مشکوٰة شر یف

جہاد میں لڑنے کا بیان

جہاد میں لڑنے کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل ہوں گی جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جہاد کی ترغیب دی ہے اور جہاد کے فضائل و ثواب بیان فرمائے ہیں۔

شہید کی منزلت جنت ہے

حضرت جابر کہتے ہیں کہ احد کی جنگ کے دن(میدان جنگ میں) ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کہنے لگا کہ  آپ بتائیے ! اگر میں مارا جاؤں (یعنی دشمنان اسلام سے لڑتا ہوا شہید ہو جاؤں) تو میں کہاں ہوں گا یعنی جنت میں جاؤں گا یا دوزخ میں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جنت میں  (یہ سنتے ہی) اس شخص نے (جنت میں پہنچ جانے کی تمنا میں مرتبہ شہادت جلد سے جلد حاصل کرنے کے لئے) وہ کھجوریں پھینک دیں جو (کھانے کے لئے) اس کے ہاتھ میں تھیں اور لڑائی میں مشغول ہو گیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ (بخاری و مسلم)

اعلان جہاد کے سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جنگی حکمت عملی

اور حضرت کعب ابن مالک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی غزوہ (یعنی جہاد کرنے) کا ارادہ کرتے تو اس کے بجائے دوسرے کا توریہ فرماتے یہاں تک کہ یہ غزوہ یعنی تبوک واقع ہوا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ تبوک سخت ترین گرمی کے زمانے میں کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے لئے دور دراز کا سفر فرمایا اور بے آب وگیاہ جنگلات کو طے کیا۔ نیز اس میں دشمنوں کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (جب اس غزوے کا ارادہ فرمایا تو) اس کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان صاف صاف اعلان کیا۔ (اور اس غزوے کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور پریشانیوں کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا) تاکہ وہ لوگ (جنگ کے لئے) اچھی طرح تیار ہو جائیں اور) اپنے سامان جہاد کو درست کر لیں ! نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کو ان رستوں اور مقامات کے بارے میں بھی بتا دیا تھا جن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (تبوک پہنچنے کے لئے) اختیار کرنا چاہتے تھے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

  توریہ  کے معنی ہیں  خبر کو چھپانا بایں طور پر کہ اصل بات کو چھپایا جائے اور دوسری بات کو ظاہر کیا جائے  چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ارادہ جہاد کے موقع پر یہ جنگی حکمت عملی اختیار فرماتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو جس مقام پر جہاد کے لئے جانا ہوتا اس کا اعلان نہ کرتے بلکہ اسی دوسرے مقام کے بارے میں مشہور کرا دیتے کہ وہاں جہاد کے لئے جانا ہے اور حکمت عملی آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس لئے اختیار فرماتے تھے تاکہ دشمن کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارادہ کا پتہ نہ چلے اور وہ غافل رہے ! اس طرح کی حکمت عملیاں دراصل جنگ جیتنے کے لئے انتہائی ضروری ہوتی ہیں اور دنیا کا ہر قانون ان کو رواہ رکھتا ہے اسی لئے اسلام نے بھی  الحرب خدعتہ  (لڑائی مکر و فریب کا نام ہے) کہہ کر جنگ میں اس طرح کے  فریب دینے کو جائز رکھا ہے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ توریہ بھی اگرچہ خدعہ  کی قسم سے تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کو صریح قول کے ذریعہ اختیار نہیں فرماتے تھے بلکہ بطریق تعریض و کنایہ اختیار فرماتے تھے جیسے اگر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی مقام پر جہاد کے لئے جانے کا ارادہ فرماتے کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی ارادے کا علم نہیں ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم صریح الفاظ میں کسی دوسرے مقام کا نام لے کر یہ بالکل نہیں کہتے تھے کہ میں فلاں جگہ کے جانے کا ارادہ رکھتا ہوں، تا کہ جھوٹ بولنا لازم نہ آئے۔

یہاں تک کہ یہ غزوہ الخ  حضرت کعب ابن مالک نے اس کے ذریعہ اس غزوہ یعنی عزوہ تبوک کی طرف اشارہ کیا جو ان کی ذات کے تعلق سے مشہور و معروف تھا، حضرت کعب ابن مالک بذات خود اس غزوہ میں شریک نہیں ہوئے تھے چنانچہ ان کا واقعہ بہت مشہور ہے جو قرآن کریم میں بھی مذکور ہے۔

 دور دراز کا سفر فرمایا  جہاد کرنے کے لئے تبوک جانے کو دور دراز کا سفر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ تبوک جو دمشق (شام) اور مدینہ کے درمیانی پر خیبر اور البلاد کے خطہ پر واقع ایک جگہ کا نام ہے، مدینہ سے اس زمانہ کی مسافت کے اعتبار سے چودہ منزل اور آج کل کے حساب کے مطابق تقریباً ٤٢٥ میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی حیات مبارکہ میں جن غزوات میں بہ نفس نفیس شرکت فرمائی ان میں یہ غزوہ تبوک واقع ٩ھ آخری غزوہ تھا۔ اس غزوہ کے موقع پر صحابہ کو بڑی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے بڑی بڑی تکلیفیں برداشت کیں۔

جنگ مکر و فریب نام ہے

اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جنگ مکر و فریب (کا نام) ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جنگ میں لشکر کی زیادہ تعداد اور بہت لڑنا کار آمد و مفید نہیں جتنا مکر و فریب مفید ہوتا ہے،جس کو آج کے مہذب الفاظ میں  حکمت عملی  بھی کہتے ہیں۔ اسی مکر و فریب یا حکمت عملی کا کرشمہ ہوتا ہے کہ پوری جنگ ایک ہی داؤ سے ختم ہو جاتی ہے جو داؤ کھاتا ہے مارا جاتا ہے اور داؤ مارنے والا جنگ پر غالب آ جاتا ہے۔چنانچہ بہترین کمانڈر وہی کہلاتا ہے جو میدان جنگ میں اپنی تدبیر اور حکمت عملی سے دشمن کی بڑی سے بڑی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دے۔

اگرچہ علماء اسلام نے متفقہ طور پر کفار کے ساتھ جانے والی جنگ میں مکر و فریب کو جائز قرار دیا ہے لیکن اس بارے میں کچھ حدود بھی مقرر کی ہیں تا کہ اسلام کی اخلاقی تعلیمات پر کوئی حرف نہ آئے چنانچہ انہوں نے لکھا ہے کہ مکر و فریب کا رستہ اختیار کرنے کی صورت میں پہلی بات تو یہ ملحوظ ہونی چاہئے کہ کھلا ہوا جھوٹ نہ بولا جائے اور یہ کہ کسی بھی ایسی صورت میں مکر و فریب نہ کیا جائے جس میں مسلمانوں کی طرف سے دیا ہوا عہد امان توڑا جائے۔ پھر علماء نے  فریب دینے  کی کچھ صورتیں بھی متعین کر دی ہیں مثلاً اس طرح فریب دیا جائے کہ اسلامی لشکر میدان جنگ سے ہٹ جائے یا جنگ بند کر دے تا کہ دشمن غافل ہو جائے اور یہ سمجھ لے کہ اسلامی لشکر جنگ سے بھاگ گیا ہے اور پھر دشمن کی اس غفلت سے فائدہ اٹھا کر اس یکبارگی حملہ کر دیا جائے، اس طرح کی ایسی کوئی بھی حکمت عملی اختیار کی جائے جس میں مذکورہ بالا دونوں امور کا لحاظ ہو۔

حدیث میں مذکور لفظ  خدعتہ  اصل میں تو خ کے پیش اور دال کے جزم کے ساتھ یعنی خدعۃ  ہے لیکن زیادہ فصیح خ کے زبر کے ساتھ یعنی خدعۃ ہے جس کے معنی یہی ہیں کہ لڑائی ایک ہی فریب (داؤ) سے ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ لفظ خ کے زیر کے ساتھ (یعنی لفظ فریب کا اہم نوع خدعۃ اور خ کے پیش اور دال کے زبر کے ساتھ یعنی خدعۃ بھی منقول ہے، اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ  جنگ بہت دھوکے میں ڈالنے والی ہے  یعنی جو لوگ دشمن کے مقابلہ پر جاتے ہیں ان کے دل میں طرح طرح کے خیال پیدا ہوتے ہیں لیکن جب وہ میدان جنگ میں پہنچتے ہیں اور لڑائی ہوتی ہے تو ان کے خیالات کے برعکس نتائج ظاہر ہوتے ہیں۔ کوئی شخص فتح پانے اور دشمن کو مار ڈالنے کا خیال لے کر جاتا ہے مگر میدان جنگ میں شکت کا سامنا کرتا ہے اور خود مارا جاتا ہے اسی طرح کوئی شخص شکست و ناکامی کے مایوس کن خیالات لے کر جاتا ہے مگر وہاں جنگ کا پانسہ پلٹ جاتا ہے اور وہ کامیاب و کامران ہو کر آتا ہے غرضیکہ جنگ اسی طرح دھوکے اور فریب میں مبتلا کرنے والی چیز ہے

جہاد میں عورتوں کو لے جانے کا مسئلہ

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم جب (صحابہ کے ہمراہ جہاد میں تشریف لے جاتے تو اپنے ساتھ ام سلیم اور انصار کی دوسری عورتوں کو بھی لے جاتے وہ عورتیں (غازیان اسلام کو) پانی پلاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرتیں (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مجاہدین کو پانی پلانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی اور دیکھ بھال کرنے کی غرض سے زیادہ عمر والی عورتوں کو اپنے ساتھ لے جانا جائز ہے اور اگر مباشرت و صحبت کی غرض سے لے جانا ہو تو پھر آزاد عورتوں (یعنی اپنی بیویوں) کی بد نسبت لونڈیوں کو لے جانا بہتر ہے (یہ حکم اس وقت تھا جب کہ ایسی لونڈیاں رکھنے کا رواج تھا جن کے ساتھ صحبت و مباشرت جائز تھی

 

 

 اور حضرت ام عطیہ کہتی ہیں کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ سات غزووں میں شریک ہوئی ہوں میں (میدان جنگ میں) ان (مجاہدین) کے پیچھے ان کے ڈیروں میں رہا کرتی تھی جہاد میں ان کے لئے کھانا پکاتی زخمیوں کی مرہم پٹی اور دوا دارو کرتی اور بیماروں کی دیکھ بھال کیا کرتی تھی (مسلم)

جہاد میں عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کا مسئلہ

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں اور لڑکوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے (بخاری مسلم)

 

تشریح

 

ہدایہ میں لکھا ہے کہ عورت لڑکے جاماندہ اندھے اور شیخ فانی (بڈھے کھوسٹ) کو قتل نہ کیا جائے ہاں اگر کوئی لڑکا یا دیوانہ جنگ میں شریک ہوں اور قتال کر رہے ہوں تو ان کو قتل کیا جا سکتا ہے اسی طرح ملکہ عورت کو بھی قتل کیا جا سکتا ہے نیز اس لڑکے کو بھی قتل کرنا ہے جو بادشاہ سردار ہو کیونکہ دشمن کے بادشاہ سردار کے قتل ہو جانے سے ان کی شان و شوکت ٹوٹ جاتی ہے

 

 

 اور حضرت صعب ابن جثامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ان مشرکین کے بارے میں پوچھا گیا۔ جو گھروں والے ہیں (یعنی جو آبادیوں میں رہتے ہیں) کہ اگر ان پر شبخون مارا جائے اور اس کے نتیجے میں ان کی عورت اور بچے مارے جائیں (تو کیا حکم ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جواب میں فرمایا کہ وہ بھی انہیں میں سے ہیں اور ایک روایت میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اپنے باپوں کے تابع ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جہاد میں عورتوں اور بچوں کو قصداً قتل نہ کیا جائے ہاں اگر وہ شبخون کی صورت میں مارے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ ان کے جو لڑنے والے بڑے مرد ہیں ان سے ان کا امتیاز نہ ہونے کی وجہ سے وہ بھی قتل کے حکم میں اپنے بڑوں کے مانند ہیں۔

دشمن کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا مسئلہ

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے درختوں کو کاٹنے اور جلانے کا حکم فرمایا اسی کے بارے میں (دربار رسالت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابی شاعر حضرت حسان ابن ثابت انصاری نے یہ شعر کہا۔

وہان علی سراۃ بنی لؤی حریق بالبریرۃ مستطیر

یعنی بنی لوئی کے سرداروں کے لئے پھیلے ہوئے بویرہ کو جلا ڈالنا آسان ہو گیا۔

نیز اسی کے متعلق یہ آیت کریمہ نازل ہوئی :

(مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّيْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَاۗىِٕمَةً عَلٰٓي اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ) 59۔ الحشر:5)۔

 تم نے کھجور کے درخت پر سے جو کچھ کاٹا یا جو کچھ اس کی جڑ پر کھٹا ہوا چھوڑ دیا (یعنی جو کچھ نہیں کاٹا) یہ سب خدا کے حکم سے ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو یہاں یہودیوں سے بھی واسطہ پڑا، اس وقت مدینہ میں ان (یہودیوں) کے تین قبائل آباد تھے، بنو نضیر، بنو قریظہ، اور بنو قینقاع، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک باہمی معاہدہ کیا جس کے تحت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان بہت اہم سماجی اور معاشرتی معاملات سے متعلق اور آپس میں میل ملاپ سے رہنے کے بارے میں کچھ دفعات طے ہوئیں جن میں یہودیوں کو مسلمانوں کے سیاسی اور تمدنی حقوق میں صراحت کے ساتھ مساوات دے کر  پورے حقوق شہریت  عطا کئے گئے اور ان کو مذبہی آزادی دے کر نہایت فیاضانہ رواداری کا رویہ برتا گیا اور مسلمانوں کی طرف سے ان پر عمل بھی کیا گیا، مگر یہودیوں کی طرف سے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی یہاں تک کہ بنو نصیر کے یہودیوں کی طرف سے اس حد تک عہد شکنی کا مظاہر ہوا کہ ان کی جانب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کی سازش بھی تیار کر لی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس ناپاک سازش پر مطلع کر دیا، چنانچہ ان یہودیوں کو مدینہ سے جلا وطن کر کے خیبر بھگا دیا گیا، ان کے کھجوروں کے باغات جلا ڈالے گئے اور ان کے مکانات کو تہس نہس کر دیا گیا۔

لؤی لام کے پیش اور ہمزہ کے زبر اور یاء کے تشدید کے ساتھ، نضر ابن کنانہ کی اولاد میں سے ایک شخص کا نام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد میں سے ہیں۔ اور بنی لؤی سے مراد قریش کے اشراف ہیں، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آ گئے تھے۔

 بویرہ  ایک جگہ کا نام تھا جہاں بنو نضیر کے یہودیوں کے باغات تھے اور جن کو صحابہ نے جلا ڈالا تھا۔

منقول ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بنو نضیر کے کھجوروں کے درختوں کا کاٹنے اور جلا ڈالنے کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ  محمد !' آپ تو زمین پر فساد برپا کرنے سے منع کرتے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے کھجوروں کے ان درختوں کو کیوں کٹوایا اور جلوا ڈالا؟  چنانچہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم کی توثیق کر دی اور یہ واضح کر دیا کہ ان یہودیوں کو جو سزا دی گئی ہے وہ حکم الٰہی کے مطابق ہے اور اسلام دشمن لوگوں کے درختوں کا کاٹنا اور جلانا جائز ہے۔

دشمن کی غفلت کا فائدہ اٹھا کر اس کو قتل اور غارتگری جائز ہے

اور حضرت عبداللہ ابن عون سے روایت ہے کہ (حضرت ابن عمر کے آزاد کردہ غلام ) حضرت نافع نے ان (عبداللہ ابن عون) کو ایک مکتوب بھیجا جس میں حضرت نافع عمر نے ان (نافع) سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم مصطلق پر اس وقت ٹوٹ پڑے تھے جب وہ مریسیع میں اپنے مویشیوں کے درمیان غافل پڑے تھے، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے لڑنے والوں کو قتل کر دیا اور ان کی عورتوں اور بچوں کو قیدی بنا کر لے آئے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

نبی مطلق قبیلہ خزاع کی ایک شاخ تھی اور مریسع ایک جگہ کا نام تھا جو مکہ ومدینہ کے درمیان مدینہ منورہ سے تقریباً ستر٧٠، اسی ٨٠ میل کے فاصلہ پر واقع تھا، یہاں کافی مقدار میں پانی موجود تھا جس پر بنی مصطلق کا تسلط تھا۔

 لڑنے والوں سے وہ لوگ مراد ہیں جو لڑنے کی صلاحیت و اہلیت رکھتے تھے یعنی عاقل و بالغ مرد اور  ذریت  سے ان کی عورتیں اور بچے مراد ہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام دشمن اگر کہیں غافل پڑے ہوں تو ان کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر ان پر اچانک ٹوٹ پڑنا اور ان کی حالت غفلت میں ان کو قتل کر دینا، نیز ان کے مال و اسباب پر قبضہ کر لینا جائز ہے۔

میدان جنگ سے متعلق ایک فوجی حکم

اور حضرت ابو اسید کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ بدر کے دن (میدان جنگ میں) جب کہ ہم قریش کے خلاف اور قریش مکہ ہمارے خلاف صف آراء ہو گئے تو ہمیں یہ حکم دیا کہ  جب وہ (دشمن یعنی قریش مکہ) تمہارے (اتنے) قریب آ جائیں (کہ تمہارے تیر ان تک پہنچ سکیں) تو ان پر تیر چلاؤ جب وہ تمہارے قریب آ جائیں اور اپنے تیروں کو باقی رکھو یعنی اپنے سب تیر ختم نہ کر ڈالو بلکہ ان کو احتیاط کے ساتھ استعمال کر کے کچھ باقی بھی رکھو تا کہ دشمن تمہارے نہتے ہونے کا فائدہ اٹھا کر تم پر غالب نہ آ جائے۔ (بخاری)

(وحدیث سعد ہل تنصرون سنذکر فی باب فضل الفقراء وحدیث البراء بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رہطا فی باب المعجزات ان شآء اللہ تعالیٰ۔)

اور حضرت سعد کی روایت (ہل تنصرورن باب فضل الفقراء) میں اور حضرت براء کی روایت بعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رہطا باب المعجزات میں ہم انشاء اللہ تعالیٰ ذکر کریں گے۔

میدان جنگ میں لشکر کی تیار ی

حضرت عبدالرحمن ابن عوف کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بدر میں ہمیں رات کو تعبیہ کیا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

  تعبیۃ  کے لغوی معنی ہیں تیار و مرتب کیا کہ مجاہدین اسلام کے بدن پر ہتھیار لگائے ان کی صفیں قائم کیں اور ہر ایک مجاہد کو اپنے اپنے مقام پر جمایا یعنی جس کو جس جگہ مناسب سمجھا وہاں کھڑا کر کے بتایا کہ دن میں جب جنگ شروع ہو تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ پر اسی طرح قائم رہے

مجاہدین اسلام کے لئے امتیازی علامات

اور حضرت مہلب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (غزوہ خندق میں) ہم سے فرمایا کہ اگر دشمن تم پر شبخون مارے تو تمہاری (یعنی مسلمانوں کی) علامت (حم لا ینصرون) کے الفاظ ہونے چاہئیں (ترمذی ابوداؤد)

 

تشریح

 

 فوجی اور جنگی قواعد و ضوابط میں عام طور سے یہ معمول ہوتا ہے کہ فوجیوں کے لئے کچھ مخصوص علامتیں اور نشان متعین کر دیئے جاتے ہیں جن سے موافق و مخالف کے درمیان امتیاز کیا جا سکے یہ علامتیں غیر لفظی نشانات کی صورتوں میں تھی متعین ہوتی ہیں جو فوجیوں کے بدن اور وردیوں پر لگائے جاتے ہیں اور لفظی اشارات کی صورت میں بھی ہوتی ہیں جن کو زبان سے ادا کر کے اپنی حیثیت و حقیقت کا اظہار کیا جاتا ہے۔چنانچہ سربراہ لشکر کی طرف سے اپنے لشکر والوں کو پہلے سے یہ بتا دیا جاتا ہے کہ اگر میدان جنگ میں یا کسی اور موقع پر تم سے پوچھا جائے کہ تم کون ہو تو یہ فلاں لفظ زبان سے ادا کرنا تا کہ اگر پوچھنے والا اپنے ہی لشکر کا فرد ہو تو تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔خاص طور پر شبخون مارے جانے کے وقت جب کہ عام افراتفری کا عالم ہوتا ہے اور اس موقع پر اپنے اور غیروں کے درمیان امتیاز کرنا مشکل ہوتا ہے اور اکثر اشتباہ ہو جاتا ہے ایسی علامات اور اشاراتی الفاظ کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔ آج کل کی رائج الوقت اصطلاحات میں ایسے اشاراتی الفاظ کو انگریزی میں  کوڈ ورڈ  (code word) کہتے ہیں۔ لہٰذا غزوہ حنین کے موقع پر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو دشمن کی طرف سے شبخون مارے جانے کا خطرہ پیدا ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسلمانوں کو آگاہ کر دیا کہ وہ ایسی حالت میں اپنی علامت (حٰم لا ینصرون) کے الفاظ کو قرار دیں تاکہ اس کے ذریعہ یہ پہنچانا جائے کہ کون مسلمان ہے اور کون کافر ہے۔ ان الفاظ کے معنی یہ ہیں (اے حم کے اتارنے والے ! دشمنوں کو کوئی مدد کو نہ ملے۔

 

 

 اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں کہ (کسی غزوے میں) لفظ  عبداللہ  تو مہاجرین کی علامت تھی اور لفظ  عبدالرحمن) انصار کی علامت تھی  (ابو داؤد)

 

 

 اور حضرت سلمہ بن اکوع کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ہم نے (ایک مرتبہ) حضرت ابوبکر صدیق کے ہمراہ (یعنی انکی سربراہی میں) جہاد کیا، چنانچہ ہم نے ان (دشمنوں) پر شبخون مارا اور ان کو قتل کیا اور اس رات میں ہماری شناختی علامت امت امت کے الفاظ تھے (ان الفاظ کے معنی ہیں  اے اللہ !دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتار دے۔ (ابو داؤد)

صحابہ کرام جنگ کے وقت شور وشغب ناپسند کرتے تھے

اور حضرت قیس ابن عباد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ (میدان جنگ میں) لڑائی کے وقت (اللہ کا نام لینے کے علاوہ) آواز کے (شور و شغب) کو ناپسند کرتے تھے۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 فوجیوں کی عام عادت ہوتی ہے کہ وہ میدان جنگ میں لڑائی کے وقت شور و شغب چیخ و پکار اور بے مقصد نعرہ بازی کرتے ہیں اور اپنی شجاعت و بہادری کے نعرے بلند کرتے ہیں تا کہ دشمن پر ہیبت و رعب پڑے لیکن صحابہ اس بات کی کوئی حقیقت نہیں جانتے تھے بلکہ وہ صرف اللہ کا نام بلند کرتے تھے (یعنی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا کرتے تھے) اور اگر ان کے منہ سے آواز بلند ہوتی تھی تو وہ صرف ذکر الٰہی پر مشتمل ہوتی تھی کیونکہ درحقیقت صرف اللہ ہی کا نام بلند کرنے میں دنیا و آخرت کی مطلب برآری ہے۔

دشمن کے بڑی عمر والوں کو قتل کرو اور چھوٹوں کو باقی رکھو

اور حضرت سمرہ ابن جندب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشرکین (یعنی دشمنوں) کے بڑی عمر والے لوگوں کو قتل کرو اور چھوٹی عمر والوں یعنی ان (دشمنوں) کے بچوں کو زندہ رہنے دو۔ (بخاری، ابو داؤد)

 

تشریح

 

 بڑی عمر والوں  سے مراد یا تو یہ نوجوان ہیں جو بچوں کے مقابلے میں بڑے ہوتے ہیں یا وہ بڈھے مراد ہیں جو مضبوط قوی کے مالک ہوں اور لڑنے کی طاقت و قوت رکھتے ہوں۔ جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے، شیخ فانی (یعنی بڈھے کھوسٹ) کو قتل کرنا درست نہیں ہے جو شیخ فانی جنگ میں اپنی عقل اور اپنی رائے کو مؤثر رکھتا ہو اور دشمن، لڑائی میں اس کی بتائی ہوئی تدبیروں پر عمل کرتا ہو تو اس کو قتل کرنا جائز ہے۔

دشمن کے شہر اور ان کے کھیت کھلیان وغیرہ کو جلا ڈالنا جائز ہے

اور حضرت عروہ کہتے ہیں کہ حضرت اسامہ نے مجھ سے یہ بیان کیا کہ (جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان (اسامہ) کو (ایک لشکر کا امیر بنا کر جہاد کے لئے بھیجا تو) یہ ہدایت و تاکید کی کہ  تم ابنا پر صبح کے وقت دھاوا بول دینا اور (دشمن کے گھر بار، کھیت کھلیان، اور درخت و  باغات کو) جلا ڈالنا۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

 ابنا ایک آبادی کا نام ہے۔ جو ملک شام میں واقع تھی، اور جہاں حضرت اسامہ ابن زید کو مجاہدین اسلام کا سردار بنا کر جہاد کے لئے بھیجا گیا تھا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام کے دشمنوں کے شہروں کو تاخت و تاراج کر دینا، ان کے گھر بار، کھیت کھلیان اور درخت و باغات کو جلا دینا جائز ہے۔

دشمن پر اس وقت حملہ کرو جب وہ بالکل قریب آ جائے

اور حضرت ابو اسید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ بدر کے دن (مجاہدین اسلام سے) فرمایا کہ (میدان جنگ میں) جب کفار (یعنی دشمن) تمہارے بالکل قریب آ جائیں تو ان پر تیر چلانا اور تلوار اس وقت تک نیام سے نہ کھینچنا جب تک کہ وہ تمہارے بالکل قریب نہ پہنچ جائیں۔ (ابو داؤد)

دشمن کے مزدوروں کو قتل کرنے کی ممانعت

اور حضرت رباح ابن ربیع کہتے ہیں کہ ہم نے ایک غزوے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ (میدان جنگ میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا کہ کچھ لوگ (ایک جگہ) کسی چیز کے پاس جمع ہو رہے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص کو بھیجا اور فرمایا کہ وہاں جا کر دیکھو، لوگ کس چیز کے پاس جمع ہو رہے ہیں، اس شخص نے واپس آ کر عرض کیا کہ ایک عورت کو قتل کر دیا گیا ہے، لوگ اس (کی نعش) کے پاس جمع ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  وہ عورت تو نہیں لڑ رہی تھی (پھر اس کو کیوں قتل کر دیا گیا ؟) لشکر کی اگلی صفوں کی کمان حضرت خالد ابن ولید کے سپرد تھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اس شخص کو (ان کے پاس) بھیجا کہ وہ جا کر خالد سے یہ کہہ دے کہ  کسی عورت اور مزدور کو قتل نہ کرو۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  مزدور  سے مراد وہ مزدور ہے جس کو میدان جنگ میں لڑنے کے لئے نہ لایا گیا ہو بلکہ خدمت اور دوسرے کام کاج کے لئے لایا گیا ہو۔

مجاہدین کو میدان جنگ بھیجتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ہدایات

اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجاہدین کو (جہاد کے لئے روانہ کرتے وقت) یہ ہدایت دیں کہ  جاؤ اللہ کا نام لے کر اللہ کی تائید توفیق کے ساتھ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے دین پر، یہاں سے کوچ کرو! (یاد رکھو !) شیخ فانی (یعنی بڈھے کھوسٹ) کی جان نہ مارنا، نہ چھوٹے لڑکے اور نہ عورت کو قتل کرنا، مال غنیمت میں خیانت نہ کرنا، مال غنیمت کو جمع کرنا، آپس میں صلح صفائی رکھنا (اصلحوا کے ایک معنی تو یہی ہیں کہ ہم مجاہدین اپنے آپس کے تنازعات کو ختم کر کے ایک دوسرے کے ساتھ میل ملاپ سے رہنا یا یہ معنی ہیں کہ اگر تم مصلحت دیکھو تو دشمن سے صلح کر لینا اور یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ تم اپنے دینی اور دنیاوی معاملات کو ٹھیک ٹھاک رکھنا) اور آپس میں (ایک دوسرے کے ساتھ) نیکی و بھلائی کرتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکی اور بھلائی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔  (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  شیخ فانی کی جان نہ مارنا  لیکن اگر کوئی بڈھا لڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو یا اس کی رائے اور اس کی جنگی تدابیر دشمن کے لئے نفع بخش اور مؤثر ہوں تو اس کی جان مارنا جائز ہے۔

 طفلا صغیرا  میں صغیرا  بدل اور بیان ہے لفظ  طفل  یعنی وہ لڑکا جو حد بلوغ کو نہ پہنچا ہو، اس حکم سے وہ لڑکا مستثنیٰ ہے جو دشمن کی قوم کا بادشاہ و سردار ہو یا جنگ میں حصہ لیتا ہو، اسی طرح سے عورت کو قتل کرنا ممنوع ہے، جو لڑائی میں شریک نہ ہو اور نہ اپنی قوم کی ملکہ اور جنگی معاملات میں رائے اور تدبیر پیش کرنے والی ہو۔

بدر کے میدان جنگ میں زعماء مکہ کی دعوت مبارزت

اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ جب معرکہ بدر کا دن آیا (اور میدان جنگ میں مجاہدین اسلام اور کفار مکہ، ایک دوسرے کے سامنے صف آراء ہو گئے تو (کفار مکہ میں سے) ابن ربیعہ (لڑنے کے لئے صف میں سے نکل کر) آگے بڑھا، اس کا بھائی (یعنی شیبہ ابن ربیعہ) بھی آیا، عتبہ نے پکار کر کہا  کون ہے جو (ہمارے مقابلہ پر) لڑنے کے لئے میدان میں آئے ؟ (مجاہدین اسلام کی جانب سے) اس کا جواب انصار کے کئی جوانوں نے دیا (یعنی وہ عتبہ اور اس کے ساتھیوں سے لڑنے کے لئے صف میں سے نکل کر میدان میں آئے) عتبہ نے (ان کو دیکھا تو) پوچھا کہ  تم کون ہو ؟ ان جوانوں نے عتبہ کو بتایا کہ ہم (مدینہ کے) انصار ہیں،عتبہ نے کہا کہ  ہمیں تمہاری ضرورت نہیں ہے (یعنی ہم تمہارے ساتھ لڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے) بلکہ ہم تو اپنے چچا کے بیٹوں (یعنی مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے والے قریشی مسلمانوں) سے لڑنا چاہتے ہیں۔ (یہ سن کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اپنی صف کی طرف مخاطب ہو کر) فرمایا  حمزہ ! تم کھڑے ہو جاؤ علی ! تم کھڑے ہو جاؤ) عبیدہ ابن حارث ! تم کھڑے ہو جاؤ (اور آگے بڑھ کر ان نشہ طاقت کے سر مستوں کا سر غرور و تکبر کچل دو)  چنانچہ حمزہ عتبہ کے مقابلہ پر گئے (اور اس کو مار ڈالا) میں (یعنی علی) شیبہ کے مقابلہ پر گیا (اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ و ولید کے درمیان دو سخت وار ہوئے اور ان میں سے ایک نے اپنے مقابل کو زخمی اور نڈھال کر دیا، پھر ہم نے ولید پر حملہ کیا اور اس کو مار ڈالا اور عبیدہ کو (جو ولید کے وار سے سخت زخمی ہو گئے تھے معرکہ کے میدان سے) اٹھا لائے۔ (احمد، ابو داؤد)

نئی کمک لانے کی غرض سے میدان جنگ سے بھاگ آنا جائز ہے

اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (کسی جگہ جہاد کرنے کے لئے) ہمارا ایک لشکر بھیجا (وہاں پہنچ کر ہمارے لشکر کے) لوگ بھاگ کھڑے ہوئے، چنانچہ ہم مدینہ واپس آئے تو (مارے شرم و ندامت کے) اپنے گھروں میں چھپ کر بیٹھ گئے اور ہم نے (آپس میں اپنے دل میں) کہا کہ  دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگ کر ہم نے جو گناہ کیا ہے اس کی وجہ سے گویا ' ہم تو ہلاک ہو گئے پھر تم رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عرض کیا کہ (یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) ! ہم تو میدان چھوڑ کر بھاگ آنے والے لوگ ہیں ؟ ' آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کے  (نہیں)  بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو اور میں تمہاری جماعت ہوں۔ (ترمذی)

 اور ابوداؤد نے بھی ایسی روایت نقل کی ہے۔ اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ  نہیں  بلکہ تم دوبارہ حملہ کرنے والے لوگ ہو۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں (جب ہم نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے کوئی جواب طلب کرنے یا کوئی سرزنش کرنے کے بجائے اس شفقت آمیز انداز میں ہماری ہمت بڑھائی ہے تو فرط عقیدت و محبت سے) ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قریب پہنچے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کا بوسہ لیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  میں مسلمانوں کی جماعت ہوں۔

 

تشریح

 

  عکر  کے معنی ہیں  لوٹنا  جنگ میں واپس چلے جانا  اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ اگر کوئی لشکر اپنی کمزوری محسوس کرتا ہو اور وہ دشمن کے مقابلہ سے اس نیت کے ساتھ بھاگ آئے کہ اپنے مرکز سے نئی مدد لے کر پھر میدان جنگ میں آئیں گے تو یہ گناہ نہیں اور چونکہ تم لوگ اسی نیت کے ساتھ میدان جنگ سے بھاگ آئے ہو اس لئے ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔

 میں مسلمانوں کی جماعت ہوں  آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی عظمت و  برکت کی بناء پر اپنی تنہا ذات شریف کو ایک پوری جماعت قرار دیا جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (ان ابراہیم کان امۃ)، نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ گویا اپنی مرکزیت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری ذات مسلمانوں کے لئے منبع قوت و طاقت ہے،جہاں سے انہیں مدد و نصرت حاصل ہوتی ہے لہٰذا اے ابن عمر ! تم اس عارضی پسپائی سے ہراساں اور دل گرفتہ نہ ہو میں تمہارا بھی مدد گار و حامی اور ناصر ہوں۔

وسنذکر حدیث امیۃ بن عبداللہ کان یستفتح وحدیث ابی الدرداء ابغونی فی ضعفائکم فی باب فضل الفقرآء ان شاء اللہ تعالیٰ

 اور امیہ ابن عبداللہ کی روایت کان یستفتح اور ابو درداء کی روایت ابغونی فی ضعفائکم ہم انشاء اللہ فضل الفقراء کے باب میں ذکر کریں گے۔

غزوہ طائف میں منجیق کا استعمال

اور ثوبان ابن یزید سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل طائف کے مقابلہ پر منجیق نصب کی۔ اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 قدیم آلات حرب میں  منجیق  کی حیثیت آج کل کے گولے پھینکنے والی توپ کی سی تھی۔چنانچہ یہ ایک ایسی دستی مشین تھی جس سے بڑے بڑے پتھر پھینکے جاتے تھے۔ بطور خاص جب کسی قلعہ وغیرہ کا محاصرہ کیا جاتا تو اس پر منجیق کے ذریعہ پتھر برسائے جاتے تھے۔

 طائف  آج بھی حجاز کا ایک بڑا شہر ہے جو مکہ مکرمہ سے اصلا تو ٤٠۔٤٥ میل کے فاصلہ پر جنوب مشرق میں واقع ہے لیکن ابھی کچھ دنوں پہلے تک وہاں پہنچنے کے لئے ایسا کوئی سیدھا راستہ نہیں تھا جس سے گاڑیاں آ جا سکیں اور پختہ یا خام سڑک ہو، مکہ مکرمہ سے طائف کے لیے سڑک گئی تھی وہ پہاڑوں کا چکر کھاتی ہوئی جاتی تھی اس لئے یہ راستہ طویل ہو جاتا تھا اس راستہ سے مکہ مکرمہ سے طائف کا فاصلہ ٨٥ میل بتایا جاتا ہے، اسی راستہ میں منی و عرفات ملتے ہیں اور محققین کے نزدیک یہی وہ راستہ تھا جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ابتداء میں تبلیغ کی غرض سے طائف تشریف لے گئے تھے۔

موجودہ طائف سے ڈھائی تین میل کے فاصلے پر جنوب مغرب کی طرف ایک چھوٹی سی بستی  مثناۃ  ہے یہ طائف ہی کا ایک حصہ سمجھی جاتی ہے، یہ بستی اس جگہ بتائی جاتی ہے جس کے قریب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اصل طائف آباد تھا۔

یہاں دو باغوں میں دو چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنی ہوئی ہیں ان میں سے ایک کو مسجد علی کہتے ہیں اور دوسرے کو مسجد الجعثی ' ان دونوں مسجدوں کے درمیان ایک وادی ہے جو وادی اوج کہلاتی ہے۔ محققین کا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غزوہ طائف میں طائف کا محاصرہ اسی جگہ فرمایا تھا اور غالباً یہی وہ جگہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منجیق نصب کی تھی۔