حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں سے ایسی چیز کی موجود گی میں سوال کرے جو اسے مستغنی بنا دینے والی ہو تو وہ قیامت کے دن اس حال میں پیش ہو گا کہ اس کے منہ پر اس کا سوال بصورت خموش یا کدوش یا کدوح ہو گا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! مستغنی بنانے والی کیا چیز ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پچاس درہم یا اس قیمت کا سونا۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
خموش جمع ہے خمش کی ، خدوش جمع ہے خدش کی اور کدوح جمع ہے کدح کی۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تمام الفاظ قریب المعنی ہیں بایں طور کہ ان سب کے معنی کا حاصل زخم ہے گویا حدیث میں لفظ او راوی کا شک ظاہر کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان تینوں میں سے کوئی ایک لفظ ارشاد فرمایا ہے۔
لیکن دوسرے بعض علماء فرماتے ہیں کہ یہ تینوں الفاظ متبائن ہیں یعنی ان تینوں کے الگ الگ معنی ہیں خموش کے معنی ہیں لکڑی کے ذریعے کھال چھیلنا، خمش کے معنی ہیں ناخن کے ذریعے کھال چھیلنا اور کدح کے معنی ہیں دانتوں کے ذریعے کھال اتارنا، گویا اس طرح قیامت کے روز سائلین کے تفاوت احوال کی طرف اشارہ ہے کہ جو شخص کم سوال کرے گا اس کے منہ پر ہلکا زخم ہو گا، جو شخص بہت زیادہ سوال کرے گا اس کے منہ پر بہت گہرا زخم ہو گا جو شخص سوال کرنے میں درمیانہ درجہ اختیار کرے گا اس کے منہ پر زخم بھی درمیانی درجے کا ہو گا۔
٭٭حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اس کو مستغنی کر دے مگر وہ اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ زیادہ آگ مانگتا ہے یعنی جو شخص بغیر ضرورت و حاجت کے لوگوں سے مانگ مانگ کر مال و زر جمع کرتا ہے تو وہ گویا دوزخ کی آگ جمع کرتا ہے۔ نفیلی رحمۃ اللہ جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ایک اور جگہ یعنی ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ مستغنی ہونے کی کیا حد ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صبح اور شام کے بقدر۔ نفیلی نے ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جواب اس طرح نقل کیا ہے کہ اس کے پاس ایک دن یا ایک رات و ایک دن کے بقدر خوراک ہو راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف ایک دن فرمایا یا ایک رات و ایک دن فرمایا ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
صبح اور شام کے کھانے کے بقدر، مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں غذائی ضروریات موجود ہوں کہ وہ دن و رات اپنا پیٹ بھر سکے تو وہ غنی کہلائے گا یعنی اس کے لیے اب جائز نہیں ہو گا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔
ابھی اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مال کی تعداد کہ جس کی وجہ سے آدمی مستغنی ہو جائے اور کسی سے سوال نہ کرے ، پچاس درہم ہے یعنی جو شخص پچاس درہم کا مالک ہو گا اس کے لیے کسی سوال کرنا حرام ہو گا یہاں جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مقدار صبح و شام کے کھانے بقدر بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد حضرت عطاء بن یسار کی جو روایت آ رہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا مالک ہو وہ مستغنی کہلائے گا اس کے لیے کسی سے سوال کرنا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔
گویا یہ تین روایتیں ہیں جن میں باہم اختلاف ہے لہٰذا حضرت امام احمد، ابن مبارک اور اسحاق رحمہم اللہ کا عمل تو پہلی روایت پر ہے جو ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، بعض علماء نے تیسری روایت کو معمول بہا قرار دیا ہے۔ جو عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے منقول ہے اور حضرت امام ا عظم ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو اپنے مسلک کی بنیاد و قرار دیا ہے جو سہیل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے لہٰذا حضرت امام اعظم کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص ایک دن کی غذائی ضروریات کا مالک ہو گا وہ مستغنی کہلائے گا اور اس کے لیے کسی سے سوال کرنا حرام ہو گا، گویا حضرت امام صاحب کے نزدیک یہ حدیث دوسری احادیث کے لیے ناسخ ہے۔ واللہ اعلم۔
٭٭حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص سے نقل کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا یا اس کی قیمت کے بقدر سونا وغیرہ کا مالک ہو اور اس کے باوجود وہ لوگوں سے تو مانگے تو اس نے گویا بطریق الحاح سوال کیا۔ (مالک ، ابو داؤد، نسائی)
تشریح
بطریق الحاح کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اضطراری کیفیت کے علاوہ اور بلا ضرورت انتہائی مبالغہ کے ساتھ لوگوں سے مانگا جو ممنوع اور برا ہے ، چنانچہ قرآن کریم میں فقراء کی بایں طور تعریف کی گئی ہے کہ آیت (ولا یسألون الناس الحافا)۔ وہ لوگوں سے بطریق الحاح نہیں مانگتے۔
حضرت حبشی بن جنادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو غنی کے لیے یعنی اس شخص کے لیے جو ایک دن کی خوراک کا مالک ہو اور نہ تندرست و توانا اور صحیح الاعضاء کے لیے مانگنا حلال ہے ہاں اس فقیر کے لیے مانگنا حلال ہے جسے فقر و فاقہ نے زمین پر ڈال دیا ہو اسی طرح اس قرض دار کے لیے بھی مانگنا حلال ہے جو بھاری قرض کے نیچے دبا ہو یاد رکھو جو شخص صرف اس لیے لوگوں سے مانگے کہ اپنے مال و زر میں زیادتی ہو تو قیامت کے دن اس کا مانگنا اس کے منہ پر زخم کی صورت میں ہو گا۔ نیز دوزخ میں اسے گرم پتھر اپنی خوراک بنائے گا اب چا ہے کوئی کم سوال کرے چا ہے کوئی زیادہ سوال کرے۔ (ترمذی)
تشریح
زمین پر ڈال دیا ہو، یہ کنایہ ہے شدت محتاجگی اور مفلسی نے زمین پر ڈال رکھا ہے کہ اٹھنے کی بھی سکت نہیں رکھتا۔ گویا مطلب یہ ہے کہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا صرف انتہائی محتاجگی ہی کے وقت جائز ہے حدیث کا آخری جملہ بطور تنبیہ و تہدید کے ارشاد فرمایا گیا ہے جیسا کہ کافروں ، ظالموں اور خدا کے باغیوں کے بارے میں بطور تہدید قرآن کریم کی یہ آیت ہے کہ آیت (فَمَنْ شَاۗءَ فَلْيُؤْمِنْ وَّمَنْ شَاۗءَ فَلْيَكْفُرْ ۙ اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلظّٰلِمِيْنَ نَاراً) 18۔ الکہف:29)۔ جو چا ہے مومن ہو جائے اور جو چا ہے کافر ہو جائے۔ ہم نے تو ظالموں کے لیے دوزخ کی آگ تیار کر رکھی ہے۔
٭٭حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا اور کسی چیز کا سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ کیا تمہارے گھر میں کچھ بھی نہیں ہے؟ اس نے عرض کیا کہ صرف ایک موٹی سی کملی ہے جس میں سے کچھ حصہ اوڑھتا ہوں اور کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اس کے علاوہ ایک پیالہ بھی ہے جس میں پانی پیتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان دونوں چیزوں کو لے آؤ۔ وہ دونوں چیزیں لے کر حاضر ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں چیزیں اپنے ہاتھ میں لے کر فرمایا کہ ان چیزوں کو کون خریدتا ہے ایک شخص نے کہا کہ میں ان دونوں چیزوں کو ایک درہم میں خریدنے کے لیے تیار ہوں! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان چیزوں کو ایک درہم سے زیادہ میں کون خریدنے والا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دو یا تین بار فرمایا ایک شخص نے کہا کہ میں ان چیزوں کو دو درہم میں خریدتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ دونوں چیزیں اس شخص کو دے دیں اور اس سے دو درہم لے کر انصاری کو دئیے اور اس سے فرمایا کہ اس میں سے ایک درہم کا کھانے کا سامان خرید کر اپنے گھر والوں کو دے دو اور دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لے آؤ وہ شخص کلہاڑی خرید کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کلہاڑی میں اپنے دس مبارک سے ایک مضبوط لکڑی لگا دی اور پھر اس سے فرمایا کہ اسے لے کر جاؤ لکڑیاں کاٹ کر جمع کرو اور انہیں فروخت کرو، اب اس کے بعد میں تمہیں پندرہ دن تک یہاں نہ دیکھوں یعنی اب یہاں نہ رہو جا کر اپنے کام میں مشغول ہو جاؤ اور محنت کرو چنانچہ وہ شخص چلا گیا اور لکڑیاں جمع کر کر کے فروخت کرنے لگا کچھ دنوں کے بعد جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا تو کہاں وہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے مانگنے آیا تھا درہم اب وہ دس درہم کا مالک تھا، اس نے ان درہموں میں سے کچھ کا کپڑا خریدا اور کچھ کا غلہ خرید لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی حالت کی اس تبدیلی کو دیکھ کر فرمایا کہ یہ صورتحال تمہارے لیے بہتر ہے بہ نسبت اس چیز کے کہ کل قیامت کے دن تم اس حالت میں آؤ کہ تمہارے سوال تمہارے منہ پر برے نشان یعنی زخم کی صورت میں ہو اور یہ یاد رکھو کہ صرف تین طرح کے لوگوں کو سوال کرنا مناسب ہے ایک تو اس محتاج کے لیے کہ جس کو مفلسی نے زمین پر گرا دیا ہو دوسرے اس قرض دار کے لیے جو بھاری اور عدم ادائیگی کی صورت میں ذلیل کرنے والے قرض کے بوجھ سے دبا ہو اور تیسرے صاحب خون کے لیے جو درد پہنچائے یعنی اس شخص کے لیے جس پر دیت واجب ہو خواہ اس نے خود کسی ناحق خون کیا ہو اور اس کا خون بہا اس کے ذمہ ہو یا کسی دوسرے شخص نے کوئی خون کر دیا ہو اور اس کی دیت اس نے اپنے ذمہ لی ہو مگر اس کی ادائیگی کی قدرت نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے بھی جائز ہے کہ اس خون بہا کے بقدر کسی سے مانگ کر ادائیگی کر دے۔ ابوداؤد، اور ابن ماجہ نے اس روایت کو یوم القیامۃ تک نقل کیا ہے۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص فاقہ یعنی سخت حاجت سے دوچار ہو اور اس کو لوگوں کے سامنے بطور شکایت بیان کر کے ان سے حاجت روائی کی خواہش کرے تو اس کی حاجت پوری نہیں کی جائے گی اور جس شخص نے صرف اللہ سے اپنی حاجت کو بیان کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ اور اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی یا تو موت سے ہمکنا کر دے تاکہ وہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے نجات پا کر رحمت خداوندی سے ہمکنار ہو یا اسے کچھ دنوں میں مالدار بنا دے گا تاکہ وہ اپنی حاجت پوری کر کے اطمینان محسوس کرے۔ (ابو داؤد، ترمذی)
تشریح
حدیث کے آخری جملے اوغنی اٰجل میں لفظ اجل مصابیح کے اکثر نسخوں اور جامع الاصول میں عین سے یعنی عاجل مرقوم ہے جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے گا بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا۔ مگر خود جس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس کو جلد فائدہ و اطمینان عطا فرمائے بایں طور کہ اسے جلد ہی دولت مند و مالدار بنا دے گا مگر خود سنن ابوداؤد، اور ترمذی میں کہ جہاں سے یہ روایت نقل کی گئی ہے یہ لفظ اٰجل ہے ہے اور صحیح بھی یہی ہے چنانچہ ترجمہ اسی کے مطابق کیا گیا ہے۔
معلوم ایسا ہوتا ہے کہ یہ حدیث قرآن کریم کی اس آیت کریم کی روشنی میں ارشاد فرمائی گئی ہے کہ۔ آیت (وَمَنْ يَّتَّقِ اللّٰہ يَجْعَلْ لَّہ مَخْرَجاً ۙ وَّيَرْزُقْہ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۭ وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰہ فَہوَ حَسْبُہ) 65۔ الطلاق:3-2)۔ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کی جگہ پیدا فرما دیتا ہے اور اس کو ایسی جگہ سے رزق عطا فرماتا ہے کہ جس کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے کافی ہوتا ہے۔
حضرت ابن فراسی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ میرے والد مکرم حضرت فراسی رضی اللہ نے کہا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا میں لوگوں سے مانگ سکتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں بلکہ ہر حالت میں خد اہی پر بھروسہ رکھو ہاں اگر کسی شدید ضرورت اور سخت حاجت کی وجہ سے مانگنا ضروری ہے تو پھر نیک بختوں سے مانگو۔ (ابوداؤد ، نسائی)
تشریح
ضرورت و حاجت کے وقت نیک بختوں سے مانگنے کے لیے اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ان کے پاس حلال مال ہوتا ہے وہ بردبار اور مہربان ہوتے ہیں مانگنے والوں کی پردہ دری نہیں کرتے اور ان کے ناموں کو اچھالتے نہیں یہی وجہ ہے کہ بغداد کے فقراء و مساکین اپنی ضرورت و احتیاج کے وقت حضرت امام احمد بن حنبل ہی کے دروازے پر جاتے تھے اور ان سے اپنی ضرورت و حاجت بیان کرتے تھے۔
حضرت امام موصوف رحمۃ اللہ کے تقویٰ و احتیاط کا کیا عالم تھا؟ اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے گھر والوں کو خمیر کی ضرورت ہوئی جسے انہوں نے حضرت امام احمد کے صاحبزادے ہی کے گھر سے منگوا لیا، حضرت امام احمد کے صاحبزادے قاضی کے عہدہ پر فائز تھے اور ان کی سعادت و بھلائی کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے گھر کے دروازے ہی کے پاس سوتے تھے تاکہ کوئی محتاج و ضرورت مند واپس نہ ہو جائے بہرحال امام احمد کے گھر والوں نے اس خمیر سے روٹی پکائی اور جب حضرت امام موصوف کے سامنے کھانا آیا تو انہیں بذریعہ کشف روٹی کے بارے میں کوئی شبہ گزرا انہوں نے گھر والوں سے پوچھا تو انہوں نے صورتحال بتائی ، حضرت امام موصوف نے کھانا کھانے سے انکار کر دیا ان کی وجہ سے گھر والوں نے بھی نہیں کھایا اور پوچھا کہ یہ کھانا فقراء کو دے دیا جائے ، انہوں نے فرمایا کہ دے دو مگر اس شرط کے ساتھ کہ انہیں بھی صورتحال سے مطلع کر دینا چنانچہ فقراء نے بھی اسے لینے سے انکار کر دیا آخرکار گھر والوں نے پورے گھر کا کھانا امام موصوف کی اجازت کے بغیر ہی دریا میں ڈال دیا۔
حضرت ابن ساعدی کہتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر فرمایا چنانچہ جب میں زکوٰۃ کی وصولی سے فارغ ہو گیا اور زکوٰۃ کا مال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچا دیا تو انہوں نے مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت دئیے جانے کا حکم فرمایا میں نے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کیا ہے لہٰذا میرے لیے اس کا ثواب بھی اللہ تعالیٰ ہی کے ذمہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جو چیز تمہیں مل رہی ہے اسے قبول کر لو، کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں جب میں نے زکوٰۃ وصول کرنے کا کام کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اس کی اجرت عطا فرمانی چاہی تو میں نے بھی یہی عرض کیا جو اب تم کہہ رہے ہو، چنانچہ آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب تمہیں کوئی چیز بغیر طلب اور بغیر طمع دی جائے تو تم اسے لے کر کھاؤ اور جو کچھ تمہاری ضرورت و حاجت سے زائد ہو اسے خدا کی راہ میں خیرات کر دو۔ (ابوداؤد)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے کسی بھی کام اور کسی بھی خدمت کی اجرت بیت المال سے لینی جائز ہے خواہ وہ خدمت فرض ہی کیوں نہ ہو جیسے قضاء احتساب اور درس و تدریس وغیرہ بلکہ امام وقت کے لیے ضروری ہے کہ وہ نہ صرف یہ کہ ایسے لوگوں کی بلکہ ان لوگوں کو بھی جو بیت المال کے معاملے میں ان ہی کے حکم میں شامل ہیں خبر گیری رکھے۔
یہ حدیث اور وہ حدیث جو اسی کے مثل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں پہلے گزر چکی ہے بظاہر اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کو اس کے سوال اور اس کی طمع کے بغیر کوئی چیز دے تو اس کو قبول کرنا واجب ہے چنانچہ حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن جمہور علماء اس امر کو استحباب یا اباحت پر محمول کرتے ہیں۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرفہ کے دن ایک شخص کو لوگوں سے مانگتے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ بدنصیب آج کے روز اس جگہ پر تو خدا کے علاوہ دوسروں سے مانگ رہا ہے پھر انہوں نے اس شخص کو درہ سے مارا۔ (رزین)
تشریح
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ تیری کتنی حرماں نصیبی اور بدبختی ہے کہ آج کے دن کہ جو قبولیت دعا کا دن ہے اور جگہ یعنی میدان عرفات میں کہ جو مقدس و بابرکت جگہ ہے تو خدا سے صرف نظر کر کے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا پھر رہا ہے؟ اس سے معلوم ہوا کہ مقدس و بابرکت مقامات مثلاً مساجد وغیرہ میں لوگوں سے مانگنا نامناسب بات ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ لوگو! جان لو کہ طمع محتاجگی ہے اور آدمیوں سے ناامید ہونا تونگری و بے پروائی ہے ، انسان جب کسی چیز سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔ (رزین)
تشریح
طمع محتاجگی ہے کا مطلب یہ ہے کہ طمع محتاجگی کی ایک صورت ہے یا یہ مطلب ہے کہ طمع محتاجگی کا ذریعہ ہے یعنی طمع کی وجہ سے انسان محتاج بنتا ہے بایں طور کہ اپنی طمع پوری کرنے کے لیے دوسرے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ ناامید ہونا تونگری و بے پروائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ انسان سے ناامیدی مستغنی اور بے پرواہ بنا دیتی ہے حضرت ابوالحسن شاذلی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کسی نے علم کیمیا جو صرف دو لفظوں میں منحصر ہو طلب کیا تو انہوں نے اس سے فرمایا کہ مخلوق خدا سے صرف نظر کرو یعنی کسی انسان سے امیدیں قائم نہ کرو اور اللہ سے اس چیز کے بارے میں اپنی طمع منقطع کر لو جو تمہاری قسمت میں لکھی ہوئی چیزوں کے علاوہ ہے یعنی خدا نے جو چیزیں تمہارے مقدر میں لکھ دی ہیں اس کے علاوہ دوسری چیزوں کی امید نہ رکھو۔
طمع کے معنی ہیں اس چیز پر نظر رکھنا یعنی اسے حاصل کرنے کی خواہش کرنا کہ جس کے حاصل ہونے میں شک ہو یعنی کسی چیز کے بارے میں یہ خیال ہو کہ اس کا مالک دے گا یا نہیں ہاں اگر کسی ایسی چیز کی کسی ایسے شخص سے حصول کی خواہش ہو جس پر اس کا ہو اس شخص سے کمال تعلق اور محبت و مروت کی بنا پر یقین ہو کہ وہ چیز مل جائے گی تو اسے طمع نہیں کہیں گے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص میرے ساتھ اس بات کا عہد کرے کہ وہ لوگوں کے آگے دست سوال دراز نہیں کرے گا تو میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں (ثوبان کہتے ہیں کہ) میں کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاؤں گا چنانچہ ثوبان رضی اللہ عنہ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتے تھے خواہ وہ کتنی ہی تنگیوں میں کیوں نہ مبتلا رہے ہو۔ (ابوداؤد ، نسائی)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ میں اس شخص کے لیے اس بات کی ضمانت لوں گا کہ وہ بغیر کسی عذاب کے ابتداء ہی میں جنت میں داخل کیا جائے گا گویا اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ کسی کے اگے دست سوال دراز نہ کرنے والا ان شاء اللہ خاتمہ بالخیر کی سعادت سے نوازا جائے گا۔
لیکن اتنی بات ضرور سمجھ لیجئے کہ اس بارے میں وہ صورت مستثنی ہے جب کہ موت کا خوف ہو کیونکہ انتہائی شدید ضرورت ممنوع چیزوں کو بھی مباح کر دیتی ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ایسی پوزیشن میں ہو کہ اگر کسی سے کچھ نہ مانگے تو جان کے لا لے پڑ جائیں تو اس کے لیے مانگنا اور اپنا جان کو بچانا ضروری ہو گا بلکہ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص سخت بھوک میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے کچھ مانگ کر نہ کھائے اور اسی حالت میں وہ مر جائے تو گنہگار مرے گا۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے بلایا اور اس بات کا اقرار کرایا کہ کبھی بھی کسی سے کوئی چیز نہیں مانگو گے چنانچہ میں نے اس بات کا اقرار کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ اگر تمہارا کوڑا بھی گر جائے تو کسی سے نہ مانگو یعنی کسی سے اٹھانے کے لیے بھی نہ کہو بلکہ تم خود سواری سے اتر کر اٹھا لو۔ (احمد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا آخری ارشاد ترک سوال کے بارے میں بطور مبالغہ ہے کیونکہ اگر کسی کا کوڑا گر جائے اور وہ اسے اٹھانے کے لیے کسی سے کہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہے بلکہ حقیقت میں تو وہ اسی کی چیز ہے جسے وہ صرف اٹھا کر دینے کے لیے کہہ رہا ہے لیکن چونکہ اس میں بھی ایک طرح کا سوال ہوتا ہے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور مبالغہ اس سے بھی منع فرمایا۔
٭٭ علماء لکھتے ہیں کہ جس شخص کے پاس ایک دن کے بقدر بھی غذا اور ستر چھپانے کے بقدر کپڑا ہو تو اسے کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بغیر ضرورت و حاجت مانگنا حرام ہے ہاں جس شخص کے پاس ایک دن کی بھی غذا اور ستر چھپانے کے بقدر بھی کپڑا نہ ہو تو اس کے لیے دست سوال دراز کرنا حلال ہے جو محتاج و فقیر ایک دن کی غذا کا مالک ہو اور وہ کمانے کی قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے زکوٰۃ لینا تو حلال ہے مگر لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا حرام ہے جس مسکین و محتاج کو ایک دن کی غذا بھی میسر نہ ہو اور وہ کمانے کی قدرت بھی نہ رکھتا ہو تو اس کے لیے سوال کرنا حلال ہے۔
نووی رحمۃ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بغیر ضرورت و احتیاج لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے البتہ جو شخص کمانے کی قدرت رکھتا ہو اس کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چنانچہ زیادۃ صحیح قول تو یہ ہے کہ ایسے شخص کہ جو کما کر اپنا گزارہ کر سکتا ہو لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرنا حرام ہے لیکن بعض حضرات مکروہ کہتے ہیں وہ بھی تین شرطوں کے ساتھ۔ اول یہ کہ دست سوال دراز کر کے اپنے آپ کو ذلیل نہ ہونے دے، دوم الحاح یعنی مانگنے میں مبالغہ سے کام نہ لے، سوم یہ کہ جس شخص کے آگے دست سوال دراز کر رہا ہے اسے تکلیف و ایذاء نہ پہنچائے اگر ان تین شرطوں میں سے ایک بھی پوری نہ ہو تو پھر سوال کرنا بالاتفاق حرام ہو گا۔
ابن مبارک رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا جو سائل لوجہ اللہ کہہ کر سوال کرے تو مجھے اچھا نہیں لگتا کہ اسے کچھ دیا جائے کیونکہ دنیا اور دنیا کی چیزیں کمتر و حقیر ہیں، جب اس نے دنیا کی کسی چیز کے لیے لوجہ اللہ کہہ کر سوال کیا تو گویا اس نے اس چیز (یعنی دنیا) کی تعظیم و توقیر کی جسے اللہ تعالیٰ نے کمتر و حقیر قرار دیا ہے لہٰذا ایسے شخص کو از راہ زجر و تنبیہ کچھ نہ دیا جائے اور اگر کوئی شخص یہ کہہ کر سوال کرے کہ بحق خدا یا بحق محمد دو، تو اسے کچھ دینا واجب نہیں ہوتا۔ اگر کوئی شخص اپنی کوئی غلط اور جھوٹی حاجت و ضرورت ظاہر کر کے کسی سے کوئی چیز لے تو وہ اس چیز کا مالک نہیں ہوتا (گویا وہ چیز اس کے حق میں ناجائز و حرام ہوتی ہے) اسی طرح کوئی شخص کسی سے یہ کہے کہ میں سید ہوں اور مجھے فلاں چیز کی یا اتنے روپیہ کی ضرورت ہے اور وہ شخص سائل کو سید سمجھ کر اس کا سوال پورا کر دے مگر حقیقت میں وہ سید نہ ہو تو وہ بھی اس مانگی ہوئی چیز کا مالک نہیں ہوتا جس کے نتیجے میں وہ چیز اس کے حق میں ناجائز و حرام ہوتی ہے۔
ایسے ہی اگر کوئی شخص کسی سائل کو نیک بخت صالح سمجھ کر کوئی چیز دے دے حالانکہ وہ سائل باطنی طور پر ایسا گنہگار ہے کہ اگر دینے والے کو اس کے گناہ کا پتہ چل جاتا تو اسے وہ چیز نہ دیتا تو اس صورت میں سائل اس چیز کا مالک نہیں ہوتا وہ چیز اس کے لیے حرام ہے اور اس چیز کو اس کے مالک کو واپس کر دینا اس پر واجب ہو گا اگر کوئی شخص کسی کو اس کی بدزبانی یا اس کی چغل خوری کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے کوئی چیز دے تو وہ چیز اس کے حق میں حرام ہو گی۔
اگر کوئی فقیر کسی شخص کے پاس مانگنے کے لئے آئے اور وہ اس کے ہاتھ پیر چومے تاکہ وہ اس کی وجہ سے اس کا سوال پورا کر دے تو یہ مکروہ ہے بلکہ اس شخص کو چاہئے کہ وہ فقیر کو ہاتھ پیر نہ چومنے دے۔
ان سائل اور فقیروں کو کچھ بھی نہ دینا چاہئے جو نقارہ، ڈھول یا ہارمونیم وغیرہ بجاتے ہوئے دروازوں پر مانگتے پھرتے ہیں اور مطرب یعنی ڈوم تو سب سے بد تر ہے۔
حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک ایسے قرضہ کی ضمانت لی جو دیت کی وجہ سے تھا چنانچہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ادائیگی قرض کے لیے کچھ رقم یا مال کا سول کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کچھ دن ٹھہرے رہو، جب ہمارے پاس زکوٰۃ کا مال آئے گا تو اس میں سے تمہیں دینے کے لیے کہہ دیں گے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ قبیصہ! صرف تین طرح کے لوگوں کے لیے سوال کرنا جائز ہے ایک تو اس شخص کے لئے جو کسی کے قرض کا ضامن بن گیا ہو بشرطیکہ مانگنے میں مبالغہ نہ کرے بلکہ اتنے ہی مال یا رقم کا سوال کرے کہ اس سے قرضہ کو ادا کر دے اور اس کے بعد پھر نہ مانگے، دوسرے اس شخص کے لیے جو کسی آفت و مصیبت مثلاً قحط و سیلاب وغیرہ میں مبتلا ہو جائے اور اس کا تمام مال ہلاک و ضائع ہو جائے، چنانچہ اس کو صرف اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی غذا و لباس کی ضرورت پوری ہو جائے یا فرمایا کہ اس قدر مانگے کہ اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کے لیے سہارا ہو جائے، تیسرے اس شخص کے لیے جو غنی ہو مگر اس کو کوئی ایسی سخت حاجت پیش آ گئی ہے جسے اہل محلہ بھی جانتے ہوں مثلاً گھر کا تمام مال و اسباب چوری ہو جائے یا اور کسی مصیبت و حادثے سے دوچار ہونے کے وجہ سے ضرورت مند بن جائے اور قوم محلہ و بستی کے تین صاحب عقل و فراست لوگ اس بات کی شہادت دیں کہ واقعی اسے سخت حاجت پیش آ گئی ہے تو اس کے لیے اس قدر مانگنا جائز ہے جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ یا فرمایا کہ اس کی وجہ سے اس کی محتاجگی دور ہو جائے اور اس کی زندگی کا سہارا ہو جائے۔ قبیصہ! ان تین کے علاوہ کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اگر کوئی شخص ان تین مجبوریوں کے علاوہ دس سوال دراز کر کے کسی سے کچھ لے کر کھاتا ہے تو وہ حرام کھاتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
حمالہ اس مال کو کہتے ہیں جو کسی شخص پر دیت کے طور پر کچھ لوگوں کو دینا ضروری ہو اور کوئی دوسرا شخص اس مال کی عدم ادائیگی کی بناء پر آپس کے لڑائی جھگڑے کو نمٹانے کے لیے درمیان میں پڑ جائے اور وہ مال اپنے ذمہ لے لے اور اس کی وجہ سے قرض دار ہو جائے۔
حدیث کے آخر میں تین صاحب عقل و فراست لوگوں کی شہادت کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ احتیاج و ضرورت کے واقعی اور حقیقی ہونے کے لیے بطور مبالغہ ہے نیز اس بات کا احساس پیدا کرنے کے لیے کہ لوگ دست سوال دراز کرنے کو آسان نہ سمجھیں اور اس برے فعل سے بچتے رہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص محض اضافہ مال کی خاطر لوگوں کے مال میں سے کچھ مانگتا ہے تو وہ گویا آگ کا انگارا مانگتا ہے اب وہ چاہے کم مانگے یا زیادہ مانگے۔ (مسلم)
تشریح
اضافہ مال کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی احتیاج و ضرورت کی بناء پر نہیں بلکہ محض اس لیے لوگوں کے آگے دست سوال دراز کرتا ہے تاکہ اس کا مال زیادہ ہو جائے۔
آگ کے انگارے سے مراد دوزخ کا انگارہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جو اپنی حاجت پوری کرنے کے لئے نہیں بلکہ محض اضافہ مال کی خاطر کسی سے کچھ مانگتا ہے تو وہ اپنی اس ہوسناکی اور حرص و طمع کی وجہ سے دوزخ کی آگ میں ڈالا جائے گا۔ کم یا زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور تنبیہ ارشاد فرمایا اس کی وضاحت یہ ہے کہ بلا ضرورت لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا دنیاوی اور اخروی اعتبار سے بہر صورت نقصان دہ اور باعث ذلت و رسوائی ہے خواہ وہ کسی حقیر و کمتر چیز کے لیے ہاتھ پھیلائے خواہ کسی قیمتی اور اعلیٰ چیز کے لیے دست سوال دراز کرے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہمیشہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتا رہے تو وہ قیامت کے دن اس حال میں ہو گا کہ اس کے منہ پر گوشت کی بوٹی نہ ہو گی۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ بلا ضرورت محض پیشے کے طور پر بھیک مانگے اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھرتے ہیں وہ قیامت کے روز میدان حشر میں ذلیل و رسوا کر کے لائے جائیں گے یا حقیقۃً ان کا یہ حال ہو گا کہ ان کی اس برائی اور غلط فعل کی سزا کے طور پر ان کے منہ پر گوشت نہیں ہو گا اس طرح وہ لوگ میدان حشر میں مخلوق خدا کے درمیان یہ کہہ کر بے آبرو و رسوا کیے جائیں کہ یہ دنیا میں بھیک مانگتے پھرا کرتے تھے، آج انہیں اس کی یہ سزا مل رہی ہے۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مانگنے میں مبالغہ نہ کرو، خدا کی قسم! تم میں سے جو بھی شخص مجھ سے (مبالغہ کے ساتھ) کچھ مانگتا ہے تو میں اسے اس حال میں کچھ نکال کر دیتا ہوں کہ میں اسے دینا برا سمجھتا ہوں اور ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جو چیز میں نے اسے دی ہے اس میں برکت ہو۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص انتہائی مبالغہ کے ساتھ میرے سامنے دست سوال دراز کرتا ہے تو اگرچہ مجھ سے اس کا سوال ٹھکرایا نہیں جاتا اور میں اسے دے دیتا ہوں مگر میری طرف سے ناخوشی کے ساتھ دی گئی چیز اور برکت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہوتے لہٰذا میں ناخوشی کے ساتھ جو چیز دیتا ہوں اس میں برکت نہیں ہوتی۔
حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص ایک رسی اور لکڑیوں کا ایک گٹھا باندھ کر پشت پر لاد کر لائے اور اسے فروخت کرے اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی عزت و آبرو کو برقرار رکھے جو مانگنے سے جاتی تھی تو یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے اور لوگ اسے دیں یا نہ دیں۔ (بخاری)
حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عنایت فرما دیا میں نے پھر دوبارہ مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت بھی عطا کیا اور پھر مجھ سے فرمایا کہ حکیم! یہ مال سبز و شیریں ہے (یعنی نظر میں خوشنما اور دل کو لذت دینے والا ہے) لہٰذا جو شخص اس مال کو بے پروائی سے یعنی بغیر ہاتھ پھیلائے اور بغیر طمع و حرص کے حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت عطا فرمائی جاتی ہے اور جو شخص اسے نفس کے طمع و حرص کے ساتھ حاصل کرتا ہے تو اس میں برکت نہیں ہوتی اور اس کی حالت اس شخص کی مانند ہوتی ہے جو کھانا تو کھاتا ہے مگر اس کا پیٹ نہیں بھرتا گویا بے برکتی اور کثرت حرص کی وجہ سے یہ حال ہوتا ہے اور یاد رکھو کہ اوپر کا ہاتھ یعنی دوسروں کو دینے والا نیچے کے ہاتھ یعنی دوسروں سے مانگنے والے سے بہتر ہوتا ہے حکیم کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اب کسی کے مال میں سے کچھ کم نہیں کروں گا یعنی آج کے بعد آئندہ کبھی بھی کسی سے سوال نہیں کروں گا یہاں تک کہ میں اس دنیا سے جدا ہوں یعنی موت کی آغوش میں پہنچ جاؤں۔
٭٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منبر پر تھے اور صدقہ کا ذکر بیان کر رہے تھے اور سوال سے بچنے کے بارے میں خطبہ دے رہے تھے۔ یہ ارشاد فرمایا کہ اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اوپر کا ہاتھ خرچ کرنے والا اور لوگوں کو دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ مانگنے والا یعنی سائل کا ہاتھ ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن انصار میں سے چند لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ مانگا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں عطا فرما دیا۔ انہوں نے پھر مانگا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب بھی دے دیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جو کچھ تھا سب ختم ہو گیا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس جو کچھ بھی مال ہو گا میں تم سے بچا کر اس کا ذخیر نہیں کروں گا اور یاد رکھو کہ جو شخص لوگوں سے سوال کرنے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بری باتوں سے بچاتا ہے اور اسے لوگوں کا محتاج نہیں کرتا اس طرح اس کی خود داری کو باقی رکھتا ہے، نیز جو شخص انتہائی معمولی چیز پر بھی قناعت کرتا ہے اور کسی سے سوال نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے قناعت آسان کر دیتا ہے اور جو شخص بے پروائی ظاہر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے بے پرواہ بنا دیتا ہے یعنی جو شخص دوسروں کے مال و زر سے بے پرواہ ہوتا ہے اور ہاتھ پھیلانے سے بچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی کر دیتا ہے اور جو شخص صبر کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے صبر عطا فرماتا ہے یعنی جو شخص اللہ تعالیٰ سے صبر کی توفیق طلب کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے صبر آسان کر دیتا ہے اور یاد رکھو کہ صبر سے زیادہ بہتر اور وسیع کوئی دوسری چیز عطا نہیں کی گئی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تمام عطا و بخشش میں صبر سب سے بہتر عطاء ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے زکوٰۃ وصول کرنے کی اجرت عطا فرماتے تو میں عرض کرتا کہ یہ اس شخص کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے جواب میں فرماتے کہ اگر تمہیں حاجت و ضرورت ہو تو اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو اور اگر حاجت و ضرورت سے زیادہ ہو تو خود خدا کی راہ میں خیرات کر دو نیز یہ بھی فرماتے کہ جو چیز تمہیں بغیر طمع و حرص کے اور بغیر مانگے حاصل ہو اسے قبول کر لو اور جو چیز اس طرح یعنی بغیر طمع و حرص اور بغیر سوال کے ہاتھ نہ لگے تو اس کے پیچھے مت پڑو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کہ جو چیز بغیر طمع و حرص اور بغیر مانگے حاصل نہ ہو اس کو حاصل کرنے کے لیے طمع نہ کرو اور نہ اس کے لیے منتظر رہو جیسا کہ کہہ دیا جاتا ہے کہ لارد ولا کد۔
ایک دوسری حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو چیز بغیر طمع و حرص کے حاصل ہو اور وہ اسے واپس کر دے تو گویا اس نے اس چیز کو اللہ کو واپس کر دیا یعنی خدا کی ایک نعمت کو ٹھکرا دیا۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام احمد رحمۃ اللہ بازار گئے اور وہاں سے انہوں نے کچھ سامان خریدا جسے بنان جلال اٹھا کر احمد کے ساتھ ان کے گھر لائے جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں روٹیاں ٹھنڈی ہونے کے لیے کھلی ہوئی رکھی تھیں، حضرت امام نے اپنے صاحبزادے کو حکم دیا کہ ایک روٹی بنان کو دے دیں، صاحبزادے نے جب بنان کو روٹی دی تو انہوں نے انکار کر دیا بنان جب گھر سے باہر نکل گئے اور واپس چل دئیے تو امام احمد نے صاحبزادے سے کہا کہ اب ان کے پاس جاؤ اور انہیں روٹی دے دو صاحبزادے نے باہر جا کر بنان کو روٹی دی تو انہوں نے فوراً قبول کر لیا۔ انہیں بڑا تعجب ہوا کہ پہلے تو روٹی لینے سے صاف انکار کر دیا اور اب فوراً قبول کر لیا آخر یہ ماجرا کیا ہے! انہوں نے حضرت امام احمد سے اس کا سبب پوچھا تو امام صاحب نے فرمایا کہ بنان جب گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے کھانے کی ایک عمدہ چیز دیکھی بتقاضائے طبیعت بشری انہیں اس کی خواہش ہوئی اور دل میں اس کی طمع پیدا ہو گئی اس لیے جب تم نے انہیں روٹی دی تو انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنی طمع و خواہش کے تابع بن جائیں انہوں نے روٹی لینے سے انکار کر دیا مگر جب وہ باہر چلے گئے اور روٹی سے قطع نظر کر کے اپنا راستہ پکڑا اور پھر تم نے جا کر وہ روٹی دی تو اب چونکہ وہ روٹی انہیں بغیر طمع و خواہش اور غیر متوقع طریق پر حاصل ہو رہی تھی اس لیے انہوں نے اسے خدا کی نعمت سمجھ کر فوراً قبول کر لیا۔