وداع واؤ کے زبر کے ساتھ کے معنی ہیں رخصت کرنا اور حجۃ الوداع اس حج کو کہتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج کی فرضیت نازل ہونے کے بعد ١٠ھ میں کیا! اس حج کا یہ نام اس لئے رکھا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حج میں احکام شریعت کی تعلیم دی، ان کو رخصت کیا، اس دنیا سے اپنے رخصت ہونے کی انہیں خبر دی، اور منصب رسالت کی ذمہ داریوں کی ادائیگی و انجام دہی اور دینی و تشریعی احکام کو دنیا کے سامنے پہنچا دینے اور نافذ کر دینے پر ان کو اپنا گواہ بنایا۔
اس باب میں سب سے پہلے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو طویل و بسیط حدیث نقل کی جا رہی ہے یہ احادیث میں سب سے جامع حدیث ہے اس حدیث سے ڈیڑھ سو فقہی مسئلے مستنبط ہوتے ہیں اور اگر کوئی زیادہ غور تامل کرے تو اس سے بھی زیادہ مسئلے سامنے آ سکتے ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہجرت کے بعد مدینہ میں نو برس اس طرح گزارے کہ حج نہیں کیا البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرے کئے جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے پھر جب حج کی فرضیت نازل ہوئی تو دسویں سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں میں اعلان کرایا کہ رسول اللہ حج کا ارادہ رکھتے ہیں جو لوگ حج کے لئے جانا چاہتے ہیں وہ رفاقت کے لئے تیار ہو جائیں اس اعلان کو سن کر مخلوق خدا کی ایک بہت بڑی تعداد مدینہ میں جمع ہو گئی چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ماہ ذی قعدہ کے ختم ہونے سے پانچ دن پہلے ظہر و عصر کے درمیان مدینہ سے روانہ ہو گئے جب ہم لوگ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے بطن سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔ اسماء نے کسی کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں بھیجا اور دریافت کرایا کہ اب میں کیا کروں؟ آیا احرام باندھوں یا نہ باندھوں اور اگر باندھوں تو کس طرح باندھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کہلا بھیجا کہ غسل کر کے کپڑے کا لنگوٹ باندھوں اور پھر احرام باندھ لو بہر کیف رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی اور قصواء پر کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کا نام تھا سوار ہوئے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو لے کر بیداء کے میدان میں کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بآواز بلند تلبیہ کے یہ کلمات کہے:
لبیک اللہم لبیک لاشریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ حاضر ہوں تیری خدمت میں اے اللہ! تیری خدمت میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیری خدمت میں تیرا کوئی شریک نہیں حاضر ہوں تیری خدمت میں بے شک تعریف اور نعمت تیرے لئے ہے اور بادشاہت بھی تیرے ہی لئے ہے تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اس سے پہلے حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے اور ہم حج کے مہینوں میں عمرہ سے واقف بھی نہیں تھے بہر کیف جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو حجر اسود پر ہاتھ رکھا اور اس کو بوسہ دیا اور تین بار رمل یعنی تیز رفتار سے اور اکڑ کر خانہ کعبہ کا طواف کیا اور چار مرتبہ اپنی رفتار سے یعنی آہستہ آہستہ چل کر طواف کیا اور طواف کے بعد مقام ابراہیم کی طرف بڑھے اور یہ آیت پڑھی۔ (وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2۔ البقرۃ:125) مقام ابراہیم کے اطراف کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مقام ابراہیم اور بیت اللہ کو اپنے درمیان کر کے دو رکعت نماز پڑھی اور ایک روایت کے مطابق ان دو رکعتوں میں قل ہواللہ اور قل یا ایہا الکافرون کی قرأت کی پھر حجر اسود کی طرف لوٹے اور اس کو بوسہ دیا اس سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازہ یعنی باب الصفا سے نکلے اور صفا پہاڑ کی طرف چلے چنانچہ جب صفا کے قریب پہنچے تو یہ آیت پڑھی۔ (ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ) بلا شبہ صفا اور مروہ اللہ کے دین کی نشانیوں میں سے ہیں اور فرمایا میں بھی اسی چیز کے ساتھ ابتداء کرتا ہوں۔ یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں پہلے صفا کا ذکر کیا ہے پھر مروہ کا اسی طرح میں بھی پہلے صفا پر چڑھتا ہوں پھر مروہ پر چڑھونگا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سعی کی ابتداء صفا سے کی اور اس پر چڑھے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب صفا سے بیت اللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی بڑائی بیان کی یعنی لا الہ الا اللہ اور اللہ اکبر کہا اور یہ کلمات فرمائے۔
لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر لا الہ الا اللہ وحدہ انجز وعدہ ونصر عبدہ وہزم الاحزاب وحدہ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ یکتا وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اسی کے لئے بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تعریف ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ یکتا وتنہا ہے اس نے اسلام کا بول بالا کرنے کا اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندوں کی مدد کی اور کفار کے لشکر کو تنہا شکست دی یعنی غزوہ خندق۔ پھر اس کے درمیان دعا کی اور تین مرتبہ اسی طرح کہا (یعنی پہلے یہ کلمات کہے اور پھر دعا کی اور اسی طرح تین مرتبہ کہا) اس کے بعد صفا سے اترے اور مروہ پہاڑ کی طرف چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دونوں قدم چڑھنے لگے (یعنی نشیب سے مروہ کی بلندی پر چڑھنے لگے) تو (دوڑنا موقوف کر کے) آہستہ آہستہ چلنے لگے اور پھر جب مروہ پر پہنچ گئے تو وہی کیا جو صفا پر کیا تھا یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مروہ پر سعی کا اختتام کیا تو لوگوں کو آواز دی در آنحالیکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مروہ کے اوپر تھے۔ اور لوگ اس کے نیچے اور فرمایا اگر اپنے بارے میں مجھے پہلے سے وہ بات معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی ہے تو ہدی قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور اپنے حج کو عمرہ کر دیتا لہٰذا تم میں سے جو شخص ہدی اپنے ساتھ نہ لایا ہو وہ حلال ہو جائے یعنی حج کا احرام کھول دے اور حج کو عمرہ بنا لے یہ سن کر حضرت سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہمارے واسطے یہ حکم اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال کر فرمایا عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات دو مرتبہ کہی اور پھر فرمایا نہیں یہ حکم خاص طور پر اسی سال کے لئے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ کے لئے ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ جائز ہے اس کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ جو یمن کے حاکم مقرر ہو گئے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قربانی کے واسطے یمن سے اونٹ لے کر آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ جب تم نے اپنے اوپر حج لازم کیا تھا تو اس وقت یعنی احرام باندھنے کے وقت کیا کہا تھا؟ تو نے کس چیز کے لئے احرام باندھا تھا اور کیا نیت کی تھی؟ حضرت علی کرم اللہ وجھہ نے کہا کہ میں نے اس طرح کہا تھا کہ۔ اللہم انی اہل بنا اہل بہ رسولک۔ یعنی اے اللہ! میں اس چیز کا احرام باندھتا ہوں جس چیز کا احرام تیرے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باندھا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میرے ساتھ تو قربانی کا جانور ہے اور میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے ہوں، اس لئے جب تک عمرہ اور حج دونوں سے فارغ نہ ہو جاؤں اس وقت تک احرام سے نہیں نکل سکتا اور چونکہ تم نے وہی نیت کی ہے جو میں نے کی ہے تو تم بھی احرام نہ کھولو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ اونٹ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے قربانی کے واسطے حضرت علی کرم اللہ وجھہ یمن سے لے کر آئے تھے اور وہ اونٹ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود اپنے ہمراہ لائے تھے، سب کی مجموعی تعداد سو تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کے مطابق سب لوگوں کے کہ جن کے ساتھ قربانی کا جانور نہیں تھا عمرہ کر کے، احرام کھول دیا، اپنے سروں کے بال کٹوا دئیے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی کے جانور تھے احرام کی حالت میں رہے پھر جب ترویہ کا دن آیا یعنی ذی الحجہ کی آٹھویں تایخ آئی تو سب لوگ منیٰ کی طرف روانہ ہونے کے لئے تیار ہوئے چنانچہ ان صحابہ نے کہ جو عمرہ سے فارغ ہونے کے بعد احرام سے نکل آئے تھے حج کا احرام باندھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی آفتاب طلوع ہونے کے بعد سوار ہوئے اور منیٰ پہنچ گئے منیٰ کی مسجد خیف میں ظہر و عصر، مغرب عشاء اور فجر کی نمازیں پڑھی گئیں اور نویں تاریخ کی فجر کی نماز پڑھنے کے بعد تھوڑی دیر قیام کیا یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے وادی نمرہ عرفات میں خیمہ نصب کیا جائے جو بالوں کا بنا ہوا تھا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم منیٰ سے عرفات کو روانہ ہوئے قریش کو گمان تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مشعر حرام مزدلفہ میں قیام کریں گے جیسا کہ قریش زمانہ جاہلیت میں حج کے موقعہ پر کیا کرتے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مزدلفہ سے آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ جو میدان عرفات میں آئے اور وادی نمرہ میں اپنے خیمہ کو کھڑا پایا چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس میں آئے اور قیام کیا یہاں تک کہ جب دوپہر ڈھل گیا تو قصواء کو جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی کا نام تھا، لانے کا حکم دیا جب قصواء آ گئی تو اس پر پالان کس دیا گیا ور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر سوار ہو کر وادی نمرہ میں تشریف لائے اور لوگوں کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا۔ لوگو! تمہارے خون اور تمہارے مال تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح تمہارے اس دن عرفہ میں تمہارے اس مہینہ ذی الحجہ میں اور تمہارے اس شہر (مکہ میں حرام ہیں یعنی جس طرح تم عرفہ کے دن ذی الحجہ کے مہینہ میں اور مکہ مکرمہ قتل و غارت گری اور لوٹ مار کو حرام سمجھتے ہو اسی طرح ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اور ہر جگہ ایک مسلمان کی جان و مال دوسرے پر حرام ہے لہٰذا تم میں سے کوئی بھی کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ کسی کا خون نہ کر کسی کا مال چوری و دغابازی سے نہ کھا جائے اور کسی کو کسی جانی اور مالی تکلیف و مصیبت میں بھی مبتلا نہ کرے، یاد رکھو! زمانہ جاہلیت کی ہر چیز میرے قدموں کے نیچے ہے اور پامال و بے قدر یعنی موقوف باطل ہے لہٰذا اسلام سے پہلے جس نے جو کچھ کیا میں نے وہ سب معاف کیا اور زمانہ جاہلیت کے تمام رسم و رواج کو موقوف و ختم کر دیا زمانہ جاہلیت کے خون معاف کر دیئے گئے ہیں لہٰذا زمانہ جاہلیت میں اگر کسی نے کسی کا خون کر دیا تھا تو اب نہ اس کا قصاص ہے نہ دیت اور نہ کفارہ بلکہ اس کی معافی کا اعلان ہے اور سب سے پہلا خون جسے میں اپنے خونوں سے معاف کرتا ہوں ربیعہ بن حارث کے بیٹے کا خون ہے۔ جو ایک شیر خوار بچہ تھا اور قبیلہ بنی سعد میں دودھ پیتا تھا اور ہزیل نے اس کو مار ڈالا تھا۔ زمانہ جاہلیت کا سود معاف کر دیا گیا ہے اور سب سے پہلا سود جسے میں اپنے سودوں سے معاف کرتا ہوں عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود ہے لہٰذا وہ زمانہ جاہلیت کا سود بالکل معاف کر دیا گیا ہے۔ لوگو! عورتوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو، تم نے ان کو خدا کی امان کے ساتھ لیا ہے یعنی ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو عزت و احترام کے ساتھ رکھنے کا جو عہد خدا نے تم سے لیا ہے یا اس کا عہد جو تم نے خدا سے کیا ہے اسی کے مطابق عورتیں تمہارے پاس آئی ہیں، اور ان کی شرم گاہوں کو خدا کے حکم سے (یعنی فانکحوا کے مطابق رشتہ زن و شو قائم کر کے) اپنے لئے حلال بنایا ہے اور عورتوں پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے یعنی وہ تمہارے گھروں میں کسی کو بھی تمہاری اجازت کے بغیر نہ آنے دیں خواہ وہ مرد ہو یا عورت، پس اگر وہ اس معاملہ میں نافرمانی کریں کہ تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو گھر آنے دیں اور ڈانٹ ڈپٹ کے بعد بھی وہ اس سے باز نہ آئیں تو تم اس کو مارو مگر اس طرح نہ مارو جس سے سختی و شدت ظاہر ہو اور انہیں کوئی گزند پہنچ جائے اور تم پر ان کا حق یہ ہے کہ تم ان کو اپنی استطاعت و حیثیت کے مطابق کھانے پینے کا سامان اور مکان اور کپڑا دو۔ لوگو! میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑتا ہوں جس کو اگر تم مضبوطی سے تھانے رہو گے تو میرے بعد (یا اس کو مضبوطی سے تھامے رہنے اور اس پر عمل کرنے کے بعد) تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے اور وہ چیز کتاب اللہ ہے اور اے لوگو! میرے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا کہ میں نے منصب رسالت کے فرائض پوری طرح انجام دئیے یا نہیں ؟ اور میں نے دین کے احکام تم تک پہنچا دئیے یا نہیں؟ تو تم کیا جواب دو گے؟ اس موقع پر صحابہ نے (بیک زبان) کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دین کو ہم تک پہنچا دیا اپنے فرض کو ادا کر دیا اور ہماری خیر خواہی کی اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا بایں طور کہ اسے آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر لوگوں کی طرف جھکا کر تین مرتبہ یہ کہا کہ اے اللہ! اپنے بندوں کے اس اقرار اور اعتراف پر تو گواہ رہ اے اللہ! تو گواہ رہ۔
اس کے بعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی اور ظہر کی نماز پڑھی گئی پھر دوبارہ اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی چیز یعنی سنت و نفل نہیں پڑھی گئی پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور میدان عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ پہنچے وہاں اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ پتھروں کی طرف کیا اور جبل مشاۃ یہ ایک جگہ کا نام ہے اپنے آگے رکھا پھر قبلہ کی طرف منہ کر کے کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ آفتاب غروب ہو گیا، زردی بھی تھوڑی سی جاتی رہی اور آفتاب کی ٹکیہ غائب ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھایا اور تیز تیز چل کر مزدلفہ آ گئے یہاں ایک اذان اور دو تکبیروں کے ساتھ مغرب و عشاء کی نمازیں پڑھیں اور ان دونوں نمازوں کے درمیان اور کچھ نہیں پڑھا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لیٹ گئے یہاں تک کہ جب فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صبح کی روشنی پھیل جانے پر اذان و اقامت کے ساتھ فجر کی نماز پڑھی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اونٹنی پر سوار ہو کر مشعر حرام میں آئے اور وہاں قبلہ رو ہو کر اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی۔ تکبیر کہی۔ لا الہ اللہ پڑھا اور خدا کی وحدانیت کی یعنی لا الہ الااللہ وحدہ لا شریک لہ آخر تک پڑھا وہیں کھڑے تکبیر و تہلیل وغیرہ میں مصروف رہے یہاں تک کہ صبح خوب روشن ہو گئی تو سورج نکلنے سے پہلے وہاں سے چلے اور حضرت فضیل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے سوار کیا جب وادی محسر میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز چلانے کے لئے تھوڑی سی حرکت دی اور اس درمیانی راہ پر ہو لئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے تاآنکہ آپ اس جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے اور اس پر سات کنکریں ماریں اس طرح کہ ان میں سے ہر کنکری کے ساتھ تکبیر کہتے تھے اور وہ کنکریاں باقلہ کے دانہ کے برابر تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ کنکریاں نالے یعنی وادی کے درمیان سے ماریں اس کے بعد قربانی کرنے کی جگہ جو منیٰ میں ہے واپس آئے اور یہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے دست مبارک سے تریسٹھ اونٹ ذبح کئے اور باقی اونٹ حضرت علی کرم اللہ وجھہ کے سپرد کئے چنانچہ باقی سینتیس اونٹ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ذبح کئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ٹکڑا لیا جائے چنانچہ وہ سب گوشت لے کر ایک ہانڈی میں ڈال دیا گیا اور اسے پکایا گیا جب گوشت پک گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قربانی کے اس گوشت میں سے کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سوار ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے، وہاں پہنچ کر طواف کیا اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی پھر عبدالمطلب کی اولاد یعنی اپنے چچا حضرت عباس اور ان کی اولاد کے پاس تشریف لائے جو زمزم کا پانی پلا رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا۔ عبدالمطلب کی اولاد زمزم کا پانی کھینچو اور پلاؤ کہ یہ بہت ثواب کا کام ہے اگر مجھے اس بات کا خوف نہ ہوتا کہ لوگ تمہارے پانی پلانے پر غلبہ پا لیں گے تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا ابھی اس بات کا خوف ہے کہ لوگ مجھے پانی کھینچتا دیکھ کر میری اتباع میں خود بھی پانی کھینچنے لگیں گے اور یہاں بہت زیادہ جمع ہو جائیں گے جس کی وجہ سے زمزم کا پانی کھینچنے اور پلانے کی یہ سعادت تمہارے ہاتھ سے چلی جائے گی اگر مجھے یہ خوف نہ ہوتا تو میں خود بھی تم لوگوں کے ساتھ پانی کھینچتا اور لوگوں کو پلاتا، چنانچہ عبدالمطلب کی اولاد نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پانی کا ایک ڈول دیا جس میں سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانی پیا۔ (مسلم)
تشریح
حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کتنے آدمی تھے؟ اس بارے میں مختلف اقوال ہیں چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نوے ہزار آدمی تھے، بعض حضرات نے ایک لاکھ تیس ہزار اور بعضوں نے اس سے بھی زائد تعداد بیان کی ہے۔ بعض حضرات نے ایک لاکھ تیس ہزار اور بعضوں نے اس سے بھی زائد تعداد بیان کی ہے۔
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا پہلے حضرت جعفر بن ابی طالب کے نکاح میں تھیں ان کے انتقال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق کے نکاح میں آئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد حضرت علی کرم اللہ وجہ نے ان سے نکاح کیا۔ چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حجۃ الوداع کے لئے روانہ ہوئے ہیں تو اس وقت یہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق کے نکاح میں تھیں اور ان سے محمد بن ابوبکر پیدا ہوئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کو غسل کرنے کی ہدایت اس بات کی دلیل ہے کہ نفاس والی عورت کو احرام کے لئے غسل کرنا مسنون ہے اور یہ غسل نظافت یعنی ستھرائی کے لئے ہوتا ہے طہارت یعنی پاکی کے لئے نہیں، اسی لئے نفاس والی عورت کو تیمم کرنے کا حکم نہیں دیا گیا اور یہی حکم حائضہ کا بھی ہے نیز ان کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس حکم کہ اور پھر احرام باندھ لو یعنی احرام کی نیت کرو اور لبیک کہو سے یہ بات ثابت ہوتی ہوتی ہے کہ نفاس والی عورت کا احرام صحیح ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔
رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسجد ذوالحلیفہ میں نماز پڑھی کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام کی سنت دو رکعت نماز پڑھی، اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر میقات میں مسجد ہو تو مسجد ہی میں یہ دو رکتعتیں پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مسجد کے علاوہ کسی دوسری جگہ پڑھ لے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، نیز اوقات مکروہہ میں یہ نماز نہ پڑھی جائے، علماء یہ بھی لکھتے ہیں کہ تحیۃ المسجد کی طرح فرض نماز بھی اس نماز کے قائم مقام ہو جاتی ہے۔
لسنا نعرف العمرۃ (اور ہم عمرہ سے واقف نہیں تھے۔ یہ جملہ در اصل پہلے جملہ لسنا ننوی الا الحج ہم حج ہی کی نیت کیا کرتے تھے) کی تاکید کے طور پر استعمال کیا گیا۔ ان جملوں کی وضاحت یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو بڑا گناہ سمجھتے تھے، چنانچہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا رد کیا اور حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا حکم فرمایا اس کی تفصیل آگے آئے گی۔
جب ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بیت اللہ پہنچے یعنی پہلے ہم ذی طویٰ میں اترے اور رات کو وہیں قیام کیا اور پھر ١٤ذی الحجہ کو نہا دھو کر ثنیہ علیا کی طرف سے یعنی جانب بلند سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے اور پھر باب السلام کی جانب سے مسجد حرام میں آئے اور وہاں آ کر تحیۃ المسجد کی نماز نہیں پڑھی کیونکہ بیت اللہ کا طواف ہی وہاں کا تحیۃ ہے۔
تین بار رمل کیا اور چار مرتبہ اپنی رفتار سے طواف کیا اس بارے میں یہ تفصیل جان لینی چاہئے کہ خانہ کعبہ کے گرد مطاف پر سات چکر کرنے کو طواف کہتے ہیں۔ کل طواف کے ساتھ چکر ہوتے ہیں اور ہر چکر حجر اسود سے شروع ہو کر حجر اسود ہی پر ختم ہوتا ہے ہر چکر کو اصطلاح شریعت میں شوط کہا جاتا ہے۔
طواف کے سات چکروں میں سے پہلے تین چکر میں تو رمل کرنا چاہئے اور پہلوانوں کی طرف کندھے ہلا ہلا کر، اکڑ کر اور کچھ تیزی کے ساتھ قریب قریب قدم رکھ کر چلنا رمل کہلاتا ہے، طواف کے باقی چار چکروں میں آہستہ آہستہ یعنی اپنی معمولی چال کے ساتھ چلنا چاہئے۔
رمل یعنی اکڑ کر تیز تیز چلنے کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمرۃ القضاء کے لئے مکہ تشریف لائے تو مشرکین نے آپ کو دیکھ کر کہا کہ تپ یثرب یعنی مدینہ کے بخار نے ان کو بہت ضعیف و سست کر دیا ہے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ اس طرح چل کر اپنی قوت و چستی کا اظہار کرو۔ وہ وقت تو گزر گیا مگر اس علت اور وجہ کے دور ہو جانے کے بعد بھی یہ حکم باقی رہا چنانچہ یہ طریقہ اب تک جاری ہے۔
اس حدیث میں اضطباع کا ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن طواف کے وقت اضطباع بھی مسنون ہے چنانچہ دوسری احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔
چادر کو اس طرح اوڑھنا کہ ان کا ایک سرا داہنے کاندھے سے اتار کر اور داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کاندھے پر ڈال لیا جائے اضبطاع کہلاتا ہے چادر کو اس طرح اوڑھنے کا حکم بھی اظہار قوت کے لئے دیا گیا تھا اور یہ حکم بھی بعد میں باقی رہا۔
مقام ابراہیم کے معنی ہیں حضرت ابراہیم کے پاؤں کے نشان بن گئے تھے جو آج تک قائم ہیں۔
بعض حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ مقام ابراہیم ایک پتھر ہے کہ جب حضرت ابراہیم اپنے فرزند حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو دیکھنے مکہ آتے تھے تو اونٹ سے اسی پتھر پر اترتے تھے اور جب جانے لگتے تو اسی پتھر پر کھڑے ہو کر سوار ہوتے اس پتھر پر ان کے دونوں مبارک قدموں کا نشان بن گیا ہے! بہر کیف یہ پتھر اب خانہ کعبہ کے آگے ایک حجرے میں رکھا ہوا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طواف سے فارغ ہو کر اسی مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی یہ دو رکعت نماز اگرچہ اسی جگہ کھڑے ہو کر پڑھنا افضل ہے لیکن جائز حرم میں ہر جگہ پڑھنا ہے چاہے مسجد حرام میں پڑھی جائے اور چاہے مسجد حرام سے باہر نیز ہر طواف کے بعد یہ نماز حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے ہاں سنت ہے۔
ان دو رکعتوں میں قل ہواللہ احد اور قل یا ایہا الکافرون کی قرأت کی اس عبادت سے بظاہر یہ مفہوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قل ہواللہ احد پہلی رکعت میں پڑھی اور قل یا ایہا الکافرون دوسری رکعت میں جب کہ اس طرح سورہ مقدم پر سورہ متاخر کی تقدیم یعنی بعد کی سورت کو پہلے اور پہلے کی سورت کو بعد میں پڑھنے کی صورت لازم آتی ہے، اس لئے علماء نے اس کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ حدیث میں اس بارے میں جو عبارت نقل کی گئی ہے اس میں حرف واؤ صرف اظہار جمع کے لئے یعنی آپ کا مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں رکعتوں میں یہ دونوں سورتیں پڑھیں، اب یہ کہ ان میں سے کون سی پہلی رکعت میں پڑھی اور کون سی سورت دوسری رکعت میں ؟ اس کی وضاحت نہ اس سے مقصود ہے اور نہ یہاں اس کی وضاحت موجود ہی ہے اس توجیہ کے پیش نظر کوئی اشکال پیدا نہیں ہو سکتا۔ پھر طیبی نے اس عبارت میں ان دونوں سورتوں کے ذکر کی مذکورہ ترتیب کے بارے میں یہ نکتہ بیان کیا ہے کہ قل ہواللہ احد، اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے اثبات و اظہار کے لئے ہے اور قل یا ایہا الکافرون شرک سے بیزاری کے واسطے ہے، اس لئے توحید کی عظمت شان اور اس کی سب سے زیادہ اہمیت کی بناء پر اس سورت کو پہلے ذکر کیا جس سے توحید کا اثبات ہوتا ہے۔
ان تمام باتوں کے علاوہ بعض روایتوں میں اس عبارت کو اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ اس میں پہلے قل یا ایہا الکافرون ذکر ہے اور بعد میں قل ہواللہ احد کا اس صورت میں بات بالکل ہی صاف ہو جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صفا اور مروہ کے درمیان سعی سات بار کی، بایں طور کہ صفا سے مروہ تک ایک بار، مروہ سے صفا تک دوسری بار، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ساتھ پھیرے کئے اس طرح سعی کی ابتداء تو صفا سے ہوئی اور ختم مروہ پر ہوئی جیسا کہ حدیث کے الفاظ یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مروہ سعی کا اختتام کیا سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
سعی یعنی صفا مروہ کے درمیان پھیرے کرنا واجب ہے اس کی اصل یہ ہے کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جن دنوں چھوٹے تھے تو ان کی والدہ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش کو گئیں جب نشیب میں پہنچیں تو حضرت اسمٰعیل ان کی نظر سے پوشیدہ ہو گئے وہ صفا اور مروہ پر چڑھ کر ان کو دیکھنے کے لئے ان دونوں کے درمیان پھیرے کرتی تھیں، چنانچہ یہ سعی انہیں کی سنت ہے جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پورا کیا اب صفا و مروہ کے درمیان چونکہ مٹی بھر گئی ہے اس لئے وہ نشیب باقی نہیں رہا البتہ وہاں نشان بنا دیئے گئے ہیں اور حضرت ہاجرہ کی سنت کو پورا کرنے کے لئے وہاں دوڑتے پھرتے ہیں۔
لو انی استقبلت من امری الخ اگر اپنے بارے میں مجھے پہلے سے وہ بات معلوم ہوتی الخ۔ اس سلسلہ میں اگرچہ بڑی طویل بحث ہے تاہم خلاصہ کے طور پر سمجھ لیجئے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مکہ پہنچے اور عمرہ سے فارغ ہو گئے تو صحابہ کو حکم دیا کہ جو شخص قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لایا ہے وہ عمرہ کے بعد احرام سے باہر آ جائے اور حج کو عمرہ کے ساتھ فسخ کر دے یعنی حج کے احرام کو عمرہ کا احرام قرار دے لے جب حج کے دن آ جائیں تو دوبارہ احرام باندھے اور حج کرے، اور جو شخص قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہے وہ عمرہ کے بعد احرام نہ کھولے بلکہ حج تک حالت احرام ہی میں رہے اور حج کے بعد احرام کھول دے۔ چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قربانی کا جانور اپنے ساتھ لائے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام نہیں کھولا بلکہ عمرہ کے بعد بھی حالت احرام ہی میں رہے۔ یہ حکم صحابہ کو بڑا گراں گزرا، ایک تو اس لیے ہم تو احرام کھول دیں اور سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت احرام میں رہیں اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت کا ترک ہو گا جو صحابہ کو کسی حال میں بھی گوارا نہیں تھا، دوسرے انہوں نے یہ سوچا کہ اب عرفہ میں صرف پانچ رہ گئے ہیں اس لئے یہ بات مناسب نہیں معلوم ہوتی کہ احرام کھول دیا جائے اور پھر ہم اس عرصہ میں اپنی عورتوں کے پاس جاتے ہیں اور جب عرفہ کا دن آئے تو فوراً احرام باندھ کر عرفات روانہ ہو جائیں اور حج کریں۔ ان کی خواہش تھی کہ یہ درمیانی پانچ دن بھی احرام ہی کی حالت میں گزر جائیں اس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت بھی ہو گی اور ان ایام میں طبعی خواہشات اور دنیاوی امور میں مشغولیت سے اجتناب بھی رہے گا۔ پھر یہ کہ ایام جاہلیت میں چونکہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا، اور ان کے ذہن میں بھی ابھی تک یہی بات تھی اس لئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ اس وقت مستقل طور پر عمرہ کی صورت پیدا ہو جائے انہیں سب وجوہ کی بناء پر وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیں احرام کھولنے کا حکم نہ دیں، اسی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے برہمی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ یہ تو دین کی بات ہے میں کیا کرو، اللہ تعالیٰ نے جس طرح حکم دیا ہے اسی طرح کرنا پڑے گا، چاہے طبیعت پر بار ہی کیوں نہ ہو، اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ میری متابعت کے ترک کی بناء پر تم لوگوں کو احرام کھولنا گراں گزرے گا تو میں بھی قربانی کا جانور ساتھ نہ لاتا اور احرام کھول کر اس وقت حج کو عمرہ کے ساتھ فسخ کر دیتا لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ حکم الٰہی یہ ہو گا۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ عمرہ کے ساتھ اس فسخ حج کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا یہ اس سال میں صرف صحابہ ہی کے لئے تھا یا ہمیشہ کے لئے دوسروں کو بھی ایسا جائز ہے؟ چنانچہ امام احمد اور اہل ظاہر کی ایک جماعت نے تو یہ کہا ہے کہ یہ فسخ حج صرف صحابہ ہی کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ حکم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باقی ہے، لہٰذا اس شخص کے لئے کہ جو حج کا احرام باندھے، اور ہدی اس کے ساتھ نہ ہو یہ جائز ہے کہ وہ حج کا احرام عمرہ کے ساتھ فسخ کر دے اور افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد حلال ہو جائے یعنی احرام کھول دے، جب کہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام مالک، حضرت امام شافعی اور علماء سلف و خلف کی اکثریت کا کہنا یہ ہے کہ یہ حکم صرف اسی سال میں صحابہ کے لئے تھا کہ زمانہ جاہلیت میں حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کو جو حرام سمجھا جاتا تھا اس کی تردید ہو جائے۔
نیز اسی حدیث کے پیش نظر حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام احمد کا مسلک یہ بھی ہے کہ جو شخص عمرہ کا احرام باندھے اور ہدی اپنے ساتھ نہ لائے تو افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام سے باہر آ جائے اور اگر ہدی ساتھ لایا ہو تو احرام سے باہر نہ ہو تاآنکہ نحر قربانی کے دن اس کی ہدی ذبح ہو جائے، لیکن حضرت امام شافعی، اور حضرت امام مالک یہ کہتے ہیں کہ محض افعال عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام سے باہر آ جانا جائز ہے خواہ ہدی ساتھ لایا ہو یا ساتھ نہ ہو۔
معشر حرام مزدلفہ میں ایک پہاڑی کا نام ہے۔ ایام جاہلیت میں قریش کا یہ طریقہ تھا کہ وہ حج کے لئے بجائے عرفات میں ٹھہرنے کے مزدلفہ میں ٹھہرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ یہ موقف حمس یعنی قریش اور حرم والوں کے ٹھہرنے کی جگہ ہے۔ قریش کے علاوہ تمام اہل عرب عرفات میں ہی وقوف کرتے تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چونکہ قریش سے تھے اس لئے اہل قریش نے یہ گمان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی عرفات کی بجائے مزدلفہ ہی میں وقوف کریں گے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہاں وقوف نہیں کیا بلکہ سیدھے عرفات میں پہنچنے میں خطبہ ارشاد فرمایا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو خطبے پڑھے، پہلے خطبہ میں تو حج کے احکام بیان کئے اور عرفات میں کثرت ذکر و دعا پر ترغیب دلائی، دوسرا خطبہ پہلے خطبہ کی بہ نسبت چھوٹا تھا اس میں صرف دعا تھی۔
ربیعہ ابن حارث کے بیٹے کے خون کا قصہ یہ ہے کہ حارث آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا اور عبدالمطلب کے بیٹے تھے ان کا لڑکا تھا ربیعہ، اور ربیعہ کا ایک شیر خوار بچہ تھا جس کا نام تھا ایاس، عرب کے عام قاعدہ کے مطابق یا اس کو دودھ پلانے کے لئے قبیلہ بنی سعد میں دے دیا گیا تھا جن دنوں قبیلہ بنی سعد اور قبیلہ ہزیل کے درمیان معرکہ آرائی ہو رہی تھی ایاس قبیلہ بنی سعد ہی میں تھا، اسی لڑائی کے دوران قبیلہ ہذیل کے کسی شخص نے ایاس کو پتھر مارا جس سے وہ شیر خوار بچہ مر گیا ایاس چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چچا کا پوتا تھا اس لئے اس کے قتل کا انتقام لینے کا حق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حاصل تھا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کا خون معاف کر دیا۔
اس طرح حضرت عباس بن عبدالمطلب جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عم محترم تھے، ایام جاہلیت میں سود کا لین دین کرتے تھے اسی وقت کا ان کا بہت زیادہ سود لوگوں کے ذمہ باقی تھا اسے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاف فرما دیا۔
پھر (دوبارہ) اقامت کہی گئی اور عصر کی نماز ہوئی یعنی ظہر ہی کے وقت پہلے تو ظہر کی نماز پڑھی گئی، پھر عصر کی نماز ہوئی، گویا ظہر و عصر کی نماز کو جمع کر کے پڑھا گیا۔ اس کو جمع تقدیم کہتے ہیں عرفات میں وقوف کے لئے یہ دونوں نمازیں ملا کر ظہر کے وقت پڑھی جاتی ہیں اس طرح کہ ظہر کے چار فرض کے بعد موذن دوسری اقامت کہتا ہے اور پھر عصر کی نماز ہوتی ہے نیز ان دونوں نمازوں کے درمیان سنن و نوافل وغیرہ نہیں پڑھی جاتیں تاکہ دونوں نمازوں کے درمیان وقفہ ہو جانے کی وجہ سے جمع باطل نہ ہو جائے کیونکہ ان نمازوں کو پے درپے پڑھنا واجب ہے۔
اور تیز تیز چل کر مزدلفہ آ گئے۔ مزدلفہ منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے، دسویں تاریخ کی رات پھر مزدلفہ میں ٹھہرنا حنفیہ کے نزدیک سنت ہے اور حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے ہاں واجب ہے۔
حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مزدلفہ پہنچ کر مغرب و عشاء کی نمازیں ایک اذان اور دو تکبیر کے ساتھ پڑھیں جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرفات میں ظہر و عصر کی نماز ایک اذان اور دو تکبیر کے ساتھ پڑھی تھی چنانچہ حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا یہی مسلک ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے ہاں مزدلفہ میں یہ دونوں نمازیں ایک اذان اور ایک ہی تکبیر کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں کیونکہ اس موقع پر عشاء کی نماز چونکہ اپنے وقت میں پڑھی جاتی ہے اس لئے زیادتی اعلام کے لئے علیحدہ سے تکبیر کی ضرورت نہیں برخلاف عرفات میں عصر کی نماز کے کہ وہاں عصر کی نماز چونکہ اپنے وقت میں نہیں ہوتی بلکہ ظہر کے وقت ہوتی ہے اس لئے وہاں زیادتی اعلام کے لیے علیحدہ تکبیر کی ضرورت ہے، صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے یہی روایت منقول ہے اور ترمذی نے بھی اس کی تحسین و تصحیح کی ہے۔
مشعر حرام جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے عرفات میں ایک پہاڑ کا نام ہے، دسویں تاریخ کی صبح وہاں وقوف حنفیہ کے نزدیک واجب ہے جب کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک رکن حج ہے۔
وادی محسر مزدلفہ اور منیٰ کے درمیان ایک گھاٹی کا نام ہے کہا جاتا ہے کہ اصحاب فیل یہیں عذاب خداوندی میں مبتلا ہو کر ہلاک و برباد ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مشعر حرام مزدلفہ سے روانہ ہوئے اور اس وادی میں پہنچے تو اپنی سواری کو تیز کر دیا اور اس وادی کی مسافت کو تیزی سے گزر کر پورا کیا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ جس جگہ کسی قوم پر عذاب نازل ہوا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم از راہ عبرت اس جگہ سے تیزی سے گزر جاتے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ حج کے موقعہ پر نصاریٰ یا مشرکین عرب وادی محسر میں ٹھہرا کرتے تھے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی مخالفت کے پیش نظر اس وادی میں اپنی سواری کو تیز تیز چلا کر وہاں سے جلد گزر گئے۔ بہرحال آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیروی کے پیش نظر ہر شخص کے لئے مستحب ہے کہ اس وادی میں تیزی سے گزرے۔
اور اس درمیانی راہ پر ہوئے جو جمرہ کبریٰ کے اوپر نکلتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس راستہ سے جاتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لے گئے تھے وہ راستہ اور تھا اور یہ راستہ دوسرا تھا جو جمرہ کبریٰ یعنی جمرہ عقبہ پر جا کر نکلتا ہے۔ پہلا راستہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عرفات و مزدلفہ تشریف لے گئے تھے اس کو طریق ضب کہتے تھے اور یہ راستہ جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمی جمرہ کے لئے منیٰ واپس آ رہے تھے۔ طریق مازمین کہلاتا تھا ضب اور مازمین دو پہاڑوں کے نام ہیں۔
تاآنکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جمرہ کے پاس پہنچے جو درخت کے قریب ہے یہاں جمرہ سے جمرہ عقبہ مراد ہے جس کا پہلے ذکر ہوا جمرہ منار کو کہتے ہیں منیٰ میں کئی ایسے منار ہیں جن پر سنگریزے مارے جاتے ہیں اس کا تفصیلی بیان انشاء اللہ آگے آئے گا۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قربانی کے جانوروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شریک کر لیا تھا۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کچھ اونٹ دے دئیے تاکہ وہ اپنی طرف سے ذبح کر لے اب یا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں وہ اونٹ اپنے باقی اونٹوں میں سے دئیے یا پھر دوسرے اونٹوں میں سے دئیے گئے ہوں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی قربانی کا گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اپنی قربانی میں سے گوشت کھانا مستحب ہے۔
اور خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہو گئے وہاں پہنچ کر طواف کیا اس طواف کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں اور طواف رکن بھی یہ طواف حج کا ایک رکن ہے، اس پر حج کا اختتام ہو جاتا ہے۔ ویسے تو یہ طواف قربانی کے دن ہی کرنا افضل ہے لیکن بعد میں کرنا بھی جائز ہے۔
اور مکہ میں ظہر کی نماز پڑھی یہ بات حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی اس روایت کے خلاف ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز تو مکہ ہی میں پڑھی البتہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں نفل نماز پڑھی تھی جسے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ظہر کی نماز گمان کیا یا یوں کہا جائے کہ جب دونوں روایتیں متعارض ہوئیں تو دونوں ساقط ہو گئیں اب ترجیح اس بات کو دی جائے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ظہر کی نماز مکہ میں پڑھی کیونکہ مکہ میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ واللہ اعلم۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ جحۃ الوداع کے موقع پر روانہ ہوئے تو ہم میں سے بعض تو وہ تھے جنہوں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض وہ تھے جنہوں نے صرف حج کا (یا حج و عمرہ دونوں کا) احرام باندھا چنانچہ جب ہم مکہ پہنچے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے صرف عمرہ کا احرام باندھا ہے اور اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہیں لایا وہ افعال عمرہ کے بعد اپنے سر کے بال منڈوا کر یا کتروا کر، احرام کھول دے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہے اور قربانی کا جانور لایا ہے تو وہ عمرہ کے ساتھ حج کا احرام باندھ لے یعنی حج کو عمرہ کے ساتھ شامل کر کے قارن ہو جائے اور جب حج و عمرہ دونوں سے فارغ نہ ہو جائے احرام نہ کھولے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب تک کہ وہ (بقر عید کے دن) اپنی قربانی کے جانور کے ذبح کرنے سے فارغ نہ ہوئے احرام نہ کھولے اور جس نے حج کا احرام باندھا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا ہو یا نہ لایا ہو اور اس نے حج کے ساتھ عمرہ کا بھی احرام باندھا ہو یا نہ باندھا ہو وہ اپنا حج پورا کرے مگر جن لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج فسخ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ گزشتہ روایت میں گزرا وہ اپنا حج پورا نہ کریں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ چونکہ میں حائضہ تھی اس لئے مکہ پہنچ کر نہ تو میں نے عمرہ کرنے کے لئے طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، میں حیض ہی کی حالت میں تھی کہ عرفہ کا دن آ گیا اور میں نے چونکہ عمرہ کا احرام باندھا تھا اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ میں اپنا سر کھول ڈالوں اور بالوں میں کنگھی کر لوں یعنی احرام کھول دوں تاکہ جو چیزیں احرام کی حالت میں ممنوع ہیں وہ مباح ہو جائیں اور پھر حج کا احرام باندھ لوں، نیز یہ کہ عمرہ چھوڑ دوں یعنی حج سے فارغ ہو کر عمرہ کے احرام کی قضا کروں چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، اور جب میں حج ادا کر چکی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے ساتھ عبدالرحمن بن ابوبکر کو تنعیم بھیجا اور مجھے حکم دیا کہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کر اپنے قضا شدہ عمرہ کے بدلے عمرہ کروں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع ہی سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا انہوں نے عمرہ کے لئے خانہ کعبہ کا طواف کیا اور پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی۔ اس کے بعد انہوں نے احرام کھول ڈالا لوگوں نے منیٰ سے مکہ واپس آ کر دوبارہ اپنے حج کا طواف کیا جسے طواف افاضہ کہتے ہیں اور جن لوگوں نے حج و عمرہ دونوں کو جمع کیا تھا یعنی شروع میں سے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا۔ یا بعد میں ایک کو دوسرے کے ساتھ شامل کیا۔ انہوں نے صرف ایک ہی یعنی یوم نحر کے دن طواف کیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
تنعیم ایک جگہ کا نام ہے جو مکہ سے ڈھائی تین میل کے فاصلہ پر شمال مغربی جانب واقع ہے۔ یہ جگہ حدود حرم سے باہر ہے حجاج عمرہ کا احرام باندھنے کے لئے یہیں آ جاتے ہیں۔
عمرہ کے احرام کے لئے ضروری اور شرط ہے کہ حل سے یعنی حدود حرام سے باہر باندھا جائے عمرہ کرنے والا خواہ مکی ہو یا غیر مکی جب کہ حج کا احرام غیر مکی تو حل سے باندھے اور مکی حدود حرم ہی میں کہیں سے باندھے۔
انہوں نے صرف ایک ہی طواف کیا سے اگرچہ یہ بات مفہوم ہوتی ہے کہ قارن کو ایک طواف عمرہ اور حج دونوں کے لئے کافی ہے، جیسا کہ حضرت امام شافعی کا مسلک ہے لیکن حنفیہ کے ہاں قارن کو دو طواف کرنے ضروری ہیں ایک طواف تو عمرہ کے لئے جو مکہ میں داخل ہونے کے بعد کیا جائے اور دوسرا طواف حج کے لئے وقوف عرفات کے بعد کیا جائے کیونکہ حدیث سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقوع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قارن تھے، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مکہ میں داخل ہوئے تو ایک طواف اس وقت کیا اور دوسری مرتبہ طواف الزیارۃ وقوف عرفات کے بعد کیا نیز دارقطنی نے ایک روایت نقل کی ہے جس کا حاصل بھی یہی ہے کہ قارن دو طواف کرے اور صفا و مروہ کے درمیان دو مرتبہ سعی کرے! حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہی بات منقول ہے کہ قارن دو طواف اور دو مرتبہ سعی کرے۔
٭٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا (یعنی فائدہ اٹھایا بایں طور پر کہ پہلے عمرے کا احرام باندھا پھر حج کا) اور ذوالحلیفہ سے (کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے احرام باندھا تھا) قربانی کا جانور ساتھ لے لیا تھا، چنانچہ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، پھر حج کا احرام باندھا، اور لوگوں نے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ عمرہ کو حج کے ساتھ ملا کر تمتع کیا، بعض لوگ کہ جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا وہ تھے جو قربانی کے جانور اپنے ساتھ لائے تھے اور بعض وہ تھے جو قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہیں لائے تھے، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ پہنچے تو (عمرہ کرنے والے) لوگوں سے فرمایا کہ تم میں سے جو شخص قربانی کا جانور ساتھ لایا ہو وہ اس چیز کو حلال نہ کرے جس سے وہ باز رہا ہے (یعنی احرام نہ کھولے) یہاں تک کہ وہ اپنا حج ادا کرے اور جو شخص قربانی کا جانور ساتھ نہ لایا ہو تو وہ (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کرے، صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، بال کتروائے اور پھر وہ (عمرہ کا) احرام کھول دے (یعنی جو چیزیں حالت احرام میں ممنوع تھیں انہیں مباح کر لے) اس کے بعد حج کے لئے دوبارہ احرام باندھے اور رمی جمار کے بعد سر منڈانے سے پہلے نحر کے دن قربانی کرے (کیونکہ ادائیگی حج و عمرہ کی توفیق اور حق تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کی شگر گزاری کے طور پر متمتع پر قربانی واجب ہے) اور جس شخص کو قربانی کا جانور میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج کے دنوں میں (یعنی حج کے مہینوں میں احرام کے بعد اور قربانی کے دن سے پہلے) رکھے اس بارے میں افضل یہ ہے کہ ذی الحجہ کی ساتویں، آٹھویں اور نویں تاریخ کو تین روزے رکھے اور سات روزے رکھ لے چاہے گھر پہنچ کر) بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ پہنچ کر (عمرہ کے لئے) خانہ کعبہ کا طواف کیا اور (طواف کے جو افعال ہیں ان میں) سب چیزوں سے پہلے (مگر لبیک کہنے کے بعد) حجر اسود کو بوسہ دیا، اور طواف میں تین مرتبہ تو جلدی جلدی (یعنی اکڑ کر اور تیز رفتار سے) چلے اور چار مرتبہ معمولی رفتار سے چلے، پھر خانہ کعبہ کے گرد طواف پورے کرنے کے بعد مقام ابراہیمی پر دو رکعت نماز پڑھی اور سلام پھیرا (یعنی صلوۃ الطواف پڑھی، حنفیہ کے نزدیک یہ نماز واجب ہے) اس کے بعد (خانہ کعبہ) سے چل کر صفاء پر آئے اور صفا و مروہ کے درمیان سات پھیرے کئے (یعنی سعی کی) اس کے بعد کسی ایسی چیز کے ساتھ حلال نہیں ہوئے جس سے اجتناب کیا جاتا ہے (یعنی احرام سے باہر نہ آئے) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا حج پورا کیا، اور نحر کے دن (دسویں ذی الحجہ کو) اپنی قربانی کا جانور ذبح کر لیا (تو اب سر منڈانے کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں مباح ہو گئیں علاوہ بیوی سے ہمبستری) اور پھر (منی سے) چلے اور (مکہ پہنچ کر) خانہ کعبہ کا طواف (یعنی طواف افاضہ) کیا اور اس کے بعد وہ چیز حلال ہو گئی جو ممنوع تھی(یعنی اب طواف سے فراغت کے بعد بیوی سے ہمبستری بھی حلال ہو گئی) پھر جن لوگوں کے ساتھ قربانی کے جانور تھے انہوں نے بھی وہی کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حج تمتع کیا تھا جب کہ زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قارن تھے لہٰذا اب حدیثوں کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ یہاں تمتع سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی نفع اٹھانا اور یہ مفہوم قرآن میں بھی موجود ہے بایں طور کہ قارن حج کے ساتھ عمرہ ملا کر منتفع ہوتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ عمرہ ہے جس سے ہم نے فائدہ اٹھایا ہے جس کے پاس قربانی کا جانور نہ ہو وہ ہر طرح سے حلال ہو جائے (یعنی عمرہ کے بعد پورا احرام کھول دے) کیونکہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا قیامت تک کے لئے جائز ہو گیا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں بھی تمتع سے مراد اس کے لغوی معنی ہیں یعنی فائدہ اٹھانا۔ اس کی بقیہ وضاحت پہلے ذکر ہو چکی ہے۔
حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کتنے ہی آدمیوں کے ساتھ کہ جو میرے ساتھ شریک مجلس تھے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ فرماتے تھے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ہم (صحابہ رضی اللہ عنہم) نے) بغیر عمرہ کی شمولیت کے) خالص حج کا احرام باندھا۔ عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذی الحجہ کی چوتھی تاریخ کی صبح کو (مکہ) میں پہنچے تو ہمیں حکم دیا کہ ہم احرام کھول دیں۔ حضرت عطاء رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا تھا کہ احرام کھول دو۔ اور عورتوں کے پاس جاؤ(یعنی ان سے مقاربت بھی کرو) نیز عطاء کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عورتوں کی مقاربت کو واجب نہیں کیا تھا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف عورتوں کو ان کے لئے حلال کر دیا تھا (یعنی احرام کھول دینے کا حکم تو وجوب کے طور پر تھا البہ صحبت و مجامعت کا حکم صرف اباحت و جواز کی صورت میں تھا) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ حکم سن کر تعجب کے ساتھ کہنے لگے کہ جب کہ ہمارے اور عرفہ کے دن کے درمیان صرف پانچ راتیں باقی رہ گئی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں یہ حکم دے دیا کہ ہم اپنی عورتوں سے مجامعت کریں (یہ تو بڑی عجیب بات ہو گی کہ) ہم میدان عرفات میں اس طرح جائیں کہ ہمارے عضو مخصوص سے منی ٹپکتی ہو (یعنی رات کو ہم جماع کریں اور صبح کو عرفات میں پہنچ جائیں، اس بات کو ایام جاہلیت میں بہت برا سمجھا جاتا تھا کہ عورتوں سے مجامعت اور حج میں اتنا قرب ہو جائے بلکہ اس چیز کو حج میں نقصان کا باعث جانتے تھے) عطاء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور ان کا ہاتھ کا اشارہ اور اپنے ہاتھ کو ہلانا گویا اب بھی میری نظروں میں پھر رہا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کو جب ہمارے اس تردد و تامل کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہمارے درمیان (خطبہ کے لئے) کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں تمہاری بہ نسبت خدا سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ تم سے زیادہ سچا اور تم میں سب سے زیادہ نیکو کار ہوں۔ اگر میرے ساتھ قربانی کا جانور ہوتا تو میں بھی تمہاری طرح احرام کھول دیتا جس طرح تم احرام کھولو گے، اور اگر مجھے میری یہ بات پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا (یعنی اگر مجھے یہ معلوم ہوتا کہ احرام کھولنا تم پر شاق گزرے گا تو میں قربانی کا جانور اپنے ساتھ نہ لاتا اور میں بھی احرام کھول دیتا) تم (بلا تامل) احرام کھول دو۔ چنانچہ ہم نے احرام کھول دیا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کو سنا اور اطاعت کی۔ عطاء کا بیان ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے کام پر آئے (یعنی وہ یمن قاضی ہو کر گئے تھے جب وہاں سے آئے) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کس چیز کا احرام باندھا ہے؟حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ جس چیز کا احرام نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے باندھا ہے۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (نحر کے دن) قربانی کا جانور ذبح کرو (کہ یہ قارن پر واجب ہے) اور حالت احرام کو برقرار رکھو (یعنی میری طرح اب تم بھی احرام باندھے رکھو) چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے یا خود اپنے لئے قربانی کا جانور لے کر آئے سراقہ بن مالک بن جعشم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ (یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کا جواز) صرف اسی سال کے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے۔ (مسلم)
تشریح
ہم نے خالص حج کا احرام باندھا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے یہ بات اپنے خیال و گمان کے مطابق کہی ورنہ تو جہاں تک واقعہ کا تعلق ہے حضرت عائشہ کی روایت سے یہ معلوم ہی ہو چکا ہے کہ بعض صحابہ نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا اور بعض نے صرف حج کا اور بعض نے عمرہ اور حج دونوں کا احرام باندھا تھا۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کا مطلب یہ ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کو حرکت دے کر عضو مخصوص سے قطرات ٹپکنے کی طرف اشارہ کیا۔ یا یہ کہ انہوں نے عضو مخصوص کی حرکت کو ہاتھ کی حرکت سے تشبیہ دی۔ بہر کیف یہ اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ بات کرتے ہوئے اعضاء کے اشاروں سے وضاحت کرتے تھے تاکہ مفہوم اچھی طرح واضح اور ذہن نشین ہو جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حجۃ الوداع کے موقع پر مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذی الحجہ کی چوتھی یا پانچویں تاریخ کو میرے پاس غصہ کی حالت میں تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کس نے آپ کو غصہ دلایا؟ اللہ اسے دوزخ میں ڈالے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے بعض لوگوں کو عمرہ کے ساتھ حج کو فسخ کر دینے کا ایک حکم دیا اور وہ اس حکم سے تردد میں ہیں، اگر یہ بات مجھے پہلے سے معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اسی طرح احرام کھول دیتا جس طرح ان لوگوں نے احرام کھولا ہے اور پھر میں یہاں مکہ میں یا راستہ میں قربانی کا جانور خرید لیتا۔ (مسلم)