أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. ح وَابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَحْنُ الْآخِرُونَ السَّابِقُونَ بَيْدَ أَنَّهُمْ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِنَا وَأُوتِينَاهُ مِنْ بَعْدِهِمْ، وَهَذَا الْيَوْمُ الَّذِي كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِمْ فَاخْتَلَفُوا فِيهِ فَهَدَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ، يَعْنِي يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَالنَّاسُ لَنَا فِيهِ تَبَعٌ الْيَهُودُ غَدًا وَالنَّصَارَى بَعْدَ غَدٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(دنیا میں) ہم پیچھے آنے والے ہیں اور (قیامت میں) آگے ہوں گے، صرف اتنی بات ہے کہ انہیں (یعنی یہود و نصاریٰ کو) کتاب ہم سے پہلے دی گئی ہے، اور ہمیں ان کے بعد دی گئی ہے، یہ (جمعہ کا دن) وہ دن ہے جس دن اللہ نے ان پر عبادت فرض کی تھی مگر انہوں نے اس میں اختلاف کیا ۱؎، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے (یعنی جمعہ کے دن سے) ہمیں نواز دیا، تو لوگ اس میں ہمارے تابع ہیں ۲؎، یہود کل کی یعنی ہفتہ(سنیچر) کی تعظیم کرتے ہیں، اور نصاریٰ پرسوں کی (یعنی اتوار کی)"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۲ (۸۹۶)، أحادیث الأنبیاء ۵۴ (۳۴۸۶)، صحیح مسلم/الجمعة ۶ (۸۵۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۲۲، ۱۳۶۸۳)، مسند احمد ۲/ ۲۴۹، ۲۷۴، ۳۴۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہود نے اپنے لیے ہفتہ :(سنیچر ) کا دن تجویز کر لیا اور نصایٰ نے اتوار کا۔ ۲؎: کیونکہ جمعہ ہی کے دن اللہ تعالیٰ نے دنیا کو پیدا کیا۔
أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَضَلَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَنِ الْجُمُعَةِ مَنْ كَانَ قَبْلَنَا فَكَانَ لِلْيَهُودِ يَوْمُ السَّبْتِ، وَكَانَ لِلنَّصَارَى يَوْمُ الْأَحَدِ، فَجَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِنَا فَهَدَانَا لِيَوْمِ الْجُمُعَةِ فَجَعَلَ الْجُمُعَةَ وَالسَّبْتَ وَالْأَحَدَ، وَكَذَلِكَ هُمْ لَنَا تَبَعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَنَحْنُ الْآخِرُونَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا وَالْأَوَّلُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْمَقْضِيُّ لَهُمْ قَبْلَ الْخَلَائِقِ".
ابوہریرہ اور حذیفہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے والوں کو جمعہ سے بھٹکا دیا، یہود کے لیے ہفتہ (سنیچر)کا دن مقرر ہوا، اور نصرانیوں کے لیے اتوار کا، پھر اللہ تعالیٰ ہمیں لایا تو اس نے ہمیں جمعہ کے دن سے نوازا، تو اب (پہلے) جمعہ ہے، پھر ہفتہ (سنیچر) پھر اتوار، اس طرح یہ لوگ قیامت تک ہمارے تابع ہوں گے، ہم دنیا میں بعد میں آئے ہیں مگر قیامت کے دن پہلے ہوں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۶ (۸۵۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۷۸ (۱۰۸۳)، (تحفة الأشراف: ۳۳۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی تمام مخلوقات سے پہلے ہمارا فیصلہ ہو گا۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَبِيدَةَ بْنِ سُفْيَانَ الْحَضْرَمِيِّ، عَنْ أَبِي الْجَعْدِ الضَّمْرِيِّ وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ تَرَكَ ثَلَاثَ جُمَعٍ تَهَاوُنًا بِهَا، طَبَعَ اللَّهُ عَلَى قَلْبِهِ".
ابوجعد ضمری رضی اللہ عنہ (جنہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے) کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے تین جمعہ سستی سے چھوڑ دیا، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۱۰ (۱۰۵۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۴۲، الجمعة ۷ (۵۰۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۳ (۱۱۲۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۸۳)، مسند احمد ۳/۴۲۴، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۵ (۱۶۱۲) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کا دل خیر اور ہدایت کے قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دئیے جائیں گے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَبَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنِ الْحَضْرَمِيِّ بْنِ لَاحِقٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ مِينَاءَ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَابْنَ عُمَرَ يُحَدِّثَانِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ عَلَى أَعْوَادِ مِنْبَرِهِ: "لَيَنْتَهِيَنَّ أَقْوَامٌ عَنْ وَدْعِهِمُ الْجُمُعَاتِ أَوْ لَيَخْتِمَنَّ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَلَيَكُونُنَّ مِنَ الْغَافِلِينَ".
عبداللہ بن عباس اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے منبر کے زینے سے فرمایا: "لوگ جمعہ چھوڑنے سے باز آ جائیں، ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا ۱؎ اور وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۲ (۸۶۵) (وفیہ ’’أبو ھریرة‘‘ بدل ’’ابن عباس‘‘)، سنن ابن ماجہ/المساجد ۱۷ (۷۹۴) (تحفة الأشراف: ۵۴۱۳، ۶۶۹۶)، (وفیہ ’’الجماعات‘‘ بدل ’’الجمعات‘‘)، مسند احمد ۱/۲۳۹، ۲۵۴، ۳۳۵ و ۲/۸۴، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۵ (۱۶۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: گویا مسلسل جمعہ کا چھوڑنا ایسا خطرناک فعل ہے جس سے دلوں پر مہر لگ سکتی ہے جس کے بعد انسان کے لیے اخروی فلاح و نجات کی امید ختم ہو جاتی ہے۔ ۲؎: " غافلوں میں سے ہو جائیں " کا مطلب ہے کہ اللہ کے ذکر اور اس کے احکام سے بالکل بے پرواہ ہو جائیں گے۔
أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْمُفَضَّلُ بْنُ فَضَالَةَ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رَوَاحُ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے لیے (مسجد) جانا ہر بالغ مرد پر فرض ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۰۶)، (و عندہ زیادة ’’وعلی کل من راح إلی الجمعة الغسل ‘‘) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ وَبَرَةَ، عَنْسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَرَكَ الْجُمُعَةَ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِنِصْفِ دِينَارٍ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بنا کسی عذر کے جمعہ چھوڑ دے تو وہ ایک دینار صدقہ کرے، اور اگر ایک دینار نہ ہو تو آدھا دینار ہی کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۱۱ (۱۰۵۳، ۱۰۵۴)، (تحفة الأشراف: ۴۶۳۱)، مسند احمد ۵/۸، ۱۴ (ضعیف) (اس کے راوی ’’قدامہ‘‘ مجہول ہیں، نیز ’’ سمرہ رضی اللہ عنہ ‘‘ سے ان کا سماع نہیں ہے)
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، أَنَّهُ سَمِعَأَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَفِيهِ أُدْخِلَ الْجَنَّةَ، وَفِيهِ أُخْرِجَ مِنْهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا کیے گئے، اسی دن انہیں جنت میں داخل کیا گیا، اور اسی دن انہیں جنت سے نکالا گیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۵ (۸۵۴)، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۵۹)، مسند احمد ۲/۴۰۱، ۴۱۸، ۵۱۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے جمعہ کے دن کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے امور سر انجام پائے۔
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَيَّامِكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِيهِ خُلِقَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ النَّفْخَةُ، وَفِيهِ الصَّعْقَةُ، فَأَكْثِرُوا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاةِ، فَإِنَّ صَلَاتَكُمْ مَعْرُوضَةٌ عَلَيَّ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ تُعْرَضُ صَلَاتُنَا عَلَيْكَ وَقَدْ أَرَمْتَ أَيْ يَقُولُونَ قَدْ بَلِيتَ ؟ قَالَ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَام".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے دنوں میں سب سے افضل (بہترین) جمعہ کا دن ہے، اسی دن آدم علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی میں ان کی روح قبض کی گئی، اور اسی دن صور پھونکا جائے گا، اور اسی دن بیہوشی طاری ہو گی، لہٰذا تم مجھ پر زیادہ سے زیادہ صلاۃ (درود و رحمت) بھیجو کیونکہ تمہاری صلاۃ (درود و رحمت) مجھ پر پیش کیے جائیں گے" ۱؎ لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہماری صلاۃ (درود و رحمت) آپ پر کس طرح پیش کی جائیں گی حالانکہ آپ ریزہ ریزہ ہو چکے ہوں گے یعنی وہ کہنا چاہ رہے تھے، کہ آپ بوسیدہ ہو چکے ہوں گے، آپ نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے جسم کو کھائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۷ (۱۰۴۷)، ۳۶۱ (۱۵۳۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۷۹ (۱۰۸۵)، الجنائز ۶۵ (۱۶۳۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۶)، مسند احمد ۴/۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جائیں گے، سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ براہ راست کسی کا درود نہیں سنتے نہ قریب سے نہ بعید سے، قریب سے سننے کی ایک روایت مشہور ہے لیکن وہ صحیح نہیں، صحیح یہی ہے کہ آپ خود کسی کا درود نہیں سنتے فرشتے ہی آپ کا درود پہنچاتے ہیں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ أَبِي هِلَالٍ، وَبُكَيْرَ بْنَ الْأَشَجِّحَدَّثَاهُ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْغُسْلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، وَالسِّوَاكُ، وَيَمَسُّ مِنَ الطِّيبِ مَا قَدَرَ عَلَيْهِ"، إِلَّا أَنَّ بُكَيْرًا لَمْ يَذْكُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ، وَقَالَ: فِي الطِّيبِ وَلَوْ مِنْ طِيبِ الْمَرْأَةِ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے دن ہر بالغ شخص پر غسل کرنا واجب ہے، مسواک کرنا بھی، اور خوشبو جس پروہ قادر ہو لگانا بھی ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳ (۸۸۰)، صحیح مسلم/الجمعة ۲ (۸۴۶)، سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۱۶)، مسند احمد ۳/۳۰، ۶۵، ۶۶، ۶۹، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۳۸۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی جمعہ (کی نماز) کے لیے آئے تو اسے چاہیئے کہ غسل کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲ (۸۷۷)، ۱۲ (۸۹۴)، ۲۶ (۹۱۹)، (تحفة الأشراف: ۸۳۸۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة (۸۴۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۸، الجمعة ۳ (۴۹۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۸)، موطا امام مالک/الجمعة ۱ (۵)، مسند احمد ۲/۳، ۹، ۳۵، ۳۷، ۴۱، ۴۲، ۴۸، ۵۳، ۵۵، ۵۷، ۶۴، ۷۷، ۷۸، ۱۰۱، ۱۰۵، ۱۱۵، ۱۲۰، ۱۴۱، ۱۴۵، ۱۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "غُسْلُ يَوْمِ الْجُمُعَةِ وَاجِبٌ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے دن کا غسل ہر بالغ شخص پر واجب ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۶۱ (۸۵۸)، الجمعة ۲ (۸۷۹)، ۱۲ (۸۹۵)، الشھادات ۱۸ (۲۶۶۵)، صحیح مسلم/الجمعة ۱ (۸۴۶)، سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۹)، موطا امام مالک/الجمعة ۱ (۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۱)، مسند احمد ۳/۶، ۶۰، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۰ (۱۵۷۸، ۱۵۷۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جمعہ کی نماز کے لیے غسل شروع میں واجب تھا، جو بعد میں منسوخ ہو گیا، دیکھئیے حدیث رقم:۱۳۸۰،۱۳۸۱۔
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "عَلَى كُلِّ رَجُلٍ مُسْلِمٍ فِي كُلِّ سَبْعَةِ أَيَّامٍ غُسْلُ يَوْمٍ وَهُوَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مسلمان شخص پر ہر سات دن میں ایک دن کا غسل ہے، اور وہ جمعہ کا دن ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، مسند احمد ۳/۳۰۴، (تحفة الأشراف: ۲۷۰۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، عَنِ الْوَلِيدِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهُمْ ذَكَرُوا غُسْلَ يَوْمِ الْجُمُعَةِ عِنْدَ عَائِشَةَ فَقَالَتْ: إِنَّمَا كَانَ النَّاسُ يَسْكُنُونَ الْعَالِيَةَ فَيَحْضُرُونَ الْجُمُعَةَ وَبِهِمْ وَسَخٌ، فَإِذَا أَصَابَهُمُ الرَّوْحُ سَطَعَتْ أَرْوَاحُهُمْ فَيَتَأَذَّى بِهَا النَّاسُ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَوَ لَا يَغْتَسِلُونَ".
قاسم بن محمد ابن ابی بکر کہتے ہیں کہ لوگوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جمعہ کے دن کے غسل کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: لوگ «عالیہ» میں رہتے تھے، تو وہ وہاں سے جمعہ میں آتے تھے، اور ان کا حال یہ ہوتا کہ وہ میلے کچیلے ہوتے، جب ہوا ان پر سے ہوتے ہوئے گزرتی تو ان کی بو پھیلتی، تو لوگوں کو تکلیف ہوتی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا یہ لوگ غسل کر کے نہیں آ سکتے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۶۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة ۱۶ (۹۰۳)، البیوع ۱۵ (۲۰۷۱)، صحیح مسلم/الجمعة ۱ (۸۴۷)، سنن ابی داود/الطہارة ۱۳۰ (۳۵۲) نحوہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «عالیہ» شہر مدینہ سے جنوب مشرق میں جو آباد یاں تھیں انہیں «عالیہ» :(یا عوالی ) کہا جاتا تھا، آج بھی انہیں "عوالی" کہا جاتا ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَشْعَثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَوَضَّأَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فَبِهَا وَنِعْمَتْ وَمَنِ اغْتَسَلَ فَالْغُسْلُ أَفْضَلُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: الْحَسَنُ عَنْ سَمُرَةَ كِتَابًا، وَلَمْ يَسْمَعِ الْحَسَنُ مِنْ سَمُرَةَ إِلَّا حَدِيثَ الْعَقِيقَةِ وَاللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ.
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن وضو کیا، تو اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور یہ خوب ہے ۱؎ اور جس نے غسل کیا تو غسل افضل ہے"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: "حسن بصری" نے سمرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو ان کی کتاب سے روایت کیا ہے، کیونکہ حسن نے سمرہ سے سوائے عقیقہ والی حدیث کے کوئی اور حدیث نہیں سنی ہے ۲؎ واللہ اعلم۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطھارة ۱۳۰ (۳۵۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۴۰ (الجمعة ۵) (۴۹۷)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۷)، مسند احمد ۵/۸، ۱۱، ۱۵، ۱۶، ۲۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۰ (۱۵۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «فبہا» کا مطلب ہے «فبالرخصۃ أخذ» یعنی اس نے رخصت کو اختیار کیا، اور «نِعْمَتْ» کا مطلب «نعمت ہی الرخصۃ» ہے یہ رخصت خوب ہے، اس حدیث سے جمعہ کے غسل کے عدم وجوب پر استدلال کیا گیا ہے کیونکہ ایک تو اس میں وضو کی رخصت دی گئی ہے، اور دوسرے غسل کو افضل بتایا گیا ہے جس سے ترک غسل کی اجازت نکلتی ہے۔ ۲؎: صحیح بخاری میں حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی حسن بصری کی سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایات موجود ہیں، اس بابت اختلاف ہے، مگر علی بن المدینی اور امام بخاری کی ترجیح یہی ہے کہ حسن بصری نے حدیث عقیقہ کے علاوہ بھی سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، وَهَارُونُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ، وَاللَّفْظُ لَهُ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَاسَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ صِيَامُهَا وَقِيَامُهَا".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو غسل کرائے ۱؎ غسل کرے، سویرے سویرے (مسجد) جائے، شروع خطبہ سے موجود رہے، اور امام سے قریب بیٹھے، اور کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کو اس کے ہر قدم کے بدلے ایک سال کے روزے اور قیام کا ثواب ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۴۵، ۳۴۶)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۹ (الجمعة ۴) (۴۹۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۰ (۱۰۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۵)، مسند احمد ۴/۸، ۹، ۱۰، ۱۰۴، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۳۸۵، ۱۳۹۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی جمعہ کے لیے اپنے غسل سے پہلے بیوی سے صحبت کرے کہ اسے بھی غسل کی ضرورت ہو جائے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَأَى حُلَّةً، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوِ اشْتَرَيْتَ هَذِهِ فَلَبِسْتَهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَلِلْوَفْدِ إِذَا قَدِمُوا عَلَيْكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ فِي الْآخِرَةِ"، ثُمَّ جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُهَا فَأَعْطَى عُمَرَ مِنْهَا حُلَّةً، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَسَوْتَنِيهَا وَقَدْ قُلْتَ فِي حُلَّةِ عُطَارِدٍ مَا قُلْتَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَمْ أَكْسُكَهَا لِتَلْبَسَهَا"، فَكَسَاهَا عُمَرُ أَخًا لَهُ مُشْرِكًا بِمَكَّةَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے (ریشم کا) ایک جوڑا (بکتے) دیکھا، تو عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ اسے خرید لیتے، اور جمعہ کے دن، اور باہر کے وفود کے لیے جب وہ آپ سے ملنے آئیں پہنتے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے تو وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس طرح کے کچھ جوڑے آئے، آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا، تو انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے مجھے اسے پہننے کے لیے دیا ہے حالانکہ عطارد کے جوڑے کے بارے میں آپ نے ایسا ایسا کہا تھا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"میں نے یہ جوڑا تمہیں اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم خود پہنو"، تو عمر رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے مشرک بھائی کو دے دیا جو مکہ میں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۷ (۸۸۶)، العیدین ۱ (۹۴۸)، الھبة ۲۷ (۲۶۱۲)، ۲۹ (۲۶۱۹)، الجھاد ۱۷۷ (۳۰۵۴) (وفیہ ’’العید‘‘ بدل ’’الجمعة‘‘)، اللباس ۳۰ (۵۸۴۱)، الأدب ۹ (۵۹۸۱)، ۶۶ (۶۰۸۱) (بدون ذکر الجمعة أو العید)، صحیح مسلم/اللباس ۱ (۲۰۶۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۱۹ (۱۰۷۶)، اللباس ۱۰ (۴۰۴۰)، (تحفة الأشراف: ۸۳۳۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/اللباس ۱۶ (۳۵۹۱)، موطا امام مالک/اللباس ۸ (۱۸)، مسند احمد ۲/۲۰، ۳۹، ۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْأَبِي بَكْرِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ سُلَيْمٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الْغُسْلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى كُلِّ مُحْتَلِمٍ، وَالسِّوَاكَ، وَأَنْ يَمَسَّ مِنَ الطِّيبِ مَا يَقْدِرُ عَلَيْهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے دن غسل کرنا، مسواک کرنا، اور خوشبو لگانا جس پر وہ قادر ہو، ہر بالغ شخص پر واجب ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: أنظر حدیث رقم:۱۳۷۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: بعد میں یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا الْأَشْعَثِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَوْسَ بْنَ أَوْسٍ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَغَسَلَ وَغَدَا وَابْتَكَرَ وَمَشَى وَلَمْ يَرْكَبْ، وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَأَنْصَتَ وَلَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ عَمَلُ سَنَةٍ".
اوس بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے، اپنی بیوی کو غسل کرائے، صبح سویرے ہی جمعہ کے لیے نکلے، شروع خطبہ ہی سے موجود رہے، پیدل چل کر مسجد جائے، سواری نہ کرے، امام سے قریب بیٹھے، اور خاموش رہے کوئی لغو کام نہ کرے، تو اس کے ہر قدم پر ایک سال کے عمل کا ثواب ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم:۱۳۸۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، قَعَدَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَكَتَبُوا مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَتِ الْمَلَائِكَةُ الصُّحُفَ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُهَجِّرُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي شَاةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَطَّةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي دَجَاجَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَيْضَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۱ (۹۲۹)، بدء الخلق ۶ (۳۲۱۱)، صحیح مسلم/الجمعة ۷ (۸۵۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۶۵)، مسند احمد ۲/۲۵۹، ۲۶۳، ۲۶۴، ۲۸۰، ۵۰۵، ۵۱۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۳ (۱۵۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنی جلدی پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، اور جتنی تاخیر کرے گا اتنا ہی ثواب میں کمی آتی جائے گی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ كَانَ عَلَى كُلِّ بَابٍ مِنْ أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ مَلَائِكَةٌ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى مَنَازِلِهِمُ الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طُوِيَتِ الصُّحُفُ وَاسْتَمَعُوا الْخُطْبَةَ، فَالْمُهَجِّرُ إِلَى الصَّلَاةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ الَّذِي يَلِيهِ كَالْمُهْدِي كَبْشًا حَتَّى ذَكَرَ الدَّجَاجَةَ وَالْبَيْضَةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے دروازوں میں سے ہر دروازے پر فرشتے لوگوں کو ان کے درجات و مراتب کے مطابق یعنی ترتیب وار لکھتے ہیں، جو پہلے آتا ہے اسے پہلے لکھتے ہیں، جب امام خطبہ دینے کے لیے نکلتا ہے تو رجسٹر لپیٹ دیے جاتے ہیں، اور فرشتے خطبہ سننے لگتے ہیں، جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے کی طرح ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ ایک گائے قربان کرنے والے کی طرح ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ ایک مینڈھا قربان کرنے والے کی طرح ہے"، یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے کا (بھی) ذکر کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۷ (۸۵۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۲ (۱۰۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۳۸)، مسند احمد ۲/۲۳۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ اللَّيْثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "تَقْعُدُ الْمَلَائِكَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ يَكْتُبُونَ النَّاسَ عَلَى مَنَازِلِهِمْ، فَالنَّاسُ فِيهِ كَرَجُلٍ قَدَّمَ بَدَنَةً، وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ بَقَرَةً، وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ شَاةً، وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ دَجَاجَةً، وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ عُصْفُورًا، وَكَرَجُلٍ قَدَّمَ بَيْضَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعۃ المبارک کے دن فرشتے مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں اور لوگوں کے نام ان کے آنے کی ترتیب کے مطابق لکھتے ہیں۔ ان میں سے کوئی تو اس آدمی کی طرح ہوں گے جس نے اعلیٰ درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کا اونٹ صدقہ کیا، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی گائے صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے اعلیٰ درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی بکری صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین مرغی صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے کم درجے کی مرغی صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے قیمتی چڑیا صدقہ کی اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام چڑیا صدقہ کی، کچھ اس آدمی کی طرح جس نے بہترین انڈہ صدقہ کیا اور کچھ اس آدمی کی طرح جس نے عام انڈہ صدقہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۸۳) (حسن صحیح) (لیکن عصفور (گوریا) کا لفظ منکرہے، معروف ’’دجاجہ‘‘ (مرغی) کا لفظ ہے جیسا کہ پچھلی روایات میں گزرا، اور نکارت کا سبب ’’ ابن عجلان‘‘ ہیں، ان سے ابوہریرہ کی روایات میں بڑا وہم ہوا ہے)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنِ اغْتَسَلَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ غُسْلَ الْجَنَابَةِ، ثُمَّ رَاحَ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَدَنَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّانِيَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَقَرَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الثَّالِثَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ كَبْشًا، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الرَّابِعَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ دَجَاجَةً، وَمَنْ رَاحَ فِي السَّاعَةِ الْخَامِسَةِ فَكَأَنَّمَا قَرَّبَ بَيْضَةً، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ حَضَرَتِ الْمَلَائِكَةُ يَسْتَمِعُونَ الذِّكْرَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کے دن غسل جنابت کے مانند (خوب اہتمام سے) غسل کیا، پھر وہ(جمعہ میں شریک ہونے کے لیے) پہلی ساعت (گھڑی) میں مسجد گیا، تو گویا اس نے ایک اونٹ اللہ کی راہ میں پیش کیا، اور جو شخص اس کے بعد والی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک گائے پیش کی، اور جو تیسری گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مینڈھا پیش کیا، اور جو چوتھی گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک مرغی پیش کی، اور جو پانچویں گھڑی میں گیا، تو گویا اس نے ایک انڈا پیش کیا، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکل آتا ہے تو فرشتے مسجد کے اندر آ جاتے ہیں، اور خطبہ سننے لگتے ہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۴ (۸۸۱)، ۳۱ (۹۲۹)، صحیح مسلم/الجمعة ۲ (۸۵۰)، سنن ابی داود/الطھارة ۱۲۹ (۳۵۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۴۱ (الجمعة ۶) (۴۹۹)، موطا امام مالک/الجمعة ۱ (۱)، مسند احمد ۲/۴۶۰، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۳ (۱۵۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی نام درج کرنے والا رجسٹر بند کر دیتے ہیں، اس میں نماز جمعہ کے لیے جلد سے جلد جانے کی ترغیب و فضیلت کا بیان ہے، جو جتنی جلدی جائے گا اتنا ہی زیادہ ثواب کا مستحق ہو گا۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنِ الْجُلَاحِ مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "يَوْمُ الْجُمُعَةِ اثْنَتَا عَشْرَةَ سَاعَةً، لَا يُوجَدُ فِيهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ شَيْئًا إِلَّا آتَاهُ إِيَّاهُ، فَالْتَمِسُوهَا آخِرَ سَاعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ کا دن بارہ ساعتوں (گھڑیوں) پر مشتمل ہے، اس کی ایک ساعت ایسی ہے کہ اس میں جو بھی مسلمان بندہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتے ہوئے پایا جاتا ہے، تو اسے وہ دیتا ہے، تو تم اسے آخری گھڑی میں عصر کے بعد تلاش کرو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۸ (۱۰۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس گھڑی کے بارے میں علماء میں بہت اختلاف ہے، بعض علماء کے نزدیک راجح قول یہی ہے جو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے، کچھ لوگ کہتے ہیں: یہ گھڑی امام کے منبر پر بیٹھنے سے نماز کے ختم ہونے تک کے درمیانی وقفے میں ہوتی ہے، واللہ اعلم۔
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قال: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ عَيَّاشٍ، قال: حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: "كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ ثُمَّ نَرْجِعُ فَنُرِيحُ نَوَاضِحَنَا"، قُلْتُ: أَيَّةَ سَاعَةٍ ؟ قَالَ: "زَوَالُ الشَّمْسِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ پڑھتے تھے، پھر ہم لوٹتے تو اپنے اونٹوں کو آرام دیتے، میں نے کہا: وہ کون سا وقت ہوتا؟، انہوں نے کہا: سورج ڈھلنے کا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۹ (۸۵۸)، مسند احمد ۳/۳۳۱، (تحفة الأشراف: ۲۶۰۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ يَعْلَى بْنِ الْحَارِثِ، قال: سَمِعْتُ إِيَاسَ بْنَ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِيُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قال: "كُنَّا نُصَلِّي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجُمُعَةَ، ثُمَّ نَرْجِعُ وَلَيْسَ لِلْحِيطَانِ فَيْءٌ يُسْتَظَلُّ بِهِ".
سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھتے تھے، پھر ہم اس حال میں لوٹتے کہ دیواروں کا سایہ نہ ہوتا جس سے سایہ حاصل کیا جا سکے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المغازي ۳۵ (۴۱۶۸)، صحیح مسلم/الجمعة ۹ (۸۶۰)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۴ (۱۰۸۵)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۴ (۱۱۰۰)، (تحفة الأشراف: ۴۵۱۲)، مسند احمد ۴/۴۶، ۵۰، ۵۴، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۴ (۱۵۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی زوال ہوئے ابھی تھوڑا سا وقت گزرا ہوتا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، "أَنَّ الْأَذَانَ كَانَ أَوَّلُ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ، فَلَمَّا كَانَ فِي خِلَافَةِ عُثْمَانَ وَكَثُرَ النَّاسُ، أَمَرَ عُثْمَانُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِالْأَذَانِ الثَّالِثِ، فَأُذِّنَ بِهِ عَلَى الزَّوْرَاءِ فَثَبَتَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جمعہ کے دن پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جس وقت امام منبر پر بیٹھتا، پھر جب عثمان رضی اللہ عنہ کا دور خلافت آیا، اور لوگ بڑھ گئے تو انہوں نے جمعہ کے دن تیسری اذان کا حکم دیا ۱؎، وہ اذان مقام زوراء پر دی گئی، پھر اسی پر معاملہ قائم رہا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۱ (۹۱۲)، ۲۲ (۹۱۳)، ۲۴ (۹۱۵)، ۲۵ (۹۱۶)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۲۵ (۱۰۸۷، ۱۰۸۸، ۱۰۸۹)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۵ (الجمعة ۲۰) (۵۱۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۷ (۱۱۳۵)، (تحفة الأشراف: ۳۷۹۹)، مسند احمد ۳/۴۴۹، ۴۵۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: تکبیر کو شامل کر کے تیسری اذان ہوئی، یہ ترتیب میں پہلی اذان ہے جو خلیفہ راشد عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، دوسری اذان اس وقت ہو گی جب امام خطبہ دینے کے لیے منبر پر بیٹھے گا، اور تیسری اذان تکبیر ہے، اگر کوئی صرف اذان اور تکبیر پر اکتفا کرے تو اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہم کی سنت کی اتباع کی۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: "إِنَّمَا أَمَرَ بِالتَّأْذِينِ الثَّالِثِ عُثْمَانُ حِينَ كَثُرَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ، وَلَمْ يَكُنْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ مُؤَذِّنٍ وَاحِدٍ، وَكَانَ التَّأْذِينُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حِينَ يَجْلِسُ الْإِمَامُ".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تو تیسری اذان کا حکم عثمان رضی اللہ عنہ نے دیا تھا جب اہل مدینہ زیادہ ہو گئے تھے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صرف ایک ہی مؤذن تھا، اور جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام (منبر پر) بیٹھ جاتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: أنظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: "كَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ إِذَا جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَإِذَا نَزَلَ أَقَامَ، ثُمَّ كَانَ كَذَلِكَ فِي زَمَنِ أَبِي بَكْرٍ وَعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا".
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بلال رضی اللہ عنہ اس وقت اذان دیتے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر بیٹھ جاتے، پھر جب آپ اترتے تو وہ اقامت کہتے، اسی طرح ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہم کے زمانے میں بھی ہوتا رہا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم:۱۳۹۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا جَاءَ أَحَدُكُمْ وَقَدْ خَرَجَ الْإِمَامُ، فَلْيُصَلِّ رَكْعَتَيْنِ"، قَالَ شُعْبَةُ: يَوْمَ الْجُمُعَةِ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی (مسجد) آئے اور امام (خطبہ کے لیے) نکل چکا ہو ۱؎ تو چاہیئے کہ وہ دو رکعت پڑھ لے"۔ شعبہ کی روایت میں ہے: "جب تم میں سے کوئی جمعہ کے دن آئے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/التھجد ۲۵ (۱۱۶۶)، صحیح مسلم/الجمعة ۱۴ (۸۷۵)، (تحفة الأشراف: ۲۵۴۹)، مسند احمد ۳/۳۸۹، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۶ (۱۵۹۲)، وانظر أیضا مایأتی برقم: ۱۴۰۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: خواہ اس نے خطبہ شروع کر دیا ہو یا ابھی نہ کیا ہو، بلکہ ایک روایت میں «والإمام یخطب» کے الفاظ وارد ہیں، اس میں اس بات کی تصریح ہے کہ امام کے خطبہ دینے کی حالت میں بھی یہ دونوں رکعتیں پڑھی جائیں۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا خَطَبَ يَسْتَنِدُ إِلَى جِذْعِ نَخْلَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَلَمَّا صُنِعَ الْمِنْبَرُ وَاسْتَوَى عَلَيْهِ، اضْطَرَبَتْ تِلْكَ السَّارِيَةُ كَحَنِينِ النَّاقَةِ حَتَّى سَمِعَهَا أَهْلُ الْمَسْجِدِ، حَتَّى نَزَلَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَنَقَهَا فَسَكَتَتْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب خطبہ دیتے تو مسجد کے ستونوں میں سے کھجور کے ایک تنا سے آپ ٹیک لگاتے تھے، پھر جب منبر بنایا گیا، اور آپ اس پر کھڑے ہوئے تو وہ ستون (جس سے آپ سہارا لیتے تھے) بیقرار ہو کر رونے لگا جس طرح اونٹنی روتی ہے، یہاں تک کہ اسے مسجد والوں نے بھی سنا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتر کر اس کے پاس گئے، اور اسے گلے سے لگایا تو وہ چپ ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۶ (۹۱۷)، المناقب ۲۵ (۳۵۸۵)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۹۹ (۱۴۱۷)، تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۲۸۷۷)، مسند احمد ۳/۲۹۵، ۳۰۰، ۳۰۶، ۳۲۴ (صحیح)
أخبرنا أحمد بن عبد الله بن الحكم قال حدثنا محمد بن جعفر قال حدثنا شعبة عن منصور عن عمرو بن مرة عن أبي عبيدة عن كعب بن عجرة قال: دخل المسجد وعبد الرحمن بن أم الحكم يخطب قاعدا فقال انظروا إلى هذا يخطب قاعدا وقد قال الله عز وجل وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما .
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں آئے اور عبدالرحمٰن بن ام الحکم بیٹھ کر خطبہ دے رہے تھے تو انہوں نے کہا: اس شخص کو دیکھو بیٹھ کر خطبہ دے رہا ہے، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: «وإذا رأوا تجارة أو لهوا انفضوا إليها وتركوك قائما» "اور جب وہ کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آ جائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں" (الجمعہ: ۱۱)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۱ (۸۶۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۲۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، قال: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ، قال: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ الْحَارِثِ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ الثَّقَفِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ غَسَّلَ وَاغْتَسَلَ وَابْتَكَرَ وَغَدَا وَدَنَا مِنَ الْإِمَامِ وَأَنْصَتَ ثُمَّ لَمْ يَلْغُ، كَانَ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ كَأَجْرِ سَنَةٍ صِيَامِهَا وَقِيَامِهَا".
اوس بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص غسل کرائے اور خود بھی غسل کرے، اور مسجد کے لیے سویرے نکل جائے، اور امام سے قریب رہے، اور خاموشی سے خطبہ سنے، پھر کوئی لغو کام نہ کرے، تو اسے ہر قدم کے عوض ایک سال کے روزے، اور قیام کا ثواب ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم:۱۳۸۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، قال: أَنْبَأَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قال: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، قال: كُنْتُ جَالِسًا إِلَى جَانِبِهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: جَاءَ رَجُلٌ يَتَخَطَّى رِقَابَ النَّاسِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيِ اجْلِسْ فَقَدْ آذَيْتَ".
ابوالزاہریہ کہتے ہیں کہ میں جمعہ کے روز عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ کے بغل میں بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا: ایک آدمی لوگوں کی گردنیں پھلانگتا ہوا آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "اے فلان! بیٹھ جاؤ تم نے (لوگوں کو) تکلیف دی ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۸ (۱۱۱۸)، (تحفة الأشراف: ۵۱۸۸)، مسند احمد ۴/۱۸۸، ۱۹۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ اس صورت میں ہے جب اگلی صفوں میں خالی جگہ نہ ہو لیکن اگر لوگوں نے خالی جگہ چھوڑ رکھی ہو تو گردنیں پھلانگ کر جانا درست ہو گا، یا یہ اس وقت کے ساتھ خاص ہے جب امام منبر پر بیٹھا ہو۔
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْحَسَنِ، وَيُوسُفُ بْنُ سَعِيدٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ لَهُ: "أَرَكَعْتَ رَكْعَتَيْنِ"، قَالَ: لَا، قَالَ: "فَارْكَعْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن منبر پر تھے، ایک آدمی (مسجد میں) آیا تو آپ نے اس سے پوچھا: "کیا تم نے دو رکعتیں پڑھ لیں؟" اس نے کہا: نہیں، تو آپ نے فرمایا: "تو پڑھ لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۲ (۹۳۰)، ۳۳ (۹۳۱)، صحیح مسلم/الجمعة ۱۴ (۸۷۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۷ (۱۱۱۵)، سنن الترمذی/فیہ ۲۵۰ (الجمعة ۱۵) (۵۱۰)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۷ (۱۱۱۳)، (تحفة الأشراف: ۲۵۵۷)، مسند احمد ۳/۲۹۷، ۳۰۸، ۳۶۹، ۳۸۰، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۶ (۱۴۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اس کی وضاحت نہیں کہ جمعہ سے پہلے کتنی سنتیں ہیں، اس سے صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں آنے والا دو رکعت پڑھ کر بیٹھے حتیٰ کہ اگر کوئی شخص خطبہ جمعہ کے دوران بھی آئے تو وہ بھی مختصر طور پر دو رکعت ضرور پڑھے پھر خطبہ سنے تاہم خطبہ سے پہلے آنے والا شخص دو رکعت تحیۃالمسجد ادا کرنے کے بعد دو دو کر کے جتنے چاہے نوافل پڑھ سکتا ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَالَ لِصَاحِبِهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ أَنْصِتْ، فَقَدْ لَغَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص نے جمعہ کے دن اپنے ساتھی سے کہا: "خاموش رہو" اور امام خطبہ دے رہا ہو تو اس نے لغو حرکت کی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۶ (۹۳۴)، صحیح مسلم/الجمعة ۳ (۸۵۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۱ (الجمعة ۱۶) (۵۱۲)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۶ (۱۱۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۰۶)، موطا امام مالک/الجمعة ۲ (۶)، مسند احمد ۲/۲۴۴، ۲۷۲، ۲۸۰، ۳۹۳، ۳۹۶، ۴۸۵، ۵۱۸، ۵۳۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۵ (۱۵۹۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قال: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَارِظٍ، وَعَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُمَا حَدَّثَاهُ، أَنَّأَبَا هُرَيْرَةَ، قال: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِذَا قُلْتَ لِصَاحِبِكَ أَنْصِتْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالْإِمَامُ يَخْطُبُ، فَقَدْ لَغَوْتَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جب تم اپنے ساتھ والے سے جمعہ کے دن کہو: "خاموش رہو" اور امام خطبہ دے رہا ہو تو تم نے لغو کام کیا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ زِيَادِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْعَلْقَمَةَ، عَنِ الْقَرْثَعِ الضَّبِّيِّ، وَكَانَ مِنَ الْقُرَّاءِ الْأَوَّلِينَ، عَنْ سَلْمَانَ، قال: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ كَمَا أُمِرَ، ثُمَّ يَخْرُجُ مِنْ بَيْتِهِ حَتَّى يَأْتِيَ الْجُمُعَةَ وَيُنْصِتُ حَتَّى يَقْضِيَ صَلَاتَهُ، إِلَّا كَانَ كَفَّارَةً لِمَا قَبْلَهُ مِنَ الْجُمُعَةِ".
سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی آدمی پاکی حاصل کرتا ہے جیسا کہ اسے حکم دیا گیا، پھر وہ اپنے گھر سے نکلتا ہے یہاں تک کہ وہ جمعہ میں آتا ہے، اور خاموش رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز ختم کر لے، تو (اس کا یہ عمل) اس کے ان گناہوں کے لیے کفارہ ہو گا جو اس سے پہلے کے جمعہ سے اس جمعہ تک ہوئے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۴۵۰۸)، مسند احمد ۵/۴۳۸، ۴۳۹، ۴۴۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَيُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "عَلَّمَنَا خُطْبَةَ الْحَاجَةِ، الْحَمْدُ لِلَّهِ نَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ، وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَسَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا، مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَقْرَأُ ثَلَاثَ آيَاتٍ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلا تَمُوتُنَّ إِلا وَأَنْتُمْ مُسْلِمُونَ سورة آل عمران آية 102، يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1، يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلا سَدِيدًا سورة الأحزاب آية 70، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو عُبَيْدَةَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ شَيْئًا، وَلَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَلَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ حاجة ۱؎ سکھایا، اور وہ یہ ہے: «الحمد لله نستعينه ونستغفره ونعوذ باللہ من شرور أنفسنا وسيئات أعمالنا من يهده اللہ فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له وأشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» "تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، ہم اسی سے مدد اور گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، اور ہم اپنے نفسوں کی شر انگیزیوں اور اپنے اعمال کی برائیوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ تعالیٰ ہدایت دیدے اسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسے کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں ہے کوئی حقیقی معبود سوائے اللہ کے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں"، پھر آپ یہ تین آیتیں پڑھتے: «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ حق تقاته ولا تموتن إلا وأنتم مسلمون» "اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے اتنا ڈرو جتنا کہ اس سے ڈرنا چاہیئے، اور دیکھو مرتے دم تک مسلمان ہی رہنا" (آل عمران: ۱۰۲)۔ «يا أيها الناس اتقوا ربكم الذي خلقكم من نفس واحدة وخلق منها زوجها وبث منهما رجالا كثيرا ونساء واتقوا اللہ الذي تساءلون به والأرحام إن اللہ كان عليكم رقيبا» "اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اس اللہ سے ڈرو جس کے نام پر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو، اور رشتے ناطے توڑنے سے بھی بچو، بیشک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے" (الاحزاب: ۷۰) «يا أيها الذين آمنوا اتقوا اللہ وقولوا قولا سديدا» "اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صحیح و درست بات کہو" (النساء: ۱)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ابوعبیدہ نے اپنے والد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے، نہ ہی عبدالرحمٰن بن عبداللہ ابن مسعود نے، اور نہ ہی عبدالجبار بن وائل بن حجر نے، (یعنی ان تینوں کا اپنے والد سے سماع نہیں ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/النکاح ۳۳ (۲۱۱۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/النکاح ۱۷ (۱۱۰۵)، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۹ (۱۸۹۲)، (تحفة الأشراف: ۹۶۱۸)، مسند احمد ۱/۳۹۲، ۴۳۲، سنن الدارمی/النکاح ۲۰ (۲۲۴۸) (صحیح) (متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’ابو عبیدہ‘‘ اور ان کے باپ ’’ ابن مسعود‘‘ رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، دیکھئے البانی کا رسالہ خطبة الحاجہ)
وضاحت: ۱؎: حاجۃ کا لفظ عام ہے نکاح اور بیع وغیرہ سبھی چیزوں کو شامل ہے، اسی وجہ سے امام شافعی نے بیع و نکاح وغیرہ تمام عقود میں اس خطبہ کے پڑھنے کو مسنون قرار دیا ہے۔ نسائی کی اس سند میں بھی ابوعبیدہ ہیں، مگر ابوداؤد اور دیگر کی سندوں میں "ابو عبیدہ" کی جگہ ابوالاحوص ہیں، جن کا سماع ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قال: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "إِذَا رَاحَ أَحَدُكُمْ إِلَى الْجُمُعَةِ فَلْيَغْتَسِلْ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی جمعہ کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ غسل کر لے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۶۵۰)، مسند احمد ۲/۷۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ نَشِيطٍ، أَنَّهُ سَأَلَ ابْنَ شِهَابٍ عَنِ الْغُسْلِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: سُنَّةٌ، وَقَدْ حَدَّثَنِي بِهِ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَكَلَّمَ بِهَا عَلَى الْمِنْبَرِ".
ابراہیم بن نشیط سے روایت ہے کہ انہوں نے ابن شہاب زہری سے جمعہ کے دن کے غسل کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا: سنت ہے، اور اسے مجھ سے سالم بن عبداللہ نے بیان کیا ہے، اور انہوں نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم) سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے منبر پر بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۸۰۵)، مسند احمد ۲/۳۵ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ: "مَنْ جَاءَ مِنْكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيَغْتَسِلْ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: مَا أَعْلَمُ أَحَدًا تَابَعَ اللَّيْثَ عَلَى هَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ ابْنِ جُرَيْجٍ وَأَصْحَابُ الزُّهْرِيِّ، يَقُولُونَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ بَدَلَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے کھڑے فرمایا: "جو شخص تم میں سے جمعہ کے لیے آئے تو چاہیئے کہ وہ غسل کر لے"۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: میں کسی کو نہیں جانتا جس نے اس سند پر لیث کی متابعت کی ہو سوائے ابن جریج کے، اور زہری کے دیگر تلامذہ «عن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر» کے بدلے «سالم بن عبداللہ عن أبيه» کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة (۸۴۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۸ (۴۹۳)، (تحفة الأشراف: ۷۲۷۰)، مسند احمد ۲/۱۲۰، ۱۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: سَمِعْتُأَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: جَاءَ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِهَيْئَةٍ بَذَّةٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَصَلَّيْتَ"، قَالَ: لَا، قَالَ: "صَلِّ رَكْعَتَيْنِ"، وَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَلْقَوْا ثِيَابًا فَأَعْطَاهُ مِنْهَا ثَوْبَيْنِ، فَلَمَّا كَانَتِ الْجُمُعَةُ الثَّانِيَةُ جَاءَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَحَثَّ النَّاسَ عَلَى الصَّدَقَةِ قَالَ: فَأَلْقَى أَحَدَ ثَوْبَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "جَاءَ هَذَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِهَيْئَةٍ بَذَّةٍ، فَأَمَرْتُ النَّاسَ بِالصَّدَقَةِ فَأَلْقَوْا ثِيَابًا، فَأَمَرْتُ لَهُ مِنْهَا بِثَوْبَيْنِ، ثُمَّ جَاءَ الْآنَ فَأَمَرْتُ النَّاسَ بِالصَّدَقَةِ فَأَلْقَى أَحَدَهُمَا فَانْتَهَرَهُ، وَقَالَ: خُذْ ثَوْبَكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو ایک آدمی خستہ حالت میں (مسجد میں) آیا اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نے نماز پڑھی؟" اس نے عرض کیا: نہیں، آپ نے فرمایا: "دو رکعتیں پڑھ لو"، اور آپ نے (دوران خطبہ) لوگوں کو صدقہ پر ابھارا، لوگوں نے صدقہ میں کپڑے دیئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے دو کپڑے اس شخص کو دیے، پھر جب دوسرا جمعہ آیا تو وہ شخص پھر آیا، اس وقت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، آپ نے لوگوں کو پھر صدقہ پر ابھارا، تو اس شخص نے بھی اپنے کپڑوں میں سے ایک کپڑا ڈال دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ شخص (پچھلے) جمعہ کو بڑی خستہ حالت میں آیا، تو میں نے لوگوں کو صدقے پر ابھارا، تو انہوں نے صدقے میں کپڑے دیئے، میں نے اس میں سے دو کپڑے اس شخص کو دینے کا حکم دیا، اب وہ پھر آیا تو میں نے پھر لوگوں کو صدقے کا حکم دیا تو اس نے بھی اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑا صدقہ میں دے دیا"، پھر آپ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا: "اپنا کپڑا اٹھا لو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۰ (الجمعة ۱۵) (۵۱۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۷ (۱۱۱۳)، مسند احمد ۳/۲۵، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۶ (۱۵۹۳)، (تحفة الأشراف: ۴۲۷۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا صدقہ قبول نہیں کیا کیونکہ اس کے پاس صرف دو ہی کپڑے تھے جو اس کی ضرورت سے زائد نہیں تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "صَلَّيْتَ"، قَالَ: لَا، قَالَ: "قُمْ فَارْكَعْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ جمعہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اسی دوران ایک آدمی آیا ۱؎ (اور بیٹھ گیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: "تم نے سنت پڑھ لی؟"، اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کھڑے ہو جاؤ اور (سنت) پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۲ (۹۳۰)، صحیح مسلم/الجمعة ۱۴ (۸۷۵)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۷ (۱۱۱۵)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۰ (۵۱۰)، (تحفة الأشراف: ۲۵۱۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ سلیک غطفانی تھے جیسا کہ ابوداؤد کی حدیث میں اس کی صراحت موجود ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى إِسْرَائِيلُ بْنُ مُوسَى، قال: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا بَكْرَةَ، يَقُولُ: لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَالْحَسَنُ مَعَهُ، وَهُوَ يُقْبِلُ عَلَى النَّاسِ مَرَّةً وَعَلَيْهِ مَرَّةً، وَيَقُولُ: "إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ، وَلَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَظِيمَتَيْنِ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا، حسن رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے، آپ کبھی لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے، تو کبھی ان کی طرف، اور آپ فرما رہے تھے: "میرا یہ بچہ سردار ہے، اور شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرا دے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ۹ (۲۷۰۴)، المناقب ۲۵ (۳۶۲۹)، فضائل الصحابة ۲۲ (۳۷۴۶)، الفتن ۲۰ (۷۱۰۹)، سنن ابی داود/السنة ۱۳ (۴۶۶۲)، سنن الترمذی/المناقب ۳۱ (۳۷۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۵۸)، مسند احمد ۵/۳۷، ۴۴، ۴۹، ۵۱ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: الحمدللہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی اور امت مسلمہ کے دو گروہ باہم متفق ہو گئے ہوا یہ کہ حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری فرمائی اور ساری امت معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت پر متفق ہو گئے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، قال: حَدَّثَنَا عَلِيٌّ وَهُوَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنِ ابْنَةِ حَارِثَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَتْ: "حَفِظْتُ ق وَالْقُرْءَانِ الْمَجِيدِ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ".
حارثہ بن نعمان رضی اللہ عنہ کی بیٹی (ام ہشام) کہتی ہیں کہ میں نے «ق والقرآن المجيد» کو جمعہ کے دن منبر پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے سن سن کر یاد کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۷۳)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۲۹ (۱۱۰۰، ۱۱۰۲، ۱۱۰۳)، مسند احمد ۶/۴۳۵، ۴۶۳، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے خطبے میں پوری سورۃ ق پابندی سے پڑھا کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قال: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حُصَيْنٍ، أَنَّ بِشْرَ بْنَ مَرْوَانَ رَفَعَ يَدَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَسَبَّهُ عُمَارَةُ بْنُ رُوَيْبَةَ الثَّقَفِيُّ، وَقال: "مَا زَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى هَذَا، وَأَشَارَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ".
حصین سے روایت ہے کہ بشر بن مروان نے جمعہ کے دن منبر پر (خطبہ دیتے ہوئے) اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا، تو اس پر عمارہ بن رویبہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے انہیں برا بھلا کہا، اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے زیادہ نہیں کیا، اور انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۳ (۸۷۴)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۰ (۱۱۰۴)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۴ (الجمعة ۱۹) (۵۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۷۷)، مسند احمد ۴/۱۳۵، ۱۳۶، ۲۶۱، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۱ (۱۶۰۱، ۱۶۰۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، قال: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْأَبِيهِ، قال: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَعَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَعْثُرَانِ فِيهِمَا، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ كَلَامَهُ، فَحَمَلَهُمَا ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ قَالَ: "صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15، رَأَيْتُ هَذَيْنِ يَعْثُرَانِ فِي قَمِيصَيْهِمَا، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ كَلَامِي فَحَمَلْتُهُمَا".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اتنے میں حسن اور حسین رضی اللہ عنہم لال رنگ کی قمیص پہنے گرتے پڑتے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم (منبر سے) اتر پڑے، اور اپنی بات بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو گود میں اٹھا لیا، پھر منبر پر واپس آ گئے، پھر فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے «إنما أموالكم وأولادكم فتنة» "تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں" میں نے ان دونوں کو ان کی قمیصوں میں گرتے پڑتے آتے دیکھا تو میں صبر نہ کر سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی گفتگو بیچ ہی میں کاٹ دی، اور ان دونوں کو اٹھا لیا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۳۳ (۱۱۰۹)، سنن الترمذی/المناقب ۳۱ (۳۷۷۴)، سنن ابن ماجہ/اللباس ۲۰ (۳۶۰۰)، (تحفة الأشراف: ۱۹۵۸)، مسند احمد ۵/۳۵۴، ویأتی عند المؤلف برقم: ۱۵۸۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ غَزْوَانَ، قال: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، قال: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عُقَيْلٍ، قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى يَقُولُ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكْثِرُ الذِّكْرَ وَيُقِلُّ اللَّغْوَ وَيُطِيلُ الصَّلَاةَ وَيُقَصِّرُ الْخُطْبَةَ، وَلَا يَأْنَفُ أَنْ يَمْشِيَ مَعَ الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ فَيَقْضِيَ لَهُ الْحَاجَةَ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذکرو اذکار زیادہ کرتے، لایعنی باتوں سے گریز کرتے، نماز لمبی پڑھتے، اور خطبہ مختصر دیتے تھے، اور بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ جانے میں کہ ان کی ضرورت پوری کریں، عار محسوس نہیں کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۵۱۸۳)، سنن الدارمی/المقدمة ۱۳ (۷۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال: "جَالَسْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا رَأَيْتُهُ يَخْطُبُ إِلَّا قَائِمًا وَيَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ الْخُطْبَةَ الْآخِرَةَ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم نشینی کی، تو میں نے آپ کو کھڑے ہو کر ہی خطبہ دیتے دیکھا، آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور دوسرا خطبہ دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۲۱۷۷)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۰ (۷۶۲)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۲۸ (۱۰۹۳)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۵ (۱۱۰۵)، مسند احمد ۵/۸۷، ۸۸، ۸۹، ۹۰، ۹۱، ۹۲، ۹۳، ۹۴، ۹۵، ۹۷، ۹۸، ۹۹، ۱۰۰، ۱۰۱، ۱۰۲، ۱۰۷، سنن الدارمی/الصلاة ۱۹۹ (۱۵۹۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، قال: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ الْخُطْبَتَيْنِ وَهُوَ قَائِمٌ وَكَانَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا بِجُلُوسٍ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر دو خطبے دیتے تھے، ان دونوں کے بیچ میں بیٹھ کر فصل کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۳۰ (۹۲۸)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۰ (۸۶۱)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۴۶ (۵۰۶)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۵ (۱۱۰۳)، (تحفة الأشراف: ۷۸۱۲)، مسند احمد ۲/۹۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قال: حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، قال: حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال: "رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ قَائِمًا، ثُمَّ يَقْعُدُ قِعْدَةً لَا يَتَكَلَّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيَخْطُبُ خُطْبَةً أُخْرَى، فَمَنْ حَدَّثَكُمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَخْطُبُ قَاعِدًا فَقَدْ كَذَبَ.
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیتے دیکھا، پھر آپ کچھ دیر چپ چاپ بیٹھتے پھر کھڑے ہوتے اور دوسرا خطبہ دیتے، جو تم سے بیان کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو جھوٹا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۲۱۴۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۰ (۸۶۲)، مسند احمد ۵/۸۹، ۹۰، ۹۱، ۹۳، ۹۵، ۱۰۰ (حسن)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قال: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، قال: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا، ثُمَّ يَجْلِسُ، ثُمَّ يَقُومُ وَيَقْرَأُ آيَاتٍ وَيَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَانَتْ خُطْبَتُهُ قَصْدًا وَصَلَاتُهُ قَصْدًا".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ بیچ میں بیٹھتے، پھر کھڑے ہوتے، اور کچھ آیتیں پڑھتے، اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ۱؎ اور آپ کا خطبہ درمیانی ہوتا تھا، اور نماز بھی درمیانی ہوتی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۲۹ (۱۱۰۱)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۵ (۱۱۰۶)، (تحفة الأشراف: ۲۱۶۳)، مسند احمد ۵/۸۶، ۸۸، ۹۱، ۹۳، ۹۸، ۱۰۲، ۱۰۶، ۱۰۷ں ویأتی عند المؤلف فی العیدین ۲۶ (برقم: ۱۵۸۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں یہ صراحت ہے کہ آپ جمعہ میں دو خطبے دیتے تھے، اور دونوں میں تلاوت قرآن اور وعظ و تذکیر کیا کرتے تھے، اس لیے وعظ و تذکیر کے لیے صرف پہلے خطبے کو خاص کر لینا خلاف سنت ہے۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ مَيْمُونٍ، قال: حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْزِلُ عَنِ الْمِنْبَرِ فَيَعْرِضُ لَهُ الرَّجُلُ فَيُكَلِّمُهُ، فَيَقُومُ مَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ، ثُمَّ يَتَقَدَّمُ إِلَى مُصَلَّاهُ فَيُصَلِّي".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترتے پھر کوئی آدمی آپ کے سامنے آ جاتا تو آپ اس سے گفتگو کرتے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ کھڑے رہتے جب تک کہ وہ اپنی ضرورت پوری نہ کر لیتا یعنی اپنی بات ختم نہ کر لیتا، پھر آپ اپنی جائے نماز کی طرف بڑھتے، اور نماز پڑھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۰ (۱۱۲۰)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۶ (الجمعة ۲۱) (۵۱۷)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۸۹ (۱۱۱۷)، (تحفة الأشراف: ۲۶۰)، مسند احمد ۳/۱۱۹، ۱۲۷، ۲۱۳ (شاذ) (صحیح بات یہ ہے کہ واقعہ عشاء کی صلاة میں پیش آیا تھا، بقول امام بخاری اس میں جریر بن حازم سے وہم ہو گیا ہے، کما نقل عنہ الترمذی)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ زُبَيْدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قال: قَالَ عُمَرُ: "صَلَاةُ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ الْفِطْرِ رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ الْأَضْحَى رَكْعَتَانِ، وَصَلَاةُ السَّفَرِ رَكْعَتَانِ، تَمَامٌ غَيْرُ قَصْرٍ عَلَى لِسَانِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ.
عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جمعہ کی نماز، عید الفطر کی نماز، اور عید الاضحی کی نماز، اور سفر کی نماز، دو دو رکعتیں ہیں، اور یہ بزبان محمد صلی اللہ علیہ وسلم پوری ہیں، ان میں کوئی کمی نہیں ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ سے نہیں سنا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الإقامة ۷۳ (۱۰۶۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۹۶)، مسند احمد ۱/۳۷، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۱۴۴۱ و ۱۵۶۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: محقق بات یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ کا سماع عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے، دیکھئیے مسند احمد، ونصب الرایہ :(۲/۱۸۹ ) نیز ابن ماجہ کی دوسری سند :(۱۰۶۴ ) میں عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ اور عمر رضی اللہ عنہ کے درمیان " کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ " کا واسطہ ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: أَخْبَرَنِي مُخَوَّلٌ، قال: سَمِعْتُ مُسْلِمًا الْبَطِينَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقْرَأُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ الم تَنْزِيلُ وَ هَلْ أَتَى عَلَى الْإِنْسَانِ وَفِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ بِسُورَةِ الْجُمُعَةِ وَالْمُنَافِقِينَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے روز نماز فجر میں «الم * تنزيل» اور «هل أتى على الإنسان»پڑھتے، اور جمعہ کی صلاۃ میں سورۃ "جمعہ" اور سورۃ "منافقون" پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم:۹۵۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، قال: أَخْبَرَنِي مَعْبَدُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْسَمُرَةَ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي صَلَاةِ الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ".
سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۲ (۱۱۲۵)، (تحفة الأشراف: ۴۶۱۵)، مسند احمد ۵/۷، ۱۳، ۱۴، ۱۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس روایت میں اور اس سے پہلے والے باب کی روایت میں بظاہر تعارض ہے، پر یہ اختلاف دونوں کے جواز اور دونوں کے مسنون ہونے پر دلالت کرتا ہے، مطلب یہ ہے کہ کبھی آپ جمعہ کی پہلی رکعت میں "سورۃ جمعہ" اور دوسری رکعت میں "سورۃ منافقون" پڑھتے اور کبھی «سبح اسم ربك الأعلى»اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ الضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ، سَأَلَ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، مَاذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى إِثْرِ سُورَةِ الْجُمُعَةِ ؟ قَالَ: "كَانَ يَقْرَأُ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ".
عبیداللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ضحاک بن قیس نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن سورۃ الجمعہ کے بعد کون سی سورۃ پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۶ (۸۷۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۲ (۱۱۲۳)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۰ (۱۱۱۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۳۴)، موطا امام مالک/الجمعة ۹ (۱۹)، مسند احمد ۴/۲۷۰، ۲۷۷، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۳ (۱۶۰۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ شُعْبَةَ، أَنَّ إِبْرَاهِيمَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ أَخْبَرَهُ، قال: سَمِعْتُأَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ فِي الْجُمُعَةِ بِسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وَ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ، وَرُبَّمَا اجْتَمَعَ الْعِيدُ وَالْجُمُعَةُ، فَيَقْرَأُ بِهِمَا فِيهِمَا جَمِيعًا".
حبیب بن سالم نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ میں «سبح اسم ربك الأعلى» اور «هل أتاك حديث الغاشية» پڑھتے تھے اور جب کبھی عید اور جمعہ دونوں جمع ہو جاتے تو ان دونوں میں بھی آپ انہی دونوں سورتوں کو پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۶ (۸۷۸)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۲ (۱۱۲۲)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۶۸ (الجمعة ۳۳) (۵۳۳)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۵۷ (۱۲۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۱۲)، مسند احمد ۴/۲۷۱، ۲۷۳، ۲۷۶، ۲۷۷، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۳ (۱۶۰۹)، ویأتی عند المؤلف برقم:۱۵۶۹، ۱۵۹۱ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أَدْرَكَ مِنْ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ رَكْعَةً فَقَدْ أَدْرَكَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جمعہ کی نماز میں سے ایک رکعت پا لی تو اس نے (جمعہ کی نماز) پا لی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساجد ۳۰ (۶۰۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۶۰ (۵۲۴)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۱ (۱۱۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۴۳)، مسند احمد ۲/۲۴۱، سنن الدارمی/الصلاة ۲۲ (۱۲۵۶) (شاذ بذکر الجمعة) (جمعہ کا لفظ صرف مؤلف کے یہاں ہے، باقی تمام محدثین کے یہاں صرف ’’ صلاة ‘‘ کا لفظ ہے، تفاصیل کے لیے مذکور تخریج ملاحظہ فرمائیں، اس لیے جمعہ کا لفظ شاذ ہے)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا جَرِيرٌ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمُ الْجُمُعَةَ فَلْيُصَلِّ بَعْدَهَا أَرْبَعًا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی جمعہ پڑھے تو اسے چاہیئے کہ اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۸ (۸۸۱)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۴ (۱۱۳۱)، سنن الترمذی/الصلاة (الجمعة ۲۴) (۵۲۳)، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۹۵ (۱۱۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۹۷)، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۷ (۱۶۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں چار رکعت کا ذکر ہے، اور اس کے بعد والی حدیث میں دو رکعت کا، اس سے معلوم ہوا کہ یہ دونوں صورتیں جائز ہیں بعض لوگوں نے دونوں رایتوں میں اس طرح سے تطبیق دی ہے کہ جو مسجد میں پڑھے وہ چار رکعت پڑھے، اور جو گھر جا کر پڑھے وہ دو رکعت پڑھے، اسی طرح چار رکعت کس طرح پڑھی جائیں، اس میں بھی دو رائے ہے ایک رائے تو یہ ہے کہ ایک سلام کے ساتھ چاروں رکعتیں پڑھی جائیں، اور دوسری رائے یہ ہے کہ دو دو کر کے چار رکعتیں پڑھی جائیں، کیونکہ صحیح حدیث میں ہے «صلاۃ اللیل والنہارمثنیٰ مثنیٰ» رات اور دن کی :(نفلی نمازیں ) دو دو کر کے ہیں۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ لَا يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَنْصَرِفَ فَيُصَلِّيَ رَكْعَتَيْنِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد نماز نہیں پڑھتے تھے یہاں تک کہ گھر لوٹ آتے، پھر دو رکعتیں پڑھتے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجمعة ۱۸ (۸۸۲)، سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۴ (۱۱۲۷)، سنن الترمذی/الصلاة ۲۵۹ (الجمعة ۲۴) (۵۲۲)، (تحفة الأشراف: ۸۳۴۳)، مسند احمد ۲/۴۴۹، ۴۹۹، وانظر حدیث رقم:۸۷۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قال: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قال: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ فِي بَيْتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعت اپنے گھر میں پڑھتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۴ (۱۱۳۲)، (تحفة الأشراف: ۶۹۴۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ هَارُونَ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّهُ كَانَ يُصَلِّي بَعْدَ الْجُمُعَةِ رَكْعَتَيْنِ يُطِيلُ فِيهِمَا، وَيَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ وہ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے، اور ان کو لمبی کرتے تھے اور کہتے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۴۴ (۱۱۲۷، ۱۱۲۸)، (تحفة الأشراف: ۷۵۴۸، مسند احمد ۲/۱۰۳ (شاذ) (ان دونوں رکعتوں کو لمبی کرنے کا ذکر شاذ ہے)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: أَتَيْتُ الطُّورَ فَوَجَدْتُ ثَمَّ كَعْبًا، فَمَكَثْتُ أَنَا وَهُوَ يَوْمًا أُحَدِّثُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيُحَدِّثُنِي عَنِ التَّوْرَاةِ، فَقُلْتُ لَهُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ، فِيهِ خُلِقَ آدَمُ وَفِيهِ أُهْبِطَ، وَفِيهِ تِيبَ عَلَيْهِ، وَفِيهِ قُبِضَ، وَفِيهِ تَقُومُ السَّاعَةُ، مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ دَابَّةٍ إِلَّا وَهِيَ تُصْبِحُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ مُصِيخَةً حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ شَفَقًا مِنَ السَّاعَةِ إِلَّا ابْنَ آدَمَ، وَفِيهِ سَاعَةٌ لَا يُصَادِفُهَا مُؤْمِنٌ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ"، فَقَالَ كَعْبٌ: ذَلِكَ يَوْمٌ فِي كُلِّ سَنَةٍ، فَقُلْتُ: بَلْ هِيَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ، فَقَرَأَ كَعْبٌ التَّوْرَاةَ، ثُمَّ قَالَ: صَدَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ فِي كُلِّ جُمُعَةٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں طور پہاڑی پر آیا تو وہاں مجھے کعب (کعب احبار) رضی اللہ عنہ ملے تو میں اور وہ دونوں ایک دن تک ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"بہترین دن جس میں سورج نکلا جمعہ کا دن ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں (دنیا میں) اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول کی گئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی دن قیامت قائم ہو گی، زمین پر رہنے والی کوئی مخلوق ایسی نہیں ہے جو جمعہ کے دن قیامت کے ڈر سے صبح کو سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے، سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ کسی مومن کو یہ گھڑی مل جائے اور نماز کی حالت میں ہو اور وہ اللہ سے اس ساعت میں کچھ مانگے تو وہ اسے ضرور دے گا"، کعب نے کہا: یہ ہر سال میں ایک دن ہے، میں نے کہا: نہیں، بلکہ یہ گھڑی ہر جمعہ میں ہوتی ہے، تو کعب نے تورات پڑھ کر دیکھا تو کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، یہ ہر جمعہ میں ہے۔ پھر میں (وہاں سے) نکلا، تو میری ملاقات بصرہ بن ابی بصرہ غفاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی، تو انہوں نے پوچھا: آپ کہاں سے آ رہے ہیں؟ میں نے کہا: طور سے، انہوں نے کہا: کاش کہ میں آپ سے وہاں جانے سے پہلے ملا ہوتا، تو آپ وہاں نہ جاتے، میں نے ان سے کہا: کیوں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا، آپ فرما رہے تھے: "سواریاں استعمال نہ کی جائیں یعنی سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف: ایک مسجد الحرام کی طرف، دوسری میری مسجد یعنی مسجد نبوی کی طرف، اور تیسری مسجد بیت المقدس ۱؎ کی طرف۔ پھر میں عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے ملا تو میں نے کہا: کاش آپ نے مجھے دیکھا ہوتا، میں طور گیا تو میری ملاقات کعب سے ہوئی، پھر میں اور وہ دونوں پورے دن ساتھ رہے، میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں بیان کرتا تھا، اور وہ مجھ سے تورات کی باتیں بیان کرتے تھے، میں نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دنوں میں بہترین دن جمعہ کا دن ہے جس میں سورج نکلا، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی میں دنیا میں اتارے گئے، اسی میں ان کی توبہ قبول ہوئی، اسی میں ان کی روح نکالی گئی، اور اسی میں قیامت قائم ہو گی، زمین پر کوئی ایسی مخلوق نہیں ہے جو قیامت کے ڈر سے جمعہ کے دن صبح سے سورج نکلنے تک کان نہ لگائے رہے سوائے ابن آدم کے، اور اس دن میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ جس مسلمان کو وہ گھڑی نماز کی حالت میں مل جائے، اور وہ اللہ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ چیز ضرور دے گا، اس پر کعب نے کہا: ایسا دن ہر سال میں ایک ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے غلط کہا، میں نے کہا: پھر کعب نے (تورات) پڑھی اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا ہے، وہ ہر جمعہ میں ہے، تو عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے کہا: کعب نے سچ کہا، پھر انہوں نے کہا: میں اس گھڑی کو جانتا ہوں، تو میں نے کہا: اے بھائی! مجھے وہ گھڑی بتا دیں، انہوں نے کہا: وہ گھڑی جمعہ کے دن سورج ڈوبنے سے پہلے کی آخری گھڑی ہے، تو میں نے کہا: کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں سنا کہ آپ نے فرمایا: "جو مومن اس گھڑی کو پائے اور وہ نماز میں ہو" جبکہ اس گھڑی میں کوئی نماز نہیں ہے، تو انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:"جو شخص نماز پڑھے پھر بیٹھ کر دوسری نماز کا انتظار کرتا رہے، تو وہ نماز ہی میں ہوتا ہے"، میں نے کہا: کیوں نہیں سنا ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: تو وہ اسی طرح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۲۰۷ (۱۰۴۶) مختصراً، سنن الترمذی/الصلاة ۲۳۷ (الجمعة ۲) (۴۹۱) مختصراً، موطا امام مالک/الجمعة ۷ (۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۰۰)، مسند احمد ۲/۴۷۶، ۵۰۴، ۵/۴۵۱، ۴۵۳، وقولہ: ’’فیہ ساعة لایصادفھا۔۔۔ الخ عند الشیخین والترمذی من طریق الأعرج عنہ، أنظر رقم:۱۴۳۲ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: لہٰذا ان تین مساجد کے علاوہ کسی اور مسجد کے لیے ثواب کی نیت سے سفر جائز نہیں ہے، ایسے ہی مقام کی زیارت کے لیے ثواب کی نیت سے جانا خواہ وہ کوئی قبر ہو یا شہر درست نہیں۔
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قال: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، قال: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ رَبَاحٍ، عَنْمَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قال: حَدَّثَنِي سَعِيدٌ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ يَسْأَلُ اللَّهَ فِيهَا شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ میں ایک گھڑی ایسی ہے کہ اگر کوئی مسلمان بندہ اس گھڑی کو پا لے، اور اس میں اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضرور دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۰۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قال: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ فِي الْجُمُعَةِ سَاعَةً لَا يُوَافِقُهَا عَبْدٌ مُسْلِمٌ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا، إِلَّا أَعْطَاهُ إِيَّاهُ"، قُلْنَا: يُقَلِّلُهَا يُزَهِّدُهَا، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا نَعْلَمُ أَحَدًا حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ رَبَاحٍ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ إِلَّا أَيُّوبَ بْنَ سُوَيْدٍ، فَإِنَّهُ حَدَّثَ بِهِ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ وَأَبِي سَلَمَةَ وَأَيُّوبُ بْنُ سُوَيْدٍ مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمعہ والے دن ایک گھڑی ایسی ہے کہ کوئی مسلمان بندہ اسے نماز میں کھڑا پا لے، پھر اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگے، تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور دے گا"، اور آپ اسے ہاتھ کے اشارے سے کم کر کے بتا رہے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہم کسی کون ہیں جانتے جس نے اس حدیث کو عن معمر، عن الزهري، عن سعيد (المقبري) کے طریق سے روایت کیا ہو، سوائے رباح کے، البتہ ایوب بن سوید نے اس کو عن يونس، عن الزهري، عن سعيد وأبي سلمة کے طریق سے روایت کیا ہے، لیکن ایوب بن سوید متروک الحدیث ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدعوات ۶۱ (۶۴۰۰)، صحیح مسلم/الجمعة ۴ (۸۵۲)، (تحفة الأشراف: ۱۴۴۰۶)، مسند احمد ۲/۲۳۰، ۲۸۴، ۴۹۸، سنن الدارمی/الصلاة ۲۰۴ (۱۶۱۰) (صحیح)