ پڑھے تو خطبہ دہرائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۷ (۳۲۳۰) ، و۱۰ (۳۲۶۶) ، وتفسیر الزخرف ۱ (۴۸۱۹) ، صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : الزخرف : ۷۷ («مالک» جہنم کے دروغہ کا نام ہے جس کو جہنمی پکار کر کہیں گے کہ اپنے رب سے کہو کہ ہمیں موت ہی دیدے تاکہ جہنم کے عذاب سے نجات تو مل جائے ، جواب ملے گا : یہاں ہمیشہ ہمیش کے لیے رہنا ہے) ۲؎ : صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ جمعہ میں "سورۃ ق" پوری پڑھا کرتے تھے ، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ بطور وعظ ونصیحت کے قرآن کی کوئی آیت پڑھنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ يَعْقُوبَ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى الْمِنْبَرِ اسْتَقْبَلْنَاهُ بِوُجُوهِنَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَحَدِيثُ مَنْصُورٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ بْنِ عَطِيَّةَ ضَعِيفٌ ذَاهِبُ الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَسْتَحِبُّونَ اسْتِقْبَالَ الْإِمَامِ إِذَا خَطَبَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَا يَصِحُّ فِي هَذَا الْبَاب عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر بیٹھتے تو ہم اپنا منہ آپ کی طرف کر لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- منصور کی حدیث کو ہم صرف محمد بن فضل بن عطیہ کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- محمد بن فضل بن عطیہ ہمارے اصحاب کے نزدیک ضعیف اور ذاہب الحدیث ہیں، ۳- اس باب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی کوئی چیز صحیح نہیں ہے ۱؎، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا عمل اسی پر ہے، وہ خطبے کے وقت امام کی طرف رخ کرنا مستحب سمجھتے ہیں اور یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۵- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۴۵۷) (صحیح) (یہ سند سخت ضعیف ہے، اس لیے کہ اس میں راوی محمد بن فضل بن عطیہ کی لوگوں نے تکذیب تک کی ہے، لیکن براء بن عازب اور ابن عمر، انس اور ابو سعید خدری وغیرہ سے مروی شواہد کی بنا پر صحابہ کا یہ تعامل صحیح اور ثابت ہے تفصیل کے لیے دیکھئے: الصحیحة ۲۰۸۰)
وضاحت: ۱؎ : سند کے لحاظ سے اس باب میں کوئی حدیث صحیح نہیں ہے لیکن متعدد احادیث وآثار سے اس مضمون کو تقویت مل جاتی ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم۲۰۸۰)عام مساجد میں یہ چیز تو بہت آسان ہے لیکن خانہ کعبہ میں مشکل ہے ، تو وہاں یہ بات معاف ہو گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَصَلَّيْتَ ؟ " قَالَ: لَا، قَالَ: " قُمْ فَارْكَعْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا تو آپ نے اُسے پوچھا: کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "اٹھو اور (دو رکعت) نماز پڑھ لو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے اور اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التہجد ۲۵ (۱۱۲۶) ، والجمعة ۳۲ (۹۳۰) ، و۳۳ (۹۳۱) ، صحیح مسلم/الجمعة ۱۴ (۸۷۵) ، سنن النسائی/الجمعة ۲۱ (۱۴۰۱) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۷ (۱۱۱۳) ، (تحفة الأشراف : ۲۵۱۱) ، مسند احمد (۳/۲۹۷، ۳۰۸، ۳۶۹) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ دَخَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَمَرْوَانُ يَخْطُبُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَجَاءَ الْحَرَسُ لِيُجْلِسُوهُ فَأَبَى حَتَّى صَلَّى، فَلَمَّا انْصَرَفَ أَتَيْنَاهُ، فَقُلْنَا: رَحِمَكَ اللَّهُ إِنْ كَادُوا لَيَقَعُوا بِكَ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ لِأَتْرُكَهُمَا بَعْدَ شَيْءٍ رَأَيْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ ذَكَرَ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي هَيْئَةٍ بَذَّةٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، " فَأَمَرَهُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ ". قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: كَانَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ إِذَا جَاءَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَكَانَ يَأْمُرُ بِهِ، وَكَانَ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ يَرَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وسَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَجْلَانَ ثِقَةً مَأْمُونًا فِي الْحَدِيثِ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَهْلِ بْنِ سَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا دَخَلَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَإِنَّهُ يَجْلِسُ وَلَا يُصَلِّي، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ خَالِدٍ الْقُرَشِيُّ، قَالَ: رَأَيْتُ الْحَسَنَ الْبَصْرِيَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ. إِنَّمَا فَعَلَ الْحَسَنُ اتِّبَاعًا لِلْحَدِيثِ. وَهُوَ رَوَى عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ.
عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح سے روایت ہے کہ ابو سعید خدری رضی الله عنہ جمعہ کے دن (مسجد میں) داخل ہوئے، مروان بن حکم خطبہ دے رہے تھے، وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، پہریدار آئے تاکہ انہیں بٹھا دیں لیکن وہ نہیں مانے اور نماز پڑھ ہی لی، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے ان کے پاس آ کر کہا: اللہ آپ پر رحم فرمائے قریب تھا کہ یہ لوگ آپ سے ہاتھا پائی کر بیٹھتے، تو انہوں نے کہا: میں تو یہ دونوں رکعتیں ہرگز چھوڑنے والا تھا نہیں، بعد اس کے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، پھر انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص جمعہ کے دن پراگندہ حالت میں آیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے تو آپ نے اسے دو رکعت پڑھنے کا حکم دیا، اس نے دو رکعتیں پڑھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: سفیان بن عیینہ جب مسجد میں آتے اور امام خطبہ دے رہا ہوتا تو دو رکعتیں پڑھتے تھے، وہ اس کا حکم بھی دیتے تھے، اور ابوعبدالرحمٰن المقری بھی اسے درست سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- میں نے ابن ابی عمر کو کہتے سنا کہ سفیان بن عیینہ کہتے تھے کہ محمد بن عجلان ثقہ ہیں اور حدیث میں مامون ہیں، ۳- اس باب میں جابر، ابوہریرہ اور سہل بن سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں اور بعض کہتے ہیں کہ جب کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ بیٹھ جائے نماز نہ پڑھے، یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے، ۵- پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ علاء بن خالد قرشی کہتے ہیں: میں نے حسن بصری کو دیکھا کہ وہ جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوئے اور امام خطبہ دے رہا تھا، تو انہوں نے دو رکعت نماز پڑھی، پھر بیٹھے، حسن بصری نے ایسا حدیث کی اتباع میں کیا، یہ حدیث انہوں نے جابر سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الزکاة ۳۹ (۱۶۷۵) ، (مختصرا) ، سنن النسائی/الجمعة ۲۶ (۱۴۰۹) ، والزکاة ۵۵ (۲۵۳۷) ، (تحفة الأشراف : ۴۲۷۲) ، مسند احمد (۳/۲۵) ، (کلہم بدون ذکر قصة مروان) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے مسجد میں داخل ہوتے وقت دو رکعت "تحیۃ المسجد" کی تاکید ثابت ہوتی ہے ، اس باب میں اور بہت سی احادیث ہیں حتیٰ کہ تحیۃ المسجد کے لیے مکروہ اوقات کی بھی رکاوٹ نہیں ہے کیونکہ یہ سببی صلاۃ ہے ، ہاں اگر کوئی ایسے وقت مسجد میں داخل ہو کہ جب کسی فرض وسنت صلاۃ کا وقت تھا تو فرض وسنت صلاۃ سے تحیۃ المسجد کی بھی ادائیگی ہو جائیگی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ قَالَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ: أَنْصِتْ فَقَدْ لَغَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ: كَرِهُوا لِلرَّجُلِ أَنْ يَتَكَلَّمَ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَقَالُوا: إِنْ تَكَلَّمَ غَيْرُهُ فَلَا يُنْكِرْ عَلَيْهِ إِلَّا بِالْإِشَارَةِ. وَاخْتَلَفُوا فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رَدِّ السَّلَامِ وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ وَغَيْرِهِمْ ذَلِكَ وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن امام کے خطبہ کے دوران کسی سے کہا: چپ رہو تو اس نے لغو بات کی یا اس نے اپنا جمعہ لغو کر لیا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اسی پر عمل ہے، علماء نے آدمی کے لیے خطبہ کے دوران گفتگو کرنا مکروہ جانا ہے اور کہا ہے کہ اگر کوئی دوسرا گفتگو کرے تو اسے بھی منع نہ کرے سوائے اشارے کے، ۴- البتہ دوران خطبہ سلام کے جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمك الله» کہنے کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہل علم نے دوران خطبہ سلام کا جواب دینے اور چھینکنے والے کے جواب میں «يرحمك الله» کہنے کی اجازت دی ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے اور تابعین وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ قرار دیا ہے، اور یہی شافعی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۶ (۹۳۴) ، صحیح مسلم/الجمعة ۳ (۸۵۱) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۳۵ (۱۱۱۲) ، سنن النسائی/الجمعة ۲۲ (۱۴۰۲) ، والعیدین ۲۱ (۱۵۷۸) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۶ (۱۱۱۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۲۰۶) ، موطا امام مالک/الجمعة ۲ (۶) ، مسند احمد (۲/۲۴۴، ۲۷۲، ۲۸۰، ۳۹۳، ۳۹۶، ۴۸۵، ۵۱۸، ۵۳۲) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۵ (۱۵۸۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اسے جمعہ کی فضیلت نہیں ملی بلکہ اس سے محروم رہا ، یہ معنی نہیں کہ اس کی نماز ہی نہیں ہوئی کیونکہ اس بات پر اجماع ہے کہ اس کی نماز جمعہ ادا ہو جائے گی ، البتہ وہ جمعہ کی فضیلت سے محروم رہے گا ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ پورے انہماک اور توجہ سے سننا چاہیئے ، اور خطبہ کے دوران کوئی ناروا حرکت نہیں کرنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَبَّانَ بْنِ فَائِدٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ اتَّخَذَ جِسْرًا إِلَى جَهَنَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا أَنْ يَتَخَطَّى الرَّجُلُ رِقَابَ النَّاسِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَشَدَّدُوا فِي ذَلِكَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي رِشْدِينَ بْنِ سَعْدٍ وَضَعَّفَهُ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے دن جس نے لوگوں کی گردنیں پھاندیں اس نے جہنم کی طرف لے جانے والا پل بنا لیا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں جابر سے بھی روایت ہے۔ سہل بن معاذ بن انس جہنی کی حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف رشد بن سعد کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- البتہ اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ انہوں نے اس بات کو مکروہ سمجھا ہے، کہ آدمی جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے اور انہوں نے اس میں سختی سے کام لیا ہے۔ اور ان کے حفظ کے تعلق سے انہیں ضعیف گردانا ہے۔ بعض اہل علم نے رشدین بن سعد پر کلام کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۸ (۱۱۱۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۲۹۲) ، مسند احمد (۳/۴۳۷) (حسن) (سند میں رشدین بن سعد اور زبان بن فائد دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن شاہد کی وجہ سے حسن لغیرہ ہے، تراجع الالبانی۴۵، السراج المنیر ۱۵۱۲، والصحیحہ ۳۱۲۲)
وضاحت: ۱؎ : یہ ترجمہ «اتّخَذَ» معروف کے صیغے کا ہے مشہور اعراب مجہول کے صیغے «اتُّخِذَ» کے ساتھ ہے ، اس صورت میں ترجمہ یوں ہو گا کہ جو جمعہ کے دن لوگوں کی گردنیں پھاندے گا وہ جہنم کا پل بنا دیا جائے گا جس پر چڑھ کر لوگ جہنم کو عبور کریں گے۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ الرَّازِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي أَبُو مَرْحُومٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى عَنِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو مَرْحُومٍ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مَيْمُونٍ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الْحِبْوَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، وَرَخَّصَ فِي ذَلِكَ بَعْضُهُمْ مِنْهُمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَغَيْرُهُ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: لَا يَرَيَانِ بِالْحِبْوَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ بَأْسًا.
معاذ بن انس جہنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے دن جب کہ امام خطبہ دے رہا ہو گھٹنوں کو پیٹ کے ساتھ ملا کر بیٹھنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- عام اہل علم نے جمعہ کے دن حبوہ کو مکروہ جانا ہے، اور بعض نے اس کی رخصت دی ہے، انہیں میں سے عبداللہ بن عمر وغیرہ ہیں۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں، یہ دونوں امام کے خطبہ دینے کی حالت میں حبوہ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۳۴ (۱۱۱۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۲۹۹) ، مسند احمد (۳/۴۳۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : «حبوہ» ایک مخصوص بیٹھک کا نام ہے ، اس کی صورت یہ ہے کہ سرین پر بیٹھا جائے اور دونوں گھٹنوں کو کھڑا رکھا جائے اور انہیں دونوں ہاتھوں سے باندھ لیا جائے ، اس سے ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ اس طرح بیٹھنے سے نیند آتی ہے اور ہوا خارج ہونے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَارَةَ بْنَ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيَّ، وَبِشْرُ بْنُ مَرْوَانَ يَخْطُبُ، فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي الدُّعَاءِ، فَقَالَ عُمَارَةُ: " قَبَّحَ اللَّهُ هَاتَيْنِ الْيُدَيَّتَيْنِ الْقُصَيَّرَتَيْنِ، لَقَدْ رأَيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا يَزِيدُ عَلَى أَنْ يَقُولَ هَكَذَا، وَأَشَارَ هُشَيْمٌ بِالسَّبَابةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
حصین کہتے ہیں کہ بشر بن مروان خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے دعا ۱؎ کے لیے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، تو میں نے عمارہ بن رویبہ کو کہتے سنا: اللہ ان دونوں چھوٹے ہاتھوں کو غارت کرے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صرف اس طرح کرتے تھے اس سے زیادہ کچھ نہیں، اور ہشیم نے اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۷۴) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۳۰ (۱۱۰۴) ، سنن النسائی/الجمعة ۲۹ (۱۴۱۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۳۷۷) ، مسند احمد (۴/۱۳۵، ۱۳۶، ۲۶۱) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۱ (۱۶۰۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : صحیح مسلم میں «فی الدعاء» کا لفظ نہیں ہے ، مولف نے اسی لفظ سے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ خطبہ جمعہ کی حالت میں دعا میں ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے ، اور مسلم کی روایت کے مطابق حدیث کا مطلب ہے کہ خطبہ میں بہت زیادہ ہاتھ نہیں اٹھانا چاہیئے اور وہ جو صحیح بخاری میں انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران خطبہ بارش کے لیے دعا کی اور ہاتھ اٹھایا ، تو بقول بعض ائمہ یہ استسقاء (بارش کے طلب) کی دعا تھی اس لیے اٹھایا تھا ، صحیح بات یہ ہے کہ عمارہ بن رویبہ نے مطلق حالت خطبہ میں ہاتھوں کو زیادہ حرکت کی بابت تنبیہ کی تھی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ خَالِدٍ الْخَيَّاطُ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " كَانَ الْأَذَانُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ وَإِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَلَمَّا كَانَ عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، زَادَ النِّدَاءَ الثَّالِثَ عَلَى الزَّوْرَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی الله عنہما کے زمانے میں (پہلی) اذان اس وقت ہوتی جب امام نکلتا اور(دوسری) جب نماز کھڑی ہوتی ۱؎ پھر جب عثمان رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے زوراء ۲؎ میں تیسری اذان کا اضافہ کیا ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۱ (۹۱۲) ، و۲۲ (۹۱۳) ، و۲۴ (۹۱۵) ، و۲۵ (۹۱۶) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۲۵ (۱۰۸۷) ، سنن النسائی/الجمعة ۱۵ (۱۳۹۳) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۷ (۱۱۳۵) ، (تحفة الأشراف : ۳۷۹۹) ، مسند احمد (۳/۴۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہاں دوسری اذان سے مراد اقامت ہے۔ ۲؎ : زوراء مدینہ کے بازار میں ایک جگہ کا نام تھا۔ ۳؎ : عثمان رضی الله عنہ نے مسجد سے دور بازار میں پہلی اذان دلوائی ، اور فی زمانہ لوگوں نے یہ اذان مسجد کے اندر کر دی ہے اور دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ اذان عثمان رضی الله عنہ کی سنت ہے ، اگر کہیں واقعی اس طرح کی ضرورت موجود ہو تو اذان مسجد سے باہر دی جائے ، ویسے اب مائک کے انتظام اور اکثر لوگوں کے ہاتھوں میں گھڑیوں کی موجودگی کے سبب اس طرح کی اذان کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ گئی ، جس ضرورت کے تحت عثمان رضی الله عنہ یہ زائد اذان دلوائی تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَلَّمُ بِالْحَاجَةِ إِذَا نَزَلَ عَنِ الْمِنْبَرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ. قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَالصَّحِيحُ مَا رُوِيَ عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَأَخَذَ رَجُلٌ بِيَدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا زَالَ يُكَلِّمُهُ حَتَّى نَعَسَ بَعْضُ الْقَوْمِ ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَالْحَدِيثُ هُوَ هَذَا. وَجَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ رُبَّمَا يَهِمُ فِي الشَّيْءِ، وَهُوَ صَدُوقٌ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَهِمَ جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ فِي حَدِيثِ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي ". قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُرْوَى عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ فَحَدَّثَ حَجَّاجٌ، الصَّوَّافُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا تَقُومُوا حَتَّى تَرَوْنِي " فَوَهِمَ جَرِيرٌ فَظَنَّ أَنَّ ثَابِتًا حَدَّثَهُمْ عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت کی بات اس وقت کرتے جب آپ منبر سے اترتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف جریر بن حازم کی روایت سے جانتے ہیں، اور میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جریر بن حازم کو اس حدیث میں وہم ہوا ہے، اور صحیح وہی ہے جو بطریق: «ثابت عن أنس» مروی ہے، انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نماز کھڑی ہوئی اور ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑا تو آپ برابر اس سے گفتگو کرتے رہے یہاں تک کہ بعض لوگوں کو اونگھ آنے لگی۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: حدیث یہی ہے، اور جریر کو کبھی کبھی وہم ہو جاتا ہے حالانکہ وہ صدوق ہیں۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ جریر بن حازم کو ثابت کی حدیث میں (بھی) جسے ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے وہم ہوا ہے (جو یہ ہے کہ) آپ نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم اس وقت تک نہ کھڑے ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: نیز حماد بن زید سے روایت کی جاتی ہے کہ ہم لوگ ثابت بنانی کے پاس تھے، اور حجاج صواف نے یحییٰ ابن ابی کثیر کے واسطہ سے حدیث بیان کی، جسے یحییٰ نے عبداللہ بن ابوقتادہ سے اور عبداللہ نے اپنے والد ابوقتادہ سے اور ابوقتادہ رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: "جب نماز کھڑی ہو جائے تو تم کھڑے نہ ہو جب تک کہ مجھے نہ دیکھ لو" چنانچہ جریر کو وہم ہوا، انہیں گمان ہوا کہ ثابت نے ان سے بیان کیا ہے اور ثابت نے انس سے اور انس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۴۰ (۱۱۲۰) ، سنن النسائی/الجمعة ۳۶ (۱۴۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۹ (۱۱۱۷) ، (تحفة الأشراف : ۲۶۰) ، مسند احمد (۳/۱۲۷) (شاذ) (جریر سے وہم ہوا ہے، واقعہ عشاء کا ہے، نہ کہ جمعہ کا، جیسا کہ مسلم کی حدیث نمبر۳۷۰میں ہے)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: لَقَدْ " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا تُقَامُ الصَّلَاةُ يُكَلِّمُهُ الرَّجُلُ يَقُومُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَمَا يَزَالُ يُكَلِّمُهُ، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَنَا يَنْعَسُ مِنْ طُولِ قِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نماز کھڑی ہو جانے کے بعد میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ سے ایک آدمی باتیں کر رہا ہے، اور آپ اس کے اور قبلے کے درمیان کھڑے ہیں، آپ برابر اس سے گفتگو کرتے رہے، میں نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طول قیام کی وجہ سے بعض لوگ اونگھ رہے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۴۷۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اسْتَخْلَفَ مَرْوَانُ، أَبَا هُرَيْرَةَ عَلَى الْمَدِينَةِ وَخَرَجَ إِلَى مَكَّةَ فَصَلَّى بِنَا أَبُو هُرَيْرَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَقَرَأَ سُورَةَ الْجُمُعَةِ، وَفِي السَّجْدَةِ الثَّانِيَةِ إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ، قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: فَأَدْرَكْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، فَقُلْتُ لَهُ: تَقْرَأُ بِسُورَتَيْنِ كَانَ عَلِيٌّ يَقْرَأُ بِهِمَا بِالْكُوفَةِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهِمَا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَأَبِي عِنَبَةَ الْخَوْلَانِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَرُوِي عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ بِ: سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ. عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي رَافِعٍ: كَاتِبُ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبیداللہ بن ابی رافع کہتے ہیں: مروان نے ابوہریرہ رضی الله عنہ کو مدینے میں اپنا نائب مقرر کیا اور وہ خود مکہ کی طرف نکلے، ابوہریرہ رضی الله عنہ نے ہمیں جمعہ کے دن نماز پڑھائی تو انہوں نے (پہلی رکعت میں) سورۃ الجمعہ پڑھی اور دوسری رکعت میں «إذا جاءك المنافقون» ، عبیداللہ کہتے ہیں: تو میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ملا، میں نے ان سے کہا: آپ نے دو ایسی سورتیں پڑھی ہیں جنہیں علی رضی الله عنہ کوفہ میں پڑھتے ہیں، اس پر ابوہریرہ رضی الله عنہ نے کہا: میں نے ان دونوں سورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھتے سنا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، نعمان بن بشیر اور ابوعنبہ خولانی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ جمعہ کی نماز میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية»پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۶ (۸۷۷) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۴۲ (۱۱۲۴) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۰ (۱۱۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۱۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُخَوَّلِ بْنِ رَاشِدٍ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ: الم تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وَ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سَعْدٍ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَشُعْبَةُ وَغَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ مُخَوَّلٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن فجر کی نماز میں «الم تنزيل السجدةَ» ، «هل أتى على الإنسان»پڑھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- سفیان ثوری، شعبہ اور کئی لوگوں نے بھی یہ حدیث مخول بن راشد سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۶ (۸۷۹) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۱۸ (۱۰۷۴) ، سنن النسائی/الافتتاح ۴۷ (۹۵۷) ، والجمعة ۳۸ (۱۴۲۰) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۶ (۸۲۱) ، (تحفة الأشراف : ۵۶۱۳) ، مسند احمد (۱/۲۲۶، ۳۰۷، ۳۱۶، ۳۲۸، ۳۳۴، ۳۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَيْضًا. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت (سنت) پڑھتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- یہ حدیث بطریق «نافع عن ابن عمر» ہے، ۴- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، اور یہی شافعی اور احمد بھی کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۸ (۸۸۲) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۴۴ (۱۱۳۲) ، سنن النسائی/الجمعة ۴۳ (۱۴۲۸) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۵ (۱۱۳۱) ، (تحفة الأشراف : ۶۹۰۱) ، وکذا (۶۹۴۸) ، مسند احمد (۲/۱۱، ۳۵، ۷۵، ۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث میں جمعہ کے بعد صرف دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے ، اور صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت آئی ہے جس میں چار رکعتیں پڑھنے کا حکم ہے ، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دونوں صورتیں جائز ہیں ، بعض علماء نے یہ تطبیق دی ہے کہ مسجد میں پڑھنے والا چار رکعت پڑھے ، اور گھر میں پڑھے تو دو رکعت پڑھے کچھ لوگ چھ رکعت کے قائل ہیں ، لیکن کسی بھی صحیح مرفوع روایت سے یہ ثابت نہیں کہ کس طرح پڑھی جائے ، اس میں بھی اختلاف ہے ، بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ چاروں رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھی جائیں اور بعض کا کہنا ہے کہ دو دو کر کے چار رکعت پڑھی جائیں ، لیکن بہتر یہ ہے کہ دو دو کر کے پڑھی جائیں کیونکہ صحیح حدیث میں ہے «صلاۃ اللیل والنہار مثنیٰ مثنیٰ» " رات اور دن کی نفل نماز دو دو رکعت کر کے پڑھنا ہے "۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ إِذَا صَلَّى الْجُمُعَةَ انْصَرَفَ فَصَلَّى سَجْدَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، ثُمَّ قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نافع سے روایت ہے ابن عمر رضی الله عنہما جب جمعہ پڑھ لیتے تو (گھر) واپس آتے اور دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے پھر کہتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۸۲۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُصَلِّيًا بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: كُنَّا نَعُدُّ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ ثَبْتًا فِي الْحَدِيثِ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. وَرُوِي عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي قَبْلَ الْجُمُعَةِ أَرْبَعًا وَبَعْدَهَا أَرْبَعًا. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ أَمَرَ أَنْ يُصَلَّى بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَرْبَعًا. وَذَهَبَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ إِلَى قَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ. وقَالَ إِسْحَاق: إِنْ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ صَلَّى أَرْبَعًا، وَإِنْ صَلَّى فِي بَيْتِهِ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ، وَحَدِيثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مِنْكُمْ مُصَلِّيًا بَعْدَ الْجُمُعَةِ فَلْيُصَلِّ أَرْبَعًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَابْنُ عُمَرَ هُوَ الَّذِي رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ " وَابْنُ عُمَرَ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ، وَصَلَّى بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ أَرْبَعًا. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ صَلَّى بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ صَلَّى بَعْدَ ذَلِكَ أَرْبَعًا. حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَنَصَّ لِلْحَدِيثِ مِنْ الزُّهْرِيِّ، وَمَا رَأَيْتُ أَحَدًا الدَّنَانِيرُ وَالدَّرَاهِمُ أَهْوَنُ عَلَيْهِ مِنْهُ، إِنْ كَانَتِ الدَّنَانِيرُ وَالدَّرَاهِمُ عِنْدَهُ بِمَنْزِلَةِ الْبَعْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت ابْنَ أَبِي عُمَرَ، قَال: سَمِعْتُ سُفْيَانَ بْنَ عُيَيْنَةَ، يَقُولُ: كَانَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ أَسَنَّ مِنْ الزُّهْرِيِّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو تم میں سے جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو چاہیئے کہ چار رکعت پڑھے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۳- نیز عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے کہ وہ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں اور اس کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھتے تھے، ۴- اور علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے کہ انہوں نے حکم دیا کہ جمعہ کے بعد پہلے دو پھر چار رکعتیں پڑھی جائیں، ۵- سفیان ثوری اور ابن مبارک بھی ابن مسعود کے قول کی طرف گئے ہیں، ۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جمعہ کے دن اگر مسجد میں پڑھے تو چار رکعتیں اور اگر اپنے گھر میں پڑھے تو دو رکعتیں پڑھے، ان کی دلیل یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (یہ بھی) حدیث ہے کہ تم میں سے جو کوئی جمعہ کے بعد نماز پڑھے تو چار رکعتیں پڑھے، ۷- ابن عمر رضی الله عنہما ہی ہیں جنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ جمعہ کے بعد دو رکعتیں اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔ اور ابن عمر رضی الله عنہما نے خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسجد میں جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں اور دو رکعتوں کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔ عطا سے روایت کی ہے کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۸ (۸۸۱) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۴۴ (۱۱۳۱) ، سنن النسائی/الجمعة ۴۲ (۱۴۲۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۵ (۱۱۳۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۶۶۷) ، (وکذا: ۱۲۶۶۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَدْرَكَ مِنَ الصَّلَاةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: مَنْ أَدْرَكَ رَكْعَةً مِنَ الْجُمُعَةِ صَلَّى إِلَيْهَا أُخْرَى، وَمَنْ أَدْرَكَهُمْ جُلُوسًا صَلَّى أَرْبَعًا. وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نماز میں ایک رکعت پا لی اس نے نماز پا لی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جس نے جمعہ کی ایک رکعت پا لی تو وہ دوسری رکعت (خود سے) پڑھ لے اور جس نے لوگوں کو سجدے میں پایا تو وہ چار رکعت (ظہر کی نماز) پڑھے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المواقیت ۲۹ (۵۸۰) ، صحیح مسلم/المساجد ۳۰ (۶۰۷) ، سنن ابی داود/ الصلاة ۲۴۱ (۱۱۲۱) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۱ (۱۱۲۲) ، مسند احمد (۲/۲۴۱، ۲۶۵، ۲۷۱، ۲۸۰، ۳۷۵، ۳۷۶) ، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲ (۱۲۵۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جماعت کی فضیلت اس نے پالی ، یا اس نے نماز کا وقت پا لیا ، اس کے عموم میں جمعہ کی نماز بھی داخل ہے ، اس لیے جمعہ کی دو رکعتوں میں اگر کوئی ایک رکعت بھی پا لے تو گویا اس نے پوری نماز جمعہ جماعت سے پالی۔ ۲؎ : کیا نماز جمعہ میں امام کے ساتھ دوسری رکعت کے کسی بھی حصے میں شامل ہونے والا ظہر کی پوری چار رکعت پڑھے گا یا صرف دو رکعت مکمل کرے گا ؟ اس موضوع پر تفصیل جاننے کے لیے "قول ثابت اردو شرح مؤطا امام مالک" کی " کتاب وقوف الصلاۃ کے باب وقت الجمعۃ" کا مطالعہ کر لیں ، بموجب صحیح مسلک بالاختصار یہ ہے کہ ایسا مقتدی دو رکعت ہی پڑھے ، چار نہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " مَا كُنَّا نَتَغَذَّى فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَقِيلُ إِلَّا بَعْدَ الْجُمُعَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں: ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جمعہ کے بعد ہی کھانا کھاتے اور قیلولہ کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سہل بن سعد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس بن مالک سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۴۰ (۹۳۹) ، والحرث ۲۱ (۲۳۴۹) ، والاطعمة ۱۷ (۵۴۰۳) ، والاستئذان ۱۶ (۶۲۴۸) ، و۳۹ (۶۲۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۴ (۱۰۹۹) ، (تحفة الأشراف : ۴۶۹۸) ، مسند احمد (۵/۳۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَلْيَتَحَوَّلْ مِنْ مَجْلِسِهِ ذَلِكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن اونگھے تو اپنی جگہ بدل دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الصلاة ۲۳۹ (۱۱۱۹) ، (تحفة الأشراف : ۸۴۰۶) ، مسند احمد (۲/۲۲، ۱۳۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَوَاحَةَ فِي سَرِيَّةٍ، فَوَافَقَ ذَلِكَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَغَدَا أَصْحَابُهُ، فَقَالَ: أَتَخَلَّفُ فَأُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ فَلَمَّا صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَآهُ، فَقَالَ: " مَا مَنَعَكَ أَنْ تَغْدُوَ مَعَ أَصْحَابِكَ "، فَقَالَ: أَرَدْتُ أَنْ أُصَلِّيَ مَعَكَ ثُمَّ أَلْحَقَهُمْ، قَالَ: " لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَدْرَكْتَ فَضْلَ غَدْوَتِهِمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ. قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَقَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَحَادِيثَ، وَعَدَّهَا شُعْبَةُ. وَلَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ. فَكَأَنَّ هَذَا الْحَدِيثَ لَمْ يَسْمَعْهُ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ. وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي السَّفَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ بَأْسًا بِأَنْ يَخْرُجَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي السَّفَرِ مَا لَمْ تَحْضُرِ الصَّلَاةُ. وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا أَصْبَحَ فَلَا يَخْرُجْ حَتَّى يُصَلِّيَ الْجُمُعَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن رواحہ رضی الله عنہ کو ایک سریہ میں بھیجا، اتفاق سے وہ جمعہ کا دن تھا، ان کے ساتھی صبح سویرے روانہ ہو گئے، انہوں نے (اپنے جی میں) کہا: میں پیچھے رہ جاتا ہوں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ لیتا ہوں۔ پھر میں ان لوگوں سے جا ملوں گا، چنانچہ جب انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، تو آپ نے انہیں دیکھ کر فرمایا: "تمہیں کس چیز نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ جانے سے روک دیا؟"، عرض کیا: میں نے چاہا کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھ لوں پھر میں ان سے جا ملوں گا۔ آپ نے فرمایا: "اگر تم جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کر ڈالو تو بھی ان کے صبح روانہ ہونے کا ثواب نہیں پاس کو گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم صرف اسی سند سے اسے جانتے ہیں، ۲- یحییٰ بن سعید کہتے ہیں کہ شعبہ کہتے ہیں کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ حدیثیں سنی ہیں اور شعبہ نے انہیں گن کر بتایا تو یہ حدیث شعبہ کی گنی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی۔ گویا حکم نے یہ حدیث مقسم سے نہیں سنی ہے، ۳- جمعہ کے دن سفر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں نے جمعہ کے دن سفر پر نکلنے میں کوئی حرج نہیں جانا ہے جب کہ نماز کا وقت نہ ہوا ہو اور بعض کہتے ہیں، جب جمعہ کی صبح ہو جائے تو جمعہ پڑھے بغیر نہ نکلے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر: مسند احمد (۱/۲۲۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۴۷۱) (ضعیف الإسناد) (حکم نے یہ حدیث مقسم سے نہیں سنی ہے، یعنی سند میں انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے سفر کی مشروعیت پر دلالت کر رہی ہے ، لیکن ضعیف ہے ، مگر جمعہ کے دن جمعہ کی نماز سے پہلے خاص طور پر زوال کے بعد سفر سے ممانعت کی کوئی صحیح حدیث وارد بھی نہیں ہے اس لیے اس بابت علماء میں اختلاف ہے کہ کیا بہتر ہے ؟ دونوں طرف لوگ گئے ہیں جس کا تذکرہ مولف نے کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو يَحْيَى إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَقٌّ عَلَى الْمُسْلِمِينَ أَنْ يَغْتَسِلُوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَلْيَمَسَّ أَحَدُهُمْ مِنْ طِيبِ أَهْلِهِ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَالْمَاءُ لَهُ طِيبٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي سَعِيدٍ وَشَيْخٍ مِنْ الْأَنْصَارِ.
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ جمعہ کے دن غسل کریں اور ہر ایک اپنے گھر والوں کی خوشبو میں سے خوشبو لگائے، اگر اسے خوشبو میسر نہ ہو تو پانی ہی اس کے لیے خوشبو ہے"۔ اس باب میں ابوسعید رضی الله عنہ اور ایک انصاری شیخ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر مسند احمد (۴/۲۸۲، ۲۸۳) (تحفة الأشراف : ۱۷۸۷) (ضعیف) (سند میں اسماعیل التیمی اور یزید بن ابی زیاد دونوں ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْبَرَاءِ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرِوَايَةُ هُشَيْمٍ أَحْسَنُ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيُّ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- براء رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- ہشیم کی روایت (رقم ۵۲۹) اسماعیل بن ابراہیم تیمی کی روایت (رقم ۵۲۸) سے زیادہ اچھی ہے،۳- اسماعیل بن ابراہیم تیمی کو حدیث کے سلسلے میں ضعیف گردانا جاتا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ یزید بن ابی زیاد ‘‘ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : لیکن یزید بن ابی زیاد جن پر اس حدیث کا دارومدار ہے خود ضعیف ہیں۔