واضح رہے کہ جس چیز کا حرام ہونا کتاب اللہ (یعنی قرآن مجید) سے ثابت ہے وہ اول تو میتہ یعنی مردار ہے۔ دوم دم مسفوح یعنی بہتا ہوا خون ہے، سوم سؤر کا گوشت ہے اور چہارم اس جانور کا گوشت ہے جس کو غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا گیا ہو چنانچہ اس آیت کریمہ سے یہی ثابت ہے۔
آیت (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّماً عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَماً مَّسْفُوْحاً اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقاً اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ) 6۔ الانعام:145)
(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ جو احکام (بذریعہ وحی) میرے پاس آئے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار (مرا ہوا جانور) ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا سؤر کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو (جانور) شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کر دیا گیا ہو۔
اس کے بعد سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان حرام چیزوں میں کچھ اور جانوروں کا اضافہ کیا جیسے ذی ناب، ذی مخلب اور گھر کے پلے ہوئے گدھے وغیرہ۔ چنانچہ جن جانوروں کا احادیث نبوی کے ذریعہ حرام قرار پانا ثابت ہے ان میں سے بعض جانور تو بسبب قطعیت احادیث کے متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک حرام ہیں اور بعض جانوروں کے بارے میں ائمہ حضرات کے اختلافی مسلک ہیں کیونکہ ان کے سلسلے میں احادیث بھی مختلف منقول ہیں بعض جانوروں کے سلسلے میں اس آیت کریمہ کی بناء پر بھی علماء کے درمیان اختلاف پیدا ہوا ہے۔
آیت (وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰۗىِٕثَ) 7۔ الاعراف:157)۔
اور وہ (رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم) پاکیزہ چیزوں کو ان کے لئے حلال بناتے ہیں اور گندی چیزوں کو ان پر حرام فرماتے ہیں۔
چنانچہ حنفی علماء نے اسی آیت کی بنیاد پر مچھلی کے علاوہ پانی کے اور تمام جانوروں کو حرام قرار دیا ہے کیونکہ ان حضرات کے نزدیک مچھلی کے علاوہ پانی کا اور جو بھی جانور ہے وہ خبیث یعنی گندا ہے۔ بایں دلیل کہ خبیث سے مراد وہ چیز ہے جس کو طبیعت سلیم، طیب کی ضد یعنی گندی اور گھناؤنی جانے اور پانی میں مچھلی کے علاوہ جو بھی جاندار چیز ہوتی ہے اس کو طبیعت سلیم گھناؤنی جانتی ہے؟
ہدایہ میں لکھا ہے کہ حضرت امام مالک اور علماء کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ پانی کے تمام جانور مطلق حلال ہیں لیکن ان میں سے بعض علماء نے دریائی سور، دریائی کتے اور دریائی انسان کا استثناء کیا ہے۔ حضرت امام شافعی کے نزدیک مطلق دریا کے جانور حلال ہیں۔
ان کی دلیل یہ آیت کریمہ ہے :
(اُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهٗ) 5۔ المائدہ:96)۔
تمہارے نزدیک دریا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے۔
نیز وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد سے بھی استدلال کرتے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دریا کے بارے میں فرمایا ہے کہ
ہو الطھور ماؤہ والحل میتتہ۔
اس (دریا) کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ درندوں میں جو جانور کچلی والا ہو (یعنی جو دانت سے اپنا شکار پکڑتا ہو جیسے شیر اور بھیڑیا وغیرہ) اس کا کھانا حرام ہے (مسلم)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر اس درندے (کے گوشت) کو کھانے سے منع فرمایا ہے جو کچلی والا ہو اور ہر اس پرندے (کا گوشت کھانے) سے منع فرمایا ہے جو چنگل گیر ہو یعنی جو اپنے پنجہ سے شکار کرتا ہو جیسے باز وغیرہ۔ (مسلم)
اور حضرت ابوثعلبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گھریلو گدھوں کا گوشت حرام قرار دیا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
لیکن جنگلی گدھے کہ جن کو گور خر کہتے ہیں بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک حلال ہیں۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے دن گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت جاری فرمائی تھی اور گھوڑوں کا گوشت کھانے کی اجازت دی تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دیگر ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا مباح ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک کا قول یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت کھانا مکروہ ہے، بعضے کہتے ہیں کہ کراہت تحریمی مراد ہے اور بعضے کراہت تنزیہی مراد لیتے ہی لیکن کفایت المنتہی میں منقول ہے کہ بعض علماء نے واضح کیا ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ نے اپنے انتقال سے تین دن پہلے اپنے اس قول سے رجوع کر لیا تھا یعنی دیگر ائمہ کی طرح وہ بھی گھوڑے کے گوشت کی اباحت کے قائل ہو گئے تھے چنانچہ حنفی مسلک میں اسی پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح فقہ حنفی کی مشہور اور معتبر کتاب درمختار میں بھی یہ لکھا ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت حلال نہیں ہے جب کہ حضرت امام شافعی اور حنفیہ میں سے حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کے نزدیک حلال ہے اور بعض علماء نے صراحت کی ہے کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اپنے انتقال سے تین دن پہلے حرمت کے قول سے رجوع کر لیا تھا چنانچہ اسی پر فتوے ہے۔
حضرت مولانا شاہ محمد اسحٰق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی روایت کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے کہ حضرت امام اعظم نے اپنے قول سے رجوع کر لیا تھا اور حنفی مسلک میں گھوڑے کا گوشت کھانا حلال ہے۔
اور حضرت ابوقتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے گورخر کو دیکھا اور اس کو مار ڈالا (اور پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس گوشت کھانے کا مسئلہ پوچھا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دریافت کیا کہ کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ موجود ہے ؟ ابوقتادہ نے کہا کہ ہمارے پاس اس کے پائے موجود ہیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ پائے لے لئے اور اس کو کھایا۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم نے مقام مرالظہران میں (شکار کے لئے) ایک خرگوش کا تعاقب کیا چنانچہ میں نے (دوڑ کر) اس کو پکڑ لیا اور پھر اس کو ابوطلحہ کے پاس لایا۔ ابوطلحہ نے اس کو ذبح کیا اور اس کا ایک سرین اور دونوں رانیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس بھیجیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو قبول فرما لیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ خرگوش ایک حلال جانور ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا گوشت قبول فرمایا، اگر اس کا گوشت کھانا حلال نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو قبول نہ فرماتے بلکہ دوسرے کو بھی اس کے کھانے سے منع فرماتے۔ چنانچہ کتاب الرحمۃ فی اختلاف الائمۃ میں لکھا ہے کہ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک خرگوش حلال ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ گوہ کو نہ میں کھاتا ہوں اور نہ اس کو حرام قرار دیتا ہوں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
گوہ کو گور پھوڑ بھی کہتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ اس کی عمر سات سو سال تک کی ہوتی ہے، اس کی بڑی عجیب خصوصیات بیان کی جاتی ہیں مثلاً یہ پانی نہیں پیتی بلکہ ہوا کے سہارے زندہ رہتی ہے، چالیس دن میں ایک قطرہ پیشاب کرتی ہے، اور اس کے دانت کبھی نہیں ٹوٹتے۔
بعض علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا گوہ کو نہ کھانا کراہت طبعی کی بناء پر تھا اور اور اس کو حرام قرار نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس وحی کے ذریعہ اس کے بارے میں کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ آگے وہ حدیث آ رہی ہے جو گوہ کی حرمت پر دلالت کرتی ہے چنانچہ اسی حدیث کے بموجب حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک گوہ کا کھانا حرام ہے، جب کہ حضرت امام احمد اور حضرت امام شافعی کے نزدیک اس کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ان کی دلیل مذکورہ بالا حدیث ہے۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ (ایک دن) وہ (خالد) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر گئے جو ان (خالد) کی بھی خالہ تھیں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی بھی وہاں ان کے پاس انہوں نے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے) ایک گوہ بھنی ہوئی رکھی پائی ! حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا نے اس گوہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے پیش کیا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس گوہ کی طرف سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے (یہ دیکھا تو) پوچھا کہ یا رسول اللہ ! کیا گوہ حرام ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ نہیں بلکہ یہ میری قوم کی زمین (یعنی حجاز) میں نہیں پائی جاتی اس لئے میں اس سے اپنے اندر کراہت (یعنی طبعی کراہت) محسوس کرتا ہوں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (یہ سن کر) میں نے اس گوہ کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کھانے لگا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم میری طرف دیکھتے رہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آگے جو حدیث آئے گی اور جس میں گوہ کو کھانے کی ممانعت منقول ہے، یہ واقعہ اس سے پہلے کا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث منسوخ قرار پائے گی۔
اور حضرت ابوموسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو مرغ کا گوشت کھاتے دیکھا ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سات جہاد کئے، ہم (ان موقعوں پر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کنانا کل معہ الجراد میں لفظ معہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ) نہ تو مسلم کی اصل روایت میں ہے اور نہ ترمذی میں، بلکہ اس حدیث کو جن اور محدثین نے نقل کیا ہے ان میں سے اکثر کی روایت اس لفظ سے خالی ہے، تاہم جن محدثین نے اپنی روایت میں یہ لفظ مزید نقل کیا ہے انہوں نے اس عبارت کے یہ معنی مراد لئے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ رہتے ہوئے ٹڈی کھاتے تھے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے۔ نہ یہ کہ ہم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ساتھ ٹڈی کھاتے تھے۔ یہ تاویل اگرچہ حدیث میں منقول ہے الفاظ کے ظاہری مفہوم کے خلاف ہے لیکن یہ ضروری اس لئے ہے کہ یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ٹڈی نہیں کھائی ہے۔ بلکہ اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد منقول ہے کہ نہ میں کھاتا ہوں اور نہ حرام قرار دیتا ہوں۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والے لشکر کے ساتھ جہاد کے لئے جانے والوں میں میں بھی شریک تھا، حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ اس لشکر کے امیر (سپہ سالار) بنائے گئے تھے چنانچہ (جب) ہم سخت بھوکے ہوئے تو دریا (سمندر) نے ایک مری ہوئی مچھلی (اپنے کنارے پر) پھینک دی ہم نے اتنی بڑی مچھلی کبھی نہیں دیکھی تھی اس قسم کی مچھلی کو عنبر کہا جاتا تھا۔ چنانچہ ہم نے اس میں سے آدھے مہینے تک (بڑی فراخی کے ساتھ) کھایا، پھڑ حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس کی ہڈیوں میں سے ایک ہڈی یعنی اس کی ایک پسلی کھڑی کی تو اس کے نیچے سے ایک اونٹ سوار (بڑی آسانی کے ساتھ) گزر گیا، اس کے بعد جب ہم (مدینہ واپس) آئے تو ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس واقعہ کا ذکر کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس رزق کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے بہم پہنچایا ہے اس کو کھاؤ (یعنی تم نے یہ اچھا کیا کہ اس مچھلی کو کھایا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو تمہارا رزق بنا کر تمہارے لئے بہم پہنچایا تھا۔ یا یہ کہ اگر اس طرح کا کوئی اور رزق پاؤ تو اس کو کھاؤ) اور اگر اس مچھلی میں کوئی حصہ تمہارے پاس (باقی رہا) ہو تو ہم کو بھی کھلاؤ (یہ بات گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا دل خوش کرنے کے لئے اور اس مچھلی کے حلال ہونے کے حکم کو مؤکد کرنے کی غرض سے فرمائی تاکہ ان لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ وہ مچھلی اصل میں تو جائز نہیں تھی مگر ہماری اضطراری حالت کے پیش نظر اس کو ہمارے لئے حلال کر دیا گیا ہے) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چنانچہ ہم نے اس مچھلی کا کچھ حصہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں بھیج دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس میں سے کھایا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
خبط اصل میں تو خ اور ب کے زبر کے ساتھ لیکن ب کے جزم کے ساتھ بھی منقول ہے۔ اس کے معنی ہیں درخت کے پتے جو لاٹھی و ڈنڈے سے مار کر گرائے جائیں۔
حدیث میں مذکورہ واقعہ کا تعلق جس اسلامی لشکر سے ہے اس کو اتنی سخت صورت حال سے دوچار ہونا پڑا تھا کہ زاد راہ کے فقدان کی وجہ سے لشکر والوں کو اپنی زندگیاں بچانے کے لئے مجبورا درختوں کے پتے جھاڑ جھاڑ کر کھانے پڑتے تھے یہاں تک کہ اس کی وجہ سے ان کے منہ اور ہونٹ زخمی ہو گئے تھے بلکہ ان کے ہونٹ اونٹ کے ہونٹوں کے مشابہ ہو گئے تھے۔ اسی بناء پر اس لشکر کا نام جیش الخبط یعنی پتے جھاڑ کر کھانے والا لشکر مشہور ہو گیا۔ یہ واقعہ ٦ھ میں صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے۔
عنبر ایک خوشبو کا نام ہے جس کے بارے میں قاموس میں لکھا ہے کہ یہ اصل میں ایک سمندری جانور کا فضلہ ہوتا ہے، یا یہ ایک خاص قسم کے چشمے سے برآمد ہوتا ہے جو سمندر کی تہہ میں ہے۔ اور ایک قسم کی بڑی سمندری مچھلی کو بھی عنبر کہتے ہیں جس کی کھال سے ڈھال بنائی جاتی ہے۔
آدھے مہینہ تک۔ بعض روایتوں میں ایک مہینہ تک کے الفاظ ہیں اور بعض روایت میں یہ آیا ہے کہ لشکر والوں نے اس مچھلی میں سے اٹھارہ دن تک کھایا۔ ان تمام روایتوں میں یوں مطابقت پیدا کی جائے کہ اس مچھلی میں سے آدھے مہینہ تک تو پورا لشکر کھاتا رہا اس کے بعد لشکر میں سے کچھ لوگ اٹھارہ دن تک اور کچھ لوگ پورے مہینے تک کھاتے رہے۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں (کہ جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو) مکھی گر پڑے تو اس کو چاہئے کہ وہ اس پوری مکھی کو غوطہ دے اور پھر نکال کر پھینک دے کیونکہ اس (مکھی کے دونوں پروں میں سے ایک پر میں شفا ہے اور دوسرے پر میں بیماری ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اسی طرح کی ایک حدیث جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے منقول ہے دوسری فصل میں بھی نقل ہو گی۔ اس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مکھی بیماری کے پر کو پہلے ڈالتی ہے لہٰذا پوری مکھی کو غوطہ دے لو تاکہ اس کا دوا والا پر بھی ڈوب جائے اور اس طرح اس کھانے پینے کی چیز سے وہ مضر اثرات زائل ہو جائیں جو بیماری والے پر کے ذریعہ پہنچے ہیں۔
اور حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک چوہا گھی میں گر پڑا اور مر گیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا (اس گھی کا کیا کیا جائے) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس چوہے کو اور اس کے اردگرد کے گھی کو نکال کر پھینک دو اور (باقی) گھی کو کھاؤ۔ (بخاری)
تشریح
یہ اس گھی کا حکم ہے جو جما ہوا ہو اور جو گھی پگھلا ہوا ہو وہ تو اس صورت میں سارا نجس ہو جاتا ہے اور بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک اس کا کھانا جائز نہیں، اس طرح اس گھی کو بیچنا بھی اکثر ائمہ کے نزدیک جائز نہیں ہے۔ البتہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کے بیچنے کو جائز رکھا ہے۔
اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا اس گھی سے کوئی اور فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یا نہیں ؟ چنانچہ بعض حضرات کے نزدیک اس سے کوئی بھی فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس کو چراغ میں جلانے، کشتیوں پر ملنے یا اس طرح کے کسی اور مصرف میں لا کر اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ یہ قول حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کا ہے، اور حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول جو زیادہ مشہور ہے، بھی یہی ہے۔ لیکن یہ جواز کراہت کے ساتھ ہے۔ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد سے دو روایتیں منقول ہیں۔ حضرت امام مالک سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اس گھی کو مسجد کے چراغ میں جلانا جائز نہیں ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (عموماً تمام) سانپوں کو مار ڈالو، اور (خصوصاً) اس سانپ کو کہ جس کی پشت پر دو سیاہ دھاریاں ہوں اور اس سانپ کو جس کو بتر کہتے ہیں مار ڈالو کیونکہ یہ دونوں قسم کے سانپ بینائی کو زائل کر دیتے ہیں (یعنی محض ان کو دیکھنے سے آدمی اندھا ہو جاتا ہے اور اس کا سبب اس زہر کی خاصیت ہے جو ان سانپوں میں ہوتا ہے اسی طرح (یہ دونوں سانپ) حمل کو گرا دیتے ہیں (یعنی اگر حاملہ عورت ان کو دیکھے تو اس زہر کی خاصیت کے سبب سے یا خوف و دہشت کی وجہ سے اس کا حمل گر جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک دن) جب کہ میں ایک سانپ پر حملہ کر کے اس کو مار ڈالنے کے درپے تھا کہ (ایک صحابی) حضرت ابو لبابہ انصاری نے مجھ کو آواز دے کر کہا کہ اس کو مت مارو، میں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابو لبابہ نے کہا کہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس (عام حکم) کے بعد گھر میں رہنے والے سانپوں کو مار ڈالنے سے منع فرما دیا تھا کیونکہ وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ اصل میں عمر اور عمر کے معنی ہیں آباد کرنا، مدت دراز تک زندہ رہنا، چنانچہ ان سانپوں کو عوامر اسی لئے کہا گیا ہے کہ ان کی عمر بہت زیادہ ہوتی ہے اور اس وجہ سے وہ ہمیشہ گھر میں رہتے ہیں، ہمارے یہاں اس قسم کے سانپ کو بھومیا کہا جاتا ہے۔
اور تورپشتی نے کہا ہے کہ اصل میں عوامر کا اطلاق جنات پر ہوتا ہے، اس اعتبار سے وہ گھر کو آباد کرنے والے ہیں۔ سے مراد یہ ہو گی کہ گھروں میں اکثر و بیشتر جو سانپ نظر آتے ہیں وہ حقیقت میں جنات ہوتے ہیں جو سانپ کی صورت اختیار کئے ہوئے ہیں، لہٰذا گھروں میں رہنے والے سانپوں کو قتل کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے کہ مبادا جس سانپ کو مار ڈلا گیا ہے وہ حقیقت کے اعتبار سے گھر میں رہنے والا جن رہا ہو اور اس کے قتل سے گھر والوں کو کوئی نقصان و ضرر پہنچ جائے۔
طبرانی نے ابن عباس سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ :
اقتلو الحیۃ والعقرب وان کنتم فی الصلوۃ۔
سانپ اور بچھو کو مار ڈالو اگر چھ تم نماز کی حالت میں کیوں نہ ہو۔
اسی طرح ابوداؤد و نسائی نے حضرت ابن مسعود سے اور طبرانی نے جریر سے اور انہوں نے حضرت عثمان بن ابو العاص سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ :
اقتلو الحیات کلھن فمن خاف ثارھن فلیس منی۔
ہر قسم کے سانپوں کو مار ڈالو، جو شخص ان (سا نپوں کے بدلے انتقام سے ڈرا اسکی وجہ سے ان کو نہیں مارا) تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔
لیکن یہ روایتیں کہ جن سے مطلق سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم ثابت ہوتا ہے، اصل میں یہ گھروں میں رہنے والے سانپوں کے علاوہ دوسرے سانپوں پر محمول ہیں جیسا کہ حضرت ابن عمر کی مذکورہ بالا روایت یا آگے آنے والی دوسری روایتوں سے واضح ہوتا ہے۔
اور حضرت سائب (جو حضرت ہشام ابن زہرہ کے آزاد کردہ غلام تھے اور تابعی ہیں) کہتے ہیں کہ (ایک دن) ہم حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس ان کے گھر گئے، چنانچہ جب کہ ہم وہاں بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہم نے ان (ابوسعید) کے تخت کے نیچے ایک سرسراہٹ سنی ہم نے دیکھا تو وہاں ایک سانپ تھا، میں اس کو مارنے کے لئے جھپٹا، مگر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نماز پڑھ چکے تو انہوں نے مکان کے ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے پوچھا کہ کیا تم نے اس کمرے کو دیکھا ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں ! پھر حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کمرے میں ہمارے خاندان کا ایک نوجوان رہا کرتا تھا جس کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ حضرت ابوسعید نے کہا کہ ہم سب لوگ (یعنی وہ نوجوان بھی) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ غزوہ خندق میں گئے، (جس کا محاذ مدینہ کے مضافات میں قائم کیا گیا تھا) (روزانہ) دوپہر کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے (گھر جانے کی) اجازت مانگ لیا کرتا تھا (کیونکہ دلہن کی محبت اس کو اس پر مجبور کرتی تھی) چنانچہ (اجازت ملنے پر) وہ اپنے اہل خانہ کے پاس چلا جاتا (اور رات گھر میں گزار کر صبح کے وقت پھر مجاہدین میں شامل ہو جاتا) ایک دن حسب معمول، اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت طلب کی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس کو اجازت دیتے ہوئے) فرمایا کہ اپنے ہتھیار اپنے ساتھ رکھو، کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ کہیں بنو قریظہ تم پر حملہ نہ کر دیں (بنو قریظہ مدینہ میں یہودیوں کا ایک قبیلہ تھا جو اس موقع پر قریش مکہ کا حلیف بن کر مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک تھا اس نوجوان نے ہتھیار لے لئے اور (اپنے گھر کو) روانہ ہو گیا) جب وہ اپنے گھر کے سامنے پہنچا تو) کیا دیکھتا ہے کہ اس کی بیوی (گھر کے) دونوں دروازوں (یعنی اندر اور باہر کے دروازے) کے درمیان کھڑی ہے، نوجوان نے عورت کو مار ڈالنے کے لئے اس کی طرف نیزہ اٹھایا کیونکہ (یہ دیکھ کر کہ اس کی بیوی باہر کھڑی ہے) اس کو بڑی غیرت آئی لیکن عورت نے (جبھی) اس سے کہا کہ اپنے نیزے کو اپنے پاس روک لو اور ذرا گھر میں جا کر دیکھو کہ کیا چیز میرے باہر نکلنے کا سبب ہوئی ہے۔ (یہ سن کر) وہ نوجوان گھر میں داخل ہوا، وہاں یکبارگی اس کی نظر ایک بڑے سانپ پر پڑی جو بستر پر کنڈلی مارے پڑا تھا۔ نوجوان نیزہ لے کر سانپ پر جھپٹا اور اس کو نیزہ میں پرو لیا پھر اندر سے نکل کر باہر آیا اور نیزے کو گھر کے صحن میں گاڑ دیا، سانپ نے تڑپ کر نوجوان پر حملہ کیا، پھر یہ معلوم نہ ہو سکا کہ دونوں میں سے پہلے کون مرا، سانپ یا نوجوان ؟ (یعنی وہ دونوں اس طرح ساتھ مرے کہ یہ بھی پتہ نہ چل سکا کہ پہلے کس کی موت واقع ہوئی)۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ ماجرا بیان کر کے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ اس نوجوان کو ہمارے لئے زندہ کر دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنے ساتھی اور رفیق کے لئے مغفرت طلب کرو۔ اور پھر فرمایا کہ۔ (مدینہ کے ان گھروں میں عوامر یعنی جنات رہتے ہیں (جن میں مؤمن بھی ہیں اور کافر بھی) لہٰذا جب تم ان میں سے کسی کو (سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین بار یا تین دن اس پر تنگی اختیار کرو پھر اگر وہ چلا جائے تو فبہا ورنہ اس کو مار ڈالو کیونکہ (اس صورت میں یہی سمجھا جائے گا کہ) وہ (جنات میں کا) کافر ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار سے فرمایا کہ۔ جاؤ اپنے ساتھی کی تکفین و تدفین کرو۔
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مدینہ میں (کچھ) جن ہیں (اور ان میں وہ بھی ہیں) جو مسلمان ہو گئے ہیں ان میں سے جب تم کسی کو (سانپ کی صورت میں) دیکھو تو تین دن اس کو خبردار کرو، پھر تین دن کے بعد بھی اگر وہ دکھائی دے تو اس کو مار ڈالو کہ وہ شیطان ہے۔ (مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے۔ علماء نے لکھا ہے کہ صحابہ کی یہ روش نہیں تھی کہ وہ اس طرح کی کوئی استدعا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کریں۔ اس موقع پر ان لوگوں کا خیال یہ تھا کہ نوجوان حقیقت میں مرا نہیں ہے بلکہ زہر کے اثر سے بیہوش ہو گیا ہے۔ اس خیال سے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس دعا کی استدعا کی تھی۔
مغفرت طلب کرو۔ اس ارشاد سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ اس کو زندہ کرنے کی دعا کی درخواست کیوں کرتے ہو کیونکہ وہ تو اپنی راہ پر چل کر موت کی گود میں پہنچ گیا ہے جس کے حق میں زندگی کی دعا قطعاً فائدہ مند نہیں ہے، اب تو اس کے حق میں سب سے مفید چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت اور بخشش کی درخواست کرو۔
اس پر تنگی اختیار کرو یا اس کو خبردار کرو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جب سانپ نظر آئے تو اس سے کہو کہ تو تنگی اور گھیرے میں ہے اب نہ نکلنا اگر پھر نکلے گا تو ہم تجھ پر حملہ کریں گے اور تجھ کو مار ڈالیں گے، آگے تو جان۔
ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ منقول ہے کہ سانپ کو دیکھ کر یہ کہا جائے
انشدکم بالعہد الذی اخذ علیکم سلیمان بن داؤد علیماالسلام لا تاذونا ولا تظہروا لنا۔
میں تجھ کو اس عہد کی قسم دیتا ہوں جو حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے تجھ سے لیا تھا کہ ہم کو ایذاء نہ دے اور ہمارے سامنے مت آ۔
وہ شیطان ہے۔ یعنی خبردار کر دینے کے بعد بھی وہ غائب ہوا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ مسلمان جن نہیں ہے بلکہ یا تو کافر جن ہے یہ حقیقت میں سانپ ہے اور یا ابلیس کی ذریات میں سے ہے اس صورت میں اس کو فوراً مار ڈالنا چاہئے۔ اس کو شیطان اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ آگاہی کے بعد بھی نظروں سے غائب نہ ہو کر اس نے اپنے آپ کو سرکش ثابت کیا ہے اور عام بات کہ جو بھی سرکش ہوتا ہے خواہ وہ جنات میں کا ہو یا آدمیوں میں کا اور یا جانوروں میں کا اس کو شیطان کہا جاتا ہے۔
اور حضرت ام شریک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ وہ (گرگٹ) حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ پھونکتا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آگ پھونکتا تھا یہ گویا گرگٹ کی خباثت کو بیان کیا گیا ہے کہ جب نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا تو یہ (گرگٹ) اس آگ کو بھڑکانے کے لئے اس میں پھونک مارتا تھا۔
یوں بھی تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ یہ جانور بڑا زہریلا اور موذی ہوتا ہے، اگر کھانے پینے کی چیزوں میں اس کے زہریلے جراثیم پہنچ جائیں تو اس سے لوگوں کو بہت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گرگٹ کو مار ڈالنے کا حکم دیا اور اس کا نام فویسق رکھا۔ (مسلم)
تشریح
فویسق اصل میں فاسق کی تصغیر ہے جس کے معنی ہیں چھوٹا فاسق۔ گرگٹ کو فویسق یعنی چھوٹا فاسق اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ یہ فواسق خمسہ یعنی ان پانچ بد جانوروں کی قسم سے ہے جن کو ہر حالت میں مار ڈالنے کا حکم ہے خواہ وہ حل میں یعنی حدود حرم سے باہر ہوں یا حرم میں ہوں۔ ویسے لغت میں فسق کے معنی خروج کے ہیں اور شرعی اصطلاح میں فسق سے مراد ہوتا ہے اطاعت حق سے نکل جانا اور صحیح راستہ سے رو گردانی کرنا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص گرگٹ کو ایک ہی وار میں مار ڈالے۔ اس کے لئے سو نیکیاں لکھی جائیں گی، دوسرے وار میں اس سے کم اور تیسرے وار میں اس سے بھی کم نیکیاں لکھی جائیں گی۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث کے ذریعہ گویا اس بات کی طرف راغب کیا گیا ہے کہ گرگٹ کو جلد سے جلد مار ڈالا جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اللہ کے جو) ابنیاء (پہلے گزر چکے ہیں ان میں سے کسی نبی (کا واقعہ ہے کہ ایک دن ان کو ایک چیونٹی نے کاٹ لیا، انہوں نے چیونٹیوں کے بل کے بارے میں حکم دیا کہ اس کو جلا دیا جائے، چنانچہ بل کو جلا دیا گیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر یہ وحی نازل کی کہ تمہیں ایک چیونٹی نے کاٹا تھا اور تم نے جماعتوں میں سے ایک جماعت کو جلا ڈالا جو تسبیح (یعنی اللہ کی پاکی بیان کرنے) میں مشغول رہتی تھی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
چنانچہ بل کو جلا دیا گیا کے بارے میں بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی نے اس درخت کو جلانے کا حکم دیا تھا جس میں چیونٹیوں کا بل تھا، چنانچہ اس درخت کو جلا ڈالا گیا۔ اس واقعہ کا پس منظر یہ روایت ہے کہ ایک مرتبہ ان نبی علیہ السلام نے بارگاہ رب العزت میں عرض کیا تھا کہ (پروردگار ! تو کسی آبادی کو اس کے باشندوں کے گناہوں کے سبب عذاب میں مبتلا کرتا ہے اور وہ پوری آبادی تہس نہس ہو جاتی ہے، درآنحالیکہ اس آبادی میں مطیع و فرمانبردار لوگوں کی بھی کچھ تعداد ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کر لیا کہ ان کی عبرت کے لئے کوئی مثال پیش ہونی چاہئے۔ چنانچہ ان نبی علیہ السلام پر سخت ترین گرمی مسلط کر دی گئی، یہاں تک کہ وہ اس گرمی سے نجات پانے کے لئے ایک سایہ دار درخت کے نیچے چلے گئے، وہاں ان پر نیند کا غلبہ ہو گیا اور وہ سو رہے تھے تو ایک چیونٹی نے ان کو کاٹ لیا، انہوں نے حکم دیا کہ ساری چیونٹیوں کو جلا دیا جائے، کیونکہ ان کے لئے یہ آسان نہیں تھا کہ وہ اس خاص چیونٹی کو پہچان کر جلواتے جس نے ان کو کاٹا تھا یا یہ کہ ان کے نزدیک ساری چیونٹیاں موذی تھیں اور موذی کی پوری جنس کو مار ڈالنا جائز ہے۔
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ قریۃ نمل سے چیونٹیوں کا بل مراد ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل کی الخ یہ گویا ان نبی پر حق تعالیٰ کی طرف سے عتاب ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ یہ اس بات پر محمول ہے کہ نبی علیہ السلام کی شریعت میں چیونٹیوں کو مار ڈالنا یا جلا ڈالنا جائز تھا، اور عتاب اس سبب سے ہوا کہ انہوں نے ایک چیونٹی سے زیادہ کو جلایا۔ لیکن واضح رہے کہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم میں کسی بھی حیوان و جانور کو جلانا جائز نہیں ہے اگرچہ جوئیں اور کھٹمل وغیرہ ہی کیوں نہ ہوں، نیز موذی جانوروں کے علاوہ دوسرے جانوروں کو مار ڈالنا بھی جائز نہیں ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی بھی جاندار کو مار ڈالنے سے منع فرمایا ہے الاّ یہ کہ وہ ایذاء پہنچانے والا ہو۔
مطالب المؤمنین میں محمد بن مسلم سے چیونٹی کا مار ڈالنے کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ اگر چیونٹی نے تمہیں ایذاء پہنچائی ہے تو اس کو مار ڈالو، اور اگر اس نے کوئی ایذاء نہیں پہنچائی ہے تو مت مارو، چنانچہ فقہاء نے کہا ہے کہ ہم اسی قول پر فتویٰ دیتے ہیں۔
اسی طرح چیونٹی کو پانی میں ڈالنا بھی مکروہ ہے۔ نیز کسی ایک چیونٹی کو (جس نے ایذاء پہنچائی ہو) مار ڈالنے کے لئے ساری چیونٹیوں کے بل کو نہ جلایا جائے اور نہ تباہ کیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر گھی میں چوہا گر جائے (اور مر جائے) اور وہ گھی جما ہوا ہو تو اس چوہے کو اور اس کے چاروں طرف کے گھی کو نکال کر پھینک دو (اور باقی گھی کھانے کے مصرف میں لاؤ) اور اگر وہ گھی پتلا یعنی پگھلا ہوا ہو تو پھر اس کے نزدیک (بھی) مت جاؤ یعنی اس کو مطلقاً نہ کھاؤ) احمد، اور دارمی نے اس روایت کو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔
اور حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حباری کا گوشت کھایا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
حباری یعنی تعذری وہ جانور (پرندہ) ہے جس کے بارے میں عربی میں مشہور ہے کہ وہ احمق ترین پرندہ ہوتا ہے اسی وجہ سے کسی شخص کی حماقت ظاہری کرنے کے لئے حباری کی مثال دی جاتی ہے اردو میں حباری سرخاب کو کہتے ہیں۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جلالہ کا گوشت کھانے اور اس کا دودھ پینے سے منع فرمایا ہے (ترمذی) اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جلالہ پر سوار ہونے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح
جلالہ اس جانور کو کہتے ہیں۔ جس کا گوشت کھانا حلال ہو، لیکن اس کو نجاست، پلیدی کھانے کی عادت ہو، اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر وہ جانور کبھی کبھی نجاست و پلیدی کھاتا ہو تو اس کو جلالہ نہیں کہیں گے، اور اس کا گوشت کھانا حرام نہیں ہو گا۔
جیسے مرغی، اور اگر وہ جانور ایسا ہو کہ اس کی خوراک ہی عام طور پر نجاست و پلیدی ہو، یہاں تک کہ اس کی وجہ سے اس کے گوشت اور دودھ میں بد بو آنے لگے، تو اس کا گوشت کھانا حلال نہیں ہو گا۔ الاّ یہ کہ اس کو باندھ کر یا بند کر کے رکھا جائے اور اس کو غیر نجس چیزیں کھلائی جائیں تا آنکہ اس کا گوشت اور دودھ ٹھیک ہو جائے تو اس کا گوشت کھانا اور دودھ پینا درست ہو گا۔ یہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کا قول ہے لیکن حضرت امام مالک فرماتے ہیں کہ اس کے بعد بھی یعنی اس کو بند کر کے رکھنے اور غیر نجس چیزیں کھلانے کے بعد اس کا گوشت مبالغہ کی حد تک دھونا ضروری ہو گا۔ فتاویٰ کبری میں لکھا ہے کہ جب تک مخلات مرغ کو تین روز تک اور جلالہ کو دس روز تک بند کر کے یا باندھ کر نہ رکھا جائے اس وقت تک اس کا گوشت کھانا حلال نہیں ہو گا۔
جلالہ پر سواری کرنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ اس کا پسینہ جو گوشت کے پیدا ہونے کی وجہ سے گندا اور پلید ہوتا ہے، سوار کے جسم کو لگے گا۔
اور حضرت عبد الرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گوہ کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
یہ حدیث گوہ کے حرام ہونے پر دلالت کرتی ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ عنہ کا مسلک ہے۔ اور شاید کہ پہلے گوہ کا کھانا مباح رہا ہو اور پھر بعد میں اس حکم ممانعت کے ذریعہ اس اباحت کو منسوخ قرار دیا گیا ہو۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بلی کا گوشت اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا ہے۔(ابوداؤد،ترمذی)
تشریح
بلی کا گوشت کھانا تو بالاتفاق تمام علماء کرام کے نزدیک حرام ہے البتہ بلیک و بیچنا اور اس کی قیمت کو کھانے پینے کی چیزوں میں خرض کرنا حرام نہیں ہے بلکہ مکروہ ہے۔
اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خبیر کے دن گھر میں پلے ہوئے گدھوں، خچر، ہر کچلی والے درندے اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندے کا گوشت حرام قرار دیا تھا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑے، خچروں اور گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
یہ حدیث کہ جس سے گھوڑے کا گوشت کھانے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے ضعیف ہے اس لئے یہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کے معارض نہیں ہو سکتی جو پہلے گزر چکی ہے اور جس سے گھوڑے کے گوشت کی اباحت ثابت ہوتی ہے، تاہم گھوڑے کے گوشت کھانے کی یہ ممانعت اکثر علماء کے نزدیک اس حدیث کے ذریعہ منسوخ قرار پائی ہے جو پہلے گزر چکی ہے جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی تشریح میں یہ مسئلہ پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہو چکا ہے۔
اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ خیبر کے دن جہاد میں شریک تھا (ایک موقع پر) یہودی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے اور یہ شکایت کی کہ لوگوں نے ان کی کھجوروں کی طرف جلد روی اختیار کی ہے (یعنی مسلمانوں نے ہمارے کھجور کے درختوں پر سے پھل توڑ لئے ہیں جب کہ ہم معاہد ہیں) چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ خبردار ! ان لوگوں کا مال حلال نہیں ہے جس سے عہد و پیمان ہو چکا ہے۔ علاوہ اس حق کے جو اس مال سے متعلق۔ (ابوداؤد)
تشریح
معاہد اس شخص کو کہتے ہیں کہ جس سے عہد و پیمان ہوا ہو، چنانچہ اگر وہ معاہد ذمی ہے تو وہ حق جو اس کے مال سے متعلق ہے جزیہ ہے اور اگر وہ معاہد مستامن ہے اور اس کے پاس مال تجارت ہے۔ تو اس کے مال سے جو حق متعلق ہو گا وہ اس پر لاگو ہونے والا عشر ہے۔
اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ ہمارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں اور دو خون حلال ہیں۔ دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں تو مچھلی اور ٹڈی ہیں اور دو خون کلیجی اور تلی ہیں (کہ یہ دونوں اصل میں بستہ خون ہیں نہ کہ گوشت۔ (احمد، ابن ماجہ، دارقطنی)
اور حضرت ابوزبیر رضی اللہ عنہ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس (مچھلی) کو دریا نے کنارے پر پھینک دیا ہو، یا پانی سے اس کا ساتھ چھوٹ گیا ہو (یعنی دریا کا پانی بالکل خشک ہو گیا ہو یا کسی دوسری طرف چلا گیا ہو) تو اس مچھلی کو کھا لو، اور جو مچھلی دریا میں مر کر پانی کے اوپر آ جائے اس کو مت کھاؤ۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ) اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ اکثر (محدثین) اس بات کے قائل ہیں کہ یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔ یعنی ان کے نزدیک یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔
تشریح
یہ حدیث حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ طافی مچھلی (یعنی وہ مچھلی جو پانی میں مر کر اوپر آ جائے حرام ہے۔ چنانچہ صحابہ کی ایک جماعت سے بھی اسی طرح منقول ہے، لیکن حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کے نزدیک اس مچھلی کے کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں، کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مطلق (بلا قید اور استثناء کے) احل لکم المیتتان (تمہارے لئے دو بغیر ذبح کے مری ہوئی چیزیں حلال ہیں، فرمایا ہے لہٰذا میتہ بحر یعنی پانی کی مری ہوئی چیز (مچھلی) مطلق حلال ہو گی (خواہ وہ پانی سے نکلنے کے بعد مری ہو، یا پانی میں مر کر اوپر آ گئی ہو) جب کہ حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ میتہ بحر سے وہ مچھلی مراد ہے جس کو بحر یعنی دریا باہر پھینک دے اور وہ اس کی وجہ سے مر جائے نہ کہ وہ مچھلی مراد ہے جو بغیر کسی آفت کے پانی میں خود مر گئی ہو۔
اور حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ٹڈی کے (کھانے اور اس کی حقیقت کے) بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا (پرندوں میں) سب سے بڑا لشکر ہیں، نہ تو میں اس کو کھاتا ہوں (کیونکہ طبعا مجھے کراہت محسوس ہوتی ہے) اور نہ (دوسروں پر) شرعاً اس کو حرام قرار دیتا ہوں (کیوں کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حلال کیا گیا ہے جیسا کہ پہلے یہ حدیث گزری ہے کہ احلت لنا میتتان ابوداؤد ٠! اور محی السنۃ نے کہا ہے کہ یہ حدیث ضعیف ہے۔
تشریح
ٹڈیاں اللہ تعالیٰ کا لشکر اس اعتبار سے ہیں کہ جب کسی گروہ اور کسی قوم پر غضب آتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف ٹڈیوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجتا ہے تاکہ وہ اس قوم کی کھیتوں اور ان کے درختوں کو کھا جائیں۔ جس سے ان میں قحط پھیل جائے۔ چنانچہ پچھلے زمانوں میں ایسا بارہا ہوا ہے کہ جب کسی جگہ کے کھیتوں اور باغات کو غضب خداوندی کی بنا پر ٹڈیوں نے نیست و نابود کر دیا اور اس کی وجہ سے وہاں قحط پھیل گیا تو ایک انسان دوسرے انسان کو کھانے لگا اس طرح وہاں کی پوری کی پوری آبادی تباہ و برباد ہو گئی۔
جہاں تک ٹڈی کا مسئلہ ہے تو اس کا کھانا اکثر احادیث کے بموجب حلال ہے، چنانچہ چاروں ائمہ کا یہ مسلک ہے کہ ٹڈی کو کھانا حلال ہے، خواہ وہ خود سے مر گئی ہو یا اس کو ذبح کیا گیا ہو، یا شکار کے ذریعہ مری ہو، اور شکار بھی خواہ کسی مسلمان نے کیا ہو، یا مجوسی نے اور خواہ اس میں سے کچھ کاٹا جائے یا نہیں۔
اور حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مرغ کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ بلا شبہ وہ (مرغ) نماز کے لئے آگاہ کرتا ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح
نماز سے تہجد کی نماز مراد ہے ! حدیث شریف میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تہجد کی نماز کے لئے اس وقت اٹھتے تھے جب کہ مرغ بانگ دیا کرتا تھا، اور یہ بھی احتمال ہے کہ فجر کی نماز مراد ہو، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ وہ اپنی بانگ کے ذریعہ آگاہ کرتا ہے کہ فجر کی نماز کا وقت قریب آ گیا ہے اور پھر دوبارہ اس کی بانگ تاکید و تنبیہ کے لئے ہوتی ہے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب حیوان میں بھی پائی جانے والی اچھی خصلتیں اس کو برا کہنے سے روکتی ہیں، تو کسی مؤمن کو برا کہنے والے کا کیا حشر ہو گا ؟
اور حضرت زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مرغ کو برا نہ کہو، کیوں کہ وہ نماز کے لئے جگاتا ہے۔ (ابوداؤد)
اور حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت ابولیلی نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب گھر میں سانپ نکلے تو اس کے سامنے کہا جائے کہ۔ ہم تجھ سے حضرت نوح (علیہ السلام) کے عہد اور حضرت سلیمان بن داؤد (علیہما السلام) کے عہد کا واسطہ دے کر یہ چاہتے ہیں کہ تو ہمیں ایذاء نہ پہنچا۔ اگر اس کے بعد وہ پھر نظر آئے تو اس کو مار ڈالو۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
حضرت نوح علیہ السلام نے سانپ سے عہد اس وقت لیا تھا جب کہ انہوں نے اپنی کشتی میں حیوانات کو داخل کیا تھا۔
اور حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ کچھ نہیں جانتا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بطریق مرفوع یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو شخص بدلے (انتقام) کے خوف سے ان (سانپوں) کو مارنا چھوڑ دے تو وہ ایک موذی کو نہ مارنے اور قضا و قدر الٰہی پر بھروسہ نہ کرنے کے سبب) ہم میں سے نہیں ہے۔ یعنی ہمارے راستے پر گامزن نہیں ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح
بدلے کے خوف کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس ڈر کی وجہ سے سانپ کو نہ مارے کہ کہیں اس کا جوڑا مجھ سے انتقام نہ لے، چنانچہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص نے کسی سانپ کو مار ڈالا اور پھر اس کے جوڑے نے آ کر اس شخص کو کاٹ لیا اور بدلہ لیا، مارا جانے والا سانپ اگر نر ہوتا ہے تو اس کی مادہ انتقام لینے آتی ہے اور اگر وہ مادہ تھی تو اس کا نر بدلہ لینے آتا ہے، زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کے ہاں یہ خوف ایک عقیدے کی حد تک تھا وہ کہا کرتے تھے کہ سانپ کو ہرگز نہیں مارنا چاہئے، اگر اس کو مارا جائے گا تو اس کا جوڑا آ کر انتقام لے گا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح کے قول و اعتقاد سے منع فرمایا۔
اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب سے ہم نے سانپوں سے لڑائی شروع کی ہے اس وقت سے ہم نے ان سے مصالحت نہیں کی ہے۔ لہٰذا جو شخص ان سانپوں میں سے کسی سانپ کو (اس) خوف کی وجہ سے (مارنے) باز رہے (کہ خود وہ سانپ یا اس کا جوڑا نقصان پہنچائے گا اور بدلہ لے گا، تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
ایک دوسری روایت میں منذ حار بناہم کے بجائے منذ عادینا ہم کے الفاظ منقول ہیں۔ یعنی جب سے ہمارے اور سانپوں کے درمیان لڑائی اور دشمنی واقع ہوئی ہے بہر حال مراد یہ ہے کہ انسان اور سانپ کے درمیان دشمنی اور لڑائی ایک طبعی اور جبلی چیز ہے کہ ہر ایک دوسرے کو نقصان پہنچاتا ہے، اگر انسان سانپ کو دیکھتا ہے تو اس کو ضرور مار ڈالنے کی کوشش کرتا ہے اور اگر سانپ موقع پاتا ہے تو اس کو کاٹے اور ڈسے بغیر نہیں رہتا، بلکہ بعض علماء نے تو یہ کہا ہے کہ اس لڑائی اور دشمنی سے مراد دراصل وہ عداوت ہے جو اولاد آدم علیہ السلام کی تخلیق سے بھی پہلے حضرت آدم علیہ السلام اور سانپ کے درمیان قائم ہوئی تھی، جیسا کہ ایک روایت میں بیان کیا جاتا ہے کہ جب ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام کو بہکانے کے لئے جنت میں داخل ہونا چاہا، تو جنت کے داروغہ نے اس کو روک دیا چنانچہ یہ سانپ ہی تھا جو ابلیس کا کام آیا اس نے ابلیس کو اپنے منہ کے اندر لے کر جنت میں پہنچا دیا اور پھر ابلیس لعین نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا کے لئے اپنے مکر و فریب کا جال پھیلا کر ان کو وسوسہ میں ڈال دیا اور ان دونوں نے جنت کے اس درخت سے کھا لیا، جس کے پاس جانے سے بھی ان کو منع کر دیا تھا اور آخر کار ان دونوں کو جنت سے نکال دیا گیا اور حق تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام و حوا علیھا، اور ابلیس و سانپ کو خطاب کر کے فرمایا آیت (اھبطوا بعضکم لبعض عدو)۔
بیان کیا جاتا ہے کہ پہلے سانپ کی شکل و صورت بہت اچھی اور خوشنما تھی مگر اس کے اس سخت جرم کے عذاب میں کہ وہ ابلیس کا آلہ کار بنا اس کی صورت مسخ کر دی گئی، لہٰذا سانپ اس کے مستحق ہے کہ اس کے تئیں یہ عداوت و نفرت ہمیشہ باقی رکھی جائے۔
واضح رہے کہ ما سلمانھم منذ حاربنا ہم میں سانپوں کے لئے ذوی العقول کی ضمیر اس لئے استعمال ہوئی ہے کہ ان کی طرف صلح کی نسبت کی گئی ہے جو ذوی العقول کے افعال میں سے ہے۔ جیسے کہ اس آیت کریمہ (وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُهُمْ لِيْ سٰجِدِيْنَ) 12۔یوسف:4) میں سورج اور چاند کے لئے ذوی العقول کی ضمیر لائی گئی ہے ورنہ قاعدے کے اعتبار سے ان کے لئے غیر ذوی العقول کی ضمیر استعمال کرتے ہوئے یہ کہنا چاہئے تھا ما سالمنا ہن منذ حاربناہن۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمام سانپوں کو قتل کر دو اگر کوئی شخص ان کے انتقام سے خوف زدہ ہوا تو وہ مجھ سے نہیں ہے۔( ابوداؤد، نسائی)
تشریح
اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے تو یہ واضح ہوتا ہے ہر قسم کے سانپوں کو مارنا چاہئے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس عمومی حکم سے عوامر یعنی گھروں میں رہنے والے سانپوں کا استثناء کیا جانا چاہئے یا پھر یہ کہا جائے کہ قتل سے مراد یہ ہے کہ أگاہ کرنے کے بعد مارو، جیسا کہ پہلے حضرت ابوسائب کی حدیث میں بیان ہوا ہے۔
اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے (ایک دن) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ہم زمزم کے کنوئیں کی صفائی کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں سانپ یعنی چھوٹے سانپ ہیں ؟ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر قسم کے چھوٹے سانپوں کو مار ڈالنے کا حکم دے دیا تھا، لیکن آگے جو حدیث آ رہی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں سے ایک قسم کے سانپوں کو مارنے سے منع فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس موقع پر چاہ زمزم کو صاف کرنا ان سب سانپوں کو مار ڈالنے کے بغیر ممکن نہیں تھا، جب کہ دوسری صورتوں میں ان میں سے بعض قسم کے سانپوں کا استثناء ممکن ہے۔
اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمام سانپوں کو مارو علاوہ جان یعنی سفید چھوٹے سانپ کے جو چاندی کی چھڑی کی طرح ہوتا ہے۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس سانپ کو مارنے سے شاید اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ وہ ضرر نہیں پہنچاتا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کسی شخص کے برتن میں (کہ جس میں کھانے پینے کی کوئی چیز ہو) مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دو کیوں کہ اس کے ایک بازو میں بیماری ہے اور دوسرے بازو میں شفاء، اور مکھی (کسی چیز میں) پہلے اپنے اسی بازو کو ڈالتی ہے جس میں بیماری ہے لہٰذا پوری مکھی کو غوطہ دینا چاہئے (تاکہ شفا والے بازو سے ان جراثیم کا دفعیہ ہو جائے جو بیمار والے بازو کی وجہ سے کھانے پینے کی چیز میں پہنچ گئے ہیں۔ (ابوداؤد)
اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جب کھانے میں مکھی گر جائے تو اس کو غوطہ دے لو۔ کیونکہ اس کے ایک بازو میں زہر ہے اور دوسرے بازو میں شفا ہے اور مکھی اپنے زہر والے بازو کو پہلے ڈالتی ہے اور پھر شفا والے بازو کو۔ (شرح السنۃ)
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان) چار جانوروں کو مارنے سے منع فرمایا ہے چیونٹی، شہد کی مکھی، ہدہد اور کلچڑی۔ (ابوداؤد، دارمی)
تشریح
چیونٹی کو مارنے سے منع کرنے کی مراد یہ ہے کہ اس کو اس وقت تک نہ مارا جائے جب تک کہ وہ نا کاٹے، اگر وہ کاٹے تو پھڑ اس کو مارنا جائز ہو گا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ جس چیونٹی کو مارنے سے منع فرمایا گیا ہے اس سے وہ بڑی چیونٹی مراد ہے جس کے پیر لمبے لمبے ہوتے ہیں اور اس کو مارنا ممنوع اس لئے ہے کہ اس کے کاٹنے سے ضرر نہیں پہنچتا۔
شہد کی مکھی کو مارنا اس لئے ممنوع ہے کہ اس سے انسان کو بہت زیادہ فوائد پہنچتے ہیں بایں طور کہ شہد اور موم اسی کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے۔
ہدہد ایک پرندہ ہے جس کو کھٹ بڑھئی کہتے ہیں، صرد بھی ایک پرندہ ہے جو بڑے سر، بڑی چونچ اور بڑے بڑے پر والا ہوتا ہے، وہ آدھا سیاہ ہوتا ہے اور آدھا سفید، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ شکاری پرندہ ہوتا ہے جو چڑیوں کا شکار کرتا ہے، ان دونوں پرندوں کو مارنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ان کا گوشت کھانا حرام ہے اور جو جانور و پرندہ کھایا نہ جاتا ہو اس کو مارنا ممنوع قرار دیا گیا ہے، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ ہدہد میں بد بو ہوتی ہے اس لئے وہ جلالہ کے حکم میں ہو گا۔ اہل عرب ہدہد اور صرد کے آوازوں کو منحوس اور بدفالی سمجھتے تھے، اس لئے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مارنے سے منع فرمایا کہ لوگوں کے دلوں سے ان کی نحوست کا اعتماد نکل جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ (اپنی خواہش نفس کے مطابق) کچھ چیزوں کو کھاتے تھے، اور کچھ چیزوں کو جھوڑ دیتے تھے، یعنی جن چیزوں سے ان کو نفرت ہوتی ان کو نہیں کھاتے تھے) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو مبعوث فرمایا اور (ان نبی صلی اللہ علیہ و سلم پر اور ان کے ذریعہ ان کی امت پر) اپنی کتاب نازل کی اور اپنی حلال چیزوں کو حلال قرار دیا اور اپنی حرام چیزوں کو حرام قرار دیا (یعنی یہ بیان کر دیا کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں چیز حرام ہے نیز اللہ تعالیٰ نے جس چیز کو حلال کیا ہے وہی حلال ہے اس کے علاوہ حلال نہیں ہے) اور جس چیز کو حرام کہا ہے وہی حرام ہے اور جس چیز سے سکوت اختیار کیا (یعنی جس چیز کے بارے میں یہ نہیں بتایا کہ یہ حلال ہے یا حرام) تو وہ چیز معاف ہے (کہ اس پر مواخذہ نہیں) اور پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی ' اے محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آتے ہیں ان میں تو میں کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا خون۔ الخ۔ (ابوداؤد)
تشریح
لفظ حلالہ میں مصدر استعمال کیا گیا ہے جو مفعول کے قائم مقام ہے، معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت اور اپنی کتاب ہدایت (قرآن مجید) کے نزول کے ذریعہ اس چیز کو ظاہر واضح کر دیا جو حلال کی گئی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو آیت تلاوت کی وہ پوری یوں ہے
آیت (قُلْ لَّآ اَجِدُ فِيْ مَآ اُوْحِيَ اِلَيَّ مُحَرَّماً عَلٰي طَاعِمٍ يَّطْعَمُهٗٓ اِلَّآ اَنْ يَّكُوْنَ مَيْتَةً اَوْ دَماً مَّسْفُوْحاً اَوْ لَحْمَ خِنْزِيْرٍ فَاِنَّهٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقاً اُهِلَّ لِغَيْرِ اللّٰهِ بِهٖ)۔6۔ الانعام:145)
(اے محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کہہ دیجئے کہ جو احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ہیں ان میں تو کوئی حرام غذا پاتا نہیں کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار (مرا ہوا جانور) ہو یا بہتا ہوا خون ہو، یا سور کا گوشت ہو کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو جانور شرک کا ذریعہ ہو کہ غیر اللہ کے نامزد کر دیا گیا ہو۔
یہ آیت کریمہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کی تردید میں پڑھی جو محض اپنی خواہش نفس کی بنا پر کسی چیز کی حلت و حرمت کے فیصلہ کرتے تھے، کہ جس چیز کی طرف ان کی طبیعت راغب ہوئی اس کو حلال جان کر کھاتے اور جس چیز سے ان کو کراہت و نفرت ہوتی، اس کو حرام سمجھ کر ترک کر دیتے، لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں پر اس آیت کے ذریعہ گویا یہ واضح کیا کہ حلال وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول علیہ السلام نے حلال قرار دیا ہو اور حرام وہی چیز ہے، جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حرام قرار دیا ہو نہ کہ حلت و حرمت کا تعلق خواہش نفس سے ہے۔
از قسم جانور و گوشت جن چیزوں کے حرام ہونے کا حکم کتاب اللہ میں بیان کیا گیا ہے، وہ بس یہی ہیں جو اس آیت میں ذکر ہوئی ہیں۔ ان کے علاوہ اور دوسری چیزوں کی حرمت سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے ثابت ہوئی ہے۔ اور وہ چونکہ زیادہ ہیں اس لئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں منقول احادیث بیان نہیں کیں، محض اس آیت کی تلاوت پر اکتفا کیا۔
اور حضرت زاہر اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) میں اس ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہا تھا، جس میں گدھے کا گوشت (پکنے کے لئے رکھا ہوا) تھا کہ اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تمہیں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرماتے ہیں۔ (بخاری)
اور حضرت ابوثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بطریق مرفوع نقل کرتے ہیں کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنات کی تین قسمیں ہیں، ایک تو وہ جن کے پر ہوتے ہیں اور وہ ہوا میں اڑتے ہیں، دوسری قسم وہ ہیں جو سانپ اور کتے (کی شکل میں نظر آتے ہیں، اور تیسری قسم وہ ہیں جو منزل پر اترتے اور کوچ کرتے ہیں۔ (شرح السنۃ)