مشکوٰة شر یف

جن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان

جن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا اور کھانا حلال نہیں ہے ان کا بیان

اس باب کے تحت وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ زکوٰۃ کا مال کن لوگوں کو لینا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے، چونکہ اس باب سے متعلق بہت زیادہ مسائل ہیں اس لیے مناسب یہ ہے کہ پہلے ان تمام مسائل کو تفصیلی طور پر نمبر وار نقل کر دیا جائے۔

(١) جو شخص صاحب نصاب ہو اور اس پر زکوٰۃ واجب ہو تو وہ زکوٰۃ کا مال اپنی اصل کو نہ دے یعنی ماں باپ، دادا، دادی، نانا، نانی اور ان سے اوپر کے بزرگوں کو خواہ وہ باپ کی طرف سے ہوں یا ماں کی طرف سے ان میں سے کسی کو زکوٰۃ دینا درست اور جائز نہیں ہے اسی طرح اپنی فرع یعنی بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، پڑپوتا، پڑپوتی، نواسا، نواسی اور ان کی اولاد میں سے کسی کو بھی زکوٰۃ کا مال دینا درست نہیں ہے امام اعظم رحمۃ اللہ کے قول کے مطابق شوہر، بیوی کو اور بیوی شوہر کو زکوٰۃ نہ دے، مگر صاحبین کا قول یہ ہے کہ اگر بیوی اپنے شوہر کو زکوٰۃ دے تو درست ہے، ان کے علاوہ بقیہ رشتہ داروں کو زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے بشرطیکہ وہ زکوٰۃ کے مستحق ہوں، یعنی غنی سید، ہاشمی اور کافر نہ ہوں بلکہ غیروں کے مقابلہ میں اپنے رشتہ داروں کو دینا بہتر ہے، اس بارے میں علماء لکھتے ہیں کہ اگر زکوٰۃ اس ترتیب سے دی جائے تو بہت اچھا ہے کہ پہلے بہن، بھائی کو دے ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر چچا اور پھوپھی کو، ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر ماموں خالہ کو، ان کے بعد ان کی اولاد کو، پھر ان لوگوں کو جو ذوی الارحام ہوں پھر اپنے اجنبی ہمسایہ اور پڑوسی کو، پھر اپنے ہم پیشہ کو اور پھر اپنے ہم وطن کو یہی حکم صدقہ فطر اور نذر کا ہے کہ مذکورہ بالا ترتیب سے دینا افضل ہے، ویسے اگر کوئی شخص غیر اور اجنبی کو دیتا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے مگر بہتر اور افضل یہی ہے کہ اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو مقدم رکھا جائے۔

(٢) اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو زکوٰۃ دینی درست نہیں ہے، یہی حکم ام ولد یعنی اس لونڈی کا ہے جس کے اپنے مالک سے کوئی اولاد ہو کہ اس کا مالک اسے بھی زکوٰۃ نہ دے۔

(٣) سسرالی رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینی درست ہے مثلاً ساس سسر، سالا، سالی یا جن لوگوں سے ان کی وجہ سے رشتہ دار ہو اسی طرح داماد اور بہو کو زکوٰۃ دینی درست ہے، نیز سوتیلی ماں، سوتیلی نانی کو بھی زکوٰۃ کا مال دینا جائز ہے۔

(٤) زکوٰۃ کا مال  غنی کو دینا درست نہیں ہے، غنی اس شخص کو کہتے ہیں جو بقدر نصاب مال کا مالک ہو مال خواہ نامی ہو غیر نامی۔ نامی مال اس مال کو کہتے ہیں جس میں اضافہ اور بڑھوتری ہوتی ہے جیسے مال تجارت، نقد روپیہ سونا چاندی اور سونے چاندی کے زیورات یہ مال شرعی قاعدہ کے مطابق نامی ہیں یعنی بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اسی طرح ایسے مویشی اور جانور بھی حقیقۃً نامی مال ہیں جو تجارت یا افزائش نسل کے لیے ہوں۔  غیر نامی مال اس مال کو کہتے ہیں جس میں اضافہ اور بڑھوتری نہ ہوتی ہو جیسے حویلی و مکانات، کپڑے اور برتن وغیرہ یہ چیزیں بھی اگر ضرورت اصلیہ سے زائد ہوں اور بقدر نصاب ہوں، نیز قرض سے محفوظ ہوں تو بھی زکوٰۃ لینا درست نہیں ہے۔ رہائش کا مکان استعمال کے کپڑے، کھانے پکانے کے برتن، اہل علم کی لکھنے پڑھنے کی کتابیں لڑنے والے ہتھیار و اسلحے اور کاریگروں کے اوزار۔ یہ وہ اشیاء ہیں جنہیں ضرورت اصلیہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

(٥) ہاشمی کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے پانچ لوگوں کی اولاد کو ہاشمی کہتے ہیں، اول حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد خواہ حضرت فاطمہ زہراء کے بطن مبارک سے ہو یا دوسری بیویوں سے، دوم حضرت جعفر کی اولاد، سوم حضرت عقیل کی اولاد، چہارم حضرت عباس کی اولاد اور پنجم حارث بن عبدالمطلب کی اولاد ان پانچوں کے سلسلۂ نسب سے تعلق رکھنے والے ہاشمی کہلاتے ہیں۔ ان کے غلام اور لونڈی کو بھی زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے اسی طرح اگر ان کے غلام لونڈی آزاد ہو گئے ہوں تب بھی انہیں زکوٰۃ کا مال لینا اور کھانا جائز نہیں۔

(٦) کافر کو زکوٰۃ کا مال دینا درست نہیں ہے خواہ حربی ہو یا ذمی۔

(٧) اگر کسی شخص نے غنی یا کافر یا اپنے باپ یا اپنے بیٹے یا اپنی بیوی کو مستحق زکوٰۃ سمجھ کر زکوٰۃ کا مال دے دیا یعنی زکوٰۃ دیتے وقت اسے معلوم نہیں ہو کہ یہ ہاشمی ہے یا کافر ہے یا اپنا باپ یا بیٹا ہے یا اپنی بیوی ہے پھر زکوٰۃ دینے کے بعد اسے حقیقت معلوم ہوئی تو اس کے ذمہ سے زکوٰۃ ادا ہو جائے گی اب دوبارہ زکوٰۃ دینے کی ضرورت نہیں ہے۔

(٨) مسجد کی تعمیر و مرمت کے لیے یا کسی میت کے کفن کے لیے اور یا میت کے قرض کی ادائیگی کے لیے زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے اگر کسی شخص نے ان میں سے کسی بھی کام کے لیے زکوٰۃ کا مال دیا تو اس کی زکوٰۃ ادا نہیں ہو گی۔

 

 

مستحقین زکوٰۃ

 زکوٰۃ کے مستحق فقیر ہیں اور اصطلاح شریعت میں  فقیر اس شخص کو کہتے ہیں جو نصاب سے کم مال کا مالک ہو مساکین بھی مستحق زکوٰۃ ہیں۔ مساکین ان لوگوں کو کہتے ہیں جن کے پاس کچھ بھی نہ ہو۔ وہ شخص بھی زکوٰۃ کا مستحق ہے جو حاکم وقت کی طرف سے لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہو اگرچہ وہ خود بھی غنی کیوں نہ ہو برسبیل تذکرہ یہ بھی جان لیجئے کہ  ہاشمی کے لیے وہ تنخواہ بھی جائز نہیں ہے جو زکوٰۃ وصول کرنے والے کو ملتی ہے وہ لوگ بھی زکوٰۃ کے مستحق ہیں جو جہاد یا سفر حج کے مسافر ہوں اور ان کے پاس روپیہ پیسہ نہ رہا ہو اگرچہ ان کے وطن میں ان کا کتنا ہی زیادہ روپیہ پیسہ کیوں نہ موجود ہو۔ اسی طرح دوسرے مسافروں کا بھی زکوٰۃ کا مال دینا درست ہے خواہ کسی مسافر کا اپنے وطن میں کتنا ہی مال و زر کیوں نہ ہو لیکن آخر میں اتنی بات جان لیجئے جس شخص کو ایک دن بقدر بھی اسباب زندگی میسر ہوں اس کے لیے دس سوال دراز کرنا بالکل درست نہیں۔ (مولانا اسحٰق دہلوی)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زکوٰۃ کا مال کھانا حرام تھا

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک کھجور کے پاس سے گزرے جو راستے میں پڑی ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا کہ یہ کھجور زکوٰۃ کی ہو گی تو میں اللہ کی نعمت کی تعظیم کے پیش نظر اسے اٹھا کر ضرور کھا لیتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے کئی مسئلے مستنبط ہوتے ہیں۔ (١) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زکوٰۃ کا مال کھانا حرام تھا چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حق میں مطلقاً صدقہ کا مال حرام تھا کہ خواہ صدقہ واجب (یعنی زکوٰۃ وغیرہ) کا مال ہو یا صدقہ نافلہ کا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسے اپنے استعمال میں نہیں لا سکتے تھے۔ (٢) بنی ہاشم کے لیے صدقہ واجبہ لینا اور اسے استعمال کرنا تو حرام ہے لیکن صدقہ نافلہ حرام نہیں ہے (٣) راستے میں پڑی ہوئی کسی ایسی چیز کو اٹھا کر کھا لینا یا اسے اپنے استعمال میں لے آنا جائز ہے خواہ وہ مقدار و تعداد میں بہت تھوڑی ہو اور یہ گمان ہو کہ اس کا مالک اسے تلاش نہیں کرے گا۔ (٤) بندہ مومن کے لیے یہ بات اولیٰ اور افضل ہے کہ وہ ہر اس چیز سے اجتناب و پرہیز کرے جس میں حرمت کا ذرا بھی شبہ ہو۔

بنی ہاشم کے لیے صدقہ و زکوٰۃ کا مال کھانا حرام ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے زکوٰۃ کی رکھی ہوئی کھجوروں میں سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی (یہ دیکھ کر) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اسے نکالو! نکالو (اور اس طرح فرمایا تاکہ) وہ اسے (منہ سے نکال کر) پھینک دیں پھر آپ نے ان سے فرمایا کہ کیا تم جانتے نہیں کہ ہم بنی ہاشم صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اما شعرت (کیا تم نہیں جانتے) اس جملے کا استعمال ایسے مواقع پر کیا جاتا ہے جب کہ مخاطب کسی واضح اور ظاہر امر کے برخلاف کوئی بات کہہ یا کر رہا ہو خواہ مخاطب اس واضح امر سے لاعلم ہی کیوں نہ ہو گویا اس جملے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ امر اتنا واضح اور ظاہر ہونے کے باوجود تم پر پوشید کیسے ہے اور تم اس سے لاعلم کیسے ہو۔

 بہرحال ظاہر ہے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ تو اس وقت بالکل ہی کمسن تھے، انہیں ان سب باتوں کی کیا خبر تھی مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے باجود انہیں اس انداز سے اس لیے خطاب کیا تاکہ دوسرے لوگ اس کے بارے میں مطلع ہو جائیں اور انہیں بنی ہاشم کے حق میں صدقہ زکوٰۃ کے مال کی حرمت کا علم ہو جائے۔

 اس حدیث سے یہ نکتہ بھی ہاتھ لگا کہ والدین اور مربی پر واجب ہے کہ وہ اپنی اولاد کو خلاف شرع باتوں اور غلط حرکتوں سے روکیں اسی وجہ سے حنفی علماء فرماتے ہیں کہ والدین کے لیے یہ حرام ہے کہ وہ اپنے لڑکوں کو ریشم کے کپڑے (جو مردوں کے لیے ناجائز ہیں) اور سونے چاندی کا زیور پہنائیں۔

زکوٰۃ انسان کا میل ہے

حضرت عبدالمطلب بن ربیعہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  یہ صدقات یعنی زکوٰۃ تو انسانوں کے میل ہیں، صدقہ نہ تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے حلال ہے اور نہ آل محمد (بنی ہاشم) کے لیے حلال ہے (مسلم)

 

تشریح

 

 زکوٰۃ کو میل اس لیے کہا گیا ہے کہ جس طرح انسان کا جسم میل اتارنے سے صاف ہو جاتا ہے اسی طرح زکوٰۃ نکالنے سے نہ صرف یہ کہ مال ہی پاک ہو جاتا ہے بلکہ زکوٰۃ دینے والے کے قلب و روح میں پاکیزگی پیدا ہوتی ہے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا حرام تھا اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اولاد بنی ہاشم کو بھی زکوٰۃ لینی حرام ہے، خواہ وہ زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر ہوں یا محتاج و مفلس ہوں چنانچہ حنفیہ کا صحیح مسلک یہی ہے۔

صدقہ کے مال سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احتیاط

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کھانے کی کوئی چیز لائی جاتی تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بارے میں پوچھتے کہ یہ ہدیہ ہے یا صدقہ اگر بتایا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (بنی ہاشم کے علاوہ) اپنے دوسرے صحابہ سے فرماتے کہ کھالو لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود نہ کھاتے، اور اگر بتایا جاتا کہ یہ ہدیہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنا دست مبارک بڑھاتے اور صحابہ کے ساتھ اسے تناول فرماتے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 صدقہ اس مال کو کہا جاتا ہے جو کسی محتاج و ضرورت مند کو از راہ مہربانی دیا جاتا ہے اور اس سے مقصد یہ ہوتا ہے کہ خدا کی رضا حاصل ہو اور آخرت میں اس کا اجر و ثواب ملے چونکہ صدقہ کا مال لینے والے کی ایک طرح سے ذلت اور کمتری محسوس ہوتی ہے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لیے مطلقاً صدقہ لینا حرام تھا۔

 ہدیہ کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص اپنے کسی بڑے اور عظیم المرتبت شخص کی خدمت میں کوئی چیز از راہ تعظیم و تکریم پیش کرے۔ ہدیہ کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہوتا ہے کہ دنیاوی طور پر اس کا تعلق طرفین سے ہوتا ہے بایں طور کہ جو شخص کسی کو کوئی چیز ہدیہ کرتا ہے تو وہ دنیا ہی میں اس کا اس طرح بدلہ بھی پاتا ہے کہ جسے اس نے ہدیہ دیا ہے وہ کسی وقت اسے بھی کوئی چیز ہدیہ کے طور پر دیتا ہے جب کہ صدقہ میں اس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تملیک کا مسئلہ

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بریرہ کے متعلق تین احکام سامنے آئے پہلا حکم تو یہ کہ جب وہ آزاد ہوئی تو اسے اپنے خاوند کے بارے میں اختیار دیا گیا (دوسرا حکم یہ کہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میراث کا حق اس شخص کے لیے ہے جس نے آزاد کیا (تیسرا حکم یہ کہ ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر میں تشریف لائے تو گوشت کی ہانڈی پک رہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے روٹی اور گھر کا سالن لایا گیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا میں نے وہ ہانڈی نہیں دیکھی جس میں گوشت ہے؟ یعنی جب گوشت پک رہا ہے تو وہ مجھے کیوں نہیں دیا گیا؟ عرض کیا گیا کہ بے شک ہانڈی میں گوشت پک رہا ہے لیکن وہ گوشت بریرہ کو بطور صدقہ دیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو صدقہ نہیں کھاتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ گوشت بریرہ کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ بریرہ جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آزاد کردہ لونڈی تھیں اس کے سبب تین شرعی احکام نافذ ہوئے پہلا حکم تو یہ کہ جب بریرہ آزاد ہوئی تو اسے اختیار دے دیا گیا کہ چاہے تو وہ اپنے خاوند کہ جس کا نام مغیث تھا کے نکاح میں رہے یا اس سے جدائی اور علیحدگی اختیار کر لے۔

 یہ علماء کے یہاں  خیار عتق کہلاتا ہے یعنی جو لونڈی کسی کے نکاح میں ہو تو آزاد ہونے کے بعد اسے اختیار ہے کہ چاہے تو خاوند کے نکاح میں رہے چاہے اس سے جدائی اختیار کر لے لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ لونڈی کو یہ اختیار اس وقت حاصل ہو گا جب کہ اس کا خاوند غلام ہو حنفیہ کہتے ہیں کہ اس کا خاوند خواہ غلام ہو خواہ آزاد ہو وہ دونوں صورتوں میں مختار ہو گی۔

 بریرہ کا خاوند مغیث غلام تھا جب بریرہ نے آزاد ہونے کے بعد اس سے جدائی اختیار کر لی گویا اسے قبول نہیں کیا تو مغیث بڑا ہی پریشان ہوا یہاں تک کہ وہ بریرہ کے عشق و فراق میں روتا اور فریاد کرتا پھرتا رہا مگر بریرہ نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا اور اس سے علیحدہ ہی رہی۔

 بریرہ کے سبب سے دوسرا حکم یہ نافذ ہوا کہ ولاء یعنی لونڈی کی میراث اس شخص کے لیے ہے جس نے اسے آزاد کیا ہو گا اس کی تفصیل یہ ہے کہ بریرہ ایک یہودی کی لونڈی تھی جس نے اسے مکاتب کر دیا تھا یعنی یہودی نے اسے یہ کہہ دیا تھا کہ جب تو اتنے درہم دے دے گی تو آزاد ہو جائے گی جب بریرہ مطلوبہ تعداد میں درہم فراہم کرنے سے عاجز ہو گئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئی تاکہ اگر وہ کچھ دے دیں تو اپنے مالک کو دے کر آزادی کا خلعت زیب تن کرے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اپنے مالک سے پوچھ اگر وہ تجھے بیچے تو میں خریدے لیتی ہوں۔ بریرہ اپنے مالک کے پاس گئی اور اس سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی خواہش بیان کی وہ فروخت کرنے پر تیار ہو گیا مگر اس نے یہ بھی کہا کہ میں اس شرط پر فروخت کرنے کے لیے تیار ہوں کہ ولاء یعنی بریرہ کی میراث کے ہم حقدار ہوں گے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ یہودی اس طرح کہتے ہیں اور ان کی یہ شرط ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہودی غلط کہتے ہیں اور بکواس کرتے ہیں میراث کا حق اسی کو ہوتا ہے جو آزاد کرتا ہے عائشہ رضی اللہ عنہ تم اس سے خرید کر آزاد کر دو اس کی میراث تمہارے لیے ہو گی، یہودیوں کی یہ شرط باطل ہے۔

 تیسرا حکم جو بریرہ کے سبب سے نافذ ہوا اس کا ذکر حدیث کے آخر میں کیا گیا ہے اس کا حاصل اور مطلب یہ ہے کہ اگر مستحق زکوٰۃ کو زکوٰۃ کا مال دیا جائے اور مستحق زکوٰۃ وہ مال لے کر ایسے شخص کو دے دے جو زکوٰۃ کا مستحق نہیں ہے تو اس کے لیے یہ مال حلال و جائز ہو گا کیونکہ زکوٰۃ دینے والے نے تو ایک صحیح شخص اور مستحق کو مال دے دیا اور وہ مال اس مستحق زکوٰۃ کی ملکیت ہو گا اب وہ جس شخص کو بھی اپنا مال دے گا جائز اور درست ہو گا اصطلاح میں اسے  تملیک کہا جاتا ہے جو جائز اور حلال ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تحفہ قبول کرتے اور اس کا بدلہ عطا فرماتے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تحفہ قبول فرماتے تھے اور اس کا بدلہ دے دیا کرتے تھے۔ (بخاری)

معمولی تحفہ بھی قبول کرنا چاہئے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میری کراع کی بھی دعوت کی جائے تو میں قبول کروں گا اور اگر میرے پاس بطور تحفہ ایک دست بھی بھیجا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

  کراع بکری کی پنڈلی کو کہتے ہیں آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص مجھے صرف بکری کی پنڈلی دے جو کہ ایک معمولی چیز ہے کھانے کے لیے بلائے تو میں اس کی دعوت قبول کر لوں گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ اگر کوئی شخص میرے پاس تحفہ کے طور پر بکری کا دست بھی بھیجے گا تو میں اسے بھی بڑی خوشی کے ساتھ قبول کروں گا۔

 اس ارشاد میں اس طرف اشارہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مخلوق خدا کے ساتھ نہایت تواضع و انکساری اور شفقت و محبت کے ساتھ پیش آتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کی وجہ سے کسی چھوٹے سے چھوٹے اور معمولی درجے کے انسان کا دل بھی دکھے یا وہ کسی بھی طرح کے احساس کمتری میں مبتلا ہو، گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعے اس بات کی ترغیب بھی دلائی ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے پاس انتہائی معمولی درجہ کا بھی کوئی تحفہ لے کر آئے تو اسے خوشی و رغبت کے ساتھ قبول کرو۔

مسکین کون ہے؟

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مسکین وہ شخص نہیں ہے جو لوگوں سے مانگتا پھرتا ہے اور لوگ اسے ایک لقمہ یا دو لقمہ اور کھجوریں دیتے ہیں بلکہ مسکین شخص وہ ہے جو اتنا بھی مال نہیں رکھتا کہ وہ اس کی وجہ سے مستغنی ہو اور اس کے ظاہر حالات کی وجہ سے لوگ یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ محتاج و ضروت مند ہے اسے صدقہ دیا جائے نیز لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنے کے لیے گھر سے نہیں نکلتا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 قرآن کریم میں جس طرح زکوٰۃ و صدقات کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں زکوٰۃ کے مصارف اور زکوٰۃ کے مستحقین کو بھی بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشادربانی ہے۔ آیت (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِینِ وَالْعٰمِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللّٰه) 9۔ التوبہ:60)۔ صدقہ کے مال صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہیں اور عمال کے لیے اور ان لوگوں کے لیے جن کی تالیف قلب کی جائے اور غلاموں کی آزادی خرچ کرنے کے لیے اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے کے لیے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے اور مسافر کے لیے۔

 اس آیت میں آٹھ قسم کے لوگ بیان کیے گئے ہیں جو صدقات واجبہ مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کا مال لینے کے مستحق ہیں ان کے سوا کسی دوسرے کو زکوٰۃ کا مال دینا جائز نہیں ہے، ان میں سے بھی حنفیہ کے نزدیک مؤلفۃ القلوب کا حصہ ساقط ہو گیا ہے اس لیے ان کے ہاں مستحقین زکوٰۃ کی سات قسمیں باقی رہ گئیں ہیں۔

 بہرحال حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس آیت میں جن مسکینوں کا ذکر کیا گیا ہے ان سے وہ مسکین مراد نہیں ہیں جو عرف عام میں مسکین کہلاتے ہیں اور جن کا کام یہ ہوتا ہے کہ مانگنے کے لیے ہر در پر مارے مارے پھرتے ہیں جس دروازے پر پہنچ جاتے ہیں روٹی کا ایک آدھ ٹکڑا یا آٹے کی ایک آدھ چٹکی اپنی جھولی میں ڈلوا کر رخصت کر دئیے جاتے ہیں، بلکہ حقیقی مسکین تو وہ لوگ ہیں جنہیں نان جویں بھی میسر نہیں ہوتی مگر ان کی شرافت و خودداری کا یہ عالم ہوتا ہے کہ ان کی بغل میں رہنے والا ہمسایہ بھی ان کی اصل حقیقت نہیں جانتا وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے اپنے احتیاج و ضرورت کی جھولی پھیلا کر گھر گھر نہیں پھرتے بلکہ وہ اپنے خدا پر اعتماد و بھروسہ کئے ہوئے اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں۔

بنی ہاشم کے غلاموں کو بھی صدقہ کا مال لینا حلال نہیں

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو زکوٰۃ لینے کے لیے بھیجا اس نے ابو رافع سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلو تاکہ اس میں سے تمہیں بھی کچھ حصہ مل جائے ابو رافع نے کہا کہ میں ابھی نہیں جاؤں گا پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جا کر پوچھتا ہوں کہ میں اس شخص کے ساتھ زکوٰۃ لینے جاؤں یا نہیں! چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے جانے کے بارے میں پوچھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ صدقہ ہمارے یعنی بنی ہاشم کے لیے حلال نہیں ہے اور مولیٰ یعنی آزاد کردہ غلام زکوٰۃ لینے کے معاملے میں اسی آزاد قوم کے حکم میں ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)

کن لوگوں کو زکوٰۃ کا مال لینا درست نہیں ہے؟

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ نہ تو غنی کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا حلال ہے اور نہ تندرست و توانا کے لیے جو محنت مزدوری کرنے کے قابل ہو۔ (ترمذی، ابوداؤد،دارمی اور حمد، نسائی و ابن ماجہ نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 غنی تین طرح کے ہوتے ہیں۔ اول تو وہ شخص جس پر زکوٰۃ فرض ہوتی ہے گویا وہ شخص نصاب نامی کا مالک ہو اور اس کے نصاب پر ایک سال گزر گیا ہو دوم وہ شخص جو مستحق زکوٰۃ نہیں ہوتا اور اس پر صدقہ فطر قربانی کرنا واجب ہوتا ہے گویا وہ شخص کہ جس کے پاس ضرورت اصلیہ کے علاوہ بقدر نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مال ہو، سوم وہ شخص جس کے صدقہ کا مال تو حلال ہو لیکن اسے دست سوال دراز کرنا حرام ہو، گویا وہ شخص جو ایک دن کے کھانے اور بقدر ستر پوشی کپڑے کا مالک ہو۔

  تندرست و توانا  کا مطلب یہ ہے کہ کہ جس طرح غنی کے لیے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہے اسی طرح اس شخص کے لے زکوٰۃ حلال و جائز نہیں ہے جو تندرست و توانا ہو یعنی اس کے اعضاء صحیح و سالم اور قوی ہوں نیز وہ اتنا کمانے پر قادر ہو کہ اس کے ذریعے اپنا اور اہل و عیال کا پیٹ پال سکے چنانچہ حضرت امام شافعی کا مسلک اسی حدیث کے مطابق ہے کہ ان کے نزدیک کسی ایسے شخص کے لیے زکوٰۃ کا مال لینا حلال نہیں ہے جو کمانے کے قابل ہو لیکن حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ ہر اس شخص کو زکوٰۃ لینی حلال ہے جو نصاب مذکورہ کا مالک نہ وہ اگرچہ وہ تندرست و توانا اور کمانے کے قابل ہی کیوں نہ ہو کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان ضرورت مند صحابہ رضی اللہ عنہم کو صدقات و زکوٰۃ کا مال دیتے تھے جو توانا و تندرست بھی تھے اور کمانے قابل بھی تھے اور آخر تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی معمول رہا لہٰذا اس حدیث کے بارے میں کہا جائے گا یا تو یہ منسوخ ہے یا پھر یہ کہ اس حدیث کی مراد یہ ظاہر کرنا ہے کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور محنت مزدوری کر کے اپنے اور اپنے اہل و عیال کے اس باب معیشت فراہم کرنے کی قدرت و طاقت رکھتا ہو اس کے لیے یہ بہتر اور مناسب نہیں ہے کہ وہ زکوٰۃ و صدقات کا مال لے کر اس ذلت و کمتری پر مطمئن و راضی ہو اور معاشرے کا ایک ناکارہ شخص بن جائے بلکہ اس کے لیے تو بہتر اور اولیٰ یہ ہے کہ وہ اپنے بازوؤں کے سہارے خود کمائے محنت کرے اور اس طرح سماج و سوسائٹی میں با وقار زندگی بسر کرے۔

تندرست و توانا کو زکوٰۃ کا مال لینا مناسب نہیں

حضرت عبیداللہ بن عدی بن خیار کہتے ہیں کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ دونوں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں کو زکوٰۃ کا مال تقسیم فرما رہے تھے ان دونوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے اس مال میں سے کچھ لینے کی خواہش کا اظہار کیا، وہ دونوں کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری خواہش و طلب کو دیکھ کر ہم پر سر سے پاؤں تک نظر دوڑائی اور ہمیں تندرست و توانا دیکھ کر فرمایا کہ اگر تم لینا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دوں لیکن یاد رکھو کہ صدقات و زکوٰۃ کے اس مال میں سے نہ تو غنی کا کوئی حصہ اور نہ اس شخص کا جو تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قادر ہو۔ (ابو داؤد، نسائی)

 

 

تشریح

 

 حجتہ الوداع آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری حج کو کہتے ہیں جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احکام خداوندی کی وضاحت فرمائی اور لوگوں کو وداع کہا اور پھر اس کے چند مہینوں بعد ہی رفیق اعلیٰ سے جا ملے۔

 حضرت امام شافعی کے مسلک کے مطابق حدیث کے آخری جملوں کا مطلب یہ ہو گا کہ تم لوگوں کے لیے صدقہ کا مال کھانا حرام ہے لیکن اگر تم حرام مال کھانا ہی چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں، گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے زجر توبیخ کے طور پر اس طرح ارشاد فرمایا۔

 حنفیہ کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اگر تم اس مال میں سے لینا چاہتے ہو تو میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن یہ سمجھ کہ جو شخص تندرست و توانا ہو اور کمانے پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے صدقہ کا مال کھانا کچھ زیب نہیں دیتا۔

بعض صورتوں میں غنی کے لیے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے

حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ غنی کے لیے زکوٰۃ کا مال حلال نہیں ہاں پانچ صورتوں میں غنی کے لیے بھی زکوٰۃ کا مال حلال ہوتا ہے (١) خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے غنی کے لیے جب کہ اس کے پاس سامان جہاد نہ ہو۔ (٢) زکوٰۃ وصول کرنے والے غنی کے لیے (٣) تاوان بھرنے والے غنی کے لیے (٤) زکوٰۃ کا مال اپنے مال کے بدلے میں خریدنے والے غنی کے لیے یعنی کسی شخص نے ایک مفلس کو زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور غنی اس مفلس سے زکوٰۃ کے مال کو خریدے اور اسے اس کا بدل دے دے تو اس صورت میں غنی کے لیے وہ مال جائز و حلال ہو گا۔ (٥) اور اس غنی کے لیے کہ جس کے پڑوس میں کوئی مفلس رہتا ہو اور کسی شخص نے اسے زکوٰۃ کا کوئی مال دیا اور وہ مفلس اپنے پڑوسی مال دار غنی کو اس میں سے کچھ حصہ تحفہ کے طور پر بھیجے تو وہ غنی کے لیے جائز و حلال ہو گا۔ (مالک، ابوداؤد،) اور ابوداؤد کی ایک روایت جو ابوسعید سے منقول ہے لفظ او ابن السبیل (یعنی اس غنی کے لیے بھی کہ جو مسافر ہو زکوٰۃ کا مال حلال ہے مذکور ہے۔

 

تشریح

 

 تاوان بھرنے والے غنی سے وہ مال دار اور غنی مراد ہے جسے کسی تاوان و جرمانے کے طور پر ایک بڑی رقم یا کسی مال ایک بڑا حصہ ادا کرنا ہے اگرچہ وہ مالدار ہے مگر اس کے ذمہ تاوان اور جرمانے کی جو رقم یا جو مال ہے وہ اس کے موجودہ مال و رقم سے بھی زیادہ ہے تو اس کے لیے جائز اور حلال ہے کہ وہ زکوٰۃ لے کر اس سے وہ تاوان پورا کرے اب وہ تاوان خواہ دیت کی صورت میں یا یہ شکل ہو کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضدار تھا اس نے طرفین کو لڑائی جھگڑے سے بچانے کے لیے یا کسی اور وجہ سے اس شخص کا قرض اپنے ذمہ لے لیا کہ اس کی طرف سے اس کا قرض میں ادا کروں گا اس کی وجہ سے وہ قرض دار ہو گیا یا پھر یہ شکل بھی مراد ہو سکتی ہے کہ وہ خود کسی کا قرض دار ہو اپنا قرض ادا کرنے کے لیے اسے رقم و مال کی ضرورت ہو امام شافعی کے مسلک کے مطابق وہ غازی جہاد کرنے والا جو غنی اور مالدار ہو زکوٰۃ لے سکتا ہے اور اسے زکوٰۃ لینی درست ہے۔ لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک اسے زکوٰۃ دینی جائز نہیں ہے کیونکہ دوسری احادیث میں مطلقاً غنی کو زکوٰۃ دینے سے منع فرمایا گیا ہے کہ غنی کے لیے صدقات کا مال حلال نہیں ہے پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو جو حکم تحریر فرمایا تھا اس میں آپ نے مطلقاً یہی ارشاد فرمایا تھا کہ (جس قوم میں تم گئے ہو) اس قوم کے مالداروں سے زکوٰۃ وصول کرو اسے ان کے فقراء و مساکین پر صرف کرو، چنانچہ وہ حدیث کہ جس میں حضرت معاذ کے بارے میں مذکورہ حکم منقول ہے یہاں ذکر کی گئی حدیث سے زیادہ قوی ہے۔

 ان کے علاوہ حدیث میں جو ذکر کی گئی ہیں وہ سب صورتیں متفقہ طور پر تمام ائمہ کے نزدیک درست ہیں کیونکہ زکوٰۃ وصول کرنے والے کو تو زکوٰۃ کا مال لینا اس لیے درست ہے کہ وہ اپنی محنت اور اپنے عمل کی اجرت لیتا ہے اس صورت میں اس کا فقر و غنا دونوں برابر ہیں۔ تاوان بھرنے والا اگرچہ غنی ہے لیکن اس پر جو قرض کا مطالبہ ہے وہ اس کے موجودہ مال سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کا مال نہ ہونے کے برابر ہے اسی طرح باقی دونوں صورتوں کا معاملہ بھی ظاہر ہی ہے کہ زکوٰۃ جب مستحق زکوٰۃ کو مل گئی تو گویا وہ اپنے محل اور اپنے مصرف میں پہنچ گئی اور وہ مستحق زکوٰۃ اس مال کا مالک ہو گیا اب چاہے وہ اسے فروخت کر دے چاہے کسی کو تحفہ کے طور پر دے دے۔

زکوٰۃ کے مستحق وہی لوگ ہیں جن کا ذکر قرآن نے کیا ہے

حضرت زیاد بن حارث صدائی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اس کے بعد زیاد رضی اللہ عنہ نے ایک طویل حدیث بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مجھے زکوٰۃ کا مال عطا فرمائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ زکوٰۃ تقسیم کرنے کے بارے میں کہ کسے کسے زکوٰۃ دی جائے اللہ تعالیٰ نے تو کسی نبی کے علاوہ کسی دوسرے یعنی علماء و مجتہدین کے حکم پر راضی ہوا بلکہ اس کا حکم حق تعالیٰ نے خود ارشاد فرمایا (یعنی اللہ تعالیٰ نے مستحقین زکوٰۃ کے تعین کی ذمہ داری نبی یا علماء مجتہدین پر نہیں ڈالی بلکہ اس کا تعین خود فرمایا) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے آٹھ مصارف ذکر کیے ہیں اگر تم ان آٹھ میں سے ہو گے تو میں تمہیں زکوٰۃ کا مال دوں گا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 آیت کریمہ (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَاۗءِ وَالْمَسٰكِینِ وَالْعٰمِلِینَ عَلَیهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَفِی الرِّقَابِ وَالْغٰرِمِینَ وَفِی سَبِیلِ اللّٰهِ و ابن السَّبِیلِ ۭفَرِیضَةً مِّنَ اللّٰهِ) 9۔ التوبہ:60) کہ جس میں مستحقین زکوٰۃ اور مصرف زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے ابھی پچھلے صفحات میں نقل کی جا چکی ہے اس آیت کے مطابق مستحقین زکوٰۃ کی تعداد آٹھ اس طرح ہے (١) فقیر (٢) مسکین(٣) عاملین زکوٰۃ (٤) مؤلفۃ القلوب (اس بارے میں بتایا جا چکا ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک تالیف قلب کا مصرف اب باقی نہیں رہا) (٥) غلام (٦) قرض دار یا تاوان دینے والا (٧) اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا سفر حج کا مسافر اور طالب علم(٨) مسافرین

حضرت عمر رضی اللہ کا ایک واقعہ

حضرت زید بن اسلم رحمۃ اللہ کہتے ہیں ایک دن امیرالمومنین حضرت عمر فاروق نے دودھ نوش فرمایا تو انہیں بہت اچھا لگا جس شخص نے انہیں دودھ پلایا تھا اس سے انہوں نے پوچھا کہ یہ دودھ کہاں کا ہے؟ اس نے انہیں بتایا کہ ایک پانی پر یعنی نام لے کر بتایا کہ فلاں جگہ جہاں پانی تھا میں گیا، وہاں کیا دیکھتا ہوں کہ زکوٰۃ کے بہت سے اونٹ موجود ہیں اور انہیں پانی پلایا جا رہا ہے پھر اونٹ والوں نے اونٹوں کا تھوڑا سا دودھ نکالا اس میں سے تھوڑا سا دودھ میں بھی لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا یہ وہی دودھ ہے یہ سنتے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ اپنے منہ میں ڈالا اور قے کر دی۔ (مالک، بیہقی)

 

تشریح

 

 حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل کمال تقویٰ اور انتہائی ورع کی بناء پر تھا ورنہ تو جہاں تک مسئلے کی بات ہے یہ تو بتایا جا چکا ہے کہ اگر مستحق زکوٰۃ کے مال کا مالک ہو جانے کے بعد اسے کسی غیر مستحق زکوٰۃ کو ہبہ کر دے یا اسے تحفہ کے طور پر دے دے تو اسے استعمال میں لانا اور اسے کھانا جائز ہے چنانچہ ابھی گزشتہ صفحات میں بریرہ کا جو واقعہ گزرا ہے اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مسئلہ کے جواز ہی کو بیان فرمایا تھا۔