حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْ يُعْطَى النَّاسُ بِدَعْوَاهُمْ لَادَّعَى نَاسٌ دِمَاءَ رِجَالٍ، وَأَمْوَالَهُمْ وَلَكِنَّ الْيَمِينَ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اگر لوگوں کو دلا دیا جائے جو دعویٰ کریں تو بعض دوسروں کی جان اور مال لے لیں گے۔ لیکن مدعیٰ علیہ کو قسم کھانا چاہیے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَضَى بِالْيَمِينِ عَلَى الْمُدَّعَى عَلَيْهِ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا قسم کا مدعٰی علیہ کو۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَيْدٌ وَهُوَ ابْنُ حُبَابٍ ، حَدَّثَنِي سَيْفُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، أَخْبَرَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَضَى بِيَمِينٍ وَشَاهِدٍ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ایک قسم اور ایک گواہ پر۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَة َ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ تَخْتَصِمُونَ إِلَيَّ وَلَعَلَّ بَعْضَكُمْ أَنْ يَكُونَ أَلْحَنَ بِحُجَّتِهِ مِنْ بَعْضٍ، فَأَقْضِيَ لَهُ عَلَى نَحْوٍ مِمَّا أَسْمَعُ مِنْهُ، فَمَنْ قَطَعْتُ لَهُ مِنْ حَقِّ أَخِيهِ شَيْئًا، فَلَا يَأْخُذْهُ فَإِنَّمَا أَقْطَعُ لَهُ بِهِ قِطْعَةً مِنَ النَّارِ "،
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میرے پاس مقدمہ لاتے ہو اور تم میں سے کوئی دوسرے سے زیادہ اپنی بات کو ثابت کرتا ہے اور میں اس کے موافق حکم دیتا ہوں پھر جس کو میں اس کے بھائی کا کچھ حق دلاؤں (اور نفس الامر میں وہ اس کا حق نہ ہو) تو اس کو نہ لے۔ کیونکہ میں ایک جہنم کا ٹکڑا اسے دلا رہا ہوں۔“
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سَمِعَ جَلَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ حُجْرَتِهِ فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ وَإِنَّهُ يَأْتِينِي الْخَصْمُ، فَلَعَلَّ بَعْضَهُمْ أَنْ يَكُونَ أَبْلَغَ مِنْ بَعْضٍ، فَأَحْسِبُ أَنَّهُ صَادِقٌ فَأَقْضِي لَهُ، فَمَنْ قَضَيْتُ لَهُ بِحَقِّ مُسْلِمٍ، فَإِنَّمَا هِيَ قِطْعَةٌ مِنَ النَّارِ فَلْيَحْمِلْهَا أَوْ يَذَرْهَا "،
ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑنے والے کا غل سنا، اپنے حجرے کے دروازے پر تو باہر نکلے اور فرمایا: ” میں آدمی ہوں اور میرے پاس کوئی مقدمہ والا آتا ہے اور ایک دوسرے سے بہتر بات کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سچا ہے اور اس کے موافق فیصلہ کر دیتا ہوں تو جس کو میں کسی مسلمان کا حق دلا دوں وہ انگار کا ایک ٹکڑا ہے اس کو لے یا چھوڑ دے۔“
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ يُونُسَ وَفِي حَدِيثِ مَعْمَرٍ، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَجَبَةَ خَصْمٍ بِبَابِ أُمِّ سَلَمَةَ ".
اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑنے والے کی پکار سنی سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر، پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " دَخَلَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ امْرَأَةُ أَبِي سُفْيَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ شَحِيحٌ، لَا يُعْطِينِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يَكْفِينِي وَيَكْفِي بَنِيَّ، إِلَّا مَا أَخَذْتُ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمِهِ، فَهَلْ عَلَيَّ فِي ذَلِكَ مِنْ جُنَاحٍ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذِي مِنْ مَالِهِ بِالْمَعْرُوفِ مَا يَكْفِيكِ وَيَكْفِي بَنِيكِ "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ہند بیٹی عتبہ کی ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی بی بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کی: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل ہے مجھ کو اتنا خرچ نہیں دیتا جو مجھ کو اور میرے بچوں کو کافی ہو۔ مگر میں اس کے مال میں سے لیتی ہوں اور اس کو خبر نہیں ہوتی تو اس کا گناہ ہو گا مجھ پر؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تو اس کے مال میں سے لے لے دستور کے موافق جتنا تجھ کو اور تیرے بچوں کو کافی ہو۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَوَكِيعٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي ابْنَ عُثْمَانَ كُلُّهُمْ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ہشام سے اس سند کے ساتھ بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُذِلَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ أَهْلُ خِبَاءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُعِزَّهُمُ اللَّهُ مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مُمْسِكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ أَنْ أُنْفِقَ عَلَى عِيَالِهِ مِنْ مَالِهِ بِغَيْرِ إِذْنِهِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا حَرَجَ عَلَيْكِ أَنْ تُنْفِقِي عَلَيْهِمْ بِالْمَعْرُوفِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، ہند زوجہ ابوسفیان کی(جو عتبہ کی بیٹی تھی اور بڑی دشمن تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کا باپ اور چچا جنگ بدر میں امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے مارا گیا اور اس عداوت سے اس نے احد کی جنگ میں امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبا ڈالا پھر مسلمان ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کو ہدایت کی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی کہنے لگی: یا رسول اللہ! ساری زمین پر کوئی ڈیرہ کے لوگ ایسے نہ تھے، جن کو میں یہ چاہتی ہوتی کہ اللہ ان کو تباہ کرے، آپ کے ڈیرے والوں سے زیادہ۔ اور اب ساری زمین پر کوئی ڈیرے والے ایسے نہیں ہیں جن کو میں یہ چاہتی ہوں کہ اللہ ان کو عزت دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ڈیرے والوں سے زیادہ (مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ اور آپ کی آل مجھ کو محبوب ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ابھی اور زیادہ تجھ کو محبت ہو گی (جب اسلام کا نور تیرے دل میں سمائے گا) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔“ پھر ہند رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ! ابوسفیان بخیل ہے تو کیا حرج ہو گا اگر میں اس کا روپیہ اس کے بال بچوں پر صرف کروں اس کی اجازت کے بغیر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تیرے اوپر کچھ گناہ نہیں اگر دستور کے موافق خرچ کرے۔“ (یہ نہیں کہ اس کا مال لٹا دے اور بے جا خرچ کرے)۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَمِّهِ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ قَالَتْ: " جَاءَتْ هِنْدٌ بِنْتُ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَذِلُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، وَمَا أَصْبَحَ الْيَوْمَ عَلَى ظَهْرِ الْأَرْضِ خِبَاءٌ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يَعِزُّوا مِنْ أَهْلِ خِبَائِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَيْضًا وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا سُفْيَانَ رَجُلٌ مِسِّيكٌ، فَهَلْ عَلَيَّ حَرَجٌ مِنْ أَنْ أُطْعِمَ مِنَ الَّذِي لَهُ عِيَالَنَا؟، فَقَالَ لَهَا: لَا إِلَّا بِالْمَعْرُوفِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہند بنت عتبہ آئیں اور کہنے لگیں: کہ اے اللہ کے رسول! مجھے سب سے زیادہ پسند یہ بات تھی کہ آپ کے گھر والوں کو ذلت ہو اور آج کے مجھے آپ کے گھر والوں کی عزت ہر چیز سے زیادہ عزیز ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ” اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں میری جان ہے اور بھی زیادہ ہو گی۔“ پھر ہند نے کہا: اے اللہ کے رسول! ابوسفیان کنجوس آدمی ہے۔ کیا مجھے گناہ ہو گا اگر میں اس کے مال میں سے اپنے بچوں کو کھلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ” نہیں مگر دستور کے موافق ہو۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ يَرْضَى لَكُمْ ثَلَاثًا وَيَكْرَهُ لَكُمْ ثَلَاثًا، فَيَرْضَى لَكُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا، وَلَا تَفَرَّقُوا، وَيَكْرَهُ لَكُمْ قِيلَ، وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے تمہاری تین باتوں سے اور ناخوش ہوتا ہے تین باتوں سے۔ خوش ہوتا ہے اس سے کہ تم عبادت کرو اس کی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ اس کی رسی سب مل کر پکڑے رہو۔ (یعنی قرآن پر عمل کرتے رہو) اور پھوٹ مت ڈالو۔ اور ناخوش ہوتا ہے بے فائدہ گفتگو سے اور بہت پوچھنے سے (یعنی ان مسائل کا پوچھنا جن کی ضرورت نہ ہو یا ان باتوں کا جن کی حاجت نہ ہو۔ اور جن کا پوچھنا دوسرے کو ناگوار گزرے) اور مال کے تباہ کرنے سے۔“ (یعنی بے فائدہ اٹھانے سے جو نہ دنیا میں کام آئے نہ عقبیٰ میں جیسے پتنگ بازی، آتش بازی میں)۔
وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سُهَيْلٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: وَيَسْخَطُ لَكُمْ ثَلَاثًا وَلَمْ يَذْكُرْ وَلَا تَفَرَّقُوا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں یہ ہے کہ تین باتوں سے غصہ ہوتا ہے اور پھوٹ کا بیان نہیں کیا۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ، عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ، وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ "،
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”بے شک اللہ عزت اور بزرگی والے نے حرام کیا ہے تم پر نافرمانی ماؤں کی اور زندہ گاڑ دینا لڑکیوں کا (جیسے کفار کیا کرتے تھے) اور نہ دینا(اس کو جس کا دینا ہے مال ہوتے ہوئے) اور مانگنا (اس چیز کا جس کے مانگنے کا حق نہیں) اور برا جانتا ہے تین باتوں کو (گو اتنا گناہ نہیں جتنا پہلی تین باتوں میں ہے) بے فائدہ تکرار اور بہت پوچھنا اور مال کو برباد کرنا۔“
وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ مَنْصُورٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَقُلْ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ.
وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا تمہارے اوپر اور یہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے تمہارے اوپر۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَشْوَعَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، حَدَّثَنِي كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ ، اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا قِيلَ، وَقَالَ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ ".
شعبی سے روایت ہے مجھ سے سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی نے بیان کیا کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو لکھا مجھے ایسی بات لکھو جو تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا: میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ” اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے تمہارے لیے تین باتوں کو ایک بے فائدہ گفتگو (فلاں ایسے تھے فلاں ایسے ہیں سلیم شاہ کی داڑھی بڑی تھی شیر کی چھوٹی) دوسرے مال کو تباہ کرنا (بیجا خرچ کرنا)تیسرے بہت پوچھنا۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الثَّقَفِيُّ ، عَنْ وَرَّادٍ ، قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيرَةُ إِلَى مُعَاوِيَةَ: سَلَامٌ عَلَيْكَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ ثَلَاثًا، وَنَهَى عَنْ ثَلَاثٍ، حَرَّمَ عُقُوقَ الْوَالِدِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَلَا وَهَاتِ، وَنَهَى عَنْ ثَلَاثٍ قِيلَ، وَقَالَ، وَكَثْرَةِ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةِ الْمَالِ ".
وراد سے روایت ہے، سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھا سلام ہو تم پر بعد اس کے معلوم ہو کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اللہ نے حرام کیا ہے تین باتوں کو اور منع کیا ہے تین باتوں سے، حرام کیا ہے باپ کی نافرمانی کو اور جیتی لڑکیوں کو گاڑ دینا اور نہ دینا جس کا دینا ہے اور مانگنا جس سے نہ مانگنا چاہیئے اور منع کیا ہے بے فائدہ تکرار سے اور بہت پوچھ پاچھ کرنے سے اور مال کو تباہ کرنے سے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ، ثُمَّ أَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ "،
سیدنا ابوقیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جو مولیٰ تھے سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے، انہوں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب حاکم سوچ کر حکم دے پھر صحیح کرے تو اس کو دو اجر ہیں اور جو سوچ کر حکم دے اور غلطی کرے تو اس کو ایک اجر ہے۔“
وحَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَزَادَ فِي عَقِبِ الْحَدِيثِ، قَالَ يَزِيدُ: فَحَدَّثْتُ هَذَا الْحَدِيثَ أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ ، فَقَالَ: هَكَذَا حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ،
مندرجہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيَّ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بْنِ الْهَادِ اللَّيْثِيُّ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ مِثْلَ رِوَايَةِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مُحَمَّدٍ بِالْإِسْنَادَيْنِ جَمِيعًا.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، قَالَ: كَتَبَ أَبِي وَكَتَبْتُ لَهُ إِلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ وَهُوَ قَاضٍ بِسِجِسْتَانَ، أَنْ لَا تَحْكُمَ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَأَنْتَ غَضْبَانُ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحْكُمْ أَحَدٌ بَيْنَ اثْنَيْنِ وَهُوَ غَضْبَانُ "،
عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ سے روایت ہے، میرے باپ نے لکھوایا اور میں نے لکھا عبیداللہ بن ابی بکرہ کو اور وہ قاضی تھے سجستان کے۔ مت حکم کر دو آدمیوں میں جب تو غصے میں ہو کیوں کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”نہ فیصلہ کرے کوئی دو شخصوں میں جب وہ غصہ میں ہو۔“
وحَدَّثَنَاه يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ . ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ. ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ الْهِلَالِيُّ جميعا، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ ابْنُ الصَّبَّاحِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا هَذَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ہمارے دین میں وہ بات نکالے جو اس میں نہ ہو(یعنی بغیر دلیل کے) وہ رد ہے۔“
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد جميعا، عَنْ أَبِي عَامِرٍ، قَالَ عَبْدُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الزُّهْرِيُّ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، " قَالَ سَأَلْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، عَنْ رَجُلٍ لَهُ ثَلَاثَةُ مَسَاكِنَ، فَأَوْصَى بِثُلُثِ كُلِّ مَسْكَنٍ مِنْهَا، قَالَ: يُجْمَعُ ذَلِكَ كُلُّهُ فِي مَسْكَنٍ وَاحِدٍ؟، ثُمَّ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ عَمِلَ عَمَلًا لَيْسَ عَلَيْهِ أَمْرُنَا فَهُوَ رَدٌّ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایسا کام کرے جس کے لیے ہمارا حکم نہ ہو (یعنی دین میں ایسا عمل نکالے) تو وہ مردود ہے۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمْرَةَ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ الشُّهَدَاءِ الَّذِي يَأْتِي بِشَهَادَتِهِ قَبْلَ أَنْ يُسْأَلَهَا؟ ".
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم کو بتلاؤں بہتر گواہ کون ہے؟ جو اپنی گواہی ادا کرے پوچھنے سے پہلے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " بَيْنَمَا امْرَأَتَانِ مَعَهُمَا ابْنَاهُمَا جَاءَ الذِّئْبُ، فَذَهَبَ بِابْنِ إِحْدَاهُمَا، فَقَالَتْ هَذِهِ لِصَاحِبَتِهَا: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ أَنْتِ، وَقَالَتِ الْأُخْرَى: إِنَّمَا ذَهَبَ بِابْنِكِ، فَتَحَاكَمَتَا إِلَى دَاوُدَ فَقَضَى بِهِ لِلْكُبْرَى، فَخَرَجَتَا عَلَى سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَأَخْبَرَتَاهُ فَقَالَ: ائْتُونِي بِالسِّكِّينِ أَشُقُّهُ بَيْنَكُمَا، فَقَالَتِ الصُّغْرَى: لَا يَرْحَمُكَ اللَّهُ هُوَ ابْنُهَا فَقَضَى بِهِ لِلصُّغْرَى "، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " وَاللَّهِ إِنْ سَمِعْتُ بِالسِّكِّينِ قَطُّ إِلَّا يَوْمَئِذٍ مَا كُنَّا نَقُولُ إِلَّا الْمُدْيَةَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو عورتیں جا رہی تھیں اپنا بچہ لیے ہوئے اتنے میں بھیڑیا آیا۔ اور ایک کا بچہ لے گیا، ایک نے دوسری سے کہا: تیرا بیٹا لے گیا آخر دونوں اپنا فیصلہ کرانے کو داؤد علیہ السلام کے پاس آئیں، انہوں نے بچہ بڑی عورت کو دلا دیا۔ (اس وجہ سے کہ بچہ اس کے مشابہ ہو گا یا ان کی شریعت میں ایسی صورت میں بڑے کو ترجیح ہو گی یا بچہ اس کے ہاتھ میں ہو گا)۔ پھر وہ دونوں سلیمان علیہ السلام کے پاس آئیں اور ان سے سب حال بیان کیا۔ انہوں نے کہا: چھری لاؤ۔ ہم بچے کے دوٹکڑے کر کے تم دونوں کو دے دیں گے (اس سے بچے کا کاٹنا مقصود نہ تھا بلکہ حقیقی ماں کا دریافت کرنا منظور تھا) چھوٹی نے کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے، مت کاٹ بچے کو وہ بڑی کا بیٹا ہے۔ سلیمان علیہ السلام نے وہ بچہ چھوٹی کو دلایا۔“ (تو سلیمان علیہ السلام نے داؤد علیہ السلام کے خلاف حکم دیا۔ اس لیے کہ دونوں مجتہد تھے اور پیغمبر بھی تھے۔ اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کا خلاف درست ہے مسائل اجتہادی میں گو حکم توڑنا درست نہیں۔ مگر شاید داؤد علیہ السلام نے اس فیصلہ کو قطع نہ کیا ہو گا۔ یا صرف بطور فتویٰ کے ہو گا) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اس حدیث میں میں نے «سكين»کا لفظ اسی دن سنا جو چھری کو کہتے ہیں ہم تو «مديه» کہا کرتے تھے۔
وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنِي حَفْصٌ يَعْنِي ابْنَ مَيْسَرَةَ الصَّنْعَانِيَّ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ وَهُوَ ابْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَجْلَانَ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ مَعْنَى حَدِيثِ وَرْقَاءَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَرَى رَجُلٌ مِنْ رَجُلٍ عَقَارًا لَهُ، فَوَجَدَ الرَّجُلُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ فِي عَقَارِهِ جَرَّةً فِيهَا ذَهَبٌ، فَقَالَ لَهُ الَّذِي اشْتَرَى الْعَقَارَ: خُذْ ذَهَبَكَ مِنِّي إِنَّمَا اشْتَرَيْتُ مِنْكَ الْأَرْضَ وَلَمْ أَبْتَعْ مِنْكَ الذَّهَبَ، فَقَالَ الَّذِي شَرَى الْأَرْضَ: إِنَّمَا بِعْتُكَ الْأَرْضَ وَمَا فِيهَا، قَالَ: فَتَحَاكَمَا إِلَى رَجُلٍ، فَقَالَ الَّذِي تَحَاكَمَا إِلَيْهِ: أَلَكُمَا وَلَدٌ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: لِي غُلَامٌ، وَقَالَ الْآخَرُ: لِي جَارِيَةٌ، قَالَ: أَنْكِحُوا الْغُلَامَ الْجَارِيَةَ، وَأَنْفِقُوا عَلَى أَنْفُسِكُمَا مِنْهُ وَتَصَدَّقَا ".
ہمام بن منبہ سے روایت ہے، یہ وہ حدیثیں ہیں جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیں ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر۔ پھر بیان کیں کئی حدیثیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایک شخص نے دوسرے شخص سے زمین خریدی پھر جس نے زمین خریدی اس نے ایک گھڑا سونے کا بھرا ہوا اس میں پایا، جس نے خریدی تھی وہ کہنے لگا (بیچنے والے سے): تو اپنا سونا لے لے میں نے تجھ سے زمین خریدی تھی، سونا نہیں خریدا تھا، جس نے زمین بیچی تھی، اس نے کہا: میں نے تیرے ہاتھ زمین بیچی اور جو کچھ اس میں تھا۔ (تو سونا بھی تیرا ہے سبحان اللہ! بائع اور مشتری دونوں کیسے خوش نیت اور ایماندار تھے) پھر دونوں نے فیصلہ چاہا ایک شخص سے، وہ بولا: تمہاری اولاد ہے؟ ایک نے کہا: میرا ایک لڑکا ہے، دوسرے نے کہا: میری ایک لڑکی ہے۔ اس نے کہا: اچھا اس کے لڑکے کا نکاح اس لڑکی سے کر دو۔ اور اس سونے کو دونوں پر خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بھی دو۔“ (غرض صلح کرا دی اور یہ مستحب ہے تاکہ دونوں خوش رہیں)۔