نکاح کے صحیح ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ عورت محرمات میں سے نہ ہو لہذا اس باب میں یہی بتایا جائے گا کہ کون کون عورتیں محرمات میں سے ہیں کہ جن سے نکاح کرنا حرام ہے۔ ان عورتوں کی تفصیل فقہ حنفی کی مشہور و معتمد کتاب فتاوی عالمگیری میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ فتاوی عالمگیری کی اس تفصیل کو یہاں ذکر کر دیا جائے۔
جو عورتیں محرمات میں سے ہیں ان کی نو قسمیں ہیں یا یوں کہیے کہ نکاح کے حرام ہونے کے نو سبب ہیں جن کی نمبر وار تفصیل یوں ہے:
پہلا سبب: نسبی رشتہ: جو عورتیں نسبی رشتہ کے سبب حرام ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔ ماں بیٹی بہن پھوپھی خالہ بھتیجی اور بھانجی۔ لہذا ان رشتوں سے نکاح کرنا جماع کرنا اور ایسے کام کرنا جو جماع کے محرک اور سبب بن جاتے ہیں جیسے بوسہ لینا وغیرہ یہ سب کام ہمیشہ کے لئے حرام ہیں۔
ماں سے اپنی ماں بھی مراد ہے اور دادی اور نانی خواہ اوپر کے درجہ کی ہوں جیسے پردادی اور پرنانی وغیرہ) بھی مراد ہیں۔ بیٹی کے حکم میں اپنی حقیقی بیٹی اپنے بیٹے کی بیٹی پوتی اپنی بیٹی کی بیٹی یعنی نواسی اور اس طرح نیچے تک سب شامل ہیں۔ اسی طرح بہن خواہ حقیقی ہو خواہ سوتیلی صرف باپ شریک ہو اور خواہ اخیافی صرف ماں شریک ہو سب حرام ہیں۔
بھتیجی اور بھانجی سے بھی تین طرح کی بھتیجیاں اور بھانجیاں یعنی حقیقی بھائی بہن کی اولاد، سوتیلے بھائی بہن کی اولاد اور اخیافی بھائی بہن کی اولاد مراد ہیں (اگرچہ نیچے درجہ کی ہوں کہ یہ سب محرمات میں سے ہیں۔
پھوپھی بھی تینوں طرح کی مراد ہیں یعنی حقیقی پھوپھی سوتیلی باپ شریک) پھوپھی اور اخیافی صرف ماں شریک پھوپھی اسی طرح پھوپھی کے حکم میں باپ کی پھوپھی اور دادا کی پھوپھی اور دادی کی پھوپھی بھی شامل ہیں کہ یہ سب پھوپھیاں بھی محرمات میں سے ہیں، ہاں پھوپھی کی پھوپھی حرام ہے یا نہیں اس میں تفصیل ہے۔ اگر مثلاً زید کی پھوپھی اس کے باپ کی حقیقی بہن ہو یا سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو اس پھوپھی کی پھوپھی زید کے لیے حرام ہو گی اور اگر زید کی پھوپھی اس کے باپ کی اخیافی (یعنی صرف ماں شریک) بہن ہو تو ایسی پھوپھی زید کے لئے حرام نہیں ہو گی۔
خالہ بھی کئی طرح کی مراد ہیں تفصیل یہ ہے کہ: اگر مثلاً سوتیلی خالہ اخیافی خالہ اپنے باپ کی خالہ اور اپنی ماں کی خالہ یہ سب خالائیں حرام ہیں لیکن خالہ کی خالہ کے بارے میں تفصیل ہے اگر مثلاً زید کی خالہ اس کی ماں کی حقیقی بہن ہو یا اخیافی یعنی صرف ماں شریک بہن ہو تو اس خالہ کی خالہ زید کے لئے حرام ہو گی یعنی اس سے زید کا نکاح نہیں ہو سکتا اور اگر زید کی خالہ اس کی ماں کی سوتیلی یعنی صرف باپ شریک بہن ہو تو ایسی خالہ حرام نہیں ہو گی اس سے زید کا نکاح جائز ہو گا۔
دوسرا سبب سسرالی رشتہ: وہ عورتیں جو بسبب صہریت یعنی سسرالی رشتہ کی وجہ سے حرام ہو جاتی ہیں ان کی چار قسمیں ہیں ایک ساس یعنی بیوی کی ماں دو یا ساس یعنی بیوی کی دادی، ننیاساس یعنی بیوی کی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کی مثلاً بیوی کے باپ اور ماں کی دادی وغیرہ بیوی کی بیٹی اور بیوی کے بیٹوں کی اولاد اور اس سے نیچے کے درجہ کی مثلاً بیوی کی نواسی کی اولاد وغیرہ یہ سب حرام ہیں بشرطیکہ بیوی سے جماع کر لیا ہو خواہ وہ بیوی کی بیٹی اس مرد کی پرورش میں ہو یا نہ ہو اور حنفی علماء نے بیوی کی بیٹیوں کی حرمت کے سلسلہ میں خلوت صحیحہ کو جماع کا قائم مقام قرار نہیں دیا یعنی بیوی کی بیٹیوں کی حرمت ثابت کرنے کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ مرد نکاح کے بعد بیوی سے جماع بھی کر لے اگر صرف خلوت صحیحہ ہوئی ہو یعنی جماع کرنے کا پورا موقع مل گیا ہو) مگر دونوں نے جماع نہ کیا ہو تو اس صورت میں اس بیوی کی بیٹی (جو دوسرے شوہر کے نطفہ سے ہو) کی حرمت ثابت نہیں ہو گی بہو یعنی بیٹے کی بیوی پوت بہو یعنی پوتے کی بیوی اور نواسی بہو یعنی نواسے کی بیوی اور اسے نیچے کے درجہ کی (یعنی پڑپوتے کی بیوی وغیرہ) اور ان عورتوں کے ساتھ ان کے شوہروں یعنی بیٹے اور پوتے وغیرہ نے جماع کیا ہو یا نہ کیا ہو دونوں صورتوں میں حرام ہیں۔ ہاں لے پالک یعنی منہ بولے بیٹے کی بیوی حرام نہیں ہوتی یعنی مثلاً زید بکر کا منہ بولا بیٹا ہے تو زید کی بیوی بکر کے حق میں محرمات میں سے نہیں ہو گی اگر زید اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا وہ مر جائے تو بکر اس کی مطلقہ یا وہ بیوہ سے اپنا نکاح کر سکتا ہے باپ کی بیوی یعنی سوتیلی ماں اور دادا اور نانا کی بیویاں یعنی سوتیلی دادی اور سوتیلی نانی اور اس سے اوپر کے درجہ کے یہ سب بھی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں نہ ان سے نکاح ہو سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے طریقہ سے جماع ہو سکتا ہے۔
سسرالی رشتہ سے حرمت اس صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ نکاح صحیح ہو فاسد نکاح سے حرمت ثابت نہیں ہو گی چنانچہ اگر کسی شخص نے کسی عورت سے زنا کیا تو زنا کرنے والے کے لیے اس عورت کی ماں، دادی، نانی اور اس عورت کی بیٹی پوتی نواسی سب حرام ہو جائیں گی اسی طرح اس عورت کے لئے زنا کرنے والے کے باپ دادا نانا اور اس عورت کے لڑکے پوتے نواسے سب حرام ہو جائیں گے۔
اگر کسی شخص نے ایک عورت سے جماع کیا جس کی وجہ سے اس عورت کے پیشاب اور پاخانہ کا مقام ایک ہو گیا تو اس عورت کی ماں جماع کرنے والے کے لئے حرام نہیں ہو گی کیونکہ اس صورت میں یقین کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے عورت کے پیشاب کے مقام ہی میں جماع کیا ہے ہاں اگر جماع کے بعد وہ عورت حاملہ ہو جائے اور یہ معلوم بھی ہو جائے کہ یہ حمل اسی شخص کے نطفہ سے قرار پایا ہے تو اس صورت میں اس کی ماں اس کے لئے حرام ہو جائے گی۔ اور جس طرح یہ حرمت جماع کرنے سے ثابت ہوتی ہے اسی طرح شہوت کے ساتھ) عورت کو چھونے بوسہ لینے اور شہوت کے ساتھ عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے سے ثابت ہو جاتی ہے۔ اور یہ مذکورہ چیزیں یعنی چھونا وغیرہ خواہ نکاح کی صورت میں پیش آئیں یا خواہ ملکیت کی صورت میں اور خواہ فجور کی صورت میں حنفیہ کے نزدیک یہ تینوں یکساں ہیں۔ نیز حنفی علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس بارے میں شبہ اور غیر شبہ برابر ہیں اور اس سلسلہ میں شہوت کے ساتھ مباشرت (مرد و عورت کا شہوت کے ساتھ ایک دوسرے سے لپٹنا) بھی بوسہ کے حکم میں ہے اسی طرح معانقہ کا بھی یہی حکم ہے ایسے ہی اگر شہوت کے ساتھ دانتوں سے اس کو کاٹا تو بھی یہی حکم ہے یعنی ان تمام صورتوں میں حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔
اگر کسی نے شہوت کے ساتھ مرد کے عضو مخصوص کی طرف دیکھا یا شہوت کے ساتھ اسکو ہاتھ لگایا یا بوسہ لیا تو اس صورت میں اس کے ساتھ حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اور باقی دوسرے تمام اعضاء کی طرف دیکھنے سے اور ان کو ہاتھ لگانے سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی ہاں اگر یہ دیکھنا یا ہاتھ لگانا شہوت کے ساتھ ہو تو پھر بغیر کسی اختلاف کے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ حرمت کے سلسلہ میں عورت کی شرمگاہ کے ظاہری حصہ کو دیکھنے کا اعتبار نہیں ہے بلکہ اندر کے حصہ کو دیکھنے سے حرمت ثابت ہوا کرتی ہے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر مرد کسی کھڑی ہوئی عورت کی شرم گاہ کو دیکھ لے تو اس صورت میں حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی کیونکہ عورت جب کھڑی ہوئی ہو تو اس کی شرم گاہ کے اندرونی حصہ پر نظر نہیں پڑتی بلکہ شرمگاہ کے اندرونی حصہ پر اس وقت نظر پڑے گی جب وہ پشت سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھی ہو۔ اگر کسی مرد نے عورت کی شرمگاہ کے اندرونی حصہ کو اس طرح دیکھا کہ درمیان میں باریک پردہ یا شیشہ حائل تھا لیکن اندرونی حصہ نظر آ رہا تھا تو بھی حرمت ثابت ہو جائے گی۔ ہاں اگر کوئی شخص آئینہ دیکھ رہا تھا اور اس میں کسی عورت کی شرمگاہ نظر آ گئی اور پھر مرد نے اس کو شہوت کے ساتھ دیکھا تو اس مرد پر نہ اس عورت کی ماں حرام ہو گی اور نہ بیٹی حرام ہو گی کیونکہ اس نے شرمگاہ کو نہیں دیکھا بلکہ اس کا برعکس دیکھا۔ اگر کوئی عورت پانی کے حوض کے کنارے پر یا پل پر بیٹھی ہو اور کسی مرد نے اس کا عکس پانی میں دیکھا اور پھر اس کے بعد وہ شہوت کے ساتھ پانی ہی میں اس کی شرمگاہ کا عکس دیکھتا رہا تو اس صورت میں بھی حرمت ثابت نہیں ہو گی ہاں اگر عورت پانی میں ہو اور مرد کی نگاہ اس کی شرمگاہ پر پڑھ جائے اور پھر اسے شہوت کے ساتھ دیکھے تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔
کسی عورت کو شہوت کے ساتھ چھونے سے حرمت ثابت ہونے کے سلسلے میں یہ ضروری نہیں ہے کہ قصداً چھوئے تب ہی حرمت ثابت ہو گی بلکہ چاہے قصداً چھوئے یا چاہے بھول کر چھوئے چاہے کسی کے زبردستی کرنے سے یا خود غلطی سے چھوئے اور چاہے نیند کی حالت میں چھوئے ہر صورت میں حرمت ثابت ہو جائے گی۔ چنانچہ اگر کسی مرد نے جماع کرنے کے لئے اپنی بیوی کو نیند سے اٹھانا چاہا مگر غلطی سے اس کا ہاتھ لڑکی پر پڑھ گیا اور پھر یہ سمجھ کر کہ یہی میری بیوی ہے شہوت کے ساتھ اس کی چٹکی بھر لی اور وہ لڑکی بھی جوان تھی قابل شہوت تھی تو اس صورت میں اس مرد کے لئے اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائے گی۔
اگر کسی مرد نے شہوت کے ساتھ عورت کے ان بالوں کو ہاتھ لگایا جو سر سے ملے ہوئے ہیں تو حرمت ثابت ہو جائے گی اور اگر لٹکے ہوئے بالوں کو ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت نہیں ہو گی مگر ناطفی نے اس تفصیل کے بغیر مطلقاً بالوں کے چھونے کو حرمت کا باعث لکھا ہے اسی طرح اگر مرد نے عورت کے ناخن کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔
یہ جو بتایا گیا ہے کہ عورت کو شہوت کے ساتھ چھونا اور ہاتھ لگانا حرمت کو ثابت کر دیتا ہے تو اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ عورت کو چھونے اور ہاتھ لگانے سے اسی صورت میں حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جب کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل نہ ہو اور اگر کپڑا حائل ہو تو وہ اس قدر باریک ہو کہ چھونے والے کا ہاتھ بدن کی حرارت محسوس نہیں ہوتی تو حرمت ثابت نہیں ہو گی خواہ اس کی وجہ سے مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہی کیوں نہ ہو جائے، اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے موزہ کے نیچے کا حصہ چھوا تو حرمت ثابت ہو جائے گی ہاں اگر موزے پر چمڑا چڑھا ہوا ہو جس کی وجہ سے عورت کے پاؤں کی ایڑھی چھونے والے کو محسوس نہ ہو تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔
اگر کسی مرد نے عورت کا بوسہ لیا ایسی حالت میں کہ دونوں کے درمیان کپڑا حائل ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی بشرطیکہ بوسہ لینے والے کو عورت کے دانتوں کی یا ہونٹوں کی ٹھنڈک محسوس ہو۔
حرمت ثابت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ چھونے کے بعد دیر تک چھوتا ہی رہے چنانچہ علماء نے لکھا ہے کہ اگر کسی نے شہوت کے ساتھ اپنی بیوی کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن وہ ہاتھ بیوی کی بجائے اپنی لڑکی کی ناک پر پڑ گیا اور اس کے ساتھ ہی شہوت زیادہ ہو گئی تو اس لڑکی کی ماں یعنی بیوی اس مرد کے لئے حرام ہو جائے گی اگرچہ اس نے اپنا ہاتھ فوراً ہی ہٹا لیا ہو۔
حرمت ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ جس عورت کو ہاتھ لگایا جائے یا بوسہ لیا جائے اور وہ قابل شہوت ہو اور فتوی اس پر ہے کہ کم سے کم نو سال کی لڑکی قابل شہوت ہوتی ہے اس سے کم نہیں، چنانچہ اگر کسی مرد نے کسی ایسی نابالغہ لڑکی سے جماع کیا جو قابل شہوت نہ ہوں تو حرمت ثابت نہیں ہو گی اس کے برخلاف اگر عورت اتنی بوڑھی ہو جائے کہ قابل شہوت نہ رہے تو وہ حرمت ثابت ہونے کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ وہ حرمت کے حکم میں داخل ہو چکی تھی اور بڑھاپے کی وجہ سے اس حکم سے باہر نہیں ہو سکتی جب کہ نابالغہ ابھی حرمت کے حکم میں داخل ہی نہیں ہوئی۔
جس طرح حرمت ثابت ہونے کے لئے عورت کا قابل شہوت ہونا شرط ہے اسی طرح مرد کا بھی قابل شہوت ہونا شرط ہے۔ لہذا اگر چار سال کے بچہ نے مثلاً اپنے باپ کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں سے جماع کر لیا تو اس کی وجہ سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی۔ لیکن اگر جماع کرنے والا ایسا بچہ ہو جس کے ہم عمر بچے عام طور پر جماع کر سکتے ہوں تو تو اس کا وہی حکم ہو گا جو بالغ کا ہوتا ہے اور اس بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ ایسے بچہ کی پہچان یہ ہے کہ وہ جماع کرنے پر قادر ہو عورت کی طرف اس کا میلان ظاہر ہوتا ہو اور عورتیں اس سے شرم کرتی ہوں۔
مذکورہ بالا چیزوں یعنی چھونے اور دیکھنے کے بارے میں شہوت یعنی ہیجان کا ہونا شرط ہے یعنی عورت کو ہاتھ لگانے بوسہ لینے اور شرم گاہ کے اندرونی حصہ کی طرف دیکھتے وقت اگر شہوت ہو تب حرمت ثابت ہو گی لہذا اگر یہ دونوں چیزیں بغیر شہوت کے پائی جائیں اور پھر بعد میں شہوت پیدا ہو تو حرمت ثابت نہیں ہو گی اور شہوت کا معیار مرد کے لئے یہ ہے کہ اس کے عضو مخصوص میں ایستادگی ہو جائے اور اگر ایستادگی پہلے سے تھی تو اس میں زیادتی ہو جائے۔ اس مسئلہ میں یہی قول صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے لہذا اگر کسی مرد کے عضو مخصوص میں ایستادگی تھی ایسی حالت میں اس نے اپنی بیوی کو اپنے پاس بلایا اور پھر ا سی دوران کسی طرح اس کا عضو مخصوص اس کی لڑکی کی دونوں رانوں کے درمیان داخل ہو گیا تو اس صورت میں اگر اس کے عضو مخصوص کی ایستادگی میں زیادتی نہ پیدا ہو گئی ہو تو اس لڑکی کی ماں یعنی اس کی بیوی اس کے لئے حرام نہیں ہو گی۔ اور شہوت کا معیار اس مرد کے لئے ہے جو جوان اور جماع کرنے پر قادر ہو اور اگر مرد بوڑھا ہو تو اس کے حق میں شہوت کا معیار یہ ہے کہ خواہش کے وقت اس کے قلب میں حرکت پیدا ہو جائے اگر پہلے سے حرکت نہیں تھی اور اگر قلب میں پہلے سے حرکت موجود تھی تو اس خواہش میں زیادتی ہو جائے اور عورت کے لئے اس اس مرد کے لئے جس کا عضو مخصوص کٹا ہوا ہو شہوت کا معیار یہ ہے کہ قلب میں خواہش پیدا ہو اور ہاتھ لگانے وغیرہ سے جنسی لذت حاصل ہو۔ اگر خواہش وغیرہ پہلے سے موجود نہ تھی اور اگر یہ پہلے سے موجود تھی تو اس میں زیادتی ہو جائے اور یہ بات ملحوظ رہے کہ مرد و عورت میں سے کسی ایک میں شہوت کا ہونا حرمت ثابت ہونے کے لئے کافی ہو۔
ہاتھ لگانے یا بوسہ لینے وغیرہ سے جو حرمت ثابت ہوتی ہے اس میں یہ شرط اور ضروری ہے کہ انزال نہ ہو اگر ہاتھ لگانے یا شرمگاہ کی طرف دیکھنے کے وقت انزال ہو گیا تو حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہو گی۔ کیونکہ اب انزال ہونے سے یہ بات ثابت ہو جائے گی کہ چھونا وغیرہ جماع لینے کا سبب نہیں بنا۔ اگر کسی مرد نے عورت کی مقعد کی طرف دیکھا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہو گی اسی طرح اگر کسی مرد نے عورت کے پیچھے کی طرف بد فعلی کی تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔ ایسے ہی اگر مرد کے ساتھ جماع کے افعال کئے تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔
اگر کسی مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ حرمت مصاہرت کا اقرار کیا تو اس کا اعتبار کیا جائے گا اور ان دونوں یعنی میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کرا دی جائے گی اسی طرح اگر مرد نکاح سے قبل زمانہ کی طرف حرمت کی نسبت کرے یعنی اپنی بیوی سے یوں کہے کہ میں نے تم سے نکاح کرنے سے پہلے تہاری ماں سے جماع کیا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور دونوں میں جدائی کرا دی جائے گی لیکن اس عورت کا پورا مہر (جو نکاح کے وقت متعین ہوا تھا) واجب ہو گا عقد واجب نہیں ہو گا اور اس اقرار کے لئے مداومت شرط نہیں یعنی صرف ایک مرتبہ اقرار کر لینا کافی ہے بار بار اقرار کرنا ضروری نہیں ہے اسی لئے اگر کوئی شخص اپنے اقرار سے رجوع کر لے یعنی ایک مرتبہ اقرار کرنے کے بعد پھر انکار کر دے تو قاضی اس نکاح کو صحیح تسلیم نہیں کرے گا ہاں اگر اس نے واقعۃً غلط اقرار کیا تھا تو عند اللہ وہ عورت اس کی بیوی رہے گی اگرچہ ظاہراً قاضی جدائی کرا دے گا۔
اگر کسی شخص نے ایک عورت کے بارے میں یہ کہا کہ میری رضاعی ماں ہے (یعنی اس عورت نے مجھے دود ھ پلایا ہے) اور پھر کچھ عرصہ بعد جب اس عورت سے نکاح کرنا چاہے اور یہ کہے کہ میں نے پہلے غلط کہا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں ہے تو اس صورت میں اس کے لئے اس عورت سے نکاح کرنا استحساناً جائز ہو گا۔
اگر کسی شخص نے عورت کا بوسہ لیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا یا عورت کو چھوا اور یا اس کی شرم گاہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو بوسہ لینے کی صورت میں تو فوراً حرمت کا حکم لگا دیا جائے گا جب تک کہ یہ یقین نہ ہو جائے کہ اس نے واقعی شہوت کے ساتھ بوسہ نہیں لیا تھا اور دوسری دونوں صورتوں میں حرمت کا حکم فوراً لگا دیا جائے گا جب یہ یقین ہو جائے کہ یہ چیز شہوت کے ساتھ سرزد ہوئی ہے تو حرمت کا حکم لگایا جائے گا اور یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ بوسہ عام طور پر شہوت کے ساتھ لیا جاتا ہے اور بوسہ کی بنیاد ہی شہوت پر ہوتی ہے بخلاف چھونے اور دیکھنے کے کہ یہ دونوں فعل بغیر شہوت کے بھی سرزد ہوتے ہیں مگر یہ حکم اس صورت میں ہے کہ جب کہ شرمگاہ کے علاوہ کسی اور عضو کو چھوا ہو اور اگر کسی شخص نے عورت کی شرمگاہ کو چھوا ہو اور پھر کہا کہ یہ شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو ایسی صورت میں اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی شخص نے عورت کی چھاتی پکڑ لی اور کہا کہ شہوت کے ساتھ نہیں پکڑی تھی تو اس کی بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا اسی طرح اگر عورت کے ساتھ جانور پر سوار ہوا تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ ہاں اگر عورت کی پشت پر سوار ہو کر دریا کو پار کیا اور کہا کہ اس وقت شہوت نہیں تھی تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
ایک شخص نے لوگوں کے سامنے اقرار کیا کہ میں نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ چھوا ہے یا اس کا بوسہ لیا ہے اور ان لوگوں نے اس کے اس اقرار کی گواہی دی تو اس کی گواہی قبول کی جائے گی اور حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اسی طرح اگر گواہ یہ کہیں کہ فلاں شخص نے فلاں عورت کو شہوت کے ساتھ ہاتھ لگایا تھا یا بوسہ لیا تھا تو ان کی گواہی مانی جائے گی کیونکہ شہوت ایک ایسی چیز ہے جو فی الجملہ معلوم ہو جاتی ہے چنانچہ جن لوگوں کے عضو میں حرکت ہوتی ہے اس کو دیکھ کر اور جن کے عضو میں حرکت نہیں ہوتی ان کے بارے میں دوسری علامتوں سے شہوت کا معلوم ہو جانا ممکن ہوتا ہے۔
قاضی علی سعدی فرماتے ہیں کہ اگر نشہ میں مدہوش کسی شخص نے اپنی لڑکی کو پکڑ کر اپنے بدن سے لپٹایا اور اس کا بوسہ لیا اور پھر جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو لڑکی نے کہا کہ میں تمہاری لڑکی ہوں، یہ سن کر اس شخص نے لڑکی کو چھوڑ دیا تو اس صورت میں بھی لڑکی کی ماں یعنی اس شخص کی بیوی اس کے لئے حرام ہو جائے گی۔
اگر کسی شخص سے پوچھا گیا کہ تم نے اپنی ساس کے ساتھ کیا کیا ہے؟ اس نے جواب میں کہا کہ میں نے جماع کیا ہے تو اس صورت میں بھی حرمت مصاہرت ثابت ہو جائے گی اگرچہ سوال کرنے والے نے مذاق میں سوال کیا ہو اور اس شخص نے بھی از راہ مذاق ہی جواب دیا ہو پھر اس کے بعد وہ شخص لاکھ کہے کہ میں نے یہ بات غلط کہی تھی اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔
اگر کسی شخص نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت میں ہو یہ کہا کہ میں نے اس لونڈی سے جماع کیا ہے تو وہ لونڈی اس کے لڑکے کے لئے حلال نہیں ہو گی اور اگر اس نے کسی ایسی لونڈی کے بارے میں جو اس کی ملکیت نہیں ہے بلکہ کسی اور کی ہے یہ کہا کہ میں نے اس سے جماع کیا ہے تو اس صورت میں اس کے لڑکے کے لئے یہ جائز ہو گا کہ اپنے باپ کی اس بات کا اعتبار نہ کرے اور اس لونڈی کو اپنی ملکیت میں لے کر اس سے جماع کر لے اور اگر کسی شخص کو اپنے باپ کی میراث میں کوئی لونڈی ملی تو وہ اس سے جماع کر سکتا ہے جب تک کہ یقین کے ساتھ یہ معلوم نہ ہو جائے کہ باپ نے اس لونڈی کے ساتھ جماع کیا ہے۔
اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر شادی کی کہ وہ باکرہ ہے لیکن شادی کے بعد جب اس سے جماع کرنے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ باکرہ نہیں ہے پھر اس نے عورت سے پوچھا کہ تمہارا پردہ بکارۃ کس طرح زائل ہوا ہے (یعنی تمہارے ساتھ کسی مرد نے جماع کیا ہے؟) عورت نے جواب دیا کہ تمہارے باپ نے اس صورت میں اگر وہ شخص خاوند اس کی بات کا اعتبار کرے تو نکاح ختم ہو جائے گا۔ اور عورت مہر کی حقدار نہیں ہو گی۔ اور اگر وہ شخص اس کی بات کا اعتبار نہ کرے اور کہے کہ تم جھوٹ بولتی ہو تو نکاح باقی رہے گا۔
اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے لڑکے کے بارے میں کہا کہ اس نے مجھے شہوت کے ساتھ چھوا ہے لہذا میں اپنے شوہر کی بیوی نہیں رہی تو عورت کی اس بات کا اعتبار نہیں کیا جائے گا بلکہ شوہر کے لڑکے کا قول معتبر ہو گا۔
کسی شخص نے اپنے باپ کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا یا کسی با پ نے اپنے لڑکے کی بیوی کا شہوت کے ساتھ زبردستی بوسہ لیا اور شوہر نے کہا کہ یہ عمل شہوت کے ساتھ نہیں تھا تو شوہر کی بات کا اعتبار کیا جائے گا اور یہ اسی کی بیوی رہے گی لیکن اگر شوہر نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ بوسہ لینا واقعی شہوت ہی کے ساتھ تھا تو پھر دونوں میاں بیوی) میں جدائی ہو جائے گی اور شوہر پر مہر واجب ہو گا مگر شوہر وہ رقم جو اس نے مہر میں ادا کی ہے اس شخص سے وصول کر لے گا جس کی وجہ سے یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے بشرطیکہ اس نے فتنہ پھیلانے کے لئے یہ حرکت کی ہو اور اگر یہ حرکت فتنہ پھیلانے کے مقصد سے نہیں تھی تو پھر کچھ بھی وصول کرنے کا حق نہیں ہو گا۔ اور اگر اس مسئلہ میں بوسہ لینے کی بجائے باپ نے لڑکے کی بیوی سے یا لڑکے نے باپ کی بیوی سے جماع کر لیا تو اس صورت میں شوہر مہر میں دی ہوئی رقم کسی طرح بھی وصول نہیں کر سکتا کیونکہ جماع کرنے والے پر حد واجب ہو گی اور ضابطہ یہ ہے کہ شرعی حد کے ساتھ کوئی مالی جرمانہ واجب نہیں ہوتا۔
کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی کے ساتھ نکاح کیا اور پھر اس کے قبل کہ اس کا خاوند جماع کرتا باندی نے شوہر کے لڑکے کا شہوت کے ساتھ بوسہ لیا خاوند نے دعوی کیا کہ میری بیوی نے میرے لڑکے کا بوسہ شہوت کے ساتھ لیا ہے مگر باندی کے آقا نے کہا کہ یہ غلط ہے، اس صورت میں نکاح ختم ہو جائے گا کیونکہ شوہر نے اس بات کا اقرار کر لیا ہے کہ میری بیوی نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا ہے لیکن شوہر پر پورا مہر واجب نہیں ہو گا بلکہ نصف مہر واجب ہو گا کیونکہ اس باندی کے مالک نے اس کی بات کو جھٹلایا ہے اس بارے میں لونڈی کا قول معتبر نہیں ہو گا کہ میں نے شہوت کے ساتھ بوسہ لیا تھا لہذا میرا پورا مہر دو۔
اگر کسی عورت نے لڑائی جھگڑے میں اپنے دادا کا عضو مخصوص پکڑ لیا اور کہا کہ میں نے شہوت کے ساتھ نہیں پکڑا تھا تو اس کی بات کا اعتبار کیا جائے گا۔
حرمت مصاہرت یا حرمت رضاعت کی وجہ سے نکاح باطل نہیں ہوتا بلکہ فاسد ہو جاتا ہے (جس کی وجہ سے جماع کرنا حرام ہو جاتا ہے لہذا شوہر کو چاہئے کہ طلاق دے دے اگر وہ طلاق نہ دے تو پھر قاضی دونوں کے درمیان جدائی کرا دے) چنانچہ جدائی سے پہلے اگر شوہر نے جماع کر لیا تو اس پر حد واجب نہیں ہو گی خواہ اس نے جماع شبہ میں مبتلا ہو کر ہی کیا ہو یا بغیر شبہ کے کیا ہو۔ اگر کسی شخص نے ایک عورت سے حرام کاری کی یا ایسا کوئی بھی فعل کیا جس سے حرمت مصاہرت ثابت ہو جاتی ہے جیسے چھونا وغیرہ اور پھر توبہ کر لی تو یہ شخص اس عورت کی لڑکی کا محرم ہی رہے گا اس لئے کہ اس کی لڑکی سے نکاح کرنا اس کے حق میں ہمیشہ کے لئے حرام ہے اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ محرمت، زنا سے ثابت ہو جاتی ہے اور ایسے ہی ان تمام چیزوں سے بھی ثابت ہو جاتی ہے جن سے حرمت مصاہرت ثابت ہوتی ہے جیسے چھونا وغیرہ۔
اگر مثلاً زید نے خالدہ سے نکاح کیا اور زید کے لڑکے نے (جو خالدہ کے پیٹ سے نہیں ہے) خالدہ کی بیٹی سے جو خالدہ کے پہلے شوہر سے ہے) نکاح کر لیا یا خالدہ کی ماں سے نکاح کر لیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اگر کسی شخص نے عضو مخصوص پر کپڑا لپیٹ کر اپنی بیوی سے جماع کیا تو دیکھا جائے گا کہ وہ کپڑا باریک تھا اور مرد کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس ہونے سے نہیں روکتا تھا تو وہ عورت جماع کے بعد پہلے شوہر کے لئے جس نے اسے طلاق مغلظہ دے دی تھی) حلال ہو جائے گی اور اگر کپڑا ایسا تھا جس کی وجہ سے اس کے عضو مخصوص کو حرارت محسوس نہیں ہو رہی تھی تو وہ عورت اپنے شوہر کے لئے حلال نہیں ہو گی۔
تیسرا سبب دودھ کا رشتہ: یعنی وہ عورتیں جو رضاعت دودھ پلانے کی وجہ سے حرام ہیں چنانچہ تمام وہ رشتے جو نسبی اور سسرالی ہونے کی وجہ سے حرام ہیں رضاعت کی وجہ سے بھی حرام رہیں گے اگر کسی عورت نے کسی بچہ کو اس کی شیر خوارگی کی عمر میں دودھ پلایا ہے تو ان دونوں میں ماں اور اولاد کا تعلق پیدا ہو جائے گا لہذا دودھ پلانے والی عورت کا شوہر دودھ والے بچہ کا رضاعی باپ ہو گا جس کی وجہ سے رضاعی ماں اور باپ کے تمام وہ رشتے دار اس بچہ کے لئے حرام ہوں گے جو حقیقی ماں اور باپ کی رشتہ داری کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں۔ شیرخوارگی کی عمر میں مطلقاً دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے خواہ زیادہ دودھ پیا ہو خواہ کم پیا ہو اور کم کی آخری حد یہ ہے کہ دودھ کا پیٹ میں مطلقاً پہنچ جانا یقینی کے ساتھ معلوم ہو جائے۔ شیرخوارگی کی عمر حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے قول کے مطابق تو تیس مہینہ تک ہے اور صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد رحمہما اللہ کے قول کے مطابق دو برس تک ہے۔
اگر کسی بچہ نے شیرخوارگی کی عمر میں دودھ پینا بند کر دیا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس نے شیرخوارگی ہی کی عمر میں دودھ پیا تو یہ رضاعت کے حکم میں داخل ہو گا کیونکہ دودھ پلانا شیرخوارگی ہی کی مدت میں واقع ہوا ہے۔ شیرخوارگی کی مدت رضاعت گزر جانے کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ دودھ پلانے کی اجرت کے استحقاق کے سلسلے میں شیرخوارگی کی مدت دو برس ہی تسلیم کی گئی ہے چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور اس مطلقہ نے اس کے بچہ کو دو برس کی عمر کے بعد دودھ پلانے کی اجرت کا مطالبہ بچہ کے باپ یعنی اپنے سابق شوہر سے کیا تو اس کا مطالبہ تسلیم نہیں ہو گا اور بچہ کے باپ کو اس بات پر مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ اپنی مطلقہ کو دو برس کے بعد کے عرصہ کے دودھ پلانے کی اجرت دے ہاں اس کی مطلقہ نے دو برس کے عرصہ میں جو دودھ پلایا ہے اس کی اجرت دینے پر اسے مجبور کیا جائے گا۔
حرمت رضاعت جس طرح رضاعی ماں یعنی دودھ پلانے والی کی رشتہ داروں میں ثابت ہوتی ہے اسی طرح رضاعی باپ کے رشتہ داروں میں بھی ثابت ہوتی ہے اور رضاعی باپ سے مراد دودھ پلانے والی کا وہ خاوند ہے جس کے جماع کی وجہ سے دودھ اترتا ہے۔
رضیع، یعنی دودھ پینے والے پر اس کے رضاعی ماں باپ اور ان رضاعی ماں باپ کے اصول یعنی ان کے باپ دادا وغیرہ) اور ان کے فروع یعنی ان کی اولاد خواہ وہ نسبی ہوں یا رضاعی سب حرام ہیں۔ یہاں تک کہ اس کے دودھ پینے سے پہلے اس کی رضاعی ماں کے ہاں جو اولاد ہو چکی ہو گی یا اس کے دودھ پینے کے بعد جو اولاد ہو گی اور وہ اولاد خواہ اس کے رضاعی باپ سے ہو خواہ اس کی رضاعی ماں کے کسی دوسرے شوہر سے ہو یا اس کی رضاعی بہن اور بھائی بہن کی اولاد اس کے بھتیجے، بھتیجی اور بھانجے بھانجی ہوں گے، اسی طرح رضاعی باپ کا بھائی اس کا چچا ہو گا رضاعی باپ کی بہن اس کی پھوپھی ہو گی رضاعی ماں کا بھائی اس کا ماموں ہو گا۔ رضاعی ماں کی بہن اس کی خالہ ہو گی اور رضاعی ماں کا دادا اور اس کی دادی و نانی رضیع کا دادا اور اس کی دادی و نانی ہو گی۔
جس طرح رضاعت میں نسبی رشتوں کی حرمت ثابت ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے اسی طرح رضاعت میں حرمت مصاہرت یعنی سسرالی رشتہ کی حرمت بھی ثابت ہوتی ہے چنانچہ رضاعی باپ کی بیوی اور رضیع دودھ پینے والے پر حرام ہیں اور رضیع کی بیوی اس کے رضاعی باپ پر حرام ہے اسی دوسرے رشتوں کو بھی قیاس کیا جاتا ہے لیکن دو صورتیں مستثنی ہیں اول تو یہ کہ اگر کوئی شخص یہ چاہے کہ اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کر لے تو یہ اس کے لئے جائز نہیں ہے لیکن رضاعت یعنی دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ کسی شخص کے نسبی بیٹے کی بہن اگر اس کے نطفہ سے ہے تو وہ اس کی حقیقی بیٹی ہو گی اور اگر اس کے نطفہ سے نہیں ہے تو پھر یہ یعنی اس کی سوتیلی بیٹی ہو گی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں چنانچہ اگر نسبی رشتہ میں بھی ان دونوں باتوں میں سے ایک بھی بات نہیں پائی جائے گی تو نکاح درست ہو گا مثلاً کسی ایسی لونڈی کے بچہ پیدا ہوا جو دو آدمیوں کی مشترک مملوکہ ہے اور وہ دونوں شریک اس بچہ پر اپنا اپنا دعوی کرتے ہیں یہاں تک کہ اس بچہ کا نسب ان دونوں سے ثابت ہو گیا ہے، ادھر ان دونوں کے ہاں اپنی اپنی عورت سے ایک ایک بیٹی ہے تو اب ان دونوں میں سے ہر ایک کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ دوسرے شریک کی بیٹی سے اپنا نکاح کر لے کیونکہ اس صورت میں دونوں باتوں میں اسے ایک بات بھی نہیں پائی گئی باوجودیکہ ان میں سے جس نے بھی دوسرے کی بیٹی سے نکاح کیا ہے اس نے گویا اپنے نسبی بیٹے کی بہن سے نکاح کیا ہے۔
دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ کسی شخص کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے نسبی بھائی کی ماں سے نکاح کرے اور دودھ کے رشتہ میں یہ جائز ہے کیونکہ نسبی رشتہ میں یا تو یہ صورت ہو گی کہ وہ دونوں اخیافی یعنی سسرالی صرف ماں شریک) بھائی ہوں گے اسی طرح دونوں کی ماں ایک ہی ہو گی یا یہ صورت ہو گی کہ وہ دونوں سوتیلے صرف باپ شریک بھائی ہوں گے اسی طرح بھائی کی ماں اپنے باپ کی بیوی ہو گی جب کہ دودھ کے رشتہ میں یہ دونوں باتیں مفقود ہوتی ہیں۔
دودھ شریک بھائی کی بہن سے یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جس طرح کہ نسبی رشتہ میں جائز ہے مثلاً زید کا ایک سوتیلا بھائی ہے جس کا نام بکر ہے اور بکر کی ایک اخیافی بہن ہے یعنی دونوں کی ماں تو ایک ہے مگر باپ الگ الگ ہیں تو بکر کی اس اخیافی بہن سے نکاح کرنا زید کے لئے جائز ہو گا جو بکر کا سوتیلا بھائی ہے۔
دودھ شریک بھائی کی ماں یعنی جس نے اس کی ماں کا دودھ پیا ہے اس کی ماں) محرمات میں سے نہیں ہے اسی طرح رضاعی چچا رضاعی ماموں رضاعی پھوپھی اور رضاعی خالہ کی ماں بھی محرمات میں سے نہیں۔ اپنی رضاعی پوتی کی ماں سے نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح اپنے رضاعی بیٹے کی دادی اور نانی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے۔ رضاعی بیٹے کی پھوپھی اس کی بہن کی ماں اس کی بھانجی اور اس کی پھوپھی کی بیٹی سے بھی نکاح کرنا جائز ہے، اسی طرح عورت کو اپنی رضاعی بہن کے باپ اپنے رضاعی بیٹے کے بھائی اپنے رضاعی پوتے کے باپ اور اپنے رضاعی بیٹے کے دادا اور ماموں سے نکاح کرناجائز ہے جب کہ نسبی رشتہ میں یہ سب محرمات میں سے ہیں جن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔
کسی شخص نے اپنی بیوی کو جس کے دودھ اترا ہوا تھا طلاق دے دی پھر اس مطلقہ نے عدت کے دن گزار کر ایک دوسرے شخص سے نکاح کر لیا اور اس دوسرے خاوند نے اس سے جماع کیا تو اس بارے میں علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جب اس دوسرے خاوند کے نطفہ سے اس کے بچہ پیدا ہو گا تو اس عورت کے دودھ کا سبب بھی دوسرا خاوند قرار پائے گا اس کے دودھ سے پہلے خاوند کا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا ہاں اگر دوسرے خاوند سے حاملہ نہیں ہو گی تو اس دودھ کا سبب پہلا ہی خاوند سمجھا جائے گا۔ لیکن اگر یہ صورت ہو کہ دوسرے شوہر سے حاملہ تو ہوئی مگر ابھی بچہ پیدا نہیں ہوا ہے تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ جب تک اس دوسرے شوہر کا بچہ پیدا نہ ہو جائے دودھ پہلے شوہر ہی کا کہلائے گا۔ ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن اس سے کبھی بھی کوئی بچہ پیدا نہیں ہوا پھر (بغیر کسی ولادت کے) اس کے دودھ اتر آیا اور وہ دودھ اس نے کسی دوسرے کے بچے کو پلایا تو وہ دودھ اسی عورت کا کہلائے گا اس کے خاوند کا اس دودھ سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ اس صورت میں اس دودھ پینے والے بچہ اور اس شخص کی اس اولاد کے درمیان جو دوسری بیوی سے ہو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔
ایک شخص نے کسی عورت سے زنا کیا جس کے نتیجہ میں اس کے ہاں ولادت ہوئی اور پھر اس عورت نے کسی دوسری لڑکی کو دودھ پلایا تو اس زنا کرنے والے اس کے باپ دادا اور اس کی اولاد کو اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا ہاں زنا کرنے والے کا چچا اور اس کا ماموں نکاح کر سکتا ہے جس طرح کہ زنا کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی لڑکی سے زنا کرنے والے کا چچا اور ماموں نکاح کر سکتا ہے۔ کسی شخص نے شبہ میں مبتلا ہو کر یعنی کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر ایک عورت سے جماع کیا جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور پھر اس نے کسی بچہ کو دودھ پلایا تو یہ بچہ اس جماع کرنے والے کا رضاعی بیٹا ہو گا اس پر یہ قیاس کیا جانا چاہئے کہ جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنے والے سے ثابت ہوتا ہے انہی صورتوں میں رشتہ رضاعت بھی اس سے ثابت ہو گا اور جن صورتوں میں بچہ کا نسب جماع کرنے والے سے ثابت نہیں ہوتا اس صورت میں رشتہ رضاعت دودھ پلانے والی عورت سے ثابت ہو گا۔
کسی شخص نے ایک عورت سے نکاح کیا اور اس سے عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوا۔ عورت نے اپنے بچہ کو دودھ پلایا اور بعد میں دودھ خشک ہو گیا کچھ عرصہ کے بعد دودھ پھر اتر آیا اور اس نے کسی دوسرے لڑکے کو وہ دودھ پلایا تو اس لڑکے کے لئے اس شخص کی اس اولاد سے نکاح کرنا جائز ہو گاجو اس دودھ پلانے والی عورت کے علاوہ کسی دوسری بیوی کے بطن سے ہو۔
کسی کنواری لڑکی کے دودھ اتر آیا اور اس نے وہ دودھ کسی بچی کو پلایا تو یہ اس بچی کی رضاعی ماں ہو گی اور رضاعت کے تمام احکام دونوں کے حق میں ثابت ہوں گے لہذا اگر کسی شخص نے اس کنواری لڑکی سے نکاح کیا اور جماع سے پہلے اسے طلاق دے دی تو اس شخص کے لئے اس دودھ پینے والی لڑکی سے نکاح کرنا جائز ہو گا (کیونکہ اس صورت میں بیوی کی بیٹی کا بھی یہی حکم ہے) اور اگر جماع کے بعد طلاق دی تو اس لڑکی سے نکاح کرنا ناجائز ہو گا۔
اگر کسی ایسی لڑکی کے دودھ اتر آیا جس کی عمر نو برس سے کم تھی اور پھر اس نے وہ دودھ ایک لڑکے کو پلایا تو اس سے دونوں کے درمیان حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی کیونکہ حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے جب کہ دودھ نو برس یا نو برس سے زائد کی عمر میں اترے۔ اسی طرح اگر کسی کنواری لڑکی کی چھاتیوں میں زرد رنگ کا پانی اتر آیا تو اس کے پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔
کسی عورت نے ایک بچہ کے منہ میں اپنی چھاتی داخل کر دی لیکن بچہ کا اس کی چھاتی سے دودھ چوسنا معلوم نہیں ہوا تو اس صورت میں شک کی وجہ سے حرمت رضاعت کا حکم نافذ نہیں کیا جائے گا البتہ احتیاط کا تقاضا یہی ہے کہ حرمت ثابت ہو جائے۔
کسی عورت کی چھاتی سے زرد رنگ کی بہنے والی پتلی چیز بچہ کے منہ میں پہنچ گئی تو حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی اور یہی کہا جائے گا کہ یہ دودھ ہی ہے جس کا رنگ متغیر ہو گیا ہے۔
اگر کسی مرد کی چھاتیوں میں دودھ اتر آیا اور اس نے کسی بچہ کو پلا دیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی اور حرمت ثابت ہونے کے لئے زندہ اور مردہ عورت کے دودھ کا یکساں حکم ہے۔ اور اگر دو بچوں نے کسی ایک چار پائے جانور کا دودھ پیا تو اس سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہو گی۔
رضاعت کا حکم دار الاسلام اور دار الحرب دونوں جگہ یکساں ہے لہذا اگر کسی کافر عورت نے دار الحرب میں کسی کافر بچہ کو دودھ پلایا اور پھر وہ دودھ پلانے والی اس کے قرابت دار اور دودھ پینے والا بچہ مسلمان ہو گئے یا وہ دار الحرب میں اسلام ہی کی حالت میں تھے اور پھر دار الحرب سے دار الاسلام میں آ گئے تو پھر رضاعت کے تمام احکام نافذ ہوں گے۔
جس طرح عورت کی چھاتی سے دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے اسی طرح بچہ کے منہ میں دودھ ڈال دینے یا ناک میں نچوڑ دینے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے البتہ کان میں ٹپکانے عضو مخصوص کے سوراخ میں ڈالنے حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے اور مقعد میں اور دماغ اور پیٹ کے زخم میں ڈالنے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اگرچہ دودھ ان زخموں کے ذریعہ دماغ اور پیٹ میں پہنچ جائے۔ لیکن حضرت امام محمد کے نزدیک حقنہ کے ذریعہ استعمال کرنے سے حرمت ثابت ہو جاتی ہے۔
اگر غذا کی کسی چیز میں دودھ مل گیا اور اسے آگ پر پکا کر کھانا بنا لیا گیا جس کی وجہ سے دودھ کی حقیقت بدل گئی تو اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی خواہ دودھ غالب ہو یا مغلوب ہو اور اگر دودھ ملی ہوئی چیز آگ پر پکائی نہیں گئی تو اس صورت میں بھی اس کو کھانے سے حرمت ثابت نہیں ہو گی۔ بشرطیکہ اس چیز میں دودھ غالب نہ ہو اور اگر وہ دودھ غالب ہو گا تو بھی حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک حرمت ثابت نہیں ہو گی کیونکہ جب بہنے والی چیز جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو گئی تو بہنے والی چیز اس جمی ہوئی چیز کے تابع ہو گئی اور مشروبات کی قسم سے خارج ہو گئی یعنی پینے کے قابل نہیں رہی اسی لئے علماء نے کہا ہے کہ جس چیز میں دودھ مخلوط ہو گیا اگر وہ غالب نہ ہو اور اب بھی وہ دودھ بہنے کے قابل ہو تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔
اگر عورت کا دودھ(کسی جانور مثلاً) بکری کے دودھ میں مخلوط ہو گیا اور عورت کا دودھ غالب ہے تو اس کے پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی۔ اسی طرح اگر عورت نے اپنے دودھ میں روٹی بھگوئی اور روٹی نے دودھ کو جذب کر لیا یا اپنے دودھ میں ستو گھولا اور پھر وہ روٹی یا ستو کسی بچہ کو کھلا دیا تو اگر اس میں دودھ کا ذائقہ موجود ہو تو حرمت ثابت ہو جائے گی۔ لیکن ذائقہ کی موجودگی کی شرط اسی صورت میں ہے جب کہ اس کو لقمہ لقمہ کر کے کھلایا جائے اور اگر گھونٹ گھونٹ کر کے پلایا گیا تو پھر اگر ذائقہ موجود نہ ہو تب بھی حرمت ثابت ہو جائے گی،
اگر عورت کا دودھ پانی یا دوا یا جانور کے دودھ میں مخلوط ہو گیا تو اس میں غالب کا اعتبار ہو گا یعنی اگر وہ دودھ غالب ہو گا تو اس کو پینے سے حرمت ثابت ہو جائے گی اور اگر پانی وغیرہ غالب ہو گا تو حرمت ثابت نہیں ہو گی) اس طرح اگر عورت کا دودھ کسی بھی پتیل سیال چیز یا کسی بھی جمی ہوئی چیز میں مخلوط ہو جائے تو غالب کا اعتبار ہو گا اور غالب سے مراد یہ ہے کہ اس کا رنگ بو اور ذائقہ تینوں چیزیں یا ان میں سے کوئی ایک چیز محسوس و معلوم ہو۔ اور اگر دونوں چیزیں یعنی دودھ اور وہ چیز جس میں دودھ مخلوط ہو گیا ہے برابر ہوں تو حرمت کا ثابت ہونا ضروری ہو جائے گا کیونکہ دودھ مغلوب نہیں ہے۔
اگر دو عورتوں کا دودھ باہم مل گیا ہے تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک اس عورت سے حرمت رضاعت ثابت ہو گی جس کا دودھ زیادہ اور غالب ہو لیکن حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں دونوں عورتوں سے حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی حضرت امام ابو حنیفہ کا ایک قول بھی اسی کے مطابق ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور اقرب الی الاحتیاط ہے اور اگر دونوں عورتوں کا دودھ برابر ہو تو متفقہ طور پر یعنی ان تینوں ائمہ کے نزدیک مسئلہ یہی ہے کہ دونوں عورتوں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
اگر کسی عورت نے اپنے دودھ کا چھاچھ یا دہی یا پنیر اور یا ماوا وغیرہ بنا لیا اور اسے کسی بچہ کو کھلا دیا تو اس سے حرمت ثابت نہیں ہو گی کیونکہ اس پر رضاعت یعنی دودھ پینے کا اطلاق نہیں ہوتا۔
بستی و گاؤں کی کسی عورت نے ایک بچی کو دودھ پلایا مگر بعد میں یہ کسی کو بھی یاد و معلوم نہیں رہا کہ وہ دودھ پلانے والی عورت کون تھی اور پھر اس بستی کے کسی شخص نے اس لڑکی سے نکاح کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا۔
عورتوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت کسی بچی کو اپنا دودھ نہ پلائیں اور اگر کسی بچہ کو اپنا دودھ پلائیں تو یاد رکھیں یا لکھ لیا کریں عورتوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ بلا ضرورت دوسروں کے بچوں کے منہ میں اپنی چھاتی دے دیتی ہیں اور انہیں دودھ پلا دیتی ہیں اور پھر بعد میں انہیں یاد بھی نہیں رہتا کہ کس بچہ کو میں نے اپنا دودھ پلایا ہے اس کی وجہ سے حرمت رضاعت کے احکام کی صریحاً خلاف ورزی ہوتی ہے لہذا اس بارے میں احتیاط ضروری ہے۔
دودھ خواہ پہلے پلایا ہو خواہ بعد میں پلایا گیا ہو حرمت رضاعت بہرصورت ثابت ہو جائے گی پہلے اور بعد میں کوئی فرق نہیں ہو گا لہذا اگر کسی شخص نے ایک شیرخوار بچی سے نکاح کر لیا اور پھر بعد میں اس شخص یعنی خاوند کی نسبی یا رضاعی ماں نے یا بہن نے یا لڑکی نے آ کر اس کو اپنا دودھ پلا دیا تو یہ بچی اس شخص کے لئے حرام ہو جائے گی اور اس پر نصف مہر واجب ہو گا لیکن اس نصف مہر کے طور پر جو رقم وہ ادا کرے گا اسے وہ مرضعہ یعنی دودھ پلانے والی سے وصول کر لے گا بشرطیکہ اس دودھ پلانے والی نے محض شرارت یعنی نکاح ختم کرانے کے لئے اپنا دودھ پلا دیا ہو اور اگر اس نے شرارت کی نیت سے دودھ نہ پلایا ہو بلکہ وہ بچی بھوک سے بلک رہی تھی اور اس عورت نے ہمدردی کے جذبہ سے اسے دودھ پلا دیا تو پھر خاوند اس سے اپنی رقم کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
کسی شخص نے دو شیرخواربچیوں سے نکاح کیا اس کے بعد ایک اجنبی عورت نے آ کر ان دونوں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے دودھ پلا دیا تو وہ دونوں بچیاں شوہر کے لئے حرام ہو جائیں گی اور پھر اس کے بعد وہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جسے وہ پسند کرے نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر اس کے نکاح میں دو کی بجائے تین بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان تینوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا تو وہ تینوں حرام ہو جائیں گی اس کے بعد وہ ان تینوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔ اور اگر تینوں کو یکے بعد دیگرے پلایا تو پہلی دو تو حرام ہو جائیں گی اور تیسری اس کی بیوی رہے گی اور اگر پہلے تو دو بچیوں کو ایک ساتھ دودھ پلایا اور اس کے بعد تیسری کو پلایا تو بھی یہی حکم ہو گا۔ اور اگر پہلے ایک لڑکی کو پلایا اور بعد میں دو کو ایک ساتھ پلایا تو تینوں حرام ہو جائیں گی اور ان میں سے ہر ایک بچی کا نصف مہر اس پر واجب ہو گا جسے وہ دودھ پلانے والی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے دودھ پلایا ہو اور اگر اس کے نکاح میں چار بچیاں ہوں اور اس عورت نے ان چاروں بچیوں کو ایک ساتھ یا یکے بعد دیگرے ایک ایک کر کے دودھ پلایا ہو تو چاروں حرام ہو جائیں گی اور اگر پہلے ایک کو اور پھر تین کو ایک ساتھ پلایا ہو تو بھی یہی حکم ہو گا اور اگر پہلے تین کو ایک ساتھ اور بعد میں چوتھی کو پلایا تو چوتھی حرام نہیں ہو گی۔
اگر کسی شخص نے ایک بڑی عورت سے اور ایک شیرخوار بچی سے نکاح کیا اور پھر بڑی نے چھوٹی کو اپنا دودھ پلا دیا تو شوہر کے لئے دونوں حرام ہو جائیں گی اب اگر اس شخص نے بڑی سے جماع نہیں کیا تھا تو اسکو کچھ مہر نہیں ملے گا اور چھوٹی کو اس کا آدھا مہر دینا واجب ہو گا جسے وہ بڑی سے وصول کرے گا بشرطیکہ اس نے شرارت کی نیت سے اسے دودھ پلایا ہو اور اگر اس نے دودھ شرارت کی نیت سے نہیں پلایا تو اس سے کچھ وصول نہیں کیا جائے گا اگرچہ اس بڑی کو یہ معلوم ہو کہ یہ چھوٹی بچی میرے شوہر کی بیوی ہے۔
رضاعت دودھ پلانے کا ثبوت دو باتوں میں سے کسی ایک بات سے ہو جاتا ہے ایک تو اقرار یعنی کوئی عورت خود اقرار کرے کہ میں نے فلاں کو دودھ پلایا ہے اور دوسرے گواہی یعنی گواہ یہ گواہی دیں کہ فلاں عورت نے فلاں بچے کو دودھ پلایا ہے) اور رضاعت کے سلسلہ میں گواہی یا تو دو مردوں کی معتبر ہوتی ہے یا ایک مرد اور دو عورتوں کی بشرطیکہ وہ عادل ہوں۔
(حرمت رضاعت کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان) جو تفریق جدائی ہوتی ہے وہ قاضی کے حکم کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے اور جب دو عادل مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں کسی میاں بیوی کے درمیان رضاعت کے رشتہ کی گواہی دیں اور اس کی بنیاد پر قاضی ان دونوں کے درمیان تفریق کرا دے تو عورت کو کچھ نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو اور اگر جماع ہو چکا ہو گا تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو گی وہ مہر خاوند پر واجب ہو گا اور نفقہ و سکنہ یعنی کھانے پینے کا خرچ اور رہنے کے لئے مکان واجب نہیں ہو گا۔
اگر دو عادل مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں نے نکاح ہو جانے کے بعد شادی شدہ عورت کے سامنے گواہی دی اور کہا کہ شوہر کے ساتھ تمہارا رشتہ رضاعت ثابت ہوتا ہے) تو اس عورت کے لئے شوہر کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ شہادت صحیح ہے بایں طور کہ جس طرح یہ شہادت اگر قاضی کے سامنے دی جاتی تو رضاعت ثابت ہو جاتی اور وہ دونوں کے درمیان تفریق کرا دیتا ہے) اسی طرح جب یہ شہادت عورت کے سامنے آئے گی تو اس کا حکم بھی وہ یہی ہو گا اور اگر رضاعت کی یہ خبر صرف ایک شخص دے اور اس عورت کے دل میں یہ بات پیدا ہو جائے کہ یہ شخص سچ کہہ رہا ہے تو شوہر سے پرہیز کرنا بہتر ہے لیکن واجب نہیں ہے۔
ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا اور اس کے بعد ایک دوسری عورت نے آ کر ان دونوں میاں بیوی سے کہا کہ میں نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے تو اس مسئلہ کی چار صورتیں ہوں گی،
-1 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار کر لیا تو نکاح فاسد ہو جائے گا اور عورت کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو۔
-2 اگر دونوں میاں بیوی نے اس عورت کا اعتبار نہ کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن اگر وہ عورت جس نے رشتہ رضاعت کی خبر دی ہے) عادل ہے تو پھر احتیاط کا تقاضہ یہی ہو گا کہ خاوند اپنی بیوی کو چھوڑ دے اب اگر اس نے چھوڑ دیا تو بہتر ہے کہ خاوند نصف مہر دے دے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ کچھ نہ لے بشرطیکہ چھوڑنا جماع سے پہلے ہو اور اگر چھوڑنے سے پہلے جماع ہو چکا ہو تو مرد کے لئے بہتر یہ ہے کہ وہ اس کا پورا مہر بھی دے دے اور عدت کے ایام پورے ہونے تک نفقہ و سکنہ بھی دے اور عورت کے لئے بہتر یہ ہے کہ مہر مثل و مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو وہ لے لے اور نفقہ و سکنہ نہ لے اور اگر خاوند نے بیوی کو نہیں چھوڑا یعنی اس نے طلاق نہیں دی) تو بیوی کو خاوند کے پاس رہنا جائز ہے اسی طرح اگر دو عورتوں نے یا ایک مرد اور ایک عورت نے یا دو غیر عادل مردوں نے یا غیر عادل ایک مرد اور دو عورتوں نے رضاعت کی گواہی دی تو اس کا بھی یہی حکم ہو گا یعنی خاوند کے لیے بہتر یہی ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو چھوڑ دے۔
-3 اگر خاوند نے اس عورت کا اعتبار کیا اور بیوی نے اعتبار نہیں کیا تو نکاح فاسد ہو جائے گا اور مہر دینا واجب ہو گا
-4 اگر بیوی نے اس عورت کا اعتبار کیا مگر خاوند نے اس کا اعتبار نہیں کیا تو نکاح بحالہ باقی رہے گا لیکن بیوی کے لئے ضروری ہے کہ وہ خاوند سے قسم کھلوائے کہ وہ واقعۃً اس عورت کی بات کو صحیح نہیں سمجھتا) اور اگر خاوند قسم کھانے سے انکار کر دے تو دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔
ایک مرد نے کسی عورت سے نکاح کیا اور پھر کہنے لگا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا اس کی طرف اسی قسم کے کسی اور رضاعی رشتہ کی نسبت کی اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے وہم ہو گیا تھا میں نے جو کچھ کہا تھا غلط تھا تو استحساناً ان دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی بشرطیکہ وہ اپنی اس دوسری بات پر قائم رہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) اور اگر وہ اپنی پہلی بات پر قائم رہے اور یہ کہے کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں دونوں کے درمیان تفریق کرا دی جائے گی پھر اس کے بعد وہ اپنی پہلی بات سے انکار کرے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ اور اگر عورت نے اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق کر دی تو اس کو کچھ مہر نہیں ملے گا بشرطیکہ اس کے ساتھ جماع نہ ہوا ہو) اور اگر اس عورت کے ساتھ جماع ہو چکا ہو اور وہ اپنے خاوند کی اس بات کی تصدیق نہ کرے تو مرد پر اس کا پورا مہر اور نفقہ و سکنہ واجب ہو گا۔
اور اگر مرد نے کسی عورت کے بارے میں اس سے نکاح کرنے سے پہلے یہ کہا کہ یہ میری رضاعی بہن ہے یا رضاعی ماں ہے اور پھر بعد میں کہنے لگا مجھے وہم ہو گیا تھا یا مجھ سے چوک ہو گئی تھی (یعنی میں نے پہلے جو کچھ کہا تھا غلط ہے) تو اس شخص کو اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہو گا۔ اور اگر اپنی سابقہ بات پر قائم رہا یعنی بعد میں اس نے کہا کہ میں نے جو کچھ پہلے کہا تھا وہ صحیح ہے تو اس صورت میں اس عورت سے اس کو نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا اور اگر وہ اس کے باوجود نکاح کر لے تو ان دونوں کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی اور اگر وہ اپنے سابقہ اقرار ہی سے مکر جائے (یعنی یہ کہنے لگے کہ میں نے یہ اقرار نہیں کیا تھا کہ یہ میری رضاعی ماں یا بہن ہے) لیکن دو شخص اس بات کی گواہی دیں کہ اس نے اقرار کیا تھا تو پھر اس صورت میں ان کے درمیان جدائی کرا دی جائے گی۔
اگر کسی عورت نے کسی مرد کے بارے میں اقرار کیا کہ یہ میرا رضاعی باپ رضاعی بھائی یا رضاعی بھتیجا ہے لیکن مرد نے اس کا انکار کیا اور اس کے بعد پھر عورت نے بھی اپنے قول کی تردید کی اور کہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی تھی تو اس عورت سے نکاح جائز ہو جائے گا اور اسی طرح اگر مرد نے اس عورت سے نکاح کر لیا قبل اس کے کہ وہ عورت اپنے قول کی تردید کرتی تو نکاح صحیح ہو گا۔
اگر کسی مرد نے کسی عورت سے جو اس کے نکاح میں ہو اپنے نسبی رشتہ کا اقرار کیا یعنی یوں کہا کہ یہ عورت میری حقیقی ماں ہے یا حقیقی بہن ہے یا حقیقی بیٹی ہے اور اس عورت کا نسب کسی کو معلوم نہیں ہے نیز وہ مرد یہ صلاحیت رکھتا ہے (یعنی اس کے بارے میں یہ گمان ہو سکتا ہے کہ وہ عورت اس کی ماں یا بیٹی ہو تو) اس مرد سے دوبارہ پوچھا جائے گا اب اگر وہ یہ کہے کہ مجھے وہم ہو گیا تھا یا میں چوک گیا تھا، یا میں نے غلط کہا تھا تو استحساناً ان کا نکاح باقی رہے گا اور اگر دوبارہ پوچھے جانے پر اس نے یہ کہا کہ میں نے جو کچھ کہا تھا وہی صحیح ہے تو پھر دونوں میں تفریق کرا دی جائے گی۔ اور اگر مرد یہ صلاحیت نہیں رکھتا یعنی ان دونوں کی عمر میں اس قدر تفاوت ہے کہ وہ اس بات کا امکان نہیں رکھتا) کہ وہ عورت جس عمر کی ہے اس عمر کی کوئی عورت اس کی حقیقی ماں یا اس کی حقیق بہن ہو سکے تو نسب ثابت نہیں ہو گا اور ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اگر مرد نے اپنی بیوی کے بارے میں کہا کہ یہ میری حقیقی لڑکی ہے اور پھر بعد میں اپنی اس بات کی تردید بھی نہیں کی بلکہ اس پر اصرار کرتا رہا حالانکہ لوگوں کو اس لڑکی کا نسب معلوم ہے (یعنی دنیا جانتی ہے کہ یہ لڑکی اس کی نہیں ہے بلکہ دوسرے کی ہے) تو ان دونوں کے درمیان جدائی نہیں کرائی جائے گی اور اسی طرح اگر اس نے یہ کہا کہ یہ میری حقیقی ماں ہے حالانکہ لوگوں کو اس کا نسب معلوم ہے (یعنی سب جانتے ہیں کہ یہ اس کی ماں نہیں ہے) تو اس صورت میں بھی دونوں کے درمیان تفریق نہیں کرائی جائے گی
چوتھا سبب جمع کرنا: یعنی وہ عورتیں جو دوسری عورتوں کے ساتھ جمع ہو کر محرمات میں سے ہو جاتی ہیں اور ان کی دو قسمیں ہیں۔
(١) اجنبی عورتوں کو جمع کرنا (٢) ذوات الارحام کو جمع کرنا
پہلی قسم یعنی اجنبی عورتوں کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شریعت نے جس قدر نکاحوں کی اجازت دی ہے ان سے زیادہ نکاح کرنا چنانچہ شریعت نے آزاد مرد کو ایک وقت میں چار نکاح تک کی اجازت اور غلام کو ایک وقت میں دو نکاح تک کی اجازت دی ہے لہذا کسی آزاد شخص کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں چار سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے (یعنی چار سے زیادہ عورتوں کو اپنی بیوی بنائے) اور غلام کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک وقت میں دو سے زیادہ عورتوں کو جمع کرے آزاد شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ ایک وقت میں جتنی چاہے بغیر نکاح باندیاں رکھے باندیاں رکھنے کی تعداد کی کوئی قید نہیں ہے لیکن غلام کو بغیر نکاح باندی رکھنا جائز نہیں ہے۔ اگرچہ اس کا آقا اجازت دے دے آزاد شخص کے لئے جائز ہے کہ وہ بیک وقت چار عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے اور وہ چار عورتیں خواہ آزاد ہوں خواہ باندیاں ہوں اور آزاد دونوں ملی جلی ہوں۔
اگر کسی شخص نے پانچ عورتوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو پہلی چار کا نکاح جائز اور پانچویں کا باطل ہو گا اور اگر پانچوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو پانچوں کا نکاح باطل ہو گا اسی طرح اگر کسی غلام نے تین عورتوں سے نکاح کیا تو یہی تفصیل ہو گی کہ ان تینوں سے یکے بعد دیگرے نکاح کرنے کی صورت میں تو پہلی دونوں کا نکاح صحیح ہو جائے گا اور تیسری کا باطل ہو گا اور اگر تینوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو تینوں کا نکاح باطل ہو گا۔
اگر کسی حربی کافر نے پانچ کافرہ عورتوں سے نکاح کیا اور پھر وہ سب یعنی بانچوں بیویاں اور شوہر مسلمان ہو گئے تو اگر یہ پانچوں نکاح یکے بعد دیگرے ہوئے تھے تو پہلی چار بیویاں جائز رہیں گی اور پانچویں بیوی سے جدائی کرا دی جائے گی اور اگر پانچوں نکاح ایک ہی عقد میں ہوئے تھے تو پانچوں کا نکاح باطل ہو جائے گا اور ان پانچوں سے شوہر کی جدائی کرا دی جائے گی۔
اگر کسی عورت نے ایک عقد میں دو مردوں سے نکاح کیا اور ان میں سے ایک شخص کے نکاح میں پہلے سے چار عورتیں تھیں تو اس کا نکاح اس دوسرے شخص کے ساتھ صحیح ہو گا (جس کے نکاح میں پہلے چار بیویاں نہیں تھیں اور اگر ان دونوں کے نکاح میں پہلے سے چار بیویاں تھیں یا ان میں سے کسی ایک کے بھی نکاح میں چار عورتیں نہیں تھیں تو یہ نکاح کسی کے ساتھ بھی صحیح نہیں ہو گا۔
جمع کرنے کی دوسری قسم یعنی ذوات الارحام کو جمع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھا جائے گا جو آپس میں ذی رحم اور نسبی رشتہ دار ہوں چنانچہ دو بہنوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے اسی طرح دو بہنوں کو باندی بنا کر ان سے جماع کرنا بھی حرام ہے یعنی اگر دو بہنیں بطور باندی کسی کی ملکیت میں ہوں تو دونوں سے جماع نہ کیا جائے اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے خواہ وہ دونوں نسبی حقیقی بہنیں ہوں یا رضاعی بہنیں ہوں۔
اس بارے میں اصول اور ضابطہ یہ ہے کہ ایسی دو عورتیں جو ایک دوسرے کی رشتہ دار ہوں اور ایسا رشتہ ہو کہ اگر ان میں سے کسی ایک کو مرد فرض کر لیا جائے تو آپس میں ان دونوں کا نکاح درست نہ ہو خواہ وہ رشتہ نسبی حقیقی ہو یا رضاعی ہو تو ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہوتا لہذا جس طرح دو حقیقی یا رضاعی بہنوں کو جمع کرنا حرام ہے اسی طرح لڑکی اور اس کی حقیی یا رضاعی پھوپھی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے ایسے ہی کسی لڑکی اور اس کی حقیقی یا رضاعی خالہ یا اسی قسم کی کسی اور رشتہ دار کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔ ہاں کسی عورت اور اس کے پہلے خاوند کی لڑکی کو جو اس عورت کے بطن سے نہیں ہے) بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے کیونکہ اگر اس عورت کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے شوہر کی اس لڑکی سے اس کو نکاح کرنا جائز ہو گا بخلاف اس کے عکس کے کہ اگر اس لڑکی کو مرد فرض کر لیا جائے تو اس کے لئے اس عورت یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا) اسی طرح کسی عورت اور اس کی باندی کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہے بشرطیکہ پہلے اس باندی سے نکاح کیا ہو۔
اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے ایک ہی عقد میں نکاح کیا تو نکاح باطل ہو گا اور ان دونوں کو ان کے شوہر سے جدا کرا دیا جائے گا اور پھر یہ جدائی اگر دخول یعنی جماع سے پہلے ہو گی تو ان دونوں کو مہر کے طور پر کچھ نہیں دلوایا جائے گا اور اگر جدائی دخول کے بعد ہو گی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو گی وہ ان دونوں میں سے ہر ایک کو دیا جائے گا۔ اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے مختلف عقد میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کیا تو جو نکاح بعد میں ہو گا وہ فاسد ہو جائے گا اور شوہر کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ اس سے علیحدگی اختیار کرے اگر وہ خود سے علیحدگی اختیار نہ کرے اور قاضی کو اس کا علم ہو جائے تو قاضی علیحدگی کرا دے۔ اور پھر یہ علیحدگی اگر دخول جماع سے پہلے واقع ہو گئی تو علیحدگی کے احکام (یعنی مہر و عدت وغیرہ) میں سے کوئی حکم نافذ نہیں ہو گا اور اگر دخول کے بعد علیحدگی واقع ہو گئی تو مہر مثل اور مہر متعین میں سے جس کی مقدار کم ہو گی وہ مہر مل جائے گا اور اس پر عدت واجب ہو گی اور اگر بچہ پیدا ہوا تو اس کا نسب ثابت ہو گا اور اس شخص کو اپنی بیوی یعنی پہلی منکوحہ سے اس وقت تک علیحدہ رہنا ہو گا جب تک کہ اس کی بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے اور اگر کسی شخص نے دو بہنوں سے دو عقدوں میں یعنی یکے بعد دیگرے نکاح کر لیا مگر یہ معلوم نہیں کہ کس بہن سے پہلے اور کس بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو ایسی صورت میں شوہر کو حکم دیا جائے گا کہ وہ بیان کرے اگر وہ بیان کر دے کہ فلاں بہن سے پہلے اور فلاں بہن سے بعد میں نکاح کیا تھا تو اس بیان کے مطابق عمل کیا جائے (یعنی پہلی کا نکاح باقی اور دوسری کا نکاح باطل قرار دیا جائے اور اگر شوہر بھی بیان نہ کر سکے تو پھر قاضی ان دونوں ہی سے شوہر کی علیحدگی کرا دے، علیحدگی کے بعد ان دونوں کو نصف مہر ملے گا بشرطیکہ دونوں کا مہر برابر ہو اور عقد کے وقت متعین ہوا ہو اور یہ علحیدگی بھی جماع سے پہلے واقع ہوئی ہو اور اگر دونوں کا مہر برابر نہ ہو تو ان میں سے ہر ایک کو دوسرے کے مہر کا چوتھائی حصہ ملے گا اور اگر عقد کے وقت مہر متعین نہ ہوا تو آدھے مہر کی بجائے ایک جوڑا کپڑا دونوں کو دیا جائے گا۔ اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی ہو تو ہر ایک کو اس کا مہر پورا ملے گا۔
اور ابو جعفر ہندوانی فرماتے ہیں کہ مسئلہ مذکورہ کا یہ حکم اس وقت ہو گا جب کہ ان دونوں میں سے ہر ایک یہ دعوی کرے کہ پہلے مجھ سے نکاح ہوا تھا اور گواہ کی ایک کے بھی پاس نہ ہوں تو دونوں کو نصف مہر دلایا جائے گا لیکن اگر دونوں یہ کہیں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں کہ ہم میں سے کس کا نکاح پہلے ہوا ہے تو ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا جائے گا جب تک کہ دونوں کسی ایک بات پر متفق ہو کر صلح نہ کر لیں اور دونوں کے صلح کی صورت یہ ہو گی کہ وہ دونوں قاضی کے پاس جا کر یہ کہیں کہ ہم دونوں کا مہر ہمارے خاوند پر واجب ہے اور ہمارے اس مطالبہ میں کوئی تیسرا دعوی دار شریک نہیں ہے (یعنی ہمارے خاوند پر مہر کی جو رقم واجب ہے اس میں ہم دونوں کے علاوہ اور کسی تیسری عورت کا کوئی حق نہیں ہے) لہذا ہم دونوں اس بات پر صلح و اتفاق کرتی ہیں کہ نصف مہر لے لیں اس کے بعد قاضی فیصلہ کر دے گا اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنا نکاح پہلے ہونے پر گواہ پیش کئے تو مرد پر نصف مہر واجب ہو گا جو دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے گا اس حکم میں تمام علماء کا اتفاق ہے نیز دو بہنوں کے سلسلہ میں جو احکام بیان کئے گئے ہیں وہ ایسی تمام عورتوں میں بھی جاری ہوں گے جن کا جمع کرنا (یعنی جن کو بک وقت اپنے نکاح میں رکھنا) حرام ہے اور اگر یہ شخص یعنی جس نے دو بہنوں سے ایک عقد میں نکاح کر لیا تھا اور یہ نکاح باطل ہونے کی وجہ سے ان دونوں بہنوں اور اس کے درمیان علیحدگی کرا دی تھی) ان دونوں بہنوں کے علیحدہ ہو جانے کے بعد پھر ان دونوں میں سے کسی ایک سے نکاح کرنا چاہے تو نکاح کر سکتا ہے بشرطیکہ علیحدگی جماع سے پہلے ہوئی ہو اور اگر یہ علیحدگی جماع کے بعد ہوئی تھی تو اس صورت میں دونوں بہنوں کی عدت گزر جانے سے پہلے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا اور اگر ایک عدت میں ہے اور دوسری کی عدت پوری ہو گئی ہے تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جو عدت میں ہے دوسری سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جو عدت میں ہے۔ اور اگر علیحدگی سے پہلے ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ جماع ہو گیا تھا تو اس بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا جس سے جماع ہو چکا تھا اور اگر اس بہن سے نکاح کرنا چاہے جس سے جماع نہیں ہوا تھا تو) اس سے اس وقت تک نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا جب تک اس بہن کی عدت پوری نہ ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا، ہاں اگر اس بہن کی عدت پوری ہو جائے جس سے جماع ہوا تھا تو پھر ان دونوں میں سے جس سے چاہے نکاح کر سکتا ہے۔
جس طرح بیک وقت دو بہنوں کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے اسی طرح بیک وقت دو باندی بہنوں سے جنسی لطف حاصل کرنا یعنی مساس و جماع کرنا بھی جائز نہیں ہے (یعنی اگر کسی شخص کی ملکیت میں بیک وقت دو بہنیں بطور باندی ہوں تو وہ ان دونوں سے جنسی تلذذ حاصل نہ کرے بلکہ ان میں سے کسی ایک ہی سے مساس و جماع وغیرہ کرے) کیونکہ ان دونوں میں سے کسی ایک سے جنسی لطف لینے کے بعد دوسری بہن حرام ہو جائے گی اس دوسری بہن سے اسی وقت جنسی لطف حاصل کر سکتا ہے جب کہ پہلی بہن کو اپنے اوپر حرام کر لے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے ایک باندی خریدی اور اس سے جماع کر لیا پھر اس کے بعد اس کی بہن کو خرید لیا تو صرف پہلی ہی سے جماع کر سکتا ہے دوسری سے جماع اس وقت تک حرام ہو گا جب تک کہ پہلی کو اپنے لئے حرام نہ کر لے اور حرام کرنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ یا تو کسی سے اس کا نکاح کر دے یا اپنی ملکیت سے نکال دے یا آزاد کر دے یا کسی کو ہبہ کر دے یا فروخت کر دے یا صدقہ کر دے اور یا مکاتب بنا دے۔
اس سلسلہ میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ بعض حصہ کو آزاد کرنا کل حصہ کو آزاد کرنے کے مترادف ہے (مثلاً کسی نے اپنی باندی سے کہا کہ میں نے تیرا آدھا حصہ یا تیرا چوتھائی حصہ آزاد کیا تو یہ کل کو آزاد کرنے کے مترادف ہو گا اور اس سے جماع کرنا ناجائز ہو گا) اسی طرح اس کے بعض حصہ کو اپنی ملکیت سے نکالنا کل کو اپنی ملکیت سے نکالنے کے مترادف ہو گا۔ اگر صرف یہ کہہ دیا جائے کہ پہلی مجھ پر حرام ہے تو اس کو کہہ دینے کی وجہ سے دوسری سے جماع کرنا جائز نہیں ہو گا جیسا کہ ایک کے حیض و نفاس اور احرام و روزہ کی وجہ سے دوسری حلال نہیں ہو جاتی یعنی جس طرح اگر ایک بہن حیض وغیرہ کی حالت میں حرام ہو جاتی ہے تو محض اس کی وجہ سے اس کی دوسری بہن حلال نہیں ہو جاتی اسی طرح فقط اتنا کہہ دینا کہ پہلی میرے لئے حرام ہے دوسری کو حلال کر دینے کے لئے کافی نہیں ہے)
اگر کسی شخص نے ان دونوں بہنوں سے جماع کر لیا جو بطور باندی اس کی ملکیت میں تھیں تو اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کے ساتھ جماع نہیں کر سکتا تاوقتیکہ مذکورہ بالا طریقہ کے مطابق دوسری کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔
اگر کسی شخص نے ان دونوں باندی بہنوں میں سے کہ جو بیک وقت اس کی ملکیت میں تھیں کسی ایک کو فروخت کر دیا لیکن وہ کسی عیب کی وجہ سے لوٹ کر آ گئی یا اس کو ہبہ کر دیا تھا لیکن اپنے ہبہ کو ختم کر کے اسے واپس لے لیا یا اس کا نکاح کر دیا تھا مگر اس کے شوہر نے اس کو طلاق دے دی اور اس کی عدت بھی پوری ہو گئی تو ان صورتوں میں وہ شخص ان میں سے کسی ایک سے بھی جماع نہ کرے تاوقتیکہ دوسری بہن کو اپنے لئے حرام نہ کر لے۔
کسی شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع کرنے سے پہلے اس کی بہن کو خرید لیا تو اس کے لئے خریدی ہوئی باندی سے جنسی لطف حاصل کرنا جائز نہیں ہو گا کیونکہ فراش یعنی زوجتی کا استحقاق نفس نکاح سے ثابت ہو جاتا ہے اس لئے اگر وہ خریدی ہوئی باندی سے جماع کرے گا تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے فراش یعنی زوجیت کا استحقاق) میں دو بہنوں کو جمع کیا اور یہ حرام ہے۔
اگر ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کر لیا اور اس کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا تو یہ نکاح صحیح ہو گا اور جب نکاح صحیح ہو گیا تو اب وہ باندی سے جماع نہ کرے گا اگرچہ ابھی تک منکوحہ سے جماع نہ کیا ہو اور اس منکوحہ سے اس وقت تک جماع نہ کرے جب تک کہ اپنی باندی یعنی منکوحہ کی بہن کو مذکورہ بالا طریقوں میں سے کسی ایک طریقہ سے اپنے لئے حرام نہ کر لے اور اگر اس نے اپنی باندی کی بہن سے ایسی صورت میں نکاح کیا کہ اس باندی سے جماع نہیں ہوا ہے تو پھر منکوحہ سے جماع کر سکتا ہے۔
اگر کسی شخص نے اپنی باندی سے جماع کے بعد اس کی بہن سے نکاح کیا مگر وہ نکاح کسی وجہ سے فاسد ہو گیا تو محض نکاح سے وہ باندی حرام نہ ہو گی ہاں اگر نکاح کے بعد وہ منکوحہ سے جماع کر لے تو باندی سے جماع کرنا حرام ہو جائے گا۔
اگر دو بہنوں نے کسی شخص سے یہ کہا کہ ہم نے اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ اپنا نکاح کیا اور یہ الفاظ دونوں کی زبان سے ایک ساتھ ادا ہوئے اور اس شخص نے ان میں سے ایک کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا اور اگر پہلے خود اس شخص نے ان دونوں بہنوں سے یہ کہا کہ میں نے تم میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کے عوض اپنا نکاح کیا اور ان میں سے ایک نے قبول کر لیا اور دوسری نے انکار کر دیا تو دونوں کا نکاح باطل ہو گا۔
اما محمد فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے اپنا نکاح کروانے کے لئے ایک آدمی کو اپنا وکیل بنایا اور پھر کسی دوسرے آدمی کو بھی اسی کام کے لئے اپنا وکیل بنا دیا اس کے بعد ان دونوں میں سے ہر ایک وکیل نے ایک ایک عورت سے اس شخص کا نکاح ان عورتوں کی اجازت کئے بغیر کر دیا اور پھر بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دونوں عورتیں رضاعی بہنیں ہیں، نیز ان دونوں وکیلوں کی زبان سے نکاح کے الفاظ ایک ساتھ ادا ہوئے تھے تو اس صورت میں دونوں عورتوں کے نکاح باطل ہوں گے، اسی طرح اگر یہ دونوں نکاح ان عورتوں کی اجازت سے ہوں یا ایک کی اجازت سے اور ایک کی بغیر اجازت تو بھی یہی حکم ہو گا۔
ایک شخص مثلاً زید نے دو بہنوں سے نکاح کیا حالانکہ ان میں سے ایک بہن کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی یا کسی دوسرے شوہر کے طلاق دینے کی وجہ سے ابھی عدت کے دن گزار رہی تھی تو اس صورت میں زید کا نکاح صرف دوسری بہن کے ساتھ صحیح ہو گا۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق رجعی یا ایک طلاق بائن یا تین طلاق دی یا نکاح فاسد ہو جانے کی وجہ سے نکاح فسخ ہو گیا یا شبہ ہو کر کسی عورت سے جماع کر لیا غرضیکہ ان میں سے کسی بھی صورت کے پیدا ہونے کی وجہ سے وہ عورت کہ عدت کے دن گزرا رہی ہو تو اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے وہ شخص نکاح نہیں کر سکتا اور جس طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کی کسی بھی ایسی رشتہ والی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں جو اس کے لئے ذوات الارحام میں سے ہو اور دونوں کا بیک وقت کسی ایک کے نکاح میں رہنا حرام ہو (مثلاً اس کے زمانہ عدت میں اس کی بھتیجی سے نکاح کرنا جائز نہیں) اور اسی طرح اس کے زمانہ عدت میں اس کے علاوہ مزید چار عورتوں سے نکاح کرنا بھی حلال نہیں۔
اگر کسی شخص نے اپنی باندی کو جو ام ولد یعنی اس کے بچہ کی ماں تھی آزاد کر دیا تو جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے اس کی بہن سے شادی کرنا جائز نہیں ہو گا۔ البتہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کے ما سوا چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہو گا جب کہ صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد رحمہما اللہ کے نزدیک اس کے زمانہ عدت میں اس کی بہن سے بھی نکاح کر سکتا ہے۔
اگر کسی شوہر نے کہا کہ میری مطلقہ بیوی نے بتایا کہ اس کی عدت کے دن پورے ہو گئے ہیں (لہذا میں اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہوں) تو اس صورت میں دیکھا جائے گا کہ طلاق دیئے ہوئے کتنا عرصہ ہوا ہے؟اگر طلاق دیئے ہوئے تھوڑا عرصہ ہوا ہے جس میں عدت پوری ہونے کا کوئی امکان ہی نہیں تو شوہر کا قول معتبر نہیں ہو گا اس طرح اس کی مطلقہ بیوی کا یہ کہنا کہ میری عدت پوری ہو گئی ہے قابل اعتبار نہ ہو گا ہاں اگر وہ کوئی ایسی صورت بیان کرے جس میں عدت پوری ہونے کا احتمال ہو جیسے وہ یہ بیان کرے کہ طلاق کے دوسرے دن میرا حمل جس کے اعضاء پورے تھے ساقط ہو گیا ہے تو اس صورت میں اس کا قول معتبر ہو گا۔ اور طلاق کو اتنا عرصہ گزر چکا ہو کہ اس میں عدت پوری ہونے کا امکان ہو تو اگر عورت اپنے شوہر کے قول کی تصدیق کر دے یا اس مجلس میں موجود نہ ہو تو شوہر کا قول معتبر ہو گا اور اس کیلئے بیک وقت چار دوسری عورتوں سے یا سابقہ بیوی کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہو گا بلکہ حنفی علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اگر بیوی شوہر کو جھٹلا دے تو بھی شوہر کا قول معتبر ہو گا۔
کسی شخص کی بیوی مرتد ہو کر دار الحرب چلی جائے تو شوہر کے لئے اس کی عدت پوری ہونے سے پہلے اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے جیسا کہ اس کے مر جانے کی صورت میں اس کی بہن سے نکاح کرنا جائز ہے پھر اگر وہ مرتدہ عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے لوٹے اور اس کا شوہر اس کی بہن سے نکاح کر چکا ہو تو اس کی بہن کا نکاح فاسد نہیں ہو گا اور اگر وہ بہن کے ساتھ نکاح ہونے سے پہلے لوٹے تو حضرت امام ابو حنیفہ کے نزدیک تو اس صورت میں بھی وہ شخص اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ وہ شخص اس صورت میں اس کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا۔
ایسی دو عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے جو ایک دوسرے کی پھوپھی یا ایک دوسرے کی خالہ ہوں اور اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً زید نے عمرو کی ماں سے اور عمرو نے زید کی ماں سے نکاح کیا اور ان دونوں کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں ہر ایک لڑکی دوسری لڑکی کی پھوپھی ہو گی یا یہ کہ مثلاً زید نے عمرو کی لڑکی سے اور عمرو نے زید کی لڑکی سے نکاح کیا اور ان کے ہاں لڑکیاں پیدا ہوئیں تو ان میں سے ہر ایک لڑکی کی خالہ ہو گی اور ان دونوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے ایسی دو عورتوں سے نکاح کر لیا جن میں سے ایک تو اس شخص کے لئے حرام تھی خواہ اس کی محرم ہونے کی وجہ سے یا شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اور یا بت پرست ہونے کی وجہ سے اور دوسری عورت ایسی تھی جس سے اس شخص کو نکاح کرنا جائز تھا تو ایسی صورت میں اس کا اس عورت کے ساتھ نکاح صحیح ہو گا جو اس کے لئے حلال تھی اور اس عورت کے ساتھ نکاح باطل ہو گا جو اس کے لئے حرام تھی اور مقرر کردہ کل مہر اسی عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح صحیح ہوا ہے یہ حکم امام اعظم ابو حنیفہ کے قول کے مطابق ہے اور اگر اس شخص نے نکاح کے بعد اس عورت سے جماع کر لیا جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے حلال نہیں تھا تو اس کو مہر مثل ملے گا خواہ وہ کسی مقدار میں ہو اور مقرر کردہ کل مہر اس عورت کو ملے گا جس کے ساتھ نکاح کرنا حلال تھا۔
پانچواں سبب مملوکہ ہونا : یعنی وہ باندیاں جن کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جب کہ پہلے سے آزاد عورت نکاح میں ہو اسی طرح آزاد عورت سے اور باندی سے ایک ساتھ نکاح کرنا بھی حرام ہے۔ مدبر یعنی وہ لونڈی جس سے اس کا آقا کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہو جائے گی) اور ام ولد (یعنی وہ باندی جس کے پیٹ سے اس کے آقا کا بچہ پیدا ہو) اس کا بھی یہی حکم ہے۔
اگر کسی شخص نے ایک عقد میں ایک آزاد عورت اور ایک باندی سے نکاح کیا تو آزاد عورت کا نکاح صحیح ہو گا اور باندی کا نکاح باطل ہو جائے گا بشرطیکہ وہ آزاد عورت ایسی ہو جس سے نکاح کرنا اس کے لئے جائز تھا اگر وہ آزاد عورت ایسی ہو جس کے ساتھ نکاح کرنا اس کے لئے جائز نہیں تھا جیسے وہ اس کی پھوپھی یا خالہ تھی تو پھر باندی کا نکاح باطل نہیں ہو گا اور اگر کسی شخص نے پہلے باندی سے نکاح کیا اور پھر آزاد عورت سے نکاح کیا تو دونوں کا نکاح صحیح ہو گا۔
اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو ایک آزاد عورت ہے طلاق بائن یا تین طلاق دے دیں اور وہ ابھی تک اپنی عدت کے دن گزار رہی تھی کہ اس شخص نے ایک باندی سے نکاح کر لیا تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول تو یہ ہے کہ بانی کا نکاح جائز نہیں ہو گا اور امام ابو یوسف و امام محمد یہ فرماتے ہیں کہ جائز ہو جائے گا اور اگر کوئی شخص اپنی بیوی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی باندی سے نکاح کر لے تو اس کے بارے میں متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس کا نکاح جائز نہیں ہو گا۔
اگر کسی شخص نے ایک باندی اور ایک ایسی آزاد عورت کے ساتھ نکاح کیا جو نکاح فاسد یا جماع بشبہ کی عدت کے دن گزرا رہی تھی تو باندی کا نکاح صحیح ہو جائے گا۔
اگر کسی شخص نے اپنی منکوحہ باندی کی طلاق رجعی کی عدت کے دوران کسی آزاد عورت سے نکاح کیا اور پھر اپنی اس منکوحہ باندی سے رجوع کر لیا (یعنی اپنی دی ہوئی طلاق واپس لے کر پھر اسے بیوی بنا لیا) تو یہ جائز ہو گا۔
کسی غلام نے اپنے آقا کی اجازت کے بغیر ایک آزاد عورت سے نکاح کیا اور اس سے جماع بھی کر لیا اور پھر آڑا کی اجازت کے بغیر کسی باندی سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد اس کے آقا نے اسکو دونوں سے نکاح کی اجازت دے دی تو اس صورت میں آزاد عورت کا نکاح صحیح اور باندی کا باطل ہو جائے گا۔
اگر کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کی باندی سے اس کی اجازت کے بغیر نکاح کر لیا لیکن اس کے ساتھ جماع نہیں کیا اور پھر کسی آزاد عورت سے بھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد باندی کے مالک نے نکاح کی اجازت دے دی تو اس صورت میں بھی باندی کا نکاح صحیح نہیں ہو گا اور اگر کسی شخص نے ایک باندی سے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اور پھر اس باندی کی لڑکی سے جو آزاد تھی نکاح کر لیا اور اس کے بعد باندی کے مالک نے باندی کے نکاح کی اجازت دے دی تو لڑکی کا نکاح صحیح ہو گا باندی کا نکاح صحیح نہ ہو گا۔
ایک شخص مثلاً زید کے ایک بالغہ لڑکی اور ایک بالغہ باندی ہے زید نے کسی شخص سے کہا کہ میں نے دونوں کا نکاح اتنے مہر کے عوض تمہارے ساتھ کر دیا اس شخص نے باندی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح باطل ہو گا اور اگر اس کے بعد اس شخص نے آزاد لڑکی کا نکاح قبول کر لیا تو یہ نکاح جائز ہو جائے گا۔
اور اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود کسی باندی سے نکاح کر لے اور وہ باندی خواہ مسلمان ہو یا اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی) تو نکاح صحیح ہو جائے گا لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ آزاد عورت سے نکاح کرنے استطاعت و قدرت رکھنے کے باوجود باندی سے نکاح کرنا مکروہ ہے۔
اگر کسی شخص نے ایک ہی عقد میں چار باندیوں اور پانچ آزاد عورتوں سے نکاح کیا تو صرف باندیوں کا نکاح صحیح ہو گا۔
چھٹا سبب تعلق حق غیر: یعنی ان عورتوں کے ساتھ نکاح کرنا حرام ہے جن کے ساتھ کسی دوسرے مرد کا حق متعلق ہو۔ چنانچہ جو عورت کسی کے نکاح میں ہو، یا کسی کی عدت میں ہو اور عدت خواہ طلاق کی ہو یا موت کی یا نکاح فاسد کی کہ جس میں جماع ہو گیا تھا اور یا شبہ نکاح کی تو ایسی عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں۔
اگر کسی شخص نے انجانے میں دوسرے کی منکوحہ عورت سے نکاح کر لیا اور اس کے ساتھ جماع بھی کر لیا تو اب جب کہ ان میں جدائی ہو گی تو عورت پر عدت واجب ہو گی اور اگر وہ شخص جانتا تھا کہ یہ دوسرے کی بیوی ہے تو جدائی کے بعد اس عورت پر عدت واجب نہیں ہو گی اور اس کے خاوند کے لئے اس سے جماع کرنا ناجائز نہیں ہو گا اور اگر اس کا خاوند اسے طلاق دے دے تو صاحب عدت کے لئے زمانہ عدت میں اس سے نکاح کرنا جائز ہو گا بشرطیکہ عدت کے علاوہ اور کوئی مانع موجود نہ ہو۔
جس عورت کو زنا کا حمل ہو اس سے نکاح کرنا جائز ہے لیکن جب تک ولادت نہ ہو جائے خاوند کو اس سے جماع کرنا ناجائز ہے اور اسباب جماع یعنی بوسہ اور مساس وغیرہ بھی ناجائز ہیں اور اگر اس حاملہ زنا سے وہ شخص نکاح کرے جس نے اس کے ساتھ زنا کیا تھا تو اس کا نکاح بھی صحیح ہو گا اور وہ وضع حمل سے قبل جماع بھی کر سکتا ہے اور وہ عورت نفقہ کی مستحق ہو گی۔
ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا کچھ عرصہ بعد میں عورت کا حمل ساقط ہو گیا جس کے اعضاء ظاہر ہو چکے تھے اب اگر یہ اسقاط حمل نکاح سے چار ماہ یا اسے زائد عرصہ بعد ہوا ہے تو نکاح جائز ہو گا اور اگر چار مہینہ سے کم عرصہ میں یہ اسقاط ہوا ہے تو نکاح جائز نہیں ہو گا اس لئے کہ حمل کے اعضاء چار مہینہ سے کم میں ظاہر نہیں ہوتے (حاصل یہ کہ اگر اسقاط نکاح سے چار ماہ یا اس سے زائد عرصہ کے بعد ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ حمل اسی شخص کا ہے جس نے نکاح کیا ہے اور اگر چار ماہ سے کم عرصہ میں اسقاط ہوا ہے اور حمل کے اعضاء ظاہر ہیں تو پھر یہ احتمال ہو گا کہ وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں تھی اور اس کا یہ حمل ہے اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں نکاح صحیح نہیں ہوتا اور ایسی حاملہ عورت جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کا حمل فلاں شخص کے جائز نطفہ سے ہے تو متفقہ طور پر یہ مسئلہ ہے کہ اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا۔ اور امام ابو یوسف نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر کوئی ایسی عورت ہو جو حربی کافر سے حاملہ ہوئی ہو اور وہ ہجرت کر کے یا باندی بنا کر دار الاسلام میں لائی گئی ہو تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے۔ لیکن جب تک اس کے ہاں ولادت نہ ہو جائے اس سے جماع کرنا جائز نہیں ہو گا۔ امام طحاوی نے اسی قول پر اعتماد کیا ہے لیکن حضرت امام محمد نے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا ایک یہ قول نقل کیا ہے کہ اس صورت میں نکاح جائز نہیں ہوتا اسی پر امام کرخی نے اعتماد کیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح اور قابل اعتماد ہے۔
اگر کسی شخص نے اپنی ام ولد باندی کا نکاح کسی کے ساتھ کر دیا درآنحالیکہ وہ اپنے آقا سے حاملہ تھی تو یہ نکح باطل ہو گا ہاں اگر وہ حاملہ نہ ہو تو پھر نکاح صحیح ہو گا۔
ایک شخص نے اپنی باندی سے جماع کیا اور اس کے بعد کسی سے اس کا نکاح کر دیا تو نکاح جائز ہو جائے گا لیکن آقا کے لۓ یہ مستحب ہو گا کہ وہ اپنے نطفہ کی حفاظت کی خاطر اس باندی سے استبراء کرائے (یعنی ایک حیض آنے کے بعد اس کو خاوند سے جماع کرانے دے اور جب یہ نکاح جائز ہو گیا تو خاوند کے لئے استبراء کا انتظار کئے بغیر) اس سے جماع کرنا بھی جائز ہو گا۔ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کا قول ہے اور حضرت امام محمد کا یہ قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس کے استبراء کے بغیر اس سے جماع کر لے۔ فقیہ ابو اللیث فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں حضرت امام محمد کا قول مبنی بر احتیاط ہے اور ہم اسی پر عمل کرتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں ائمہ کا یہ اختلاف قول اس صورت میں ہے کہ جب آقا نے باندی کا نکاح استبراء کرائے بغیر کر دیا ہو اور اگر نکاح سے پہلے استبراء ہو چکا تھا یعنی آقا سے مجامعت کے بعد باندی کو ایک حیض آگیا تھا تو اس صورت میں سب کا متفقہ قول یہی ہے کہ خاوند کو استبراء کے بغیر اس سے جماع کرنا جائز ہو گا۔
کسی شخص نے ایک عورت کو زناء کراتے دیکھا اور پھر بعد میں خود اس سے نکاح کر لیا تو حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام ابو یوسف کے نزدیک اس استبراء سے پہلے بھی اس سے جماع کرنا جائز ہو گا لیکن حضرت امام محمد کا اس صورت میں بھی یہی قول ہے کہ میں اسے پسند نہیں کرتا کہ اس کا خاوند اس سے استبراء کے بغیر جماع کر لے۔ اگر کوئی شخص اپنے لڑکے کی باندی سے نکاح کر لے تو حنفیہ کے نزدیک یہ نکاح جائز ہو جائے گا۔
اگر کسی عورت کو قید کر کے دار الحرب سے دار الاسلام لایا گیا اور اس کا شوہر ساتھ نہیں ہے تو اس پر عدت واجب نہ ہو گی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت مسلمان ہو کر دار الحرب سے ہجرت کر کے دار الاسلام آ جائے تو امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق اس پر بھی عدت واجب نہیں ہو گی اور اس سے کوئی بھی شخص نکاح کر سکتا ہے لیکن صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور امام حمد کے نزدیک اس پر عدت واجب ہو گی۔ جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے) اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا لیکن اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس سے جماع کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہو گا جب تک کہ ایک حیض آ جانے کی وجہ سے استبراء نہ ہو جائے۔
ساتواں سبب اختلاف مذہب: یعنی وہ عورتیں جن کے مشترک ہونے کی وجہ سے ان سے نکاح کرنا حرام ہے چنانچہ آتش پرست اور بت پرست عورتوں سے نکاح کرنا جائز نہیں خواہ وہ آزاد ہوں یا باندی اور بت پرستوں کے حکم میں وہ عورتیں بھی داخل ہیں جو سورج اور ستاروں کی پرستش کرتی ہیں یا اپنی پسندیدہ تصویروں کی پوجا کرتی ہیں یا یونانی حکماء کے نظریہ کے مطابق خدا کے بے کار معطل ہونے کا عقیدہ رکھتی ہیں یا زندقہ (یعنی دہریت) میں مبتلا ہیں یا فرقہ باطنیہ اور فرقہ اباحیہ سے تعلق رکھتی ہیں فرقہ باطنیہ سے وہ فرقہ مراد ہے جو قرآن کے باطنی معنی کا عقیدہ رکھتا ہے اور فرقہ اباحیہ سے مراد وہ فرقہ ہے جس کے ہاں دنیا کا ہر کام خواہ وہ اچھا ہو یا برا کرنا جائز ہے) اسی طرح ہر اس مذہب کو ماننے والی عورت بھی اسی حکم میں داخل ہے جس کو اختیار کرنا کفر کا باعث ہو اسی طرح اپنی اس باندی سے جو آتش پرست مشرکہ ہو جماع کرنا بھی ناجائز ہے۔
مسلمان کو کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت سے جو دار الحرب میں رہتی ہو اور ذمیہ کافرہ یعنی مسلمانوں کے ملک میں خراج دے کر رہنے والی) عورت سے شادی کرنا جائز ہے خواہ وہ آزاد ہو یا باندی ہو لیکن اولیٰ یہی ہے کہ ان سے بھی شادی نہ کی جائے اور نہ ان کا ذبح کیا ہوا جانور بغیر ضرورت کے کھایا جائے۔ اگر کسی مسلمان نے کسی یہودی یا عیسائی عورت سے شادی کر لی تو اس کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ اپنی بیوی کو اس کے عبادت خانہ (یعنی گرجا گھر وغیرہ (نہ جانے دے اور نہ اسے اپنے گھر میں شراب بنانے دے لیکن مسلمان شوہر کو یہ اختیار نہیں ہو گا کہ وہ اپنی عیسائی یا یہودی بیوی کو حیض و نفاس کے منقطع ہونے اور جنابت لاحق ہونے پر غسل کے لئے مجبور کرے۔
اگر کسی مسلمان نے دار الحرب میں کتابیہ حربیہ سے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح جائز ہو جائے گا لیکن مکروہ ہو گا اور پھر اس نکاح کے بعد دونوں میاں بیوی دار الاسلام آ جائیں تو دار الحرب میں کیا ہوا نکاح باقی رہے گا۔ ہاں اگر یہ صورت ہو کہ شوہر دار الاسلام آ جائے اور بیوی کو وہیں چھوڑ آئے تو تباین دارین (ملک بدل جانے) کی وجہ سے دونوں میں جدائی ہو جائے گی۔
جو لوگ کسی آسمانی مذہب کے پیروکار ہوں اور ان کے فرقہ کے لے آسمانی کتاب بھی ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت شیث علیہ السلام کے صحیفے اور حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور وغیرہ تو وہ لوگ اہل کتاب میں شمار ہوں گے اور ان کی عورتوں سے مسلمانوں کی شادی بھی جائز ہے اور ان کا ذبح کیا ہوا جانور کھانا بھی حلال ہو گا۔ اگر کسی شخص کے والدین میں سے ایک تو کتابی یعنی یہودی یا عیسائی ہو اور دوسرا آتش پرست ہو تو وہ شخص اہل کتاب میں شمار کیا جائے گا۔
ایک مسلمان نے کسی کتابیہ عورت سے شادی کی اور پھر وہ عورت اپنا مذہب تبدیل کر کے) آتش پرست ہو گئی تو وہ اپنے مسلمان شوہر کے لیے حرام ہو جائے گی اور دونوں کی شادی کالعدم قرار پائے گی اور اگر یہودی عورت سے شادی کی اور پھر وہ عیسائی ہو گئی یا عیسائی عورت سے شادی کی اور شادی کے بعد وہ یہودی ہو گئی تو اس صورت میں نکاح باقی رہے گا۔ اس بارے میں اصول و ضابطہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ تبدیل مذہب کے وقت یہ دیکھا جائے گا کہ خاوند بیوی میں سے جس نے بھی اپنا مذہب چھوڑ کر کوئی دوسرا مذہب قبول کیا ہے وہ کوئی ایسا مذہب تو نہیں ہے کہ اگر وہ دونوں از سر نو شادی کریں تو اس مذہب کی وجہ سے ان کی شادی جائز نہ ہو سکے (مثلاً آتش پرستی ایسا مذہب ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی آتش پرست عورت سے شادی کرنا چاہے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں ہو گا) چنانچہ اگر وہ مذہب ایسا ہو گا جس کے پیروکار اور مسلمان کے درمیان شادی بیاہ سرے سے جائز ہی نہیں ہوتا تو خاوند و بیوی میں سے جو بھی اپنا مذہب چھوڑ کر اس مذہب کو قبول کرے گا شادی کالعدم ہو جائے گی۔ اب رہی یہ بات کہ اگر مسلمان خاوند اور یہودی یا عیسائی بیوی میں سے کوئی بھی مجوسیت (یعنی آتش پرستی) اختیار کر لے اور اس کی وجہ سے ان دونوں کی شادی فاسد ہو جائے تو اس کے بعد کیا حکم ہو گا؟ تو اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب عورت بنی ہے یعنی بیوی نے مجوسیت اختیار کر لی ہے تو دونوں کے درمیان جدائی ہو جائے گی اور اسے نہ مہر ملے گا اور نہ متعہ بشرطیکہ اس نے جماع سے پہلے اپنا مذہب تبدیل کیا ہو اور اگر اس نے اس وقت مجوسیت کو اختیار کیا جب کہ اس کا شوہر اس سے جماع کر چکا تھا تو پھر اس کو پورا مہر دیا جائے گا اور اگر شادی کے فاسد ہونے کا سبب مرد بنا ہے یعنی خاوند نے اپنا مذہب چھوڑ کر مجوسیت کو اختیار کر لیا ہے اور خاوند و بیوی میں جدائی ہو گئی ہے تو اسے عورت کو مقررہ مہر کا آدھا دینا ہو گا بشرطیکہ یہ صورت حال جماع سے پہلے ہی واقع ہو چکی ہو اور اگر مہر مقرر نہیں تھا تو متعہ ایک جوڑا کپڑا دینا ہو گا اور اگر جماع کے بعد ایسا ہوا تو پھر اس عورت کو پورا مہر دینا واجب ہو گا۔
جو مسلمان مرتد ہو گیا ہو اس کا نکاح نہ تو کسی مرتدہ سے جائز ہوتا ہے نہ کسی کافرہ سے اور نہ کسی مسلمان عورت سے، اسی طرح جو مسلمان عورت مرتدہ ہو جائے اس کا نکاح بھی کسی کے ساتھ جائز نہیں ہوتا۔
کسی مسلمان عورت کی شادی نہ تو مشرک سے جائز ہوتی ہے اور نہ کتابی یعنی یہودی یا عیسائی سے۔ بت پرست و آتش پرست عورت کی شادی ہر مشرک و کافر سے صحیح ہو جاتی ہے مگر مرتد کے ساتھ صحیح نہیں ہوتی۔ ذمی کافروں کا آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنا جائز ہے اگرچہ ان کے مذاہب مختلف ہوں۔
مسلمان کے لئے اپنی مسلمان بیوی کی موجودگی میں کتابیہ یعنی یہودی یا عیسائی عورت) سے اور اپنی کتابیہ بیوی کی موجودگی میں مسلمان عورت سے عقد ثانی جائز ہے اور نوبت یعنی شب گزاری کے لئے باری مقرر کرنے کے سلسلے میں دونوں کے حقوق برابر ہوں گے۔
آٹھواں سبب مالک ہونا: یعنی وہ عورتیں جو مالک ہونے کے سبب سے اپنے مملوک غلام کے لئے حرام ہیں۔ چنانچہ کسی عورت کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے غلام سے نکاح کرے اسی طرح اس کو اس غلام کے ساتھ بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہے جو اس کے اور کسی دوسرے شخص کے درمیان مشترک ہو۔ اگر نکاح کے بعد خاوند بیوی میں کوئی بھی ایک دوسرے کے کل یا جزء کا مالک ہو جائے تو نکاح باطل ہو جائے گا۔
اگر کسی مرد نے اپنی لونڈی سے نکاح کر لیا یا اس لونڈی سے نکاح کیا جس کا وہ جزوی مالک ہے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہو گا۔ لیکن اس بارے میں یہ بات ملحوظ رہے کہ ہمارے زمانہ میں لونڈی غلاموں کی خرید و فروخت کا بالکل رواج نہیں رہا اور نہ آج کے دور میں وہ شرائط و قیود پائی جاتی ہیں جن کی موجودگی میں لونڈی سے جماع جائز ہوتا ہے اسی لئے بعض علماء لکھتے ہیں کہ اگر کہیں لونڈی رکھنے کا کوئی رواج ہو تو اس سے جماع نہ کرنا چاہئے بلکہ) اس لونڈی سے نکاح کر لینا چاہئے تاکہ اگر واقعۃً لونڈی نہ ہو بلکہ آزاد عورت ہو تو نکاح کی وجہ سے اس سے جماع کرنا جائز ہو جائے
اگر کسی آزاد مرد نے اپنی بیوی کو جو کسی کی باندی ہو شرط خیار کے ساتھ خرید لیا تو اس صورت میں اس کا نکاح باطل نہیں ہو گا۔ یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے۔
نواں سبب طلاق: یعنی وہ عورتیں جو طلاق سے حرام ہو جاتی ہیں چنانچہ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو جو آزاد عورت ہو تین طلاق دے دیں تو اس کے بعد اس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا ہاں اگر وہ عورت اپنی عدت پوری کر کے) دوسرے کسی مرد سے نکاح کر لے اور دونوں میں مجامعت ہو جائے اور پھر وہ مرد اس کو طلاق دے دے تو عدت گزرنے کے بعد پہلے شوہر کے لئے اس سے نکاح کرنا جائز ہو جاتا ہے اور اگر کسی شخص نے کسی باندی سے نکاح کیا اور پھر اسے دو طلاقیں دے دیں تو اس کے بعد اس سے بھی نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا اور جس طرح اس سے نکاح کرنا جائز نہیں اسی طرح اس کو باندی بنا کر اس سے جماع کرنا بھی درست نہیں ہے۔
ایک شخص نے کسی کی باندی سے نکاح کیا اور پھر طلاق دے دیں اس کے بعد اس کو خرید کر آزاد کر دیا اب اگر وہ اس سے نکاح کرنا چاہے تو وہ اس صورت میں جائز ہو گا کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ مرد اس کے ساتھ جماع کرے اور پھر اس کو طلاق دے دے اور جب عدت کے دن پورے ہو جائیں تو وہ شخص یعنی پہلا شوہر اس سے نکاح کر لے۔
یہاں تک محرمات کا ذکر پورا ہو گا اب ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس باب سے متعلق چند ضروری مسائل نقل کر دئے جائیں۔
نکاح متعہ باطل ہے اور جب کسی عورت سے اس طرح کا نکاح یعنی متعہ جائز نہیں ہو گا تو نہ اس سے جماع کرنا حلال ہو گا اور نہ اس پر طلاق واقع ہو گی اور نہ اس پر ایلاء اور ظہار کے احکام نافذ ہوں گے اسی طرح ان کے درمیان وارثت کا کوئی سلسلہ بھی قائم نہیں ہو گا۔
نکاح متعہ کی صورت یہ ہے کہ کوئی مرد کسی ایسی عورت سے جو موانع (یعنی کسی دوسرے کی زوجیت یا عددت وغیرہ) سے خالی ہو یہ کہے کہ میں مال کی اتنی مقدار مثلاً ایک ہزار روپیہ کے عوض اتنی مدت مثلاً دس روز کے لیے تمتع یعنی فائدہ اٹھاؤں گا یا یوں کہے کہ تم اتنے روپے کے عوض دس روز یا چند روز تک اپنے نفس سے مجھے متمتع یعنی بہرہ مد کرو اور جس طرح نکاح متعہ ناجائز ہے اسی طرح نکاح مؤقت بھی ناجائز ہے اور نکاح مؤقت میں مدت قلیل ہو یا کثیر متعین ہو یا غیر متعین بہر صورت نکاح ناجائز ہو گا، ہاں اگر دونوں کسی ایسی مدت کا تعین کریں جو اتنی طویل ہو کہ اتنی مدت تک دونوں کا زندہ رہنا ناممکن ہو مثلاً یہ کہیں کہ ہم نے ایک ہزار سال کے لئے نکاح کیا تو اس صورت میں نکاح مؤقت کا حکم جاری نہیں ہو گا بلکہ نکاح صحیح ہو جائے گا اور وقت کی شرط باطل ہو جائے گی۔ جیسا کہ نکاح کا وقت وقوع قیامت یا خروج دجال یا نزول عیسیٰ تک کی مدت بیان کرنے کی صورت میں نکاح کرنے والے کا یہ خیال تھا کہ اس کو ایک سال تک اپنے پاس رکھو گا پھر چھوڑ دوں گا تو اس صورت میں بھی نکاح صحیح ہو جاتا ہے۔ اور اگر کسی شخص نے کسی عورت سے اس شرط پر نکاح کیا کہ ایک ماہ بعد طلاق دیدوں گا تو نکاح صحیح ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نکاح کے وقت عورت سے یہ شرط کی کہ میں دن میں تمہارے ساتھ رہا کروں گا رات میں نہیں تو یہ نکاح بھی صحیح ہو جائے گا۔
اگر مرد و عورت دونوں احرام باندھے ہوئے ہوں تو ان کے لئے احرام کی حالت میں نکاح کرنا جائز ہے اسی طرح اگر کوئی ولی احرام باندھے ہوئے ہو تو احرام کی حالت میں اس عورت کا نکاح کر سکتا ہے جس کا وہ ولی ہے۔
ایک عورت نے (قاضی کی عدالت میں) کسی مرد مثلاً زید کے بارے میں دعوی کیا کہ اس نے میرے ساتھ نکاح کیا ہے اور ثبوت کے طور پر اس نے دو گواہ بھی پیش کر دیئے، قاضی نے فیصلہ کر دیا کہ زید اس عورت کا شوہر ہے حالانکہ واقعۃً زید نے اس عورت سے نکاح نہیں کیا تھا تو اس عورت کے لئے جائز ہو گا کہ وہ زید کے ساتھ رہنے لگے اور زید کے لئے یہ جائز ہو گا کہ اگر وہ عورت اس سے جماع کی خواہش ظاہر کرے تو اس سے جماع کرے۔
یہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا قول ہے اور حضرت امام ابو یوسف کا پہلا قول بھی یہی ہے لیکن ان کا دوسرا قول اس کے خلاف ہے اور حضرت امام محمد کے قول کے مطابق ہے امام محمد کا قول یہ ہے کہ اس صورت میں مرد کے لئے اس عورت سے جماع کرنا جائز نہیں ہو گا۔ مسئلہ مذکورہ میں قاضی کا فیصلہ عقد نکاح کے حکم میں ہو گا (یعنی یہ سمجھا جائے گا کہ گویا قاضی نے اس وقت نکاح کر دیا اس لئے عورت کو مرد کے ساتھ رہنے اور امام اعظم کے قول کے مطابق اس کی خواہش پر زید کو اس سے جماع کرنے کی بھی اجازت ہے) لیکن شرط یہ ہے کہ اس وقت عورت میں نکاح کی صلاحیت ہو (یعنی ایسا کوئی مانع موجود نہ ہو جو اس کو زید کی بیوی بننے سے روک دے) چنانچہ اگر یہ صورت ہو کہ قاضی کے فیصلہ کے وقت وہ عورت کسی دوسرے شخص کے نکاح میں ہو یا پہلے شوہر کے طلاق دے دینے کی وجہ سے عدت کے دن گزار رہی ہو یا اس مرد یعنی زید نے اس کو تین طلاق دے رکھی ہوں تو پھر قاضی کا فیصلہ نافذ نہیں ہو گا اور یہ عورت زید کی بیوی نہیں بنے گی۔ اسی طرح اکثر علماء کے نزدیک قاضی کے فیصلہ کے نفاذ کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ اس فیصلہ کے وقت گواہ بھی موجود ہوں اور اگر خود زید کسی عورت کے بارے میں دعوی کرے کہ میں نے اس عورت سے نکاح کیا تھا اور اپنے دعوی کے ثبوت میں گواہ پیش کرے تو اس کا بھی وہی حکم ہو گا جو اوپر ذکر کیا گیا ہے اسی طرح اگر کوئی عورت قاضی کی عدالت میں یہ دعوی کرے کہ میرے شوہر زید نے مجھے طلاق دے دی تھی اور اس نے جھوٹے گواہ بھی پیش کئے تو قاضی طلاق کا فیصلہ صادر کر دے گا باوجودیکہ وہ عورت جانتی ہے کہ میں نے جھوٹ بولا ہے لہذا قاضی کا یہ فیصلہ طلاق کے حکم میں ہو گا اور اس عورت پر طلاق واقع ہو جائے گی اس کے بعد وہ عورت عدت کے دن گزار کر کسی دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے اور گواہ کے لئے بھی اس عورت سے نکاح کرنا جائز ہو گا نیز وہ عورت نہ تو پہلے شوہر زید کے لئے حلال ہو گی یعنی اس سے نکاح نہیں کر سکتی اور نہ اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہو گا، نیز وہ عورت اپنے پہلے خاوند یعنی زید کے لئے حرام ہو جائے گی لیکن حضرت امام ابو یوسف یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں وہ عورت نہ تو پہلے شوہر زید کے لئے حلال ہو گی یعنی اس سے نکاح نہیں کر سکتی اور نہ اس کے لئے کسی دوسرے مرد سے نکاح کرنا جائز ہو گا، حضرت امام محمد کا یہ قول ہے کہ جب تک دوسرا مرد جس سے اس نے نکاح کر لیا ہو) اس سے جماع نہ کرے پہلے شوہر کے لئے حلال رہے گی اگر دوسرا مرد اس سے جماع کر لے گا تو پھر جب تک اس کی عدت پوری نہ ہو جائے عدت واجب ہونے کی وجہ سے پہلے شوہر کے لئے حرام رہے گی، گویا امام محمد کے نزدیک دوسرے کے ساتھ اس کا نکاح سرے سے جائز ہی نہیں ہوتا۔
ایک شخص مثلاً زید نے کسی عورت مثلاً خالدہ کے بارے میں دعوی کیا کہ اس نے میرے ساتھ نکاح کیا تھا لیکن خالدہ نے اس سے انکار کیا اس کے بعد زید نے خالدہ سے صلح کرنی چاہی اور اس سے کہا کہ اگر تم اقرار کر لو تو میں تمہیں ایک سو روپے دوں گا۔ خالدہ نے اقرار کر لیا تو اب زید پر یہ مال یعنی خالدہ کو ایک سو روپیہ دینا واجب ہو گا اور خالدہ کا یہ اقرار عقد نکاح سمجھا جائے گا چنانچہ خالدہ نے یہ اقرار اگر گواہوں کے سامنے کیا ہو گا تو نکاح صحیح ہو جائے گا اور خالدہ کے لئے زید کے ساتھ رہنا عند اللہ بھی صحیح سمجھا جائے گا (یعنی اس صورت میں وہ دونوں نہ صرف دنیاوی اور قانونی طور پر میاں بیوی سمجھے جائیں گے بلکہ اس کی وجہ سے ان پر کوئی گناہ بھی نہیں ہو گا) ہاں اگر خالدہ کے اقرار کے وقت گواہ موجود نہ ہوں گے تو نہ نکاح منعقد ہو گا اور نہ خالدہ کے لئے زید کے ساتھ رہنا جائز ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی عورت کو اس کی پھوپھی کے ساتھ اپنے نکاح میں نہ رکھا جائے اور نہ کسی عورت کو اس کی خالہ کے ساتھ اپنے نکاح میں رکھا جائے (بخاری و مسلم)
تشریح
پھوپھی اور خالہ سے عمومیت مراد ہے یعنی خواہ حقیقی پھوپھی اور خالہ ہوں جیسے اس عورت کے باپ اور ماں کی بہن یا مجازی ہوں جیسے اس عورت کے دادا اور پڑ دادا یا اس سے اوپر کے درجہ کی بہن اور نانی و پڑنانی یا اس سے اوپر کی درجہ کی بہن۔ حدیث میں پھوپھی بھتیجی اور خالہ بھانجی کی تخصیص محض اتفاقی ہے کہ کسی شخص نے ان دونوں ہی کے بارے میں پوچھا ہو گا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف انہی دو کا تذکرہ فرمایا ورنہ ان دونوں کے علاوہ اور بھی کچھ عورتیں ایسی ہیں جن کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا حرام ہے گزشتہ صفحات میں اس کا تفصیل ذکر ہو چکا ہو گا۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دودھ پینے کی وجہ سے وہ رشتے حرام ہوتے ہیں جو پیدائش کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں (بخاری)
تشریح
یعنی جو رشتے نسب کی وجہ سے ایک دوسرے کے لئے حرام ہیں وہی رشتے دودھ پینے کی وجہ سے بھی ایک دوسرے کے لئے حرام ہو جاتے ہیں مثلاً جس طرح نسبی یعنی حقیق بہن اپنے بھائی کے لئے حرام ہے اسی طرح رضاعی بہن بھی حرام ہے۔ ہاں کچھ مسائل ایسے ہیں جو اس کلیہ سے مستثنی ہیں چنانچہ بعض صورتوں میں نسبی رشتہ اور رضاعی رشتہ کے درمیان فرق ہو جاتا ہے جس کی تفصیل پچھلے صفحات میں گزر چکی ہے۔
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ رضاعت سے نکاح حرام ہو جاتا ہے اور نظر و خلوت اور مسافرت حلال ہو جاتی ہے (یعنی مثلاً رضاعی ماں بیٹے کے درمیان نکاح تو حرام ہو جاتا ہے اور ایک دوسرے کی طرف نگاہ ڈالنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں اٹھنا بیٹھنا اور ایک دوسرے کے ساتھ تنہا سفر کرنا جائز ہو جاتا ہے لیکن رضاعی رشتہ پر نسبی رشتہ کے تمام احکام نافذ نہیں ہوتے چنانچہ رضاعی رشتہ میں نہ تو ایک دوسرے کا وارث ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے پر نان و نفقہ واجب ہوتا ہے، نہ ایک دوسرے کی ملکیت میں آ جانے سے آزادی مل جاتی ہے اور اگر دودھ پلانے والی اپنا دودھ پینے والے کو قتل کر دے تو اس کے ذمہ سے اس کا قصاص بھی ساقط نہیں ہوتا چنانچہ ان تمام صورتوں میں وہ دونوں رضاعی رشتہ دار بالکل اجنبیوں کی طرح ہوتے ہیں
٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دن میرے رضاعی چچا میرے گھر آئے اور انہوں نے میرے پاس آنیکی اجازت مانگی میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا تا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھ لوں کہ ان کا میرے پاس آنا درست ہے یا نہیں) چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ تمہارے چچا ہیں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا تھا کسی مرد نے تو دودھ نہیں پلایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ تمہارے چچا ہیں اس لئے وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں (حضرت عائشہ نے بیان کیا کہ) میرے رضاعی چچا کی یہ آمد اس وقت کا واقعہ ہے جب کہ ہمارے لئے اجنبی مردوں سے پردہ کرنا واجب ہو چکا تھا (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عائشہ کے جن رضاعی چچا کا ذکر کیا گیا ہے ان کا نام افلح تھا اور حضرت عائشہ نے جس عورت کا دودھ پیا تھا اس کے خاوند ابو القیس تھے اور وہ افلح کے بھائی تھے۔ اس رشتہ سے وہ حضرت عائشہ کے رضاعی چچا ہوئے۔
مجھ کو تو عورت نے دودھ پلایا الخ، سے حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ میں نے چونکہ عورت کا دودھ پیا ہے اس لئے میرا رضاعت کا تعلق تو عورت سے قائم ہوا ہے نہ کہ مرد سے گویا حضرت عائشہ یہ سمجھتی تھیں کہ کسی عورت کا دودھ پلانا اس کے خاوند کے قرابت داروں سے رضاعت کا تعلق قائم نہیں کرتا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عائشہ کے اس گمان کی تصحیح کی کہ کسی عورت کا دودھ پلانا جس طرح اس عورت سے اور اس کے قرابت داروں سے رضاعت کا رشتہ قائم کرتا ہے اسی طرح اس کے خاوند اور خاوند کے قرابت داروں سے بھی رضاعی تعلق پیدا کر دیتا ہے اور جس طرح رضاعی ماں کی بہن رضاعی خالہ اور اس کی بیٹی رضاعی بہن ہوتی ہے اسی طرح اس کے خاوند کا بھائی بھی رضاعی چچا ہوتا ہے اور رضاعی چچا چونکہ حقیقی چچا کی مانند ہے اس لئے افلح تمہارے پاس شوق سے آئیں ان سے کوئی شرم و پردہ نہیں ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ جس طرح دودھ پلانے والی کے قرابت داروں کے ساتھ حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے اس طرح اس کے خاوند کے قرابت داروں سے بھی حرمت رضاعت کا تعلق ہو جاتا ہے۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے چچا (حضرت حمزہ) کی لڑکی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو (اپنے نکاح کے لئے) کیوں پسند نہیں ہے؟ وہ تو قریش کی جوان عورتوں میں ایک حسین ترین لڑکی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تہیں معلوم نہیں کہ حمزہ میرے دودھ شریک بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے جو رشتے نسب کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں وہی رشتے رضاعت کی وجہ سے حرام قرار دیئے ہیں۔
تشریح
یوں تو حضرت حمزہ ابو لہب کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچا تھے لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دودھ شریک بھائی بھی تھے، جس کی صورت یہ ہوئی تھی کہ ابو لہب کے ہاں ایک لونڈی تھی جس کا نام ثوبیہ تھا ثوبیہ نے پہلے حضرت حمزہ کو دودھ پلایا تھا اور پھر چار سال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی دودھ پلایا یہ وہ ثوبیہ ہے جس نے جب ابو لہب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پیدا ہونے کی خوشخبری سنائی تو ابو لہب نے بھتیجے کی پیدائش کی خوشی میں اس کو آزاد کر دیا، بیان کیا جاتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیدائش پر ابو لہب نے اپنی اس خوشی و مسرت کا جو اظہار کیا تھا اس کی وجہ سے پیر کے دن حق تعالیٰ کی طرف سے ابو لہب کے عذاب میں تخفیف کر دی جاتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پیر ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو چار عورتوں نے دودھ پلایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی والدہ محترمہ نے، حضرت حلیمہ نے، ثوبیہ نے اور ام ایمن نے جو آپ کے والد محترم حضرت عبداللہ کی لونڈی تھی۔
اور حضرت ام فضل کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک بار یا دو بار دودھ پینا حرام نہیں کرتا (یعنی ایک بار یا دو بار چوسنے سے نکاح کے لئے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی) اور حضرت عائشہ کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک بار یا دو بار چوسنا (نکاح کو) حرام نہیں کرتا۔ اور ام فضل کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک بار یا دو بار منہ میں چھاتی داخل کر لینا حرام نہیں کرتا (یہ سب روایتیں مسلم نے نقل کی ہیں)
تشریح
بظاہر ان روایتوں سے یہ مفہوم اخذ ہوتا ہے کہ ایک بار یا دو بار دودھ چوسنے سے نکاح حرام نہیں ہوتا ہاں تین بار یا اس سے زائد مرتبہ دودھ چوسنے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے چنانچہ بعض علماء نے اسی پر عمل کرنے کا فتوی دیا ہے لیکن حنفیہ اور اکثر علماء کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ مطلق دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے خواہ وہ مقدار کے اعتبار سے کم سے کم ہو یا زیادہ سے زیادہ ہو بشرطیکہ دودھ بچہ کے حلق سے نیچے اتر کر پیٹ میں پہنچ جائے اور وہ دودھ بھی مدت رضاعت شیر خوارگی کی مدت میں پیا گیا ہو اور مدت رضاعت اکثر علماء بشمول صاحبین یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک دو سال کی عمر تک ہے جب کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا قول یہ ہے کہ مدت رضاعت ڈھائی سال کی عمر تک ہے لیکن حنفی مسلک میں صاحبین ہی کے قول پر فتوی ہے۔
جو علماء یہ کہتے ہیں کہ مطلق دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے ان کی دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے
(وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِیٓ اَرْضَعْنَكُمْ) (4۔ النساء:23)
اور تم پر تمہاری رضاعی مائیں حرام ہیں،
اس روایت میں مطلق دودھ پینے کی حرمت رضاعت کا ذکر ہے کم و زیادہ کی کوئی قید نہیں ہے لہذا خبر واحد کو چونکہ یہ درجہ حاصل نہیں ہو گا کہ وہ قرآن کریم کے کسی مطلق حکم مقید کرے اس لئے مذکورہ روایت اس بات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہوتی ہے کہ جب بچہ نے تین بار یا تین بار سے زائد دودھ چوسا ہو نیز ان حضرات کی ایک دلیل حضرت عائشہ کی وہ روایت بھی ہے جس میں مطلق دودھ پینے سے حرمت ثابت ہو جانے کو ان الفاظ کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے
حدیث (یحرم من الرضاعۃ ما یحرم من الولادۃ)
دودھ پینے سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں جو پیدائش کی وجہ سے حرام ہو جاتے ہیں
حرمت رضاعت کے سلسلہ میں حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی بچہ پانچ بار سے کم دودھ پئے تو حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی ان کی دلیل آنے والی حدیث ہے۔
٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ قرآن کریم میں یہ حکم نازل ہوا تھا کہ دس بار دودھ پینا جب کہ اس کے پینے کا کامل یقین ہو (نکاح کو) حرام کرتا ہے پھر یہ حکم پانچ بار پینے کے ساتھ کہ جس کے پینے کا کامل یقین ہو منسوخ ہو گیا (یعنی جب بعد میں یہ حکم نازل ہوا کہ پانچ بار دودھ پینا کہ اس کے پینے کا کامل یقین ہو حرمت رضاعت ثابت کرتا ہے تو پہلا حکم منسوخ ہو گیا اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس دنیا سے تشریف لے گئے اور یہ آیت قرآن کریم میں تلاوت کی جاتی رہی (مسلم)
تشریح
پہلے یہی حکم تھا کہ اگر کوئی بچہ کسی عورت کا دس بار دودھ پی لے تو ان دونوں کے درمیان حرمت رضاعت ثابت ہو جاتی ہے بعد میں نہ صرف یہ کہ یہ حکم ہی منسوخ ہو گیا بلکہ اس آیت کی تلاوت بھی منسوخ ہو گئی جس میں یہ حکم تھا اور یہ آیت نازل ہوئی کہ پانچ بار دودھ پینا نکاح کو حرام کرتا ہے اور پھر اس آیت کی تلاوت بھی تمام صحابہ کے نزدیک تو منسوخ ہو گئی لیکن حضرت عائشہ کی قرأت میں اس کی تلاوت منسوخ نہیں ہوئی یہاں تک کہ اب حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ اس آیت کا حکم تو باقی ہے کہ حرمت رضاعت پانچ بار دودھ پینے ہی سے ثابت ہوتی ہے اور اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے لیکن حضرت امام اعظم اور دیگر علماء کے نزدیک اس آیت کی تلاوت بھی منسوخ ہو گئی اور اس کا حکم بھی اس مطلق آیت (وَاُمَّھٰتُكُمُ الّٰتِیٓ اَرْضَعْنَكُمْ) 4۔ النساء:23) کے ذریعہ منسوخ ہو گیا۔
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے ہاں تشریف لائے تو اس وقت ان کے پاس ایک شخص بیٹھا ہوا تھا اسے دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو گویا ناگواری ہوئی۔ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس ناگواری کو محسوس کر کے عرض کیا کہ یہ میرے دودھ شریک بھائی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دیکھا (یعنی غور کرو اور سوچو) کہ تمہارا بھائی کون ہو سکتا ہے کیونکہ شرعی طور پر رضاعت کا اعتبار بھوک کے وقت ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ دودھ پینے کے احکام اسی صورت میں جاری ہوتے ہیں جب کہ دودھ بطور غذا پلایا جائے اور اس سے بھوک دور کی گئی ہو۔ چنانچہ یہ بات خورد سالی یعنی ایام شیرخوارگی ہی میں ہوتی ہے اور شیرخوارگی کی مدت اکثر علماء کے نزدیک دو سال اور امام اعظم ابو حنیفہ کے قول کے مطابق ڈھائی سال کی عمر تک رہتی ہے اس مدت میں بچہ کی غذائی ضرورت و خواہش کا دار و مدار عورت کے دودھ پر ہوتا ہے جب تک وہ دودھ نہیں پیتا اس کی بھوک ختم نہیں ہوتی لہذا حدیث کا حاصل یہ ہوا کہ بڑی عمر میں یعنی مدت رضاعت ختم ہو جانے کے بعد کسی عورت کا دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اور وہ شخص جو اس وقت حضرت عائشہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور جسے حضرت عائشہ نے اپنا دودھ شریک بھائی کہا تھا اس نے دراصل بڑی عمر میں دودھ پیا تھا اور چونکہ بڑی عمر میں دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا حضرت عائشہ کے پاس بیٹھنا نا گوار ہوا۔
اور حضرت عقبہ بن حارث کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے نکاح کیا تو ایک عورت نے آ کر کہا کہ میں نے عقبہ کو اور ابو اہاب کی بیٹی کو جس سے عقبہ نے شادی کی ہے دودھ پلایا ہے (لہا عقبہ اور ابو اہاب کی بیٹی چونکہ دودھ شریک بھائی بہن ہوئے اس لئے ان کا نکاح باطل ہوا) عقبہ نے اس عورت سے کہا کہ مجھے یہ معلوم نہیں ہے کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تم نے مجھے اس سے پہلے اس بارے میں بتایا پھر عقبہ نے ایک آدمی کو ابو اہاب کے خاندان والوں کے پاس یہ دریافت کرنے کے لئے بھیجا کہ کیا اس عورت نے تمہاری بیٹی کو دودھ پلایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم نہیں کہ اس عورت نے ہماری لڑکی کو دودھ پلایا ہو۔ اس کے بعد عقبہ سوار ہو کر مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے نکاح کے بارے میں پوچھا کہ یہ صورت پیدا ہو گئی ہے آیا میرا نکاح باطل ہو گیا ہے یا باقی ہے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم اس لڑکی کو کس طرح اپنے نکاح میں رکھ سکتے ہو جب کہ یہ ظاہر ہو گیا ہے کہ وہ تمہاری دودھ شریک بہن ہے چنانچہ عقبہ نے اس لڑکی کو علیحدہ کر دیا اور اس لڑکی نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔ (بخاری)
تشریح
حضرت امام احمد نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ ثبوت رضاعت کے سلسلہ میں ایک عورت کی گواہی قبول ہوتی ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور اکثر علماء کے نزدیک چونکہ دودھ پلانے کا ثبوت دو مرد یا ایک مرد اور دو عورت جو عادل ہوں کی۔ گواہی سے ہوتا ہے اس لئے یہ حضرات اس حدیث کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کا تعلق محض تقویٰ اور احتیاط سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے احتیاطاً یہ مناسب نہیں سمجھا کہ عقبہ اس لڑکی کو اپنے نکاح میں رکھے۔
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ حنین کے دن ایک لشکر کو اوطاس کی جانب روانہ کیا جو طائف کے قریب واقع ہے) چنانچہ وہ لشکر دشمنوں سے نبرد آزما ہوا اور جنگ کے بعد ان پر فتح یاب ہوا اور بہت سارے قیدی ان کے ہاتھ لگے (جن میں عورتیں بھی تھیں اور وہ عورتیں بطور لونڈی مجاہدین کی ملکیت میں آئیں) لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ میں سے بعض حضرات نے گویا ان لونڈیوں سے بایں وجہ جماع کرنے سے پرہیز کیا کہ وہ خاوند والی تھیں اور ان کے خاوند مشرک تھے چنانچہ اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (وَّالْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَاۗءِ اِلَّا مَامَلَكَتْ اَیمَانُكُمْ) 4۔ النساء:24) (اور حرام کی گئی ہیں تم پر وہ عورتیں جو خاوند والی ہیں مگر وہ عورتیں تم پر حرام نہیں ہیں جو تمہاری ملکیت میں آ گئی ہوں۔ یعنی وہ عورتیں جنہیں تم جنگ کے بعد دار الحرب سے بطور باندی پکڑ لائے ہو اور ان کے شوہر دار الحرب میں رہ گئے ہوں وہ عورتیں عدت گزر جانے کے بعد تمہارے لئے حلال ہیں (مسلم)
تشریح
مسئلہ یہ ہے کہ جو عورت کسی مرد کے نکاح میں ہو کسی دوسرے مرد کو نہ تو اس سے نکاح کرنا درست ہے اور نہ اسے اپنے تصرف میں لانا جائز ہے ہاں کافروں کی وہ بیویاں جنہیں جنگ و جدل کے بعد دار الحرب سے پکڑ کر لایا جائے اور ان کے خاوند دار الحرب میں رہ گئے ہوں تو ان عورتوں کو ان کی عدت گزر جانے کے بعد اپنے تصرف میں لانا جائز ہے اور یہاں عدت سے مراد استبراء ہے یعنی اگر وہ عورت حاملہ ہو تو جب اس کے ہاں ولادت ہو جائے اور اگر اسے حیض آتا ہو تو جب اسے ایک حیض آ جائے اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو پھر جب ایک مہینہ گزر جائے تب اس سے جماع کرنا جائز ہوتا ہے۔
اس سلسلہ میں طیبی نے یہ کہا ہے کہ حضرت ابن عباس نے اس آیت کریمہ کے پیش نظر یہ مسئلہ اخذ کیا ہے کہ جب کوئی خاوند والی لونڈی فروخت کی جاتی ہے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور جو شخص اسے خریدتا ہے اس کے لئے استبراء کے بعد اسے جماع کرنا جائز ہو جاتا ہے۔ گویا ابن عباس نے اس آیت کے حکم کو عمومیت پر محمول کیا ہے جب کہ اور تمام علماء کا یہ متفقہ مسلک ہے کہ اس کا نکاح نہیں ٹوٹتا ان کے نزدیک یہ آیت ہر خاوند والی لونڈی کے بارے میں نازل نہیں ہوئی ہے بلکہ یہ صرف ان لونڈیوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جو دار الحرب سے پکڑ کر لائی گئی ہوں۔
حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی پھوپھی کی موجودگی میں یا کسی عورت سے اس کی بھتیجی کی موجودگی میں نکاح کیا جائے اور اس سے بھی منع فرمایا ہے کہ کسی عورت سے اس کی خالہ کی موجودگی میں یا کسی عورت سے اس کی بھانجی کی موجودگی میں نکاح کیا جائے نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ) بڑے رشتہ والی کی موجودگی میں چھوٹے رشتہ والی سے اور چھوٹی رشتہ والی کی موجودگی میں بڑی رشتہ والی سے نکاح کیا جائے (ترمذی ابو داؤد دارمی نسائی) اور نسائی نے اس روایت کو بنت اختہا تک نقل کیا ہے۔
تشریح
حدیث کا دوسرا جزء یعنی (لاتنکح الصغری علی الکبری) الخ دراصل حدیث کے پہلے جزء یعنی (ان تنکح المرأۃ علی عمتہا) الخ کے حکم کی تاکید کے طور پر ہے چنانچہ بڑے رشتہ والی سے پھوپھی اور خالہ مراد ہیں اور چھوٹے رشتہ والی سے بھتیجی اور بھانجی مراد ہے
اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ ایک دن میرے ماموں حضرت ابو بردہ بن نیار میرے پاس سے اس حال میں گزرے کہ ان کے ہاتھ میں ایک نشان تھا میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کہاں جار ہے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ایک شخص نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر لیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اس شخص کے پاس بھیجا ہے تاکہ میں اس کا سر کاٹ کر آپ کی خدمت میں لے آؤں۔ (ترمذی) اور ابو داؤد کی ایک اور روایت میں نیز نسائی ابن ماجہ اور دارمی کی روایت میں یوں ہے کہ ابو بردہ نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کی گردن مار دوں اور اس کا مال و اسباب لے آؤں۔ اور اس روایت میں میرے ماموں کی جگہ میرے چچا کے الفاظ ہیں (لہذا یہ بات مختلف فیہ ہو گئی کہ حضرت بردہ بن نیاز حضرت براء بن عازب کے ماموں تھے یا چچا تھے؟
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو بردہ کو اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر نے والے کی گردن مارنے کے لئے بھیجا تو ان کے ہاتھ میں بطور نشان ایک جھنڈا دے دیا تھا تا کہ لوگ اس علامتی جھنڈے کو دیکھ کر جان لیں کہ یہ شخص مذکورہ بالا خدمت کی انجام دہی کے لئے دربار رسالت فرستادہ ہے۔
طیبی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ابو بردہ کو جس شخص کی گردن مارنے کا حکم دیا تھا اس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر کے شریعت اسلام کے ایک ظاہری حکم کی خلاف ورزی ہی نہیں کی تھی بلکہ اس کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح کرنا حلال ہے جیسا کہ اہل جاہلیت یعنی کفار ایسا عقیدہ رکھتے تھے لہذا اسلامی شریعت کا یہ فیصلہ ہے کہ جو شخص کسی حرام چیز کے حلال ہونے کا عقیدہ رکھے وہ کافر ہو جاتا ہے اور ایسے شخص کو قتل کر ڈالنا اور اس کا مال و اسباب ضبط کر لینا جائز ہے۔
اور حضرت ام سلمہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ دودھ پینا حرمت رضاعت کو ثابت کرتا ہے جو چھاتی سے پینے کی وجہ سے انتڑیوں کو کھول دیتا ہے اور وہ دودھ دودھ چھڑانے کے وقت سے پہلے پیا گیا ہو (ترمذی)
تشریح
انتڑیوں کو کھول دیتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دودھ بچہ کے پیٹ کو اس طرح سیر کر دے جس طرح کسی بھوکے کے پیٹ کو غذا سیر کر دیتی ہے اور وہ دودھ بچہ کی انتٹریوں میں غذا کی جگہ حاصل کر لے چنانچہ یہ بات شیرخوارگی کی مدت میں ہوتی ہے اور شیرخوارگی کی مدت دو سال یا ڈھائی سال کی عمر تک رہتی ہے اس ارشاد کی مراد یہ ہے کہ بڑی عمر میں یعنی دو سال میں یا ڈھائی سال کی عمر کے بعد دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوتی بلکہ چھوٹی عمر یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر تک کے عرصہ میں دودھ پینے سے حرمت رضاعت ثابت ہوتی ہے۔
چھاتی سے پینے کی وجہ سے ان الفاظ کا مقصد محض دودھ پلانے کی صورت اور واقع کا بیان کرنا ہے کہ عورت بچہ کو اپنی چھاتی سے دودھ پلاتی ہے ورنہ تو حرمت رضاعت کے ثابت ہونے کے لئے چھاتی سے دودھ پینا شرط نہیں ہے یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ حرمت رضاعت اسی صورت میں ثابت ہو گی جب کہ بچہ نے عورت کی چھاتی ہی سے دودھ پیا ہو بلکہ خواہ عورت اپنی چھاتی سے دودھ پلائے خواہ کسی چیز جیسے چمچہ وغیرہ میں دودھ نکال کر پھر بچہ کو پلائے اور خواہ کسی اور ذریعہ سے اپنا دودھ اس کے پیٹ میں پہنچائے بہرصورت حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔
وہ دودھ دودھ چھڑانے کے وقت سے پہلے پیا ہو یہ جملہ دراصل ما قبل کی عبارت کی تاکید کے طور پر ہے اس کا مطلب یہی ہے کہ شریعت میں بچہ کا دودھ چھڑانے کا جو وقت مقرر ہے یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر اس سے پہلے جو دودھ پیا گیا ہے حرمت رضاعت کے سلسلے میں اسی کا اعتبار ہو گا۔
فقہاء نے لکھا ہے کہ مدت رضاعت کے سلسلے میں وقت معین سے پہلے دودھ چھڑانے کا اعتبار نہیں کیا جائے گا چنانچہ اگر کسی بچہ کا دودھ وقت متعین سے پہلے یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر سے پہلے چھڑا دیا گیا اور اس کے بعد اس مدت متعین یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر کے اندر کسی عورت نے اس کو اپنا دودھ پلا دیا تو حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی اس بارے میں ضمنی طور پر یہ مسئلہ جان لینا ضروری ہے کہ کسی بچہ کو وقت متعین یعنی دو سال یا ڈھائی سال کی عمر کے بعد دودھ پلانا جائز نہیں ہے کیونکہ دودھ ْ انسان کا ایک جزو ہے اور انسان کے جزو سے بغیر ضرورت فائدہ اٹھانا حرام ہے اور یہ ظاہر ہے کہ مدت رضاعت کے بعد ضرورت ختم ہو جاتی ہے اسی بناء پر انسان کی دودھ کو بطور دوا استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
بطور نکتہ ایک یہ بات بھی ذہن میں رکھیے کہ اطباء نے ثابت کیا ہے کہ بیٹی کا دودھ آنکھ کو فائدہ کرتا ہے،علماء نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے چنانچہ بعض حضرات تو یہ کہتے ہیں کہ اگرچہ طبی طور پر یہ بات صحیح ہو لیکن شرعی طور پر) یہ جائز نہیں ہے جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے بشرطیکہ یہ گمنا غالب ہو کہ اپنی بیٹی کا دودھ آنکھ میں ڈالنے سے مرض جاتا رہے گا۔
اور حضرت حجاج بن حجاج اسلمی اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت حجاج اسلمی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم !وہ کون سی چیز ہے جس سے میں دودھ کے حق میں سبکدوش ہو سکتا ہوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مملوک یعنی بردہ خواہ غلام ہو یا لونڈی (ترمذی ابو داؤد نسائی دارمی)
تشریح
پوچھنے والے کا مطلب یہ تھا کہ وہ کون سی چیز ہے جو میں اگر دودھ پلانے والی کو دے دوں تو اس کی وجہ سے دودھ پلانے والی کے اس حق میں سبکدوش ہو جاؤں جو اس کا دودھ پینے کی وجہ سے مجھ پر ہے
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ اگر تم اس عورت کو کہ جس نے تمہیں دودھ پلایا ہے کوئی غلام یا لونڈی دے دو تو اس کے حق دودھ پلانے کا حق ادا ہو جائے گا۔ گویا حاصل یہ ہوا کہ دودھ پلانے والی چونکہ ایک بڑی خدمت انجام دیتی ہے اس لئے اس کو بھی کوئی خادم دے دینا چاہئے تا کہ وہ خادم اس کی خدمت کرے اور اس طرح خدمت کا بدلہ خدمت ہو جائے۔
اور حضرت ابو طفیل غنوی کہتے ہیں کہ ایک دن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک ایک خاتون یعنی دایہ حلیمہ آئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی تعظیم و تکریم اور ان کی خوشی کے لئے اپنی چادر مبارک بچھا دی اور وہ اس پر بیٹھ گئیں پھر جب وہ کہیں چلی گئیں تو ان لوگوں کو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس تعظیم و تکریم کی وجہ سے اور آپ کی مبارک چادر پر ان خاتون کے بیٹھ جانے سے حیران و متعجب تھے) بتایا گیا کہ یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دودھ پلایا ہے (ابو داؤد)
اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ جب غیلان بن سلمہ ثقفی مسلمان ہوئے تو ان کی دس بیویاں تھیں جن سے انہوں نے ایام جاہلیت میں شادیاں کی تھیں چنانچہ ان کے ساتھ ان کی وہ دس بیویاں بھی مسلمان ہو گئیں پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں حکم دیا کہ ان میں سے چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھو اور باقی کو علیحدہ کر دو (احمد ترمذی ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کفر کی حالت میں جو شادی کی جاتی ہے وہ معتبر ہوتی ہے چنانچہ اگر کافر میاں بیوی اسلام لے آئیں تو انہیں تجدید نکاح کا حکم نہیں دیا جائے گا بشرطیکہ ان کے نکاح میں ایسے رشتوں والی عورتیں نہ ہوں جنہیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا شریعت اسلامی نے ممنوع قرار دیا ہے۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چار سے زیادہ عورتوں کو بیک وقت اپنے نکاح میں رکھنا جائز نہیں ہے۔
اور حضرت نوفل بن معاویہ کہتے ہیں کہ جب میں مسلمان ہوا تو میرے نکاح میں پانچ عورتیں تھیں چنانچہ میں نے اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ایک کو علیحدہ کر دو اور چار کو باقی رکھو (آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ حکم سن کر) میں اپنی سب سے پہلی بیوی کو علیحدہ کر دیا جو بانجھ تھی اور ساٹھ سال سے میرے ساتھ تھی۔ (شرح السنۃ)
اور حضرت ضحاک ابن فیروز دیلمی اپنے والد حضرت فیروز سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں مسلمان ہو گیا ہوں اور میرے نکاح میں دو بہنیں ہیں اس بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں میں جس کو ایک چاہو رکھ لو (ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ)
تشریح
مظہر کہتے ہیں کہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک کا مسلک تو یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اس حال میں اسلام قبول کرے کہ اس کے نکاح میں دو بہنیں ہوں اور وہ دونوں بھی اس کے ساتھ اسلام قبول کر لیں تو اس کے لئے جائز ہو گا کہ وہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو اپنے نکاح میں برقرار رکھے خواہ وہ پہلی منکوحہ ہو یا دوسری منکوحہ ہو لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر اس شخص نے ان دو بہنوں سے ایک ساتھ عقد کیا تھا تو اس صورت میں اس کے لئے ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اپنے نکاح میں برقرار رکھنا جائز نہیں ہو گا ہاں اگر اس نے ان دونوں سے آگے پیچھے عقد کیا تھا تو ان میں سے ایک اس کو اپنے نکاح میں رکھنا جائز ہو گا جس سے اس نے پہلا نکاح کیا تھا جس سے بعد میں نکاح کیا تھا اس کو کسی صورت میں بھی اپنے نکاح میں برقرار رکھنا جائز نہیں ہو گا۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اسلام قبول کیا اور پھر اس نے ایک شخص سے نکاح کر لیا اس کے بعد اس کا پہلا شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! میں اسلام قبول کر چکا ہوں اور میری اس بیوی کو میرے اسلام قبول کر لینے کا علم تھا (لیکن اس کے باوجود اس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو دوسے خاوند سے علیحدہ کر کے پہلے خاوند کے حوالے کر دیا اور ایک روایت میں یوں ہے کہ اس پہلے خاوند نے یہ کہا کہ وہ عورت یعنی میری بیوی جس نے اب دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ہے میرے ساتھ ہی مسلمان ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اس عورت کو اسی پہلے شوہر کے حوالہ کر دیا (ابوداؤد) اور شرح السنۃ میں یہ روایت نقل کی گئی ہے کہ آنحضرت نے ان جیسی بہت سی عورتوں کو ان کے پہلے نکاح کے مطابق ان کے شوہروں کے حوالہ کر دیا تھا،جن کے شوہر دین اور ملک کے فرق کے بعد ان کے ساتھ اسلام کی صف میں شامل ہو گئے تھے (یعنی غیر مسلم میاں بیوی میں سے کسی ایک کے اسلام قبول کر لینے کی وجہ سے اور ایک کے دار الاسلام میں اور دوسرے کے دار الحرب میں رہنے کی وجہ سے گویا دونوں کے درمیان مذہبی اور ملکی بعد و اختلاف واقع ہو جاتا تھا مگر جب وہ دوسرا بھی اسلام قبول کر لیتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ان کے سابقہ نکاح کو باقی رکھتے ہوئے بیوی کو شوہر کے حوالہ کر دیتے تھے۔ گویا قبولیت اسلام کے بعد تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی تھی) چنانچہ ان عورتوں میں ایک عورت ولید بن مغیرہ کی بیٹی بھی تھی جو صفوان بن امیہ کی بیوی تھی یہ عورت اپنے شوہر سے پہلے فتح مکہ کے دن مسلمان ہو گئی اور اس کے شوہر نے اسلام سے گریز کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے شوہر صفوان بن امیہ کے پاس اس کے چچا کے بیٹے وہب بن عمیر کو اپنی مبارک چادر دے کر بھیجا اور اس کو امان عطا کیا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہب کو بطور علامت اپنی چادر دے کر بھیجا کہ وہ صفوان کو یہ چادر دکھا کر مطلع کریں کہ قتل و تشدد سے تمہیں امان دی گئی ہے تم بلا خوف آ سکتے ہو) پھر جب صفوان آ گئے تو ان کی سیر کے لئے چار مہینے مقرر کئے گئے (یعنی انہیں اجازت دی گئی کہ وہ پورے امن و امان کے ساتھ چار مہینے تک مسلمانوں کے درمیان گھومیں پھریں تا کہ وہ مسلمانوں کی عادات و اطوار کا اچھی طرح مشاہدہ کر لیں چنانچہ وہ چند دنوں تک مسلمانوں کے درمیان گھومتے پھرتے رہے) یہاں تک کہ صفوان بھی اپنی بیوی کے مسلمان ہونے کے دو مہینے بعد) مسلمان ہو گئے۔ اور ولید کی بیٹی جو ان کے نکاح میں تھی ان کی بیوی برقرار رہی۔ اسی طرح ان عورتوں میں ایک عورت ام حکیم تھیں جو حارث بن ہشام کی بیٹی اور ابو جہل کے بیٹے عکرمہ کی بیوی تھیں انہوں نے بھی فتح مکہ کے دن مکہ میں اسلام قبول کیا اور انکے خاوند عکرمہ نے اسلام سے گریز کیا اور یمن چلے گئے چنانچہ کچھ دنوں کے بعد ام حکیم بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے حکم سے اپنے خاوند کو راہ راست پر لانے کے لئے) یمن پہنچیں اور انہوں نے اپنے خاوند عکرمہ کو اسلام قبول کرنے کی ترغیب دی تا آنکہ وہ مسلمان ہو گئے اور ان دونوں کا نکاح باقی رہا۔ اس روایت کو امام مالک نے ابن شہاب سے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
تشریح
اگر غیر مسلم میاں بیوی میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے اور دوسرا مسلمان نہ ہو تو ان دونوں کا نکاح باقی رہے گا یا نہیں؟ اس بارے میں مظہر کہتے ہیں کہ حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں اگر وہ دوسرا کہ جس نے پہلے کے ساتھ اسلام قبول نہیں کیا تھا خواہ وہ بیوی ہو یا خاوند ہو) عدت کے ایام گزرنے سے پہلے اسلام قبول کر لے تو ان کا نکاح باقی رہے گا خواہ ان دونوں کا سابقہ مذہب یکساں رہا ہو مثلاً دونوں عیسائی یا یہودی اور یا بت پرست رہے ہوں خواہ دونوں کا سابقہ مذہب یکساں نہ رہا ہو مثلاً ایک کا مذہب بت پرستی رہا ہو اور دوسرا عیسائی یا یہودی رہا ہو اسی طرح خواہ وہ دونوں ہی دار الاسلام میں رہنے والے ہوں یا دار الحرب میں اور خواہ ان میں ایک تو دار الاسلام میں رہتا ہو اور دوسرا دار الحرب میں۔
اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان دونوں کے درمیان تفریق ان تین وجوہ میں سے کسی ایک وجہ ہی سے ہو سکتی ہے اول یہ کہ عدت کے دن پورے ہو جائیں دوم یہ کہ ان دونوں میں سے جس نے اسلام قبول کر لیا ہے وہ اسلام قبول نہ کرنے والے کو اسلام کی دعوت دے اور وہ اسلام قبول کرنے سے انکار کر دے۔ سوم یہ کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دار الاسلام سے منتقل ہو کر دار الحرب چلا جائے یا دار الحرب چھوڑ کر دار الاسلام آ جائے۔ نیز امام اعظم کے نزدیک ان دونوں میں سے کسی ایک کا اسلام قبول کرنا خواہ مجامعت سے پہلے واقع ہوا ہو یا بعد میں دونوں صورتوں کا یکساں حکم ہے۔
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ از روئے نسب سات رشتوں کی عورتیں حرام کی گئی ہیں۔ اور از روئے مصاہرت بھی سات رشتوں کی عورتیں حرام کی گئی ہیں پھر حضرت ابن عباس نے یہ آیت (حُرِّمَتْ عَلَیكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ) 4۔ النساء:23) آخر تک پڑھی۔ (بخاری)
تشریح
از روۓ نسب جو سات رشتہ والی عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں وہ یہ ہیں ماں، بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ، بھتیجی، بھانجی۔
مصاہرت اس رشتہ اور قرابت کو کہتے ہیں جو نکاح کے ذریعہ قائم ہو اور جسے سسرالی رشتہ بھی کہا جاتا ہے چنانچہ مصاہرت یعنی سسرالی رشتہ کی وجہ سے جو سات عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں ان میں سے چار تو ہمیشہ کے لئے حرام ہوتی ہیں کہ ان سے کسی بھی حال میں اور کسی بھی وقت نکاح کرنا جائز نہیں ہوتا اور وہ یہ ہیں، بیوی کی ماں یعنی ساس، بیٹے اور پوتے کی بیویاں یعنی بہو اور پوت بہو، اگرچہ وہ کتنے ہی نیچے درجہ کی ہوں جیسے پڑپوتے اور سکڑپوتے وغیرہ کی بیویاں، باپ اور دادا کی بیویاں اگرچہ اوپر کے درجہ کی ہوں جیسے پڑ دادا اور سکڑ دادا وغیرہ کی بیویاں، اپنی اس بیوی کی بیٹی جس سے جماع کر چکا ہو، سسرالی رشتہ کی وہ تین عورتیں جو ہمیشہ کے لئے حرام نہیں ہیں وہ یہ ہیں، بیوی کی بہن، بیوی کی پھوپھی، بیوی کی خالہ۔
حضرت ابن عباس نے اپنی بات کی دلیل کے طور پر قرآن کریم کی آیت پڑھی چنانچہ اس آیت میں نسبی رشتہ والی ان ساتوں عورتوں کا ذکر ہے جو حرام قرار دی گئی ہیں اور سسرالی رشتہ کی وجہ سے جو عورتیں حرام ہیں ان میں سے اکثر کا ذکر اس آیت میں ہے پوری آیت یوں ہے: (حُرِّمَتْ عَلَیكُمْ اُمَّھٰتُكُمْ) 4۔ النساء:23) آخر تک
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص عورت سے نکاح کرے اور پھر اس سے جماع کرے تو اس کے لئے اس بیوی کی بیٹی سے جو اس کے پہلے شوہر سے ہے) نکاح کرنا جائز نہیں ہے بشرطیکہ اس بیوی کو طلاق دے چکا ہو یا وہ مر گئی ہو کیونکہ اس بیوی کو اور اس کی بیٹی کو ایک ساتھ اپنے نکاح میں رکھنا اس صورت میں بھی جائز نہیں ہے) اور جس شخص نے کسی عورت سے نکاح کر لیا تو اب اس کے لئے اپنی اس منکوحہ کی ماں یعنی اپنی ساس سے نکاح کرنا جائز نہیں ہو گا خواہ اپنی اس منکوحہ سے جماع کیا ہو یا جماع نہ کیا ہو۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث اپنی سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کو ابن لہیعہ اور مثنی ابن صباح نے عمرو بن شعیب سے نقل کیا ہے اور وہ دونوں حدیث روایت کرنے کے سلسلے میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں
(گویا یہ حدیث اپنے راویوں سے اعتبار سے تو صحیح نہیں ہے لیکن اپنے مفہوم و معنی کے اعتبار سے صحیح ہے کیونکہ اس حدیث میں جو مفہوم بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کی آیت کے مطابق ہے)
تشریح
حدیث میں اپنی بیوی کی بیٹی سے نکاح کے عدم جواز کا جو حکم بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کریم کی اس آیت سے ثابت ہے چنانچہ فرمایا کہ
اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی وہ بیٹیاں جو ان کے لئے پہلے شوہر سے ہیں اور تمہاری پرورش میں ہیں اور جو تمہاری ان بیویوں سے ہیں جن سے تم جماع کر چکے ہو اور اگر تم نے ان بیویوں سے جماع نہیں کیا ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں کہ تم ان کی بیٹیوں سے نکاح کرو۔
اور بیوی کی ماں یعنی اپنی ساس سے نکاح کے عدم جواز کا جو مطلق حکم بیان کیا گیا ہے وہ قرآن کریم کی اس مطلق آیت سے ثابت ہے۔
اور حرام ہیں تم پر تمہاری بیویوں کی مائیں۔