جہد اور جہاد کے لغوی معنی ہیں مشقت اٹھانا اور طاقت سے زیادہ بوجھ لادنا امام راغب نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ :
(الجہاد استفراغ الوسع فی مدافعۃ العدو)۔
جہاد کا مطلب ہے، انتہائی قوت سے حملہ آور دشمن کی مدافعت کرنا۔
اصطلاح شریعت میں جہاد کا مفہوم ہے۔ کفار کے ساتھ لڑی جانے والی جنگ میں اپنی طاقت خرچ کرنا بایں طور کہ خواہ اپنی جان کو پیش کیا جائے یا اپنے مال کے ذریعہ مدد کی جائے اور خواہ اپنی عقل وتدبیر (یعنی اپنی رائے اور مشوروں کا) تعاون دیا جائے یا محض اسلامی لشکر میں شامل ہو کر اس کی نفری میں اضافہ کیا جائے اور یا ان کے علاوہ کسی بھی طریقے سے دشمنان اسلام کے مقابلے میں اسلامی لشکر کی معاونت و حمایت کی جائے۔
جہاد کا نصب العین یہ ہے کہ دنیا میں اسلام کا بول بالا رہے، خدا کی اس سرزمین پر اس کا جھنڈا سربلند اور اس کے باغی منکروں کا دعوی سرنگوں رہے۔
جہاد فرض کفایہ ہے۔ اگر نفیر عام (اعلان جنگ) نہ ہو اور اگر نفیر عام ہو بایں طور کہ کفار مسلمانوں کے کسی شہر پر ٹوٹ پڑیں یا اسلامی مملکت کے خلاف جنگ شروع کر دیں اور مسلمانوں کی طرف سے جنگ کا عام اعلان کر دیا جائے تو اس صورت میں ہر مسلمان پر جہاد فرض عین ہو گا خواہ نفیر کرنے والا (یعنی اعلان جنگ کرنے والا عادل ہو یا فاسق، لہٰذا اس صورت میں دشمنوں کا مقابلہ کرنا جہاد میں شرکت کرنا اس شہر اور اس مملکت کے تمام باشندوں پر واجب ہو گا اور ایسے ہی ان لوگوں پر بھی واجب ہو گا جو اس شہر یا مملکت کے قریب رہتے ہوں بشرطیکہ اس شہر یا مملکت کے رہنے والے اپنے شہر اور اپنے ملک کی حفاظت اور دشمنوں کے مقابلہ کرنے کے لئے کافی نہ ہوں یا وہ اپنی جنگی و دفاعی ذمہ داریوں کو انجام دینے میں کسل و سستی کریں اور گنہگار ہوں چنانچہ جس طرح میت کا مسئلہ ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور نماز جنازہ پہلے اس کے اہل محلہ پر واجب ہے اگر وہ اس کی انجام دہی سے عاجز ہوں تو پھر یہ چیزیں اس کے شہر والوں پر واجب ہوں گی اسی طرح جہاد کا بھی مسئلہ کہ جس شہر ملک کے مسلمانوں کو کفار اور دشمنان دین کی جارحیت اور جنگی حملوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہو اگر وہ اپنے دفاع سے عاجز ہوں اور دشمنوں کا مقابلہ کرنے میں کوتاہ یا ناکام رہے ہوں تو اس وقت ان کے پڑوسی شہر و ملک کے مسلمانوں بلکہ ما بین المشرق والمغرب کے تمام مسلمانوں پر واجب ہو گا کہ وہ جہاد میں شریک ہو کر اسلام اور مسلمانوں کے وقار کا تحفظ اور دشمنان دین کا دعوی سرنگوں کریں۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ دنیا میں بھیجی (یعنی شریعت پر ایمان لایا اور نماز قائم کی اور رمضان کے روزے رکھے تو اللہ تعالیٰ پر (از راہ فضل و کرم بحسب اپنے وعدے کے) واجب ہے کہ وہ اس شخص کو جنت میں داخل کرے خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرے (اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ اور خواہ ہجرت کرے) اور خواہ اپنے وطن و گھر میں جہاں پیدا ہوا بیٹھا رہے (یعنی نہ جہاد کرے اور نہ ہجرت کرے) صحابہ نے سن کر ) عرض کیا کہ کیا لوگوں کو ہم یہ خوشخبری نہ سنا دیں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (لیکن جہاد کرنے والے کی یہ فضیلت بھی سن لو کہ) جنت میں سو درجے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لئے تیار کیا ہے جو خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ان کے دو درجوں کا درمیانی فاصلہ اتنا ہے جتنا آسمان اور زمین کے درمیان فاصلہ ہے۔ لہٰذا جب تم اللہ سے (جہاد پر درجہ عالی) مانگو تو فردوس مانگو کیونکہ وہ (فردوس) اوسط جنت ہے (یعنی جنت کے تمام درجات میں سب سے بہتر و افضل ہے) اور سب سے بلند جنت ہے اور اس کے اوپر عرش ہے (گویا وہ عرش الٰہی کے سایہ میں ہے) اور وہیں سے جنت کی نہریں بہتی ہیں (یعنی چار چیزیں جنت کی اصل ہیں جیسے پانی،دودھ،شراب اور شہد وہ جنت الفردوس ہی سے جاری ہوتی ہیں۔ (بخاری)
تشریح
اس حدیث میں نماز اور روزے کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن حج اور زکوٰۃ کا ذکر نہیں ہے اس کی وجہ اس بات سے آگاہ کرنا ہے کہ یہ دو عبادتیں یعنی نماز اور روزہ دیگر عبادتوں کی نسبت اپنی امتیازی اور برتری شان رکھتی ہیں دوسرے یہ کہ ان دونوں عبادات کا تعلق ہر مسلمان سے ہے کہ وہ سب ہی مسلمانوں پر واجب ہیں جب کہ حج اور زکوٰۃ ایسی عبادتیں ہیں جو ہر مسلمان پر واجب نہیں ہیں بلکہ اسی مسلمان پر واجب ہیں جو مالدار صاحب استطاعت ہو۔
خواہ اپنے گھر و وطن میں بیٹھا رہے۔ اس عبارت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث فتح مکہ کے دن ارشاد فرمائی تھی کیونکہ فتح مکہ کے دن سے پہلے ہجرت ہر مؤمن پر فرض تھی۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والا ایسا ہے جیسا کہ روزہ رکھنے والا (نماز اور طاعت و عبادات میں) منہمک رہنے والا اور اللہ کی آیتوں یعنی قرآن کریم کی تلاوت کرنے والا جو روزہ رکھنے اور نماز پڑھنے (یعنی عبادات میں منہمک رہنے) سے کبھی نہیں تھکتا، یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا اپنے گھر واپس آ جائے۔ (بخاری، و مسلم)
تشریح
جب مجاہد اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے گھر سے نکلتا ہے اور پھر جہاد کر کے گھر واپس آتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس دوران میں وہ ہمہ وقت جہاد میں مصروف نہیں رہتا بلکہ اس کے اوقات کا کچھ حصہ جہاد میں گزرتا ہے کہ جن میں وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور سوتا لیٹتا بھی ہے اور ایسے ہی دوسرے کاموں میں بھی وقت گزارتا ہے مگر اس کے باوجود اس کو یہ درجہ عطا کیا گیا ہے کہ گویا وہ کبھی بھی اور کسی وقت بھی عبادت سے خالی نہیں رہتا۔ چنانچہ ہر حرکت و سکون پر اور ہر عیش و آرام پر اس کے نامہ اعمال میں ثواب ہی لکھا جاتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد کے لئے نکلا اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہو گیا، اس کو (جہاد کے لئے) مجھ پر اس کے ایمان اور میرے رسولوں کی تصدیق کے علاوہ اور کسی نے نہیں نکالا (یعنی اس کا جہاد میں جانا دکھاوے سنانے کے لئے یا دنیا میں کسی طلب و خواہش کے پیش نظر نہیں بلکہ وہ محض میری رضا و خوشنودی طلب کرنے کے لئے نکلا ہے) تو میں اس کو (یا تو بغیر غنیمت کے محض) آخرت کے اجر و ثواب کے ساتھ یا مال غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا اور یا (اگر شہید ہو گیا تو) میں اس کو (بغیر حساب و عذاب کے سب سے پہلے جنت میں جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل کروں گا (یا اس کی موت کے بعد ہی قیامت کے دن سے بھی پہلے جنت میں داخل کروں گا جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں شہید ہو گئے ہیں ان کو مردہ خیال نہ کرو بلکہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر مجھے یہ خوف و لحاظ نہ ہوتا کہ بہت سے (وہ) مسلمان (جو مفلس و نادار ہیں) اپنے بارے میں اس بات سے خوش نہیں ہوں گے کہ وہ مجھ سے پیچھے اور مجھ سے جدا رہیں اور مجھے ایسی سواری میسر نہیں ہے جس پر ان سب کو سوار کر دوں تو میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر لشکر سے پیچھے نہ رہتا ! قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میری خواہش و تمنا تو یہی ہے کہ میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں (یعنی بار بار زندہ کیا جاؤں اور بار بار مارا جاؤں تا کہ ہر بار نیا ثواب پاؤں۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس ارشاد گرامی سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی بے پناہ جذبہ جہاد اور شوق شہادت کا اظہار ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ میں کفار سے جتنی بھی جنگیں ہوئیں آپ چند کے علاوہ اور سب میں بنفس نفیس شریک کیوں نہ ہوئے۔ چنانچہ آپ نے اس کی علت بیان فرمائی کہ میں کفار سے جنگ کرنے کے لئے جانے والے ہر لشکر اور ہر فوج میں اس لئے شریک نہیں ہوتا کہ اگر میں جنگ میں شریک ہونے کے لئے ہر لشکر کے ہمراہ جاؤں تو یقیناً وہ بہت سے مسلمان جو نادار اور بے سر و سامان ہونے کی وجہ سے اپنی سواری نہیں رکھتے جنگ میں شریک ہونے سے محروم بھی رہ جائیں گے اور میری جدائی کا غم بھی اٹھائیں گے۔ اور خود میں اتنی سواریوں کا انتظام کرنے پر قادر نہیں ہوں کہ ان پر سب مسلمانوں کو سوار کر کے اپنے ہمراہ لے جاؤں، اس لئے اگر مجھے یہ لحاظ نہ ہو کہ بہت سے مسلمان جنگ میں شریک ہونے سے محروم رہ جانے اور پھر مجھ سے جدا ہو جانے کی وجہ سے افسردہ دل اور شکستہ خاطر ہوں گے اور وہ اس کا بہت زیادہ غم محسوس کریں گے تو میرے اندر جہاد کا جذبہ اور اللہ کی راہ میں شہید ہو جانے کا شوق اتنا زیادہ ہے کہ میں کسی بھی لشکر کے ہمراہ جانے سے باز نہیں رہنا چاہتا اور اس بات کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں کہ میں بار بار زندہ کیا جاؤں اور ہر بار خدا کی راہ میں مارا جاؤں۔
اور حضرت سہل ابن سعد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن کی چوکیداری دنیا سے اور دنیا کی چیزوں سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یا تو یہ مطلب ہے کہ جہاد میں ایک دن کی لئے بھی چوکیداری جیسی معمولی خدمت کو انجام دینا اس مال سے بہتر ہے جو اللہ کے نام پر خرچ کیا جائے، یا یہ مطلب ہے کہ جہاد میں محض ایک دن کی چوکیداری کے عوض جو اجر ملے گا وہ دنیا کی چیزوں سے کہیں زیادہ بہتر اور افضل ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک صبح کے لئے ایک شام کے لئے خدا کی راہ میں شرکت جہاد کی غرض سے) دنیا کی چیزوں سے بہتر ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص محض ایک صبح کے لئے ایک شام کے لئے بھی جہاد میں شریک ہوا تو اس پر اس کو جو اجر ملے گا اور اس کی جو فضیلت حاصل ہو گی وہ دنیا کی تمام نعمتوں سے بہتر ہے کیونکہ دنیا کی تمام نعمتیں فنا ہو جانے والی ہیں اور آخرت کی نعمت باقی رہنے والی ہے۔
اور حضرت سلیمان فارسی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جہاد میں ایک دن اور ایک رات کی چوکیداری کی خدمت انجام دینا ایک مہینے کے روزے اور شب بیداری سے بہتر ہے اور اگر وہ چوکیدار (اس خدمت کی انجام دہی کے دوران) مر جائے تو اس کے اس عمل کا ثواب کہ جس پر وہ (اپنی زندگی میں) عامل تھا جاری رہتا ہے (یعنی اپنی زندگی میں وہ جس نیک عمل پر عامل تھا اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی پہنچتا رہے گا) اور اس کے لئے (جنت کے طعام و شراب سے اس کا رزق کر دیا جاتا ہے اور وہ شیطان یا دجال کے مکر و فریب اور قبر میں عذاب کے فرشتے کے) فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔ (مسلم)
اور حضرت ابو عبس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس بندے کے پاؤں خدا کی راہ (یعنی جہاد میں) گرد آلود ہو جاتے ہیں تو پھر اس کو (دوزخ کی آگ نہیں چھوتی۔ (بخاری)
تشریح
یہ ارشاد گرامی دراصل راہ جہاد میں سعی و مشقت کے اظہار کا کنایۃ پیرایہ بیان ہے اس بات کو زیادہ سے زیادہ بیان کرتا ہے کہ جب جہاد کے راستے میں محض قدموں کا گرد آلود ہو جانا دوزخ کی آگ سے حفاظت کا ضامن ہے تو نفس جہاد کے ثواب اور اس شخص کی فضیلت کا کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جو راہ جہاد کی مشقتیں برداشت کرتا ہوا میدان جنگ میں پہنچے اور جہاد میں شریک ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کافر اور اس کو مارنے والا (مسلمان) کبھی بھی دوزخ میں ایک جا نہیں ہو سکتا۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بطور خاص اس مسلمان کے لئے بشارت ہے جو جہاد میں کسی کافر کو مارے کہ وہ (مسلمان) ہرگز دوزخ میں نہیں جائے گا۔ اور حقیقت میں یہ ارشاد گرامی جہاد کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے جو مسلمان جہاد میں شریک ہو گا وہ غالباً کسی کافر کو مارے گا اور جب کافر کو مارے گا تو وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا اگرچہ اس کی جزاء بھی جنت ہے جو جہاد میں شریک ہوا اور اس میں پوری جدوجہد کرے لیکن کسی کافر کو قتل نہ کر سکے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا انسانی زندگی میں بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو خدا کی راہ میں اپنے گھوڑے کی باگ پکڑ لے اور جب کسی کی خوفزدہ آواز یا کسی کے فریاد کرنے کی آواز سنے تو عجلت کے ساتھ گھوڑے کی پشت پر سوار ہو جائے اور (اس خوفزدہ یا فریاد رس کی آواز کی طرف دوڑتا ہوا چلا جائے اور اپنی موت کو یا اس جگہ کو تلاش کرتا پھرے جہاں موت کا گمان ہو (یعنی جب وہ کسی کی خوفزدہ چیخ و پکار یا فریاد و مدد چاہنے والے کی آواز سنے تو عجلت کے ساتھ چل پڑے اور اس آواز کو تلاش کرتا پھرے تا کہ موقع پر پہنچ کر فریاد کرنے والے کی مدد کرے اور اس بات سے نہ ڈرے کہ کہیں میری جان پر نہ بن جائے اور مجھے اپنی سی زندگی سے ہاتھ نہ دھونا پڑے یا بہترین زندگی اس شخص کی ہے جو کچھ بکریوں کے ساتھ ان پہاڑوں میں سے کسی ایک پہاڑ کی چوٹی پر یا ان وادیوں میں سے کسی ایک وادی میں اقامت گزین ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اگر وہ بکریاں حد نصاب کو پہنچتی ہیں تو ان کی زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور پروردگار کی عبادت و بندگی میں مشغول رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی موت آ جائے اور یہ شخص انسانوں کا شریک نہیں ہے بلکہ صرف بھلائی کے درمیان زندگی بسر کرتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص دنیا والوں سے الگ تھلگ رہ کر ان کی برائیوں اور ان کے فتنہ و شر سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے اور اپنے فتنہ و شر سے دنیا والوں کو بچاتا ہے۔
اس حدیث کا حاصل دراصل دشمنان دین کے مقابلہ پر جہاد، اپنے نفس و شیطان سے مجاہدہ اور دنیا کی فانی لذتوں اور نفس کی باطل خواہشات و شہوات سے اجتناب کی طرف راغب کرتا ہے نیز اس بات کی آگاہی دیتا ہے کہ اگر دین کی تائید اور شریعت کی تقویت کے لئے لوگوں کے درمیان رہن سہن اختیار کرے تو بہتر ہے ورنہ (اگر دنیا والوں کے درمیان رہنے سہنے سے دین و شریعت کو نقصان پہنچنے اور ایمان کے کمزور ہو جانے کا خوف ہو) تو گوشہ عافیت اختیار کرے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث ان لوگوں کے مسلک کی دلیل ہے جو مخالطت (یعنی دنیا والوں کے درمیان رہن سہن پر گوشہ گزینی کو فضیلت دیتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مشہور اختلافی اقوال یہ ہیں کہ حضرت امام شافعی اور اکثر علماء کے نزدیک اختلاط (یعنی دنیا والوں کے درمیان رہنا سہنا) افضل ہے بشرطیکہ (دین میں) فتنہ فساد سے محفوظ و مامون رہنے کی امید ہو جب کہ زاہد ان طریقت کی ایک جماعت کا مسلک یہ ہے کہ دنیا والوں سے کنارہ کشی کر کے گوشہ گزینی اختیار کرنا افضل ہے۔ انہوں نے اسی حدیث سے استدلال کیا ہے لیکن جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث یا تو فتنوں سے بھرپور زمانہ پر محمول ہے۔ یا اس کے علاوہ اس کا تعلق اس شخص سے ہے جو لوگوں کی ایذاء پر صبر نہ کر سکتا ہو یا لوگ خود اس کی وجہ سے سلامت نہ رہتے ہوں پھر ان کی سب سے بڑی دلیل یہ کہ انبیاء صلوات اللہ علیہم اکثر صحابہ کرام، تابعین عظام، علماء و مشائخ اور زاہد ان کی طریقت کا معمول یہی رہا ہے کہ انہوں نے دنیا سے کنارہ کشی اور گوشہ نشینی سے احتراز کر کے اسی دنیا میں اور اسی دنیا والوں کے درمیان رہن سہن کو اختیار کیا اور اس کے ذریعہ وہ بہت سارے دینی فوائد حاصل کرتے رہے جو گوشہ گزینی کی صورت میں ناممکن الحصول تھے جیسے نماز جمعہ و جماعت نماز جنازہ اور عیادت مریض وغیرہ وغیرہ۔
اور حضرت زید ابن خالد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا سامان درست کیا اس نے (گویا) جہاد (ہی) کیا (یعنی وہ بھی جہاد کرنے والوں کے حکم میں داخل ہے اور جہاد کے ثواب میں شریک ہے) اور جو شخص کسی غازی و مجاہد کا اس کے اہل و عیال کے لئے نائب و خلیفہ بنا (یعنی جو شخص کسی غازی و مجاہد کے جہاد میں چلے جانے کے بعد اس کے اہل و عیال کا خدمت گزار ہوا اور نگہبان بنا اس نے بھی گویا جہاد ہی کیا۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجاہدین کی عورتوں کی عزت و حرمت (گھروں میں) بیٹھنے والوں (یعنی جہاد کے لئے نہ جانے والوں) پر اسی طرح لازم ہے جس طرح کہ ان کی ماؤں کی عزت و حرمت ان پر لازم ہے (یعنی جو لوگ کسی وجہ سے جہاد پر نہیں جا سکتے ہیں اور اپنے اپنے گھروں میں رہ گئے ہیں ان کو چاہئے کہ جو لوگ جہاد میں گئے ہوں ان مسلمانوں کی عورتوں کی عزت و آبرو میں خیانت نہ کریں اور ان کی طرف نظر بد نہ دیکھیں بلکہ ان کو اپنے حق میں ایسا حرام جانیں گویا وہ ان کی مائیں ہیں) لہٰذا اس کے اہل و عیال (یعنی اس کی بیوی اور لونڈیوں یا دوسرے قرابتوں) کے لئے نائب و خلیفہ بنا یعنی ان کا نگران بنا اور پھر اس نے اس (مجاہد) کے اہل و عیال (کی عزت و آبرو) میں خیانت کی تو اس کو قیامت کے دن اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کے (نیک) اعمال میں سے جس قدر چاہے گا لے لے گا ایسی حالت میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ (مسلم)
تشریح
ایسی حالت میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ کا مطلب یہ ہے کہ کیا تم یہ خیال کر سکتے ہو کہ ایسی حالت میں وہ مجاہد قیامت کے دن اس شخص کی نیکیوں کو لے لینے میں کم راغب ہو گا ؟ نہیں، بلکہ وہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں چھوڑے گا اور اس کی تمام ہی نیکیاں لے لے گا یا اس شخص نے اس مجاہد کے حق میں خیانت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟ کیا وہ خیانت کرنے والے کے نیکیوں کی صورت میں مجاہد کو جو عوض و بدلہ دے گا اس میں تمہیں کوئی شک ہے ؟ اگر تمہیں کوئی شک نہیں ہے اور تم یہ یقین رکھتے ہو کہ میں نے جو کچھ کہا ہے وہ قطعی سچ ہے تو پھر تم پر لازم ہے کہ تم مجاہدین کی عورتوں کی عزت و آبرو میں خیانت کرنے سے احتراز نہ کرو مبادا اس کی وجہ سے تمہیں آخرت میں اپنی ساری نیکیوں سے ہاتھ دھونا پڑ جائے۔ یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے مجاہد کو جو یہ مرتبہ عظیم عطا فرمایا ہے اور اس کو اس فضیلت کے ساتھ جو مخصوص کیا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اس مجاہد کو بس یہی مرتبہ ملے گا ؟ نہیں بلکہ اس مرتبہ اور اس مخصوص فضیلت کے ساتھ جو مخصوص کیا ہے تو تمہارا کیا خیال ہے کہ اس مجاہد کو بس یہی مرتبہ ملے گا؟ نہیں بلکہ اس مرتبہ اور اس مخصوص فضیلت کے علاوہ بھی اس کو اور بہت عظمتیں اور بزرگیاں ملیں گی اور اس سے بھی بڑے بڑے درجات اس کو نصیب ہوں گے۔
اور حضرت ابو مسعود انصاری کہتے ہیں کہ (دربار نبوت میں) ایک شخص نکیل پکڑی ہوئی اونٹنی لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اللہ کی راہ کے لئے ہے یعنی میں اس اونٹنی کو اللہ کی رضا کے لئے جہاد میں پیش کرتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ (میں تمہاری اس پیشکش کو بہ تحسین قبول کرتا ہوں اور تمہیں یہ بشارت دیتا ہوں کہ (اس کے بدلے میں قیامت کے دن تمہیں سات سو اونٹنیاں ملیں گی اور سب کے نکیل پڑی ہو گی (مسلم)
اور حضرت ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کے مقابلہ پر جہاد (کے لئے) ایک لشکر روانہ کرنے کا ارادہ کیا تو حکم دیا کہ دو شخصوں میں ایک جہاد میں جانے کے لئے نکلے (یعنی ہر قبیلے میں سے آدھے آدمی جہاد میں جائیں اور آدھے آدمی رہ جائیں تاکہ وہ جہاد میں جانے والوں کے اہل و عیال کی خبر گیری کریں) اور جہاد کا ثواب دونوں کو برابر ملے گا۔ (مسلم)
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جو لوگ جہاد میں جائیں گے ان کو تو جہاد کا ثواب ملے گا لیکن جو لوگ اپنے گھروں پر رہ کر مجاہدین کے گھر بار کی نگرانی اور ان کے اہل و عیال کی پرورش ودیکھ بھال کریں گے۔تو ان کو بھی مجاہدین جیسا ثواب ملے گا۔
اور حضرت جابر ابن سمرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں میں سے ایک نہ ایک جماعت اس دین کی حفاظت کے لئے قیامت (قائم ہونے کے قریب) تک لڑتی رہے گی (یعنی روئے جہاد سے خالی نہیں رہے گی کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں ہمیشہ جہاد ہوتا رہے گا۔ (مسلم)
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ یہ عبارت (یقاتل علیہ) الخ جملہ مستانفہ ہے جس کا مقصد پہلی عبارت کی وضاحت کرنا ہے اس طرح حاصل یہ ہو گا کہ یہ دین اسی سبب سے قائم رہے گا کہ مسلمانوں میں سے کوئی نہ کوئی جماعت قوم ہمیشہ دین کے دشمنوں سے لڑتی رہے گی اور خدا کے باغیوں کا دعوی سرنگوں کرتی رہے گی۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں (یعنی جہاد) میں زخمی کیا جاتا ہے، اور خدا اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ میں زخمی کیا جاتا ہے تو وہ مجاہد قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون بہتا ہو گا اور اس خون کا رنگ خون کے رنگ کا سا ہو گا اور اس کی بو مشک کی خوشبو کی طرح ہو گی۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جنت میں داخل ہونے والا کوئی شخص بھی یہ پسند نہیں کرے گا کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور (جنت کی نعمتوں کے عوض دنیا کی تمام) چیزوں کو قبول کرے مگر شہید یہ آرزو کرتا ہے کہ وہ دنیا میں واپس جائے اور دس بار خدا کی راہ میں شہید ہو کیونکہ وہ شہادت کی عظمت اور اس کے ثواب کو جانتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت مسروق (تابعی) کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت عبداللہ ابن مسعود سے اس آیت کریمہ کی تفسیر پوچھی۔ (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتاً ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران:169) جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد میں مارے گئے ہیں ان کو تم مردہ خیال نہ کرو بلکہ وہ اپنے پروردگار کے پاس زندہ ہیں اور ان کو رزق دیا جاتا ہے ہے الخ۔ تو انہوں نے کہا کہ ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس آیت کی تفسیر پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ (ان شہداء) کی روحیں سبز رنگ کے پرندوں کے قلب میں ہیں ان کے (رہنے) کے لئے عرش الٰہی کے نیچے (بمنزلہ گھونسلوں) کے قندیلیں لٹکائی گئی ہیں وہ (روحیں) بہشت میں سے جہاں سے ان کا جی چاہتا ہے میوے کھاتی ہیں پھر ان قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں تب پروردگار ان (شہدا) کی طرف جھانکتا ہے فرماتا ہے کہ کیا تم کو کسی چیز کی خواہش ہے ؟ وہ عرض کرتے ہیں کہ ہم کس چیز کی خواہش کریں درآنحالیکہ ہم بہشت میں سے جہاں سے ہمارا جی چاہتا ہے میوے کھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ تین مرتبہ یہی معاملہ کرتا ہے (یعنی تین بار ان سے یہی سوال کرتا ہے) اور جب وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں پوچھے جانے والے سے چھوڑا نہیں جائے گا (یعنی جب وہ یہ جانتے ہیں کہ پروردگار کی مراد یہ ہے کہ ہم کسی خواہش کا اظہار کریں) تو وہ عرض کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار !ہماری بس یہی خواہش ہے تو ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں واپس کر دے (اور ہمیں دنیا میں واپس بھیج دے) تاکہ ہم ایک بار اور تیری راہ میں مارے جائیں) جب اللہ تعالیٰ یہ دیکھتا ہے کہ ان کی کوئی (متعین) خواہش و حاجت نہیں ہے (کیونکہ انہوں نے جس خواہش کا اظہار کیا ہے اس کو پورا کرنا اللہ کے ارادہ اور مصلحت کے خلاف ہے دوسرے یہ کہ ان کو پہلی ہی بار میں جو عظیم ثواب اور عظیم اجر ملا ہے اور اسی وجہ سے ان کی کوئی حاجت و خواہش نہیں ہے اگر وہ دوبارہ دنیا میں بھیج دیئے جائیں تو وہی اجر و انعام انہیں دوبارہ ملے گا اور اس کی انہیں حاجت ہی نہیں ہے کیونکہ شہید کا اجر و ثواب ایک ہی ہے جو انہیں حاصل ہے) تو ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ ان سے پوچھنا چھوڑ دیتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
کسی کے ذہین میں اعتراض پیدا ہو سکتا ہے کہ ترجمہ میں بین القوسین عبارت کے مطابق اگر دوسری بار میں بھی پہلی ہی بار جیسا ثواب ملے تو پھر ان شہداء کی خواہش کا کیا فائدہ کہ ہماری روحوں کو ہمارے جسموں واپس کر کے دنیا میں بھیج دیا جائے تا کہ ہم دوبارہ خدا کی راہ میں مارے جائیں۔
علماء نے اسکا جواب لکھا ہے کہ اس خواہش کے اظہار سے اس کی مراد حقیقت میں اپنی روحوں کو جسموں میں واپس کئے جانے کی درخواست کرنا نہیں ہے بلکہ ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کے ان انعامات و اکرامات کا شکر ادا کرنا ہے جس سے ان کو نوازا گیا گویا اپنی اس خواہش کے ذریعے وہ یہ واضح کرتے ہیں کہ اے اللہ ! تو نے ہمیں اپنی جو نعمتیں عطا کی ہیں اور ہمیں جن عظیم درجات سے نوازا ہے اور ان کی وجہ سے ہم پر جو تیرا شکر ادا کرنا واجب ہے اسکا تقاضا یہی ہے کہ ہم ایک مرتبہ پھر دنیا میں واپس جائیں اور تیری راہ میں اپنی جان قربان کر دیں۔
یا پھر وہ اپنی خواہش کا اظہار اپنے گمان کے مطابق کرتے ہوں کہ ہم چونکہ دوسری مرتبہ میں اور زیادہ مستعدی ہمت اور جان نثاری کے فزوں تر جذبے کے ساتھ خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کریں گے اس لئے کیا عجب کہ دوسری مرتبہ میں ہمیں اور زیادہ بہتر اور کامل تر جزا ملے لیکن نظام قدرت اور جاری معمول چونکہ اس کے خلاف ہے اور حق تعالیٰ کے علم میں یہ بات ہے کہ ان کو دوسری مرتبہ میں وہی اجر ملے گا جو پہلی مرتبہ مل چکا ہے اور اس کی انہیں حاجت نہیں ہے تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
تنبیہ : علماء نے یہ لکھا ہے کہ شہداء کی ارواح کو پرندوں کے قالب میں رکھنا ان ارواح کی عزت وتوقیر اور تکریم کی بنا پر ہے جیسا کہ جواہرات کو ان کی حفاظت و احتیاط کے لئے صندوق میں رکھا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ مقصد ہوتا ہے کہ ان ارواح کو ان کے دنیاوی جسم کے بغیر اس صورت (یعنی پرندوں کے قلب میں جنت میں داخل کیا جائے، چنانچہ وہ ارواح ان پرندوں کے قالب میں جنت کے مرغزاروں میں سیر کرتی ہیں، وہاں کی فضاؤں میں گھومتی ہیں جنت کی پاکیزہ ترین خوشبوؤں اور کیف آور ہواؤں سے لطف اندوز ہوتی ہیں، وہاں کے انوار و برکات کا مشاہدہ کرتی ہیں، وہاں کی نعمتوں اور لذتوں سے بہرہ اندوز ہوتی ہیں اور ان کو صرف ان ہی چیزوں کے ذریعہ ہمہ وقت کی خوش طبعی و آسودہ خاطری حاصل نہیں ہوتی بلکہ حق جل مجدہ کے مقرب ملائکہ کے قرب و جوار کی عظیم ترین سعادت بھی میسر ہوتی ہے جو بجائے خود سب سے بڑی نعمت اور فرحت و انبساط کا سبب ہے چنانچہ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کی یہی مراد ہے کہ :
(یرزقون فرحین بما اتہم اللہ من فضلہ)۔
وہ رزق دئیے جاتے ہیں اور جو کچھ خدا نے ان کو اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں۔
اس موقع پر یہ بات بطور خاص ملحوظ رہنی چاہئے کہ اس حدیث سے تناسخ (آواگون) کا نظریہ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ جو لوگ تناسخ کے قائل ہیں ان کے نزدیک تناسخ اس کو کہتے ہیں کہ اس عالم میں روح کا کسی قالب و بدن میں لوٹنا گویا ان کے نزدیک کسی قالب و بدن میں روح کے لوٹنے کا نظریہ آخرت سے متعلق نہیں ہے اور یہ یوں بھی ممکن نہیں ہے کہ ان کے نزدیک آخرت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے۔ بلکہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔
ایک بات اور اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوتا ہے کہ جنت مخلوق ہے اور موجود ہے۔ جیسا کہ اہل سنت والجماعت کا مسلک ہے۔
اور ابو قتادہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کے سامنے خطبہ ارشاد فرمایا اور (اس خطبہ میں ان کو آگاہ کیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا اور اللہ پر ایمان لانا سب سے بہتر اعمال ہیں۔ (یہ سن کر) ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے یہ بتایئے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ ہاں بشرطیکہ تم اللہ کی راہ میں اس حال میں مارے گئے کہ تم (سختیوں پر) صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہیں ہو بلکہ دشمن کے مقابلے پر جمے رہنے والے ہو۔ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا ؟ اس نے عرض کیا کہ مجھے یہ بتائیں کہ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں تو کیا میرے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے ؟رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں ! بشرطیکہ تم صبر کرنے والے ہو، ثواب کے طالب ہو اور پیٹھ دکھا کر بھاگنے والے نہ ہو بلکہ دشمن کے مقابلے میں جمنے والے ہو مگر دین (یعنی وہ قرض معاف نہیں ہو گا جس کی ادائیگی کی نیت ہی نہ ہو ) اور مجھ سے جبرائیل علیہ السلام نے یہی فرمایا ہے۔ (مسلم)
تشریح
ایمان کا سب سے بہتر عمل ہونا تو ظاہر ہی ہے اس لئے کسی توضیح و تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ رہی بات تو اس عمل (یعنی جہاد) کو اس اعتبار سے سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے کہ تمام نیک اعمال میں یہی ایک عمل ایسا ہے جس کے ذریعہ اعلاء کلمۃ اللہ (اللہ کے دین کو سربلند کرنے) کا فریضہ سر انجام پاتا ہے، خدا کے باغیوں اور دین کے دشمنوں کی بیخ کنی ہوتی ہے، جان و مال کی قربانی پیش کی جاتی ہے اور مختلف قسم کی تکلیفیں مشقتیں اور پریشانیاں برداشت کرنا پڑتی ہیں گویا یہ اعمال اللہ کے حضور میں اور اس کی راہ میں بندے کے جذبہ عبودیت اور بندگی اور کمال ایثار و قربانی کا سب سے بڑا مظہر ہوتا ہے اور جو دوسری احادیث میں نماز کو سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے تو وہ اس اعتبار سے ہے کہ نماز ہی ایک ایسا عمل ہے جس میں مداومت و ہمیشگی ہے اور جو ایک عمل ہونے کے باوجود عبادات کثیرہ پر مشتمل ہے۔
مگر دین کے بارے میں علامہ تورپشتی لکھتے ہیں کہ یہاں دین سے مراد مسلمانوں کے حقوق ہیں لہٰذا اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ جہاد سے حقوق العباد کے علاوہ تمام گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں۔
اور حضرت عبداللہ بن عمرو ابن العاص سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ کی راہ (یعنی جہاد میں) مارا جانا دین (حقوق العباد) کے علاوہ تمام گناہوں کو مٹا دیتا ہے (مسلم)
تشریح
علامہ سیوطی نے لکھا ہے کہ بحری جہاز (پانی میں لڑی جانے والی جنگ) کے شہداء اس حکم سے مستثنیٰ ہیں یعنی ان کے ذمے جو حقوق العباد ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو معاف کر دیتا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ان دو شخصوں پر ہنستا ہے (یعنی ان سے ایک تو وہ ہے جو جنت میں داخل ہوتا ہے) پھر اللہ تعالیٰ اس کے قاتل کو توبہ کی توفیق عطا کرتا ہے (اور وہ کفر سے تائب ہو کر ایمان لے آتا ہے) اور پھر خدا کی راہ میں جہاد کر کے شہید ہو جاتا ہے (لہٰذا اس کو بھی جنت میں داخل کیا جاتا ہے۔ (مسلم)
اور حضرت سہل ابن حنیف کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص سچے دل (یعنی طلب صادق کے جذبے سے) اللہ تعالیٰ سے شہادت کا طالب ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے شہیدوں کے درجہ پر پہنچاتا ہے اگرچہ وہ اپنے بستر پر مرے (یعنی صدق نیت اور طلب صادق کی وجہ سے شہیدوں جیسا ثواب پاتا ہے۔ (مسلم)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ (میری پھوپھی) حضرت ربیع بنت براء جو حضرت حارثہ بن سراقہ کی ماں ہیں (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ (یا نبی اللہ ! کیا آپ مجھ سے میرے بیٹے کا حال بیان نہیں کریں گے اور حارثہ بدر کے دن (یعنی جنگ بدر میں) شہید ہو گئے اور ان کو ایسا تیر لگا تھا جس کا چلانے والا معلوم نہ ہو کہ کون تھا اگر وہ جنت میں ہو تو میں صبر کروں اور اگر وہ کسی اور جگہ ہو تو میں رونے کی کوشش کروں (یعنی خوب روؤں جیسا کہ عورتوں کی عادت ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حارثہ کی ماں ! حقیقت یہ ہے کہ جنت میں بہت سے باغ ہیں اور تمہارا بیٹا فردوس اعلیٰ میں پہنچا ہوا ہے (جو جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے)۔ (بخاری)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ (غزوہ بدر کے موقع پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ (مدینہ) روانہ ہوئے اور مشرکوں سے پہلے بدر (کے میدان جنگ) میں پہنچ گئے پھر (جب اسلامی مجاہدین کے پہنچنے کے بعد) مشرکین کا لشکر آیا اور (مقابلہ کی تیاری شروع ہوئی) تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جنت کے راستے پر کھڑے ہو جاؤ، وہ جنت جس کا عرض زمین و آسمان کے عرض کے برابر ہے (ایک صحابی) حضرت عمیر ابن حمام انصاری نے (یہ ارشاد سن کر کہا کہ خوب ! خوب ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا تم نے خوب خوب کیوں کہا ؟ عمیر نے کہا کہ یا رسول اللہ !میں نے یہ الفاظ (اظہار تعجب یا کسی اور مطلب سے نہیں کہے بلکہ (درحقیقت ان الفاظ کے ذریعہ اپنی اس آرزو کا اظہار کیا ہے کہ میں بھی جنتی بنوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس میں کوئی شک نہیں تم بھی جنتی ہو۔ راوی کہتے ہیں کہ حضرت عمیر نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان مبارک سے یہ بشارت سن کر اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور ان کو کھانا شروع کیا اور پھر کہنے لگے کہ اگر میں ان (ساری کھجوروں کو کھانے تک زندہ رہا تو زندگی طویل ہو گی چنانچہ انہوں نے ان کھجوروں کو جو ان کے پاس تھیں پھینک دیا اور کفار سے لڑنے لگے یہاں تک کہ شہید ہو گئے۔ (مسلم)
تشریح
جنت کے راستے پر کھڑے ہو جاؤ کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کی راہ کو اختیار کرو جو جنت میں لے جانے کا باعث ہے۔ اور وہ جہاد ہے۔
جس کا عرض زمین و آسمان کے عرض کے برابر ہے اس ارشاد کے ذریعہ درحقیقت جنت کی وسعت و کشادگی کو بیان کرنا ہے چنانچہ اس مقصد کے لئے ایسی چیز (یعنی زمین و آسمان کے درمیانی فاصلے) کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس سے زیادہ وسیع و عریض چیز انسان کے فہم میں اور کوئی نہیں آ سکتی، نیز اس ارشاد میں صرف عرض کو ذکر کیا گیا ہے طول کو بیان نہیں کیا گیا تا کہ انسانی فہم خود اندازہ کر لے کہ جس چیز کا عرض اتنا ہے اس کے طول کا کیا حال ہو گا۔
تم نے خوب خوب کیوں کہا گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ خیال فرمایا کہ عمیر نے جو یہ الفاظ کہے ہیں وہ بغیر کسی نیت و ارادہ کے اور بغیر سوچے سمجھے ان کی زبان سے ادا ہوئے ہیں جیسا کہ اس قسم کے الفاظ یا تو اس شخص کی زبان سے صادر ہوتے ہیں جو کسی کی کسی بات پر اپنے ہزل و مزاح اور استہزاء کا اظہار کرتا ہے۔ یا اپنے قتل کے خوف میں مبتلا ہوتا ہے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جب عمیر سے ان الفاظ کی وضاحت طلب کی تو انہوں نے ان دونوں باتوں سے انکار کیا اور خدا کی قسم کھا کر اپنا اصل مطلب بیان کیا۔
تو زندگی طویل ہو گی۔ سے حضرت عمیر کی مراد یہ تھی کہ اگر میں ساری کھجوریں کھانے کا انتظار کروں اور جب تک جیوں تو زندگی طویل ہو جائے گی۔ جب کہ آرزو یہ ہے کہ اب ایک منٹ گنوائے بغیر خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کر دوں اور شہادت کا مرتبہ حاصل کر کے جنت کی راہ پکڑ لوں۔گویا انہوں نے حصول شہادت کی شوق کی وجہ سے اپنی زندگی کو اور کفار سے نبرد آزمائی میں تاخیر کو اپنے حق میں وبال جانا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (صحابہ) سے پوچھا کہ تم اپنے آپ میں سے کس کو شہید شمار کرتے ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ شہید ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس صورت میں میری امت کے اندر شہیدوں کی تعداد کم ہو جائے گی جو شخص اللہ کی راہ میں مارا جائے وہ تو (حقیقی شہید ہے) لیکن جو شخص اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں (بغیر قتل و قتال کے خود اپنی موت سے ) مر جائے وہ بھی شہید ہے جو شخص وباء میں مرے وہ بھی شہید ہے اور جو شخص پیٹ کی بیماری (یعنی استسقاء اور اسہال وغیرہ) میں مرے وہ بھی شہید ہے یعنی یہ سب بھی حقیقی شہداء کے درجات و ثواب میں ہیں نہ یہ کہ ان کے جمیع احکام ہیں۔ (مسلم)
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جہاد کرنے والی جس جماعت یا جہاد کرنے والے جس لشکر نے جہاد کیا اور مال غنیمت لے کر صحیح و سالم واپس آگیا اس کو اس کا دو تہائی اجر جلدی یعنی اسی دنیا میں) مل گیا اور جہاد کرنے والی جس جماعت یا جہاد کرنے والے جس لشکر نے جہاد کیا اور نہ صرف یہ کہ اس کو مال غنیمت نہیں ملا بلکہ اس جماعت و لشکر کے لوگ زخمی کئے گئے یا شہید کر دیئے گئے تو ان کا اجر پورا باقی رہا۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اسلام کے جو مجاہد کفار سے جنگ کرنے کے لئے نکلیں گے ان کی تین صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ وہ کفار سے جنگ کے بعد صحیح و سالم لوٹ کر بھی آئیں گے اور جو مال غنیمت ان کے ہاتھ لگے گا اس کے بھی حق دار ہوں گے۔ ایسے ہی مجاہدین کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انہوں نے اپنی محنت و مشقت کا دو تہائی اجر کہ سلامتی کے ساتھ لوٹنا اور مال غنیمت حاصل کرنا ہے اسی دنیا میں حاصل کر لیا ایک تہائی اجر جو باقی رہا ہے یعنی جہاد کا ثواب وہ انہیں قیامت کے دن ملے گا دوسرے یہ کہ جو مجاہد صحیح و سلامت لوٹ کر تو آئے مگر مال غنیمت ان کے ہاتھ نہیں لگا تو انہوں نے گویا اس دنیا میں ایک تہائی اجر پا لیا ہے اور جو تہائی باقی رہا ہے وہ قیامت کے دن پائیں گے، تیسرے وہ مجاہد ہیں جنہوں نے جہاد کیا اور میدان میں زخمی ہو گئے یا شہید کر دئیے گئے اور ان کے ہاتھ مال غنیمت بھی نہیں لگا تو ان کا اجر باقی ہے جو انہیں پوری طرح قیامت کے دن ملے گا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص (مؤمن)' مر جائے اور جہاد نہ کرے اور نہ اس کے دل میں جہاد کرنے کا خیال گزرا ہو تو اس کی موت ایک طرح کے نفاق پر ہو گی۔ (مسلم)
تشریح
اور نہ اس کے دل میں جہاد کرنے کا خیال گزرا ہو کا مطلب یہ ہے کہ اس نے نہ صرف یہ کہ اپنی پوری زندگی میں کبھی جہاد نہیں کیا بلکہ کبھی جہاد کرنے کا قصد و ارادہ بھی نہیں کیا اور نہ کسی موقع پر یہ کہا کہ کاش ! میں بھی جہاد کرتا اور چونکہ یہ منافقین کی خصلت ہے کہ وہ بلکہ کبھی جہاد کے وقت منہ چھپا کر گھروں میں بیٹھ جاتے ہیں اور ان کے دل میں جہاد کرنے کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا لہٰذا حدیث (من تشبہ بقوم فہو منہم) کے مطابق ایسا مؤمن بھی منافق کے مشابہ ہوا۔
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو شخص کوئی واجب عبادت کے نہ کرنے کا وبال اتنا زیادہ اس کے حق میں ظاہر نہیں ہو گا۔ جتنا اس صورت میں ظاہر ہوتا کہ وہ اس عبادت کے کرنے کی نیت بھی نہ کرتا اور مر جاتا۔
نیز نووی نے یہ بھی کہا ہے کہ ہمارے علماء شوافع کا اس شخص کے بارے میں اختلاف اقوال ہے جو نماز کو اس کے اول وقت میں ادا کرنے پر قادر ہو اور اس کو پڑھنے کی نیت بھی رکھتا ہو مگر اس کی ادائیگی میں تاخیر کرے اور اس نماز کا وقت ختم ہونے سے پہلے مر جائے اسی طرح حج کا معاملہ ہے کہ اس پر حج فرض ہو اور وہ شروع ہی میں اس فرض کی ادائیگی پر قادر تھا مگر اس میں تاخیر کی یہاں تک کہ مر گیا تو بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ نماز وحج دونوں صورتوں میں گناہگار ہو گا۔ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ دونوں ہی صورتوں میں وہ گناہگار نہیں ہو گا اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ وہ حج کی صورت میں تو گنہگار ہو گا لیکن نماز کی صورت میں گناہگار نہیں ہو گا۔ حنفی علماء کا مسلک بھی اسی آخری قول کے مطابق ہے۔
اور حضرت ابوموسی اشعری کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ایک تو وہ شخص ہے جو مال غنیمت حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتا ہے ایک وہ شخص ہے جو ذکر یعنی آوازہ اور شہرت کو جس کو سمعہ کہتے ہیں کہ لئے جنگ کرتا ہے اور ایک وہ شخص ہے جو اس لئے جنگ کرتا ہے تاکہ اس کا مرتبہ دیکھا جائے یعنی اپنی شجاعت وبہادری دکھانے کے لئے جنگ کرتا ہے کہ جس کو ریا کہتے ہیں تو ان تینوں میں کون اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اس لئے جنگ کرے تاکہ اللہ کا دین سربلند ہو حقیقت میں وہی اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم غزوہ تبوک سے واپس آ رہے تھے اور مدینہ کے قریب پہنچے تو فرمایا کہ مدینے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اس سفر جہاد میں بظاہر تمہارے ساتھ نہیں تھے لیکن تم نے ایسا کوئی راستہ طے نہیں کیا اور کسی ایسی وادی و جنگل کو عبور نہیں کیا جس میں وہ تمہارے ساتھ نہ رہے ہوں یعنی ان کے جسم تو ان کے گھروں میں تھے لیکن ان کی دعائیں ان کے دل اور ان کی ہمتیں تمہارے ساتھ تھیں۔ اور ایک روایت میں (الا کانوا معکم) یعنی جس میں تمہارے شریک نہ ہوں صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اور وہ مدینہ ہی میں ہیں ؟ یعنی جب کہ وہ ہمارے ساتھ جہاد میں شریک نہیں گئے اور اپنے گھروں میں موجود رہے پھر وہ ہمارے ساتھ کیسے رہے اور ہمارے اجر و ثواب میں کیسے شریک ہوئے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں وہ مدینہ میں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اجر و ثواب میں تمہارے شریک ہیں کیونکہ ان کے عذر نے ان کو روکا ہے یعنی وہ اپنے عذر کی سبب سے تمہارے ساتھ جہاد میں نہیں جا سکے ہیں۔ بخاری اور مسلم نے اس روایت کو حضرت جابر سے نقل کیا ہے۔
تشریح
جو لوگ عذر کی بنا پر جہاد میں نہیں جا سکے اور مدینہ میں رہ گئے وہ جہاد کرنے والوں کے ثواب میں شریک تھے نہ یہ کہ مرتبہ و درجہ کے اعتبار سے وہ مجاہدین کے برابر تھے کیونکہ جن لوگوں نے بنفس نفیس جہاد میں شرکت کی اور اللہ کی راہ میں اپنی جان و مال کی قربانی پیش کی وہ افضل ہیں جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
آیت (فضل اللہ المجاہدین باموالہم وانفسہم علی القاعدین درجہ)
مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر اللہ نے درجہ میں فضیلت بخشی ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں جانے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ماں باپ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پھر تم انہیں کے درمیان رہ کر جہاد کرو یعنی پوری محنت و تندہی کے ساتھ ان کی خدمت کو کہ تمہارے حق میں یہی جہاد ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے فرمایا کہ تو پھر اپنے ماں باپ کے پاس جاؤ اور ان کی صحبت کو بہتر بناؤ یعنی ان کی خدمت اور ان کے حقوق کی ادائیگی اچھی طرح کرو۔
تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس حدیث سے جو حکم ثابت ہوتا ہے اس کا تعلق نفل جہاد سے ہے کہ جس شخص کے والدین زندہ ہوں اور مسلمان ہوں وہ ان کی اجازت کے بغیر نفل جہاد میں شرکت کے لئے گھر سے نہ جائے ہاں اگر جہاد فرض ہو تو پھر اس صورت میں اس کو والدین کی اجازت کی حاجت نہیں ہے۔ بلکہ اگر وہ منع بھی کریں اور جہاد میں جانے سے روکیں تو ان کا حکم نہ مانا جائے اور جہاد میں شریک ہو کر اپنا فرض ادا کیا جائے نیز اگر والدین کو خدا نے اسلام کی ہدایت نہ بخشی ہو اور وہ کافر ہوں تو جہاد میں شریک ہونے کے لئے ان کی اجازت کی کسی حال میں بھی حاجت نہیں ہے خواہ جہاد فرض ہو یا نفل اسی طرح علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر مسلمان ماں باپ یا ان میں سے کسی ایک کو ناگوار خاطر ہو تو ان کی اجازت کے بغیر بھی نفل عبادت جیسے حج و عمرہ کے لئے نہ جائے اور نہ نفل روزہ رکھے۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا اب فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے لہٰذا جب تم کو جہاد کے لئے بلایا جائے تو تم سب فوراً چلے جاؤ۔ کیونکہ نفیر عام کے موقع پر جہاد میں جانا فرض ہے اور اس فرض کی ادائیگی ہر ایک پر ضروری ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
ہجرت نہیں ہے: کا مطلب یہ ہے کہ فتح مکہ سے پہلے تو مکہ سے بلکہ ہر دارالکفر سے مدینہ کو ہجرت کرنی فرض عین تھی کیونکہ مدینہ میں دین کے نام لیواؤں کی تعداد بہت کم تھی اور وہ ہر اعتبار سے بہت کمزور و ضعیف تھے لہٰذا ہجرت کو فرض قرار دیا گیا تا کہ ہر طرف سے مسلمان مدینہ پہنچ کر وہاں کے مسلمانوں کی مدد و اعانت کریں اور اس طرح مشرکوں اور خدا کے باغیوں کی طاقت زائل و مفلوج ہو پھر جب اللہ تعالیٰ نے فتح مکہ کے ذریعہ مسلمانوں کو عام غلبہ عطا فرمایا اور ان کی شوکت بڑھائی تو وہ علت یعنی مدینہ کے مسلمانوں کا کمزور اور قلیل المقدار ہونا زائل ہو گی اور اس وقت سے ہجرت کی فرضیت ختم ہو گی لیکن کچھ صورتوں میں ہجرت کا استحباب باقی ہے جیسے جہاد کے لئے اپنے وطن سے نکلنا حصول علم کی خاطر کسی دوسری جگہ چلے جانا اور دارالکفر و دارالفتنہ سے یا کسی ملک و شہر سے نکل بھاگنا جہاں بھلائیاں متروک ہو چکی ہوں اور برائیاں مروج ہو گئی ہوں۔
لیکن جہاد اور نیت باقی ہے کا مطلب یہ ہے کہ دین کے دشمنوں اور خدا کے باغیوں کا دعویٰ سرنگوں کرنے کے لئے جہاد کی نیت رکھنے اور اخلاص عمل پیدا کرنے کا حکم باقی ہے حاصل یہ کہ ہجرت یعنی اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ چلے جانا مسلمان پر فرض تھا پھر یہ حکم ختم ہو گیا لیکن جہاد کے سبب سے یا نیت صالحہ کی بنا پر کفار کے یا اور جاہل کفار کے یا اور جاہل و بدعت اور فتنوں کے گڑھ سے نکل بھاگنے یا طلب علم کے لئے اپنا وطن چھوڑ دینا باقی رہا اور اس کا حکم منسوخ نہیں ہوا۔
حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میری امت کی کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی حمایت و حفاظت کے لئے برسر جنگ رہے گی اور جو بھی شخص اس جماعت سے دشمنی کرے گا وہ اس پر غالب رہے گی، یہاں تک کہ اس امت کے آخری لوگ مسیح دجال سے جنگ کریں گے۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس ارشاد گرامی سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ امت کسی بھی زمانے میں ایسے سرفروشوں اور جانبازوں سے خالی نہیں رہے گی جو دین کی سربلندی حق کی حمایت و حفاظت اور ملت کے تحفظ کے لئے جان و مال کی قربانی پیش کریں گے اور دشمنان اسلام کا دعویٰ سرنگوں کریں گے وہیں یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ مجاہدین اسلام کے مقابلہ پر آنے والے کو آخر کار ہزیمت اور شکست کی رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا خواہ وہ کوئی فرد ہو یا کوئی جماعتی طاقت ہو سکتا ہے کہ وقت نزاکت اور حالات کی رفتار کسی مرحلہ پر مسلمانوں کے لئے بظاہر کسی پسپائی کا موقعہ پیدا کر دے لیکن آخر کار فتح و کامرانی مسلمانوں کا ہی نصیب بنے گی۔
اس امت کے آخری لوگ سے: حضرت امام مہدی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے تابعین کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو قرب قیامت میں دجال کے ذریات سے جنگ کریں گے۔ اور آخر کار حضرت عیسیٰ اس کو فنا کے گھاٹ اتاریں گے، دجال کے قتل کے بعد پھر کوئی جہاد نہیں ہو گا۔ کیونکہ یاجوج ماجوج کے خلاف تو جہاد اس لئے نہیں ہو گا کہ ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی کو حاصل نہیں ہو گی اور جب اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کر دے گا تو پھر جب تک عیسی علیہ السلام اس دنیا میں موجود رہیں گے روئے زمین پر کوئی کافر باقی نہیں رہے گا آخر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد بعض لوگ کافر ہو جائیں گے اور اس وقت تمام مسلمان ایک پاکیزہ ہوا کے ذریعہ وفات پا جائیں گے اور دنیا میں صرف کافر ہی رہ جائیں گے اس طرح جب قیامت آئے گی تو اس وقت روئے زمیں پر کوئی بھی اللہ کا نام لیوا باقی موجود نہیں ہو گا۔ اس اعتبار سے بعض احادیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ (لا تزال طائفہ من امتی ظاہرین علی الحق حتی تقوم الساعۃ) یعنی میری امت کی کوئی نہ کوئی جماعت ہمیشہ حق کی حمایت و حفاظت کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت قائم ہو تو یہ قرب قیامت پر محمول ہے کہ قرب قیامت تک اس روئے زمین پر حق کی حفاظت کرنے والی کوئی نہ کوئی جماعت موجود رہے گی چنانچہ حق کی حمایت میں حق والوں کا آخری معرکہ دجال سے ہو گا اور دجال کا خروج علامات قیامت میں سے ہے۔
اور حضرت امامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے نہ تو (بنفس خود) جہاد کیا اور نہ کسی مجاہد کا سامان درست کیا اور نہ کسی غازی کے (جہاد میں ہونے کے دوران اس کے) اہل و عیال کے حق میں بھلائی کے ساتھ ان کا نائب بنا تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے پہلے دن کسی سخت مصیبت میں مبتلا کرے گا (ابو داؤد)
اور حضرت امامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشرکین یعنی دشمنان اسلام سے تم اپنی جان اپنے مال اور اپنی زبان کے ذریعہ جہاد کرو۔ (ابو داؤد، نسائی،دارمی)
تشریح
جان و مال کے ذریعہ جہاد کرنا تو یہ ہے کہ حق و باطل کے درمیان ہونے والے معرکہ کے موقع پر میدان جنگ میں اپنی جان کو پیش کرے اور زخمی ہو اور اپنے مال کو جہاد کی ضروریات میں خرچ کرے زبان کے ذریعہ جہاد کرنا یہ ہے کہ دشمنان اسلام کے عقائد و نظریات اور ان کے بتوں کی مذمت کرے ان کے حق میں میں بد دعا کرے کہ انہیں حق کے مقابلہ پر ذلت و رسوائی اور شکست کا سامنا کرنا پڑے ان کو قتل و قید کرنے یا اسی طرح کی اور چیزوں سے ڈرائے دھمکائے مسلمانوں کی فتح و کامرانی اور ان کو مال غنیمت ملنے کی دعا کرے اور لوگوں کو جہاد میں شریک ہونے کی ترغیب دلائے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا سلام کو عام یعنی ہر آشنا و نا آشنا کو سلام کرو اور غریب و محتاج لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور کفار کے فتنہ و فساد کا سر کچلو جنت کے وارث بنائے جاؤ گے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
اور حضرت فضالہ ابن عبید رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر میت اپنے عمل پر اختتام پذیر ہوتی ہے یعنی ہر شخص کا عمل اس کی زندگی تک رہتا ہے مرنے کے بعد اس کا عمل بایں طور باقی نہیں رہتا کہ اس کو نیا ثواب ملے لیکن جو شخص اللہ کی راہ یعنی جہاد میں پاسبانی کرتا ہوا مرے تو اس کے لئے اس کا عمل قیامت کے دن تک بڑھا دیا جاتا ہے اور قبر کے فتنہ و عذاب سے مامون رہتا ہے ترمذی، ابوداؤد، اور دارمی نے اس روایت کو عقبہ ابن عامر سے نقل کیا ہے۔
تشریح
اس کا عمل قیامت تک کے لئے بڑھا دیا جاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی اس کو ہر لحظہ اس کے اس عمل کا نیا ثواب ملتا رہتا ہے کیونکہ اس نے ایک ایسے علم پر اپنی جان نذر کی ہے جس کا فائدہ ہمیشہ مسلمانوں کو پہنچتا رہے گا اور وہ عمل ہے دین کو زندہ و سر بلند رکھنا جو اس شخص نے جہاد میں پاسبانی کے ذریعہ سے مسلمانوں کو دشمنوں سے محفوظ و محتاط رکھ کر انجام دیا۔
اور حضرت معاذ ابن جبل سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد میں اونٹنی کے فواق کے بقدر یعنی تھوڑی دیر کے لئے بھی لڑا اس کے لئے ابتداء ہی جنت واجب ہو گئی جو شخص اللہ کی راہ میں (جہاد) میں دشمنوں کے ہتھیاروں سے زخمی ہوا یا وہ کسی زخم کی تکلیف میں مبتلا ہوا تو وہ زخم قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا جیسا کہ وہ دنیا میں تھا (یعنی وہ شخص قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کا وہ زخم زیادہ تازہ حالت میں ہو گا اور اس زخم رنگ زعفران جیسا اور اس کی بو مشک جیسی ہو گی اور جس شخص کے بدن میں اللہ کی راہ (جہاد) میں پھوڑا نکلا تو قیامت کے دن اس پھوڑے پر یا پھوڑے والے پر شہیدوں کی مہر ہو گی یعنی اس شخص کی ساتھ شہیدوں کی علامت ہو گی تا کہ جانا جائے کہ اس شخص نے دین کی سربلندی و حفاظت کے لئے جدوجہد کی تھی چنانچہ اس کو وہی اجر و انعام دیا جائے گا جو مجاہدین اسلام کو ملے گا۔
تشریح
فواق اس وقفہ کو کہتے ہیں جو اونٹنی کے دودھ دوہنے کے درمیان ہوتا ہے یعنی پہلے ایک مرتبہ اونٹنی کا دودھ دوہا اس کے بعد پھر تھوڑی دیر میں پھر دوہا ان دونوں مرتبہ دودھ دوہنے کے درمیان جو وقفہ ہوتا ہے اس کو عربی میں فواق کہتے ہیں یہاں حدیث میں فواق سے مراد تھوڑی دیر ہے۔
اور حضرت خریم ابن فاتک کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں یعنی جہاد میں اپنے مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرے گا اس کے لئے سات سو گنا ثواب لکھا جائے گا۔ (ترمذی)
تشریح
خدا کی راہ میں اپنے مال و اسباب کو خرچ کرنے کا جو ثواب ہے اس کا ادنیٰ درجہ یہاں ذکر کیا گیا ہے کہ جہاد میں خرچ کیا جانے والا مال اپنے مالک کو سات سو گنا ثواب کا حقدار کرے گا ویسے یہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر موقوف ہے کہ وہ جس کو چاہئے گا اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔
اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہترین صدقہ اس خیمہ کا سایہ ہے جو خدا کی راہ میں یعنی کسی مجاہد یا حاجی اور یا طالب علم دین وغیرہ کو دیا جائے اور بہترین صدقہ وہ خادم ہے جو خدا کی راہ میں (کلیۃً یا عاریۃً) دیا جائے اور بہترین صدقہ اللہ کی راہ میں ایسی اونٹنی کا دینا ہے جو نر کی جفتی کے قابل ہو یعنی خدا کی راہ میں ایسی اونٹنی کا دینا افضل ہے جو نر کے ساتھ جفتی کی عمر کو پہنچ گئی ہے تا کہ وہ سواروں کے کام آ سکے۔ (ترمذی)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہ شخص دوزخ میں نہیں جائے گا جو خدا کے خوف سے رویا ہو یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس نہ چلا جائے اور کسی بندے میں اللہ کی راہ کا غبار اور دوزخ کا دھواں یک جا نہیں ہو سکتے یعنی جس مسلمان کا جسم خدا کی راہ میں جہاد میں غبار آلود ہوا اس کو دوزخ کا دھواں چھو بھی نہیں سکتا۔ حاصل یہ کہ مجاہد دوزخ میں نہیں جائے گا۔ (ترمذی،) اور نسائی نے ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور کسی مسلمان کی ناک کے دونوں نتھنوں میں خدا کی راہ کا غبار اور دوزخ کا دھواں کبھی بھی یک جا نہیں ہو سکتے اور نسائی ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ بندے کے پیٹ میں خدا کی راہ کا غبار اور دوزخ کا دھواں کبھی بھی یک جا نہیں ہو سکتے اور کسی بندے کے دل میں (کامل ) ایمان اور بخل کبھی بھی یک جا نہیں ہو سکتے۔
تشریح
یہاں تک کہ دودھ تھنوں میں واپس نہ چلا جائے یہ جملہ تعلیق بالمحال کے طور پر ہے یعنی جس طرح دوہے ہوئے دودھ کا تھنوں میں واپس جانا محال ہے۔ اسی طرح اس شخص کا دوزخ میں جانا محال ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو دوزخ کی آگ چھو بھی نہ سکے گی ایک تو وہ آنکھ جو خدا کے خوف سے روئی ہو۔ اور دوسری وہ آنکھ ہے جس نے خدا کی راہ میں یعنی جہاد میں کفار سے مجاہدین کی نگہبانی کرتے ہوئے رات گزاری ہو۔ (ترمذی)
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ایک صحابی پہاڑی کے درہ میں سے گزرے جس میں شیریں پانی کا ایک چشمہ تھا تو وہ چشمہ ان کو بہت اچھا لگا وہ کہنے لگے کہ کاش میں لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لوں اور اس درے میں آ رہا ؟ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے اس بات کا ذکر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان صحابی سے فرمایا کہ تم ایسا نہ کرنا کیونکہ تم میں سے کسی شخص کا اللہ کی راہ یعنی جہاد میں قیام کرنا اس کا گھر میں ستر برس نماز پڑھنے سے بہتر ہے کیا تم اس کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم کو کامل طور پر بخش دے اور تمہیں ابتداء ہی میں جنت میں داخل کر دے خدا کی راہ میں جہاد کرو کیونکہ جس شخص نے خدا کی راہ میں اونٹنی کے فواق کے بقدر یعنی تھوڑی دیر کے لئے بھی جہاد کیا اس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔ (ترمذی)
تشریح
ستر برس سے تحدید مراد نہیں ہے بلکہ کثرت مراد ہے چنانچہ یہ ارشاد گرامی اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ :
حدیث (مقام الرجل فی الصف فی سبیل اللہ افضل عند اللہ من عبادہ الرجل ستین سنہ)۔
کسی شخص کا اللہ کی راہ میں دشمن کے مقابلہ پر صف میں کھڑا ہونا خدا کے نزدیک کسی شخص کی ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے۔
اس حدیث کے ظاہری مفہوم سے چونکہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں سے گوشہ گزینی اختیار کرنے اور جنگل و کوہستان میں عبادت خداوندی میں مشغول رہنے سے بخشش و مغفرت حاصل نہیں ہوتی اس لئے علماء اس ارشاد گرامی کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ چونکہ اس زمانے میں جہاد واجب تھا۔ اور کسی نفل کے لئے واجب کو ترک کرنا گناہ ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ ان صحابی پر گویا یہ واضح کیا کہ اگر تم نے دنیا اور دنیا والوں سے ترک تعلق کر کے اس پہاڑی درے میں گوشہ گزینی اختیار کی اور اگرچہ اس کا مقصد محض مکمل تنہائی و خلوت میں خدا کی عبادت میں مشغول رہنا ہو تو اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تم ان بہت سی سعادتوں اور فضیلتوں سے محروم رہ جاؤ گے جو دنیا والوں کے درمیان رہ کر دینی فرائض و ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صورت میں حاصل ہوتی ہیں بلکہ تمہارا یہ نفل عمل ایک واجب عمل اور ایک اہم دینی فریضہ یعنی جہاد کے ترک کا باعث بھی ہو گا جس سے تم گنہگاروں کے زمرے میں شامل ہو جاؤ گے۔ علاوہ ازیں جیسا کہ ترجمہ میں واضح کیا گیا ہے اس ارشاد گرامی سے کامل مغفرت اور ابتداءٍ جنت میں جانے والوں کے ساتھ جنت میں داخل ہونے پر معمول کیا جا سکتا ہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ لوگوں کے درمیان رہنا گوشہ گزینی سے افضل ہے خصوصاً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سعادت نشان میں تو یہ افضلیت کہیں زیادہ تھی البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے بعد کبھی کبھی گوشہ گزینی ہی کو افضلیت حاصل ہوتی ہے جب کہ لوگوں کے درمیان رہنے سے فتنہ وشر کے غلبہ کا خوف ہو۔
اور حضرت عثمان رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد میں کفر کی سرحدوں پر ایک دن کے لئے بھی پاسبانی کی خدمت اس (پاسبانی کے) منصب و خدمت کے علاوہ اور عبادتوں میں ہزار دن تک مشغول رہنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی و نسائی)
تشریح
اس منصب و خدمت کے علاوہ کے ذریعہ اقامت دین کے لئے خدا کی راہ میں جدوجہد کرنے کی خدمت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔
بظاہر اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو جہاد میں اسلامی سرحدوں کی حفاظت ونگہبانی کی خدمت پر مامور کیا گیا ہو اور پاسبانی کی ذمہ داریوں کو انجام دینا اس پر واجب ہو کیونکہ اس شخص کا اسی مفوضہ خدمت کے علاوہ کسی اور عبادت وغیرہ میں مشغول ہونا معصیت ہے اگرچہ وہ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں مسجد ہی میں کیوں نہ بیٹھے کہ اس عمل کی بھی بہت فضیلت ہے اور اس کو بھی رباط کہا گیا ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میرے سامنے وہ پہلے تین شخص پیش کئے گئے جو شروع ہی میں جنت میں داخل ہوں گے ان میں سے ایک شخص تو شہید ہے دوسرا وہ شخص ہے جو حرام سے بچے اور سوال نہ کرے (یعنی فسق و فجور سے بچنے والا اور کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والا) اور تیسرا شخص وہ غلام ہے جس نے اپنے اللہ کی بھی اچھی اطاعت و عبادت کی اور اپنے مالکوں کا بھی خیر خواہ رہا۔ (ترمذی)
تشریح
پہلے تین شخص سے مراد یہ ہے کہ بالکل شروع میں جنت میں جو تین تین شخص داخل ہوں گے ان میں سے یہ تین شخص پہلے داخل ہوں گے لیکن انبیاء کے بعد کیونکہ انبیاء کے بعد کیونکہ انبیاء سب سے مقدم ہوں گے اور وہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے نیز تین تین شخص سے تین تین جماعتیں مراد ہیں۔
اور حضرت عبداللہ ابن حبشی سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ نماز کے اعمال (ارکان ) میں سے کونسا عمل (رکن) افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا طویل قیام کرنا پوچھا گیا کون سا صدقہ افضل ہے فرمایا مفلس و محتاج اپنے فقر و افلاس کے باوجود محنت و مشقت کر کے نکالے پوچھا گیا کون سی ہجرت بہتر ہے فرمایا اس شخص کی ہجرت میں جو اس چیز کو چھوڑ دے جس کو اللہ نے حرام قرار دیا ہے یعنی اگرچہ ہجرت کے معنی دارالکفر کو چھوڑ کر دار السلام میں چلے جانا ہیں لیکن حرام چیزوں کو چھوڑ کر حلال چیزوں کو اختیار کرنا بھی ہجرت ہی کہلاتا ہے بلکہ یہی ہجرت بہتر ہے پوچھا گیا کون سا جہاد بہتر ہے فرمایا اس شخص کا جہاد (جو اپنے مال اور اپنی جان کے ذریعہ مشرکین سے جہاد کرے پوچھا گیا جہاد میں کونا سا مارا جانا بہتر ہے یعنی کون سا شہید افضل ہے فرمایا اس شخص کا مارا جانا جس کا خون بہایا جائے اور جس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹی جائیں یعنی وہ شہید افضل ہے جو خود بھی مارا جائے اور اس کا گھوڑا بھی مارا جائے ابو داؤد اور نسائی کی روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ اعمال میں کون سا عمل افضل ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ ایمان جس میں کسی قسم کا کوئی شک نہ ہو۔ وہ جہاد جس میں حاصل شدہ مال غنیمت کے بارے میں کسی طرح کی خیانت نہ کی گئی ہو اور حج مقبول پھر پوچھا گیا کہ نماز میں کون سی چیز افضل ہے ؟ فرمایا قیام کو طویل کرنا اس کے بعد حدیث کے الفاظ ابوداؤد و نسائی نے یکساں نقل کئے ہیں۔
تشریح
جو اپنے جان اور مال کے ذریعہ الخ کا مطلب یہ ہے کہ وہی جہاد افضل ہے جس میں مجاہد نے اپنا مال و اسباب اور اپنا روپیہ پیسہ بھی اپنے اور دوسرے مجاہدین کی ضروریات جہاد میں صرف کیا ہو اور میدان جنگ میں اپنی جان کو بھی پیش کیا ہو یہاں تک کہ زخمی ہوا اور مارا گیا
افضل اعمال کے سلسلے میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ احادیث میں افضل اعمال کے تعین وبیان کے سلسلے میں مختلف ارشاد منقول ہیں کہیں عمل کو افضل فرمایا گیا ہے اور کہیں کسی عمل کو اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے افضل عمل کے بارے میں کئے جانے والے سوالات کے جوابات سائل کی حیثیت اور اس کے احوال کے مناسب ارشاد فرمائے چنانچہ جس سائل میں تکبر و درشتی کے آثار دیکھے اس کو جواب دیا کہ سب سے بہتر عمل تواضع و نرم خوئی ہے جیسے سلام کو ظاہر کرنا اور نرم کرنا جس سے سائل میں بخل اور خست کے آثار پائے اس سے فرمایا کہ سب سے بہتر عمل سخاوت ہے جیسے محتاجوں اور فقیروں کو کھانا کھلانا وغیرہ اسی طرح جس سائل میں عبادت کے معاملے میں سستی کے آثار پائے اس کو جواب دیا کہ سب سے بہتر عمل تہجد کی نماز ہے غرضیکہ جس سائل کو جس حالت میں پایا اس کا جواب اسی کے مناسب حال دیا، اس اعتبار اعمال کی افضلیت کی مراد گویا درحقیقت سائل کے حق میں ہے کہ مثلاً جس سائل میں بخل و خست کی خصلتیں تھیں اس کے حق میں سب سے بہتر عمل سخاوت ہی تھا یا پھر یہ کہا جائے گا کہ جس موقع پر جس عمل کو سب سے بہتر عمل فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ یہ عمل افضل اعمال میں سے ایک افضل عمل ہے۔
اور حضرت مقدام ابن معد یکرب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حق تعالیٰ کے ہاں شہید کے لئے چھ امتیازی انعامات ہیں (١) اس کو پہلی مرتبہ میں ہی (یعنی اس کے خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی) بخش دیا جاتا ہے (٢) اس کو جان نکلتے وقت ہی جنت میں اپنا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے (٣) وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہتا ہے (٤) وہ بڑی گھبراہٹ یعنی آگ کے عذاب سے مامون رہے گا (٥) اس کے سر پر عظمت و وقار کا تاج رکھا جائے گا جس کا یاقوت دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر و گرانما یہ ہو گا (٦) اس کی زوجیت میں بڑی آنکھوں والی بہتر حوریں دی جائیں گی اور اس کے عزیز و اقرباء میں سے ستر آدمیوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ کے حضور اس حال میں حاضر ہو گا کہ اس پر جہاد کا کوئی اثر نہیں ہو گا تو وہ گویا اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا دین ناقص ہو گا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
اثر سے مراد علامت و نشان ہے حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص اس حال میں اس دنیا سے رخصت ہو گا کہ نہ تو اس کے جسم پر جہاد کی کوئی علامت ہو گی جیسے زخم یا غبار راہ یا کسی اور جسمانی تکلیف کا کوئی نشان۔ اور نہ اس کے نامہ اعمال میں شرکت جہاد کا کوئی ثبوت ہو گا جیسے جہاد اور مجاہدین کی ضرورت میں اپنا مال خرچ کرنا یا مجاہدین کو سامان جہاد مہیا کرنا تو وہ گویا اس حالت پر مرے گا کہ اس کے دین میں رخنہ ہو گا ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اس شخص سے ہو جس پر جہاد فرض ہوا اور وہ نہ صرف یہ کہ اس فرض کی ادائیگی سے عملی طور پر محروم رہا ہو بلکہ اس نے جہاد میں شریک ہونے اور مستعد رہنے کا ارادہ بھی نہ کیا ہو۔
طیبی کہتے ہیں کہ یہاں جس جہاد کا ذکر کیا گیا ہے اس سے کفار کے مقابلہ میں لڑی جانے والی جنگ بھی مراد ہے اور اپنے نفس وشیطان سے لڑنا بھی مراد ہے جس کو مجاہدہ کہتے ہیں، چنانچہ اس کی تائید حضرت ابوامامہ کی روایت سے بھی ہوتی ہے جو آگے آ رہی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شہید اپنے قتل کی بس اتنی تکلیف محسوس کرتا ہے جتنی تکلیف تم میں سے کوئی شخص چیونٹی کے کانٹے پر محسوس کرتا ہے ترمذی، نسائی،دارمی، اور ترمذی، نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
طیبی کہتے ہیں کہ یہ اس شہید کا بیان کیا گیا ہے جو خدا کی راہ میں اپنی جان دینے میں لذت و کیف محسوس کرتا ہے اور اس قربانی پر اس کا نفس خوش و مطمئن ہوتا ہے لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ شہید کو موت کے بعد حق تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں کی وجہ سے جو لذتیں حاصل ہوتی ہیں ان کی بہ نسبت اس کو اپنے قتل کی تکلیف چیونٹی کے کانٹے کی تکلیف سے زیادہ محسوس نہیں ہوتی لہٰذا دانا مؤمن کو چاہئے کہ وہ خدا کی راہ میں جان دینے میں سے نہ گھبرائے اور نہ ڈرے بلکہ ہنسی خوشی کے ساتھ شہادت کو گلے لگائے۔
اور حضرت امامہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خدا کے نزدیک دو نشانوں سے زیادہ محبوب کوئی چیز نہیں ہے ایک تو خدا کے خوف سے بہا ہوا آنسوؤں کا قطرہ ہے اور دوسرا قطرہ خون ہے جو خدا کی راہ میں بہایا گیا ہو۔ اور دو نشانوں میں سے ایک نشان تو وہ ہے جو اللہ کی راہ میں قائم ہوا ہو۔ اور دوسرا نشان وہ ہے اللہ کی طرف سے فرض کی ہوئی چیزوں میں سے کسی فرض چیز کے سلسلے میں پیدا ہوا ہو امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث جس غریب ہے۔
تشریح
اللہ کی راہ میں قائم ہونے والے نشان کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جہاد میں جائے اور راستہ میں اس کے قدم کے نشان پڑ جائیں یا اس کے جسم پر غبار راہ کا اثر قائم ہو جائے یا اس کے بدن پر کوئی زخم آ جائے اور یا طالب علم دین کے کپڑوں یا جسم کے کسی حصہ پر روشنائی کے داغ دھبے پڑ جائیں کہ علم دین کی راہ بھی خدا کی راہ ہے اور اس راہ کا راہی بھی مجاہد کی طرح ہے۔
کسی فرض چیز کے سلسلے میں پیدا ہونے والے نشان کا مطلب یہ ہے کہ جیسے جاڑے کے موسم میں وضو کی وجہ سے نمازی کے ہاتھ پیر پھٹ جائیں، نماز میں سجدوں کی وجہ سے پیشانی پر داغ پڑ جائے یا گرمی میں سجدہ کے وقت تپتے ہوئے فرش سے نمازی کی پیشانی جل جائے اور اس کا کوئی دھبہ پڑ جائے، یا روزے میں روزے دار کی منہ سے بو آنے لگے اور یا سفر حج میں حاجی کے بدن پر راستے کی گرد و غبار کی تہیں جم جائیں۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم با ارادہ حج یا عمرہ اور یا اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے جانے کے علاوہ دریا میں سفر نہ کرو کیونکہ دریا کے نیچے آگ ہے اور آگ کے نیچے دریا ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ پانی میں سفر کرنا ایک خطرناک مہم ہے اور عقلمند آدمی کو چاہئے کہ وہ اس خطرناک مہم کے ذریعہ اپنے آپ کو ہلاکت و خوف میں نہ ڈالے کیونکہ کسی شرعی ضرورت کی بناء پر کہ جو تقرب بارگاہ الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے کسی خطرناک و ہلاکت خیز مہم میں اپنے آپ کو ڈالنا ایک مستحسن فعل ہے لیکن بلا ضرورت شرعی ایسا کوئی بھی فعل عقل و دانش کے منافی ہے۔
اس حدیث سے ان لوگوں کے قول کی تردید ہوتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ترک حج کے لئے سمندر و دریا ایک عذر شرعی ہے چنانچہ اس سلسلے میں سب سے بہتر اور قابل عمل بات مشہور فقیہ حضرت ابو اللیث سمر قندی کی ہے جو یہ فرماتے ہیں کہ جب دریائی سفر میں سلامتی کا پہلو غالب ہو تو حج پر جانا فرض ہوتا ہے اور اگر سلامتی کا پہلو غالب نہ ہو تو پھر حج کا ارادہ کرنے والا مختار ہے کہ اگر ہمت ساتھ نہ دے تو نہ جائے اور اگر وہ سلامتی کا ظن غالب نہ ہونے کے باوجود جانا چاہے تو چلا جائے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اس موقع پر اس آیت کریمہ :
(وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التَّهْلُكَة) 2۔ البقرۃ:195)۔
اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں تباہی و ہلاکت مت ڈالو۔
کے بارے میں بھی یہ بتا دینا ضروری ہے کہ یہ آیت اس صورت پر محمول ہے جب کہ اس جگہ کوئی شرعی غرض اور دینی کام نہ ہو چنانچہ اسی لئے بیضاوی نے اس آیت کی تفسیر میں تباہی و ہلاکت کی کچھ صورتیں بیان کی ہیں کہ جیسے اپنے مال کا اسراف کرنا یا اپنی معاش کے ذریعہ مثلاً نوکری یا تجارت وغیرہ کو اپنے ہاتھوں ضائع و ختم کر دینا اور جہاد میں شرکت کرنے یا اپنا مال خرچ کرنے سے باز رہنا دراصل دشمن کو قوت پہنچانا اور ان کو اپنی ہلاکت کے لئے اپنے اوپر مسلط کر لینا ہے۔
دریا کے نیچے آگ ہے اس جملہ کا مقصد لوگوں کو سمندر ودریا سے ڈرانا اور اس بات کو اہمیت کے ساتھ بیان کرنا ہے کہ سمندر و دریا کے سفر میں بڑا خطرہ ہے کیونکہ سمندر ودریا میں سفر کرنے والا مختلف قسم کے آفات سے دو چار رہتا ہے اور خصوصاً پہلے زمانے میں تو پانی کا سفر اپنے دامن میں بہت ہی خطرے رکھتا تھا اور مسافروں کو یکے بعد دیگرے ایسی مختلف خطرناک صورت حال سے دو چار ہونا پڑتا تھا جس کی وجہ سے ہر لمحے موت و ہلاکت بالکل سامنے کھڑی نظر آتی تھی۔
بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس جملہ کو اس کے اصل معنی پر بھی محمول کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور ام حرام سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دریا و سمندر کے سفر میں جس شخص کا سر گھومنے لگے اور اس کی وجہ سے اس کو قے ہو تو اس کو ایک شہید کا ثواب ملے گا اور جو شخص سفر کے دوران دریا میں ڈوب جائے تو اس کو دو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔ (ابو داؤد)
تشریح
ان دونوں کو شہید کا ثواب اس صورت میں ملے گا جب کہ وہ جہاد کے لئے طلب علم اور حج جیسے مقاصد کے لئے کشتی وغیرہ کے ذریعہ دریا و سمندر میں سفر کر رہا ہو، نیز اگر اس کے سفر کا مقصد تجارت ہو اور اس تجارت کی غرض اپنے جسم کو زندہ و طاقتور رکھنا اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت زندگی کو پورا کرنا ہو اور وہ تجارت اس دریائی سفر کے بغیر ممکن الحصول نہ ہو تو اس صورت میں بھی یہی حکم ہے۔
جہاد میں کسی بھی طرح مرنے والا شہید ہے
اور حضرت ابو مالک اشعری کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ یعنی جہاد جیسے مقاصد میں گھر سے نکلا اور زخمی ہو جانے کی وجہ سے مر گیا یا اس کو جان سے مار ڈالا گیا یا اس کے گھوڑے یا اس کے اونٹ نے اس کو کچل ڈالا یا کسی زہریلے جانور جیسے سانپ وغیرہ نے اس کو ڈس لیا اور یا کسی بیماری کی وجہ سے یا اچانک یوں ہی اللہ کی مرضی سے اپنے بستر پر مارا گیا تو وہ ہر صورت میں شہید ہے یعنی یا تو وہ حقیقی شہید ہے یا شہید کے حکم میں ہے اور اس کے لئے جنت ہے یعنی وہ ابتداء ہی میں شہداء و صالحین کے ساتھ جنت میں داخل ہو گا۔ (ابو داؤد)
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جہاد سے لوٹ کر آنا بھی جہاد کے مانند ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ مجاہد اور غازی جب جہاد سے فارغ ہو کر اپنے گھر لوٹ آتا ہے تو اس کے لوٹنے میں بھی اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا جہاد کرنے میں کیونکہ مجاہد و غازی تو ہر وقت اللہ کی راہ میں اپنی جان پیش کرنے کی نیت رکھتا ہے چنانچہ جب وہ کسی سے فارغ ہو کر گھر آتا ہے تو اس کی نیت یہی ہوتی ہے کہ کچھ دن راحت لے کر پھر جہاد کرنے کی طاقت و قوت پیدا کروں اور جوں ہی اللہ کی راہ کا بلاوا آ جائے فوراً میدان جنگ میں پہنچ کر نئے حوصلوں اور نئی امنگوں کے ساتھ دشمنان دین کے ساتھ آزمائی کروں۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا جہاد کرنے والے کو اس کا اپنا اجر ملتا ہے یعنی مجاہد کے لئے جہاد کا جو مخصوص اجر ہے وہ اس کو پورا ملتا ہے اور جاعل (یعنی مال دینے والے کو) اس کا اپنا اجر بھی ملتا ہے اور جہاد کرنے والے کا بھی۔ (ابو داؤد)
تشریح
جاعل اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو کسی غازی کو مال دے اور اس کی مدد کرے تاکہ وہ جہاد کرے لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جاعل کو دوہرا ثواب ملتا ہے ایک ثواب تو اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا اور دوسرا ثواب اس بات کا ملتا ہے کہ وہ اس غازی کے جہاد کرنے کا سبب و ذریعہ بنا ہے اس اعتبار سے جعل سے مراد غازی کی مالی مدد کرنا اور اس کے لئے جہاد کا سامان و ضرورت مہیا کرنا چنانچہ اس عمل یعنی جعل کے جائز ہونے اور اس کی فضیلت کے بارے میں کوئی شبہ نہیں ہے اور تمام ہی علماء اس پر متفق ہیں۔
لیکن ابن ملک کہتے ہیں کہ جاعل سے مراد ہے وہ شخص جو کسی غازی کو اجرت دے کر جہاد کرائے حنفی علماء کے نزدیک یہ بھی جائز ہے اور اس صورت میں غازی کو جہاد میں اس کی جدوجہد اور مشقت کا ثواب ملے گا اور جاعل یعنی اجرت دینے والے کو دوہرا ثواب ملے گا ایک ثواب تو مال دینے کا او دوسرا ثواب اس غازی کے جہاد کرنے کا سبب و ذریعہ بننے کا مگر حضرت امام شافعی کے مسلک میں یہ یعنی کسی شخص کا اجرت دے کر جہاد کرانا منع ہے چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ اگر کسی غازی نے کسی شخص سے اسی طرح کی اجرت لے لی ہے تو اس کو واپس کر دینا واجب ہے۔
اور حضرت ابو ایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کویہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تمہارے لئے بڑے بڑے شہر فتح ہوں گے اور لشکر کے جدا جدا کئی جھنڈے ہوں گے جن میں تمہارے لئے فوجیں معین کی جائیں گی تو جو شخص امام یعنی سربراہ مملکت کی طرف سے اپنے آپ کو بلا معاوضہ فوج کے ہمراہ جہاد میں بھیجے جانے کو ناپسند کرے گا تو وہ اپنی قوم سے نکل بھاگے گا تا کہ جہاد میں جانے سے بچ جائے اور پھر دوسرے قبیلوں کو تلاش کرتا پھرے گا اور ان کے سامنے اپنی خدمات پیش کرے گا اور کہے گا کہ کون شخص ہے جس کو میں ایسے لشکر سے کفایت کروں یعنی وہ کون ہے جو میری خدمات کو اجرت پر حاصل کرے اور مجھے نوکر رکھے تاکہ میں اس کی طرف سے لشکر میں جا کر لڑائی کی محنت و مشقت اپنے ذمہ لوں حاصل یہ کہ وہ شخص بغیر اجرت کے محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے جہاد میں جانے کے لئے نہیں ہو گا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسے شخص کی مذمت فرماتے ہیں کہ خبردار وہ شخص اپنے آخری قطرہ خون تک مزدور ہی رہے گا یعنی ایسے شخص کو غازی یا مجاہد مت سمجھنا بلکہ وہ کرایہ کا ٹٹو ہو گا جو دوسروں کی طرف سے میدان جنگ میں لڑے گا یہاں تک کہ مارا بھی جائے گا۔ (ابو داؤد)
تشریح
جن میں تمہارے لئے فوجیں معین کی جائیں گی کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی مملکت کے سربراہ اس بات کو ضروری قرار دیں گے کہ اپنے ملک کی ہر قوم اور ہر جماعت کے لوگوں کی فوجیں بنا کر انہیں جہاد کے لئے بھیجیں۔
اور مظہر نے یہ مطلب بیان کیا ہے کہ جب اسلام کی آواز دنیا کی ہر سمت میں پہنچ جائے گی تو امام وقت یعنی اسلامی مملکت کا سربراہ اس بات کی ضرورت سمجھے گا کہ وہ اسلامی فوج کے لشکر تیار کرا کر ہر سمت کو بھیجے تاکہ وہ لشکر ان کفار کا قلع قمع کرے جو اسی سمت میں موجود مسلمانوں کے قریب ہوں اور مسلمانوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے ریشہ دانیاں کر رہے ہوں۔
اور حضرت یعلی ابن امیہ کہتے ہیں کہ ایک موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو جہاد پر جانے کے لئے آگاہ کیا تو چونکہ میں بڑا بوڑھا تھا اور میرے پاس کوئی خادم نہیں تھا اس لئے میں نے کوئی ایسا مزدور تلاش کیا جو دوران جہاد میری دیکھ بھال کر سکے چنانچہ مجھ کو ایک شخص مل گیا جس کی اجرت تین دینار میں نے مقرر کر دی پھر (جہاد کی فراغت کے بعد) جب مال غنیمت آیا تو میں نے ارادہ کیا کہ اس مال غنیمت میں سے اس شخص کا بھی حصہ لگاؤں اور بارے مسئلہ دریافت کرنے کے لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے صورت حال بیان کی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مجھے شریعت کے حکم میں اس شخص کے لئے جہاد کے تعلق سے دنیا و آخرت میں علاوہ اس دینار کے جو متعین کئے گئے ہیں اور کوئی چیز نہیں ملتی۔ (ابوداؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ تھا کہ اس شخص کے لئے نہ تو مال غنیمت میں سے کوئی حصہ ہے اور نہ اس کو جہاد کا کوئی ثواب ملے گا۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ حکم اس اجیر کے حق میں ہے جس کو کسی غازی نے جہاد کے دوران اپنی خدمت و دیکھ بھال کے لئے رکھا ہو ہاں جس اجیر کو جہاد کرنے کے لئے رکھا گیا ہو اس کو مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا اگرچہ بعض علماء کے قول کے مطابق وہ جہاد کے ثواب سے محروم رہے گا۔
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ علماء کے اس شخص کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں جس کو کام کاج کے لئے جانوروں کی حفاظت و دیکھ بھال کے لئے بطور اجیر رکھا گیا ہو اور پھر وہ میدان جنگ میں لڑنے کے لئے بھیجا گیا ہو کہ آیا اس کو مال غنیمت میں سے حصہ ملے گا یا نہ ؟ چنانچہ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اس کے لئے حصہ نہیں ہے خواہ وہ قتال کرے یہ نہ کرے بلکہ وہ صرف اپنی خدمات کی مقررہ اجرت کا ہی حقدار ہو گا۔ یہ قول اوزاعی و اسحٰق کا ہے اور حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول بھی یہی ہے جب کہ حضرت امام مالک اور امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ اس شخص کو حصہ دیا جائے گا اگرچہ اس نے قتال نہ کیا ہو مگر قتال کے وقت مجاہدین کے ساتھ رہا ہو۔
اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے حالانکہ وہ اس جہاد کے ذریعہ دنیا کے مال و اسباب کا خواہشمند ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اس کے نصیب میں ثواب نہیں ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس شخص کے ثواب سے محروم رہنے کی وجہ یہ ہے کہ انسان کو اپنے اس عمل کا ثواب ملتا ہے جو اس نے اخلاص نیت کے ساتھ یعنی محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے کیا ہو اور چونکہ اس شخص نے جہاد میں اس غرض سے شرکت کا ارادہ کیا کہ اس کے ذریعہ مال غنیمت حاصل کرے اور اس کے اعتبار سے اس کا مقصود اصلی گویا رضا الٰہی نہیں بلکہ مال و متاع تھا اس لئے وہ ثواب سے محروم رہے گا ہاں اگر کوئی شخص جہاد میں شریک ہو تو محض اللہ تعالیٰ کے لئے ہو لیکن مال غنیمت کا حصول بھی اس کا مقصود ہو تو اس کو ثواب ملے گا اگرچہ اس کو بھی اس شخص سے کم ثواب ملے گا جو محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لئے جہاد میں شریک ہو اور مال غنیمت کا حصول اس کا مقصود نہ ہو۔
اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جہاد دو طرح کا ہوتا ہے چنانچہ جس شخص نے مولی کی رضا طلب کرنے کے لئے جہاد میں شرکت کی امام یعنی سربراہ مملکت اور قانون حکومت اسلامی کی اطاعت کی اپنے پاک مال اور اپنی پاک جان کو خدا کی راہ میں صرف کیا اور اپنے شریک کار سے اچھا معاملہ رکھا اور فتنہ فساد کرنے سے بچتا رہا یعنی لوٹ مار کرنے ویرانی پھیلانے اور خیانت کرنے کے ذریعہ حدود شریعت سے تجاوز نہیں کیا تو اس کا سونا اور اس کا جاگنا سب کچھ اجر و ثواب کا موجب ہے اور جس شخص نے بطریق فخر یعنی ناموری اور دکھانے سنانے کے لئے جہاد کیا امام کی نافرمانی کی اور روئے زمین پر فتنہ و فساد پھلایا تو وہ کوئی بدلہ لے کر واپس نہیں آئے گا یعنی اس طرح کے جہاد سے نہ تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے اور نہ اس کو کوئی ثواب ملے گا۔ (مالک، ابوداؤد، نسائی)
اور حضرت عبداللہ ابن عمرو ابن عاص سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے جہاد کے بارے میں بتائیے کہ کس طرح کا جہاد موجب ثواب ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عبداللہ ابن عمرو ! اگر تم اس حال میں لڑو کہ صبر کرنے والے اور ثواب چاہنے والے ہو تو اللہ تعالیٰ تمہیں (قیامت کے دن) صبر کرنے والا ہی اٹھائے گا یعنی تم جس طرح ان صفات کے ساتھ جہاد کرو گے اور ان صفات پر مرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں ان صفات کے ساتھ اٹھائے گا اور تمہیں ان کا ثواب عطا فرمائے گا جیسا کہ ایک روایت میں ہے حدیث (کما تعیشون تموتون و کما تموتون تحشرون) یعنی تم جس حالت پر جیتے ہو اسی حالت پر مرو گے اور جس حالت پر مرو گے اسی حالت پر اٹھائے جاؤ گے اور اگر تم نمائش کی نیت سے اور اپنا زور جتلانے کے لئے لڑو گے یعنی اگر تم لوگوں میں یہ فخر کرنے کے لئے لڑو گے کہ میں مال اور طاقت اور لشکر کے اعتبار سے تم سے بڑھ کر ہوں اور جہاد کے حکم کی اتباع تم سے زیادہ کرنے والا ہوں تو اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن نمائش کرنے والا اور زور جتلانے اٹھائے گا یعنی میدان حشر میں تمہارے بارے میں اعلان کیا جائے گا کہ یہ شخص کون ہے جو نمائش کی نیت سے اور فخر کرنے اور زیادہ مال و منال حاصل کرنے کے لئے لڑا تھا۔ اے عبداللہ ابن عمرو یاد رکھو! تم جس حال میں لڑو گے یا جس حال میں مارے جاؤ گے اللہ تعالیٰ تمہیں اسی حال میں اٹھائے گا۔ (ابو داؤد)
اور حضرت عقبہ ابن مالک نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اس سے عاجز ہو کہ جب میں کسی شخص کو تمہارا امیر و حاکم بنا کر بھیجوں اور وہ میرے حکم کی فرمانبرداری نہ کرے یعنی وہ میرے کسی حکم یا میری کسی ممانعت کی مخالفت کرے تم اس کو معزول کر دو اور اس کی جگہ کسی ایسے شخص کو مقرر کر دو جو میرے مفوضہ کام کو انجام دے۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ واضح کرنا ہے کہ اگر میں کسی شخص کو کسی کام کے لئے مثلاً حاکم و والی بنا کر کہیں بھیجوں اور وہ وہاں نہ جائے یا وہاں جا کر میرے حکم کی تعمیل نہ کرے اور میری بتائی ہوئی راہ سے ہٹ کر اپنے بنائے ہوئے راستے پر چلنے لگے تو تم اس کو معزول کر دو اور اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو میرے حکم کے مطابق اپنا حاکم چن لو۔ اس حکم پر قیاس کرتے ہوئے علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ اگر کوئی امیر و حاکم رعیت پر ظلم کرنے لگے اور عوام کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے لگے تو عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس امیر کو معزول کر کے اور اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو امیر و حاکم چن لیں۔
(وذکر حدیث فضالۃ والمجاھد من جاہد نفسہ فی کتاب الایمان)
اور حضرت فضالہ کی روایت (والمجاہد من جاہد نفسہ) کتاب الایمان میں نقل کی جاچکی ہے۔
حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ ایک لشکر میں نکلے تو دوران سفر جب ہم میں سے ایک شخص ایک ایسی غار (وادی) کے درمیان سے گزرا جس میں کچھ پانی اور سبزہ تھا تو اس نے اپنے دل میں سوچا کہ وہ اسی غار میں رہ جائے اور دنیا سے کنارہ کشی کر لے۔ چنانچہ اس نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اجازت چاہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا یاد رکھو! نہ تو میں دین یہودیت دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں اور نہ دین عیسائیت دے کر کہ میں تم لوگوں کو رہبانیت کی تعلیم دوں، بیجا مشقت و تکلیف میں مبتلا کروں اور لوگوں کے ساتھ رہن سہن اور لذات دنیا سے مطلقاً کنارہ کشی کی اجازت دوں بلکہ میں تو دین حنیفہ دے کر بھیجا گیا ہوں جو ایک آسان دین ہے جس میں نہ تو انسانیت عامہ کے لئے بیجا تکلیف و حرج ہے اور نہ زائد از ضرورت مشقت و محنت ہے قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی جان ہے دن کے صرف ابتدائی یا آخری حصے میں یعنی صبح و شام کو خدا کی راہ جہاد میں چلے جانا دنیا کی تمام چیزوں سے بہتر ہے اور تم سے کسی کا میدان جنگ کی جماعت نماز کی صف میں کھڑا ہونا اس کی ساٹھ سال کی تنہا پڑھی جانے والی نماز سے بہتر ہے۔ (احمد)
اور حضرت عبادہ ابن صامت کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے ایک رسی (کے بھی حصول) کی نیت کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کیا تو اس کو وہی چیز حاصل ہو گی جس کی اس نے نیت کی ہے۔ (نسائی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر جہاد میں دنیا کی کوئی حقیر ترین چیز بھی مد نظر ہو تو یہ اخلاص کے منافی ہے گویا اس ارشاد گرامی کا مقصد اس بات کو زیادہ سے زیادہ کر کے بیان کرنا ہے اور یہ ترغیب دینا ہے کہ جہاد میں مالی غنیمت کے حصول سے کلیۃً قطع نظر کیا جائے اور نیت میں اس درجہ اخلاص پیدا کیا جائے کہ اس میں دنیا کی کسی بھی کی ہلکی سی بھی آمیزش نہ وہ لیکن واضح رہے کہ جہاد میں نیت کا یہ آخری درجہ ہے۔
چنانچہ یہ بات پہلے بتائی جا چکی ہے کہ جہاد میں رضائے الٰہی اور سر بلندی دین کے ساتھ مال غنیمت کے حصول کا مقصد بھی شامل ہو تو یہ جائز ہے اور اس صورت میں بھی جہاد کا ثواب ملتا ہے اسی طرح اگر اس نیت میں نمائش کا جذبہ شامل ہو تو اس کی وجہ سے بھی جہاد کا ثواب کلیۃً باطل نہیں ہو گا۔
اور حضرت ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین برحق ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر راضی ہو یعنی دل سے ان سے ان سب کو مانا تو اس کے لئے جنت واجب ہو گئی ابو سعید نے یہ ارشاد سنا تو ان کو اس پر بڑا تعجب ہوا انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! ! ان کلمات کو ایک مرتبہ پھر میرے سامنے ارشاد فرمائیے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے سامنے پھر یہی کلمات ارشاد فرمائے۔ اور پھر فرمایا کہ ایک چیز اور ہے جس کے سبب اللہ تعالیٰ جنت میں بندے کو سو درجے کی بلندی پر پہنچاتا ہے اور ان میں کے ہر درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا کہ آسمان و زمین کے درمیان ہے ابو سعید نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ کیا چیز ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے وہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے۔ (مسلم)
اور حضرت ابو موسی سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مجلس میں یہ بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے جنت کے دروازے تلواروں کے سائے میں ہیں (یہ سن کر) ایک خستہ حال شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ ابوموسی ! کیا تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے تمہارا یہ سننا جرم و یقین کے طور پر ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں یہ سنتے ہی وہ شخص اپنے ساتھیوں کی طرف مڑا اور کہا کہ میں تمہیں (آخری) سلام کرتا ہوں اور پھر اس نے اپنی تلوار کا نیام توڑ کر پھینک دیا (یعنی اس کے ذریعہ اس نے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ اب میں لوٹ کر نہیں آؤں گا) یعنی اپنی تلوار لے کر دشمنوں کی طرف روانہ ہو اور ان سے لڑا یہاں تک کہ شہید ہو گیا۔ (مسلم)
تشریح
جنت کے دروازے تلواروں کے سائے میں ہیں کا مطلب یہ ہے کہ مجاہد و غازی کا میدان جنگ میں اس طرح ہونا کہ کفار کی تلواریں اس کے اوپر اٹھی ہوئی ہوں اس کے جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے اور وہ حالت گویا اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ جنت کے دروازے اس مجاہد و غازی کے ساتھ ہیں کہ ادھر اس نے کفار کی تلواروں کے ذریعہ جام شہادت نوش کیا اور ادھر جنت میں داخل ہوا۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا جب تمہارے بھائی غزوہ احد میں شہید کئے گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی روحوں کو سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں جنت منتقل کر دیا، چنانچہ وہ روحیں (ان پرندوں کے قالب) جنت کی نہروں پر آتی ہیں وہاں کے میوے کھاتی ہیں اور پھر ان سونے کی قندیلوں میں جا کر بسیرا کرتی ہیں جو عرش کے سایہ میں لٹکی ہوئی ہیں۔ تو جب ان روحوں نے اپنے کھانے پینے اور اپنے بسیرے کی لطف اندوزی کو پایا تو کہنے لگیں کہ کون ہے جو ہماری طرف سے ہمارے بھائیوں کو یہ پیغام پہنچا دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں اور حق تعالیٰ کی ایسی ایسی عظیم نعمتوں سے لطف اندوز ہیں تاکہ وہ جنت کو حاصل کرنے میں بے رغبتی و کوتاہی نہ کریں بلکہ جنت کے ان درجات کو حاصل کرنے میں راغب ہوں اور لڑائی کے وقت سستی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ بات سن کر فرمایا گھبراؤ نہیں تمہاری طرف سے میں ان کو پیغام پہنچاؤں گا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتاً ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ) 3۔ آل عمران:169) آخر آیت تک۔
تشریح
پوری آیت یوں ہے : (وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتاً ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦ ٩ۙ فَرِحِيْنَ بِمَآ اٰتٰىھُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِھٖ ۙ وَيَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِيْنَ لَمْ يَلْحَقُوْا بِھِمْ مِّنْ خَلْفِھِمْ ۙ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْھِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ١٧٠ۘ) 3۔ آل عمران:170۔169) (ترجمہ) جو لوگ خدا کی راہ میں مارے گئے ان کو مرے ہوئے نہ سمجھنا وہ مرے ہوئے نہیں ہیں بلکہ وہ خدا کے نزدیک زندہ ہیں اور ان کو رزق مل رہا ہے جو خدا نے اپنے فضل سے بخش رکھا ہے اس میں خوش ہیں اور جو لوگ ان کے پیچھے رہ گئے ہیں اور شہید ہو کر ان میں شامل نہیں ہو سکے ان کی نسبت خوشیاں منا رہے ہیں کہ قیامت کے دن ان کو بھی نہ کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے۔
اور حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا دنیا میں تین طرح کے مؤمن ہیں ایک تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے اور پھر کسی شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوئے نیز انہوں نے اپنی جانوں اور اپنے اموال کے ذریعہ اللہ کی راہ میں جہاد کیا یعنی مؤمنین کی یہ وہ جماعت ہے جس نے اپنے ایمان کو کامل اور اپنے نفس کو مہذب پاکیزہ بنایا اور اس کے ساتھ ہی مخلوق خدا کی فلاح و بہبودی اور ان کی پاکیزگی کے لئے بھی جدوجہد کی اور یہی وہ جماعت ہے جو مرتبہ کے اعتبار سے سب سے اعلیٰ و اشرف ہے دوسرا مؤمن وہ شخص ہے جس سے لوگوں کے مال اور ان کی جان محفوظ ہیں یعنی اگرچہ اس نے مخلوق خدا کی فلاح و بہبودی کے لئے جدوجہدو نہیں کی لیکن اس کے ذریعہ لوگوں کو کسی طرح کا نقصان و ضرر نہیں پہنچایا نیز نہ تو اس نے اختلاط رکھا اور نہ طمع و حرص میں مبتلا ہوا اور پھر تیسرا مؤمن وہ شخص ہے کہ جب اس کے دل میں طمع پیدا ہو جائے تو اللہ کے خوف سے اس طمع کو چھوڑے۔ (احمد)
تشریح
مؤمنین کی اس آخری جماعت کا وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر اس کے دل میں دنیا کی کسی چیز کی طمع و حرص پیدا ہوتی ہے تو وہ اس پر عمل نہیں کرتا بلکہ خدا کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اس طمع و حرص کو چھوڑ دیتا ہے گویا یہ وہ جماعت ہے جس نے اگرچہ دنیا داروں کے ساتھ اختلاط رکھا اور اس اختلاط کی وجہ سے اس کے دل میں طمع و حرص پیدا ہوئی لیکن عین وقت پر خدا نے اس کو طمع و حرص پر عمل کرنے سے بچا لیا یہ جماعت مرتبہ کے اعتبار سے پہلی دونوں جماعتوں سے ادنیٰ ہے پھر اس تیسری جماعت کے بعد مؤمنین کی اور بھی قسمیں ہیں۔ لیکن وہ سب مرتبہ کے اعتبار سے ساقط ہیں۔
اور حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا شہید کے علاوہ اور ایسا کوئی مسلمان شخص نہیں ہے جو اپنے پروردگار کی طرف سے روح قبض کئے جانے کے بعد اس بات کو پسند کرے کہ وہ لوٹ کر تمہارے پاس آئے اور دنیا و ما فیہا کی چیزوں کو حاصل کرے (یعنی شہید حق تعالیٰ کے ہاں پہنچنے کے بعد جب شہادت کے عظیم مرتبہ کی سعادتوں اور عظمتوں کو دیکھتا ہے تو پروردگار سے اس خواہش کا اظہار کرتا ہے کہ وہ لوٹ کر دوبارہ دنیا میں آئے اور اللہ کی راہ میں پھر مارا جائے) حضرت عبد الرحمن بن ابی عمیرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ خدا کی قسم !میرا خدا کی راہ میں مارا جانا میرے نزدیک اس چیز سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ خیمے والے اور حویلیوں والے میرے مملوک و محکوم ہوں۔ (نسائی)
تشریح
خیمے والے سے جنگل میں اقامت پذیر لوگ مراد ہیں کیونکہ وہ خیموں میں رہا کرتے ہیں اور حویلی والے سے شہر وگاؤں یعنی آبادی میں رہنے والے لوگ مراد ہیں ان دونوں کے مجموعے سے پوری دنیا بھر کے لوگ مراد ہیں ؟ اس ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اگر مجھے پوری دنیا کا امیر حاکم بنا دیا جائے اور پھر دنیا بھر کے لوگ میری محکومی و رعیت میں آ جائیں تو میں اس کے مقابلہ پر اس چیز کو زیادہ پسند کروں گا کہ مجھے جہاد میں جانے کا موقع مل جائے اور میں خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کر دوں۔
اور حضرت حسناء بنت معاویہ (ابن سلیم) کہتی ہیں کہ مجھ سے میرے چچا حضرت اسلم ابن سلیم نے بیان کیا (کہ ایک دن) میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ جنت میں کون کون لوگ ہوں گے ؟ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جنت میں نبی ہوں گے شہید ہوں گے،جنت میں بچے ہوں گے اور جنت میں وہ ہوں گے جن کو جیتے جی گاڑ دیا گیا ہے۔ (ابو داؤد)
تشریح
یہاں شہید سے مراد صرف وہ شخص نہیں ہے جو خدا کی راہ میں مارا گیا ہو بلکہ مؤمن مراد ہے کہ خواہ وہ حقیقتًہ شہید ہو یا حکماً شہید ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی اس آیت میں ایمان لانے والوں پر شہید کا اطلاق کیا ہے۔
(والذین امنوا باللہ ورسولہ اولئک ھم الصدیقون والشہداء عند ربہم۔
اور جو لوگ اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لائے یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے پروردگار کے نزدیک صدیق اور شہداء ہیں
اور جنت میں بچے ہوں گے یعنی بچہ خواہ مؤمن کا ہو یا کافر کا جنت میں داخل کیا جائے گا اسی طرح وہ کچا بچہ بھی جنت ہی میں داخل کیا جائے گا جو اسقاط حمل کی صورت میں ختم ہو گیا ہے۔
جن کو جیتے جی گاڑ دیا گیا ہے یعنی جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی زندہ لڑکیوں کو زمین میں گاڑ دیا کرتے تھے۔ بلکہ بعض لوگ معاشی تنگیوں اور دوسری پریشانیوں کے وقت اپنے زندہ لڑکوں کو بھی گاڑ دیتے تھے تو ایسے لڑکے اور لڑکیاں جنت میں داخل کی جائیں گی۔
حدیث میں بطور خاص صرف چار طرح کے لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے تو شاید اول الذکر دونوں کی تخصیص ان کے فضل وشرف کے اعتبار سے ہے اور آخر الذکر دونوں کی تخصیص اس سبب سے ہے کہ یہ کسی کسب وعمل کے بغیر جنت میں داخل ہوں گے۔
اور حضرت علی، حضرت ابو درادء حضرت ابوہریرہ، حضرت ابو امامہ، حضرت عبداللہ ابن عمر، حضرت جابر ابن عبداللہ اور حضرت عمران ابن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین یہ سب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ کی راہ میں جہاد میں روپیہ پیسہ اور سامان و اسباب بھیجا اور خود اپنے گھر میں بیٹھا رہا یعنی جہاد میں خود شریک نہیں ہوا بلکہ روپے پیسے اور سامان سے جہاد میں مدد کی تو اس کو ہر درہم کے بدلے میں سات سو درہم کا ثواب ملے گا اور جس شخص نے بنفس خود جہاد بھی کیا اور جہاد میں روپیہ پیسہ اور مال بھی خرچ کیا یعنی لڑائی میں خود شریک بھی ہوا اور مالی مدد بھی پہنچائی تو اس کو ہر درہم کے بدلے سات لاکھ درہم کا ثواب ملے گا کیونکہ اس نے اپنے نفس کو بھی مشقت و دکھ میں مبتلا کیا اور اپنا مال بھی خرچ کیا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی (وَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ) 2۔ البقرۃ:261) یعنی اللہ تعالیٰ جس کے چاہتا ہے اس کے ثواب میں اور اضافہ کرتا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
آیت تلاوت فرما کر گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس طرف اشارہ کیا کہ یہاں ثواب کی جو مقدار بیان کی گئی ہے وہ کوئی آخری حد نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے گا تو اس مقدار سے بھی زیادہ اور کہیں زیادہ ثواب عطا فرمائے گا۔
اور حضرت فضالہ ابن عبید کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن خطاب سے سنا وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ شہید چار طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ شخص جو کامل الایمان مسلمان تھا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو اس نے اللہ تعالیٰ کو سچ کر دیکھا یا یہاں تک کے لڑتے لڑتے مارا گیا تو یہ وہ شخص ہے جس کی طرف قیامت کے دن لوگ اس طرح سر اٹھا اٹھا کر دیکھیں گے یہ کہہ کر انہوں نے اپنا سر اٹھایا یہاں تک کہ ان کی ٹوپی گر پڑی حدیث کے وہ راوی جنہوں نے اس روایت کو حضرت فضالہ سے نقل کیا ہے کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ حضرت فضالہ کی مراد کس کی ٹوپی تھی یعنی انہوں نے واضح نہیں کیا کہ حضرت عمر نے حدیث بیان کرتے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح سر اٹھا کر دکھلایا تو ان کی ٹوپی گری تھی یا انہوں نے روایت حدیث کے وقت یہ بتلایا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ٹوپی گری تھی بہرکیف حاصل یہ کہ قیامت کے دن یہ شخص اتنا عالی مرتبہ ہو گا کہ لوگ اس کی طرف اچک اچک کر دیکھیں گے پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اور دوسرا وہ شخص جو جید الایمان مؤمن تھا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو وہ اپنی بزدلی کی وجہ سے ایسا نظر آنے لگا جیسے اس کے بدن میں خار دار درخت کے کانٹے ہوں (یعنی یہ اس شخص کے خوف کی وجہ سے تھر تھر کانپنے اور دہشت سے اس کے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جانے کی کیفیت کو کنایۃً بیان کیا گیا ہے) اور پھر ایک تیر آ کر اس کو لگا جس کے چلانے والا نامعلوم تھا اور اس نے اس کو موت کی آغوش میں پہنچا دیا تو یہ شخص پہلے شخص کی بہ نسبت دوسرے درجہ کا ہے اور تیسرا شخص وہ مؤمن تھا جس نے کچھ اچھے اور کچھ برے اعمال کئے تھے اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو اللہ تعالیٰ کو سچ کر دکھایا یہاں تک کہ لڑتے لڑتے مارا گیا تو یہ شخص تیسرے درجہ کا ہے اور چوتھا شخص وہ مسلمان ہے جس نے اپنی جان پر بہت اسراف کیا تھا (یعنی جس نے بہت زیادہ گناہ کئے تھے) اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو اس نے اللہ کو سچ کر کے دکھایا یہاں تک کہ لڑتے لڑتے مارا گیا تو یہ شخص چوتھے درجے کا ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
اس نے اللہ تعالیٰ کو سچ کر دکھایا کے بارے میں واضح ہو کہ اگر لفظ صدق میں دال پر تشدید نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اس شخص نے اپنی شجاعت و بہادری کے ذریعہ اس چیز کو سچا کیا جس کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد ہوئی تھی یعنی خدا کی راہ میں ثابت قدم رہنا اور دشمن کو پیٹھ نہ دکھانا اور اگر دال پر تشدید ہو تو اس صورت میں معنی ہوں گے کہ اس شخص نے اپنے عمل اور اپنی شجاعت و بہادری کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کو راست گو ثابت کیا اور اس کے قول کی تصدیق بایں طور کہ اس نے خدا کی راہ میں جہاد کیا، اور اس راہ کی تمام مشقتوں، تکلیفوں اور مصائب کو برداشت کیا اور حق تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والے اجر و ثواب کا امیدوار ہوا۔ چنانچہ حق تعالیٰ نے جو مجاہدین اسلام کی یہ تعریف بیان کی ہے کہ وہ خدا کی راہ میں پیش آنے والی ہر مصیبت و تکلیف پر صبر کرتے ہیں اور اپنے پروردگار کی طرف سے اجر و ثواب کے طلب گار ہوتے ہیں تو جب وہ شخص لڑا اور طلب ثواب کی خاطر صبر و استقامت کی راہ اختیار کی تو گویا اس نے اپنے اس عمل کے ذریعہ حق تعالیٰ کی بات کی تصدیق کی۔
حدیث میں شہداء کی جو قسمیں بیان کی ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ جس مسلمان نے خدا کی راہ میں شہادت پائی ہے وہ یا تو متقی و پرہیزگار بھی تھا اور شجاع و بہادر بھی اور یہ پہلی قسم ہے یا وہ متقی و پرہیزگار تو تھا لیکن شجاع و بہادر نہیں تھا یہ دوسری قسم ہے اور یا وہ شجاع و بہادر تو تھا مگر متقی و پرہیزگار نہیں تھا پھر اس کی بھی دو قسمیں ہوں گی ایک یہ کہ یا تو وہ ایسا غیر متقی و غیر پرہیزگار تھا کہ اس کے اعمال محفوظ تھے۔ لیکن زندگی میں اس سے نیک عمل بھی صادر ہوئے تھے اور برے عمل بھی سرزد ہوئے تھے لیکن اس کے برے اعمال اتنے زیادہ نہیں تھے کہ اس کو فاسق و مسرف کہا گیا ہو۔ اور یہ حدیث میں بیان کی گئی تیسری قسم ہے اور یا وہ ایسا غیر پرہیزگار تھا کہ اس کی بد عملیاں اس زندگی میں غالب رہی تھیں یعنی اس نے اتنے زیاد برے اعمال کئے تھے کہ فاسق و مسرف مانا گیا تھا اور یہ چوتھی قسم ہے لہٰذا دوسری قسم کے علاوہ اور ساری قسموں میں اللہ کی راہ کی تصدیق حاصل ہوتی ہے نیز اس وضاحت سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی تصدیق کرنے سے صبر اور طلب ثواب کے وعدے کی تصدیق مراد ہے کیونکہ وہ دوسری قسم میں بھی حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود اس دوسری قسم کے شہید کے بارے میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کو سچ کر دکھایا۔
اور حضرت عتبہ ابن عبدالسلمی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو لوگ جہاد میں مارے جاتے ہیں وہ تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ کامل مؤمن جس نے اللہ کی راہ میں اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ جہاد کیا چنانچہ جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی (تو وہ پوری بہادری اور شجاعت) کے ساتھ لڑا یہاں تک کہ مارا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ یہ وہ شہید ہے جس کو جہاد کی مشقتوں اور مصائب پر صبر کرنے کی آزمائش میں مبتلا کیا گیا یہ شہید آخرت میں عرش الٰہی کے نیچے اللہ کے خیمے میں ہو گا یعنی اس کو حق تعالیٰ کا کمال قرب اور اس کے حضور میں درجہ خاص حاصل ہو گا اور انبیاء اس سے صرف درجہ نبوت میں زیادہ ہوں گے اور دوسرے شخص وہ مؤمن ہے جس کے اعمال ملے جلے ہوں کہ اس نے کچھ نیک عمل کئے ہوں اور کچھ برے عمل چنانچہ اس نے اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ خدا کی راہ میں جہاد کیا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ لڑا یہاں تک کہ مارا گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا کہ شہادت یا خصلت، پاک کرنے والی ہے کہ اس کے گناہوں اور خطاؤں کو مٹاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ تلوار خطاؤں کو بہت زیادہ مٹانے والی ہے یہ وہ شہید ہے کہ جس دروازے سے جانا چاہے گا جنت میں داخل کیا جائے گا اور تیسرا شخص منافق ہے کہ (اگرچہ) اس نے بھی اپنی جان اور اپنے مال کے ذریعہ جہاد کیا اور جب دشمن سے اس کی مڈبھیڑ ہوئی تو (خوب) لڑا یہاں تک کہ مارا گیا (لیکن) یہ شخص دوزخ میں جائے گا کیونکہ تلوار نفاق کو نہیں مٹاتی۔ (دارمی)
اور حضرت ابن عائذ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک شخص کے جنازے کے ساتھ چلے تاکہ اس کی نماز پڑھیں جب جنازہ رکھا گیا تو حضرت عمر ابن خطاب نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) آپ اس جنازے کی نماز نہ پڑھئے کیونکہ یہ ایک فاسق شخص تھا (یہ سن کر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ کیا تم میں سے کسی شخص نے اس کو اسلام کا کوئی کام کرتے دیکھا ہے ؟ (یعنی اگر تم میں سے کسی نے اس کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے جو حقیقی اسلام پر دلالت کرے تو وہ ہمیں بتائے) ایک شخص نے عرض کیا ہاں، یا رسول اللہ ! اس شخص نے ایک رات اللہ کی راہ یعنی جہاد میں پاسبانی کی خدمت انجام دی تھی ۔ (یہ سن کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا جنازہ کی نماز پڑھی اور (تدفین کے وقت اس کی قبر پر ) مٹی ڈالی اور (گویا میت کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ تیرے ساتھیوں کا تو یہ گمان ہے کہ تو دوزخی ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو جنتی ہے اور پھر حضرت عمر سے فرمایا عمر ! تم سے لوگوں کے اعمال کے بارے میں سوال نہیں کیا جائے گا بلکہ تم سے دین اسلام کی بابت پوچھا جائے گا۔ (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے )
تشریح
بلکہ تم سے دین اسلام کی بابت پوچھا جائے گا یعنی اس چیز کے بارے میں پوچھا جائے گا جو شعار دین اور علامات یقین میں سے ہونے کی وجہ سے اسلام پر دلالت کرے۔
اس ارشاد کا مقصد دراصل حضرت عمر کو اس جرات سے باز رکھنا تھا جو انہوں نے اس میت کے فسق کا تذکرہ کر کے کی تھی اور وہ ایک ناپسندیدہ چیز ہے چنانچہ ان الفاظ کے ذریعہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ واضح کیا کہ کسی مسلمان کی محض ظاہر زندگی اور اس کے اعمال کو دیکھ کر اس کی اخروی حیثیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس چیز کو معیار بنانا چاہئے جو اس کے دین واسلام پر کامل یقین و اعتقاد کی غمازی کرے اور یہ ثابت کرے کہ اس کے اصل ایمان میں کوئی کھوٹ اور اس کے بنیادی عقائد میں کوئی کجی نہیں ہے جہاں تک اعمال کا تعلق ہے تو اللہ کی ذات بڑی بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں پر بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے۔
طیبی نے حدیث کے مذکورہ جملہ کی وضاحت یہ کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر کو یہ متنبہ کیا کہ عمر ! تمہیں اس موقع پر میت کے برے اعمال اور اس کے ظاہری فسق کا ذکر نہیں کرنا چاہئے بلکہ تمہیں یہ چاہئے کہ تم اس کے نیک اعمال اور اس کی اچھی باتوں کو سامنے لاؤ جیسا کہ ایک جگہ یوں فرمایا گیا ہے کہ :
(اذکرو اموتاکم بالخیر)۔
تم اپنے مرے ہوئے لوگوں کا تذکرہ بھلائی کے ساتھ کرو۔
نیز حضرت عمر کو ان کے اس اقدام و جرات سے روکنا مقصود تھا جس کا انہوں نے اس موقع پر مظاہرہ کیا تھا۔ یعنی اس کے فسق کا ذکر و اظہار کیونکہ کسی انسان کی اخروی فلاح اور ابدی نجات کا دارومدار اصل میں فطرت یعنی اسلام اور اس کے عقائد پر ہے،جب کہ اس شخص نے ایک ایسا عمل بھی کیا تھا۔ جو اعمال اسلام میں سے ہے اور اس کے مسلمان ہونے کو ثابت کرنے کے لئے تنہا وہی عمل کافی ہے۔
حضرت عقبہ ابن عامر کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اور تم کافروں سے جنگ کرنے کے لئے اپنی طاقت و قوت کی جو (بھی) چیز تیار و فراہم کر سکتے ہو کرو۔ یاد رکھو! تیر اندازی قوت ہے۔ (مسلم)
تشریح
تیر اندازی قوت ہے کے ذریعہ اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے کہ قرآن کریم میں یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ آیت (وَاَعِدُّوْا لَهُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّةٍ) 8۔ الانفال:60) یعنی تم کفارسے جنگ کرنے کے لئے اپنی طاقت و قوت کی جو بھی چیز تیار و فراہم کر سکتے ہو کرو، تو اس آیت میں قوت سے مراد تیر اندازی ہے۔
اور بیضاوی وغیرہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ کہا ہے کہ قوت سے مراد ہر وہ چیز جس کے ذریعہ انسان لڑائی میں طاقت و قوت حاصل کر سکتا ہے ! اس صورت میں کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا قوت سے تیر اندازی مراد لینا شاید اس بناء پر ہے کہ اس زمانہ میں اور چیزوں کی بہ نسبت یہ چیز یعنی تیر اندازی سب سے زیادہ طاقت و قوت کا ذریعہ بھی تھی اور سہل العمل بھی۔
اور حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ عنقریب تمہارے لئے روم کو فتح کر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ تمہیں اہل روم کی شر انگیزیوں سے کفایت کرے لہٰذا خبردار ! تم میں سے کوئی شخص اپنے تیروں کے ساتھ کھیلنے میں سستی نہ کرے۔ (مسلم)
تشریح
اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اس زمانے میں روم والے عام طور پر تیر اندازی ہی کے ذریعہ جنگ کرتے ہیں اور چونکہ تمہیں ان کے ساتھ جنگ کرنی ہے اس لئے ضروری ہے کہ تم لوگ تیر اندازی کو اپنا مشغلہ بنا لو اور اس کی مشق کے ذریعہ اس کے گر اور کمالات سیکھتے رہو تا کہ تم ان سے جنگ کرنے پر قادر ہو سکو اور اللہ تمہیں ان سے مڈبھیڑ کے وقت اپنی مدد ونصرت کے ساتھ رکھے۔ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ مراد تھی کہ تیر اندازی کی مشق کو ترک نہ کرو بلکہ جنگ میں فتح کے بعد بھی اس کا مشغلہ جاری رکھو اور اس بات پر غرور اور اطمینان کر کے نہ بیٹھ جاؤ کہ اب تو روم فتح ہو گیا ہے اس مشغلہ کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہ گئی کیونکہ تیر اندازی کی ضرورت ہمیشہ اور ہر جنگ کے وقت پڑنے والی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ہدایت پیش بندی کے طور پر دی تھی، چنانچہ اس پر پوری طرح عمل کیا گیا اگرچہ اہل روم کے قتال کے موقع پر اس کی ضرورت پیش نہیں آئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو روم پر بڑی آسانی کے ساتھ فتح عطا فرما دی تھی۔
تیر اندازی کی مشق کو لہو یعنی کھیل سے اس لئے تعبیر کیا گیا ہے کہ کسی بھی چیز کی مشق صورت کے اعتبار سے کھیل ہی کے درجے کی چیز ہوتی ہے دوسرے اس کے ذریعہ لوگوں کو تیر اندازی مشق کی ترغیب دلانا مقصود تھا کہ کسی چیز پر کھیل کا نام آ جائے تو اس کی طرف جلدی مائل ہو جانا انسانی خصلت میں داخل ہے۔
اور حضرت عقبہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے تیر اندازی سیکھی اور پھر اس کو چھوڑ دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے یعنی ہمارے طریقہ پر چلنے والوں میں شامل نہیں ہے۔ یا پھر یہ کہ اس نے نافرمانی کی۔ (مسلم)
تشریح
وہ ہم میں سے نہیں ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہم سے قریب نہیں ہے اور ایک ایسے شخص کی مانند ہے جس کا شمار ہمارے زمرے میں نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک تو یہ کہ تیر اندازی سیکھے ہی نہیں لیکن اس کو سیکھ کر پھر چھوڑ دینا نہ سیکھنے کی بہ نسبت کہیں زیادہ برا ہے کیونکہ جس شخص نے تیر اندازی نہیں سیکھی وہ تو گویا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمرے میں داخل ہی نہیں ہوا لیکن یہ تو وہ شخص ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمرے میں داخل ہو اور پھر نکل گیا گویا اس نے اس کام میں کوئی نقصان دیکھا یا اس کو کوئی برائی محسوس ہوئی اور یا اس نے ایسا استہزاء کے طور پر کیا اور ظاہر ہے کہ یہ سب چیزیں ایک بڑی نعمت کا کفران کرنے کا مترادف ہیں۔
اور حضرت سلمہ ابن اکوع کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بنی اسلم کے ایک قبیلہ میں تشریف لائے اور وہ لوگ اس وقت بازار میں آپس میں تیر اندازی (کی مشق) کر رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اس حالت میں دیکھا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ اے او لاد اسمٰعیل (یعنی اے عربو) تیر اندازی کرو، کیونکہ تمہارے باپ (حضرت اسماعیل علیہ السلام تیر انداز تھے۔ اور میں (بھی) فلاں قبیلے کے ساتھ ہوں (یعنی اس وقت بنی اسلم کے جو دو فریق آپس میں تیر اندازی کی مشق کر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان میں ایک کا نام لے کر فرمایا کہ اس مشق میں اس فریق کی طرف ہوں) لیکن دوسرے فریق نے اپنے ہاتھ روک لئے (یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک فریق کی طرف ہو گئے تو مقابل فریق نے تیر اندازی سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ؟ یعنی تم نے تیر پھینکنے کیوں بند کر دیئے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس صورت میں کیسے تیر اندازی کر سکتے ہیں جب کہ آپ فلاں (فریق) کے ساتھ ہیں یعنی ہمیں یہ گوارا نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمیں چھوڑ کر دوسرے فریق کی طرف ہو جائیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (اچھا) تم تیر اندازی کرو میں تم سب کے ساتھ ہوں۔ (بخاری)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ابو طلحہ (میدان جنگ میں) ایک ڈھال کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بچاؤ کر رہے تھے ابو طلحہ ایک بہترین تیر انداز تھے (وہ دشمنوں پر بڑی مہارت اور چابک دستی کے ساتھ تیر اندازی بھی کر رہے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حفاظت بھی) جب وہ تیر پھینکتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم جھانک کر دیکھتے کہ تیر کہاں پڑا ہے اور کس کو لگا ہے۔ (بخاری)
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گھوڑوں کی پیشانیوں میں برکت ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
پیشانی سے مراد ذات ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں میں ایک خاص قسم کی برکت رکھی ہے کیونکہ گھوڑوں کے ذریعہ جہاد کیا جاتا ہے جس میں دنیا و آخرت کی خیر و بھلائی ہے۔
اور حضرت جریر ابن عبداللہ بجلی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک گھوڑے کی پیشانی کے بالوں کو اپنی انگلی سے بل دیتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ گھوڑے (وہ جانور ہیں) جن کی پیشانیوں میں قیامت تک کے لئے خیرو بھلائی بندھی ہوئی ہے کیونکہ گھوڑوں کے ذریعہ جہاد کے کرنے کی سعادت حاصل ہوتی ہے جس میں دنیا کا مال غنیمت حاصل ہوتا ہے۔ (مسلم)۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے وعدے کو سچ جاننے کی وجہ سے خدا کی راہ میں (کام لینے کے لئے اپنے گھر) گھوڑا باندھا تو اس گھوڑے کی سیری و سیرابی (یعنی اس نے دنیا میں جو کچھ کھایا اور پیا ہے وہ) اور اس کی لید اور اس کا پیشاب قیامت کے دن اس شخص کے اعمال کی ترازو میں تولے جائیں گے۔ (بخاری)
تشریح
اللہ پر ایمان لانے اور اس کے وعدے کو سچ جاننے کی وجہ سے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے جہاد میں جانے اور دشمنوں سے لڑائی کے لئے جو گھوڑا اپنے ہاں باندھا ہو اس میں اس کی نیت محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور اس کے حکم کی فرمانبرداری کی ہو اور اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کے لئے جس عظیم اجرت و ثواب کا وعدہ کیا ہے اس کی طلب گاری کی خاطر ہو۔
سیری اور سیرابی سے مراد وہ چیزیں ہیں جن سے جانور کا پیٹ بھرتا ہے اور سیراب ہوتا ہے یعنی گھاس، دانہ، پانی وغیرہ لہٰذا یہ ساری چیزیں بھی ثواب ملنے کے اعتبار سے اس شخص کے نامہ اعمال میں لکھی جائیں گی کہ قیامت کے دن یہ چیزیں ثواب کی شکل میں اس کو حاصل ہوں گی اور اس کے میزان اعمال میں تولی جائیں گی۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم گھوڑے میں شکال کو ناپسند کرتے تھے، اور شکال یہ ہے کہ گھوڑے کے دائیں پاؤں اور بائیں ہاتھ پر سفیدی ہو یا دائیں ہاتھ اور بائیں پاؤں پر سفیدی ہو۔ (مسلم)
تشریح
راوی نے تو شکال کی وضاحت یہ کی ہے کہ گھوڑا جس کے ایک ہاتھ اور دوسری طرف کے پاؤں پر سفیدی ہو لیکن صاحب قاموس اور دوسرے تمام اہل نعت کے نزدیک گھوڑے میں شکال کا مطلب یہ ہے کہ اس گھوڑے کے تین پاؤں تو سفید ہوں اور ایک پاؤں باقی تمام بدن کا ہم رنگ ہو یا اس کے برعکس ہو یعنی ایک پاؤں سفید ہو اور تین پاؤں بدن کے ہم رنگ ہوں۔
اصل میں شکل لغت میں اس رسی کو کہتے ہیں کہ جس پر چوپائے کے پیر باندھے جاتے ہیں۔ لہٰذا اس طرح کے گھوڑے کو اس کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایسے گھوڑے کو از راہ تفاول کے ناپسند فرماتے تھے کہ وہ گھوڑا گویا بصورت شکول ہے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو تجربہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اس کا جنس کا گھوڑا اصیل نہیں ہوتا۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اگر اشکل گھوڑے کی پیشانی پر اتنی سفیدی ہو کہ جو ہاتھ کے انگوٹھے سے نہ چھپ سکے تو اس کا عیب دور ہو جاتا ہے اور پھر وہ ناپسندیدہ نہیں رہتا ہے۔
اور حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں گھوڑوں کے درمیان مسابقت گھوڑ دوڑ کرائی جو اضمار کئے گئے تھے اور یہ مسابقت حفیاء سے شروع ہوئی اور ثنیۃ الوداع پر ختم ہوئی اور ان دونوں مقامات (یعنی حفیاء اور ثنیۃ الوداع) کے درمیان چھ میل کا فاصلہ تھا اور جن گھوڑوں کا اضمار نہیں کیا گیا تھا ان کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد نبی زریق تک مسابقت کرائی اور ان دونوں مقامات (یعنی ثنیۃ الوداع اور مسجد نبی زریق) کا درمیانی فاصلہ ایک میل تھا (بخاری مسلم)
تشریح
گھوڑوں کے درمیان مسابقت گویا گھوڑ دوڑ کے مفہوم کے مترادف ہے یعنی دو آدمی اپنے گھوڑوں کو اس لئے دوڑائیں کہ دیکھیں کہ کس کا گھوڑا آگے نکل جاتا ہے۔
اضمار اس کو کہتے ہیں کہ پہلے تو گھوڑے کو خوب گھاس دانہ کھلا پلا کر بہت قوی اور فربہ کیا جاتا ہے اس کے بعد اس کا گھاس دانہ بتدریج کم کیا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کو اصلی خوراک پر لے آتے ہیں اور پھر اس کو ایک مکان پر بند کر کے اس پر گردنی ڈال دیتے ہیں اس کی وجہ سے وہ گرم ہو جاتا ہے اور پسینہ چھوڑتا ہے اور جب پسینہ خشک ہو جاتا ہے تو وہ گھوڑا سبک ہو جاتا ہے یعنی اس کا گوشت تو ہلکا ہو جاتا ہے لیکن دوڑنے میں قوی رہتا ہے۔
حفیاء ایک جگہ کا نام ہے۔ جو مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے، تثنیۃ الوداع ایک پہاڑ کا نام ہے اہل مدینہ اپنے مسافروں کو پہنچانے کے لئے اس پہاڑ تک جاتے تھے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک اونٹنی تھی جس کا نام عضباء تھا اور وہ کبھی پیچھے نہیں رہتی تھی (یعنی اس کا جس اونٹ سے بھی دوڑ میں مقابلہ ہوتا اس کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتی تھی) لیکن (اک دن) ایک دیہاتی اپنے اونٹ پر آیا اور (جب اس نے عضباء سے اپنا اونٹ دوڑایا تو) اس کا اونٹ آگے نکل گیا یہ بات مسلمانوں پر سخت گزری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حق تعالیٰ کا یہ ایک ثابت شدہ فیصلہ ہے کہ دنیا کی جو بھی چیز شر بلند ہوتی ہے خدا اس کو پست کر دیتا ہے۔ (بخاری)
تشریح
اصل میں عضباء اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس کے کان کٹے ہوئے یا چرے ہوئے ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اس اونٹنی کا کان گو کٹا ہوا یا چرا ہوا نہیں تھا مگر اس کا نام عضباء تھا البتہ خلقی طور پر اس کے کان چھوٹے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ وہی اونٹنی ہے جس کو قصواء بھی کہتے ہیں، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ اونٹنی اور تھی اور عصواء ایک دوسری اونٹنی تھی۔
قعود اس جوان اونٹ کو کہتے ہیں جو نیا نیا سواری کے لائق ہو گیا ہو ایسا اونٹ دو برس سے چھ برس تک کی عمر کا ہوتا ہے جس اونٹ کی عمر چھ برس سے زائد ہو اس کو جمل کہتے ہیں۔
حضرت عقبہ ابن عامر کہتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ (کفار پر چلائے جانے والے) ایک تیر کے بدلے میں تین آدمیوں کو جنت میں داخل کرتا ہے ایک تو اس تیر کے بنانے والے کو جب کہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی امید رکھے (یعنی جب جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لئے بنا رہا ہوں) (دوسرے) جہاد میں تیر چلانے والے کو اور (تیسرے) تیر دینے والے کو (یعنی وہ شخص جو تیر کے بنانے والے کو جب کہ وہ اپنے روزگار کے ساتھ ثواب کی بھی امید رکھے (یعنی جب وہ تیر بنائے تو اپنے روزگار کے ساتھ نیت بھی رکھے کہ میں یہ تیر جہاد میں کام آنے کے لئے بنا رہا ہوں) (دوسرے) جہاد میں تیر چلانے (والے اور (تیسرے) تیر دینے والے کو (یعنی وہ شخص جو تیر انداز کے ہاتھ میں اپنا یا اسی کا تیر دے اور خواہ پہلے ہی دے یا نشانے پر سے اٹھا کر دے) لہٰذا تم تیر اندازی کرو اور گھوڑوں پر سواری کرو یعنی تیر اندازی اور گھوڑ سواری کی مشق کرو اور تمہاری تیر اندازی میرے نزدیک سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے اور یاد رکھو انسان جس چیز کو لہو و لعب (یعنی محض کھیل اور تفریح) کے طور پر اختیار کرے وہ باطل اور ناروا ہے مگر اپنی کمان سے تیر اندازی کرنا اپنے گھوڑے کو سدھارنا اور اپنی بیوی کے ساتھ کھیل و تفریح کرنا یہ سب چیزیں حق ہیں۔ ترمذی ابن ماجہ ابوداؤد اور دارمی نے (اپنی روایت میں) یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اور جو شخص تیر اندازی سیکھنے کے بعد اس کو بے نیازی اور بیزاری کے جذبہ سے چھوڑ دے تو وہ تیر اندازی ایک نعمت ہے جس کو اس نے چھوڑ دیا ہے یا یہ فرمایا کہ اس نے اس نعمت کا کفران کیا۔
تشریح
یہ چیزیں حق ہیں ان چیزوں کے حکم میں ہر وہ چیز داخل ہے جو حق و بھلائی کی راہ میں معاون ہو خواہ وہ علم کے قبیل سے ہو یا عمل کے قبیل سے جب کہ وہ مقابلہ بازی کی قسم سے ہو جیسے پیدل چلنے اور دوڑنے، گھوڑ سواری اور اونٹوں کی دوڑ کا مقابلہ وغیرہ۔
اور حضرت ابو نجیح سلمی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے اللہ کی راہ (یعنی جہاد) میں ایک تیر (نشانے پر پہنچایا (یعنی اس نے تیر چلا کر کافر کو مار ڈالا تو) اس کے لئے جنت میں ایک بڑا درجہ ہے اور جس شخص نے اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد) میں تیر پھینکا (خواہ وہ کافر کو لگایا نہ لگا) تو وہ اس کے لئے ایک بردہ (غلام یا لونڈی) آزاد کرنے کے برابر ہے اور جو شخص اسلام (کی حالت میں بوڑھا ہو گیا اور مر گیا) تو وہ بڑھاپا قیامت کے دن اس کے لئے نور ہو گا۔ (اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے) ابوداؤد نے (روایت کا صرف پہلا جزو یعنی (من بلغ بسہم فی سبیل اللہ فہو لہ درجۃ فی الجنۃ) نقل کیا ہے) نسائی نے پہلا اور دوسرا جزء (کہ جن میں تیر اندازی کی فضیلت بیان کی گئی ہے) نقل کیا ہے اور ترمذی نے دوسرا اور تیسرا جزء نقل کیا ہے۔ نیز بیہقی اور ترمذی کی روایت میں فی الاسلام یعنی اسلام کی حالت میں کے بجائے فی سبیل اللہ اللہ کی راہ میں ہے۔
تشریح
جو شخص اسلام کی حالت میں بوڑھا ہو گیا الخ سے واضح ہوا کہ کسی شخص کا ایمان واسلام کی حالت میں بوڑھا ہو جانا یا اس پر بڑھاپے کی علامات کا ظاہر ہو جانا گویا اس کی اخروی سعادت کی نشانی ہے کیونکہ زندگی آخری منزلوں تک اسلام وایمان کی حالت پر قائم رہنا اللہ کا ایک بڑا فضل و کرم ہے۔
ایک بڑے بزرگ حضرت ابو یزید کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن انہوں نے آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھا تو وہاں ان کو بڑھاپے کی علامات نظر آئیں بے اختیار ان کے منہ سے یہ نکلا کہ (ظہر الشیب ولم یظہر العیب وما ادری ما فی الغیب) یعنی خدا کا شکر ہے کہ ' مجھ پر بڑھاپا ظاہر ہوا ہے، کوئی عیب ظاہر نہیں ہوا، اور پردہ غیب میں کیا چیز ہے مجھے کچھ معلوم نہیں۔
ایک بات یہ واضح رہے کہ کتاب کی عبارت میں روایت ھا کی ضمیر بظاہر نسائی اور ترمذی کی طرف لوٹنی چاہئے کیونکہ ما قبل کی عبارت میں یہی دونوں پاس پاس مذکور ہیں لیکن حقیقت میں یہ (نسائی اور ترمذی کی طرف ضمیر لوٹانا) اس وجہ سے صحیح نہیں ہو گا کہ نسائی نے تیسرا جزو نقل ہی نہیں کیا، لہٰذا ضمیر بیہقی اور ترمذی کی طرف راجع ہو گی اور فی روایتھما کے یہی معنی ہوں گے۔ کہ بیہقی اور ترمذی کی روایت میں الخ البتہ اس صورت میں ایک اشکال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ جب اصل روایت میں فی الاسلام کے بجائے فی سبیل اللہ کے الفاظ ہیں ؟۔
اس کا جواب یہ ہے کہ فی رویتھما اصل میں مفہوم کے اعتبار سے یوں ہے کہ وفی روایۃ للبیہقی و روایۃ الترمذی یعنی بیہقی کی ایک اور روایت میں اور ترمذی کی روایت میں (فی الاسلام کے بجائے فی سبیل اللہ) اس طرح بات صاف ہو جائے گی کہ بیہقی کی ایک روایت میں جو یہاں متن میں نقل کی گئی ہے فی الاسلام ہے اور ایک دوسری روایت میں فی السلام کے بجائے فی سبیل اللہ ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مسابقت کی شرط کا مال لینا صرف تین چیزوں (یعنی) تیر چلانے، اونٹ دوڑانے، اور گھوڑ دوڑ میں جائز ہے۔ (ترمذی، اور داؤد، نسائی)
تشریح
سبق شرط کی رقم کو کہتے ہیں، یعنی وہ مال جو آگے بڑھ جانے کی شرط جیتنے والے کو دیا جاتا ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ واضح ہوتا ہے کہ ان تین چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز میں مسابقت یعنی آگے بڑھ جانے کی بازی لگانا اور اس کا مال لینا جائز نہیں ہے، لیکن فقہاء نے ان تینوں کے حکم میں ان چیزوں کو بھی شامل کیا ہے جو جہاد کا سامان و ذریعہ ہیں جیسے گدھا اور خچر، گھوڑے کے حکم میں ہیں اور ہاتھی، اونٹ کے حکم میں ہے۔ بعض حضرات نے پیدل دوڑنے اور بعض نے پتھر پھینکنے کی مسابقت کو جواز کے حکم میں شامل کیا ہے کیونکہ یہ چیزیں تیر کے مفہوم میں داخل ہیں۔
جو چیزیں جہاد کے ذرائع میں شامل ہیں ان کی مسابقت میں شرط باندھنا اور بازی لگانا اور شرط کی رقم لینا دراصل جہاد کی ترغیب دینے کے پیش نظر ہوتا ہے اور اسی لئے اس کا جواز کا حکم بیان کیا گیا ہے۔ ہاں جو چیزیں جہاد کے اسباب و ذرائع میں سے نہیں ہیں ان میں مسابقت کی بازی لگانا اور شرط باندھنا چونکہ ایسے کسی صالح مقصد کے لئے نہیں ہوتا اس لئے نہ تو ان چیزوں میں مسابقت ہی جائز ہے اور نہ اس کی شرط کا مال لینا جائز ہے۔
واضح رہے کہ کسی چیز کی مسابقت اور ہار جیت کے مقابلہ میں رقم کی شرط باندھنا در اصل قمار یعنی جوئے کا مفہوم ہے، کیونکہ اس صورت میں ملکیت بھی مشتبہ رہتی ہے اور نفع و نقصان کے درمیان بھی شک رہتا ہے اور قمار کے یہی معنی ہیں ہاں اگر کسی مسابقت اور ہار جیت کے مقابلہ میں امیر و حاکم یا کسی اور تیسرے شخص کی طرف سے کسی رقم یا کسی مال کی شرط باندھی جائے مثلاً وہ (امیر و حاکم یا تیسرا شخص) یہ کہے کہ ان دونوں مقابل میں سے جو شخص آگے بڑھ جائے گا یا جو شخص جیت جائے گا میں اس کو اتنی رقم یا فلاں چیز دوں گا تو یہ جائز ہو گا، اسی طرح دونوں مقابل میں سے صرف کسی ایک کی جانب سے کی رقم یا مال کی شرط باندھی جائے مثلاً ان میں سے کوئی ایک یوں کہے کہ اگر تم مجھ سے آگے بڑھ گئے یا میرے مقابلہ پر جیت گئے تو میں تمہیں اتنی رقم یا فلاں چیز دوں گا اور اگر میں آگے بڑھ گیا یا میں جیت گیا تو تمہیں کچھ نہ دینا ہو گا۔ تو اس کے جواز میں بھی کوئی شبہ نہیں۔ ناجائز تو اس صورت میں ہو گا جب کہ دونوں کی طرف سے بازی لگے۔ جیسے یوں کہا جائے کہ اگر میں آگے بڑھ گیا یا میں جیت گیا تو تمہیں اتنی رقم یا فلاں چیز دینی ہو گی اور اگر تم آگے بڑھ گئے یا جیت گئے تو میں اتنی رقم یا فلاں چیز دوں گا۔ کیونکہ حقیقت میں یہی قمار یعنی جوا ہے لیکن یہ صورت بھی اس طرح سے جائز ہو سکتی ہے۔ جب کہ دونوں کے درمیان محلل شامل ہو جائے۔ جیسا کہ اگلی حدیث میں بیان ہو گا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے تو اگر وہ گھوڑا ایسا ہے کہ (جس کے تیز رو ہونے کی وجہ سے) اس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ وہ (ان دونوں گھوڑوں سے) آگے نکل جائے گا تو اس میں بھلائی نہیں ہے اور اگر یہ یقین نہیں ہے کہ وہ آگے نکل جائے گا تو پھر اس میں مضائقہ نہیں۔ (شرح السنۃ) اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا) اگر کوئی شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے یعنی جس کے بارے میں یہ یقین نہیں ہے کہ اگر وہ آگے نقل جائے گا تو یہ قمار (جوا) نہیں ہے اور اگر کوئی شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا (ایسا) گھوڑا شامل کرے جس کے بارے میں یہ یقین ہے کہ وہ آگے نکل جائے گا تو یہ قمار ہے۔
تشریح
جو شخص دو گھوڑوں کے درمیان اپنا گھوڑا شامل کرے۔ یہ تحلیل کی صورت ہے جو مسابقت (یعنی گھوڑ دوڑ کے ہونے والے مقابلہ) میں بازی لگانے اور شرط باندھنے کو جائز کرتی ہے اور ایسے شخص کو (کہ جو دو گھوڑوں کے درمیان ہونے والے مقابلہ میں اپنا گھوڑا شامل کرے محلل کہتے ہیں۔ اس صورت کی وضاحت یہ ہے کہ مثلاً وہ شخص یعنی زید اور بکر نے مقابلے کے لئے اپنے اپنے گھوڑے دوڑائے اور دونوں نے ہار جیت کی شرط باندھی کہ جس کا گھوڑا آگے نکل جائے گا وہ پیچھے رہ جانے والے گھوڑے کے مالک سے اتنی رقم یا فلاں چیز لے لے گا۔ اس طرح انہوں نے ایک قمار (جوئے) کا معاملہ کیا، اب ایک تیسرا شخص یعنی خالد آتا ہے اور وہ ان دونوں کی گھوڑوں کی دوڑ میں شرط کے ساتھ اپنا گھوڑا بھی شامل کر دیتا ہے کہ اگر یہ تیسرا (میرا) گھوڑا ان دونوں گھوڑوں سے آگے نکل گیا تو میں تم دونوں سے اتنی رقم یا فلاں چیز لے لوں گا اور پیچھے رہ گیا تو مجھے کچھ نہیں دینا ہو گا۔
یہی صورت تحلیل کی ہے اور اس تیسرے شخص یعنی خالد کو محلل (حلال کرنے والا) کہیں گے۔ ایسے شخص کو محلل اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے وہ معاملہ حلال و جائز ہو گیا جو پہلے جانبین کی طرف سے شرط وبازی لگانے کی وجہ سے ایک حرام معاملہ یعنی قمار تھا، چنانچہ مذکورہ صورت میں اگر محلل کا گھوڑا آگے نکل جائے تو وہ ان دونوں سے متعینہ رقم یا مقررہ چیز لے لے اور اگر ان دونوں گے گھوڑے اس کے گھوڑے اس کے گھوڑے سے آگے نکل جائیں تو وہ ان کو کچھ نہ دے البتہ جو ان دونوں میں سے ایک کا گھوڑا آگے نکلے گا اس کو دوسرے سے متعینہ رقم یا مقررہ چیز لینا جائز ہو گا۔
واضح رہے کہ علماء نے لکھا ہے اور جیسا کہ اس حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے کہ تحلیل کی صورت میں محلل کو چاہئے کہ وہ اس گھوڑ دوڑ میں ایسے گھوڑے کو شامل کرے جو دوڑنے میں ان دونوں کے گھوڑے کے برابر یا تقریباً برابر ہو، چنانچہ اگر محلل کا گھوڑا ان دونوں کے گھوڑے سے آگے اس طرح کا تیز رو ہو کہ وہ محلل جانتا ہے کہ ان دونوں کے گھوڑے میرے گھوڑے سے آگے نہیں نکل سکتے تو نہ صرف یہ کہ یہ جائز نہیں بلکہ اس کا اپنے گھوڑے کو اس گھوڑ دوڑ میں شامل کرنا اور نہ کرنا برابر ہو گا یعنی یہ صورت تحلیل کی نہیں ہو گی۔
ہاں اگر وہ یہ نہیں جانتا کہ میرا گھوڑا ان دونوں کے آگے نکل جائے گا اور نہ یہ جانتا ہے کہ میرا گھوڑا ان دونوں کے گھوڑے سے پیچھے رہ جائے گا تو یہ جائز ہے اور یہ صورت تحلیل کی مانی جائے گی۔ حاصل یہ کہ اگر محلل کا گھوڑا ایسا ہے کہ وہ آگے نکل جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے اور پیچھے رہ جانے کا بھی احتمال رکھتا ہے تو جائز ہو گا ورنہ نہیں۔
اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ نہ جلب (جائز) ہے اور نہ جنب اور (ایک راوی) یحیی نے اپنی روایت میں لفظ فی الرہان بھی نقل کیا ہے (یعنی ان کی روایت میں یہ ہے کہ رہان یعنی گھوڑوں کی شرط و مسابقت میں نہ جلب جائز ہے اور نہ جنب) اس روایت کو ابوداؤد و نسائی نے نقل کیا ہے۔ نیز ترمذی نے بھی اس روایت کو کچھ زائد الفاظ و معانی کے ساتھ باب الغضب میں نقل کیا۔
تشریح
جلب اور جنب یہ ہے کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا زکوٰۃ دینے والوں کی قیام گاہوں سے کہیں دور ٹھہرے اور ان کو یہ حکم دے کہ وہ اپنی زکوٰۃ کا مال جیسے مویشی لے کر یہاں آ جائیں۔ اور جنب یہ ہے کہ زکوٰۃ دینے والے اپنے زکوٰۃ دینے والے اپنے زکوٰۃ کے مال جیسے مویشیوں کو لے کر اپنی قیامگاہوں سے کہیں دور چلے جائیں اور زکوٰۃ وصول کرنے والے کو اس مشقت میں مبتلا کریں کہ وہ ان کے پاس پہنچ کر زکوٰۃ وصول کرے۔ لہٰذا یہ دونوں ہی ممنوع و مکروہ ہیں۔
گھوڑ دوڑ میں جلب یہ ہے کہ گھوڑ دوڑ میں شریک ہونے والا کوئی سوار کسی دوسرے شخص کو اس مقصد سے اپنے گھوڑے کے پیچھے لگا لے کہ وہ اس کے گھوڑے کو ڈانٹتا اور جھڑکتا رہے تا کہ وہ آگے بڑھ جائے۔ اور جنب یہ ہے کہ اپنے گھوڑے کے پہلو بہ پہلو ایک دوسرا گھوڑا رکھے تاکہ جب سواری کا گھوڑا تھک جائے تو اس گھوڑے پر سوار ہو جائے، یہ دونوں باتیں بھی ممنوع ہیں۔
اور حضرت ابو قتادہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بہترین گھوڑا سیاہ گھوڑا ہے جس کی پیشانی پر تھوڑی سی سفیدی ہو اور ناک کی جانب سفیدی ہو پھر وہ گھوڑا بہتر ہے جس کی پیشانی پر تھوڑی سی سفیدی ہو اور ہاتھ پاؤں سفید ہوں لیکن دایاں ہاتھ سفید نہ ہو اور اگر سیاہ گھوڑا نہ ہو پھر اسی قسم کا کمیت (بھی بہتر گھوڑا ہے۔ (ترمذی، دارمی)
تشریح
کمیت اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کی دم اور ایال سیاہ ہوں اور باقی بدن سرخ ہو اور اسی قسم کا مطلب یہ ہے کہ جو علامتیں سیاہ گھوڑے کی بیان کی گئی ہیں یعنی پیشانی پر سفیدی وغیرہ۔ وہی کمیت میں بھی ہوں تو یہ گھوڑا بھی ایک بہترین گھوڑا ہے۔
اور حضرت ابو وہب جشمی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تمہارے لئے سفید پیشانی اور سفید ہاتھ پاؤں والا کمیت گھوڑا ضروری ہے (یعنی اگر تم گھوڑا رکھو تو اس طرح کا گھوڑا ہونا چاہئے جس کی پیشانی بھی سفید ہو اور ہاتھ پاؤں بھی سفید ہوں یا سیاہ سفید پیشانی ہو اور سفید پاؤں ہوں۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
اشفر سرخ رنگ کے گھوڑے کو کہتے ہیں۔ کمیت اور اشفر میں فرق یہ ہے کہ کمیت کی دم اور ایال سیاہ ہوتی ہے اور اشفر کی سرخ۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ گھوڑوں کی برکت سرخ رنگ کے گھوڑوں میں ہوتی ہے۔ (ترمذی، ابو داؤد)
اور حضرت عتبہ ابن عبد السلمی سے روایت ہے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ گھوڑوں کی پیشانی کے بال، ان کی ایال اور انکی دموں کو نہ کاٹو کیونکہ ان کی دمیں، ان کے مور چھل ہیں (کہ جن کو وہ ہلا ہلا کر مکھیوں اور کیڑوں کو اڑاتے ہیں) اور ان کی ایالیں ان کو گرمی پہنچانے کی چیز ہیں، تو ان کی پیشانی کے بالوں میں بھلائی بندھی ہوئی ہے۔ (ابو داؤد)
اور حضرت وہب جشمی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ گھوڑوں کو باندھ کر رکھو، ان کی پیشانیوں اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا کرو۔ یا (اعجازھا کی جگہ) اکمالھا فرمایا (اور دونوں لفظوں کے ایک ہی معنی ہیں (یعنی پیٹھ) ان کی گردن میں کنڈا (پٹا) باندھو لیکن ان کی گردن میں کمان کی تانت نہ باندھو۔ (ابوداؤد، و نسائی)
تشریح
باندھ رکھو یہ گھوڑوں کو جہاد کے لئے فربہ اور چاق و چوبند رکھنے سے کنایہ ہے !یعنی اس کے ذریعہ گویا یہ حکم دیا گیا ہے کہ گھوڑوں کی اچھی طرح دیکھ بھال رکھو اور ان کو خوب کھلاؤ پلاؤ تا کہ وہ موٹے تازے رہیں اور جہاد میں اچھی طرح کام آئیں۔
ہاتھ پھیرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان کو گرد و غبار سے صاف ستھرا رکھا جائے اور ان کی فربہی معلوم ہوتی رہے نیز اس کے ذریعہ گھوڑوں کو انس و راحت بھی حاصل ہوتی ہے۔
زمانہ جاہلیت میں اہل عرب کا معمول تھا کہ وہ اپنے گھوڑوں کی گردنوں میں کمان کے تانت باندھ دیا کرتے تھے ان کا عقیدہ تھا کہ اس کی وجہ سے گھوڑے نظر بد سے محفوظ رہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے منع فرمایا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ یہ چیز تقدیر کو بدل نہیں سکتی۔ یا اس لئے منع فرمایا کہ تانت باندھنے سے ان کا گلا نہ گھٹے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مامور پر بندے تھے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم کو (یعنی اپنے اہل بیت کو) دوسرے لوگوں سے الگ کر کے تین باتوں کے علاوہ اور کسی بات کا مخصوص طور پر حکم نہیں دیا اور وہ (تین باتیں جن کا خاص طور پر اہل بیت کو حکم دیا) یہ ہیں کہ
١: ہم وضو کو پورا کریں
٢: ہم صدقہ کا مال نہ کھائیں
٣: ہم گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑیں۔ (ترمذی و نسائی)
تشریح
رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم ایک مامور بندے تھے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو خدا کی طرف سے جس بات کا حکم ہوتا تھا وہی کرتے تھے اپنی طرف سے نہ کوئی قانون بناتے تھے اور نہ اپنی خواہش نفس کے تحت کوئی حکم دیتے تھے یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کسی بھی طبقہ و جماعت یا کسی بھی شخص و خاندان کے لئے خواہ وہ آپ کے نزدیک کتنا ہی محبوب کیوں نہ ہو الگ سے کسی چیز کا حکم دے کر اس کو دوسرے لوگوں پر ترجیح نہیں دیتے تھے، یہاں تک کہ اہل بیت جو اخص و اقرب تھے ان کے لئے بھی احکام میں کسی امتیاز و خصوصیت کو روا نہیں رکھتے تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس نے وضاحت کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم اہل بیت کو بھی کسی چیز کا مخصوص طور پر حکم نہیں دیا ہاں تین چیزیں ایسی ہیں جن کے بارے میں اہل بیت کو بھی خصوصی حکم دیا گیا۔
گھوڑیوں (سے خچر پیدا کرنے کے لئے) پر گدھے چھوڑنے سے اس لئے منع فرمایا کہ اول تو اس سے نسل کو قطع کرنا لازم آتا ہے دوسرے یہ ایک اچھی چیز کے بدلے ایک گھٹیا چیز چاہنا ہے کیونکہ گھوڑے کے مقابلہ میں خچر ایک ادنی جانور ہے جو نہ گھوڑے کی طرح کار آمد ہوتا ہے اور نہ جہاد وغیرہ کے کام آتا ہے، لہٰذا ایسا کرنا مکروہ ہے۔
اس موقع پر ایک سوال اٹھتا ہے کہ صدقے کا مال کھانے کا مسئلہ تو بالکل صاف ہے کہ اس سے صرف اہل بیت کو منع کیا گیا ہے باقی اس امت اس کے حکم میں داخل نہیں ہے لیکن باقی دو حکم (یعنی وضو کو پورا کرنا اور گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑنا) تو ایسے ہیں جن میں پوری امت داخل ہے کہ سارے ہی مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وضو کو پورا کرو (یعنی اچھی طرح) کریں اور اپنی گھوڑیوں پر گدھے نہ چھوڑیں پھر ان دونوں چیزوں کو صرف اہل بیت کے ساتھ مخصوص کرنا کیا معنی رکھتا ہے ؟ جواب یہ ہے کہ اس سے مراد ان دونوں چیزوں کو اہل بیت پر واجب و لازم کرنا ہے، یا یہ کہ ان احکام کو اہل بیت کے حق میں زیادہ سے زیادہ اہمیت اور تاکید کے ساتھ نافذ کرنا مقصد ہے۔
یہ حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے شیعوں کے اس نظریہ کی واضح تردید کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اہل بیت کو کچھ ایسے مخصوص علوم سے نوازا تھا جن میں باقی امت کا کوئی حصہ نہیں تھا ! اسی طرح وہ حدیث بھی شیعوں کے اس نظریہ کی تردید میں ایک مضبوط دلیل ہے۔ جو پیچھے گزر چکی ہے۔ اور جس میں حضرت علی کرم اللہ وجہ کے بارے میں منقول ہے۔
(ہل عندکم شیئی لیس فی القرآن فقال والذی لفق الحبۃ وبرأ النسمۃ ما عندنا الاّ ما فی القرآن الاّ فہما یعطی الرجل فی کتابہ وما فی الصحیفۃ۔ الحدیث۔
(جب حضرت علی سے یہ پوچھا گیا کہ) کیا آپ کے پاس ایسا کوئی علم ہے جو قرآن میں موجود نہیں ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے دانہ کو چیرا اور جان کو پیدا کیا قرآن میں جو علوم ہیں ان کے علاوہ ہمارے پاس اور کچھ نہیں ہے ہاں مجھے بے شک کتاب اللہ کا وہ فہم ملا جو کسی انسان کو عطا ہوتا ہے (اور میرے پاس کچھ) وہ چیزیں (مسائل) ہیں جو اس صحیفہ میں لکھے ہوئے ہیں۔ آخر حدیث تک۔
اور حضرت علی سے روایت ہے کہ (ایک موقع پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک خچر بطور ہدیہ پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس پر سوار ہوئے، حضرت علی نے عرض کیا کہ اگر ہم گھوڑیوں پر گدھے چھوڑیں تو ہمیں (بھی) ایسے خچر مل جائیں ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ (سن کر) فرمایا کہ یہ کام وہ لوگ کرتے ہیں جو ناواقف ہوتے ہیں۔ (ابوداؤد، نسائی)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ غیر دانشمندانہ کام تو وہی لوگ کر سکتے ہیں جو یہ نہیں جانتے کہ اس (گھوڑیوں پر گدھے چھوڑنے) سے بہتر گھوڑی پر گھوڑا ہی چھوڑنا ہے کیونکہ جو فوائد گھوڑی سے اس کی نسل پیدا ہونے کی صورت میں حاصل ہوتے ہیں وہ اس کے پیٹ سے خچر پیدا ہونے سے حاصل نہیں ہو سکتے ہیں۔ یا یہ مراد ہے کہ یہ کام وہی نادان کر سکتے ہیں جو شریعت کے احکام سے واقف نہیں ہیں اور ان کو اس چیز کا راستہ نظر نہیں آتا جو ان کے حق میں اولیٰ اور بہتر ہے۔
اس حدیث میں گویا گھوڑی پر گدھا چھوڑنے کی ممانعت مذکور ہے، اور یہ ممانعت نہی کراہت کے طور پر ہے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی تلوار کے قبضے کی ٹوپی چاندی کی تھی۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، دارمی)
تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ یہ حدیث اس پر دلالت کرتی ہے کہ تلوار کو تھوڑی بہت چاندی کے ساتھ مزین و آراستہ کرنا جائز ہے۔ یہی حکم پیٹی کا بھی ہے۔ البتہ ان میں سے کسی میں بھی سونے کے استعمال کی اجازت نہیں ہے۔
اور حضرت ہود ابن عبداللہ بن سعد اپنے دادا سے کہ جن کا نام مزیدہ تھا نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم فتح کے دن (مکہ میں) داخل ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس جو تلوار تھی اس پر سونے اور چاندی کا کام تھا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہا یہ حدیث غریب۔
تشریح
اس حدیث کی بنیاد پر ہتھیار و اسلحہ جات میں سونے کے استعمال کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ اس حدیث کی سند مضبوط نہیں ہے۔
اور حضرت سائب ابن یزید سے روایت ہے کہ غزوہ احد کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (کے جسم مبارک) پر دو زرہیں تھیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک دوسرے پر پہن رکھا تھا۔ (ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جنگ کے کار آمد زیادہ سے زیادہ سامان فراہم کرنا اور میدان جنگ میں اپنی حفاظت کے لئے حتی الوسعت زیادہ سے زیادہ چیزوں کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اور یہ توکل کے منافی نہیں ہے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا بڑا جھنڈا سیاہ رنگ کا تھا اور چھوٹا سفید رنگ کا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
اور حضرت موسیٰ ابن عبیدہ جو حضرت محمد ابن قاسم (تابعی) کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ (ایک دن) حضرت محمد ابن قاسم نے مجھے حضرت براء ابن عازب (صحبی) کے پاس بھیجا تا کہ یہ دریافت ہو سکے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا جھنڈا کیسا تھا۔ چنانچہ حضرت براء نے فرمایا کہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا) جھنڈا سیاہ رنگ کا تھا (اس کا کپڑا چوکور اور نمرہ کی طرح تھا۔ (احمد، ترمذی، ابو داؤد)
تشریح
چونکہ جھنڈے کے کپڑے کو نمرہ کی طرح بیان کیا گیا ہے اس لئے سیاہ رنگ کا تھا سے مراد یہ ہے کہ اس کا اکثر حصہ سیاہ رنگ کا تھا جس کی وجہ سے وہ دور سے سیاہ ہی معلوم ہوتا تھا نہ کہ خالص سیاہ رنگ کا تھا۔
نمرہ اس کملی یا چادر کو کہتے ہیں جس میں سیاہ اور سفید دھاریاں اور خط ہوں۔ ویسے لغت میں نمر مشہور درندہ چیتے کو کہتے ہیں اسی لئے ایسے کپڑے کو چیتے سے تشبیہ دی ہے کہ اسی کھال پر سیاہ و سفید دھاریاں ہوتی ہیں۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم (فتح مکہ کے دن) مکہ میں داخل ہوئے تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سفید جھنڈا تھا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی نظر میں عورتوں کے بعد (جہاد کے مقاصد کے لئے) گھوڑوں سے زیادہ محبوب وپسندیدہ اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی۔ (نسائی)
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں (کسی میدان میں یا ویسے ہی کسی موقع پر) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں عربی کمان تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص (صحابی) کے ہاتھ میں فارسی (ایرانی کمان دیکھی تو فرمایا کہ یہ کیا ہے ؟ اس کو پھینک دو، تمہیں ایسی (یعنی عربی) کمان رکھنی چاہئے۔ اور اسی طرح (یعنی اس وضع کی) رکھنی چاہئے۔ نیز تمہیں کامل نیزے رکھنے چاہئیں، یقیناً ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ دین (کو سر بلند رکھنے) میں تمہاری مدد کرے گا اور (دشمنوں کے) شہروں میں تمہیں جما دے گا۔ (ابن ماجہ)
تشریح
گویا ان صحابی نے جب یہ دیکھا ہو گا کہ فارسی (ایرانی) کمان زیادہ مضبوط اور زیادہ سخت ہوتی ہے تو انہوں نے اس کمان کو عربی کمان پر ترجیح دی، نیز پھر انہوں نے یہ گمان کیا ہو گا کہ ایسی کمان جنگ میں بہت کار آمد ہوتی ہے اور دشمنوں کے شہروں کو فتح کرنے کا مضبوط ذریعہ ہے،چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان پر واضح کیا کہ تمہارا جو خیال ہے وہ صحیح نہیں ہے بلکہ آلات حرب خواہ کسی قسم کے ہوں اور دیکھنے میں کتنے ہی مضبوط و عمدہ ہوں حقیقت میں میدان جنگ کی کامیابی کا ان پر انحصار نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ جس کو چاہتا ہے اپنے دین کی سر بلندی کی جدوجہد میں مدد و نصرت دے کر کامیاب و کامران کرتا ہے۔ حقیقی مدد و نصرت اسی کی طرف سے اور اسی کی قوت و قدرت کے ساتھ ہوتی ہے، نہ تمھاری قوت و طاقت سے دین کی سر بلندی میں نصرت حاصل ہوتی ہے اور نہ محض تمہارے ساز و سامان اور آلات حرب کی مضبوطی و عمدگی سے دشمنوں کے مقابلے پر مدد ملتی ہے۔