مشکوٰة شر یف

جنازوں کا بیان

کتاب الجنائز

جنائز جنازہ کی جمع ہے، لفظ جنازہ لغت کے اعتبار سے جیم کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ مستعمل ہوتا ہے لیکن زیادہ فصیح جیم کے زیر کے ساتھ ہی ہے۔ جنازہ میت یعنی مردے کو جو تخت پر ہو، کہتے ہیں۔

بعض حضرات نے کہا ہے کہ لفظ جنازہ یعنی جیم کے زبر کے ساتھ میت کے معنیٰ میں استعمال کیا جاتا ہے اور  جنازہ یعنی جیم کے زیر کے ساتھ تابوت اور اس تخت یا چار پائی کو کہتے ہیں جس پر مردہ کو رکھ کر اٹھاتے ہیں، بعض حضرات نے اس کے برعکس کہا ہے یعنی  جنازہ تابوت یا تخت کو کہتے ہیں اور جنازہ میت کو کہا جاتا ہے۔

بیمار کی عیادت کرنی چاہئے

حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  بھوکے (یعنی مضطر و مسکین اور فقیر) کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو (دشمن کی قید سے) چھڑاؤ (بخاری)

 

تشریح

 

اس حدیث میں تین باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے یہ  وجوب علی الکفایۃ کے طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک شخص بھی ان احکام کو پورا کر لے تو بقیہ دوسرے لوگوں کے لئے انہیں پورا کرنا ضروری نہیں ہے تاہم سب کے لئے ان احکام پر عمل کرنا سنت اور باعث ثواب ضرور ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص ان احکام کو پورا نہ کرے تو پھر سب ہی لوگ نافرمانی کے گناہ میں مبتلا ہوں گے۔

حضرت شیخ عبدالحق دہلوی نے لکھا ہے کہ  بھوکے کو اس صورت میں کھانا کھلانا سنت ہے اگر وہ حالت اضطرار میں نہ ہو یعنی اس بھوکے کی یہ کیفیت نہ ہو کہ اگر اسے کھانا نہ کھلایا گیا تو مر جائے۔ مگر اس شکل میں اسے کھانا دینا فرض ہے کہ وہ حالت اضطرار کو پہنچ چکا ہو۔ اسی طرح کوئی بھوکا کسی ایسے مقام پر ہو جہاں ایک نہ ہو بلکہ کئی آدمی ذی مقدور ہوں یعنی اس بھوکے کو کھانا کھلانے کی استطاعت رکھتے ہوں تو ان سب ذی المقدور لوگوں پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض کفایہ ہو گا کہ اگر ان میں سے کسی ایک نے بھی بھوکے کو کھانا کھلا دیا تو سب لوگ بری الذمہ ہو جائیں گے۔ ہاں اگر بھوکا کسی ایسی جگہ ہو جہاں صرف ایک ہی آدمی ذی مقدور ہو اور بقیہ سب لوگ مفلس و قلاش ہوں تو اس ذی مقدور پر بھوکے کو کھانا کھلانا فرض عین ہو گا ایسے ہی اس بیمار کی عیادت اور مزاج پرسی سنت ہے جس کا کوئی خبر گیر اور تیمار دار ہو اور اس بیمار کی عیادت و مزاج پرسی واجب ہے جس کا کوئی خبر گیر و تیمار دار نہ ہو۔

مسلمان کے مسلمان پر حقوق

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر پانچ حق ہیں۔ (١) سلام کا جواب دینا (٢) بیمار کی عیادت کرنا (٣) جنازہ کے ساتھ جانا (٤) دعوت قبول کرنا (٥) چھینکنے والے کا جواب دینا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مذکورہ بالا پانچوں چیزیں فرض کفایہ ہیں۔ سلام کرنا سنت ہے اور وہ بھی حقوق اسلام میں سے ہے جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا۔ مگر سلام کرنا ایسی سنت ہے جو فرض سے بھی افضل ہے کیونکہ اسے کرنے سے نہ صرف یہ کہ تواضع و انکساری کا اظہار ہوتا ہے بلکہ یہ اداء سنت واجب کا سبب بھی ہے۔

بیمار کی عیادت اور جنازہ کے ساتھ جانے کے حکم سے اہل بدعت مستثنیٰ ہیں۔ یعنی روافض وغیرہ کی نہ تو عیادت کی جائے اور نہ ان کے جنازہ کے ساتھ جایا جائے۔

 دعوت قبول کرنے سے مراد یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی مدد کے لئے بلائے تو اس کی درخواست قبول کی جائے اور اس کی مدد کی جائے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ  دعوت قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مہمانداری اور ضیافت کے لئے مدعو کرے تو اس کی دعوت کو قبول کر کے اس کی طرف سے دی گئی ضیافت میں شرکت کی جائے بشرطیکہ ضیافت کسی بھی حیثیت سے ایسی نہ ہو جس میں شرکت گناہ کا باعث ہو جیسا کہ حضرت امام غزالی فرماتے ہیں کہ جو ضیافت محض از راہ مفاخرت اور نام و نمود کی خاطر ہو اس میں شرکت نہ کی جائے چنانچہ سلف یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم اور پہلے زمانہ کے علماء کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایسی ضیافت کو ناپسند کرتے تھے۔

 چھینکنے والے کا جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ اگر چھینکنے والا  الحمدللہ  کہے تو اس کے جواب میں  یرحمک اللہ  کہا جائے شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسلام کے ان تمام حقوق کا تعلق تمام مسلمانوں سے ہے خواہ نیک مسلمان ہوں یا بد۔ یعنی ایسے مسلمان ہوں جو گنہگار تو ہوں مگر مبتدع(بدعتی) نہ ہوں اس احتیاط اور امتیاز کو مد نظر رکھا جائے کہ بشاشت یعنی خندہ پیشانی کے ساتھ ملنا اور مصافحہ کرنا صرف نیک مسلمان ہی کے ساتھ مختص ہونا چاہئے فاجر یعنی ایسے بد اور گنہگار مسلمان کے ساتھ جو علی الاعلان معصیت و گناہ میں مبتلا رہتا ہے بشاشت و مصافحہ ضروری نہیں ہے۔

 

 

 

٭٭ اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایک) مسلمان کے (دوسرے) مسلمان پر چھ حق ہیں۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! وہ کیا ہیں؟ فرمایا (١) جب تم مسلمان سے ملاقات کرو تو اسے سلام کرو (٢) جب تمہیں کوئی (اپنی مدد کے لئے یا ضیافت کی خاطر) بلائے تو اسے قبول کرو۔ (٣) جب تم سے کوئی خیر خواہی چاہے تو اس کے حق میں خیر خواہی کرو (٤) جب کوئی چھینکے اور الحمد للہ کہے تو (یرحمک اللہ کہہ کر) اس کا جواب دو (٥) جب کوئی بیمار ہو تو اس کی عیادت کرو (٦) جب کوئی مر جائے تو (نماز جنازہ اور دفن کرنے کے لئے) اس کے ساتھ جاؤ(مسلم)

 

 

تشریح

 

واذا مرض الخ کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لئے جانا چاہئے اور اس کی مزاج پرسی کرنی چاہئے اگرچہ عیادت اور مزاج پرسی ایک ہی مرتبہ کیوں نہ کی جائے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہے کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے تو اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ یہ بالکل غلط ہے۔

اس حدیث میں اسلام کے چھ حقوق بتائے گئے ہیں جب کہ گزشتہ حدیث میں حقوق کی تعداد پانچ بیان کی گئی تھی، گویا اس حدیث میں  خیر خواہی کا مزید ذکر کیا گیا ہے۔ تو اس بارے میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ احادیث میں حقوق کی جو تعداد ذکر کی گئی ہے وہ حصر کے طور پر نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر بہت زیادہ حقوق ہیں جن کو بتدریج مختلف احادیث میں تھوڑا تھوڑا کر کے بیان کیا گیا ہے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ احکام بذریعہ وحی آپ کے پاس اسی طرح بتدریج نازل ہوئے ہوں گے یعنی پہلے تو پانچ حقوق کا حکم نازل کیا گیا ہو پھر چھ حقوق کے احکام نازل کیے گئے۔

 

 

٭٭ اور حضرت براء ابن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا ہے اور سات چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں۔ (١) بیمار کی عیادت کرنا (٢) جنازہ کے ہمراہ جانا (٣) چھینکنے والے کو جواب دینا (٤) سلام کا جواب دینا (٥) بلانے والے کی دعوت قبول کرنا (٦) قسم کھانے والے کی قسم کو پورا کرنا (٧) اور مظلوم کی مدد کرنا۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا ہے وہ یہ ہیں (١) سونے کی انگوٹھی پہننے سے (٢) ریشم کے کپڑے پہننے سے (٣) اطلس کے کپڑے استعمال کرنے سے (٤) لاہی (دیباج) کے کپڑے پہننے سے (٥) سرخ زین پوش استعمال کرنے سے (٦) قسی کے کپڑے پہننے سے (٧) اور چاندی کے برتن استعمال کرنے سے۔ ایک روایت کے یہ الفاظ بھی ہیں کہ چاندی کے برتن میں پینے سے (بھی منع فرمایا ہے) کیونکہ جو شخص چاندی کے برتن میں دنیا میں پئے گا آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

قسم کھانے والے کی قسم پوری کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی پیش آنے والی بات کے بارے میں قسم کھائے اور تم اس کی قسم پوری کرنے پر قادر ہو اور اس میں کوئی گناہ بھی نہ ہو تو تمہیں اس کی قسم پوری کرنی چاہئے مثال کے طور پر کوئی شخص تمہیں مخاطب کرتے ہوئے قسم کھائے کہ میں تم سے جدا نہیں ہوں گا جب تک کہ فلاں کام نہ کروں، پس اگر تم اس کام کے کرنے پر قادر ہو تو وہ کام کر ڈالو تاکہ اس کی قسم نہ ٹوٹے۔

بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو یہ قسم دلائے کہ تمہیں خدا کی قسم تم یہ کام کرو۔ تو اس شخص کے لئے مستحب ہے کہ وہ پروردگار کے نام کی تعظیم کی خاطر وہ کام کر لے اگرچہ واجب نہیں ہے۔

 مظلوم کی مدد کرنا  کی تشریح میں علماء لکھتے ہیں کہ مظلوم کی مدد کرنا واجب ہے اور اس حکم میں مسلمان اور ذمی دونوں برابر کے شریک ہیں یعنی جس طرح ایک مظلوم مسلمان کی مدد کرنا واجب ہے اسی طرح اس مظلوم کافر (ذمی) کی مدد کرنا بھی واجب ہے جو اسلامی ریاست کا تابعدار شہری بن کر رہتا ہو اور جزیہ (ٹیکس) ادا کرتا ہے پھر مدد بھی عام ہے اگر لسانی مدد کی ضرورت ہو تو زبان و قول سے مدد کی جائے اور فعلی مدد کی ضرورت ہو تو فعل، عمل کے ذریعہ مدد کی جائے۔

 میثرہ) اس زین پوش کو کہتے ہیں جس میں روئی بھری ہوئی ہوتی ہے اور اسے گھوڑے وغیرہ کی سواری کی زین پر ڈال کر اس پر بیٹھتے ہیں اسے  نمد زین بھی کہتے ہیں دنیا داروں کی عادت ہے کہ وہ اس زین پوش کو از راہ تکبر و رعونت حریر و دیباج وغیرہ سے بناتے ہیں۔ اس کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر وہ زین پوش حریر کا ہو تو خواہ وہ کسی بھی رنگ کا ہو حرام ہے۔ ہاں اگرچہ حریر کا نہ ہو مگر سرخ رنگ کا ہو تو اس کا استعمال مکروہ ہے۔ اگر سرخ رنگ کا نہ ہو تو اس کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہیں۔

 قسی ایک کپڑے کا نام تھا جو ریشم اور کنان سے بنا جاتا تھا اور  قس کی طرف منسوب تھا جو مصر کے ایک علاقہ کا نام ہے۔ حدیث میں چاندی کے برتن استعمال کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح سونے کے برتن کا استعمال بھی ممنوع ہے بلکہ سونے کے برتن میں استعمال کرنا چاندی کے برتن استعمال کرنے سے بھی زیادہ گناہ ہے اس حدیث میں جن چیزوں سے منع کیا جا رہا ہے ان کا تعلق صرف مردوں سے ہے عورتوں سے نہیں ہے ہاں چاندی سونے کے برتن کے استعمال کی ممانعت مرد و عورت دونوں کے لئے ہے۔

حدیث کے آخری الفاظ  آخرت میں اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا  کی صحیح وضاحت یہ ہے کہ جس شخص نے ندیا میں چاندی کا برتن استعمال کیا اسے آخرت میں اس وقت تک کہ اس کے عذاب کی مدت ختم نہ ہو جائے۔ چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا۔ یا وقف اور حساب کے وقت اسے چاندی کے برتن میں پینا نصیب نہ ہو گا یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ کچھ عرصہ تک اس سے محروم رہے گا پھر بعد میں یہ پابندی اس سے ختم کر دی جائے گی، یہی مراد اس حدیث کی ہے جس میں (مردوں کے لئے) ریشم پہننے کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ من لبسہ فی الدنیا لم یلبسہ فی الآخرۃ(یعنی جس شخص نے دنیا میں ریشم پہنا اسے آخرت میں ریشم پہننا نصیب نہیں ہو گا) اسی طرح اس حدیث کی بھی یہی وضاحت ہے جس میں شراب کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ من شربہا فی الدنیا لم یشربھا فی الآخرۃ (یعنی جس نے دنیا میں شراب پی اسے آخرت میں شراب پینا نصیب نہ ہو گا۔

عیادت کا ثمرہ

اور حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  مسلمان جو اپنے کسی (بیمار) مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو (گویا) وہ بہشت کی میوہ خوری میں (مصروف) رہتا ہے یہاں تک کہ وہ (عیادت سے) واپس نہ آ جائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب کوئی مسلمان اپنے کسی بیمار مسلمان بھائی کی عیادت کے لئے جاتا ہے تو جب تک کہ بیمار کی عیادت اور مزاج پرسی سے فارغ ہو کر نہ آ جائے برابر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے جس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس انسانی اور اخلاقی ہمدردی و مروت کی بناء پر بہشت اور بہشت کی میوہ خوری کا مستحق ہو جاتا ہے۔

عیادت کی اہمیت

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ قیامت کے روز (بندہ سے) فرمائے گا اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہیں کی؟ بندہ عرض کرے گا کہ  اے میرے رب! میں تیری عیادت کس طرح کرتا کہ تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (اور بیماری سے پاک ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔  کیا تجھے معلوم نہیں ہو تھا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہے؟ اور تو نے اس کی عیادت نہیں کی تھی، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اس بیمار بندہ کی عیادت کرتا تو مجھے (یعنی میری رضا) اس کے پاس پاتا۔ (پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا  اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا اور تو نے مجھے کھانا نہیں کھلایا؟ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب! میں کھانا کس طرح کھلاتا تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (اور کسی چیز کا محتاج نہیں ہے) اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تجھے یاد نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندہ نے کھانا مانگا تھا اور تو نے اسے کھانا نہیں کھلایا تھا۔ کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اسے کھانا کھلاتا تو اسے (یعنی اس کے ثواب کو) میرے پاس پاتا۔ (پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا) اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے پانی نہیں پلایا؟ بندہ عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار میں تجھے پانی کس طرح پلاتا؟ تو تو دونوں جہانوں کا پروردگار ہے (تجھے نہ پانی کی ضرورت اور نہ کسی اور چیز کی حاجت)؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندہ نے پانی مانگا اور تو نے اسے پانی نہیں پلایا، کیا تجھے معلوم نہیں تھا کہ اگر تو اسے پانی پلاتا تو اسے (یعنی اس کے ثواب کو) میرے پاس پاتا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث میں ذکر کی گئی تینوں صورتوں میں سے پہلی صورت یعنی عیادت کرنے اور بعد کی دونوں صورتوں کا یہ فرق ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مریض کی عیادت کے بارے میں تو یہ فرمائے گا کہ اگر تو مریض کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ جب کہ کھانا کھلانے اور پانی پلانے کے بارے میں فرمائے گا کہ اگر تو کھانا کھلاتا یا یہ کہ اگر تو پانی پلاتا تو اس کے ثواب کو میرے پاس پاتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مریض کی عیادت کرنا بھوکے کو کھانا کھلانے اور پیاسے کو پانی پلانے سے افضل ہے۔

اپنے سے کمتر اور ادنیٰ مریض کی بھی عیادت کرنی چاہئے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (ایک مرتبہ) ایک اعرابی (گنوار) کے پاس اس کی بیماری کا حال پوچھنے کے لئے تشریف لے گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم (کا طریقہ یہ تھا کہ) جب آپ کسی کے پاس عیادت کے لئے تشریف لے جاتے تو اس سے فرماتے کہ  کوئی ڈر نہیں (یعنی بیماری سے غم نہ کھاؤ اس لیے کہ) یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس وقت) اس دہقانی سے بھی یہی فرمایا کہ  کوئی ڈر نہیں یہ بیماری (گناہوں سے) پاک کرنے والی ہے اگر اللہ چاہے دہقانی نے کہا کہ  ہرگز نہیں، بلکہ یہ بخار ہے جو بڑے بوڑھے پر چڑھ آیا ہے اور اسے قبر کی زیارت کرا دے گا (یعنی موت کی آغوش میں پھینک دے گا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (یہ سن کر) فرمایا کہ  اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 یہ حدیث آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے کمال تواضع اور مساوات عمل کی مظہر ہے کہ آپ ایک دہقانی کی عیادت کے لئے اس کے پاس تشریف لے گئے، گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اس عمل مبارک سے امت کے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ صرف انہیں لوگوں کی مزاج پرسی کے لئے نہیں جانا چاہئے جو اپنے سے اونچے یا ہم مرتبہ ہوں بلکہ ان لوگوں کی بھی عیادت کرنی چاہئے جو کسی بھی حیثیت سے اپنے سے کمتر اور ادنیٰ درجے کے ہوں۔

 اچھا (اگر تم یہی سمجھتے ہو تو) یوں ہی سہی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دہقانی سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا کہ میں تو تمہارے سامنے بیماری کا ثواب بیان کر رہا ہوں مگر تم اس نعمت کا انکار کر رہے ہو اگر تمہارا خیال یہی ہے تو پھر جان لو کہ اس طرح ہو گا جس طرح تم کہہ رہے ہو کیونکہ کفران نعمت کرنے والے کی سزا ہی یہ ہے کہ وہ اس نعمت سے محروم ہو جائے۔

دہقانی کے اس رویہ اور اس کی اس بات کی بناء پر احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ کافر ہو مگر علماء نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ وہ مسلمان تھا مگر چونکہ بے وقوف اور ناسمجھ اجڈ گنوار تھا اسی لئے بیماری کی تکلیف اور شدت درد سے بے تاب و مضطرب ہو کر اس قسم کے الفاظ اپنی زبان سے نکال بیٹھا۔

بیمار کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعاء شفاء

اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کا یہ طریقہ تھا) جب ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر داہنا ہاتھ پھیرتے اور یہ (دعا) فرماتے۔ اے لوگوں کے پروردگار! بیماری دور کر دے اور شفا دے تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیرے سوا کسی کی شفاء ایسی نہیں جو بیماری کو دور کر دے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کوئی شخص اپنے بدن کے کسی حصہ (کے درد) کی شکایت کرتا، یا (اس کے جسم کے کسی عضو پر) پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگلی سے اشارہ کر کے یہ دعا فرماتے خدا کے نام سے میں برکت حاصل کرتا ہوں، یہ مٹی ہمارے بعض آدمیوں کے لعاب دہن سے آلودہ ہے (یہ ہم اس لئے کہتے ہیں تاکہ) ہمارے پروردگار کے حکم سے ہمارا بیمار تندرست ہو جائے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 منقول ہے کہ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا طریقہ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا لعاب مبارک اپنی انگلی پر لگاتے اور اسے مٹی پر رکھتے پھر اس خاک آلودہ انگلی کو درد کی جگہ رکھ کر اس عضو پر پھیرتے جاتے تھے اور مذکورہ بالا دعا یعنی بسم اللہ الخ پڑھتے رہتے۔

پھوڑوں اور زخموں کے علاج کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ طریقہ اور یہ دعا درحقیقت رموز الٰہی میں سے ایک رمز ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی جانتے تھے ہماری عقلیں اس رمز کی حقیقت تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ تاہم قاضی بیضاوی رحمۃ اللہ نے از راہ احتمال کے لکھا ہے کہ طبی نقطہ نظر سے یہ بات ثابت ہے کہ تبدیلی مزاج کے سلسلہ میں لعاب دہن بہت موثر ہوتا ہے اسی طرح مزاج کو اپنی حالت پر برقرار رکھنے کے لئے وطن کی مٹی بہت تاثیر رکھتی ہے یہاں تک کہ حکماء لکھتے ہیں کہ مسافر کو چاہئے کہ وہ اپنے ساتھ اپنے وطن کی کچھ خاک ضرور رکھے اور تھوڑی سی خاک پانی کے برتن میں ڈال دے اور اسی برتن سے دوران سفر پیتا رہے تاکہ اس کی وجہ سے مزاج کی تبدیلی سے محفوظ رہے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی بناء پر یہ طریقہ اختیار فرماتے ہوں۔ نیز دوسرے شارحین نے بھی اس کی توجیہات بیان کی ہیں مگر وہ سب احتمال ہی کے درجہ میں ہیں۔ صحیح یہی ہے کہ خدا کا بھید ہے جس کی حقیقت تک ہماری عقلوں کی رسائی ممکن نہیں ہے۔

اشرف رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث رقیہ یعنی منتر کے جائز ہونے پر دلالت کرتی ہے بشرطیکہ اس منتر میں کفر کی آمیزش نہ ہو جیسے سحر یا کلمہ کفر و شرک وغیرہ۔ نیز اس سلسلہ میں مسئلہ یہ ہے کہ منتر خواہ کسی بھی زبان کا ہو، ہندی و اردو کا ہو یا عربی و فارسی اور ترکی وغیرہ کا، اس کا پڑھنا اس وقت تک درست نہیں ہے تا وقتیکہ اس کے معنی معلوم نہ ہو جائیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس میں الفاظ کفر ہوں۔ ہاں حدیث میں ایک منتر بسم اللہ شجۃ قرنیۃ الخ بچھو کے کاٹے کے لئے منقول ہے اگرچہ اس کے معنی معلوم نہیں ہیں مگر اس کا پڑھنا جائز ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب بیمار ہوتے تو معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم کرتے اور اپنا ہاتھ بدن پر (جہاں تک پہنچتا) پھیرتے، چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس بیماری میں مبتلا تھے جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وفات پائی تو میں معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر دم کرتی تھی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود معوذات پڑھ کر اپنے اوپر دم فرمایا کرتے تھے، نیز میں آپ کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن پر پھیرا کرتی تھی۔ اس طرح کہ میں معوذات پڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھوں پر دم کرتی تھی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بدن مبارک پر پھیرتی۔ (بخاری و مسلم) مسلم کی ایک دوسری روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ منقول ہے کہ  جب گھر والوں میں سے کوئی بیمار ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معوذات پڑھ کر اس پر دم فرمایا کرتے تھے

 

تشریح

 

معوذات سے مراد قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس کی سورتیں ہیں۔ چنانچہ حدیث میں معوذات بصیغہ جمع آیتوں کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے۔ یا یہ کہ چونکہ اقل جمع (یعنی جمع کا سب سے کم درجہ) دو ہیں اس لئے ان دونوں سورتوں کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ  معوذات سے مراد تین سورتیں یعنی قل اعوذ برب الفلق، قل اعوذ برب الناس، اور قل ھواللہ ہیں اور ان تینوں کو معوذات کا نام تغلیباً دیا گیا ہے۔ یہی بات زیادہ معتمد ہے بعض حضرات نے یہ بھی کہا ہے کہ  معوذات  میں ان تینوں سورتوں کے علاوہ  قل یا ایہا الکافرون بھی داخل ہے۔ واللہ اعلم۔ مسلم کی دوسری روایت میں  ہاتھ پھیرنے کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس موقع پر جہاں یہ احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دم کرنے کے ساتھ ہاتھ بھی پھیرتے ہوں گے۔ لیکن یہاں اس کا ذکر اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ  دم کرنے سے ہاتھ پھیرنا بھی خود بخود مفہوم ہو جاتا ہے وہیں یہ بھی احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح دم کرنے کے ساتھ ہاتھ پھیر تے تھے اس طرح کسی کسی موقعہ پر صرف دم کرنے ہی پر اکتفاء کرتے ہوں گے اور ہاتھ نہ پھیرتے ہوں گے۔ لیکن صحیح اور قریب از حقیقت وضاحت وہی ہے جو پہلے بیان کی گئی ہے اور اولیٰ بھی یہی ہے کہ دم بھی کیا جائے اور ہاتھ بھی پھیرا جائے۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ کلام اللہ کی آیتیں پڑھ کر بیمار پر دم کرنا سنت ہے۔

درد ختم کرنے کی دعا

اور حضرت عثمان بن ابی العاص کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے درد کی شکایت کی جسے وہ اپنے بدن (کے کسی حصہ) میں محسوس کرتے تھے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ  تمہارے بدن کے جس حصہ میں درد ہے وہاں اپنا ہاتھ رکھ کر (پہلے) تین مرتبہ بسم اللہ پڑھو اور (پھر) سات مرتبہ یہ پڑھو۔ میں اللہ سے اس کی عزت اور اس کی قدرت کے ذریعہ اس برائی (یعنی درد) سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں (اس وقت) محسوس کر رہا ہوں اور (آئندہ اس کی زیادتی سے) ڈرتا ہوں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق) میں نے ایسا ہی کیا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میری تکلیف دور کر دی۔ (مسلم)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی علالت اور حضرت جبریل علیہ السلام کی دعا

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئے اور (مزاج پرسی کے طور پر) کہا کہ  اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا آپ علیل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  ہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا خدا کے نام پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر افسوں پڑھتا ہوں۔ ہر اس چیز سے جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اذیت پہنچائے اور ہر شخص کی برائی یا حاسد کی آنکھ سے اللہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شفاء دے خدا کے نام سے آپ پر افسوں پڑھتا ہوں (مسلم)

برائی و حادثہ سے خدا کی پناہ میں دینا

حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت حسن و حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو ان الفاظ کے ذریعہ (خدا کی) پناہ میں دیتے تھے۔ میں تمہیں کلمات اللہ کے ذریعہ جو کامل ہیں، ہر شیطان کی برائی، ہر ہلاک کر دینے والے زہریلے جانور اور ہر نظر لگانے والی آنکھ سے (خدا کی) پناہ میں دیتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ (بھی) فرماتے تھے کہ تمہارے باپ (حضرت ابراہیم علیہ السلام) ان کلمات کے ذریعہ اپنے صاحبزادہ حضرت اسماعیل و حضرت اسحٰق علیہما السلام کو خدا کی پناہ میں دیتے تھے۔

مصابیح کے اکثر نسخوں میں (لفظ بہا کی بجائے) بہما تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

کلمات اللہ سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کی معلومات ہیں یا اس کے اسماء پاک اسی طرح اس کی کتابیں بھی مراد ہو سکتی ہیں۔  ہر شیطان کی برائی سے کا مطلب ہے ہر سرکش اور حد سے بڑھ جانے والے کی برائی سے خواہ وہ آدمیوں میں سے ہو خواہ جنات میں سے یا جانوروں سے

 ہامہ اس زہریلے جانور کو کہتے ہیں جس کے کاٹے سے آدمی ہلاک ہو جائے جیسے سانپ وغیرہ۔ جس زہریلے جانور کے کاٹے سے آدمی مرتا نہیں اسے  سامہ کہتے ہیں جیسے بچھو، زنبور (بھڑ) وغیرہ۔ نیز بعض مواقع پر حشرات الارض ہوام  ہامہ کی جمع کہتے ہیں۔

 روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ ان اباکما کان یعوذبہا میں لفظ  بہا  ضمیر مفرد کے ساتھ نقل کیا گیا ہے جب کہ مصابیح کے اکثر نسخوں میں اس موقع پر بہما ضمیر تثنیہ کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ضمیر تثنیہ حدیث کے دو جملوں من شر کل شیطان اور من کل عین لامۃ کی طرف راجع ہو گی۔ لیکن اس میں چونکہ خواہ مخواہ کا تکلف ہے اس لئے علامہ طیبی رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ جن نسخوں میں  بہما  تثنیہ کی ضمیر کے ساتھ لکھا گیا ہے وہاں کاتب سے سہو ہو گیا ہے صحیح  بہا  یعنی مفرد کی ضمیر کے ساتھ ہی ہے۔

تکلیف و مصیبت اللہ کی رحمت ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ جس شخص کو بھلائی پہنچانے کا ارادہ کرتا ہے، وہ (اس بھلائے کے حصول کے لئے) مصیبت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

 مصیبت ہر اس چیز کو کہتے ہیں جسے دل قبول اور پسند نہ کرے، لہٰذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مصیبت خواہ وہ تکلیف و بیماری کی صورت میں ہو یا حادثہ و صدمہ کی شکل میں، ہمیشہ خدا کے قہر اور عذاب ہی کے طور پر نہیں آتی بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کا سایہ کرنا چاہتا ہے اسے خیر و بھلائی کے راستہ پر ڈالنا چاہتا ہے تو اسے کسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے نہ صرف یہ کہ اس کے گناہ صاف ہو جاتے ہیں بلکہ اس کے قلب و دماغ کو مصیبت کی سختی مجلی و مصفا کر کے خیر و بھلائی کے نور کو اپنے اندر ضیا بار کرنے کی صلاحیت پیدا کر دیتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی بندہ مصیبت و تکلیف پر صبر کرے اور راضی برضا رہے تو یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ یہ مصیبت اس کے لئے اپنے دامن میں خدا کی رضا و رحمت لے کر آئی ہے۔ ہاں اگر کوئی بندہ کسی مصیبت پر صبر و ضبط کے دامن کو ہاتھ سے چھوڑ کر جزع و فزع کرنے لگے اور ناخوش خفا ہونے لگے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ یہ مصیبت اس کے حق میں رحمت نہیں بلکہ عذاب خداوندی ہے۔

رنج و غم کا پہنچنا گناہوں کو دور کرتا ہے

حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مسلمانوں کو جب کوئی رنج، دکھ فکر، حزن ایذاء اور غم پہنچتا ہے یہاں تک کہ کانٹا چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ دور کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

الفاظ ہم و حزن وغیرہ کے معنی قریب قریب یکساں ہیں صرف ہم اور غم میں فرق یہ ہے کہ ہم آئندہ واقعہ ہونے والے معاملہ سے تعلق رکھتا ہے یعنی اگر کوئی ایسا مشکل امر پیش آنے والا ہو جس کے کرنے یا نہ کرنے سے رنج و ملال پہنچے تو وہاں ہم استعمال کیا جاتا ہے اور غم کا تعلق گزرے ہوئے واقعہ سے ہوتا ہے۔ بہر حال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ مسلمان کو کسی بھی نوعیت کا یا کسی بھی طرح کا کوئی رنج و ملال اور غم و مصیبت پہنچے تو وہ اس کے صغیرہ گناہوں کے دور ہونے کا ذریعہ ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر تکلیف و بیماری کی سختی و زیادتی

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بخار تھا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اپنا ہاتھ پھیر کر عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو بہت سخت بخار ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ ہاں مجھے تمہارے دو آدمیوں کے برابر بخار چڑھتا ہے حضرت ابن مسعود فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ  یہ اس وجہ سے ہو گا کہ آپ کو دو گنا ثواب ملے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  ہاں! اور پھر فرمایا جس مسلمان کو بیماری کی وجہ سے یا اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ اس کے گناہ (اسی طرح) دور کر دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے جھاڑتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ایسا کوئی شخص نہیں دیکھا جس کی بیماری آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری سے زیادہ سخت و شدید ہو۔ (بخاری و مسلم)

موت کی سختی بلندی درجات کی علامت ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے سینہ اور گردن کے درمیان وفات پائی، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد کسی شخص کی موت کی سختی کو کبھی برا نہیں سمجھتی۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرا سہارا لئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک میرے سینہ اور گردن کے بیچ رکھا ہوا تھا لہٰذا میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت نزع کی کتنی شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کتنی سخت تھی!۔

 حدیث کے دوسرے جزو فلا اکرہ شدۃ الموت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں یہ سمجھتی تھی کہ حالت نزع کی تکلیف اور موت کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت دیکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ موت کی سختی گناہوں کی کثرت اور خاتمہ بالخیر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ موت کی سختی اور سکرات الموت کی شدت بلندی درجات کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ موت کی آسانی اور سکرات الموت میں تخفیف بزرگی اور فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فضیلت بطریق اولیٰ حاصل ہوتی۔

مؤمن اور منافق کی زندگی کی مثال

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مؤمن کی مثال کھیت کی تر و تاز اور نرم شاخ کی سی ہے کہ جسے ہوائیں جھکا دیتی ہیں، کبھی اسے گرا دیتی ہیں اور کبھی سیدھا کر دیتی ہیں یہاں تک کہ اس کا وقت پورا ہو جاتا ہے اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے جو جما کھڑا رہتا ہے اسے کوئی جھٹکا نہیں لگتا (یعنی نہ تو وہ ہوا کہ دباؤ سے گرتا ہے اور نہ جھکتا ہے) یہاں تک کہ وہ دفعۃً زمین پر آ گرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

مؤمن کی مثال تو کھیتی کی تر و تازہ اور نرم شاخ سے دی جا رہی ہے کہ جس طرح ہواؤں کے تھپیڑے اس شاخ پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں بایں طور کہ کبھی وہ شاخ کو گرا دیتے ہیں کبھی سیدھا کر دیتے ہیں۔ مگر وہ شاخ ہواؤں کے سکت و تند تھپیڑے کھا کھا کر اپنی جگہ اپنے وقت کے آخری لمحہ تک کھڑی رہتی ہے۔ اسی مؤمن کا حال بھی یہی ہے کہ کبھی تو اسے مصائب و آلام اور ضعف و بیماری کے سخت تھپیڑے گرا دیتے ہیں، کبھی صحت و تندرستی اور خوشی و مسرت کے جانفزا جھونکے ان کی زندگی میں بشاشت و انبساط کی زندگی پیدا کر دیتے ہیں اس طرح وہ اپنی زندگی کے دن پورے کرتا رہتا ہے۔

 منافق کی مثال صنوبر کے درخت سے دی گئی ہے کہ جس طرح صنوبر کا درخت بظاہر ایک جگہ کھڑا رہتا ہے اور اس پر ہوا کا دباؤ اثر انداز نہیں ہوتا مگر جب اس کا وقت آتا ہے تو وہ یکبارگی زمین پر آ رہتا ہے اسی طرح منافق کا حال ہے کہ وہ دنیاوی زندگی میں بظاہر خوش و خرم اور ہشاش بشاش نظر آتا ہے نہ اس پر مصائب و آلام کی بارش ہوتی ہے اور نہ بیماری و ضعف کے تھپیڑے اس پر اثر انداز ہوتے ہیں یہاں تک کہ وہ یکبارگی بغیر کسی بیماری و ضعف کے موت کی وادی میں گر جاتا ہے۔

 گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ مؤمن و مسلمان کی زندگی مصائب و آلام اور تکلیف و پریشانی میں گزرتی ہے کبھی وہ بیماری و ضعف کے جال میں پھنسا رہتا ہے کبھی اسے مال و زر کی کمی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے کبھی دوسرے دنیاوی حوادث و آلام اس کی روشن زندگی پر سیاہ بادل بن کر چھا جاتے ہیں مگر مومن مسلمان اسی حالت میں جیے جاتا ہے اور یہ تمام چیزیں اس کے حق میں اخروی سعادت و خوش بختی کی علامت قرار دی جاتی ہیں بشرطیکہ صبر و رضا اور شکر کا دامن کسی بھی مرحلہ پر ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ اس کے مقابلہ پر منافق و فاسق کی زندگی ہوتی ہے جس پر نہ تو زیادہ تر غم و آلام کا سایہ ہوتا ہے نہ بیماری و پریشانی کے سیاہ بادل اور نہ دوسری دنیاوی ذلت و ناکامرانی اور مصیبت و پریشانی کا چکر، بلکہ وہ بظاہر تندرست و توانا اور خوش و خرم رہتا ہے اس طرح نہ اسے وہ درجہ ملتا ہے جو مصائب و پریشانی میں مبتلا ہو کر مؤمن و مسلمان کی اخروی کامیابی و فلاح کا ضامن بنتی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ علیہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مؤمن کی مثال کھیتی کی سی ہے کہ (جس طرح) ہوائیں اسے ہمیشہ جھکائے رہتی ہے (اسی طرح) مؤمن کو ہمیشہ بلائیں اپنی لپیٹ میں لئے رہتی ہیں اور منافق کی مثال صنوبر کے درخت کی سی ہے۔ کہ اگرچہ وہ ہواؤں کے دباؤ سے ہلتا بھی نہیں مگر (آخرکار جڑ ہی سے) اکھڑ جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ منافق دنیاوی زندگی میں مصائب و تکلیف سے زیادہ دوچار نہیں ہوتا اور نہ بلاء آلام اس پر زیادہ اثر انداز ہوتے ہیں تاکہ یہاں کی مصیبتوں کے بدلہ میں اس کے لئے اخروی زندگی کا عذاب ہلکا نہ ہو جائے جب کہ مسلمان کا دنیا میں مصائب و آلام میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اسے آخرت میں بڑی پرسکون اور پر مسرت زندگی حاصل ہو گی۔

بیماری کو برا نہ کہو

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حضرت ام صائب رضی اللہ عنہا کے پاس (جو تپ ولرزہ میں مبتلا تھیں) تشریف لائے اور (ان کی حالت دیکھ کر) کہ  یہ تمہیں کیا ہوا جو کانپ رہی ہو؟  انہوں نے عرض کیا کہ بخار ہے اللہ اس میں برکت نہ دے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ بخار کو برا مت کہو کیونکہ بخار بنی آدم کے گناہوں کو اسی طرح دور کرتا ہے جیسے بھٹی لوہے کے میل کو صاف کر دیتی ہے۔ (مسلم)

 

 

تشریح

 

ایک روایت میں منقول ہے کہ  اللہ تعالیٰ مؤمن کی تمام خطائیں اس کے ایک رات کے بخار کی وجہ سے دور فرما دیتا ہے اسی طرح ابوداؤد کی ایک روایت میں منقول ہے کہ  ایک رات کا بخار ایک برس کے گناہ دور کر دیتا ہے۔

زمانہ بیماری کے فوت شدہ اوراد و نوافل کا ثواب ملتا ہے

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی بندہ بیمار ہوتا ہے یا سفر میں جاتا ہے (اور اس کی بیماری یا سفر کی وجہ سے اس کے اور ادو نوافل فوت ہو جاتے ہیں) تو (اس کے نامہ اعمال میں اتنے عمل لکھ دیئے جاتے ہیں جو وہ حالت قیام اور زمانہ تندرستی میں کیا کرتا تھا۔ (بخاری)

طاعون میں مرنے والے کی فضیلت

حضرت انس راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  طاعون (میں مرنا) ہر مسلمان کے لئے شہادت ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اس علاقہ میں جہاں طاعون کی بیماری پھیل جاتی ہے جو مسلمان صبر و برداشت کے دامن کو نہیں چھوڑتا اور بیماری سے ڈر کر کسی دوسری جگہ بھاگتا نہیں بلکہ اللہ پر بھروسہ کر کے وہیں پڑا رہتا ہے اور اگر وہ طاعون میں مبتلا ہو کر مر جاتا ہے تو اسے شہید کے اجر سے نوازا جاتا ہے۔

 طاعون ایک عام بیماری اور وباء کا نام ہے جس علاقہ میں یہ بیماری پیدا ہوتی ہے وہاں کی آب و ہوا، عام مزاج اور انسانوں کے جسم تمام ہی چیزیں اس بیماری کے جراثیم اور اس کے فساد سے متاثر ہو جاتی ہیں۔ بعض لوگوں نے کہا کہ طاعون اس بیماری کو کہتے ہیں جس میں بدن کے نرم حصوں پر زخم ہو جاتے ہیں۔ جیسے بغل وغیرہ اور ان زخموں کے گرد سیاہی، سبزی یا سرخی ہوتی ہے۔

شہید کا ثواب پانے والے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا شہداء پانچ ہیں (١) طاعون زدہ (٢) پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء میں مرنے والا (٣) پانی میں بے اختیار ڈوب کر مر جانے والا (٤) دیوار یا چھت کے نیچے دب کر مر جانے والا۔ (٥) خدا کی راہ میں شہید ہونے والا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 پانی میں ڈوب کر مر جانے والے۔ اس شخص کو شہادت کا ثواب ملے گا جو بے اختیار و بلا قصد پانی میں ڈوب گیا ہو یعنی بارادہ خود پانی میں نہ ڈوبے۔ اس طرح اگر دریا میں کشتی ڈوب جائے یا ٹوٹ جائے تو سب لوگ یا کچھ لوگ دریا میں ڈوب جائیں تو ان میں سے اسی ڈوبنے والے کو شہادت کا ثواب ملے گا جو کسی گناہ و معصیت کے ارادہ سے کشتی میں نہ بیٹھا ہو۔

 اس حدیث میں پانچ قسم کے شہیدوں کا تذکرہ کیا گیا۔ لہٰذا اس سلسلہ میں یہ بات جان لینی چاہئے کہ حقیقی شہید صرف وہی شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔ شہیدوں کی دیگر قسمیں حکمی ہیں یعنی وہ مرنے والے حقیقی شہید تو نہیں ہوتے ہاں اس کی بے کسی و بے بسی کی موت کی بناء پر انہیں شہادت کا ثواب ملتا ہے۔

 اس موقع پر اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہاں اس حدیث میں چار قسم کے حکمی شہیدوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کے علاوہ حکمی شہیدوں کی اور بھی بہت زیادہ قسمیں جن کے بارے میں دیگر مشہور احادیث میں ذکر کیا گیا۔ چنانچہ بعض علماء مثلاً سیوطی رحمۃ اللہ وغیرہ نے ان کو ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس حدیث میں جو شہداء حکمی ذکر کیے گئے ہیں ان کے علاوہ دوسرے حکمی شہداء یہ ہیں۔ ذات الجنب (یعنی نمونیہ کی بیماری) میں مرنے والا، جل کر مر جانے والا، حالت حمل میں مر جانے والی عورت یا باکرہ مر جانے والی عورت، وہ عورت جو حاملہ ہونے کے بعد سے بچہ کی پیدائش تک یا بچہ کا دودھ چھٹانے تک مر جائے، سل یعنی دق کے مرض میں مرنے والا، حالت سفر میں مرنے والا، سفر جہاد میں سواری سے گر کر مر جانے والا، مرابط یعنی اسلامی مملکت کی سرحدوں کی حفاظ کے دوران مر جانے والا، گڑھے میں گر کر مر جانے والا، درندوں یعنی شیر وغیرہ کا لقمہ بن جانے والا، اپنے مال، اپنے اہل و عیال، اپنے دین، اپنے خون اور حق کی خاطر قتل کیا جانے والا، دوران جہاد اپنی موت مر جانے والا، اور وہ شخص جسے شہادت کی پر خلوص تمنا اور لگن ہو مگر شہادت کا موقع اسے نصیب نہ ہو اور اس کا وقت پورا ہو جائے اور شہادت کی تمنا دل میں لیے دنیا سے رخصت ہو جائے۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس شخص کو حاکم وقت ظلم و تشدد کے طور پر قید خانہ میں ڈال دے اور وہ وہیں مر جائے تو وہ شہید ہے جو شخص مظلومانہ طریقہ پر زد و کوب کیا جائے اور وہ زد و کوب کے نتیجے میں بعد میں مر جائے تو وہ شہید ہے اور جو شخص توحید کی گواہی دیتے ہوئے اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دے تو وہ شہید ہے۔

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع روایت ہے کہ  تپ (بخار) شہادت ہے، حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں میں نے عرض کیا کہ  یا رسول اللہ! شہداء میں اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ بافضلیت شہید کون ہے آپ نے فرمایا کہ  وہ شخص جو ظالم حاکم کے سامنے کھڑے ہو کر اسے اچھا اور نیک کام کرنے کا حکم دے اور برے کام سے روکے اور وہ حاکم اس شخص کو مار ڈالے۔

 حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ  جس شخص کو گھوڑا یا اونٹ کچل اور روند ڈالے اور وہ مر جائے یا زہریلے جانور کے کاٹنے سے مر جائے تو شہید ہے۔

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ  جس شخص کو کسی سے عشق ہو گیا اور نہ صرف یہ کہ وہ اپنے عشق میں پاکباز و متقی رہا بلکہ اس نے اپنے عشق کو چھپایا بھی اور اسی حال میں اس کا انتقال ہو گیا تو وہ شہید ہے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی منقول ہے کہ جو شخص کشتی میں بیٹھا ہوا درد سر اور قے میں مبتلا ہو تو اسے شہید کا اجر ملتا ہے۔

 حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ  اللہ تعالیٰ نے عورت کے لئے غیرت و خود داری لازم رکھی ہے اور مردوں کے لئے جہاد ضروری قرار دیا ہے لہٰذا عورت میں سے جس عورت نے اپنی سوکن کی موجودگی میں صبر و ضبط کے دامن کو پکڑے رکھا تو اسے شہید کا اجر ملے گا۔

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بطریق مرفوع روایت کرتی ہیں کہ  جو شخص روزانہ دن میں پچیس مرتبہ یہ دعا (اللہم بارک لی فی الموت وفیما بعد الموت) پڑھے اور بستر مرگ پر اس کا انتقال ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اسے شہید کا ثواب عنایت فرماتے ہیں۔

 حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ  جو شخص ضحیٰ (یعنی اشراق و چاشت) کی نماز پڑھے اور مہینہ میں تین دن روزہ رکھے اور وتر کی نماز نہ حالت سفر میں چھوڑے نہ حالت قیام میں تو اس کے لئے شہید کا اجر لکھا جاتا ہے۔

 اسی طرح امت میں عوامی طور پر اعتقادی و عملی گمراہی کے وقت سنت پر مضبوطی سے قائم رہنے والا اور طلب علم میں مرنے و الا شہید ہے طلب علم میں مرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جو حصول علم اور درس و تدریس میں مشغول ہو یا تصنیف و تالیف میں مصروف ہو اور یا محض کسی علمی مجلس میں حاضر ہو، جس شخص نے اپنی زندگی اس طرح گزار دی ہو کہ لوگوں کی مہمانداری و خاطر و تواضع اس کا شیوہ رہا ہو تو وہ شہید، مرتث یعنی وہ شخص جو میدان کارزار میں زخمی ہو کر فوراً نہ مر جائے بلکہ کم سے کم اتنی دیر تک زندہ رہے کہ دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھائے تو وہ بھی شہید ہے۔ جو شخص مسلمانوں تک غلہ پہنچائے اور جو شخص اپنے اہل و عیال اور اپنے غلام و لونڈی کے لئے کمائے وہ شہید ہے۔ ایسے وہ جنبی جسے کافر میدان کارزار میں مار ڈالیں اور شریق یعنی وہ شخص جو گلے میں پانی پھنس جانے اور دم گھٹ جانے کی وجہ سے مر جائے وہ شہید ہے۔

 حدیث میں آیا ہے کہ جو مسلمان اپنے مرض میں حضرت یونس علیہ السلام کی یہ دعا (لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین) چالیس مرتبہ پڑھے اور اسی مرض میں انتقال کرے تو اسے شہید کا ثواب دیا جاتا ہے اور اگر اس مرض سے اسے چھٹکارا مل جائے تو وہ اس حال میں صحت مند ہوتا ہے کہ اس کی مغفرت ہو چکی ہوتی ہے۔

 یہ بھی حدیث میں وارد ہے کہ سچا اور امانتدار تاجر قیامت کے دن شہداء کے ساتھ ہو گا اور جو شخص جمعہ کی شب میں مرتا ہے وہ شہید ہے۔ نیز حدیث میں یہ بھی منقول ہے کہ بلا اجرت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اذان دینے والا مؤذن اس شہید کی مانند ہے جو اپنے خون میں لت پت تڑپتا ہو، نیز وہ مؤذن جب مرتا ہے تو اس کی قبر میں کیڑے نہیں پڑتے۔

 منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرماتا ہے۔ جو شخص مجھ پر دس مرتبہ درود بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر سو مرتبہ اپنی رحمت نازل فرماتا ہے اور جو شخص مجھ پر سو مرتبہ درود بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان براۃ یعنی نفاق اور آگ سے نجات لکھ دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن شہیدوں کے ساتھ رکھے گا۔

 منقول ہے کہ جو شخص صبح کے وقت تین مرتبہ اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم اور سورہ حشر کی آخری تین آیتیں پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے اور اس کے لئے شام تک بخشش کی دعا کرتے ہیں۔ اور وہ شخص اگر اس دن مر جاتا ہے تو اس کی موت شہید کی موت ہوتی ہے اور جو شخص یہ شام کو پڑھتا ہے وہ بھی اسی اجر کا مستحق ہوتا ہے۔

 منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو وصیت کی کہ جب تم رات میں سونے کے لئے اپنے بستر پر جاؤ تو سورۃ حشر کی آخری آیتیں پڑھ لو اور فرمایا کہ  اگر تم (رات میں یہ پڑھنے کے بعد سوئے اور اسی رات میں) مر گئے تو شہید کی موت پاؤ گے۔

 منقول ہے کہ جو شخص مرگی کے مرض میں مر جاتا ہے وہ شہید ہوتا ہے، جو شخص حج اور عمرہ کے دوران مرتا ہے شہید ہوتا ہے جو شخص با وضو مرتا ہے شہید ہوتا ہے اسی طرح رمضان کے مہینہ میں، بیت المقدس میں، مکہ یا مدینہ میں مرنے والا شخص شہید ہوتا ہے، دبلاہٹ کی بیماری میں مرنے و الا شخص شہید ہوتا ہے، جو شخص کسی آفت و بلا میں مبتلاء ہو اور وہ اسی حالت میں ضرر و بلا پر صبر و رضا کا دامن پکڑے ہوئے مر جائے تو شہید ہے۔ جو شخص صبح و شام مقالید السماوات والارض الخ جس کے پڑھنے کی فضیلت کا تذکرہ ایک حدیث میں کیا گیا ہے پڑھے تو وہ شہید ہے۔

 منقول ہے کہ جو شخص نوے برس کی عمر میں یا آسیب زدہ ہو کر مرے یا اس حال میں مرے کہ اس کے ماں باپ اس سے خوش ہوں اور یا نیک بخت بیوی اس حال میں مرے کہ اس کا خاوند اس سے خوش راضی ہو تو وہ شہید ہے۔ نیز وہ مسلمان بھی شہید ہے جو کسی ضعیف مسلمان کے ساتھ کلمہ خیر یا اس کی کسی طرح کی مدد کر کے بھلائی کا معاملہ کرے۔ واللہ اعلم۔

طاعون زدہ علاقہ میں صبر و ثبات کی فضیلت

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے طاعون کی حقیقت دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بتایا کہ (ویسے تو) یہ عذاب ہے جسے اللہ تعالیٰ جس پر چاہے بھیجتا ہے (لیکن) اللہ تعالیٰ نے اسے (ان) مؤمنین کے لئے (باعث) رحمت قرار دیا ہے (جو اس میں ابتلاء کے وقت صبر کرتے ہیں) اور جس شہر یا جس جگہ طاعون ہو اور (کوئی مؤمن) اپنے اس شہر میں ٹھہرا رہے اور صبر کرنے والا اور خدا سے ثواب کا طالب رہے (یعنی اس طاعون زدہ علاقہ میں کسی اور غرض و مصلحت سے نہیں بلکہ محض ثواب کی خاطر ٹھہرا رہے) نیز یہ جانتا ہو کہ اسے کوئی چیز(یعنی کوئی اذیت و مصیبت) نہیں پہنچے گی مگر صرف وہی جو خدا نے (اس کے مقدر میں لکھ دی اور جس سے کہیں مفر نہیں) تو اس مؤمن کو شہید کے مانند ثواب ملے گا (بخاری)

طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں واضح ہدایت و ضابطہ

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  طاعون عذاب ہے جو بنی اسرائیل کی ایک جماعت پر بھیجا گیا تھا  یا فرمایا کہ ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے (یعنی راوی کو شک ہو گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلا جملہ ارشاد فرمایا تھا یا دوسرا) لہٰذا جب تم کسی علاقہ کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون پھیلا ہوا ہے تو وہاں مت جاؤ اور جس طاعون زدہ علاقہ میں تم(پہلے سے) موجود ہو تو وہاں سے نکل مت بھاگو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

بنی اسرائیل کی ایک جماعت سے مراد وہ جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا کہ ادخلوا الباب سجدا (یعنی داخل ہو دروازہ میں سجدہ کرتے ہوئے) مگر انہوں نے سرکشی اور نافرمانی کا مظاہرہ کیا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آیت (فانزلنا علیہم رجزا من السماء) یعنی پس ہم نے ان کی سرکشی و نافرمانی کی وجہ سے) ان پر آسمان سے عذاب اتارا۔ ابن مالک فرماتے ہیں کہ وہ  آسمانی عذاب طاعون تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اس بدبخت و سرکش قوم پر نازل فرمایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس عذاب و بلا میں مبتلا ہو کر اس قوم کے چوبیس ہزار بڑے بڑے بوڑھے آناً فاناً موت کے گھاٹ اتر گئے۔

 اس حدیث میں طاعون زدہ علاقہ کے بارے میں دو ہدایتیں دی جا رہی ہیں ایک تو یہ کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو اور تم وہاں پہلے سے موجود نہ ہو تو اب طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ میں نہ جاؤ۔ اس سے منع فرمایا جا رہا ہے تاکہ اپنی جان کو جانتے بوجھتے ہلاکت میں ڈالنا لازم نہ آئے۔

 دوسری ہدایت یہ ہے کہ جس علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا ہو تو وہاں پہلے سے موجود ہو تو اب محض طاعون پھیلنے کی وجہ سے اس علاقہ سے نکل کر کسی دوسری جگہ نہ بھاگ جاؤ۔ کیونکہ اس طرح کی تکلیف و پریشانی کے خوف سے اور موت کے ڈر سے بھاگنے کا مطلب ہو گا کہ تقدیر کے لکھے ہوئے فیصلہ سے فرار اختیار کرنا جو لا حاصل ہے۔ لہٰذا کسی عام وبا پھیلنے کے وقت کے بارے میں شریعت اسلامی کا یہی ضابطہ ہے کہ جس طرف وبا پھیلی ہوئی ہو وہاں جائے نہیں اور جس جگہ پہلے سے موجود تھا اور وہاں وبا پھیل گئی تو پھر وہاں سے بھاگے نہیں جو شخص بھاگے گا وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب اور راندہ درگاہ الٰہی ہو گا  ہاں وبا کے علاوہ دوسرے بعض مواقع پر جہاں ہلاکت کا ظن غالب ہو بھاگنے کی اجازت ہے مثلاً کوئی شخص گھر میں ہو اور زلزلہ آ جائے یا گھر میں آگ لگ جائے یا اسی طرح کسی ایسی دیوار کے نیچے بیٹھا ہوا ہو جس کے گرنے کا خطرہ ہو تو جان بچانے کے لئے وہاں سے بھاگنا جائز ہے۔

بینائی سے محرومی اور اس پر صبر اخروی سعادت کی نشانی

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں اپنے کسی بندہ کو اس کی دونوں پیاری چیزوں میں مبتلا کر دیتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو میں ان دونوں کے بدلہ میں اسے جنت دیتا ہوں (راوی کہتے ہیں کہ اس کی دونوں پیاری چیزوں سے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد اس کی دو آنکھیں ہیں۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اللہ جل شانہ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو میں اندھا کر دیتا ہوں تو اس کو اس کی دونوں آنکھوں کے بدلہ میں بہشت دیتا ہوں، یعنی اسے نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کروں گا، یا یہ کہ اسے جنت میں مخصوص مراتب و درجات عطا کروں گا۔ لہٰذا جب کوئی شخص اپنی بینائی سے محروم ہو جائے تو اسے چاہئے کہ وہ نہ تو اس کی وجہ سے اپنی زبان شکایت کو دراز کرے اور نہ دل میں کوئی تنگی اور تکدر پیدا کرے بلکہ ایسی صورت میں صبر و شکر کی راہ پر گامزن رہے اور جانے کہ اندھا ہونا غضب خداوندی کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ گناہوں کے دور ہونے، درجات کے بلند ہونے اور نگاہ بد سے بچانے کے لئے حق تعالیٰ نے آزمائش میں مبتلا کیا ہے۔ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ جب عمر کے آخری حصہ میں اندھے ہو گئے تو فرمایا کرتے تھے کہ وہ خلوت جسے میں تمام عمر چاہا کرتا تھا اب میسر آئی ہے۔

عیادت کا اجر

حضرت علی کرم اللہ وجہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  جو مسلمان (دوسرے بیمار) مسلمان کی دن کے پہلے حصہ میں یعنی دوسرے پہر سے پہلے پہلے عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لئے شام ہونے تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور جو مسلمان دن کے آخری حصہ میں یعنی زوال کے بعد عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کے لیے صبح ہونے تک رحمت و مغفرت کی دعا کرتے ہیں اور بہشت میں اس کے لئے ایک باغ مقرر کر دیا جاتا ہے (ترمذی، ابو داؤد)

آنکھوں کی بیماری میں عیادت کرنے کا مسئلہ

حضرت زید بن ارقم فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری عیادت فرمائی جب کہ میری آنکھوں میں درد تھا۔ (احمد، ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اس شخص کی عیادت کرنا سنت ہے جو آنکھیں دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری میں مبتلا ہو جب کہ ایک روایت کا جو جامع صغیر میں منقول ہے یہ مفہوم ہے کہ  تین بیماریاں ایسی ہیں جن میں بیمار کی عیادت نہ کی جائے (١) آنکھیں دکھنے میں (٢) داڑھ کے درد میں (٣) دنبل (پھوڑے) میں۔

 چونکہ ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے اس لیے ان دونوں میں اس تاویل کے ذریعہ تطبیق پیدا کی جائے گی کہ  ان بیماریوں میں بیمار کی عیادت وہ لوگ نہ کریں جن کے لیے بیمار کو تکلیف کرنا پڑے یا ان کا آنا بیمار کے لیے گراں ہو کیونکہ اگر وہ لوگ ایسے بیمار کی عیادت کے لیے جائیں گے تو آنکھ دکھنے یا آنکھ کی دوسری بیماری کی شکل میں بیمار کو اپنی آنکھ کھولنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ یا داڑھ دکھنے کی صورت میں اسے گفتگو کرنے کی وجہ سے بہت زیادہ تکلیف ہو گی اسی طرح اگر دنبل ہو گا تو وہ ان کی وجہ سے ٹھیک طریقہ سے بیٹھنے پر مجبور ہو گا اور ظاہر ہے پھوڑے کے وجہ سے اس کے لیے کسی ایک اور ٹھیک ہئیت پر بیٹھنا بہ زیادہ تکلیف کا باعث ہو گا۔ ہاں اگر ایسے لوگ عیادت کے لیے جائیں جن کی وجہ سے بیمار کو تکلیف نہ کرنا پڑے یا ان کا جانا بیمار پر گراں نہ گزرے تو ان بیماریوں میں بھی عیادت کے لیے جانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ حاصل یہ ہے کہ یہاں جو حدیث نقل کی جا رہی ہے وہ آخری صورت پر محمول ہو گی اور جامع صغیر کی روایت پہلی صورت پر محمول کی جائے گی۔

عیادت کے واسطے جانے کے لیے وضو کرنا سنت ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس شخص نے وضو کیا اور اچھا (یعنی پورا) وضو کیا ور پھر (حصول) ثواب کے ارادے سے اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کی تو اس کو دوزخ سے ساٹھ برس (کی مسافت) کی بقدر دور رکھا جاتا ہے۔ (ابوداؤد)

عیادت کے وقت بیمار کے لیے دعا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمای  جب کوئی مسلمان کسی بیمار مسلمان کی عیادت کرتا ہے اور سات مرتبہ یہ کہتا ہے کہ دعا (اسأل اللہ العظیم رب العرش العظیم ان یشفیک) یعنی میں اللہ بزرگ و برتر سے جو عرش عظیم کا مالک ہے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا دے۔ تو اللہ تعالیٰ اسے شفا دیتا ہے بشرطیکہ اس کا وقت نہ آ گیا ہوں (یعنی اس کا مرض لاعلاج نہ ہو)۔ (ابوداؤد، ترمذی)

بخار اور درد کی دعا

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صحابہ کو سکھلایا کرتے تھے کہ وہ (یعنی بیمار لوگ) بخار بلکہ ہر درد (سے شفا) کے لیے اس طرح دعا کیا کریں دعا (بسم اللہ الکبیر اعوذ باللہ العظیم من شر کل عرق نعار ومن شر حر النار) یعنی میں برکت چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کے نام سے اور پناہ چاہتا ہوں اللہ بزرگ و برتر کی، ہر رگ جوش مارنے والی کی برائی (یعنی تکلیف) سے اور آگ کی برائی سے۔ امام ترمذی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے کیونکہ ہم اس حدیث کو ابراہیم ابن اسماعیل کے علاوہ اور کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں جانتے اور وہ (یعنی ابراہیم) روایت حدیث کے بارے میں ضعیف شمار کیے جاتے ہیں۔

 

تشریح

 

 ہر رگ جوش مارنے والی سے مراد وہ خون ہے جو رگ میں جوش مارتا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس خون سے پناہ چاہے جو رگ میں جوش مارتا ہے کیونکہ جب خون غالب آ جاتا ہے تو تکلیف پہنچاتا ہے بایں طور کہ اس سے بخار اور دوسرے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔ یہ حدیث ابن شیبہ، ترمذی، ابن ماجہ، ابن ابی الدنیا، ابن سنی اور حاکم نے روایت کی ہے اور بیہقی نے دعوات کبیر میں اس کی صحت کی تصدیق کی ہے۔

بیماری میں کیا دعا پڑھی جائے

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  تم میں سے جس شخص کو کوئی بیماری ہو یا اس کا کوئی بھائی بیمار ہو تو اسے چاہئے کہ یہ دعا پڑھے۔ ہمارا پروردگار اللہ ہے، ایسا اللہ جو آسمان میں ہے (تمام نقصانات سے) تیرا نام پاک ہے، تیری حکومت آسمان و زمین (دونوں) میں ہے، جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے ویسی ہی تو اپنی رحمت زمین پر نازل فرما، تو ہمارے چھوٹے اور بڑے گناہ بخش دے تو پاکیزہ لوگوں کا پروردگار ہے (یعنی ان کا محب اور کارساز ہے اور تو اپنی رحمت میں سے (جو ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے رحمت عظیمہ) نازل فرما، اور اس بیماری سے اپنی شفا عنایت فرما  (اس دعا کے پڑھنے سے انشاء اللہ بیمار) اچھا ہو جائے گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

جیسی تیری رحمت آسمان میں ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آسمان میں تو تیری رحمت ہر ہر جگہ ہے اور وہاں کے ہر ہر رہنے والے پر ہے۔ بخلاف زمین اور زمین کے رہنے والوں کے کہ یہاں تو رحمت خاص بعضوں پر ہوتی ہے اور بعضوں پر نہیں ہوتی یعنی رحمت خاص صرف مؤمن ہی فیضیاب ہوتے ہیں نہ کہ کافر اگرچہ رحمت عام سب کے لیے یکساں ہے خواہ مؤمن ہو یا کافر جیسا کہ ارشاد ربانی ہے آیت (رحمتی وسعت کل شئی)۔ میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔

 پاکیزہ لوگوں سے مؤمن مراد ہیں جو شرک سے پاک ہوتے ہیں یا وہ متقی مسلمان مراد ہیں جو برے افعال اور فاسد و لا یعنی اقوال سے بچتے ہیں۔

عیادت کے وقت کی دعا

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی شخص کسی مریض کے پاس عیادت کے لیے آئے تو اسے یہ دعائیہ الفاظ کہنے چاہئیں۔ آیت (اللہم اشف عبدک ینکالک عدوا او یمشی لک الی جنازۃ)۔ یعنی اے اللہ! اپنے بندہ کو شفا دے تاکہ وہ تیرے بندہ کو ایذاء پہنچائے (یعنی دشمان دین سے جنگ و جدال کر کے انہیں زخمی اور قتل کرے) یا تیری خوشی و رضا کی خاطر جنازہ کی طرف (یعنی نماز جناہ کے لیے) چلے (ابو داؤد)

تکلیف و مصیبت مسلمان کے لیے گناہوں کا کفارہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ بن زید (بصری تابعی) امیہ سے روایت کرتے کہ انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے معنی پوچھے اگر وہ چیز جو تمہارے دلوں میں ہے ظاہر کر دو یا چھپاؤ اللہ تم سے اس کا حساب لے گا۔ آیت (وَاِنْ تُبْدُوْا مَا فِیٓ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوْهُ یحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ) 2۔ البقرۃ:284) اور اس آیت کے معنی بھی پوچھے آیت (ومن یعمل سوء یجز بہ) یعنی جو شخص برا عمل کرے گا (یعنی خواہ صغیرہ گناہ کرے خواہ کبیرہ گناہ) تو اس کی جزاء (یعنی اس کی سزا دنیا یا آخرت میں) دی جائے گی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ  جیسا کہ میں نے اس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تھا ویسا کسی نے مجھ سے اس مسئلہ کے بارے میں نہیں پوچھا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (میرے دریافت کرنے پر) فرمایا کہ  یہ (یعنی محاسبہ اور سزا جو دونوں آیتوں میں مذکور ہیں) اللہ تعالیٰ کا عتاب ہے جس میں بندہ بخار و رنج (کی تکلیف) کی صورت میں مبتلا ہوتا یہاں تک کہ کوئی بندہ اپنا کچھ مال اپنے کرتہ کے آستین (یا جیب) میں رکھتا ہے اور (پھر وہ مال گم ہو جاتا ہے جسے) وہ نہیں پاتا چنانچہ وہ اس مال کے نہ ملنے سے غمگین ہوتا ہے (تو اس کی وجہ سے اس کے گناہ دور کیے جاتے ہیں اور ہمیشہ یہی سلسلہ جاری رہتا ہے کہ بندہ کسی تکلیف اور رنج میں مبتلا رہتا ہے) یہاں تک کہ وہ بندہ اپنے گناہوں سے ایسا پاک وصاف ہو جاتا ہے جیسا کہ سونا اور چاندی بھٹی سے (آگ میں پڑنے کی وجہ سے) سرخ نکلتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

ان دونوں آیتوں کے معنی پوچھنے کی وجہ یہ تھی کہ پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بندوں سے ان کے دلوں کے خطرات و وسواس اور برے خیالات پر محاسبہ کیا جائے گا اور دوسری آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ بندوں کو ہر برے عمل پر سزا دی جاتی ہے خواہ وہ عمل چھوٹا ہو یا بڑا، تھوڑا ہو یا زیادہ۔ چنانچہ اس سے صحابہ رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے کہ کیا کریں کیونکہ ان سے بچنا ممکن نہیں چنانچہ حضرت امیہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان آیات کا مطلب پوچھا تو انہوں نے ان آیات کی وضاحت کی جس کا حاصل یہ ہے کہ ان آیات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز مؤمنین کو ان کے دل کی تمام باتوں اور ان کے تمام چھوٹے بڑے گناہوں کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرے گا بلکہ آیات میں محاسبہ اور سزا کی مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مؤمنین کو ان سے سرزد ہوئے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں اپنے عتاب میں مبتلا کرتا ہے بایں طور کہ کسی کو بیماری کی تکلیف میں اور کسی کو دوسرے رنج و غم میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ یہ چیزیں ان کے گناہوں کا کفار ہو جائیں۔ عتاب کے معنی یہ ہیں کہ  کوئی شخص اپنے کسی دوست سے اس کی کسی غلط روی اور بے ادبی کی وجہ سے بظاہر اس پر اپنے غصہ کا اظہار کرے مگر دل میں اس کی محبت بدستور باقی رہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بندہ کو جو معمولی ایذاء پہنچتی ہے یا کوئی تکلیف پہنچتی ہے خواہ وہ اس سے کم ہو یا زیادہ ہو، یہ اس کے گناہوں کا ثمرہ ہوتا ہے اور وہ گناہ جنہیں اللہ تعالیٰ (بغیر سزا دئیے) دنیا و آخرت میں بخش دیتا ہے ان گناہوں سے بہت زیادہ ہوتے ہیں جن پر وہ سزا دیتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر) اور از قسم مصیبت جو چیز تمہیں پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں پیدا کی ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ بہت سے (گناہوں یا گناہ گاروں) کو معاف فرما دیتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ تمہیں جو بھی مصیبت و تکلیف اور بیمار وغیرہ پہنچتی ہے وہ سب تمہاری بداعمالیوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ گویا یہاں گنہ گاروں کو مخاطب کیا جا رہا ہے کہ اپنی بداعمالیوں اور غلط کاریوں سے باز آ جاؤ اور نیک راستہ پر چلنے ہی کو اپنی دینی و دنیوی راحت و سکون کا ذریعہ جانو، ہاں جب وہ لوگ کسی مصیبت و تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں جو گناہ گار نہیں ہوتے تو اس سے ان کی آزمائش و امتحان مقصود ہوتا ہے جس کی وجہ سے ان کے درجات میں بلندی ہوتی ہے، اگرچہ خدا کے نیک اور برگزیدہ بندے کسی معمولی سی تکلیف اور پریشانی میں بھی مبتلا ہوتے ہیں اور اپنے عجز و بیچارگی کے احساس کی وجہ سے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ ہماری شامت اعمال کی وجہ سے ہے۔ چنانچہ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک مرتبہ چوہے نے ان کے جوتے کے تسمہ کو کتر لیا تو وہ اتنا متاثر ہوئے کہ روتے جاتے تھے کہ آہ! نامعلوم میں کس گناہ میں مبتلا ہو گیا تھا جس کی سزا میں نے یہ پائی ہے۔

حالت بیماری میں زمانہ تندرستی کے اعمال نیک لکھ دیئے جاتے ہیں

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب بندہ عبادت کے نیک راستہ پر ہوتا ہے اور پھر بیمار ہو جاتا ہے (اور اس عبادت کے کرنے پر قادر نہیں رہتا) تو اس فرشتہ سے جو اس بندہ پر (اس کے نیک اعمال لکھنے پر) متعین ہوتا ہے کہا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں) کہ اس بندہ کے لیے (اس کے نامہ اعمال میں) اس عمل کے مثل لکھو جو وہ تندرستی کی حالت میں کیا کرتا تھا، یہاں تک کہ میں اسے تندرستی عطا کروں، یا اسے (اپنے پاس) بلا لوں۔

حالت بیماری میں زمانہ تندرستی کے اعمال نیک لکھ دیئے جاتے ہیں

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی مسلمان جسمانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ(اس بندہ کی نیکی لکھنے والے) فرشتہ سے فرماتا ہے کہ اس کے نامہ اعمال میں تم وہی نیک عمل لکھتے رہو جو یہ (اس بیماری سے پہلے) کرتا تھا چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ نے اس مسلمان کو شفا دی تو اس کے گناہوں کو دھوتا ہے اور پاک کرتا ہے۔ اور اگر اسے اٹھا لیتا ہے تو اس کو بخشتا ہے اور اس پر رحم فرماتا ہے یہ دونوں روایتیں بغوی نے شرح السنۃ میں نقل کی ہیں۔

راہ خدا میں شہادت کے علاوہ شہادت کی اور اقسام

حضرت جابر ابن عتیک راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اس شہادت کے علاوہ جو خدا کی راہ میں ہو شہادت کی اور سات قسمیں ہیں (١) جو شخص طاعون میں مرے شہید ہے (٢) جو شخص ڈوب کر مر جائے شہید ہے (٣) جو شخص ذات الجنب میں مرے شہید ہے (٤) جو شخص پیٹ کی بیماری (یعنی دست اور استسقاء) میں مر جائے شہید ہے (٥) جو شخص جل کر مر جائے شہید ہے۔ (٦) جو شخص دیوار وغیرہ کے نیچے دب کر مر جائے (٧) اور وہ عورت جو حالت حمل میں یا باکرہ مرے شہید ہے (مالک، ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ حقیقی شہید تو وہی ہے جو راہ خدا میں دین کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہوئے کام آئے اس کے علاوہ سات قسم کے اور شہید ہیں جو حقیقی شہید تو نہیں لیکن حکم میں شہید ہی کے ہیں بلکہ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی قسمیں ہیں جو مختلف احادیث میں مذکور ہیں اور جن کو تفصیل کے ساتھ پچھلے صفحات میں ذکر کیا گیا ہے۔

 ذات الجنب ایک مشہور بیماری ہے اس بیماری سے پہلو کے اندر دل اور سینہ کے قریب پھنسیاں ہو جاتی ہیں اور اس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مریض کا سانس رکتا ہے اور بخار اور کھانسی رہتی ہے۔

سخت مصیبت میں کون لوگ مبتلا ہوتے ہیں

حضرت سعد فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں کون شخص (محنت و مصیبت کی) زیادہ بلاء میں مبتلا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  انبیاء۔ پھر وہ لوگ جو انبیاء سے بہت زیادہ مشابہ ہوں پھر وہ لوگ جو ان سے بہت زیادہ مشابہ ہوں۔ (پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) انسان اپنے دین کے مطابق (مصیبت میں) مبتلا کیا جاتا ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص اپنے دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر کوئی شخص اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کی مصیبت بھی ہلکی ہوتی ہے، (لہٰذا اپنے دین میں سخت شخص اسی طرح ہمیشہ) مصیبت و بلاء میں گرفتار رہتا ہے جس کی وجہ سے اس کی مغفرت ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ زمین کے اوپر اس حال میں چلتا ہے کہ (اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا ۔ (ترمذی، ابن ماجہ، دارمی) امام ترمذی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث حسن صحیح ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ انبیاء کرام مصیبت و بلاء میں سب سے زیادہ مبتلا ہوتے ہیں کیونکہ وہ بلاء و مصیبت میں اسی طرح لذت محسوس کرتے ہیں جس طرح کے عام انسان نعمت و راحت میں لذت محسوس کرتے ہیں، پھر ان کے بعد وہ لوگ مصیبت و سختی میں مبتلا ہوتے ہیں جو ان کے مشابہ ہوتے ہیں یعنی اولیاء اللہ اور صلحاء انہیں بھی مصیبت و تکلیف کی سخت آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے تاکہ وہ بہت زیادہ ثواب کے مستحق ہوں مگر ان کی مصیبت و بلاء کی سختی انبیاء کی مصیبت و بلاء کی سختی سے کم ہوتی ہے اس کے بعد ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو مرتبہ اور درجہ کے اعتبار سے اولیاء اللہ سے کم ہوتے ہیں۔ آخر میں یہ کلیہ بیان فرمایا جا رہا ہے کہ جو شخص اپنے دین پر سختی سے قائم رہتا ہے اور کسی مرحلہ پر بھی اس کے قدم میں لغزش نہیں آتی اس کی مصیبت و بلاء بھی بڑی سکت ہوتی ہے کیونکہ وہ صاحب یقین ہوتا ہے چنانچہ جب وہ اپنی مصیبت کی سختی پر صبر کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے اسی کا اہل ہوں تو اس کی وجہ سے اس کا ایمان کامل ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق مضبوط تر ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے گناہ دور ہوتے ہیں اور اس کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنے دین میں نرم رو ہوتا ہے اس کی بلاء و مصیبت کی سختی بھی کم ہوتی ہے۔ تاکہ وہ بے صبری کا مظاہرہ نہ کر سکے اور اپنے ایمان و تعلق باللہ کے قوی نہ ہونے کی وجہ سے دین کے دائرہ سے نہ نکل جائے۔

اخروی بھلائی موت کی سختی میں ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کی سختی کو دیکھا ہے کسی کے لئے موت کی آسانی کی دعا نہیں کرتی۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں موت کی آسانی کی آرزومند رہا کرتی تھی۔ مگر جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کی سختی دیکھی وہ آرزو باقی نہ رہی بلکہ اب میں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اخروی سعادت و بھلائی موت کی سختی میں ہے موت کی آسانی میں نہیں ہے۔

سکرات الموت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا عمل

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سکرات الموت میں مبتلا تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیالہ میں اپنا ہاتھ ڈبوتے پھر اپنے چہرہ مبارک پر پھیرتے اور یہ فرماتے تھے۔ دعا (اللہم اعنی علی منکرات الموت او سکرات الموت)۔ اے اللہ موت کی سخت دور کرنے کے ساتھ میری مدد فرما۔  موت کی سختی کے بجائے موت کی شدت فرماتے۔

 

تشریح

 

سکرات الموت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے ہاتھ کو پانی میں تر کر کے چہرہ مبارک پر اس لئے پھیرتے تھے تاکہ موت کی سختی اور شدت کی وجہ سے جو حرارت اور گرمی پیدا ہو گئی تھی اس میں تخفیف ہو جائے۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی موت کی سختی اور شدت کے بارے میں علماء نے کئی وجہیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک توجیہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سکرات الموت کی یہ کیفیت اس لئے طاری ہوئی تاکہ امت کے لوگ اس کے سبب سے اپنی موت کے بارے میں زیادہ پریشان اور ہراساں نہ ہوں جب امتی یہ دیکھیں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس طرح جسد مبارک سے جدائی حاصل کی تو وہ اپنے بارے میں صبر کے دامن کو پکڑے رہیں گے جس کی وجہ سے ان کی جان کنی میں آسانی ہو گی۔

دنیا کی سزا آخرت کی سزا سے بہتر ہے

حضرت انس رضی اللہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندہ کی بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے اس کے گناہوں کی سزا جلد ہی دنیا میں دے دیتا ہے اور جب اپنے کسی بندہ کی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے گناہوں کی سزا کو روکے رکھتا ہے۔

 

تشریح

 

دنیا کی سزا بہر صورت آخرت کی سزا سے بہتر ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ اپنے ان نیک بندوں کو جو کسی گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں دنیا ہی میں مصیبت و تکلیف یا بیماری وغیرہ کی صورت میں سزا دیتا ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ دنیا کا عذاب ہلکا ہوتا ہے بایں طور کہ دنیا کی مدت کم ہوتی ہے جو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتی ہے۔ ہاں وہ لوگ جو خدا کی مسلسل نافرمانی کی وجہ سے خدا کا غضب مول لیتے ہیں اور آخرت کی بدبختی میں مبتلا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دنیا میں سزا نہیں دیتا بلکہ ان کی رسی دراز کئے جاتا ہے تاکہ انہیں آخرت کے عذاب میں مبتلا کیا جائے جو دنیا کے عذاب سے کہیں دردناک اور شدید ہو گا۔

بلا و مصیبت میں راضی برضا رہنا چاہئے

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بڑی مصیبتوں کے بدلہ بڑا اجر ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو پسند کرتا ہے تو اسے (مصیبتوں میں) مبتلا کر دیتا ہے چنانچہ جو (مصائب و بلاء میں) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ تعالیٰ کی) رضا ہے اور جو شخص (مصیبت کے ابتلاء سے) ناراض رہا تو اس کے لیے (اللہ کی) ناراضگی ہے (ترمذی و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ جب کسی شخص سے خوش ہوتا ہے تو اسے مصیبت و بلاء میں مبتلا کر دیتا ہے اسی طرح جب کسی شخص سے ناراض و ناخوش ہوتا ہے تو اسے بھی مصیبت میں مبتلا کرتا ہے اگرچہ اس دوسرے جزو کو حدیث میں بظاہر ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن حدیث کے الفاظ فمن رضی الخ سے یہ جزو بھی مفہوم ہوتا ہے۔ گویا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بندہ کی خوشی و ناخوشی حق تعالیٰ کی خوشی و ناخوشی کی علامت ہے جو شخص مصیبت و بلاء میں راضی برضا رہتا ہے وہ خدا کا پسندیدہ و محبوب ہوتا ہے بایں طور کہ خدا بھی اس سے راضی و خوش رہتا ہے اور جو شخص مصیبت و بلاء کی سختیوں پر زبان شکایت دراز کرتا اور ناراضگی و ناخوشی کا اظہار کرتا ہے وہ راندہ درگاہ الٰہی ہوتا ہے بایں طور کہ خدا اس سے خوش و راضی نہیں رہتا۔ چنانچہ منقول ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں یہ سوال کرتے تھے کہ کس طرح معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کس بندہ سے خوش و راضی ہے اور کس بندہ سے ناخوش و ناراض ہے؟ پھر یہ جواب دیتے تھے کہ اگر بندہ خدا سے خوش و راضی ہے تو سمجھا جائے کہ خدا اس بندہ سے خوش و راضی ہے اور اگر بندہ خدا سے ناخوش و ناراض ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہو گا کہ خدا اس سے ناراض و ناخوش ہے۔

اہل ایمان دنیا میں ہمیشہ مصیبت میں مبتلا رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ آخرت کی دائمی راحت پلاتے ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مؤمن مرد یا مؤمن عورت کی جان، اس کے مال اور اس کی اولاد کو ہمیشہ مصیبت و بلاء پہنچتی رہتی ہے یہاں تک کہ (جب) وہ (مرنے کے بعد) اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرتا ہے تو اس پر (یعنی اس کے نامہ اعمال میں) کوئی گناہ نہیں ہوتا (کیونکہ مصیبت و بلاء کی وجہ سے اس کے تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں) امام ترمذی رحمۃ اللہ نے اس روایت کو نقل کیا اور امام مالک نے رحمۃ اللہ نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔ نیز امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

ابتلاء و مصیبت سعادت کے اس مرتبہ پر پہنچا دیتی ہے جو اعمال سے حاصل نہیں ہوتا

حضرت محمد بن خالد سلمی اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا (یعنی اپنے والد مکرم) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بندہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی جانب سے (جنت میں) جو عظیم درجہ مقدر ہوتا ہے اور وہ اسے اپنے عمل کے ذریعہ حاصل نہیں کر سکتا تو اللہ تعالیٰ اس کے بعد یا اس کے مال یا اس کی اولاد کو (مصییبت میں) مبتلا کر دیتا ہے اور پھر اسے صبر کی توفیق عطا فرماتا ہے یہاں تک کہ اسے اس درجہ تک پہنچا دیتا ہے جو اس کے لے اللہ تعالیٰ کی جانب سے مقدر تھا  (احمد، ابوداؤد)

 

 

تشریح

 

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ بندہ مصیبت و بلا پر صبر کرنے کی وجہ سے اخروی سعادت کے اس عظیم درجہ و مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جہاں اپنی عبادت و اطاعت کے ذریعہ سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔

دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے اور کافر کے لیے عیش کدہ

حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ابن آدم اس حال میں پیدا کیا گیا ہے کہ اس کے پہلو میں (یعنی اس کے قریب) ننانوے مہلک بلائیں ہیں اگر وہ بلائیں اسے نہیں پہنچتیں تو بڑھاپے میں مبتلا ہوتا ہے یہاں تک کہ مر جاتا ہے ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ انسان جب عدم سے وجود میں آتا ہے تو اس کے چاروں طرف بلاؤں کا ایک جال سا پھیلا ہوا ہوتا ہے وہ ایسی ایسی بلاؤں اور مصیبتوں میں گھرا ہوا ہوتا ہے جن سے خلاصی نہیں ہوتی اور اگر اتفاقا کوئی شخص ان بلاؤں اور مصیبتوں سے نجات پائے رہتا ہے تو آخر میں بڑھاپے کے جال میں پھنس جاتا ہے اور بڑھاپا بھی ایسا جو  درد بے دوا  اور  بلائے بے انتہا  ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ دنیا مومن کے لیے ایک قید کانہ اور کافر کے لیے عیش کدہ ہے۔ لہٰذا مسلمان کو لازم آتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر مصیبت و بلاء کے موقع پر صبر کے دامن کو ہاتھ سے پکڑے رہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے اس پر راضی اور صابر رہیں کہ اخروی فلاح و سعادت کی یہی ضمانت ہے۔

 ایک حدیث قدسی میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے جو بندہ میری اتاری ہوئی مصیبت و بلاء پر صبر نہ کرے میری دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا نہ کرے اور میرے فیصلہ سے راضی نہ رہے تو وہ میرے علاوہ کوئی دوسرا رب ڈھونڈ لے

 سوچئے کہ ایسے شخص کے لیے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کتنی شدید ہے۔ جو صبر و شکر کی راہ پر گامزن نہ ہو اور اللہ کے فیصلہ پر راضی نہ رہے۔ دعا (اللہم احفظنا منہ و وفقنا للصبر والشکر والرضاء۔)

دنیا میں راحت و سکون سے رہنے والوں کی قیامت کے دن تمنا

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن جب مبتلائے مصیبت و بلاء بہت زیادہ اجر و ثواب سے نوازے جائیں گے تو اہل عافیت (یعنی وہ لوگ جو دنیا میں مصیبت و بلاؤں سے محفوظ رہے اور ان کی زندگی بڑے عیش و عشرت میں گزری) یہ تمنا کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کے بدن کی کھال قینچیوں سے کاٹی جاتی (تاکہ جس طرح مبتلائے مصیبت آج اتنے زیادہ اجر و ثواب سے نوازے جا رہے ہیں اسی طرح ہمیں بھی بہت زیادہ ثواب ملتا) امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

گناہوں کا کفارہ بیماری

حضرت عامر رامی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ایک مرتبہ) بیماریوں کا ذکر کیا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  مؤمن جب کسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ اسے اس بیماری سے نجات دیتا ہے تو وہ بیماری (نہ صرف یہ کہ) اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے (بلکہ) زمانہ آئندہ کے لئے باعث نصیحت (بھی) ہوتی ہے۔ یعنی بیماری اسے متنبہ کرتی ہے۔ (چنانچہ وہ آئندہ گناہوں سے بچتا ہے) اور جب منافق بیمار ہوتا ہے اور پھر اسے بیماری سے نجات دی جاتی ہے تو اس کی مثال اس اونٹ کی سی ہوتی ہے جسے اس کے مالک نے باندھا اور پھر چھوڑ دیا اور اونٹ نے یہ نہ جانا کہ مالک نے اسے کیوں باندھا تھا اور کیوں چھوڑ دیا؟ (یہ سن کر) ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! بیماری کیا چیز ہے؟ میں تو کبھی بھی بیمار نہیں ہوا! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا! ہمارے پاس سے اٹھ کھڑے ہو! تم ہم میں سے نہیں ہو!

 

تشریح

 

مؤمن بیماری سے صحت پانے کے بعد متنبہ ہو جاتا ہے چنانچہ وہ سمجھتا ہے کہ میں اپنے گناہوں کی وجہ سے بیماری میں مبتلا ہوا تھا اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر نادم شرمسار ہوتا ہے اور توبہ کرتا ہے بلکہ آئندہ گناہوں سے بھی بچتا ہے اس کے برعکس منافق کا حال یہ ہے کہ جب بیماری سے صحت یاب ہوتا ہے تو اس کی مثال بالکل اس اونٹ کی سی ہوتی ہے کہ جسے اگر اس کا مالک باندھ دے تو یہ نہ جانے کہ مجھے باندھا کیوں ہے اور اگر چھوڑ دے تو یہ نہ سمجھے کہ مجھے چھوڑا کیوں ہے۔ چنانچہ منافق بیماری کی وجہ سے متنبہ نہیں ہوتا نہ تو وہ نصیحت و عبرت پکڑتا ہے اور نہ گناہوں پر نادم و شرمسار ہو کر توبہ کرتا ہے اسی لئے اس کی بیماری نہ تو اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے اور زمانہ آئندہ میں اس کے لیے باعث نصیحت و عبرت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے بچ سکے رضی اللہ (فاولئک کالانعام بل ھم اضل اولئک ھم الغافلون)۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی تم ہم میں سے نہیں ہو کا مطلب یہ ہے کہ تم ہمارے اہل طریقہ میں سے نہیں ہو، کیونکہ جس طرح ہم بیماری اور بلاؤں میں مبتلا ہوئے ہیں اس طرح تم مبتلا نہیں ہوئے ہو۔

عیادت کے وقت مریض کی دلداری کرو

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم مریض کے پاس (اس کا حال پوچھنے کے لیے) جاؤ تو اس کی زندگی کے بارے میں اس کا غم دور کرو (یعنی تسلی و تشفی دلاؤ کہ فکر و غم نہ کرو تم جلد ہی صحت یاب ہو جاؤ گے اور تمہاری عمر دراز ہو گی) اس لیے کہ یہ (تسلی و تشفی اگرچہ) کسی چیز کو (یعنی مقدر کے لکھے کو) ٹال نہیں سکتی (مگر) مریض کا دل (ضرور) خوش ہوتا ہے (ترمذی ابن ماجہ) امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

 

تشریح

 

بعض علماء نے لکھا ہے کہ جب وقت نزع قریب ہو تو مریض کے لیے مستحب ہے کہ وہ مسواک کرے چنانچہ صحیح احادیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انتقال کے وقت مسواک فرمائی تھی اور اس کی حکمت بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس سے رواح کا نکلنا آسان و سہل ہو جاتا ہے اسی طرح اس وقت فرشتوں کی خاطر خوشبو لگانا مستحب ہے، نیز پاکیزہ کپڑے پہننا، نماز پڑھنا اور نہانا بھی مستحب ہے۔

پیٹ کی بیماری میں مرنے والا قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا

حضرت سلیمان ابن صرد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص پیٹ کی بیماری (مثلاً دست و استسقاء وغیرہ) میں مر گیا تو اسے اس کی قبر کے عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا ۔ (احمد و ترمذی) امام ترمذی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

پیٹ کے مرض میں مرنے والے کے لیے سعادت اس لیے ہے کہ اس مرض کی سختی کی وجہ سے گناہ دور ہو جاتے ہیں اور یہ شہید مرتا ہے جیسا کہ گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے اور شہید کے بارے میں صحیح مسلم میں یہ حدیث منقول ہے کہ  شہید کے تمام گناہ علاوہ دین(یعنی بندوں کے حقوق) کے بخش دئیے جاتے ہیں۔

غیر مسلم کی عیادت

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا تھا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب وہ بیمار ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے پاس تشریف لے گئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی عیادت کی اور اس کے سر کے قریب بیٹھ گئے اور اس سے فرمایا کہ  تم مسلمان ہو جاؤ لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے قریب ہی بیٹھا ہوا تھا اس کے باپ نے کہا  ابوالقاسم (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا حکم مانو۔ چنانچہ وہ لڑکا مشرف بہ اسلام ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے ہوئے باہر نکلے کہ  حمد و ثنا اس خدا کی جس نے اس لڑکے کو (اسلام کے ذریعہ) آگ سے نجات دی۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

حدیث کے الفاظ فقعد عند راسہ سے معلوم ہوا کہ عیادت کے وقت مریض کے سر کے پاس بیٹھنا مستحب ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کافر ذمی سے خدمت لینی اور اگر کوئی کافر ذمی بیمار ہو تو اس کی عیادت کے لیے جانا جائز ہے۔

 کتاب خزانہ میں لکھا ہے کہ یہود کی عیادت کے لیے جانے میں کئی مضائقہ نہیں ہے۔ ہاں مجوسیوں کی عیادت کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں۔ اسی طرح فاسق کی عیادت کے بارے میں بھی اگرچہ علماء نے اختلاف کیا ہے لیکن صحیح تر یہ ہے کہ فاسق کی عیادت کے لیے جانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 یہ حدیث نابالغ کے اسلام قبول کرنے کے بارے میں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی تائید کرتی ہے۔ کیونکہ حضرت امام موصوف فرماتے ہیں کہ نابالغ کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے۔

 علماء نے لکھا ہے کہ یہاں حدیث میں جس یہودی لڑکے کا ذکر کیا جا رہا ہے اس کا نام عبدالقدوس ہے۔

عیادت کے لیے پیادہ پا جانا افضل ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی شخص بیمار کی عیادت کرتا ہے تو پکارنے والا (یعنی فرشتہ) آسمان سے پکار کر کہتا ہے کہ  خوشی ہو تمہیں دنیا و آخرت میں اچھا ہو چلانا تیرا (آخرت میں یا دنیا میں) اور حاصل ہو تجھے بہشت کا ایک بڑا درجہ و مرتبہ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اصل مقصد تو عیادت کے لیے مریض کے پاس پہنچنا ہے۔ خواہ کسی بھی طرح اور کسی بھی ذریعہ سے پہنچا جائے لیکن علماء لکھتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ عیادت کے لیے پیادہ پا جانا افضل ہے۔

مریض کے حال کی اطلاع دینے کا طریقہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ اس وقت جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مرض الموت میں مبتلا تھے حضرت علی کرم اللہ وجہ (جب) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سے اٹھ کر باہر تشریف لائے تو لوگوں نے ان سے پوچھا کہ  ابوالحسن(یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت تھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر صبح کیسی گزری؟ انہوں نے فرمایا  خدا کا شکر ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیماری سے اچھے ہونے والے کی طرح صبح گزاری (یعنی شکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آج اچھے ہیں) (بخاری)

 

تشریح

 

جب لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحت کے بارے میں پوچھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان الفاظ کے ذریعہ جواب دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قریب بصحت ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ جواب یا تو ان کے اپنے گمان کے مطابق تھا کہ وہ یہ ہی سمجھ رہے ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جلد ہی صحت یاب ہونے والے ہیں یا پھر یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیماری کی شدت کے احساس اور صحت سے مایوسی کے باوجود یہ جواب نیک فال کے طور پر دیا۔

 چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ جب کسی عیادت کرنے والے تیمار دار سے مریض کا حال پوچھا جائے تو اگرچہ بیمار کی حالت مایوس کن ہو مگر اس بارے میں ادب اور طریقہ یہی ہے کہ فال نیک کے طور پر اس طرح سے امید افزاء اور خوش کن جواب دینا چاہئے۔

علاج توکل کے منافی نہیں

حضرت عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک جنتی عورت نہ دکھلاؤں؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں!(ضرور دکھلائیے) انہوں نے فرمایا کہ  یہ کالی عورت (پھر فرمایا کہ ایک مرتبہ) یہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی کہ یا رسول اللہ! میں مرگی کے مرض میں مبتلا ہوں (جب مرگی اٹھتی ہے) تو میں ڈرتی ہوں کہ کہیں حالت بے خودی میں) میرا ستر نہ کھل جائے لہٰذا آپ اللہ تعالیٰ سے میرے لیے دعا کیجئے (کہ میری بیماری جاتی رہے) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اگر چاہو تو صبر کرو تاکہ تمہیں جنت ملے اور اگر چاہو تو میں دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں شفا دے۔ عورت نے عرض کیا کہ میں صبر ہی کروں گی اور پھر کہنے لگی کہ  مگر میں ستر کھل جانے سے ڈرتی ہوں، آپ اللہ سے بس یہ دعا کر دیجئے کہ (مرض کی شدت اور حالت بیخودی میں) میرا ستر نہ کھلے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے لیے دعا فرمائی (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

اس عورت کا نام سعیرہ یا سقیرہ اور یا سیکرہ تھا، ایک روایت کے مطابق یہ عورت ام المؤمنین حضرت حدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی کنگھی کرنے والی تھی۔

 اس حدیث سے اس طرف اشارہ ہے کہ مصیبت و بلاء پر صبر کرنے اور رضا بتقدیر رہنے کے پیش نظر دوا اور دعا کو ترک کر دینا جائز ہے۔ بلکہ حدیث کا ظاہری مفہوم تو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صبر و رضا کے ساتھ ہمیشہ مرض میں مبتلا رہنا صحت مند اور عافیت میں رہنے سے بہتر ہے لیکن بہ نسبت بعض افراد کے یعنی یہ اس شخص کے لیے افضل ہے جس کا مرض مخلوق خدا کی نفع رسانی کے تعطل کا باعث نہ بنے۔ نیز حدیث کا ظاہر مفہوم اس بات پر بھی دلالت کرتا ہے کہ علاج و معالجہ کا ترک کر دینا افضل ہے اگرچہ علاج و معالجہ کرنا ابوداؤد کی حدیث کے مطابق سنت ہے جس میں مروی ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ  کیا ہم (بیماری میں) دوا کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں دوا کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کوئی مرض ایسا پیدا نہیں کیا جس کی دوا بھی پیدا نہ کی ہو۔ علاوہ بڑھاپے کے۔ چنانچہ علماء لکھتے ہیں علاج معالجہ توکل کے منافی نہیں کیونکہ علاج و معالجہ صرف اسباب کے درجہ میں ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خود بھی علاج و معالجہ کو اختیار فرمایا تھا حالانکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متوکلین کے سردار ہیں لیکن اس کے باوجود از راہ توکل علاج و معالجہ ترک کرنا جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ترک فرمایا تھا، باعث فضیلت ہے۔

مبتلائے مرض ہو کر مرنا بہتر ہے

حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ اقدس میں ایک شخص کو (اچانک) موت نے آ دبوچا۔ ایک دوسرے شخص نے کہا کہ اسے موت مبارک ہو، اس طرح مرا کہ کسی مرض میں مبتلا نہ ہوا! یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  کہ افسوس ہے تم پر تمہیں کیا معلوم؟ (یعنی بغیر مرض و بیماری کے اچانک مر جانے کو اچھا نہ سمجھو) اگر اللہ تعالیٰ اسے مرض مرض کے ساتھ موت دیتا تو (مرض کے بعد بدلہ میں) اس کی خطائیں دور کر دیتا  (یہ روایت امام مالک نے بطریق ارسال نقل کی ہے)

صابر مریض کی فضیلت

شداد بن اوس اور حضرت صنابحی رضی اللہ عنہما کے بارے میں مروی ہے کہ یہ دونوں ایک بیمار شخص کے پاس گئے اور اس کی عیادت کی، چنانچہ دونوں نے مریض سے پوچھا کہ تم نے صبح کیسی گزاری؟ مریض نے کہا کہ میں نے (رضا و تسلیم اور صبر و شکر کی) نعمت کے ساتھ صبح کی (یعنی مرض و تکلیف کی وجہ سے میں کبیدہ خاطر نہیں ہوں بلکہ رضا بتقدیر اور صبر کے دامن کو پکڑے ہوئے ہوں جس کی وجہ سے میرا دل خوش و مطمئن ہے) حضرت شداد نے فرمایا کہ  گناہوں کے جھڑنے اور خطاؤں کے دور ہونے کی بشارت سے خوش ہو، کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ عز و جل فرماتا ہے کہ جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندہ مؤمن کو (بیماری و مصیبت میں) مبتلا کرتا ہوں اور وہ بندہ اس ابتلاء پر (دل گیر و ناخوش نہیں ہوتا بلکہ) میری تعریف کرتا ہے تو وہ اپنے بستر علالت سے ایسا (گناہوں سے پاک صاف ہو کر) اٹھتا ہے جیسا کہ وہ اس دن گناہوں سے پاک صاف تھا جس روز اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ نیز پروردگار بزرگ و برتر (فرشتوں سے) فرماتا ہے کہ  میں نے اپنے بندہ کو قید میں ڈالا ہے اور اس آزمائش میں مبتلا کیا تھا، لہٰذا تم (اس کے نامہ اعمال) وہ (نیک) اعمال لکھنا جاری رکھو جو تم اس کے زمانہ تندرستی میں لکھنا جاری رکھتے تھے۔ (احمد)

مصیبت گناہوں کی زیادتی کو ختم کرتی ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب (کسی) بندہ کے گناہ بہت زیادہ ہو جاتے ہیں اور اس کے اعمال میں ایسا کوئی نیک عمل نہیں ہوتا جو ان کے گناہوں کو دور کرے تو اللہ تعالیٰ اسے غم و حزن میں مبتلا کر دیتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ اس بندہ کے گناہوں کو دور کر دے۔ (احمد)

 

تشریح

 

ایک روایت میں جسے طبرانی اور حاکم نے نقل کیا ہے۔ یہ منقول ہے کہ  اللہ تعالیٰ ہر قلب غمگین کو دوست رکھتا ہے۔

عیادت کرنے والے کی سعادت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کوئی شخص کسی بیمار کے پاس جاتا ہے اور اس کی عیادت کرتا ہے تو جب تک وہ بیٹھتا نہیں دریائے رحمت میں داخل رہتا ہے اور جب بیمار کے پاس بیٹھتا ہے تو دریائے رحمت میں ڈوب جاتا ہے۔ (احمد، مالک)

بخار اور اس کا علاج ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشنی میں

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی شخص بخار میں مبتلا ہو اور وہ بخار (چونکہ) آگ کا ایک ٹکڑا ہے اس لئے اسے پانی سے بجھانا چاہیے لہٰذا اس شخص کو (جو بخار میں مبتلا ہے) چاہئے کہ وہ جاری نہر میں اترے اور پانی کے بہاؤ کی طرف کھڑا ہو اور یہ دعا پڑھے دعا (بسم اللہ اللہ اشف عبد و صدق رسولک)۔ شفا طلب کرتا ہوں میں خدا کے بابرکت نام سے اے اللہ ! اپنے بندہ کو شفا دے اور اپنے رسول کو (یعنی ان کے اس قول کو سچا کر) بایں طور کہ مجھے شفا دے۔ اور یہ عمل نماز فجر کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کرے اور تین دن تک پانی میں غوطے لگائے، اگر تین دن میں اچھا نہ ہو تو پھر (یہ عمل) پانچ دن تک کرے اور اگر پانچ دن میں بھی اچھا نہ ہو تو پھر سات دن تک (یہ عمل) کرے اور اگر سات دن میں بھی اچھا نہ تو پھر نو دن تک (یہ عمل) کرے اور اللہ جل شانہ کے حکم سے بخار نو دن سے تجاوز نہیں کرے گا (یعنی اس عمل کے بعد بخار جاتا رہے گا) امام ترمذی نے یہ روایت نقل کی ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

لفظ و لینغمس(غوطے لگائے) دراصل لفظ فلیستنقع(نہر میں اترے) کا بیان ہے، لہٰذا اس عبارت کے یہ معنی بھی مراد لئے جا سکتے ہیں کہ تین غوطے تین دنوں میں (یعنی ایک ایک غوطہ روزانہ) لگائے جائیں اور یہ معنی بھی متحمل ہو سکتے ہیں کہ ہر روز تین تین غوطے لگائے جائیں۔

 

 حدیث بالا میں بخار کے لیے جو علاج تجویز کیا جا رہا ہے وہ علاج مخصوص ہے یعنی ہر بخار میں یہ علاج کار گر نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق صفراوی بخار کی بعض اقسام سے ہے جس میں اہل حجاز مبتلا ہوتے ہیں، چونکہ بعض بخار میں پانی کا استعمال نہ صرف یہ کہ مضر بلکہ باعث ہلاکت ہوتا ہے اس لیے ہر بخا میں علاج کا یہ طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہئے ہاں اگر کسی بخار میں طبیب حاذق اور معتمد معالج اجازت دے دے تو پھر اس پر بلا جھجک عمل کرنا چاہئے۔

 اس سلسلہ میں خطابی رحمۃ اللہ نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کسی ایسے بخار میں مبتلا ہوا جس میں پانی کا استعمال مضر تھا مگر اس نے ناسمجھی میں پانی میں غوطے لگائے جس کا اثر یہ ہوا کہ حرارت بدن میں رک گئی چنانچہ وہ اتنا بیمار ہوا کہ ہلاکت کے قریب پہنچ گیا۔ جب کسی نہ کسی طرح اچھا ہوا تو ظالم نے یہ تو نہ سمجھا کہ حدیث کے معنی نہ سمجھنے کی وجہ سے خود مصیبت میں پھنسا البتہ نفس حدیث کے بارے میں اول قول بکنے لگا حالانکہ اگر وہ بے وقوفی اور ناسمجھی کا ثبوت نہ دیتا بلکہ یہ جانتا کہ حدیث کا یہ حکم ہر نوع کے بخار کے لیے نہیں ہے بلکہ بعض مخصوص بخار کے لیے ہے تو مصیبت میں کیوں پھنستا۔

بخار کو برا نہ کہو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بخار کا ذکر ہوا تو ایک شخص اسے برا کہنے لگا (یہ سن کر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  کہ بخار کو برا نہ کہو کیونکہ بخار گناہوں کو اسی طرح دور کرتا ہے جس طرح آگ لوہے کے میل کو دور کر دیتی ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جب بخار گناہوں کو دور کر دیتا ہے تو عقل و دانش کا تقاضہ یہ ہونا چاہئے کہ بخار کے معاملہ میں شکر گزاری کی راہ پر لگا جائے نہ کہ ناشکری کی جائے چنانچہ مشائخ رحمہم اللہ نے لکھا ہے کہ بلا و مصیبت میں بھی اسی طرح شکر خداوندی کی جائے جس طرح نعمت و راحت میں خدا کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ کیونکہ خداوند قدوس کسی پر جب کوئی بلا نازل فرماتا ہے تو اس بلاء میں بھی اس کی کوئی نہ کوئی رحمت ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔

مؤمن کامل بخار میں کیوں مبتلا ہوتا ہے؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک بیمار کی عیادت کی (جب بخار میں مبتلا تھا) اور اس سے فرمایا کہ تمہیں خوشخبری ہو! کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بخار میری آگ ہے۔ جسے میں اپنے بندہ پر اس لیے مسلط کرتا ہوں تاکہ وہ (بخار) اس کے حق میں قیامت کے دن دوزخ کی آگ کا بدلہ اور حصہ ہو جائے۔ (احمد، ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے آیت (وان منکم الا واردھا) یعنی تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو (قیامت کے دن) دوزخ میں داخل نہ ہو۔ لہٰذا بندہ مؤمن کو اس داخل ہونے کے بدلے دنیا میں بخار میں مبتلا کیا جاتا ہے اس طرح وہ بخار کی وجہ سے عذاب سے جو دوزخ میں داخل ہونے کی وجہ سے ہوتا بچا رہے گا اگرچہ داخل ہونا بایں طور سب کے لیے ہو گا کہ پل صراط دوزخ کے اوپر قائم کیا جائے اور اس کے اوپر سے سب ہی گزریں گے۔

 مذکورہ بالا تشریح کے پیش نظر حدیث میں لفظ مؤمن کے ساتھ  کامل کی قید لگا دینی چاہئے اس کا مطلب یہ ہو گا کہ حدیث کے مفہوم کا تعلق  مؤمن کامل سے ہے۔ کیونکہ بعض گناہگار مؤمن بھی آتش دوزخ کے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے اس طرح وہ مؤمن جو اپنے گناہوں کی وجہ سے دوزخ کے عذاب میں مبتلا کیے جائیں گے۔ حدیث کے مفہوم و مصداق سے خارج ہو جائیں گے۔

فقر و بیماری گناہوں کی بخشش کا ذریعہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ بزرگ و برتر فرماتے ہیں کہ قسم ہے اپنی عزت و بزرگی کی جس بندہ کو میں بخشنا چاہتا ہوں اسے میں دنیا سے اس وقت تک نہیں اٹھاؤں گاجب تک کہ اس کے بدن کو بیماری میں مبتلا کر کے اور اس کے رزق کی تنگی میں ڈال کر اس کے ہر گناہ کا بدلہ جو اس کے ذمہ ہو نہ دے لوں گا  (رزین)

 

تشریح

 

اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ جس بندہ کو میں آخرت کی ابدی سعادت سے نوازنا چاہتا ہوں اس کے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں بایں طور دے دیتا ہوں کہ کبھی تو اسے بیماری میں مبتلا کر دیتا ہوں کبھی مال و رزق کی تنگی اس پر مسلط کر دیتا ہوں۔ پس وہ بخشا جاتا ہے اور عذاب آخرت سے نجات پاتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ فقر و بیماری اور بلا و مصیبت گناہوں کو دور کرتی ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ

حضرت شقیق فرماتے ہیں کہ (جب) حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے (تو ہم لوگ آپ کی عیادت کو گئے، وہ ہمارے سامنے رونے لگے لوگوں نے (یہ گمان کر کے کہ وہ بیماری کی تکلیف اور اپنی زندگی کی محبت کی وجہ سے رو رہے ہیں) اس پر ناگواری کا اظہار کیا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں بیماری کی وجہ سے نہیں رو رہا ہوں کیونکہ میں نے تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بیماری گناہوں کے دور ہونے کا سبب ہے میں تو صرف اس لئے رو رہا ہوں کہ میں سستی (یعنی بڑھاپے) کی حالت میں بیماری میں مبتلا ہوا قوت (یعنی جوانی) کی حالت میں بیماری میں مبتلا کیوں نہیں ہوا؟ کیونکہ جب بندہ بیمار ہوتا ہے تو اس کے (ایام بیماری میں) وہی اعمال لکھے جاتے جو اس کے بیمار ہونے سے پہلے لکھے جاتے تھے اور اب بیماری نے اسے اس عمل سے باز رکھا ۔ (رزین)

 

تشریح

 

جوانی کے ایام میں بحالت صحت و تندرستی نیک عمل بہت زیادہ ہوتے ہیں اس لئے اس بشارت کے مطابق کہ  اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حالت بیماری میں بیمار بندہ کے نامہ اعمال میں فرشتوں کو ان اعمال کا ثواب لکھنے کا حکم دیتا ہے جنہیں وہ حالت تندرستی میں کیا کرتا تھا اور اب بیماری کی وجہ سے نہیں کر سکتا۔ ایام جوانی کی بیماری میں بھی کم اعمال کا ثواب لکھا جاتا ہے اس لئے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہی فرماتے ہیں کہ کاش میں ایام جوانی میں بیمار ہوتا تاکہ میرے نامہ اعمال میں زیادہ اعمال کا ثواب لکھا جاتا۔

عیادت کب کی جائے

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین دن کے بعد مریض کی عیادت کرتے تھے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ بیمار ہونے کے تین دن بعد مریض کی عیادت کے لیے آپ تشریف لے جاتے تھے اس سلسلہ میں جہاں تک کہ مسئلہ کا تعلق ہے تو جمہور علماء اس بات پر متفق ہیں عیادت کسی زمانہ کے ساتھ مقید نہیں ہے جب چاہے کرے خواہ پہلے کرے خواہ بعد میں۔ چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ یہ حدیث ضعیف ہے بلکہ بعض حضرات نے تو اسے حدیث موضوع تک قرار دیا ہے۔

مریض سے اپنے لئے دعا کراؤ

حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم بیمار کے پاس جاؤ تو اس سے کہو کہ تمہارے لئے دعا کرے کیونکہ اس کی دعا فرشتوں کی دعا کی طرح ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مریض کی دعا کو فرشتوں کی دعا کے مانند قرار دیا گیا ہے کیونکہ بیمار کی تو ملائکہ کے ساتھ بہت مشابہت ہوتی ہے بایں طور کہ جس طرح فرشتے گناہوں سے پاک و صاف رہتے ہیں، ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی یاد میں مصروف رہتے ہیں اور ہمہ وقت بارگاہ رب العزت میں دعا مناجات اور التجا کرتے رہتے ہیں، اسی طرح بیمار بھی گناہوں سے بچتا ہے، ہر وقت اللہ ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے اور ہمہ وقت دعا درازی اور التجا میں مصروف رہتا ہے۔

مریض کے پاس غل غپاڑہ نہ مچانا چاہئے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عیادت کے وقت مریض کے پاس کم بیٹھنا اور شور و غوغا نہ کرنا سنت ہے۔ نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت جب کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں شور و غوغا اور اختلاف زیادہ ہوا تو فرمایا کہ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔ (رزین)

 

تشریح

 

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ارشاد سے جہاں یہ معلوم ہوا کہ عیادت کے آداب میں سے ایک ادب یہ ہے کہ مریض کے پاس عیادت کے وقت صرف اتنا عرصہ کے لیے بیٹھنا چاہئے جس میں بیمار کی مزاج پرسی اور اس کے حالات و کیفیات کا علم ہو جائے۔ گویا اس کے پاس خواہ مخواہ کے لیے زیادہ دیر تک بیٹھ کر بیمار کے مزاج پر بوجھ نہ بننا چاہئے وہیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بیمار کے پاس بیٹھ کر غل غپاڑہ مچانا اور شور و غوغا کرنا مکروہ ہے۔

 روایت کے دوسرے جزو کی تفصیل حضرت ابن عباس ہی کی روایت کی روشنی میں جو بخاروی و مسلم میں مروی ہے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی زندگی کے آخری ایام میں جب مرض میں مبتلا ہوئے اور وصال کا وقت قریب آیا تو اس موقع پر جب کہ آپ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے جن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ دوات قلم لاؤ میں تمہارے لئے ایک وصیت نامہ لکھ دیتا ہوں تاکہ تم میرے بعد گمراہی میں مبتلا نہ ہو سکو! (یہ سن کر حاضرین کو مخاطب کر کے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ (معلوم ہوتا ہے کہ) اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر شدت مرض غالب ہے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وصیت نامہ لکھنے کے لیے فرما رہے ہیں ورنہ تو وصیت نامہ کی کیا ضرورت ہے کیونکہ تمہارے پاس قرآن موجود ہے اور کتاب اللہ تمہارے لئے کافی ہے۔ اس کے بعد اہل بیت اور دوسرے لوگوں نے بھی اپنی اپنی بات کہنی شروع کر دی کوئی تو کہتا تھا کہ قلم و دوات لا دینا چاہئے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تمہارے لئے وصیت نامہ لکھ دیں بعض لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید کر رہے تھے۔ غرض اس معاملہ میں جب بحث مباحثہ زیادہ بڑھا اور لوگوں کے اظہار رائے نے شور و غوغا کی صورت اختیار کر لی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم سب لوگ میرے پاس سے اٹھ کھڑے ہو۔

 اس صورت واقعہ سے روافض یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وصیت نامہ میں خلافت کے بارے میں کچھ لکھنا چاہتے تھے (مثلاً یہ کہ میرے بعد خلیفہ اول علی رضی اللہ عنہ ہوں) مگر حضرت عمر نے آپ کو اس سے روک دیا۔

 علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ روافض کا یہ نتیجہ اخذ کرنا صحیح نہیں کیونکہ اس واقعہ کی حقیقت تو یہ تھی کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب وصیت نامہ لکھنے کا رادہ فرمایا اور حاضرین میں اختلاف پیدا ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دل میں یہ بات آئی کہ مصلحت یہی ہے کہ کوئی وصیت نامہ نہ لکھا جائے۔ چنانچہ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے اختیار سے صرف یہ کہ اس وقت وصیت نامہ نہیں لکھا بلکہ لکھنے کا ارادہ بھی ترک فرما دیا کیونکہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی چیز کے لکھنے کا مصمم ارادہ فرما لیا ہوتا تو حضرت عمر وغیرہ کی کیا مجال تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس فیصلہ کی راہ میں رکاوٹ بنتے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس واقعہ کے بعد تین دن تک زندہ رہے اور ان ایام میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس حضرت عمر اور دوسرے صحابہ موجود نہیں تھے بلکہ اہل بیت مثلاً حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما وغیرہما بارگاہ رسالت میں حاضر رہے اگر آپ اس موقع پر خلافت کے بارے میں کوئی وصیت نامہ لکھنے ہی میں مصلحت سمجھتے تو ضرور لکھتے۔ پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خلافت کے بارے میں ایسا طریقہ اختیار فرمایا جس میں کسی شک و شبہ اور تاویل کی گنجائش ہی نہ رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے آخری ایام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرمایا۔ اسی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے واسطے لوگوں کے سامنے تقریر کر تے ہوئے فرمایا کہ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوبکر کو ہمارے دین کے لیے امام منتخب فرمایا یعنی نماز میں ہمارا امام مقرر فرما دیا تو کیا ہم انہیں اپنی دنیا کے لیے یعنی خلافت کے لیے منتخب نہ کریں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام بننے کے لیے بلا بھیجا تو اس وقت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ہی بیٹھا ہوا تھا اور آپ مجھے دیکھ رہے تھے (مگر آپ نے مجھے امام مقرر نہیں فرمایا) حضرت ابوبکر ان لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں حق تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔ کہ آیت (لایخافون لومۃ لائم)۔ (یعنی یہ لوگ ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈرتے)۔

 منقول ہے کہ ابوسفیان بن حرب نے (جب ایک موقع پر) حضرت علی سے کہا کہ اگر آپ چاہیں تو میں ابوبکر سے لڑائی کے لیے مدینہ کا میدان گھوڑوں اور پیادوں سے بھر دوں (تو حضرت علی) ابوسفیان کی اس بات سے بہت ناراض ہوئے اور انہیں ڈانٹا اور بہت برا بھلا کہا تاکہ نہ صرف ابو سفیان بلکہ دوسرے لوگ بھی جان لیں کہ ابوبکر کی خلافت منشاء نبوت کے مطابق ہونے کی وجہ سے اتنی مستحکم اور حقیقی ہے کہ اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔

 اس سے معلوم ہوا کہ نہ تو اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں کچھ لکھنے کا ارادہ فرمایا تھا اور نہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات تھی کہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مقدم ہوں اور خلافت میرا حق ہے کیونکہ حضرت علی اگر حضرت ابوبکر پر فضیلت رکھتے اور خلافت پہلے ان کا حق ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کی ضرور وصیت کرتے۔ چہ جائیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں فرمایا جب کہ حضرت ابوبکر کو نماز میں لوگوں کا امام مقرر فرما کر اس طرف کھلا ہوا اشارہ فرما دیا تھا کہ میرے بعد ابوبکر ہی خلیفہ ہونگے۔

عیادت کے وقت مریض کے پاس بہت کم بیٹھنا چاہئے

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  عیادت کا افضل مرتبہ اونٹنی کے دو مرتبہ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے بقدر ہے اور حضرت سعید بن مسیب کی روایت کے جو بطریق ارسال منقول ہے یہ الفاظ ہیں کہ  بہترین عیادت وہی ہے جس میں عیادت کرنے والا جلد اٹھ کھڑا ہو۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

پہلی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اونٹنی کا دودھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ کر کے دوہتے ہیں جن کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ایک مرتبہ دودھ دوہا پھر ذرا رک گئے اور بچوں کو تھنوں سے لگا دیا تاکہ دودھ خوب اترے پھر اس کے بعد دودھ دوہنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس طرح دونوں مرتبہ کا درمیانی وقفہ بہت تھوڑا ہوتا ہے۔ لہٰذا عیادت کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے۔ جب کوئی کسی مریض کے پاس عیادت کے لئے جائے تو اس کے لئے افضل یہ ہے کہ وہ مریض کے پاس زیادہ دیر تک نہ بیٹھے بلکہ دو مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیانی وقفہ کے بقدر بیٹھے تاکہ مریض کو تکلیف نہ ہو۔

 کتابوں میں ایک شخص کا واقعہ منقول ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ کی عیادت کو گئے جب کہ وہ مرض الموت میں مبتلا تھے۔ ہم ان کے پاس بہت دیر تک بیٹھے رہے اس وقت ان کے پیٹ میں بہت درد ہو رہا تھا ہم نے ان سے کہا کہ آپ ہمارے لئے دعا فرمائیے۔ انہوں نے فرمایا کہ  اے اللہ ! ان لوگوں کو مریض کی عیادت کرنے کے آداب و طریقے سکھا! گویا انہوں نے اس دعا سے اس طرف اشارہ فرمایا کہ مریض کے پاس جب عیادت کے لئے جائے تو زیادہ دیر تک نہ بیٹھے بلکہ تھوڑی دیر بیٹھ کر اور عیادت کر کے چلا آئے۔ ہاں اگر کوئی عیادت کرنے والا یہ جانے کہ بیمار پر اس کا زیادہ دیر تک بیٹھنا گراں نہیں گزر رہا ہے بلکہ دوست ہونے کی حیثیت سے یا برکت حاصل کرنے کی غرض سے اور یا خدمت دلداری کی وجہ سے مریض کی خواہش یہ ہے کہ وہ اس کے پاس زیادہ دیر تک بیٹھے تو اس صورت میں مریض کے پاس سے جلدی اٹھ کھڑا ہونا افضل نہیں ہو گا۔

مریض جو چیز مانگے کھلا دینی چاہئے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کی عیادت کی پھر اس سے پوچھا کہ کیا چیز کھانے کو تمہارا جی چاہتا ہے؟ اس نے کہا کہ گیہوں کی روٹی کھانے کو میرا جی چاہتا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کے پاس گیہوں کی روٹی ہو اسے چاہئے کہ وہ اپنے بھائی کو (یعنی اس مریض کے پاس) بھیج دے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ  جب تم میں سے کوئی بیمار ہو اور کسی چیز کی خواہش کرے تو اسے وہ چیز کھلا دینی چاہئے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 خواہش سے مراد خواہش صادق ہے اور وہ صحت کی نشانی ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض مریضوں کو اس چیز کا کھانا کہ جسے کھانے کے لیے مریض کا دل چاہتا ہو نقصان دہ نہیں ہوتا۔ بشرطیکہ وہ چیز مقدار میں تھوڑی ہو اور ایسی نہ ہو جس کے نقصان اور ضرر کا پہلو غالب ہو۔ لہٰذا حاصل کلام یہ ہے کہ اس حدیث کا یہ حکم اذا اشتھی فلیطعمہ کلی اور عمومی طور پر نہیں ہے بلکہ جزئی اور انفرادی طور پر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مریض کے ساتھ یہ معاملہ نہیں کرنا چاہئے کہ وہ جو بھی چیز مانگے خواہ وہ اس کے مرض کے لئے کتنی ہی نقصان دہ اور مضر کیوں نہ ہو اس دیدی جائے جبکہ بعض مخصوص حالات میں اگر کوئی مریض کسی ایسی چیز کے کھانے کی خواہش کرے جس میں نقصان اور ضرر کا پہلو غالب نہ ہو اور یہ کہ معالج اس کے خلاف نہ ہو تو وہ چیز مریض کو دے دینی چاہئے۔

 علامہ طیبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حکم تو کل یا زندگی سے مایوسی پر مبنی ہے یعنی جس مریض کی زندگی کی امید باقی نہ رہی ہو اس کے بارے میں فرمایا جا رہا ہے کہ وہ جو چیز مانگے اسے کھلا دینی چاہئے۔

حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک ایسے شخص کی وفات مدینہ میں ہوئی جو مدینہ ہی میں پیدا ہوا تھا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور پھر فرمایا! کہ کاش! یہ شخص اپنے پیدا ہونے کی جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ مرا ہوتا! صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اپنے وطن کے علاوہ کسی دوسری جگہ مرتا ہے تو اس کے وطن سے لیکن اس کے مرنے کے مقام تک کی جگہ اس کے لئے جنت میں پیمائش کی جاتی ہے۔ (نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ جو شخص وطن سے دور حالت سفر میں مرتا ہے تو اس کے وطن اور اس کے مرنے کی جگہ تک کے درمیان جتنی مسافت ہوتی ہے اس کے بقدر جگہ اس کو جنت میں ملتی ہے لین اس بارے میں صحیح یہ معلوم ہوتا ہے کہ سفر سے مراد صرف طاعت یعنی جہاد وغیرہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اجر و انعام اس شخص کو ملتا ہے جو جہاد کے لئے یا دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے یا اسی قسم کے دوسرے بامقصد و مطلوب کام کے لئے وطن سے دور مرا ہو۔

حالت مسافرت کی موت کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  حالت مسافرت کی موت شہادت ہے۔ (ابن ماجہ)

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص بحالت مرض مرتا ہے تو وہ شہید مرتا ہے اور قبر کے فتنوں سے بچایا جاتا ہے نیز(ہر صبح شام اسے جنت سے رزق دیا جاتا ہے۔ (ابن ماجہ، بیہقی)

 

تشریح

 

مشکوٰۃ کے صحیح نسخوں میں لفظ  مریضا  ہی لکھا ہوا ہے لیکن بعض نسخوں میں تغیر کر کے  مریضا  کے بجائے لفظ  غریبا  لکھ دیا گیا ہے لیکن صحیح ابن ماجہ میں لفظ  مرابطا  منقول ہے۔ اسی لیے میرک رحمۃ اللہ علیہ نے مشکوٰۃ کے اپنے نسخہ کے حاشیہ میں یہ الفاظ  صوابہ مرابطا  (یعنی صحیح لفظ مرابطا ہی ہے) لکھ کر اس کے نیچے یہ لکھا ہے کہ کذا فی سنن ابن ماجہ فی باب ما جاء من مات مرابطا مات شہیدا۔ پھر یہ کہ لفظ مریضا کے بارے میں علماء نے تو لکھا ہے کہ مرض سے مراد عام مرض ہے جب کہ بعض حضرات نے خاص مرض جیسے استسقاء مراد لیا ہے۔ لیکن ملا علی قاری رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں ان قیود کی ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ کہا جائے کہ یہاں راوی سے چوک ہو گئی ہے کیونکہ حدیث کے صحیح الفاظ من مات مرابطاً ہیں نہ کہ من مات مریضاً۔

طاعون کی موت شہید کی موت کی طرح ہے

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  شہداء اور وہ لوگ جو اپنے بچھونوں پر (یعنی اپنے گھروں میں) مرے ہیں (اور حقیقی شہید نہیں ہوئے ہیں) اپنے پروردگار بزرگ برتر کے سامنے ان لوگوں کے بارے میں جو طاعون زدہ ہو کر مرے ہیں، جھگڑا کریں گے چنانچہ شہداء تو یہ کہیں گے کہ (یہ لوگ طاعون زدہ ہو کر مرے ہیں) ہمارے بھائی ہیں (یعنی ہماری طرح ہیں) (یعنی ہمارے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں لہٰذا انہیں ہمارا ہم مرتبہ ہونا چاہئے) کیونکہ جس طرح ہم قتل کیے گے تھے اسی طرح یہ بھی قتل کیے گئے تھے۔ اور جو لوگ اپنے بچھوں پر مرے ہیں کہیں گے کہ ہمارے بھائی ہیں (یعنی ہماری طرح ہیں) کیونکہ یہ لوگ اسی طرح بچھونوں پر مرے ہیں جس طرح کہ ہم مرے ہیں۔ پس ہمارا پروردگار فرمائے گا کہ ان کے زخموں کو دیکھا جائے اگر ان کے زخم شہدا کے زخم کی مانند ہیں تو یہ شہداء میں سے ہیں (یعنی باعتبار ثواب کے شہداء کے ہم پلہ ہیں اور حشر و نشر میں) ان کے ساتھ ہیں۔ چنانچہ جب دیکھا جائے گا تو ان کے زخم شہداء کے زخم کے مشابہ ہوں گے۔ (احمد، نسائی)

 

تشریح

 

بارگاہ رب العزت میں طاعون میں مرنے والوں کے بارے میں شہداء کی اس دلیل کہ جس طرح ہم قتل کیے گئے اسی طرح یہ بھی قتل کیے گئے ہیں  کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح ہم دشمنان دین اور کفار کے ہاتھوں زخمی ہو کر مرے ہیں اسی طرح یہ بھی جنات کے ہاتھوں زخمی ہو کر مرے ہیں۔ کیونکہ علماء نے لکھا ہے کہ بسا اوقات طاعون زدہ کو یہ محسوس ہوتا ہے جیسے اسے کوئی نیزے مار رہا ہو اسی لیے اس مرض کو طاعون کا نام دیا گیا ہے جو  طعن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں  نیزہ مارنا ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص طاعون میں مبتلا ہو کر مرے گا وہ شہیدوں میں سے ہے اس لیے قیامت کے روز وہ ان کے ساتھ ہو گا۔

طاعون سے بھاگنے کی مذمت اور اس پر صبر کرنے کی فضیلت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  طاعون کی بیماری سے (یعنی جہاں یہ وبا پھیلی ہو وہاں) بھاگنے والا جہاد میں کفار کے مقابلہ سے بھاگنے والے کی طرح ہے اور طاعون میں صبر کرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے۔ (احمد)

 

 

تشریح

 

طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ مشابہت گناہ کبیرہ کے اعتبار سے ہے یعنی جس طرح کفار کے مقابلہ سے بھاگنے والا گناہ کبیرہ میں مبتلا ہوتا ہے اسی طرح طاعون سے بھاگنے والے کو بھی گناہ کبیرہ ہوتا ہے۔ اور یہ اعتقاد رکھتے ہوئے طاعون زدہ علاقہ سے بھاگنا کہ اگر میں یہاں سے بھاگ جاؤں گا تو سلامت رہوں گا اگر نہ بھاگا تو مر جاؤں گا۔ کفر ہے۔ بظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ طاعون میں صبر کرنے والے کو شہید کا ثواب ملتا ہے اگرچہ اس کی موت نہ ہو۔