حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ يُقَالُ لَهُ أَبُو مَنْظُورٍ،عَنْ عَمِّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمِّي، عَنْ عَامِرٍ الرَّامِ أَخِي الْخَضِرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ النُّفَيْلِيُّ: هُوَ الْخَضِرُ، وَلَكِنْ كَذَا قَالَ، قَالَ: إِنِّي لَبِبِلَادِنَا إِذْ رُفِعَتْ لَنَا رَايَاتٌ وَأَلْوِيَةٌ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا ؟ قَالُوا: هَذَا لِوَاءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْتُهُ، وَهُوَ تَحْتَ شَجَرَةٍ قَدْ بُسِطَ لَهُ كِسَاءٌ، وَهُوَ جَالِسٌ عَلَيْهِ، وَقَدِ اجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِمْ، فَذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَسْقَامَ، فَقَالَ: "إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَصَابَهُ السَّقَمُ، ثُمَّ أَعْفَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، كَانَ كَفَّارَةً لِمَا مَضَى مِنْ ذُنُوبِهِ، وَمَوْعِظَةً لَهُ فِيمَا يَسْتَقْبِلُ، وَإِنَّ الْمُنَافِقَ إِذَا مَرِضَ ثُمَّ أُعْفِيَ كَانَ كَالْبَعِيرِ، عَقَلَهُ أَهْلُهُ، ثُمَّ أَرْسَلُوهُ فَلَمْ يَدْرِ لِمَ عَقَلُوهُ، وَلَمْ يَدْرِ لِمَ أَرْسَلُوهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِمَّنْ حَوْلَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَمَا الْأَسْقَامُ ؟ وَاللَّهِ مَا مَرِضْتُ قَطُّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُمْ عَنَّا، فَلَسْتَ مِنَّا، فَبَيْنَا نَحْنُ عِنْدَهُ إِذْ أَقْبَلَ رَجُلٌ عَلَيْهِ كِسَاءٌ، وَفِي يَدِهِ شَيْءٌ قَدِ الْتَفَّ عَلَيْهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمَّا رَأَيْتُكَ أَقْبَلْتُ إِلَيْكَ، فَمَرَرْتُ بِغَيْضَةِ شَجَرٍ، فَسَمِعْتُ فِيهَا أَصْوَاتَ فِرَاخِ طَائِرٍ، فَأَخَذْتُهُنَّ فَوَضَعْتُهُنَّ فِي كِسَائِي، فَجَاءَتْ أُمُّهُنَّ فَاسْتَدَارَتْ عَلَى رَأْسِي، فَكَشَفْتُ لَهَا عَنْهُنَّ فَوَقَعَتْ عَلَيْهِنَّ مَعَهُنَّ، فَلَفَفْتُهُنَّ بِكِسَائِي، فَهُنَّ أُولَاءِ مَعِي، قَالَ: ضَعْهُنَّ عَنْكَ، فَوَضَعْتُهُنَّ، وَأَبَتْ أُمُّهُنَّ إِلَّا لُزُومَهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: أَتَعْجَبُونَ لِرُحْمِ أُمِّ الْأَفْرَاخِ فِرَاخَهَا ؟ قَالُوا: نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ، لَلَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ أُمِّ الْأَفْرَاخِ بِفِرَاخِهَا، ارْجِعْ بِهِنَّ حَتَّى تَضَعَهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُنَّ، وَأُمُّهُنَّ مَعَهُنَّ، فَرَجَعَ بِهِنَّ".
خضر کے تیر انداز بھائی عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ملک میں تھا کہ یکایک ہمارے لیے جھنڈے اور پرچم لہرائے گئے تو میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پرچم ہے، تو میں آپ کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ایک کمبل پر جو آپ کے لیے بچھایا گیا تھا تشریف فرما تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد آپ کے اصحاب اکٹھا تھے، میں بھی جا کر انہیں میں بیٹھ گیا ۱؎، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماریوں کا ذکر فرمایا: "جب مومن بیمار پڑتا ہے پھر اللہ تعالیٰ اس کو اس کی بیماری سے عافیت بخشتا ہے تو وہ بیماری اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے اور آئندہ کے لیے نصیحت، اور جب منافق بیمار پڑتا ہے پھر اسے عافیت دے دی جاتی ہے تو وہ اس اونٹ کے مانند ہے جسے اس کے مالک نے باندھ رکھا ہو پھر اسے چھوڑ دیا ہو، اسے یہ نہیں معلوم کہ اسے کس لیے باندھا گیا اور کیوں چھوڑ دیا گیا"۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! بیماریاں کیا ہیں؟ اللہ کی قسم میں کبھی بیمار نہیں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو اٹھ جا، تو ہم میں سے نہیں ہے" ۲؎۔ عامر کہتے ہیں: ہم لوگ بیٹھے ہی تھے کہ ایک کمبل پوش شخص آیا جس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر کمبل لپیٹے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں نے آپ کو دیکھا تو آپ کی طرف آ نکلا، راستے میں درختوں کا ایک جھنڈ دیکھا اور وہاں چڑیا کے بچوں کی آواز سنی تو انہیں پکڑ کر اپنے کمبل میں رکھ لیا، اتنے میں ان بچوں کی ماں آ گئی، اور وہ میرے سر پر منڈلانے لگی، میں نے اس کے لیے ان بچوں سے کمبل ہٹا دیا تو وہ بھی ان بچوں پر آ گری، میں نے ان سب کو اپنے کمبل میں لپیٹ لیا، اور وہ سب میرے ساتھ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کو یہاں رکھو"، میں نے انہیں رکھ دیا، لیکن ماں نے اپنے بچوں کا ساتھ نہیں چھوڑا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: "کیا تم اس چڑیا کے اپنے بچوں کے ساتھ محبت کرنے پر تعجب کرتے ہو؟"، صحابہ نے عرض کیا: ہاں، اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت رکھتا ہے جتنی یہ چڑیا اپنے بچوں سے رکھتی ہے، تم انہیں ان کی ماں کے ساتھ لے جاؤ اور وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے انہیں لائے ہو"، تو وہ شخص انہیں واپس چھوڑ آیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۵۰۵۶) (ضعیف) (اس کے راوی ابو منظور شامی مجہول ہیں )
وضاحت: ۱؎ : یعنی میں بھی ان کے حلقے میں شریک ہو گیا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وعظ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصیحت سنوں اور دیکھوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔ ۲؎ :آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تہدیدا فرمایا، یعنی مومن پر کوئی نہ کوئی مصیبت ضرور آتی ہے، تاکہ آخرت میں اس کے گناہوں کا کفارہ ہو، اس کے برخلاف کافروں کو اکثر دنیا میں راحت رہتی ہے، تاکہ آخرت میں ان کا کوئی حصہ نہ رہے، جو کچھ انہیں ملنا ہے دنیا ہی میں مل جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ الْمِصِّيصِيُّ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو الْمَلِيحِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ خَالِدٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد، قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَهْدِيٍّ السَّلَمِيُّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ مَنْزِلَةٌ، لَمْ يَبْلُغْهَا بِعَمَلِهِ، ابْتَلَاهُ اللَّهُ فِي جَسَدِهِ، أَوْ فِي مَالِهِ، أَوْ فِي وَلَدِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: زَادَ ابْنُ نُفَيْلٍ، ثُمَّ صَبَّرَهُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ اتَّفَقَا حَتَّى يُبْلِغَهُ الْمَنْزِلَةَ الَّتِي سَبَقَتْ لَهُ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى.
خالد سلمی اپنے والد سے (جنہیں شرف صحبت حاصل ہے) روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کرتے ہوئے سنا: "جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا رتبہ مل جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل کے ذریعہ نہیں پہنچ پاتا تو اللہ تعالیٰ اس کے جسم یا اس کے مال یا اس کی اولاد کے ذریعہ اسے آزماتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ بندہ اس مقام کو جا پہنچتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے ملا تھا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۶۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۷۲) (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح ہے ورنہ اس کے اندر محمد بن خالد اور ان کے والد خالد سلمی دونوں مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحہ ، نمبر: ۲۵۹۹)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، وَمُسَدَّدٌ، الْمَعْنَى قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ السَّكْسَكِيِّ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ مَرَّةٍ، وَلَا مَرَّتَيْنِ، يَقُولُ: "إِذَا كَانَ الْعَبْدُ يَعْمَلُ عَمَلًا صَالِحًا، فَشَغَلَهُ عَنْهُ مَرَضٌ، أَوْ سَفَرٌ، كُتِبَ لَهُ كَصَالِحِ مَا كَانَ يَعْمَلُ، وَهُوَ صَحِيحٌ مُقِيمٌ".
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک یا دو بار ہی نہیں بلکہ متعدد بار یہ کہتے ہوئے سنا: "جب بندہ کوئی نیک عمل (پابندی سے) کر رہا ہو، پھر کوئی مرض، یا سفر اسے مشغول کر دے جس کی وجہ سے اسے وہ نہ کر سکے، تو بھی اس کے لیے اتنا ہی ثواب لکھا جاتا ہے جتنا کہ اس کے تندرست اور مقیم ہونے کی صورت میں عمل کرنے پر اس کے لیے لکھا جاتا تھا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۱۳۴(۲۹۹۶)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۴۱۰، ۴۱۸) (حسن)
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أُمِّ الْعَلَاءِ، قَالَتْ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا مَرِيضَةٌ، فَقَالَ: "أَبْشِرِي يَا أُمَّ الْعَلَاءِ، فَإِنَّ مَرَضَ الْمُسْلِمِ يُذْهِبُ اللَّهُ بِهِ خَطَايَاهُ، كَمَا تُذْهِبُ النَّارُ خَبَثَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ".
ام العلاء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میں بیمار تھی تو میری عیادت کی، آپ نے فرمایا: "خوش ہو جاؤ، اے ام العلاء! بیشک بیماری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مسلمان بندے کے گناہوں کو ایسے ہی دور کر دیتا ہے جیسے آگ سونے اور چاندی کے میل کو دور کر دیتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ بَشَّارٍ، عَنْ أَبِي عَامِرٍ الْخَزَّازِ،عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَأَعْلَمُ أَشَدَّ آيَةٍ فِي الْقُرْآنِ، قَالَ: "أَيَّةُ آيَةٍ يَا عَائِشَةُ ؟ قَالَتْ: قَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: مَنْ يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ سورة النساء آية 123، قَالَ: أَمَا عَلِمْتِ يَا عَائِشَةُ أَنَّ الْمُؤْمِنَ تُصِيبُهُ النَّكْبَةُ أَوِ الشَّوْكَةُ فَيُكَافَأُ بِأَسْوَإِ عَمَلِهِ، وَمَنْ حُوسِبَ عُذِّبَ، قَالَتْ: أَلَيْسَ اللَّهُ يَقُولُ: فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا سورة الانشقاق آية 8، قَالَ: ذَاكُمُ الْعَرْضُ، يَا عَائِشَةُ، مَنْ نُوقِشَ الْحِسَابَ عُذِّبَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قرآن مجید کی سب سے سخت آیت کو جانتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ کون سی آیت ہے اے عائشہ!"، انہوں نے کہا: اللہ کا یہ فرمان «من يعمل سوءا يجز به» "جو شخص کوئی بھی برائی کرے گا اسے اس کا بدلہ دیا جائے گا" (سورۃ النساء: ۱۲۳)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عائشہ تمہیں معلوم نہیں جب کسی مومن کو کوئی مصیبت یا تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اس کے برے عمل کا بدلہ ہو جاتی ہے، البتہ جس سے محاسبہ ہو اس کو عذاب ہو گا"۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کیا اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرماتا ہے «فسوف يحاسب حسابا يسيرا» "اس کا حساب تو بڑی آسانی سے لیا جائے گا" (سورۃ الانشقاق: ۸)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس سے مراد صرف اعمال کی پیشی ہے، اے عائشہ! حساب کے سلسلے میں جس سے جرح کر لیا گیا عذاب میں دھر لیا گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۴۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم ۳۶ (۱۰۳)، وتفسیر القرآن ۱ (۴۹۳۹)، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا ۱۸ (۲۸۷۶)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۵ (۲۴۲۶)، وتفسیر القرآن ۷۵ (۳۳۳۷)، مسند احمد (۴/۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ عَرَفَ فِيهِ الْمَوْتَ، قَالَ: "قَدْ كُنْتُ أَنْهَاكَ عَنْ حُبِّ يَهُودَ"، قَالَ: فَقَدْ أَبْغَضَهُمْ أسْعَدُ بْنُ زُرَارَةَ فَمَهْ، فَلَمَّا مَاتَ أَتَاهُ ابْنُهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ قَدْ مَاتَ، فَأَعْطِنِي قَمِيصَكَ أُكَفِّنْهُ فِيهِ، فَنَزَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَهُ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کے مرض الموت میں اس کی عیادت کے لیے نکلے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس کی موت کو بھانپ لیا، فرمایا: "میں تجھے یہود کی دوستی سے منع کرتا تھا"، اس نے کہا: عبداللہ بن زرارہ نے ان سے بغض رکھا تو کیا پایا، جب عبداللہ بن ابی مر گیا تو اس کے لڑکے (عبداللہ) آپ کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! عبداللہ بن ابی مر گیا، آپ مجھے اپنی قمیص دے دیجئیے تاکہ اس میں میں اسے کفنا دوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی قمیص اتار کر دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۰۱) (حسن) (بیہقی نے دلائل النبوة (۵؍ ۲۸۵) میں ابن اسحاق کی زہری سے تحدیث نقل کی ہے، نیز قمیص کا جملہ صحیحین میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود ۸؍ ۴۱۰)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ: أَنَّ غُلَامًا مِنَ الْيَهُودِ كَانَ مَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ: "أَسْلِمْ، فَنَظَرَ إِلَى أَبِيهِ وَهُوَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَقَالَ لَهُ أَبُوهُ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ، فَأَسْلَمَ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يَقُولُ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْقَذَهُ بِي مِنَ النَّارِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا بیمار پڑا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس عیادت کے لیے آئے اور اس کے سرہانے بیٹھ گئے پھر اس سے فرمایا: "تم مسلمان ہو جاؤ"، اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اس کے سرہانے تھا تو اس سے اس کے باپ نے کہا: "ابوالقاسم ۱؎ کی اطاعت کرو"، تو وہ مسلمان ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کہتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے: "تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے اس کو میری وجہ سے آگ سے نجات دی ۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۷۹ (۱۳۵۶)، والمرضی ۱۱ (۵۶۵۷)، (تحفة الأشراف: ۲۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۷۵، ۲۷۰، ۲۸۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابوالقاسم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ہے۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ لڑکا جب باشعور ہو تو اس کا اسلام صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، لَيْسَ بِرَاكِبِ بَغْلٍ، وَلَا بِرْذَوْنٍ.
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی خچر اور گھوڑے پر سوار ہوئے میری عیادت کو تشریف لاتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المرضی ۱۶ (۵۶۶۴)، سنن الترمذی/ المناقب ۵۳ (۳۸۵۱)، (تحفة الأشراف: ۳۰۲۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفرائض ۲ (۱۶۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : بلکہ پا پیادہ تشریف لاتے تھے، کیونکہ اس میں زیادہ ثواب ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ رَوْحِ بْنِ خُلَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ دَلْهَمٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، وَعَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ مُحْتَسِبًا، بُوعِدَ مِنْ جَهَنَّمَ مَسِيرَةَ سَبْعِينَ خَرِيفًا". قُلْتُ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، وَمَا الْخَرِيفُ ؟ قَالَ: الْعَامُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَالَّذِي تَفَرَّدَ بِهِ الْبَصْرِيُّونَ مِنْهُ الْعِيَادَةُ، وَهُوَ مُتَوَضِّئٌ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اچھی طرح سے وضو کرے اور ثواب کی نیت سے اپنے مسلم بھائی کی عیادت کرے تو وہ دوزخ سے ستر «خریف» کی مسافت کی مقدار دور کر دیا جاتا ہے"، میں نے کہا! اے ابوحمزہ!«خریف» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: سال۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اہل بصرہ جن چیزوں میں منفرد ہیں ان میں بحالت وضو عیادت کا مسئلہ بھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۶۱) (ضعیف) (اس کے راوی فضل بن دلہم لین الحدیث ہیں )
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ يَعُودُ مَرِيضًا مُمْسِيًا، إِلَّا خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى يُصْبِحَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ، وَمَنْ أَتَاهُ مُصْبِحًا، خَرَجَ مَعَهُ سَبْعُونَ أَلْفَ مَلَكٍ يَسْتَغْفِرُونَ لَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَكَانَ لَهُ خَرِيفٌ فِي الْجَنَّةِ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جو شخص کسی بیمار کی دن کے اخیر حصے میں عیادت کرتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور فجر تک اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے، اور جو شخص دن کے ابتدائی حصے میں عیادت کے لیے نکلتا ہے اس کے ساتھ ستر ہزار فرشتے نکلتے ہیں اور شام تک اس کے لیے دعائے مغفرت کرتے ہیں، اور اس کے لیے جنت میں ایک باغ ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر الحدیث الآتي، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۱۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْعَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ، لَمْ يَذْكُرِ الْخَرِيفَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ مَنْصُورٌ، عَنِ الْحَكَمِ أَبِي حَفْصٍ، كَمَا رَوَاهُ شُعْبَةُ.
علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی معنی کی حدیث روایت کرتے ہیں لیکن انہوں نے اس میں «خریف» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے منصور نے حکم سے اسی طرح روایت کیا ہے جیسے شعبہ نے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲ (۱۴۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۱۱)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۲ (۹۶۹)، مسند احمد (۱/۸۱، ۱۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: وَكَانَ نَافِعٌ غُلَامُ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: جَاءَ أَبُو مُوسَى إِلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ يَعُودُهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَسَاقَ مَعْنَى حَدِيثِ شُعْبَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أُسْنِدَ هَذَا عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ صَحِيحٍ.
ابوجعفر عبداللہ بن نافع سے روایت ہے، راوی کہتے ہیں اور نافع حسن بن علی کے غلام تھے وہ کہتے ہیں: ابوموسیٰ حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی عیادت کے لیے آئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: راوی نے اس کے بعد شعبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث بواسطہ علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ضعیف طریق سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۱۱) (صحیح مرفوع)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا أُصِيبَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، رَمَاهُ رَجُلٌ فِي الْأَكْحَلِ، "فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ، فَيَعُودَهُ مِنْ قَرِيبٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب جنگ خندق کے دن سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ان کے بازو میں ایک شخص نے تیر مارا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے مسجد میں ایک خیمہ نصب کر دیا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریب سے ان کی عیادت کر سکیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۷۷ (۴۶۳)، والمغازي ۳۰ (۴۱۲۲)، صحیح مسلم/الجھاد ۲۲ (۱۷۶۹)، سنن النسائی/المساجد ۱۸ (۷۱۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵۶، ۱۳۱، ۲۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: "عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ وَجَعٍ كَانَ بِعَيْنِي".
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ کے درد میں میری عیادت کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۶۹۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۷۵) (حسن)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا سَمِعْتُمْ بِهِ بِأَرْضٍ فَلَا تُقْدِمُوا عَلَيْهِ، وَإِذَا وَقَعَ بِأَرْضٍ وَأَنْتُمْ بِهَا فَلَا تَخْرُجُوا فِرَارًا مِنْهُ"يَعْنِي الطَّاعُونَ.
عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم کسی زمین کے بارے میں سنو کہ وہاں طاعون ۱؎ پھیلا ہوا ہے تو تم وہاں نہ جاؤ ۲؎، اور جس سر زمین میں وہ پھیل جائے اور تم وہاں ہو تو طاعون سے بچنے کے خیال سے وہاں سے بھاگ کر (کہیں اور) نہ جاؤ ۳؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطب ۳۰ (۵۷۲۹)، والحیل ۱۳ (۶۹۷۳)، صحیح مسلم/السلام ۳۲ (۲۲۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۷۲۱)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجامع ۷ (۲۲)، مسند احمد (۱/۱۹۲، ۱۹۳، ۱۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : طاعون ایک وبائی بیماری ہے (جلد میں پھوڑے کی طرح خطرناک ورم ہو کر انسان مر جاتا ہے)، اکثر بغل میں یا پیٹھ میں نکلتا ہے۔ ۲؎ : کیونکہ طاعون زدہ علاقہ یا بستی میں جانا اپنے آپ کو موت کے سپرد کرنا اور ہلاکت میں ڈالنا ہے، جبکہ اللہ رب العزت کا فرمان ہے: «ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة» (سورۃ البقرۃ: ۱۹۵) " اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو" ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ "دشمن سے مدبھیڑ کی تمنا نہ کرو " اور اس میں طاعون بھی داخل ہے۔ ۳؎ : طاعون زدہ زمین سے نہ نکلنے کا مقصد یہ ہے کہ پورا پورا توکل اللہ رب العزت پر ثابت ہو جائے، اور اللہ تعالی کے قضاء و قدر کو پورے طور سے تسلیم کر لیا جائے، کیونکہ وہاں سے بھاگنا اللہ کی تقدیر سے بھاگنا ہے، یا یہ کہ اگر وہ اس سر زمین سے نکل جائے اور جہاں وہ پناہ لے وہاں کے لوگوں کو طاعون آ پکڑے، پھر یہ لوگوں کی نظر میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنے، حالانکہ اللہ رب العزت نے ان لوگوں کے حق میں بھی اس بیماری کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے، اس بناء پر اس شہر سے یا جگہ سے نکلنے سے منع کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ، عَنْ عَائِشَةَ بِنْتِ سَعْدٍ، أَنَّ أَبَاهَا، قَالَ: اشْتَكَيْتُ بِمَكَّةَ، فَجَاءَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، وَوَضَعَ يَدَهُ عَلَى جَبْهَتِي، ثُمَّ مَسَحَ صَدْرِي وَبَطْنِي، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ اشْفِ سَعْدًا، وَأَتْمِمْ لَهُ هِجْرَتَهُ".
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا میں مکے میں بیمار ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پیشانی پر رکھا پھر میرے سینے اور پیٹ پر ہاتھ پھیرا پھر دعا کی: «اللهم اشف سعدا وأتمم له هجرته» "اے اللہ! سعد کو شفاء دے اور ان کی ہجرت کو مکمل فرما ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ المرضی ۱۳ (۵۶۵۹)، سنن النسائی/ الوصایا ۳ (۳۶۵۶)، (تحفة الأشراف: ۳۹۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مکہ سے مدینہ پہنچا دے ایسا نہ ہو کہ مکہ ہی میں انتقال ہوجائے اور ہجرت ناقص رہ جائے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَطْعِمُوا الْجَائِعَ، وَعُودُوا الْمَرِيضَ، وَفُكُّوا الْعَانِيَ". قَالَ سُفْيَانُ: وَالْعَانِي: الْأَسِيرُ.
ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بھوکے کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور(مسلمان) قیدی کو (کافروں کی) قید سے آزاد کراؤ"۔ سفیان کہتے ہیں: «العاني» سے مرا «داسیر» (قیدی) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجھاد ۱۷۱ (۳۰۴۶)، النکاح ۷۱ (۵۱۷۴)، الأطعمة ۱ (۵۳۷۳)، الطب ۴ (۵۶۴۹)، الأحکام ۲۳ (۷۱۷۳)، (تحفة الأشراف: ۹۰۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۴)، سنن الدارمی/السیر ۲۷ (۲۵۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَبُو خَالِدٍ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ عَادَ مَرِيضًا، لَمْ يَحْضُرْ أَجَلُهُ فَقَالَ عِنْدَهُ سَبْعَ مِرَارٍ: أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ، رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، أَنْ يَشْفِيَكَ، إِلَّا عَافَاهُ اللَّهُ مِنْ ذَلِكَ الْمَرَضِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی شخص کسی ایسے شخص کی عیادت کرے جس کی موت کا وقت ابھی قریب نہ آیا ہو اور اس کے پاس سات مرتبہ یہ دعا پڑھے: «أسأل الله العظيم رب العرش العظيم» "میں عظمت والے اللہ جو عرش عظیم کا مالک ہے سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو شفاء دے" تو اللہ اسے اس مرض سے شفاء دے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الطب ۳۲ (۲۰۸۳)، (تحفة الأشراف: ۵۶۲۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۳۹، ۲۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ حُيَيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنِ ابْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا جَاءَ الرَّجُلُ يَعُودُ مَرِيضًا، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ اشْفِ عَبْدَكَ، يَنْكَأُ لَكَ عَدُوًّا، أَوْ يَمْشِي لَكَ إِلَى جَنَازَةٍ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَالَ ابْنُ السَّرْحِ: إِلَى صَلَاةٍ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی بیمار کے پاس عیادت کے لیے جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ کہے: «اللهم اشف عبدك ينكأ لك عدوا أو يمشي لك إلى جنازة» اے اللہ! اپنے بندے کو شفاء دے تاکہ تیری راہ میں دشمن سے قتال و خوں ریزی کرے یا تیری خوشی کی خاطر جنازے کے ساتھ جائے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابن سرح نے اپنی روایت میں «إلى جنازة» کے بجائے «إلى صلاة» کہا ہے یعنی نماز جنازہ پڑھنے جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۸۸۶۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَدْعُوَنَّ أَحَدُكُمْ بِالْمَوْتِ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ، وَلَكِنْ لِيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی کسی پریشانی سے دوچار ہو جانے کی وجہ سے (گھبرا کر) موت کی دعا ہرگز نہ کرے لیکن اگر کہے تو یہ کہے: «اللهم أحيني ما كانت الحياة خيرا لي وتوفني إذا كانت الوفاة خيرا لي» اے اللہ! تو مجھ کو زندہ رکھ جب تک کہ زندگی میرے لیے بہتر ہو، اور مجھے موت دیدے جب مر جانا ہی میرے حق میں بہتر ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۲ (۱۸۲۲)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۳۱ (۴۲۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المرضی ۱۹ (۵۶۷۲)، والدعوات ۳۰ (۶۳۵۱)، صحیح مسلم/الذکر ۴ (۲۶۸۰)، سنن الترمذی/الجنائز ۳ (۹۷۱)، مسند احمد (۳/۱۰۱، ۱۰۴، ۱۶۳، ۱۷۱، ۱۹۵، ۲۰۸، ۲۴۷، ۲۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ،حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ"، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی ہرگز موت کی تمنا نہ کرے"، پھر راوی نے اسی کے مثل ذکر کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۱۲۷۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ تَمِيمِ بْنِ سَلَمَةَ، أَوْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ خَالِدٍ السُّلَمِيِّ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ ِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مَرَّةً عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ مَرَّةً عَنْ عُبَيْدٍ، قَالَ: "مَوْتُ الْفَجْأَةِ أَخْذَةُ أَسِفٍ".
صحابی رسول عبید بن خالد سلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (راوی نے ایک بار نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً، پھر ایک بار عبید سے موقوفاً روایت کیا) : "اچانک موت افسوس کی پکڑ ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۹۷۴۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۲۴، ۴/۲۱۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اللہ کے غضب کی علامت ہے، کیونکہ اس میں بندے کو مہلت نہیں ملتی کہ وہ اپنے سفر آخرت کا سامان درست کر سکے، یعنی توبہ و استغفار، وصیت یا کوئی عمل صالح کر سکے۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ عَتِيكِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَتِيكٍ وَهُوَ جَدُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو أُمِّهِ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَمَّهُ جَابِرَ بْنَ عَتِيكٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ يَعُودُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ ثَابِتٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ غُلِبَ، فَصَاحَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يُجِبْهُ، فَاسْتَرْجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: "غُلِبْنَا عَلَيْكَ يَا أَبَا الرَّبِيعِ، فَصَاحَ النِّسْوَةُ وَبَكَيْنَ، فَجَعَلَ ابْنُ عَتِيكٍ يُسَكِّتُهُنَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: دَعْهُنَّ، فَإِذَا وَجَبَ فَلَا تَبْكِيَنَّ بَاكِيَةٌ، قَالُوا: وَمَا الْوُجُوبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: الْمَوْتُ، قَالَتِ ابْنَتُهُ: وَاللَّهِ إِنْ كُنْتُ لَأَرْجُو أَنْ تَكُونَ شَهِيدًا، فَإِنَّكَ كُنْتَ قَدْ قَضَيْتَ جِهَازَكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَوْقَعَ أَجْرَهُ عَلَى قَدْرِ نِيَّتِهِ، وَمَا تَعُدُّونَ الشَّهَادَةَ ؟ قَالُوا: الْقَتْلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الشَّهَادَةُ سَبْعٌ، سِوَى الْقَتْلِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ: الْمَطْعُونُ شَهِيدٌ، وَالْغَرِقُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ ذَاتِ الْجَنْبِ شَهِيدٌ، وَالْمَبْطُونُ شَهِيدٌ، وَصَاحِبُ الْحَرِيقِ شَهِيدٌ، وَالَّذِي يَمُوتُ تَحْتَ الْهَدْمِ شَهِيدٌ، وَالْمَرْأَةُ تَمُوتُ بِجُمْعٍ شَهِيدٌ".
جابر بن عتیک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بیمار پرسی کے لیے آئے تو ان کو بیہوش پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکارا تو انہوں نے آپ کو جواب نہیں دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «إنا لله وإنا إليه راجعون» پڑھا، اور فرمایا: "اے ابوربیع! تمہارے معاملے میں قضاء ہمیں مغلوب کر گئی"، یہ سن کر عورتیں چیخ پڑیں، اور رونے لگیں تو ابن عتیک رضی اللہ عنہ انہیں خاموش کرانے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھوڑ دو (رونے دو انہیں) جب واجب ہو جائے تو کوئی رونے والی نہ روئے"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول: واجب ہونے سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "موت"، عبداللہ بن ثابت کی بیٹی کہنے لگیں: میں پوری امید رکھتی تھی کہ آپ شہید ہوں گے کیونکہ آپ نے جہاد میں حصہ لینے کی پوری تیاری کر لی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ انہیں ان کی نیت کے موافق اجر و ثواب دے چکا، تم لوگ شہادت کسے سمجھتے ہو؟" لوگوں نے کہا: اللہ کی راہ میں قتل ہو جانا شہادت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قتل فی سبیل اللہ کے علاوہ بھی سات شہادتیں ہیں: طاعون میں مر جانے والا شہید ہے، ڈوب کر مر جانے والا شہید ہے، "ذات الجنب"(نمونیہ) سے مر جانے والا شہید ہے، پیٹ کی بیماری (دستوں وغیرہ) سے مر جانے والا شہید ہے، جل کر مر جانے والا شہید ہے، جو دیوار گرنے سے مر جائے شہید ہے، اور عورت جو حالت حمل میں ہو اور مر جائے تو وہ بھی شہید ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۱۴ (۱۸۴۷)، الجہاد ۴۸ (۳۱۹۶)، سنن ابن ماجہ/الجھاد ۱۷ (۲۸۰۳)، (تحفة الأشراف: ۳۱۷۳)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۱۲ (۳۶)، مسند احمد (۵/۴۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ جَارِيَةَ الثَّقَفِيُّ حَلِيفُ بَنِي زُهْرَةَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: ابْتَاعَ بَنُو الْحَارِثِ بْنِ عَامِرِ بْنِ نَوْفَلٍ خُبَيْبًا، وَكَانَ خُبَيْبٌ هُوَ قَتَلَ الْحَارِثَ بْنَ عَامِرٍ يَوْمَ بَدْرٍ، فَلَبِثَ خُبَيْبٌ عِنْدَهُمْ أَسِيرًا. حتَّى أَجْمَعُوا لِقَتْلِهِ، فَاسْتَعَارَ مِنَ ابْنَةِ الْحَارِثِ مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا، فَأَعَارَتْهُ، فَدَرَجَ بُنَيٌّ لَهَا وَهِيَ غَافِلَةٌ. حتَّى أَتَتْهُ، فَوَجَدَتْهُ مُخْلِيًا وَهُوَ عَلَى فَخْذِهِ، وَالْمُوسَى بِيَدِهِ، فَفَزِعَتْ فَزْعَةً عَرَفَهَا فِيهَا، فَقَالَ: أَتَخْشَيْنَ أَنْ أَقْتُلَهُ ؟ مَا كُنْتُ لِأَفْعَلَ ذَلِكَ. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذِهِ الْقِصَّةَ شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عِيَاضٍ، أَنَّ ابْنَةَ الْحَارِثِ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهُمْ حِينَ اجْتَمَعُوا يَعْنِي لِقَتْلِهِ اسْتَعَارَ مِنْهَا مُوسًى يَسْتَحِدُّ بِهَا، فَأَعَارَتْهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حارث بن عامر بن نوفل کے بیٹوں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو خریدا ۱؎ اور خبیب ہی تھے جنہوں نے حارث بن عامر کو جنگ بدر میں قتل کیا تھا، تو خبیب ان کے پاس قید رہے (جب حرمت کے مہینے ختم ہو گئے) تو وہ سب ان کے قتل کے لیے جمع ہوئے، خبیب بن عدی نے حارث کی بیٹی سے استرہ طلب کیا جس سے وہ ناف کے نیچے کے بال کی صفائی کر لیں، اس نے انہیں استرہ دے دیا، اسی حالت میں اس کا ایک چھوٹا بچہ خبیب کے پاس جا پہنچا وہ بےخبر تھی یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آئی تو دیکھا کہ وہ اکیلے ہیں، بچہ ان کی ران پر بیٹھا ہوا ہے، اور استرہ ان کے ہاتھ میں ہے، یہ دیکھ کر وہ سہم گئی اور ایسی گھبرائی کہ خبیب بھانپ گئے اور کہنے لگے: کیا تم ڈر رہی ہو کہ میں اسے قتل کر دوں گا، میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا ۲؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس قصہ کو شعیب بن ابوحمزہ نے زہری سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھے عبیداللہ بن عیاض نے خبر دی ہے کہ حارث کی بیٹی نے انہیں بتایا کہ جب لوگوں نے خبیب کے قتل کا متفقہ فیصلہ کر لیا تو انہوں نے موئے زیر ناف صاف کرنے کے لیے اس سے استرہ مانگا تو اس نے انہیں دے دیا ۳؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۶۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سو اونٹ کے بدلہ میں خریدا تاکہ انہیں قتل کر کے اپنے باپ کے قتل کا بدلہ لیں۔ ۲؎ : کیونکہ اسلام میں کسی بے گناہ بچے کا قتل جائز نہیں۔ ۳؎ : پھر ان کافروں نے خبیب رضی اللہ عنہ کو تنعیم میں سولی دے دی، جو حدود حرم سے باہر ہے، خبیب نے اتنی مہلت مانگی کہ وہ دو رکعت ادا کر سکیں تو کافروں نے انہیں مہلت دے دی، آپ نے دو رکعت ادا کی پھر یہ شعر پڑھے: «فلست أبالي حين أقتل مسلمًا على أي جنب كان في الله مصرعي وذلك في ذات الإله وإن يشأ يبارك على أوصال شلو ممزع» (جب میں مسلمان ہونے کی حالت میں مارا جاؤں تو مجھے اس کی پرواہ نہیں کہ کس پہلو پر ہوں۔ میرا یہ قتل اللہ کے لئے ہے، اگر اللہ چاہے تو پارہ پارہ عضو کے جوڑ جوڑ میں برکت دے دے۔)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ قَبْلَ مَوْتِهِ بِثَلَاثٍ: قَالَ: "لَا يَمُوتُ أَحَدُكُمْ، إِلَّا وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات سے تین دن پہلے فرماتے ہوئے سنا: "تم میں سے ہر شخص اس حال میں مرے کہ وہ اللہ سے اچھی امید رکھتا ہو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمھا ۱۹ (۲۸۷۷)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۱۴ (۴۱۶۷)، (تحفة الأشراف: ۲۲۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۱۵، ۳۲۵، ۳۳۰، ۳۳۴، ۳۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کہ اللہ اس کی غلطیوں کو معاف کرے گا اور اسے اپنی رحمت سے نوازے گا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ لَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ دَعَا بِثِيَابٍ جُدُدٍ، فَلَبِسَهَا، ثُمَّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِنَّ الْمَيِّتَ يُبْعَثُ فِي ثِيَابِهِ الَّتِي يَمُوتُ فِيهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ان کی موت کا وقت قریب آیا تو انہوں نے نئے کپڑے منگوا کر پہنے اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "مردہ اپنے انہیں کپڑوں میں (قیامت میں) اٹھایا جائے گا جن میں وہ مرے گا۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۴۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مرتے وقت اس کے بدن پر جو کپڑے ہوتے ہیں، بعض لوگوں نے کہا کہ «ثیاب» سے اعمال مراد ہیں نہ کہ کپڑے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا حَضَرْتُمُ الْمَيِّتَ، فَقُولُوا خَيْرًا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو سَلَمَةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَقُولُ ؟ قَالَ: قُولِي: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، وَأَعْقِبْنَا عُقْبَى صَالِحَةً". قَالَتْ: فَأَعْقَبَنِي اللَّهُ تَعَالَى بِهِ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم کسی مرنے والے شخص کے پاس جاؤ تو بھلی بات کہو ۱؎ اس لیے کہ فرشتے تمہارے کہے پر آمین کہتے ہیں"، تو جب ابوسلمہ رضی اللہ عنہ (ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے شوہر) انتقال کر گئے تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں کیا کہوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم کہو: «اللهم اغفر له وأعقبنا عقبى صالحة» "اے اللہ! ان کو بخش دے اور مجھے ان کا نعم البدل عطا فرما"۔ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو مجھے اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳ (۹۱۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۷ (۹۷۷)، سنن النسائی/الجنائز ۳ (۱۸۲۴)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴ (۱۴۴۷)، ۵۵ (۱۵۹۸)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۶۲، ۱۸۲۴۷)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۱۴ (۴۲)، مسند احمد (۶/۲۹۱، ۳۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دعائے مغفرت وغیرہ کرو۔
حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمِسْمَعِيُّ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، دَخَلَ الْجَنَّةَ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا آخری کلام «لا إله إلا الله» ہو گا وہ جنت میں داخل ہو گا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۳۳، ۲۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس لئے مرتے وقت مرنے والے کے قریب «لا إله إلا الله» کہنا چاہئے تاکہ اس کی زبان پر بھی یہ کلمہ جاری ہو جائے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عُمَارَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَقِّنُوا مَوْتَاكُمْ قَوْلَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے مرنے والے لوگوں کو کلمہ «لا إله إلا الله» کی تلقین کرو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۱ (۹۱۶)، سنن الترمذی/الجنائز ۷ (۹۷۶)، سنن النسائی/الجنائز ۴ (۱۸۲۷)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳ (۱۴۴۵)، (تحفة الأشراف: ۴۴۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس کے پاس یہ کلمہ پڑھ کر اسے یاد دلاؤ کہ وہ بھی اپنی زبان پر اسے جاری کر لے اور دخول جنت کا مستحق بن جائے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ حَبِيبٍ أَبُو مَرْوَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْقَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَبِي سَلَمَةَ، وَقَدْ شَقَّ بَصَرَهُ، فَأَغْمَضَهُ، فَصَيَّحَ نَاسٌ مِنْ أَهْلِهِ، فَقَالَ: "لَا تَدْعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ يُؤَمِّنُونَ عَلَى مَا تَقُولُونَ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِي سَلَمَةَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ رَبَّ الْعَالَمِينَ، اللَّهُمَّ افْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ، وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَتَغْمِيضُ الْمَيِّتِ بَعْدَ خُرُوجِ الرُّوحِ، سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ الْمُقْرِيَّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مَيْسَرَةَ رَجُلًا عَابِدًا، يَقُولُ: غَمَّضْتُ جَعْفَرًا الْمُعَلِّمَ، وَكَانَ رَجُلًا عَابِدًا فِي حَالَةِ الْمَوْتِ، فَرَأَيْتُهُ فِي مَنَامِي لَيْلَةَ مَاتَ، يَقُولُ: أَعْظَمُ مَا كَانَ عَلَيَّ، تَغْمِيضُكَ لِي قَبْلَ أَنْ أَمُوتَ.
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے ان کی آنکھیں کھلی رہ گئی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بند کر دیا (یہ دیکھ کر) ان کے خاندان کے کچھ لوگ رونے پیٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سب اپنے حق میں صرف خیر کی دعا کرو کیونکہ جو کچھ تم کہتے ہو، فرشتے اس پر آمین کہتے ہیں"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم اغفر لأبي سلمة وارفع درجته في المهديين واخلفه في عقبه في الغابرين واغفر لنا وله رب العالمين اللهم افسح له في قبره ونور له فيه» "اے اللہ! ابوسلمہ کو بخش دے، انہیں ہدایت یافتہ لوگوں میں شامل فرما کر ان کے درجات بلند فرما اور باقی ماندہ لوگوں میں ان کا اچھا جانشین بنا، اے سارے جہان کے پالنہار! ہمیں اور انہیں (سبھی کو) بخش دے، ان کے لیے قبر میں کشادگی فرما اور ان کی قبر میں روشنی کر دے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «تغميض الميت» (آنکھ بند کرنے کا عمل) روح نکلنے کے بعد ہو گا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے محمد بن محمد بن نعمان مقری سے سنا وہ کہتے ہیں: میں نے ابومیسرہ سے جو ایک عابد شخص تھے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے جعفر معلم کی آنکھ جو ایک عابد آدمی تھے مرتے وقت ڈھانپ دی تو ان کے انتقال والی رات میں خواب میں دیکھا وہ کہہ رہے تھے کہ تمہارا میرے مرنے سے پہلے میری آنکھ کو بند کر دینا میرے لیے باعث مشقت و تکلیف رہی (یعنی آنکھ مرنے سے پہلے بند نہیں کرنی چاہیئے) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الجنائز ۴ (۹۲۰)، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ۶ (۱۴۵۴)، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۰۵، ۱۹۶۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَصَابَتْ أَحَدَكُمْ مُصِيبَةٌ، فَلْيَقُلْ: إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ، اللَّهُمَّ عِنْدَكَ أَحْتَسِبُ مُصِيبَتِي، فَآجِرْنِي فِيهَا، وَأَبْدِلْ لِي خَيْرًا مِنْهَا".
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت پہنچے (تھوڑی ہو یا زیادہ) تو اسے چاہیئے کہ: «إنا لله وإنا إليه راجعون» ، «اللهم عندك أحتسب مصيبتي فآجرني فيها وأبدل لي خيرا منها»بیشک ہم اللہ کے ہیں اور لوٹ کر بھی اسی کے پاس جانے والے ہیں، اے اللہ! میں تیرے ہی پاس اپنی مصیبت کو پیش کرتا ہوں تو مجھے اس مصیبت کے بدلے جو مجھے پہنچ چکی ہے ثواب عطا کر اور اس مصیبت کو خیر سے بدل دے، کہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۲۰۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۱۷) (ضعیف) (ملاحظہ ہو : سلسلة الاحادیث الضعيفة، للالبانی ۲۳۸۲)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"سُجِّيَ فِي ثَوْبِ حِبَرَةٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو (وفات کے بعد) یمنی کپڑے سے ڈھانپ دیا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/اللباس ۱۸(۵۸۱۴)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۴ (۹۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۶۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۸۹، ۲۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَكِّيٍّ الْمَرْوَزِيُّ، المعنى قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ وَلَيْسَ بِالنَّهْدِيِّ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اقْرَءُوا يس عَلَى مَوْتَاكُمْ". وَهَذَا لَفْظُ ابْنِ الْعَلَاءِ.
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنے مردوں پر سورۃ، يس، پڑھو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴ (۱۴۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۷۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۶،۲۷) (ضعیف) (اس کے راوی ابو عثمان اور ان کے والد دونوں مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مرنے کے قریب لوگوں پر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: لَمَّا قُتِلَ زَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرٌ،وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْحُزْنُ، وَذَكَرَ الْقِصَّةَ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جب زید بن حارثہ، جعفر بن ابوطالب اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہم قتل کر دئیے گئے (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ملی) تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں بیٹھ گئے، آپ کے چہرے سے غم ٹپک رہا تھا، اور واقعہ کی تفصیل بتائی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۰ (۱۲۹۹)، ۴۵ (۱۳۰۵)، والمغازي ۴۴ (۴۲۶۳)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۰ (۹۳۵)، سنن النسائی/الجنائز ۱۴ (۱۸۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۳۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵۹، ۲۷۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُفَضَّلُ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ سَيْفٍ الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: قَبَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي مَيِّتًا، فَلَمَّا فَرَغْنَا، انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَانْصَرَفْنَا مَعَهُ، فَلَمَّا حَاذَى بَابَهُ وَقَفَ، فَإِذَا نَحْنُ بِامْرَأَةٍ مُقْبِلَةٍ، قَالَ: أَظُنُّهُ عَرَفَهَا، فَلَمَّا ذَهَبَتْ، إِذَا هِيَ فَاطِمَةُ عَلَيْهَا السَّلَام، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا أَخْرَجَكِ يَا فَاطِمَةُ مِنْ بَيْتِكِ ؟ فَقَالَتْ: أَتَيْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَهْلَ هَذَا الْبَيْتِ، فَرَحَّمْتُ إِلَيْهِمْ مَيِّتَهُمْ، أَوْ عَزَّيْتُهُمْ بِهِ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَلَعَلَّكِ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى، قَالَتْ: مَعَاذَ اللَّهِ، وَقَدْ سَمِعْتُكَ تَذْكُرُ فِيهَا مَا تَذْكُرُ، قَالَ: لَوْ بَلَغْتِ مَعَهُمُ الْكُدَى"فَذَكَرَ تَشْدِيدًا فِي ذَلِكَ، فَسَأَلْتُ رَبِيعَةَ عَنِ الْكُدَى، فَقَالَ: الْقُبُورُ فِيمَا أَحْسَبُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ایک میت کو دفنایا، جب ہم تدفین سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹے، ہم بھی آپ کے ساتھ لوٹے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم میت کے دروازے کے سامنے آئے تو رک گئے، اچانک ہم نے دیکھا کہ ایک عورت چلی آ رہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو پہچان لیا، جب وہ چلی گئیں تو معلوم ہوا کہ وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا:"فاطمہ! تم اپنے گھر سے کیوں نکلی؟"، انہوں نے کہا: "اللہ کے رسول! میں اس گھر والوں کے پاس آئی تھی تاکہ میں ان کی میت کے لیے اللہ سے رحم کی دعا کروں یا ان کی تعزیت کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "شاید تم ان کے ساتھ کُدی (مکہ میں ایک جگہ ہے) گئی تھی"، انہوں نے کہا: معاذاللہ! میں تو اس بارے میں آپ کا بیان سن چکی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم ان کے ساتھ کدی گئی ہوتی تو میں ایسا ایسا کرتا"، (اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت رویے کا اظہار فرمایا) ۔ راوی کہتے ہیں: میں نے ربیعہ سے کدی کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: جیسا کہ میں سمجھ رہا ہوں اس سے قبریں مراد ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۲۷ (۱۸۸۱)، (تحفة الأشراف: ۸۸۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۶۹، ۲۲۳) (ضعیف) (اس کے راوی''ربیعہ '' کی ثقاہت میں بہت کلام ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: أَتَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ تَبْكِي عَلَى صَبِيٍّ لَهَا، فَقَالَ لَهَا"اتَّقِي اللَّهَ، وَاصْبِرِي، فَقَالَتْ: وَمَا تُبَالِي أَنْتَ بِمُصِيبَتِي ؟ فَقِيلَ لَهَا: هَذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَتْهُ، فَلَمْ تَجِدْ عَلَى بَابِهِ بَوَّابِينَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَعْرِفْكَ. فَقَالَ: إِنَّمَا الصَّبْرُ عِنْدَ الصَّدْمَةِ الْأُولَى، أَوْ عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسی عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے بچے کی موت کے غم میں (بآواز)رو رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "اللہ سے ڈرو اور صبر کرو ۱؎"، اس عورت نے کہا: آپ کو میری مصیبت کا کیا پتا۲؎؟، تو اس سے کہا گیا: یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں (جب اس کو اس بات کی خبر ہوئی) تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، آپ کے دروازے پہ اسے کوئی دربان نہیں ملا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صبر وہی ہے جو پہلے صدمہ کے وقت ہو" یا فرمایا: "صبر وہی ہے جو صدمہ کے شروع میں ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۳۱ (۱۲۸۳)، ۴۲ (۱۳۰۲)، الأحکام ۱۱ (۷۱۵۴)، صحیح مسلم/الجنائز ۸ (۹۲۶)، سنن النسائی/الجنائز ۲۲ (۱۸۷۰)، سنن الترمذی/ الجنائز ۱۳ (۹۸۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۵ (۱۵۹۶)، (تحفة الأشراف: ۴۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۳۰، ۱۴۳، ۲۱۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی نوحہ مت کر ورنہ اسے عذاب دیا جائے گا۔ ۲؎ : کہ یہ میرے لئے کتنی بڑی مصیبت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عُثْمَانَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ: أَنَّ ابْنَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَيْهِ، وَأَنَا مَعَهُ، وَسَعْدٌ، وَأَحْسَبُ أُبَيًّا أَنَّ ابْنِي أَوْ بِنْتِي قَدْ حُضِرَ، فَاشْهَدْنَا، فَأَرْسَلَ يُقْرِئُ السَّلَامَ، فَقَالَ: قُلْ"لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَمَا أَعْطَى، وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ إِلَى أَجَلٍ، فَأَرْسَلَتْ تُقْسِمُ عَلَيْهِ، فَأَتَاهَا، فَوُضِعَ الصَّبِيُّ فِي حِجْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَفْسُهُ تَقَعْقَعُ، فَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ سَعْدٌ: مَا هَذَا ؟ قَالَ: إِنَّهَا رَحْمَةٌ وَضَعَهَا اللَّهُ فِي قُلُوبِ مَنْ يَشَاءُ، وَإِنَّمَا يَرْحَمُ اللَّهُ مِنْ عِبَادِهِ الرُّحَمَاءَ".
اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) نے آپ کو یہ پیغام دے کر بلا بھیجا کہ میرے بیٹے یا بیٹی کے موت کا وقت قریب ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے، اس وقت میں اور سعد اور میرا خیال ہے کہ ابی بھی آپ کے ساتھ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواباً) سلام کہلا بھیجا، اور فرمایا: "ان سے (جا کر) کہو کہ اللہ ہی کے لیے ہے جو چیز کہ وہ لے، اور اسی کی ہے جو چیز کہ وہ دے، ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے"۔ پھر زینب رضی اللہ عنہا نے دوبارہ بلا بھیجا اور قسم دے کر کہلایا کہ آپ ضرور تشریف لائیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، بچہ آپ کی گود میں رکھا گیا، اس کی سانس تیز تیز چل رہی تھی تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں آنکھیں بہ پڑیں، سعد نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ رحمت ہے، اللہ جس کے دل میں چاہتا ہے اسے ڈال دیتا ہے، اور اللہ انہیں بندوں پر رحم کرتا ہے جو دوسروں کے لیے رحم دل ہوتے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۳۲ (۱۲۸۴)، والمرضی ۹ (۵۶۵۵)، والقدر ۴ (۶۶۰۲)، والأیمان والنذور ۹ (۶۶۵۵)، والتوحید ۲ (۷۳۷۷)، ۲۵ (۷۴۴۸)، صحیح مسلم/الجنائز ۶ (۹۲۳)، سنن النسائی/الکبري الجنائز ۲۲ (۱۹۶۹)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۳ (۱۵۸۸)، (تحفة الأشراف: ۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۲۰۴، ۲۰۶، ۲۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "وُلِدَ لِي اللَّيْلَةَ غُلَامٌ، فَسَمَّيْتُهُ بِاسْمِ أَبِي إِبْرَاهِيمَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ أَنَسٌ: لَقَدْ رَأَيْتُهُ يَكِيدُ بِنَفْسِهِ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَمَعَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: تَدْمَعُ الْعَيْنُ، وَيَحْزَنُ الْقَلْبُ، وَلَا نَقُولُ إِلَّا مَا يَرْضَى رَبُّنَا، إِنَّا بِكَ يَا إِبْرَاهِيمُ لَمَحْزُونُونَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آج رات میرے یہاں بچہ پیدا ہوا، میں نے اس کا نام اپنے والد ابراہیم کے نام پر رکھا"، اس کے بعد راوی نے پوری حدیث بیان کی، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے اس بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا دیکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ نے فرمایا: "آنکھ آنسو بہا رہی ہے، دل غمگین ہے ۱؎، اور ہم وہی کہہ رہے ہیں جو ہمارے رب کو پسند آئے، اے ابراہیم! ہم تمہاری جدائی سے غمگین ہیں ۲؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۳ (۱۳۰۳)، صحیح مسلم/الفضائل ۱۵ (۲۳۱۵)، (تحفة الأشراف: ۴۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ آنکھ سے آنسو کا نکلنا اور غمزدہ ہونا صبر کے منافی نہیں بلکہ یہ رحم دلی کی نشانی ہے، البتہ نوحہ اور شکوہ کرنا صبر کے منافی اور حرام ہے۔ ۲؎ : ابراہیم ماریہ قبطیہ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَانَا عَنِ النِّيَاحَةِ".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نوحہ کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۵ (۱۳۰۶)، والأحکام ۴۹ (۷۲۱۵)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۰ (۹۳۶)، سنن النسائی/البیعة ۱۸ (۴۱۵۸)، مسند احمد (۶/۴۰۷، ۴۰۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : میت پر آواز کے ساتھ رونے کو نوحہ کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّائِحَةَ وَالْمُسْتَمِعَةَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نوحہ کرنے والی اور نوحہ (دلچسپی سے) سننے والی پر لعنت فرمائی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۱۹۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۶۵) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوة: محمد، ان کے والد اور دادا سب ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ عَبْدَةَ، وأبي معاوية، المعني عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَقَالَتْ: وَهِلَ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ ؟ إِنَّمَا مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَبْرٍ، فَقَالَ: إِنَّ صَاحِبَ هَذَا لَيُعَذَّبُ، وَأَهْلُهُ يَبْكُونَ عَلَيْهِ". ثُمَّ قَرَأَتْ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164. قَالَ عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ: عَلَى قَبْرِ يَهُودِيٍّ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے" ۱؎، ابن عمر رضی اللہ عنہما کی اس بات کا ذکر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا گیا تو انہوں نے کہا: ان سے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بھول ہوئی ہے، سچ یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قبر کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس قبر والے کو تو عذاب ہو رہا ہے اور اس کے گھر والے ہیں کہ اس پر رو رہے ہیں"، پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے آیت «ولا تزر وازرة وزر أخرى» "کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا" (سورۃ الإسراء: ۱۵) پڑھی۔ ابومعاویہ کی روایت میں «على قبر» کے بجائے «على قبر يهودي» ہے، یعنی ایک یہودی کے قبر کے پاس سے گزر ہوا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۹ (۹۳۱)، سنن النسائی/الجنائز ۱۵ (۱۸۵۶)، (تحفة الأشراف: ۷۳۲۴، ۱۷۰۶۹، ۱۷۲۲۶)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المغازي ۸ (۳۹۷۸)، مسند احمد (۲/۳۸، ۶/۳۹، ۵۷، ۹۵، ۲۰۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ» میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جاتا ہے، حالاں کہ رونا یا نوحہ کرنا بذات خود میت کا عمل نہیں ہے، پھر غیر کے عمل پر اسے عذاب دیا جانا باعث تعجب ہے، جب کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے «ولا تزر وازرة وزر أخرى» " کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا" اس سلسلہ میں علماء کا کہنا ہے کہ مرنے والے کو اگر یہ معلوم ہے کہ میرے مرنے کے بعد میرے گھر والے مجھ پر نوحہ کریں گے اور اس نے قدرت رکھنے کے باوجود قبل از موت اس سے منع نہیں کیا تو نہ روکنا اس کے لئے باعث سزا ہو گا، اور اس کے گھر والے اگر آہ و بکا کئے بغیر آنسو بہا رہے ہیں تو یہ جائز ہے جیسا کہ ابراہیم اور ام کلثوم کے انتقال پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پوچھے جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تو رحمت ہے اللہ نے جس کے دل میں چاہا رکھا۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي مُوسَى وَهُوَ ثَقِيلٌ، فَذَهَبَتِ امْرَأَتُهُ لِتَبْكِيَ، أَوْ تَهُمَّ بِهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو مُوسَى: أَمَا سَمِعْتِ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: فَسَكَتَتْ، فَلَمَّا مَاتَ أَبُو مُوسَى، قَالَ يَزِيدُ: لَقِيتُ الْمَرْأَةَ، فَقُلْتُ لَهَا: مَا قَوْلُ أَبِي مُوسَى لَكِ: أَمَا سَمِعْتِ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ سَكَتِّ ؟ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ حَلَقَ، وَمَنْ سَلَقَ، وَمَنْ خَرَقَ".
یزید بن اوس کہتے ہیں کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بیمار تھے میں ان کے پاس (عیادت کے لیے) گیا تو ان کی اہلیہ رونے لگیں یا رونا چاہا، تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ہے؟ وہ بولیں: کیوں نہیں، ضرور سنا ہے، تو وہ چپ ہو گئیں، یزید کہتے ہیں: جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ وفات پا گئے تو میں ان کی اہلیہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے قول: "کیا تم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں سنا ہے" پھر آپ چپ ہو گئیں کا کیا مطلب تھا؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "جو (میت کے غم میں) اپنا سر منڈوائے، جو چلا کر روئے پیٹے، اور جو کپڑے پھاڑے وہ ہم میں سے نہیں" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۲۰ (۱۸۶۶)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۳۴)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان ۴۴ (۱۰۴)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۲ (۱۵۸۶)، مسند احمد (۴/۳۹۶، ۴۰۴، ۴۰۵، ۴۱۱، ۴۱۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ کفر کی رسم تھی جب کوئی مر جاتا تو اس کے غم میں یہ سب کام کئے جاتے تھے، جس طرح ہندؤوں میں بال منڈوانے کی رسم ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مصیبت میں صبر کرنا لازم ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ الْأَسْوَدِ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ عَامِلٌ لِعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ عَلَى الرَّبَذَةِ، حَدَّثَنِي أَسِيدُ بْنُ أَبِي أَسِيدٍ، عَنِ امْرَأَةٍ مِنَ الْمُبَايِعَاتِ، قَالَتْ: "كَانَ فِيمَا أَخَذَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَعْرُوفِ الَّذِي أَخَذَ عَلَيْنَا، أَنْ لَا نَعْصِيَهُ فِيهِ: أَنْ لَا نَخْمُشَ وَجْهًا، وَلَا نَدْعُوَ وَيْلًا، وَلَا نَشُقَّ جَيْبًا، وَأَنْ لَا نَنْشُرَ شَعَرًا".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والی عورتوں میں سے ایک عورت کہتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن بھلی باتوں کا ہم سے عہد لیا تھا کہ ان میں ہم آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے وہ یہ تھیں کہ ہم (کسی کے مرنے پر) نہ منہ نوچیں گے، نہ تباہی و بربادی کو پکاریں گے، نہ کپڑے پھاڑیں گے اور نہ بال بکھیریں گے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۶۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اصْنَعُوا لِآلِ جَعْفَرٍ طَعَامًا، فَإِنَّهُ قَدْ أَتَاهُمْ أَمْرٌ شَغَلَهُمْ".
عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جعفر کے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونکہ ان پر ایک ایسا امر (حادثہ و سانحہ) پیش آ گیا ہے جس نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۲۱ (۹۹۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۹ (۱۶۱۰)، (تحفة الأشراف: ۵۲۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۰۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ رشتہ داروں کو میت کے گھروالوں کے پاس کھانا پکوا کر بھجوانا چاہئے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى. ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "رُمِيَ رَجُلٌ بِسَهْمٍ فِي صَدْرِهِ، أَوْ فِي حَلْقِهِ، فَمَاتَ، فَأُدْرِجَ فِي ثِيَابِهِ كَمَا هُوَ، قَالَ: وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص سینے یا حلق میں تیر لگنے سے مر گیا تو اسی طرح اپنے کپڑوں میں لپیٹا گیا جیسے وہ تھا، اس وقت ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۶۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۶۷) (حسن)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، وَعِيسَى بْنُ يُونُسَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلَى أُحُدٍ، أَنْ يُنْزَعَ عَنْهُمُ الْحَدِيدُ، وَالْجُلُودُ، وَأَنْ يُدْفَنُوا بِدِمَائِهِمْ وَثِيَابِهِمْ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احد کے مقتولین (شہداء) کے بارے میں حکم دیا کہ ان کی زرہیں اور پوستینیں ان سے اتار لی جائیں، اور انہیں ان کے خون اور کپڑوں سمیت دفن کر دیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۵)، (تحفة الأشراف: ۵۵۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۴۷) (ضعیف) (اس کے راوی علی بن عاصم اور عطاء بن السائب اخیر میں مختلط ہو گئے تھے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ. ح وحَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، وَهَذَا لَفْظُهُ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، حَدَّثَهُمْ: أَنَّ شُهَدَاءَ أُحُدٍ لَمْ يُغَسَّلُوا، وَدُفِنُوا بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُصَلَّ عَلَيْهِمْ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ شہدائے احد کو غسل نہیں دیا گیا وہ اپنے خون سمیت دفن کئے گئے اور نہ ہی ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۸) (حسن)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحُبَابِ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ يَعْنِي الْمَرْوَانِيَّ، عَنْ أُسَامَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، الْمَعْنَى أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى حَمْزَةَ، وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ، فَقَالَ: لَوْلَا أَنْ تَجِدَ صَفِيَّةُ فِي نَفْسِهَا، لَتَرَكْتُهُ حَتَّى تَأْكُلَهُ الْعَافِيَةُ. حتَّى يُحْشَرَ مِنْ بُطُونِهَا، وَقَلَّتِ الثِّيَابُ، وَكَثُرَتِ الْقَتْلَى، فَكَانَ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ وَالثَّلَاثَةُ يُكَفَّنُونَ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ، زَادَ قُتَيْبَةُ: ثُمَّ يُدْفَنُونَ فِي قَبْرٍ وَاحِدٍ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُ: "أَيُّهُمْ أَكْثَرُ قُرْآنًا ؟ فَيُقَدِّمُهُ إِلَى الْقِبْلَةِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (غزوہ احد میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ (حمزہ بن عبدالمطلب) رضی اللہ عنہ کی لاش کے قریب سے گزرے، ان کا مثلہ کر دیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: "اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ صفیہ (حمزہ کی بہن)اپنے دل میں کچھ محسوس کریں گی تو میں انہیں یوں ہی چھوڑ دیتا، پرندے کھا جاتے، پھر وہ حشر کے دن ان کے پیٹوں سے نکلتے"۔ اس وقت کپڑوں کی قلت تھی اور شہیدوں کی کثرت، (حال یہ تھا) کہ ایک کپڑے میں ایک ایک، دو دو، تین تین شخص کفنائے جاتے تھے۱؎۔ قتیبہ نے اپنی روایت میں یہ اضافہ کیا ہے کہ: پھر وہ ایک ہی قبر میں دفن کئے جاتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پوچھتے کہ ان میں قرآن کس کو زیادہ یاد ہے؟ تو جسے زیادہ یاد ہوتا اسے قبلہ کی جانب آگے رکھتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ الجنائز ۳۱ (۱۰۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ضرورت کے وقت ایک کفن یا ایک قبر میں کئی آدمیوں کو دفنانا درست ہے۔
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا أُسَامَةُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَنَسٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِحَمْزَةَ، وَقَدْ مُثِّلَ بِهِ، "وَلَمْ يُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنَ الشُّهَدَاءِ غَيْرِهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حمزہ رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، دیکھا کہ ان کا مثلہ کر دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے علاوہ کسی اور کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : چوں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی، اس لئے بعض لوگوں نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ آپ نے ان کے لئے دعا کی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَيَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ: أَنَّ اللَّيْثَ حَدَّثَهُمْ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ، وَيَقُولُ: أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ ؟ فَإِذَا أُشِيرَ لَهُ إِلَى أَحَدِهِمَا، قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ، وَقَالَ: أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ بِدِمَائِهِمْ، وَلَمْ يُغَسَّلُوا".
عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ساتھ دفن کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ان میں قرآن کس کو زیادہ یاد ہے؟ تو جس کے بارے میں اشارہ کر دیا جاتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قبر میں (لٹانے میں) آگے کرتے اور فرماتے: "میں ان سب پر قیامت کے دن گواہ رہوں گا" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے خون سمیت دفنانے کا حکم دیا، اور انہیں غسل نہیں دیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۷۲ (۱۳۴۳)، ۷۳ (۱۳۴۵)، ۷۵ (۱۳۴۷)، ۷۸ (۱۳۵۳)، المغازي ۲۶ (۴۰۷۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۴۶ (۱۰۳۶)، سنن النسائی/الجنائز ۶۲ (۱۹۵۷)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۴)، (تحفة الأشراف: ۲۳۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ: بِهَذَا الْحَدِيثِ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ.
اس سند سے بھی لیث سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے مقتولین میں سے دو دو آدمیوں کو ایک ساتھ ایک ہی کپڑے میں دفن کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۲۳۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ سَهْلٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أُخْبِرْتُ عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا تُبْرِزْ فَخِذَكَ، وَلَا تَنْظُرَنَّ إِلَى فَخِذِ حَيٍّ، وَلَا مَيِّتٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم اپنی ران کو مت کھولو اور کسی زندہ و مردہ کی ران کو ہرگز نہ دیکھو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۸ (۱۴۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۳۳)، وقد أخرجہ: حم (۱/۱۴۶) (ضعیف جداً)(سند میں دو جگہ انقطاع ہے : ابن جریج اور حبیب کے درمیان، اور حبیب و عاصم کے درمیان)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ عَبَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ، تَقُولُ: لَمَّا أَرَادُوا غَسْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا نَدْرِي، أَنُجَرِّدُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ ثِيَابِهِ كَمَا نُجَرِّدُ مَوْتَانَا، أَمْ نَغْسِلُهُ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ ؟ فَلَمَّا اخْتَلَفُوا أَلْقَى اللَّهُ عَلَيْهِمُ النَّوْمَ. حتَّى مَا مِنْهُمْ رَجُلٌ إِلَّا وَذَقْنُهُ فِي صَدْرِهِ، ثُمَّ كَلَّمَهُمْ مُكَلِّمٌ مِنْ نَاحِيَةِ الْبَيْتِ، لَا يَدْرُونَ مَنْ هُوَ: أَنِ اغْسِلُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ ثِيَابُهُ، فَقَامُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَسَلُوهُ وَعَلَيْهِ قَمِيصُهُ، يَصُبُّونَ الْمَاءَ فَوْقَ الْقَمِيصِ، وَيُدَلِّكُونَهُ بِالْقَمِيصِ دُونَ أَيْدِيهِمْ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَقُولُ: لَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا غَسَلَهُ إِلَّا نِسَاؤُهُ.
عباد بن عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو کہنے لگے: قسم اللہ کی! ہمیں نہیں معلوم کہ ہم جس طرح اپنے مردوں کے کپڑے اتارتے ہیں آپ کے بھی اتار دیں، یا اسے آپ کے بدن پر رہنے دیں اور اوپر سے غسل دے دیں، تو جب لوگوں میں اختلاف ہو گیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر نیند طاری کر دی یہاں تک کہ ان میں سے کوئی آدمی ایسا نہیں تھا جس کی ٹھڈی اس کے سینہ سے نہ لگ گئی ہو، اس وقت گھر کے ایک گوشے سے کسی آواز دینے والے کی آواز آئی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے اپنے پہنے ہوئے کپڑوں ہی میں غسل دو، آواز دینے والا کون تھا کوئی بھی نہ جان سکا، (یہ سن کر) لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھ کر آئے اور آپ کو کرتے کے اوپر سے غسل دیا لوگ قمیص کے اوپر سے پانی ڈالتے تھے اور قمیص سمیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک ملتے تھے نہ کہ اپنے ہاتھوں سے۔ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں: اگر مجھے پہلے یاد آ جاتا جو بعد میں یاد آیا، تو آپ کی بیویاں ہی آپ کو غسل دیتیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۹ (۱۴۶۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۶۷) (حسن)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ الْمَعْنَى، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْأُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَتِ ابْنَتُهُ، فَقَالَ: "اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا، أَوْ خَمْسًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ ذَلِكَ، بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ، فَآذِنَّنِي، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَعْطَانَا حَقْوَهُ، فَقَالَ: أَشْعِرْنَهَا إِيَّاهُ". قَالَ عَنْ مَالِكٍ: يَعْنِي إِزَارَهُ، وَلَمْ يَقُلْ مُسَدَّدٌ دَخَلَ عَلَيْنَا.
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی (زینب رضی اللہ عنہا) کا انتقال ہوا آپ ہمارے پاس آئے اور فرمایا: "تم انہیں تین بار، یا پانچ بار پانی اور بیر کی پتی سے غسل دینا، یا اس سے زیادہ بار اگر ضرورت سمجھنا اور آخری بار کافور ملا لینا، اور جب غسل دے کر فارغ ہونا، مجھے اطلاع دینا، تو جب ہم غسل دے کر فارغ ہوئے تو ہم نے آپ کو خبر دی، آپ نے ہمیں اپنا تہہ بند دیا اور فرمایا: "اسے ان کے بدن پر لپیٹ دو"۔ قعنبی کی روایت میں خالک سے مروی ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازار کو۔ مسدد کی روایت میں "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمارے پاس آنے کا" ذکر نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوضوء ۳۱ (۱۶۷)، والجنائز ۸ (۱۲۵۳)، ۹ (۱۲۵۴)، ۱۰ (۱۲۵۵)، ۱۱ (۱۲۵۶)، ۱۲ (۱۲۵۷)، ۱۳ (۱۲۵۸)، ۱۴ (۱۲۶۰)، ۱۵ (۱۲۶۱)، ۱۶ (۱۲۶۲)، ۱۷ (۱۲۶۳)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۲ (۹۳۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۱۵ (۹۹۰)، سنن النسائی/الجنائز ۲۸ (۱۸۸۲)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۸ (۱۴۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۱ (۲)، مسند احمد (۶/۴۰۷، ۴۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، وَأَبُو كَامِلٍ، بِمَعْنَى الْإِسْنَادِ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ زُرَيْعٍ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ حَفْصَةَ أُخْتِهِ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: مَشَطْنَاهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ.
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تین لٹیں کر دیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الجنائز ۱۲ (۹۳۹)، سنن النسائی/ الجنائز ۳۵ (۱۸۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا رَأْسَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ، ثُمَّ أَلْقَيْنَاهَا خَلْفَهَا مُقَدَّمَ رَأْسِهَا، وَقَرْنَيْهَا.
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں ہم نے ان کے سر کے بالوں کی تین لٹیں گوندھ دیں اور انہیں سر کے پیچھے ڈال دیں، ایک لٹ آگے کے بالوں کی اور دو لٹیں ادھر ادھر کے بالوں کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الجنائز ۱۶ (۱۲۶۲)، وانظر حدیث رقم: (۳۱۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، وَحَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُنَّ فِي غُسْلِ ابْنَتِهِ: "ابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا، وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ مِنْهَا".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان عورتوں سے اپنی بیٹی (زینب رضی اللہ عنہا) کے غسل کے متعلق فرمایا: "ان کی داہنی جانب سے اور وضو کے مقامات سے غسل کی ابتداء کرنا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۱۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ مَالِكٍ، زَادَ فِي حَدِيثِ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ بِنَحْوِ هَذَا، وَزَادَتْ فِيهِ: أَوْ سَبْعًا، أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، إِنْ رَأَيْتُنَّهُ.
اس سند سے بھی ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مالک کی روایت کے ہم معنی حدیث مروی ہے اور حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں جسے انہوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے اسی طرح کا اضافہ ہے اور اس میں انہوں نے یہ اضافہ بھی کیا ہے: "یا سات بار غسل دینا، یا اس سے زیادہ اگر تم اس کی ضرورت سمجھنا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۱۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۹۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ أَنَّهُ كَانَ يَأْخُذُ الْغُسْلَ عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، يَغْسِلُ بِالسِّدْرِ مَرَّتَيْنِ، وَالثَّالِثَةَ بِالْمَاءِ وَالْكَافُورِ.
قتادہ محمد بن سیرین سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے میت کو غسل دینے کا طریقہ سیکھا تھا، وہ دوبار بیری کے پانی سے غسل دیتے اور تیسری بار کافور ملے ہوئے پانی سے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۰۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۸۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ: أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ خَطَبَ يَوْمًا، فَذَكَرَ رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِهِ قُبِضَ، فَكُفِّنَ فِي كَفَنٍ غَيْرِ طَائِلٍ، وَقُبِرَ لَيْلًا، فَزَجَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُقْبَرَ الرَّجُلُ بِاللَّيْلِ. حتَّى يُصَلَّى عَلَيْهِ، إِلَّا أَنْ يَضْطَرَّ إِنْسَانٌ إِلَى ذَلِكَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا كَفَّنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ، فَلْيُحْسِنْ كَفَنَهُ".
ابوالزبیر کہتے ہیں کہ انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے سنا کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا جس میں اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کا ذکر کیا جن کا انتقال ہو گیا تھا، انہیں ناقص کفن دیا گیا، اور رات میں دفن کیا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ڈانٹا کہ رات میں کسی کو جب تک اس پر نماز جنازہ نہ پڑھ لی جائے مت دفناؤ، إلا یہ کہ انسان کو انتہائی مجبوری ہو اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ بھی) فرمایا: "جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی کو کفن دے تو اچھا کفن دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۱۵ (۹۴۳)، سنن النسائی/الجنائز ۳۷ (۱۸۹۶)، (تحفة الأشراف: ۲۸۰۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: "أُدْرِجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَوْبٍ حِبَرَةٍ، ثُمَّ أُخِّرَ عَنْهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یمنی دھاری دار چادر میں لپیٹے گئے، پھر وہ چادر نکال لی گئی (اور سفید چادر رکھی گئی) ۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۳۱۲۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْكَرِيمِ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَقِيلِ بْنِ مَعْقِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَهْبٍ يَعْنِي ابْنَ مُنَبِّهٍ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا تُوُفِّيَ أَحَدُكُمْ، فَوَجَدَ شَيْئًا، فَلْيُكَفَّنْ فِي ثَوْبٍ حِبَرَةٍ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "جب تم میں سے کسی شخص کا انتقال ہو جائے اور ورثاء صاحب حیثیت (مالدار) ہوں تو وہ اسے یمنی کپڑے (یعنی اچھے کپڑے میں) دفنائیں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود: (تحفة الأشراف: ۳۱۳۶)، وقد أخرجہ: حم(۳/۳۱) (صحیح لغیرہ) (صحیح الجامع الصغیر ۶۵۸۵)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي، أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، قَالَتْ: "كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ يَمَانِيَةٍ بِيضٍ، لَيْسَ فِيهَا قَمِيصٌ وَلَا عِمَامَةٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین سفید یمنی کپڑوں میں دفنائے گئے، ان میں نہ قمیص تھی نہ عمامہ ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۱۸ (۱۲۶۴)، ۲۳ (۱۲۷۱)، ۲۴ (۱۲۷۲)، ۹۴ (۱۳۸۷)، (تحفة الأشراف: ۱۷۳۰۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۲ (۵)، مسند احمد (۶/۴۰، ۹۳، ۱۱۸، ۱۳۲، ۱۶۵، ۲۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سفید کپڑا کفن کے لئے بہتر ہے، یہ بھی معلوم ہوا کہ تین کپڑوں سے زیادہ کپڑا مکروہ ہے، بالخصوص عمامہ (پگڑی) جسے متاخرین حنفیہ اور مالکیہ نے رواج دیا ہے، یہ سراسر بدعت ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، مِثْلَهُ، زَادَ مِنْ كُرْسُفٍ، قَالَ: فَذُكِرَ لِعَائِشَةَ قَوْلُهُمْ: فِي ثَوْبَيْنِ وَبُرْدٍ حِبَرَةٍ، فَقَالَتْ: قَدْ أُتِيَ بِالْبُرْدِ وَلَكِنَّهُمْ رَدُّوهُ وَلَمْ يُكَفِّنُوهُ فِيهِ.
اس سند سے بھی ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسی کے ہم مثل مروی ہے البتہ اتنا زیادہ ہے کہ وہ کپڑے روئی کے تھے۔ پھر ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ بات ذکر کی گئی کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کفن میں دو سفید کپڑے اور دھاری دار یمنی چادر تھی، تو انہوں نے کہا: چادر لائی گئی تھی لیکن لوگوں نے اسے لوٹا دیا تھا، اس میں آپ کو کفنایا نہیں تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الجنائز ۱۳ (۹۴۱)، سنن الترمذی/ الجنائز ۲۰ (۹۹۶)، سنن النسائی/ الجنائز ۳۹ (۱۹۰۰)، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ۱۱ (۱۴۶۹)، (تحفة الأشراف: ۱۶۷۸۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۲ (۵)، مسند احمد (۶/۴۰، ۹۳، ۱۱۸، ۱۳۲، ۱۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كُفِّنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ نَجْرَانِيَّةٍ الْحُلَّةُ: ثَوْبَانِ وَقَمِيصُهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عُثْمَانُ: فِي ثَلَاثَةِ أَثْوَابٍ: حُلَّةٍ حَمْرَاءَ، وَقَمِيصِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نجران کے بنے ہوئے تین کپڑوں میں کفن دئیے گئے، دو کپڑے(چادر اور تہہ بند) اور ایک وہ قمیص جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تھی ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان بن ابی شیبہ کی روایت میں ہے: تین کپڑوں میں کفن دیے گئے، سرخ جوڑا (یعنی چادر و تہہ بند) اور ایک وہ قمیص تھی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۱ (۱۴۷۱)، (تحفة الأشراف: ۶۴۹۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۲) (ضعیف الإسناد منکر) (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یہ روایت ضعیف ہے، ثقات کی روایت کے بھی خلاف ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمُحَارِبِيُّ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ هَاشِمٍ أَبُو مَالِكٍ الْجَنْبِيُّ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: لَا تُغَالِ لِي فِي كَفَنٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "لَا تَغَالَوْا فِي الْكَفَنِ، فَإِنَّهُ يُسْلَبُهُ سَلْبًا سَرِيعًا".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کفن میں میرے لیے قیمتی کپڑا استعمال نہ کرنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے: "کفن میں غلو نہ کرو کیونکہ جلد ہی وہ اس سے چھین لیا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۴۹) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن ہاشم لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ: إِنَّ مُصْعَبَ بْنَ عُمَيْرٍ قُتِلَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ إِلَّا نَمِرَةٌ، كُنَّا إِذَا غَطَّيْنَا بِهَا رَأْسَهُ، خَرَجَ رِجْلَاهُ، وَإِذَا غَطَّيْنَا رِجْلَيْهِ، خَرَجَ رَأْسُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "غَطُّوا بِهَا رَأْسَهُ، وَاجْعَلُوا عَلَى رِجْلَيْهِ شَيْئًا مِنَ الْإِذْخِرِ".
خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ جنگ احد میں قتل ہو گئے تو انہیں کفن دینے کے لیے ایک کملی کے سوا اور کچھ میسر نہ آیا، اور وہ کملی بھی ایسی چھوٹی تھی کہ جب ہم اس سے ان کا سر ڈھانپتے تو پیر کھل جاتے تھے، اور اگر ان کے دونوں پیر ڈھانپتے تو سر کھل جاتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کملی سے ان کا سر ڈھانپ دو اور پیروں پر کچھ اذخر (گھاس)ڈال دو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۲۷ (۱۲۷۶)، ومناقب الأنصار ۴۵ (۳۹۱۳)، والمغازي ۱۷ (۴۰۴۷)، ۲۶ (۴۰۸۲)، والرقاق ۷ (۶۴۳۲)، ۱۶ (۶۴۴۸)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۳ (۹۴۰)، سنن الترمذی/المناقب ۵۴ (۳۸۵۳)، سنن النسائی/الجنائز ۴۰ (۱۹۰۴)، (تحفة الأشراف: ۳۵۱۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۰۹، ۱۱۲، ۶/۳۹۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي نَصْرٍ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "خَيْرُ الْكَفَنِ الْحُلَّةُ، وَخَيْرُ الْأُضْحِيَّةِ الْكَبْشُ الْأَقْرَنُ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "بہترین کفن جوڑا (تہبند اور چادر)ہے، اور بہترین قربانی سینگ دار دنبہ ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۲ (۱۴۷۳)، (تحفة الأشراف: ۵۱۱۷) (ضعیف) (اس کے راوی نسی مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مقصود یہ ہے کہ ایک کپڑے سے تو دو کپڑے بہتر ہیں، ورنہ مسنون تو تین کپڑے ہی ہیں، اور سینگ دار اس لئے بہتر ہے کہ وہ عام طور سے فربہ ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي وَكَانَ قَارِئًا لِلْقُرْآنِ، نُوحُ بْنُ حَكِيمٍ الثَّقَفِيُّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عُرْوَةَ بْنِ مَسْعُودٍ يُقَالُ لَهُ دَاوُدُ قَدْ وَلَّدَتْهُ أُمُّ حَبِيبَةَ بِنْتُ أَبِي سُفْيَانَ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَنْ لَيْلَى بِنْتَ قَانِفٍ الثَّقَفِيَّةَ، قَالَتْ: كُنْتُ فِيمَنْ غَسَّلَ أُمَّ كُلْثُومٍ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ وَفَاتِهَا، فَكَانَ أَوَّلُ مَا أَعْطَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْحِقَاءَ، ثُمَّ الدِّرْعَ، ثُمَّ الْخِمَارَ، ثُمَّ الْمِلْحَفَةَ، ثُمَّ أُدْرِجَتْ بَعْدُ فِي الثَّوْبِ الْآخِرِ، قَالَتْ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ عِنْدَ الْبَابِ، مَعَهُ كَفَنُهَا، يُنَاوِلُنَاهَا ثَوْبًا ثَوْبًا.
بنی عروہ بن مسعود کے ایک فرد سے روایت ہے (جنہیں داود کہا جاتا تھا، اور جن کی پرورش ام المؤمنین ام حبیبہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے کی تھی) کہ لیلیٰ بنت قانف ثقفیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں ان عورتوں میں شامل تھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو ان کے انتقال پر غسل دیا تھا، کفن کے کپڑوں میں سے سب سے پہلے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ازار دیا، پھر کرتہ دیا، پھر اوڑھنی دی، پھر چادر دی، پھر ایک اور کپڑا دیا، جسے اوپر لپیٹ دیا گیا ۱؎۔ لیلیٰ کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے کفن کے کپڑے لیے ہوئے دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہمیں ان میں سے ایک ایک کپڑا دے رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۸۰۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۳۸۰) (ضعیف) (اس کے راوی نوح مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے لئے کفن کے پانچ کپڑے مسنون ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُ بْنُ الرَّيَّانِ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَطْيَبُ طِيبِكُمُ الْمِسْكُ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے خوشبوؤوں میں مشک عمدہ خوشبو ہے" (لہٰذا مردے کو یا کفن میں بھی اسے لگانا بہتر ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۴۲ (۱۹۰۷)، (تحفة الأشراف: ۴۳۸۱)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الأدب ۵ (۲۲۵۲)، سنن الترمذی/الجنائز ۱۶ (۹۹۱)، مسند احمد (۳/۳۶، ۴۰، ۴۶، ۶۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ مُطَرِّفٍ الرُّؤَاسِيُّ أَبُو سُفْيَانَ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِيسَى، قَالَ أَبُو دَاوُد: هُوَ ابْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُثْمَانَ الْبَلَوِيِّ، عَنْ عَزْرَةَ، وَقَالَ عَبْدُ الرَّحِيمِ: عُرْوَةَ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِالْحُصَيْنِ بْنِ وَحْوَحٍ: أَنَّ طَلْحَةَ بْنَ الْبَرَاءِ مَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُهُ، فَقَالَ: "إِنِّي لَا أَرَى طَلْحَةَ إِلَّا قَدْ حَدَثَ فِيهِ الْمَوْتُ، فَآذِنُونِي بِهِ، وَعَجِّلُوا، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِجِيفَةِ مُسْلِمٍ أَنْ تُحْبَسَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ أَهْلِهِ".
حصین بن وحوح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ بیمار ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے آئے، اور فرمایا: "میں یہی سمجھتا ہوں کہ اب طلحہ مرنے ہی والے ہیں، تو تم لوگ مجھے ان کے انتقال کی خبر دینا اور تجہیز و تکفین میں جلدی کرنا، کیونکہ کسی مسلمان کی لاش اس کے گھر والوں میں روکے رکھنا مناسب نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۴۱۸) (ضعیف) (اس کے راوی سعید بن عثمان لین الحدیث اور عروة مجہول ہیں)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا، حَدَّثَنَا مُصْعَبُ بْنُ شَيْبَةَ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ الْعَنَزِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا حَدَّثَتْهُ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ أَرْبَعٍ: مِنَ الْجَنَابَةِ، وَيَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَمِنَ الْحِجَامَةِ، وَغُسْلِ الْمَيِّتِ".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چار چیزوں کی وجہ سے غسل کرتے تھے: جنابت سے، جمعہ کے دن، پچھنا لگوانے سے اور میت کو غسل دینے سے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۹۳) (ضعیف) (اس کے راوی مصعب ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : ان میں جنابت کے علاوہ کوئی اور غسل فرض نہیں ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ غَسَّلَ الْمَيِّتَ، فَلْيَغْتَسِلْ، وَمَنْ حَمَلَهُ، فَلْيَتَوَضَّأْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو میت کو نہلائے اسے چاہیئے کہ خود بھی نہائے، جو جنازہ کو اٹھائے اسے چاہیئے کہ وضو کر لے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۷۵)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۱۷ (۹۹۳)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۸ (۱۴۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ دونوں حکم مستحب ہیں۔
حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ إِسْحَاق مَوْلَى زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا مَنْسُوخٌ، وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، وَسُئِلَ عَنِ الْغُسْلِ مِنْ غَسْلِ الْمَيِّتِ، فَقَالَ: يُجْزِيهِ الْوُضُوءُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَدْخَلَ أَبُو صَالِحٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، يَعْنِي إِسْحَاق مَوْلَى زَائِدَةَ، قَالَ: وَحَدِيثُ مُصْعَبٍ ضَعِيفٌ، فِيهِ خِصَالٌ لَيْسَ الْعَمَلُ عَلَيْهِ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے) اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث منسوخ ہے، میں نے احمد بن حنبل سے سنا ہے: جب ان سے میت کو غسل دینے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: اسے وضو کر لینا کافی ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوصالح نے اس حدیث میں اپنے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے درمیان زائدہ کے غلام اسحاق کو داخل کر دیا ہے، نیز مصعب کی روایت ضعیف ہے اس میں کچھ چیزیں ہیں جن پر عمل نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۱۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يُقَبِّلُ عُثْمَانَ بْنَ مَظْعُونٍ وَهُوَ مَيِّتٌ. حتَّى رَأَيْتُ الدُّمُوعَ تَسِيلُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عثمان بن مظعون ۱؎ رضی اللہ عنہ کو بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے، ان کا انتقال ہو چکا تھا، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۱۴ (۹۸۹)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۷ (۱۴۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۴۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۴۳، ۵۵، ۲۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی تھے، مدینہ میں مہاجرین میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَى نَاسٌ نَارًا فِي الْمَقْبَرَةِ، فَأَتَوْهَا، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ، وَإِذَا هُوَ يَقُولُ: "نَاوِلُونِي صَاحِبَكُمْ"، فَإِذَا هُوَ الرَّجُلُ الَّذِي كَانَ يَرْفَعُ صَوْتَهُ بِالذِّكْرِ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کچھ لوگوں نے قبرستان میں (رات میں) روشنی دیکھی تو وہاں گئے، دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے اندر کھڑے ہوئے ہیں اور فرما رہے ہیں: "تم اپنے ساتھی کو (یعنی نعش کو) مجھے تھماؤ"، تو دیکھا کہ (مرنے والا) وہ آدمی تھا جو بلند آواز سے ذکر الٰہی کیا کرتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۵۶۴) (ضعیف) (اس کے راوی محمد بن مسلم طائفی حافظہ کے ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ نُبَيْحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كُنَّا حَمَلْنَا الْقَتْلَى يَوْمَ أُحُدٍ لِنَدْفِنَهُمْ، فَجَاءَ مُنَادِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَدْفِنُوا الْقَتْلَى فِي مَضَاجِعِهِمْ، فَرَدَدْنَاهُمْ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں غزوہ احد کے روز ہم نے مقتولین کو کسی اور جگہ لے جا کر دفن کرنے کے لیے اٹھایا ہی تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے آ کر اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے ہیں کہ مقتولین کو ان کی مضاجع شہادت گاہوں میں دفن کرو، تو ہم نے ان کو انہیں کی جگہوں پر لوٹا دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجھاد ۳۷ (۱۷۱۷)، سنن النسائی/الجنائز ۸۳ (۲۰۰۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۸ (۱۵۱۶)، (تحفة الأشراف: ۳۱۱۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۹۷، ۳۰۳، ۳۰۸، ۳۹۷)، سنن الدارمی/المقدمة ۷ (۴۶) (صحیح)(متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ روایت صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی نبیح لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ مَرْثَدٍ الْيَزَنِيِّ، عَنْ مَالِكِ بْنِ هُبَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيُصَلِّي عَلَيْهِ ثَلَاثَةُ صُفُوفٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَوْجَبَ"، قَالَ: فَكَانَ مَالِكٌ إِذَا اسْتَقَلَّ أَهْلَ الْجَنَازَةِ، جَزَّأَهُمْ ثَلَاثَةَ صُفُوفٍ لِلْحَدِيثِ.
مالک بن ہبیرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی مسلمان مر جائے اور اس کے جنازے میں مسلمان نمازیوں کی تین صفیں ہوں تو اللہ اس کے لیے جنت کو واجب کر دے گا"۔ راوی کہتے ہیں: نماز (جنازہ) میں جب لوگ تھوڑے ہوتے تو مالک اس حدیث کے پیش نظر ان کی تین صفیں بنا دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز۴۰ (۱۰۲۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۹ (۱۴۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۷۹) (ضعیف) (اس کا مرفوع حصہ ابن اسحاق کی وجہ سے ضعیف ہے وہ مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں البتہ موقوف حصہ (مالک بن ہبیرہ کا فعل ہے) متابعات و شواہد سے تقویت پا کر صحیح ہے)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: "نُهِينَا أَنْ نَتَّبِعَ الْجَنَائِزَ، وَلَمْ يُعْزَمْ عَلَيْنَا".
ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں "ہمیں جنازہ کے پیچھے پیچھے جانے سے روکا گیا ہے لیکن (روکنے میں) ہم پر سختی نہیں برتی گئی"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۱۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز ۲۹ (۱۲۷۸)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۱ (۹۳۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۵۰ (۱۵۷۷)، مسند احمد (۶/۴۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَرْوِيهِ، قَالَ: "مَنْ تَبِعَ جَنَازَةً فَصَلَّى عَلَيْهَا، فَلَهُ قِيرَاطٌ، وَمَنْ تَبِعَهَا حَتَّى يُفْرَغَ مِنْهَا، فَلَهُ قِيرَاطَانِ، أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ، أَوْ أَحَدُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جو شخص جنازہ کے ساتھ جائے اور نماز جنازہ پڑھے تو اسے ایک قیراط (کا ثواب) ملے گا، اور جو جنازہ کے ساتھ جائے اور اس کے دفنانے تک ٹھہرا رہے تو اسے دو قیراط (کا ثواب) ملے گا، ان میں سے چھوٹا قیراط یا ان میں سے ایک قیراط احد پہاڑ کے برابر ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۵۹)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۵ (۴۷)، الجنائز ۵۸ (۱۳۲۵)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۷ (۹۴۵)، سنن النسائی/الجنائز ۷۹ (۱۹۹۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۴ (۱۵۳۹)، مسند احمد (۲/۲، ۲۳۳، ۲۴۶، ۲۸۰، ۳۲۱، ۳۸۷، ۴۰۱، ۴۳۰، ۴۵۸، ۴۷۵، ۴۸۰، ۴۹۳، ۴۹۸، ۵۰۳، ۵۲۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حُسَيْنٍ الْهَرَوِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ وَهُوَ حُمَيْدُ بْنُ زِيَادٍ، أَنَّ يَزِيدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُسَيْطٍ، حَدَّثَهُ أَنَّ دَاوُدَ بْنَ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، حَدَّثَهُ عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، إِذْ طَلَعَ خَبَّابٌ صَاحِبِ الْمَقْصُورَةِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، أَلَا تَسْمَعُ مَا يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَنْ خَرَجَ مَعَ جَنَازَةٍ مِنْ بَيْتِهَا، وَصَلَّى عَلَيْهَا، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ"، فَأَرْسَلَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَتْ: صَدَقَ أَبُو هُرَيْرَةَ.
عامر بن سعد سے روایت ہے کہ وہ عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے تھے کہ اچانک صاحب مقصورہ ۱؎ خباب رضی اللہ عنہ برآمد ہوئے اور کہنے لگے: عبداللہ بن عمر! کیا جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہیں آپ اسے نہیں سن رہے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص جنازے کے ساتھ اس کے گھر سے نکلے اور اس کی نماز جنازہ پڑھے۔ آگے راوی نے وہی مفہوم ذکر کیا ہے جو سفیان کی حدیث کا ہے (یہ سنا تو) ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھنے کے لیے آدمی بھیجا تو انہوں نے کہا: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے صحیح کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الجنائز ۱۷ (۹۴۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۰۱، ۱۶۱۶۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : چھوٹا گھر جسے دیواروں سے گھیر کر محفوظ کر دیا گیا ہو۔
حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ السَّكُونِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو صَخْرٍ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ، عَنْكُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَمُوتُ، فَيَقُومُ عَلَى جَنَازَتِهِ أَرْبَعُونَ رَجُلًا، لَا يُشْرِكُونَ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا شُفِّعُوا فِيهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "کوئی مسلمان ایسا نہیں جو مر جائے اور اس کی نماز جنازہ ایسے چالیس لوگ پڑھیں جو اللہ کے ساتھ کسی طرح کا بھی شرک نہ کرتے ہوں اور ان کی سفارش اس کے حق میں قبول نہ ہو ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۱۸ (۹۴۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۹ (۱۴۸۹)، (تحفة الأشراف: ۶۳۵۴)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۴۰ (۱۰۲۹)، سنن النسائی/الجنائز ۷۸ (۱۹۹۳)، مسند احمد (۶/۳۲، ۴۰، ۹۷، ۲۳۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ چالیس موحدین کا نماز جنازہ پڑھنا میت کی مغفرت کا سبب ہے، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تلاش کر کے جنازے میں چالیس مسلمان جمع کرتے تھے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں سو مسلمانوں کا ذکر ہے، تو جب چالیس کی سفارش مقبول ہے تو سو کی بدرجہ اولی مقبول ہوگی، بإذن اللہ۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى،حَدَّثَنِي بَابُ بْنُ عُمَيْرٍ، حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا تُتْبَعُ الْجَنَازَةُ بِصَوْتٍ وَلَا نَارٍ، زَادَ هَارُونُ: وَلَا يُمْشَى بَيْنَ يَدَيْهَا".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنازہ چیختے چلاتے (روتے پیٹتے) نہ لے جایا جائے، نہ اس کے پیچھے آگ لے جائی جائے"۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ اس کے آگے آگے نہ چلا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۱۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۲۷، ۵۲۸، ۵۳۱) (ضعیف) ( اس کی سند میں دو راوی مبہم ہیں)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا رَأَيْتُمُ الْجَنَازَةَ، فَقُومُوا لَهَا حَتَّى تُخَلِّفَكُمْ، أَوْ تُوضَعَ".
عامر بن ربیعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "جب تم جنازے کو دیکھو تو (اس کے احترام میں) کھڑے ہو جاؤ یہاں تک کہ وہ تم سے آگے گزر جائے یا (زمین پر) رکھ دیا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۶ (۱۳۰۷)، ۴۷ (۱۳۰۸)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۴ (۹۵۸)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۱ (۱۰۴۲)، سنن النسائی/الجنائز ۴۵ (۱۹۱۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۵ (۱۵۴۲)، (تحفة الأشراف: ۵۰۴۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۴۵، ۴۴۶، ۴۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا تَبِعْتُمُ الْجَنَازَةَ، فَلَا تَجْلِسُوا حَتَّى تُوضَعَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الثَّوْرِيُّ، عَنْ سُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ فِيهِ: حَتَّى تُوضَعَ بِالْأَرْضِ، وَرَوَاهُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ سُهَيْلٍ، قَالَ: حَتَّى تُوضَعَ فِي اللَّحْدِ، قَالَ أَبُو دَاوُد، وَسُفْيَانُ: أَحْفَظُ مِنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم جنازے کے پیچھے چلو تو جب تک جنازہ رکھ نہ دیا جائے نہ بیٹھو" ابوداؤد کہتے ہیں: ثوری نے اس حدیث کو سہیل سے انہوں نے اپنے والد سے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اس میں ہے: "یہاں تک کہ جنازہ زمین پر رکھ دیا جائے" اور اسے ابومعاویہ نے سہیل سے روایت کیا ہے اس میں ہے کہ جب تک جنازہ قبر میں نہ رکھ دیا جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان ثوری ابومعاویہ سے زیادہ حافظہ والے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۴۱۲۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۸ (۱۳۱۰)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۴ (۹۵۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۱ (۱۰۴۳)، سنن النسائی/الجنائز ۴۴ (۱۹۱۵)، ۴۵ (۱۹۱۸)، ۸۰ (۲۰۰۰)، مسند احمد (۳/۲۵، ۴۱، ۵۱، ۸۵، ۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ الْفَضْلِ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ، حَدَّثَنِي جَابِرٌ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ مَرَّتْ بِنَا جَنَازَةٌ، فَقَامَ لَهَا، فَلَمَّا ذَهَبْنَا لِنَحْمِلَ، إِذَا هِيَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا هِيَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، فَقَالَ: "إِنَّ الْمَوْتَ فَزَعٌ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ جَنَازَةً، فَقُومُوا".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اچانک ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آپ اس کے لیے کھڑے ہو گئے، پھر جب ہم اسے اٹھانے کے لیے بڑھے تو معلوم ہوا کہ یہ کسی یہودی کا جنازہ ہے، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "موت ڈرنے کی چیز ہے، لہٰذا جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۴۹ (۱۳۱۱)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۴ (۹۶۰)، سنن النسائی/الجنائز ۴۶ (۱۹۲۳)، (تحفة الأشراف: ۲۳۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۳۱۹، ۳۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ وَاقِدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، عَنْ مَسْعُودِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"قَامَ فِي الْجَنَائِزِ، ثُمَّ قَعَدَ بَعْدُ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے جنازوں میں (دیکھ کر) کھڑے ہو جایا کرتے تھے پھر اس کے بعد بیٹھے رہنے لگے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۲۵ (۹۶۲)، سنن النسائی/الجنائز ۸۱ (۲۰۰۱)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۲ (۱۰۴۴)، سنن ابن ماجہ/ الجنائز ۳۵ (۱۵۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۷۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز ۱۱ (۳۳)، مسند احمد (۱/۸۲، ۸۳، ۱۳۱، ۱۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ بَهْرَامَ الْمَدَائِنِيُّ، أَخْبَرَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْبَاطِ الْحَارِثِيُّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَقُومُ فِي الْجَنَازَةِ حَتَّى تُوضَعَ فِي، اللَّحْدِ فَمَرَّ بِهِ حَبْرٌ مِنَ الْيَهُودِ، فَقَالَ: هَكَذَا نَفْعَلُ، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اجْلِسُوا خَالِفُوهُمْ".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے، اور جب تک جنازہ قبر میں اتار نہ دیا جاتا، بیٹھتے نہ تھے، پھر آپ کے پاس سے ایک یہودی عالم کا گزر ہوا تو اس نے کہا: ہم بھی ایسا ہی کرتے ہیں (اس کے بعد سے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے رہنے لگے، اور فرمایا: "(مسلمانو!) تم (بھی) بیٹھے رہو، ان کے خلاف کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۳۵ (۱۰۲۰)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۵ (۱۵۴۵)، (تحفة الأشراف: ۵۰۷۶) (حسن)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ،عَنْ ثَوْبَانَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أُتِيَ بِدَابَّةٍ، وَهُوَ مَعَ الْجَنَازَةِ، فَأَبَى أَنْ يَرْكَبَهَا، فَلَمَّا انْصَرَفَ أُتِيَ بِدَابَّةٍ فَرَكِبَ، فَقِيلَ لَهُ: فَقَالَ: "إِنَّ الْمَلَائِكَةَ كَانَتْ تَمْشِي، فَلَمْ أَكُنْ لِأَرْكَبَ وَهُمْ يَمْشُونَ، فَلَمَّا ذَهَبُوا رَكِبْتُ".
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سواری پیش کی گئی اور آپ جنازہ کے ساتھ تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوار ہونے سے انکار کیا (پیدل ہی گئے) جب جنازے سے فارغ ہو کر لوٹنے لگے تو سواری پیش کی گئی تو آپ سوار ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو آپ نے فرمایا: "جنازے کے ساتھ فرشتے پیدل چل رہے تھے تو میں نے مناسب نہ سمجھا کہ وہ پیدل چل رہے ہوں اور میں سواری پر چلوں، پھر جب وہ چلے گئے تو میں سوار ہو گیا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۱۲۱)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۵ (۱۴۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، سَمِعَ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: "صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنِ الدَّحْدَاحِ، وَنَحْنُ شُهُودٌ، ثُمَّ أُتِيَ بِفَرَسٍ، فَعُقِلَ حَتَّى رَكِبَهُ، فَجَعَلَ يَتَوَقَّصُ بِهِ، وَنَحْنُ نَسْعَى حَوْلَهُ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن دحداح کی نماز جنازہ پڑھی، اور ہم موجود تھے، پھر (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے لیے) ایک گھوڑا لایا گیا اسے باندھ کر رکھا گیا یہاں تک کہ آپ سوار ہوئے، وہ اکڑ کر ٹاپ رکھنے لگا، اور ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد ہو کر تیز چلنے لگے (تاکہ آپ کا ساتھ نہ چھوٹے) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۲۸ (۹۶۵)، سنن الترمذی/الجنائز ۲۹ (۱۰۱۳)، (تحفة الأشراف: ۲۱۸۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۹۰، ۹۵، ۹۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ،وَعُمَرَ، يَمْشُونَ أَمَامَ الْجَنَازَةِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کو جنازے کے آگے چلتے دیکھا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۲۶ (۱۰۰۷)، سنن النسائی/الجنائز ۵۶ (۱۹۴۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۲)، (تحفة الأشراف: ۶۸۲۰)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۳ (۸)، مسند احمد (۲/۸، ۱۲۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَأَحْسَبُ أَنَّ أَهْلَ زِيَادٍ أَخْبَرُونِي، أَنَّهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ يَمِينِهَا، وَعَنْ يَسَارِهَا، قَرِيبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۴۲ (۱۰۳۱)، سنن النسائی/الجنائز ۵۵ (۱۹۴۴)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۵ (۱۴۸۱)، ۲۶ (۱۵۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۹۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۴۷، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں اور زندہ رہ کر مر جائیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَسْرِعُوا بِالْجَنَازَةِ، فَإِنْ تَكُ صَالِحَةً فَخَيْرٌ تُقَدِّمُونَهَا إِلَيْهِ، وَإِنْ تَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَشَرٌّ تَضَعُونَهُ عَنْ رِقَابِكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جنازہ لے جانے میں جلدی کیا کرو کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو تم اسے نیکی کی طرف پہنچانے میں جلدی کرو گے اور اگر نیک نہیں ہے تو تم شر کو جلد اپنی گر دنوں سے اتار پھینکو گے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۵۱ (۱۳۱۵)، صحیح مسلم/الجنائز ۱۶ (۹۴۴)، سنن الترمذی/الجنائز ۳۰ (۱۰۱۵)، سنن النسائی/الجنائز ۴۴ (۱۹۰۹)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۵ (۱۴۷۷)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۴)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجنائز ۱۶ (۵۶)، مسند احمد (۲/۲۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عُيَيْنَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ كَانَ فِي جَنَازَةِ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ، وَكُنَّا نَمْشِي مَشْيًا خَفِيفًا، فَلَحِقَنَا أَبُو بَكْرَةَ، فَرَفَعَ سَوْطَهُ، فَقَالَ: "لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَنَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَرْمُلُ رَمَلًا".
عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ وہ عثمان بن ابوالعاص کے جنازے میں تھے اور ہم دھیرے دھیرے چل رہے تھے، اتنے میں ہم سے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ آ ملے اور انہوں نے اپنا کوڑا لہرایا (ڈرانے کے لیے) اور کہا: ہم نے اپنے آپ کو دیکھا ہے اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ ہم (جنازے لے کر) تیز چلا کرتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۴۴ (۱۹۱۴)، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۶، ۳۷، ۳۸) (صحیح) (اس واقعہ میں عثمان بن ابی العاص کا نام وہم ہے، صحیح نام عبدالرحمن بن سمرہ ہے جیسا کہ اگلی روایت میں ہے)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ،حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ، عَنْ عُيَيْنَةَ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَا فِي جَنَازَةِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَمُرَةَ وَقَالَ: فَحَمَلَ عَلَيْهِمْ بَغْلَتَهُ، وَأَهْوَى بِالسَّوْطِ.
اس سند سے بھی عیینہ سے یہی حدیث مروی ہے مگر اس میں خالد بن حارث اور عیسیٰ بن یوسف دونوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ کے جنازہ کا ہے نیز اس میں یہ بھی ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے ان پر اپنا خچر دوڑایا اور کوڑے سے(جلدی) چلنے کا اشارہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۹۵) (صحیح) وهذا هو المحفوظ
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَحْيَى الْمُجَبِّرِ، قَالَ أَبُو دَاوُد وَهُوَ يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي مَاجِدَةَ، عَنِابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: سَأَلْنَا نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمَشْيِ مَعَ الْجَنَازَةِ، فَقَالَ"مَا دُونَ الْخَبَبِ إِنْ يَكُنْ خَيْرًا تَعَجَّلَ إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُنْ غَيْرَ ذَلِكَ فَبُعْدًا لِأَهْلِ النَّارِ، وَالْجَنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ، وَلَا تُتْبَعُ لَيْسَ مَعَهَا مَنْ تَقَدَّمَهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهُوَ ضَعِيفٌ، هُوَ يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ يَحْيَى الْجَابِرُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا كُوفِيٌّ، وَأَبُو مَاجِدَةَ بَصْرِيٌّ، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَبُو مَاجِدَةَ هَذَا لَا يُعْرَفُ 10.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے اپنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: «خبب» ۱؎ سے کچھ کم، اگر جنازہ نیک ہے تو وہ نیکی سے جلدی جا ملے گا، اور اگر نیک نہیں ہے تو اہل جہنم کا دور ہو جانا ہی بہتر ہے، جنازہ کی پیروی کی جائے گی (یعنی جنازہ آگے رہے گا اور لوگ اس کے پیچھے رہیں گے) اسے پیچھے نہیں رکھا جا سکتا، جو آگے رہے گا وہ جنازہ کے ساتھ نہیں سمجھا جائے گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یحییٰ المجبر ضعیف ہیں اور یہی یحییٰ بن عبداللہ ہیں اور یہی یحییٰ الجابر ہیں، یہ کوفی ہیں اور ابوماجدہ بصریٰ ہیں، نیز ابوماجدہ غیر معروف شخص ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۲۷ (۱۰۱۱)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۱۶ (۱۴۸۴)، (تحفة الأشراف: ۹۶۳۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۷۸، ۳۹۴، ۴۱۵، ۴۱۹، ۴۳۲) (ضعیف) (اس کے راوی یحییٰ الجابر لین الحدیث، اور ابوماجدة مجہول ہیں، واضح رہے کہ ابوماجد ، کو ابوماجدہ نیز ابن ماجدہ کہا جاتا ہے)
وضاحت: ۱؎ : چال کی ایک قسم ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُفَيْلٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سِمَاكٌ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ سَمُرَةَ، قَالَ: مَرِضَ رَجُلٌ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ جَارُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، قَالَ: "وَمَا يُدْرِيكَ ؟ قَالَ: أَنَا رَأَيْتُهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ، قَالَ: فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَجَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَمْ يَمُتْ، فَرَجَعَ، فَصِيحَ عَلَيْهِ، فَقَالَتِ امْرَأَتُهُ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبِرْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: اللَّهُمَّ الْعَنْهُ، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ الرَّجُلُ، فَرَآهُ قَدْ نَحَرَ نَفْسَهُ بِمِشْقَصٍ مَعَهُ، فَانْطَلَقَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَقَالَ: مَا يُدْرِيكَ ؟ قَالَ: رَأَيْتُهُ يَنْحَرُ نَفْسَهُ بِمَشَاقِصَ مَعَهُ، قَالَ: أَنْتَ رَأَيْتَهُ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِذًا لَا أُصَلِّيَ عَلَيْهِ".
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک شخص بیمار ہوا پھر اس کی موت کی خبر پھیلی تو اس کا پڑوسی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے عرض کیا کہ وہ مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تمہیں کیسے معلوم ہوا؟"، وہ بولا: میں اسے دیکھ کر آیا ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ نہیں مرا ہے"، وہ پھر لوٹ گیا، پھر اس کے مرنے کی خبر پھیلی، پھر وہی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: وہ مر گیا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ نہیں مرا ہے"، تو وہ پھر لوٹ گیا، اس کے بعد پھر اس کے مرنے کی خبر مشہور ہوئی، تو اس کی بیوی نے کہا: تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور اس کے مرنے کی آپ کو خبر دو، اس نے کہا: اللہ کی لعنت ہو اس پر۔ پھر وہ شخص مریض کے پاس گیا تو دیکھا کہ اس نے تیر کے پیکان سے اپنا گلا کاٹ ڈالا ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ وہ مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "تمہیں کیسے پتا لگا؟"، اس نے کہا: میں نے دیکھا ہے اس نے تیر کی پیکان سے اپنا گلا کاٹ لیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "کیا تم نے خود دیکھا ہے؟"، اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب تو میں اس کی نماز(جنازہ) نہیں پڑھوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۱۶۰)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۶ (۹۷۸)، سنن الترمذی/الجنائز ۶۸ (۱۰۶۶)، سنن النسائی/الجنائز ۶۸ (۱۹۶۳)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۱ (۱۵۲۶)، مسند احمد (۵/۸۷، ۹۲، ۹۴، ۹۶، ۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، حَدَّثَنِي نَفَرٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"لَمْ يُصَلِّ عَلَى مَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، وَلَمْ يَنْهَ عَنِ الصَّلَاةِ عَلَيْهِ".
ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی اور نہ ہی اوروں کو ان کی نماز پڑھنے سے روکا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۶۱۰) (حسن صحیح) (اس کی سند میں نفر من أهل البصرة مبہم رواة ہیں، لیکن یہ جماعت تابعین کثرت کی وجہ سے قابل استناد ہیں، نیز جابر کی صحیح حدیث (ابو داود حدیث نمبر (۴۴۳۰) سے اس کو تقویت ہے)
وضاحت: ۱؎ : ماعز رضی اللہ عنہ کو رجم کیا گیا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، نیز آپ نے غامدیہ رضی اللہ عنہا پر بھی پڑھی، ان کو بھی سنگسار کیا گیا تھا)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ ابْنُ ثَمَانِيَةَ عَشَرَ شَهْرًا، فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا اس وقت وہ اٹھارہ مہینے کے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۷۹۰۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۶۷) (حسن الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : دیگر بہت سی روایات سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی صلاۃِ جنازہ پڑھی۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَهِيَّ، قَالَ: "لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَقَاعِدِ". قَالَ أَبُو دَاوُد: قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ، قِيلَ لَهُ: حَدَّثَكُمْ ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ عَطَاءٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"صَلَّى عَلَى ابْنِهِ إِبْرَاهِيمَ وَهُوَ ابْنُ سَبْعِينَ لَيْلَةً".
وائل بن داود کہتے ہیں: میں نے بہی سے سنا وہ کہہ رہے تھے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نشست گاہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے سعید بن یعقوب طالقانی پر پڑھا کہ آپ سے حدیث بیان کی ابن مبارک نے انہوں نے یعقوب بن قعقاع سے اور انہوں نے عطاء سے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی نماز جنازہ پڑھی اس وقت وہ ستر دن کے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۹۴۷، ۱۹۸۴) (ضعیف منکر) (دونوں روایتیں مرسل ہیں)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَجْلَانَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْعَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ، إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۸)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۷۴)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، سنن الترمذی/الجنائز ۴۴ (۱۰۳۳)، سنن النسائی/الجنائز ۷۰ (۱۹۶۹)، موطا امام مالک/الجنائز ۸ (۲۲)، مسند احمد (۶/۷۹، ۱۳۳، ۱۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنِ الضَّحَّاكِ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ابْنَيْ بَيْضَاءَ فِي الْمَسْجِدِ: سُهَيْلٍ، وَأَخِيهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۴ (۹۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۱۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي صَالِحٌ مَوْلَى التَّوْءَمَةِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ صَلَّى عَلَى جَنَازَةٍ فِي الْمَسْجِدِ، فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے نماز جنازہ مسجد میں پڑھی تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۹ (۱۵۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۰۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۴۴، ۴۵۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : دوسری روایت میں ہے اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا، اور زیادہ صحیح روایت یہی ہے، اور یہ عام حالات کے لئے ہے اور مسجد میں صرف جواز ہے فضیلت نہیں)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَبَاحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، يُحَدِّثُ أَنَّهُ سَمِعَ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ، قَالَ: "ثَلَاثُ سَاعَاتٍ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْهَانَا أَنْ نُصَلِّيَ فِيهِنَّ، أَوْ نَقْبُرَ فِيهِنَّ مَوْتَانَا: حِينَ تَطْلُعُ الشَّمْسُ بَازِغَةً حَتَّى تَرْتَفِعَ، وَحِينَ يَقُومُ قَائِمُ الظَّهِيرَةِ حَتَّى تَمِيلَ، وَحِينَ تَضَيَّفُ الشَّمْسُ لِلْغُرُوبِ حَتَّى تَغْرُبَ، أَوْ كَمَا قَالَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تین اوقات ایسے ہیں جن میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے اور اپنے مردوں کو دفن کرنے سے روکتے تھے: ایک تو جب سورج چمکتا ہوا نکلے یہاں تک کہ وہ بلند ہو جائے، دوسرے جب ٹھیک دوپہر کا وقت ہو یہاں تک کہ ڈھل جائے اور تیسرے جب سورج ڈوبنے لگے یہاں تک کہ ڈوب جائے یا اسی طرح کچھ فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المسافرین ۵۱ (۸۳۱)، سنن الترمذی/الجنائز ۴۱ (۱۰۳۰)، سنن النسائی/المواقیت ۳۰ (۵۶۱)، ۳۳ (۵۶۶)، الجنائز ۸۹ (۲۰۱۵)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۰ (۱۵۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۹۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۵۲)، سنن الدارمی/الصلاة ۱۴۲ (۱۴۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ صَبِيحٍ، حَدَّثَنِي عَمَّارٌ مَوْلَى الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ ٍأَنَّهُ شَهِدَ جَنَازَةَ أُمِّ كُلْثُومٍ، وَابْنِهَا، فَجُعِلَ الْغُلَامُ مِمَّا يَلِي الْإِمَامَ، فَأَنْكَرْتُ ذَلِكَ، وَفِي الْقَوْمِ ابْنُ عَبَّاسٍ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، َوَأَبُو قَتَادَةَ، وَأَبُو هُرَيْرَةَ، فَقَالُوا: هَذِهِ السُّنَّةُ.
حارث بن نوفل کے غلام عمار کا بیان ہے کہ وہ ام کلثوم اور ان کے بیٹے کے جنازے میں شریک ہوئے تو لڑکا امام کے قریب رکھا گیا تو میں نے اسے ناپسند کیا اس وقت لوگوں میں ابن عباس، ابو سعید خدری، ابوقتادہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم موجود تھے اس پر ان لوگوں نے کہا: سنت یہی ہے (یعنی پہلے لڑکے کو رکھنا پھر عورت کو) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۷۴ (۱۹۷۹)، (تحفة الأشراف: ۴۲۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ نَافِعٍ أَبِي غَالِبٍ، قَالَ: كُنْتُ فِي سِكَّةِ الْمِرْبَدِ، فَمَرَّتْ جَنَازَةٌ مَعَهَا نَاسٌ كَثِيرٌ، قَالُوا: جَنَازَةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ، فَتَبِعْتُهَا، فَإِذَا أَنَا بِرَجُلٍ عَلَيْهِ كِسَاءٌ رَقِيقٌ عَلَى بُرَيْذِينَتِهِ، وَعَلَى رَأْسِهِ خِرْقَةٌ تَقِيهِ مِنَ الشَّمْسِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا الدِّهْقَانُ ؟ قَالُوا: هَذَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَلَمَّا وُضِعَتِ الْجَنَازَةُ، قَامَ أَنَسٌ فَصَلَّى عَلَيْهَا، وَأَنَا خَلْفَهُ، لَا يَحُولُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ، فَقَامَ عِنْدَ رَأْسِهِ، فَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ، لَمْ يُطِلْ، وَلَمْ يُسْرِعْ، ثُمَّ ذَهَبَ يَقْعُدُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا حَمْزَةَ، الْمَرْأَةُ الْأَنْصَارِيَّةُ، فَقَرَّبُوهَا وَعَلَيْهَا نَعْشٌ أَخْضَرُ، فَقَامَ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا نَحْوَ صَلَاتِهِ عَلَى الرَّجُلِ، ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ الْعَلَاءُ بْنُ زِيَادٍ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، هَكَذَا كَانَ يَفْعَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ كَصَلَاتِكَ: يُكَبِّرُ عَلَيْهَا أَرْبَعًا، وَيَقُومُ عِنْدَ رَأْسِ الرَّجُلِ، وَعَجِيزَةِ الْمَرْأَةِ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، غَزَوْتُ مَعَهُ حُنَيْنًا، فَخَرَجَ الْمُشْرِكُونَ، فَحَمَلُوا عَلَيْنَا حَتَّى رَأَيْنَا خَيْلَنَا وَرَاءَ ظُهُورِنَا، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ يَحْمِلُ عَلَيْنَا، فَيَدُقُّنَا، وَيَحْطِمُنَا، فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ، وَجَعَلَ يُجَاءُ بِهِمْ، فَيُبَايِعُونَهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَلَيَّ نَذْرًا، إِنْ جَاءَ اللَّهُ بِالرَّجُلِ الَّذِي كَانَ مُنْذُ الْيَوْمَ يَحْطِمُنَا، لَأَضْرِبَنَّ عُنُقَهُ، فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجِيءَ بِالرَّجُلِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُبْتُ إِلَى اللَّهِ، فَأَمْسَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُبَايِعُهُ، لِيَفِيَ الْآخَرُ بِنَذْرِهِ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَتَصَدَّى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَأْمُرَهُ بِقَتْلِهِ، وَجَعَلَ يَهَابُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ لَا يَصْنَعُ شَيْئًا، بَايَعَهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَذْرِي، فَقَالَ: "إِنِّي لَمْ أُمْسِكْ عَنْهُ مُنْذُ الْيَوْمَ، إِلَّا لِتُوفِيَ بِنَذْرِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَوْمَضْتَ إِلَيَّ ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّهُ لَيْسَ لِنَبِيٍّ أَنْ يُومِضَ، قَالَ أَبُو غَالِبٍ: فَسَأَلْتُ عَنْ صَنِيعِ أَنَسٍ فِي قِيَامِهِ عَلَى الْمَرْأَةِ عِنْدَ عَجِيزَتِهَا، فَحَدَّثُونِي أَنَّهُ إِنَّمَا كَانَ لِأَنَّهُ لَمْ تَكُنِ النُّعُوشُ، فَكَانَ الْإِمَامُ يَقُومُ حِيَالَ عَجِيزَتِهَا يَسْتُرُهَا مِنَ الْقَوْمِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَقُولُوا لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ"، نَسَخَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ: الْوَفَاءَ بِالنَّذْرِ فِي قَتْلِهِ، بِقَوْلِهِ: إِنِّي قَدْ تُبْتُ.
نافع ابوغالب کہتے ہیں کہ میں سکۃ المربد (ایک جگہ کا نام ہے) میں تھا اتنے میں ایک جنازہ گزرا، اس کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے، لوگوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن عمیر کا جنازہ ہے، یہ سن کر میں بھی جنازہ کے ساتھ ہو لیا، تو میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ باریک شال اوڑھے ہوئے چھوٹی گھوڑی پر سوار ہے، دھوپ سے بچنے کے لیے سر پر ایک کپڑے کا ٹکڑا ڈالے ہوئے ہے، میں نے لوگوں سے پوچھا: یہ چودھری صاحب کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا: یہ انس بن مالک ۱؎ رضی اللہ عنہ ہیں، پھر جب جنازہ رکھا گیا تو انس رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور اس کی نماز جنازہ پڑھائی، میں ان کے پیچھے تھا، میرے اور ان کے درمیان کوئی چیز حائل نہ تھی تو وہ اس کے سر کے سامنے کھڑے ہوئے، چار تکبیریں کہیں (اور تکبیریں کہنے میں) نہ بہت دیر لگائی اور نہ بہت جلدی کی، پھر بیٹھنے لگے تو لوگوں نے کہا: ابوحمزہ! (انس رضی اللہ عنہ کی کنیت ہے) یہ انصاری عورت کا بھی جنازہ ہے (اس کی بھی نماز پڑھا دیجئیے) یہ کہہ کر اسے قریب لائے، وہ ایک سبز تابوت میں تھی، وہ اس کے کولہے کے سامنے کھڑے ہوئے، اور ویسی ہی نماز پڑھی جیسی نماز مرد کی پڑھی تھی، پھر اس کے بعد بیٹھے، تو علاء بن زیاد نے کہا: اے ابوحمزہ! کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح جنازے کی نماز پڑھا کرتے تھے جس طرح آپ نے پڑھی ہے؟ چار تکبیریں کہتے تھے، مرد کے سر کے سامنے اور عورت کے کولھے کے سامنے کھڑے ہوتے تھے، انہوں نے کہا: ہاں۔ علاء بن زیاد نے (پھر) کہا: ابوحمزہ! کیا آپ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد کیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، میں جنگ حنین ۲؎ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، مشرکین نکلے انہوں نے ہم پر حملہ کیا یہاں تک کہ ہم نے اپنے گھوڑوں کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے دیکھا ۳؎ اور قوم (کافروں) میں ایک حملہ آور شخص تھا جو ہمیں مار کاٹ رہا تھا (پھر جنگ کا رخ پلٹا) اللہ تعالیٰ نے انہیں شکست دی اور انہیں (اسلام کی چوکھٹ پر) لانا شروع کر دیا، وہ آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر بیعت کرنے لگے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا کہ میں نے نذر مانی ہے اگر اللہ اس شخص کو لایا جو اس دن ہمیں مار کاٹ رہا تھا تو میں اس کی گردن اڑا دوں گا، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے، پھر وہ (قیدی) رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، اس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! میں نے اللہ سے توبہ کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کرنے میں توقف کیا تاکہ دوسرا بندہ (یعنی نذر ماننے والا صحابی) اپنی نذر پوری کر لے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیعت لینے سے پہلے ہی اس کی گردن اڑا دے) لیکن وہ شخص رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگا کہ آپ اسے اس کے قتل کا حکم فرمائیں اور ڈر رہا تھا کہ ایسا نہ ہو میں اسے قتل کر ڈالوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ وہ کچھ نہیں کرتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت کر لی، تب اس صحابی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میری نذر تو رہ گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں جو اب تک رکا رہا اور اس سے بیعت نہیں کی تھی تو اسی وجہ سے کہ اس دوران تم اپنی نذر پوری کر لو"، اس نے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے ہمیں اس کا اشارہ کیوں نہ فرما دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی نبی کے شایان شان نہیں ہے کہ وہ رمز سے اشارہ کرے"۔ ابوغالب کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ کے عورت کے کولہے کے سامنے کھڑے ہونے کے بارے میں پوچھا کہ (وہ وہاں کیوں کھڑے ہوئے) تو لوگوں نے بتایا کہ پہلے تابوت نہ ہوتا تھا تو امام عورت کے کولہے کے پاس کھڑا ہوتا تھا تاکہ مقتدیوں سے اس کی نعش چھپی رہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله» سے اس کے قتل کی نذر پوری کرنے کو منسوخ کر دیا گیا ہے کیونکہ اس نے آ کر یہ کہا تھا کہ میں نے توبہ کر لی ہے، اور اسلام لے آیا ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۴۵ (۱۰۳۴)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۴)، (تحفة الأشراف: ۱۶۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۸، ۱۵۱، ۲۰۴) (صحیح) (مگر قال ابو غالب سے اخیر تک کا جملہ صحیح نہیں ہے)
وضاحت: ۱؎ : جنہوں نے دس برس تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی، ۹۲ ہجری یا ۹۳ ہجری میں انتقال ہوا۔ ۲؎ : غزوہ حنین ۹ ہجری میں ہوا، حنین ایک جگہ کا نام ہے جو طائف کے نواح میں واقع ہے۔ ۳؎ : یعنی شکست کھا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ وَرَاءَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى امْرَأَةٍ مَاتَتْ فِي نِفَاسِهَا، فَقَامَ عَلَيْهَا لِلصَّلَاةِ وَسَطَهَا".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک ایسی عورت کی نماز جنازہ پڑھی جو حالت نفاس میں مر گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحیض ۲۹ (۳۳۲)، والجنائز ۶۲ (۱۳۳۱)، ۶۳ (۱۳۳۲)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۷ (۹۶۴)، سنن الترمذی/الجنائز ۴۵ (۱۰۳۵)، سنن النسائی/الحیض والاستحاضة ۲۵ (۳۹۳)، الجنائز ۷۳ (۱۹۷۸)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۱ (۱۴۹۳)، (تحفة الأشراف: ۴۶۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۱۴، ۱۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاق، عَنِ الشَّعْبِيِّ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"مَرَّ بِقَبْرٍ رَطْبٍ، فَصَفُّوا عَلَيْهِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا"، فَقُلْتُ لِلشَّعْبِيِّ: مَنْ حَدَّثَكَ ؟ قَالَ: الثِّقَةُ مَنْ شَهِدَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ.
شعبی سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک نئی قبر پر سے ہوا، تو لوگوں نے اس پر صف بندی کی آپ نے (نماز پڑھائی اور) چار تکبیریں کہیں۔ ابواسحاق کہتے ہیں: میں نے شعبی سے پوچھا: آپ سے یہ حدیث کس نے بیان کی؟ انہوں نے کہا: ایک معتبر آدمی نے جو اس وقت موجود تھے، یعنی عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأذان ۱۶۱ (۸۵۷)، والجنائز ۵ (۱۲۴۷)، ۵۴ (۱۳۱۹)، ۵۵ (۱۳۲۲)، ۵۹ (۱۳۲۶)، ۶۶ (۱۳۳۶)، ۶۹ (۱۳۴۰)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۳ (۹۵۴)، سنن الترمذی/الجنائز ۴۷ (۱۰۳۷)، سنن النسائی/الجنائز ۹۴ (۲۰۲۵)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۲ (۱۵۳۰)، (تحفة الأشراف: ۵۷۶۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۴، ۲۸۳، ۳۳۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْعَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: "كَانَ زَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ أَرْقَمَ يُكَبِّرُ عَلَى جَنَائِزِنَا أَرْبَعًا، وَإِنَّهُ كَبَّرَ عَلَى جَنَازَةٍ خَمْسًا، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُكَبِّرُهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَأَنَا لِحَدِيثِ ابْنِ الْمُثَنَّى أَتْقَنُ.
ابن ابی لیلیٰ کہتے ہیں کہ زید یعنی ابن ارقم رضی اللہ عنہ ہمارے جنازوں پر چار تکبیریں کہا کرتے تھے اور ایک بار ایک جنازہ پر انہوں نے پانچ تکبیریں کہیں تو ہم نے ان سے پوچھا (آپ ہمیشہ چار تکبیریں کہا کرتے تھے آج پانچ کیسے کہیں؟) تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا (بھی) کہتے تھے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابن مثنیٰ کی حدیث زیادہ یاد ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۲۳ (۹۶۱)، سنن الترمذی/الجنائز ۳۷ (۱۰۲۳)، سنن النسائی/الجنائز ۷۶ (۱۹۸۴)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۵ (۱۵۰۵)، (تحفة الأشراف: ۳۶۷۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۶۸،۳۷۰، ۳۷۱، ۳۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جب پانچ تکبیریں کہی جائیں تو پہلی تکبیر کے بعد دعاء ثنا پڑھے، دوسری کے بعد سورہ فاتحہ، تیسری کے بعد درود، چوتھی کے بعد دعاء اور پانچویں کے بعد سلام پھیرے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: "صَلَّيْتُ مَعَابْنِ عَبَّاسٍ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَقَالَ: إِنَّهَا مِنَ السُّنَّةِ".
طلحہ بن عبداللہ بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ فاتحہ پڑھی اور کہا: یہ سنت میں سے ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۶۵ (۱۳۳۵)، سنن الترمذی/الجنائز ۳۹ (۱۰۲۷)، سنن النسائی/الجنائز ۷۷ (۱۹۸۹)، (تحفة الأشراف: ۵۷۶۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۲ (۱۴۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہی محققین علماء کا مذہب ہے، یعنی چار تکبیریں کہے اور تکبیر اولی کے بعد سورہ فاتحہ اور سورہ اخلاص پڑھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "إِذَا صَلَّيْتُمْ عَلَى الْمَيِّتِ، فَأَخْلِصُوا لَهُ الدُّعَاءَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جب تم میت کی نماز جنازہ پڑھو تو خلوص دل سے اس کے لیے دعا کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۳ (۱۴۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۹۳) (حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبُو الْجُلَاسِ عُقْبَةُ بْنُ سَيَّارٍ، حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ شَمَّاخٍ، قَالَ: شَهِدْتُ مَرْوَانَ، سَأَلَ أَبَا هُرَيْرَةَ: كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عَلَى الْجَنَازَةِ ؟ قَالَ: أَمَعَ الَّذِي قُلْتَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: كَلَامٌ كَانَ بَيْنَهُمَا قَبْلَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: "اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبُّهَا، وَأَنْتَ خَلَقْتَهَا، وَأَنْتَ هَدَيْتَهَا لِلْإِسْلَامِ، وَأَنْتَ قَبَضْتَ رُوحَهَا، وَأَنْتَ أَعْلَمُ بِسِرِّهَا وَعَلَانِيَتِهَا، جِئْنَاكَ شُفَعَاءَ، فَاغْفِرْ لَهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: أَخْطَأَ شُعْبَةُ فِي اسْمِ عَلِيِّ بْنِ شَمَّاخٍ، قَالَ فِيهِ عُثْمَانُ بْنُ شَمَّاسٍ، وَسَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ الْمُوصِلِيَّ، يُحَدِّثُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قَالَ: مَا أَعْلَمُ أَنِّي جَلَسْتُ مِنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ مَجْلِسًا، إِلَّا نَهَى فِيهِ عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَجَعْفَرِ بْنِ سُلَيْمَانَ.
علی بن شماخ کہتے ہیں میں مروان کے پاس موجود تھا، مروان نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنازے کے نماز میں کیسی دعا پڑھتے سنا ہے؟ انہوں نے کہا: کیا تم ان باتوں کے باوجود مجھ سے پوچھتے ہو جو پہلے کہہ چکے ہو؟ مروان نے کہا: ہاں۔ راوی کہتے ہیں: ان دونوں میں اس سے پہلے کچھ کہا سنی (سخت کلامی) ہو گئی تھی۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم أنت ربها وأنت خلقتها وأنت هديتها للإسلام وأنت قبضت روحها وأنت أعلم بسرها وعلانيتها جئناك شفعاء فاغفر له» "اے اللہ! تو ہی اس کا رب ہے، تو نے ہی اس کو پیدا کیا ہے، تو نے ہی اسے اسلام کی راہ دکھائی ہے، تو نے ہی اس کی روح قبض کی ہے، تو اس کے ظاہر و باطن کو زیادہ جاننے والا ہے، ہم اس کی سفارش کرنے آئے ہیں تو اسے بخش دے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة (۱۰۷۸)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۶۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۵۶، ۳۴۵، ۳۶۳، ۴۵۸) (ضعیف الإسناد) (اس کے راوی علی بن شماخ لین الحدیث ہیں)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ مَرْوَانَ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاق، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَنَازَةٍ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيِّنَا وَمَيِّتِنَا، وَصَغِيرِنَا وَكَبِيرِنَا، وَذَكَرِنَا وَأُنْثَانَا، وَشَاهِدِنَا وَغَائِبِنَا، اللَّهُمَّ مَنْ أَحْيَيْتَهُ مِنَّا فَأَحْيِهِ عَلَى الْإِيمَانِ، وَمَنْ تَوَفَّيْتَهُ مِنَّا فَتَوَفَّهُ عَلَى الْإِسْلَامِ، اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمْنَا أَجْرَهُ، وَلَا تُضِلَّنَا بَعْدَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھی تو یوں دعا کی: «اللهم اغفر لحينا وميتنا وصغيرنا وكبيرنا وذكرنا وأنثانا وشاهدنا وغائبنا اللهم من أحييته منا فأحيه على الإيمان ومن توفيته منا فتوفه على الإسلام اللهم لا تحرمنا أجره ولا تضلنا بعده» "اے اللہ! تو بخش دے، ہمارے زندوں اور ہمارے مردوں کو، ہمارے چھوٹوں اور ہمارے بڑوں کو، ہمارے مردوں اور ہماری عورتوں کو، ہمارے حاضر اور ہمارے غائب کو، اے اللہ! تو ہم میں سے جس کو زندہ رکھے ایمان پر زندہ رکھ، اور ہم میں سے جس کو موت دے اسے اسلام پر موت دے، اے اللہ! ہم کو تو اس کے ثواب سے محروم نہ رکھنا، اور اس کے بعد ہمیں گمراہ نہ کرنا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۳۸ (۱۰۲۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۸۵)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الجنائز ۷۷ (۱۹۸۵)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۳ (۱۴۹۹)، مسند احمد (۲/۳۶۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ. ح وحَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، وَحَدِيثُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَتَمُّ،حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ جُنَاحٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ مَيْسَرَةَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ وَاثِلَةَ بْنِ الْأَسْقَعِ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ فِي ذِمَّتِكَ، فَقِهِ فِتْنَةَ الْقَبْرِ، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فِي ذِمَّتِكَ، وَحَبْلِ جِوَارِكَ، فَقِهِ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَأَنْتَ أَهْلُ الْوَفَاءِ، وَالْحَمْدِ اللَّهُمَّ، فَاغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ، إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ". قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، عَنْ مَرْوَانَ بْنِ جَنَاحٍ.
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مسلمانوں میں سے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو میں نے سنا آپ کہہ رہے تھے: «اللهم إن فلان بن فلان في ذمتك فقه فتنة القبر» "اے اللہ! فلاں کا بیٹا فلاں تیری امان و پناہ میں ہے تو اسے قبر کے فتنہ (عذاب) سے بچا لے"۔ عبدالرحمٰن کی روایت میں: «في ذمتك» کے بعد عبارت اس طرح ہے: «وحبل جوارك فقه من فتنة القبر وعذاب النار وأنت أهل الوفاء والحمد اللهم فاغفر له وارحمه إنك أنت الغفور الرحيم» "اے اللہ! وہ تیری امان میں ہے، اور تیری حفاظت میں ہے، تو اسے قبر کے فتنہ اور جہنم کے عذاب سے بچا لے، تو وعدہ وفا کرنے والا اور لائق ستائش ہے، اے اللہ! تو اسے بخش دے، اس پر رحم فرما، تو بہت بخشنے والا، اور رحم فرمانے والا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۳ (۱۴۹۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۵۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۴۹۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: "أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ، أَوْ رَجُلًا، كَانَ يَقُمُّ الْمَسْجِدَ، فَفَقَدَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَنْهُ، فَقِيلَ: مَاتَ، فَقَالَ: "أَلَا آذَنْتُمُونِي بِهِ ؟، قَالَ: دُلُّونِي عَلَى قَبْرِهِ، فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک کالی عورت یا ایک مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجود نہ پایا تو لوگوں سے اس کے متعلق پوچھا، لوگوں نے بتایا کہ وہ تو مر گیا ہے، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگوں نے مجھے اس کی خبر کیوں نہیں دی؟" آپ نے فرمایا: "مجھے اس کی قبر بتاؤ"، لوگوں نے بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۷۴ (۴۵۸)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۳ (۹۵۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۲ (۱۵۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۴۶۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۵۳، ۳۸۸، ۴۰۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَعَى لِلنَّاسِ النَّجَاشِيَّ فِي الْيَوْمِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَخَرَجَ بِهِمْ إِلَى الْمُصَلَّى، فَصَفَّ بِهِمْ، وَكَبَّرَ أَرْبَعَ تَكْبِيرَاتٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز۶۰ (۱۳۳۴)، ومناقب الأنصار ۳۸ (۳۸۸۰)، صحیح مسلم/الجنائز ۲۲ (۹۵۱)، سنن النسائی/الجنائز ۷۲ (۱۹۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۳۲)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الجنائز ۵ (۱۴)، مسند احمد (۲/۴۳۸، ۴۳۹) (صحیح)
وضاحت: وضاحت ۱؎ : نجاشی حبشہ کے بادشاہ کا لقب ہے، ان کا نام اصحمہ تھا، یہ پہلے نصاری کے دین پر تھے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور جو صحابہ کرام ہجرت کر کے حبشہ گئے ان کی خوب خدمت کی جب وہ فوت ہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدگاہ جا کر صحابہ کرام کے ساتھ ان کی نماز جنازہ پڑھی چونکہ ان کا انتقال حبشہ میں ہوا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی تھی اس سے بعض لوگوں نے نماز جنازہ غائبانہ کے جواز پر استدلال کیا ہے۔ ۲؎ : نماز جنازہ غائبانہ کے سلسلہ میں مناسب یہ ہے کہ اگر میت کی نماز جنازہ نہ پڑھی گئی ہو تب پڑھی جائے اور اگر پڑھی جا چکی ہے تو مسلمانوں کی طرف سے فرض کفایہ ادا ہو گیا، الا یہ کہ کوئی محترم اور صالح شخصیت ہو تو پڑھنا بہتر ہے یہی قول ابن تیمیہ، ابن قیم اور امام احمد ابن حنبل رحمہم اللہ کا ہے، عام مسلمانوں کا غائبانہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں، اور نہ ہی تعامل امت سے۔
حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَنْطَلِقَ إِلَى أَرْضِ النَّجَاشِيِّ، فَذَكَرَ حَدِيثَهُ، قَالَ النَّجَاشِيُّ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَّهُ الَّذِي بَشَّرَ بِهِ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ، وَلَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنَ الْمُلْكِ، لَأَتَيْتُهُ حَتَّى أَحْمِلَ نَعْلَيْهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جب کفار نے سخت ایذائیں پہنچائیں تو) ہمیں نجاشی کے ملک میں چلے جانے کا حکم دیا، نجاشی نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور وہ وہی شخص ہیں جن کے آنے کی بشارت عیسیٰ بن مریم نے دی ہے اور اگر میں سلطنت کے انتظام اور اس کی ذمہ داریوں میں پھنسا ہوا نہ ہوتا تو ان کے پاس آتا یہاں تک کہ میں ان کی جوتیاں اٹھاتا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۱۱۷) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سَالِمٍ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْفَضْلِ السِّجِسْتَانِيُّ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل، بِمَعْنَاهُ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَيْدٍ الْمَدَنِيِّ، عَنِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ عُثْمَانُ بْنُ مَظْعُونٍ، أُخْرِجَ بِجَنَازَتِهِ فَدُفِنَ، أَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا أَنْ يَأْتِيَهُ بِحَجَرٍ، فَلَمْ يَسْتَطِعْ حَمْلَهُ، فَقَامَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَسَرَ عَنْ ذِرَاعَيْهِ، قَالَ كَثِيرٌ: قَالَ الْمُطَّلِبُ: قَالَ الَّذِي يُخْبِرُنِي ذَلِكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى بَيَاضِ ذِرَاعَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَسَرَ عَنْهُمَا، ثُمَّ حَمَلَهَا فَوَضَعَهَا عِنْدَ رَأْسِهِ، وَقَالَ: أَتَعَلَّمُ بِهَا قَبْرَ أَخِي، وَأَدْفِنُ إِلَيْهِ مَنْ مَاتَ مِنْ أَهْلِي".
مطلب کہتے ہیں جب عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو ان کا جنازہ لے جایا گیا اور وہ دفن کئے گئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا (تاکہ اسے علامت کے طور پر رکھا جائے) وہ اٹھا نہ سکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف اٹھ کر گئے اور اپنی دونوں آستینیں چڑھائیں۔ کثیر (راوی) کہتے ہیں: مطلب نے کہا: جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث مجھ سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں: گویا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ہاتھوں کی سفیدی جس وقت کہ آپ نے اسے کھولا دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اٹھا کر ان کے سر کے قریب رکھا اور فرمایا: "میں اسے اپنے بھائی کی قبر کی پہچان کے لیے لگا رہا ہوں، میرے خاندان کا جو مرے گا میں اسے انہیں کے آس پاس میں دفن کروں گا ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۷۲) (حسن) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ صحیح بھی حسن ہے، ورنہ کثیر بن زید سے روایت میں غلطیاں ہو جایا کرتی تھی)۔
وضاحت: ۱؎ : عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بھائی فرمایا کہ وہ آپ کے رضاعی بھائی تھے، انہوں نے ساری عمر کبھی شراب نہیں پی، اور مہاجرین میں سب سے پہلے مدینہ میں انتقال ہوا اور بقیع میں تدفین ہوئی، اس سے معلوم ہوا کہ قبر کی شناخت کے لئے قبر کے پاس کوئی پتھر رکھنا یا کوئی تختی نصب کرنا درست ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ سَعْدٍ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْعَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كَسْرُ عَظْمِ الْمَيِّتِ، كَكَسْرِهِ حَيًّا".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مردے کی ہڈی توڑنا زندے کی ہڈی توڑنے کی طرح ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۶۳ (۱۶۱۶)، (تحفة الأشراف: ۱۷۸۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۵۸، ۱۰۰، ۱۰۵، ۱۶۸، ۲۰۰، ۲۶۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : گویا قبر کھودتے وقت اگر پہلے سے کسی میت کی ہڈی موجود ہے تو اسے چھیڑے بغیر دوسری جگہ قبر تیار کی جائے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَكَّامُ بْنُ سَلْمٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّحْدُ لَنَا، وَالشَّقُّ لِغَيْرِنَا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لحد (بغلی قبر) ہمارے لیے ہے، اور شق (صندوقی قبر)دوسروں کے لیے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجنائز ۵۳ (۱۰۴۵)، سنن النسائی/الجنائز ۸۵ (۲۰۱۱)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۹ (۱۵۵۴)، (تحفة الأشراف: ۵۵۴۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ، قَالَ: "غَسَّلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ،وَالْفَضْلُ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَهُمْ أَدْخَلُوهُ قَبْرَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُرَحَّبٌ، أَوِ ابْنِ أَبِي مُرَحَّبٍ، أَنَّهُمْ أَدْخَلُوا مَعَهُمْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ، فَلَمَّا فَرَغَ عَلِيٌّ، قَالَ: إِنَّمَا يَلِي الرَّجُلَ أَهْلُهُ".
عامر شعبی کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علی، فضل اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے غسل دیا، اور انہیں لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں اتارا۔ شعبی کہتے ہیں: مجھ سے مرحب یا ابومرحب نے بیان کیا ہے کہ ان لوگوں نے اپنے ساتھ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کو بھی داخل کر لیا تھا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے (دفن سے) فارغ ہونے کے بعد کہا کہ آدمی (مردے) کے قریب اس کے خاندان والے ہی ہوا کرتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۴۶) (صحیح) (متابعات و شواہد سے تقویت پا کر یہ دونوں مرسل روایات صحیح ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ أَبِي مُرَحَّبٍ، "أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ نَزَلَ فِي قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ أَرْبَعَةً".
ابومرحب سے روایت ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں اترے تھے وہ کہتے ہیں: مجھے ایسا لگ رہا ہے گویا کہ میں ان چاروں (علی، فضل بن عباس، اسامہ، اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم) کو دیکھ رہا ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۴۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: "أَوْصَى الْحَارِثُ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ رِجْلَيِ الْقَبْرِ، وَقَالَ: هَذَا مِنَ السُّنَّةِ".
ابواسحاق کہتے ہیں کہ حارث نے وصیت کی کہ ان کی نماز (نماز جنازہ) عبداللہ بن یزید رضی اللہ عنہ پڑھائیں، تو انہوں نے ان کی نماز پڑھائی اور انہیں قبر میں پاؤں کی طرف سے داخل کیا اور کہا: یہ مسنون طریقہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۹۶۷۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ زَاذَانَ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: "خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةِ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَانْتَهَيْنَا إِلَى الْقَبْرِ، وَلَمْ يُلْحَدْ بَعْدُ، فَجَلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، وَجَلَسْنَا مَعَهُ".
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک انصاری کے جنازے میں نکلے، قبر پر پہنچے تو ابھی قبر کی بغل کھدی ہوئی نہ تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف منہ کر کے بیٹھے اور ہم بھی آپ کے ساتھ بیٹھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۸۱ (۲۰۰۳)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۷ (۱۵۴۸)، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۸۷، ۲۹۵، ۲۹۷، ۲۹۶) ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (۴۷۵۳، ۴۷۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ. ح وحَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ إِذَا وَضَعَ الْمَيِّتَ فِي الْقَبْرِ، قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ، وَعَلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، هَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کو قبر میں رکھتے تو: «بسم الله وعلى سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم» کہتے تھے، یہ الفاظ مسلم بن ابراہیم کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۶۶۶۰)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الجنائز ۵۴ (۱۰۴۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۳۸ (۱۵۵۰)، مسند احمد (۲/۲۷، ۴۰، ۵۹، ۶۹، ۱۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، قَالَ: اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، وَجِئْتُهُ، فَأَمَرَنِي، فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور اپنے باپ کو گاڑ کر آؤ، اور میرے پاس واپس آنے تک بیچ میں اور کچھ نہ کرنا"، تو میں گیا، اور انہیں مٹی میں دفنا کر آپ کے پاس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا تو میں نے غسل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۸۴ (۲۰۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۷، ۱۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ، أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ الْمُغِيرَةِ حَدَّثَهُمْ، عَنْ حُمَيْدٍ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: جَاءَتِ الْأَنْصَارُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالُوا: "أَصَابَنَا قَرْحٌ، وَجَهْدٌ، فَكَيْفَ تَأْمُرُنَا ؟، قَالَ: احْفِرُوا، وَأَوْسِعُوا، وَاجْعَلُوا الرَّجُلَيْنِ وَالثَّلَاثَةَ فِي الْقَبْرِ، قِيلَ: فَأَيُّهُمْ يُقَدَّمُ ؟، قَالَ: أَكْثَرُهُمْ قُرْآنًا، قَالَ: أُصِيبَ أَبِي يَوْمَئِذٍ عَامِرٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ، أَوْ قَالَ: وَاحِدٌ".
ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں غزوہ احد کے دن انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم زخمی اور تھکے ہوئے ہیں آپ ہمیں کیسی قبر کھودنے کا حکم دیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کشادہ قبر کھودو اور ایک قبر میں دو دو تین تین آدمی رکھو"، پوچھا گیا: آگے کسے رکھیں؟ فرمایا: "جسے قرآن زیادہ یاد ہو"۔ ہشام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میرے والد عامر رضی اللہ عنہ بھی اسی دن شہید ہوئے اور دو یا ایک آدمی کے ساتھ دفن ہوئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الجھاد ۳۳ (۱۷۱۳)، سنن النسائی/الجنائز ۸۶ (۲۰۱۲)، ۸۷ (۲۰۱۳)،۹۰ (۲۰۱۷)، ۹۱ (۲۰۲۰)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۱ (۱۵۶۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۳۱، ۱۸۶۷۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۹،۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ يَعْنِي الْأَنْطَاكِيَّ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق يَعْنِي الْفَزَارِيَّ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ زَادَ فِيهِ، وَأَعْمِقُوا.
اس سند سے بھی حمید بن ہلال سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں اتنا زیادہ ہے کہ: "خوب گہری کھودو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۳۱، ۱۸۶۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل،حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ يَعْنِي ابْنَ هِلَالٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
سعد بن ہشام بن عامر سے یہی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۲۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۳۱، ۱۸۶۷۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي هَيَّاجٍ الْأَسَدِيِّ، قَالَ: بَعَثَنِي عَلِيٌّ، قَالَ لِي: "أَبْعَثُكَ عَلَى مَا بَعَثَنِي عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ! أَنْ لَا أَدَعَ قَبْرًا مُشْرِفًا إِلَّا سَوَّيْتُهُ، وَلَا تِمْثَالًا إِلَّا طَمَسْتُهُ".
ابوہیاج حیان بن حصین اسدی کہتے ہیں مجھے علی رضی اللہ عنہ نے بھیجا اور کہا کہ میں تمہیں اس کام پر بھیجتا ہوں جس پر مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا تھا، وہ یہ کہ میں کسی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر نہ چھوڑوں، اور کسی مجسمے کو ڈھائے بغیر نہ رہوں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۱ (۹۶۹)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۶ (۱۰۴۹)، سنن النسائی/الجنائز ۹۹ (۲۰۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۰۰۸۳)وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۹۶، ۸۹، ۱۱۱، ۱۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مراد کسی ذی روح کا مجسمہ ہے، اس روایت سے قبر کو اونچا کرنے یا اس پر عمارت بنانے کی ممانعت نکلتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا عَلِيٍّ الْهَمْدَانِيّ حَدَّثَهُ، قَالَ: "كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ بِرُودِسَ مِنْ أَرْضِ الرُّومِ، فَتُوُفِّيَ صَاحِبٌ لَنَا، فَأَمَرَ فَضَالَةُ بِقَبْرِهِ فَسُوِّيَ، ثُمّ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِتَسْوِيَتِهَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رُودِسُ جَزِيرَةٌ فِي الْبَحْرِ.
ابوعلی ہمدانی کہتے ہیں ہم سر زمین روم میں رودس ۱؎ میں فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، وہاں ہمارا ایک ساتھی انتقال کر گیا تو فضالہ رضی اللہ عنہ نے ہمیں اس کی قبر کھودنے کا حکم دیا، پھر وہ (دفن کے بعد) برابر کر دی گئی، پھر انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ اسے برابر کر دینے کا حکم دیتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: رودس سمندر کے اندر ایک جزیرہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۱ (۹۶۸)، سنن النسائی/الجنائز ۹۹ (۲۰۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۲۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۱۸، ۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اسکندریہ کے سامنے ایک جزیرہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ هَانِئٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، قَالَ: دَخَلَتْ عَلَىعَائِشَةَ، فَقُلْتُ: يَا أُمَّهْ، اكْشِفِي لِي عَنْ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَاحِبَيْهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَكَشَفَتْ لِي عَنْ ثَلَاثَةِ قُبُورٍ، لَا مُشْرِفَةٍ وَلَا لَاطِئَةٍ، مَبْطُوحَةٍ بِبَطْحَاءِ الْعَرْصَةِ الْحَمْرَاءِ"، قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: "يُقَالُ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقَدَّمٌ، وَأَبُو بَكْرٍ عِنْدَ رَأْسِهِ، وَعُمَرُ عِنْدَ رِجْلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
قاسم کہتے ہیں میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اماں! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دونوں ساتھیوں کی قبریں میرے لیے کھول دیجئیے (میں ان کا دیدار کروں گا) تو انہوں نے میرے لیے تینوں قبریں کھول دیں، وہ قبریں نہ بہت بلند تھیں اور نہ ہی بالکل پست، زمین سے ملی ہوئی (بالشت بالشت بھر بلند تھیں) اور مدینہ کے اردگرد کے میدان کی سرخ کنکریاں ان پر بچھی ہوئی تھیں۔ ابوعلی کہتے ہیں: کہا جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے ہیں، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ آپ کے سر مبارک کے پاس ہیں، اور عمر رضی اللہ عنہ آپ کے قدموں کے پاس، عمر رضی اللہ عنہ کا سر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدموں کے پاس ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۷۵۴۶) (ضعیف) (اس کے راوی عمرو بن عثمان مجہول الحال ہیں)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَحِيرٍ، عَنْ هَانِئٍ مَوْلَى عُثْمَانَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ، وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِأَخِيكُمْ، وَسَلُوا لَهُ بِالتَّثْبِيتِ، فَإِنَّهُ الْآنَ يُسْأَلُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: بَحِيرٌ ابْنُ رَيْسَانَ.
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب میت کے دفن سے فارغ ہوتے تو وہاں کچھ دیر رکتے اور فرماتے: "اپنے بھائی کی مغفرت کی دعا مانگو، اور اس کے لیے ثابت قدم رہنے کی دعا کرو، کیونکہ ابھی اس سے سوال کیا جائے گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: بحیر سے بحیر بن ریسان مراد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۹۴۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا عَقْرَ فِي الْإِسْلَامِ"، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: كَانُوا يَعْقِرُونَ عِنْدَ الْقَبْرِ بَقَرَةً أَوْ شَاةً.
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسلام میں «عقر» نہیں ہے"۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: لوگ زمانہ جاہلیت میں قبر کے پاس جا کر گائے بکری وغیرہ ذبح کیا کرتے تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۴۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قبرکے پاس گائے بکری وغیرہ ذبح کرنا یہی «عقر» ہے، اسلام میں اس سے ممانعت ہو گئی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ يَوْمًا، فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے نکلے اور اہل احد پر اپنے جنازے کی نماز کی طرح نماز پڑھی، پھر لوٹے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۷۲(۱۳۴۴)، والمناقب ۲۵ (۳۵۹۶)، والمغازی ۱۷ (۴۰۴۲)، ۲۷ (۴۰۸۵)، والرقاق ۷ (۶۴۲۶)، ۵۳ (۶۵۹۰)، صحیح مسلم/الفضائل ۹ (۲۲۹۶)، سنن النسائی/الجنائز ۶۱ (۱۹۵۶)، (تحفة الأشراف: ۹۹۵۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۴۹، ۱۵۳، ۱۵۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ حَيْوَةَ بْنِ شُرَيْحٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: "إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى عَلَى قَتْلَى أُحُدٍ بَعْدَ ثَمَانِ سِنِينَ، كَالْمُوَدِّعِ لِلْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ".
اس سند سے بھی یزید بن حبیب سے یہی حدیث مروی ہے، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہداء احد پر آٹھ سال بعد نماز جنازہ پڑھی، یہ ایسی نماز تھی جیسے کوئی زندوں اور مردوں کو وداع کرتے ہوئے پڑھے (درد و سوز میں ڈوبی ہوئی) ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۹۹۵۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : گویا یہ آخر دعاء تھی اس لئے کہ غزوہ احد ۳ ہجری میں ہوا، اور اس کے آٹھ برس بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"نَهَى أَنْ يُقْعَدَ عَلَى الْقَبْرِ، وَأَنْ يُقَصَّصَ، وَيُبْنَى عَلَيْهِ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر پر بیٹھنے ۱؎، اسے پختہ بنانے، اور اس پر عمارت تعمیر کرنے سے منع فرماتے سنا ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۲ (۹۷۰)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۸ (۱۰۵۲)، سنن النسائی/الجنائز ۹۶ (۲۰۲۹)، (تحفة الأشراف: ۲۲۷۴، ۲۷۹۶)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۳ (۱۵۶۲)، مسند احمد (۳/۲۹۵، ۳۳۲، ۳۹۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قبر پر بیٹھنے سے مراد حاجت کے لئے بیٹھنا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ مطلق بیٹھنا مراد ہے کیونکہ اس میں صاحب قبر کا استخفاف ہے۔ ۲؎ : قبر پر بیٹھنے سے صاحب قبر کی توہین ہوتی ہے اور قبر کو مزین کرنے اور اس پر عمارت بنانے سے اگر ایک طرف فضول خرچی ہے تو دوسری جانب اس سے لوگوں کا شرک میں مبتلا ہونے کا خوف ہے، کیونکہ قبروں پر بنائے گئے قبے اور مشاہد شرک کے مظاہر و علامات میں سے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، وَعَنْأَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ عُثْمَانُ: أَوْ يُزَادَ عَلَيْهِ، وَزَادَ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى: أَوْ أَنْ يُكْتَبَ عَلَيْهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ مُسَدَّدٌ فِي حَدِيثِهِ: أَوْ يُزَادَ عَلَيْهِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: خَفِيَ عَلَيَّ مِنْ حَدِيثِ مُسَدَّدٍ حَرْفُ وَأَنْ.
اس سند سے بھی جابر رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے، ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان کی روایت میں یہ بھی ہے کہ اس میں کوئی زیادتی کرنے سے (بھی منع فرماتے تھے) ۔ سلیمان بن موسیٰ کی روایت میں ہے: "یا اس پر کچھ لکھنے سے ۱؎" مسدد نے اپنی روایت میں: «أو يزاد عليه» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مسدد کی روایت میں مجھے حرف «وأن» کا پتہ نہ لگا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۲۲۷۴، ۲۷۹۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قبر پر لکھنے سے مراد وہ کتبہ ہے، جو بعض لوگ قبر پر لگاتے ہیں، اور جس میں میت کے اوصاف اور تاریخ وفات درج کئے جاتے ہیں، اور بعض لوگوں نے کہا کہ مراد اللہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھنا ہے یا قرآن مجید کی آیتیں وغیرہ لکھنا ہے، کیونکہ بسا اوقات کوئی جانور اس پر پاخانہ یا پیشاب وغیرہ کر دیتے ہیں جس سے ان چیزوں کا استخفاف لازم آتا ہے۔
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ یہود کو غارت کرے انہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۵۴ (۴۳۷)، صحیح مسلم/المساجد ۳ (۵۳۰)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۶ (۲۰۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۳۳) ، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۲۴۶، ۲۶۰، ۲۸۴، ۲۸۵، ۳۶۶، ۳۹۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنَا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَأَنْ يَجْلِسَ أَحَدُكُمْ عَلَى جَمْرَةٍ فَتَحْرِقَ ثِيَابَهُ حَتَّى تَخْلُصَ إِلَى جِلْدِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَجْلِسَ عَلَى قَبْرٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی شخص کا آگ کے شعلہ پر بیٹھنا، اور اس سے کپڑے کو جلا کر آگ کا اس کے جسم کی کھال تک پہنچ جانا اس کے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ وہ قبر پر بیٹھے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۲۶۳۸)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۳ (۹۷۱)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۵ (۲۰۴۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۵ (۱۵۶۶)، مسند احمد (۲/۳۱۱، ۳۸۹، ۴۴۴، ۵۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، أَخْبَرَنَا عِيسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ بْنِ جَابِرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا مَرْثَدٍ الْغَنَوِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَجْلِسُوا عَلَى الْقُبُورِ، وَلَا تُصَلُّوا إِلَيْهَا".
واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابومرثد غنوی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"قبروں پر نہ بیٹھو، اور نہ ان کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۳ (۹۷۲)، سنن الترمذی/الجنائز ۵۷ (۱۰۵۰)، سنن النسائی/القبلة ۱۱ (۷۶۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۶۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۱۳۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ بَكَّارٍ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ سُمَيْرٍ السَّدُوسِيِّ، عَنْ بَشِيرِ بْنِ نَهِيكٍ، عَنْ بَشِيرٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَانَ اسْمُهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ زَحْمُ بْنُ مَعْبَدٍ، فَهَاجَرَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَا اسْمُكَ ؟، قَالَ: زَحْمٌ، قَالَ: بَلْ أَنْتَ بَشِيرٌ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أُمَاشِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِقُبُورِ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ: لَقَدْ سَبَقَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا، ثَلَاثًا، ثُمَّ مَرَّ بِقُبُورِ الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ: لَقَدْ أَدْرَكَ هَؤُلَاءِ خَيْرًا كَثِيرًا، وَحَانَتْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَظْرَةٌ، فَإِذَا رَجُلٌ يَمْشِي فِي الْقُبُورِ عَلَيْهِ نَعْلَانِ، فَقَالَ: يَا صَاحِبَ السِّبْتِيَّتَيْنِ، وَيْحَكَ، أَلْقِ سِبْتِيَّتَيْكَ، فَنَظَرَ الرَّجُلُ، فَلَمَّا عَرَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، خَلَعَهُمَا، فَرَمَى بِهِمَا".
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام بشیر رضی اللہ عنہ (جن کا نام زمانہ جاہلیت میں زحم بن معبد تھا وہ ہجرت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "تمہارا کیا نام ہے؟"، انہوں نے کہا: زحم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "زحم نہیں بلکہ تم بشیر ہو" کہتے ہیں: اسی اثناء میں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا کہ آپ کا گزر مشرکین کی قبروں پر سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا: "یہ لوگ خیر کثیر (دین اسلام) سے پہلے گزر (مر) گئے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی قبروں پر سے گزرے تو آپ نے فرمایا: "ان لوگوں نے خیر کثیر (بہت زیادہ بھلائی) حاصل کی"اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر ایک ایسے شخص پر پڑی جو جوتے پہنے قبروں کے درمیان چل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے جوتیوں والے! تجھ پر افسوس ہے، اپنی جوتیاں اتار دے" اس آدمی نے (نظر اٹھا کر) دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتے ہی انہیں اتار پھینکا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۱۰۷ (۲۰۵۰)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۶ (۱۵۶۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۸۳، ۸۴، ۲۲۴) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَطَاءٍ، عَنْ سَعِيد، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "إِنَّ الْعَبْدَ إِذَا وُضِعَ فِي قَبْرِهِ، وَتَوَلَّى عَنْهُ أَصْحَابُهُ، إِنَّهُ لَيَسْمَعُ قَرْعَ نِعَالِهِمْ".
انس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: "جب بندہ اپنی قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی لوٹنے لگتے ہیں تو وہ ان کی جوتیوں کی آواز سنتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۶۷ (۱۳۳۸)، ۸۶ (۱۳۷۳)، صحیح مسلم/الجنة ۱۷ (۲۸۷۰)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۸ (۲۰۵۱)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۲۶، ۲۳۳)، ویأتی ہذا الحدیث فی السنة (۴۷۵۱، ۵۷۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ أَبِي مَسْلَمَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: "دُفِنَ مَعَ أَبِي رَجُلٌ، فَكَانَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِكَ حَاجَةٌ، فَأَخْرَجْتُهُ بَعْدَ سِتَّةِ أَشْهُرٍ، فَمَا أَنْكَرْتُ مِنْهُ شَيْئًا، إِلَّا شُعَيْرَاتٍ كُنَّ فِي لِحْيَتِهِ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ".
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے والد کے ساتھ ایک اور شخص کو دفن کیا گیا تھا تو میری یہ دلی تمنا تھی کہ میں ان کو الگ دفن کروں گا تو میں نے چھ مہینے بعد ان کو نکالا تو ان کی داڑھی کے چند بالوں کے سوا جو زمین سے لگے ہوئے تھے میں نے ان میں کوئی تبدیلی نہیں پائی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۱۱۰) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "مَرُّوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِجَنَازَةٍ، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا خَيْرًا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ مَرُّوا بِأُخْرَى، فَأَثْنَوْا عَلَيْهَا شَرًّا، فَقَالَ: وَجَبَتْ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ شُهَدَاءُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی خوبیاں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وجبت» "جنت اس کا حق بن گئی" پھر لوگ ایک دوسرا جنازہ لے کر گزرے تو لوگوں نے اس کی برائیاں بیان کیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: «وجبت» "دوزخ اس کے گلے پڑ گئی" پھر فرمایا: "تم میں سے ہر ایک دوسرے پر گواہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الجنائز ۵۰ (۱۹۳۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۳۸)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الجنائز ۲۰ (۱۴۹۱)، مسند احمد (۲/۲۶۱، ۴۶۶، ۴۷۰، ۴۹۹، ۵۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ كَيَسَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْرَ أُمِّهِ، فَبَكَى وَأَبْكَى مَنْ حَوْلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْتَأْذَنْتُ رَبِّي تَعَالَى عَلَى أَنْ أَسْتَغْفِرَ لَهَا، فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي، فَاسْتَأْذَنْتُ أَنْ أَزُورَ قَبْرَهَا، فَأَذِنَ لِي، فَزُورُوا الْقُبُورَ، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ بِالْمَوْتِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر آئے تو رو پڑے اور اپنے آس پاس کے لوگوں کو (بھی)رلا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے اپنے رب سے اپنی ماں کی مغفرت طلب کرنے کی اجازت مانگی تو مجھے اجازت نہیں دی گئی، پھر میں نے ان کی قبر کی زیارت کرنے کی اجازت چاہی تو مجھے اس کی اجازت دے دی گئی، تو تم بھی قبروں کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ موت کو یاد دلاتی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۶ (۹۷۶)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۱ (۲۰۳۶)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۸ (۱۵۷۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۴۳۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۴۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا مُعَرِّفُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ مُحَارِبِ بْنِ دِثَارٍ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُورُوهَا، فَإِنَّ فِي زِيَارَتِهَا تَذْكِرَةً".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے روکا تھا سو اب زیارت کرو کیونکہ ان کی زیارت میں موت کی یاددہانی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الجنائز ۳۶ (۹۷۷)، والأضاحي ۵ (۱۹۷۷)، والأشربة ۶ (۱۹۹۹)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۰ (۲۰۳۴)، الأضاحي ۳۶ (۴۴۴۱)، الأشربة ۴۰ (۵۶۵۴، ۵۶۵۵، ۵۶۵۶، ۵۵۵۷)، (تحفة الأشراف: ۲۰۰۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۵/۳۵۰، ۳۵۵، ۳۵۶، ۳۵۷، ۳۶۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا صَالِحٍ، يُحَدِّثُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَائِرَاتِ الْقُبُورِ، وَالْمُتَّخِذِينَ عَلَيْهَا الْمَسَاجِدَ وَالسُّرُجَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر اور قبروں پر مسجدیں بنانے والوں اور اس پر چراغاں کرنے والوں پر لعنت بھیجی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الصلاة ۱۲۲ (۳۲۰)، سنن النسائی/الجنائز ۱۰۴ (۲۰۴۵)، سنن ابن ماجہ/الجنائز ۴۹ (۱۵۷۵)، (تحفة الأشراف: ۵۳۷۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۲۹، ۲۸۷، ۳۲۴، ۳۳۷) (ضعیف) (اس کے راوی ابو صالح باذام ضعیف ہیں لیکن اس میں صرف چراغ جلانے والی بات ضعیف ہے، بقیہ دو باتوں کے صحیح شواہد موجود ہیں)
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"خَرَجَ إِلَى الْمَقْبَرَةِ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِكُمْ لَاحِقُونَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان گئے تو فرمایا: «السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون» "سلامتی ہو تم پر اے مومن قوم کی بستی والو! ہم بھی ان شاءاللہ آ کر آپ لوگوں سے ملنے والے ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الطھارة ۱۲ (۲۴۹)، سنن النسائی/الطھارة ۱۱۰ (۱۵۰)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۳۶ (۴۳۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۴۰۸۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الطھارة ۶ (۲۸)، مسند احمد (۲/۳۰۰، ۴۰۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ، وَقَصَتْهُ رَاحِلَتُهُ، فَمَاتَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ: كَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَاغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ: خَمْسُ سُنَنٍ كَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، أَيْ يُكَفَّنُ الْمَيِّتُ فِي ثَوْبَيْنِ وَاغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، أَيْ إِنَّ فِي الْغَسَلَاتِ كُلِّهَا سِدْرًا، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، وَلَا تُقَرِّبُوهُ طِيبًا، وَكَانَ الْكَفَنُ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا شخص لایا گیا جسے اس کی سواری نے گردن توڑ کر ہلاک کر دیا تھا، وہ حالت احرام میں تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے اس کے دونوں کپڑوں (تہبند اور چادر) ہی میں دفناؤ، اور پانی اور بیری کے پتے سے اسے غسل دو، اس کا سر مت ڈھانپو، کیونکہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لبیک پکارتے ہوئے اٹھائے گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے امام احمد بن حنبل سے سنا ہے، وہ کہتے تھے کہ اس حدیث میں پانچ سنتیں ہیں: ۱- ایک یہ کہ اسے اس کے دونوں کپڑوں میں کفناؤ یعنی احرام کی حالت میں جو مرے اسے دو کپڑوں میں کفنایا جائے گا۔ ۲- دوسرے یہ کہ اسے پانی اور بیری کے پتے سے غسل دو یعنی ہر غسل میں بیری کا پتہ رہے۔ ۳- تیسرے یہ کہ اس (محرم) کا سر نہ ڈھانپو۔ ۴- چوتھے یہ کہ اسے کوئی خوشبو نہ لگاؤ۔ ۵- پانچویں یہ کہ پورا کفن میت کے مال سے ہو ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۱۹ (۱۲۶۵)، ۲۱ (۱۲۶۷)، جزاء الصید ۲۰ (۱۸۴۹)، ۲۱ (۱۸۵۰)، صحیح مسلم/الحج ۱۴ (۱۲۰۶)، سنن الترمذی/الحج ۱۰۵ (۹۵۱)، سنن النسائی/الجنائز ۴۱ (۱۹۰۵)، المناسک ۴۷ (۲۷۱۴)، ۹۷ (۲۸۵۶)، ۱۰۱ (۲۸۶۱)، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۹ (۳۰۸۴)، (تحفة الأشراف: ۵۵۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۶۶، ۲۸۶)، سنن الدارمی/المناسک ۳۵ (۱۸۹۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی قرض کی ادائیگی ثلث وصیت کی تنفیذ، اور وراثت کی تقسیم کفن دفن کے بعد بچے ہوئے مال سے ہو گی۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَمْرٍو، وَأَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، قَالَ: وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ. قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ سُلَيْمَانُ: قَالَ أَيُّوبُ: ثَوْبَيْهِ، وَقَالَ عَمْرٌو: ثَوْبَيْنِ، وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: قَالَ أَيُّوبُ: فِي ثَوْبَيْنِ، وَقَالَ عَمْرٌو: فِي ثَوْبَيْهِ، زَادَ سُلَيْمَانُ وَحْدَهُ: وَلَا تُحَنِّطُوهُ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے اس میں ہے کہ اسے دو کپڑوں میں کفناؤ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: سلیمان نے کہا ہے کہ ایوب کی روایت میں «ثوبين» کے بجائے «ثوبيه» (اسی کے دونوں کپڑے میں) ہے اور عمرو نے «ثوبين» کا لفظ نقل کیا ہے۔ ابو عبید نے کہا کہ ایوب نے «في ثوبين» اور عمرو نے «في ثوبيه» کہا ہے، اور تنہا سلیمان نے «ولا تحنطوه» (اسے خوشبو نہ لگاؤ) کا اضافہ کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۴۳۷، ۵۵۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ نَحْوَهُ، بِمَعْنَى سُلَيْمَانَ: فِي ثَوْبَيْنِ.
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سلیمان کی حدیث کے ہم معنی حدیث مروی ہے اس میں «في ثوبين» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۸)، (تحفة الأشراف: ۵۵۸۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَقَصَتْ بِرَجُلٍ مُحْرِمٍ نَاقَتُهُ، فَقَتَلَتْهُ، فَأُتِيَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اغْسِلُوهُ وَكَفِّنُوهُ، وَلَا تُغَطُّوا رَأْسَهُ، وَلَا تُقَرِّبُوهُ طِيبًا، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يُهِلُّ".
اس سند سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں ایک محرم کو اس کی اونٹنی نے گردن توڑ کر ہلاک کر دیا، اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے فرمایا: "اسے غسل دو اور کفن پہناؤ (لیکن) اس کا سر نہ ڈھانپو اور اسے خوشبو سے دور رکھو کیونکہ وہ لبیک پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۲۳۸)، (تحفة الأشراف: ۵۴۹۷) (صحیح)