حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ " أَسْأَلُهُ عَنْ الدُّعَاءِ قَبْلَ الْقِتَالِ، قَالَ: فَكَتَبَ إِلَيَّ إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ فِي أَوَّلِ الْإِسْلَامِ، قَدْ أَغَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَنِي الْمُصْطَلِقِ وَهُمْ غَارُّونَ وَأَنْعَامُهُمْ تُسْقَى عَلَى الْمَاءِ، فَقَتَلَ مُقَاتِلَتَهُمْ، وَسَبَى سَبْيَهُمْ وَأَصَابَ يَوْمَئِذٍ "، قَالَ يَحْيَى: أَحْسِبُهُ قَالَ جُوَيْرِيَةَ، أَوَ قَالَ: الْبَتَّةَ ابْنَةَ الْحَارِثِ، وَحَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَكَانَ فِي ذَاكَ الْجَيْشِ،
ابن عون سے روایت ہے، میں نے نافع کو لکھا کہ لڑائی سے پہلے کافروں کو دین کو دعوت دینا ضروری ہے؟ انہوں نے جواب میں لکھا کہ یہ حکم شروع اسلام میں تھا (جب کافروں کو دین کی دعوت نہیں پہنچی تھی) اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مصطلق پر حملہ کیا اور وہ غافل تھے، ان کے جانور پانی پی رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قتل کیا ان میں سے جو لڑے اور باقی کو قید کیا۔ اور اسی دن جویریہ رضی اللہ عنہا بنت حارث کو پکڑا۔ نافع نے کہا: یہ حدیث مجھ سے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کی۔ وہ اس لشکر میں شریک تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍبِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: جُوَيْرِيَةَ بِنْتَ الْحَارِثِ وَلَمْ يَشُكَّ.
ابن عون سے بھی مذکورہ بالا حدیث اس سند سے مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: أَمْلَاهُ عَلَيْنَا إِمْلَاءً.
سفیان نے کہا کہ اس نے ہمیں حدیث لکھوائی۔
ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بِتَقْوَى اللَّهِ وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ: اغْزُوا بِاسْمِ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ اغْزُوا، وَلَا تَغُلُّوا وَلَا تَغْدِرُوا وَلَا تَمْثُلُوا وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ إِنْ فَعَلُوا ذَلِكَ، فَلَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبَوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَابِ الْمُسْلِمِينَ يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا فَسَلْهُمُ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابُوكَ، فَاقْبَلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ هُمْ أَبَوْا، فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبِيِّهِ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبِيِّهِ وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَصْحَابِكَ، فَإِنَّكُمْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ أَصْحَابِكُمْ أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيبُ حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ أَمْ لَا؟ "، قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: هَذَا أَوْ نَحْوَهُ وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي آخِرِ حَدِيثِهِ، عَنْ يَحْيَي بْنِ آدَمَ، قَالَ: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِمُقَاتِلِ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ يَحْيَي: يَعْنِي أَنَّ عَلْقَمَةَ يَقُولُهُ لِابْنِ حَيَّانَ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ هَيْصَمٍ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ مُقَرِّنٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ،
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو امیر مقرر کرتے لشکر پر یا سریہ پر (سریہ کہتے ہیں چھوٹے ٹکڑے کو اور بعض نے کہا: سریہ میں چار سو سوار ہوتے ہیں جو رات کو چھپ کر جاتے ہیں)تو خاص اس کو حکم کرتے اللہ تعالیٰ سے ڈرنے کا اور اس کے ساتھ والے مسلمانوں کو حکم کرتے بھلائی کرنے کا۔ پھر فرماتے: ”جہاد کرو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر، اللہ کے راستہ میں لڑو، اس سے جس نے نہ مانا اللہ کو، جہاد کرو اور چوری نہ کرو، لوٹ کے مال میں اور اقرار نہ توڑو اور مثلہ نہ کرو (یعنی ہاتھ پاؤں ناک کان نہ کاٹو) اور مت مارو بچوں کو (جو نابالغ ہوں اور لڑائی کے لائق نہ ہوں) اور جب اپنے دشمن سے ملے مشرکوں سے تو بُلا ان کو تین باتوں کی طرف، پھر ان تین باتوں میں سے جو مان لیں تو بھی قبول کر اور باز رہ ان سے (یعنی ان کو مارنے اور لوٹنے سے) پھر بلا ان کو اسلام کی طرف (یہ ایک بات ہوئی ان تین میں سے) اگر وہ مان لیں تو قبول کر اور باز رہ ان سے، پھر بُلا ان کو اپنے ملک سے نکل کر مہاجرین مسلمانوں کے ملک میں آنے کے لیے اور کہہ دے ان سے اگر وہ ایسا کریں گے تو جو مہاجرین کے لیے ہے وہ ان کے لئے بھی ہو گا اور جو مہاجرین پر ہے وہ ان پر بھی ہو گا (یعنی نفع اور نقصان دونوں میں مہاجرین کی مثل ہوں گے) اگر وہ اپنے ملک سے نکلنا منظور نہ کریں تو کہہ دے ان سے وہ جنگلی مسلمانوں کی طرح رہیں اور جو اللہ کا حکم مسلمانوں پر چلتا ہے وہ ان پر بھی چلے گا اور ان کو لوٹ اور صلح کے مال سے کچھ نہیں ملے گا پر جس صورت میں وہ مسلمانوں کے ساتھ لڑیں (کافروں سے تو حصہ ملے گا) اگر وہ اسلام لانے سے انکار کریں تو ان سے جزیہ(محصول ٹیکس) مانگ۔ اگر وہ جزیہ دینا قبول کریں تو مان لے اور باز رہ ان سے، اگر وہ جزیہ بھی نہ تو اللہ سے مدد مانگ اور لڑ ان سے اور جب تو کسی قلعہ والوں کو گھیرے اور وہ تجھ سے اللہ یا اس کے رسول کی پناہ مانگیں تو اللہ اور رسول کی پناہ نہ دے لیکن اپنی اور اپنے اصحاب کی پناہ دے۔ اس لیے کہ اگر تم سے اپنی اور اپنے یاروں کی پناہ ٹوٹ جائے تو بہتر ہے اس سے کہ اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ٹوٹے اور جب تو کسی قلعہ والوں کو گھیرے اور وہ تجھ سے یہ چاہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر تو ان کو باہر نکالے تو مت نکال تو ان کو اللہ کے حکم پر بلکہ نکال ان کو اپنے حکم پر اس لیے کہ تجھے معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم تجھ سے ادا ہوتا ہے یا نہیں۔“
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ مَرْثَدٍ أَنَّ سُلَيْمَانَ بْنَ بُرَيْدَةَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " إِذَا بَعَثَ أَمِيرًا أَوْ سَرِيَّةً دَعَاهُ فَأَوْصَاهُ " وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ،
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی امیر لشکر کو روانہ فرماتے تو اس کو بلا کر اسے نصیحت فرماتے۔ باقی سفیان کی حدیث کے مثل ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ الْفَرَّاءُ، عَنْ الْحُسَيْنِ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ: " بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی کو اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم میں سے کوئی کام دے کر بھیجتے تو فرماتے: ”خوشخبری سناؤ اور نفرت مت دلاؤ، آسانی کرو اور دشواری مت ڈالو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَهُ وَمُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: " يَسِّرَا وَلَا تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلَا تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا " ,
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اور سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ کو بھیجا یمن کی طرف تو فرمایا ”آسانی کرو، دشواری اور سختی مت کرو، خوش کرو اور نفرت مت دلاؤ اور اتفاق سے کام کرو، پھوٹ مت کرو۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ وَتَطَاوَعَا وَلَا تَخْتَلِفَا.
اس سند کے ساتھ یہ حدیث بھی شعبہ کی حدیث کی طرح منقل ہے۔ اور زید بن ابی انیسہ کی حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اتفاق سے کام کرو۔ اختلاف مت کرو۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا وَسَكِّنُوا وَلَا تُنَفِّرُوا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آسانی کرو اور سختی مت کرو، آرام دو اور نفرت مت دلاؤ۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ يَعْنِي أَبَا قُدَامَةَ السَّرَخْسِيَّ قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ كلهم، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَب ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا جَمَعَ اللَّهُ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ، فَقِيلَ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانِ بْنِ فُلَانٍ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب اللہ تعالیٰ جمع کرے گا سب اگلے اور پچھلوں کو قیامت کے دن ہر ایک دغا باز عہد توڑنے والے کا جھنڈا اونچا کیا جائے گا، پھر کہا جائے گا: یہ دغا بازی ہے فلانے کی جو فلانے کا بیٹا ہے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الْعَتَكِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْغَادِرَ يَنْصِبُ اللَّهُ لَهُ لِوَاءً يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيُقَالُ أَلَا هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حَمْزَةَ ، وَسَالِمٍ ابْنَيْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا قیامت کے دن۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ . ح وحَدَّثَنِي بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ . ح وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُقَالُ: هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں کہ ”یہ فلانے کی دغا بازی ہے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ يُقَالُ هَذِهِ غَدْرَةُ فُلَانٍ ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دغا باز کا ایک جھنڈا ہو گا قیامت کے دن جس سے وہ پہچانا جائے گا کہا جائے گا یہ دغا بازی ہے فلانے کی۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُعْرَفُ بِهِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دغا باز کا ایک جھنڈا ہو گا قیامت کے دن جس سے اس کی شناخت ہو گی۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ خُلَيْدٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ عِنْدَ اسْتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دغا باز کے سرین پر ایک جھنڈا ہو گا قیامت کے دن۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا الْمُسْتَمِرُّ بْنُ الرَّيَّانِ ، حَدَّثَنَا أَبُو نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِكُلِّ غَادِرٍ لِوَاءٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرْفَعُ لَهُ بِقَدْرِ غَدْرِهِ أَلَا وَلَا غَادِرَ أَعْظَمُ غَدْرًا مِنْ أَمِيرِ عَامَّةٍ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہر دغا باز کے لیے ایک جھنڈا ہو گا قیامت کے دن جو بلند کیا جائے گا اس کی دغا بازی کے موافق اور کوئی دغا باز اس سے بڑھ کر نہیں جو خلق اللہ کا حاکم ہو کر دغابازی کرے۔“
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لِعَلِيٍّ، وَزُهَيْرٍ، قَالَ عَلِيٌّ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعَ عَمْرٌو ، جَابِرًا يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَرْبُ خَدْعَةٌ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی مکر اور حیلہ ہے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْمٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْحَرْبُ خَدْعَةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لڑائی مکر اور حیلہ ہے۔“
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، عَنْ الْمُغِيرَةِ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مت آرزو کرو دشمن سے ملنے کی اور جب ملو تو صبر کرو۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ كِتَابِ رَجُلٍ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي أَوْفَى ، فَكَتَبَ إِلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ حِينَ سَارَ إِلَى الْحَرُورِيَّةِ يُخْبِرُهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي بَعْضِ أَيَّامِهِ الَّتِي لَقِيَ فِيهَا الْعَدُوَّ يَنْتَظِرُ حَتَّى إِذَا مَالَتِ الشَّمْسُ قَامَ فِيهِمْ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُوِّ وَاسْأَلُوا اللَّهَ الْعَافِيَةَ، فَإِذَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاصْبِرُوا وَاعْلَمُوا أَنَّ الْجَنَّةَ تَحْتَ ظِلَالِ السُّيُوفِ، ثُمَّ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ، وَمُجْرِيَ السَّحَابِ، وَهَازِمَ الْأَحْزَابِ اهْزِمْهُمْ وَانْصُرْنَا عَلَيْهِمْ ".
ابوالنضر سے روایت ہے، اس نے کتاب پڑھی عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ کی جو قبیلۂ اسلم سے تھے اور صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے لکھا عمر بن عبیداللہ کو جب وہ گئے خارجیوں کے پاس جو حرورا میں رہتے تھے (ان سے لڑنے کو) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن دنوں میں دشمن سے ملاقات ہوئی انتظار کیا یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے لوگو! مت آرزو کرو دشمن سے ملنے کی اور اللہ تعالیٰ سے سلامتی چاہو، جب تم دشمن سے ملو تو صبر کرو اور یہ سمجھ لو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمکھڑے ہوئے اور فرمایا: ”اے اللہ! کتاب کے اتارنے والے اور بادل کے چلانے والے اور جتھوں کو بھگا دینے والے بھگا دے ان کو اور ہماری مدد کر ان کے سامنے۔“
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: " اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ، اهْزِمْ الْأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ "،
سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بددعا کی احزاب پر (جس دن کافروں کی کئی جماعتیں آپ سے لڑنے آئی تھیں ۵ ہجری میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق میں تھے) تو فرمایا:«اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ» ”اے اللہ! اتارنے والے کتاب کے، جلد حساب لینے والے، بھگا دے ان جتھوں کو، یا اللہ! بھگا دے ان کو، ہلا دے ان کو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى ، يَقُولُ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ خَالِدٍ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: هَازِمَ الْأَحْزَابِ، وَلَمْ يَذْكُرْ قَوْلَهُ اللَّهُمَّ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس میں لفظ «اللّٰھم» کا ذکر نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي رِوَايَتِهِ مُجْرِيَ السَّحَابِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اور اس میں «مُجْرِىَ السَّحَابِ» کا اضافہ ہے۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ، يَقُولُ يَوْمَ أُحُدٍ: " اللَّهُمَّ إِنَّكَ إِنْ تَشَأْ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے احد کے دن: ”یا اللہ! اگر تو چاہے تو کوئی تیری پرستش کرنے والا نہ رہے گا زمین میں۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثِ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّ امْرَأَةً، وُجِدَتْ فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقْتُولَةً، فَأَنْكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت پائی گئی ایک لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس کو مار ڈالا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا عورتوں اور بچوں کو مارنے سے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُولَةً فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَغَازِي، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک عورت پائی گئی ایک لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جس کو مار ڈالا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا عورتوں اور بچوں کو مارنے سے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جميعا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ ، قَالَ: " سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الذَّرَارِيِّ مِنَ الْمُشْرِكِينَ يُبَيَّتُونَ، فَيُصِيبُونَ مِنْ نِسَائِهِمْ وَذَرَارِيِّهِمْ، فَقَالَ: هُمْ مِنْهُمْ ".
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا مشرکین کی اولاد کا جب رات کے چھاپے میں مارے جائیں اسی طرح عورتیں ان کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ان میں داخل ہیں۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ ، قَالَ: " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نُصِيبُ فِي الْبَيَاتِ مِنْ ذَرَارِيِّ الْمُشْرِكِينَ، قَالَ: هُمْ مِنْهُمْ ".
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہم رات کو چھاپے میں مشرکوں کی اولاد کو بھی مار ڈالتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی مشرکوں میں داخل ہیں۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ : أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: لَوْ أَنَّ خَيْلًا أَغَارَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَأَصَابَتْ مِنْ أَبْنَاءِ الْمُشْرِكِينَ، قَالَ: " هُمْ مِنْ آبَائِهِمْ ".
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا، اگر سوار رات کو حملہ کریں اور مشرکوں کے بچے مارے جائیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی ان کے باپوں میں سے ہیں۔“ (یعنی مشرکوں میں سے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَرَّقَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقَطَعَ وَهِيَ الْبُوَيْرَةُ "، زَادَ قُتَيْبَةُ، وَابْنُ رُمْحٍ فِي حَدِيثِهِمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ سورة الحشر آية 5.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کی کھجوروں کے درخت جلوا دئیے اور کاٹ ڈالے جن کو بویرہ کہتے تھے تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری: «مَا قَطَعْتُم مِّن لِّينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَىٰ أُصُولِهَا فَبِإِذْنِ اللَّـهِ وَلِيُخْزِيَ الْفَاسِقِينَ» ﴿۵۹-الحشر:٥﴾ ”جو درخت تم نے کاٹے یا چھوڑ دیا ان کو کھڑا ہوا اپنی جڑوں پر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھا اس لیے کہ رسوا کرے گناہگاروں کو۔“
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطَعَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ، وَحَرَّقَ وَلَهَا يَقُولُ حَسَّانُ وَهَانَ عَلَى سَرَاةِ بَنِي لُؤَيٍّ حَرِيقٌ بِالْبُوَيْرَةِ مُسْتَطِيرُ وَفِي ذَلِكَ نَزَلَتْ مَا قَطَعْتُمْ مِنْ لِينَةٍ أَوْ تَرَكْتُمُوهَا قَائِمَةً عَلَى أُصُولِهَا سورة الحشر آية 5 الْآيَةَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے درخت کٹوا ڈالے اور جلوا دیئے اور سیدنا حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی باب میں ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے: سہل ہو بنی لؤی کے شریفوں اور سرداروں پر جلانا بویرہ کا جس کی انگار اڑ رہی تھی (بنی لؤی سے مراد قریش ہیں)۔
وحَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، أَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ خَالِدٍ السَّكُونِيُّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " حَرَّقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَخْلَ بَنِي النَّضِيرِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجور کے درخت جلوا دئیے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ مَعْمَرٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " غَزَا نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ، فَقَالَ لِقَوْمِهِ: لَا يَتْبَعْنِي رَجُلٌ قَدْ مَلَكَ بُضْعَ امْرَأَةٍ وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَبْنِيَ بِهَا، وَلَمَّا يَبْنِ وَلَا آخَرُ قَدْ بَنَى بُنْيَانًا، وَلَمَّا يَرْفَعْ سُقُفَهَا وَلَا آخَرُ قَدِ اشْتَرَى غَنَمًا أَوْ خَلِفَاتٍ وَهُوَ مُنْتَظِرٌ وِلَادَهَا، قَالَ: فَغَزَا فَأَدْنَى لِلْقَرْيَةِ حِينَ صَلَاةِ الْعَصْرِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ ذَلِكَ، فَقَالَ لِلشَّمْسِ: أَنْتِ مَأْمُورَةٌ وَأَنَا مَأْمُورٌ اللَّهُمَّ احْبِسْهَا عَلَيَّ شَيْئًا فَحُبِسَتْ عَلَيْهِ حَتَّى فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، قَالَ: فَجَمَعُوا مَا غَنِمُوا، فَأَقْبَلَتِ النَّارُ لِتَأْكُلَهُ، فَأَبَتْ أَنْ تَطْعَمَهُ، فَقَالَ: فِيكُمْ غُلُولٌ، فَلْيُبَايِعْنِي مِنْ كُلِّ قَبِيلَةٍ رَجُلٌ، فَبَايَعُوهُ، فَلَصِقَتْ يَدُ رَجُلٍ بِيَدِهِ، فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ، فَلْتُبَايِعْنِي قَبِيلَتُكَ، فَبَايَعَتْهُ، قَالَ: فَلَصِقَتْ بِيَدِ رَجُلَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ، فَقَالَ: فِيكُمُ الْغُلُولُ أَنْتُمْ غَلَلْتُمْ، قَالَ: فَأَخْرَجُوا لَهُ مِثْلَ رَأْسِ بَقَرَةٍ مِنْ ذَهَبٍ، قَالَ: فَوَضَعُوهُ فِي الْمَالِ وَهُوَ بِالصَّعِيدِ، فَأَقْبَلَتِ النَّارُ فَأَكَلَتْهُ، فَلَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ مِنْ قَبْلِنَا ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى رَأَى ضَعْفَنَا وَعَجْزَنَا فَطَيَّبَهَا لَنَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہاد کیا پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر نے تو اپنے لوگوں سے کہا: میرے ساتھ وہ مرد نہ چلے جس نے نکاح کیا اور وہ چاہتا ہو کہ اپنی عورت سے صحبت کرے اور ہنوز اس نے صحبت نہیں کی اور نہ وہ شخص جس نے مکان بنایا ہو اور ہنوز اس کی چھت بلند نہ کی ہو۔ اور نہ وہ شخص جس نے بکریاں یا گابھن اونٹنیاں خریدی ہوں اور وہ ان کے جننے کا امیدوار ہو (اس لیے کہ ان لوگوں کا دل ان چیزوں میں لگا رہے گا اور اطمینان سے جہاد نہ کر سکیں گے)پھر اس پیغمبر علیہ السلام نے جہاد کیا تو عصر کے وقت یا عصر کے قریب اس گاؤں کے پاس پہنچا (جہاں جہاد کرنا تھا) تو پیغمبر علیہ السلام نے سورج سے کہا: تو بھی تابعدار ہے اور میں بھی تابعدار ہوں، یا اللہ اس کو روک دے تھوڑی دیر میرے اوپر (تاکہ ہفتہ کی رات نہ آ جائے کیونکہ ہفتہ کو لڑنا حرام تھا اور یہ لڑائی جمعہ کے دن ہوئی تھی) پھر سورج رک گیا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کو پھر لوگوں نے اکھٹا کیا جو لوٹا تھا اور انگارے (آسمان سے آئے) اس کے کھانے کو لیکن اس نے نہ کھایا۔ پیغمبر نے کہا کہ تم میں سے کسی نے چوری کی ہے (جبھی تو یہ نذر قبول نہ ہوئی) تو تم میں سے ہر گروہ کا ایک آدمی بیعت کرے مجھ سے۔ پھر بیعت کی سب نے۔ ایک شخص کا ہاتھ جب پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ سے لگا تو پیغمبر علیہ السلام نے کہا: تم لوگوں میں چوری معلوم ہوتی ہے تو تمہارا قبیلہ مجھ سے بیعت کرے، پھر اس قبیلے نے بیعت کی تو دو یا تین آدمیوں کا ہاتھ پیغمبر علیہ السلام کے ہاتھ سے لگا تو پیغمبر علیہ السلام نے کہا تم نے چوری کی ہے، پھر انہوں نے بیل کے سر کے برابر سونا نکال کر دیا وہ بھی اس مال میں رکھا گیا (جو جلانے کے لیے رکھا تھا) زمین پر اور انگارے آئے اس کے کھانے کو اور کھا گئے اس کو اور ہم سے پہلے کسی کے لیے لوٹ درست نہیں ہوئی اور ہم کو درست ہوئی اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری ضعیفی اور عاجزی دیکھی تو حلال کر دیا ہمارے لیے لوٹ کو۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أَخَذَ أَبِي مِنَ الْخُمْسِ سَيْفًا، فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَبْ لِي هَذَا "، فَأَبَى فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ سورة الأنفال آية 1.
سیدنا مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے، کہا کہ میں نے خمس میں سے ایک تلوار لی، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا، یہ تلوار مجھ کو بخش دیجیئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ» (۸-الأنفال:۱) ”یعنی پوچھتے ہیں تجھ سے لوٹ کے مالوں کو تو کہہ دے لوٹ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے اور اس کے رسول کے لیے ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " نَزَلَتْ فِيَّ أَرْبَعُ آيَاتٍ أَصَبْتُ سَيْفًا، فَأَتَى بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ؟، فَقَالَ: ضَعْهُ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ، ثُمَّ قَامَ، فَقَالَ: نَفِّلْنِيهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، فَقَالَ: ضَعْهُ، فَقَامَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَفِّلْنِيهِ أَأُجْعَلُ كَمَنْ لَا غَنَاءَ لَهُ؟، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ضَعْهُ مِنْ حَيْثُ أَخَذْتَهُ "، قَالَ: فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ سورة الأنفال آية 1.
سیدنا مصعب بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سے، کہا کہ میرے بارے میں چار آیتیں اتریں، ایک بار ایک تلوار مجھے ملی لوٹ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائی گئی، میں نے کہا: یا رسول اللہ! وہ مجھے عنایت فرمائیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” اس کو رکھ دے۔“ پھر میں کھڑا ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” رکھ دے اس کو جہاں سے تو نے لیا ہے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تلوار مجھے دے دیجیئے کیا میں اس شخص کی طرح رہوں گا جو نادار ہے۔ تب رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” رکھ دے اس کو جہاں سے تو نے لیا ہے۔“ تب یہ آیت اتری «يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ قُلِ الأَنْفَالُ لِلَّهِ وَالرَّسُولِ» (۸-الأنفال:۱)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً وَأَنَا فِيهِمْ، قِبَلَ نَجْدٍ فَغَنِمُوا إِبِلًا كَثِيرَةً، فَكَانَتْ سُهْمَانُهُمُ اثْنَا عَشَرَ بَعِيرًا أَوْ أَحَدَ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا بَعِيرًا بَعِيرًا ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سریہ بھیجا، میں بھی اس میں تھا نجد کی طرف، وہاں بہت سے اونٹ لوٹ میں آئے تو ہر ایک کے حصہ میں بارہ بارہ یا گیارہ گیارہ اونٹ آئے اور ایک ایک اونٹ انعام میں ملا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَ سَرِيَّةً قِبَلَ نَجْدٍ وَفِيهِمْ ابْنُ عُمَرَ، وَأَنَّ سُهْمَانَهُمْ بَلَغَتِ اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنُفِّلُوا سِوَى ذَلِكَ بَعِيرًا، فَلَمْ يُغَيِّرْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَعَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً إِلَى نَجْدٍ، فَخَرَجْتُ فِيهَا، فَأَصَبْنَا إِبِلًا وَغَنَمًا، فَبَلَغَتْ سُهْمَانُنَا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا اثْنَيْ عَشَرَ بَعِيرًا، وَنَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا بَعِيرًا "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ،
عبیداللہ سے بھی اس سند کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو الرَّبِيعِ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، قَالَ: كَتَبْتُ إِلَى نَافِعٍ أَسْأَلُهُ عَنِ النَّفَلِ، فَكَتَبَ إِلَيَّ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُوسَى . ح وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ نَافِعٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِهِمْ.
نافع سے ان سندوں کے ساتھ انہی مذکورہ حدیثوں کی طرح یہ حدیث روایت کی گئی ہے۔
وحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ وَاللَّفْظُ لِسُرَيْجٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " نَفَّلَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفَلًا سِوَى نَصِيبِنَا مِنَ الْخُمْسِ، فَأَصَابَنِي شَارِفٌ وَالشَّارِفُ الْمُسِنُّ الْكَبِيرُ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے ہمارے حصہ کے خمس میں سے زیادہ دیا تو میرے حصہ میں ایک شارف آیا شارف کہتے ہیں بڑے مسنہ اونٹ کو۔
وحَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: بَلَغَنِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: نَفَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً بِنَحْوِ حَدِيثِ ابْنِ رَجَاءٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ " يُنَفِّلُ بَعْضَ مَنْ يَبْعَثُ مِنَ السَّرَايَا لِأَنْفُسِهِمْ، خَاصَّةً سِوَى قَسْمِ عَامَّةِ الْجَيْشِ وَالْخُمْسُ فِي ذَلِكَ وَاجِبٌ كُلِّهِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بعض سریہ والوں کو زیادہ دیتے بہ نسبت اور تمام لشکر والوں کے اور خمس ان سب مالوں میں واجب تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَةَ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ،
ابومحمد انصاری رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ مصاحب تھے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے، کہا کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا پھر ذکر کیا حدیث کو (جیسے آگے آتی ہے)۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ: أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ ، قَالَ: وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے جیسے آگے آتی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا لِلنَّاسِ؟، فَقُلْتُ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَا هَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ، فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ "، فَأَعْطَانِي، قَالَ: فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِيهِ أُضَيْبِعَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ.
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس سال حنین کی لڑائی ہوئی۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے بھڑے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان میں جمے رہے) پھر میں نے ایک کافر کو دیکھا وہ ایک مسلمان پر چڑھا تھا (اس کے مارنے کو) میں گھوم کر اس کی طرف آیا اور ایک مار لگائی مونڈے اور گردن کے بیچ میں، اس نے مجھ کو ایسا دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی بعد اس کے وہ خود مر گیا اور اس نے مجھ کو چھوڑ دیا۔ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا (جو ایسا بھاگ نکلے) میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جس نے کسی کو مارا ہو اور وہ گواہ رکھتا ہو تو سامان اس کا وہی لے جائے۔“ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سن کر میں کھڑا ہوا پھر میں نے کہا: میرا گواہ کون ہے بعد اس کے میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا ہی فرمایا: میں کھڑا ہوا پھر میں نے کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا، میں بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا: میں کھڑا ہوا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا تجھے اے ابوقتادہ۔ میں نے سارا قصہ بیان کیا ایک شخص بولا سچ کہتے ہیں ابو قتادہ یا رسول اللہ! اس شخص کا سامان میرے پاس ہے تو راضی کر دیجئئے ان کو کہ اپنا حق مجھے دے دیں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ایسا کبھی نہیں ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قصد نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ شیروں میں سے ایک شیر جو لڑتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اسباب تجھے دلانے کے لیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”ابوبکر سچ کہتے ہیں (اس حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فتویٰ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتوے کو سچ کہا) تو دے دے ابوقتادہ کو وہ سامان۔“ پھر اس نے وہ سامان مجھ کو دے دیا۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے (اس سامان میں سے) زرہ کو بیچا اور اس کے بدلے میں ایک باغ خریدا بنو سلمہ کے محلہ میں اور یہ پہلا مال ہے جس کو میں نے کمایا اسلام کی حالت میں۔ اور لیث کی روایت میں یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں رسول اللہ یہ اسباب کبھی نہ دیں گے قریش کی ایک لومڑی کو۔ کبھی نہ چھوڑیں گے ایک شیر کو اللہ کے شیروں میں سے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ: مِثْلَهَا قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُولُ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهُ؟، قَالَ: فَابْتَدَرَاهُ فَضَرَبَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟، قَالَا: لَا، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ " ، وَقَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَالرَّجُلَانِ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ.
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا میں نے اپنی داہنی اور بائیں طرف دیکھا تو دو انصار کے لڑکے نظر آئے نوجوان اور کم عمر۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زور آور شخص کے پاس ہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا) اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے دبایا اور کہا: اے چچا! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں اور تیرا کیا مطلب ہے ابوجہل سے اے بیٹے میرے بھائی کے، اس نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ابوجہل رسول اللہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر میں ابوجہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہوں جب تک ایک نہ مر لے جس کی موت پہلے نہ آئی ہو۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ کو تعجب ہوا اس کے ایسا کہنے سے (کہ بچہ ہو کر ابوجہل ایسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے) پھر دوسرے نے مجھ کو دبایا اور ایسا ہی کہا تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا وہ پھر رہا ہے لوگوں میں۔ میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا: یہی وہ جس شخص ہے جس کو تم پوچھتے تھے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے اور تلواروں سے اسے مارا یہاں تک کہ مار ڈالا، پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”تم میں سے کس نے اس کو مارا۔“ ہر ایک بولنے لگا میں نے مارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں۔؟“ وہ بولے نہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا: ” تم دونوں نے اس کو مارا ہے۔“ پھر اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دلایا اور دونوں لڑکے یہی تھے ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراء۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلًا مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَرَادَ سَلَبَهُ، فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَكَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لِخَالِدٍ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ؟، قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ادْفَعْهُ إِلَيْهِ، فَمَرَّ خَالِدٌ، بِعَوْفٍ فَجَرَّ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ: لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِيهِ، فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَتَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَكَدْرُهُ عَلَيْهِمْ "،
سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حمیر (ایک قبیلہ ہے) کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن خالد بن ولید نے (جو سردار تھے لشکر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی طرف سے) نہ دیا اور وہ حاکم تھے، تو عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟“ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ سامان بہت تھا یا رسول اللہ! (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دے دے اس کو۔“ پھر سیدنا خالد، عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے سے نکلے اور ان کی چادر کھینچی اور کہا جو میں نے بیان کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی ہوا نا (یعنی خالد رضی اللہ عنہ کو شرمندہ کیا کہ آخر تم کو سامان دینا پڑا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمایا: ” اے خالد مت دے اس کو، اے خالد! مت دے اس کو۔ کیا تم چھوڑنے والے ہو میرے سرداروں کو تمہاری ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں پھر چرایا ان کو اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، انہوں نے پینا شروع کیا پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لیے ہیں اور بری باتیں سرداروں پر ہیں(یعنی بدنامی اور مؤاخذہ ان سے ہو)۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، وَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ غَيْرَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْحَدِيثِ، قَالَ عَوْفٌ: فَقُلْتُ يَا خَالِدُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ، قَالَ: بَلَى وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ.
سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو لوگ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے میں ان کے ساتھ گیا غزوہ موتہ میں اور میری مدد یمن سے بھی آ پہنچی۔ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ عوف نے کہا: اے خالد! تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان قاتل کو دلایا ہے خالد نے کہا: بے شک۔ مگر مجھے یہ سامان بہت معلوم ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، فَبَيْنَا نَحْنُ نَتَضَحَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَأَنَاخَهُ ثُمَّ انْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقَبِهِ، فَقَيَّدَ بِهِ الْجَمَلَ ثُمَّ تَقَدَّمَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ وَجَعَلَ يَنْظُرُ وَفِينَا ضَعْفَةٌ وَرِقَّةٌ فِي الظَّهْرِ وَبَعْضُنَا مُشَاةٌ، إِذْ خَرَجَ يَشْتَدُّ، فَأَتَى جَمَلَهُ، فَأَطْلَقَ قَيْدَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ وَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَأَثَارَهُ فَاشْتَدَّ بِهِ الْجَمَلُ فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ، قَالَ سَلَمَةُ: وَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ، فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَأَنَخْتُهُ فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ فِي الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَضَرَبْتُ رَأْسَ الرَّجُلِ فَنَدَرَ ثُمَّ جِئْتُ بِالْجَمَلِ أَقُودُهُ عَلَيْهِ رَحْلُهُ وَسِلَاحُهُ، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے جہاد کیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا (جو ۸ ہجری میں ہوا) ایک دن ہم صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنے میں ایک شخص آیا، لال اونٹ پر سوار، اس کو بٹھایا پھر ایک تسمہ اس کی کمر پر سے نکالا اور اس سے باندھ دیا۔ بعد اس کے آیا اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا (وہ جاسوس گوئندہ تھا کافروں کا) اور ہم لوگ ان دنوں ناتواں تھے اور بعض پیدل بھی تھے (جس کے پاس سواری نہ تھی) اتنے میں اچانک دوڑا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھولا اس کو بٹھایا پھر آپ اس پر بیٹھا اور اونٹ کو کھڑا کیا، اونٹ اس کو لے کر بھاگا (اب چلا کافروں کو خبر دینے کے لیے) ایک شخص نے اس کا پیچھا کیا خاکی رنگ کی اونٹنی پر۔ سلمہ نے کہا: میں پیدل دوڑتا چلا پہلے میں اونٹنی کے سرین کے پاس تھا(جو اس کے تعاقب میں جا رہی تھی) میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے سرین کے پاس آ گیا اور آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ اونٹ کی نکیل میں نے پکڑ لی اس کو بٹھایا جونہی اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا میں نے تلوار سونتی اور اس مرد کے سر پر ایک وار کیا وہ گر پڑا پھر میں اونٹ کو کھینچتا ہوا اس کے سامان اور ہتھیار سمیت لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تھے جو تشریف لائے تھے (میرے انتظار میں) مجھ سے ملے اور پوچھا: ”کس نے مارا اس مرد کو؟“ لوگوں نے کہا: اکوع کے بیٹے نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اس کا سب سامان اکوع کے بیٹے کا ہے۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا فَزَارَةَ، وَعَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ أَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْمَاءِ سَاعَةٌ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا ثُمَّ شَنَّ الْغَارَةَ، فَوَرَدَ الْمَاءَ فَقَتَلَ مَنْ قَتَلَ عَلَيْهِ وَسَبَى، وَأَنْظُرُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِمُ الذَّرَارِيُّ فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ وَقَفُوا، فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ وَفِيهِمُ امْرَأَةٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، قَالَ: الْقَشْعُ النِّطَعُ مَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَسُقْتُهُمْ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِمْ أَبَا بَكْرٍ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، ثُمَّ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَدِ فِي السُّوقِ، فَقَالَ لِي: يَا سَلَمَةُ هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ، فَقُلْتُ: هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَوَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا نَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا أُسِرُوا بِمَكَّةَ ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے جہاد کیا فزارہ سے(جو ایک قبیلہ ہے مشہور عرب میں) اور ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امیر بنایا تھا ہم پر۔ جب ہمارے اور پانی کے بیچ میں ایک گھڑی کا فاصلہ رہا (یعنی اس پانی سے جہاں فزارہ رہتے تھے) حکم کیا ہم کو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ہم پچھلی رات کو اتر پڑے پھر ہر طرف سے حکم کیا حملہ کا اور پانی پر پہنچے وہاں جو مارا گیا مارا گیا اور چھے قید ہوئے اور میں ایک ٹکڑے کو تاک رہا تھا جس میں بچے اور عورتیں تھیں (کافروں کی) میں ڈرا کہیں وہ مجھ سے پہلے پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں۔ میں نے ایک تیر مارا ان کے اور پہاڑ کے بیج میں، تیر کو دیکھ کر وہ ٹھر گئے۔ میں ان سب کو ہانکتا ہوا لایا۔ ان میں ایک عورت فزارہ کی جو چمڑا پہنتی تھی اس کے ساتھ ایک لڑکی تھی نہایت خوب صورت۔ میں ان سب کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس لایا۔ انہوں نے وہ لڑکی انعام کے طور پر مجھ کو دے دی۔ جب ہم مدینہ میں پہنچے اور ابھی میں نے اس لڑکی کا کپڑا تک نہیں کھولا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو بازار میں ملے اور فرمایا: ”اے سلمہ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ اللہ کی قسم! وہ مجھ کو بھلی لگی ہےاور میں نے اس کا کپڑا تک نہیں کھولا۔ پھر دوسرے دن مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں ملے اور فرمایا: ” اے سلمہ! وہ لڑکی مجھ کو دے دے، تیرا باپ بہت اچھا تھا۔“ میں نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ آپ کی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے تو اس کا کپڑا تک نہیں کھولا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی مکے والوں کو بھیج دی اور اس کے بدلے کئی مسلمانوں کو چھڑایا جو مکہ میں قید ہو گئے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّمَا قَرْيَةٍ أَتَيْتُمُوهَا وَأَقَمْتُمْ فِيهَا، فَسَهْمُكُمْ فِيهَا وَأَيُّمَا قَرْيَةٍ عَصَتِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، فَإِنَّ خُمُسَهَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ ثُمَّ هِيَ لَكُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس بستی میں تم آئے اور وہاں ٹھہرے تو تمہار حصہ اس میں ہے اور جس بستی والوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی یعنی لڑائی کی تو پانچواں حصہ اس کا اللہ اور رسول کا ہے باقی چار حصہ تمہارے ہیں۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: " كَانَتْ أَمْوَالُ بَنِي النَّضِيرِ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِمَّا لَمْ يُوجِفْ عَلَيْهِ الْمُسْلِمُونَ بِخَيْلٍ وَلَا رِكَابٍ، فَكَانَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ نَفَقَةَ سَنَةٍ وَمَا بَقِيَ يَجْعَلُهُ فِي الْكُرَاعِ وَالسِّلَاحِ عُدَّةً فِي سَبِيلِ اللَّهِ "،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: بنی نضیر کے مال ان مالوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو دیے اور مسلمانوں نے اس پر چڑھائی نہیں کی گھوڑوں اور اونٹوں سے۔ ایسے مال خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں سے اپنے گھر کا خرچ ایک سال کا نکال لیتے اور جو بچ رہتا وہ گھوڑوں اور ہتھیاروں کی خرید میں صرف ہوتا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ : أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: " أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ فَخُذْهُ، فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ،وَالزُّبَيْرِ ، وَسَعْدٍ ؟، فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ فَأَذِنَ لَهُمْ، فَدَخَلُوا ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ ، وَعَلِيٍّ ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ: الْقَوْمُ أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ : اتَّئِدَا أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللَّهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ سورة الحشر آية 7، مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا، قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللَّهِ مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنَ ابْنِ أَخِيكَ وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ "، فَرَأَيْتُمَاهُ كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُ لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، ثُمَّ تُوُفِّيَ أَبُو بَكْرٍ وَأَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَلِيُّ أَبِي بَكْرٍ، فَرَأَيْتُمَانِي كَاذِبًا آثِمًا غَادِرًا خَائِنًا وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّي لَصَادِقٌ بَارٌّ رَاشِدٌ تَابِعٌ لِلْحَقِّ، فَوَلِيتُهَا ثُمَّ جِئْتَنِي أَنْتَ وَهَذَا وَأَنْتُمَا جَمِيعٌ وَأَمْرُكُمَا وَاحِدٌ، فَقُلْتُمَا: ادْفَعْهَا إِلَيْنَا، فَقُلْتُ: إِنْ شِئْتُمْ دَفَعْتُهَا إِلَيْكُمَا، عَلَى أَنَّ عَلَيْكُمَا عَهْدَ اللَّهِ أَنْ تَعْمَلَا فِيهَا بِالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذْتُمَاهَا بِذَلِكَ، قَالَ: أَكَذَلِكَ؟، قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُمَانِي لِأَقْضِيَ بَيْنَكُمَا وَلَا وَاللَّهِ لَا أَقْضِي بَيْنَكُمَا بِغَيْرِ ذَلِكَ حَتَّى تَقُومَ السَّاعَةُ، فَإِنْ عَجَزْتُمَا عَنْهَا فَرُدَّاهَا إِلَيَّ،
زہری سے روایت ہے کہ مالک اوس کے بیٹے نے حدیث بیان کی ان سے، مجھے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا میں ان کے پاس دن چڑھے آیا۔ وہ اپنے گھر میں تخت پر بیٹھے تھے گدی پر اور کوئی فرش اس پر نہ تھا اور ٹیک لگائے ہوئے تھے ایک چمڑے کے تکیہ پر۔ انہوں نے کہا: اے مالک تیری قوم کے کئی گھر والے دوڑ کر میرے پاس آئے میں نے ان کو کچھ تھوڑا دلا دیا ہے تو ان سب کو بانٹ دے۔ میں نے کہا: کاش! یہ کام آپ اور کسی سے لیں، انہوں نے کہا: تو لے اے مالک اتنے میں یرفا (ان کا عرض بیگے اور خدمت گار) آیا اور کہنے لگا اے امیرالمؤمنین! عثمان بن عفان اور عبدالرحمٰن بن عوف اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم حاضر ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا ان کو آنے دے، وہ آئے۔ پھر یرفا آیا اور کہنے لگا سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما آنا چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اچھا! ان کو بھی اجازت دے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمؤمنین! میرا اور جھوٹے گنہگار دغاباز چور کا فیصلہ کر دیجئے۔ لوگوں نے کہا: ہاں اے امیر المؤمنین! فیصلہ ان کا کر دیجئے اور ان کو اس ٹنٹے(جھگڑے) سے راحت دیجئیے۔ مالک بن اوس نے کہا: میں جانتا ہوں کہ ان دونوں نے (یعنی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے) عثمان اور عبدالرحمٰن اور زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم کو اس لیے آگے بھیجا تھا (کہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہہ کر فیصلہ کروا دیں، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ٹھہرو میں تم کو قسم دیتا ہوں اس اللہ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پیغمبروں کے مال میں وارثوں کو کچھ نہیں ملتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ سب نے کہا: ہاں ہم کو معلوم ہے۔ پھر سیدنا عباس اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا: میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں اللہ تعالیٰ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“ ان دونوں نے کہا: بے شک ہم جانتے ہیں۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بات خاص کی تھی جو اور کسی کے ساتھ خاص نہیں کی فرمایا اللہ تعالیٰ نے «مَا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ» ”جو دیا اللہ نے اپنے رسول کو گاؤں والوں کے مال میں سے وہ اللہ اور رسول کا ہی ہے۔“ (مجھے معلوم نہیں کہ اس پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی یا نہیں)، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم لوگوں کو بنی نضیر کے مال بانٹ دئیے اور قسم اللہ کی آپ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور نہ یہ کیا کہ آپ لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو۔ یہاں تک کہ یہ مال رہ گیا: اس میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سال کا اپنا خرچ نکال لیتے اور جو بچ رہتا وہ بیت المال میں شریک ہوتا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تم کو قسم دیتا ہوں اس اللہ کی جس کے حکم سے زمین اور آسمان قائم ہیں تم یہ سب جانتے ہو یا نہیں۔ انہوں نے کہا: ہاں جانتے ہیں۔ پھر قسم دی عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو ایسی ہی۔ انہوں نے بھی یہی کہا، پھر سیدنا عمر نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ولی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا تو تم دونوں اپنا ترکہ مانگنے آئے۔ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ تو اپنے بھتیجے کا ترکہ مانگتے تھے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے بھائی کے بیٹے تھے) اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اپنی بی بی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے چاہتے تھے (یعنی سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا، جو بی بی تھیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی اور بیٹی تھی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی) ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے:“ تم ان کو جھوٹا گنہگار دغا باز چور سمجھے۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک ہدایت پر تھے حق کے تابع تھے، پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور میں ولی ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا۔ تم نے مجھ کو بھی جھوٹا، گنہگار، دغاباز، اور چور سمجھا اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا ہوں، نیک ہوں، ہدایت پر ہوں، حق کا تابع ہوں میں اس مال کا بھی ولی رہا پھر تم دونوں میرے پاس آئے اور تم دونوں ایک ہو اور تمہارا حکم بھی ایک ہے (یعنی اگرچہ تم ظاہر میں دو شخص ہو مگر اس لحاظ سے کہ قرابت رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں میں موجود ہے مثل ایک شخص کے ہو) تم نے یہ کہا کہ یہ مال ہمارے سپرد کر دو میں نے کہا: اچھا اگر تم چاہتے ہو تو میں تم کو دے دیتا ہوں اس شرط پر کہ تم اس مال میں وہی کرتے رہو گے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے۔ تم نے اسی شرط سے یہ مال مجھ سے لیا۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں ایسا ہی ہے۔ انہوں نے کہا: ہاں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر تم دونوں (اب) میرے پاس آئے ہو فیصلہ کرانے کو اور قسم اللہ کی میں سوائے اس کے اور کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں قیامت تک۔ البتہ اگر تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوتا تو مجھ کو پھر لوٹا دو۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ حَضَرَ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، بِنَحْوِ حَدِيثِ مَالِكٍ غَيْرَ أَنَّ فِيهِ، فَكَانَ يُنْفِقُ عَلَى أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً، وَرُبَّمَا قَالَ: مَعْمَرٌ يَحْبِسُ قُوتَ أَهْلِهِ مِنْهُ سَنَةً ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ مِنْهُ مَجْعَلَ مَالِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَدْنَ أَنْ يَبْعَثْنَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَيَسْأَلْنَهُ مِيرَاثَهُنَّ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ عَائِشَةُ لَهُنَّ: أَلَيْسَ قَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا فَهُوَ صَدَقَةٌ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجنا چاہا اپنا ترکہ مانگنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال سے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ان سے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ ”ہمار کوئی وارث نہیں ہوتا جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، أَخْبَرَنَا حُجَيْنٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ، وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمْسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا، الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ شَيْئًا، فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ، قَالَ: فَهَجَرَتْهُ فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ لَيْلًا، وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ، وَصَلَّى عَلَيْهَا عَلِيٌّ وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وِجْهَةٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ، فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ وَلَمْ يَكُنْ بَايَعَ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا مَعَكَ أَحَدٌ كَرَاهِيَةَ مَحْضَرِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ عُمَرُ، لِأَبِي بَكْرٍ: وَاللَّهِ لَا تَدْخُلْ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَمَا عَسَاهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي إِنِّي وَاللَّهِ لَآتِيَنَّهُمْ، فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ، فَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا يَا أَبَا بَكْرٍ فَضِيلَتَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ، وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، وَكُنَّا نَحْنُ نَرَى لَنَا حَقًّا لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ يَزَلْ يُكَلِّمُ أَبَا بَكْرٍ، حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ، فَإِنِّي لَمْ آلُ فِيهَ عَنِ الْحَقِّ وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ، لِأَبِي بَكْرٍ: مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةُ لِلْبَيْعَةِ، فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ صَلَاةَ الظُّهْرِ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَأَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَى أَبِي بَكْرٍ، وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا كُنَّا نَرَى لَنَا فِي الْأَمْرِ نَصِيبًا، فَاسْتُبِدَّ عَلَيْنَا بِهِ فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ، وَقَالُوا: أَصَبْتَ فَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سیدنا فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے سیدنا ابوبکر صدیق کے پاس کسی کو بھیجا اپنا ترکہ مانگنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مالوں میں سے جو اللہ تعالیٰ نے دئیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ اور فدک میں اور جو کچھ بچتا تھا خیبر کے خمس میں سے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اسی مال میں سے کھائے گی۔“ اور میں تو قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے کو کچھ نہیں بدلوں گا اس حال سے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانہ مبارک میں تھا اور میں اس میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے۔ غرضیکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انکار کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دینے سے۔ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو غصہ آیا، انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات چھوڑ دی اور بات نہ کی یہاں تک کہ وفات ہوئی ان کی (نووی رحمہ اللہ نے کہا: یہ ترک ملاقات وہ ترک نہیں جو شرع میں حرام ہے اور وہ یہ ہے کہ ملاقات کے وقت سلام نہ کرے یا سلام کا جواب نہ دے) اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صرف چھ مہینے زندہ رہیں۔ (بعض نے کہا: آٹھ مہینے یا تین مہینے یا دو مہینے یا ستر دن۔ بہرحال تین تاریخ رمضان مبارک گیارہ ہجری مقدس کو انہوں نے انتقال فرمایا)جب ان کا انتقال ہوا تو ان کے خاوند سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب نے ان کو رات کو دفن کیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خبر نہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ رات کو دفن کرنا جائز ہے اور دن کو افضل ہے اگر کوئی عذر نہ ہو) اور نماز پڑھی ان پر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اور تب تک سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں جب تک لوگ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف مائل تھے (بوجہ سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے) جب وہ انتقال کر گئیں تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے دیکھا لوگ میری طرف سے پھر گئے۔ انہوں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے صالح لینا چاہا اور ان سے بیعت کر لینا مناسب سمجھا اور ابھی تک کئی مہنے گزرے تھے، انہوں نے بیعت نہیں کی تھی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے۔ تو سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور یہ کہلا بھیجا کہ آپ اکیلے آئیے۔ آپ کے ساتھ کوئی نہ آئے کیونکہ وہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا آنا ناپسند کرتے تھے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے کہا: قسم اللہ کی! تم اکیلے ان کے پاس نہ جاؤ گے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرے ساتھ کیا کریں گے قسم اللہ کی! میں تو اکیلا جاؤں گا۔ آخر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے پاس گئے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے تشہد پڑھا (جیسے خطبہ کے شروع میں پڑھتے ہیں) پھر کہا: ہم نے پہچانا اے ابوبکر! تمہاری فضیلت کو اور جو اللہ تعالیٰ نے تم کو دیا اور ہم رشک نہیں کرتے اس نعمت پر جو اللہ تعالیٰ نے تم کو دی (یعنی خلافت اور حکومت) لیکن تم نے اکیلے اکیلے یہ کام کر لیا اور ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا بھی حق ہے اس میں کیوں کہ ہم قرابت رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، پھر برابر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے باتیں کرتے رہے۔ یہاں تک کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی آنکھیں بھر آئیں۔ جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو شروع کی تو کہا: قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت کا لحاظ مجھ کو اپنی قرابت سے زیادہ ہے اور یہ جو مجھ میں اور تم میں ان باتوں کی بابت(یعنی فدک اور نضیر اور خمس خیبر وغیرہ میں) اختلاف ہوا تو میں نے حق کو نہیں چھوڑا اور میں نے وہ کوئی کام نہیں چھوڑا جس کو میں نے دیکھا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے بلکہ اس کو میں نے کیا۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: اچھا آج سہ پہر کو ہم آپ سے بیعت کریں گے جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ظہر کی نماز سے فارغ ہوئے تو منبر پر چڑھےاور تشہد پڑھا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا قصہ بیان کیا اور ان کے دیر کرنے کا بیعت سے اور جو عذر انہوں نے بیان کیا تھا وہ بھی کہا۔ پھر دعا کی مغفرت کی اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے تشہد پڑھا اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی فضلیت بیان کی اور یہ کہا کہ میرا دیر کرنا بیعت میں اس وجہ سے نہ تھا کہ مجھ کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ پر شک ہے یا ان کی بزرگی اور فضیلت کا مجھے انکار ہے بلکہ ہم سمجھتے تھے کہ اس خلافت میں ہمارا بھی حصہ ہے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اکیلے بغیر صلاح کے یہ کام کر لیا اس وجہ سے ہمارے دل کو یہ رنج ہوا۔ یہ سن کر مسلمان خوش ہوئے اور سب نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے کہا: تم نے ٹھیک کام کیا۔ اس روز سے مسلمان سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف پھر مائل ہو گئے جب انہوں نے واجبی امر کو اختیار کیا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ فَاطِمَةَ، وَالْعَبَّاسَ أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَهُ مِنْ فَدَكٍ وَسَهْمَهُ مِنْ خَيْبَرَ، فَقَالَ لَهُمَا أَبُو بَكْرٍ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ مَعْنَى حَدِيثِ عُقَيْلٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: ثُمَّ قَامَ عَلِيٌّ فَعَظَّمَ مِنْ حَقِّ أَبِي بَكْرٍ، وَذَكَرَ فَضِيلَتَهُ وَسَابِقَتَهُ ثُمَّ مَضَى إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَبَايَعَهُ فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالُوا: أَصَبْتَ وَأَحْسَنْتَ، فَكَانَ النَّاسُ قَرِيبًا إِلَى عَلِيٍّ حِينَ قَارَبَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما دونوں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اپنا حصہ مانگتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مال میں سے اور وہ اس وقت طلب کرتے تھے فدک کی زمین اور خیبر کا حصہ۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے، پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزری اس میں یہ ہے کہ پھر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کھڑے ہوئے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑائی بیان کی اور ان کے فضیلت اور سبقت اسلام کا ذکر کیا، پھر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے بیعت کی۔ اس وقت لوگ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے آپ نے ٹھیک کیا اور اچھا کیا اور اس وقت سے لوگ ان کے طرفدار ہو گئے جب سے انہوں نے واجبی بات کو مان لیا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ : " أَنَّ عَائِشَةَزَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، سَأَلَتْ أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يَقْسِمَ لَهَا مِيرَاثَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَقَالَ لَهَا أَبُو بَكْرٍ : إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ "، قَالَ: وَعَاشَتْ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، وَكَانَتْ فَاطِمَةُ تَسْأَلُ أَبَا بَكْرٍ نَصِيبَهَا مِمَّا تَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، وَفَدَكٍ وَصَدَقَتِهِ بِالْمَدِينَةِ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ عَلَيْهَا ذَلِكَ، وَقَالَ: لَسْتُ تَارِكًا شَيْئًا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْمَلُ بِهِ، إِلَّا عَمِلْتُ بِهِ، إِنِّي أَخْشَى إِنْ تَرَكْتُ شَيْئًا مِنْ أَمْرِهِ أَنْ أَزِيغَ، فَأَمَّا صَدَقَتُهُ بِالْمَدِينَةِ، فَدَفَعَهَا عُمَرُ إِلَى عَلِيٍّ، وَعَبَّاسٍ، فَغَلَبَهُ عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَأَمَّا خَيْبَرُ، وَفَدَكُ فَأَمْسَكَهُمَا عُمَرُ، وَقَالَ: هُمَا صَدَقَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَتَا لِحُقُوقِهِ الَّتِي تَعْرُوهُ وَنَوَائِبِهِ وَأَمْرُهُمَا إِلَى مَنْ وَلِيَ الْأَمْرَ، قَالَ: فَهُمَا عَلَى ذَلِكَ إِلَى الْيَوْمِ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے اپنا حصہ مانگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا ہے۔ ”ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا اور جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف چھ مہینے تک زندہ رہیں اور وہ اپنا حصہ مانگتی تھیں خیبر اور فدک اور مدینہ کے صدقہ میں سے۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نہ دیا اور یہ کہا کہ کوئی کام جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے چھوڑنے والا نہیں، میں ڈرتا ہوں کہیں گمراہ نہ ہو جاؤں۔ پھر مدینہ کا صدقہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے زمانے میں سیدنا علی اور عباس رضی اللہ عنہما کو دے دیا لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ پر غلبہ کیا (یعنی اپنے قبضہ میں رکھا) اور خیبر اور فدک کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے قبضہ میں رکھا اور یہ کہا کہ دونوں صدقہ تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صرف ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق اور کاموں میں جو پیش آتے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو اور یہ دونوں اس کے اختیار میں رہیں گے جو حاکم ہو مسلمانوں کا پھر آج تک ایسا ہی رہا (یعنی خیبر اور فدک ہمیشہ خلیفہ وقت کے قبضہ میں رہے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں ان کو تقسیم نہیں کیا۔ پس شیعوں کا اعتراض سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ پر لغو ہو گیا)
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَقْتَسِمُ وَرَثَتِي دِينَارًا مَا تَرَكْتُ بَعْدَ نَفَقَةِ نِسَائِي وَمَئُونَةِ عَامِلِي، فَهُوَ صَدَقَةٌ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے وارث ایک دینار بھی بانٹ نہیں سکتے۔ جو چھوڑ جاؤں اپنی عورتوں کے خرچ کے بعد اور منتظم کی اجرت کے بعد بچے تو وہ صدقہ ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي بْنِ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
ابولزناد سے ان اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت منقول ہے۔
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارا کوئی وارث نہیں جو ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ كِلَاهُمَا، عَنْ سُلَيْمٍ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَسَمَ فِي النَّفَلِ لِلْفَرَسِ سَهْمَيْنِ وَلِلرَّجُلِ سَهْمًا "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غنیمت کے مال سے دو حصہ گھوڑے کو دلائے اور ایک حصہ آدمی کو۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ فِي النَّفَلِ.
عبیداللہ سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے اور اس میں غنیمت کا ذکر نہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ ح، وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو زُمَيْلٍ هُوَ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَتِسْعَةَ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، وَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ، فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: فَحَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ يَوْمَئِذٍ يَشْتَدُّ فِي أَثَرِ رَجُلٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَمَامَهُ إِذْ سَمِعَ ضَرْبَةً بِالسَّوْطِ، فَوْقَهُ وَصَوْتَ الْفَارِسِ، يَقُولُ: أَقْدِمْ حَيْزُومُ، فَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِ أَمَامَهُ، فَخَرَّ مُسْتَلْقِيًا، فَنَظَرَ إِلَيْهِ، فَإِذَا هُوَ قَدْ خُطِمَ أَنْفُهُ وَشُقَّ وَجْهُهُ كَضَرْبَةِ السَّوْطِ، فَاخْضَرَّ ذَلِكَ أَجْمَعُ، فَجَاءَ الْأَنْصَارِيُّ فَحَدَّثَ بِذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: صَدَقْتَ، ذَلِكَ مِنْ مَدَدِ السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ، فَقَتَلُوا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ وَأَسَرُوا سَبْعِينَ، قَالَ أَبُو زُمَيْلٍ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا أَسَرُوا الْأُسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ: مَا تَرَوْنَ فِي هَؤُلَاءِ الْأُسَارَى؟، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ هُمْ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةِ أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمْ، فِدْيَةً فَتَكُونُ لَنَا قُوَّةً عَلَى الْكُفَّارِ فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُمْ لِلْإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟، قُلْتُ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَرَى الَّذِي رَأَى أَبُو بَكْرٍ، وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تُمَكِّنَّا فَنَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ فَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ، فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنِّي مِنْ فُلَانٍ نَسِيبًا لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ، فَإِنَّ هَؤُلَاءِ أَئِمَّةُ الْكُفْرِ وَصَنَادِيدُهَا، فَهَوِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَلَمْ يَهْوَ مَا قُلْتُ، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ جِئْتُ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ قَاعِدَيْنِ يَبْكِيَانِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَبْكِي أَنْتَ وَصَاحِبُكَ؟ فَإِنْ وَجَدْتُ بُكَاءً بَكَيْتُ، وَإِنْ لَمْ أَجِدْ بُكَاءً تَبَاكَيْتُ لِبُكَائِكُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَبْكِي لِلَّذِي عَرَضَ عَلَيَّ أَصْحَابُكَ مِنْ أَخْذِهِمُ الْفِدَاءَ لَقَدْ عُرِضَ عَلَيَّ عَذَابُهُمْ أَدْنَى مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، شَجَرَةٍ قَرِيبَةٍ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى قَوْلِهِ فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلالا طَيِّبًا سورة الأنفال آية 69 فَأَحَلَّ اللَّهُ الْغَنِيمَةَ لَهُمْ ".
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جس دن بدر کی لڑائی ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکوں کو دیکھا وہ ایک ہزار تھے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تین سو انیس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے مشرکوں کو دیکھا اور قبلہ کی طرف منہ کیا، پھر دونوں ہاتھ پھیلائے، اور پکار کر دعا کرنے لگے اپنے پروردگار سے۔ (اس حدیث سے یہ نکلا کہ دعا میں قبلہ کی طرف منہ کرنا اور ہاتھ پھیلانا مستحب ہے) «اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِى مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ آتِ مَا وَعَدْتَنِى اللَّهُمَّ إِنْ تَهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةُ مِنْ أَهْلِ الإِسْلاَمِ لاَ تُعْبَدْ فِى الأَرْضِ» ”یااللہ! پورا کر جو تو نے وعدہ کیا مجھ سے، یااللہ! دے مجھ کو جو وعدہ کیا تو نے مجھ سے، یااللہ! اگر تو تباہ کر دے گا اس جماعت کو تو پھر نہ پوجا جائے گا تو زمین میں۔“ (بلکہ جھاڑ پہاڑ پوجے جائیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر دعا کرتے رہے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے یہاں تک کہ آپ کی چادر مبارک مونڈھوں سے اتر گئی سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر مونڈھے پر ڈال دی، پھر پیچھے سے ہٹ گئے اور فرمایا اے نبی اللہ تعالیٰ کے بس، آپ کی اتنی دعا کافی ہے اب اللہ تعالیٰ پورا کرے گا وہ وعدہ جو کیا آپ سے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّى مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلاَئِكَةِ مُرْدِفِينَ» (۸-الأنفال:۹) ”یعنی جب تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے اور اس نے قبول کی دعا تمہاری اور فرمایا میں تمہاری مدد کروں گا ایک ہزار فرشتے لگاتار سے،“ پھر اللہ تعالیٰ نے مدد کی آپصلی اللہ علیہ وسلم کی فرشتوں سے۔ ابوزمیل نے کہا: مجھ سے حدیث بیان کی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ اس روز ایک مسلمان ایک کافر کے پیچھے دوڑ رہا تھا جو اس کے آگے تھا اتنے میں کوڑے کی آواز اس کے کان میں آئی اوپر سے اور ایک سوار کی آواز سنائی دی اوپر سے۔ وہ کہتا تھا بڑھ اے حیزدم (حیزدم اس فرشتے کے گھوڑے کا نام تھا) پھر جو دیکھا تو وہ کافر چت گر پڑا اس مسلمان کے سامنے، مسلمان نے جب اس کو دیکھا کہ اس کی ناک پر نشان تھا اور اس کا منہ پھٹ گیا تھا جیسے کوئی کوڑا مارتا ہے اور سب سبز ہو گیا تھا۔ (کوڑے کی زہر سے)، پھر مسلمان انصاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس آیا اور قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو سچ کہتا ہے یہ مدد تیسرے آسمان سے آئی تھی۔“ آخر مسلمانوں نے اسی دن ستر کافروں کو مارا اور ستر کو قید کیا۔ ابوزمیل نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: جب قیدی گرفتار ہو کر آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر صدیق اور عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: ”تمہاری کیا رائے ہے ان قیدیوں کے بارے میں۔“ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول یہ ہماری برادری کے لوگ ہیں اور کنبے والے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ ان سے کچھ مال لے کر ان کو چھوڑ دیجئیے جس سے مسلمانوں کو طاقت ہو کافروں سے مقابلہ کرنے کی اور شاید ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت کرے اسلام کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری کیا رائے ہے اے خطاب کے بیٹے!“ انہوں نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی، یا رسول اللہ! میری وہ رائے نہیں جو ابوبکر صدیق کی رائے ہے، میری رائے یہ ہے کہ آپ ان کو میرے حوالے کیجئیے ہم ان کی گردنیں ماریں تو عقیل کو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے حوالے کیجئیے وہ ان کی گردن ماریں اور مجھے میرا فلاں عزیز دیجئیے میں اس کی گردن ماروں کیونکہ یہ لوگ کفر کے مہری ہیں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رائے پسند آئی۔ اور میری رائے پسند نہیں آئی، جب دوسرا دن ہوا تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں بیٹھے رو رہے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ اور آپ کے ساتھی کیوں روتے ہیں اگر مجھے بھی رونا آئے تو میں بھی روؤں گا ورنہ رونے کی صورت بناؤں گا۔ آپ دونوں کے رونے سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں روتا ہوں اس واقعہ سے جو پیش آیا تمہارے ساتھیوں کو فدیہ لینے سے میرے سامنے ان کا عذاب لایا گیا اس درخت سے بھی زیادہ نزدیک (ایک درخت تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «مَا كَانَ لِنَبِىٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِى الأَرْضِ» سے «فَكُلُوا مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّبًا» (۸-الأنفال:۶۷-۶۹) اخیر تک”یعنی نبی کو یہ درست نہیں کہ وہ قیدی رکھے جب تک زور نہ توڑدے کافروں کا زمین میں۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيفَةَ، يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، فَرَبَطُوهُ بِسَارِيَةٍ مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ فَخَرَجَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، فَقَالَ: عِنْدِي يَا مُحَمَّدُ خَيْرٌ إِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بَعْدَ الْغَدِ، فَقَالَ: مَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، قَالَ: مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتَرَكَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ مِنَ الْغَدِ، فَقَالَ: مَاذَا عِنْدَكَ يَا ثُمَامَةُ؟، فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَكَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلَى شَاكِرٍ، وَإِنْ تَقْتُلْ تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ كُنْتَ تُرِيدُ الْمَالَ فَسَلْ تُعْطَ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَطْلِقُوا ثُمَامَةَ، فَانْطَلَقَ إِلَى نَخْلٍ قَرِيبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ كُلِّهَا إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ دِينٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِينِكَ فَأَصْبَحَ دِينُكَ أَحَبَّ الدِّينِ كُلِّهِ إِلَيَّ، وَاللَّهِ مَا كَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِكَ فَأَصْبَحَ بَلَدُكَ أَحَبَّ الْبِلَادِ كُلِّهَا إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَكَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيدُ الْعُمْرَةَ فَمَاذَا تَرَى؟، فَبَشَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَمَرَهُ أَنْ يَعْتَمِرَ "، فَلَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ، قَالَ لَهُ قَائِلٌ: أَصَبَوْتَ؟، فَقَالَ: لَا، وَلَكِنِّي أَسْلَمْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا وَاللَّهِ لَا يَأْتِيكُمْ مِنْ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف بھیجا، وہ ایک شخص کو پکڑ لائے جو بنی حنیفہ میں سے تھا اور اس کا نام ثمامہ بن اثال تھا وہ سردار تھا یمامہ والوں کا، پھر لوگوں نے اس کو باندھ دیا مسجد کے ایک ستون سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس گئے اور فرمایا: ”اے ثمامہ! تیرے پاس کیا ہے۔“ وہ بولا میرے پاس بہت کچھ ہے اگر آپ مجھ کو مار ڈالیں گے تو ایسے شخص کو ماریں گے جو خون والا ہے۔ اور اگر آپ احسان کریں گے تو ایسے شخص پر احسان کریں گے جو شکر گزاری کرے گا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم روپیہ چاہتے ہیں تو مانگیئے جو آپ چاہیں گے ملے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رہنے دیا۔ پھر دوسرے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا:”کیا ہے تیرے پاس اے ثمامہ۔“ اس نے کہا وہی جو میں آپ سے کہہ چکا ہوں اگر آپ احسان کریں گے تو احسان ماننے والے پر کریں گے اگر مار ڈالو گے تو اچھی عزت والے کو مارڈالو گے اگر روپیہ چاہتے ہیں تو جتنا مانگیں گے ملے گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رہنے دیا۔ اسی طرح تیسرے دن پھر تشریف لائے اور پوچھا: ”تیرے پاس کیا ہے اے ثمامہ!“ اس نے کہا وہی جو میں آپ سے کہہ چکا۔ احسان کرتے ہو تو کرو میں شکر گزار رہوں گا مارتے ہو تو مارو لیکن میرا خون جانے والا نہیں، مال چاہتے ہو تو جتنا مانگو دوں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا چھوڑ دو ثمامہ کو۔ وہ مسجد کے قریب ایک کھجور کے درخت کی طرف گیا اور غسل کیا پھر مسجد میں آیا اور کہنے لگا «أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قسم اللہ کی! آپ سے زیادہ کسی کا منہ میرے لیے برا نہ تھا اور اب آپ کے منہ مبارک سے زیادہ کسی کا منہ مجھے محبوب نہیں ہے، قسم اللہ کی! آپ کے دین سے زیادہ کوئی دین میرے نزدیک برا نہ تھا اور آپ کا دین اب سب دینوں سے زیادہ مجھے محبوب ہے۔ قسم اللہ کی! کوئی شہر آپ کے شہر سے زیادہ مجھے برا نہ معلوم ہوتا تھا اب آپ کا شہر سب شہروں سے زیادہ مجھے پسند ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھ کو پکڑ لیا۔ میں عمرے کو جاتا تھا اب کیا کروں فرمایئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خوش کیا اور حکم کیا عمرہ کرنے کا۔ جب وہ مکہ پہنچا تو لوگوں نے کہا: تو نے دین بدل ڈالا۔ اس نے کہا: نہیں بلکہ میں مسلمان ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ قسم اللہ کی! یمامہ سے ایک دانہ گیہوں کا تم تک نہ پہنچے گا جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت نہ دے دیں۔
حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْلًا لَهُ نَحْوَ أَرْضِ نَجْدٍ، فَجَاءَتْ بِرَجُلٍ يُقَالُ لَهُ ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ الْحَنَفِيُّ سَيِّدُ أَهْلِ الْيَمَامَةِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ سوائے اس کے کہ اس نے کہا: ”اگر تم مجھے قتل کرو گے تو ایک طاقتور آدمی کو قتل کرو گے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: بَيْنَا نَحْنُ فِي الْمَسْجِدِ إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْطَلِقُوا إِلَى يَهُودَ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى جِئْنَاهُمْ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَادَاهُمْ، فَقَالَ: يَا مَعْشَرَ يَهُودَ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ أُرِيدُ أَسْلِمُوا تَسْلَمُوا، فَقَالُوا: قَدْ بَلَّغْتَ يَا أَبَا الْقَاسِمِ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ذَلِكَ أُرِيدُ، فَقَالَ لَهُمْ: الثَّالِثَةَ فَقَالَ: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْأَرْضُ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ، وَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ أُجْلِيَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَرْضِ، فَمَنْ وَجَدَ مِنْكُمْ بِمَالِهِ شَيْئًا فَلْيَبِعْهُ، وَإِلَّا فَاعْلَمُوا أَنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ وَرَسُولِهِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم مسجد میں بیٹھے تھے، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے اور فرمایا: ”یہودیوں کے پاس چلو۔“ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے یہاں تک کہ یہود کے پاس پہنچے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ان کو پکارا اور فرمایا: ”اے یہود کے لوگو! مسلمان ہو جاؤ۔“ انہوں نے کہا: آپ نے پیغام پہنچا دیا (اللہ تعالیٰ کا) اے ابوالقاسم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہی چاہتا ہوں۔“پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے یہودیو! مسلمان ہو جاؤ۔ وہ کہنے لگے آپ نے پیغام پہنچا دیا اے ابوالقاسم۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں یہ چاہتا ہوں“ (کہ تم اقرار کرو اللہ کے پیغام پہنچ جانے کا) پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری بار یہی کہا اور فرمایا: ”جان لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم کو اس ملک سے باہر نکالوں تو جو شخص اپنے مال کو بیچ سکے وہ بیچ ڈالے اور نہیں تو یہ سمجھ لو کہ زمین اللہ اور اس کے رسول کی ہے۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا وقَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ " أَنَّ يَهُودَ بَنِي النَّضِيرِ، وَقُرَيْظَةَ حَارَبُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَنِي النَّضِيرِ وَأَقَرَّ قُرَيْظَةَ وَمَنَّ عَلَيْهِمْ، حَتَّى حَارَبَتْ قُرَيْظَةُ بَعْدَ ذَلِكَ فَقَتَلَ رِجَالَهُمْ وَقَسَمَ نِسَاءَهُمْ وَأَوْلَادَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ، إِلَّا أَنَّ بَعْضَهُمْ لَحِقُوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَهُمْ وَأَسْلَمُوا، وَأَجْلَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَهُودَ الْمَدِينَةِ كُلَّهُمْ بَنِي قَيْنُقَاعَ وَهُمْ قَوْمُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، وَيَهُودَ بَنِي حَارِثَةَ وَكُلَّ يَهُودِيٍّ كَانَ بِالْمَدِينَةِ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے بنی نضیر اور قریظہ کے یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے یہودیوں کو نکال دیا اور قریظہ کے یہودیوں کو رہنے دیا بلکہ ان پر احسان کیا۔ پھر قریظہ اس کے بعد لڑے (اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دغا بازی کی جنگ احزاب میں مشرکوں کے ساتھ ہو گئے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مردوں کو مار ڈالا اور ان کی عورتوں اور بچوں اور مالوں کو مسلمانوں میں بانٹ دیا مگر جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امن دیا، وہ مسلمان ہو گئے اور نکال دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ سے یہود کو بالکل بنی قینقاع کو جو عبداللہ بن سلام کی قوم تھی اور بنی حارثہ کو اور ہر ایک یہودی کو جو مدینہ میں تھا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي حَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، عَنْ مُوسَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَكْثَرُ وَأَتَمُّ.
موسیٰ نے ان سندوں کے ساتھ یہ حدیث روایت کی اور ابن جریج کی روایت واضح اور مکمل ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَأُخْرِجَنَّ الْيَهُودَ، وَالنَّصَارَى مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ حَتَّى لَا أَدَعَ إِلَّا مُسْلِمًا "،
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”البتہ نکال دوں گا یہود اور نصاریٰ کو عرب کے جزیرہ سے۔ یہاں تک کہ نہیں رہنے دوں گا اس میں مگر مسلمانوں کو۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ . ح وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وقَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ بْنَ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، قَالَ: " نَزَلَ أَهْلُ قُرَيْظَةَ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ فَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَعْدٍ فَأَتَاهُ عَلَى حِمَارٍ، فَلَمَّا دَنَا قَرِيبًا مِنَ الْمَسْجِدِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِ: " قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ أَوْ خَيْرِكُمْ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ نَزَلُوا عَلَى حُكْمِكَ، قَالَ: تَقْتُلُ مُقَاتِلَتَهُمْ وَتَسْبِي ذُرِّيَّتَهُمْ، قَالَ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَضَيْتَ بِحُكْمِ اللَّهِ، وَرُبَّمَا قَالَ: قَضَيْتَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ ابْنُ الْمُثَنَّى، وَرُبَّمَا قَالَ: قَضَيْتَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، قریظہ کے یہودی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ پر اترے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ وہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، جب مسجد کے قریب پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے فرمایا: ”اٹھو اپنے سردار کی طرف یا اپنی قوم کے بہتر شخص کی طرف۔“ پھر فرمایا کہ ”یہ لوگ بنی قریظہ کے تمہارے فیصلہ پر اترے ہیں۔“ (قلعہ سے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ان میں جو لڑائی کے لائق ہیں ان کو تو قتل کیجئیے اور ان کے بچوں اور عورتوں کو قید کیجئیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے موافق یا بادشاہ (اللہ تعالیٰ) کے حکم کے موافق یا فرشتے سیدنا جبرئیل کے حکم کے موافق (جیسا وہ اللہ کی طرف سے لایا تھا) فیصلہ کیا۔“
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ " وَقَالَ مَرَّةً: " لَقَدْ حَكَمْتَ بِحُكْمِ الْمَلِكِ ".
شعبہ سے اسی کی مثل مروی ہے اور اس نے اپنی حدیث میں کہا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”تو نے اللہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔“ اور ایک دفعہ یوں فرمایا: ”بادشاہ کے حکم پر فیصلہ کیا۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أُصِيبَ سَعْدٌ يَوْمَ الْخَنْدَقِ رَمَاهُ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ يُقَالُ لَهُ ابْنُ الْعَرِقَةِ رَمَاهُ فِي الْأَكْحَلِ، فَضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْمَةً فِي الْمَسْجِدِ يَعُودُهُ مِنْ قَرِيبٍ، فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْخَنْدَقِ، وَضَعَ السِّلَاحَ فَاغْتَسَلَ فَأَتَاهُ جِبْرِيلُ وَهُوَ يَنْفُضُ رَأْسَهُ مِنَ الْغُبَارِ، فَقَالَ: وَضَعْتَ السِّلَاحَ وَاللَّهِ مَا وَضَعْنَاهُ اخْرُجْ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَأَيْنَ؟، فَأَشَارَ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ فَقَاتَلَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُكْمَ فِيهِمْ إِلَى سَعْدٍ، قَالَ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ أَنْ تُقْتَلَ الْمُقَاتِلَةُ، وَأَنْ تُسْبَى الذُّرِّيَّةُ وَالنِّسَاءُ وَتُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو خندق کے دن ایک شخص نے جو قریش میں سے تھا عرقہ (اس کی ماں کا نام ہے) کا بیٹا ایک تیر مارا، وہ تیر ان کی اکحل (شریان) میں لگا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد کے لیے مسجد میں ایک خیمہ لگا دیا (اس سے معلوم ہوا کہ مسجد میں سونا اور بیمار کا رہنا درست ہے) وہیں نزدیک سے ان کو پوچھ لیتے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی لڑائی سے لوٹے تو ہتھیار رکھ دیئے اور غسل کیا، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے غبار سے اپنا سر جھٹکتے ہوئے اور کہا: آپ نے ہتھیار اتار ڈالے اور ہم نے تو اللہ کی قسم ہتھیار نہیں رکھے چلو ان کی طرف۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کدھر؟ ”انہوں نے اشارہ کیا بنی قریظہ کی طرف، پھر لڑے ان سے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم اور وہ قلعہ سے اترے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ پر راضی ہو کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا فیصلہ سعد پر رکھا۔ (کیونکہ وہ حلیف تھے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے) سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں یہ حکم کرتا ہوں کہ ان میں جو لڑنے والے ہیں وہ تو مار دیئے جائیں، بچے اور عورتیں قیدی بنیں اور ان کے مال تقسیم ہو جائیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، قَالَ: قَالَ أَبِي : فَأُخْبِرْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
ہشام نے اپنے باپ (عروہ) سے سنا، انہوں نے کہا: مجھے خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد سے فرمایا: ”تو نے بنی قریظہ کے باب میں وہ حکم دیا جو اللہ عزوجل کا حکم تھا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ سَعْدًا قَالَ: وَتَحَجَّرَ كَلْمُهُ لِلْبُرْءِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ أَنْ لَيْسَ أَحَدٌ أَحَبَّ إِلَيَّ أَنْ أُجَاهِدَ فِيكَ مِنْ قَوْمٍ كَذَّبُوا رَسُولَكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْرَجُوهُ، اللَّهُمَّ فَإِنْ كَانَ بَقِيَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْءٌ فَأَبْقِنِي أُجَاهِدْهُمْ فِيكَ، اللَّهُمَّ فَإِنِّي أَظُنُّ أَنَّكَ قَدْ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَإِنْ كُنْتَ وَضَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ فَافْجُرْهَا، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِيهَا، فَانْفَجَرَتْ مِنْ لَبَّتِهِ، فَلَمْ يَرُعْهُمْ وَفِي الْمَسْجِدِ مَعَهُ خَيْمَةٌ مِنْ بَنِي غِفَارٍ إِلَّا وَالدَّمُ يَسِيلُ إِلَيْهِمْ، فَقَالُوا: يَا أَهْلَ الْخَيْمَةِ مَا هَذَا الَّذِي يَأْتِينَا مِنْ قِبَلِكُمْ؟، فَإِذَا سَعْدٌ جُرْحُهُ يَغِذُّ دَمًا فَمَاتَ مِنْهَا "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کا زخم سوکھ گیا اور اچھا ہونے کو تھا۔ انہوں نے دعا کی، یا اللہ! تو جانتا ہے کہ مجھے تیری راہ میں جہاد کرنے سے ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے تیرے رسول کو جھٹلایا اور نکالا کوئی چیز زیادہ پسند نہیں ہے یا اللہ! اگر قریش کی لڑائی ابھی باقی ہو تو مجھے زندہ رکھ، میں ان سے جہاد کروں گا۔ یا اللہ! میں سمجھتا ہوں کہ ہماری ان کی لڑائی تو نے ختم کر دی! اگر ایسا ہے تو اس زخم کو کھول دے اور میری موت اسی میں کر (یہ آرزو ہے شہادت کی اور موت کی آرزو نہیں ہے جو منع ہے) پھر وہ زخم بہنے لگا، ہنسلی کے مقام سے یا گردن سے یا اسی رات کو بہنے لگا (یہ جب ہے کہ حدیث میں «من ليلة» ہو۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا: یہی صحیح ہے) اور لوگ نہیں ڈرے مگر مسجد میں ان کے ساتھ ایک خیمہ تھا بنی غفار کا، خون اس طرف بہنے لگا تب وہ بولے، اے خیمہ والو! یہ کیا ہے جو تمہاری طرف سے آ رہا ہے (معلوم ہوا کہ سعد کا زخم بہہ رہا ہے)آخر اسی زخم میں فوت ہوئے (اور اللہ تعالیٰ نے شہادت دی)۔
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ سُلَيْمَانَ الْكُوفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَانْفَجَرَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَمَا زَالَ يَسِيلُ حَتَّى مَاتَ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ قَالَ: فَذَاكَ حِينَ يَقُولُ الشَّاعِرُ: أَلَا يَا سَعْدُ سَعْدَ بَنِي مُعَاذٍ فَمَا فَعَلَتْ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرُ لَعَمْرُكَ إِنَّ سَعْدَ بَنِي مُعَاذٍ غَدَاةَ تَحَمَّلُوا لَهُوَ الصَّبُورُ تَرَكْتُمْ قِدْرَكُمْ لَا شَيْءَ فِيهَا وَقِدْرُ الْقَوْمِ حَامِيَةٌ تَفُورُ، وَقَدْ قَالَ الْكَرِيمُ أَبُو حُبَابٍ: أَقِيمُوا قَيْنُقَاعُ وَلَا تَسِيرُوا وَقَدْ كَانُوا بِبَلْدَتِهِمْ ثِقَالًا كَمَا ثَقُلَتْ بِمَيْطَانَ الصُّخُورُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ زخم اسی رات کو جاری ہو گیا اور جاری رہا یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئے۔ اتنا زیادہ ہے کہ شاعر نے اسی بابب میں یہ تین شعر کہے ان کا ترجمہ یہ ہے۔ اے سعد بیٹے معاذ کے قریظہ اور نضیر کیا ہوئے؟ قسم تیری عمر کی کہ سعد جس صبح کو تم مصیبت اٹھا رہے ہو خاموش ہے، اے اوس (جو خلفاء تھے قریظہ کے) تم نے اپنی ہانڈی خالی چھوڑ دی اور قوم کی ہانڈی (یعنی خزرج دوسرے قبیلہ کی) گرم ہے، ابل رہی ہے، نیک نفس ابوحباب نے (عبداللہ بن ابی بن سلول منافق نے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قینقاع کے یہود کی سفارش کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی سفارش قبول کی) کہہ دیا ٹھہرے رہو، قینقاع والو! اور مت جاؤ حالانکہ وہ لوگ شہر میں ایسے ذلیل تھے جیسے میطان (ایک پہاڑ کا نام ہے) میں پتھر ذلیل ہیں۔ غرض اس سے یہ ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ بنی قریظہ کی سفارش پر مستعد ہوں اور ان کو بچائیں۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ بْنُ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: نَادَى فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ انْصَرَفَ عَنْ الْأَحْزَابِ " أَنْ لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الظُّهْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ "، فَتَخَوَّفَ نَاسٌ فَوْتَ الْوَقْتِ فَصَلَّوْا دُونَ بَنِي قُرَيْظَةَ، وَقَالَ آخَرُونَ: لَا نُصَلِّي إِلَّا حَيْثُ أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ فَاتَنَا الْوَقْتُ، قَالَ: فَمَا عَنَّفَ وَاحِدًا مِنَ الْفَرِيقَيْنِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمغزوۂ احزاب سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے پکارا کوئی ظہر کی نماز نہ پڑھے جب تک بنی قریظہ کے محلہ میں نہ پہنچے، بعض لوگ ڈرے ایسا نہ ہو کہ نماز قضا ہو جائے۔ انہوں نے وہاں پہنچنے سے پہلے پڑھ لی اور بعض نے کہا کہ ہم نہیں پڑھیں گے مگر جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اگرچہ نماز قضا ہو جائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں گروہوں میں سے کسی گروہ پر خفا نہیں ہوئے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ الْمُهَاجِرُونَ مِنْ مَكَّةَ، الْمَدِينَةَ قَدِمُوا وَلَيْسَ بِأَيْدِيهِمْ شَيْءٌ، وَكَانَ الْأَنْصَارُ أَهْلَ الْأَرْضِ وَالْعَقَارِ، فَقَاسَمَهُمْ الْأَنْصَارُ عَلَى أَنْ أَعْطَوْهُمْ أَنْصَافَ ثِمَارِ أَمْوَالِهِمْ كُلَّ عَامٍ، وَيَكْفُونَهُمُ الْعَمَلَ وَالْمَئُونَةَ، وَكَانَتْ أُمُّ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَهِيَ تُدْعَى أُمَّ سُلَيْمٍ، وَكَانَتْ أُمُّ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ كَانَ أَخًا لِأَنَسٍ لِأُمِّهِ، وَكَانَتْ أَعْطَتْ أُمُّ أَنَسٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِذَاقًا لَهَا، فَأَعْطَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَوْلَاتَهُ أُمَّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا فَرَغَ مِنْ قِتَالِ أَهْلِ خَيْبَرَ وَانْصَرَفَ إِلَى الْمَدِينَةِ، رَدَّ الْمُهَاجِرُونَ إِلَى الْأَنْصَارِ مَنَائِحَهُمُ الَّتِي كَانُوا مَنَحُوهُمْ مِنْ ثِمَارِهِمْ، قَالَ: فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُمِّي عِذَاقَهَا، وَأَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمَّ أَيْمَنَ مَكَانَهُنَّ مِنْ حَائِطِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ مِنْ شَأْنِ أُمِّ أَيْمَنَ، أُمِّ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ أَنَّهَا كَانَتْ وَصِيفَةً لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، وَكَانَتْ مِنْ الْحَبَشَةِ، فَلَمَّا وَلَدَتْ آمِنَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ أَبُوهُ، فَكَانَتْ أُمُّ أَيْمَنَ تَحْضُنُهُ حَتَّى كَبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْتَقَهَا، ثُمَّ أَنْكَحَهَا زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ ثُمَّ تُوُفِّيَتْ بَعْدَ مَا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَمْسَةِ أَشْهُرٍ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب مہاجرین مکہ معظّمہ سے مدینہ طیبہ کو آئے تو وہ خالی ہاتھ تھے اور انصار کے پاس زمین تھی اور درخت تھے (یعنی کھیت بھی تھے اور باغ بھی) تو انصار نے مہاجرین کو اپنا مال بانٹ دیا اس طور سے کہ آدھا میوہ ہر سال ان کو دیتے اور وہ کام اور محنت کرتے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی ماں جن کا نام ام سلیم تھا اور عبداللہ بن ابی طلحہ کی بھی ماں تھیں۔ جو انس رضی اللہ عنہ کے مادری بھائی تھے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ایک درخت دیا کھجور کا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ام ایمن کو دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی لونڈی تھی آزاد کی ہوئی اور ماں تھیں اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی (اس سے معلوم ہوا کہ ام سلیم نے وہ درخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مثل ہبہ کے دیا تھا اگر وہ صرف میوہ کھانے کو دیتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام ایمن کو کیسے دیتے) ابن شہاب نے کہا کہ خبر دی مجھ کو انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کی لڑائی سے فارغ ہوئے اور مدینہ کو لوٹے تو مہاجرین نے انصار کو ان کی دی ہوئی چیزیں واپس کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے بھی میری ماں کو ان کا درخت واپس کر دیا اور ام ایمن کو اس کی جگہ اپنے باغ سے دے دیا۔ ابن شہاب رضی اللہ عنہ نے کہا: ام ایمن جو اسامہ بن زید کی ماں تھیں وہ لونڈی تھیں، سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب کی (جو والد ماجد تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے) اور وہ حبش کی تھیں جب آمنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے والد کی وفات کے بعد تو ام ایمن آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کھلاتیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہوئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آزاد کر دیا پھر ان کا نکاح سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے پڑھا دیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پانچ مہینے بعد مر گئیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَحَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ كُلُّهُمْ، عَنْ الْمُعْتَمِرِ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسٍ : أَنَّ رَجُلًا، وَقَالَ حَامِدٌ، وَابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى " أَنَّ الرَّجُلَ كَانَ يَجْعَلُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلاتِ مِنْ أَرْضِهِ، حَتَّى فُتِحَتْ عَلَيْهِ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرِ، فَجَعَلَ بَعْدَ ذَلِكَ يَرُدُّ عَلَيِهِ مَا كَانَ أُعْطَاهُ، قَالَ أَنَسٌ: وَإِنَّ أَهْلِي أَمَرُونِي أَنْ آتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْأَلَهُ مَا كَانَ أَهْلُهُ أَعْطَوْهُ أَوْ بَعْضَهُ؟، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْطَاهُ أُمَّ أَيْمَنَ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِيهِنَّ فَجَاءَتْ أُمُّ أَيْمَنَ فَجَعَلَتِ الثَّوْبَ فِي عُنُقِي، وَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَا نُعْطِيكَاهُنَّ وَقَدْ أَعْطَانِيهِنَّ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ أَيْمَنَ: اتْرُكِيهِ وَلَكِ كَذَا وَكَذَا، وَتَقُولُ: كَلَّا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَجَعَلَ يَقُولُ: كَذَا، حَتَّى أَعْطَاهَا عَشْرَةَ أَمْثَالِهِ أَوْ قَرِيبًا مِنْ عَشْرَةِ أَمْثَالِهِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممدینہ تشریف لائے تو کوئی اپنی زمین کے درخت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے فتح کیا قریظہ اور نضیر کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع کیا واپس ہر ایک کو جو دیا تھا اس نے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے لوگوں نے مجھے بھیجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہ آپ سے مانگوں وہ جو میرے لوگوں نے آپ کو دیا تھا سب یا تھوڑا اس میں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ام ایمن کو دے دیا تھا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے دے دیا۔ اتنے میں ام ایمن آئی اور اس نے کپڑا میرے گلے میں ڈالا اور کہنے لگی: قسم اللہ تعالیٰ کی! ہم تو وہ تجھے نہ دیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے ام ایمن! دیدے اس کو میں تجھے یہ دوں گا۔“ وہ یہی کہتی تھی ہرگز نہ دوں گی قسم اللہ تعالیٰ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے، چھوڑ دے، میں تجھے یہ دوں گا، یہ دوں گا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام ایمن کو اس مال کا دس گنا یا دس گنا کے قریب دیا۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ: " أَصَبْتُ جِرَابًا مِنْ شَحْمٍ يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: فَالْتَزَمْتُهُ، فَقُلْتُ: لَا أُعْطِي الْيَوْمَ أَحَدًا مِنْ هَذَا شَيْئًا، قَالَ: " فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَبَسِّمًا ".
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے ایک تھیلی پائی چربی کی خیبر کے دن۔ میں نے اس کو دبا لیا اور کہنے لگا، اس میں سے تو میں آج کسی کو نہ دوں گا پھر مڑ کر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (یہ سن کر) تبسم فرما رہے تھے میرے اس کہنے پر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُغَفَّلٍ ، يَقُولُ: " رُمِيَ إِلَيْنَا جِرَابٌ فِيهِ طَعَامٌ وَشَحْمٌ يَوْمَ خَيْبَرَ، فَوَثَبْتُ لِآخُذَهُ، قَالَ: فَالْتَفَتُّ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَحْيَيْتُ مِنْهُ "، وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: جِرَابٌ مِنْ شَحْمٍ وَلَمْ يَذْكُرِ الطَّعَامَ.
سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک تھیلی جس میں کھانا تھا اور چربی تھی خیبر کے روز ہماری طرف کسی نے پھینکی، میں دوڑا اس کے لینے کو پھر جو دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہیں میں نے شرم کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ شعبہ نے ان سندوں کے ساتھ روایت کیا سوائے اس کے کہ اس روایت میں تھیلی میں چربی کا ذکر ہے اور کھانے کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ مِنْ فِيهِ إِلَى فِيهِ، قَالَ: انْطَلَقْتُ فِي الْمُدَّةِ الَّتِي كَانَتْ بَيْنِي وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَا أَنَا بِالشَّأْمِ إِذْ جِيءَ بِكِتَابٍ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هِرَقْلَ يَعْنِي عَظِيمَ الرُّومِ، قَالَ: وَكَانَ دَحْيَةُ الْكَلْبِيُّ جَاءَ بِهِ فَدَفَعَهُ إِلَى عَظِيمِ بُصْرَى، فَدَفَعَهُ عَظِيمُ بُصْرَى إِلَى هِرَقْلَ، فَقَالَ هِرَقْلُ: هَلْ هَاهُنَا أَحَدٌ مِنْ قَوْمِ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَدُعِيتُ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَدَخَلْنَا عَلَى هِرَقْلَ فَأَجْلَسَنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ أَقْرَبُ نَسَبًا مِنْ هَذَا الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ؟، فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: فَقُلْتُ: أَنَا فَأَجْلَسُونِي بَيْنَ يَدَيْهِ وَأَجْلَسُوا أَصْحَابِي خَلْفِي ثُمَّ دَعَا بِتَرْجُمَانِهِ، فَقَالَ لَهُ: قُلْ لَهُمْ إِنِّي سَائِلٌ هَذَا عَنِ الرَّجُلِ الَّذِي يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ فَإِنْ كَذَبَنِي فَكَذِّبُوهُ، قَال: فَقَالَ أَبُو سُفْيَانَ: وَايْمُ اللَّهِ لَوْلَا مَخَافَةُ أَنْ يُؤْثَرَ عَلَيَّ الْكَذِبُ لَكَذَبْتُ ثُمَّ، قَالَ: لِتَرْجُمَانِهِ سَلْهُ كَيْفَ حَسَبُهُ فِيكُمْ؟، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ فِينَا ذُو حَسَبٍ، قَالَ: فَهَلْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: وَمَنْ يَتَّبِعُهُ أَشْرَافُ النَّاسِ أَمْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ، قَالَ: أَيَزِيدُونَ أَمْ يَنْقُصُونَ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ يَزِيدُونَ، قَالَ: هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَ فِيهِ سَخْطَةً لَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: فَهَلْ قَاتَلْتُمُوهُ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَكَيْفَ كَانَ قِتَالُكُمْ إِيَّاهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: تَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ سِجَالًا يُصِيبُ مِنَّا وَنُصِيبُ مِنْهُ، قَالَ: فَهَلْ يَغْدِرُ؟، قُلْتُ: لَا وَنَحْنُ مِنْهُ فِي مُدَّةٍ لَا نَدْرِي مَا هُوَ صَانِعٌ فِيهَا؟، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَمْكَنَنِي مِنْ كَلِمَةٍ أُدْخِلُ فِيهَا شَيْئًا غَيْرَ هَذِهِ، قَالَ: فَهَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ؟، قَالَ: قُلْتُ: لَا، قَالَ لِتَرْجُمَانِهِ: قُلْ لَهُ إِنِّي سَأَلْتُكَ عَنْ حَسَبِهِ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ فِيكُمْ ذُو حَسَبٍ، وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْعَثُ فِي أَحْسَابِ قَوْمِهَا، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كَانَ فِي آبَائِهِ مَلِكٌ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوْ كَانَ مِنْ آبَائِهِ مَلِكٌ قُلْتُ رَجُلٌ يَطْلُبُ مُلْكَ آبَائِهِ، وَسَأَلْتُكَ عَنْ أَتْبَاعِهِ أَضُعَفَاؤُهُمْ أَمْ أَشْرَافُهُمْ، فَقُلْتَ: بَلْ ضُعَفَاؤُهُمْ وَهُمْ أَتْبَاعُ الرُّسُلِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ كُنْتُمْ تَتَّهِمُونَهُ بِالْكَذِبِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ مَا قَالَ، فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقَدْ عَرَفْتُ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ لِيَدَعَ الْكَذِبَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ يَذْهَبَ فَيَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَرْتَدُّ أَحَدٌ مِنْهُمْ عَنْ دِينِهِ بَعْدَ أَنْ يَدْخُلَهُ سَخْطَةً لَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ إِذَا خَالَطَ بَشَاشَةَ الْقُلُوبِ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَزِيدُونَ أَوْ يَنْقُصُونَ فَزَعَمْتَ أَنَّهُمْ يَزِيدُونَ وَكَذَلِكَ الْإِيمَانُ حَتَّى يَتِمَّ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوهُ فَزَعَمْتَ أَنَّكُمْ قَدْ قَاتَلْتُمُوهُ فَتَكُونُ الْحَرْبُ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ سِجَالًا يَنَالُ مِنْكُمْ وَتَنَالُونَ مِنْهُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلَى ثُمَّ تَكُونُ لَهُمُ الْعَاقِبَةُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ يَغْدِرُ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ لَا يَغْدِرُ وَكَذَلِكَ الرُّسُلُ لَا تَغْدِرُ، وَسَأَلْتُكَ هَلْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ فَزَعَمْتَ أَنْ لَا فَقُلْتُ لَوَ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ أَحَدٌ قَبْلَهُ قُلْتُ رَجُلٌ ائْتَمَّ بِقَوْلٍ قِيلَ قَبْلَهُ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: بِمَ يَأْمُرُكُمْ؟ قُلْتُ: يَأْمُرُنَا بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَالصِّلَةِ وَالْعَفَافِ، قَالَ: إِنْ يَكُنْ مَا تَقُولُ فِيهِ حَقًّا فَإِنَّهُ نَبِيٌّ وَقَدْ كُنْتُ أَعْلَمُ أَنَّهُ خَارِجٌ وَلَمْ أَكُنْ أَظُنُّهُ مِنْكُمْ، وَلَوْ أَنِّي أَعْلَمُ أَنِّي أَخْلُصُ إِلَيْهِ لَأَحْبَبْتُ لِقَاءَهُ، وَلَوْ كُنْتُ عِنْدَهُ لَغَسَلْتُ عَنْ قَدَمَيْهِ وَلَيَبْلُغَنَّ مُلْكُهُ مَا تَحْتَ قَدَمَيَّ، قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَرَأَهُ، فَإِذَا فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ " مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى، أَمَّا بَعْدُ، فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمْ تَسْلَمْ، وَأَسْلِمْ يُؤْتِكَ اللَّهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ، وَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَيَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ قِرَاءَةِ الْكِتَابِ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ عِنْدَهُ وَكَثُرَ اللَّغْطُ، وَأَمَرَ بِنَا فَأُخْرِجْنَا، قَالَ: فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي حِينَ خَرَجْنَا: لَقَدْ أَمِرَ أَمْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ إِنَّهُ لَيَخَافُهُ مَلِكُ بَنِي الْأَصْفَرِ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ مُوقِنًا بِأَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ حَتَّى أَدْخَلَ اللَّهُ عَلَيَّ الْإِسْلَامَ "
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، ابوسفیان نے ان سے منہ در منہ بیان کیا کہ میں اس مدت میں جو میرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے بیچ میں ٹھہری تھی (یعنی صلح حدیبیہ کی مدت جو ۶ ہجری میں ہوئی) روانہ ہوا۔ میں شام کے ملک میں تھا، اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کتاب پہنچی ہرقل کو یعنی روم کے بادشاہ کو۔ اور سیدنا وحیہ کلبی رضی اللہ عنہ وہ کتاب لے کر آئے تھے۔ انہوں نے بصریٰ کے رئیس کو دی اور بصریٰ کے رئیس نے ہرقل کو دی۔ ہرقل نے کہا: یہاں کوئی ہے اس شخص کی قوم کا جو پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے۔ لوگوں نے کہا: ہاں! ابوسفیان نے کہا: میں بلایا گیا اور بھی چند آدمی تھے قریش کے۔ ہم ہرقل کے پاس پہنچے، اس نے ہم کو اپنے سامنے بٹھلایا اور پوچھا تم میں سے کون رشتہ میں زیادہ نزدیک ہے اس شخص سے جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے۔ ابوسفیان نے کہا: میں۔ (یہ ہرقل نے اس واسطے دریافت کیا کہ جو نسب میں زیادہ نزدیک ہو گا وہ بہ نسبت دوسروں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال زیادہ جانتا ہو گا) پھر مجھے ہرقل کے سامنے بٹھلایا اور میرے ساتھیوں کو میرے پیچھے بٹھلایا۔ بعد اس کے اپنے ترجمان کو بلایا (جو زبان دوسرے ملک کے لوگوں کو بادشاہ کو سمجھاتا ہے) اور اس سے کہا، ان لوگوں سے کہہ کہ میں اس شخص سے (یعنی ابوسفیان سے) اس شخص کا حال پوچھوں گا جو اپنے تئیں پیغمبر کہتا ہے پھر اگر وہ جھوٹ بولے تو تم اس کا جھوٹ بیان کر دینا۔ ابوسفیان نے کہا: قسم اللہ تعالیٰ کی اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ یہ لوگ میرا جھوٹ بیان کریں گے (اور میری ذلت ہو گی) تو میں جھوٹ بولتا(کیونکہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت تھی) پھر ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: اس سے پوچھ کہ اس شخص کا (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلمکا) حسب کیا ہے۔ (یعنی خاندان) ابوسفیان نے کہا: میں نے کہا: ان کا حسب تو ہم میں بہت عمدہ ہے۔ ہرقل نے کہا: ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہے۔ میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: کبھی تم نے ان کو جھوٹ بولتے سنا اس دعویٰ سے پہلے (یعنی نبوت کے دعوے سے) میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: اچھا ان کی پیروی بڑے بڑے رئیس لوگ کرتے ہیں یا غریب لوگ۔ میں نے کہا: غریب لوگ۔ ہرقل نے کہا: ان کے تابعدار بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوئے جاتے ہیں۔ میں نے کہا: بڑھتے جاتے ہیں، ہرقل نے کہا: ان کے تابعداروں میں سے کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس دین کو برا جان کر پھر جاتا ہے یا نہیں۔ میں نے کہا: نہیں۔ ہرقل نے کہا: تم نے ان سے لڑائی بھی کی ہے۔ میں نے کہا: ہاں۔ ہرقل نے کہا: ان کی تم سے کیونکر لڑائی ہوئی ہے (یعنی کون غالب رہتا ہے) میں نے کہا: ہماری ان کی لڑائی ڈولوں کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر ہوتی ہے جیسے کنویں میں ڈول پانی کھنچنے میں ایک ادھر آیا ہے اور ایک ادھر اور اسی طرح لڑائی میں کبھی ہماری فتح ہوتی ہے کبھی ان کی فتح ہوتی ہے۔ وہ ہمارا نقصان کرتے ہیں۔ ہم ان کا نقصان کرتے ہیں۔ ہرقل نے کہا: وہ اقرار کو توڑتے ہیں۔ میں نے کہا: نہیں پھر اب ایک مدت کے لیے ہمارے اور ان کے درمیان اقرار ہوا ہے دیکھیے وہ اس میں کیا کرتے ہیں (یعنی آئندہ شاید عہد شکنی کریں) ابوسفیان نے کہا: قسم اللہ کی مجھے اور کسی باب میں اپنی طرف سے کوئی فقرہ لگانے کا موقعہ نہیں ملا۔ سوائے اس بات کے (تو اس میں میں نے عداوت کی راہ سے اتنا بڑھا دیا کہ یہ جو صلح کی مدت اب ٹھہری ہے شاید اس میں وہ دغا کریں) ہرقل نے کہا: ان سے پہلے بھی (ان کی قوم یا ملک میں) کسی نے پیغمبری کا دعوٰی کیا تھا۔ میں نے کہا: نہیں۔ تب ہرقل نے اپنے ترجمان سے کہا: تم اس شخص سے یعنی ابوسفیان سے کہو میں نے تجھ سے ان کا حسب نسب پوچھا ہے تو تُو نے کہا کہ ان کا حسب بہت عمدہ ہے اور پیغمبروں کا یہی قاعدہ ہے، وہ ہمیشہ اپنی قوم کے عمدہ خاندانوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ پھر میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ گزرا ہے تو نے کہا: نہیں، یہ اس لیے میں نے پوچھا کہ اگر ان کے باپ دادوں میں کوئی بادشاہ ہوتا تو یہ گمان ہو سکتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی سلطنت چاہتے ہیں اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ ان کی پیروی کرنے والے بڑے لوگ ہیں یا غریب لوگ تو تو نے کہا: غریب لوگ اور ہمیشہ (پہلے پہل) پیغمبروں کی پیروی غریب لوگ ہی کرتے ہیں۔ (کیونکہ بڑے آدمیوں کو کسی کی اطاعت کرتے ہوئے شرم آتی ہے اور غریبوں کو نہیں آتی) اور میں نے تجھ سے پوچھا کہ نبوت کے دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی ان کا جھوٹ دیکھا ہے، تو نے کہا: نہیں، اس سے میں نے یہ نکالا کہ جب وہ لوگوں پر طوفان نہیں باندھتے تو اللہ جل جلالہ پر کیوں طوفان جوڑنے لگے (جھوٹا دعویٰ کر کے) اور میں نے تجھ سے پوچھا، کوئی ان کے دین میں آنے کے بعد پھر اس کو برا سمجھ کر پھر جاتا ہے، تو نے کہا: نہیں اور ایمان کا یہی حال ہے جب دل میں آتا ہے تو خوشی سماتی ہے اور میں نے تجھ سے پوچھا، ان کے پیرو بڑھتے جاتے ہیں یا کم ہوتے جاتے ہیں، تو نے کہا: وہ بڑھتے جاتے ہیں یہی ایمان کا حال ہے اس وقت تک کہ پورا ہو (پھر کمال کے بعد اگر گھٹے تو قباحت نہیں) اور میں نے تجھ سے پوچھا، تم ان سے لڑتے ہو تو تو نے کہا: ہم لڑتے ہیں اور ہماری ان کی لڑائی برابر ہے ڈول کی طرح کبھی ادھر کبھی ادھر، تم ان کا نقصان کرتے ہو وہ تمہارا نقصان کرتے ہیں۔ اور اسی طرح آزمائش ہوتی ہے پیغمبروں کی (تاکہ ان کا صبر اور تکلیف کا اجر ملے اور ان کے پیروکاروں کے درجے بڑھیں) پھر آخر میں وہی غالب آتے ہیں، اور میں نے تجھ سے پوچھا، وہ دغا کرتے ہیں تو تو نے کہا: وہ دغا نہیں کرتے اور یہی حال ہے پیغمبروں کا وہ دغا نہیں کرتے (یعنی عہد شکنی) اور میں نے تجھ سے پوچھا: ان سے پہلے بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے۔ تو نے کہا: نہیں۔ یہ میں نے اس لیے پوچھا کہ اگر ان سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیا ہوتا تو گمان ہوتا کہ اس شخص نے بھی اس کی پیروی کی ہے۔ پھر ہرقل نے کہا: وہ تم کو کن باتوں کا حکم کرتے ہیں۔ میں نے کہا: وہ حکم کرتے ہیں ... نماز پڑھنے کا، زکواۃ دینے کا، ناتواں والوں سے سلوک کا اور بری باتوں سے بچنے کا۔ ہرقل نے کہا: اگر ان کا بھی یہی حال ہے جو تم نے بیان کیا تو بیشک وہ پیغمبر ہیں اور میں جانتا تھا (اگلی کتابوں میں پڑھ کر) کہ یہ پیغمبر پیدا ہوں گے لیکن مجھے یہ خیال نہ تھا کہ وہ تم لوگوں میں پیدا ہوں گے۔ اور اگر میں یہ سمجھتا کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں میں ان سے ملنا پسند کرتا (بخاری کی روایت میں ہے کہ میں کسی طرح بھی ملتا محنت مشقت اٹھا کر)اور جو میں ان کے پاس ہوتا تو ان کے پاؤں دھوتا اور البتہ ان کی حکومت یہاں تک آ جائے گئی جہاں اب میرے دونوں پاؤں ہیں، پھر ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط منگوایا اور اس کو پڑھا، اس میں یہ لکھا تھا۔ ”شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان اور رحم والا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول کی طرف سے ہرقل کو معلوم ہو جو کہ رئیس ہے روم کا۔ سلام اس شخص پر جو پیروی کرے ہدایت کی۔ بعد اس کے میں تجھے ہدایت دیتا ہوں اسلام کی دعوت کہ مسلمان ہو جا تو سلامت رہے گا (یعنی تیری حکومت، جان اور عزت سب سلامت اور محفوظ رہے گی) مسلمان ہو جا اللہ تجھے دوہرا ثواب دے گا۔ اگر تو نہ مانے تو تجھ پر وبال ہو گا ریسین کا۔ ”اے کتاب والو! ایک بات کہ جو سیدھی اور صاف ہے ہمارے اور تمہارے درمیان کہ بندگی نہ کریں سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی اور کی اور شریک بھی نہ ٹھہرائیں اس کے ساتھ کسی کو۔۔۔۔۔“ اخیر آیت تک۔
وحَدَّثَنَاه حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، وَكَانَ قَيْصَرُ لَمَّا كَشَفَ اللَّهُ عَنْهُ جُنُودَ فَارِسَ مَشَى مِنْ حِمْصَ إِلَى إِيلِيَاءَ شُكْرًا لِمَا أَبْلَاهُ اللَّهُ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَقَالَ: إِثْمَ الْيَرِيسِيِّينَ، وَقَالَ: بِدَاعِيَةِ الْإِسْلَامِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اتنا زیادہ ہے کہ قیصر جب ایران کی فوج کو اللہ تعالیٰ نے شکست دی توحمص سے ایلیا (بیت المقدس) کی طرف گیا اس فتح کا شکر کرنے کو اور خط میں یہ ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے اور «اريسيين» کے بدلے «يريسيين»ہے اور «دعايته» کے بدلے «داعيه» ہے یعنی بلاتا ہوں میں تجھ کو داعیہ اسلام کی طرف اور وہ کلمۂ توحید ہے۔
حَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَتَبَ إِلَى كِسْرَى وَإِلَى قَيْصَرَ وَإِلَى النَّجَاشِيِّ وَإِلَى كُلِّ جَبَّارٍ، يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ، قیصر، نجاشی اور ہر ایک حاکم کو لکھا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے ان کو، اور یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازے کی نماز پڑھی۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرُّزِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَقُلْ وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مذکورہ حدیث کی طرح روایت کرتے ہیں لیکن ان روایتوں میں یہ نہیں ہے کہ یہ نجاشی وہ نہیں تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
وحَدَّثَنِيهِ نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ وَلَمْ يَذْكُرْ، وَلَيْسَ بِالنَّجَاشِيِّ الَّذِي صَلَّى عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي كَثِيرُ بْنُ عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ: قَالَ عَبَّاسٌ " شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، فَلَزِمْتُ أَنَا وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمْ نُفَارِقْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَةٍ لَهُ بَيْضَاءَ أَهْدَاهَا لَهُ فَرْوَةُ بْنُ نُفَاثَةَ الْجُذَامِيُّ، فَلَمَّا الْتَقَى الْمُسْلِمُونَ وَالْكُفَّارُ وَلَّى الْمُسْلِمُونَ مُدْبِرِينَ، فَطَفِقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ بَغْلَتَهُ قِبَلَ الْكُفَّارِ، قَالَ عَبَّاسٌ: وَأَنَا آخِذٌ بِلِجَامِ بَغْلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكُفُّهَا إِرَادَةَ أَنْ لَا تُسْرِعَ، وَأَبُو سُفْيَانَ آخِذٌ بِرِكَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْ عَبَّاسُ نَادِ أَصْحَابَ السَّمُرَةِ، فَقَالَ عَبَّاسٌ: وَكَانَ رَجُلًا صَيِّتًا، فَقُلْتُ بِأَعْلَى صَوْتِي: أَيْنَ أَصْحَابُ السَّمُرَةِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ لَكَأَنَّ عَطْفَتَهُمْ حِينَ سَمِعُوا صَوْتِي عَطْفَةُ الْبَقَرِ عَلَى أَوْلَادِهَا، فَقَالُوا: يَا لَبَّيْكَ يَا لَبَّيْكَ، قَالَ: فَاقْتَتَلُوا وَالْكُفَّارَ وَالدَّعْوَةُ فِي الْأَنْصَارِ، يَقُولُونَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: ثُمَّ قُصِرَتِ الدَّعْوَةُ عَلَى بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَقَالُوا: يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ يَا بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ كَالْمُتَطَاوِلِ عَلَيْهَا إِلَى قِتَالِهِمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا حِينَ حَمِيَ الْوَطِيسُ، قَالَ: ثُمَّ أَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَصَيَاتٍ فَرَمَى بِهِنَّ وُجُوهَ الْكُفَّارِ، ثُمَّ قَالَ: انْهَزَمُوا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، قَالَ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا الْقِتَالُ عَلَى هَيْئَتِهِ فِيمَا أَرَى، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَمَاهُمْ بِحَصَيَاتِهِ فَمَا زِلْتُ أَرَى حَدَّهُمْ كَلِيلًا وَأَمْرَهُمْ مُدْبِرًا "،
سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں حنین (ایک وادی ہے درمیان مکہ اور طائف کے عرفات کے پرے) کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ موجود تھا، تو میں اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی) دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لپٹے رہے اور جدا نہیں ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفید خچر پر سوار تھے جو فروہ بن نفاثہ جذامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ دیا تھا (جس کو شہباء اور دل دل بھی کہتے تھے) جب مسلمانوں اور کافروں کا سامنا ہوا تو مسلمان بھاگے پیٹھ موڑ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایڑ دے رہے تھے اپنے خچر کو کافروں کی طرف جانے کے لیے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمال شجاعت تھی کہ ایسے سخت وقت میں خچر پر سوار ہوئے ورنہ گھوڑے بھی موجود تھے) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کی لگام پکڑے تھا اور اس کو روک رہا تھا تیز چلنے سے اور ابوسفیان آپصلی اللہ علیہ وسلم کی رکاب تھامے تھے۔ آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”اے عباس! اصحاب سمرہ کو پکارو۔ اور عباس کی آواز نہایت بلند تھی۔(وہ رات کو اپنے غلاموں کو آواز دیتے تو آٹھ میل تک جاتی) سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے بلند آواز سے پکارا کہاں ہیں اصحاب السمرہ؟ یہ سنتے ہی قسم اللہ کی وہ ایسے لوٹے جیسے گائے اپنے بچوں کے پاس چلی آتی ہے اور کہنے لگے حاضر ہیں، حاضر ہیں (اس سے معلوم ہوا کہ وہ دور نہیں بھاگے تھے اور نہ سب بھاگے تھے بلکہ بعض نو مسلم وغیرہ دفعتاً تیروں کی بارش سے لوٹے اور گڑبڑ ہو گئی، پھر اللہ نے مسلمانوں کے دل مضبوط کر دیئے) پھر وہ لڑنے لگے کافروں سے اور انصار کو یوں بلایا، اے انصار کے لوگو! انصار کے لوگو! پھر تمام ہوا بلانا بنی حارث بن خزرج پر (جو انصار کی ایک جماعت ہے) پکارا انہوں نے اے بنی حارث بن خزرج! اے بنی حارث بن خزرج! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر تھے گردن کو لمبا کیے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ان کی لڑائی کو اور فرمایا: ”یہ وقت ہے تنور کے جوش کا۔“(یعنی اس وقت میں لڑائی خوب گرما گرمی سے ہو رہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں اٹھائیں اور کافروں کے منہ پر ماریں اور فرمایا:”شکست پائی کافروں نے قسم ہے محمد کے مالک کی۔“ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں دیکھنے گیا تو لڑائی ویسی ہی ہو رہی تھی، اتنے میں قسم اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں تو کیا دیکھتا ہوں کہ کافروں کا زور گھٹ گیا اور ان کا کام الٹ گیا۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍجَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ فَرْوَةُ بْنُ نُعَامَةَ الْجُذَامِيُّ:، وَقَالَ: انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ انْهَزَمُوا وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ حَتَّى هَزَمَهُمُ اللَّهُ، قَالَ: وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكُضُ خَلْفَهُمْ عَلَى بَغْلَتِهِ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي كَثِيرُ بْنُ الْعَبَّاسِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ غَيْرَ أَنَّ حَدِيثَ يُونُسَ وَحَدِيثَ مَعْمَرٍ أَكْثَرُ مِنْهُ وَأَتَمُّ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ، لِلْبَرَاءِ " يَا أَبَا عُمَارَةَ : أَفَرَرْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟، قَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَكِنَّهُ خَرَجَ شُبَّانُ أَصْحَابِهِ وَأَخِفَّاؤُهُمْ حُسَّرًا لَيْسَ عَلَيْهِمْ سِلَاحٌ أَوْ كَثِيرُ سِلَاحٍ، فَلَقُوا قَوْمًا رُمَاةً لَا يَكَادُ يَسْقُطُ لَهُمْ سَهْمٌ جَمْعَ هَوَازِنَ، وَبَنِي نَصْرٍ، فَرَشَقُوهُمْ رَشْقًا مَا يَكَادُونَ يُخْطِئُونَ، فَأَقْبَلُوا هُنَاكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَقُودُ بِهِ، فَنَزَلَ فَاسْتَنْصَرَ، وَقَالَ: " أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ، أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ، ثُمَّ صَفَّهُمْ ".
ابواسحاق سے روایت ہے، ایک شخص نے سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہا: اے ابوعمارہ! تم حنین کے دن بھاگے؟ انہوں نے کہا: نہیں قسم اللہ کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹھ نہیں موڑی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے چند جوان جلد باز جن کے پاس ہتھیار نہ تھے یا پورے ہتھیار نہ تھے نکلے، ان کا مقابلہ ایسے تیراندازوں سے ہوا، جن کا کوئی تیر خطا نہ کرتا تھا وہ لوگ ہوازن اور بنی نضر کے تھے غرض انہوں نے ایک بارگی تیروں کی ایسی بوچھاڑ کی کہ کوئی تیر خطا نہ ہوا۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفید خچر پر سوار تھے اور ابوسفیان بن حارث بن عبدالمطلب اسے چلا رہے تھے۔ تو خچر سے اترے اور مدد کی دعا مانگی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «أَنَا النَّبِىُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ»یعنی ”میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صف باندھی اپنے لوگوں کی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ الْمِصِّيصِيُّ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى الْبَرَاءِ، فَقَالَ: أَكُنْتُمْ وَلَّيْتُمْ يَوْمَ حُنَيْنٍ يَا أَبَا عُمَارَةَ ؟، فَقَالَ: " أَشْهَدُ عَلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا وَلَّى، وَلَكِنَّهُ انْطَلَقَ أَخِفَّاءُ مِنَ النَّاسِ وَحُسَّرٌ إِلَى هَذَا الْحَيِّ مِنْ هَوَازِنَ وَهُمْ قَوْمٌ رُمَاةٌ، فَرَمَوْهُمْ بِرِشْقٍ مِنْ نَبْلٍ كَأَنَّهَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، فَانْكَشَفُوا فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو سُفْيَانَ بْنُ الْحَارِثِ يَقُودُ بِهِ بَغْلَتَهُ، فَنَزَلَ وَدَعَا وَاسْتَنْصَرَ وَهُوَ يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ، اللَّهُمَّ نَزِّلْ نَصْرَكَ "، قَالَ الْبَرَاءُ: كُنَّا وَاللَّهِ إِذَا احْمَرَّ الْبَأْسُ نَتَّقِي بِهِ، وَإِنَّ الشُّجَاعَ مِنَّا لَلَّذِي يُحَاذِي بِهِ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابواسحاق سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا حنین کے دن تم بھاگ گئے تھے اے ابوعمارہ! انہوں نے کہا میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے منہ نہیں موڑا لیکن چند جلد باز لوگ اور بے ہتھیار ہوازن کے قبیلہ کی طرف گئے، وہ تیر انداز تھے انہوں نے ایک بوچھاڑ کی تیر کی جیسے ٹڈی دل تو یہ لوگ سامنے سے ہٹ گئے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ابوسفیان بن حارث آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خچر کو کھینچتے تھے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم خچر سے اترے اور دعا کی اور مدد مانگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”میں نبی ہوں یہ جھوٹ نہیں ہے میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں یااللہ اپنی مدد اتار۔“ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا قسم اللہ کی جب لڑائی خونخوار ہوتی تو ہم اپنے تیئں بچاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ میں اور بہادر ہم میں وہ تھے جو سامنا کرتے لڑائی کا یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ : وَسَأَلَهُ رَجُلٌ مِنْ قَيْسٍ، أَفَرَرْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ حُنَيْنٍ؟، فَقَالَ الْبَرَاءُ: وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفِرَّ، وَكَانَتْ هَوَازِنُ يَوْمَئِذٍ رُمَاةً وَإِنَّا لَمَّا حَمَلْنَا عَلَيْهِمُ انْكَشَفُوا، فَأَكْبَبْنَا عَلَى الْغَنَائِمِ فَاسْتَقْبَلُونَا بِالسِّهَامِ، وَلَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ الْبَيْضَاءِ وَإِنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ الْحَارِثِ آخِذٌ بِلِجَامِهَا وَهُوَ، يَقُولُ: أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ "،
ابواسحاق سے روایت ہے، میں نے سنا سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے، ان سے پوچھا ایک شخص نے قیس کے، کیا تم بھاگ گئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر حنین کے دن۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے کہا: مگر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نہیں بھاگے ایسا ہوا کہ ہوازن قبیلہ کے لوگ ان دنوں تیر انداز تھے اور ہم نے جب ان پر حملہ کیا تو وہ بھاگے اور ہم لوٹ کے مال پر جھکے۔ تب انہوں نے تیر چلائے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اپنے سفید خچر پر اور ابوسفیان بن حارث اس کی لگام پکڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: «أَنَا النَّبِىُّ لاَ كَذِبْ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ» ”میں نبی ہوں کچھ جھوٹ نہیں ہے میں بیٹا ہوں عبدالمطلب کا۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: قَالَ لَهُ رَجُلٌ يَا أَبَا عُمَارَةَ:، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ وَهُوَ أَقَلُّ مِنْ حَدِيثِهِمْ وَهَؤُلَاءِ أَتَمُّ حَدِيثًا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، فَلَمَّا وَاجَهْنَا الْعَدُوَّ تَقَدَّمْتُ فَأَعْلُو ثَنِيَّةً، فَاسْتَقْبَلَنِي رَجُلٌ مِنَ الْعَدُوِّ فَأَرْمِيهِ بِسَهْمٍ فَتَوَارَى عَنِّي، فَمَا دَرَيْتُ مَا صَنَعَ وَنَظَرْتُ إِلَى الْقَوْمِ فَإِذَا هُمْ قَدْ طَلَعُوا مِنْ ثَنِيَّةٍ أُخْرَى، فَالْتَقَوْا هُمْ وَصَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَلَّى صَحَابَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْجِعُ مُنْهَزِمًا وَعَلَيَّ بُرْدَتَانِ مُتَّزِرًا بِإِحْدَاهُمَا مُرْتَدِيًا بِالْأُخْرَى، فَاسْتَطْلَقَ إِزَارِي فَجَمَعْتُهُمَا جَمِيعًا، وَمَرَرْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْهَزِمًا وَهُوَ عَلَى بَغْلَتِهِ الشَّهْبَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَى ابْنُ الْأَكْوَعِ فَزَعًا، فَلَمَّا غَشُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَزَلَ عَنِ الْبَغْلَةِ ثُمَّ قَبَضَ قَبْضَةً مِنْ تُرَابٍ مِنَ الْأَرْضِ ثُمَّ اسْتَقْبَلَ بِهِ وُجُوهَهُمْ، فَقَالَ: شَاهَتِ الْوُجُوهُ فَمَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْهُمْ إِنْسَانًا إِلَّا مَلَأَ عَيْنَيْهِ تُرَابًا بِتِلْكَ الْقَبْضَةِ، فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَهُمْ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ ".
سیدنا ایاس بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میرے باپ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے مجھ سے بیان کیا کہ ہم نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کا، جب دشمن کا سامنا ہوا تو میں آگے ہوا اور ایک گھاٹی پر چڑھا، ایک شخص دشمنوں میں سے میرے سامنے آیا میں نے ایک تیر مارا وہ چھپ گیا۔ معلوم نہیں کیا ہوا۔ میں نے لوگوں کو دیکھا تو وہ دوسری گھاٹی سے نمودار ہوئے اور ان سے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم سے جنگ ہوئی لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم کو شکست ہوئی، میں بھی شکست پا کر لوٹا اور میں دو چادریں پہنے تھا ایک باندھے ہوئے دوسری اوڑھے، میری تہبند کھل چلی تو میں نے دونوں چادروں کو اکٹھا کر لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزرا شکست پا کر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اکوع کا بیٹا گھبرا کر لوٹا۔“ پھر دشمنوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گھیرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سے اترے اور ایک مٹھی خاک زمین سے اٹھائی اور ان کے منہ پر ماری اور فرمایا: بگڑ گئے منہ، پھر کوئی آدمی ان میں ایسا نہ رہا جس کی آنکھ میں خاک نہ بھر گئی ہو اس ایک مٹھی کی وجہ سے، آخر وہ بھاگے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مال بانٹ دئیے مسلمانوں کو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ الشَّاعِرِ الْأَعْمَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " حَاصَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الطَّائِفِ فَلَمْ يَنَلْ مِنْهُمْ شَيْئًا، فَقَالَ: إِنَّا قَافِلُونَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ أَصْحَابُهُ: نَرْجِعُ وَلَمْ نَفْتَتِحْهُ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اغْدُوا عَلَى الْقِتَالِ، فَغَدَوْا عَلَيْهِ فَأَصَابَهُمْ جِرَاحٌ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّا قَافِلُونَ غَدًا، قَالَ: فَأَعْجَبَهُمْ ذَلِكَ فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے (اور بعض نسخوں میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ ہے جو عاص کے بیٹے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھیر لیا طائف والوں کو اور نہیں حاصل کیا ان سے کچھ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم لوٹ چلیں گے اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے کہا: بغیر فتح کہ ہم لوٹ جائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”اچھا صبح کو لڑو، وہ لڑے اور زخمی ہوئے۔“ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کل لوٹ جائیں گے۔“ یہ ان کو بھلا معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شَاوَرَ حِينَ بَلَغَهُ إِقْبَالُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: فَتَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ تَكَلَّمَ عُمَرُ فَأَعْرَضَ عَنْهُ، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ، فَقَالَ: إِيَّانَا تُرِيدُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نُخِيضَهَا الْبَحْرَ لَأَخَضْنَاهَا، وَلَوْ أَمَرْتَنَا أَنْ نَضْرِبَ أَكْبَادَهَا إِلَى بَرْكِ الْغِمَادِ لَفَعَلْنَا، قَالَ: فَنَدَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ فَانْطَلَقُوا حَتَّى نَزَلُوا بَدْرًا، وَوَرَدَتْ عَلَيْهِمْ رَوَايَا قُرَيْشٍ وَفِيهِمْ غُلَامٌ أَسْوَدُ لِبَنِي الْحَجَّاجِ، فَأَخَذُوهُ فَكَانَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُونَهُ عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَأَصْحَابِهِ، فَيَقُولُ: مَا لِي عِلْمٌ بِأَبِي سُفْيَانَ، وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، فَإِذَا قَالَ ذَلِكَ: ضَرَبُوهُ، فَقَالَ: نَعَمْ أَنَا أُخْبِرُكُمْ هَذَا أَبُو سُفْيَانَ، فَإِذَا تَرَكُوهُ فَسَأَلُوهُ، فَقَالَ: مَا لِي بِأَبِي سُفْيَانَ عِلْمٌ، وَلَكِنْ هَذَا أَبُو جَهْلٍ، وَعُتْبَةُ، وَشَيْبَةُ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ فِي النَّاسِ، فَإِذَا قَالَ هَذَا أَيْضًا: ضَرَبُوهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ يُصَلِّي، فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ انْصَرَفَ، قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَتَضْرِبُوهُ إِذَا صَدَقَكُمْ وَتَتْرُكُوهُ إِذَا كَذَبَكُمْ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَذَا مَصْرَعُ فُلَانٍ، قَالَ: وَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى الْأَرْضِ هَهُنَا هَهُنَا، قَالَ: فَمَا مَاطَ أَحَدُهُمْ عَنْ مَوْضِعِ يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشورہ کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان کے آنے کی خبر پہنچی تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے گفتگو کی۔ آپ نے جواب نہ دیا، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کی تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخاطب نہ ہوئے۔ آخر سعد بن عبادہ (انصار کی رئیس اٹھے) اور انہوں نے کہا: آپ ہم سے پوچھتے ہیں یا رسول اللہ! قسم اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر آپ ہم کو حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو سمندر میں ڈال دیں تو ہم ضرور ڈال دیں اور اگر آپ حکم کریں کہ ہم گھوڑوں کو بھگا دیں برک الغماد تک (جو ایک مقام ہے بہت دور مکہ سے پرے) البتہ ہم ضرور بھگا دیں (یعنی ہم ہر طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع ہیں گو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد نہ کیا ہو آفریں ہے انصار کی جاں نثاری پر) تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور وہ چلے۔ یہاں تک کہ بدر میں اترے۔ وہاں قریش کے پانی پلانے والے ملے، ان میں ایک کالا غلام بھی تھا بنی حجاج کا۔ صحابہ نے اس کو پکڑا اور اس سے ابوسفیان اور ابوسفیان کے ساتھیوں کا حال پوچھنے لگے، وہ کہتا تھا میں ابو سفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابوجہل اور عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف تو یہ موجود ہیں۔ جب وہ یہ کہتا تو پھر اس کو مارتے جب وہ یہ کہتا اچھا اچھا میں ابوسفیان کا حال بتاتا ہوں تو اس کو چھوڑ دیتے، پھر اس سے پوچھتے وہ یہی کہتا میں ابوسفیان کا حال نہیں جانتا البتہ ابوجہل اور عتبہ اور شیبہ اور امیہ بن خلف تو لوگوں میں موجود ہیں، پھر اس کو مارتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے کھڑے ہوئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھا تو نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا: ”قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جب وہ تم سے سچ بولتا ہے تو تم اس کو مارتے ہو اور جب جھوٹ بولتا ہے تو چھوڑ دیتے ہو۔“ (یہ ایک معجزہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ فلاں کافر کے مرنے کی جگہ ہے۔“ اور ہاتھ زمین پر رکھا اس جگہ (اور یہ فلاں کے گرنے کی جگہ ہے) راوی نے کہا: پھر جہاں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ رکھا تھا اس سے ذرا بھی فرق نہ ہوا اور ہر ایک کافر اسی جگہ گرا، (یہ دوسرا معجزہ ہوا)۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي، فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ " زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ، فَقَالَ: اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَأَتْبَاعِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟، قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ، وَيَقُولُونَ: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ "، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں رمضان المبارک کے مہینہ میں۔ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ نے کہا: (جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کو) ہم میں سے ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہم کو بلاتے اپنے مقام پر، ایک دن میں نے کہا: میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انصار کے گروہ! میں تمہارے باب میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، پھر انہوں نے ذکر کیا مکہ کے فتح کا۔ بعد اس کے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک جانب پر زبیر کو بھیجا اور دوسری جانب پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو میمنہ پر اور ایک کو میسرہ پر) اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ٹکڑے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا: ”ابوہریرہ۔“ ”میں نے کہا: حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ آئے میرے پاس مگر انصاری“ اور فرمایا”انصار کو پکارو میرے لیے“ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پاس رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھا کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو دیدیں گے ہم سے جو مانگا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھتے ہو قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بتلایا (یعنی مارو مکہ کے کافروں کو اور ان میں سے ایک کو نہ چھوڑو) اور فرمایا: ”تم ملو مجھ سے صفا پر۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے جو کوئی ہم میں سے کسی کو مارنا چاہتا (کافروں میں سے) وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ قریش کا گروہ تباہ ہو گیا۔ اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ابوسفیان کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی الفت آ گئی اور اپنے کنبہ والوں پر مامتا ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہم کو معلوم ہو جاتا جب تک وحی اترتی رہتی کوئی اپنی آنکھ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ اٹھاتا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی، غرض جب وحی ختم ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کے لوگو!“ انہوں نے کہا حاضر ہیں یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”(یہ معجزہ ہے) تم نے یہ کہا: اس شخص کو اپنے گاؤں کی الفت آ گئی؟۔“ انہوں نے کہا: بے شک یہ تو ہم نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھ کو معلوم ہو گیا پر مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا، نصاریٰ نے جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے ہجرت کی اللہ کی طرف اور تمہاری طرف اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ۔“ یہ سن کر انصار دوڑتے روتے ہوئے اور کہنے لگے قسم اللہ تعالیٰ کی ہم نے کہا جو کہا محض حرص کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (یعنی ہمارا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر میں ہی رہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”بے شک اللہ اور رسول تصدیق کرتے ہیں تمہاری اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔“ پھر لوگ ابوسفیان کے گھر کو چلے گئے (جان بچانے کے لیے) اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے حجر اسود کے پاس اور اس کو چوما پھر طواف کیا خانہ کعبہ کا (اگرچہ آپصلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کے بازو پر رکھا تھا اس کو لوگ پوجا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے، جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں کونچنے لگے اور فرمانے لگے: ”حق آیا اور باطل مٹ گیا۔“ جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہی۔
وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، ثُمّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى احْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: قَالُوا: قُلْنَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَمَا اسْمِي إِذًا كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بتایا، کاٹ دو ان کو بالکل۔
حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: " وَفَدْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَكَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَصْنَعُ طَعَامًا يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ، فَكَانَتْ نَوْبَتِي، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: الْيَوْمُ نَوْبَتِي، فَجَاءُوا إِلَى الْمَنْزِلِ وَلَمْ يُدْرِكْ طَعَامُنَا، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ : لَوْ حَدَّثْتَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُدْرِكَ طَعَامُنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى، وَجَعَلَ الزُّبَيْرَ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْبَيَاذِقَةِ وَبَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ: هَلْ تَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرُوا إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا أَنْ تَحْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَأَخْفَى بِيَدِهِ وَوَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، وَقَالَ: مَوْعِدُكُمْ الصَّفَا، قَالَ: فَمَا أَشْرَفَ يَوْمَئِذٍ لَهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ وَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا، وَجَاءَتْ الْأَنْصَارُ، فَأَطَافُوا بِالصَّفَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، أَلَا فَمَا اسْمِي إِذًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا إِلَّا ضِنًّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ ".
عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سفر کر کے معاویہ بن ابی سفیان کے پاس گئے اور ہم لوگوں میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے تو ہم میں سے ہر شخص ایک ایک دن کھانا تیار کرتا اپنے ساتھیوں کے لیے۔ ایک دن میری باری آئی میں نے کہا: اے ابوہریرہ! آج میری باری ہے وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا تیار نہیں ہوا تھا۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کاش تم ہم سے حدیث بیان کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تک کھانا تیار ہو۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن مکہ فتح ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ کا سردار کیا اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو میسرہ اور سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادوں کا اور ان کو وادی کے اندر سے جانے کو کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ابوہریر! انصار کو بلاؤ۔“ میں نے ان کو پکارا، وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے انصار کے لوگو! تم دیکھتے ہو قریش کی جماعتوں کو۔“ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کل جب ان سے ملنا تو ان کو صاف کر دینا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے صاف کر کے بتلایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اور فرمایا:”اب تم ہم سے صفا پہاڑ پر ملنا۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو اس روز جو کوئی دکھائی دیا انہوں نے اس کو سلا دیا۔ (یعنی مار ڈالا) اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے اور انصار آئے، انہوں نے گھیر لیا صفا کو، اتنے میں ابوسفیان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! قریش کا جتھا ہٹ گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کرے اس کو بھی امن ہے۔“ انصار نے کہا: ان کو اپنے عزیزوں کی محبت آ گئی اور اپنے شہر کی رغبت پیدا ہوئی اور وحی اتری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کہا مجھ کو کنبے والوں کی محبت آ گئی اور اپنے شہر کی الفت پیدا ہوئی۔ تم جانتے ہو میرا کیا نام ہے۔ تین بار فرمایا: محمد ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول، میں نے وطن چھوڑا اللہ کی طرف اور تمہاری طرف تو اب زندگی اور موت دونوں تمہاری زندگی اور موت کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی ہم نے یہ نہیں کہا مگر حرص سے اللہ اور اس کے رسول کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اللہ اور اس کا رسول دونوں سچا جانتے ہیں تم کو اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي شَيْبَةَ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ أَبِي مَعْمَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ وَحَوْلَ الْكَعْبَةِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ نُصُبًا، فَجَعَلَ يَطْعُنُهَا بِعُودٍ كَانَ بِيَدِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا جَاءَ الْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ الْبَاطِلُ وَمَا يُعِيدُ "، زَادَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ يَوْمَ الْفَتْحِ،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مکہ فتح ہوا مکہ میں تشریف لے گئے وہاں کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ بت تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کو کونچا دیتے لکڑی سے، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی (وہ گر پڑتا جیسا دوسری روایت میں ہے) اور فرمایا:”حق آیا اور جھوٹ مٹ گیا جھوٹ مٹنے والا ہے، حق آیا اور جھوٹ مٹ گیا جھوٹ مٹنے والا ہے، حق آیا اور جھوٹ نہ بناتا ہے کسی کو نہ لوٹاتا ہے (بلکہ دونوں اللہ جل جلالہ کے کام ہیں)۔
وحَدَّثَنَاه حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ إِلَى قَوْلِهِ: زَهُوقًا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْآيَةَ الْأُخْرَى، وَقَالَ: بَدَلَ نُصُبًا صَنَمًا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُطِيعٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ: " لَا يُقْتَلُ قُرَشِيٌّ صَبْرًا بَعْدَ هَذَا الْيَوْمِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "،
عبداللہ بن مطیع سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ سیدنا مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس دن مکہ فتح ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ ”آج کے بعد کوئی قریشی آدمی قتل نہ کیا جائے گا باندھ کر قیامت تک۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ، قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ أَسْلَمَ أَحَدٌ مِنْ عُصَاةِ قُرَيْشٍ غَيْرَ مُطِيعٍ كَانَ اسْمُهُ الْعَاصِي، فَسَمَّاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُطِيعًا.
اس سند سے بھی یہ حدیث مروی ہے اتنا زیادہ ہے کہ اس دن جن لوگوں کے نام عاص تھے قریش کے لوگوں میں سے کوئی ان میں سے مسلمان نہیں ہوا سوائے عاص بن اسود کے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نام بدل کر مطیع رکھ دیا۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، يَقُولُ: " كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ الصُّلْحَ بَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَكَتَبَ هَذَا مَا كَاتَبَ عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَا تَكْتُبْ رَسُولُ اللَّهِ فَلَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: امْحُهُ، فَقَالَ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ، فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، قَالَ: وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطُوا أَنْ يَدْخُلُوا مَكَّةَ، فَيُقِيمُوا بِهَا ثَلَاثًا، وَلَا يَدْخُلُهَا بِسِلَاحٍ إِلَّا جُلُبَّانَ السِّلَاحِ "، قُلْتُ لِأَبِي إِسْحَاقَ: وَمَا جُلُبَّانُ السِّلَاحِ؟، قَالَ: الْقِرَابُ وَمَا فِيهِ؟
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس صلح نامے کو لکھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں سے قرار پایا حدیبیہ کے دن، اس میں یہ عبارت تھی، یہ وہ ہے جو فیصلہ کیا محمد اللہ کے رسول نے (اس سے معلوم ہوا کہ وثائق اور اسناد میں اول یونہی لکھنا چاہیے)مشرک بولے! اللہ کے رسول آپ مت لکھیے اس لیے اگر ہم کو یقین ہوتا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو ہم کیوں لڑتے۔ آپ سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”اس لفظ کو مٹا دو۔“ انہوں نے عرض کیا: میں اس کو مٹانے والا نہیں (یہ انہوں نے ادب کی راہ سے عرض کیا یہ جان کر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم قطعی نہیں ہے ورنہ اس کی اطاعت واجب ہو جاتی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دیا (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھے لکھے نہ تھے ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ مبارک سے بجائے رسول کے ابن عبداللہ کا لفظ لکھ دیا) اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ مکہ میں آئیں اور تین دن تک رہیں اور ہتھیار لے کر نہ آئیں مگر غلاف کے اندر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، يَقُولُ: لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الْحُدَيْبِيَةِ كَتَبَ عَلِيٌّ كِتَابًا بَيْنَهُمْ، قَالَ: فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ ثُمَّ ذَكَرَ بِنَحْوِ حَدِيثِ مُعَاذٍ غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ هَذَا مَا كَاتَبَ عَلَيْهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ جَنَابٍ الْمِصِّيصِيُّ جَمِيعًا، عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ وَاللَّفْظُ لِإِسْحَاقَ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ الْبَرَاءِ ، قَالَ: لَمَّا أُحْصِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْبَيْتِ صَالَحَهُ أَهْلُ مَكَّةَ عَلَى أَنْ يَدْخُلَهَا، فَيُقِيمَ بِهَا ثَلَاثًا، وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ السَّيْفِ، وَقِرَابِهِ وَلَا يَخْرُجَ بِأَحَدٍ مَعَهُ مِنْ أَهْلِهَا، وَلَا يَمْنَعَ أَحَدًا يَمْكُثُ بِهَا مِمَّنْ كَانَ مَعَهُ، قَالَ لِعَلِيٍّ: اكْتُبْ الشَّرْطَ بَيْنَنَا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ لَهُ الْمُشْرِكُونَ: لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ تَابَعْنَاكَ، وَلَكِنْ اكْتُبْ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَمَرَ عَلِيًّا أَنْ يَمْحَاهَا، فَقَالَ عَلِيٌّ: لَا وَاللَّهِ لَا أَمْحَاهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرِنِي مَكَانَهَا، فَأَرَاهُ مَكَانَهَا، فَمَحَاهَا، وَكَتَبَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَقَامَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمَّا أَنْ كَانَ يَوْمُ الثَّالِثِ، قَالُوا لِعَلِيٍّ: هَذَا آخِرُ يَوْمٍ مِنْ شَرْطِ صَاحِبِكَ، فَأْمُرْهُ فَلْيَخْرُجْ فَأَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ: نَعَمْ فَخَرَجَ "، وقَالَ ابْنُ جَنَابٍ فِي رِوَايَتِهِ: مَكَانَ تَابَعْنَاكَ بَايَعْنَاكَ.
سیدنا براء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمروکے گئے کعبہ شریف میں جانے سے تو صلح کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مکہ والوں نے اس شرط پر کہ (آئندہ سال) آئیں اور تین دن تک مکہ میں رہیں اور ہتھیاروں کو غلاف میں رکھ کر آئیں اور کسی مکہ والے کو اپنے ساتھ نہ لے جائیں اور ان کے ساتھ والوں میں سے جو رہ جائے (مشرکوں کا ساتھ قبول کرے) تو اس کو منع نہ کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے: ”اچھا اس شرط کو لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم یہ وہ جو فیصلہ کیا اس پر محمد اللہ تعالیٰ کے رسول نے۔“ مشرک بولے اگر ہم یہ جانتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو آپ کی اطاعت کرتے یا آپ سے بیعت کرتے، بلکہ یوں لکھیے محمد عبداللہ کے بیٹے نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو حکم کیا رسول کا لفظ مٹانے کے لیے۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی میں تو نہ مٹاؤں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا مجھے اس لفظ کی جگہ بتا۔“سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بتا دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مٹا دیا اور ابن عبداللہ لکھ دیا (جب دوسرا سال ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے)پھر تین روز تک مکہ معظّمہ میں رہے جب تیسرا دن ہوا تو مشرکوں نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے کہا: یہ تمہارے صاحب کی شرط کا آخری دن ہے اب ان سے کہو جانے کو، انہوں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ قُرَيْشًا صَالَحُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِمْ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِعَلِيٍّ: اكْتُبْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، قَالَ سُهَيْلٌ: أَمَّا بِاسْمِ اللَّهِ، فَمَا نَدْرِي مَا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، وَلَكِنْ اكْتُبْ مَا نَعْرِفُ بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ، فَقَالَ: اكْتُبْ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ، قَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَاتَّبَعْنَاكَ، وَلَكِنْ اكْتُبْ اسْمَكَ وَاسْمَ أَبِيكَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبْ مِنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَاشْتَرَطُوا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَنْ جَاءَ مِنْكُمْ لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكُمْ، وَمَنْ جَاءَكُمْ مِنَّا رَدَدْتُمُوهُ عَلَيْنَا، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَكْتُبُ هَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، إِنَّهُ مَنْ ذَهَبَ مِنَّا إِلَيْهِمْ، فَأَبْعَدَهُ اللَّهُ وَمَنْ جَاءَنَا مِنْهُمْ سَيَجْعَلُ اللَّهُ لَهُ فَرَجًا وَمَخْرَجًا ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے قریش نے صلح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قریش میں سہیل بن عمرو بھی تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے لکھو: ” «بِسْمِ اللَّـہِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِیمِ» “ سہیل نے کہا: ہم نہیں جانتے «بِسْمِ اللَّـہِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِیمِ» کیا ہے وہ لکھو جس کو ہم جانتے ہیں «بِاسْمِكَ اللّٰھُمّ» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا لکھو محمد کی طرف سے جو اللہ کے رسول ہیں۔“ مشرکوں نے کہا: اگر ہم جانتے آپ کے رسول ہیں تو آپ کی پیروی کرتے البتہ اپنا اور اپنے باپ کا نام لکھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“ ”اچھا لکھو محمد بن عبداللہ کی طرف سے۔“ پھر انہوں نے یہ شرط لگائی آپ سے اگر تم میں سے کوئی ہمارے پاس آئے گا ہم اس کو واپس نہ دیں گے اور ہم میں سے کوئی تمہارے پاس آئے گا تو اس کو روانہ کر دینا ہمارے پاس۔ صحابہ کرام نے کہا: یا رسول اللہ! یہ شرط ہم لکھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لکھو ہم میں سے جو کوئی ان کے پاس چلا جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو دور ہی رکھے اور ان میں سے جو کوئی ہمارے پاس آئے گا، اللہ تعالیٰ اس کے لیے بھی راستہ نکال دے گا اور اس کی مشکل کو آسان کر دے گا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: قَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ يَوْمَ صِفِّينَ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، لَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، وَذَلِكَ فِي الصُّلْحِ الَّذِي كَانَ بَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ الْمُشْرِكِينَ، فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟، فَقَالَ يَا ابْنَ الْخَطَّابِ: إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا، قَالَ: فَانْطَلَقَ عُمَرُ فَلَمْ يَصْبِرْ مُتَغَيِّظًا، فَأَتَى أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى حَقٍّ وَهُمْ عَلَى بَاطِلٍ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَامَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ؟، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، قَالَ: فَنَزَلَ الْقُرْآنُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْفَتْحِ، فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ فَأَقْرَأَهُ إِيَّاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَوْ فَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ فَطَابَتْ نَفْسُهُ وَرَجَعَ ".
سہل بن حنیف صفین کے روز (جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ میں جنگ تھی) کھڑے ہوئے اور کہا: اے لوگو! اپنا قصور سمجھو۔ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن صلح ہوئی حدیبیہ کی اگر ہم لڑائی چاہتے تو لڑتے اور یہ اس صلح کا ذکر ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکوں میں ہوئی۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم سچے دین پر نہیں ہیں اور کافر جھوٹے دین پر نہیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں۔“ پھر انہوں نے کہا، ہم میں جو مارے جائیں کیا وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ اور ان میں جو مارے جائیں کیا وہ جہنم میں نہ جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں نہیں۔“ (مطلب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا یہ تھا کہ پھر دب کر صلح کیوں کریں جنگ کیوں نہ کریں) سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا پھر کیوں ہم اپنے دین پر دھبہ لگائیں اور لوٹ جائیں اور ابھی اللہ نے ہمارا اور ان کا فیصلہ نہیں کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے خطاب کے بیٹے! میں اللہ کا رسول ہوں مجھ کو وہ کبھی تباہ نہیں کرے گا۔“ یہ سن کر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چلے اور غصہ کے مارے صبر نہ ہو سکا۔ وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے کہا: اے ابوبکر! کیا ہم حق پر نہیں ہیں اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: ہمارے مقتول جنت میں نہ جائیں گے اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے کہا: پھر کیوں ہم اپنے دین کا نقصان کریں اور لوٹ جائیں اور ابھی ہمارا ان کا فیصلہ نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے خطاب کے بیٹے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اللہ ان کو کبھی تباہ نہیں کرے گا۔ (یہاں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا روحانی اتصال اور قرب محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لینا چاہیئے کہ انہوں نے بعینہ وہی جواب دیا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا) پھر قرآن شریف اترا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جس میں فتح کا ذکر ہے (یعنی سورہ «انا فتحنا») آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا اور یہ سورت پڑھائی۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ صلح فتح ہے ہماری؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ تب وہ خوش ہو گئے اور لوٹ آئے (اور اللہ نے ویسا ہی کیا کہ اس صلح کا نتیجہ فتح ہوا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ ، يَقُولُ: " بِصِفِّينَ أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ وَاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ، وَلَوْ أَنِّي أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَدَدْتُهُ وَاللَّهِ، مَا وَضَعْنَا سُيُوفَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا إِلَى أَمْرٍ قَطُّ، إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ إِلَّا أَمْرَكُمْ هَذَا "، لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ نُمَيْرٍ إِلَى أَمْرٍ قَطُّ،
شقیق سے روایت ہے، میں نے سہل بن حنیف سے سنا، وہ کہتے تھے صفین میں اے لوگو! اپنی عقلوں کا قصور سمجھو، قسم اللہ کی تم دیکھتے مجھ کو ابوجندل کے روز (یعنی حدیبیہ کے دن ابوجندل کا نام عاص بن سہیل بن عمرو تھا) اگر میں طاقت رکھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو پھیرنے کی البتہ پھیر دیتا اس کو (یہ مبالغہ کے طور پر کہا یعنی صلح ہم کو ایسی ناگوار تھی) قسم اللہ کی ہم نے کبھی اپنی تلواریں کاندھوں پر نہیں رکھیں مگر وہ لے گئیں ہم کو اس بات کی طرف جس کو ہم جانتے ہیں مگر اس لڑائی میں (جو شام والوں سے تھی)۔
وحَدَّثَنَاه عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ جَمِيعًا، عَنْ جَرِيرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَفِي حَدِيثِهِمَا إِلَى أَمْرٍ يُفْظِعُنَا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعِيدٍ الْجَوْهَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ بِصِفِّينَ، يَقُولُ: " اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ عَلَى دِينِكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا فَتَحْنَا مِنْهُ فِي خُصْمٍ إِلَّا انْفَجَرَ عَلَيْنَا مِنْهُ خُصْمٌ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ سہل نے کہا: تمہاری رائے ایسی ہے کہ جب ایک کونہ اس میں ہم کھولیں تو دوسرا کونہ کھل جاتا ہے۔
وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا { 1 } لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ سورة الفتح آية 1-2 إِلَى قَوْلِهِ فَوْزًا عَظِيمًا سورة الفتح آية 5 مَرْجِعَهُ مِنْ الْحُدَيْبِيَةِ، وَهُمْ يُخَالِطُهُمُ الْحُزْنُ وَالْكَآبَةُ، وَقَدْ نَحَرَ الْهَدْيَ بِالْحُدَيْبِيَةِ، فَقَالَ: لَقَدْ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آيَةٌ هِيَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنَ الدُّنْيَا جَمِيعًا "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب یہ سورت اتری «إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّه» اخیر تک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ کر آ رہے تھے، حدیبہ سے اور صحابہ کو بہت غم اور رنج تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدی کو نحر کر دیا تھا حدیبیہ میں (کیونکہ کافروں نے مکہ میں آنے نہ دیا) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے اوپر ایک آیت اتری جو ساری دنیا سے زیادہ مجھ کو پسند ہے۔“
وحَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ . ح وحَدَّثَنَاابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ جَمِيعًا، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے ابن ابی عروبہ کی حدیث کی طرح منقول ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو الطُّفَيْلِ ، حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ ، قَالَ: " مَا مَنَعَنِي أَنْ أَشْهَدَ بَدْرًا إِلَّا أَنِّي خَرَجْتُ أَنَا وَأَبِي حُسَيْلٌ، قَالَ: فَأَخَذَنَا كُفَّارُ قُرَيْشٍ، قَالُوا: إِنَّكُمْ تُرِيدُونَ مُحَمَّدًا، فَقُلْنَا: مَا نُرِيدُهُ مَا نُرِيدُ إِلَّا الْمَدِينَةَ، فَأَخَذُوا مِنَّا عَهْدَ اللَّهِ وَمِيثَاقَهُ، لَنَنْصَرِفَنَّ إِلَى الْمَدِينَةِ وَلَا نُقَاتِلُ مَعَهُ، فَأَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْنَاهُ الْخَبَرَ فَقَالَ: انْصَرِفَا نَفِي لَهُمْ بِعَهْدِهِمْ وَنَسْتَعِينُ اللَّهَ عَلَيْهِمْ ".
سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، مجھے بدر میں آنے سے کسی چیز نے نہ روکا مگر یہ کہ میں نکلا اپنے باپ حسیل کے ساتھ (یہ کنیت ہے حذیفہ کے باپ کی اور بعض نے حِسل کہا ہے) تو ہم کو قریش کے کافروں نے پکڑا اور کہا: تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانا چاہتے ہو، سو ہم نے کہا: ہم ان کے پاس نہیں جانا چاہتے بلکہ ہم مدینہ میں جانا چاہتے ہیں۔ پھر انہوں نے ہم سے اللہ کا نام لے کر عہد اور اقرار لیا کہ ہم مدینہ کو پھر جائیں گے اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہیں لڑیں گے جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ہم نے یہ سب قصہ بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم چلے جاؤ مدینہ کو ہم ان کا اقرار پورا کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے مدد چاہیں گے ان پر۔“
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جميعا، عَن جَرِيرٍ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كُنَّا عِنْدَ حُذَيْفَةَ، فَقَالَ رَجُلٌ: لَوْ أَدْرَكْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاتَلْتُ مَعَهُ وَأَبْلَيْتُ، فَقَالَ حُذَيْفَةُ : أَنْتَ كُنْتَ تَفْعَلُ ذَلِكَ لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْأَحْزَابِ، وَأَخَذَتْنَا رِيحٌ شَدِيدَةٌ وَقُرٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَأْتِينَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ جَعَلَهُ اللَّهُ مَعِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَسَكَتْنَا فَلَمْ يُجِبْهُ مِنَّا أَحَدٌ، فَقَالَ: قُمْ يَا حُذَيْفَةُ فَأْتِنَا بِخَبَرِ الْقَوْمِ، فَلَمْ أَجِدْ بُدًّا إِذْ دَعَانِي بِاسْمِي أَنْ أَقُومَ، قَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ "، فَلَمَّا وَلَّيْتُ مِنْ عِنْدِهِ جَعَلْتُ كَأَنَّمَا أَمْشِي فِي حَمَّامٍ حَتَّى أَتَيْتُهُمْ، فَرَأَيْتُ أَبَا سُفْيَانَ يَصْلِي ظَهْرَهُ بِالنَّارِ، فَوَضَعْتُ سَهْمًا فِي كَبِدِ الْقَوْسِ فَأَرَدْتُ أَنْ أَرْمِيَهُ، فَذَكَرْتُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَذْعَرْهُمْ عَلَيَّ وَلَوْ رَمَيْتُهُ لَأَصَبْتُهُ، فَرَجَعْتُ وَأَنَا أَمْشِي فِي مِثْلِ الْحَمَّامِ، فَلَمَّا أَتَيْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِ الْقَوْمِ وَفَرَغْتُ قُرِرْتُ، فَأَلْبَسَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ فَضْلِ عَبَاءَةٍ كَانَتْ عَلَيْهِ يُصَلِّي فِيهَا، فَلَمْ أَزَلْ نَائِمًا حَتَّى أَصْبَحْتُ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ، قَالَ: قُمْ يَا نَوْمَانُ ".
ابراہیم تیمی سے روایت ہے، انہوں نے سنا اپنے باپ (یزید بن شریک تیمی سے)انہوں نے کہا: ہم سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے تھے۔ ایک شخص بولا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوتا تو جہاد کرتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کوشش کرتا لڑنے میں، حذیفہ نے کہا تو ایسا کرتا۔ (یعنی تیرا کہنا معتبر نہیں ہو سکتا کرنا اور ہے اور کہنا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جو کوشش کی تو اس سے بڑھ کر نہ کر سکتا) تم دیکھو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے احزاب (جمع ہے حزب کی، حزب کہتے ہیں گروہ کو، اس جنگ کو جو ۵ ھ ہجری میں ہوئی غزوۂ احزاب کہتے ہیں اس لیے کہ کافروں کے بہت سے گروہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کو آئے تھے) کی رات کو اور ہوا بہت تیز چل رہی تھی اور سردی بھی خوب چمک رہی تھی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر لائے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔“ یہ سن کر ہم لوگ خاموش ہو رہے اور کسی نے جواب نہ دیا (کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ ایسی سردی میں رات کو خوف کی جگہ میں جائے اور خبر لائے حالانکہ صحابہ کی جانثاری اور ہمت مشہور ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ہے جو کافروں کی خبر میرے پاس لائے اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن میرے ساتھ رکھے گا۔“ کسی نے جواب نہ دیا سب خاموش ہو رہے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے حذیفہ! اٹھ اور کافروں کی خبر لا۔“اب مجھے کچھ نہ بنا کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا نام لے کر حکم دیا جانے کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اور خبر لے کر آ کافروں کی اور مت اکسانا ان کو مجھ پر (یعنی ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ آئے اور وہ تجھ کو ماریں یا لڑائی پر مستعد ہوں) جب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس سے چلا تو ایسا معلوم ہوا جیسے کوئی حمام کے اندر چل رہا ہے (یعنی سردی بالکل کافور ہو گئی بلکہ گرمی معلوم ہوتی تھی یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی دعا کی برکت تھی۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت تو نفس کو ناگوار ہوتی ہے لیکن جب مستعدی سے شروع کر دے تو بجائے تکلیف کے لذت اور راحت حاصل ہوتی ہے) یہاں تک کہ کافروں کے پاس پہنچا۔ دیکھا تو ابوسفیان اپنی کمر کو آگ سے سینک رہا ہے۔ میں نے تیر کمان پر چڑھایا اور قصد کیا مارنے کا۔ پھر مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد آیا کہ ایسا کوئی کام نہ کرنا جس سے ان کو غصہ پیدا ہو اگر میں مار دیتا تو بے شک ابوسفیان کو لگتا، آخر میں لوٹا۔ پھر مجھے ایسا معلوم ہوا کی حمام کے اند چل رہا ہوں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور سب حال کہہ دیا اس وقت سردی معلوم ہوئی (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بڑا معجزہ تھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنا ایک فاضل کمبل اوڑھا دیا جس کو اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا کرتے تھے میں اس کو اوڑھ کر جو سویا تو صبح تک سوتا رہا جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اٹھ بہت سونے والے۔“
وحَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، وَثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُفْرِدَ يَوْمَ أُحُدٍ فِي سَبْعَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ وَرَجُلَيْنِ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا رَهِقُوهُ، قَالَ: مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ ثُمَّ رَهِقُوهُ أَيْضًا، فَقَالَ: مَنْ يَرُدُّهُمْ عَنَّا وَلَهُ الْجَنَّةُ أَوْ هُوَ رَفِيقِي فِي الْجَنَّةِ، فَتَقَدَّمَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ فَقَاتَلَ حَتَّى قُتِلَ فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى قُتِلَ السَّبْعَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَاحِبَيْهِ: مَا أَنْصَفْنَا أَصْحَابَنَا ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماحد کے دن (جب کافروں کا غلبہ ہوا اور مسلمان مغلوب ہو گئے) الگ ہو گئے سات آدمی انصار کے اور دو قریش کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رہ گئے اور کافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہجوم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان کو پھیرتا ہے اس کو جنت ملے گی یا میرا رفیق ہو گا جنت میں۔“ایک انصاری آگے بڑھا اور لڑا یہاں تک کہ مارا گیا۔ پھر انہوں نے ہجوم کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون ان کو لوٹاتا ہے اس کو جنت ملے گی یا میرا رفیق ہوگا جنت میں۔“ اور ایک انصاری بڑھا اور لڑا یہاں تک کہ مارا گیا۔ پھر یہی حال رہا یہاں تک کہ ساتوں آدمی انصار کے شہید ہوئے (سبحان اللہ! انصار کی جانثاری اور وفاداری کیسی تھی، یہاں سے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلمکا درجہ اور مرتبہ سمجھ لینا چاہیئے) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے انصاف نہ کیا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ یا ہمارے یاروں نے ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا۔“ (پہلی صورت میں یہ مطلب ہو گا کہ انصاف نہ کیا یعنی قریش بیٹھے رہے اور انصار شہید ہو گئے قریش کو بھی نکلنا چاہیئے تھا۔ دوسری صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ہمارے یار جو بھاگ گئے جان بچا کر انہوں نے انصاف نہ کیا کہ ان کے بھائی شہید ہوئے اور وہ اپنے تئیں بچانے کی فکر میں رہے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ يُسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، فَقَالَ: " جُرِحَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ وَهُشِمَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ، فَكَانَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغْسِلُ الدَّمَ وَكَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ يَسْكُبُ عَلَيْهَا بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَاءَ لَا يَزِيدُ الدَّمَ إِلَّا كَثْرَةً أَخَذَتْ قِطْعَةَ حَصِيرٍ فَأَحْرَقَتْهُ حَتَّى صَارَ رَمَادًا، ثُمَّ أَلْصَقَتْهُ بِالْجُرْحِ، فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ "،
عبدالعزیز بن ابی حازم اپنے باپ ابوحازم (سلمہ بن دینار مدنی) سے بیان کرتے ہیں انہوں نے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کا حال احد کے دن۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلی ٹوٹ گئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود ٹوٹا (تو سر کو کتنی تکلیف ہوئی ہو گی) پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی خود خون دھوتی تھیں اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس پر پانی ڈالتے تھے۔ جب سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی سے خون زیادہ بہتا ہے تو انہوں نے ایک بورئیے کا ٹکڑا جلا کر زخم سے لگا دیا تب خون بند ہوا۔
حَدَّثَنَاقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ : وَهُوَ يَسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَمَ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْرِفُ مَنْ كَانَ يَغْسِلُ جُرْحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَنْ كَانَ يَسْكُبُ الْمَاءَ وَبِمَاذَا دُووِيَ جُرْحُهُ، ثُمَّ ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ غَيْرَ، أَنَّهُ زَادَ وَجُرِحَ وَجْهُهُ، وَقَالَ: مَكَانَ هُشِمَتْ كُسِرَتْ،
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کا حال پوچھا گیا۔ انہوں نے کہا: میں جانتا ہوں قسم اللہ کی اس شخص کو جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زخم دھوتا اور جو پانی ڈالتا تھا اور جو دوا ہوئی پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ مُطَرِّفٍ كُلُّهُمْ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثِ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ أُصِيبَ وَجْهُهُ وَفِي حَدِيثِ ابْنِ مُطَرِّفٍ جُرِحَ وَجْهُهُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَشُجَّ فِي رَأْسِهِ فَجَعَلَ يَسْلُتُ الدَّمَ عَنْهُ، وَيَقُولُ: كَيْفَ يُفْلِحُ قَوْمٌ شَجُّوا نَبِيَّهُمْ وَكَسَرُوا رَبَاعِيَتَهُ وَهُوَ يَدْعُوهُمْ إِلَى اللَّهِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128 ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دانت مبارک ٹوٹا احد کے دن اور سر پر زخم لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خون کو دور کرتے تھے اور فرماتے تھے: ”کیسے فلاح ہو گی اس قوم کی جس نے زخمی کیا اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اس کا دانت توڑا حالانکہ وہ بلاتا تھا ان کو اللہ کی طرف۔“ اس وقت یہ آیت اتری «لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» ﴿۳-آل عمران:١٢٨﴾ ”تمہارا کچھ اختیار نہیں ہے اللہ تعالی چاہے ان کو معاف کرے چاہے عذاب دے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْكِي نَبِيًّا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ ضَرَبَهُ قَوْمُهُ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ "،
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیان کر رہے تھے ایک پیغمبر کا حال ان کی قوم نے ان کو مارا تھا اور وہ اپنے منہ سے خون پونچھتے جاتے تھے اور کہتے جاتے تھے: ”یا اللہ! میری قوم کو بخش دے وہ نادان ہیں۔ (سبحان اللہ نبوت کے حلیم کا کیا کہنا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَهُوَ يَنْضِحُ الدَّمَ عَنْ جَبِينِهِ.
اعمش سے اس سند کے ساتھ یہ حدیث مروی ہے اس میں یہ بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیشانی سے خون پونچھتے جاتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى قَوْمٍ فَعَلُوا هَذَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حِينَئِذٍ يُشِيرُ إِلَى رَبَاعِيَتِهِ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى رَجُلٍ يَقْتُلُهُ رَسُولُ اللَّهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بڑا غصہ ہے اللہ کا ان لوگوں پر جنہوں نے ایسا کیا اللہ کے رسول کے ساتھ۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرتے تھے اپنے دانت کی طرف اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑا غصہ ہے اللہ تعالیٰ کا اس شخص پر جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کریں اللہ تعالیٰ کی راہ میں۔“ (یعنی جہاد میں جس کو ماریں کیونکہ اس مردود نے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مارنے کا قصد کیا ہو گا اور اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلمحد یا قصاص میں ماریں)۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ الْأَوْدِيِّ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي عِنْدَ الْبَيْتِ، وَأَبُو جَهْلٍ وَأَصْحَابٌ لَهُ جُلُوسٌ، وَقَدْ نُحِرَتْ جَزُورٌ بِالْأَمْسِ، فَقَالَ أَبُو جَهْلٍ: أَيُّكُمْ يَقُومُ إِلَى سَلَا جَزُورِ بَنِي فُلَانٍ فَيَأْخُذُهُ فَيَضَعُهُ فِي كَتِفَيْ مُحَمَّدٍ إِذَا سَجَدَ، فَانْبَعَثَ أَشْقَى الْقَوْمِ فَأَخَذَهُ، فَلَمَّا سَجَدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ: فَاسْتَضْحَكُوا وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يَمِيلُ عَلَى بَعْضٍ وَأَنَا قَائِمٌ أَنْظُرُ لَوْ كَانَتْ لِي مَنَعَةٌ طَرَحْتُهُ عَنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ مَا يَرْفَعُ رَأْسَهُ حَتَّى انْطَلَقَ إِنْسَانٌ فَأَخْبَرَ فَاطِمَةَ، فَجَاءَتْ وَهِيَ جُوَيْرِيَةٌ فَطَرَحَتْهُ عَنْهُ ثُمَّ أَقْبَلَتْ عَلَيْهِمْ تَشْتِمُهُمْ، فَلَمَّا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاتَهُ رَفَعَ صَوْتَهُ ثُمَّ دَعَا عَلَيْهِمْ، وَكَانَ إِذَا دَعَا دَعَا ثَلَاثًا وَإِذَا سَأَلَ سَأَلَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَلَمَّا سَمِعُوا صَوْتَهُ ذَهَبَ عَنْهُمُ الضِّحْكُ وَخَافُوا دَعْوَتَهُ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، وَالْوَلِيدِ بْنِ عُقْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، وَذَكَرَ السَّابِعَ وَلَمْ أَحْفَظْهُ، فَوَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ رَأَيْتُ الَّذِينَ سَمَّى صَرْعَى يَوْمَ بَدْرٍ ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ، قَلِيبِ بَدْرٍ "، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: الْوَلِيدُ بْنُ عُقْبَةَ غَلَطٌ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز پڑھا رہے تھے اور ابوجہل اپنے یاروں سمیت بیٹھا ہوا تھا اور ایک دن پہلے ایک اونٹنی ذبح کی گئی تھی۔ ابوجہل نے کہا: تم میں سے کون جا کر اس کا بچہ دان لاتا اور اس کو رکھ دیتا ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں، جب وہ سجدے میں جائیں۔ یہ سن کر ان کا بدبخت شقی اٹھا (عقبہ بن ابی معیط ملعون) اور لایا اس کو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدے میں گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں وہ بچہ دان رکھ دیا۔ پھر ان لوگوں نے ہنسی شروع کی اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر گرنے لگا۔ میں کھڑا دیکھتا تھا اور مجھے اگر زور ہوتا (یعنی میرے مددگار لوگ ہوتے) تو میں پھینک دیتا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں ہی رہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے سر نہیں اٹھایا یہاں تک کہ ایک آدمی گیا اور اس نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو خبر کی تو وہ آئیں، اس وقت لڑکی تھیں اور اس کو پھینکا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ سے۔ پھر ان لوگوں کی طرف آئیں ان کو برا کہا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو بلند آواز سے بددعا کی ان پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا کرتے تو تین بار کرتے اور جب اللہ سے کچھ مانگتے تو تین بار مانگتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اللہ قریش کو ایسی سزا دے۔“ تین بار فرمایا۔ ان لوگوں نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی تو ہنسی جاتی رہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا سے ڈر گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تو سمجھ سے ابوجہل بن ہشام اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ اور ولید بن عقبہ اور امیہ بن خلف اور عقبہ بن ابی معیط سے۔“ اور ساتویں کا نام مجھ کو یاد نہیں رہا (بخاری کی روایت میں اس کا نام عمارہ بن ولید مذکور ہے) قسم اس کی جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سچا پیغمبر کر کے بھیجا میں ان سب لوگوں کو جن کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نام لیا بدر کے دن پڑے ہوئے دیکھا ان کی نعشیں گھسیٹ کر گڑھے میں ڈالی گئیں جو بدر میں تھا (جیسے کتے کو گھسیٹ کر پھینکتے ہیں) ابواسحٰق نے کہا: ولید بن عقبہ کا نام غلط ہے اس حدیث میں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا إِسْحَاقَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاجِدٌ وَحَوْلَهُ نَاسٌ مِنْ قُرَيْشٍ، إِذْ جَاءَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ بِسَلَا جَزُورٍ فَقَذَفَهُ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرْفَعْ رَأْسَهُ، فَجَاءَتْ فَاطِمَةُ فَأَخَذَتْهُ عَنْ ظَهْرِهِ وَدَعَتْ عَلَى مَنْ صَنَعَ ذَلِكَ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ، أَبَا جَهْلِ بْنَ هِشَامٍ، وَعُتْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَعُقْبَةَ بْنَ أَبِي مُعَيْطٍ، وَشَيْبَةَ بْنَ رَبِيعَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ، أَوْ أُبَيَّ بْنَ خَلَفٍ شُعْبَةُ الشَّاكُّ، قَالَ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ، فَأُلْقُوا فِي بِئْرٍ، غَيْرَ أَنَّ أُمَيَّةَ أَوْ أُبَيًّا تَقَطَّعَتْ أَوْصَالُهُ فَلَمْ يُلْقَ فِي الْبِئْرِ "،
امیہ بن خلف یا ابی بن خلف کو (شعبہ جو راوی ہے اس حدیث کا اس کو شک ہے) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نے ان سب لوگوں کو دیکھا، مارے گئے بدر کے دن اور کنوئیں میں پھینک دیئے گئے مگر امیہ یا اُبی اس کے ٹکڑے ٹکڑے الگ ہو گئے تھے اس لیے وہ کنویں میں نہیں ڈالا گیا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ وَكَانَ يَسْتَحِبُّ ثَلَاثًا، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِقُرَيْشٍ " ثَلَاثًا، وَذَكَرَ فِيهِمْ الْوَلِيدَ بْنَ عُتْبَةَ، وَأُمَيَّةَ بْنَ خَلَفٍ وَلَمْ يَشُكَّ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: وَنَسِيتُ السَّابِعَ.
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین بار دعا کر رہے تھے عاجزی سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”یا اللہ! سمجھ لے قریش سے۔ یا اللہ! تو سمجھ لے قریش سے۔ یا اللہ! تو سمجھ لے قریش سے۔“اور ولید بن عتبہ کا نام ہے بجائے ولید بن عقبہ کے اور امیہ بن خلف کے نام میں شک نہیں ابواسحاق نے کہا: ساتویں آدمی کا میں نام بھول گیا۔
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " اسْتَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ، فَدَعَا عَلَى سِتَّةِ نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ فِيهِمْ أَبُو جَهْلٍ، وَأُمَيَّةُ بْنُ خَلَفٍ، وَعُتْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَشَيْبَةُ بْنُ رَبِيعَةَ، وَعُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ، فَأُقْسِمُ بِاللَّهِ لَقَدْ رَأَيْتُهُمْ صَرْعَى عَلَى بَدْرٍ قَدْ غَيَّرَتْهُمُ الشَّمْسُ وَكَانَ يَوْمًا حَارًّا ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کی طرف منہ کیا اور بددعا کی قریش کے چھ آدمیوں کے لیے ابوجہل اور امیہ بن خلف اور عتبہ بن ربیعہ اور عقبہ بن ابی معیط کے لیے پھر عبدللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ میں نے ان لوگوں کو دیکھا بدر میں پڑے ہوئے، اور دھوپ سے سڑ گئے تھے کیوں کہ وہ گرمی کا دن تھا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَعَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، وَأَلْفَاظُهُمْ مُتَقَارِبَةٌ , قَالُوا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا، قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟، فَقَالَ: لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ، إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ، فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ، فَانْطَلَقْتُ وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي، فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي، فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ، فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ، وَمَا رُدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ، قَالَ: فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَأَنَا مَلَكُ الْجِبَالِ، وَقَدْ بَعَثَنِي رَبُّكَ إِلَيْكَ لِتَأْمُرَنِي بِأَمْرِكَ فَمَا شِئْتَ، إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ پر احد کے دن سے بھی کوئی دن زیادہ سخت گزرا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے بہت آفت اٹھائی تیری قوم سے (یعنی قریش کی قوم سے) اور سب سے زیادہ سخت رنج مجھے عقبہ کے دن ہوا میں نے عبد یا لیل کے بیٹے پر اپنے تئیں پیش کیا (یعنی اس سے مسلمان ہونے کو کہا) اس نے میرا کہنا نہ مانا۔ میں چلا اور میرے چہرے پر رنج برس رہا تھا، پھر مجھے ہوش نہ آیا (یعنی یکساں رنج میں چلا گیا) مگر جب قرن الثعالب (ایک مقام ہے جہاں سے نجد والے احرام باندھتے ہیں مکہ سے دو منزل کے فاصلہ پر) پہنچا تو میں نے اپنا سر اٹھایا۔ دیکھا تو ایک ابر کے ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کیا اور اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے۔ انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ جل جلالہ، نے تمہاری قوم کا کہنا سنا اور جو انہوں نے جواب دیا تو پہاڑوں کے فرشتے کو تمہارے پاس بھیجا ہے تم جو چاہو اس کو حکم کرو، پھر اس فرشتے نے مجھے پکارا، سلام کیا اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ نے تمہاری قوم کا کہنا سنا اور میں پہاڑوں کا فرشتہ ہوں اور مجھے تمہارے پروردگار نے تمہارے پاس بھیجا ہے اس لیے کہ جو تم حکم دو، میں سنوں، پھر جو تم چاہو اگر کہو تو میں دونوں پہاڑوں کو (یعنی ابوقبیس اور اس کے سامنے کا پہاڑ جو مکہ میں ہے) ان پر ملا دوں (اور ان کو پیس کر رکھ دوں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”(میں یہ نہیں چاہتا) مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی اولاد میں سے ان لوگوں کو پیدا کرے جو خاص اسی کو پوجیں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے“ (سبحان اللہ کیا شفقت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلمکو اپنی امت پر وہ رنج دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تکلیف گوارا نہ کرتے)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ يَحْيَي: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ سُفْيَانَ ، قَالَ: " دَمِيَتْ إِصْبَعُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ تِلْكَ الْمَشَاهِدِ، فَقَالَ: هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيتِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ مَا لَقِيتِ "،
جندب بن سفیان سے روایت ہے، کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کو مار لگی اور خون نکل آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں ہے تو مگر ایک انگلی جس میں سے خون نکلا اور اللہ کی راہ میں تجھے یہ تکلیف ہوئی۔“ (مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اتنی سی تکلیف بے حقیقت ہے اور یہ شعر نہیں ہے جیسے اوپر گزرا)۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ فَنُكِبَتْ إِصْبَعُهُ.
اسود بن قیس سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار میں تھے (قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا: یہ غلطی ہے غار کی جگہ غازی کا لفظ ہو گا یا غار سے مراد لشکر ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی کو ٹھوکر لگی۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ جُنْدُبًا ، يَقُولُ: " أَبْطَأَ جِبْرِيلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: الْمُشْرِكُونَ قَدْ وُدِّعَ مُحَمَّدٌ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالضُّحَى { 1 } وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى { 2 } مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى { 3 } سورة الضحى آية 1-3 ".
سیدنا جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جبرائیل علیہ السلام نے چند روز کی دیر کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے میں تو مشرک کہنے لگے: اللہ تعالیٰ نے چھوڑ دیا محمد کو۔ اسی وقت یہ سورت اتار دی اللہ تعالیٰ نے «وَالضُّحَىٰ، وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ، مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ» (۹۳-الضحى:۱-۳) ”قسم ہے دن چڑھے کی اور رات کی جب ڈھانک لے، نہیں چھوڑا تجھ کو تیرے پروردگار نے اور نہ ہی ناراض ہوا۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ إِسْحَاقُ أَخْبَرَنَا، وقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جُنْدُبَ بْنَ سُفْيَانَ ، يَقُولُ: " اشْتَكَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَقُمْ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: يَا مُحَمَّدُ: إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ شَيْطَانُكَ قَدْ تَرَكَكَ لَمْ أَرَهُ قَرِبَكَ مُنْذُ لَيْلَتَيْنِ أَوْ ثَلَاثٍ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالضُّحَى { 1 } وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى { 2 } مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى { 3 } سورة الضحى آية 1-3 "،
اسود قیس سے روایت ہے، میں نے جندب بن سفیان رضی اللہ عنہ سے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے تو دو تین دن رات تک نہیں اٹھے، پھر ایک عورت آئی (عوراء بنت حرب ابوسفیان کی بہن، ابولہب کی بی بی حمالۃ الحطب) اور کہنے لگی، اے محمد! میں سمجھتی ہوں کہ تمہارے شیطان نے تم کو چھوڑ دیا (یہ اس شیطان نے ہنسی سے کہا) میں دیکھتی ہوں دو تین رات سے تمہارے پاس نہیں آیا تب اللہ تعالیٰ نے یہ سورت اتاری «وَالضُّحَىٰ، وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَىٰ، مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَىٰ» اخیر تک اس کے معنی اوپر گزرے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمُلَائِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كِلَاهُمَا، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِهِمَا.
اسود بن قیس سے اسی سند کے ساتھ مذکورہ دونوں حدیثوں کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ: " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَكِبَ حِمَارًا عَلَيْهِ إِكَافٌ تَحْتَهُ قَطِيفَةٌ، فَدَكِيَّةٌ وَأَرْدَفَ وَرَاءَهُ أُسَامَةَ وَهُوَ يَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، وَذَاكَ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ حَتَّى مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِيهِ أَخْلَاطٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُشْرِكِينَ عَبَدَةِ الْأَوْثَانِ، وَالْيَهُودِ فِيهِمْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ وَفِي الْمَجْلِسِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِيَتِ الْمَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ أَنْفَهُ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُغَبِّرُوا عَلَيْنَا، فَسَلَّمَ عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ وَقَفَ، فَنَزَلَ فَدَعَاهُمْ إِلَى اللَّهِ وَقَرَأَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ: أَيُّهَا الْمَرْءُ لَا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِنْ كَانَ مَا تَقُولُ حَقًّا، فَلَا تُؤْذِنَا فِي مَجَالِسِنَا، وَارْجِعْ إِلَى رَحْلِكَ فَمَنْ جَاءَكَ مِنَّا فَاقْصُصْ عَلَيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ: اغْشَنَا فِي مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِكَ، قَالَ: فَاسْتَبَّ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ وَالْيَهُودُ حَتَّى هَمُّوا أَنْ يَتَوَاثَبُوا، فَلَمْ يَزَلِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخَفِّضُهُمْ ثُمَّ رَكِبَ دَابَّتَهُ، حَتَّى دَخَلَ عَلَى سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ: أَيْ سَعْدُ أَلَمْ تَسْمَعْ إِلَى مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ يُرِيدُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: كَذَا وَكَذَا، قَالَ: اعْفُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاصْفَحْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَاكَ اللَّهُ الَّذِي أَعْطَاكَ وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَهْلُ هَذِهِ الْبُحَيْرَةِ أَنْ يُتَوِّجُوهُ، فَيُعَصِّبُوهُ بِالْعِصَابَةِ، فَلَمَّا رَدَّ اللَّهُ ذَلِكَ بِالْحَقِّ الَّذِي أَعْطَاكَهُ شَرِقَ بِذَلِكَ فَذَلِكَ فَعَلَ بِهِ مَا رَأَيْتَ، فَعَفَا عَنْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک گدھے پر سوار ہوئے، اس پر ایک پالان تھا، اور نیچے اس کے ایک چادر تھی فدک کی۔ (فدک ایک مشہور شہر تھا مدینہ سے دو یا تین منزل پر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اسی گدھے پر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو پوچھنے کے لیے، ان کی بیماری میں بنی حارث بن خزرج کے محلہ میں اور قصہ بدر کی جنگ سے پہلے کا ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گزرے ایک مجلس پر جس میں سب قسم کے لوگ یعنی مسلمان اور مشرک بت پرست اور یہود ملے جلے تھے۔ ان لوگوں میں عبداللہ بن ابی (منافق مشہور) بھی تھا اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے، جب اس مجلس میں جانور کی گرد پہنچی تو عبداللہ بن ابی نے اپنی ناک بند کر لی چادر سے اور کہنے لگا مت گرد اڑاؤ ہم پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو سلام کیا پھر کھڑے ہوئے اور گدھے پر سے اترے بعد اس کے ان کو بلایا اللہ کی طرف اور ان کو قرآن سنایا: عبداللہ بن ابی نے کہا: اے شخص! اس سے اچھا کچھ نہیں یا اس سے تو یہ بہتر تھا کہ تم اپنے گھر میں بیٹھتے اگر تم جو کہتے ہو وہ سچ ہے تو مت ستاؤ ہم کو ہماری مجلسوں میں اور لوٹ جاؤ اپنے ٹھکانے کو، جو ہم میں سے تمہارے پاس آئے اس کو یہ قصہ سناؤ۔ سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم کو ضرور سنائیے ہماری مجلسوں میں کیوں کہ ہم پسند کرتے ہیں ان باتوں کو۔ سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر مسلمان اور مشرک اور یہود گالی گلوچ کرنے لگے یہاں تک کہ قصد کیا ایک دوسرے کو مارنے کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس جھگڑے کو دباتے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اپنے جانور پر اور سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سعد! تم نے نہیں سنیں ابوحباب کی باتیں (یہ کنیت ہے عبداللہ بن ابی کی) اس نے ایسی ایسی باتیں کہیں۔“ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ معاف کر دیجئے یا رسول اللہ! اور درگزر کیجیے قسم اللہ کی، اللہ نے آپ کو دیا جو دیا اور اس شہر والوں نے تو یہ ٹھہرایا تھا کہ عبداللہ بن ابی کو تاج پہنا دیں اور عمامہ بندھوا دیں (یعنی اس کو بادشاہ کریں یہاں کا) جب اللہ تعالیٰ نے یہ بات نہ ہونے دی اس حق کی وجہ سے جو آپ کو دیا گیا تو وہ جل گیا (حسد کے مارے) اسی حسد نے اس سے یہ کرایا جو آپ نے دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو معاف کر دیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنٌ يَعْنِي ابْنَ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، وَزَادَ وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ عَبْدُ اللَّهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا اس روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اس وقت تک عبداللہ بن ابی مسلمان نہیں ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ أَتَيْتَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَيْهِ وَرَكِبَ حِمَارًا، وَانْطَلَقَ الْمُسْلِمُونَ وَهِيَ أَرْضٌ سَبَخَةٌ، فَلَمَّا أَتَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِلَيْكَ عَنِّي فَوَاللَّهِ لَقَدْ آذَانِي نَتْنُ حِمَارِكَ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: وَاللَّهِ لَحِمَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَطْيَبُ رِيحًا مِنْكَ، قَالَ: فَغَضِبَ لِعَبْدِ اللَّهِ رَجُلٌ مِنْ قَوْمِهِ، قَالَ: فَغَضِبَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا أَصْحَابُهُ، قَالَ: فَكَانَ بَيْنَهُمْ ضَرْبٌ بِالْجَرِيدِ، وَبِالْأَيْدِي، وَبِالنِّعَالِ، قَالَ: فَبَلَغَنَا أَنَّهَا نَزَلَتْ فِيهِمْ وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا سورة الحجرات آية 9 ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے لوگوں نے عرض کیا۔ کاش! آپ عبداللہ بن ابی کے پاس تشریف لے جاتے(اور اس کو دعوت دیتے اسلام کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اس کے پاس اور ایک گدھے پر سوار ہوئے اور مسلمان بھی چلے وہ زمین شور تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے تو وہ بولا: جدا رہ مجھ سے قسم اللہ کی آپ کے گدھے کی بو نے مجھے پریشان کر دیا۔ ایک انصاری بولا: قسم اللہ کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کےگدھے کی بو تیری بو سے بہتر ہے۔ یہ سن کر عبداللہ کی قوم کا ایک شخص غصہ ہوا اور طرفین کے لوگوں کو غصہ آیا اور لڑائی ہوئی لکڑی اور ہاتھ اور جوتوں سے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم کو خبر پہنچی کہ یہ آیت «وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُمَا» (۴۹/الحجرات: ۹) ان کے باب میں اتری ”یعنی اگر دو گروہ مسلمانوں کے آپس میں لڑیں تو ان میں میل کرا دو۔“ اخیر تک۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَنْظُرُ لَنَا مَا صَنَعَ أَبُو جَهْلٍ؟، فَانْطَلَقَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَوَجَدَهُ قَدْ ضَرَبَهُ ابْنَا عَفْرَاءَ حَتَّى بَرَكَ، قَالَ: فَأَخَذَ بِلِحْيَتِهِ، فَقَالَ: آنْتَ أَبُو جَهْلٍ؟، فَقَالَ: وَهَلْ فَوْقَ رَجُلٍ قَتَلْتُمُوهُ أَوَ قَالَ قَتَلَهُ قَوْمُهُ، قَالَ: وَقَالَ أَبُو مِجْلَزٍ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: فَلَوْ غَيْرُ أَكَّارٍ قَتَلَنِي "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کون خبر لاتا ہے ابوجہل کی۔“ یہ سن کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ گئے دیکھا تو عفراء کے بیٹوں نے اسے ایسا مارا کہ ٹھنڈا ہو گیا ہے (یعنی موت کے قریب ہے) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اس کی داڑھی پکڑی اور کہا: تو ابوجہل ہے وہ بولا: کیا تم زیادہ ہو اس شخص سے جس کو تم نے مارا ہے(یعنی مجھ سے زیادہ قریش میں کوئی بڑے درجہ کا نہیں) یا اس کی قوم نے مارا ہے (مطلب یہ ہے کہ اگر تم نے مجھے قتل کیا تو میری کوئی ذلت نہیں) ابومجلز نے کہا: ابوجہل نے کہا: کاش! کسان کے سوا اور کوئی مجھے مارتا۔
حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا أَنَسٌ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ يَعْلَمُ لِي مَا فَعَلَ أَبُو جَهْلٍ؟ " بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُلَيَّةَ وَقَوْلِ أَبِي مِجْلَزٍ كَمَا ذَكَرَهُ إِسْمَاعِيلُ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْمِسْوَرِ الزُّهْرِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِلزُّهْرِيِّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعْتُ جَابِرًا ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الْأَشْرَفِ فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟، فَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتُحِبُّ أَنْ أَقْتُلَهُ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْذَنْ لِي، فَلْأَقُلْ قَالَ: قُلْ فَأَتَاهُ، فَقَالَ لَهُ: وَذَكَرَ مَا بَيْنَهُمَا، وَقَالَ: إِنَّ هَذَا الرَّجُلَ قَدْ أَرَادَ صَدَقَةً وَقَدْ عَنَّانَا، فَلَمَّا سَمِعَهُ، قَالَ: وَأَيْضًا وَاللَّهِ لَتَمَلُّنَّهُ، قَالَ: إِنَّا قَدِ اتَّبَعْنَاهُ الْآنَ، وَنَكْرَهُ أَنْ نَدَعَهُ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى أَيِّ شَيْءٍ يَصِيرُ أَمْرُهُ، قَالَ: وَقَدْ أَرَدْتُ أَنْ تُسْلِفَنِي سَلَفًا، قَالَ: فَمَا تَرْهَنُنِي؟، قَالَ: مَا تُرِيدُ؟، قَالَ: تَرْهَنُنِي نِسَاءَكُمْ، قَالَ: أَنْتَ أَجْمَلُ الْعَرَبِ أَنْ نَرْهَنَكَ نِسَاءَنَا؟، قَالَ لَهُ: تَرْهَنُونِي أَوْلَادَكُمْ، قَالَ يُسَبُّ ابْنُ أَحَدِنَا: فَيُقَالُ: رُهِنَ فِي وَسْقَيْنِ مِنْ تَمْرٍ وَلَكِنْ نَرْهَنُكَ اللَّأْمَةَ يَعْنِي السِّلَاحَ، قَالَ: فَنَعَمْ وَوَاعَدَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ بِالْحَارِثِ، وَأَبِي عَبْسِ بْنِ جَبْرٍ، وَعَبَّادِ بْنِ بِشْرٍ، قَالَ: فَجَاءُوا فَدَعَوْهُ لَيْلًا، فَنَزَلَ إِلَيْهِمْ، قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ: غَيْرُ عَمْرٍو، قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: إِنِّي لَأَسْمَعُ صَوْتًا كَأَنَّهُ صَوْتُ دَمٍ، قَالَ: إِنَّمَا هَذَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْلَمَةَ، وَرَضِيعُهُ وَأَبُو نَائِلَةَ، إِنَّ الْكَرِيمَ لَوْ دُعِيَ إِلَى طَعْنَةٍ لَيْلًا لَأَجَابَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: إِنِّي إِذَا جَاءَ فَسَوْفَ أَمُدُّ يَدِي إِلَى رَأْسِهِ، فَإِذَا اسْتَمْكَنْتُ مِنْهُ فَدُونَكُمْ، قَالَ: فَلَمَّا نَزَلَ نَزَلَ وَهُوَ مُتَوَشِّحٌ، فَقَالُوا: نَجِدُ مِنْكَ رِيحَ الطِّيبِ، قَالَ: نَعَمْ تَحْتِي فُلَانَةُ هِيَ أَعْطَرُ نِسَاءِ الْعَرَبِ، قَالَ: فَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَشُمَّ مِنْهُ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَشُمَّ، فَتَنَاوَلَ فَشَمَّ، ثُمَّ قَالَ: أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَعُودَ؟، قَالَ: فَاسْتَمْكَنَ مِنْ رَأْسِهِ، ثُمَّ قَالَ: دُونَكُمْ، قَالَ: فَقَتَلُوهُ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون مارتا ہے کعب بن اشرف کو، بیشک اس نے ستا رکھا ہے اللہ کو اور اس کے رسول کو۔“ (سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ کعب نے پہلے جا کر مشرکوں کو ترغیب دی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑنے کی، پھر مدینہ آ کر مسلمانوں کی عورتوں پر غزلیں کہنا اور ہجو کرنے لگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی۔)محمد بن مسلمہ نے کہا: یا رسول اللہ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ میں مار ڈالوں اس کو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں“ محمد بن مسلمہ نے کہا: تو اجازت دیجئیے مجھ کو کہنے کی (یعنی میں اس سے جیسے مصلحت ہو ویسی باتیں کروں گو ظاہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی برائی بھی ہو تاکہ وہ میرا اعتبار کرے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہہ“ (جو مصلحت ہو۔) پھر محمد بن مسلمہ نے کعب سے باتیں کیں۔ اپنا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ بیان کیا اور کہا کہ اس شخص نے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) صدقہ لینے کا قصد کیا ہے اور ہم کو تکلیف میں ڈالا ہے، (یہ تعریض ہے جس کا ظاہری معنی اور ہے اور دراصل مطلب صحیح ہے کہ شرع کے احکام ہم پر جاری کیے اور ان کے بجا لانے میں نفس کو تکلیف ہوتی ہے) جب کعب نے یہ سنا تو کہنے لگا، ابھی اور قسم اللہ کی تم کو تکلیف ہو گی۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: اب تو ہم اس کے شریک ہو چکے اور اب اس کو چھوڑ دینا بھی برا معلوم ہوتا ہے جب تک ہم اس کا انجام نہ دیکھ لیں کہ کیا ہوتا ہے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: میں یہ چاہتا ہوں کہ تم مجھ کو کچھ قرض دو۔ کعب نے کہا: اچھا تم کیا چیز گروی کرو گے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: تم کیا چاہتے ہو۔ کعب نے کہا: اپنی عورتیں گروی کرو۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: تم تو عرب میں سب سے زیادہ خوبصورت ہو ہم اپنی عورتیں تمہارے پاس کیوں کر گروی کریں۔ کعب نے کہا اچھا اپنی اولاد گروی رکھو۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: ہمارے لڑکے کو لوگ برا کہیں گے کہ کھجور کے دو وسق پر گروی ہوا تھا۔ البتہ ہم اپنے ہتھیار تمہارے پاس گروی کریں گے (اس میں یہ مصلحت تھی کہ ہتھیار لے کر اس مردود کے پاس جا سکیں اور اس کو قتل کریں) کعب نے کہا: اچھا، پھر محمد بن مسلمہ نے اس سے وعدہ کیا کہ میں حارث (بن اوس) کو اور ابوعبس بن جبر عبدالرحمٰن اور عباد بن بشر کو لے آؤں گا (سیرۃ ابن ہشام میں ہے کہ ابونائلہ سلکان بن سلامہ بن وقش جو کعب کے رضائی بھائی تھے وہ بھی گئے۔ یہ سب لوگ آئے اور اس کو بلایا رات کو۔ وہ اترا اپنے بالا خانے پر سے) سوائے عمرو کے دوسروں کی روایت میں یہ ہے کہ اس کی عورت نے کہا: یہ آواز تو خونی آواز معلوم ہوتی ہے۔ کعب نے کہا: واہ! یہ تو محمد بن مسلمہ ہیں اور ان کے رضاعی بھائی اور ابونائلہ ہیں (نووی رحمہ اللہ نے کہا: صحیح یوں ہے کہ محمد بن مسلمہ ہیں اور ان کے رضاعی بھائی ابونائلہ بخاری کی روایت میں ہے کہ کعب نے کہا: واہ! یہ تو میرے بھائی محمد بن مسلمہ ہیں اور میرے دودھ شریک بھائی ابونائلہ ہیں۔ اور یہی صحیح ہے جیسا سرۃ ابن ہشام سے معلوم ہوتا ہے) اور جوان مرد کا کام یہ ہے کہ اگر رات کو زخم مارنے کے لیے بھی اس کو بلایا جائے تو چلا آئے محمد نے (اپنے یاروں سے) کہا: جب کعب آئے گا تو میں اپنا ہاتھ اس کے سر کی طرف بڑھاؤں گا اور جب اچھی طرح اس کے سر کو تھام لوں تو تم اپنا کام کرنا۔ پھر کعب اترا، چادر کو بغل کے تلے کئے ہوئے، ان لوگوں نے کہا: کیسی عمدہ خوشبو ہے جو تم میں سے آ رہی ہے۔ کعب نے کہا: ہاں! میرے پاس فلانی عورت ہے وہ عرب کی سب عورتوں سے زیادہ معطر رہتی ہے۔ محمد بن مسلمہ نے کہا: اگر تم اجازت دو تو میں تمہارا سر سونگھوں، کعب نے کہا: اچھا محمد نے اس کا سر سونگھا، پھر پکڑ کر سونگھا، پھر کہا: اگر اجازت دو تو پھر سونگھوں اور زور سے اس کا سر تھاما اور ساتھیوں سے کہا: لو، انہوں نے اس کو تمام کیا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا خَيْبَرَ، قَالَ: فَصَلَّيْنَا عِنْدَهَا صَلَاةَ الْغَدَاةِ بِغَلَسٍ، فَرَكِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَكِبَ أَبُو طَلْحَةَ وَأَنَا رَدِيفُ أَبِي طَلْحَةَ، فَأَجْرَى نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي زُقَاقِ خَيْبَرَ، وَإِنَّ رُكْبَتِي لَتَمَسُّ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَانْحَسَرَ الْإِزَارُ عَنْ فَخِذِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنِّي لَأَرَى بَيَاضَ فَخِذَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا دَخَلَ الْقَرْيَةَ، قَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ خَرِبَتْ خَيْبَرُ "، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، قَالَهَا ثَلَاثَ مِرَارٍ، قَالَ: وَقَدْ خَرَجَ الْقَوْمُ إِلَى أَعْمَالِهِمْ "، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ، وَقَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: وَالْخَمِيسَ، قَالَ: وَأَصَبْنَاهَا عَنْوَةً.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے جہاد کیا خیبر کا تو ہم نے صبح کی نماز خیبر کے پاس پڑھی اندھیرے میں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ان کے ساتھ سوار ہوا (ایک ہی گھوڑے پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کی گلیوں میں گھوڑا دوڑایا اور میرا گھٹنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کو چھو جاتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے تہ بند ہٹ گئی تھی(گھوڑا دوڑانے میں) تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی دیکھ رہا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بستی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ اکبر! خراب ہوا خیبر، ہم جب اتریں کسی قوم کے میدان میں تو برا ہے دن ان لوگوں کا جو ڈرائے گئے۔“ تین بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسی وقت یہودی لوگ اپنے کاموں کو نکلے تھے وہ کہنے لگے محمد آ پہنچے لشکر کے ساتھ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے خیبر کو بزور شمشیر فتح کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " كُنْتُ رِدْفَ أَبِي طَلْحَةَ يَوْمَ خَيْبَرَ، وَقَدَمِي تَمَسُّ قَدَمَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَيْنَاهُمْ حِينَ بَزَغَتِ الشَّمْسُ، وَقَدْ أَخْرَجُوا مَوَاشِيَهُمْ وَخَرَجُوا بِفُؤُوسِهِمْ، وَمَكَاتِلِهِمْ وَمُرُورِهِمْ، فَقَالُوا: مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسَ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ، قَالَ: فَهَزَمَهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سوار تھا خیبر کے دن اور میرا پاؤں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سے چھو رہا تھا۔ پھر ہم ان کے پاس پہنچے آفتاب نکلتے ہی۔ انہوں نے اپنے جانوروں کو باہر نکالا اور کلہاڑیوں اور زنبیلیں اور کدالیں (یا رسیاں درخت پر چڑھنے کی) لے کر نکلے تھے وہ کہنے لگے محمد آ پہنچے لشکر کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خراب ہوا خیبر، ہم جب اتریں کسی قوم کی زمین پر تو بری ہے صبح ان لوگوں کی جو ڈرائے گئے۔“ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر اللہ تعالیٰ نے شکست دی ان کو۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: لَمَّا أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ، قَالَ: " إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں پہنچے تو یہ کہا: ”ہم جب اتریں کسی قوم کی زمین پر تو بری ہے صبح ان لوگوں کی جو ڈرائے گئے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ عَبَّادٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَتَسَيَّرْنَا لَيْلًا، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ لِعَامِرِ بْنِ الْأَكْوَعِ: أَلَا تُسْمِعُنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، وَكَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا فَنَزَلَ يَحْدُو بِالْقَوْمِ، يَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَاغْفِرْ فِدَاءً لَكَ مَا اقْتَفَيْنَا، وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا، وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟، قَالُوا: عَامِرٌ، قَالَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأَتَيْنَا خَيْبَرَ فَحَاصَرْنَاهُمْ حَتَّى أَصَابَتْنَا مَخْمَصَةٌ شَدِيدَةٌ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ فَتَحَهَا عَلَيْكُمْ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْسَى النَّاسُ مَسَاءَ الْيَوْمِ الَّذِي فُتِحَتْ عَلَيْهِمْ أَوْقَدُوا نِيرَانًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذِهِ النِّيرَانُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ؟، فَقَالُوا: عَلَى لَحْمٍ، قَالَ: أَيُّ لَحْمٍ؟، قَالُوا: لَحْمُ حُمُرِ الْإِنْسِيَّةِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَهْرِيقُوهَا وَاكْسِرُوهَا، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوْ يُهْرِيقُوهَا وَيَغْسِلُوهَا، فَقَالَ: أَوْ ذَاكَ، قَالَ: فَلَمَّا تَصَافَّ الْقَوْمُ كَانَ سَيْفُ عَامِرٍ فِيهِ قِصَرٌ، فَتَنَاوَلَ بِهِ سَاقَ يَهُودِيٍّ لِيَضْرِبَهُ وَيَرْجِعُ ذُبَابُ سَيْفِهِ، فَأَصَابَ رُكْبَةَ عَامِرٍ فَمَاتَ مِنْهُ، قَالَ: فَلَمَّا قَفَلُوا، قَالَ سَلَمَةُ: وَهُوَ آخِذٌ بِيَدِي، قَالَ: فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاكِتًا، قَالَ: مَا لَكَ، قُلْتُ لَهُ: فَدَاكَ أَبِي وَأُمِّي زَعَمُوا أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ: مَنْ قَالَهُ، قُلْتُ: فُلَانٌ وَفُلَانٌ وَأُسَيْدُ بْنُ حُضَيْرٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: كَذَبَ، مَنْ قَالَهُ إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ وَجَمَعَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ إِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ "، قَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا مِثْلَهُ، وَخَالَفَ قُتَيْبَةُ، مُحَمَّدًا فِي الْحَدِيثِ فِي حَرْفَيْنِ وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَبَّادٍ، وَأَلْقِ سَكِينَةً عَلَيْنَا.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے خیبر کی طرف تو رات کو چلے۔ ایک شخص ہم میں سے بولا: اے عامر بن اکوع! (میرے بھائی کو) کچھ اپنے شعر نہیں سناتے (تاکہ راستہ کٹے اور جی نہ گھبرائے (نووی رحمہ اللہ نے کہا: شعر سب برے نہیں ہوتے، اس میں اچھے اور برے دونوں ہیں) اور عامر شاعر تھے، وہ اترے اور گا کر پڑھنے لگے۔ (نووی رحمہ اللہ نے کہا: سفر میں یہ مستحب ہے دل لگی کے لیے اور جانوروں کو خوش کرنے کے لیے۔ اونٹ اس گانے سے ایسا مست ہو جاتا ہے کہ اس کو چلنے کی تکان مطلق نہیں رہتی)۔ تو ہدایت گر نہ کرتا اے اللہ! کب نماز و صدقہ ہم کرتے ادا۔ ہم ہیں تجھ پر جان سے مالک فدا۔ بخش دے ہم سے ہوئیں جو کچھ خطا۔ کافروں سے جب کہ ہوئے سامنا۔ دے ہمارے پاؤں کو وہاں پر جما۔ اور تسلی اور تشفی دے خدا۔ ہم تو حاضر ہیں بلاتے ہیں سدا۔ صبح تٹرکے کافروں نے غل کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہانکنے والا ہے“ لوگوں نے عرض کیا، عامر بن الاکوع۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ تعالی اس پر رحم کرے۔“ ایک شخص بولا: اب وہ ضرور شہید ہو گا۔ یا رسول اللہ! آپ نے ہم کو اس سے فائدہ اٹھانے دیا ہوتا۔ سلمہ بن اکوع نے کہا: پھر ہم خیبر میں پہنچے اور ہم نے خیبر والوں کو گھیرا اور ہم کو بہت شدت کی بھوک لگی، بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے فتح کر دیا خیبر کو تمہارے ہاتھوں۔“ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب وہ رات ہوئی جس کے دن کو خیبر فتح ہوا تو لوگوں نے بہت انگارے جلائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ انگار کیسے ہیں اور کیا پکاتے ہیں۔“ تو انہوں نے کہا: گوشت پکاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کس کا گوشت۔“ انہوں نے کہا: بستی کے گدھوں کا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہا دو ان کو اور توڑ کر پھنیک دو ہانڈیوں کو۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! اگر گوشت پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو ڈالیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا ایسا ہی کرو۔“ (تو بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے بدل گئی اجتہاد سے یا وحی سے) پھر جب صف باندھی لوگوں نے تو عامر کی تلوار چھوٹی تھی وہ ایک یہودی کے پاؤں میں مارنے لگے تلوار خود ان کے لوٹ کر لگی گھٹنے میں اور وہ گئے اس زخم سے۔ جب لوگ لوٹے تو سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو چپ چپ دیکھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے سلمہ! تیرا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر صدقے ہوں لوگ کہتے ہیں کہ عامر کا عمل لغو ہو گیا (کیونکہ وہ اپنے زخم سے آپ مرا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کون کہتا ہے؟“ میں نے کہا فلانا، فلانا اور اسید بن حضیر انصاری۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہوں نے غلط کہا۔ عامر کو دوہرا ثواب ہوا۔“ (ایک تو اسلام اور عبادت کا دوسرے جہاد کا) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا اور فرمایا کہ وہ جاہد ہے(یعنی کوشش کرنے ولا اللہ کی اطاعت میں) اورمجاہد ہے (یعنی جہاد کرنے ولا) ایسا کوئی عرب کم ہو گا جس نے ایسی لڑائی کی ہو اس کے مثل (یا اس کے مشابہ) کوئی عرب کم ہو گا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَنَسَبَهُ غَيْرُ ابْنِ وَهْبٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ: أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ رَجُلٌ مَاتَ فِي سِلَاحِهِ وَشَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ائْذَنْ لِي أَنْ أَرْجُزَ لَكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: أَعْلَمُ مَا تَقُولُ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا، وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقْتَ، وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا، قَالَ: فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ هَذَا؟، قُلْتُ: قَالَهُ أَخِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَرْحَمُهُ اللَّهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ يَقُولُونَ رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنًا لِسَلَمَةَ بنِ الأَكْوَعِ، فَحَدَثَنيِ عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ ذَلِكَ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: حِينَ قُلُتُ إِنَّ نَاسًا يَهَابُونَ الصَّلاةَ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمِ: " كَذَبُوا مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَتَيْنِ " وَأَشَارَ بِإصبَعَيهِ.
سیدنا ابن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب خیبر کی لڑائی ہوئی تو میرا بھائی (عامر بن اکوع) خوب لڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر۔ اس کی تلوار خود اس پر پلٹ گئی، وہ مر گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے اس کے باب میں گفتگو کی اور شکایت کی اس کے باب میں۔ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے لوٹے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت دیجئیے رجز پڑھنے کی (رجز وہ موزوں کلام سے ایک بحر ہے شعر کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے معلوم ہے جو تم کہو گے۔ پھر میں نے کہا ان شعروں کو جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ”قسم اللہ کی اگر اللہ تعالیٰ ہدایت نہ کرتا ہم کو تو ہم کبھی راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے اور نہ نماز پڑھتے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سچ کہا تو نے۔“ پھر میں نے کہا: ”اتار اپنی رحمت ہم پر اور جما دے ہمارے پاؤں کو اگر ہمارا سامنا ہو کافروں سے اور مشرکوں سے۔ اور مشرکوں نے ہجوم کیا ہم پر“ جب میں اپنی رجز پڑھ چکا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کس کا کلام ہے۔“ میں نے عرض کیا میرے بھائی کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ رحم کرے اس پر۔“ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بعض لوگ تو اس پر نماز پڑھنے سے ڈرتے ہیں اور کہتے ہیں وہ اپنے ہتھیار سے مرا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو جاہد اور مجاہد ہو کر مرا۔“ ابن شہاب نے کہا: میں نے سلمہ کے بیٹے سے پوچھا: تو اس نے یہی حدیث اپنے باپ سے روایت کی۔ صرف اس نے یہ کہا کہ جب میں نے یہ کہا کہ بعض لوگ اس پر نماز پڑھنے سے ڈرتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ جھوٹے ہیں وہ تو جاہد اور مجاہد ہو کر مرا اور اس کو دوہرا ثواب ہے۔“ اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْأَحْزَابِ يَنْقُلُ مَعَنَا التُّرَابَ وَلَقَدْ وَارَى التُّرَابُ بَيَاضَ بَطْنِهِ وَهُوَ يَقُولُ: وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْتَ، مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، إِنَّ الْأُلَى قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا، قَالَ: وَرُبَّمَا قَالَ: إِنَّ الْمَلَا قَدْ أَبَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا "، وَيَرْفَعُ بِهَا صَوْتَهُ،
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماحزاب کے دن ہمارے ساتھ تھے مٹی ڈھوتے تھے (جب خندق کھودی گئی مدینہ کے گرد) اور مٹی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیٹ کی سفیدی کو چھپا لیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے تھے: ”قسم اللہ کی اگر تو ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ ہم صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے تو اتار اپنی رحمت کو ہم پر ان لوگوں نے (یعنی مکہ والوں نے) نہ مانا ہمارا کہنا (یعنی ایمان نہ لائے۔ اور ایک روایت میں ہے اس جماعت نے نہ مانا ہمارا کہنا جب وہ فساد کی بات کرنا چاہتے ہیں یعنی شرک اور کفر وغیرہ) تو ہم نہیں شریک ہوتے ان کے“ اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے فرماتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ فَذَكَرَ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ، قَالَ: إِنَّ الْأُلَى قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہجوم کیا ہم پر اور سرکشی کی (بخاری کی روایت میں بھی یہی ہے)۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: جَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَحْفِرُ الْخَنْدَقَ، وَنَنْقُلُ التُّرَابَ عَلَى أَكْتَافِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَةِ، فَاغْفِرْ لِلْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمہمارے پاس آئے اور ہم خندق کھود رہے تھے اور مٹی اپنے کاندھوں پر ڈھو رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! نہیں ہے عیش مگر آخرت کا عیش اور بخش دے تو مہاجرین اور انصار کو۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَالْمُهَاجِرَهْ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”یا اللہ! نہیں ہے عیش مگر عیش آخرت کا اور بخش دے انصار اور مہاجرین کو۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَةِ "، قَالَ شُعْبَةُ، أَوَ قَالَ: " اللَّهُمَّ لَا عَيْشَ إِلَّا عَيْشُ الْآخِرَهْ فَأَكْرِمْ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرَهْ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے تھے: ”یا اللہ! عیش آخرت ہی کا عیش ہے تو کرم کر انصار اور مہاجرین پر۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَشَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ شَيْبَانُ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانُوا يَرْتَجِزُونَ وَرَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم معهم وهم، يقولون: " اللَّهُمَّ لَا خَيْرَ إِلَّا خَيْرُ الْآخِرَهْ، فَانْصُرْ الْأَنْصَارَ، وَالْمُهَاجِرَهْ "، وَفِي حَدِيثِ شَيْبَانَ بَدَلَ فَانْصُرْ: فَاغْفِرْ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، صحابہ رجز پڑھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے وہ کہتے تھے، یااللہ! نہیں ہے خیر مگر آخرت کی خیر، تو مدد کر انصار اور مہاجرین کی۔ اور شیبان کی روایت میں ہے بخش دے انصار اور مہاجرین کو۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانُوا يَقُولُونَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ: نَحْنُ الَّذِينَ بَايَعُوا مُحَمَّدًا عَلَى الْإِسْلَامِ مَا بَقِينَا أَبَدًا، أَوَ قَالَ: عَلَى الْجِهَادِ، شَكَّ حَمَّادٌ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنَّ الْخَيْرَ خَيْرُ الْآخِرَهْ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ، وَالمُهَاجِرَهْ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خندق کے دن کہتے تھے ہم وہ لوگ ہیں جنہوں نے بیعت کی ہے محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے اسلام پر یا جہاد پر جب تک ہم زندہ رہیں۔ اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ”یا اللہ! بھلائی تو آخرت کی بھلائی ہے تو بخش دے انصار اور مہاجرین کو۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، يَقُولُ: " خَرَجْتُ قَبْلَ أَنْ يُؤَذَّنَ بِالْأُولَى وَكَانَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرْعَى بِذِي قَرَدٍ، قَالَ: فَلَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَقَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا؟، قَالَ غَطَفَانُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ، يَا صَبَاحَاهْ، قَالَ: فَأَسْمَعْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ انْدَفَعْتُ عَلَى وَجْهِي حَتَّى أَدْرَكْتُهُمْ بِذِي قَرَدٍ، وَقَدْ أَخَذُوا يَسْقُونَ مِنَ الْمَاءِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ بِنَبْلِي وَكُنْتُ رَامِيًا، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، فَأَرْتَجِزُ حَتَّى اسْتَنْقَذْتُ اللِّقَاحَ مِنْهُمْ وَاسْتَلَبْتُ مِنْهُمْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً، قَالَ: وَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ حَمَيْتُ الْقَوْمَ الْمَاءَ وَهُمْ عِطَاشٌ، فَابْعَثْ إِلَيْهِمُ السَّاعَةَ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ: مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْنَا وَيُرْدِفُنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَتِهِ حَتَّى دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ ".
سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں صبح کی اذان سے پہلے نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوھیلی اونٹنیاں ذی قرد میں چرتی تھیں (ذی قرد ایک پانی کا نام ہے مدینہ سے ایک دن کے فاصلہ پر۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا: یہ لڑائی خیبر کی جنگ سے تین دن پہلے ہوئی اور بعض نے کہا ۶ ہجری میں حدیبیہ سے پہلے) مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کا غلام ملا۔ اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوھیلی اونٹنیاں جاتی رہیں۔ میں نے پوچھا: کس نے لیں۔ اس نے کہا: غطفان نے (جو ایک شاخ ہے قیس قبیلہ کی)۔ یہ سن کر میں تین بار چلایا یا صباحاہ (عرب کی عادت ہے کہ یہ کلمہ اس وقت کہتے ہیں جب کوئی بڑی آفت آتی ہے اور لوگوں کو خبردار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے) اور مدینہ کے دونوں جانب والوں کو سنا دیا۔ پھر میں سیدھا چلا یہاں تک کہ میں نے ان لٹیروں کو ذی قرد میں پایا۔ انہوں نے پانی پینا شروع کیا تھا میں نے تیر مارنا شروع کیے اور میں تیر انداز تھا اور کہتا جاتا تھا۔ «أَنَا ابْنُ الأَكْوَعِ وَالْيَوْمَ يَوْمُ الرُّضَّعِ» میں رجز پڑھتا رہا یہاں تک کہ اونٹنیاں ان سے چھڑا لیں بلکہ اور تیس چادریں ان کی چھینیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور لوگ بھی آ گئے۔ میں نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ! ان لٹیروں کو میں نے پانی پینے نہیں دیا ہے۔ وہ پیاسے ہیں، اب ان پر لشکر کو بھیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اکوع کے بیٹے تو اپنی چیزیں لے چکا۔ اب جانے دے۔“سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی پر اپنے ساتھ مجھ کو بٹھلایا یہاں تک کہ ہم مدینہ میں پہنچے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ وَهَذَا حَدِيثُهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ الْحَنَفِيُّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: " قَدِمْنَا الْحُدَيْبِيَةَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً وَعَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لَا تُرْوِيهَا، قَالَ: فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَبَا الرَّكِيَّةِ، فَإِمَّا دَعَا، وَإِمَّا بَسَقَ فِيهَا، قَالَ: فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَانَا لِلْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ، قَالَ: فَبَايَعْتُهُ أَوَّلَ النَّاسِ ثُمَّ بَايَعَ وَبَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ، قَالَ: بَايِعْ يَا سَلَمَةُ، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي أَوَّلِ النَّاسِ، قَالَ: وَأَيْضًا، قَالَ: وَرَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَزِلًا يَعْنِي لَيْسَ مَعَهُ سِلَاحٌ، قَالَ: فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَفَةً أَوْ دَرَقَةً ثُمَّ بَايَعَ حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ، قَالَ: أَلَا تُبَايِعُنِي يَا سَلَمَةُ؟، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فِي أَوَّلِ النَّاسِ، وَفِي أَوْسَطِ النَّاسِ، قَالَ: وَأَيْضًا، قَالَ: فَبَايَعْتُهُ الثَّالِثَةَ، ثُمَّ قَالَ لِي يَا سَلَمَةُ: أَيْنَ حَجَفَتُكَ أَوْ دَرَقَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ عَزِلًا، فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنَّكَ كَالَّذِي قَالَ الْأَوَّلُ اللَّهُمَّ أَبْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي، ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا فِي بَعْضٍ وَاصْطَلَحْنَا، قَالَ: وَكُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَسْقِي فَرَسَهُ وَأَحُسُّهُ وَأَخْدِمُهُ وَآكُلُ مِنْ طَعَامِهِ، وَتَرَكْتُ أَهْلِي وَمَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَهْلُ مَكَّةَ وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ، أَتَيْتُ شَجَرَةً فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا، فَاضْطَجَعْتُ فِي أَصْلِهَا، قَالَ: فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَجَعَلُوا يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبْغَضْتُهُمْ فَتَحَوَّلْتُ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى وَعَلَّقُوا سِلَاحَهُمْ وَاضْطَجَعُوا، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِي، يَا لِلْمُهَاجِرِينَ قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ، قَالَ: فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي ثُمَّ شَدَدْتُ عَلَى أُولَئِكَ الْأَرْبَعَةِ وَهُمْ رُقُودٌ، فَأَخَذْتُ سِلَاحَهُمْ فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا فِي يَدِي، قَالَ، ثُمَّ قُلْتُ: وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ لَا يَرْفَعُ أَحَدٌ مِنْكُمْ رَأْسَهُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِي فِيهِ عَيْنَاهُ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَجَاءَ عَمِّي عَامِرٌ بِرَجُلٍ مِنْ الْعَبَلَاتِ يُقَالُ لَهُ مِكْرَزٌ يَقُودُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى فَرَسٍ، مُجَفَّفٍ فِي سَبْعِينَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: دَعُوهُمْ يَكُنْ لَهُمْ بَدْءُ الْفُجُورِ، وَثِنَاهُ فَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنْزَلَ اللَّهُ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ سورة الفتح آية 24 الْآيَةَ كُلَّهَا، قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَنِي لَحْيَانَ جَبَلٌ وَهُمُ الْمُشْرِكُونَ، فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ رَقِيَ هَذَا الْجَبَلَ اللَّيْلَةَ، كَأَنَّهُ طَلِيعَةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِظَهْرِهِ مَعَ رَبَاحٍ غُلَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، وَخَرَجْتُ مَعَهُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ مَعَ الظَّهْرِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَاقَهُ أَجْمَعَ وَقَتَلَ رَاعِيَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا رَبَاحُ: خُذْ هَذَا الْفَرَسَ، فَأَبْلِغْهُ طَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمُشْرِكِينَ قَدْ أَغَارُوا عَلَى سَرْحِهِ، قَالَ: ثُمَّ قُمْتُ عَلَى أَكَمَةٍ، فَاسْتَقْبَلْتُ الْمَدِينَةَ، فَنَادَيْتُ ثَلَاثًا يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ خَرَجْتُ فِي آثَارِ الْقَوْمِ أَرْمِيهِمْ بِالنَّبْلِ وَأَرْتَجِزُ، أَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَأَصُكُّ سَهْمًا فِي رَحْلِهِ حَتَّى خَلَصَ نَصْلُ السَّهْمِ إِلَى كَتِفِهِ، قَالَ: قُلْتُ: خُذْهَا، وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَعْقِرُ بِهِمْ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ أَتَيْتُ شَجَرَةً، فَجَلَسْتُ فِي أَصْلِهَا ثُمَّ رَمَيْتُهُ، فَعَقَرْتُ بِهِ حَتَّى إِذَا تَضَايَقَ الْجَبَلُ، فَدَخَلُوا فِي تَضَايُقِهِ عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَجَعَلْتُ أُرَدِّيهِمْ بِالْحِجَارَةِ، قَالَ: فَمَا زِلْتُ كَذَلِكَ أَتْبَعُهُمْ حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ مِنْ بَعِيرٍ مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي وَخَلَّوْا بَيْنِي وَبَيْنَهُ، ثُمَّ اتَّبَعْتُهُمْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً وَثَلَاثِينَ رُمْحًا يَسْتَخِفُّونَ وَلَا يَطْرَحُونَ شَيْئًا، إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ آرَامًا مِنَ الْحِجَارَةِ يَعْرِفُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، حَتَّى أَتَوْا مُتَضَايِقًا مِنْ ثَنِيَّةٍ، فَإِذَا هُمْ قَدْ أَتَاهُمْ فُلَانُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ، فَجَلَسُوا يَتَضَحَّوْنَ يَعْنِي يَتَغَدَّوْنَ، وَجَلَسْتُ عَلَى رَأْسِ قَرْنٍ، قَالَ الْفَزَارِيُّ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟، قَالُوا: لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ وَاللَّهِ مَا فَارَقَنَا مُنْذُ غَلَسٍ يَرْمِينَا حَتَّى انْتَزَعَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا، قَالَ: فَلْيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ أَرْبَعَةٌ، قَالَ: فَصَعِدَ إِلَيَّ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ فِي الْجَبَلِ، قَالَ: فَلَمَّا أَمْكَنُونِي مِنَ الْكَلَامِ، قَالَ: قُلْتُ: هَلْ تَعْرِفُونِي؟، قَالُوا: لَا، وَمَنْ أَنْتَ؟، قَالَ، قُلْتُ: أَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَا أَطْلُبُ رَجُلًا مِنْكُمْ إِلَّا أَدْرَكْتُهُ وَلَا يَطْلُبُنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ فَيُدْرِكَنِي، قَالَ أَحَدُهُمْ: أَنَا أَظُنُّ، قَالَ: فَرَجَعُوا، فَمَا بَرِحْتُ مَكَانِي حَتَّى رَأَيْتُ فَوَارِسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، قَالَ: فَإِذَا أَوَّلُهُمْ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ عَلَى إِثْرِهِ أَبُو قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ، وَعَلَى إِثْرِهِ الْمِقْدَادُ بْنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِعِنَانِ الْأَخْرَمِ، قَالَ: فَوَلَّوْا مُدْبِرِينَ، قُلْتُ يَا أَخْرَمُ: احْذَرْهُمْ لَا يَقْتَطِعُوكَ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ يَا سَلَمَةُ: إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ، قَالَ: فَخَلَّيْتُهُ فَالْتَقَى هُوَ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: فَعَقَرَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَرَسَهُ وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَهُ، وَتَحَوَّلَ عَلَى فَرَسِهِ وَلَحِقَ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَطَعَنَهُ فَقَتَلَهُ، فَوَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَتَبِعْتُهُمْ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ حَتَّى مَا أَرَى وَرَائِي مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا غُبَارِهِمْ شَيْئًا حَتَّى يَعْدِلُوا قَبْلَ غُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ، يُقَالُ لَهُ ذَو قَرَدٍ لِيَشْرَبُوا مِنْهُ وَهُمْ عِطَاشٌ، قَالَ: فَنَظَرُوا إِلَيَّ أَعْدُو وَرَاءَهُمْ، فَخَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ يَعْنِي أَجْلَيْتُهُمْ عَنْهُ، فَمَا ذَاقُوا مِنْهُ قَطْرَةً، قَالَ: وَيَخْرُجُونَ فَيَشْتَدُّونَ فِي ثَنِيَّةٍ، قَالَ: فَأَعْدُو فَأَلْحَقُ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَأَصُكُّهُ بِسَهْمٍ فِي نُغْضِ كَتِفِهِ، قَالَ: قُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: يَا ثَكِلَتْهُ أُمُّهُ أَكْوَعُهُ بُكْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ يَا عَدُوَّ نَفْسِهِ أَكْوَعُكَ بُكْرَةَ، قَالَ: وَأَرْدَوْا فَرَسَيْنِ عَلَى ثَنِيَّةٍ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَلَحِقَنِي عَامِرٌ بِسَطِيحَةٍ فِيهَا مَذْقَةٌ مِنْ لَبَنٍ وَسَطِيحَةٍ فِيهَا مَاءٌ، فَتَوَضَّأْتُ وَشَرِبْتُ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي حَلَّأْتُهُمْ عَنْهُ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَخَذَ تِلْكَ الْإِبِلَ وَكُلَّ شَيْءٍ اسْتَنْقَذْتُهُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَكُلَّ رُمْحٍ وَبُرْدَةٍ، وَإِذَا بِلَالٌ نَحَرَ نَاقَةً مِنَ الْإِبِلِ الَّذِي اسْتَنْقَذْتُ مِنَ الْقَوْمِ، وَإِذَا هُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلِّنِي فَأَنْتَخِبُ مِنَ الْقَوْمِ مِائَةَ رَجُلٍ فَأَتَّبِعُ الْقَوْمَ، فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ فِي ضَوْءِ النَّارِ، فَقَالَ يَا سَلَمَةُ: أَتُرَاكَ كُنْتَ فَاعِلًا؟، قُلْتُ: نَعَمْ وَالَّذِي أَكْرَمَكَ، فَقَالَ: إِنَّهُمُ الْآنَ لَيُقْرَوْنَ فِي أَرْضِ غَطَفَانَ "، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: نَحَرَ لَهُمْ فُلَانٌ جَزُورًا، فَلَمَّا كَشَفُوا جِلْدَهَا رَأَوْا غُبَارًا، فَقَالُوا: أَتَاكُمُ الْقَوْمُ، فَخَرَجُوا هَارِبِينَ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ خَيْرَ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَخَيْرَ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ، قَالَ: ثُمَّ أَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَيْنِ سَهْمَ الْفَارِسِ وَسَهْمَ الرَّاجِلِ، فَجَمَعَهُمَا لِي جَمِيعًا ثُمَّ أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَسِيرُ، قَالَ: وَكَانَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ لَا يُسْبَقُ شَدًّا، قَالَ: فَجَعَلَ يَقُولُ أَلَا مُسَابِقٌ إِلَى الْمَدِينَةِ هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ، فَجَعَلَ يُعِيدُ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُ كَلَامَهُ، قُلْتُ: أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا، قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي وَأُمِّي ذَرْنِي فَلِأُسَابِقَ الرَّجُلَ، قَالَ: إِنْ شِئْتَ، قَالَ: قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَيْكَ وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ فَعَدَوْتُ، قَالَ: فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ أَسْتَبْقِي نَفَسِي ثُمَّ عَدَوْتُ فِي إِثْرِهِ، فَرَبَطْتُ عَلَيْهِ شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، ثُمَّ إِنِّي رَفَعْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ، قَالَ: فَأَصُكُّهُ بَيْنَ كَتِفَيْهِ، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ سُبِقْتَ وَاللَّهِ، قَالَ: أَنَا أَظُنُّ، قَالَ: فَسَبَقْتُهُ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا لَبِثْنَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ حَتَّى خَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَجَعَلَ عَمِّي عَامِرٌ يَرْتَجِزُ بِالْقَوْمِ تَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتِ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ هَذَا؟، قَالَ: أَنَا عَامِرٌ، قَالَ: غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ، قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِنْسَانٍ يَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ، قَالَ فَنَادَى عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَهُوَ عَلَى جَمَلٍ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ لَوْلَا مَا مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ، قَالَ: خَرَجَ مَلِكُهُمْ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ وَيَقُولُ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، قَالَ وَبَرَزَ لَهُ عَمِّي عَامِرٌ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرٌ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ، قَالَ: فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ وَذَهَبَ عَامِرٌ يَسْفُلُ لَهُ، فَرَجَعَ سَيْفُهُ عَلَى نَفْسِهِ فَقَطَعَ أَكْحَلَهُ، فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَخَرَجْتُ، فَإِذَا نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ قَتَلَ نَفْسَهُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَ ذَلِكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ، قَالَ: كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَلِكَ بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ وَهُوَ أَرْمَدُ، فَقَالَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلِيًّا فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ وَهُوَ أَرْمَدُ حَتَّى أَتَيْتُ بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَسَقَ فِي عَيْنَيْهِ فَبَرَأَ وَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ وَخَرَجَ مَرْحَبٌ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ، قَالَ: فَضَرَبَ رَأْسَ مَرْحَبٍ، فَقَتَلَهُ ثُمَّ كَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ "، قَالَ إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِطُولِهِ، وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ بِهَذَا.
سیدنا ابن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب ہم حدیبیہ میں پہنچے سو ہم چودہ سو آدمی تھے (یہی مشہو روایت ہے اور ایک روایت میں تیرہ سو اور ایک روایت میں پندرہ سو آئے ہیں) اور وہاں پچاس بکریاں تھیں جن کو کنویں کا پانی سیر نہ کر سکتا تھا (یعنی ایسا کم پانی تھا کنویں میں) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے مینڈھ پر بیٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی یا تھوکا کنویں میں وہ اس وقت ابل آیا۔ پھر ہم نے جانوروں کو پانی پلایا اور خود بھی پیا۔ بعد اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو بلایا بیعت کے لیے درخت کی جڑ میں (اسی درخت کو شجرۂ رضوان کہتے ہیں اور اس درخت کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ «إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّـهَ يَدُ اللَّـهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ فَمَن نَّكَثَ فَإِنَّمَا يَنكُثُ عَلَىٰ نَفْسِهِ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِمَا عَاهَدَ عَلَيْهُ اللَّـهَ فَسَيُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا» (۴۸/الفتح: ۱۰) میں نے سب سے پہلے لوگوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لیتے رہے لیتے رہے، یہاں تک کہ آدھے آدمی بیعت کر چکے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ بیعت کر۔ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو آپ سے اول ہی بیعت کر چکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سہی“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہتا (بے ہتھیار) دیکھا تو ایک بڑی سی ڈھال یا چھوٹی سی ڈھال دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت لینے لگے، یہاں تک کہ لوگ ختم ہونے لگے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! مجھ سے بیعت نہیں کرتا۔“ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کی بیعت کر چکا اول لوگوں میں، پھر بیچ کے لوگوں میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر سہی“، غرض میں نے تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! تیری وہ بڑی ڈھال یا چھوٹی ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی۔“میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا چچا عامر مجھے ملا، وہ نہتا تھا میں نے وہ پھر اس کو دے دی۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیری مثال اس اگلے شخص کی سی ہوئی جس نے دعا کی تھی یا اللہ! مجھے ایسا دوست دے جس کو میں اپنی جان سے زیادہ چاہوں۔“ پھر مشرکوں نے صلح کے پیام بھیجے یہاں تک کہ ہر ایک طرف کے آدمی دوسری طرف جانے لگے اور ہم نے صلح کر لی، سلمہ نے کہا: میں طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا، ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا، ان کی پیٹھ کھجاتا، ان کی خدمت کرتا، انہی کے ساتھ کھانا کھاتا اور میں نے اپنا گھر بار، دھن دولت سب چھوڑ دیا تھا، اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کی جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ہم میں ہر ایک دوسرے سے ملنے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے تلے سے کانٹے جھاڑے اور جڑ کے پاس لیٹا۔ اتنے میں چار آدمی مشرکوں میں سے آئے مکہ والوں میں سے اور لگے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا کہنے۔ مجھے غصہ آیا، میں دوسرے درخت کے نیچے چلا گیا، انہوں نے اپنے ہتھیار لٹکائے اور لیٹ رہے، وہ اسی حال میں تھے کہ یکایک وادی کے نشیب سے کسی نے آواز دی، دوڑو اے مہاجرین! ابن زینم (صحابی) مارے گئے۔ یہ سنتے ہی میں نے اپنی تلوار سونتی اور ان چاروں آدمیوں پر حملہ کیا، وہ سو رہے تھے، ان کے ہتھیار میں نے لے لیے اور گٹھا بنا کر ایک ہاتھ میں رکھے، پھر میں نے کہا: قسم اس کی جس نے عزت دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو، تم میں سے جس نے سر اٹھایا، میں ایک مار دوں گا اس عضو پر جس میں اس کی دونوں آنکھیں ہیں۔ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا لایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس اور میرا چچا عامر عبلات (ایک شاخ ہے قریش کی) میں سے ایک شخص کو لایا جس کو مکرز کہتے تھے وہ اس کو کھینچتا ہوا لایا گھوڑے پر، جس پر جھول پڑی تھی اور ستر آدمیوں کے ساتھ مشرکوں میں سے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھا۔ پھر فرمایا: ”چھوڑ دو ان کو۔ مشرکوں کی طرف سے عہد شکنی شروع ہونے دو۔ پھر دوبارہ بھی انہی کی طرف سے ہونے دو۔“ (یعنی ہم اگر ان لوگوں کو ماریں تو صلح کے بعد ہماری طرف سے عہد شکنی ہو گی یہ مناسب نہیں پہلے کافروں کی طرف سے عہد شکنی ہو ایک بار نہیں دو بار تب ہم کو بدلہ لینا برا نہیں) آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو معاف کر دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُم بِبَطْنِ مَكَّةَ مِن بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ» (۴۸/الفتح: ۲۴)اخیر تک ”یعنی اس اللہ نے ان کے ہاتھوں کو روکا تم سے اور تمہارے ہاتھوں کو روکا ان سے مکہ کی سرحد میں جب فتح دے چکا تھا تم کو ان پر۔“ پھر ہم لوٹے مدینہ کو، راہ میں ایک منزل پر اترے، جہاں ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے بیچ میں ایک پہاڑ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اس شخص کے لیے جو اس پہاڑ پر چڑھ جائے رات کو اور پہرہ دے آپ کا اور آپ کے اصحاب کا۔ سلمہ نے کہا: میں رات کو اس پہاڑ پر دو یا تین بار چڑھا (اور پہرہ دیتا رہا)، پھر ہم مدینہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیاں اپنے رباح غلام کو دیں اور میں بھی اس کے ساتھ تھا، طلحہ کا گھوڑا لیے ہوئے چراگاہ میں پہنچانے کے لیے ان اونٹنیوں کے ساتھ، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمٰن فزاری (مشرک) نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں کو لوٹ لیا اور سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو مار ڈالا۔ میں نے کہا: اے رباح! تو یہ گھوڑا لے اور طلحہ کے پاس پہنچا دے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر کر کہ کافروں نے آپ کی اونٹنیاں لوٹ لیں، پھر میں ایک ٹیلہ پر کھڑا ہوا اور مدینہ کی طرف منہ کر کے میں تین بار آوز دی «يا صباحاه» بعد اس کے میں ان لٹیروں کے پیچھے روانہ ہوا تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتا ہوا «انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع» یعنی ”میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے۔“ پھر میں کسی کے قریب ہوتا اور ایک تیر اس کی کاٹھی میں مارتا جو اس کے کاندھے تک پہنچ جاتا (کاٹھی کو چیر کر) اور کہتا یہ لے اور میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کمینوں کی تباہی کا دن ہے، پھر قسم اللہ کی میں برابر تیر مارتا رہا اور زخمی کرتا رہا جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے تلے آ کر اس کی جڑ میں بیٹھ جاتا اور ایک تیر مارتا وہ سوار زخمی ہو جاتا یہاں تک کہ وہ پہاڑ کے تنگ راستے میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور وہاں سے پتھر مارنا شروع کیے اور برابر ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تھا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کا تھا نہ بچا جو میرے پیچھے نہ رہ گیا اور لٹیروں نے اس کو نہ چھوڑ دیا ہو (تو سب اونٹ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے ان سے چھین لیے) سلمہ نے کہا: پھر میں ان کے پیچھے چلا، تیر مارتا ہوا یہاں تک کہ تیس چادروں میں سے زیادہ اور تیس بھالوں سے زیادہ ان سے چھینیں وہ اپنے تئیں ہلکا کرتے تھے (بھاگنے کے لئے) اور جو چیز وہ پھینکتے میں اس پر ایک نشان رکھ دیتا پتھر کا تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو اس کو پہچان لیں (کہ یہ غنیمت کا مال ہے اور اس کو لے لیں) یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی میں آئے اور وہاں ان کو بدر فزاری کا بیٹا ملا، وہ سب بیٹھے صبح کا ناشتہ کرنے لگے اور میں ایک چھوٹی ٹیکری کی چوٹی پر بیٹھا۔ فزاری نے کہا: یہ کون شخص ہے۔ وہ بولے اس شخص نے ہم کو تنگ کر دیا۔ قسم اللہ کی اندھیری رات سے ہمارے ساتھ ہے برابر تیر مارے جاتا ہے یہاں تک کہ جو کچھ ہمارے پاس تھا سب چھین لیا۔ فزاری نے کہا: تم میں سے چار آدمی اس کو جا کر مار لیں۔ یہ سن کر چار آدمی میری طرف چڑھے پہاڑ پر جب وہ اتنے دور آ گئے کہ میری بات سن سکیں تو میں نے کہا: تم مجھے جانتے ہو۔ انہوں نے کہا: نہیں، میں نے کہا: میں سلمہ ہوں، اکوع کا بیٹا (اکوع ان کے دادا تھے لیکن دادا کی طرف اپنے کو منسوب کیا بوجہ شہرت کے اور سلمہ کے باپ کا نام عمرو تھا اور عامر ان کے چچا تھے کیوں کہ وہ اکوع کے بیٹے تھے) قسم اس ذات کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں تم میں سے جس کو چاہوں گا مارڈالوں گا (تیر سے) اور تم میں سے کوئی مجھے نہیں مار سکتا، ان میں ایک شخص بولا۔ یہ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے پھر وہ سب لوٹے۔ میں وہاں سے نہیں چلا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے سوار نظر آئے جو درختوں میں گھس رہے تھے۔ سب سے آگے اخرم اسدی تھے، ان کے پیچھے ابوقتادہ اان کے پیچھے مقداد بن اسود کندی۔ میں نے اخرم کے گھوڑے کی باگ تھام لی، یہ دیکھ کر وہ لٹیرے بھاگے۔ میں کہا: اے اخرم تم ان سے بچے رہنا ایسا نہ ہو یہ تم کو مار ڈالیں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نہ آ لیں۔ انہوں نے کہا: اے سلمہ! اگر تجھ کو یقین ہے اللہ کا اور آخرت کے دن کا اور تو جانتا ہے کہ جنت سچ ہے اور جہنم سچ ہے تو مت روک مجھ کو شہادت سے۔ (یعنی بہت ہو گا تو یہی کہ میں ان لوگوں کے ہاتھ شہید ہوں گا اس سے کیا بہتر ہے) میں نے ان کو چھوڑ دیا، ان کا مقابلہ ہوا عبدالرحمٰن فزاری، سے اخرم نے اس کے گھوڑے کو زخمی کیا اور عبدالرحمٰن نے برچھی سے اخرم کو شہید کیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ بیٹھا، اتنے میں سیدنا ابوقتادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہسوار آن پہنچے اور انہوں نے عبدالرحمٰن کو برچھی مار کر قتل کیا تو قسم اس کی جس نے بزرگی دی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک کو میں ان کا پیچھا کئے گیا، میں اپنے پاؤں سے ایسا دوڑ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے آپ کا کوئی صحابی نہ دکھلائی دیا نہ ان کا غبار یہاں تک کہ وہ لٹیرے آفتاب ڈوبنے سے پہلے ایک گھاٹی میں پہنچے جہاں پانی تھا اور اس کا نام ذی قرد تھا، وہ اترے پانی پینے کو پیاسے تھے، پھر مجھے دیکھا، میں ان کے پیچھے دوڑتا چلا آتا تھا آخر میں نے ان کو پانی پر سے ہٹا دیا وہ ایک قطرہ بھی نہ پی سکے، اب وہ دوڑتے چلے کسی گھاٹی کی طرف۔ میں بھی دوڑا اور ان میں سے کسی کو پاکر ایک تیر لگا دیا اس کے شانے کی ہڈی میں۔ اور میں نے کہا: لے اس کو اور میں بیٹا ہوں اکوع کا اور یہ دن کمینوں کی تباہی کا ہے۔ وہ بولا (اللہ کرے اکوع کا بیٹا مرے اور) اس کی ماں اس پر روئے۔ کیا وہی اکوع ہے جو صبح کو میرے ساتھ تھا۔ میں نے کہا: ہاں اے دشمن اپنی جان کے وہی اکوع ہے جو صبح کو تیرے ساتھ تھا۔ سلمہ بن اکوع نے کہا: ان لٹیروں کے دو گھوڑے سقط ہو گئے (دوڑتے دوڑتے) انہوں نے ان کو چھوڑ دیا ایک گھاٹی میں، میں ان گھوڑوں کو کھینچتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا۔ وہاں مجھ کو عامر ملے ایک چھاگل دودھ کی پانی ملا ہوا اور ایک چھاگل پانی کی لیے ہوئے، میں نے وضو کیا اور دودھ پیا (اللہ اکبر! سلمہ بن اکوع کی ہمت صبح سویرے سے دوڑتے دوڑتے رات ہو گئی گھوڑے تھک گئے، اونٹ تھک گئے، لوگ مر گئے، اسباب رہ گیا پر سلمہ نہ تھکے اور دن بھر میں کچھ کھایا نہ پیا اللہ جل جلالہ کی امداد تھی) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پانی پر تھے جہاں سے میں نے لٹیروں کو بھگایا تھا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب اونٹ لے لیے ہیں اور سب چیزیں جو میں نے مشرکوں سے چھینی تھیں سب برچھی اور چادریں اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے ان اونٹوں میں سے جو میں نے چھینی تھی ایک اونٹ نحر کیا اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کی کلیجی اور کوہان بھون رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دیجیئے مجھ کو اجازت لشکر میں سے سو آدمی چن لینے کی پھر میں لٹیروں کا پیچھا کرتا ہوں اور ان میں سے کوئی شخص باقی نہیں رہے جو خبر دے اپنی قوم کو جا کر (یعنی سب کو مار ڈالتا ہوں) یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، یہاں تک داڑھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھل گئیں انگار کی روشنی میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے سلمہ! تو یہ کر سکتا ہے۔“ میں نے کہا: ہاں! قسم اس کی جس نے آپ کو بزرگی دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو اب غطفان کی سرحد میں پہنچ گئے وہاں ان کی مہمانی ہو رہی ہے۔“ اتنے میں ایک شخص آیا غطفان میں سے۔ وہ بولا: فلاں شخص نے ان کے لیے ایک اونٹ کاٹا تھا وہ اس کی کھال نکال رہے تھے۔ اتنے میں ان کو گرد معلوم ہوئی۔ وہ کہنے لگے لوگ آ گئے تو وہاں سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج کے دن ہمارے سواروں میں بہتر سوار ابوقتادہ ہیں اور پیادوں میں سب سے بڑھ کر سلمہ بن اکوع ہیں۔“ سلمہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دو حصہ دیئے۔ ایک حصہ سوار کا اور ایک حصہ پیادے کا اور دونوں مجھ ہی کو دے دیئے۔ بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے ساتھ بٹھایا عضباء پر مدینہ کو لوٹتے وقت۔ ہم چل رہے تھے کہ ایک انصاری جو دوڑنے میں کسی سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہنے لگا کوئی ہے جو مدینہ کو مجھ سے آگے دوڑ جائے اور بار بار یہی کہتا تھا جب میں نے اس کا کہنا سنا تو اس سے کہا تو بزرگ کی بزرگی نہیں کرتا اور بزرگ سے نہیں ڈرتا۔ وہ بولا: نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکی بزرگی کرتا ہوں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، مجھے چھوڑ دیجئے میں اس مرد سے آگے بڑھوں گا دوڑ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا اگر تیرا جی چاہے۔“ تب میں نے کہا میں آتا ہوں تیری طرف اور میں نے اپنا پاؤں ٹیڑھا کیا اور کود پڑا پھر میں دوڑا اور جب ایک یا دو چڑھاؤ باقی رہے تو دم کو سنبھالا پھر جو دوڑا تو اس سے مل گیا۔ یہاں تک کہ ایک گھونسا دیا میں نے اس کے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں اور میں نے کہا: قسم اللہ کی اب میں آگے بڑھا پھر اس سے آگے پہنچا مدینہ کو (تو معلوم ہوا کہ مسابقت درست ہے بلاعوض اور بعوض میں خلاف ہے) پھر قسم اللہ کی ہم صرف تین رات ٹھہرے بعد اس کے خیبر کی طرف نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو میرے چچا عامر نے رجز پڑھنا شروع کیا۔ ”قسم اللہ کی اگر اللہ ہدایت نہ کرتا تو ہم راہ نہ پاتے اور نہ صدقہ دیتے، نہ نماز پڑھتے اور ہم تیرے فضل سے بے پروا نہیں ہوئے تو جما رکھ ہمارے پاؤں کو اگر کافروں سے ملیں اور اپنی رحمت اور تسلی اتار ہمارے اوپر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کون ہے؟“ لوگوں نے کہا: عامر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ بخشے تجھ کو۔“ سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب کسی کے لیے خاص طور پر استغفار کرتے تو وہ ضرور شہید ہوتا تو سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے پکارا اور وہ اپنے اونٹ پر تھے۔ یا نبی اللہ! آپ نے ہم کو فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا عامر سے، سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر جب ہم خیبر میں آئے تو اس کا بادشاہ مرحب تلوار ہلاتا ہوا نکلا اور یہ رجز پڑھتا تھا «قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى مَرْحَبُ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ» ”یعنی خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں پورا ہتھیار بند بہادر آزمودہ کار جب لڑائیاں آئیں شعلے اڑاتی ہوئی۔“ یہ سن کر میرے چچا عامر نکلے اس کے مقابلہ کے لیے اور انہوں نے یہ رجز پڑھا «عقَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى عَامِرٌ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُغَامِرٌ» ”یعنی خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں۔ پور ہتھیار بند لڑائی میں گھسنے والا۔“ پھر دونوں کا ایک ایک وار ہوا تو مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کی ڈھال پر پڑی اور عامر نے نیچے سے وار کرنا چاہا تو ان کی تلوار انہی کو آ لگی اور شہ رگ کٹ گئی اسی سے مر گئے۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں نکلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب کو دیکھا وہ کہہ رہے ہیں عامر کا عمل لغو ہو گیا اس نے اپنے تئیں آپ مار ڈالا۔ یہ سن کر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا روتا ہوا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! عامر کا عمل لغو ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کون کہتا ہے۔“ میں نے کہا: آپ کے اصحاب کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جھوٹ کہا جس نے کہا بلکہ اس کو دوہرا ثواب ہے۔“ پھر رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایسے شخص کو نشان دوں گا جو دوست رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول کو یا اللہ اور رسول اس کو دوست رکھتے ہیں۔“ (ابن ہشام کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ اللہ فتح دے گا اس کے ہاتھوں پر اور وہ بھاگنے والا نہیں) سلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان کو لیا کھینچتا ہوا ان کی آنکھیں دکھ رہی تھیں یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن ڈال دیا وہ اسی وقت اچھے ہو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نشان دیا اور مرحب نکلا اور کہنے لگا «قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّى مَرْحَبُ شَاكِى السِّلاَحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ» ۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں، یہ کہا «أَنَا الَّذِى سَمَّتْنِى أُمِّى حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ» ”یعنی میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا۔ مثل اس شیر کے جو جنگلوں میں ہوتا ہے (یعنی شیر ببر) نہایت ڈراؤنی صورت (کہ اس کے دیکھنے سے خوف پیدا ہو) میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلے سندرہ دیتا ہوں۔ (سندرہ صاع سے بڑا پیمانہ ہے یعنی وہ تو میرے اوپر ایک خفیف حملہ کرتے ہیں اور میں ان کا کام ہی تمام کر دیتا ہوں) پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی اور وہ اسی وقت جہنم کو روانہ ہوا۔ بعد اس کے اللہ تعالیٰ نے فتح دی ان کے ہاتھوں پر۔ ایک اور سند کے ساتھ سیدنا عکرمہ بن عمار رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث اس حدیث سے بھی زیادہ تفصیل سے نقل کی ہے۔ اور دوسری میں اسی طرح ہے۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ " أَنَّ ثَمَانِينَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ هَبَطُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيمِ مُتَسَلِّحِينَ يُرِيدُونَ غِرَّةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَأَخَذَهُمْ سِلْمًا فَاسْتَحْيَاهُمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَكَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَكُمْ عَلَيْهِمْ سورة الفتح آية 24 ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اسّی (۸۰) آدمی مکہ والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر اترے تنعیم کے پہاڑ سے، وہ چاہتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دھوکا دیں اور غفلت میں حملہ کریں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پکڑ لیا اور قید کیا، بعد اس کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوڑ دیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اس آیت کو اتارا «وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ» ۔ یعنی اللہ وہ ہے جس نے روکا ان کے ہاتھوں کو تم سے (اور ان کا فریب کچھ نہ چلا)اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے (تم نے ان کو قتل نہ کیا) مکہ کی سرحد میں تمہارے فتح ہو جانے کے بعد ان پر۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ " أَنَّ أُمَّ سُلَيْمٍ اتَّخَذَتْ يَوْمَ حُنَيْنٍ خِنْجَرًا، فَكَانَ مَعَهَا، فَرَآهَا أَبُو طَلْحَةَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذِهِ أُمُّ سُلَيْمٍ مَعَهَا خِنْجَرٌ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا هَذَا الْخِنْجَرُ؟، قَالَتْ: اتَّخَذْتُهُ إِنْ دَنَا مِنِّي أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ بَقَرْتُ بِهِ بَطْنَهُ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَضْحَكُ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْتُلْ مَنْ بَعْدَنَا مِنَ الطُّلَقَاءِ انْهَزَمُوا بِكَ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ كَفَى وَأَحْسَنَ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدہ ام سلیم رضی اللہ عنہا (ان کی ماں)نے حنین کے دن ایک خنجر لیا، وہ ان کے پاس تھا، یہ ابوطلحہ نے دیکھا تو عرض کیا، یا رسول اللہ! یہ ام سلیم ہے اور ان کے پاس ایک خنجر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ خنجر کیسا ہے۔ ام سلیم نے کہا: یا رسول اللہ! اگر کوئی مشرک میرے پاس آئے گا تو اس خنجر سے اس کا پیٹ پھار ڈالوں گی۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے۔ پھر ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے سوا جو لوگ جھوٹے ہیں (فتح مکہ کے روز) ان کو مار ڈالیے انہوں نے شکست پائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اس وجہ سے مسلمان ہو گئے اور دل سے مسلمان نہیں ہوئے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے ام سلیم! کافروں کے شر کو اللہ تعالیٰ کفایت کر گیا اور اس نے ہم پر احسان کیا۔“ (اب تیرے خنجر باندھنے کی ضرورت نہیں)۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ فِي قِصَّةِ أُمِّ سُلَيْمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَ حَدِيثِ ثَابِتٍ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِأُمِّ سُلَيْمٍ وَنِسْوَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ مَعَهُ إِذَا غَزَا فَيَسْقِينَ الْمَاءَ وَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم اور چند انصار کی عورتوں کو جہاد میں اپنے ساتھ رکھتے تھے، وہ پانی پلاتیں اور زخمیوں کی دوا کرتیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ابْنُ عَمْرٍو وَهُوَ أَبُو مَعْمَرٍ الْمِنْقَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ وَهُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا كَانَ يَوْمُ أُحُدٍ انْهَزَمَ نَاسٌ مِنَ النَّاسِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُو طَلْحَةَ بَيْنَ يَدَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُجَوِّبٌ عَلَيْهِ بِحَجَفَةٍ، قَالَ: وَكَانَ أَبُو طَلْحَةَ رَجُلًا رَامِيًا شَدِيدَ النَّزْعِ وَكَسَرَ يَوْمَئِذٍ قَوْسَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ يَمُرُّ مَعَهُ الْجَعْبَةُ مِنَ النَّبْلِ، فَيَقُولُ: انْثُرْهَا لِأَبِي طَلْحَةَ، قَالَ: وَيُشْرِفُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ إِلَى الْقَوْمِ، فَيَقُولُ أَبُو طَلْحَةَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي لَا تُشْرِفْ لَا يُصِبْكَ سَهْمٌ مِنْ سِهَامِ الْقَوْمِ نَحْرِي دُونَ نَحْرِكَ، قَالَ: وَلَقَدْ رَأَيْتُ عَائِشَةَ بِنْتَ أَبِي بَكْرٍ، وَأُمَّ سُلَيْمٍ وَإِنَّهُمَا لَمُشَمِّرَتَانِ أَرَى خَدَمَ سُوقِهِمَا تَنْقُلَانِ الْقِرَبَ عَلَى مُتُونِهِمَا ثُمَّ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِهِمْ ثُمَّ تَرْجِعَانِ فَتَمْلَآَنِهَا ثُمَّ تَجِيئَانِ تُفْرِغَانِهِ فِي أَفْوَاهِ الْقَوْمِ وَلَقَدْ وَقَعَ السَّيْفُ مِنْ يَدَيْ أَبِي طَلْحَةَ إِمَّا مَرَّتَيْنِ وَإِمَّا ثَلَاثًا مِنَ النُّعَاسِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جب احد کا دن ہوا تو چند لوگوں نے شکست پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا اور ابوطلحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تھے اور سپر کا اوٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئے ہوئے تھے اور ابوطلحہ بڑے تیر انداز تھے، ان کی اس دن دو یا تین کمانیں ٹوٹ گئیں تو جب کوئی شخص تیروں کا ترکش لے کر نکلتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے فرماتے: ”یہ تیر رکھ دے ابوطلحہ کے لیے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم گردن اٹھا کر کافروں کو دیکھتے تو ابوطلحہ کہتے: اے نبی اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں آپ گردن مت اٹھایئے ایسا نہ ہو کہ کافروں کا کوئی تیر آپ کے لگ جائے، میرا گلا آپ کے گلے کے برابر رہے (یعنی ابوطلحہ نے اپنا گلا آگے کیا تھا اگر کوئی تیر وغیرہ آئے تو مجھ کو لگے) سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ بنت ابی بکر اور ام سلیم رضی اللہ عنہن کو دیکھا، وہ دونوں کپڑے اٹھائے ہوئے تھیں (جیسے کام کے وقت کوئی اٹھاتا ہے) اور میں ان کی پنڈلی کی پازیب کو دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں مشکیں لاتی تھیں اپنی پیٹھ پر، پھر ان کو لوگوں کے منہ میں ڈالتیں اور سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے سامنے دو تین بار تلوار گر پڑی اونگھ سے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، " أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ عَنْ خَمْسِ خِلَالٍ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ " لَوْلَا أَنْ أَكْتُمَ عِلْمًا مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ كَتَبَ إِلَيْهِ، نَجْدَةُ أَمَّا بَعْدُ، فَأَخْبِرْنِي هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ؟، وَهَلْ كَانَ يَضْرِبُ لَهُنَّ بِسَهْمٍ؟، وَهَلْ كَانَ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ؟، وَمَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ؟، وَعَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ؟، فَكَتَبَ إِلَيْهِ ابْنُ عَبَّاسٍ، كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي، هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْزُو بِالنِّسَاءِ، وَقَدْ كَانَ يَغْزُو بِهِنَّ فَيُدَاوِينَ الْجَرْحَى وَيُحْذَيْنَ مِنَ الْغَنِيمَةِ، وَأَمَّا بِسَهْمٍ فَلَمْ يَضْرِبْ لَهُنَّ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُ الْيَتِيمِ، فَلَعَمْرِي إِنَّ الرَّجُلَ لَتَنْبُتُ لِحْيَتُهُ وَإِنَّهُ لَضَعِيفُ الْأَخْذِ لِنَفْسِهِ ضَعِيفُ الْعَطَاءِ مِنْهَا، فَإِذَا أَخَذَ لِنَفْسِهِ مِنْ صَالِحِ مَا يَأْخُذُ النَّاسُ، فَقَدْ ذَهَبَ عَنْهُ الْيُتْمُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْخُمْسِ لِمَنْ هُوَ، وَإِنَّا كُنَّا، نَقُولُ: هُوَ لَنَا، فَأَبَى عَلَيْنَا قَوْمُنَا ذَاكَ "،
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ (حروری خارجیوں کے سردار) نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پانچ باتیں پوچھیں۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اگر علم کے چھپانے کی سزا نہ ہوتی تو میں اس کو جواب نہ لکھتا (کیونکہ وہ مردود خارجی بدعتیوں کا سردار تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مذمت میں فرمایا کہ وہ دین میں سے ایسا نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے) نجدہ نے یہ لکھا تھا بعد حمد و صلوٰۃ کے۔ تم بتلاؤ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے اور کیا ان کو کوئی حصہ دیتے تھے (غنیمت کے مال میں سے) اور کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو بھی مارتے تھےاور یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور خمس کس کا ہے؟سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب لکھا تو لکھ کر مجھ سے پوچھتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاد میں عورتوں کو ساتھ رکھتے تھے تو بے شک ساتھ رکھتے تھے، وہ دوا کرتی تھیں زخموں کی، اور ان کو کچھ انعام ملتا اور حصہ تو ان کا نہیں لگایا گیا (ابوحنیفہ، ثوری، لیث، شافعی اور جمہور علماء کا یہی قول ہے لیکن اوزاعی کے نزدیک عورت کا حصہ لگایا جائے گا اگر وہ لڑے یا زخمیوں کا علاج کرے۔ اور مالک کے نزدیک اس کو انعام بھی نہ ملے گا، اور یہ دونوں مذہب مردود ہیں اس حدیث صحیح سے) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کو (کافروں کے) نہیں مارتے تھے تو بھی بچوں کو مت مارنا (اس طرح عورتوں کو لیکن اگر بچے اور عورتیں لڑیں تو ان کا مارنا جائز ہے) اور تو نے لکھا، مجھ سے پوچھتا ہے کہ یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو قسم میری عمر دینے والے کی بعض آدمی ایسا ہوتا ہے کہ اس کی داڑھی نکل آتی ہے بر وہ نہ لینے کا شعور رکھتا ہے نہ دینے کا(وہ یتیم ہے یعنی اس کا حکم یتیموں کا سا ہے) پھر جب اپنے فائدے کے لیے وہ اچھی باتیں کرنے لگے جیسے کہ لوگ کرتے ہیں تو اس کی یتیمی جاتی رہی۔ اور تو نے لکھا مجھ سے پوچھتا ہے خمس کو کس کا ہے؟ تو ہم یہ کہتے تھے کہ خمس ہمارے لیے ہے، پر ہماری قوم نے نہ مانا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ كِلَاهُمَا، عَنْ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، أَنَّ نَجْدَةَ كَتَبَ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ يَسْأَلُهُ، عَنْ خِلَالٍ بِمِثْلِ حَدِيثِ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ حَاتِمٍ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ الصِّبْيَانَ، فَلَا تَقْتُلِ الصِّبْيَانَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الصَّبِيِّ الَّذِي قَتَلَ وَزَادَ إِسْحَاقُ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ حَاتِمٍ وَتُمَيِّزَ الْمُؤْمِنَ فَتَقْتُلَ الْكَافِرَ وَتَدَعَ الْمُؤْمِنَ.
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا ان سے پوچھتا تھا کئی باتیں، بیان کیا حدیث کو اسی طرح، اس روایت میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑکوں کو نہیں مارتے تھے تو بھی لڑکوں کو مت مار مگر تجھ کو ایسا علم ہو جیسے خضر علیہ السلام کو تھا جب انہوں نے ایک لڑکے کو مار ڈالا تھا۔ اسحاق کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ تو تمیز کرے مومن کی پھر قتل کرے کافر کو اور چھوڑ دے مومن کو(یعنی تو پہچان لے کہ کون سا بچہ بڑا ہو کر مومن ہو گا اور کون سا کافر اور یہ محال ہے اس لیے قتل بھی بچوں کا ناجائز ہے۔)
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: " كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ الْحَرُورِيُّ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ " يَسْأَلُهُ عَنِ الْعَبْدِ وَالْمَرْأَةِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ، هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا؟، وَعَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ، وَعَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ الْيُتْمُ؟، وَعَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، فَقَالَ لِيَزِيدَ: اكْتُبْ إِلَيْهِ فَلَوْلَا أَنْ يَقَعَ فِي أُحْمُوقَةٍ، مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ، اكْتُبْ إِنَّكَ كَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ يَحْضُرَانِ الْمَغْنَمَ هَلْ يُقْسَمُ لَهُمَا شَيْءٌ؟، وَإِنَّهُ لَيْسَ لَهُمَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ قَتْلِ الْوِلْدَانِ وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَقْتُلْهُمْ وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْهُمْ، إِلَّا أَنْ تَعْلَمَ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ صَاحِبُ مُوسَى مِنَ الْغُلَامِ الَّذِي قَتَلَهُ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ؟، وَإِنَّهُ لَا يَنْقَطِعُ عَنْهُ اسْمُ الْيُتْمِ حَتَّى يَبْلُغَ وَيُؤْنَسَ مِنْهُ رُشْدٌ، وَكَتَبْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ ذَوِي الْقُرْبَى مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا زَعَمْنَا أَنَّا هُمْ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا "،
یزید بن ہرمز سے روایت ہے، نجدہ بن عامر حروری نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا، پوچھتا تھا ان سے کہ غلام اور عورت اگر جہاد میں شریک ہوں تو ان کو حصہ ملے گا یا نہیں اور بچوں کا قتل کیسا ہے اور بچوں کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے اور «ذوالقربيٰ» (جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے کہ پانچویں حصہ میں سے ان کو دیا جائے گا) کون ہیں؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یزید سے کہا تو لکھ جواب اس کو اور اگر وہ حماقت میں پڑنے والا نہ ہوتا تو میں اس کو نہ لکھتا (یعنی مجھ کو اس بات کا خیال ہے کہ اگر میں ان مسئلوں کا جواب اس کو نہ دوں تو وہ شرع کے خلاف حماقت کی بات نہ کر بیٹھے) لکھ یہ کہ تو نے مجھ کو لکھ کر پوچھا: عورت اور غلام کو حصہ ملے گا یا نہیں، جب وہ جہاد میں شریک ہوں؟ تو ان کو حصہ نہیں ملے گا البتہ انعام مل سکتا ہے (جتنا امام مناسب جانے۔ شافی رحمہ اللہ اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے اور مالک رحمہ اللہ کے نزدیک غلام کو انعام بھی نہ ملے گا جیسے عورت کو، اور حسن اور ابن سیرین اور نخعی اور حکم رحمتہ اللہ علیہم کے نزدیک اگر غلام لڑے تو اس کو بھی حصہ دیں گے) اور تو نے لکھ کر پوچھا مجھ سے بچوں کے قتل کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو قتل نہیں کیا اور تو بھی مت کر مگر تجھے ایسا علم ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ(خضر علیہ السلام) کو تھا۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا یتیم کو کہ اس کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو یتیم کا نام اس سے نہ جائے گا جب تک بالغ نہ ہو اور اس کو عقل نہ آئے۔ اور تو نے لکھ کر پوچھا ذوالقربیٰ کو۔ یہ ہم لوگ ہیں ہماری سمجھ میں پر ہماری قوم نے نہ مانا۔
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أُمَيَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ، حَدَّثَنِيعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِهَذَا الْحَدِيثِ بِطُولِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ ، حَدَّثَنِي قَيْسُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ بْنُ عَامِرٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَشَهِدْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ حِينَ قَرَأَ كِتَابَهُ وَحِينَ كَتَبَ جَوَابَهُ، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : وَاللَّهِ لَوْلَا أَنْ أَرُدَّهُ عَنْ نَتْنٍ يَقَعُ فِيهِ مَا كَتَبْتُ إِلَيْهِ وَلَا نُعْمَةَ عَيْنٍ، قَالَ: " فَكَتَبَ إِلَيْهِ إِنَّكَ سَأَلْتَ عَنْ سَهْمِ ذِي الْقُرْبَى الَّذِي ذَكَرَ اللَّهُ مَنْ هُمْ؟، وَإِنَّا كُنَّا نَرَى أَنَّ قَرَابَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُمْ نَحْنُ، فَأَبَى ذَلِكَ عَلَيْنَا قَوْمُنَا، وَسَأَلْتَ عَنِ الْيَتِيمِ مَتَى يَنْقَضِي يُتْمُهُ؟، وَإِنَّهُ إِذَا بَلَغَ النِّكَاحَ، وَأُونِسَ مِنْهُ رُشْدٌ وَدُفِعَ إِلَيْهِ مَالُهُ فَقَدِ انْقَضَى يُتْمُهُ، وَسَأَلْتَ هَلْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْتُلُ مِنْ صِبْيَانِ الْمُشْرِكِينَ أَحَدًا؟، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَقْتُلُ مِنْهُمْ أَحَدًا وَأَنْتَ فَلَا تَقْتُلْ مِنْهُمْ أَحَدًا، إِلَّا أَنْ تَكُونَ تَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا عَلِمَ الْخَضِرُ مِنَ الْغُلَامِ حِينَ قَتَلَهُ، وَسَأَلْتَ عَنِ الْمَرْأَةِ وَالْعَبْدِ هَلْ كَانَ لَهُمَا سَهْمٌ مَعْلُومٌ إِذَا حَضَرُوا الْبَأْسَ؟، فَإِنَّهُمْ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ سَهْمٌ مَعْلُومٌ، إِلَّا أَنْ يُحْذَيَا مِنْ غَنَائِمِ الْقَوْمِ "،
یزید بن ہرمز سے روایت ہے نجدہ بن عامر نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس موجود تھا جب انہوں نے نجدہ کی کتاب پڑھی اور جب اس کا جواب لکھا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: قسم اللہ کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ وہ نجاست میں گر جائے گا(یعنی حماقت کی بات کر بیٹھے گا) تو میں اس کو جواب نہ لکھتا اور اللہ کرے اس کی آنکھ کبھی ٹھنڈی نہ ہو (یعنی اس کو خوشی نصیب نہ ہو) پھر یہ لکھا، تو نے مجھ سے پوچھا ذوالقربیٰ کا حصہ جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ کون ہیں؟ تو ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت والے ہم لوگ ہیں لیکن ہماری قوم نے نہ مانا۔ اور تو نے پوچھا: یتیم کی یتیمی کب ختم ہوتی ہے تو جب وہ نکاح کے قابل ہو جائے اور اس کو عقل آ جائے اور اس کا مال اس کے سپرد ہو جائے اس کی یتیمی ختم ہو گئی اور تو نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے بچوں کو مارتے تھے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکوں کے کسی بچے کو نہیں مارتے تھے اور تو بھی مت مار۔ البتہ اگر تجھے اتنا علم ہو جیسے خضر علیہ السلام کو تھا اور جب انہوں نے لڑکے کو مارا تو خیر، اور تو نے پوچھا: عورت اور غلام کا کوئی حصہ لگے گا اگر وہ لڑائی میں شریک ہوں تو ان کو کوئی حصہ نہیں ملتا تھا مگر انعام کے طور پر غنیمت میں سے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: كَتَبَ نَجْدَةُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، فَذَكَرَ بَعْضَ الْحَدِيثِ وَلَمْ يُتِمَّ الْقِصَّةَ كَإِتْمَامِ مَنْ ذَكَرْنَا حَدِيثَهُمْ.
یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں کہ نجدہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو لکھا اور پھر کچھ حدیث ذکر کی اور پورا قصہ ذکر نہیں کیا جس طرح دوسری حدیثوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ حَفْصَةَ بِنْتِ سِيرِينَ ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ ، قَالَتْ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ: أَخْلُفُهُمْ فِي رِحَالِهِمْ، فَأَصْنَعُ لَهُمُ الطَّعَامَ وَأُدَاوِي الْجَرْحَى وَأَقُومُ عَلَى الْمَرْضَى "،
سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑائیوں میں رہی، میں مردوں کے ٹھہرنے کی جگہ میں رہتی اور ان کا کھانا پکاتی اور زخمیوں کی دوا کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی۔
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
ہشام بن حسان نے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت نقل کی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ خَرَجَ يَسْتَسْقِي بِالنَّاسِ، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ اسْتَسْقَى، قَالَ: فَلَقِيتُ يَوْمَئِذٍ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ ، وَقَالَ: لَيْسَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ غَيْرُ رَجُلٍ أَوْ بَيْنِي وَبَيْنَهُ رَجُلٌ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَهُ كَمْ غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: تِسْعَ عَشْرَةَ، فَقُلْتُ: كَمْ غَزَوْتَ أَنْتَ مَعَهُ؟، قَالَ: سَبْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا أَوَّلُ غَزْوَةٍ غَزَاهَا؟، قَالَ: ذَاتُ الْعُسَيْرِ، أَوْ الْعُشَيْرِ ".
ابواسحاق سے روایت ہے، عبداللہ بن یزید استسقاء کی نماز کے لیے نکلے تو لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں، پھر دعا مانگی پانی کے لیے، اس دن میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ملا میرے اور ان کے بیچ میں صرف ایک شخص تھا ان سے پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے جہاد کیے ہیں؟ انہوں نے کہا: انیس۔ میں نے پوچھا تم کتنے غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے۔ انہوں کہا: سترہ میں۔ میں نے پوچھا: پہلا جہاد کون سا تھا؟ انہوں نے کہا: ذات العسیر یا ذات العشیر (جو ایک مقام کا نام ہے، سیرۃ ابن ہشام میں اس کو غزوۃ العشیرہ لکھا ہے۔ اس میں لڑائی نہ ہوئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشیرہ تک جا کر مدینہ کو پلٹ آئے۔ یہ واقعہ ۲ جری میں ہوا۔ ابن ہشام نے کہا کہ سب سے پہلے غزوہ ودان ہوا مدینہ میں آنے کے ایک سال کے اخیر پر۔ اس میں بھی لڑائی نہیں ہوئی)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ سَمِعَهُ مِنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، وَحَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً لَمْ يَحُجَّ غَيْرَهَا حَجَّةَ الْوَدَاعِ ".
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس جہاد کیے اور ہجرت کے بعد صرف ایک حج کیا جسے حجتہ الوداع کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَالَ جَابِرٌ: لَمْ أَشْهَدْ بَدْرًا وَلَا أُحُدًا مَنَعَنِي أَبِي، فَلَمَّا قُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ يَوْمَ أُحُدٍ لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ قَطُّ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انیس جہاد کیے اور میں بدر اور احد میں شریک نہ تھا، میرے باپ نے مجھے جانے نہیں دیا پھر جب میرے باپ مارے گئے احد کے دن تو میں کسی لڑائی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر نہیں رہا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ . ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْجَرْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ ، قَالَا جَمِيعًا، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " غَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَ عَشْرَةَ غَزْوَةً، قَاتَلَ فِي ثَمَانٍ مِنْهُنَّ، وَلَمْ يَقُلْ أَبُو بَكْرٍ مِنْهُنَّ "، وَقَالَ فِي حَدِيثِهِ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ.
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس جہاد کیے اور ان میں آٹھ میں لڑے۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ، قَالَ: " غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّ عَشْرَةَ غَزْوَةً ".
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ جہاد کیے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَلَمَةَ ، يَقُولُ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، وَخَرَجْتُ فِيمَا يَبْعَثُ مِنَ الْبُعُوثِ تِسْعَ غَزَوَاتٍ مَرَّةً عَلَيْنَا أَبُو بَكْرٍ، وَمَرَّةً عَلَيْنَا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ "،
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ سات جہاد کیے اور جو لشکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھیجا کرتے تھے ان میں نو بار میں نکلا۔ ایک بار تو ہمارے سردار سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور دوسری بار سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ تھے۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فِي كِلْتَيْهِمَا سَبْعَ غَزَوَاتٍ.
حاتم سے اسی سند کے ساتھ مروی ہے مگر اس روایت میں دونوں جگہ سات کا عدد مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ وَاللَّفْظُ لِأَبِي عَامِرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، وَنَحْنُ سِتَّةُ نَفَرٍ بَيْنَنَا بَعِيرٌ نَعْتَقِبُهُ، قَالَ: فَنَقِبَتْ أَقْدَامُنَا، فَنَقِبَتْ قَدَمَايَ وَسَقَطَتْ أَظْفَارِي، فَكُنَّا نَلُفُّ عَلَى أَرْجُلِنَا الْخِرَقَ، فَسُمِّيَتْ غَزْوَةَ ذَاتِ الرِّقَاعِ "، لِمَا كُنَّا نُعَصِّبُ عَلَى أَرْجُلِنَا مِنَ الْخِرَقِ، قَالَ أَبُو بُرْدَةَ: فَحَدَّثَ أَبُو مُوسَى بِهَذَا الْحَدِيثِ، ثُمَّ كَرِهَ ذَلِكَ، قَالَ: كَأَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يَكُونَ شَيْئًا مِنْ عَمَلِهِ أَفْشَاهُ، قَالَ أَبُو أُسَامَةَ: وَزَادَنِي غَيْرُ بُرَيْدٍ وَاللَّهُ يُجْزِي بِهِ.
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جہاد میں اور ہم چھ آدمیوں میں ایک اونٹ تھا، باری باری اس پر چڑھتے تھے، آخر ہمارے پاؤں زخمی ہو گئے تو میرے دونوں پاؤں زخمی ہو گئے اور ناخن گر پڑے۔ ہم نے ان زخموں پر چیتھڑے لپیٹے، اس وجہ سے اس جہاد کا نام غزوۂ ذات الرقاع ہوا کیونکہ ہم اپنے پاؤں پر رقاع یعنی چیتھڑے باندھتے تھے۔ سیدنا موسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو بیان کیا پھر برا جانا اس کا بیان کرنا کیونکہ ان کو ناگوار تھا اپنا عمل ظاہر کرنا۔ سیدنا ابواسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا برید رضی اللہ عنہ کے سوا دوسرے راویوں نے اس حدیث میں اتنا بڑھایا کہ اللہ تعالیٰ بدلہ دے گا اس کا (یعنی ہماری محنت اور تکلیف کا)
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مَالِكٍ . ح وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نِيَارٍ الْأَسْلَمِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ بَدْرٍ، فَلَمَّا كَانَ بِحَرَّةِ الْوَبَرَةِ أَدْرَكَهُ رَجُلٌ قَدْ كَانَ يُذْكَرُ مِنْهُ جُرْأَةٌ وَنَجْدَةٌ، فَفَرِحَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ رَأَوْهُ، فَلَمَّا أَدْرَكَهُ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: جِئْتُ لِأَتَّبِعَكَ وَأُصِيبَ مَعَكَ، قَالَ لَهُ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ، قَالَتْ: ثُمَّ مَضَى حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالشَّجَرَةِ أَدْرَكَهُ الرَّجُلُ، فَقَالَ لَهُ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ، قَالَ: فَارْجِعْ فَلَنْ أَسْتَعِينَ بِمُشْرِكٍ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعَ فَأَدْرَكَهُ بِالْبَيْدَاءِ، فَقَالَ لَهُ: كَمَا قَالَ أَوَّلَ مَرَّةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَانْطَلِقْ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی طرف نکلے جب حرۃ الوبرہ (جو مدینہ سے چار میل پر ہے) میں پہنچے تو ایک شخص ملا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے، جس کی بہادری اور اصالت کا شہرہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم اس کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا تو اس نے کہا: میں اس لیے آیا کہ آپ کے ساتھ چلوں اور جو ملے اس میں حصہ پاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے یقین ہے اللہ اور اس کے رسول کا۔“ وہ بولا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، جب شجرہ پہنچے تو وہ شخص پھر ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا جو پہلے فرمایا تھا اور فرمایا کہ”لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔“ پھر وہ لوٹ گیا۔ بعد اس کے پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم سے ملا بیدآء میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی فرمایا تھا”تو یقین رکھتا ہے اللہ اور اس کے رسول پر۔“ اب وہ شخص بولا: ہاں! میں یقین رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو خیر چل۔“