مشکوٰة شر یف

جنایات کی جن صورتوں میں تاوان واجب نہیں ہوتا ان کا بیان

جنایات کی جن صورتوں میں تاوان واجب نہیں ہوتا ان کا بیان

جنایات  جمع ہے جنایت کی۔ جنایت کے معنی ہیں  قصور کرنا،جرم کرنا  اس سے قبل وہ ابواب گزرے ہیں جن میں جنایات کی سزائیں تاوان اور قصاص وغیرہ کے سلسلہ میں احادیث گزری ہیں، اس باب کا مقصد جنایات کی ان صورتوں کو بیان کرنا ہے جن میں معاوضہ اور تاوان واجب نہیں ہوتا

جانور کے مارنے، کان میں دب جانے اور کنویں میں گر پڑنے کا کوئی تاوان نہیں

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (چوپایوں کا زخمی کر دینا معاف ہے، کان میں دب جانا بھی معاف ہے، اور کنویں میں گر پڑنا بھی معاف ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اگر کسی کا جانور کسی آدمی کو اپنے پاؤں سے روندے یا کسی کو سینگ یا دم مار کر یا منہ سے کاٹ کر زخمی کر دے اور وہ آدمی مر جائے یا جو جانور کسی چیز کو نقصان و ضائع کر دے تو اس کا کوئی تاوان نہیں ہے بشرطیکہ اس جانور کے ساتھ کوئی آدمی نہ ہو ہاں اگر جانور کے ساتھ کوئی ہانکنے والا یا کھینچنے والا یا اس جانور پر کوئی سوار ہو اور اس جانور سے کوئی چیز ضائع ہو گئی ہو تو اس صورت میں اس جانور کے ساتھ جو بھی آدمی ہو گا اس پر تاوان واجب ہو گا یہ حضرت امام ابو حنیفہ کا مسلک ہے اس بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ اگر جانور نے دن میں کسی چیز کو ضائع کیا ہے تو اس کے مالک پر کوئی تاوان وغیرہ واجب نہیں ہو گا لیکن اگر جانور نے رات میں کسی چیز کو ضائع کیا ہے مثلاً کسی کا کھیت چر گیا یا کسی کے باغ کو نقصان پہنچایا تو اس صورت میں جانور کے مالک پر تاوان واجب ہو گا کیونکہ رات میں جانوروں کی نگہبانی ان کے مالکوں پر لازم ہے اور دن میں اپنے کھیت و باغات اور دوسری چیزوں کی حفاظت کرنا ان کے مالکوں پر لازم ہے

ہدایہ میں لکھا ہے کہ (جانور سے کسی چیز کا نقصان ہو جانے کی صورت میں) جانور کو ہانکنے والے پر اسی چیز کا تاوان واجب ہو گا جو جانور کے ہاتھوں اور پیروں کے ذریعہ تلف ہوئی ہے اور جو شخص جانور کو پکڑ کر کھینچتا ہوا لے جا رہا ہو وہ اس چیز کے تاوان کا ذمہ دار ہو گا جو جانور کے پیروں کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف ہاتھوں کے ذریعہ نقصان ہوئی ہے، اور اگر کسی ایسے جانور نے کسی چیز کو ضائع کیا ہے جس پر کوئی شخص سوار ہو تو اس سوار پر اس چیز کا تاوان واجب ہو گا جو اس جانور کے ہاتھ یا پیر یا سر کے ذریعہ تلف ہوئی ہے۔ نیز اگر نقصان کرنے والا کوئی سوار ہو جانور ہو جس کے ساتھ اس کو ہانکنے والا بھی ہو اور اس پر کوئی سوار بھی ہو اس کو کھینچنے والا بھی ہو اور اس پر کوئی سوار بھی ہو تو اس نقصان کا تاوان دونوں پر واجب نہیں ہو گا۔

  کان میں دب جانا معاف ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کھدی ہوئی کان میں جائے یا اس کے اوپر کھڑا ہو اور پھر کان میں بیٹھ جائے جس کی وجہ سے وہ شخص ہلاک ہو جائے تو اس شخص پر کوئی تاوان واجب نہیں ہو گا جس نے کان کھودی ہے یا کسی مزدور کو کان کھودنے کے لئے اجرت پر لگایا اور اتفاق سے وہ مزدور کان میں دب کر مر گیا تو کان کے مالک پر کوئی تاوان واجب نہیں ہو گا یہ دوسری نوعیت صرف کان ہی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ حکم اجارہ (مزدوری) کی دیگر صورتوں میں بھی نافذ ہو گا جب کہ پہلی نوعیت صرف اس صورت سے متعلق ہے جو حدیث کے آخری جزو (والبئر جبار) (کنویں میں گر پڑنا معاف ہے) کے مطابق ہو چنانچہ  کنویں میں گر پڑنا معاف ہے  کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص نے اپنی زمین یا کسی اور مباح زمین میں کنواں کھودا اور پھر اس میں کوئی شخص گر کر مر گیا تو کنواں کھودنے والے پر کوئی تاوان واجب نہیں ہو گا۔

مدافعت میں کوئی تاوان واجب نہیں ہوتا

اور حضرت یعلی ابن امیہ کہتے ہیں کہ (غزوہ تبوک کے) صبر آزما لشکر کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہمراہ (جہاد میں) شریک تھا، میرے ساتھ ایک نوکر بھی تھا، چنانچہ وہ (کسی بات پر) ایک شخص سے لڑ پڑا اور ان دونوں میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ کھایا مگر اس نے اپنا ہاتھ کاٹنے والے کے منہ سے (اس طرح کھینچا کہ اس کے دانت جھڑ کر گر پڑے۔ وہ شخص کہ جس کے دانت گر پڑے تھے (داد رسی کے لئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا (تا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کے حق میں فیصلہ کریں) لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے دانتوں کا کوئی تاوان واجب نہیں کیا اور اس سے فرمایا کہ وہ شخص اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا تا کہ اس کو اسی طرح چباتے رہتے جس طرح اونٹ چباتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 کیا وہ شخص اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں چھوڑ دیتا الخ  اس ارشاد کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے دانتوں کا تاوان واجب نہ کرنے کے سبب کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جس شخص کی وجہ سے تمہارے دانت ٹوٹ کر گرے ہیں وہ اس مدافعتی کاروائی پر مجبور تھا کہ اس نے دراصل اپنا ہاتھ بچانے کے لئے تمہارے منہ سے کھینچا۔ شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اسی طرح اگر کوئی مرد کسی عورت سے بدکاری کرنا چاہے اور وہ عورت اپنی آبرو بچانے کے لئے اس پر حملہ کرے جس کے نتیجہ میں وہ مرد ہلاک ہو جائے تو اس کی وجہ سے عورت پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی۔چنانچہ منقول ہے کہ حضرت عمر کے پاس یہ مقدمہ آیا کہ ایک لڑکی (کہیں جنگل میں لکڑیاں کاٹ رہی تھی کہ ایک شخص نے اس کا پیچھے کیا اور اس سے منہ کالا کرنا چاہا، لڑکی نے اپنی آبرو خطرہ میں دیکھ کر ایک پتھر اٹھایا اور اس شخص کے کھینچ مارا جس سے وہ مر گیا، حضرت عمر نے اس کے بارے میں فیصلہ دیا کہ  یہ قتل (حقیقت میں) اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے (کہ اس نے اس شخص کو سزا دے کر ایک پاک دامن لڑکی کی عصمت کو محفوظ رکھا) لہٰذا خدا کی قسم اس کی دیت نہیں دلوائی جائے گی  حضرت امام شافعی کا قول ہے۔ اسی طرح کوئی شخص کسی کا مال لوٹے خون ریزی کرنے اور اس کے گھر والوں کو تباہ برباد کرنے کا ارادہ کرے تو اس قسم کا ارادہ کرنے والے اور قتل کرنے والے کین مدافعت کرنا جائز ہے لہذا پہلے تو یہ چاہیے کہ ایسے شخص کو انسانیت کے ساتھ اس کے ارادہ و فعل سے باز رکھنے کی کوشش کی جائے لیکن اگر وہ اپنے ارادہ قتل و قتال سے باز نہ آئے اور اس کے شر سے محفوظ رہنے کے لیے اس کو مار ڈالا جائے تو اس کا خون معاف ہو گا۔

اپنے مال کی حفاظت کرنے والا شہید ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے مال کے لیے مارا جائے تو وہ شہید ہے (بخاری و مسلم)

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مال و اسباب کی حفاظت کر رہا تھا کہ کسی نے اس کو قتل کر دیا تو وہ شہید ہے یہی حکم اس شخص کے بارے میں ہے جو اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (جناب رسالت مآب میں حاضر ہو کر) عرض کیا کہ  یا رسول اللہ !مجھے بتایئے اگر کوئی شخص میرے پاس میرا مال (زبردستی) لینے آئے (تو کیا میں مال اس حوالے کر دوں ؟) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  نہیں تم اس کو اپنا مال نہ دو اس نے عرض کیا  یہ بتایئے اگر وہ مجھ سے لڑ پڑے (تو کیا کروں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، تم بھی اس سے لڑو  اس نے عرض کیا  بتایئے اگر اس نے مجھے مار ڈالا آپ نے فرمایا تم شہید ہو گے دریافت کیا اگر وہ مر جائے (تو اس کا کیا حشر ہو گا ؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ دوزخ میں جائے گا (اور تم پر اس کا کوئی وبال نہیں ہو گا)۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حدیث مسلمانوں کو اپنی جان و مال اور عزت و آبرو بچانے کے لئے حملہ آور کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی تلقین کرتی ہے اور اللہ کے نام لیواؤں کے شعور یہ احساس جاگزیں کرنا چاہتی ہے کہ مسلمان کا یہ شیوہ نہیں ہے کہ وہ کسی بھی ایسے شخص کے مقابلہ میں کم ہمتی اور بزدلی کا ثبوت دے جو اس کے مال کو لوٹنا چاہتا ہے اور اس کی زندگی کو تباہ و برباد کرنے پر تلا ہوا ہے، بلکہ ایک مسلمان کو ایمان و  یقین اور اعتماد علی اللہ کی جو طاقت حاصل ہوتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ حملہ آور اور فسادی کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے اور ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دے کر شہادت کا مرتبہ حاصل کرے یا اس حملہ آور فسادی کو ختم کر کے اس کو جہنم رسید کر دے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر قاتل و فسادی مسلمان بھی ہو تو اس کی مدافعت کرنا اور اس مدافعت میں اس کو ہلاک کر دینا مباح ہے۔

گھر میں جھانکنے والے کو زخمی کر دینا معاف ہے

اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر (تمہارا دروازہ بند ہو اور اس کی دراڑ میں سے) کوئی شخص تمہارے گھر میں جھانکے درآنحالیکہ تم نے اس کو (گھر میں آنے کی) اجازت نہیں دے رکھی ہے اور تم اس کے کنکری مارو اور اس کنکری سے اس کی آنکھ پھوٹ جائے تو تم پر کوئی گناہ (تاوان) نہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 امام شافعی نے اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر عمل کرتے ہوئے ایسے شخص پر سے آنکھ کے تاوان کو ساقط کیا ہے جب کہ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ اس پر تاوان واجب ہو گا، انہوں نے اس حدیث کو مبالغہ اور سخت تنبیہ پر محمول کیا ہے۔

 

 

٭٭  اور حضرت سہل ابن سعد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دروازے سے جھانکا اور اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم پشت خار (کنگھے) سے اپنا سر کھجا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے (جب اس شخص کو جھانکتے ہوئے دیکھا تو) فرمایا کہ اگر میں جانتا (یعنی مجھ کو یقین ہوتا) کہ تم (قصداً جھانک کر) مجھ کو دیکھ رہے تو میں (یہ کنگھا تمہاری آنکھ میں جھونک دیتا) کیا تم نہیں جانتے کہ کسی غیر کے گھر میں آنے کے وقت) اجازت لینے کا حکم اسی آنکھ کی وجہ سے دیا گیا ہے (کہ وہ کسی غیر محرم پر نہ پڑ جائے)۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس سے ثابت ہوا کہ جس طرح بغیر اجازت کے کسی کے گھر میں داخل ہونا برا ہے اسی طرح بغیر اجازت کے کسی گھر میں جھانکنا بھی برا ہے، نیز طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر کوئی بلا قصد کسی کے گھر میں جھانکنے کا مرتکب ہو جائے مثلاً کوئی شخص کسی کے گھر کے سامنے سے گزر رہا ہو اور اضطراراً اس کی نظر گھر میں چلی جائے تو اس پر کوئی برائی نہیں ہے۔

خواہ مخواہ کنکریاں نہ پھینکو

اور حضرت عبداللہ ابن مغفل سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑ کر کنکریاں پھینکتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ کنکریاں نہ پھینکو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس طرح کنکریاں پھینکنے سے منع کیا ہے اور فرمایا کہ اس طرح کنکری پھینک کر نہ تو شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ (دین کے) دشمن کو زخمی کیا جا سکتا ہے (بلکہ یہ محض لہو ولعب ہے جس سے نہ دنیا کا فائدہ ہے اور نہ دین کا اور مستزاد یہ کہ لوگوں کو اس سے ضرر پہنچتا ہے جیسا کہ خود آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) البتہ اس طرح کنکریاں پھینکنا دانت کو توڑ دیتا ہے اور آنکھ کو پھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ابن ملک کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بلا قصد کنکریاں پھینکنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اس میں مصلحت اور فائدہ تو ہوتا نہیں البتہ فتنہ و فساد پھوٹ پڑنے اور لڑائی جھگڑا ہو جانے کا خوف ضرور رہتا ہے چنانچہ یہی حکم ہر ایسے عمل کے بارے میں ہے جس میں یہ بات موجود ہو۔

مجمع اور بازار میں ہتھیاروں کو احتیاط کے ساتھ رکھو

اور حضرت ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی شخص ہماری مسجد اور ہمارے بازار میں آئے یا وہاں سے گزرے اور اس کے پاس تیر ہوں تو اس کو چاہئے کہ ان کو بند کرے (یعنی ان کے پیکانوں پر ہاتھ رکھ لے) تاکہ اس سے کسی مسلمان کو کوئی ضرر نہ پہنچے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ مساجد اور بازار ایسے تمام مقامات جہاں مسلمان جمع ہوں وہاں ہتھیاروں کو بہت دیکھ بھال کے ساتھ اپنے پاس رکھنا چاہئے خواہ وہ تیر ہوں یا دوسرے ہتھیار جیسے بندوق، تلوار نیزہ اور بلم وغیرہ تا کہ ایسا نہ ہو کہ کسی چوک اور غلطی سے کوئی مسلمان کسی کے ہتھیار سے زخمی گھائل ہو جائے۔

کسی مسلمان کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرو

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اپنے (مسلمان)بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے اس لیے کہ اس کو نہیں معلوم کہ  شاید شیطان اس کے  ہاتھ سے ہتھیار کھینچ لے اور اس کی وجہ سے وہ ہتھیار کا مالک دوزخ کی آگ میں ڈال دیا جائے۔(بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

شیطان تو تاک میں رہتا ہی ہے کہ جہاں کوئی انسان چوکا اور اس لعین نے اس کو گناہ میں مبتلا کیا اسی لئے فرمایا گیا کہ کسی مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرو کہ مبادا شیطان تم پر اثر انداز ہو جائے اور وہ ہتھیار اشارے اشارے میں مسلمان بھائی کے جا لگے اور اس کی وجہ سے تم دوزخ کے سزا وار بنو۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کی طرف لوہے (یعنی ہتھیار وغیرہ) سے اشارہ کرتا ہے اس پر فرشتے اس وقت تک لعنت بھیجتے ہیں جب تک کہ وہ اس لوہے کو رکھ نہیں دیتا اگرچہ وہ اس کا حقیقی بھائی کیوں نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے حقیقی بھائی کی طرف لوہے سے اشارہ کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ اس کو قتل کرنے یا اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ رکھتا ہے بلکہ اس کا تعلق ہنسی مذاق ہی سے ہو سکتا ہے مگر اس کے باوجود فرشتے اس پر لعنت بھیجتے ہیں۔ اس ارشاد گرامی کا مقصد گویا کسی مسلمان پر اشارۃً ہتھیار یا لوہا اٹھانے کی ممانعت کو بطور مبالغہ بیان کرنا ہے۔

 

 

٭٭  اور حضرت ابن عمر اور حضرت ابوہریرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جو شخص (ہنسی مذاق کے طور پر بھی) ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی ہمارے طریقہ پر عامل نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ (جو شخص اپنی کوئی چیز فروخت کرتے وقت فروخت کی جانے والی چیز کے کسی عیب و نقصان کو چھپا کر) ہمیں فریب دے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

 

٭٭  اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس شخص نے (بلا ارادہ قتل ہنسی مذاق میں بھی) ہمارے اوپر تلوار کھینچی وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (مسلم)

دنیا میں کسی کو سخت اذیت میں مبتلا کرنے والا خود آخرت میں عذاب الٰہی میں گرفتار ہو گا

اور حضرت ہشام ابن عروہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حضرت ہشام ابن حکیم نے ملک شام (کے سفر کے دوران) انبطی قوم کے کچھ افراد کو اس حال میں دیکھا کہ انہیں دھوپ میں کھڑا کیا گیا تھا اور ان کے سروں پر گرم گرم تیل ڈالا گیا تھا، ہشام ابن حکیم نے (یہ روح فرسا منظر دیکھ کر) کہا کہ یہ کیا ہے ؟  (یعنی ان لوگوں کو کس جرم کی پاداش میں یہ غیر انسانی سزا دی جا رہی ہے ؟) انہیں بتایا گیا کہ  خراج (زرعی ٹیکس نہ دینے) کی وجہ سے ان کو اس عذاب میں مبتلا کیا گیا ہے ؟ حضرت ہشام نے فرمایا  میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ (آخرت میں) ان لوگوں کو عذاب میں مبتلا کرے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب میں مبتلا کرے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب میں مبتلا کرتے ہیں۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی جو شخص کسی کو دنیا میں ناحق کسی چیز کے عذاب میں مبتلا کرے گا مثلاً کسی کو دھوپ میں کھڑا کر کے اس کے اوپر گرم تیل ڈالے گا تو اللہ تعالیٰ عقبی میں اس کو اسی چیز کے عذاب میں گرفتار کرے گا۔

ظلم کے حاشیہ برداروں پر غضب خداوندی

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر تمہاری عمر دراز ہوئی تو تم عنقریب ان لوگوں کو دیکھو گے جن کے ہاتھوں میں گائے کی دم کی مانند ایک ایسی چیز یعنی کوڑے ہوں گے، ان کی صبح اللہ کے غضب میں اور ان کی شام اللہ کی شدید ناراضگی میں گزرے گی (یعنی ان لوگوں پر ہمہ وقت اللہ کا عذاب نازل ہوتا رہے گا) اور ایک روایت میں یہ ہے کہ  ان کی شام اللہ کی لعنت میں گزرے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ان لوگوں  سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی ظالم و جابر یا کسی صاحب اقتدار کے حاشیہ نشین ہوتے ہیں یا ان کے دروازوں پر پڑے رہتے ہیں اور ان کے آگے پیچھے لگے رہتے ہیں اور پھر اس ظالم و جابر کے بل بوتے پر وہ لوگ عام انسانوں کو ڈراتے دھمکاتے پھرتے ہیں غریبوں کو مارتے پیٹتے ہیں، کمزوروں کو گالیاں دیتے ہیں اور نادار شرفاء کی عزت و آبرو کو پامال کرتے ہیں اور کٹ کھنے کتے کی طرح ہر ایک کو کاٹنے دوڑتے ہیں۔

ناروا فیشن کرنے والی عورتوں کے بارے میں وعید

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں میں نے نہیں دیکھا (اور نہ میں دیکھوں گا) ایک گروہ تو ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھوں میں گائے کی مانند کوڑے ہوں گے جس سے وہ (لوگوں کو ناحق) ماریں گے، اور دوسرا گروہ ان عورتوں کا ہے جو بظاہر کپڑے پہنے ہوئے ہوں گی مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی وہ مردوں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خواہ مردوں کی طرف مائل ہوں گی ان کے سر بختی اونٹ کی کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی اور نہ جنت کی بو پائیں گی حالانکہ جنت کی بو اتنی اتنی (یعنی مثلاً سو برس) دوری سے آتی ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مگر حقیقت میں ننگی ہوں گی  اس میں عورتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو اتنے باریک اور مہین کپڑے پہنتی ہیں کہ ان کا بدن جھلکتا ہے، یا اس طرح کپڑے پہنتی ہیں کہ جسم کا کچھ حصہ چھپا رہتا ہے اور کچھ کھلا رہتا ہے (جیسا کہ آجکل ساڑھی اور بلاؤز کا رواج ہے) یا دوپٹہ سے اپنے پیٹ اور سینہ وغیرہ کو ڈھانکنے کی بجائے اس کو گلے میں یا پیٹھ پر ڈال لیتی ہیں، ان تمام صورتوں میں عورت بظاہر تو کپڑے پہنے ہوئے نظر آتی ہے مگر حقیقت میں وہ ننگی ہوتی ہے۔

اس جملہ سے اسی عورتوں کی طرف اشارہ ہے مقصود ہو سکتا ہے کہ جو دنیا میں تو انواع اقسام کے لباس زیب تن کرتی ہیں مگر تقویٰ و عمل صالح کے لباس سے محروم رہتی ہیں کہ وہ تقویٰ اور عمل صالح ہی کی وجہ سے آخرت میں جنت کے لباس کی مستحق ہوں گی۔

 ممیلات  اور مائلات  سے مراد وہ عورتیں ہیں جو بناؤ سنگار اور اپنی سج دھج کے ذریعہ مردوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہیں۔ اور خود بھی مردوں کی طرف مائل ہوتی ہیں۔ یا ممیلات  سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنے دوپٹے اپنے سروں سے اتار پھینکتی ہیں۔تاکہ مرد ان کے چہرے دیکھیں، اور  مائلات  سے مراد وہ عورتیں ہیں جو مٹک مٹک کر چلتی ہیں تاکہ لوگوں کے دل فریفتہ کریں۔

 ان کے سر بختی اونٹ کے کوہان کی طرح ہلتے ہوں گے  سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اپنی چوٹیوں کو جوڑے کی صورت میں سر پر باندھ لیتی ہیں اور جس طرح بختی اونٹ کے کوہان فربہی کی وجہ سے ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں اسی طرح ان کے سر کے جوڑے بھی ادھر ادھر ہلتے رہتے ہیں۔ اس حدیث میں عورتوں کے جس خاص طبقہ کی نشان دہی کی گئی ہے اس کا وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ میں نہیں تھا بلکہ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آنے والے زمانہ میں اس قسم کی عورتوں کی پیدا ہونے کی خبر دی۔

 نہ تو جنت میں داخل ہو گی الخ  یہ عورتوں کے گروہ کے بارے میں فرمایا گیا ہے مردوں کے گروہ کے بارے میں اس طرح کی بات محض اختصار کے پیش نظر نہیں فرمائی گئی ہے، قاضی عیاض کے کہنے کے مطابق اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایسی عورتیں کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہوں گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس وقت نیک و پارسا اور پرہیزگار عورتیں جنت میں داخل ہوں گی اور جنت کی بو پائیں گی اس وقت ایسی عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہونگی اور نہ جنت کی بو پائیں گی، ہاں اپنی اپنی سزا بھگتنے کے بعد ان کو بھی جنت کی سعادت سے نواز دیا جائے گا۔ یا پھر یہ کہ یہ بات ان عورتوں کے بارے میں فرمائی گئی ہے جو ان چیزوں کو حلال جان کر ان کا ارتکاب کریں گی، نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس جملہ سے سخت زجر و تنبیہ مراد ہے۔

کسی کے منہ پر نہ مارو

اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جب تم سے کوئی شخص (کسی کو) مارے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس کے چہرے کو بچائے اس لیے کہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

’آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا ہے‘  کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے آدم کو اپنی صفات پر پیدا کیا ہے اور اس کو اپنی صفات جلالیہ وجمالیہ کا مظہر بنایا۔ یا یہ مراد ہے کہ آدم کو اس صورت خاصہ پر پیدا کیا گیا جس کو اللہ تعالی نے صرف انسانوں کے لیے اختراع کیا اور پیدا کیا۔ اس اعتبار سے اپنی، کی طرف، صورت، کی اضافت، انسانی شرف و کرامت کو ظاہر کرنے کے لیے ہے جیسا کہ (نفخت فیہ من روحی)، میں اللہ تعالی نے روح کی اضافت اپنی طرف فرما کر روح انسانی کی عظمت اور فضیلت کو ظاہر کیا ہے۔ اور بعضوں نے یہ کہا ہے کہ صورتہ کی ضمیر دراصل آدم کی طرف راجع ہے یعنی آدم کو اس صورت پر پیدا کیا جو آدم کے ساتھ مخصوص ہے اور جو تمام مخلوقات سے ممتاز ہے اور خصائص و کرامات پر مشتمل ہے۔ اس طرح حدیث کا حاصل یہ ہو گا کہ حق تعالی نے انسان کو تمام مخلوقات میں اشرف پیدا کیا ہے اور اس کے تمام اعضاء میں اس کا چہرہ اشرف و مکرم اور انسانی صورت کمال کے ظہور کا محل ہے لہذا انسان کے چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے علماء نے لکھا ہے کہ یہ حکم استحباب کے طور پر ہے۔

غیر کے گھر میں بلا اجازت جھانکنے اور داخل ہونے والا قبل تعزیر ہے

اور حضرت ابو ذر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  اگر کسی شخص نے کسی کے گھر کا پردہ کھولا اور اس کے گھر میں اپنی نظر ڈالی جب کہ اس کو (اس گھر میں جھانکنے اور داخل ہونے کی) اجازت حاصل نہیں تھی اور اس نے اس کی گھر والی کو دیکھا تو (اس نے ایک ایسی چیز کا ارتکاب کیا جس کی وجہ سے) وہ قابل تعزیر ہوا، اس کے لئے یہ (ہرگز) جائز نہیں ہے کہ وہ (بلا اجازت کسی کے گھر پر) آئے (اور اس کے گھر میں جھانکے) اگر اس نے گھر میں جھانک کر دیکھا اور گھر والوں میں سے کوئی شخص سامنے آگیا اور اس نے اس (جھانکنے والے) کی آنکھ پھوڑ ڈالی تو میں اس (آنکھ پھوڑنے والے) کو سرزنش نہیں کروں گا اور نہ (بطور تاوان) اس پر کوئی چیز واجب کروں گا، ہاں اگر کوئی مرد کسی ایسے دروازے پر سے گزرے جس پر نہ کوئی پردہ پڑا ہوا ہو اور نہ وہ بند ہو اور اس کی نظر گھر کے آدمیوں پر جا پڑے تو اس پر کوئی گناہ نہیں بلکہ گناہ تو گھر والوں پر ہو گا۔ کہ انہوں نے دروازے کو بند کیوں نہیں کیا اور اس پر پردہ کیوں نہیں ڈالا۔ (ترمذی) نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 اس کے لئے یہ (ہرگز) جائز نہیں ہے الخ  یہ استیناف ہے جو علت کو متضمن ہے، یعنی یہ جملہ ایک الگ عبارت کو شروع کرتا ہے جس کا مقصد پہلی عبارت کے مفہوم کی علت کو بیان کرنا ہے۔

یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اہل خانہ پر واجب ہے کہ وہ اپنے مکان کا دروازہ بند رکھے یا دروازے پر پردہ ڈالے رکھے۔

ہاتھ میں ننگی تلوار رکھنے کی ممانعت

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بے نیام تلوار کو ہاتھ میں رکھنے سے منع کیا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

 بے نیام تلوار کو ہاتھ میں رکھنے سے اس خوف کے پیش نظر منع فرمایا گیا ہے کہ مبادا وہ ہاتھ سے چھوٹ کر گر پڑے اور کسی کے جا لگے یا لوگ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار دیکھ کر خوف و دہشت میں پڑ جائیں۔

انگلیوں کے درمیان تسمہ چیرنے کی ممانعت

اور حضرت حسن حضرت سمرۃ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ تسمہ کو دونوں انگلیوں کے درمیان چیرا جائے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 اس ممانعت کا سبب یہ ہے کہ اس طرح تسمہ چیرنے سے انگلیاں زخمی نہ ہو جائیں۔ یہ حدیث اور اس سے پہلی حدیث دونوں میں مذکور ممانعت تنزیہی ہے اور از راہ شفقت و ہمدردی ہے۔

اپنے دین، اپنی جان، اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کی محافظت میں مارا جانے والا شہید ہے

اور حضرت سعید ابن زید راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ شہید ہے جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ شہید ہے جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے گا وہ شہید ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 دین کی محافظت میں مارے جانے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی مسلمان کے سامنے کسی کافر یا کسی مبتدع نے اس کے دین کی توہین و حقارت کی اور وہ مسلمان اس سے لڑ پڑا اور مارا گیا۔ تو اس کو شہادت کا درجہ ملے گا۔

اکثر علماء کا مسلک یہ ہے کہ اگر مثلاً زید کا مال کوئی شخص لوٹنے کا ارادہ کرے یا اس کو قتل کرنے پر اتر آئے اور یا اس کے اہل و عیال کو کسی قسم کی کوئی نقصان پہنچانے کا قصد کرے تو زید کو چاہئے کہ وہ اس طرح کا برا ارادہ رکھنے والوں کی مدافعت کرے یعنی پہلے تو اس کو اچھے اور نرم انداز میں اس کے برے ارادہ سے باز رکھنے کی کوشش کرے لیکن اگر وہ بغیر لڑائی جھگڑے کے اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور زید اس کو مار ڈالے تو زید پر (تاوان) کوئی چیز نہیں ہو گی۔ اور زید مارا گیا تو وہ شہید کا درجہ پائے گا۔

مسلمان پر تلوار اٹھانے والے کے بارے میں وعید

اور حضرت ابن عمر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا  دوزخ کے سات دروازے ہیں، ان میں سے ایک دروازہ اس شخص کے لئے ہے جو میری امت (کے لوگوں) پر۔ یا یہ فرمایا۔ امت محمدیہ پر (ناحق) تلوار اٹھائے  اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

(وحدیث ابی ہریرہ الرجل جبار ذکر فی باب الغصب۔)

اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث الرجل جبار الخ باب الغصب میں نقل کی جا چکی ہے۔