مشکوٰة شر یف

جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان

جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ کا بیان

جنازہ کے ساتھ پیادہ چلنا افضل ہے

 جنازہ کے ساتھ پیادہ چلنا اور سوار چلنا دونوں جائز ہیں لیکن پیادہ چلنا افضل ہے۔ اگر کوئی شخص جنازہ کے ساتھ سواری پر چلے تو اسے چاہئے کہ وہ جنازہ کے پیچھے پیچھے چلے ہاں پیادہ چلنے والے کے لیے جنازہ کے آگے چلنا بھی جائز ہے اور پیچھے بھی لیکن اس کے لیے پیچھے ہی چلنا افضل ہے۔

 

نماز جنازہ فرض کفایہ ہے

 جنازہ کی نماز فرض کفایہ ہے یعنی اگر کچھ لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں تو سب کے ذمہ سے فرضیت ساقط ہو جائے گی ورنہ تو بصورت دیگر سب ہی گناہگار ہوں گے۔

 

نماز جنازہ کی شرائط صحت

 نماز جنازہ کے صحیح ہونے کی تین شرطیں ہیں (١) میت کا مسلمان ہونا (٢) طہارت میت یعنی میت کا نہلایا ہوا ہونا (٣) جنازہ کا نمازیوں کے آگے رکھا ہوا ہونا لہٰذا تیسری شرط کا مطلب یہ ہوا کہ نہ تو جنازہ کی نماز غائبانہ پڑھنا جائز ہے اور نہ اس جنازہ کی نماز جائز ہے جو جانور کی پیٹھ پر یا لوگوں کے کاندھے پر ہو اسی طرح اس جنازہ کی نماز بھی جائز نہیں ہے جو نمازیوں کے پیچھے رکھا ہوا ہو۔

 اگر کوئی میت بغیر نہلائے دفن کر دی جائے اور اسے قبر کھودے بغیر باہر نکالنا ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں طہارت کی شرط ساقط ہو جاتی ہے لہٰذا اس کی نماز جنازہ نہلائے بغیر ہی اس کی قبر پر ادا کی جائے اور اگر میت کو باہر نکالنا ممکن ہو تو پہلے اسے باہر نکال کر نہلایا جائے پھر اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے۔

 اگر نا دانستہ طور پر بغیر غسل کے کسی میت کی نماز جنازہ ادا کر دی گئی اور پھر قبر کھودے بغیر اسے باہر نکال کر غسل دیا گیا تو اس کی نماز جنازہ دوبارہ پڑھی جائے۔

جنازہ لے کر جلدی چلنا چاہئے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جنازہ لے کر جلدی چلو، کیونکہ اگر وہ جنازہ نیک (آدمی کا) ہے تو (اس کے لیے) بھلائی ہے لہٰذا اسے نیکی و بھلائی کی طرف (جلد) پہنچا دو اور اگر وہ ایسا نہیں ہے تو برا ہے لہٰذا اسے (جلد سے جلد) اپنی گردنوں سے اتار کر رکھ دو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

جنازہ لے کر جلدی چلو کا مطلب یہ ہے کہ جب دفن کرنے کے لیے جنازہ کو لے کر چلو تو جلدی جلدی چلو، آہستہ آہستہ قدم نہ اٹھاؤ لیکن  جلدی سے دوڑنا مراد نہیں ہے بلکہ متوسط چال مراد ہے کہ قدم جلد جلد اٹھیں اور پاس پاس رکھے جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ جنازہ لے کر چلنے کی چال معمولی چال سے تو بڑھی ہوئی ہو اور دوڑنے سے کم ہو۔

  اگر وہ جنازہ نیک آدمی کا ہے الخ یہ جلدی چلنے کا فائدہ بیان کیا جا رہا ہے کہ تم جس شخص کا جنازہ لے کر چل رہے ہو اگر اس کی زندگی اچھے احوال اور اچھے اعمال کے ساتھ گزری ہے تو اسے جلد جلد لے کر چلو تاکہ وہ آخرت کے ثواب اور حق تعالیٰ کی رحمت تک جلد سے جلد پہنچ جائے اور اگر وہ جنازہ کسی ایسے شخص کا ہے جس کی زندگی برے احوال اور برے اعمال کے ساتھ گزری ہے تو بھی جلد جلد چلو تاکہ برے کو جلد اپنے کاندھوں سے اتار پھینکو۔

نیکوکار اور بدکار کا جنازہ

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب جنازہ تیار کیا جاتا ہے اور لوگ اسے اپنی گردنوں پر اٹھاتے ہیں تو اگر وہ جنازہ نیک بخت (آدمی کا) ہوتا ہے تو اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ (مجھے میری منزل کی طرف) جلد لے چلو اور اگر بدبخت (آدمی کا) جنازہ ہوتا ہے تو اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ ہائے افسوس! مجھے کہاں لئے جاتے ہو! جنازہ کی اس آواز کو سوائے انسان کے ہر چیز سن سکتی ہے، اگر انسان اس آواز کو سن لے تو بے ہوش ہو کر گر پڑے یا مر جائے۔

 

تشریح

 

نیک بخت یعنی مومن جب مرتا ہے اور اس کا جنازہ تیار ہو جاتا ہے تو چونکہ جنت کی نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رحمتیں دیکھتا ہے اس لیے اپنے آپ کو جلدی لے چلنے کے لیے کہتا ہے اس کے برخلاف جب بد بخت انسان موت کی گود میں پہنچ جاتا ہے اور اس کا جنازہ تیار کیا جاتا ہے تو چونکہ وہ عذاب کو سامنے دیکھتا ہے اس لیے واویلا کرتا ہے اور اپنے لوگوں سے کہتا ہے کہ مجھے عذاب کی طرف کیوں لے جا رہے ہو۔

 علماء لکھتے ہیں کہ مردہ اس وقت حقیقتاً کلام کرتا ہے اگرچہ اس کی روح نکل چکی ہوتی ہے فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ انسان اس کی آواز کی سماعت نہیں کر سکتا جب کہ دوسری مخلوقات اس کی آواز سنتی ہیں، اور یہ چیز کوئی غیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسا کہ مردہ اپنی قبر میں سوال و جواب کے لیے زندہ کیا جاتا ہے۔

جنازے کو دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم جنازے کو دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ اور جو شخص جنازہ کے ساتھ رہے تو وہ اس وقت تک نہ بیٹھے جب تک کہ جنازہ (لوگوں کے کاندھے سے زمین پر یا قبر میں) رکھ دیا جائے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جب جنازہ گھر میں سے نکلے تو میت کے احترام اور اس کے ایمان کی تعظیم کے پیش نظر کھڑا ہو جانا چاہئے گویا اس ارشاد گرامی میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایسے موقع پر بے پرواہ نہ ہو جانا چاہئے بلکہ جنازہ دیکھتے ہی بے قرار ہو کر اور ڈر کر اٹھ کھڑا ہونا چاہئے اور جب تک کہ جنازہ رکھ نہ دیا جائے زمین پر بیٹھا نہ جائے بلکہ کاندھا دینے کے لیے جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے۔

 بعض حنفی علماء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جنازہ کے ساتھ جانے کا ارادہ نہ رکھتا ہو تو اکثر علماء کے نزدیک اس کے لیے جنازہ دیکھ کر اٹھ کر کھڑے رہنا مکروہ ہے۔ جب کہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اسے اختیار ہے کہ چاہے تو کھڑا رہے اور چاہے بیٹھا رہے۔ اسی طرح بعض علماء کا یہ بھی قول ہے کہ یہ دونوں ہی (یعنی کھڑے ہو جانا اور بیٹھے رہنا) مستحب ہیں جمہور علماء فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اور اس کے بعد آنے والی حدیث دونوں ہی حضرت علی کرم اللہ وجہ کی روایت کی بنا پر جو آگے آ رہی ہے منسوخ ہیں۔

 

 

٭٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے راوی ہیں کہ ایک جنازہ گزرا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے دیکھ کر کھڑے ہو گئے ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کھڑے ہو گئے، پھر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ! یہ ایک یہودی کا جنازہ تھا! (کسی مسلمان کا جنازہ تو تھا نہیں کہ جس کی تعظیم و تکریم کے لیے اٹھا جاتا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  موت خوف اور گھبراہٹ کی چیز ہے جب تم جنازہ دیکھو تو (اگرچہ وہ جنازہ کافر ہی کا کیوں نہ ہو اٹھ کھڑے ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوتے دیکھا چنانچہ ہم بھی کھڑے ہو گئے جب آپ بیٹھے ہم بیٹھ گئے۔ (مسلم) اور حضرت مالک اور حضرت ابوداؤد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے اور اس کے بعد بیٹھے۔

 

تشریح

 

پہلی روایت کے جو امام مسلم رحمۃ اللہ نے نقل کی ہے دو معنی ہیں ایک تو یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے ہم بھی آپ کے ساتھ کھڑے ہو گئے جب جنازہ گزر گیا اور نظروں سے غائب ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی بیٹھ گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی بیٹھ گئے۔ دوسرے معنی یہ ہیں کہ کچھ عرصہ تک تو آپ کا معمول یہ رہا کہ جب جنازہ دیکھتے تو کھڑے ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن بعد میں یہ صورت رہی کہ آپ جنازہ دیکھ کر اٹھتے نہیں تھے بلکہ بیٹھے ہی رہا کرتے تھے۔

 اسی طرح دوسری روایت کے بھی کہ جسے حضرت امام مالک اور حضرت امام ابوداؤد نے نقل کیا ہے یہی دونوں مطلب ہیں اور دوسرا مطلب ہی زیادہ صحیح ہے۔

جنازہ کے ساتھ چلنے اور نماز جنازہ و تدفین میں شریک ہونے کا ثواب

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی مسلمان کے جنازہ کے ساتھ مومن ہونے کی حیثیت سے (یعنی فرمان شریعت پر عمل کرنے کی غرض سے) اور طلب ثواب کی خاطر جائے اور جنازہ کے ساتھ ساتھ رہے یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ پڑھے اور اس کی تدفین سے فراغت پائے تو وہ شخص دو قیراط ثواب لے کر واپس ہوتا ہے جس میں سے ہر قیراط احد پہاڑ کے برابر ہے اور جو شخص صرف جنازہ کی نماز پڑھ کر آ جائے اور تدفین میں شریک نہ ہو تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر واپس ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 قیراط دینار کے بارھویں حصہ کو کہتے ہیں جس کا وزن تقریباً چار جو کے برابر ہوتا ہے یہاں قیراط سے مراد  حصہ عظیم یعنی بہت بڑا انبار ہے جس کو احد پہاڑ سے تعبیر کیا گیا ہے۔

نجاشی بادشاہ کی غائبانہ نماز جنازہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نجاشی کے انتقال کی خبر لوگوں کو اسی روز پہنچائی جس دن کہ اس کا انتقال ہوا تھا پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ عید گاہ پر تشریف لے گئے وہاں سب کے ہمراہ نماز جنازہ کے لیے صف بندی فرمائی اور چار تکبیریں کہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہوا کرتا تھا اس نجاشی بادشاہ کا نام کہ جس کے جنازہ کی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز جنازہ غائبانہ ادا فرمائی  اصحمہ تھا۔ یہ پہلے تو دین نصاریٰ کے پیرو تھے مگر بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی رسالت پر ایمان لائے۔ جب کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر اور آپ کے صحابہ پر ظلم کے پہاڑ توڑے اور مکہ میں ان کی زندگی اجیرن بنا دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ مکہ سے ہجرت کر جائیں چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک بہت بڑی تعداد اپنا گھر بار چھوڑ کر حبشہ کو ہجرت کر گئی مسلمانوں کی یہی سب سے پہلی ہجرت تھی حبشہ میں اس وقت یہی اصحمہ نامی نجاشی بادشاہ تخت سلطنت پر تھے۔ انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم کی بہت اعلیٰ پیمانہ پر پذیرائی کی اور ان کی خدمت کو اپنے لئے باعث سعادت جان کر حق میزبانی ادا کیا۔ چنانچہ جب ان کا انتقال ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بہت زیادہ صدمہ ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کو ان کے انتقال کی خبر دی اور سب کو لے کر عیدگاہ تشریف لے گئے اور وہاں ان کی نماز جنازہ ادا فرمائی۔

 

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ

 ہدایہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں جو جماعت پنجگانہ کے لیے بنائی گئی ہو جنازہ کی نماز نہ پڑھی جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ جو شخص مسجد میں میت پر نماز پڑھے گا تو اسے ثواب نہیں ملے گا۔

 علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ  خلاصہ میں لکھا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے خواہ جنازہ اور نمازی دونوں مسجد میں ہوں خواہ جنازہ مسجد کے اندر ہو اور سب نمازی یا تھوڑے نمازی مسجد کے باہر ہوں۔ ہاں البتہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں مکروہ نہیں ہے جب کہ جنازہ مسجد سے باہر رکھا ہوا ہو۔ پھر اس کے بعد کراہت کے بارے میں بھی علماء کے اختلافی اقوال ہیں بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ کراہت تحریمی ہے۔ جب کہ بعض حضرات کا قول ہے کہ کراہت تنزیہی ہے۔

 

 

حدیث سے شوافع کا استدلال

 حضرات شوافع اس حدیث کو اپنے مسلک کا مستدل قرار دیتے ہیں کہ نماز جنازہ غائبانہ جائز ہے چونکہ حنفیہ کے نزدیک نماز جنازہ غائبانہ جائز نہیں ہے اس لیے ان کی طرف سے اس حدیث کی تاویل کی جاتی ہے کہ ہو سکتا ہے کہ نجاشی کا جنازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے کر دیا گیا ہو، کیونکہ حق تعالیٰ کی ذات اس پر قادر ہے کہ درمیان میں حائل پہاڑ و جنگلات اور در و دیوار ہٹا دیئے گئے ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نجاشی کا جنازہ دیکھ رہے ہوں۔ لہٰذا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصیت ہوئی دوسروں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نماز جنازہ غائبانہ ادا کریں چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول بغیر اسناد کے منقول ہے کہ  سریر یعنی نجاشی کا جنازہ کھولا گیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے دیکھا اور اس پر نماز پڑھی۔

نماز جنازہ کی تکبیرات

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں (کی نماز) میں چار تکبیریں کہا کرتے تھے۔ ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا کہ  آپ تو ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ تکبیریں کیوں کہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

حضرت زید بن ارقم کے ارشاد کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے کا مطلب یہ ہے کہ یا تو آپ ابتدائی زمانہ میں پانچ تکبیریں کہا کرتے تھے یا یہ کہ کبھی کبھی پانچ تکبیریں کہتے تھے۔

 تمام علماء کا متفقہ طور پر یہ فیصلہ ہے کہ نماز جنازہ میں چار ہی تکبیریں ہیں اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے چار سے زائد تکبیریں بھی منقول ہیں لیکن علماء لکھتے ہیں کہ آخر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے چار ہی تکبیریں ثابت ہیں لہٰذا جن روایتوں میں چار سے زائد تکبیریں منقول ہیں وہ منسوخ ہیں اگر حضرت زید رضی اللہ عنہ ان روایتوں کے منسوخ ہونے کے قائل نہیں ہیں تو اس اتفاقی اور اجماعی فیصلہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کا مسئلہ

حضرت طلحہ بن عبداللہ بن عوف (طابعی) کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے پیچھے جنازہ کی نماز پڑھی چنانچہ انہوں نے (تکبیر اولیٰ کے بعد) سورہ فاتحہ پڑھی اور فرمایا کہ میں نے سورۃ فاتحہ اس لیے پڑھی ہے تاکہ تم لوگ جان لو کہ یہ سنت ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ سنت ہے۔ سے مراد یہ ہے کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنا واجب نہیں ہے۔ یعنی اگر تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کے بجائے سورۃ فاتحہ پڑھی جائے تو یہ سورت فاتحہ سنت (یعنی سبحانک اللہم الخ پڑھنے) کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔

 محقق امام ابن ہمام فرماتے ہیں کہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ کی قرأت نہ کی جائے ہاں بہ نیت ثنا سورہ فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے چنانچہ نماز جنازہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سورہ فاتحہ پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ نیز مؤطا میں منقول ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز جنازہ میں سورت فاتحہ نہیں پڑھتے تھے۔

 چونکہ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنا واجب ہے اس لیے وہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس کے الفاظ انہا سنۃ (یہ سنت ہے) میں سنت سے مراد ہے کہ  سورہ فاتحہ پڑھنا دین کا ایک مشروع طریقہ ہے لہٰذا ان کی اس تاویل سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔

نماز جنازہ میں میت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وہ دعا یاد کر لی جو آپ (تیسری تکبیر کے بعد) فرماتے ہیں کہ (اور وہ یہ ہے) دعا (اللہم اغفر لہ وارحمۃ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس وابدلہ دارا خیرا من دارہ واہلا خیرا من اہلہ وزوجا خیرا مجن زوجہ وادخلہ الجنۃ واعذہ من عذاب القبر ومن عذاب النار)۔ (اے اللہ اس کے گناہ بخش دے، اس پر رحم فرما (یعنی اس عبادات و طاعات قبول فرما) اسے عافیت میں رکھ، اس کی (لغزشوں) سے درگزر فرما (جنت میں) اس کی اچھی مہمانی کر، اس کی قبر کشادہ فرما، اس کو پانی سے برف سے اور اولے سے پاک کر دے (یعنی طرح طرح کی مغفرتوں سے اس کے گناہ صاف کرا دے اسے گناہوں سے پاکیزہ فرما دے) جیسا کہ سفید کپڑا میل سے پاک کیا جاتا ہے۔ اسے (دنیا کے) اس گھر سے (آخرت کا) بہتر گھر عطا فرما اس کے خادموں سے بہتر خادم عطا فرما اور اس بیوی سے بہتر بیوی عطا فرما، اسے (بغیر عذاب کے ابتداء ہی میں) جنت میں داخل کر اور اسے قبر کے عذاب سے یا فرمایا کہ دوزخ کے عذاب سے پناہ دے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں۔ اس کے قبر کے فتنہ سے یعنی فرشتوں کے جواب میں متحیر ہونے سے اور آگے کے عذاب سے بچا۔ حضرت عوف رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زبان مبارک سے اس میت کے لیے یہ دعا سنی تو مجھے بڑا رشک آیا اور بے اختیار میرے دل سے یہ آرزو پیدا ہوئی کہ کاش یہ میری میت ہوتی تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا میرے لئے فرماتے۔

 

 

تشریح

 

اس کی بیوی سے بہتر بیوی، سے جس طرح جنت کی حوریں مراد ہیں اسی طرح دنیا کی عورتیں بھی مراد ہیں، لہٰذا اس بارے میں کوئی اشکال نہیں رہا کہ جنت میں دنیا کی عورتیں اپنے نماز روزے کی وجہ سے جنت میں حوروں سے افضل ہوں گی جیسا کہ حدیث میں وارد ہے۔

 فقہ میں لکھا ہے کہ اس دعا کو آہستہ پڑھنا مستحب ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا بآواز بلند اس لیے پڑھی تھی تاکہ اسے دوسرے سن کر یاد کر لیں۔ یہ دعا نسائی اور ترمذی نے بھی نقل کی ہے اور امام بخاری نے فرمایا ہے کہ جنازہ کے سلسلہ میں میت کے لیے جو دعائیں منقول ہیں ان سب میں یہ دعا سب سے زیادہ صحیح ہے۔

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ

حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا (اور ان کا جنازہ ان کے مکان سے بقیع میں دفن کے لیے لایا گیا) تو حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ان کا جنازہ مسجد میں لاؤ تاکہ میں بھی نماز پڑھ سکوں لوگوں نے اس سے انکار کیا (کہ مسجد میں جناز کی نماز کیسے پڑھی جا سکتی ہے) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خدا کی قسم! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیضا کے دونوں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

سہیل کے بھائی کا نام سہل تھا اور ان دونوں کی ماں کا نام بیضاء تھا۔

مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ کے نزدیک تو اس حدیث کے پیش نظر جنازہ کی نماز مسجد میں پڑھی جا سکتی ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک مسجد میں نماز جنازہ مکروہ ہے۔ حضرت امام اعظم کی دلیل بھی یہی حدیث ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے کہنے پر صحابہ نے اس بات سے انکار کر دیا کہ سعد ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد میں لایا جائے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ معمول نہیں تھا کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھتے ہوں بلکہ مسجد ہی کے قریب ایک جگہ مقرر تھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز جنازہ پڑھا کرتے تھے۔ پھر یہ کہ اس کے علاوہ ابوداؤد میں ایک حدیث بھی بایں مضمون منقول ہے کہ جو شخص مسجد میں نماز جنازہ پڑھے گا اسے ثواب نہیں ملے گا۔

 جہاں تک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس ارشاد کا تعلق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں سہیل اور ان کے بھائی کی نماز جنازہ پڑھی ہے تو اس کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ ایسا آپ نے عذر کی وجہ سے کیا کہ اس وقت یا تو بارش ہو رہی تھی یا یہ کہ آپ اعتکاف میں تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد ہی میں نماز جنازہ ادا فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں اس کی صراحت بھی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ اعتکاف میں تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی۔

نماز جنازہ میں امام کہاں کھڑا ہو؟

حضرت سمرہ بن جندب فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے ایک عورت کے جنازہ کی نماز پڑھی جو حالت نفاس میں انتقال کر گئی تھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے لیے جنازہ کے درمیان کھڑے ہوئے تھے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

حضرت امام شافعی کا مسلک تو یہ ہے کہ عورت کے جنازہ کی نماز میں امام میت کے کولہوں کے سامنے کھڑا ہو اور مرد کے جنازہ کی نماز میں میت کے سر کے سامنے کھڑا ہو، چنانچہ عورت کی نماز جنازہ کے بارے میں تو حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ کے مسلک کی دلیل یہی حدیث ہے جب کہ مرد کی نماز جنازہ کے بارے میں وہ اپنا مسلک ایک دوسری حدیث سے ثابت کرتے ہیں۔

 حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کا مسلک یہ ہے کہ امام میت کے سینہ کے سامنے کھڑا ہو کر خواہ مرد کا ہو یا عورت کا جنازہ ہو۔ اس حدیث کے بارے میں حضرت ابن ہمام رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میت کے سینہ کے سامنے کھڑے ہونے کی منافی نہیں کیونکہ انسانی جسم اعضاء کے اعتبار سے دراصل سینہ ہی وسط ہے بایں طور کہ سینہ کے اوپر سر اور ہاتھ ہیں اور سینہ کے نیچے پیٹ اور پاؤں ہیں اور ان سب کے درمیان سینہ ہے، نیز یہ احتمال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس موقع پر سینہ کے سامنے کولہوں کی طرف تھوڑا مائل کھڑے ہوں گے اور چونکہ یہ دونوں حصے یعنی سینہ اور کولھے آپس میں بالکل قریب قریب ہیں اس لیے راوی نے یہ گمان کر لیا ہو کہ آپ کولہوں کے سامنے کھڑے تھے۔

 شمنی رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ اور حضرت امام ابو یوسف کی روایت بھی یہ ہے کہ عورت کی جنازہ کی نماز میں امام میت کے کولہوں کے سامنے کھڑا ہو۔ واللہ اعلم۔

تدفین کے بعد قبر پر نماز جنازہ

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک ایسی قبر پر گزر ہوا جس میں بوقت شب مردہ دفن کیا گیا تھا آپ نے پوچھا کہ یہ کب دفن کیا گیا ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے جواب دیا کہ آج ہی رات میں۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کیا کہ  ہم نے اسے اندھیری رات میں دفن کیا تھا اس وقت آپ کو جگانا ہمیں اچھا نہیں معلوم ہوا ۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ (بخاری و مسلم)

 

 

٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد (نبوی) میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا راوی کہتے ہیں کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن اسے غائب پایا تو اس عورت، یا مرد کے بارے میں دریافت فرمایا کہ وہ کہاں ہے؟ بتایا گیا کہ وہ مر گئی یا وہ مرگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے کیوں نہیں بتایا گیا؟ تاکہ میں بھی اس کی نماز جنازہ پڑھتا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس عورت یا اس مرد کی موت کوئی اہمیت نہیں دی (کہ جس کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکلیف دی جاتی گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعظیم مقصود تھی) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اچھا مجھے اس کی قبر بتادو کہ کہاں ہے؟ آپ کو جب اس کی قبر بتائی گئی تو (آپ وہاں تشریف لے گئے اور) اس کی قبر پر نماز پڑھی اور پھر فرمایا کہ  یہ قبریں اپنے مردوں کے لیے تاریکیوں سے بھری ہوئی ہوتی ہیں ان قبروں پر میرے نماز پڑھنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ انہیں روشن کر دیتا ہے (اس روایت کو بخاری و مسلم نے نقل کیا ہے اور الفاظ مسلم کے ہیں۔

 

تشریح

 ایک کالی عورت تھی یا ایک جوان مرد تھا  یہ درحقیقت راوی کا شک ہے کہ صحیح طریقہ سے یہ بات یاد نہیں رہی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ ایک کالی عورت تھی جو مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی یا یہ فرمایا کہ ایک جوان مرد تھا جو جھاڑو دیا کرتا تھا۔

  تاریکیوں سے بھری ہوئی قبروں سے مراد صرف وہ قبریں ہیں جن پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نماز پڑھنا ممکن تھا۔

 اس مسئلہ میں کہ قبروں پر نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ علماء کا اختلاف ہے چنانچہ جمہور علماء کا فیصلہ تو یہ ہے کہ قبر پر نماز جنازہ پڑھنا مشروع ہے خواہ پہلے اس کی نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہو یا نہ ادا کی گئی ہو۔

 ابراہیم نخعی، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام رحمہم اللہ کا قول یہ ہے کہ اگر پہلے نماز جنازہ ادا کی جا چکی ہے تو اب قبر پر نماز درست نہیں اور اگر پہلے نماز جنازہ ادا نہ کی گئی ہو تو پھر جائز ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ کی شرط یہ بھی ہے کہ اگر مردہ اپنی قبر میں پھٹ نہ گیا ہو تو نماز درست ہو گی ورنہ تو قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کی صورت میں نماز درست نہیں ہو گی۔ قبر میں مردہ کے پھٹ جانے کا اندازہ بعض حضرات نے تین دن متعین کیا ہے یعنی اگر تدفین کو تین دن نہ گزرے ہوں تو سمجھا جائے گا کہ مردہ اپنی قبر میں ابھی پھٹا نہیں ہے اور اگر تدفین کو تین دن یا تین دن سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ مردہ اپنی قبر میں پھٹ گیا ہے۔

نماز جنازہ میں چالیس آدمیوں کے شریک ہونے کا ثواب

حضرت عبداللہ بن عباس کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب حضرت عبداللہ بن عباس کے بارے میں روایت کرتے ہیں کہ جب مقام قدید یا مقام عسفاء میں (کہ جو مکہ کے قریب جگہیں ہیں) ان کے صاحبزادے کا انتقال ہوا (اور جنازہ تیار ہوا) تو انہوں نے کہا کہ  کریب! جا کر دیکھو کہ نماز جنازہ کے لیے کتنے آدمی جمع ہو گئے ہیں؟ حضرت کریب کہتے ہیں کہ میں (یہ دیکھنے کے لیے) نکلا تو میں نے یہ دیکھا کہ بہت کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں میں نے واپس آ کر حضرت ابن عباس کو بتایا (کہ بہت کافی لوگ جمع ہو گئے ہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تمہارے خیال میں ان لوگوں کی تعداد چالیس ہو گی؟ میں نے عرض کیا کہ  ہاں! حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ تو پھر جنازہ (نماز کے لیے) باہر نکالو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرے اور اس کے جنازہ کی نماز ایسے چالیس آدمی پڑھیں جو خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتے ہوں تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں ان لوگوں کی شفاعت قبول کرتا ہے۔ (مسلم)

نماز جنازہ میں سو آدمیوں کے شریک ہونے کا ثواب

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جس میت کی نماز جنازہ مسلمانوں کی ایک ایسی جماعت پڑھے جس کی تعداد سو تک پہنچ جائے اور یہ جماعت میت کے لیے شفاعت کرے (یعنی دعاء مغفرت کرے) تو اس کی شفاعت قبول کی جاتی ہے (یعنی میت کی مغفرت ہو جاتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

پہلی حدیث میں چالیس آدمیوں کے نماز جنازہ پڑھنے کا ثواب بیان کیا گیا ہے جب کہ دوسری حدیث میں  سو آدمیوں کی جماعت کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ چنانچہ علماء اس اختلاف کی وجہ یہ لکھتے ہیں کہ پہلے سو آدمیوں کی شرکت کی فضیلت نازل ہوئی ہو گی پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے حال پر رحم فرماتے ہوئے یہ تعداد کم کر کے چالیس آدمیوں کی شرکت کی فضیلت بیان فرمائی نیز یہ بھی احتمال ہے کہ ان حدیثوں میں چالیس اور سو سے خاص طور پر یہی دونوں عدد نہ ہوں بلکہ ان سے کثرت جماعت مراد ہو۔

زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی تعریف کرنے لگے، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کی زبان میت کی تعریف سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ اس طرح صحابہ کا ایک دوسرے جنازہ پر گزر ہوا تو اس کی برائی بیان کرنے لگے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کی زبان سے میت کی برائی سن کر فرمایا کہ واجب ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا چیز واجب ہو گئی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کی تم نے تعریف بیان کی اس کے لیے جنت واجب ہو گئی اور اب جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو اس کے لیے دوزخ واجب ہو گئی اور (پھر فرمایا کہ) تم زمین پر اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو۔ (بخاری و مسلم) ایک اور روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، مومن اللہ تعالیٰ کے گواہ ہیں۔

 

تشریح

 

 جنت واجب ہو گئی، کا مطلب یہ ہے کہ تم جس شخص کی تعریف بیان کر رہے ہو اگر اس کی وہ تعریف صحیح اور سچ ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی خیر و بھلائی کی حالت میں ہوئی ہے جیسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لیے جنت کی سعادت ثابت ہو گئی۔ اسی طرح دوزخ واجب ہو گئی۔ کا مطلب بھی یہی ہے کہ جس شخص کی تم برائی بیان کر رہے ہو۔ اگر اس کی وہ برائی صحیح اور واقعی ہے یا یہ کہ اس کی موت اسی برائی کی حالت میں ہوئی ہے جسے تم بیان کر رہے ہو تو اس کے لیے دوزخ کی سزا ثابت ہو گئی۔

 مظہر کا قول ہے کہ یہ حکم عام طور پر ہر شخص کے لیے نہیں ہے کہ جس کسی بھی شخص کے بارے میں لوگ خیر و بھلائی کا ذکر کریں تو اس کے لیے جنت لازم ہی ہو جائے بلکہ جس شخص کے بارے میں لوگ اچھے اور نیک خیالات کا اظہار کریں اور اس کی تعریف بیان کریں تو اس لے لیے جنت کی امید کی جا سکتی ہے۔ اسی طرح جس شخص کے بارے میں لوگ برے خیالات کا اظہار کریں اور زبان خلق اس کی برائی میں مصروف ہو تو اس کے بارے میں یہ خوف ہو سکتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائے اب رہی یہ بات کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے شخص کے لیے جنت اور دوسرے شخص کے لیے دوزخ کو واجب کیوں کہا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پہلے شخص کے جنتی ہونے اور دوسرے شخص کے دوزخی ہونے کے فیصلہ سے مطلع کر دیا تھا۔

 زین عرف فرماتے ہیں کہ کسی شخص کا خیر و بھلائی اور شر و برائی کے ساتھ ذکر کرنا اس کے لیے جنت و دوزخ کو واجب نہیں کرتا بلکہ درحقیقت کسی شخص کے بارے میں زبان خلق کا بھلا یا برا تاثر صرف اس کے جنتی یا دوزخی ہونے کی علامت ہوتا ہے۔

 پھر یہ کہ اس تعریف اور اس برائی کا اعتبار ہو گا جس کی نیک بخت لوگوں اور متقی و پرہیز گار بندوں کی زبانیں گواہی دیں کیونکہ خدا کے نیک بخت و متقی بندوں کی زبان اس کے قلب سلیم کی ہمنوا ہوتی ہے لہٰذا وہ جس شخص کی تعریف کریں گے یا جس شخص کی برائی کریں گے اس میں کسی خارجی دباؤ یا نفس کے کسی غلط تقاضا کا قطعی دخل نہیں ہو گا بلکہ ان کے زبانی اثرات اور حقیقت کے صالح قلب کے صحیح فیصلہ کے غماز ہوں گے چنانچہ کسی شخص کے بارے میں ان کے تعریف اس شخص کے جنتی ہونے کی علامت ہو گی اور کسی شخص کے بارے میں ان کی بیان کی ہوئی برائی اس شخص کے دوزخی ہونے کی علامت ہو گی۔

 اس سے یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اگر کوئی فاسق اور دنیا دار شخص نفس کے غلط تقاضا اور اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر کسی برے اور بدکار شخص کی تعریف بیان کرے اور اس کے بارے میں اچھے تاثرات کا اظہار کرے یا اسی طرح کسی نیک بخت اور مرد مومن کی برائی بیان کرے تو نہ اس کی تعریف کا اعتبار ہو گا اور نہ اس کی بیان کی ہوئی برائی کی کوئی حیثیت ہو گی بلکہ اس کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اپنے نفس کا غلام اور ضمیر فروش ہے جو محض ذاتی اغراض و مقاصد کی خاطر اس شخص کو تو اچھا کہہ رہا ہے جس کی برائی اور بدکاری عیاں تھی اور اس نیک بخت کو برا کہہ رہا ہے جس کی نیک بختی مثالی حیثیت رکھتی تھی۔

 انتم شہداء اللہ تم (اللہ تعالیٰ کے گواہ ہو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد اکثر کے اعتبار سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص جیسا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی زبان سے اسے ویسا ہی کہلواتا ہے یعنی اگر کوئی شخص نیک ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے بندوں کی زبان سے نیک ہی کہلواتا ہے۔ اور کوئی شخص بدکار ہوتا ہے تو خدا اپنے بندوں کی زبان سے اس کی بدکاری ہی کی شہادت دلواتا ہے چنانچہ بندہ کی یہ شہادت درحقیقت اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ جس کے بارے میں جس تاثر کا اظہار کر رہے ہیں وہ واقعۃ ایسا ہی ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو مسلمان کہ گواہی دیں واسطے اس کے چار شخص کے ساتھ بھلائی کے داخل کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ جنت میں۔ کہا ہم نے اگر تین شخص گواہی دیں؟ فرمایا! اگر تین بھی گواہی دیں تو بھی! کہا ہم نے اگر دو گواہی دیں؟ فرمایا! ور دو بھی! پھر نہ پوچھا ہم نے ان سے حال ایک کا۔ (بخاری)

جو مر چکے ہیں انہیں برا مت کہو

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ برا کہو مردوں کو اس لیے کہ تحقیق وہ پہنچے ساتھ جزا اس چیز کے کہ آگے بھیجی۔ (بخاری)

شہداء احد کی تکفین و تدفین کا معاملہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے جمع کرتے دو شخصوں کو شہداء احد میں بیچ ایک کپڑے کے پھر فرماتے تھے کس کو ان میں سے زیادہ قرآن یاد ہے پس جب اشارہ کیا جاتا واسطے اس کے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف ان میں سے آگے کرتے اس کو قبر میں اور فرماتے کہ میں گواہی دوں گا دن قیامت کے اور حکم فرمایا ساتھ دفن کرنے ان کے خون سمیت اور نماز پڑھی ان پر اور نہ غسل دئیے گئے۔ (بخاری)

تدفین کے بعد قبرستان سے سواری پر واپس آنے میں مضائقہ نہیں

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لایا گیا نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس گھوڑا بغیر زین کے پس سوار ہوئے اس پر اس وقت کے پھر جنازہ ابن دحداح کے سے اور ہم چلتے تھے گرد حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے۔ (مسلم)

جنازہ کے ساتھ چلنے کا طریقہ

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ سوار چلے پچھلے جنازہ کے اور پیادہ چلے پچھلے جنازہ کے اور آگے اس کے اور دائیں اور بائیں اس کے پاس اس کے اور کچھا بچا نماز پڑھی جائے اس پر اور دعا کی جائے واسطے ماں باپ اس کے ساتھ بخشش اور رحمت کے (ابوداؤد) اور بیچ روایت احمد اور ترمذی اور نسائی اور ابن ماجہ کے یوں ہے کہ فرمایا سوار چلے پیچھے جنازے کے اور پیادہ جس طرف چاہے جنازے کے چلے اور لڑکا کہ مر جائے نماز جنازے کی پڑھی جائے اس پر اور مصابیح میں یہ روایت مغیرہ بن زیاد سے ہے۔

جنازہ کے آگے چلنے کا مسئلہ

زہری رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ روایت کی سالم سے اس نے اپنے باپ سے کہا کہ عبداللہ نے دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اور ابوبکر اور عمر کو چلتے تھے آگے جنازے کے (احمد، ابوداؤد، ترمذی، نسائی اور ابن ماجہ نے اور کہا ترمذی نے اور اہل حدیث گویا جانتے ہیں اس حدیث کو مرسل۔

جنازہ کے پیچھے چلنا بہتر ہے

حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جنازہ متبوع ہے اور نہیں وہ تابع نہیں ہوتا ساتھ اس کے وہ شخص کہ آگے بڑھ گیا اس سے (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ، کہا ترمذی نے ابوماجد راوی مجہول ہے۔

جنازہ کو کاندھا دینا میت کے حق کی ادائیگی ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو شخص ساتھ ہووے جنازے کے اور اٹھائے اس کو پس تحقیق ادا کیا حق اس کا اس پر تھا۔ (ترمذی) اور کہا یہ حدیث غریب ہے تحقیق روایت کی شرح السنۃ میں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اٹھایا جنازہ سعد بن معاذ کا درمیان دو لکڑیوں کے۔

جنازہ کے ساتھ سواری پر چلنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تنبیہ

ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نکلے ہم ساتھ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیچ جنازے کے پس لوگوں کو سوار دیکھا فرمایا کیا نہیں جیا کرتے تم کہ تحقیق فرشتے خدا کے اپنے قدموں پر ہیں اور تم اوپر پیٹھ جانوروں کے ہو (ترمذی، ابن ماجہ) اور روایت کی ابوداؤد نے مانند اس کی کہا ترمذی نے اور تحقیق روایت کی گئی یہ ثوبان سے موقوف۔

جنازہ پر سورۃ فاتحہ کی قرأت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھی جنازہ پر سورہ فاتحہ، (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)

نماز جنازہ میں میت کے لیے خلوص دل سے دعا کرو

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت تم پڑھو نماز میت پر پس خالص کرو اس کے لیے دعا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

نماز جنازہ کی دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب پڑھتے نماز جنازہ فرماتے یا الٰہی بخشش کر واسطے ہمارے زندوں کے اور ہمارے مردوں کے اور حاضر ہمارے کے اور غائب ہمارے کے اور ہمارے چھوٹوں کے اور ہماری عورتوں کے یا الٰہی جس کو زندہ رکھے تو ہم میں سے پس زندہ رکھ اس کو اسلام پر اور جس کو مارے تو ہم میں سے پس مار اس کو ایمان پر۔ یا الٰہی نہ محروم رکھ ہم کو ثواب اس کے سے اور نہ فتنہ میں ڈال ہم کو پیچھے اس کے۔ (احمد، ابوداؤد، ترمذی، ابن ماجہ) اور روایت کی نسائی نے ابو ابراہیم اشہلی سے کہ اس نے نقل کیا اپنے باپ سے اور تمام ہوئی روایت اس کی  وانثانا  تک اور بیچ روایت ابی داؤد کے پس زندہ رکھ اس کو ایمان پر اور وفات دے اس کو اسلام پر اور اس حدیث کے آخر میں یوں ہے کہ نہ گمراہ کر ہم کو اس کے پیچھے۔

ایک میت کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نماز پڑھائی ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص پر مسلمانوں میں سے پس سنا میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو فرماتے تھے یا الٰہی تحقیق فلاں بیٹا فلانے کا بیچ امان تیری کے ہے اور تیری پناہ کے ہے پس بچا اس کو فتنہ قبر سے اور آگ کے عذاب سے اور تو صاحب وفا کا ہے اور تو صاحب حق کا ہے یا الٰہی بخشش کر واسطے اس کے اور رحم کر اس پر تحقیق تو بخشنے والا مہربان ہے۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے  وحبل جوارک  میں لفظ حبل کے کئی معنی بیان کیے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ اس جملہ کے سب سے بہتر معنی یہ ہیں کہ  وہ قرآن کریم سے تعلق رکھنے والا اور اسے مضبوطی سے پکڑنے والا تھا۔ لہٰذا یہاں لفظ حبل سے قرآن مراد ہے جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت (کتاب اللہ کو مضبوطی سے پکڑو) میں حبل سے مراد قرآن کریم ہے اسی طرح لفظ جوار سے امان مراد ہے اور اس جملہ و حبل جوارک میں اضافت بیانیہ ہے گویا اس جملہ کے وضاحتی معنی یہ ہوں گے کہ وہ شخص قرآن کریم کو مضبوطی سے پکڑنے والا تھا، ایسا قرآن کریم کہ جسے مضبوطی سے اختیار کرنا (یعنی اس پر پوری طرح عمل کرنا) امن و سلامتی ایمان و اسلام اور معرفت کا باعث اور ذریعہ ہے۔

مردوں کی برائیاں ذکر نہ کرو

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم اپنے مرے ہوئے لوگوں کی نیکیاں ہی ذکر کر لیا کرو اور ان کی برائیوں کے ذکر سے بچتے رہو۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

مرے ہوئے لوگوں کے نیک اعمال اور ان کی بھلائیوں کو اس لیے یاد اور بیان کرنا چاہئے کہ نیک اور نیکی کے ذکر کے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہوتا ہے۔

 مردوں کی نیکیوں کو ذکر کرنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ استحباب کے طور پر ہے لیکن ان کی برائیوں کے ذکر سے بچنے کا جو حکم دیا جا رہا ہے وہ وجوب کے طور پر ہے یعنی ہر مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اپنے مرے ہوئے بھائی کی برائیاں ذکر نہ کرے اور اس فعل سے بچتا رہے چنانچہ حجۃ الاسلام نے لکھا ہے کہ مرے ہوئے لوگوں کی غیبت زندہ لوگوں کی غیبت سے کہیں زیادہ قابل نفریں ہے۔ کتاب ازہار میں علماء کا یہ قول لکھا ہوا ہے کہ  میت کو نہلانے والا اگر میت میں کوئی اچھی علامت دیکھے مثلاً میت کا چہرہ روشن اور منور ہو یا میت میں سے خوشبو آتی ہو تو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا مستحب ہے اور اگر کوئی بری علامات دیکھے مثلاً (نعوذ باللہ) میت کا چہرہ یا بدن سیاہ ہو گیا ہو یا اس کی صورت مسخ ہو گئی ہو تو اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنا حرام ہے۔

نماز جنازہ میں امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کا مسئلہ

حضرت نافعی رحمۃ اللہ جن کی کنیت ابو غالب ہے فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک جنازہ (یعنی حضرت عبداللہ بن عمر کے جنازہ) کی نماز پڑھی، حضرت انس(جو امام تھے) جنازہ کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے اور نماز پڑھائی پھر لوگ قریش کی ایک عورت کا جنازہ لے کر آئے اور کہا اے ابو حمزہ! (یہ انس کی کنیت ہے) اس جنازہ کی نماز پڑھا دیجئے چنانچہ حضرت انس تخت (کہ جس پر جنازہ تھا) کے درمیانی حصہ کے سامنے کھڑے ہوئے (اور نماز پڑھائی یہ دیکھ کر) علاء بن زیاد نے کہا کہ  کیا آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (نماز جنازہ میں) اسی طرح کھڑے ہوتے دیکھا ہے جیسا کہ آپ اس عورت کے جنازہ کے درمیان اور مرد کے جنازہ کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے تھے؟ یعنی کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی نماز جنازہ پڑھاتے وقت عورت کے جنازہ پر اس کے درمیانی حصہ کے سامنے اور مرد کے جنازہ پر اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوتے تھے؟ حضرت انس نے فرمایا ہاں! ابوداؤد نے بھی اس روایت کو کچھ زیادتی کے ساتھ نقل کیا ہے اور ان کی روایت میں فقام حیال وسط السریر کے بجائے فقام عند عجیزۃ المرأۃ(عورت کے جنازہ پر اس کے کولھے کے قریب کھڑے ہوئے) کے الفاظ منقول ہیں۔ (ترمذی و ابن ماجہ)

 

تشریح

 

اس مسئلہ میں کہ نماز جنازہ میں امام جنازہ کے پاس کہاں کھڑا ہو؟ جو اختلاف ہے اور ائمہ دین کے جو مسلک ہیں اس کو پوری تفصیل اور وضاحت کے ساتھ گزشتہ صفحات میں پہلی فصل کی ایک حدیث کی تشریح کے ضمن میں بیان کی جا چکا ہے۔

جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونے کا مسئلہ

حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت سہل ابن حنیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں (ایک جگہ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا جسے دیکھ کر یہ دونوں صحابی کھڑے ہو گئے ان سے کہا گیا کہ  یہ جنازہ اہل زمین یعنی ذمی کا ہے؟ دونوں صحابہ نے فرمایا کہ (اسی طرح ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا، آپ (اسے دیکھ کر) کھڑے ہو گئے، آپ سے عرض کیا گیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (تو کیا ہوا) کیا یہ جاندار نہیں ہے؟ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

قادسیہ ایک جگہ کا نام ہے جو کوفہ سے پندرہ کوس کے فاصلہ پر واقع ہے۔

 روایت میں ذمیوں کو  اہل زمین سے تعبیر کیا گیا ہے یا تو ان کے کم رتبہ ہونے کی وجہ سے یا یہ کہ مسلمانوں نے انہیں زمین کی کاشت پر مقرر کر رکھا تھا اور ان سے خراج لیتے تھے اس لیے انہیں اہل زمین کہا گیا۔

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کیا یہ جاندار نہیں ہے؟ کا مطلب یہ ہے کہ کیا یہ کسی انسان کا جنازہ نہیں ہے جسے دیکھ کر عبرت نہ حاصل کی جائے ؟ حاصل یہ کہ جنازہ کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے اور عبرت حاصل ہوتی ہے خواہ مسلم کا ہو یا غیر مسلم کا اس لیے میں اس جنازہ کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہو گیا۔

 گزشتہ صفحات میں یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہونا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت سے منسوخ ہو چکا ہے لہٰذا ہو سکتا ہے کہ ان دونوں صحابہ کو اس منسوخی کا علم نہ ہوا ہو اس لیے یہ حضرات جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو گئے ہوں گے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول اور اس کی منسوخی

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب جنازے کے ہمراہ چلتے تو اس وقت تک نہیں بیٹھتے تھے کہ جب تک میت کو قبر میں نہیں رکھ دیا جاتا تھا (ایک مرتبہ) ایک یہودی عالم آپ کے سامنے پیش ہوا اور اس نے عرض کیا کہ  اے محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (کہ جب تک مردہ قبر میں نہیں رکھ دیا جاتا کھڑے رہتے ہیں) حضرت عبادہ کہتے ہیں کہ (اس کے بعد) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (دفن کرنے تک کھڑے نہیں رہتے تھے بلکہ) بیٹھ جایا کرتے تھے، نیز آپ نے یہ فرمایا کہ تم یہودیوں کی مخالفت کرو۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور بشر بن رافع جو اس روایت کا ایک راوی ہے قوی نہیں ہے۔

جنازہ دیکھ کر کھڑا نہ ہونا چاہئے

حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (پہلے تو) ہمیں جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کے لیے فرمایا کرتے تھے پھر (بعد میں) آپ بیٹھے رہتے تھے اور ہمیں بھی بیٹھے رہنے کے لیے فرماتے تھے۔ (احمد)

 

تشریح

 

اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ پہلے تو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم تھا مگر بعد میں یہ حکم منسوخ قرار دے دیا گیا لہٰذا اب اس کے بعد مسئلہ یہی ہے کہ جو لوگ جنازہ کے ساتھ نہ ہوں بلکہ کہیں بیٹھے ہوئے ہوں انہیں جنازہ دیکھ کر کھڑا نہ ہونا چاہئے۔

 

 

٭٭ حضرت محمد بن سیرین رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت حسن بن علی اور حضرت ابن عباس کے سامنے سے ایک جنازہ گزرا تو حضرت حسن (اسے دیکھ کر) کھڑے ہو گئے مگر حضرت ابن عباس کھڑے نہیں ہوئے حضرت حسن نے (حضرت ابن عباس کا یہ عمل دیکھ کر) ان سے فرمایا کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک یہودی کے جنازے کو دیکھ کر کھڑے نہیں ہو گئے تھے؟ حضرت ابن عباس نے جواب دیا کہ ہاں! (بے شک آپ کھڑے ہوئے تھے) مگر بعد میں آپ (جنازہ دیکھ کر) بیٹھے رہتے تھے۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے جواب کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو بے شک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی معمول تھا کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جایا کرتے تھے مگر بعد میں آپ کا یہ معمول ہو گیا تھا کہ جنازہ دیکھ کر آپ کھڑے نہیں ہوتے تھے بلکہ بیٹھے رہتے تھے لہٰذا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم منسوخ ہو گیا۔

 حضرت حسن کے عمل کے بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو اس حکم کے منسوخ ہو جانے کا علم نہیں ہو گا اس لیے وہ نہ صرف یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے بلکہ انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے کھڑے نہ ہونے پر اعتراض بھی کیا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودی کا جنازہ دیکھ کر کیوں کھڑے ہوئے؟

حضرت جعفر بن محمد رحمۃ اللہ (یعنی حضرت جعفر صادق) اپنے والد مکرم (حضرت محمد باقر رحمۃ اللہ) سے یہ روایت کرتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) حضرت علی رضی اللہ عنہ (ایک جگہ) بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے سامنے سے جنازہ لے جایا گیا، وہ لوگ (جنہیں اس مسئلہ کی منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا جنازہ دیکھ کر) کھڑے ہوئے تھے اور اس وقت تک کھڑے رہے جب تک کہ جنازہ گزر نہیں گیا، حضرت حسن نے ان سے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ جب ایک یہودی کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا تو اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم راستہ پر بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے پسند نہیں کیا کہ یہودی کا جنازہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک سے اونچا ہوا لہٰذا آپ کھڑے ہو گئے۔ (نسائی)

 

تشریح

 

 حضرت حسن کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودی کے جنازہ کو دیکھ کر جو کھڑے ہوئے تھے تو اس کی وجہ میت کا احترام نہیں تھا بلکہ اصل حقیقت تو یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات پسند نہیں کی کہ ایک یہودی کا جنازہ آپ کے سر مبارک سے اونچا ہو گویا حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے اپنے اس ارشاد کے ذریعہ ان لوگوں پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہوئے تھے۔

 ابھی اس سے پہلے جو حدیث گزری ہے اس سے تو معلوم ہوا کہ حضرت حسن نہ صرف یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے بلکہ انہوں نے حضرت ابن عباس پر اس لیے اعتراض کیا کہ وہ جنازہ دیکھ کر کھڑے نہیں ہوئے تھے اور یہاں اس حدیث میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے حضرت حسن نے ان پر اعتراض کیا۔

 لہٰذا اس اختلاف کے بارے میں محدثین رحمہم اللہ لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ جو یہاں بیان کیا جا رہا ہے اس واقعہ کے بعد کا ہے جو اس سے پہلی حدیث میں بیان کیا گیا ہے پہلے چونکہ حضرت حسن کو منسوخی کا علم نہیں ہوا تھا اس لیے انہوں نے حضرت عباس پر اعتراض کیا۔ مگر جب بعد میں تحقیق و جستجو کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مذکورہ بالا وجہ سے یہودی کا جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے اور یہ کہ جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کا حکم اب منسوخ ہو گیا ہے تو انہوں نے اس موقع پر اعتراض کیا جو جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔

 بہر حال جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جانے کی اور بھی کئی وجوہ ہیں۔ مثلاً یہ کہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ آپ ڈر اور عبرت کی وجہ سے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہو جاتے تھے کبھی ملائکہ کی تعظیم پیش نظر کھڑے ہو جاتے تھے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے تھے کبھی آپ اس لیے بھی کھڑے ہو جاتے تھے کہ آپ جنازہ کو اپنے سر مبارک سے بلند ہونا پسند نہیں فرماتے تھے۔

 شیخ عبداالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ حدیث منقطع ہے کیونکہ حضرت امام باقر حضرت حسن کے زمانے میں نہیں تھے۔

 

 

٭٭ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تمہارے سامنے کسی یہودی یا نصرانی یا مسلمان کا جنازہ گزرے تو اسے دیکھ کر کھڑے ہو جاؤ اور تم جنازہ (کے ادب و احترام) کے لیے نہیں کھڑے ہوتے بلکہ ان فرشتوں (کی تعظیم) کے لیے کھڑے ہوتے جو جنازہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔

 

تشریح

 

 جیسا کہ ابھی اوپر بیان کیا گیا ہے جنازہ دیکھ کر کھڑے ہونے کے وجوہ مختلف ہیں انہیں میں سے ایک وجہ یہاں بیان کی جا رہی ہے نیز یہ کہ کھڑے ہو جانے کا یہ حکم پہلے تھا اب منسوخ ہو گیا ہے اسے بھی گزشتہ احادیث کی تشریح میں بیان کیا جا چکا ہے۔

نماز جنازہ میں تین صفیں ہونی چاہئیں

حضرت مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب کوئی مسلمان مرتا ہے اور اس پر مسلمانوں کی تین صفوں پر مشتمل جماعت نماز پڑھتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت اور مغفرت واجب کر دیتا ہے، چنانچہ حضرت مالک (نماز جنازہ میں) تھوڑے آدمی (بھی) دیکھتے تو اس حدیث کے بموجب انہیں تین صفوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔ (ابوداؤد) ترمذی کی روایت میں ہے کہ حضرت مالک بن ہبیرہ جب نماز جنازہ پڑھتے (یعنی نماز جنازہ پڑھنے کا ارادہ کرتے) اور لوگوں کی تعداد کم دیکھتے تو ان کو تین حصوں (یعنی تین صفوں) میں تقسیم کر دیتے تھے اور پھر فرماتے تھے کہ  رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کی نماز جنازہ تین صفیں پڑھتیں اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کو واجب کر دیتا ہے۔ ابن ماجہ نے بھی اس قسم کی روایت نقل کی ہے۔

 

تشریح

 

 اسلامی عقائد کا یہ ایک واضح مسئلہ ہے کہ ہر شخص کو یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اللہ جل شانہ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے یعنی اس کی بزرگی و برتر ذات کسی چیز کے کرنے پر مجبور نہیں ہے لیکن یہاں حدیث میں چونکہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جنت کو واجب کرتا ہے اس لیے علماء حدیث کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز جنازہ میں مسلمانوں کی تین صفیں شریک ہوں اس بشارت کی بموجب اللہ تعالیٰ اپنے اوپر یہ واجب کر لیتا ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے گویا یہاں حدیث میں جس وجوب کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے وعدہ کی مناسبت سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور ظاہر ہے کہ حق تعالیٰ جو وعدہ کرے وہ ایفاء نہ ہو یہ ناممکن ہے اس لیے ایفاء عہد اور اپنے فضل و کرم کے اظہار کے طور پر حق تعالیٰ کسی مجبور یا دباؤ کے تحت نہیں بلکہ از خود اپنے اوپر یہ واجب کر لیتا ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں داخل کرے چنانچہ اسے اصطلاحاً وجوب لغیرہ کہا جاتا ہے جو اس عقیدہ کے منافی نہیں ہے ہاں وجوب لذاتہ حق تعالیٰ کی ذات کے لیے ممتنع ہے جس کے بارے میں مذکورہ بالا اسلامی عقیدہ بیان کیا گیا ہے کرمانی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ نماز جنازہ میں سب صفوں سے زیادہ افضل سب سے پیچھے والی صف ہوتی ہے بخلاف دوسری نمازوں کے کہ ان میں سب سے آگے والی صف سب سے زیادہ افضل ہوتی ہے۔ نیز علماء یہ مسئلہ لکھتے ہیں کہ نماز جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا نہ کی جائے (جیسا کہ دوسری نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد دعا مانگی جاتی ہے) کیونکہ اس سے نماز جنازہ میں اضافہ کا اشتباہ ہوتا ہے۔

نماز جنازہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں یہ روایت کرتے تھے کہ آپ جنازہ میں یہ دعا فرمایا کرتے تھے۔ دعا (اللہم انت ربہا وانت خلقتہا وانت ہدیتہا الی الاسلام وانت قبضت روھہا وانت اعلم بسرہا وعلانیتہا جئنا شفعاء فاغفرلہ)۔ اے الٰہی تو اس کا پروردگار ہے تو نے ہی اسے پیدا کیا ہے اور تو نے ہی اس کو اسلام کی ہدایت عطا فرمائی اور (اب) تو نے ہی اس کی روح قبض کی ہے (اے رب العالمین) تو اس کے باطن کو بھی سب سے زیادہ جاننے والا ہے اور اس کے ظاہر کو بھی (اے اللہ) ہم اس بندہ کی شفاعت کے لیے حاضر ہوئے ہیں تو اسے بخش دے۔ (ابوداؤد)

ایک بچہ کے جنازہ پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا

حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک ایسے لڑکے کی نماز جنازہ پڑھی جس سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا، چنانچہ میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو (نماز میں) یہ دعا مانگتے سنا کہ اے اللہ! اس بچہ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔ (مالک)

 

تشریح

 

 علامہ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ روایت کے الفاظ لم یعمل خطیئۃ قط یعنی کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا تھا) لفظ  صبی (یعنی بچہ) کی صفت کاشفہ ہے کیونکہ غیر بالغ سے گناہ کا سرزد ہونا متصور نہیں ہے۔

 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دعا اے اللہ اس بچہ کو عذاب قبر سے پناہ دے۔ میں عذاب قبر سے عقوبت (یعنی سزا) اور قبر کا سوال و جواب مراد نہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اے اللہ! اس بچہ کو قبر میں حسرت و غم، قبر کی وحشت اور ضغط قبر (یعنی قبر کے بھینچے) کے رنج و خوف سے محفوظ و مامون رکھ اور ظاہر ہے کہ ضغط قبر میں ہر شخص مبتلا ہو گا خواہ بالغ ہو یا نابالغ۔

قبر میں بچوں سے سوال و جواب ہو گا یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ جس طرح قبر میں بالغ لوگوں سے سوال و جواب ہو گا اسی طرح نابالغ بچوں سے بھی سوال و جواب ہو گا یا نہیں؟ چنانچہ کچھ حضرات کا قول تو یہ ہے کہ بچوں سے بھی سوال و جواب ہو گا جب کہ دوسرے حضرات کا قول یہ ہے کہ بچے اس سے مستثنیٰ ہوں گے ان سے کوئی سوال و جواب نہیں ہو گا اور یہی قول صحیح ہے کیونکہ غیر مکلف کا عذاب میں مبتلا ہونا اصول شریعت کے خلاف ہے۔

 

 

٭٭ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ نے بطریق تعلیق(یعنی صحیح بخاری کے ترجمۃ الباب میں بغیر سند کے اس حدیث کو) نقل کیا ہے کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ بچہ کی نماز جنازہ میں تکبیر اولیٰ کے بعد سبحانک اللہم الخ کی بجائے سورہ فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور (تیسری تکبیر کے بعد) یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہم اجعلہ لنا سلفا وفرطا وذخرا واجرا اے اللہ اس بچے کو (قیامت کے دن) ہمارا پیشوا، پیش رو اور ہمارے لیے ذخیرہ ثواب بنا۔

 

تشریح

 

  سلف اس مال کو کہتے ہیں کہ جسے آگے (منزل پر) بھیج دیا جائے تاکہ اسے بھیجنے والا (منزل پر پہنچ کر) اس سے فائدہ حاصل کرے۔ اسی طرح  فرط لشکر کا وہ شخص کہلاتا ہے جو لشکر سے آگے پہنچ کر لشکر کے لیے سامان خورد و نوش وغیرہ کا انتظام کرتا ہے۔

 یہاں دعا میں ان دونوں سے مراد یہ ہے کہ  یہ بچہ قیامت کے روز ہماری بہتری و بھلائی اور ہماری منفعت کا باعث بنے بایں طور کہ پروردگار سے ہماری شفاعت کرے ذخرہ اس مال کو کہتے ہیں جو ذخیرہ کے طور پر رکھا جائے تاکہ حاجت و ضرورت کے وقت کام آئے۔

نا تمام بچہ کی نماز نہ پڑھی جائے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (ناتمام) بچہ کی نہ تو نماز پڑھی جائے اور نہ اسے کسی کا وارث قرار دیا جائے اور نہ ہی اس کا کوئی وارث ہو بشرطیکہ پیٹ سے باہر آتے وقت اس کی آواز نہ نکلے (یعنی اس وقت اس میں زندگی کے آثار نہ پائے جائیں جس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے) اس روایت کو ترمذی رحمۃ اللہ اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے مگر ابن ماجہ نے اپنی روایت میں لایورث نقل نہیں کیا ہے۔

نماز جنازہ میں بھی امام اوپر اور مقتدی نیچے نہ کھڑے ہوں

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ امام (تنہا) کسی چیز کے اوپر کھڑا ہو اور مقتدی اس کے پیچھے (اس سے نیچے) کھڑے ہوں۔ (دارقطنی)

 

تشریح

 

 نماز جنازہ میں امام کے لیے یہ ممنوع ہے کہ وہ تو کسی اونچی جگہ کھڑا ہو اور سب مقتدی اس سے نیچے ہوں لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ یہ بات بطریق اولیٰ ممنوع ہو گی کہ صرف امام تو نیچے کھڑا ہو اور مقتدی اوپر کھڑے ہوں۔ یہ مسئلہ سب نمازوں کا ہے نماز جنازہ ہی کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ بھی مخصوص نہیں ہیں لیکن مصنف مشکوٰۃ نے اس حدیث کو نماز جنازہ پر محمول کر کے اس باب میں نقل کیا ہے۔ اس سے واضح ہے کہ یہ حدیث اس باب میں بھی وارد ہوئی ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ لوگ نماز جناز میں یہ طریقہ اختیار کیے ہوں گے لہٰذا اس سے منع کیا ہے۔