مشکوٰة شر یف

جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان

جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان

شریعت اسلامی نے خرید و فروخت کے بعض معاملات اور لین دین کی کچھ صورتوں سے منع کیا ہے اسی طرح کچھ چیزیں اور اشیاء ایسی ہیں جن کی خرید و فروخت شرعی نقطہ نظر سے ممنوع ہے پھر بعض معاملات اور بعض چیزوں کی ممانعت ونہی بطریق حرمت (یعنی ان معاملات اور ان چیزوں کے حرام ہونے کی وجہ سے ہے جیسے بیع باطل اور بیع فاسد کی ممانعت اور بعض ممانعت کا تعلق محض کراہت سے ہے جیسے جمعہ کی اذان کے وقت خرید و فروخت کا معاملہ کرنے کی ممانعت۔

چنانچہ خرید و فروخت کے جن معاملات یا جن چیزوں کی خرید و فروخت کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ وہ معاملات یا وہ چیزیں شریعت کی نظر میں حرام ہیں ان کی حنفی مسلک کے مطابق دو قسمیں ہیں

 1بیع فاسد 2 بیع باطل

بیع فاسد: خرید و فروخت اور لین دین کے اس معاملہ کو کہتے ہیں جو اصول بیع کے پائے جانے کی وجہ سے تو یہ صحیح ہو جاتا ہے مگر بیع کے صحیح ہونے کی جو شرائط ہیں ان میں سے بعض شرطوں کے فوت ہو جانے کی وجہ سے وہ معاملہ جائز نہیں رہتا اس لئے ایسے معاملہ کو ختم کر دینا ہی ضروری ہوتا ہے اسی کو فقہاء کی اصطلاح میں مشروع بنفسہٖ اور ممنوع بوصفہ کہا جاتا ہے یعنی ایسی بیع باعتبار اصول مشروع وصحیح ہے اور باعتبار مشروط و اوصاف ممنوع ہے۔

بیع باطل: خرید و فروخت اور لین دین کے اس معاملہ کو کہتے ہیں جو شرعی نقطہ نظر سے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ وہ معاملہ نہ تو اصول بیع کے اعتبار سے صحیح ہوتا ہے اور نہ باعتبار شروط و اوصاف جائز ہوتا ہے۔

مناسب ہے کہ اس ضمن میں کچھ مسائل ذکر کر دئے جائیں جن سے نہ صرف مذکورہ بالا اقسام کی تعریفات سمجھنے میں آسانی ہو گی بلکہ باب کے موضوع کے اعتبار سے ان کا جاننا بھی ضروری ہے۔

اگر مبیع (یعنی بیچی اور خریدی جانے والی چیز) شرعی اعتبار سے مال نہ ہو جیسے خون مردار آزاد شخص ام الولد مکاتب پیشاب اور بالکل نکمی چیز تو ایسی کسی بھی چیز کی بیع باطل ہے اسی طرح مبیع مال تو ہو مگر متقوم نہ ہو جیسے شراب اور سور (خنزیر) تو اس کی بیع اس صورت میں تو باطل ہو گی جبکہ اسے روپے کے عوض فروخت کیا جائے اور اگر اس کی بیع اسباب کے عوض کی جائے گی تو اس صورت میں اسباب کی بیع تو فاسد ہو گی اور اس مال غیر متقوم کی بیع باطل ہو گی۔

بیع باطل اور بیع فاسد میں فرق یہ ہے کہ بیع باطل میں تو بیع (بیچی جانے والی چیز) شرعی نقطہ نظر سے مشتری یعنی خریدار کی ملکیت میں سرے سے آتی ہیں نہیں جبکہ بیع فاسد میں بیع قبل قبضہ تو کوئی حکم نہیں رکھتی مگر بعد قبضہ بطور حرام مشتری کی ملتتر میں آ جاتی ہے اور نقود سے اس کی قیمت کی ادائیگی اس کے ذمہ ضروری ہوتی ہے لیکن قبضہ کے بعد بھی اس بیع کو فسخ کر دینا واجب ہوتا ہے بشرطیکہ مبیع بعینہ خریدار کے پاس موجود ہے۔

جانور کے تھن میں دودھ کی بیع باطل ہے کیونکہ وہ مشکوک الوجود ہوتا ہے ہو سکتا ہے کہ جانور کے تھن کی ظاہری حالت دیکھ کر اس میں دودھ کی موجودگی کا یقین کرایا جائے اور اس دودھ کی بیع کر دی جائے مگر بعد میں پتہ لے کہ تھن میں سرے سے دودھ تھا ہی نہیں بلکہ ہوا وغیرہ کی وجہ سے تھن پھولا ہوا تھا ایسی صورت میں یہ فریب اور دھوکہ دھی کا معاملہ ہو جائے گا۔

ہوا میں اڑتے ہوئے پرندے بھی بیچنا جائز نہیں ہیں بشرطیکہ وہ جانور ایسا نہ ہو جو لوٹ پھر کر آ جاتا ہو جیسے کبوتر تو اس کو ہوا میں اڑتے ہوئے بھی بیچنا درست ہے اسی طرح اس مچھلی کی بیع بھی ناجائز ہے جو ابھی پکڑی نہ گئی ہو بلکہ پانی مثلاً دریا وغیرہ ہی میں ہو یا پکڑی جا چکی ہو مگر پھر اسے کسی ایسے حوض وغیرہ میں ڈال دیا گیا ہو جس میں سے اسے بغیر جال وغیرہ کے پکڑنا ممکن نہ ہو ایسے ہی لونڈی یا جانور کا حمل وہ موتی جو سیپ میں ہو اور جانور کے ذبح ہونے اور کٹنے سے پہلے اس کے گوشت کی بیع کرنا جائز نہیں ہے سو (خنزیر) کے بالوں کی بیع کرنا بھی جائز نہیں ہے البتہ ان بالوں سے فائدہ اٹھانا مثلاً گون یعنی غلہ وغیرہ بھر کر جانور کی پیٹھ پر لادے جانے والے تھیلے اور بورے کو سینے کے مصرف میں لانا جائز ہے لیکن آدمی کے بالوں کی بیع بھی ناجائز ہے اور ان سے فائدہ اٹھانا بھی ناجائز ہے۔

جو بیع آپس کے نزاع کا باعث بنتی ہو وہ فاسد ہے جیسے بکری وغیرہ کی پیٹھ پر اس کی پشم کی بیع یا چھت میں لگی ہوئی لکڑی کی بیع یا ایک بڑے کپڑے میں ایک گز کپڑے کی بیع یا ایسی بیع کرنا جس میں ادائیگی قیمت کی مدت کو مجہول رکھا جائے مثلاً یوں کہے کہ جس روز بارش برسے گی یا جس روز تیز ہوا چلے گی اس روز اس کی قیمت ادا کروں گا لیکن اگر ان تمام صورتوں میں خریدار نے بیع کو فسخ نہ کیا اور بیچنے والے نے خریدار کو دینے کے لئے چھت میں کڑی کو جدا کر دیا یا بڑے کپڑے میں سے گز بھر کپڑا جدا کر دیا خریدار نے ادائیگی قیمت کی مدت مجہول کو موقوف کر دیا تو بیع صحیح ہو جائے گی۔

شرط فاسد کے ساتھ کی جانے والی بیع فاسد ہوتی ہے اور شرط فاسد اسے کہتے ہیں جو اقتضائے عقد کے خلاف ہو اور اس میں یا بیچنے والے کا فائدہ ہو جیسے بیچنے والا یہ شرط عائد کرے کہ میں نے یہ مکان بیچا مگر ایک ماہ تک میں اسی مکان میں رہوں گا یا خریدار کا فائدہ ہو جیسے خریدار یہ شرط عائد کرے کہ میں نے یہ کپڑا خرید لیا لیکن یہ کپڑا مجھے سی کر دے مبیع کا فائدہ ہو جب کہ انسان یعنی غلام و لونڈی ہو اور وہ نفع کا مستحق ہو جیسے بیچنے والا خریدار سے کہے کہ اس غلام کو آزاد کر دینا یا اس غلام کا نکاح کر دینا اس قسم کی شرطیں فاسد ہیں ان کی وجہ سے بیع بھی فاسد ہو جاتی ہے۔

خریدار کی ملکیت کی شرط کرنا چونکہ اقتضائے عقد کے خلاف نہیں ہے اس لئے فاسد نہیں اسی طرح اگر کوئی تاجر مثلاً کوئی کپڑا بیچتے ہوئے خریدار پر یہ شرط عائد کرے کہ اس کپڑے کو فروخت نہ کرنا تو یہ شرط اگرچہ اقتضائے عقد کے خلاف ہے لیکن چونکہ اس شرط میں کسی کی بھی منفعت نہیں ہے اس لئے یہ شرط فاسد نہیں ہو گی نیز گھوڑا بیچنے والا اگر خریدار پر یہ شرط عائد کرے کہ اس گھوڑے کو فربہ کرنا اگرچہ اس شرط میں مبیع کی منفعت ہے لنگی مبیع چونکہ انسان نہیں کہ وہ نفع کا مستحق ہو اس لئے یہ شرط بھی فاسد نہیں یہ شرط لغو و ساقط ہو گی اور بیع صحیح ہو جائے گی۔

بیع فاسد و باطل کی مزید تفصیل فقہ کی کتابوں میں درج ہے ان کو جاننا چاہئے تاکہ خرید و فروخت کے ان معاملات سے جو شریعت کی نظر میں ناقابل اعتبار ہیں اور جن کا آج کل بہت رواج ہے اجتناب کیا جا سکے اس موقع پر چند دیگر مسائل کی وضاحت بھی ضروری ہے مثلاً :

بیچنے والے کی طرف سے بیع کے ناپ تول میں کمی یا خریدار کی طرف سے قیمت میں کٹوتی حرام ہے جس طرح بیچنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیع کو پورا پورا ناپ تول کر دے اسی طرح خریدار کے لئے بھی ضروری ہے کہ جو قیمت طے ہو چکی ہے اس میں ادائیگی کے وقت کمی نہ کرے جو لوگ اس کے خلاف کرتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے یوں تنبیہ کی ہے

آیت (ویل للمطففین) (بڑی خرابی ہیں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کیلئے)

مبیع کی قیمت دیون معجلۃ اور مزدوروں کی ادائیگی میں بلا عذر تاخیر کرنا حرام ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ غنی صاحب استطاعت کی طرف سے ادائیگی مطالبہ میں تاخیر ظلم ہے لہذا مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو۔

منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی کا دین ادا کرتے تو مقدار واجب سے زیادہ ادا فرماتے مقدار واجب اگر آدھا وسق ہوتی تو اس کی بجائے ایک وسق دیتے اور اگر ایک وسق واجب ہوتا تو اس کی بجائے دو وسق عطا کرتے اور یہ فرماتے کہ یہ تو تمہارا حق ہے اور اس قدر مزید میری طرف سے عطاء ہے لیکن یہ ذہن میں رہے کہ اس طرح مقدار واجب سے زیادہ دینا سود کے حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ سود تو اس وقت ہوتا ہے جب اس زیادتی کو پہلے سے مشروط کر دیا گیا ہو بغیر شرط زیادہ دینا جائز بلکہ مستحب ہے۔

معاملات میں عہد شکنی مکر و فریب اور جھوٹ کی آمیزش کسب حلال کو بھی حرام کر دیتی ہے لہذا ان سے اجتناب ضروری ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بازار میں ایک دوکان پر رکھے ہوئے گیہوں کے ایک ڈھیر کو دیکھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ڈھیر میں اپنا دست مبارک ڈالا تو اندر سے گیہوں تر معلوم ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دکاندار سے پوچھا یہ کیا ہے اس نے کہا کہ ان گیہوں تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا جس کی وجہ سے یہ اندر کی جانب سے گیلے ہو گئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تو پھر تم نے ان گیلے گیہوں کو ڈھیر کے اوپر کیوں نہیں رکھا (تاکہ کوئی لاعلم شخص ان کی وجہ سے دھوکہ نہ کھائے یاد رکھو جو شخص مسلمانوں کو فریب دیتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

بیع مرابحت (قیمت خرید پر نفع لے کر بیچنے کی صورت) اور بیع تولیت (قیمت خرید پر بلا نفع بیچنے کی صورت) میں خریدار کے سامنے پہلی قیمت (یعنی جس قیمت پر خود بیچنے والے نے خریدا ہو) کو بلا کم و بیش ظاہر کر دینا واجب ہے اگر بیچنے والے نے بیع پر قیمت کے علاوہ کچھ اور مثلاً مزدوری ڈھلائی اور چنگی وغیرہ کا خرچ برداشت کیا ہو تو اس کو بھی قیمت کے ساتھ ملا لے اور خریدار سے یوں کہے کہ اس چیز پر میرے اتنے روپے خرچ ہوئے ہیں یہ نہ کہے کہ میں نے یہ چیز اتنے روپے میں خریدی ہے تاکہ جھوٹا نہ بنے۔

اگر کسی شخص نے ایک کپڑا مثلاً دس روپے میں بیچا اور ہنوز خریدار نے بیچنے والے کو وہ دس روپے ادا نہیں کئے تھے کہ بیچنے والے نے پھر وہی کپڑا خریدار سے پانچ روپے میں خرید لیا یا اس کپڑے کو ایک اور کپڑے کے ساتھ دس درہم میں خریدا تو یہ بیع صحیح نہیں ہو گی۔ کیونکہ یہ سود کے حکم میں آ جائیگی بیع پر قبضے سے پہلے تصرف جبکہ مبیع منقول ہو حرام ہے چنانچہ منقول چیز کو قبضہ کرنے سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے۔

کسی شخص نے ایک کیلی چیز جو پیمانہ میں ناپ کر لی دی جاتی ہو) بشرطیکہ کیل خریدی اور بیچنے والے سے وہ چیز پیمانہ میں نپوا کر لے لی اور پھر اسی چیز کو اس نے کسی دوسرے کے ہاتھ بشرط کیل بیچی تو اب اس دوسرے خریدار کے لئے ضروری ہے کہ جب تک وہ خود بھی اس پہلے خریدار سے اس چیز کو پیمانہ میں نپوا نہ لے نہ تو اس چیز کو اپنے تصرف میں لائے اور نہ کسی اور کے ہاتھ بیچے کیونکہ پہلا ناپ کافی نہیں ہے احتیاط کا تقاضہ یہی ہے کہ اس کو پھر ناپ لیا جائے کہ مبادا وہ چیز پیمانہ میں کچھ زائد نکلے اور وہ بائع کا مال نہ ہو۔

اگر ایک مسلمان کسی چیز کی خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرتے ہوئے ایک نرخ متعین کرتا ہے یا ایک مسلمان نے کسی عورت سے نکاح کا پیغام دیا ہے تو تاوقتیکہ اس کا معاملہ طے یا موقوف نہ ہو جائے کسی دوسرے کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس چیز کا معاملہ کرے یا اپنا پیغام بھیجے۔ بوقت اذان جمعہ خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کرنا مکروہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے سعی واجب یعنی نماز جمعہ کی ضروری تیاریوں میں خلل آتا ہے اگر متعدد مسجدوں میں جمعہ کی نماز ہوتی ہو تو جس مسجد میں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو اس کی اذان سے بیع ترک کرے۔

اگر دو بڑے چھوٹے غلام آپس میں محرمیت کی قرابت رکھتے ہوں تو ان کی علیحدہ علیحدہ بیع کرنا مکروہ و ممنوع ہے اسی طرح اگر ایک ان میں سے چھوٹا ہو اور دوسرا بڑا تب بھی مکروہ و ممنوع ہے بلکہ بعض علماء کے نزدیک تو یہ بیع ہی جائز نہیں ہو گی۔

مردار کی چربی بیچنا جائز نہیں ہے نجس کا تیل بیچنا حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں تو جائز ہے لیکن دوسرے ائمہ کے ہاں جائز نہیں ہے انسان کی غلاظت کی بیع جب کہ اس میں کچھ ملا نہ ہو حضرت حضرت امام اعظم کے نزدیک مکروہ ہے اور اگر راکھ غیر ملی ہوئی ہو تو جائز ہے حضرت امام اعظم کے ہاں گوبر کا بیچنا بھی جائز نہیں اس سے فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں ہے۔ بادشاہ وحاکم کے لئے یہ مکروہ ہے کہ وہ اشیاء کے نرخ متعین کر دیں ہاں اگر تاجر غلہ ودیگر اشیاء کی گرانی میں حد سے تجاوز کرنے لگیں اور عوام پریشانی میں مبتلا ہو جائیں تو پھر حاکم کے لیے جائز ہے کہ وہ تجربہ کار اور ماہرین کے مشورہ سے متعین کرے۔

وہ بیوع جن سے منع کیا گیا ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے باغ کا میوہ تازہ پھل اگر وہ کھجور ہو تو خشک کھجوروں کے بدلے پیمانہ کے ذریعہ مثلاً دس پیمانے کے بقدر بیچے یعنی ایک شخص کے باغ میں تازہ کھجوریں لگی ہوئی ہوں اور ایک دوسرے شخص کے پاس خشک کھجوریں رکھی ہوئی ہوں تو باغ والا شخص اس دوسرے شخص سے دس پیمانے بھر کر خشک کھجوریں لے لے اور اس کے عوض اپنے درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوریں اسی پیمانے کے مطابق اندازہ کر کے بیچ دے اور اگر میوہ انگور ہو تو اس کو خشک انگور کے بدلے پیمانہ کے ذریعہ بیچے (حاصل یہ کہ بیع مزابنہ کا مطلب ہے درخت پر لگے ہوئے تازہ میوہ کو خواہ وہ کھجور ہو یا کوئی اور پھل رکھے ہوئے خشک میوہ کے عوض بیچنا اور مسلم میں یہ بھی ہے کہ اگر کھیتی ہو تو اس میں بیع مزابنہ کی شکل یہ ہے کہ اس کو غلہ کے عوض پیمانہ کے ذریعہ بیچے یعنی کھیت میں کھڑی ہے اور ایک دوسرے شخص کے پاس گیہوں رکھا ہوا ہے تو پہلا شخص اپنے کھیت میں کھڑے ہوئے گیہوں کا اندازہ کر کے اس کو دوسرے شخص کے ہاتھ بیچے اور اس کے عوض اس شخص سے وہ رکھا ہوا گیہوں اپنے اندازے کے مطابق پیمانہ بھر کے لے لے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع کی ان تمام قسموں سے منع فرمایا ہے (بخاری و مسلم)

اور بخاری و مسلم ہی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے نیز فرمایا کہ بیع مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوروں کو کسی شخص کو ہاتھ اس کے پاس رکھی ہوئی خشک کھجوروں کے عوض پیمانہ معین کر کے بیچے اور خریدار سے کہہ دے کہ اگر درخت کی کھجوریں معین پیمانہ سے زائد ہوں گی تو میری ہیں یعنی اسے لے لوں گا اور اگر کم نکلیں تو اس کا میں ذمہ دار ہوں کہ اس کمی کو میں پورا کروں گا۔

 

تشریح

 

 مزابنہ لفظ زبن سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دفع کرنا دور کرنا بیع مزابنہ سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس بیع کی بنیاد قیاس اور اندازے پر ہوتی ہے اس میں فریقین کے لئے زیادتی اور نقصان دونوں کا احتمال رہتا ہے اس کی وجہ سے دونوں یعنی بیچنے والے اور خریدار کے درمیان نزاع و فساد بھی پیدا ہو سکتا ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے دفعیہ اور دوری کی نوبت بھی آسکتی ہے۔

یہاں دو روایتیں نقل کی گی ہیں ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلی روایت میں مزابنہ کی تعریف لفظ ثمر کے ذکر سے کی گئی ہے جو عمومیت کے لئے ہوئے ہے۔ دوسری روایت میں مزابنہ کی تعریف لفظ تمر کے ذکر سے کی گئی ہے جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ بیع مزابنہ کا تعلق صرف کھجور سے ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ دوسری روایت میں بھی عمومیت ہی مراد ہے خاص طور پر کھجور کا ذکر محض تمثیل ہے۔

 

 

٭٭ حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم مخابرۃ محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور محاقلہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی کھیتی کو سو فرق گیہوں کے بدلے میں بیچ دے اور مزابنہ یہ ہے کہ کوئی شخص درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں کو سو فرق رکھی ہوئی کھجوروں کے بدلے میں بیچ دے اور مخابرۃ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین کو ایک معین حصہ جیسے تہائی یا چوتھائی پر کاشت کے لئے دے دے (مسلم)

 

 

تشریح

 

 فرق راء کے زبر کے ساتھ ایک پیمانہ کا نام تھا جس میں سولہ رطل یعنی تقریباً سات سیر غلہ آتا تھا اور فرق راء کے جزم کے ساتھ اس پیمانے کو کہتے تھے جس میں ایک سو بیس رطل غلہ آتا تھا حدیث میں سو فرق کا ذکر محض تمثیل کے طور پر آیا ہے مقصود تو صرف یہ بتانا ہے کہ کٹنے سے پہلے کھیت میں کھڑے ہوئے گیہوں کو رکھے ہوئے گیہوں کے عوض بیچنا محاقلہ کہلاتا ہے۔

یہی مفہوم گذشتہ حدیث میں مزابنہ کے ضمن میں بھی ذکر کیا جا چکا ہے لیکن مزابنہ وسیع وعام کا حامل ہے کہ اس کا اطلاق میووں اور پھلوں پر بھی آتا ہے اور کھیتی اور غلوں کے لئے بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جبکہ محاقلہ کا استعمال صرف کھیتی اور غلوں ہی کے لئے کیا جاتا ہے اگرچہ بعض مواقع پر مزابنہ بھی صرف میوؤں اور پھلوں ہی کے بارے میں استعمال ہوتا ہے۔

مخابرۃ کا مطلب ہے کہ اپنی زمین کو بٹائی پر کاشت کے لیے کسی دوسرے کو دے دینا مثلاً کوئی شخص اپنی زمین کسی دوسرے کو اس شرط کے ساتھ دے دے کہ اس زمین کو جوتنا بونا اور جو کچھ اس میں پیدا ہو اس میں سے تہائی یا چوتھائی مجھے دے دینا۔

حدیث بالا میں اس کی بھی ممانعت فرمائی گئی ہے کیونکہ اول تو یہ اجرت کی ایک شکل ہوتی ہے اور اس میں اجرت مجہول رہتی ہے دوسرے حاصل ہونے والی چیز معدوم ہوتی ہے اور جو چیز معدوم ہوتی ہے اس کا کوئی معاملہ مقرر نہیں ہوتا مخابرت کو مزارعت بھی کہتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق یہ ہے کہ مخابرت کی صورت میں تو تخم و بیج کاشت کرنے والے کا ہوتا ہے اور مزارعت میں زمین کے مالک کا ٫ مزارعت اور مخابرت بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک جائز نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں حکم ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک درست ہے حنفی مسلک میں فتوی صاحبین ہی کے قول پر ہے کیونکہ یہ کثیر الوقوع اور بہت زیادہ احتیاج کی چیز ہے اس کو جائز نہ رکھنے کی صورت میں لوگوں کو بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

 

٭٭ اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے محاقلت مزابنت مخابرت معاومت اور ثنیا سے منع فرمایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عرایا کی اجازت دی ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 محاقلت مزابنت اور مخابرت کے معنی تو بیان کئے جا چکے ہیں معاومت کے معنی یہ ہیں کہ درختوں کے پھلوں کو نمودار ہونے سے پہلے ایک سال دو سال تین سال یا زیادہ مدت کے لئے فروخت کر دیا جائے اور ثنیا کا مطلب یہ ہے کہ درختوں پر موجود پھلوں کو بیچا جائے لیکن ان میں سے ایک غیر معین مقدار مستثنی کر لی جائے یعنی اسے نہ بیچا جائے۔

عرایا جمع ہے عریت کی اور عریت کھجور کے اس درخت کو کہتے ہیں جسے اس کا مالک کسی محتاج و فقیر کو پھل کھانے کے لئے عاریتاً دے دے عرایا کی اجازت دی ہے کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگ اپنے باغ میں سے ایک درخت یا دو درخت کسی محتاج کو پھل کھانے کے لئے دے دیا کرتے تھے جیسا کہ معمول تھا وہ باغ کا مالک اپنے اہل و عیال کے ساتھ جب باغ میں آتا ہے اور ان سب لوگوں کی موجودگی میں وہ محتاج آ جاتا تو اپنے باغ میں ایک شخص کے آ جانے کی وجہ سے ان کو کچھ کبیدگی ہوتی اس لئے اس محتاج کو وہ اس درخت کی بجائے اپنے پاس سے کچھ پھل دے کر رخصت کر دیتے اور اس درخت کا پھل خود رکھ لیتے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو روا رکھا لیکن یہ پانچ وسق سے کم میں تو جائز ہے اس سے زیادہ میں درست نہیں جیسا کہ آگے حضرت ابوہریرہ کی روایت میں آ جائے گا۔

حضرت سہل ابن ابی حثمہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عریہ کسی محتاج کو دئیے گئے درخت کے متعلق یہ اجازت دی ہے کہ اس درخت پر لگے ہوئے پھل کو اس کے خشک ہونے کے بعد کی مقدار کا اندازہ کر کے بیچا جائے یعنی یہ اندازہ کر لیا جائے کہ اس درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجوریں خشک ہونے کے بعد کتنی رہیں گی اور پھر اتنی ہی مقدار میں خشک کھجوریں اس محتاج کو دے کر اس درخت پر لگی ہوئی کھجوریں لے لی جائیں اس طرح اس کے مالک اس درخت کا تازہ پھل کھائیں (بخاری و مسلم)

بیع عرایا کا مسئلہ

حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عاریتاً (محتاجوں کو عاریتاً دئیے گئے درختوں کے پھلوں) کو خشک کھجوروں کے ساتھ اندازہ کر کے بیچنے کی اجازت دے دی ہے یعنی اگر عرایا پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں سے بدلنا ہو تو پہلے یہ اندازہ کر لیا جائے کہ یہ تازہ کھجوریں خشک ہونے کے بعد کتنی رہیں گی پھر اتنی ہی مقدار میں خشک کھجوریں لیکر وہ تازہ کھجوریں دے دی جائیں مگر اس اجازت کا تعلق اس صورت سے ہے جبکہ وہ پانچ وسق سے کم ہوں یہ حدیث کے ایک راوی داؤد ابن حصین کا شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد میں پانچ وسق سے کم کا تذکرہ تھا یا پانچ وسق کا تذکرہ تھا (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 پانچ وسق سے کم  کی قید اس لئے ہے کہ اس اجازت کا تعلق احتیاج اور ضرورت سے ہے اور احتیاج و ضرورت پانچ وسق سے کم ہی ہوتی ہے چنانچہ عرایا کے پھلوں کی مذکورہ بالا بیع و تبادلہ پانچ وسق سے کم میں سب ہی علماء کے نزدیک جائز ہے پانچ وسق سے زیادہ میں جائز نہیں ہے البتہ پورے پانچ وسق کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں زیادہ صحیح قول عدم جواز ہی کا ہے کیونکہ بیان مقدار میں راوی نے شک کا اظہار کیا ہے لہذا ایسی صورت میں احتیاط کا تقاضہ یہی ہونا چاہئے کہ پانچ وسق سے کم مقدار پر عمل کیا جائے جو بہرحال متعین ہے اس بات میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اس اجازت کا تعلق صرف محتاجوں ہی سے ہے یا اغنیاء سے بھی اس اجازت کے دائرہ میں آتے ہیں چنانچہ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ یہ اجازت دونوں کے لئے ہے۔

وسق ایک پیمانہ کا نام ہے ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور ایک صاع کے پیمانہ میں تقریباً سڑھے تین سیر غلہ آتا ہے انگریزی سیر کے اعتبار سے پانچ وسق تقریباً چھبیس من کا ہوتا ہے)

بیع ثمر خام کی ممانعت

حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پھلوں کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ ان کی پختگی ظاہر نہ ہو جائے یہ ممانعت بیچنے والے اور خریدنے والے دونوں کے لئے ہے (بخاری و مسلم)

مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجوروں کے پھل اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے کہ جب تک کہ وہ سرخ و زرد نہ ہو جائیں نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھیتی کے خوشوں کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ پختہ نہ ہو جائیں اور کسی آفت سے محفوظ نہ ہوں۔

 

 

تشریح

 

 بیچنے والے کے لئے ممانعت اس لئے ہے کہتا کہ وہ خریدار کا مال بغیر کسی چیز کے عوض کے حاصل نہ کرے اور خریدار کے لئے ممانعت اس لیے ہے تاکہ وہ اپنے مال کے نقصان و تباہی میں مبتلا نہ ہو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ غیر پختہ وغیرہ تیار پھل خرید لے اور اس کی قیمت ادا کر دے مگر پھل تیار و پختہ ہونے سے پہلے ہی کسی آفت مثلاً آندھی اور بارش وغیرہ کی وجہ سے ضائع ہو جائیں۔

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پھلوں کو درختوں پر اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ خوش رنگ نہ ہو جائیں عرض کیا گیا کہ خوش رنگ ہونے کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تک وہ سرخ نہ ہو جائیں یعنی پک نہ جائیں اور پھر فرمایا کہ تم ہی بتاؤ جب اللہ تعالیٰ پھلوں کو پکنے سے روک دے تو تم میں سے کوئی کیونکر اپنے بھائی کا مال لے گا (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ پختہ و تیار ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع میں اس بات کا خطرہ رہتا ہے کہ شاید کوئی آفت مثلاً آندھی وغیرہ آ جائے اور پھل درختوں سے جھڑ کر ضائع ہو جائیں اس صورت میں بیچنے والا خریدار سے پھلوں کی قیمت کے طور پر جو کچھ لے گا وہ اسے بلا عوض اور مفت مل جائے گا لہذا یہ ضروری ہے کہ پھلوں کے پختہ وتیار ہونے تک صبر و انتظار کیا جائے جب وہ پک کر تیار ہو جائیں تو اس وقت خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کیا جائے۔

پھلدار درختوں کو کئی سالوں کے لیے پیشگی بیچ ڈالنے کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے چند سالوں کا پھل بیچنے سے منع فرمایا ہے یعنی ایک سال یا دو سال یا تین سال اور یا اس سے زائد سالوں کے لئے درختوں کا پھل پیشگی نہیں بیچنا چاہئے) نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آفت زدہ کے ساتھ رعایت کرنے کا حکم دیا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص نے درخت پر لگے ہوئے پھل پختہ وتیار ہونے کے بعد خرید لئے مگر سوء اتفاق سے قبل اس کے کہ خریدار پھلوں کو اپنے تصرف میں لاتا کسی بھی وجہ سے وہ پھل جھڑ گئے اور ضائع ہو گئے اس صورت میں بیچنے والے کو چاہئے کہ اگر اس نے ابھی تک قیمت وصول نہیں کی ہے تو اس میں کچھ کمی کر دے اور اگر قیمت وصول کر لی ہے تو اس میں سے کچھ خریدار کو واپس کر دے اگرچہ بیع ہو چکی ہے اور قاعدہ کے اعتبار سے وہ اس کے لیے مجبور نہیں ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا اس بارے میں مذکورہ بالا حکم صرف استحباب کے لئے ہے اور اس کا مقصد آفت زدہ خریدار کے ساتھ ممکنہ رعایت کے لیے بیچنے والے کو ایک اخلاقی توجہ دلانا ہے ورنہ تو جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے یہ بات بالکل صاف ہے کہ خریدار کے قبضہ و ملکیت میں آ جانے کے بعد مبیع خریدی ہوئی چیز کے ہر نفع و نقصان کا ذمہ دار خریدار ہی ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قبضہ میں آ جانے کے بعد اگر مبیع کسی آفت کی وجہ سے ہلاک و ضائع ہو جاتی ہے تو وہ خریدار ہی کا نقصان ہوتا ہے بیچنے والے پر اس کا کوئی بدلہ وغیرہ واجب نہیں ہوتا۔

ضائع ہو جانے والی مبیع کا ذمہ دار کون ہے

حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم نے اپنے مسلمان بھائی کے ہاتھ پھل بیچا اور کوئی ایسی آفت آئی کہ وہ پھل ضائع ہو گیا تو تمہارے لئے اس سے کچھ لینا حلال نہیں ہے (تم خود سوچو کہ ایسی صورت میں) ایک بھائی کا مال ناحق کیسے لو گے) مسلم)

 

تشریح

 

آیت (فلا یحل لک) اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں ہے یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ میع بالکلیۃ اور مطلقاً ضائع ہو جائے اور اگر کوئی ایسی آفت آئے کہ جس سے مبیع کا کچھ حصہ نقصان ہو تو اس صورت میں قیمت میں کچھ کمی کر دینی چاہئے جیسا کہ گذشتہ حدیث کی تشریح میں بتایا گیا ہے اس حدیث کے بارے میں بھی وہی تشریح سامنے رہنی چاہئے جو گذشتہ حدیث کے سلسلے میں گزری ہے چنانچہ اس موقع پر حضرت ابن مالک نے بھی یہ وضاحت کی ہے کہ اگر مبیع خریدار کی سپردگی میں جانے سے پہلے ضائع ہو جائے تو اس کا نقصان بیچنے والے کو برداشت کرنا ہو گا اس صورت میں حدیث کی کوئی تاویل کرنے ہی کی ضرورت نہیں ہو گی اور اگر مبیع خریدار کی سپردگی وقبضہ میں جانے کے بعد ضائع ہو تو پھر کہا جائے گا کہ حدیث گرامی کے الفاظ اس سے کچھ بھی لینا حلال نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ ازروئے تقویٰ وورع اور از راہ اخلاق واحسان خریدار سے کچھ بھی لینا حلال (مناسب) نہیں ہے۔

بیع اشیاء منقولہ میں قبل قبضہ دوسری بیع جائز نہیں ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ بازار کے اس حصے میں جو جانب بلندی واقع تھا لوگ غلہ خریدتے اور پھر اس کی اسی جگہ قبضہ میں لینے سے پہلے بیچ ڈالتے تھے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس بات سے منع فرمایا کہ جب تک غلہ کو خریدنے کے بعد وہاں سے منتقل نہ کیا جائے اس کو اسی جگہ فروخت نہ کیا جائے اس روایت کو ابو داؤد نے نقل کیا اور مجھے یہ راوی بخاری و مسلم میں نہیں ملی۔

 

تشریح

 

 وہاں سے منتقل نہ کیا جائے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لیا جائے اور اشیاء منقولہ کا قبضہ میں لینا یہ ہے کہ اس کو خریدنے کے بعد اس کی جگہ سے اٹھا کر کسی دوسری جگہ رکھ دیا جائے چاہے وہ دوسری جگہ کتنی ہی قریب کیوں نہ ہو۔

یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اگر اس چیز کو پیمانے یا وزن کے ذریعے لیا ہے تو پیمانے میں نپوا کر یا وزن کرانے کے بعد ہی اسے اٹھائے اور اگر بلا پیمانہ و وزن لیا ہے تو پھر اس کے بغیر ہی اٹھا کر رکھ دے۔ حاصل یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اشیاء منقولہ میں سے کوئی چیز خریدے اور پھر اسے کسی دوسرے کو فروخت کرنا چاہیے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے اس چیز کو اپنے قبضے میں لے اس کے بعد اسے فروخت کرے کیونکہ بیع اشیاء منقولہ میں قبل قبضہ دوسری بیع جائز نہیں ہے۔

صاحب مشکوٰۃ نے مجھے یہ روایت بخاری و مسلم میں نہیں ملی ہے۔ کے ذریعے دراصل صاحب مصابیح پر اعتراض کیا ہے کہ اس روایت کو پہلی فصل میں ذکر کیا گیا ہے جب کہ یہ روایت نہ تو بخاری میں ہے اور نہ مسلم میں بلکہ ابو داؤد میں ہے اس لئے یہ روایت قاعدہ کے اعتبار سے دوسری فصل میں نقل کی جانی چاہئے تھی۔

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص غلہ خریدے تو اس کو اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک کہ اسے پوری طرح نہ لے لے اور حضرت ابن عباس کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک اس کو ناپ نہ لے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 جب تک کہ اسے پوری طرح نہ لے لے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کہ اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے اس کی وضاحت گذشتہ حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے اس موقع پر اس بارے میں فقہی اختلاف بھی جان لیجئے کہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام محمد کے نزدیک کسی چیز کو خرید کر پھر اسے کسی دوسرے کے ہاتھ قبضہ سے پہلے بیچنا جائز نہیں ہے وہ چیز خواہ اشیاء منقولہ میں سے ہو جیسے غلہ وغیرہ یا عقار یعنی زمین ہو۔

حضرت امام مالک کے نزدیک قبل قبضہ صرف غلے کا بیچنا تو جائز نہیں ہے اور سب چیزوں کا بیچنا جائز ہے حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کے ہاں قبل قبض عقار یعنی زمین کا بیچنا تو جائز ہے لیکن اشیاء منقولہ میں سے کسی بھی چیز کا بیچنا جائز نہیں ہے حضرت امام احمد کا مسلک بھی بظاہر یہی ہے۔

حضرت ابن عباس کی روایت کے الفاظ جب تک کہ اس کو ناپ نہ لے سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ اگر بیچنے والا خریدار کے سامنے غلہ کو ناپ کر یا وزن کر کے دے تو یہ کافی نہیں ہے بلکہ خریدار کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو اپنے قبضے میں لے لینے کے بعد پھر دوبارہ خود بھی ناپے یا وزن کرے لیکن اس بارے میں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ خریدار کے سامنے بیچنے والے کا ناپنا یا وزن کرنا کافی ہے کیونکہ خریدار کے سامنے بیچنے والے کا ناپنا یا وزن کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ خود خریدار ناپے یا وزن کرے۔

حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جس چیز کو منع کیا ہے وہ غلہ ہے کہ اس کو قبضے میں لانے سے پہلے فروخت کرنا ممنوع ہے حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ اس بارے میں ہر چیز غلہ کی مانند ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابن عباس کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح غلہ کو قبل قبضہ بیچنا جائز نہیں ہے اسی طرح کسی بھی چیز کو اس وقت تک بیچنا جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ قبضہ میں نہ آ جائے یہ گویا حضرت ابن عباس کا اپنا گمان وخیال ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں غلے پر غیر غلے کو قیاس کیا ہے۔

 

 

 

٭٭ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم آگے جا کر غلہ وغیرہ لانے والے قافلے سے خرید و فروخت کے لئے نہ ملو اور تم میں سے کوئی شخص کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نجش نہ کرو اور شہر کا آدمی کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے اور اونٹ و بکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو اور اگر کوئی شخص ایسا جانور خریدے جس کے تھنوں میں دودھ جمع کیا گیا ہو تو دودھ دوہنے کے بعد اسے اس جانور کو رکھ لینے یا پھیر لینے کا اختیار ہو گا اگر اس کی مرضی ہو تو اس جانور کو رکھ لے اور مرضی ہو تو اس کو پھیر دے اور اس کے ساتھ ہی صاع (ساڑھے تین سیر) کھجوریں دے دے (بخاری و مسلم)

مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ جو شخص ایسی بکری خریدے جس کے تھنوں میں دودھ جمع کیا گیا ہو تو اس بکری کو رکھ لینے یا پھیر دینے کا تین دن تک اختیار رہتا ہے چنانچہ اگر وہ ان تین دنوں میں اس بکری کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں دے دے مگر گیہوں نہ دے۔

 

تشریح

 

 پہلی ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً تمہیں معلوم ہو کہ بیوپاریوں کا کوئی گروہ غلہ وغیرہ لے کر شہر آ رہا ہے تو قبل اس کے کہ وہ بیوپاری شہر میں پہنچیں اور وہاں بازار کا بھاؤ وغیرہ معلوم کریں تم راستے میں جا کر ان سے خرید و فروخت کا کوئی معاملہ نہ کر لو یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لئے دیا کہ تاکہ ان بیوپاریوں اور تاجروں کو فریب دینے یا ان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع پیدا نہ ہو جائے۔

تم میں سے کوئی شخص کسی کی بیع پر بیع نہ کرے یعنی دو شخصوں میں خرید و فروخت کا کوئی معاملہ ہو رہا ہو تو تم اس میں دخل نہ دو بایں طور کہ نہ تو چیز کے دام بڑھا کر یا کسی اور ذریعے سے اس کو خریدنے کا اظہار کہ اس میں خریدار کا نقصان ہو گا اور نہ اپنا مال دکھا کر کم قیمت پر اسے بیچو کہ اس میں بیچنے والے کو نقصان ہو گا یا مثلاً اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز بشرط خیار خریدے تو تم اس خریدار کے پاس جا کر یوں کہو کہ تم اس معاملے کو فسخ کر کے اسے واپس کر دو میں ایسی ہی چیز تمہیں اس سے سستے داموں دیدوں گا اس طرح اپنے فائدے کے لئے کسی کا معاملہ بگاڑنا برا ہے اگر مقصد خود خرید نا یا خو بیچنا نہ ہو بلکہ محض معاملہ بگاڑنا ہی منظور ہو تو یہ بہت ہی برا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ اس مخالفت کا تعلق اس چیز سے ہے کہ جس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو اور اگر کسی چیز میں کوئی شرعی قباحت ہو جیسے کوئی شخص کسی کو غبن یا چوری کا مال بیچتا ہو تو اس صورت میں معاملہ کو فسخ کرا دینا جائز ہے۔

نجش: کے معنی ہیں رغبت دلانا اور فریب دینا اس کی صورت یہ ہے کہ دو شخصوں کے درمیان معاملہ ہو رہا ہو تو تیسرا شخص آ کر اس چیز کی تعریف کرنے لگے جس کا معاملہ ہو رہا ہے یا اس چیز کی قیمت زیادہ لگا دے اور اس سے اس کا مقصد خریداری نہ ہو بلکہ منظور یہ ہو کہ خریدار میری دیکھا دیکھی اس چیز کی خریداری کی طرف زیادہ راغب ہو جائے یا اس چیز کی قیمت اور زیادہ لگا دے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ اصل خریدار کو فریب میں مبتلا کرنے کی ایک بدترین صورت ہے۔

شہری آدمی کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے مثلاً کوئی دیہاتی اپنا مال جیسے غلہ وغیرہ بازار کے بھاؤ فروخت کرنے کے لئے شہر لائے اور کوئی شہری اس سے آ کر یہ کہے کہ تم اپنا یہ مال میرے پاس چھوڑ جاؤ میں اس کو بڑی آسانی کے ساتھ گراں نرخ پر بیچ دوں گا اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لئے منع فرمایا ہے کہ اس میں مخلوق خدا کو نفع سے باز رکھنا ہے چنانچہ یہ حضرت امام شافعی کے نزدیک حرام ہے اور حنفی مسلک کے مطابق مکروہ ہے۔

اونٹ و بکری کے تھنوں میں دودھ جمع نہ کرو مثلاً ایک شخص کے پاس دودھ والا کوئی جانور جیسے بکری و بھینس وغیرہ ہے وہ اس کو بیچنا چاہتا ہے اس جانور کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لئے وہ یہ کرتا ہے کہ بیچنے سے دو تین دن یا دو تین وقت پہلے اس جانور کا دودھ دوہتا نہیں بلکہ اس کے تھن میں چھوڑے رکتا ہے تا کہ تھن میں زیادہ دودھ جمع ہو جائے اور خریدار یہ سمجھ کر کہ یہ جانور زیادہ دودھ دینے والا ہے اس کی زیادہ قیمت دے دے اس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس لئے منع فرمایا کہ یہ فریب دہی کا معاملہ ہے اس ضمن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جو مسئلہ بیان فرمایا اس کی وضاحت یہ ہے کہ اگر اور کوئی شخص ایسا جانور خرید لائے جس کا کئی دن یا کئی وقت کا دودھ اس کے تھن میں جمع رکھا گیا اور پھر اس کا دودھ دوہنے کے بعد معلوم ہو کہ یہ جانور کم دودھ دیتا ہے تو اسے اختیار حاصل ہو گا کہ چاہے تو اس جانور کو واپس کر دے اور چاہے رکھ لے مگر جب جانور کو واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کھجوریں اس دودھ کے عوض میں دے جو اس نے دوہا ہے۔

اس موقع پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دودھ کے عوض میں ایک صاع کھجوروں کا تعین کیوں کیا گیا ہے جب کہ اس دودھ ہی کو واپس کر دئیے یا اس دودھ کی قیمت دے دینے کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ خریدار نے اس جانور کا جو دودھ دوہا ہے اس میں کچھ حصہ تو وہ ہو گا جو خریدار کی ملکیت میں آنے کے بعد جانور کے تھن میں پیدا ہوا ہے اور کچھ حصہ وہ ہے جو جانور کی خریداری کے وقت اس کے تھن میں تھا اور جانور کے ساتھ اس دودھ کی بھی بیع ہوئی تھی ظاہر ہے کہ اس صورت میں دودھ کے ان دونوں حصوں کا تعین و  امتیاز ناممکن ہونے کی وجہ سے نہ تو دودھ واپس کیا جا سکتا ہے اور نہ اس کی قیمت ہی متعین کر کے دی جا سکتی ہے لہذا شارع نے اس کا حل یہ نکالا کہ طرفین میں فتنہ و فساد کے دفعیہ کے لئے شارع نے خون ناحق کی دیت یعنی قتل کا مالی معاوضہ ایک سو اونٹ مقرر کیا ہے حالانکہ مراتب و حیثیت کے اعتبار سے ہر جان اور ہر خون یکساں نہیں ہوتا لیکن اس بارے میں شریعت نے اس تفاوت کو بنیاد نہیں بنایا۔

اس حدیث پر امام شافعی نے عمل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس طرح کے جانور کی بیع میں خیار (یعنی بیع کو فسخ کر دینے یا باقی رکھنے کا اختیار) حاصل ہوتا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ اس میں خیار نہیں ہے ان کے نزدیک حدیث میں مذکورہ بالا حکم متروک ہے وہ کہتے ہیں کہ یہ حکم ربا کے حرام ہونے سے پہلے تھا جب کہ معاملات میں اس قسم کی چیزیں جائز تھی اب یہ منسوخ ہو گیا ہے۔

حدیث کے آخری جملے ایک صاع غلہ دے دے مگر گیہوں نہ دے کے بارے میں علامہ ابن حجر شافعی کہتے ہیں کہا اس سے معلوم ہوا کہ جانور واپس کرتے ہوئے اس کے دودھ کے عوض میں کھجوروں کے علاوہ اور کچھ دینا جائز نہیں ہے اگرچہ بیچنے والا کوئی بھی چیز لینے پر راضی ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اہل عرب کی غذا کا زیادہ تر تعلق کھجور اور دودھ ہی سے تھا اس لئے دودھ کی بجائے کھجور دینا مقرر کیا گیا لیکن بعض حضرات فرماتے ہیں کہ اگر بیچنے ولا راضی ہو تو کھجور کے علاوہ اور کوئی چیز بھی دی جا سکتی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم آگے جا کر غلہ وغیرہ لانے والے قافلے سے نہ ملو اگر کوئی شخص جا کر ملا اور کچھ سامان خرید لیا اور پھر سامان کا مالک بازار میں آیا تو اس کو اختیار ہو گا (کہ چاہے بیع کو قائم رکھے چاہے فسخ کر دے) مسلم

 

تشریح

 

 لفظ جلب اور لفظ رکبان جو گذشتہ حدیث میں منقول تھا دونوں کے ایک ہی معنی ہیں اور ان کی وضاحت گذشتہ حدیث کی تشریح میں کی جا چکی ہے۔

علماء لکھتے ہیں کہ اس ممانعت کا تعلق اس صورت میں ہے جب کہ آنے والے بیوپاریوں سے راستے ہی میں خریداری کرنے کی وجہ سے اہل شہر کو نقصان و ضرر پہنچے اور خریدار شہر و بازار کے نرخ کو پوشیدہ رکھ کر بیوپاریوں کو فریب دے اور اگر اہل شہر کو نقصان و ضرر نہ ہو نیز نہ تو خریدار بیوپاریوں سے شہر کا نرخ چھپائے اور نہ ان کو فریب میں مبتلا کرے تو اس صورت میں یہ ممانعت نہیں ہو گی۔

حدیث میں جس اختیار کو ذکر کیا گیا ہے اس کے بارے میں شافعیہ تو یہ کہتے ہیں کہ جب مالک (یعنی باہر سے مال لانے ولا بیوپاری) شہر میں آئے اور اسے یہ معلوم ہو کہ خریدار نے اس شہر کی بنسبت سستا لیا ہے تو اس صورت میں اسے اختیار ہو گا کہ چاہے تو بیع کو فسخ کر کے اپنا مال واپس لے لے اور چاہے بیع کو باقی رکھے اور اگر اسے یہ معلوم ہو کہ خریدار نے شہر کے بھاؤ سے گراں لیا ہے یا شہر کے بھاؤ کے مطابق لیا ہے تو پھر اس صورت میں بیوپاری کو اختیار حاصل نہیں ہو گا۔

اس مسئلے میں فقہ حنفی کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بیوپاری کو یہ اختیار اسی وقت حاصل ہو گا جب کہ اسے شہر میں آنے کے بعد معلوم ہو کہ خریدار نے اس سے کھلا ہوا فریب کیا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر اسے یہ اختیا ر حاصل نہیں ہو گا۔

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سامان لانے والوں سے ان کے شہر پہنچنے سے پہلے راستے ہی میں جا کر نہ ملو اور اس وقت تک ان سے کوئی معاملہ نہ کرو جب تک کہ ان کا سامان بازار میں آ کر اتر نہ جائے (بخاری و مسلم)

کسی کے معاملہ میں اپنی ٹانگ نہ اڑاؤ

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے اور نہ کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے نکاح کے پیغام پر اپنے نکاح کا پیغام بھیجے الا یہ کہ اس کو اس کی اجازت دے دی جائے (مسلم)

 

تشریح

 

 کوئی شخص اپنے بھائی کی بیع پر بیع نہ کرے  کی وضاحت حضرت ابو ہریرہ کی روایت نمبر13 کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔

حدیث کے دوسرے جزء کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کسی شخص نے کسی عورت کے پاس اس سے اپنے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو اب کسی دوسرے مرد کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ بھی اس عورت کے پاس اپنا پیغام بھیج دے مگر یہ ممانعت اس صورت میں ہے کہ جب کہ طرفین مہر کی ایک معین مقدار پر راضی ہو گئے ہوں تمام معاملات طے ہو چکے ہوں اور صرف نکاح ہونا باقی رہ گیا ہو۔

حدیث کے آخری جزء کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے معاملات خرید و فروخت یا پیغام نکاح میں مداخلت نہ کرنے کا حکم اسی وقت تک کے لیے ہے جب تک کہ فریقین معاملے کو ترک نہ کر دیں مثلاً اگر صاحب معاملہ یہ کہہ دے کہ میں یہ چیز نہیں خرید رہا ہوں نیز تم خرید لو یا اس عورت سے میں نکاح نہیں کروں گا تم اپنا پیغام بھیج دو تو اس صورت میں اس چیز کو خریدنا یا نکاح کا پیغام بھیجنا جائز ہو گا۔

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کوئی شخص اپنے مسلمان بھائی کے سودے پر سودا نہ کرے یعنی کسی سے خرید و فروخت کا معاملہ ہو رہا ہو تو اس میں مداخلت نہ کرے اور چیز کے زیادہ دام نہ لگائے (مسلم)

 

تشریح

 

 یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ بیچنے والا اور خریدار دونوں کسی ایک قیمت پر راضی ہو گئے ہوں لہذا اب کسی اور کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس چیز کو لینے کا ارادہ کرے اور زیادہ دام لگا کر ان کا معاملہ خراب کرے ایسا کرنا مکروہ ہے اگرچہ بیع صحیح ہو جائے گی۔

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس بارے میں مسلمان کے حکم میں ذمی (وہ غیر مسلم جو اسلامی سلطنت میں رہے اور جزیہ ادا کرے) معاہد (جس سے کسی مسلمان کا معاہدہ ہو) اور مستامن(جو کسی مسلمان کے زیر پناہ ہو) بھی داخل ہیں۔

شہری آدمی کسی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شہری آدمی دیہاتی کا مال فروخت نہ کرے لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اللہ تعالیٰ کسی کے ذریعہ کسی کو رزق پہنچاتا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ دیہاتیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو کہ وہ باہر سے غلہ لا شہر میں سستے داموں فروخت کریں اور اسطرح وہ اہل شہر کے رزق میں وسعت و فراخی کا باعث بنیں بقیہ حدیث کی وضاحت حضرت ابو ہریرہ کی روایت کی تشریح میں کی جا چکی ہے۔

بیع بلا صورت و منابذت کی ممانعت

حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دو طرح کے پہناوے سے اور دو طرح کی بیع سے منع کیا ہے وہ ملامست اور منابذت ہیں۔

ملامست یہ ہے کہ ایک شخص یعنی خریدار دوسرے شخص یعنی تاجر کے کپڑے کو جسے وہ لینا چاہتا ہے دن میں یا رات میں صرف ہاتھ سے چھو لے اسے کھول کر الٹ کر دیکھے نہیں اور اس کا یہ چھونا بیع کے لئے ہو اور منابذت یہ ہے کہ معاملہ کرنے والوں میں سے ہر ایک اپنے کپڑے کو دوسرے کی طرف پھینک دے اور اس طرح بغیر دیکھے بھالے اور بغیر اظہار رضا مندی کے بیع ہو جائے اور جن دو طرح کے پہناوے سے منع فرمایا ہے ان میں سے ایک کپڑے کو (صماء) کے طور پر پہننا ہے اور (صمآء) کا طریقہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ایک مونڈھے پر اس طرح کپڑا ڈال لے کہ اس کی دوسری سمت کہ جس پر کپڑا نہ ہو ظاہر و برہنہ رہے اور دوسرا پہناوا جس سے منع کیا گیا ہے یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے گرد اس طرح کپڑا لپیٹ لے کہ جب وہ بیٹھے تو اس کی شرم گاہ اس کپڑے سے بالکل عاری ہو (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 ملامست کا طریقہ یہ تھا کہ ایک شخص کوئی چیز مثلاً کپڑا خریدنے جاتا تو کپڑے کو ہاتھ لگا دیتا کپڑے کو ہاتھ لگاتے ہی بیع ہو جاتی تھی نہ تو آپس میں قولی ایجاب و قبول ہوتا تھا کہ دوکاندار تو یہ کہتا ہے کہ میں نے تمہارے ہاتھ یہ چیز بیچ دی اور خریدار یہ کہتا ہے کہ میں نے تم سے یہ چیز خرید لی اور نہ فعلی لین دین جسے اصطلاح فقہ میں تعاطی کہتے ہیں ہوتا تھا کہ دوکاندار برضا و رغبت خاموشی کے ساتھ وہ چیز دیتا اور خریدار اس کی قیمت ادا کر دیتا بلکہ خریدار کا اس چیز کو ہاتھ سے چھو دینا ہی کافی سمجھا جاتا تھا۔

علامہ طیبی نے حدیث کے الفاظ (لا یقلبہ الا بذلک) (اسے کھول الٹ کر دیکھے نہیں) کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ کپڑے کو علاوہ چھونے کے نہ الٹے نہ کھولے یعنی چاہئے تو یہ کہ کپڑے کو کھولا جائے اور اچھی طرح دیکھا بھالا جائے مگر بیع ملامست کرنے والا نہ کھولتا تھا نہ اسے دیکھتا بھالتا تھا البتہ صرف اسے چھولیتا تھا ظاہر ہے کہ کسی چیز کو محض چھو لیا اس کو الٹ کھول کر دیکھنے بھالنے کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔

بہرکیف ملامست ایام جاہلیت میں خرید فروخت کا ایک خاص طریقہ تھا کہ جہاں ایک نے دوسرے کے کپڑے کو ہاتھ لگایا بس بیع ہو گئی نہ وہ اس کو دیکھتے بھالتے تھے اور نہ شرط خیار کرتے تھے کہ اس کو دیکھنے کے بعد اگر چاہیں گے تو رکھ لیں گے انہیں تو واپس کر دیں گے چونکہ یہ ایک بالکل غلط طریقہ تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا۔

منابذت کی صورت یہ ہوتی تھی کہ دونوں صاحب معاملہ نے جہاں آپس میں ایک دوسرے کی طرف کپڑا ڈالا بس بیع ہو گئی مبیع کو دیکھنے بھالنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔ یہ بھی ایام جاہلیت میں رائج بیع کا ایک طریقہ تھا لہذا اس کی ممانعت بھی فرمائی گئی۔

(صماء) کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں ظاہر کئے گئے لیکن اس کا زیادہ واضح اور مشہور مفہوم یہ ہے کہ کوئی شخص ایک کپڑا لے کر اسے سر سے پاؤں تک اپنے بدن پر اس طرح لپیٹ لے کہ دونوں ہاتھ بھی اس کے اندر لپٹے رہیں اور جسم کہیں سے کھلا نہ رہے ظاہر ہے کہ اس طرح آدمی بالکل مفلوج وناکارہ ہو کر رہ جاتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔

دوسرا پہناوا جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے یہ ہے کہ کوئی شخص کولہوں پر بیٹھ جائے اور دونوں زانوں کو کھڑا کرے اور پھر اپنے زانوں اور کمر کے گرد کوئی کپڑا اس طرح لپیٹ لے کہ ستر کھلا رہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے اس لیے منع فرمایا کہ اس میں ستر کی پردہ پوشی نہیں ہوتی چنانچہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا صورت میں اس طرح کپڑا لپیٹے کہ اس کا ستر چھپا رہے تو پھر یہ ممانعت نہیں رہے گی۔ بطور نکتہ ایک بات ذہن میں رہے کہ زانوں کے گرد ہاتھوں کا حلقہ بنا کر بیٹھنا مسنون ہے۔

بیع حصاۃ اور بیع غرر کی ممانعت

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع حصات اور بیع غرر سے منع فرمایا ہے۔

 

تشریح

 

 بیع حصات کی صورت یہ ہے کہ خریدار دوکاندار سے کہے کہ جب میں تیری اس چیز یعنی مبیع پر کنکری مار دوں تو سمجھ لینا کہ بیع واجب ہو گی یا دوکاندار خریدار سے کہے کہ میں نے اپنی چیزوں میں سے وہ چیز تمہیں بیچی جس پر تمہاری پھینکی ہوئی کنکری آ کر گرے یا میں نے یہ زمین وہاں تک تمہارے ہاتھ فروخت کی جہاں تک تمہاری پھینکی ہوئی کنکری جا کر گرے بیع کا یہ طریقہ ایام جاہلیت میں رائج تھا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے۔ بیع غرر اس بیع کو کہتے ہیں جس میں مبیع یعنی بیچی جانے والی چیز مجہول یا بیچنے والے کے قبضہ و قدرت سے باہر ہو جیسے اس مچھلی کو بیچنا جو دریا میں ہو یا ہوا میں اڑتے ہوئے جانور اور مفرور غلام کو بیچنا۔

بیع حبل الحبلہ کی ممانعت

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع حبل الحبلہ یعنی جانور کا حمل بیچنے سے منع فرمایا ہے حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ بیع حبل الحبلہ ایام جاہلیت میں رائج ایک بیع تھی جس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ کوئی شخص اس وقت تک کے وعدے پر اونٹنی خریدتا تھا جب تک کہ اس کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو اور پھر اس بچے کے پیٹ سے بچہ پیدا ہو یعنی وہ اس وعدے پر اونٹنی خریدتا تھا کہ جب اس اونٹنی کے پیٹ سے پیدا ہونے والے بچے کے پیٹ سے بچے پیدا ہو گا تب اس کی قیمت ادا کروں گا (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 جانور کے حمل کے حمل کی بیع کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً ایک اونٹنی کے پیٹ میں بچہ ہے اب اس کا مالک اس طرح خریدار سے معاملہ کرے کہ اس اونٹنی کے پیٹ سے جو اونٹنی پیدا ہو گی اور وہ اونٹنی جو بچہ دے گی اس کی بیع کرتا ہوں اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا ہے کیونکہ یہ ایک معدوم چیز یعنی اس بچہ کی بیع ہے جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا ہے ظاہر ہے کہ جب کسی جانور کے حمل ہی کو بیچنا جائز نہیں ہے تو اس بچہ کی بیع کیسے جائز ہو سکتی ہے جو اس حمل کے حمل سے پیدا ہو گا۔

بعض حضرات کے نزدیک بیع حبل الحبلہ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی حاملہ اونٹنی کو اس وعدے پر بیچے کہ اس کی قیمت اس وقت ادا ہو گی جب وہ بچہ جنے گی۔ حضرت ابن عمر نے یہی مطلب مراد لیا ہے جیسا کہ روایت کے آخر میں (وکان مبیعا) الخ سے انہوں نے خود اس کی وضاحت کی ہے

نرکو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے ممانعت

حضرت ابن عمر کہتے  ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت وصول کرنے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

تشریح

 

 نر جانور خواہ اونٹ ہو خواہ گھوڑا اور خواہ کوئی اور جانور اس کو مادہ پر چھوڑنے کے لئے کسی کو دینا اور اس کی اجرت وصول کرنا منع ہے کیونکہ اس میں ایک ایسے کام کی اجرت وصول کرنا لازم آتا ہے جس کا وقوع پذیر ہونا متیقن نہیں ہوتا بایں طور کہ نر جانور کبھی تو جست کر جاتا ہے اور کبھی جست نہیں کرتا اسی طرح مادہ کبھی تو بار آور ہوتی ہے اور کبھی نہیں اسی لئے اکثر صحابہ اور فقہاء نے اسے حرام قرار دیا ہے ہاں نر جانور کو مادہ پر جست کرنے کے لیے عاریۃً دینا مستحب ہے البتہ عاریۃً دینے کے بعد اگر مادہ کا الگ اپنی طرف سے اسے کچھ بطریق انعام دے تو اس کو قبول کر لینا درست ہے۔

پانی بیچنے کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اونٹ کو جفتی کے لئے کرایہ پر دینے اور پانی وزمین کو کاشت کے لئے بیچنے سے منع فرمایا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 زمین و پانی کو کاشت کے لئے بیچنے کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین اور وہ پانی جو اس زمین سے متعلق ہو کسی شخص کو اس شرط کے ساتھ دے کہ یہ زمین پانی تو میرا ہے اور تخم اور محنت تمہاری ہے زمین کو جوتو بوؤ اس میں سے جو کچھ پیدا ہو گا اس کا اتنا حصہ مثلاً تہائی یا چوتھائی میں لے لوں گا اس کو مخابرت کہتے ہیں۔ مخابرت کے بارے میں تفصیلی حکم حضرت جابر کی گذشتہ روایت نمبر 2 کی تشریح میں بیان کی جا چکا ہے

ضرورت سے زائد پانی کو بیچنے کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی ضرورت سے زائد پانی کو بیچنے سے منع فرمایا ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں اتنا پانی ہو تو جو اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد بچ جائے اور دوسرے لوگ اس کے حاجت مند ہوں تو اس بچے ہوئے پانی کو روکا اور ضرورت مند لوگوں کے ہاتھ بیچنا جائز نہیں ہے بلکہ وہ پانی انہیں مفت ہی دے دینا چاہئے لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب کہ ان لوگوں کی ضرورت کا تعلق اس پانی کو خود پینے یا جانوروں کو پلانے سے ہو اگر کوئی شخص اپنے کھیتوں یا درختوں کو سیراب کرنے کے لئے وہ پانی چاہے تو پھر مالک کے لیے جائز ہے کہ وہ اس پانی کو بغیر معاوضے کے نہ دے۔

 

 

٭٭ حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی ضرورت سے زائد پانی کو نہ بیچو کہ اس کی وجہ سے گھاس کا بکنا لازم آئے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 پانی کے بیچنے سے گھاس کا بکنا اس طرح لازم آتا ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی دوسرے شخص کے پانی کے گرد اپنے جانوروں کو چرائے اور ظاہر ہے کہ وہ جانور چرنے کے بعد پانی ضرور پئیں گے لیکن چونکہ پانی کا مالک کسی دوسرے کے جانوروں کو بلا قیمت پانی پینے نہیں دیتا اس لئے لا محالہ وہ شخص اس بات کے لئے مجبور ہو گا کہ پانی خریدے اور اپنے جانوروں کو پلائے اس طرح پانی کا بیچنا دراصل گھاس کا بیچنا ہو گا اور یہ معلوم ہی ہے کہ گھاس بیچنی جائز نہیں ہے۔

علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ یہ ممانعت آیا تحریمی ہے یا تنزیہی بعض تو تحریمی کے قائل ہیں اور بعض تنزیہی کے لیکن زیادہ صحیح یہی ہے کہ یہ ممانعت تنزیہی ہے۔

فریب دہی سے بچو

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک ڈھیر کے پاس سے گزرے اور اپنا ہاتھ اس ڈھیر میں داخل کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلیوں کو کچھ تری محسوس ہوئی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے غلے کے مالک یہ تری کیسی ہے؟ یعنی ڈھیر کے اندر یہ تری کہاں سے پہنچی اور تم نے غلہ کو تر کیوں کیا؟ اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس تک بارش کا پانی پہنچ گیا تھا (جس کی وجہ سے غلہ کا کچھ حصہ تر ہو گیا ہے میں نے قصداً تر نہیں کیا ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تو پھر تم نے غلہ کو اوپر کی جانب کیوں نہیں رکھا تا کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے اور کسی فریب میں مبتلا نہ ہوتے) یاد رکھو جو شخص فریب دے وہ مجھ سے نہیں (یعنی میرے طریقہ پر نہیں ہے) مسلم

بیع ثنیا کی ممانعت

حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع ثنیا یعنی استثناء کرنے سے منع فرمایا ہے الا یہ کہ مقدار متعین کر دی جائے (ترمذی)

 

 

تشریح

 

 کوئی شخص اپنی کوئی چیز کسی کو بیچتے وقت یہ کہے کہ میں نے یہ چیز تمہارے ہاتھ بیچی مگر اس میں سے کچھ حصہ میں نے نہیں بیچا پس مبیع میں سے کچھ حصہ کا استثناء کرنا ثنیا کہلاتا ہے شارع نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ اس میں مقدار معین نہیں ہوتی ہاں اگر مبیع کی کوئی مقدار معین کر کے مستثنی کی جائے مثلاً بیچنے والا اس طرح کہے کہ میں نے تمہیں یہ چیز فروخت کی مگر اس کی اتنی مقدار جیسے چوتھائی یا تہائی اور یا اتنے سیر اتنے من میں نے اپنے لئے مستثنی کر لیا ہے جو فروخت نہیں کر رہا ہوں تو یہ جائز ہے۔

پھل اور کھیتی پکنے کے بعد ہی فروخت کی جائے

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انگور کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ سیاہ نہ ہو جائے یعنی پک نہ جائے) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے غلہ کو بھی اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ سخت نہ ہو جائے (یعنی قابل انتفاع نہ ہو جائے) اس روایت کو ترمذی اور ابو داؤد نے حضرت انس سے اسی طرح نقل کیا ہے اور صاحب مصابیح نے اس روایت میں یہ الفاظ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ خوش رنگ نہ ہو جائے  جو مزید نقل کئے ہیں وہ ترمذی و ابو داؤد میں حضرت انس سے منقول نہیں ہیں بلکہ حضرت ابن عمر سے منقول ہیں اور وہ بھی اس طرح ہیں کہ حضرت ابن عمر نے کہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کھجور کو اس وقت تک بیچنے سے منع فرمایا ہے جب تک کہ وہ خوش رنگ نہ ہو جائے امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

 

 

تشریح

 

 روایت کے آخر میں مشکوٰۃ کے مؤلف نے مصابیح کے مؤلف حضرت امام بغوی پر دو اعتراض وارد کئے ہیں اول تو یہ کہ روایت میں مذکورہ بالا مزید الفاظ کا ناقل انہوں نے حضرت انس کو بتایا ہے جب کہ یہ الفاظ حضرت ابن عمر سے منقول ہیں دوم یہ کہ انہوں نے ان مزید الفاظ میں بیع التمر نقل کیا ہے جب کہ اصل روایت میں بیع النخل ہے۔

ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے کی ممانعت

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے سے منع فرمایا ہے (رواہ الدارقطنی)

 

تشریح

 

 لفظ کالئی ہمزہ کے ساتھ بھی لکھا پڑھا جاتا ہے اور بغیر ہمزہ یعنی کالی بھی استعمال ہوتا ہے دونوں کلاء سے مشتق ہیں جس کے معنی ہیں تاخیر یا ادھار۔

ادھار کو ادھار کے ساتھ بیچنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی سے کوئی چیز ایک متعین مدت کے وعدے پر خریدے اور یہ طے ہو جائے کہ خریدار اس چیز کی قیمت جب اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو ادا کریگا تو بیچنے والا وہ چیز اسے دے دے گا مگر جب وہ متعین تاریخ آ جائے اور اس وقت بھی خریدار قیمت ادا کرنے پر قادر نہ ہو تو بیچنے والے سے یہ کہے کہ اب اس چیز کو ایک اور مدت کے لئے کچھ زیادہ قیمت پر فروخت کر دو مثلاً اس نے وہ چیز دس روپے میں خریدی تھی اب یہ کہے کہ اسی چیز کو گیارہ روپے میں بیچ دو میں اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو گیارہ روپے ادا کر دوں گا بیچنے والا کہے کہ میں نے بیچ دی اس طرح یہ معاملہ آپس کے قبضہ کے بغیر طے ہو جائے کہ نہ تو بیچنے والا مبیع دے اور نہ خریدار اس کی قیمت ادا کرے بلکہ مبیع بیچنے والے کے پاس رہے اور قیمت خریدار کے پاس اور خرید و فروخت کا معاملہ طے ہو جائے اس طرح کی بیع کرنے سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرمایا کیونکہ یہ ایک ایسی بیع ہے جس میں قبضہ حاصل نہیں ہوتا۔

بعض حضرات نے اس کی ایک دوسری صورت یہ بیان کی ہے کہ مثلاً عمرو کے پاس زید کا ایک کپڑا ہے اور عمرو ہی کے ذمہ بکر کے دس روپے ہیں اب زید بکر سے یہ کہے کہ عمرو کے پاس میرا جو کپڑا ہے اسے میں تمہارے ہاتھ ان دس روپوں کے عوض کہ جو تمہارے عمرو کے ذمہ ہیں بیچتا ہوں میں عمرو سے دس روپے لے لوں گا تم اس سے کپڑا لے لینا اور بکر کہے کہ مجھے یہ منظور ہے یہ بیع بھی ناجائز ہے کیونکہ اس میں بھی قبضہ حاصل نہیں ہوتا۔

بیعانہ یا سائی کا مسئلہ

حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع عربان  سے منع فرمایا ہے (مالک ابو داؤد ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 بیع عربان کی وضاحت یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کسی سے کوئی چیز خریدے اور بیچنے والے کو کچھ رقم پیشگی دے دے اور یہ طے کر دے کہ اگر یہ معاملہ مکمل ہو گیا تو یہ رقم قیمت میں مجرا ہو جائے گی اور اگر معاملہ نہ ہوا بایں طور کہ میں پوری قیمت ادا کر کے اس چیز کو اپنے قبضے میں نہ لے سکا تو پھر یہ رقم تمہارے ہی پاس رہے گی میں اسے واپس نہ لوں گا اسے ہماری زبان میں بیعانہ یا سائی کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کیونکہ شرعی طور پر یہ بیع باطل ہے لیکن حضرت ابن عمر اور امام احمد اس کے جواز کے قائل ہیں حنفیہ کے ہاں یہ اس صورت میں جائز ہے جب کہ یہ طے ہو کہ اگر معاملہ مکمل ہو جائے تو وہ رقم بیچنے والے کا حق ہو بایں طور کہ وہ قیمت میں مجرا ہو جائے اور اگر معاملہ مکمل نہ ہوا تو پھر وہ خریدار ہی کا حق رہے کہ وہ رقم اسے واپس مل جائے۔

بیع مضطر کی ممانعت

حضرت علی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیع مضطر سے بیع غرر سے اور پختہ ہونے سے پہلے پھلوں کی بیع سے منع فرمایا ہے (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 بیع مضطر میں بیع سے مراد خریدنا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ کسی سے زبردستی کچھ خریدا جائے کسی سے زبردستی خریدنا بیع فاسد کے حکم میں ہے جو منعقد و نافذ نہیں ہوتی۔ یا پھر مضطر سے مراد محتاج ہے جو کسی مصیبت کی وجہ سے اپنا سامان بیچنے پر مجبور ہو مثلاً زید کسی کا قرض دار ہے اور قرض کی ادائے گی کے لئے اسے روپے چاہئیں یا اس پر کوئی مصیبت آ پڑی ہے جس کی وجہ سے اسے روپیوں کی شدید ضرورت ہے اور وہ اپنی ضرورت پوری کرنے کے لئے اپنے مال و اسباب میں سے کوئی چیز سستے داموں فروخت کر رہا ہو تو کسی کے لئے مناسب نہیں ہے کہ وہ اس کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے اور اس کا سامان سستے داموں خریدے بلکہ مروت کا تقاضہ یہ ہے کہ اس مجبور و مضطر کی مجبوری کا خیال کیا جائے اس کا مال سستے داموں نہ خریدا جائے اور ایسے موقع پر اس کی اس مدد کی جائے کہ یا تو اسے کچھ رقم بطور قرض دے دیا جائے یا اس کا مال اصل قیمت کے عوض خریدا جائے۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس صورت میں بیع فاسد نہیں ہو گی بلکہ صحیح ہو گی لیکن کراہت کے ساتھ صحیح ہو گی بیع غرر کی وضاحت اسی باب کے گذشتہ صفحات میں کی جا چکی ہے اسی طرح پختہ ہونے سے قبل پھلوں کی بیع کا مسئلہ بھی بیان کیا جا چکا ہے۔

نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینا ممنوع ہے

حضرت انس کہتے ہیں کہ قبیلہ کلاب میں سے ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے مادہ پر چھوڑنے کے لئے نر کو اجرت پر دینے کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو منع فرمایا کہ اجرت نہ لو پھر اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہم نر کو عاریۃً دیتے ہیں اور ہمیں اس سلسلے میں بطور انعام کچھ دیا جاتا ہے (یعنی ہم کوئی اجرت مقرر کر کے اپنا نر جانور نہیں دیتے بلکہ عاریۃً دیتے ہیں مگر جانور لے جانے والا بلا طلب ہمیں بطور انعام کچھ دیتا ہے تو کیا ہم پھر بھی نہ لیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے انعام لے لینے کی اجازت عطا فرمائی (ترمذی)

جو چیز اپنے پاس نہ ہو اس کی بیع نہ کرو

حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس سے منع کیا کہ میں اس چیز کو نہ بیچوں جو میرے پاس نہیں (ترمذی)

ترمذی ابو داؤد اور نسائی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایک ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی تو میں اس چیز کو بازار سے خرید لاتا ہوں یعنی میں اس چیز کا معاملہ اس سے کر لیتا ہوں پھر وہ چیز بازار سے خرید لاتا ہوں اور اس شخص کے حوالے کر دیتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ تم کسی ایسی چیز کو نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جو چیز خرید و فروخت کا معاملہ کرتے وقت اپنی ملکیت میں نہ ہو اسے نہیں بیچنا چاہئے اب اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں اول تو یہ کہ وہ چیز نہ تو اپنی ملکیت میں ہو اور نہ اپنے پاس موجود ہی ہو اس صورت میں تو اس چیز کی بیع صحیح ہی نہیں ہو گی دوم یہ کہ وہ اپنی ملکیت میں نہیں ہے ایک دوسرا شخص اس کا مالک ہے لیکن ہے اپنے ہی پاس اس صورت میں بھی مالک کی اجازت کے بغیر اس کی بیع نہیں کرنی چاہئے اور اگر مالک کی اجازت لینے سے پہلے ہی اس کی بیع کر دی جائے گی تو حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق وہ بیع مالک کی منظوری پر موقوف رہے گی اگر منظوری دے دے گا تو صحیح ہو جائے گی نہیں تو کالعدم ہو جائے گی لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ وہ بیع سرے سے صحیح ہی نہیں ہو گی مالک خواہ منظوری دے یا نہ دے۔

پہلی صورت کے حکم میں اس چیز کی بیع داخل ہے جس پر قبضہ حاصل نہ ہوا ہو یا وہ چیز گم ہو گئی ہو یا مفرور ہو جیسے غلام وغیرہ اور یا اس کو خریدار کے حوالے کرنے پر قادر نہ ہو جیسے ہوا میں اڑتا ہوا جانور اور وہ مچھلی جو ابھی پانی یعنی دریا وغیرہ سے نہ نکالی گئی ہو لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ ممانعت بیع السلم کے علاوہ صورت میں ہے کیونکہ بیع السلم متعینہ و معروف شرائط کے ساتھ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک جائز ہے بیع السلم اور اس کی شرائط کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ باب السلم میں کیا جائے گا۔

ایک بیع میں دو بیع نہ کرو

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے (مالک ترمذی ابو داؤد، نسائی)

 

 

تشریح

 

 ایک بیع میں دو بیع کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں ایک تو یہ کہ کوئی شخص کسی سے یوں کہے کہ مثلاً میں اپنی بھینس ایک ہزار روپیہ کے عوض تمھارے ہاتھ بیچتا ہوں مگر شرط یہ ہے کہ تم اپنا گھوڑا پانچ سو روپے کے عوض میرے ہاتھ فروخت کر دو۔ اس طرح کی بیع درست نہیں ہے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں اپنا گھوڑا تمہارے ہاتھ پانچ سو روپے نقد میں اور سات سو روپے ادھار میں بیچتا ہوں یہ بھی ناجائز ہے بشرطیکہ کوئی امر طے نہ ہو اور خریدار کو اختیار حاصل رہے کہ چاہے تو اسی وقت پانچ سو روپے دے کر گھوڑا لے لے اور چاہے بعد میں سات سو روپے دے اور اگر ایک امر طے ہو جائے اور معاملہ مجمل نہ رہے یعنی یہ اسی وقت طے ہو جائے کہ نقد لیا یا ادھار لیا تو پھر یہ معاملہ درست ہو گا۔

 

 

٭٭ حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد (شعیب) سے اور وہ اپنے دادا (حضرت عبداللہ بن عمر) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک معاملے میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ہے (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 یہ حدیث اور اوپر کی حدیث ہم معنی ہیں جو تشریح اوپر کی حدیث میں کی گئی ہے وہی اس حدیث کی بھی ہے۔

بیع کو قرض کے ساتھ نہ ملاؤ

حضرت عمرو بن شعیب ناقل ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قرض اور بیع ایک دوسرے سے متلق کر کے حلال نہیں بیع میں دو شرطیں کرنی درست نہیں اس چیز سے نفع اٹھانا درست نہیں جو ابھی اپنے ضمان قبضہ میں نہیں آئی اور اس چیز کو بیچنا جائز نہیں جو تمہارے پاس یعنی تمہاری ملکیت میں نہیں ہے (ترمذی وغیرہ)

 

تشریح

 

 قرض اور بیع حلال نہیں کا مطلب یہ ہے کہ قرض اور بیع کے دو الگ الگ معاملوں کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک نہ کرنا چاہئے مثلاً کوئی شخص کسی کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ کوئی چیز بیچے کہ تم مجھے اتنے روپے قرض دینا یہ جائز نہیں ہے یا یہ معنی بھی مراد ہو سکتے ہیں کہ مثلاً کوئی شخص کسی کو کچھ روپے بطور قرض دے اور اسی کے ساتھ اپنی کوئی چیز اس قرض دار کے ہاتھ اصل قیمت سے زائد پر بیچے یہ حرام ہے کیونکہ اس صورت میں ظاہر ہے کہ خریدار اس چیز کی زائد قیمت محض اس لئے ادا کرے گا کہ اس نے بیچنے والے سے قرض لیا ہے اور یہ بالکل صاف مسئلہ ہے کہ جو بھی قرض کوئی نفع حاصل کرے وہ حرام ہے چونکہ یہ سود خوروں کا نکالا ہوا ایک حیلہ ہے اس لئے اس سے اجتناب ضروری ہے۔

بیع میں دو شرطیں کرنی درست نہیں : کا مطلب یہ ہے کہ ایک بیع میں دو بیع نہ کرے جس کی وضاحت اوپر کی حدیث میں کی جا چکی ہے لیکن بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بیچنے والا اپنی کوئی چیز دو شرطوں کے ساتھ نہ بیچے مثلاً وہ خریدار سے یوں کہے کہ میں نے یہ کپڑا تمہارے ہاتھ دس روپے میں بیچا بایں شرط کہ میں اس کپڑے کو دھلوا بھی دوں گا یہ ناجائز ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ حدیث میں دو شرطوں کی قید محض اتفاقی ہے جیسے بیع میں ایک شرط بھی جائز نہیں ہے۔

اس چیز سے نفع اٹھانا جو ابھی اپنے ضمان میں نہیں آئی کا مفہوم یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی سے کوئی چیز خریدی مگر وہ چیز ابھی خریدار کے قبضے میں نہیں آئی ہے اس عرصے میں بیچنے والے نے اس چیز کا کرایہ وصول کیا اب اگر خریدار چاہے کہ یہ چیز چونکہ میں نے خریدی ہے اس لئے میری خریداری کے بعد اس چیز کو جو کرایہ بیچنے والے کی ذمہ داری میں ہے فرض کیجئے اگر وہ چیز ضائع ہو جاتی ہے تو اس کا نقصان بیچنے والے ہی کو برداشت کرنا ہو گا خریدار کا کچھ بھی نہ جائے گا اسی طرح اگر اس چیز سے کوئی نفع حاصل ہوا ہے تو وہ بھی بیچنے والے ہی کا حق ہے خریدار کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔

ادائے گی قیمت میں سکہ کی تبدیلی جائز ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نقیع میں (جو مدینہ کے قریب ایک جگہ ہے) اونٹوں کو دیناروں کے عوض بیچا کرتا تھا اور دیناروں کے بدلے درہم لے لیا کرتا تھا اسی طرح جب اونٹوں کو درہم کے عوض بیچا تو درہم کے بدلے دینار لے لیا کرتا تھا پھر جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم دینار کے بدلے درہم اور درہم کے بدلے دینار لے لو جب کہ نرخ اس دن کے مطابق ہو اور تم دونوں ایک دوسرے سے اس حال میں جدا ہو کہ تمہارے درمیان کوئی چیز نہ ہو (ابو داؤد نسائی)

 

تشریح

 

 درہم اور دینار دو سکوں کے نام ہیں درہم چاندی کا ہوتا ہے اور دینار سونے کا اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص کسی سے کوئی چیز روپے کے عوض خریدے اور روپے کے بدلے اشرفیاں دے دے یا کوئی چیز اشرفیوں کے عوض خریدے اور اشرفیوں کے بدلے روپے دے دے تو جائز ہے۔

اس دن کے نرخ کی قید استحبابی ہے یعنی مستحب و مناسب یہ ہے کہ اس دن کے نرخ کا لحاظ رکھا جائے ورنہ تو جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے یہ جائز ہے کہ جس نرخ سے چاہے لے۔

تمہارے درمیان کوئی چیز نہ ہو میں کوئی چیز سے مراد مبیع یا قیمت اور یا دونوں پر قبضہ نہ ہونا ہے مطلب یہ ہے کہ درہم و دینار کو آپس میں بدلنا بایں شرط جائز ہے جس مجلس میں خرید و فروخت کا معاملہ ہو اسی مجلس میں فریقین اپنی اپنی چیز پر قابض ہو جائیں تا کہ اس کے برخلاف ہونے کی صورت میں نقد کی بیع ادھار کے ساتھ لازم نہ آئے جو ربا کی ایک شکل ہونے کی وجہ سے حرام ہے چنانچہ حضرت شیخ علی متقی کے بارے میں منقول ہے کہ وہ جب مکہ معظمہ میں اپنے خادم کو بازار بھیجتے تو اسی حدیث کے پیش نظر اسے بطور خاص یہ نصیحت کرتے کہ خبردار باہمی قبضہ کرنے میں معاملہ دست بدست کرنا درمیان میں فرق واقع نہ ہو۔

علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ درہم سکہ خلقی ہونے کی وجہ سے چونکہ غیر متعین ہے اس لیے اگر کوئی شخص دوکاندار کو ایک درہم دکھا کر کہے کہ اس کے عوض فلاں چیز میرے ہاتھ بیچ دو اور پھر جب دوکاندار وہ چیز اسے بیچ دے تو اس درہم کی بجائے دوسرا درہم دے دینا جائز ہے بشرطیکہ وہ دونوں درہم مالیت میں یکساں ہوں

آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق ایک بیعانہ کا ذکر

حضرت عداء بن خالد بن ہوذہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک تحریر نکال کر دکھائی جس میں یہ لکھا تھا کہ یہ بیع نامہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور عداء بن خالد بن ہوذہ کی خریداری سے متعلق ہے عداء نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک غلام یا لونڈی خریدی جس میں کوئی بیماری نہیں ہے کوئی بدی نہیں ہے اور کوئی برائی نہیں ہے عداء نے اس کو اس طرح خریدا ہے جس طرح ایک مسلمان ایک مسلمان سے خریدتا ہے (ترمذی)

 

تشریح


 ایک غلام یا لونڈی خرید کی میں لفظ یا راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے یعنی حدیث کے کسی راوی کو شک ہوا ہے کہ اس بیع نامہ میں غلام لکھا ہوا تھا یا لونڈی؟

 جس میں کوئی بیماری نہیں ہے میں بیماری سے مراد جنون جذام اور کوڑھ جیسے موذی امراض ہیں اسی طرح  کوئی بدی نہیں ہے میں بدی سے مراد وہ عیب ہے جو خریدار کے مال کے نقصان و ہلاکت کا باعث بنے جیسے غلام کا چور ہونا یا بھگوڑا ہونا۔ اور کوئی برائی نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی خلقت و جبلت میں ایسی کوئی برائی نہیں ہے جس سے بڑے اور غلط اخلاق و افعال پیدا ہوں جیسے اس کا ولد الزنا ہونا یا فاسق یا جھوٹا اور یا جواری ہونا۔

آخری جملے ایک مسلمان ایک مسلمان سے خریدتا ہے سے رعایت و خیر خواہی اور حقوق اسلام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی تعلیم کا یہ تقاضا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے ہاتھ ہر معاملہ و عقد میں رعایت و خیر خواہی مروت و ہمدردی اور ان حقوق کا جو ایک مسلمان کے تئیں دوسرے مسلمان پر عائد ہوتے ہیں پورا پورا لحاظ رکھے بہرکیف مذکورہ بالا تحریر کا حاصل یہ ہوا کہ یہ غلام اچھا ہے اس میں کوئی عیب نہیں ہے اور خرید و فروخت کے اس معاملہ میں فریقین نے ایک دوسرے کے ساتھ کوئی دغا اور فریب نہیں کیا ہے۔

امام ترمذی نے اس حدیث کو غریب کہا ہے کیونکہ یہ حدیث عباد بن لیث کی سند کے علاوہ کسی سند سے ثابت نہیں ہے نیز محدثین کے نزدیک عباد روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔

علماء نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت کے بعد کوئی بیع نہیں کی ہے اور اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی بیع کی ہے تو وہ شاذ و نادر کے درجے کی چیز ہے ہاں ہجرت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیع وشراء دونوں کرتے تھے۔

بخاری میں یہ حدیث یوں ہے حدیث (ہذا ما اشتری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم من عداء بن خالد) (یعنی یہ بیع نامہ ہے جو عداء بن خالد سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خریداری سے متعلق ہے) گویا بخاری کی روایت سے یہ معلوم ہوا کہ خریدار تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تھے اور بیچنے والے عداء بن خالد جب کہ یہاں جو روایت نقل کی گئی ہے وہ اس کے برعکس ہے کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ عداء بن خالد خریدار تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بیچنے والے۔

بطریق نیلام بیع جائز ہے

حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ بیچنے لگے تو فرمایا کہ اس ٹاٹ اور پیالہ کا خریدار کون ہے جو خریدنا چاہتا ہو وہ اس کی قیمت لگائے) ایک شخص نے عرض کیا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم کے عوض لے سکتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر فرمایا کہ ایک درہم سے زیادہ قیمت دینے والا کوئی ہے؟ چنانچہ ایک دوسرے شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دو درہم پیش کئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کے ہاتھ دو درہم کے عوض فروخت کر دیں (ترمذی ابو داؤد)

 

 

تشریح

 

 اس بیع کا اصل واقعہ یوں ہے کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے دست سوال دراز کیا اور یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اسے کچھ عنایت فرما دیں تا کہ وہ اپنا پیٹ بھر سکے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ تمہارے پاس کچھ سامان بھی ہے اس نے عرض کیا کہ جی نہیں میرے پاس کوئی سامان نہیں ہے ہاں ٹاٹ کا ایک ٹکڑا اور ایک پیالہ ضرور پڑا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ پھر ان دونوں چیزوں کو بیچ دو اور اس کی قیمت کے طے طور پر جو کچھ وصول ہو اس سے اپنا پیٹ بھرو اس کے بعد جب تمہارے پاس کچھ بھی نہ رہ جائے تب صدقہ و خیرات مانگو چنانچہ وہ شخص دونوں چیزیں لے آیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا طریقے پر گویا بصورت نیلام ان چیزوں کو فروخت فرمایا۔ بیع کی صورت کو عربی میں بیع من یزید اور حراج کہتے ہیں شرعی طور پر یہ بیع درست ہے۔

اب رہی یہ بات کہ شارع نے چونکہ اس سے منع کیا ہے کہ کوئی شخص کسی ایسی چیز کے دام نہ لگائے جس کے دام کسی دوسرے شخص کی جانب سے لگ رہے ہوں تو بیع کی یہ صورت کیسے جائز ہو گی تو اس بارے میں سمجھ لینا چاہئے کہ دام پر دام لگانے کی ممانعت کا تعلق اس صورت سے ہے جب کہ بیچنے والا اور خریدار دونوں ہی کسی ایک دام پر راضی ہو گئے ہوں اور معاملہ طے پا گیا ہو ایسی صورت میں اب کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اس بیع میں مداخلت کرے اور اپنی طرف سے بھی دام لگانے لگے لیکن یہاں بیع کی جو صورت ذکر کی گئی اس کی نوعیت بالکل دوسری ہے اس بیع میں تو بیچنے والے کا ارادہ ہی یہ ہوتا ہے کہ جو سب سے زیادہ دام لگائے گا اسی کو چیز دی جائے گی چنانچہ نیلام میں یہی ہوتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر دام لگاتے رہتے ہیں جس شخص کی آخری بولی ہوتی ہے اسی کے ہاتھ چیز بیچ دی جاتی ہے۔

یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ معاملات یعنی بیچنے والے کا چیز دینا اور خریدار کا قیمت دے دینا کافی ہے اگرچہ وہ دونوں منہ سے کچھ نہ کہیں یعنی زبانی ایجاب و قبول نہ ہو۔

عیب دار چیز دھوکہ سے بیچنے والے کے لئے وعید

حضرت واثلہ ابن اسقع کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص کسی عیب دار چیز کو اس طرح بیچے کہ اس کے عیب سے خریدار کو مطلع نہ کرے تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے یا یہ فرمایا کہ اس پر فرشتے ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔ (ابن ماجہ)

پھلدار درخت کی بیع کا مسئلہ

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر کسی شخص نے تابیر کئے ہوئے کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے کا ہے الا یہ کہ خریدنے والا پھل مشروط کر دے اسی طرح اگر کسی شخص نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا وہ مال بیچنے والے کا ہے (مسلم و بخاری) نے اس حدیث کا صرف پہلا جزء یعنی (من ابتاع نخلا) نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 تابیر کی صورت یہ ہے کہ کھجور کے نر درخت کا پھول کھجور کے مادہ درخت میں رکھدیتے ہیں عربوں کا اعتقاد تھا کہ اس وجہ سے زیادہ پھل پیدا کرتا ہے۔

حدیث بالا میں ایسے ہی درخت کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص تابیر کیا ہوا درخت خریدے اور خریداری کے وقت اس درخت پر پھل لگے ہوئے ہوں تو وہ بیچنے والے کے ہوتے ہیں ہاں اگر خریدار خریداری کرتے وقت یہ طے کرے کہ میں اس درخت کو اس کے پھل سمیت خریدتا ہوں تو پھر وہ پھل خریدار کے ہوں گے۔ حنفیہ کے نزدیک بغیر تابیر کئے ہوئے درخت کا بھی یہی حکم ہے۔ لیکن امام شافعی امام مالک امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ بغیر تابیر کئے ہوئے درخت کا پھل بیع میں شامل نہیں ہے بلکہ یہ میرے ہوں گے تو پھر اس صورت میں وہ بیچنے والے کے ہوتے ہیں۔

غلام چونکہ کسی مال کا مالک نہیں ہوتا اس لئے حدیث میں اس کی طرف مال کی ملکیت کی نسبت ظاہر کے اعتبار سے ہے کہ اگر بیع کے وقت اس کے ہاتھ میں کوئی مال ہو تو وہ مال بیچنے والے کا ہے ہاں اگر خریدار اس مشروط طریقہ پر اسے خریدے کہ غلام کی خریداری میں یہ مال بھی شامل ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے تو اس صورت میں وہ مال خریدار کا ہو گا۔ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غلام کی بیع کے وقت وہ کپڑے جو اس کے جسم پر ہوں بیع میں داخل نہیں ہوتے الا یہ کہ خریدار ان کپڑوں سے بیع کو مشروط کر دے حنفیہ کے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ کپڑے بیع میں داخل ہوتے ہیں۔ بعض علماء کا یہ قول ہے کہ صرف اسی قدر بیع میں داخل ہوتے ہیں جو ستر پوشی کے لیے کافی ہوں لیکن زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ حدیث کے ظاہر مفہوم کے مطابق اس کا کوئی بھی سامان اور سامان یعنی کپڑے وغیرہ کا کوئی بھی حصہ بیع میں داخل نہیں ہوتا۔

مشروط بیع کا مسئلہ

حضرت جابر کے بارے میں مروی ہے کہ (وہ ایک سفر کے دوران جب کہ وہ مدینہ آ رہے تھے) اپنے اونٹ پر سوار چل رہے تھے اور وہ اتنا تھک گیا تھا کہ چلنے سے معذور ہو رہا تھا چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب جابر کے قریب سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے اونٹ کو لکڑی سے یا اس چابک سے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں تھا مارا پھر تو وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کی برکت سے اتنی تیز رفتاری سے چلا کہ پہلے کبھی اتنی تیز رفتاری سے نہ چلا تھا پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت جابر سے فرمایا کہ تم اس اونٹ کو میرے ہاتھ ایک اوقیہ کے عوض بیچ دو حضرت جابر نے کہا میں نے یہ اونٹ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ بیچ دیا لیکن میں اپنے گھر تک اس پر سواری کو مستثنی کرتا ہوں یعنی میں اس شرط کے ساتھ اس کو فروخت کرتا ہوں کہ اپنے گھر تک اسی اونٹ پر سوار ہو کر جاؤں گا۔ چنانچہ حضرت جابر کہتے ہیں کہ جب میں مدینہ آیا تو وہ اونٹ لے کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس کی قیمت عطا فرما دی ایک روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے قیمت عطا فرمائی اور اونٹ واپس کر دیا یعنی اس کی قیمت بھی دی اور اونٹ بھی عطا فرما دیا (بخاری و مسلم)

بخاری کی ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ جب حضرت جابر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اونٹ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت بلال سے فرمایا کہ جابر کو اونٹ کی قیمت دے دو کچھ زیادہ بھی دے دو چنانچہ حضرت بلال نے انہیں اونٹ کی قیمت بھی دی اور ایک قیراط جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا تھا زیادہ بھی دیا۔

 

 

تشریح

 

 وقیہ کہ جسے اوقیہ بھی کہا جاتا ہے چالیس درہم یعنی ساڑھے دس تولہ (47۔122گرام) چاندی کے بقدر ہوتا ہے حدیث (فاستثنیت حملانہ الی اھلی) سے حضرت جابر کا مطلب یہ تھا کہ میں اس اونٹ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ اس شرط کے ساتھ بیچتا ہوں کہ مدینہ تک اسی اونٹ پر سوار چلوں گا یا اپنا سامان لاد کر لے چلوں گا۔

لہذا اس کے ظاہر مفہوم سے یہ معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص اپنے کسی جانور کو اس شرط کے ساتھ بیچے کہ یہ جانور فلاں مدت تک میرے زیر سواری رہے گا تو جائز ہے چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے حضرت امام مالک کے ہاں اتنی قید ہے کہ اگر مسافت نزدیک ہو تو اس شرط کے ساتھ بیع کرنا جائز ہے چنانچہ یہاں یہی صورت پیش آئی کہ حضرت جابر کو صرف مدینہ تک جانا تھا اس لئے اس کم مسفات کی وجہ سے انہوں نے سواری کی شرط رکھی اور ان کی یہ شرط منظور کی گئی۔

حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی کے ہاں ایس کسی بھی شرط کے ساتھ بیع جائز نہیں ہے جس میں بیچنے والے کا یا خریدنے والے کا نفع ہو خواہ مسافت قریب ہو یا بعید ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مشروط بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کا جواب ان کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ یا تو یہ ایک وقتی رعایت تھی کہ حضرت جابر کو اس مشروط بیع کی بطور خاص اجازت دے دی گئی تھی کسی دوسرے کے لئے یہ جائز نہیں ہے یا پھر یہ کہ حضرت جابر نے مدینہ تک اپنی سواری کو بیع کرنے کے بعد مشروط کیا ہو گا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب انہوں نے اونٹ کی بیع کر دی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے خرید لیا تو اس کے بعد حضرت جابر نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ رعایت چاہی کے مجھے مدینہ تک اس پر سوار چلنے یا اپنا سامان لادنے کی اجازت دے دی جائے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منظور کر لیا۔

حق ولاء آزاد کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے

حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن بریرہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ میں نے نو اوقیہ پر اس شرط کے ساتھ مکاتبت کی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ ادا کیا کروں گی لہذا آپ میری مدد کیجئے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے کہا کہ اگر تمہارے مالکوں کو یہ پسند ہو کہ میں سب کے سب اوقیے ایک ہی مرتبہ میں انہیں دے دوں اور پھر تجھے آزاد کر دوں تو ایسا کر سکتی ہوں لیکن اس صورت میں حق ولاء مجھے حاصل ہو گا بریرہ یہ سن کر اپنے مالکوں کے پاس گئی اور ان کے سامنے یہ صورت رکھی مگر انہوں نے اسے نامنظور کر دیا اور کہا کہ ہم صرف اس شرط کے ساتھ تجھے بیچ سکتے ہیں کہ حق ولاء ہمیں حاصل ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو جب اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ تم اسے لیکر آزاد کر دو اس کا حق ولاء تمہیں ہی حاصل ہو گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کے سامنے خطبہ دیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثناء کے بعد فرمایا کہ لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ایسی شرطیں کرتے ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہے یعنی مشروع نہیں ہیں جو شرط کتاب اللہ میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ وہ سو شرطیں ہوں (یعنی جو شرط ناجائز و نامشروع ہے اسے چاہے کوئی سو بار ہی کیوں نہ عائد کرے وہ باطل ہی رہے گی اور اس کی کوئی حیثیت نہیں رہے گی)۔ اور خدا ہی کا حکم سب سے زیادہ اس لائق ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اور اللہ تعالیٰ ہی کی شرط سب سے زیادہ مضبوط ہے یعنی بیع و شراء کے معاملات میں خدا نے جو احکام دئیے ہیں بہرصورت ان ہی کی تعمیل ضروری ہے اور خدا نے جو شرائط مقرر کی ہیں صرف انہی کا لحاظ ضروری ہے اپنی طرف سے عائد کردہ کوئی شرط بھی قابل عمل نہیں ہو گی جان لو حق ولاء اسی شخص کو حاصل ہوتا ہے جو آزاد کرے (بخاری مسلم)

 

تشریح

 

 مکاتبت غلام اور اس کے مالک کے درمیان ایک خاص نوعیت کے معاہدہ کا اصطلاحی نام ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ غلام کا مالک اسے اس شرط پر آزاد کرتا ہے کہ روپیہ کی اتنی مقدار اتنی مدت میں دینی ہو گی غلام اسے قبول ومنظور کر لیتا ہے چنانچہ غلام اگر روپیہ کی وہ مقدار اس متعینہ مدت میں ادا کر لیتا ہے تو اپنے مالک کی غلام سے آزاد ہو جاتا ہے اور اگر وہ مقدار ادا نہیں کر پاتا تو پھر جوں کا تو اس کی غلامی میں رہتا ہے اس معاملہ کو مکاتبت یا کتابت اور اس غلام کو مکاتب کہتے ہیں۔

ولاء آزاد کرنے کے اس حق کو کہتے ہیں جو غلام کے مالک کو حاصل ہوتا ہے یعنی اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کر دے اور وہ آزادی ہی کی حالت میں مر جائے اور اپنے پیچھے کچھ مال و اسباب چھوڑ جائے تو اس کے عصبہ نہ ہونے کی صورت میں اس کے تمام مال و اسباب کا حق دار وہی آزاد کرنے والا شخص ہوتا ہے یہی حق ولاء کہلاتا ہے۔

بریرہ حضرت عائشہ کی لونڈی کا نام ہے یہ حضرت عائشہ کی خدمت میں آنے سے پہلے ایک یہودی کی ملکیت میں تھی جب انہوں نے اپنے مالکوں سے کتابت کی تو وہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان سے کہا کہ میں نے اپنے مالکوں سے نو اوقیہ پر اس شرط کے ساتھ کتابت کی ہے کہ ہر سال ایک اوقیہ جو چالیس درہم کا ہوتا ہے دیا کروں گی اب میں آپ کے پاس اس لئے آئی ہوں کہ آپ میری مدد کریں اور مجھے اتنا دے دیں جو میں بدل کتابت کے طور پر اپنے مالکوں کو دیدوں۔ حضرت عائشہ نے کہا کہ اگر تمہارے مالکوں کو پسند ہو تو میں یہ کر سکتی ہوں کہ انہیں یہ نو اوقیہ یک مشت تمہاری قیمت کے طور پر انہیں دیدوں اور تمہیں خرید کر آزاد کر دوں اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے عاجز ہو تو اسے بیچنا خریدنا جائز ہے ظاہر ہے کہ اس صورت میں تمہاری طرف سے حق ولاء مجھے ہی حاصل ہو گا لیکن جب یہ بات بریرہ کے مالکوں کو پہنچی تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا کیونکہ وہ بریرہ کو حضرت عائشہ کے ہاتھ اس شرط پر فروخت کرنا چاہتے تھے کہ بریرہ کا حق ولاء انکو حاصل ہو چونکہ ان کی یہ شرط کہ بریرہ کو خرید کر آزاد تو کریں عائشہ اور حق ولاء پہنچے ان کو بالکل نادانی کی بات تھی اور شرعی طور پر مطلقاً ناجائز اس لئے جب حضرت عائشہ نے اس کا تذکرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ناراض ہوئے اور حدیث میں مذکورہ کلمات ارشاد فرمائے۔

حق ولاء کو بیچنا یا اس کو ہبہ کرنا ناجائز ہے

حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ولاء کو بیچنے یا اس کو ہبہ کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یعنی مثلاً ایک شخص نے اپنے غلام کو آزاد کیا جس کی وجہ سے حق ولاء اس کے لئے ثابت ہو گیا اب اگر وہ یہ چاہے کہ اس حق ولاء کو کسی کے ہاتھ بیچ دے یا کسی کو ہبہ کر دے تو یہ جائز نہیں ہے کیونکہ ولاء کوئی مال نہیں ہے کہ اس کو بیچا یا ہبہ کیا جا سکے اس بارے میں تمام علماء کا متفقہ طور پر یہی مسلک ہے۔

جو نقصان کا ذمہ دار ہے وہی نفع کا بھی حق دار ہے

حضرت مخلد بن خفاف کہتے ہیں کہ میں نے ایک غلام خریدا جس کی کمائی میں وصول کرتا رہا پھر مجھے اس کے ایک ایسے عیب کا علم ہوا جو اس میں خریداری سے پہلے کا تھا اور بیچنے والے نے مجھے اس سے مطلع نہیں کیا تھا چنانچہ اس غلام کے معاملہ کو میں نے حضرت عمر بن عبد العزیز(خلیفہ وقت) کی خدمت میں پیش کیا انہوں نے مجھے یہ فیصلہ سنایا کہ غلام کو واپس کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کمائی بھی واپس کر دی جائے پھر میں حضرت عروۃ بن زبیر کی خدمت میں حاضر ہوا جو ایک جلیل القدر تابعی اور فقہاء میں سے تھے اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کے فیصلہ سے انہیں آگاہ کیا حضرت عروۃ نے فرمایا کہ میں شام کے وقت حضرت عمر بن عبدالعزیز کی خدمت میں جاؤں گا اور ان کو بتاؤں گا کہ حضرت عائشہ نے مجھ سے یہ نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی قسم کے ایک معاملہ میں یہ فیصلہ دیا تھا کہ منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے چنانچہ حضرت عروۃ حضرت عمر بن عبدالعزیز کے پاس تشریف لے گئے اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے مطلع کیا حضرت عمر بن عبدالعزیز نے یہ ارشاد گرامی سننے کے بعد پھر مجھے یہ حکم دیا کہ میں غلام کی کمائی اس شخص سے لے لوں جسے دینے کے لیے مجھے پہلے حکم دیا گیا تھا (شرح السنۃ)

 

تشریح

 

 منفعت ضمان یعنی تاوان کے ساتھ ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اگر وہ غلام خریدنے والے کے پاس مر جاتا یا اس میں کوئی نقص پیدا ہو جاتا تو ظاہر ہے کہ اس خریدار کا نقصان ہوتا بیچنے والے کا کچھ نہ جاتا اسی طرح غلام سے کوئی منفعت حاصل ہو گی تو اس کا حقدار خریدار ہی ہو گا بیچنے والے کا اس پر کوئی حق نہیں ہو گا۔

بائع ومشتری کے نزاع کی صورت میں کس کا قول معتبرہو گا

حضرت عبداللہ بن مسعود راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب خریدار اور بیچنے والے میں اختلاف پیدا ہو جائے تو اس صورت میں بیچنے والے کا قول معتبر ہو گا اور خریدار کو بیع فسخ کر دینے یا باقی رکھنے کا اختیار حاصل ہو گا (ترمذی) ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب خریدار بیچنے والے کے درمیان اختلاف پیدا ہو جائے اور مبیع بیچی یا خریدی جانے والی چیز جوں کی توں باقی ہو اور ان دونوں کے درمیان کوئی گواہ نہ ہو تو اس صورت میں بیچنے والے کا قول معتبر ہو گا یا پھر وہ دونوں بیع کو فسخ کر دیں (ترمذی)

 

تشریح

 

 خریدار بیچنے والے کے درمیان بسااوقات اختلاف ونزاع کی صورت پیدا ہو جاتی ہے کبھی تو یہ اختلاف ونزاع قیمت کے تعین کے سلسلہ میں پیدا ہوتا ہے کہ خریدار کہتا ہے میں نے تم سے اس چیز کا معاملہ دس روپے میں طے کیا ہے اور بیچنے والا کہتا ہے کہ نہیں میں نے یہ چیز بارے روپے میں فروخت کی ہے شرط خیار یا تعین مدت میں اختلاف ہو جاتا ہے اور کبھی ان کے علاوہ دیگر شروط میں نزاع کی صورت پیدا ہو جاتی ہے ایسے ہی مواقع کے لئے حدیث نے واضح ہدایات کی ہے کہ ان صورتوں میں بیچنے والے کا قول معتبر ہو گا بشرطیکہ اس کا قول قسم کے ساتھ ہو یعنی اس سے کہا جائے گا کہ تم قسم کھاؤ کہ تم نے یہ چیز اس قیمت پر نہیں بیچی ہے جو خریدار بتا رہا ہے پھر خریدار کو اختیار ہو گا کہ چاہے تو بیچنے والے کی اس بات پر راضی ہو جائے جو اس نے قسم کھا کر کہی ہے اور بیع کو برقرار رکھے اور چاہے وہ بھی قسم کھائے اور کہے کہ میں نے یہ چیز اس قیمت پر نہیں خریدی ہے جو بیچنے والا بتا رہا ہے اور جب دونوں اپنی اپنی بات پر قسم کھائیں گے تو ان کا معاملہ اسی صورت میں باقی رہے گا جب کہ ان میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کی بات کو تسلیم کر لے گا اگر ان میں سے کوئی بھی اپنے دوسرے فریق کی بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو گا تو پھر آخری درجہ پر قاضی وحاکم کو اختیار ہو گا کہ وہ اس بیع و معاملہ کو فسخ کرا دے خواہ بیع فروخت شدہ چیز بعینہ باقی ہو یا بعینہ باقی نہ جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حضرت امام ابو حنیفہ اور حضرت امام مالک یہ کہتے ہیں کہ اگر مبیع باقی نہ ہو تو پھر دونوں فریق قسم نہ کھائیں بلکہ اس صورت میں خریدار کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہو گا۔

حدیث کے الفاظ المبیع قائم ان دونوں کے قول کی تائید کرتے ہیں چنانچہ دوسری روایت جیسے ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے کے الفاظ (فالقول ما قال البائع) (تو اس صورت میں بیچنے والے کا قول معتبر ہو گا) کا مطلب بھی حنفی مسلک کے مطابق یہ ہی ہے کہ اگر مبیع بعینہ باقی ہو تو بیچنے والے سے قسم کھلائی جائے اگر وہ قسم کھا لے تو خریدار کو اختیار ہو گا کہ چاہے تو بیچنے والے کی بات کو تسلیم کر دے اور چاہے خود بھی قسم کھائے یا پھر دونوں فریق بیع کو فسخ کر دیں اور اگر اختلاف ونزاع کے وقت مبیع بعینہ باقی نہ ہو تو پھر دونوں فریق قسم نہ کھائیں بلکہ اس صورت میں خریدار کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہو گا۔ اس صورت میں قسم کے ساتھ خریدار ہی کا قول معتبر ہو گا بیچنے والے سے قسم نہ کھلائی جائے۔

یہ مسئلہ یہاں اجمالی طور پر ذکر کیا گیا ہے ہدایہ میں اسے بہت وضاحت وتفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اہل علم ہدایہ میں یہ تفصیل دیکھ سکتے ہیں۔

اقالۂ بیع کا مسئلہ

حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مسلمان کی بیع کو واپس کریگا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا (ابوداؤد ابن ماجہ) اور شرح السنۃ میں یہ روایت ان الفاظ میں ذکر کی گئی ہے جو مصابیح میں شریح شامی سے بطریق ارسال اقالہ جائز ہے۔

 

تشریح

 

 اقالہ کا مطلب ہے بیع کو واپس کر دینا یعنی فسخ کر دینا شرح السنہ میں لکھا ہے کہ بیع اور سلم میں قبل قبضہ بھی اور بعد قبضہ بھی اقالہ جائز ہے۔

اس روایت کو ابو داؤد اور ابن ماجہ نے متصل نقل کیا ہے اسی طرح حاکم نے بھی اس روایت کو حضرت ابو ہریرہ سے متصل ہی نقل کیا ہے لیکن مصابیح میں یہ راوی بطریق ارسال ان الفاظ میں منقول ہے حدیث (من اقال اخاہ المسلم صفقۃ کرہہا اقال اللہ عثرتہ یوم القیامۃ) جو شخص مسلمان کی کسی ناپسندیدہ بیع کو واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ بخش دے گا چنانچہ مؤلف مشکوٰۃ نے روایت کے آخری الفاظ کے ذریعہ گویا مصابیح کے مصنف علامہ بغوی پر اعتراض کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب مصابیح میں اولی کو ترک کیا ہے بایں طور کہ ابو داؤد و ابن ماجہ کی نقل کردہ یہ متصل روایت تو نقل نہیں کی بلکہ حدیث مرسل نقل کی ہے۔

ایک سبق آموز واقعہ

حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ واقعہ بیان فرمایا کہ تم سے پہلے (زمانہ کے) لوگوں میں سے ایک شخص نے ایک دوسرے شخص سے زمین کا ایک قطعہ خریدا اور اس کو اپنے تصرف میں لایا اتفاق کی بات کہ جس شخص نے زمین خریدی تھی اس نے اپنی اس خرید کردہ زمین میں ایک ایسا گھڑا پایا جس میں سونا بھرا ہوا تھا اس نے زمین بیچنے والے سے کہا کہ تم اپنا یہ سونا لے لو کیونکہ میں نے تو صرف زمین خریدی تھی یہ سونا میں نے نہیں خریدا تھا بیچنے والے نے کہا کہ میں نے تمہارے ہاتھ صرف زمین ہی نہیں بیچی تھی بلکہ ہر وہ چیز بیچ دی تھی جو اس زمین میں ہے اس لئے یہ سونا بھی تمہارا ہے اسے تمہی رکھو مگر خریدار اس پر تیار نہ ہوا یہاں تک کہ دونوں اپنا معاملہ ایک شخص حاکم و ثالث کے پاس لے گئے اس حکم نے واقعہ کی تفصیل سن کر ان دونوں سے پوچھا کہ تم دونوں کے ہاں اولاد کیا ہے ان میں سے ایک نے تو کہا کہ میرے ہاں لڑکا ہے اور دوسرے نے کہا کہ میرے ہاں لڑکی ہے حاکم نے یہ سن کر کہا کہ اس لڑکے کا نکاح لڑکی سے کر دو اور اس سونے کو اس دونوں پر خرچ کرو اور پھر جو کچھ بچے اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دو۔

 

تشریح

 

 یہ واقعہ حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ کا ہے جیسا کہ بعض علماء نے کہا ہے کہ ان دونوں نے جس شخص کا اپنا حاکم و ثالث بنایا تھا وہ حضرت داؤد علیہ السلام تھے چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام نے صدور فیصلہ میں کمال ذہانت وذکاوت کا ثبوت دیا اور ایسا معتدل ومعقول فیصلہ دیا کہ جو نبوت ہی کا خاصہ ہو سکتا ہے۔

علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان صلح صفائی کرانے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے نیز علماء لکھتے ہیں کہ مخالف اشخاص میں صلح کرانا قاضی و حاکم کے لئے اسی طرح مستحب ہے جس طرح غیر قاضی کے لئے مستحب ہے۔