حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ مِنَ الثِّيَابِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَحَدٌ لَا يَجِدُ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا مِنَ الثِّيَابِ شَيْئًا، مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ محرم کیا پہنے کپڑوں کی قسم سے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کرتے نہ پہنو، نہ عمامے باندھو، نہ پاجامے پہنو، نہ باران کوٹ اوڑھو، نہ موزے پہنو، مگر جو چپل نہ پائے وہ موزہ پہنے مگر ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے۔ اور نہ پہنو وہ کپڑے جو زعفران لگی ہو یا ورس میں رنگا ہوا ہو۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وزهير بن حرب كلهم، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ؟، قَالَ: " لَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا السَّرَاوِيلَ، وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ وَرْسٌ وَلَا زَعْفَرَانٌ، وَلَا الْخُفَّيْنِ إِلَّا أَنْ لَا يَجِدَ نَعْلَيْنِ، فَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ ".
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ محرم کیا پہنے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کرتا اور عمامہ اور باران کوٹ اور پاجامہ نہ پہنے۔ نہ وہ کپڑا جس میں ورس اور زعفران لگی ہو نہ موزے اور اگر جوتے نہ ہوں تو موزے پہنے اور اس کو ٹخنوں تک کاٹ دے۔“ (کہ جوتی کی طرح ہو جائے)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَلْبَسَ الْمُحْرِمُ ثَوْبًا مَصْبُوغًا بِزَعْفَرَانٍ أَوْ وَرْسٍ "، وَقَالَ: " مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا محرم کو کہ زعفران اور ورس کا رنگا ہوا کپڑا پہنے اور فرمایا: ”جو نعلین نہ پائے وہ موزے پہن لے ٹخنوں سے نیچے کاٹ کر۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، يَقُولُ: " السَّرَاوِيلُ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ، وَالْخُفَّانِ لِمَنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ " يَعْنِي الْمُحْرِمَ،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پاجامہ اس کے لیے ہے جو تہبند نہ پائے اور موزہ اس کے لیے جو نعلین نہ پائے۔ یعنی محرم ہو۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الرَّازِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ بِعَرَفَاتٍ، فَذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ، عَنْ أَيُّوبَ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَحَدٌ مِنْهُمْ يَخْطُبُ بِعَرَفَاتٍ، غَيْرُ شُعْبَةَ وَحْدَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں خطبہ دے رہے تھے۔
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ خُفَّيْنِ، وَمَنْ لَمْ يَجِدْ إِزَارًا فَلْيَلْبَسْ سَرَاوِيلَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو نعلین نہ پائے، موزے پہنے اور جو ازار یعنی تہبند نہ پائے وہ سراویل یعنی پاجامہ پہنے۔“
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ عَلَيْهِ جُبَّةٌ وَعَلَيْهَا خَلُوقٌ، أَوَ قَالَ: أَثَرُ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ تَأْمُرُنِي أَنْ أَصْنَعَ فِي عُمْرَتِي؟، قَالَ: وَأُنْزِلَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَحْيُ، فَسُتِرَ بِثَوْبٍ وَكَانَ يَعْلَى، يَقُولُ: وَدِدْتُ أَنِّي أَرَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، قَالَ: فَقَالَ: أَيَسُرُّكَ أَنْ تَنْظُرَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ، قَالَ: فَرَفَعَ عُمَرُ طَرَفَ الثَّوْبِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، لَهُ غَطِيطٌ، قَالَ: وَأَحْسَبُهُ قَالَ: كَغَطِيطِ الْبَكْرِ، قَالَ: فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ عَنِ الْعُمْرَةِ؟ اغْسِلْ عَنْكَ أَثَرَ الصُّفْرَةِ، أَوَ قَالَ: أَثَرَ الْخَلُوقِ، وَاخْلَعْ عَنْكَ جُبَّتَكَ، وَاصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا أَنْتَ صَانِعٌ فِي حَجِّكَ ".
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور وہ ایک جبہ پہنے ہوئے تھا اور اس پر کچھ خوشبو لگی ہوئی تھی یا کہا کہ کچھ اثر زردی کا تھا اور اس نے عرض کیا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم مجھے عمرے میں کیا حکم فرماتے ہیں؟ اور اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترنے لگی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑا اوڑھ لیا اور یعلیٰ کہتے تھے کہ مجھے آرزو تھی کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھوں جس وقت آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی ہو، پھر کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے کہ کیا تم چاہتے ہو کہ دیکھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترتی ہو، پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کپڑے کا کونہ اٹھا دیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہانپتے اور خراٹے لیتے تھے۔ راوی نے کہا: میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا: جیسے جوان اونٹ ہانپتا ہو پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی تمام ہو چکی تو فرمایا: ”کہاں ہے وہ سائل عمرہ کا۔“ اور فرمایا: ”دھو ڈالو اثر زردی کا اپنے کپڑے وغیرہ سے۔ یا فرمایا: ”اثر خوشبو وغیرہ کا اور اتار ڈالو اپنا کرتہ اور عمرہ میں وہی کرو جو حج میں کرتے ہو۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ، وَأَنَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ مُقَطَّعَاتٌ يَعْنِي: جُبَّةً وَهُوَ مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ، فَقَالَ: إِنِّي أَحْرَمْتُ بِالْعُمْرَةِ وَعَلَيَّ هَذَا وَأَنَا مُتَضَمِّخٌ بِالْخَلُوقِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ؟، قَالَ: أَنْزِعُ عَنِّي هَذِهِ الثِّيَابَ، وَأَغْسِلُ عَنِّي هَذَا الْخَلُوقَ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ، فَاصْنَعْهُ فِي عُمْرَتِكَ ".
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور یعلیٰ کہتے ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس تھا اور وہ سائل جو آیا تھا کرتا پہنے ہوئے تھا اور اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی یا ورس، اس نے عرض کیا کہ میں نے احرام باندھا ہے عمرہ کا اور اس پر بھی میں خوشبو لگائے ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم حج میں کیا کرتے ہو؟۔“ تو اس نے کہا کہ میں یہ کپڑے اتار ڈالتا ہوں اور یہ خوشبو دھو ڈالتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”جو تم حج میں کرتے ہو وہی عمرہ میں کرو۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ صَفْوَانَ بْنَ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ يَعْلَى كَانَ يَقُولُ لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَيْتَنِي أَرَى نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يُنْزَلُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْجِعْرَانَةِ، وَعَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبٌ قَدْ أُظِلَّ بِهِ عَلَيْهِ، مَعَهُ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ عُمَرُ، إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ مُتَضَمِّخٌ بِطِيبٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي رَجُلٍ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ فِي جُبَّةٍ بَعْدَ مَا تَضَمَّخَ بِطِيبٍ؟ فَنَظَرَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ سَكَتَ فَجَاءَهُ الْوَحْيُ، فَأَشَارَ عُمَرُ بِيَدِهِ إِلَى يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ تَعَالَ، فَجَاءَ يَعْلَى فَأَدْخَلَ رَأْسَهُ فَإِذَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْمَرُّ الْوَجْهِ، يَغِطُّ سَاعَةً ثُمَّ سُرِّيَ عَنْهُ، فَقَالَ: " أَيْنَ الَّذِي سَأَلَنِي عَنِ الْعُمْرَةِ آنِفًا "، فَالْتُمِسَ الرَّجُلُ فَجِيءَ بِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَّا الطِّيبُ الَّذِي بِكَ فَاغْسِلْهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَأَمَّا الْجُبَّةُ فَانْزِعْهَا، ثُمَّ اصْنَعْ فِي عُمْرَتِكَ مَا تَصْنَعُ فِي حَجِّكَ ".
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ ہمیشہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا کرتے تھے کہ کبھی میں دیکھتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر وحی اترتی ہے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایک کپڑے کا سایہ کیا گیا تھا اور آپ کے ساتھ چند صحابہ تھے کہ ان میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے کہ ایک شخص آیا ایک کرتا پہنے ہوئے کہ اس میں خوشبو لگی ہوئی تھی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کا حکم کیا ہے؟ اس کے لیے جو احرام باندھے عمرہ کا ایک کرتے میں کہ اس میں خوشبو لگی ہو، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف نظر کی تھوڑی دیر اور چپ ہو رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آئی اور اشارہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے اپنے ہاتھ سے سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ کو کہ آؤ اور یعلیٰ آئے اور اپنا سر اندر کپڑے کے ڈالا اور نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا ہے اور آپ لمبے لمبے سانس لے رہے ہیں پھر وہ کیفیت کھل گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہاں ہے وہ سائل جو مجھ سے عمرہ کا حکم ابھی پوچھتا تھا۔“ پھر وہ ڈھونڈا گیا اور اس کو لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”خوشبو تو دھو ڈالو تین بار (کہ اثر نہ رہے) اور جبہ اتار دے اور باقی وہی کر اپنے عمرہ میں جو حج میں کرتا ہے۔“
وحَدَّثَنَا عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ رَافِعٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ قَيْسًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْجِعْرَانَةِ، قَدْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ وَهُوَ مُصَفِّرٌ لِحْيَتَهُ وَرَأْسَهُ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَحْرَمْتُ بِعُمْرَةٍ وَأَنَا كَمَا تَرَى، فَقَالَ: " انْزِعْ عَنْكَ الْجُبَّةَ، وَاغْسِلْ عَنْكَ الصُّفْرَةَ، وَمَا كُنْتَ صَانِعًا فِي حَجِّكَ فَاصْنَعْهُ فِي عُمْرَتِكَ ".
سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے اہلال کیا تھا ساتھ عمرہ کے اور اس کی داڑھی اور سر میں زردی لگی تھی یعنی خوشبو کی اور اس پر ایک کرتا تھا پھر اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اس نے احرام باندھا ہے عمرہ کا اور میں اس حال میں ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلممجھے دیکھتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی حکم دیا جو پہلے مذکور ہوا۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَلِيٍّ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِي مَعْرُوفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صَفْوَانُ بْنُ يَعْلَى ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَاهُ رَجُلٌ عَلَيْهِ جُبَّةٌ بِهَا أَثَرٌ مِنْ خَلُوقٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَحْرَمْتُ بِعُمْرَةٍ، فَكَيْفَ أَفْعَلُ؟ فَسَكَتَ عَنْهُ فَلَمْ يَرْجِعْ إِلَيْهِ، وَكَانَ عُمَرُ يَسْتُرُهُ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ يُظِلُّهُ، فَقُلْتُ لِعُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي أُحِبُّ إِذَا أُنْزِلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ أَنْ أُدْخِلَ رَأْسِي مَعَهُ فِي الثَّوْبِ، فَلَمَّا أُنْزِلَ عَلَيْهِ خَمَّرَهُ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالثَّوْبِ فَجِئْتُهُ فَأَدْخَلْتُ رَأْسِي مَعَهُ فِي الثَّوْبِ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ، قَالَ: " أَيْنَ السَّائِلُ آنِفًا عَنِ الْعُمْرَةِ؟ "، فَقَامَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ، فَقَالَ: " انْزِعْ عَنْكَ جُبَّتَكَ، وَاغْسِلْ أَثَرَ الْخَلُوقِ الَّذِي بِكَ، وَافْعَلْ فِي عُمْرَتِكَ مَا كُنْتَ فَاعِلًا فِي حَجِّكَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، قَالَ: فَهُنَّ لَهُنَّ وَلِمَنْ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِ أَهْلِهِنَّ مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَمَنْ كَانَ دُونَهُنَّ فَمِنْ أَهْلِهِ، وَكَذَا فَكَذَلِكَ حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ يُهِلُّونَ مِنْهَا ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میقات مقرر کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیے حجفہ اور اہل نجد والوں کے لیے قرن اور اہل یمن کے لیے یلملم اور فر مایا:"یہ سب مقاتیں ان لوگوں کے لیے بھی ہیں جو ان ملکوں میں رہتے ہیں اور ان کے لیے بھی ہیں جو اور ملکوں سے وہاں آئیں جو حج کا ارادہ رکھتے ہوں یا عمرہ کا پھر جو ان میقاتوں کے اندر رہنے والے ہوں یعنی مکہ سے قریب تو وہ وہیں سے احرام باندھیں یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ سے اہلال پکاریں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنَ الْمَنَازِلِ، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ، وَقَالَ: هُنَّ لَهُمْ وَلِكُلِّ آتٍ أَتَى عَلَيْهِنَّ مِنْ غَيْرِهِنَّ، مِمَّنْ أَرَادَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، وَمَنْ كَانَ دُونَ ذَلِكَ فَمِنْ حَيْثُ أَنْشَأَ، حَتَّى أَهْلُ مَكَّةَ مِنْ مَكَّةَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: وَبَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے تین میقاتوں کا بیان ویسا ہی کیا اور کہا کہ مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اہل یمن یلملم سے اہلال کریں۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عنه عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ذُو الْحُلَيْفَةِ، وَمُهَلُّ أَهْلِ الشَّامِ مَهْيَعَةُ وَهِيَ الْجُحْفَةُ، وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ قَرْنٌ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: وَزَعَمُوا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ أَسْمَعْ ذَلِكَ مِنْهُ، قَالَ: وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمُ.
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مدینہ اور شام اور نجد والوں کی میقات ویسی ہی روایت کی اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میقات اہل یمن کی یلملم ہے۔“ مگر میں نے خود ان سے نہیں سنا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ أَنْ يُهِلُّوا مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلَ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلَ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، وَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: وَأُخْبِرْتُ أَنَّهُ، قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مدینہ والے ذی الحلیفہ سے اور شام والے جحفہ سے اور نجد والے قرن سے احرام باندھیں۔“ اور کہا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہ مجھے خبر لگی کہ ”یمن والے یلملم سے۔“
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ، فَقَالَ: سَمِعْتُ ثُمَّ انْتَهَى، فَقَالَ: أُرَاهُ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان سے سوال کیا گیا احرام باندھنے والے کے بارے میں تو آپ نے کہا: میں نے ان سے سنا۔ پھر راوی ابوزبیر خاموش ہو گئے اور کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ انہوں نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّامِ مِنَ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، قَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: وَذُكِرَ لِي، وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ.
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ والے ذوالحلیفہ سے اور شام والے جحفہ سے، نجد والے قرن سے اہلال کریں۔“ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے پہنچا ہے اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے نہیں سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اہلال کریں یمن والے یلملم سے۔“
ح وحَدَّثَنِيمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ كِلَاهُمَا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ ، قَالَ عَبْدٌ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُسْأَلُ عَنِ الْمُهَلِّ، فَقَالَ: " سَمِعْتُ أَحْسَبُهُ رَفَعَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مُهَلُّ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ وَالطَّرِيقُ الْآخَرُ الْجُحْفَةُ وَمُهَلُّ أَهْلِ الْعِرَاقِ مِنْ ذَاتِ عِرْقٍ وَمُهَلُّ أَهْلِ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ وَمُهَلُّ أَهْلِ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وہی مواقیت مرفوعاً بیان کیے اور مدینہ کی ایک میقات ذوالحلیفہ کہی۔ دوسری راہ سے جحفہ کہی باقی وہی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ تَلْبِيَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ "، قَالَ وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَزِيدُ فِيهَا لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لبیک پکارنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکا یہ تھا «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» تک یعنی ”حاضر ہوں میں تیری خدمت میں، یا اللہ! حاضر ہوں میں تیری خدمت میں، حاضر ہوں میں، کوئی شریک نہیں تیرا، حاضر ہوں میں، بیشک سب تعریف اور نعمت تیرے لیے ہے اور ملک تیرا ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں۔“ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان میں کلمات زیادہ پڑھتے تھے «لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ» تک یعنی ”میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور حاضر ہوں تیری خدمت میں اور سعادت سب تیری ہی طرف سے ہے اور خیر تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے حاضر ہوں میں تیرے آگے اور رغبت کرتا ہوں میں تیری ہی طرف اور عمل تیرے لیے ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، وَنَافِعٍ مَوْلَى عبد الله، وحمزة بن عبد الله ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ، قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ، فَقَالَ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ "، قَالُوا: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ نَافِعٌ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَزِيدُ مَعَ هَذَا لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ بِيَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سوار ہوئے اونٹنی پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سیدھی کھڑی ہو گئی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکار دی پھر لبیک ذکر کی«لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ یہ لبیک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اور اس میں وہی الفاظ بڑھاتے تھے جو اوپر ہو چکے مگر اس میں لبیک کا لفظ ابتداء میں دوبار تھا اور اس میں تین بار ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: تَلَقَّفْتُ التَّلْبِيَةَ مِنْ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیبہ سیکھا ہے۔ پھر اسی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: فَإِنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَخْبَرَنِي، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ مُلَبِّدًا، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ "، لَا يَزِيدُ عَلَى هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، وَإِنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: كَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُهِلُّ بِإِهْلَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَيَقُولُ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ، وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ لبیک پکارتے تھے تلبید کئے ہوئے سر میں اور کہتے تھے لبیک سے آخر تک اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھیں پھر جب ان کی اونٹنی ان کو لے کر سیدھی کھڑی ہوئی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس تو انہی کلمات سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلمات لبیک پکارتے تھے اور اس کے بعد یہ کلمات زیادہ کرتے تھے لبیک سے آخر تک اور معنی ان سب کے اوپر گزر گئے۔
وحَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ يَعْنِي ابْنَ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ: لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلَكُمْ قَدْ قَدْ "، فَيَقُولُونَ: إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ، يَقُولُونَ: هَذَا وَهُمْ يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مشرکین مکہ کہتے تھے «لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”خرابی ہو تمہاری یہیں تک رہنے دو۔“ (یعنی آگے نہ کہو) اور وہ اس کے آگے کہتے تھے کہ مگر ایک شریک ہے تیرا کہ یا اللہ! تو اس کا مالک ہے اور وہ کسی شئے کا مالک نہیں۔ غرض یہی کہتے جاتے تھے اور بیت اللہ کا طواف کرتے جاتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: " بَيْدَاؤُكُمْ هَذِهِ الَّتِي تَكْذِبُونَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ " يَعْنِي ذَا الْحُلَيْفَةِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ یہ بیداء تمہارا وہی مقام ہے جہاں جھوٹ باندھتے ہو تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک نہیں پکاری مگر مسجد ذوالحلیفہ کے نزدیک سے۔
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا إِذَا قِيلَ لَهُ الْإِحْرَامُ مِنَ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: " الْبَيْدَاءُ الَّتِي تَكْذِبُونَ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ حِينَ قَامَ بِهِ بَعِيرُهُ ".
سالم نے کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے جب کہا جاتا کہ احرام بیداء سے ہے تو وہ فرماتے کہ وہی بیداء جس پر تم جھوٹ باندھتے ہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تو لبیک پکاری ہے اس درخت کے پاس جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اونٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر سیدھا کھڑا ہوا ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ ، أَنَّهُ قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: " يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَأَيْتُكَ تَصْنَعُ أَرْبَعًا لَمْ أَرَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِكَ يَصْنَعُهَا "، قَالَ: " مَا هُنَّ يَا ابْنَ جُرَيْجٍ؟ "، قَالَ: " رَأَيْتُكَ لَا تَمَسُّ مِنَ الْأَرْكَانِ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَرَأَيْتُكَ تَلْبَسُ النِّعَالَ السِّبْتِيَّةَ، وَرَأَيْتُكَ تَصْبُغُ بِالصُّفْرَةِ، وَرَأَيْتُكَ إِذَا كُنْتَ بِمَكَّةَ أَهَلَّ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا الْهِلَالَ، وَلَمْ تُهْلِلْ أَنْتَ حَتَّى يَكُونَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ "، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ : " أَمَّا الْأَرْكَانُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمَسُّ إِلَّا الْيَمَانِيَيْنِ، وَأَمَّا النِّعَالُ السِّبْتِيَّةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُ النِّعَالَ الَّتِي لَيْسَ فِيهَا شَعَرٌ وَيَتَوَضَّأُ فِيهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَلْبَسَهَا، وَأَمَّا الصُّفْرَةُ فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْبُغُ بِهَا، فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ أَصْبُغَ بِهَا، وَأَمَّا الْإِهْلَالُ فَإِنِّي لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهِلُّ، حَتَّى تَنْبَعِثَ بِهِ رَاحِلَتُهُ "،
عبید بن جریج نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا کہ اے ابو عبدالرحمٰن! میں نے تم کو چار باتیں کرتے دیکھا ہے کہ تمہارے اور یاروں میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ”وہ کیا ہیں؟“ اے بیٹے جریج کے!“انہوں نے کہا: اول تو میں تم کو دیکھتا ہوں کہ تم کعبہ کے کونوں میں سے طواف کے وقت ہاتھ نہیں لگاتے ہو مگر دو کونوں میں جو یمن کی طرف ہیں دوسرے تم نعال سبتی پہنتے ہو، تیسرے داڑھی رنگتے ہو زردی سے (یعنی زعفران و ورس وغیرہ سے)چوتھے جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو لوگ چاند دیکھ کر لبیک پکارتے ہیں اور تم یوم الترویہ یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی لبیک پکارتے ہو۔ پس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ سنو ارکان کو تو میں نے نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوتے ہوں سوا ان کے جو یمن کی طرف ہیں اور نعال سبتی تو میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ ایسی نعل پہنتے تھے جس میں بال نہ ہوں اور اسی میں وضو کرتے تھے (یعنی وضو کر کے گیلے پیر میں اسی کو پہن لیتے تھے) سو میں بھی دوست رکھتا ہوں کہ اس کو پہنوں، رہی زردی تو میں نے دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اس سے رنگتے تھے (یعنی بالوں کو یا کپڑوں کو) تو میں دوست رکھتا ہوں کہ اس سے رنگوں اور لبیک سو میں نے نہیں دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری ہو مگر جب کہ اونٹنی آپ کو سوار کر کے اٹھی (یعنی مسجد ذوالحلیفہ کے پاس)۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو صَخْرٍ ، عَنِ ابْنِ قُسَيْطٍ ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ مَرَّةً، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مِنْكَ أَرْبَعَ خِصَالٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِهَذَا الْمَعْنَى، إِلَّا فِي قِصَّةِ الْإِهْلَالِ فَإِنَّهُ خَالَفَ رِوَايَةَ الْمَقْبُرِيِّ، فَذَكَرَهُ بِمَعْنًى سِوَى ذِكْرِهِ إِيَّاهُ.
عبید بن جریج نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ساتھ دیا حج میں قریب بارہ حج و عمرے کے اور میں نے ان سے اسی چار باتوں کا ذکر کیا اور وہی مضمون روایت کیا جو اوپر گزرا مگر اہلال کے بارے میں انہوں نے مقبری کے خلاف روایت کی اور مضمون روایت کیا سوا اس مضون کے جو اوپر گزرا تھا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا وَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ، وَانْبَعَثَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ قَائِمَةً، أَهَلَّ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رکاب میں پیر رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اٹھی ذوالحلیفہ میں تب لبیک پکارا۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ يُخْبِرُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَهَلَّ حِينَ اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ قَائِمَةً ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما خبر دیتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر کھڑی ہوئی۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ يُهِلُّ حِينَ تَسْتَوِي بِهِ قَائِمَةً ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ أَحْمَدُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: " بَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ مَبْدَأَهُ، وَصَلَّى فِي مَسْجِدِهَا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب کو ذوالحلیفہ میں رہے حج کے ابتداء میں اور نماز پڑھی اس کی مسجد میں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُرْمِهِ حِينَ أَحْرَمَ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے احرام کے لیے جب احرام باندھا اور اس کے حلال کے لیے قبل طواف افاضہ کے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْج ِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي لِحُرْمِهِ حِينَ أَحْرَمَ، وَلِحِلِّهِ حِينَ أَحَلَّ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: " كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِإِحْرَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحِلِّهِ وَلِحُرْمِهِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ خوشبو لگائی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کھولنے کے لیے بھی اور باندھنے کے لیے بھی۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنَا، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عُمَرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُرْوَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُرْوَةَ ، وَالْقَاسِمَ يُخْبِرَانِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي بِذَرِيرَةٍ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ لِلْحِلِّ وَالْإِحْرَامِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے ہاتھوں سے خوشبو لگائی ذریرہ سے (اور وہ ایک قسم کی خوشبو ہے نووی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہند سے آتی ہے) حجتہ الودع میں احرام اور حل کے لیے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جميعا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِأَيِّ شَيْءٍ طَيَّبْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ حُرْمِهِ؟، قَالَتْ: " بِأَطْيَبِ الطِّيبِ ".
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے کون سی خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کے وقت؟ تو انہوں نے فرمایا: سب سے عمدہ خوشبو(یعنی مسک جیسے آگے آتا ہے)۔
وَحَدَّثْنَاهُ أَبُو كُرَيْبٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُرْوَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُرْوَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَطْيَبِ مَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ ثُمَّ يُحْرِمُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں جس قدر اچھی خوشبو ممکن ہو سکتی تھی لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل احرام کے پھر احرام باندھتے تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ أَبِي الرِّجَالِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُرْمِهِ حِينَ أَحْرَمَ، وَلِحِلِّهِ قَبْلَ أَنْ يُفِيضَ بِأَطْيَبِ مَا وَجَدْتُ: ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو احرام کے قبل اور ان کے احرام کھولنے کے وقت قبل اس کے وہ طواف افاضہ کریں عمدہ خوشبو جو پائی۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، قَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفْرِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ "، وَلَمْ يَقُلْ خَلَفٌ: وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَلَكِنَّهُ قَالَ وَذَاكَ طِيبُ إِحْرَامِهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: گویا میں ابھی دیکھ رہی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں چمک خوشبو کی اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے اور خلف جو راوی ہیں انہوں نے یہ نہیں کہا کہ وہ احرام باندھے ہوئے تھے مگر یہ کہ وہ خوشبو تھی ان کے احرام کی (یعنی جو احرام کے قبل لگائی تھی)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ يُهِلُّ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں گویا دیکھ رہی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں چمک خوشبو کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکار رہے تھے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُلَبِّي "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، وَعَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَكَأَنِّي أَنْظُرُ "، بِمِثْلِ حَدِيثِ وَكِيعٍ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں گویا کہ میں دیکھ رہی ہوں۔ آگے حدیث اسی طرح ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ ، قَالَ: سَمِعْتُ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ ".
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا لیکن اس میں لبیک پکارنے کے بجائے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں تھے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " إِنْ كُنْتُ لَأَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الطِّيبِ فِي مَفَارِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گویا میں دیکھتی ہوں چمک مشک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں ہیں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ وَهُوَ السَّلُولِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ وَهُوَ ابْنُ إِسْحَاق بْنِ أَبِي إِسْحَاق السَّبِيعِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق سَمِعَ ابْنَ الْأَسْوَدِ يَذْكُرُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُحْرِمَ يَتَطَيَّبُ بِأَطْيَبِ مَا يَجِدُ، ثُمَّ أَرَى وَبِيصَ الدُّهْنِ فِي رَأْسِهِ وَلِحْيَتِهِ بَعْدَ ذَلِكَ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ارادہ کرتے احرام کا تو عمدہ سے عمدہ خوشبو لگاتے جو پاتے، پھر میں دیکھتی تھی چمک تیل کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور داڑھی میں احرام باندھنے کے بعد۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا " كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ الْمِسْكِ فِي مَفْرِقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ گویا میں دیکھتی ہوں چمک مشک کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں ہیں۔
وحَدَّثَنَاهإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كُنْتُ أُطَيِّبُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ، بِطِيبٍ فِيهِ مِسْكٌ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قبل احرام کے اور نحر کے دن (یعنی بعد رمی جمرہ عقبہ کے) قبل اس کے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم طواف افاضہ کریں بیت اللہ کا اور اس خوشبو میں مسک ہوتا تھا۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ، قَالَ سَعِيدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ الرَّجُلِ يَتَطَيَّبُ، ثُمَّ يُصْبِحُ مُحْرِمًا، فَقَالَ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، لَأَنْ أَطَّلِيَ بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ، فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَخْبَرْتُهَا أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: مَا أُحِبُّ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا لَأَنْ أَطَّلِيَ بِقَطِرَانٍ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِكَ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ : " أَنَا طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ إِحْرَامِهِ، ثُمَّ طَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا ".
محمد منتشر کے بیٹے نے کہا: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جو شخص خوشبو لگائے اور صبح کو احرام باندے تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں خوب نہیں جانتا کہ صبح کو احرام باندھوں ایسے حال میں کہ خوشبو جھاڑتا ہوں اور اگر میں ڈانبر اپنے اوپر مل لوں تو مجھے اس سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ میں خوشبو لگاؤں پھر میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے یہ سب کہا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”میں نے خوشبو لگائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو ان کے احرام کے قریب اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیبیوں سے صحبت کی پھر صبح احرام باندھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: " كُنْتُ أُطَيِّبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَطُوفُ عَلَى نِسَائِهِ، ثُمَّ يُصْبِحُ مُحْرِمًا يَنْضَخُ طِيبًا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں رضی اللہ عنہن پر طواف کرتے تھے (یعنی سب سے صحبت کرتے تھے) پھر صبح کو احرام باندھتے اور خوشبو جھڑتی تھی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَسُفْيَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: لَأَنْ أُصْبِحَ مُطَّلِيًا بِقَطِرَانٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُصْبِحَ مُحْرِمًا أَنْضَخُ طِيبًا، قَالَ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَأَخْبَرْتُهَا بِقَوْلِهِ، فَقَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطَافَ فِي نِسَائِهِ، ثُمَّ أَصْبَحَ مُحْرِمًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں ڈانبر لگانے کو زیادہ پسند کرتا ہوں اس بات سے کہ میں خوشبو جھاڑوں صبح کو محرم ہونے کی حالت میں۔ آپ نے کہا: میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے یہ بات پوچھی تو انہوں نے فرمایا: میں خوشبو لگاتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے پاس جاتے اور آپ صبح کرتے محرم ہونے کی حالت میں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الصَّعْبِ بْنِ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيِّ ، أَنَّهُ أَهْدَى لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارًا وَحْشِيًّا وَهُوَ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَلَمَّا أَنْ رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي وَجْهِي، قَالَ: " إِنَّا لَمْ نَرُدَّهُ عَلَيْكَ، إِلَّا أَنَّا حُرُمٌ "،
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جنگلی گدھا ہدیہ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان میں تھے (کہ مقام کا نام ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ان کے چہرے کا ملال تو فرمایا: ”ہم نے کسی اور وجہ سے نہیں پھیرا اتنا ہے کہ ہم لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، وَقُتَيْبَةُ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَامَعْمَرٌ . ح وحَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ كُلُّهُمْ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَهْدَيْتُ لَهُ حِمَارَ وَحْشٍ كَمَا قَالَ مَالِكٌ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَصَالِحٍ، أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ أَخْبَرَهُ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: أَهْدَيْتُ لَهُ مِنْ لَحْمِ حِمَارِ وَحْشٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْدَى الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِمَارَ وَحْشٍ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " لَوْلَا أَنَّا مُحْرِمُونَ لَقَبِلْنَاهُ مِنْكَ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔ مگر اس میں ہے کہ ”اگر ہم احرام باندھے ہوئے نہ ہوتے تو آپ کا ہدیہ قبول کرتے۔“
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورًا يُحَدِّثُ، عَنِ الحكم . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنِ الْحَكَمِ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ جَمِيعًا، عَنْ حَبِيبٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي رِوَايَةِ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ، أَهْدَى الصَّعْبُ بْنُ جَثَّامَةَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رِجْلَ حِمَارِ وَحْشٍ، وَفِي رِوَايَةِ شُعْبَةَ عَنِ الْحَكَمِ: عَجُزَ حِمَارِ وَحْشٍ يَقْطُرُ دَمًا، وَفِي رِوَايَةِ شُعْبَةَ عَنْ حَبِيبٍ: أُهْدِيَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شِقُّ حِمَارِ وَحْشٍ فَرَدَّهُ.
حکم نے کہا: سیدنا صعب رضی اللہ عنہ نے حمار وحشی کا پیر ہدیہ دیا اور شعبہ نے حکم سے روایت کیا کہ سرین حمار وحش کی، اس میں خون ٹپکتا تھا اور شعبہ کی روایت حبیب سے یوں ہے کہ ایک ٹکڑا حمار وحش کا ہدیہ دیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ يَسْتَذْكِرُهُ: كَيْفَ أَخْبَرْتَنِي عَنْ لَحْمِ صَيْدٍ أُهْدِيَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَرَامٌ؟، قَالَ: قَالَ: أُهْدِيَ لَهُ عُضْوٌ مِنْ لَحْمِ صَيْدٍ فَرَدَّهُ، فَقَالَ: " إِنَّا لَا نَأْكُلُهُ إِنَّا حُرُمٌ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ آئے اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان کو یاد دلا کر کہا کہ تم نے کیونکر خبر دی تھی لحم صید کی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باندھے ہوئے تھے؟ انہوں نے کہا: ہدیہ دیا گیا ایک عضو شکار کے گوشت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیر دیا اور فرمایا: ”ہم لوگ احرام باندھے ہوئے ہیں۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا قَتَادَةَ ، يَقُولُ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْقَاحَةِ فَمِنَّا الْمُحْرِمُ وَمِنَّا غَيْرُ الْمُحْرِمِ، إِذْ بَصُرْتُ بِأَصْحَابِي يَتَرَاءَوْنَ شَيْئًا، فَنَظَرْتُ فَإِذَا حِمَارُ وَحْشٍ، فَأَسْرَجْتُ فَرَسِي وَأَخَذْتُ رُمْحِي، ثُمَّ رَكِبْتُ فَسَقَطَ مِنِّي سَوْطِي، فَقُلْتُ لِأَصْحَابِي وَكَانُوا مُحْرِمِينَ: نَاوِلُونِي السَّوْطَ، فَقَالُوا: وَاللَّهِ لَا نُعِينُكَ عَلَيْهِ بِشَيْءٍ، فَنَزَلْتُ فَتَنَاوَلْتُهُ، ثُمَّ رَكِبْتُ فَأَدْرَكْتُ الْحِمَارَ مِنْ خَلْفِهِ، وَهُوَ وَرَاءَ أَكَمَةٍ، فَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي فَعَقَرْتُهُ، فَأَتَيْتُ بِهِ أَصْحَابِي، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: كُلُوهُ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَأْكُلُوهُ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَامَنَا، فَحَرَّكْتُ فَرَسِي فَأَدْرَكْتُهُ، فَقَالَ: " هُوَ حَلَالٌ فَكُلُوهُ ".
ابومحمد ابوقتادہ کے آزاد کردہ غلام کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہتے تھے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک کہ جب پہنچے ہم قاحہ میں (اور وہ ایک میدان ہے سقیا سے ایک منزل پر اور مدینہ سے تین منزل پر) اور بعض لوگ ہم میں سے محرم تھے اور بعض غیر محرم کہ اتنے میں میں نے اپنے یاورں کو دیکھا کہ وہ کسی چیز کو دیکھ رہے ہیں، جب میں نے نظر کی تو ایک گدھا وحشی تھا اور میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھا اور اپنا نیزہ لیا اور سوار ہوا اور میرا کوڑا گر پڑا اور میں نے اپنے یاروں سے کہا اور وہ محرم تھے کہ میرا کوڑا اٹھا دو۔ انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہم تمہاری کچھ مدد نہ کریں گے پھر میں نے اتر کر کوڑا لیا اور سوار ہوا اور اس گدھے تک اس کے پیچھے سے پہنچا اور وہ ٹیلے کے پیچھے تھا پھر اس کو نیزہ مارا اور اس کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور اپنے یاروں کے پاس لایا اور کسی نے کہا: کھاؤ اور کسی نے کہا: مت کھاؤ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے تھے، سو میں نے اپنا گھوڑا بڑھایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ حلال ہے پس کھاؤ۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، عَنْ مَالِكٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ، تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَأَدْرَكُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ "،
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کسی راہ میں مکہ کے اور وہ چند یاروں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے رہ گئے اور وہ غیر محرم تھے اور یار ان کے محرم پھر ایک وحشی گدھا دیکھا اور اپنے گھوڑے پر چڑھے اور یاروں سے کوڑا مانگا کسی نے نہ دیا، نیزہ مانگا کسی نے نہ دیا پھر انہوں نے آپ لے لیا اور گھوڑے کو دوڑایا اور گدھے کو مار لیا اور اصحاب میں سے کسی نے کھایا کسی نے نہیں پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ تو ایک خوراک ہے کہ اللہ عزوجل نے تم کو دی۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ، مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ ".
عطاء نے سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے جنگلی گدھے کے بارہ میں وہی مضمون روایت کیا جو ابوالنضر سے اس کے اوپر گزرا مگر زید بن اسلم کی روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تمہارے پاس؟۔“
وحَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ مِسْمَارٍ السُّلَمِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: انْطَلَقَ أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ، فَأَحْرَمَ أَصْحَابُهُ وَلَمْ يُحْرِمْ، وَحُدِّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَدُوًّا بِغَيْقَةَ فَانْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا أَنَا مَعَ أَصْحَابِهِ يَضْحَكُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، إِذْ نَظَرْتُ فَإِذَا أَنَا بِحِمَارِ وَحْشٍ فَحَمَلْتُ عَلَيْهِ فَطَعَنْتُهُ فَأَثْبَتُّهُ، فَاسْتَعَنْتُهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُعِينُونِي، فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهِ وَخَشِينَا أَنْ نُقْتَطَعَ، فَانْطَلَقْتُ أَطْلُبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْفَعُ فَرَسِي شَأْوًا وَأَسِيرُ شَأْوًا، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ بَنِي غِفَارٍ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقُلْتُ: أَيْنَ لَقِيتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَرَكْتُهُ بِتَعْهِنَ وَهُوَ قَائِلٌ السُّقْيَا، فَلَحِقْتُهُ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَصْحَابَكَ يَقْرَءُونَ عَلَيْكَ السَّلَامَ وَرَحْمَةَ اللَّهِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ خَشُوا أَنْ يُقْتَطَعُوا دُونَكَ، انْتَظِرْهُمْ فَانْتَظَرَهُمْ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَصَدْتُ وَمَعِي مِنْهُ فَاضِلَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْقَوْمِ: " كُلُوا "، وَهُمْ مُحْرِمُونَ.
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ تھے حدیبیہ کے سال اور اصحاب رضی اللہ عنہم نے احرام باندھا تھا اور انہوں نے نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر لگی کہ دشمن غیقہ میں ہے اور آپ چلے اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اپنے یاروں کے ساتھ تھا کہ بعض لوگ میری طرف دیکھ کر ہنسنے لگے اور میں نے جو نظر کی تو میرے آگے ایک وحشی گدھا تھا اور میں نے اس پر حملہ کیا اور اس کو نیزہ مار کر روک دیا اور اپنے لوگوں سے مدد چاہی اور کسی نے (بسبب احرام کے) میری مدد نہ کہ پھر ہم نے اس کا گوشت کھایا اور خوف ہوا کہ ہم راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھوٹ نہ جائیں اس لیے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈتا چلا اور کبھی اپنے گھوڑے کو دوڑاتا اور کبھی قدم قدم چلاتا کہ ایک آدمی بنی غفار کا ملا اندھیری رات میں اور میں نے اس سے پوچھا کہ تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ملے؟ اس نے کہا کہ میں نے آپ کو (تعہن)میں چھوڑا ہے (نام ہے ایک مقام کا اور وہ پانی کی ایک نہر ہے سنتیا سے تین میل پر اور سقیا ایک گاؤں ہے مدینہ سے تین منزل مکہ کی راہ میں) اور وہ سقیا میں دوپہر کو ٹھہرنا چاہتے تھے غرض میں آپ سے ملا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ کے اصحاب، آپ پر سلام اور رحمت بھیجتے ہیں اور ان کو خوف ہے کہ دشمن ان کو آپ سے دور کر کے کاٹ نہ ڈالے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا انتظار کیجئے، سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا انتظار کیا پھر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں نے شکار کیا ہے اور اس میں سے کچھ میرے پاس بچا ہوا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کھاؤ۔“ اور وہ سب احرام باندھے ہوئے تھے۔
حَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا وَخَرَجْنَا مَعَهُ، قَالَ: فَصَرَفَ مِنْ أَصْحَابِهِ فِيهِمْ أَبُو قَتَادَةَ، فَقَالَ: " خُذُوا سَاحِلَ الْبَحْرِ حَتَّى تَلْقَوْنِي "، قَالَ: فَأَخَذُوا سَاحِلَ الْبَحْرِ فَلَمَّا انْصَرَفُوا قِبَلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمُوا كُلُّهُمْ، إِلَّا أَبَا قَتَادَةَ فَإِنَّهُ لَمْ يُحْرِمْ، فَبَيْنَمَا هُمْ يَسِيرُونَ إِذْ رَأَوْا حُمُرَ وَحْشٍ، فَحَمَلَ عَلَيْهَا أَبُو قَتَادَةَ فَعَقَرَ مِنْهَا أَتَانًا، فَنَزَلُوا فَأَكَلُوا مِنْ لَحْمِهَا، قَالَ: فَقَالُوا: أَكَلْنَا لَحْمًا وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، قَالَ: فَحَمَلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِ الْأَتَانِ، فَلَمَّا أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا أَحْرَمْنَا وَكَانَ أَبُو قَتَادَةَ لَمْ يُحْرِمْ فَرَأَيْنَا حُمُرَ وَحْشٍ فَحَمَلَ عَلَيْهَا أَبُو قَتَادَةَ فَعَقَرَ مِنْهَا أَتَانًا، فَنَزَلْنَا فَأَكَلْنَا مِنْ لَحْمِهَا، فَقُلْنَا نَأْكُلُ لَحْمَ صَيْدٍ وَنَحْنُ مُحْرِمُونَ، فَحَمَلْنَا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا، فَقَالَ: " هَلْ مِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَوْ أَشَارَ إِلَيْهِ بِشَيْءٍ؟، قَالَ: قَالُوا: لَا، قَالَ: " فَكُلُوا مَا بَقِيَ مِنْ لَحْمِهَا "،
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی اپنے باپ سے کہ انہوں نے کہا کہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو اور ہم نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور کہا سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور راہ لی اور اپنے بعض اصحاب سے فرمایا: اور انہیں میں ابوقتادہ بھی تھے: ”تم ساحل بحر کی راہ لو یہاں تک کہ ملو مجھ سے۔“ اور ان لوگوں نے ساحل بحر کی راہ لی پھر جب پھرے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تو ان تمام لوگوں نے احرام باندھ لیا سوائے ابوسیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ کے کہ انہوں نے احرام نہیں باندھا، غرض وہ راہ میں چلے جاتے تھے کہ انہوں نے چند وحشی گدھوں کو دیکھا اور سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے ان پر حملہ کیا اور ایک گدھے کی ان میں سے کونچیں کاٹیں اور سب یار ان کے اترے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا انہوں نے کہ ہم نے گوشت کھایا اور ہم محرم تھے اور باقی گوشت اس کا ساتھ لے لیا پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم نے احرام باندھ لیا ہے تھا اور ابوقتادہ نے احرام نہیں باندھا تھا پھر ہم نے چند وحشی گدھے دیکھے اور ابوقتادہ نے ان پر حملہ کر کے ایک کی کونچیں کاٹیں پھر ہم اترے اور ہم سب نے اس کا گوشت کھایا اور پھر کہا: ہم شکار کا گوشت کھا رہے ہیں اور احرام باندھے ہوئے ہیں اور باقی گوشت اس کا ہم لیتے آئے ہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کسی نے تم سے اس کا حکم کیا تھا اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔“ تو انہوں نے عرض کیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ جو گوشت اس کا باقی ہے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ شَيْبَانَ جَمِيعًا، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهَبٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي رِوَايَةِ شَيْبَانَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَمَرَهُ أَنْ يَحْمِلَ عَلَيْهَا أَوْ أَشَارَ إِلَيْهَا؟ "، وَفِي رِوَايَةِ شُعْبَةَ: قَالَ: " أَشَرْتُمْ أَوْ أَعَنْتُمْ أَوْ أَصَدْتُمْ "، قَالَ شُعْبَةُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: أَعَنْتُمْ أَوْ أَصَدْتُمْ.
سیدنا عثمان بن عبداللہ سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور شیبان کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کسی نے اس کے شکار کا حکم کیا کہ اس پر حملہ کیا جائے یا اس کی طرف اشارہ کیا۔“ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ ”تم نے اشارہ کیا یا مدد کی یا تم نے شکار کیا؟“ شعبہ نے کہا: میں نہیں جانتا کہ ”مدد کی فرمایا یا شکار کیا۔“ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَهُوَ ابْنُ سَلَّامٍ ، أَخْبَرَنِي يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي قَتَادَةَ ، أَنَّ أَبَاهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، قَالَ: فَأَهَلُّوا بِعُمْرَةٍ غَيْرِي، قَالَ: فَاصْطَدْتُ حِمَارَ وَحْشٍ، فَأَطْعَمْتُ أَصْحَابِي وَهُمْ مُحْرِمُونَ، ثُمَّ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْبَأْتُهُ أَنَّ عِنْدَنَا مِنْ لَحْمِهِ فَاضِلَةً، فَقَالَ: " كُلُوهُ "، وَهُمْ مُحْرِمُونَ،
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان کے باپ نے خبر دی کہ انہوں نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حدیبیہ میں تو اور لوگوں نے عمرہ کا احرام باندھ لیا سوا میرے اور میں نے ایک وحشی گدھا شکار کیا اور اپنے یاروں کو کھلایا اور وہ احرام باندھے ہوئے تھے، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور ان کو خبر دی کہ ہمارے پاس اس کا گوشت بچا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھاؤ۔“ اور وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ النُّمَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ مُحْرِمُونَ، وَأَبُو قَتَادَةَ مُحِلٌّ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ فَقَالَ: " هَلْ مَعَكُمْ مِنْهُ شَيْءٌ؟ "، قَالُوا: مَعَنَا رِجْلُهُ، قَالَ: " فَأَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَكَلَهَا "،
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ نکلے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ سب لوگ محرم تھے اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہ غیر محرم اور بیان کی حدیث اور اس میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارے پاس اس میں سے کچھ ہے؟“ انہوں نے کہا: ہمارے پاس اس کا پیر ہے پھر لیا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور کھایا۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، وَإِسْحَاق ، عَنْ جَرِيرٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: كَانَ أَبُو قَتَادَةَ فِي نَفَرٍ مُحْرِمِينَ وَأَبُو قَتَادَةَ مُحِلٌّ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ قَالَ: " هَلْ أَشَارَ إِلَيْهِ إِنْسَانٌ مِنْكُمْ أَوْ أَمَرَهُ بِشَيْءٍ؟ "، قَالُوا: لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " فَكُلُوا ".
سیدنا عبداللہ بن ابی قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا ابوقتادہ چند محرم لوگوں میں تھے اور وہ احرام باندھے ہوئے نہ تھے اور وہ حدیث بیان کی اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آیا اشارہ کیا تم میں سے کسی نے اس کی طرف یا حکم کیا کسی طرح کا؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھاؤ اس کو۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ وَنَحْنُ حُرُمٌ، فَأُهْدِيَ لَهُ طَيْرٌ وَطَلْحَةُ رَاقِدٌ، فَمِنَّا مَنْ أَكَلَ وَمِنَّا مَنْ تَوَرَّعَ، فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ طَلْحَةُ وَفَّقَ مَنْ أَكَلَهُ، وَقَالَ: " أَكَلْنَاهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عبدالرحمٰن نے کہا کہ ہم طلحہ کے ساتھ تھے احرام باندھے ہوئے اور ایک پرندہ شکار کا ان کو ہدیہ دیا گیا (یعنی پکا ہوا) سو بعضوں نے ہم میں سے کھایا اور بعض نے پرہیز کیا پھر جب طلحہ سو رہے تھے، جاگے تو ان لوگوں کے موافق ہوئے جنہوں نے کھایا تھا اور کہا انہوں نے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ ایسا گوشت کھایا ہے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ مِقْسَمٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " أَرْبَعٌ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحِدَأَةُ وَالْغُرَابُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "، قَالَ: فَقُلْتُ لِلْقَاسِمِ: أَفَرَأَيْتَ الْحَيَّةَ؟، قَالَ: " تُقْتَلُ بِصُغْرٍ لَهَا ".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی صاحبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”چار چیزیں شریر ہیں کہ قتل کی جاتی ہیں حل و حرم میں چیل اور کوا اور چوہا اور کٹ کھنا کتا۔“ (راوی نے) کہا: میں نے اپنے شیخ قاسم سے پوچھا کہ بھلا فرمائیے سانپ کو، تو انہوں نے کہا: مارا جائے ذلت سے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ: الْحَيَّةُ وَالْغُرَابُ الْأَبْقَعُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ وَالْحُدَيَّا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں، انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جا سکتا ہے: سانپ، سیاہ و سفید کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا اور چیل۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ: الْعَقْرَبُ وَالْفَأْرَةُ وَالْحُدَيَّا وَالْغُرَابُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ فَوَاسِقُ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ: الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَتْ: " أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِ خَمْسِ فَوَاسِقَ فِي الْحِلِّ وَالْحَرَمِ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو قتل کرنے کا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ كُلُّهَا فَوَاسِقُ تُقْتَلُ فِي الْحَرَمِ: الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَمْسٌ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي الْحَرَمِ وَالْإِحْرَامِ: الْفَأْرَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "، وقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ فِي رِوَايَتِهِ: فِي الْحُرُمِ وَالْإِحْرَامِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَتْ حَفْصَةُ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ كُلُّهَا فَاسِقٌ لَا حَرَجَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ: الْعَقْرَبُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ مَا يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ مِنَ الدَّوَابِّ؟، فَقَالَ: أَخْبَرَتْنِي إِحْدَى نِسْوَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهُ أَمَرَ أَوْ أُمِرَ أَنْ يَقْتُلَ الْفَأْرَةَ، وَالْعَقْرَبَ، وَالْحِدَأَةَ، وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ، وَالْغُرَابَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا سے یہی مضمون بیان کیا۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ مَا يَقْتُلُ الرَّجُلُ مِنَ الدَّوَابِّ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟، قَالَ: حَدَّثَتْنِي إِحْدَى نِسْوَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ " يَأْمُرُ بِقَتْلِ الْكَلْبِ الْعَقُورِ، وَالْفَأْرَةِ، وَالْعَقْرَبِ، وَالْحُدَيَّا، وَالْغُرَابِ، وَالْحَيَّةِ، قَالَ: وَفِي الصَّلَاةِ أَيْضًا ".
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی صاحبہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”چار چیزیں شریر ہیں کہ قتل کی جاتی ہیں حل و حرم میں چیل اور کوا اور چوہا اور کٹ کھنا کتا۔“ (راوی نے) کہا: میں نے اپنے شیخ قاسم سے پوچھا کہ بھلا فرمائیے سانپ کو، تو انہوں نے کہا: مارا جائے ذلت سے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ لَيْسَ عَلَى الْمُحْرِمِ فِي قَتْلِهِنَّ جُنَاحٌ: الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پانچ جانور ایذاء دینے والے ہیں انہیں حرم اور غیر حرم میں قتل کیا جا سکتا ہے: سانپ، سیاہ و سفید کوا، چوہا، کٹ کھنا کتا اور چیل۔“
وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِنَافِعٍ: مَاذَا سَمِعْتَ ابْنَ عُمَرَ يُحِلُّ لِلْحَرَامِ قَتْلَهُ مِنَ الدَّوَابِّ؟، فَقَالَ لِي نَافِعٌ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسٌ مِنَ الدَّوَابِّ لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ قَتَلَهُنَّ فِي قَتْلِهِنَّ: الْغُرَابُ، وَالْحِدَأَةُ، وَالْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْحٍ ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ جَمِيعًا، عَنْ نَافِعٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي جَمِيعًا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ، وَابْنِ جُرَيْجٍ، وَلَمْ يَقُلْ أَحَدٌ مِنْهُمْ، عَنْ نَافعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا ابْنُ جُرَيْجٍ وَحْدَهُ، وَقَدْ تَابَعَ ابْنَ جُرَيْجٍ عَلَى ذَلِكَ ابْنُ إِسْحَاق،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِيهِ فَضْلُ بْنُ سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ نَافِعٍ ،وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " خَمْسٌ لَا جُنَاحَ فِي قَتْلِ مَا قُتِلَ مِنْهُنَّ فِي الْحَرَمِ "، فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، قَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ مَنْ قَتَلَهُنَّ وَهُوَ حَرَامٌ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ فِيهِنَّ: الْعَقْرَبُ، وَالْفَأْرَةُ، وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ، وَالْغُرَابُ، وَالْحُدَيَّا "، وَاللَّفْظُ لِيَحْيَى بْنِ يَحْيَى.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو قتل کرنے کا۔
وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَى عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَأَنَا أُوقِدُ تَحْتَ، قَالَ الْقَوَارِيرِيُّ: قِدْرٍ لِي، وقَالَ أَبُو الرَّبِيعِ: بُرْمَةٍ لِي وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَاحْلِقْ وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ أَطْعِمْ سِتَّةَ مَسَاكِينَ أَوِ انْسُكْ نَسِيكَةً "، قَالَ أَيُّوبُ: فَلَا أَدْرِي بِأَيِّ ذَلِكَ بَدَأَ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ: بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: فِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ: " ادْنُهْ فَدَنَوْتُ "، فَقَالَ: " ادْنُهْ فَدَنَوْتُ "، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟ "، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: وَأَظُنُّهُ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: " فَأَمَرَنِي بِفِدْيَةٍ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ مَا تَيَسَّرَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَيْفٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي لَيْلَى ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَفَ عَلَيْهِ، وَرَأْسُهُ يَتَهَافَتُ قَمْلًا، فَقَالَ: " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ؟، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ، قَالَ: فَفِيَّ نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوْ تَصَدَّقْ بِفَرَقٍ بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ أَوِ انْسُكْ مَا تَيَسَّرَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ کسی نے پوچھا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا سے یہی مضمون بیان کیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ ، وَأَيُّوبَ ، وَحُمَيْدٍ وَعَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ وَهُوَ يُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَيُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَاحْلِقْ رَأْسَكَ، وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ وَالْفَرَقُ ثَلَاثَةُ آصُعٍ أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوِ انْسُكْ نَسِيكَةً "، قَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: أَوِ اذْبَحْ شَاةً.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کسی آدمی نے پوچھا کہ محرم کون کون سے جانور قتل کر سکتا ہے؟ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مارنے کے لئے ارشاد فرماتے تھے کٹ کھنا کتا اور چوہا اور بچھو اور کوا اور سانپ کے اور کہا کہ نماز میں بھی (مارے جائیں)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَرَّ بِهِ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فَقَالَ لَهُ: " آذَاكَ هَوَامُّ رَأْسِكَ، قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: احْلِقْ رَأْسَكَ، ثُمَّ اذْبَحْ شَاةً نُسُكًا، أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ أَطْعِمْ ثَلَاثَةَ آصُعٍ مِنْ تَمْرٍ عَلَى سِتَّةِ مَسَاكِينَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَصْبَهَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْقِلٍ ، قَالَ: قَعَدْتُ إِلَى كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، فَقَالَ كَعْبٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: نَزَلَتْ فِيَّ، كَانَ بِي أَذًى مِنْ رَأْسِي، فَحُمِلْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَمْلُ يَتَنَاثَرُ عَلَى وَجْهِي، فَقَالَ: " مَا كُنْتُ أُرَى أَنَّ الْجَهْدَ بَلَغَ مِنْكَ مَا أَرَى، أَتَجِدُ شَاةً؟، فَقُلْتُ: لَا، فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ سورة البقرة آية 196، قَالَ: صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ إِطْعَامُ سِتَّةِ مَسَاكِينَ، نِصْفَ صَاعٍ طَعَامًا لِكُلِّ مِسْكِينٍ "، قَالَ: فَنَزَلَتْ فِيَّ خَاصَّةً وَهِيَ لَكُمْ عَامَّةً.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَصْبَهَانِيِّ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَعْقِلٍ ، حَدَّثَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمًا، فَقَمِلَ رَأْسُهُ وَلِحْيَتُهُ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَدَعَا الْحَلَّاقَ فَحَلَقَ رَأْسَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُ: " هَلْ عِنْدَكَ نُسُكٌ؟ "، قَالَ: مَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يَصُومَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، أَوْ يُطْعِمَ سِتَّةَ مَسَاكِينَ، لِكُلِّ مِسْكِينَيْنِ صَاعٌ "، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ خَاصَّةً فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ سورة البقرة آية 196 ثُمَّ كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ عَامَّةً.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی مضمون مثل حدیث مالک اور ابن جریج کے روایت کیا اور ان راویوں میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ روایت ہے نافع سے وہ راوی ہیں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، سنا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے، مگر ابن جریج نے اکیلے اور ابن جریج کی اتباع کی ہے اس بیان میں ابن اسحاق نے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاق أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ طَاوُسٍ ، وَعَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”کچھ حرج نہیں پانچ جانوروں کے قتل میں پھر مثل اسی کے بیان کیا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْمُعَلَّى بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنِ ابْنِ بُحَيْنَةَ ، أَنَّ ّالنَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " احْتَجَمَ بِطَرِيقِ مَكَّةَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ وَسَطَ رَأْسِهِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد ہوا کہ ”پانچ جانور ہیں کہ ان کو جس نے حالت احرام میں مارا اس پر کچھ گناہ نہیں ان کے قتل میں بچھو اور چوہا اور کٹ کھنا کتا اور کوا اور چیل۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِمَلَلٍ، اشْتَكَى عُمَرُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ عَيْنَيْهِ، فَلَمَّا كُنَّا بِالرَّوْحَاءِ اشْتَدَّ وَجَعُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ يَسْأَلُهُ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ أَنِ اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ، فَإِنَّ عُثْمَانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الرَّجُلِ إِذَا اشْتَكَى عَيْنَيْهِ وَهُوَ مُحْرِمٌ ضَمَّدَهُمَا بِالصَّبِرِ ".
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرے پاس آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسال حدیبیہ میں اور میں اپنی ہانڈی کے نیچے آگ پھونک رہا تھا اور جوئیں میرے منہ پر چلی آتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے سر کے کیڑوں نے بہت ستایا ہے۔“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سر منڈا دو اور تین روزے رکھو، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ یا ایک قربانی کرو۔“ ایوب نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ پہلے کیا چیز فرمائی۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنِي نُبَيْهُ بْنُ وَهْبٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ رَمِدَتْ عَيْنُهُ، فَأَرَادَ أَنْ يَكْحُلَهَا، فَنَهَاهُ أَبَانُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَأَمَرَهُ أَنْ يُضَمِّدَهَا بِالصَّبِرِ "، وَحَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ فَعَلَ ذَلِكَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَهَذَا حَدِيثُهُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُنَيْنٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ أنهما اختلفا بالأبواء، فقال عبد الله بن عباس: يغسل المحرم رأسه، وَقَالَ الْمِسْوَرُ: لَا يَغْسِلُ الْمُحْرِمُ رَأْسَهُ، فَأَرْسَلَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ إِلَى أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَسْأَلُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ بَيْنَ الْقَرْنَيْنِ وَهُوَ يَسْتَتِرُ بِثَوْبٍ، قَالَ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، فَقُلْتُ أَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُنَيْنٍ أَرْسَلَنِي إِلَيْكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ، أَسْأَلُكَ كَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَغْسِلُ رَأْسَهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ؟، فَوَضَعَ أَبُو أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَدَهُ عَلَى الثَّوْبِ فَطَأْطَأَهُ حَتَّى بَدَا لِي رَأْسُهُ، ثُمَّ قَالَ لِإِنْسَانٍ يَصُبُّ: " اصْبُبْ، فَصَبَّ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ حَرَّكَ رَأْسَهُ بِيَدَيْهِ فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ "، ثُمَّ قَالَ: " هَكَذَا رَأَيْتُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ "،
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے کہا یہ آیت «فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» (۲/البقرۃ:۱۹۶) میرے ہی حق میں اتری اور میں آیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نزدیک آؤ۔“ میں نزدیک آیا۔ پھر فرمایا: ”تم کو تمہاری جوئیں بہت ستاتی ہیں۔“ ابن عون نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا: ہاں۔ پھر مجھے حکم فرمایا فدیہ کا روزہ ہو، خواہ صدقہ ہو، خواہ قربانی ہو۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: فَأَمَرَّ أَبُو أَيُّوبَ بِيَدَيْهِ عَلَى رَأْسِهِ جَمِيعًا عَلَى جَمِيعِ رَأْسِهِ، فَأَقْبَلَ بِهِمَا وَأَدْبَرَ، فَقَالَ الْمِسْوَرُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: لَا أُمَارِيكَ أَبَدًا.
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کھڑے تھے اور میرے سر میں سے جو ئیں گر رہی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم کو جو ئیں ستاتی ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سر منڈا ڈالو۔“ اور یہ آیت «فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِنْ رَأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِنْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» میرے حق میں اتری پھر مجھ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے رکھو یا ایک ٹوکرا خیرات دو یعنی غلہ بھر کر چھ مساکین کو یا قربانی کرو جو میسر ہو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَرَّ رَجُلٌ مِنْ بَعِيرِهِ فَوُقِصَ فَمَاتَ، فَقَالَ: اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا ".
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے وہی مضمون اوپر کا بیان کر کے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈا ڈالو اور ایک ٹوکرا غلہ چھ مسکینوں کو بانٹ دو (اور ٹوکرا تین صاع ہے اور صاع کی تحقیق کتاب الزکوٰۃ میں گزری) یا تین دن روزے رکھو یا ایک قربانی کرو ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے کہ”ایک بکری ذبح کرو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، وَأَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ وَاقِفٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ إِذْ وَقَعَ مِنْ رَاحِلَتِهِ، قَالَ أَيُّوبُ: فَأَوْقَصَتْهُ، أَوَ قَالَ: فَأَقْعَصَتْهُ، وَقَالَ عَمْرٌو: فَوَقَصَتْهُ، فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا تُحَنِّطُوهُ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ "، قَالَ أَيُّوبُ: " فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا "، وَقَالَ عَمْرٌو: " فَإِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي "،
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ نے وہی مضمون اوپر کا بیان کر کے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سر منڈا ڈالو اور ایک ٹوکرا غلہ چھ مسکیینوں کو بانٹ دو۔“ اور ٹوکرا تین صاع کا ہے (اور صاع کی تحقیق کتاب الزکوٰۃ میں گزری ہے) یا تین روزے رکھو یا ایک قربانی کرو (ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے کہ ایک بکری ذبح کرو)۔
وحَدَّثَنِيهِ عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، قَالَ: نُبِّئْتُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا كَانَ وَاقِفًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَذَكَرَ نَحْوَ مَا ذَكَرَ حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ.
سیدنا کعب رضی اللہ عنہ کے پاس عبداللہ بن معقل بیٹھے اور کعب مسجد میں تھے اور یہ آیت بیان کی «فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ» (۲/البقرۃ: ۱۹۶) تو کہا: یہ میرے لیے اتری ہے، پھر سارا قصہ بیان کیا جو کئی بار گزرا آخر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزے تین دن کے یا کھانا چھ مسکینوں کا ہر مسکین کو نصف صاع۔“ پھر کہا کعب نے یہ آیت اتری ہے خاص میرے لیے اور (باعتبار لفظ کے) عام ہے تم سب کے لیے۔
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ حَرَامًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَّ مِنْ بَعِيرِهِ، فَوُقِصَ وَقْصًا فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَأَلْبِسُوهُ ثَوْبَيْهِ وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُلَبِّي "،
اس حد یث کا ترجمہ و مفہوم کچھ کمی و بیشی کے ساتھ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ أَخْبَرَهُ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَقْبَلَ رَجُلٌ حَرَامٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا "، وَزَادَ لَمْ يُسَمِّ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ حَيْثُ خَرَّ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے مکہ کی راہ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام باند ھے ہوۓ تھے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا أَوْقَصَتْهُ رَاحِلَتُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ وَلَا وَجْهَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّيًا ".
سیدنا ابن بحینہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے مکہ کی راہ میں اپنے سر کے بیچ میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحْرِمًا، فَوَقَصَتْهُ نَاقَتُهُ فَمَاتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تَمَسُّوهُ بِطِيبٍ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّدًا ".
وہب کے بیٹے نبیہ نے کہا کہ ہم نکلے ابان بن عثمان کے ساتھ اور جب ملل میں پہنچے(نام ہے ایک موضع کا کہ مدینہ سے اٹھائیس میل ہے مکہ کی راہ میں) تو عمر بن عبیداللہ کی آنکھیں دکھنے لگیں پھر جب روحاء میں آئے بہت درد ہوا تو ابان بن عثمان سے کہلا بھیجا انہوں نے کہا کہ ایلوے کا لیپ کرو اس لیے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب مرد کی آنکھیں دکھنے لگیں اور وہ احرام باندھے ہوئے ہو تو آپ نے فرمایا کہ ان پر ایلوے کا لیپ کر لے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَجُلًا وَقَصَهُ بَعِيرُهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنْ يُغْسَلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَلَا يُمَسَّ طِيبًا، وَلَا يُخَمَّرَ رَأْسُهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّدًا ".
نبیہ نے کہا: عمر بن عبید اللہ کی آنکھیں دکھیں اور سرمہ لگانا چاہا تو ابان نے منع کیا اور صبر کے لگانے کو بتایا اور روایت کی سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافعٍ ، قَالَ ابْنُ نَافِعٍ: أَخْبَرَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا بِشْرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يُحَدِّثُ: " أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَوَقَعَ مِنْ نَاقَتِهِ فَأَقْعَصَتْهُ فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُغْسَلَ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَأَنْ يُكَفَّنَ فِي ثَوْبَيْنِ، وَلَا يُمَسَّ طِيبًا، خَارِجٌ رَأْسُهُ "، قَالَ شُعْبَةُ: ثُمَّ حَدَّثَنِي بِهِ بَعْدَ ذَلِكَ: " خَارِجٌ رَأْسُهُ وَوَجْهُهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُلَبِّدًا ".
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ میں تکرار ہوئی ابواء میں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: محرم سر دھوئے اور مسور نے کہا: نہیں تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ کے پاس مجھے بھیجا کہ ان سے پوچھیں تو میں نے ان کو پایا کہ وہ کنوئیں کی دو لکڑیوں کے بیچ میں نہا رہے تھے اور وہ ایک کپڑے کی آڑ میں تھے اور میں نے ان سے سلام علیک کی اور انہوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے کہا کہ میں عبداللہ بن حنین ہوں اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ہے کہ میں پوچھوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احرام میں کیسے سر دھوتے تھے؟ پس سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ کپڑے پر رکھے اور سر جھکایا یہاں تک کہ مجھے نظر آیا اور اس آدمی سے کہا جو ان پر پانی ڈالتا تھا کہ ڈالو پھر وہ اپنے سر کو ہلاتے تھے اور اپنے ہاتھ سے ملتے تھے آگے اور پیچھے، پھر کہا میں نے ایسے ہی دیکھا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ ، عَنْ زُهَيْرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَقَصَتْ رَجُلًا رَاحِلَتُهُ وَهُوَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَأَنْ يَكْشِفُوا وَجْهَهُ، حَسِبْتُهُ قَالَ: وَرَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَهُوَ يُهِلُّ ".
زید بن اسلم نے اس اسناد سے یہی روایت کی اور کہا کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نے اپنے دونوں ہاتھ پھیرے اپنے سارے سر پر آگے اور پیچھے اور سیدنا مسور رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میں آج سے آپ سے تکرار نہ کروں گا۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَوَقَصَتْهُ نَاقَتُهُ فَمَاتَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلُوهُ وَلَا تُقَرِّبُوهُ طِيبًا، وَلَا تُغَطُّوا وَجْهَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يُلَبِّي ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ، فَقَالَ لَهَا: " أَرَدْتِ الْحَجَّ؟ "، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَجِدُنِي إِلَّا وَجِعَةً، فَقَالَ لَهَا: " حُجِّي وَاشْتَرِطِي، وَقُولِي: اللَّهُمَّ مَحِلِّي حَيْثُ حَبَسْتَنِي "، وَكَانَتْ تَحْتَ الْمِقْدَادِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ضباعہ بنت زبیر کے پاس اور فرمایا: ”کہ تم نے ارادہ کیا ہے حج کا؟“ انہوں نے کہا کہ ہاں قسم ہے اللہ کی اور میں اکثر بیمار ہو جاتی ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ حج کرو اور شرط کرو اور یوں کہو کہ اے اللہ! احرام کھولنا میرا وہیں ہے جہاں تو مجھے روک دے۔“ اور وہ مقداد کے نکاح میں تھیں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضُبَاعَةَ بِنْتِ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ وَأَنَا شَاكِيَةٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُجِّي وَاشْتَرِطِي أَنَّ مَحِلِّي حَيْثُ حَبَسْتَنِي "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہوا اس میں ضباعہ نے عرض کی کہ میں حج کا ارادہ کرتی ہوں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِثْلَهُ.
وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، وَأَبُو عَاصِمٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا ،وَعِكْرِمَةَ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي امْرَأَةٌ ثَقِيلَةٌ وَإِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟، قَالَ: " أَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَاشْتَرِطِي أَنَّ مَحِلِّي حَيْثُ تَحْبِسُنِي "، قَالَ: فَأَدْرَكَتْ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے وہی مضمون روایت کیا اس میں ہے کہ میں بھاری بوجھل ہوں اور آخر میں یہ ہے کہ انہوں نے حج پا لیا احرام کھولنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَعِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ ضُبَاعَةَ أَرَادَتِ الْحَجَّ فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تَشْتَرِطَ، فَفَعَلَتْ ذَلِكَ عَنْ أَمْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنمہا نے کہا کہ ضباعہ رضی اللہ عنہا نے حج کا ارادہ کیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ان کو کہ اپنے احرام میں شرط کر لیں اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ایسا ہی کیا۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَأَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ خِرَاشٍ ، قَالَ إِسْحَاق أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ وَهُوَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي مَعْروفٍ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِضُبَاعَةَ: " حُجِّي وَاشْتَرِطِي أَنَّ مَحِلِّي حَيْثُ تَحْبِسُنِي "، وَفِي رِوَايَةِ إِسْحَاق: أَمَرَ ضُبَاعَةَ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اسحاق کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ضباعہ کو حکم دیا۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ كلهم، عَنْ عَبْدَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " نُفِسَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ بِمُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ بِالشَّجَرَةِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ يَأْمُرُهَا، أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نفاس ہوا، سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیٹی عمیس کو محمد بن ابوبکر کے پیدا ہونے کا ذوالحلیفہ کے سفر میں، سو حکم کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہ ان سے کہیں کہ نہائیں اور لبیک پکاریں۔
حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا جَرِيرُ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فِي حَدِيثِ أَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ حِينَ نُفِسَتْ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَأَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ وَتُهِلَّ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْنَا بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهِلَّ بِالْحَجِّ مَعَ الْعُمْرَةِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَقَدِمْتُ مَكَّةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَلَا بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ، وَدَعِي الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا قَضَيْنَا الْحَجَّ، أَرْسَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ إِلَى التَّنْعِيمِ فَاعْتَمَرْتُ، فَقَالَ: " هَذِهِ مَكَانُ عُمْرَتِكِ "، فَطَافَ الَّذِينَ أَهَلُّوا بِالْعُمْرَةِ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلُّوا، ثُمَّ طَافُوا طَوَافًا آخَرَ بَعْدَ أَنْ رَجَعُوا مِنْ مِنًى لِحَجِّهِمْ، وَأَمَّا الَّذِينَ كَانُوا جَمَعُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّمَا طَافُوا طَوَافًا وَاحِدًا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع کے سال میں اور لبیک پکاری ہم نے عمرہ کی۔ پھر فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جس کے پاس ہدی ہے وہ حج اور عمرہ دونوں کا لبیک پکارے اور بیچ میں احرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو کر حلال ہو۔“ فرمایا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ پھر جب میں مکہ کو آئی تو حائضہ تھی اور نہ طواف کیا بیت اللہ کا، نہ صفا مروہ پھری اور اس کی شکایت کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے سر کے بال کھول ڈالو اور کنگھی کرو اور حج کا احرام باندھ لو اور عمرہ چھوڑ دو۔“ فرماتی ہیں کہ پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر جب ہم حج سے فارغ ہوئے بھیجا مجھ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تنعیم کی طرف اور میں نے وہاں سے عمرہ کیا اور فرمایا: ”یہ تمہارے عمرہ کی جگہ ہے۔“ پھر طواف کیا ان لوگوں نے کہ اہلال کیا تھا عمرہ کا بیت اللہ کے گرد اور پھرے صفا اور مروہ پر پھر احرام کھول ڈالا پھر طواف کیا دوبارہ۔ اس کے بعد کہ لوٹ کر آئیں منیٰ سے حج کر کے اور جن لوگوں نے کہ حج اور عمرہ کو جمع کیا تھا (یعنی قارن تھے) انہوں نے ایک ہی طواف کیا (عمرہ و حج دونوں کی طرف سے)۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ، حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ، وَلَمْ يُهْدِ فَلْيَحْلِلْ، وَمَنْ أَحْرَمَ بِعُمْرَةٍ وَأَهْدَى، فَلَا يَحِلُّ حَتَّى يَنْحَرَ هَدْيَهُ، وَمَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ فَلْيُتِمَّ حَجَّهُ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَحِضْتُ فَلَمْ أَزَلْ حَائِضًا حَتَّى كَانَ يَوْمُ عَرَفَةَ وَلَمْ أُهْلِلْ إِلَّا بِعُمْرَةٍ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْ أَنْقُضَ رَأْسِي وَأَمْتَشِطَ، وَأُهِلَّ بِحَجٍّ وَأَتْرُكَ الْعُمْرَةَ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ ذَلِكَ حَتَّى إِذَا قَضَيْتُ حَجَّتِي، بَعَثَ مَعِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، وَأَمَرَنِي أَنْ أَعْتَمِرَ مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي، الَّتِي أَدْرَكَنِي الْحَجُّ وَلَمْ أَحْلِلْ مِنْهَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع میں اور کسی نے عمرہ کا، کسی نے حج کا اہلال کیا جب مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے عمرہ کا اہلال کیا اور قربانی نہیں لایا وہ احرام کھول ڈالے اور جس نے عمرہ کا احرام کیا اور قربانی لایا وہ نہ کھولے جب تک قربانی نحر نہ کر لے اور جس نے حج کا اہلال کیا وہ حج پورا کرے۔“ سيده عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے حیض ہو گیا اور میں عرفہ کے دن تک حائضہ رہی اور میں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا پھر مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا: ”چوٹی کھول ڈالو، کنگھی کرو اور حج کا اہلال کرو عمرہ چھوڑ دو۔“ میں نے ایسا ہی کیا جب حج کر چکے تو میرے ساتھ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ میں تنعیم سے عمرہ لاؤں وہ عمرہ جس کو میں نے پورا نہیں کیا تھا اور حج کا احرام باندھ لیا تھا اس کا احرام کھولنے کے قبل۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ وَلَمْ أَكُنْ سُقْتُ الْهَدْيَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيُهْلِلْ بِالْحَجِّ مَعَ عُمْرَتِهِ، ثُمَّ لَا يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا "، قَالَتْ: فَحِضْتُ فَلَمَّا دَخَلَتْ لَيْلَةُ عَرَفَةَ، قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: إِنِّي كُنْتُ أَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، فَكَيْفَ أَصْنَعُ بِحَجَّتِي؟، قَالَ: " انْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي، وَأَمْسِكِي عَنِ الْعُمْرَةِ وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَضَيْتُ حَجَّتِي أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ فَأَرْدَفَنِي، فَأَعْمَرَنِي مِنَ التَّنْعِيمِ مَكَانَ عُمْرَتِي الَّتِي أَمْسَكْتُ عَنْهَا.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نکلے ہم حجتہ الواداع میں اور میں نے عمرہ کا اہلال کیا اور ہدی نہیں لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ حج و عمرہ دونوں کا اہلال کرے اور احرام نہ کھولے جب تک دونوں سے فارغ نہ ہو۔“ اور میں حائضہ ہو گئی پھر جب شب عرفہ ہوئی تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا تو اب حج کیوں کر کروں؟ فرمایا: ”سر کھول ڈالو، کنگھی کرو عمرہ کے افعال سے باز رہو، حج کا اہلال کرو۔“ پھر جب میں حج کر چکی، عبدالرحمٰن کو حکم فرمایا وہ مجھے پیچھے بٹھا لے گئے یعنی اونٹ پر اور عمرہ کروا لائے اس عمرہ کی جگہ جس کی بجا آوری افعال سے میں باز رہی تھی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِحَجٍّ فَلْيُهِلَّ، وَمَنْ أَرَادَ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ "، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ، وَأَهَلَّ بِهِ نَاسٌ مَعَهُ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِالْعُمْرَةِ وَالْحَجِّ، وَأَهَلَّ نَاسٌ بِعُمْرَةٍ، وَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہے حج و عمرہ دونوں کا اہلال کرے جو چاہے حج کا جو چاہے عمرہ کا۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا اہلال کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور لوگوں نے بھی اور بعض نے حج و عمرہ دونوں کا اور بعض نے فقط عمرہ کا اور میں انہی میں تھی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ، فَلَوْلَا أَنِّي أَهْدَيْتُ لَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ "، قَالَتْ: فَكَانَ مِنَ الْقَوْمِ مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، قَالَتْ: فَكُنْتُ أَنَا مِمَّنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَخَرَجْنَا حَتَّى قَدِمْنَا مَكَّةَ، فَأَدْرَكَنِي يَوْمُ عَرَفَةَ وَأَنَا حَائِضٌ، لَمْ أَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِي فَشَكَوْتُ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " دَعِي عُمْرَتَكِ، وَانْقُضِي رَأْسَكِ وَامْتَشِطِي وَأَهِلِّي بِالْحَجِّ "، قَالَتْ: فَفَعَلْتُ فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، وَقَدْ قَضَى اللَّهُ حَجَّنَا، أَرْسَلَ مَعِي عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي وَخَرَجَ بِي إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ فَقَضَى اللَّهُ حَجَّنَا وَعُمْرَتَنَا، وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صَدَقَةٌ وَلَا صَوْمٌ ،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: نکلے ہم حجتہ الوادع میں ہلال ذی الحجہ کے قریب اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ارادہ کرے عمرہ کا اہلال کرے اور اگر میں ہدی نہ کرتا تو عمرہ ہی کا اہلال کرتا۔“ اور کسی نے عمرہ کا، کسی نے حج کا اہلال کیا اور میں انہی میں تھی جنہوں نے عمرہ کا اہلال کیا تھا پھر جب مکہ آئے اور عرفہ کا دن ہوا میں حائضہ ہو گئی اور ابھی میں نے عمرہ سے احرام نہیں کھولا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عمرہ چھوڑ دو اور حج کا اہلال کرو۔“ پھر میں نے ایسا ہی کیا، پھر جب شب محصب ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمارا حج پورا کیا۔ میرے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو بھیجا انہوں نے مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور وہ مجھے تنعیم لے گئے اور میں نے اہلال عمرہ کا کیا اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے حج اور عمرہ دونوں پورے کیے اور نہ اس میں قربانی واجب ہوئی، نہ صدقہ، نہ روزہ۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُوَافِينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، لَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يُهِلَّ بِعُمْرَةٍ فَلْيُهِلَّ بِعُمْرَةٍ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبْدَةَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَافِينَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ، مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجَّةٍ، فَكُنْتُ فِيمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمَا، وقَالَ فِيهِ: قَالَ عُرْوَةُ فِي ذَلِكَ: إِنَّهُ قَضَى اللَّهُ حَجَّهَا وَعُمْرَتَهَا، قَالَ هِشَامٌ: وَلَمْ يَكُنْ فِي ذَلِكَ هَدْيٌ وَلَا صِيَامٌ وَلَا صَدَقَةٌ.
اس حدیث کا مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔ عروہ کی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حج پورا کیا اور ہشام کی روایت میں ہے کہ اس میں کوئی قربانی، روزہ یا صدقہ واجب نہیں ہوا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ، وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلَّ، وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ ".
وہی مضمون ہے آخر میں یہ ہے کہ جس نے حج کا احرام باندھا تھا یا حج و عمرہ دونوں کا انہوں نے احرام نہیں کھولا مگر نحر کا دن ہوا (یعنی دسویں تاریخ ذوالحجہ کی)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ أَوْ قَرِيبًا مِنْهَا حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " أَنَفِسْتِ " يَعْنِي الْحَيْضَةَ، قَالَتْ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " إِنَّ هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاقْضِي مَا يَقْضِي الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَغْتَسِلِي "، قَالَتْ: وَضَحَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ بِالْبَقَرِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہم نکلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور خیال کرتے تھے مگر حج کا (اس لیے عمرہ، ایام حج میں برا جانتے تھے جہالت کے دونوں میں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیال کو مٹایا) جب سرف میں آئی میں حائضہ ہو گئی اور رونے لگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر پوچھا: ”کیا تم کو حیض ہوا ہے؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو آدم کی بیٹیوں کے لیے اللہ نے لکھ دیا ہے سو اب تم حج کے کام کرو سوائے طواف کے کہ وہ غسل کے بعد کرنا۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے قربانی کی گائے کی۔
حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا نَذْكُرُ إِلَّا الْحَجَّ حَتَّى جِئْنَا سَرِفَ، فَطَمِثْتُ فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ خَرَجْتُ الْعَامَ، قَالَ: " مَا لَكِ لَعَلَّكِ نَفِسْتِ "، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " هَذَا شَيْءٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، افْعَلِي مَا يَفْعَلُ الْحَاجُّ، غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفِي بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرِي "، قَالَتْ: فَلَمَّا قَدِمْتُ مَكَّةَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ: " اجْعَلُوهَا عُمْرَةً "، فَأَحَلَّ النَّاسُ إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ، قَالَتْ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ طَهَرْتُ، فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَضْتُ، قَالَتْ: فَأُتِيَنَا بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟، فَقَالُوا: أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ الْبَقَرَ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِحَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ وَأَرْجِعُ بِحَجَّةٍ، قَالَتْ: " فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْدَفَنِي عَلَى جَمَلِهِ "، قَالَتْ: فَإِنِّي لَأَذْكُرُ وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ، أَنْعَسُ فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ، حَتَّى جِئْنَا إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهْلَلْتُ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ جَزَاءً بِعُمْرَةِ النَّاسِ الَّتِي اعْتَمَرُوا،
ام المؤمنین مبراۃ من فوق السماء سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں خیال کرتے تھے ہم مگر حج کا، پھر جب سرف میں آئی میں حائضہ ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور میں رو رہی تھی آپ نے پوچھا: ”تم کیوں رو رہی ہو۔“ میں نے عرض کیا کہ کاش اس سال نہ آتی آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم کو حیض ہوا۔“ میں نے عرض کیا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بلا تو اللہ پاک نے آدم کی سب لڑکیوں کے لیے لکھی ہے۔ اب تم وہی کرو جو حاجی کرتا ہے بجز اس کے کہ طواف نہ کرو بیت اللہ کا جب تک پاک نہ ہو جاؤ۔“ فرماتی ہیں کہ پھر جب ہم مکہ میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا: ”کہ اس احرام کو عمرہ کر ڈالو۔“ سو لوگوں نے احرام کھول ڈالا(یعنی عمرہ کر کے) مگر جس کے ساتھ ہدی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی اور سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور مالداروں کے ساتھ بھی پھر احرام باندھا انہوں نے (یعنی جنہوں نے کھول ڈالا تھا) جب چلے یعنی حج کو فرمایا سيده عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب دن ہوا نحر کا تو میں پاک ہوئی اور مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا سو میں نے طواف افاضہ کیا اور ہمارے پاس گائے کا گوشت آیا میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں رضی اللہ عنہن کی طرف سے گائے کی ہے پھر جب شب محصب ہوئی میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگ حج اور عمرہ کر کے لوٹتے ہیں اور میں صرف حج کر کے تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو انہوں نے مجھے اپنے اونٹ پر پیچھے بٹھا لیا اور فرماتی ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے اور میں ان دنوں کمسن لڑکی تھی اور اونگھ جاتی تھی اور میرے منہ میں کجاوہ کے پیچھے کی لکڑی لگ جاتی تھی یہاں تک کہ تنعیم پہنچے اور وہاں سے میں نے عمرہ کا احرام باندھا اس عمرہ کے بدلے میں جو اور لوگوں نے کیا تھا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو أَيُّوبَ الْغَيْلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَبَّيْنَا بِالْحَجِّ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ حِضْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ الْمَاجِشُونِ، غَيْرَ أَنَّ حَمَّادًا لَيْسَ فِي حَدِيثِهِ: فَكَانَ الْهَدْيُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَذَوِي الْيَسَارَةِ، ثُمَّ أَهَلُّوا حِينَ رَاحُوا، وَلَا قَوْلُهَا: وَأَنَا جَارِيَةٌ حَدِيثَةُ السِّنِّ أَنْعَسُ، فَيُصِيبُ وَجْهِي مُؤْخِرَةَ الرَّحْلِ.
اس سند سے وہی مضمون مروى ہوا مگر اس میں یہ نہیں ہے کہ ہدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور مالداروں کے ساتھ بھی پھر ان لوگوں نے اہلال کیا جب چلے اور نہ یہ ذکر ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ہو کہ میں کم سن لڑکی تھی اونگھتی تھی اور میرے منہ میں کجاوے کی لکڑی لگ جاتی تھی۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ ، حَدَّثَنِي خَالِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْرَدَ الْحَجَّ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افراد کیا حج کا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَفِي حُرُمِ الْحَجِّ وَلَيَالِي الْحَجِّ، حَتَّى نَزَلْنَا بِسَرِفَ فَخَرَجَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ مِنْكُمْ هَدْيٌ، فَأَحَبَّ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَفْعَلْ، وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلَا "، فَمِنْهُمُ الْآخِذُ بِهَا وَالتَّارِكُ لَهَا مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، فَأَمَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ وَمَعَ رِجَالٍ مِنْ أَصْحَابِهِ لَهُمْ قُوَّةٌ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا أَبْكِي، فَقَالَ: " مَا يُبْكِيكِ "، قُلْتُ سَمِعْتُ كَلَامَكَ مَعَ أَصْحَابِكَ، فَسَمِعْتُ بِالْعُمْرَةِ، قَالَ: " وَمَا لَكِ؟ "، قُلْتُ: لَا أُصَلِّي، قَالَ ": " فَلَا يَضُرُّكِ فَكُونِي فِي حَجِّكِ، فَعَسَى اللَّهُ أَنْ يَرْزُقَكِيهَا، وَإِنَّمَا أَنْتِ مِنْ بَنَاتِ آدَمَ، كَتَبَ اللَّهُ عَلَيْكِ مَا كَتَبَ عَلَيْهِنَّ "، قَالَتْ: فَخَرَجْتُ فِي حَجَّتِي حَتَّى نَزَلْنَا مِنًى فَتَطَهَّرْتُ، ثُمَّ طُفْنَا بِالْبَيْتِ، وَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُحَصَّبَ، فَدَعَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: " اخْرُجْ بِأُخْتِكَ مِنَ الْحَرَمِ فَلْتُهِلَّ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ لِتَطُفْ بِالْبَيْتِ فَإِنِّي أَنْتَظِرُكُمَا هَا هُنَا "، قَالَتْ: فَخَرَجْنَا فَأَهْلَلْتُ، ثُمَّ طُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَجِئْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ، فَقَالَ: " هَلْ فَرَغْتِ؟ "، قُلْتُ: نَعَمْ، فَآذَنَ فِي أَصْحَابِهِ بِالرَّحِيلِ، فَخَرَجَ فَمَرَّ بِالْبَيْتِ فَطَافَ بِهِ قَبْلَ صَلَاةِ الصُّبْحِ ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الْمَدِينَةِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکارتے ہوئے حج کی حج کے مہینوں میں اوقات و مواضع حج میں (یا ممنوعات شرعیہ حج سے بچتے ہوئے) اور حج کی راتوں میں (مراد اس سے یہ قول ہے اللہ تعالیٰ کا«الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ» (۲-البقرة:۱۹۷) اور امام شافعی اور جماہیر علماء رحمہ اللہ علیہم کے نزدیک صحابہ و تابعین سے اور اسلاف صالحین سے حج کے مہینے شوال اور ذیقعدہ اور دس راتیں ہیں ذی الحجہ کی کہ تمام ہوتی ہیں نحر کی رات کی صبح تک یعنی دسویں تاریخ کی صبح تک اور امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے اور مشہور روایت مالک رحمہ اللہ کی یہ ہے کہ وہ شوال اور ذیقعدہ اور ذی الحجہ کا سارا مہینہ ہے اور یہی مروی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور مشہور روایت ان دونوں کی وہی ہے جو ہم نے اوپر جماہیر سے نقل کی) یہاں تک کہ سرف میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلماصحاب کی طرف نکلے اور فرمایا کہ: ”جس کے پاس ہدی نہ ہو تو میرے نزدیک بہتر ہے کہ وہ اس احرام کو عمرہ کر لے اور جس کے ساتھ ہدی ہو وہ نہ کرے۔“ سو بعض لوگوں نے اس پر عمل کیا اور بعضوں نے نہیں (اس لیے کہ امر و جوب کے طور پر نہ تھا بلکہ استحباب کے طور پر تھا) حالانکہ ان کے ساتھ ہدی نہ تھی (مگر تاہم وہ احرام حج ہی کا باندھے رہے اور نیت حج ہی کی رہی) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو ہدی تھی اور ان لوگوں کے ساتھ بھی جن کو طاقت تھی ہدی کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں رو رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم روتی کیوں ہو؟“ میں نے عرض کیا کہ آپ نے جو یاروں سے فرمایا میں نے سنا کہ آپ نے عمرہ کا حکم دیا (اور میں اس کی بجا آوری سے بہ سبب حیض کے مجبور ہوں)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیوں؟“ میں نے عرض کی کہ میں نماز نہیں پڑھتی۔(یہاں سے معلوم ہوا کہ حائضہ کو بے نمازی آ گئی بولنا مستحب ہے کہ اس میں حیا اور تہذیب ہے اور یہ اصطلاح گویا اسی حدیث سے نکلی ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کیا نقصان ہے؟ تم حج میں مشغول رہو (یعنی ابھی افعال عمرہ میں تاخیر کرو اگرچہ احرام عمرہ کا ہے) تو اللہ سے امید ہے کہ تم کو وہ بھی عنایت فرما دے اور بات تو یہ ہے کہ آخر تم آدم کی اولاد ہو اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر بھی لکھا ہے جو ان سب پر لکھا ہے۔“ (اس سے معلوم ہوا کہ تخصیص حیض اور ابتدا اس کی بنی اسرائیل سے باطل ہے) پھر فرماتی ہیں کہ میں حج میں نکلی اور ہم منٰی میں اترے اور میں پاک ہوئی اور طواف کیا بیت اللہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محصب میں اترے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا ”کہ اپنی ہمشیرہ کو حرم سے باہر لے جاؤ اور وہ عمرہ کا احرام باندھے۔ (اس سے استدلال کیا ہے ان لوگوں نے جو اس بات کے قائل ہیں کہ مکہ والا جب عمرہ کرے تو حل میں یعنی حرم سے باہر جا کر احرام باندھے اور روا نہیں ہے کہ حرم ہی سے احرام باندھ لے اور اگر اس نے حرم ہی میں احرام باندھا اور پھر حل میں گیا طواف سے پہلے تو بھی کافی ہے اور اس پر دم واجب نہیں اور اگر حرم میں احرام باندھ کر بھی حل میں نہ نکلا اور طواف و سعی اور حلق کیا تو اس میں دو قول ہیں: ایک یہ کہ عمرہ اس کا صحیح نہیں جب تک کہ حل کی طرف نہ نکلے پھر طواف و سعی کرے اور حلق اور دوسرا یہ ہے کہ عمرہ صحیح ہے مگر اس کا دم لازم آتا ہے یعنی ایک بکری۔ اس لیے کہ اس نے میقات کو ترک کیا اور علما نے کہا ہے کہ واجب ہے حل کی طرف نکلنا تاکہ نسک اس کا حل و حرم دونوں میں ہو جائے جیسے حاجی دونوں میں جاتا ہے اور عرفات میں وقوف کرتا ہے اور وہ حل میں ہے پھر مکہ میں داخل ہوتا ہے طواف وغیرہ کے لیے یہ تفصیل ہے مذہب شافعی رحمہ اللہ کی اور یہی کہا ہے جمہور علما نے کہ واجب ہے نکلنا حل کی طرف عمرہ کے احرام کے لیے جدھر سے حل قریب ہو اور امام مالک رحمہ اللہ ہی کا مذہب ہے کہ احرام عمرہ کا تنعیم سے ہے اور معتمرین کی میقات وہی ہے۔ مگر یہ قول شاذ و مردود ہے اور جماہیر کا وہی قول ہے کہ تمام جوانب حل کے برابر ہیں خواہ تنعیم ہو یا اور کوئی) (نووی رحمه الله)اور طواف کرے بیت اللہ کا اور فرمایا آپ نے کہ میں تم دونوں کا منتظر ہوں یہیں۔“ سيده عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر دونوں نکلے اور میں نے لبیک پکاری اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا و مروہ کی سعی کی اور ہم آۓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی منزل میں تھے رات میں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”تم فارغ ہو گئیں۔“ میں نے عرض کی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب میں کوچ پکار دی اور نکلے اور بیت اللہ پر سے گزرے اور طواف کیا (یہ طواف وداع کیا) نماز صبح سے پہلے پھر مدینہ کو چلے۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " مِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، وَمِنَّا مَنْ قَرَنَ، وَمِنَّا مَنْ تَمَتَّعَ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بعض لوگوں نے ہم میں سے اہلال کیا تھا حج مفرد کا اور بعض نے قران کیا تھا اور بعض نے تمتع۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: جَاءَتْ عَائِشَةُ حَاجَّةً.
قاسم نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کا احرام باندھ کر آئی تھیں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَمْسٍ بَقِينَ مِنْ ذِي الْقَعْدَةِ، وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ، أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَدُخِلَ عَلَيْنَا يَوْمَ النَّحْرِ بِلَحْمِ بَقَرٍ، فَقُلْتُ: مَا هَذَا فَقِيلَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ "، قَالَ يَحْيَى: فَذَكَرْتُ هَذَا الْحَدِيثَ لِلْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، فَقَالَ: أَتَتْكَ وَاللَّهِ بِالْحَدِيثِ عَلَى وَجْهِهِ،
عمرہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ فرماتی تھیں ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جب پانچ تاریخیں ذی قعدہ کی باقی رہ گئیں اور ہم خیال حج ہی کا کرتے تھے یہاں تک کہ جب مکہ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ طواف و سعی کے بعد احرام کھول ڈالے۔ (یعنی حج کو عمرہ کر دے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر ہمارے پاس نحر کے دن (یعنی دسویں تاریخ) گائے کا گوشت آیا میں نے کہا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیبیوں کی طرف سے ذبح کیا ہے۔ پھر میں نے یہ حدیث قاسم بن محمد سے ذکر کی (یہ قول یحییٰ کا ہے) انہوں نے کہا: تم نے خوب برابر جیسے تھی ویسے ہی روایت کی۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَاسُفْيَانُ ، عَنْ يَحْيَى بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
یحییٰ سے بھی اس کی مثل حدیث موجود ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ . ح وَعَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ، قَالَ: " انْتَظِرِي فَإِذَا طَهَرْتِ فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي مِنْهُ "، ثُمَّ الْقَيْنَا عِنْدَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: أَظُنُّهُ، قَالَ: غَدًا وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَصَبِكِ، أَوَ قَالَ: نَفَقَتِكِ،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! لوگ مکہ سے لوٹتے ہیں دو عبادتوں کے ساتھ (یعنی حج اور عمرہ جداگانہ کے ساتھ)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ٹھہرو جب تم پاک ہو گئی تو تنعیم کو جانا اور لبیک پکارنا اور پھر ہم سے فلاں فلاں مقام میں ملنا، گمان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”کل کے روز اور ثواب تمہارے اس عمرہ کا تمہاری تکلیف اور خرچ کے موافق ہے۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، وَإِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: لَا أَعْرِفُ حَدِيثَ أَحَدِهِمَا مِنَ الْآخَرِ، أَنَّ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
ابن عون سے روایت ہے کہ ان دونوں کی حدیث مجھ پر خلط ملط ہو گئی حدیث یہ ہے کہ بے شک ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے اللہ کے رسول! لوگ لوٹتے ہیں دو عبادتوں کے ساتھ آگے وہی حدیث ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا نَرَى إِلَّا أَنَّهُ الْحَجُّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ تَطَوَّفْنَا بِالْبَيْتِ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ أَنْ يَحِلَّ، قَالَتْ: فَحَلَّ مَنْ لَمْ يَكُنْ سَاقَ الْهَدْيَ، وَنِسَاؤُهُ لَمْ يَسُقْنَ الْهَدْيَ فَأَحْلَلْنَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحِضْتُ فَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، فَلَمَّا كَانَتْ لَيْلَةُ الْحَصْبَةِ، قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ يَرْجِعُ النَّاسُ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ، وَأَرْجِعُ أَنَا بِحَجَّةٍ، قَالَ: " أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ لَيَالِيَ قَدِمْنَا مَكَّةَ؟ "، قَالَتْ: قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَاذْهَبِي مَعَ أَخِيكِ إِلَى التَّنْعِيمِ فَأَهِلِّي بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ مَوْعِدُكِ مَكَانَ كَذَا وَكَذَا "، قَالَتْ صَفِيَّةُ: مَا أُرَانِي إِلَّا حَابِسَتَكُمْ، قَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى أَوْ مَا كُنْتِ طُفْتِ يَوْمَ النَّحْرِ "، قَالَتْ: بَلَى، قَالَ: " لَا بَأْسَ انْفِرِي "، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُصْعِدٌ مِنْ مَكَّةَ وَأَنَا مُنْهَبِطَةٌ عَلَيْهَا، أَوْ أَنَا مُصْعِدَةٌ وَهُوَ مُنْهَبِطٌ مِنْهَا، وَقَالَ إِسْحَاق: مُتَهَبِّطَةٌ وَمُتَهَبِّطٌ،
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں اور سب لوگ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ہمارا حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہ تھا پھر جب سب لوگ مکہ میں آئے طواف کیا بیت اللہ کا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا کہ جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے غرض ان لوگوں نے کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں ہدی نہیں لائی تھیں سو انہوں نے بھی احرام کھول ڈالا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھے حیض ہوا اور میں نے طواف نہیں کیا پھر جب شب حصبہ ہوئی تو میں نے عرض کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ لوگ تو حج و عمرہ کر کے لوٹتے ہیں اور میں صرف حج کر کے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جن راتوں کو ہم مکہ آئے تھے تم نے طواف نہیں کیا تھا؟“ میں نے عرض کی کہ نہیں۔ فرمایا:”اچھا تم! اپنے بھائی کے ساتھ تنعیم جاؤ اور عمرہ کا احرام باندھو اور پھر ہمارے تمہارے ملنے کی فلاں جگہ ہے۔“ اتنے میں سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں خیال کرتی ہوں کہ شاید میں تم سب کو روکوں (یعنی مجھے بھی حیض عارض ہو) اور طواف وداع کے انتظار میں میرے لیے ٹھہرنا پڑے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نگوڑی سرمنڈی کیا تو نے نحر کے دن طواف نہیں کیا؟ (یعنی طواف افاضہ) انہوں نے عرض کی کیوں نہیں (اور یہ فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطور روز مرہ عرب کے اور بول چال کے تھا جیسے زبان میں مستعمل ہے نہ کہ بطریق بددعا کے اور نہ اس راہ سے کہ معنٰی اصلی اس کے مراد ہوں جیسے «تربت يداك» اور «قاتله الله» مستعمل ہے اور براہ بے تکلفی اور اختلاط کے تھا اور بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا نے یہ خیال فرمایا کہ شاید طواف وداع کے لیے ہم کو انتظار کرنا پڑے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کچھ مضائقہ نہیں کوچ کرو۔“ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: پھر ملے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلندی پر چڑھتے ہوئے مکہ سے اور میں اترتی تھی اس پر سے یا میں چڑھتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔
وحَدَّثَنَاه سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُلَبِّي، لَا نَذْكُرُ حَجًّا وَلَا عُمْرَةً "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ مَنْصُورٍ.
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکارتے ہوئے، نہ ارادہ خاص حج کا رکھتے تھے نہ خاص عمرہ کا اور بیان کی راوی نے باقی حدیث مثل روایت منصور کے جو اوپر گزری۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ غُنْدَرٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّهَا قَالَتْ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ أَوْ خَمْسٍ، فَدَخَلَ عَلَيَّ وَهُوَ غَضْبَانُ، فَقُلْتُ: مَنْ أَغْضَبَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ؟، قَالَ: " أَوَمَا شَعَرْتِ أَنِّي أَمَرْتُ النَّاسَ بِأَمْرٍ، فَإِذَا هُمْ يَتَرَدَّدُونَ "، قَالَ الْحَكَمُ: كَأَنَّهُمْ يَتَرَدَّدُونَ، أَحْسِبُ، " وَلَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، مَا سُقْتُ الْهَدْيَ مَعِي حَتَّى أَشْتَرِيَهُ، ثُمَّ أَحِلُّ كَمَا حَلُّوا "،
ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمذوالحجہ کی چوتھی یا پانچویں کو آئے اور میرے پاس تشریف لائے غصہ میں بھرے ہوئے تھے میں نے عرض کی آپ کو کس نے غصہ دلایا؟ اے اللہ کے رسول! اس کو اللہ تعالیٰ دوزخ میں ڈالے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نہیں جانتی ہو کہ میں نے لوگوں کو ایک کام کا حکم دیا ہے اور وہ تردد کرتے ہیں۔“ حکم (راوی) نے کہا کہ میں خیال کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گویا وہ تامل کرتے ہیں“ اور فرمایا: ”اگر میں پہلے سے جانتا ہوتا اپنے کام کو جو میں نے بعد میں جانا تو ہدی کو اپنے ساتھ نہ لاتا (اس قول سے معلوم ہوا کہ انیاء علیہم السلام کو علم غیب نہیں) اور یہاں مکہ میں خرید لیتا اور ان لوگوں نے جیسا احرام کھول ڈالا ہے ویسا ہی میں بھی کھول ڈالتا۔“
وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ ، عَنْ ذَكْوَانَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَرْبَعٍ أَوْ خَمْسٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ "، بِمِثْلِ حَدِيثِ غُنْدَرٍ، وَلَمْ يَذْكُرِ الشَّكَّ مِنَ الْحَكَمِ فِي قَوْلِهِ: يَتَرَدَّدُونَ.
وہی مضمون ہے مگر اس میں حکم راوی کا شک مذکور نہیں تامل کے ذکر میں۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ فَقَدِمَتْ وَلَمْ تَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَاضَتْ فَنَسَكَتِ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا وَقَدْ أَهَلَّتْ بِالْحَجِّ، فَقَالَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّفْرِ: " يَسَعُكِ طَوَافُكِ لِحَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ "، فَأَبَتْ، فَبَعَثَ بِهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِلَى التَّنْعِيمِ، فَاعْتَمَرَتْ بَعْدَ الْحَجِّ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ انہوں نے احرام باندھا عمرہ کا اور آئیں اور طواف نہیں کیا تھا کہ حائضہ ہو گئیں۔ پھر سب مناسک حج ادا کیے حج کا احرام باندھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منٰی سے کوچ کے دن کہ ”تمہارا طواف حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہو جائے گا۔“ انہوں نے اس بات سے اپنی خوشی ظاہر نہ کی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن کے ساتھ بھیج دیا تنعیم کو کہ بعد حج کے عمرہ لائیں۔
وحَدَّثَنِي حَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ نَافِعٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا حَاضَتْ بِسَرِفَ فَتَطَهَّرَتْ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجْزِئُ عَنْكِ طَوَافُكِ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ عَنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو حیض ہوا سرف (مقام کا نام ہے) میں اور طہارت کی انہوں نے (یعنی غسل کیا وقوف کے لیے) عرفہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو طواف تمہارا صفا اور مروہ کا حج اور عمرہ دونوں کو کافی ہے۔“ (طواف سے سعی مراد ہے)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ ، حَدَّثَتْنَا صَفِيَّةُ بِنْتُ شَيْبَةَ ، قَالَتْ: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: " يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَرْجِعُ النَّاسُ بِأَجْرَيْنِ وَأَرْجِعُ بِأَجْرٍ؟ فَأَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يَنْطَلِقَ بِهَا إِلَى التَّنْعِيمِ، قَالَتْ: فَأَرْدَفَنِي خَلْفَهُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ، قَالَتْ: فَجَعَلْتُ أَرْفَعُ خِمَارِي أَحْسُرُهُ عَنْ عُنُقِي، فَيَضْرِبُ رِجْلِي بِعِلَّةِ الرَّاحِلَةِ، قُلْتُ: لَهُ وَهَلْ تَرَى مِنْ أَحَدٍ؟، قَالَتْ: فَأَهْلَلْتُ بِعُمْرَةٍ، ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِالْحَصْبَةِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ یا رسول اللہ! لوگ دو ثواب لے کر لوٹتے ہیں اور میں ایک لے کر تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو کہ ان کو لے جاؤ تنعیم تک اور وہ مجھے لے گئے اور اپنے اونٹ پر لے گئے اور مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیا اور میں اپنی اوڑھنی سے اپنی گردن کھول دیتی تھی اور عبدالرحمٰن (اس خیال سے کہ بے پردگی کیوں کرتی ہے) میرے پیر پر مارتے تھے، اس ڈھب سے کہ کوئی جانے اونٹ کو مارتے ہیں اور میں ان سے کہتی تھی کہ یہاں تم کسی کو دیکھتے بھی ہو (یعنی یہاں کوئی نہیں ہے اس لیے میں نے اپنا سر کھول دیا ہے) پھر فرماتی ہیں کہ میں نے احرام باندھا عمرے کا اور پھر ہم لوٹ کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم حصبہ میں تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، أَخْبَرَهُ عَمْرُو بْنُ أَوْسٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَرَهُ أَنْ يُرْدِفَ عَائِشَةَ فَيُعْمِرَهَا مِنَ التَّنْعِيمِ ".
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی بکررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ان کو کہ اپنے پیچھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بٹھا کر لے جائیں اور تنعیم سے عمرہ لے آئیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ، حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ "، فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ: " مَا شَأْنُكِ؟ "، قَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ وَلَمْ أَحْلِلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ "، فَفَعَلَتْ وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ، حَتَّى إِذَا طَهَرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ قَالَ: " قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجِّكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا "، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ: " فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ "، وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آئے ہم احرام باندھے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج مفرد میں (شاید ان کا اور بعض صحابہ کا احرام ایسا ہی ہو اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم تو قارن تھے) اور آئیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا عمرہ کے احرام کے ساتھ یہاں تک کہ جب سرف میں پہنچے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حائضہ ہو گئیں۔ پھر جب ہم مکہ میں آئے طواف کیا کعبہ کا اور صفا اور مروہ کا اور حکم کیا ہم کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس کے ساتھ ہدی (قربانی) نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے ہم نے کہا: کیسا حلال ہونا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالکل حلال ہو جانا۔“ تو پھر ہم نے احرام بالکل کھول دیا۔ کہا راوی نے کہ پھر ہم پڑ گئے عورتوں کے پاس (یعنی دھڑلے سے جماع کرنے لگے) اور خوشبو لگائی اور کپڑے پہنے اور ہمارے اور عرفہ میں چار شب کا فرق باقی تھا۔ پھر ترویہ کے دن (یعنی آٹھویں تاریخ کی ذوالحجہ کی احرام باندھا یعنی حج کا) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس اور ان کو روتے ہوئے پایا۔ پوچھا: ”کیوں کیا حال ہے تمہارا؟“ انہوں نے عرض کی کہ میں حائضہ ہو گئی اور لوگ احرام کھول چکے اور میں نے نہ کھولا، نہ طواف کیا بیت اللہ کا اور لوگ اب حج کو چلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ایک چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کی سب لڑکیوں پر لکھ دی ہے سو تم غسل کرو (یعنی احرام کے لیے) اور احرام باندھو حج کا اور انہوں نے وہی کیا اور وقوف کیا وقوف کی جگہوں میں یہاں تک کہ جب طاہرہ ہوئیں تو طواف کیا بیت اللہ کا، صفا اور مروہ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا احرام پورا ہو گیا حج اور عمرہ دونوں کا۔“ تو انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اپنے دل میں ایک بات پاتی ہوں کہ میں نے طواف نہیں کیا جب تک حج سے فارغ نہ ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبدالرحمٰن! ان کو تنعیم میں لے جا کر عمرہ کرا لاؤ۔“ اور یہ معاملہ اس شب ہوا جب محصب میں ٹھہرے تھے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ حَدَّثَنَا وَقَالَ عبدَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا وَهِيَ تَبْكِي "، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ إِلَى آخِرِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ مَا قَبْلَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے اسی مضمون کی جو اوپر بیان ہوا لیکن اس میں «دَخَلَ النَّبِىُّ -صلى الله عليه وسلم- عَلَى عَائِشَةَ» سے اوپر کے الفاظ نہیں ہیں۔
وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاذٌ يَعْنِي ابْنَ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ مَطَرٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فِي حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ اللَّيْثِ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، قَالَ: " وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا سَهْلًا إِذَا هَوِيَتِ الشَّيْءَ تَابَعَهَا عَلَيْهِ، فَأَرْسَلَهَا مَعَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ فَأَهَلَّتْ بِعُمْرَةٍ مِنَ التَّنْعِيمِ "، قَالَ مَطَرٌ: قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ: فَكَانَتْ عَائِشَةُ إِذَا حَجَّتْ صَنَعَتْ كَمَا صَنَعَتْ مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ سیدہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج میں احرام عمرہ کا باندھا تھا اور حدیث روایت ہے مانند حدیث لیث کے اور اتنا زائد بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نرم دل تھے، جب ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کچھ فرمائش کرتی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مان لیتے تھے (یہ کمال اخلاق تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ اپنی بیبیوں کی خاطر داری فرماتے تھے اور ان کی فرمائشیں پوری کر دیتے تھے جب تک اللہ پاک کی نافرمانی نہ ہو اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خاطر تو سب سے زیادہ تھی اللہ پاک ان کا درجہ بلند کرے اعلیٰ علیین میں اور ان سے راضی ہو اور ہم کو ان کی کفش برداری میں قبول فرمائے آمین یا رب العالمین) غرض بھیج دیا ان کو عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اور وہ تنعیم سے عمرہ لائیں مطر جو راوی ہیں انہوں نے ابوالزبیر سے روایت کی کہ انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حج کرتی تھیں تو ویسا ہی کرتی تھیں جیسا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج میں کیا تھا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ مَعَنَا النِّسَاءُ وَالْوِلْدَانُ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالمَرْوَةِ، فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ "، قَالَ: قُلْنَا: أَيُّ الْحِلِّ؟، قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ؟ "، قَالَ: فَأَتَيْنَا النِّسَاءَ وَلَبِسْنَا الثِّيَابَ وَمَسِسْنَا الطِّيبَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ وَكَفَانَا الطَّوَافُ الْأَوَّلُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ، كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا لبیک پکارتے ہوئے ہمارے ساتھ عورتیں اور بچے بھی تھے، پھر جب مکہ آئے طواف کیا بیت اللہ کا اور سعی کی صفا اور مروہ کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا: ”جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے اور حلال ہو جائے۔“ ہم نے کہا: کیسا حلال ہونا؟ انہوں نے کہا: ”پورا۔“ پھر ہم عورتوں کے پاس آئے (یعنی جماع کیا) اور کپڑے پہنے اور خوشبو لگائی پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی۔ حج کی لبیک پکاری اور کفایت کر گئی ہم کو سعی صفا اور مروہ کی جو کہ پہلے کی تھی اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ شریک ہو جائیں اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَحْلَلْنَا أَنْ نُحْرِمَ إِذَا تَوَجَّهْنَا إِلَى مِنًى "، قَالَ: فَأَهْلَلْنَا مِنَ الْأَبْطَحِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: حکم کیا ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہم نے احرام کھول ڈالا کہ جب ہم منیٰ کو چلیں (یعنی آٹھویں تاریخ) تو احرام باندھ لیں تو لبیک پکاری ہم نے حج کی ابطح سے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: " لَمْ يَطُفْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَصْحَابُهُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا "، زَادَ فِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ: " طَوَافَهُ الْأَوَّلَ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ طواف نہیں کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے صفا اور مروہ میں مگر ایک بار۔ زیادہ کیا محمد بن بکر کی روایت میں کہ وہی طواف اول۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فِي نَاسٍ مَعِي، قَالَ: أَهْلَلْنَا أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ خَالِصًا وَحْدَهُ، قَالَ عَطَاءٌ قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صُبْحَ رَابِعَةٍ مَضَتْ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، فَأَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ " حِلُّوا وَأَصِيبُوا النِّسَاءَ "، قَالَ عَطَاءٌ: وَلَمْ يَعْزِمْ عَلَيْهِمْ وَلَكِنْ أَحَلَّهُنَّ لَهُمْ، فَقُلْنَا لَمَّا لَمْ يَكُنْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا خَمْسٌ، أَمَرَنَا أَنْ نُفْضِيَ إِلَى نِسَائِنَا، فَنَأْتِيَ عرَفَةَ تَقْطُرُ مَذَاكِيرُنَا الْمَنِيَّ، قَالَ: يَقُولُ جَابِرٌ: بِيَدِهِ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى قَوْلِهِ بِيَدِهِ يُحَرِّكُهَا، قَالَ: فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِينَا، فَقَالَ: " قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقُكُمْ وَأَبَرُّكُمْ وَلَوْلَا هَدْيِي لَحَلَلْتُ كَمَا تَحِلُّونَ، وَلَوِ اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، فَحِلُّوا "، فَحَلَلْنَا وَسَمِعْنَا وَأَطَعْنَا، قَالَ عَطَاءٌ: قَالَ جَابِرٌ: فَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنْ سِعَايَتِهِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: بِمَا أَهَلَّ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَأَهْدِ وَامْكُثْ حَرَامًا "، قَالَ: وَأَهْدَى لَهُ عَلِيٌّ هَدْيًا، فَقَالَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟، فَقَالَ: " لِأَبَدٍ ".
عطاء نے کہا: سنا میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور میرے ساتھ کئی شخص تھے کہ انہوں نے کہا کہ لبیک پکاری ہم سب اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فقط حج کی اور کہا عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے، پھر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم چوتھی ذوالحجہ کی صبح کو اور ہم کو حکم فرمایا کہ ہم احرام کھول ڈالیں۔ عطاء نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ احرام کھول ڈالو اور عورتوں کے پاس جاؤ۔“اور عطاء نے کہا: یہ حکم ان کو وجوب کے طور پر نہیں دیا بلکہ احرام کھولنا ان کو جائز کر دیا، پھر ہم نے کہا کہ اب عرفہ میں پانچ ہی دن باقی ہیں کہ حکم کیا ہم کو کہ ہم صحبت کریں اپنی عورتوں سے اور عرفات میں جائیں اس طرح سے کہ ہمارے آلتوں سے منی ٹپکتی ہو، کہا عطاء نے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے اور گویا کہ اب دیکھ رہا ہوں ان کے ہاتھ جیسے وہ ہلاتے تھے (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عذر کی راہ سے احرام کھولنے میں تامل کیا) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمہمارے بیچ میں کھڑے ہوئے اور فرمایا: تم بخوبی جان چکے ہو کہ میں تم سے زیادہ نیک ہوں (پھر میرے حکم بجا لانے میں کیا تامل ہے؟) اور اگر میرے ساتھ میری ہدی نہ ہوتی تو میں بھی احرام کھول ڈالتا جیسے تم کھول رہے ہو اور اگر مجھے پہلے سے یہ بات معلوم ہوتی جو بعد کو معلوم ہوئی تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا۔“ غرض پھر صحابہ رضی اللہ عنہم نے احرام کھول ڈالا اور ہم سب نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی اور دل سے مان لی۔ عطاء نے کہا کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر آئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ (اموال صدقات کی تحصیل لے کر جس کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھیجا تھا یمن کی طرف اور حقیقت میں یہ وہاں امیر ہو کر گئے تھے، نہ صدقات کی تحصیل کے لیے اور شاید عاملوں نے ان کے سپرد کر دئیے ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیں ورنہ اموال صدقات بنی ہاشم کو لینا روا نہیں) پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم نے کیا احرام باندھا؟“ انہوں نے عرض کی کہ جو اہلال ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا (یعنی میں نے لبیک میں یہی کہا کہ جو لبیک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو وہی میری ہے) کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”قربانی کرو اور محرم رہو۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدی لائے، سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ۔ اور سراقہ بن مالک بن جعشم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! کیا یہ حکم (یعنی حج کو فسخ کر دینا عمرہ کر کے) ہمارے اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے یہ امر جائز ہو گیا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہمیشہ کے لیے ہے۔“
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ أَمَرَنَا أَنْ نَحِلَّ وَنَجْعَلَهَا عُمْرَةً، فَكَبُرَ ذَلِكَ عَلَيْنَا وَضَاقَتْ بِهِ صُدُورُنَا، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا نَدْرِي أَشَيْءٌ بَلَغَهُ مِنَ السَّمَاءِ أَمْ شَيْءٌ مِنْ قِبَلِ النَّاسِ، فَقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ أَحِلُّوا، فَلَوْلَا الْهَدْيُ الَّذِي مَعِي، فَعَلْتُ كَمَا فَعَلْتُمْ "، قَالَ: فَأَحْلَلْنَا حَتَّى وَطِئْنَا النِّسَاءَ، وَفَعَلْنَا مَا يَفْعَلُ الْحَلَالُ، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ، وَجَعَلْنَا مَكَّةَ بِظَهْرٍ أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لبیک پکاری ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی، پھر جب ہم مکہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ احرام کھول ڈالیں اور اس احرام کو عمرہ کر ڈالیں (یعنی حج کو عمرہ کر کے فسخ کریں)اور یہ بات ہم پر گراں گزری اور ہمارے سینے اس سے تنگ ہوئے اور یہ بات نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی، پھر ہم نہیں جانتے کہ آیا ان کو کوئی حکم آسمان سے آیا یا کوئی بات لوگوں سے پہنچی۔ غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! احرام کھول ڈالو اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں بھی وہی کرتا جو تم نے کیا ہے۔“ (یعنی عمرہ کر کے حج کو فسخ کرتا اور احرام کھول ڈالتا) تب تو ہم نے احرام کھول ڈالا یہاں تک کہ صحبت کی ہم نے عورتوں سے اور سب کام کیے جو بغیر احرام والے کرتے ہیں(یعنی خوشبو لگائی، سئیے ہوئے کپڑے پہنے، جماع کیا) پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی اور مکہ سے ہم نے پیٹھ موڑی (یعنی منیٰ کو چلے) حج کا لبیک پکارا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ نَافِعٍ ، قَالَ: قَدِمْتُ مَكَّةَ مُتَمَتِّعًا بِعُمْرَةٍ قَبْلَ التَّرْوِيَةِ بِأَرْبَعَةِ أَيَّامٍ، فَقَالَ النَّاسُ: تَصِيرُ حَجَّتُكَ الْآنَ مَكِّيَّةً، فَدَخَلْتُ عَلَى عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ عَطَاءٌ: حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ سَاقَ الْهَدْيَ مَعَهُ، وَقَدْ أَهَلُّوا بِالْحَجِّ مُفْرَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحِلُّوا مِنْ إِحْرَامِكُمْ فَطُوفُوا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَقَصِّرُوا وَأَقِيمُوا حَلَالًا، حَتَّى إِذَا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ فَأَهِلُّوا بِالْحَجِّ، وَاجْعَلُوا الَّتِي قَدِمْتُمْ بِهَا مُتْعَةً "، قَالُوا: كَيْفَ نَجْعَلُهَا مُتْعَةً وَقَدْ سَمَّيْنَا الْحَجَّ؟، قَالَ: " افْعَلُوا مَا آمُرُكُمْ بِهِ، فَإِنِّي لَوْلَا أَنِّي سُقْتُ الْهَدْيَ، لَفَعَلْتُ مِثْلَ الَّذِي أَمَرْتُكُمْ بِهِ، وَلَكِنْ لَا يَحِلُّ مِنِّي حَرَامٌ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَفَعَلُوا ".
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ نے حج کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس سال کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہدی تھی (یعنی حجتہ الوداع میں اس لیے کہ ہجرت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی حج کیا ہے) اور بعض لوگوں نے صرف حج مفرد کا احرام باندھا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم احرام کھول ڈالو اور طواف کرو بیت اللہ کا اور سعی کرو صفا اور مروہ کی اور بال کم کرا لو اور حلال رہو پھر جب ترویہ کا دن ہو (یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی) تو لبیک پکارو حج کی اور تم جو احرام لے کر آئے ہو اس کو متعہ کر ڈالو۔“ (یعنی اگرچہ وہ احرام حج کا ہے مگر عمرہ کر کے کھول لو اور پھر حج کر لینا تو یہ متعہ ہو جائے گا) لوگوں نے عرض کی کہ ہم کیونکر اسے متعہ کریں۔ حالانکہ ہم نے نام لیا ہے حج کا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی کرو جس کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں اس لیے کہ میں اگر ہدی کو ساتھ نہ لاتا تو میں بھی ویسا ہی کرتا جیسا تم کو حکم دیتا ہوں مگر یہ کہ میرا احرام کھل نہیں سکتا جب تک کہ قربانی اپنے محل تک نہ پہنچ لے۔“ (یعنی ذبح نہ ہو لے) پھر لوگوں نے کیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرِ بْنِ رِبْعِيٍّ الْقَيْسِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً وَنَحِلَّ، قَالَ: وَكَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ فَلَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی لبیک پکارتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا ہم کو کہ ہم اس کو عمرہ کر ڈالیں اور احرام کھول لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قربانی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ نہ کر سکے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِالْمُتْعَةِ، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا. (حديث موقوف) قَالَ: قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، فَقَالَ: " عَلَى يَدَيَّ دَارَ الْحَدِيثُ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " فَلَمَّا قَامَ عُمَرُ ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ كَانَ يُحِلُّ لِرَسُولِهِ مَا شَاءَ بِمَا شَاءَ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ قَدْ نَزَلَ مَنَازِلَهُ فَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ كَمَا أَمَرَكُمُ اللَّهُ، وَأَبِتُّوا نِكَاحَ هَذِهِ النِّسَاءِ، فَلَنْ أُوتَى بِرَجُلٍ نَكَحَ امْرَأَةً إِلَى أَجَلٍ، إِلَّا رَجَمْتُهُ بِالْحِجَارَةِ "،
ابونضرہ نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو ہم کو حکم کرتے تھے متعہ کا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے اور میں نے اس کا ذکر کیا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے تو انہوں نے کہا: یہ حدیث تو میرے ہاتھ سے لوگوں میں پھیلی ہے اور ہم نے تمتع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔ پھر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلافت پر قائم ہوئے تو انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے جو چاہتا تھا حلال کر دیتا تھا جس سبب سے کہ وہ چاہتا تھا اور قرآن کا ہر ایک حکم اپنی اپنی جگہ میں اترا ہے تو پورا کرو تم حج اور عمرہ کو اللہ کے واسطے جیسا کہ تم کو اللہ پاک نے حکم دیا ہے اور قطعی اور دائمی ٹھہرا دو ہمیشہ کے لیے نکاح ان عورتوں کا (یعنی جن سے متعہ کیا گیا ہے یعنی ایک مدت معین کی شرط سے نکاح کیا گیا ہے) اور میرے پاس جو آئے گا ایسا کوئی شخص کہ اس نے نکاح کیا ہو گا ایک مدت معین تک تو میں اس کو ضرور پتھر سے ماروں گا۔
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: " فَافْصِلُوا حَجَّكُمْ مِنْ عُمْرَتِكُمْ، فَإِنَّهُ أَتَمُّ لِحَجِّكُمْ، وَأَتَمُّ لِعُمْرَتِكُمْ ".
قتادہ سے اسی اسناد سے یہی حدیث مروی ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: جدا کر دو حج کو اپنے عمرے سے اس لیے کہ اس میں حج بھی پورا ہوا اور تمہارا عمرہ بھی پورا ہوا (یعنی ہر ایک کو سفر میں الگ الگ بجا لاؤ)۔
وحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ ، وَقُتَيْبَةُ جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ خَلَفٌ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُجَاهِدًا يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقُولُ: لَبَّيْكَ بِالْحَجِّ فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ آئے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور ہم لبیک پکارتے تھے حج کی اور حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ہم اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ جَمِيعًا، عَنْ حَاتِمٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْمَدَنِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَسَأَلَ عَنِ الْقَوْمِ حَتَّى انْتَهَى إِلَيَّ، فَقُلْتُ أَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ فَأَهْوَى بِيَدِهِ إِلَى رَأْسِي، فَنَزَعَ زِرِّي الْأَعْلَى، ثُمَّ نَزَعَ زِرِّي الْأَسْفَلَ، ثُمَّ وَضَعَ كَفَّهُ بَيْنَ ثَدْيَيَّ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ غُلَامٌ شَابٌّ، فَقَالَ مَرْحَبًا بِكَ يَا ابْنَ أَخِي، سَلْ عَمَّا شِئْتَ، فَسَأَلْتُهُ وَهُوَ أَعْمَى وَحَضَرَ وَقْتُ الصَّلَاةِ، فَقَامَ فِي نِسَاجَةٍ مُلْتَحِفًا بِهَا كُلَّمَا وَضَعَهَا عَلَى مَنْكِبِهِ، رَجَعَ طَرَفَاهَا إِلَيْهِ مِنْ صِغَرِهَا وَرِدَاؤُهُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى الْمِشْجَبِ، فَصَلَّى بِنَا، فَقُلْتُ: " أَخْبِرْنِي عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بِيَدِهِ: فَعَقَدَ تِسْعًا، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَثَ تِسْعَ سِنِينَ لَمْ يَحُجَّ، ثُمَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فِي الْعَاشِرَةِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجٌّ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ بَشَرٌ كَثِيرٌ، كُلُّهُمْ يَلْتَمِسُ أَنْ يَأْتَمَّ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَيَعْمَلَ مِثْلَ عَمَلِهِ، فَخَرَجْنَا مَعَهُ حَتَّى أَتَيْنَا ذَا الْحُلَيْفَةِ فَوَلَدَتْ أَسْمَاءُ بِنْتُ عُمَيْسٍ مُحَمَّدَ بْنَ أَبِي بَكْرٍ، فَأَرْسَلَتْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَيْفَ أَصْنَعُ؟، قَالَ: " اغْتَسِلِي وَاسْتَثْفِرِي بِثَوْبٍ وَأَحْرِمِي "، فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ نَاقَتُهُ عَلَى الْبَيْدَاءِ نَظَرْتُ إِلَى مَدِّ بَصَرِي بَيْنَ يَدَيْهِ مِنْ رَاكِبٍ وَمَاشٍ، وَعَنْ يَمِينِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَعَنْ يَسَارِهِ مِثْلَ ذَلِكَ، وَمِنْ خَلْفِهِ مِثْلَ ذَلِكَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، وَعَلَيْهِ يَنْزِلُ الْقُرْآنُ وَهُوَ يَعْرِفُ تَأْوِيلَهُ وَمَا عَمِلَ بِهِ مِنْ شَيْءٍ عَمِلْنَا بِهِ، فَأَهَلَّ بِالتَّوْحِيدِ: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ، لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ، وَأَهَلَّ النَّاسُ بِهَذَا الَّذِي يُهِلُّونَ بِهِ فَلَمْ يَرُدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْهِمْ شَيْئًا مِنْهُ، وَلَزِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَلْبِيَتَهُ، قَالَ جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَسْنَا نَنْوِي إِلَّا الْحَجَّ لَسْنَا نَعْرِفُ الْعُمْرَةَ، حَتَّى إِذَا أَتَيْنَا الْبَيْتَ مَعَهُ، اسْتَلَمَ الرُّكْنَ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ نَفَذَ إِلَى مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقَرَأَ وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 فَجَعَلَ الْمَقَامَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَكَانَ أَبِي يَقُولُ: وَلَا أَعْلَمُهُ ذَكَرَهُ إِلَّا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقْرَأُ فِي الرَّكْعَتَيْنِ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ سورة الإخلاص آية 1 وَ قُلْ يَأَيُّهَا الْكَافِرُونَ سورة الكافرون آية 1 ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الرُّكْنِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنَ الْبَابِ إِلَى الصَّفَا، فَلَمَّا دَنَا مِنَ الصَّفَا قَرَأَ إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 أَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ، فَبَدَأَ بِالصَّفَا فَرَقِيَ عَلَيْهِ حَتَّى رَأَى الْبَيْتَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَوَحَّدَ اللَّهَ وَكَبَّرَهُ، وَقَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، ثُمَّ دَعَا بَيْنَ ذَلِكَ، قَالَ مِثْلَ هَذَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ نَزَلَ إِلَى الْمَرْوَةِ، حَتَّى إِذَا انْصَبَّتْ قَدَمَاهُ فِي بَطْنِ الْوَادِي سَعَى، حَتَّى إِذَا صَعِدَتَا مَشَى حَتَّى أَتَى الْمَرْوَةَ فَفَعَلَ عَلَى الْمَرْوَةِ كَمَا فَعَلَ عَلَى الصَّفَا، حَتَّى إِذَا كَانَ آخِرُ طَوَافِهِ عَلَى الْمَرْوَةِ، فَقَالَ: لَوْ أَنِّي اسْتَقْبَلْتُ مِنْ أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرْتُ، لَمْ أَسُقْ الْهَدْيَ، وَجَعَلْتُهَا عُمْرَةً، فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ لَيْسَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحِلَّ وَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً، فَقَامَ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: أَلِعَامِنَا هَذَا أَمْ لِأَبَدٍ؟ فَشَبَّكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَهُ وَاحِدَةً فِي الْأُخْرَى، وَقَالَ: دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ مَرَّتَيْنِ، لَا بَلْ لِأَبَدٍ أَبَدٍ، وَقَدِمَ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ بِبُدْنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَ فَاطِمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا مِمَّنْ حَلَّ وَلَبِسَتْ ثِيَابًا صَبِيغًا وَاكْتَحَلَتْ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي أَمَرَنِي بِهَذَا، قَالَ: فَكَانَ عَلِيٌّ يَقُولُ بِالْعِرَاقِ: فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُحَرِّشًا عَلَى فَاطِمَةَ لِلَّذِي صَنَعَتْ، مُسْتَفْتِيًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيمَا ذَكَرَتْ عَنْهُ، فَأَخْبَرْتُهُ أَنِّي أَنْكَرْتُ ذَلِكَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ صَدَقَتْ، مَاذَا قُلْتَ: حِينَ فَرَضْتَ الْحَجَّ؟، قَالَ: قُلْتُ اللَّهُمَّ إِنِّي أُهِلُّ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُكَ، قَالَ: فَإِنَّ مَعِيَ الْهَدْيَ فَلَا تَحِلُّ، قَالَ: فَكَانَ جَمَاعَةُ الْهَدْيِ الَّذِي قَدِمَ بِهِ عَلِيٌّ مِنَ الْيَمَنِ، وَالَّذِي أَتَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِائَةً، قَالَ: فَحَلَّ النَّاسُ كُلُّهُمْ وَقَصَّرُوا إِلَّا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ تَوَجَّهُوا إِلَى مِنًى فَأَهَلُّوا بِالْحَجِّ، وَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهَا الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ مَكَثَ قَلِيلًا حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ شَعَرٍ تُضْرَبُ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَسَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا تَشُكُّ قُرَيْشٌ إِلَّا أَنَّهُ وَاقِفٌ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ كَمَا كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصْنَعُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى عَرَفَةَ فَوَجَدَ الْقُبَّةَ قَدْ ضُرِبَتْ لَهُ بِنَمِرَةَ، فَنَزَلَ بِهَا حَتَّى إِذَا زَاغَتِ الشَّمْسُ، أَمَرَ بِالْقَصْوَاءِ فَرُحِلَتْ لَهُ، فَأَتَى بَطْنَ الْوَادِي فَخَطَبَ النَّاسَ، وَقَالَ: إِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ حَرَامٌ عَلَيْكُمْ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا، أَلَا كُلُّ شَيْءٍ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ تَحْتَ قَدَمَيَّ مَوْضُوعٌ، وَدِمَاءُ الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعَةٌ، وَإِنَّ أَوَّلَ دَمٍ أَضَعُ مِنْ دِمَائِنَا دَمُ ابْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ كَانَ مُسْتَرْضِعًا فِي بَنِي سَعْدٍ فَقَتَلَتْهُ هُذَيْلٌ، وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ، فَاتَّقُوا اللَّهَ فِي النِّسَاءِ، فَإِنَّكُمْ أَخَذْتُمُوهُنَّ بِأَمَانِ اللَّهِ، وَاسْتَحْلَلْتُمْ فُرُوجَهُنَّ بِكَلِمَةِ اللَّهِ، وَلَكُمْ عَلَيْهِنَّ أَنْ لَا يُوطِئْنَ فُرُشَكُمْ أَحَدًا تَكْرَهُونَهُ، فَإِنْ فَعَلْنَ ذَلِكَ فَاضْرِبُوهُنَّ ضَرْبًا غَيْرَ مُبَرِّحٍ، وَلَهُنَّ عَلَيْكُمْ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ، وَقَدْ تَرَكْتُ فِيكُمْ مَا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ إِنِ اعْتَصَمْتُمْ بِهِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَنْتُمْ تُسْأَلُونَ عَنِّي فَمَا أَنْتُمْ قَائِلُونَ؟، قَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ وَأَدَّيْتَ وَنَصَحْتَ، فَقَالَ بِإِصْبَعِهِ السَّبَّابَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى السَّمَاءِ وَيَنْكُتُهَا إِلَى النَّاسِ: اللَّهُمَّ اشْهَدِ اللَّهُمَّ اشْهَدْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَذَّنَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمَوْقِفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِهِ الْقَصْوَاءِ إِلَى الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَيْنَ يَدَيْهِ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى غَرَبَتِ الشَّمْسُ وَذَهَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِيلًا، حَتَّى غَابَ الْقُرْصُ وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَهُ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ، حَتَّى إِنَّ رَأْسَهَا لَيُصِيبُ مَوْرِكَ رَحْلِهِ، وَيَقُولُ بِيَدِهِ الْيُمْنَى: أَيُّهَا النَّاسُ السَّكِينَةَ السَّكِينَةَ، كُلَّمَا أَتَى حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَى لَهَا قَلِيلًا حَتَّى تَصْعَدَ، حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى بِهَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِأَذَانٍ وَاحِدٍ وَإِقَامَتَيْنِ وَلَمْ يُسَبِّحْ بَيْنَهُمَا شَيْئًا، ثُمَّ اضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى طَلَعَ الْفَجْرُ، وَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ تَبَيَّنَ لَهُ الصُّبْحُ بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، ثُمَّ رَكِبَ الْقَصْوَاءَ حَتَّى أَتَى الْمَشْعَرَ الْحَرَامَ، فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ فَدَعَاهُ وَكَبَّرَهُ وَهَلَّلَهُ وَوَحَّدَهُ، فَلَمْ يَزَلْ وَاقِفًا حَتَّى أَسْفَرَ جِدًّا فَدَفَعَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَجُلًا حَسَنَ الشَّعْرِ أَبْيَضَ وَسِيمًا فَلَمَّا دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّتْ بِهِ ظُعُنٌ يَجْرِينَ، فَطَفِقَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهِنَّ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، فَحَوَّلَ الْفَضْلُ وَجْهَهُ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ، فَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ عَلَى وَجْهِ الْفَضْلِ، يَصْرِفُ وَجْهَهُ مِنَ الشِّقِّ الْآخَرِ يَنْظُرُ، حَتَّى أَتَى بَطْنَ مُحَسِّرٍ فَحَرَّكَ قَلِيلًا ثُمَّ سَلَكَ الطَّرِيقَ الْوُسْطَى الَّتِي تَخْرُجُ عَلَى الْجَمْرَةِ الْكُبْرَى حَتَّى أَتَى الْجَمْرَةَ الَّتِي عِنْدَ الشَّجَرَةِ فَرَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ مِنْهَا مِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ رَمَى مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمَنْحَرِ فَنَحَرَ ثَلَاثًا وَسِتِّينَ بِيَدِهِ، ثُمَّ أَعْطَى عَلِيًّا فَنَحَرَ مَا غَبَرَ وَأَشْرَكَهُ فِي هَدْيِهِ، ثُمَّ أَمَرَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَجُعِلَتْ فِي قِدْرٍ، فَطُبِخَتْ فَأَكَلَا مِنْ لَحْمِهَا وَشَرِبَا مِنْ مَرَقِهَا، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَفَاضَ إِلَى الْبَيْتِ فَصَلَّى بِمَكَّةَ الظُّهْرَ، فَأَتَى بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ يَسْقُونَ عَلَى زَمْزَمَ، فَقَالَ: انْزِعُوا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَلَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَلَى سِقَايَتِكُمْ، لَنَزَعْتُ مَعَكُمْ، فَنَاوَلُوهُ دَلْوًا فَشَرِبَ مِنْهُ "،
جعفر بن محمد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے گھر گئے اور انہوں نے سب لوگوں کو پوچھا یہاں تک کہ جب میری باری آئی تو میں نے کہا کہ میں محمد بن علی ہوں۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کا پوتا۔ سو انہوں نے میری طرف (شفقت سے) ہاتھ بڑھایا اور میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی گھنڈی کھولی (یعنی شلوکے وغیرہ کی) اور پھر اپنی ہتھیلی رکھی میرے سینے پر دونوں چھاتیوں کے بیچ میں اور میں ان دنوں جوان لڑکا تھا، پھر کہا: شاباش خوش رہو۔ اے میرے بھتیجے اور پوچھو مجھ سے جو چاہو۔ پھر میں نے ان سے پوچھا اور وہ نابینا تھے اور اتنے میں نماز کا وقت آ گیا اور وہ کھڑے ہوئے ایک چادر اوڑھ کر کہ جب اس کے دونوں کناروں کو دونوں کندھوں پر رکھتے تھے تو وہ نیچے گر جاتے تھے اس چادر کے چھوٹے ہونے کے سبب سے اور ان کی چادر بڑی تپائی پر رکھی تھی۔ پھر نماز پڑھائی انہوں نے ہم کو (یعنی امامت کی) اور میں نے کہا کہ خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج سے (یعنی حجۃ الوداع سے) تو جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا ٹوکا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ منورہ میں رہے اور حج نہیں کیا، پھر لوگوں میں پکارا گیا دسویں سال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، پھر جمع ہو گئے مدینہ میں بہت سے لوگ اور سب چاہتے تھے کہ پیروی کریں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور ویسا ہی کام کریں (حج کرنے میں) جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کریں غرض ہم لوگ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور وہاں اسماء بنت عمیس جنیں اور محمد، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بیٹا پیدا ہوئے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہلا بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ باندھ لو ایک کپڑے کا اور احرام باندھ لو۔“ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت پڑھیں مسجد میں اور سوار ہوئے قصواء اونٹنی پر یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر وہ سیدھی ہوئی بیداء پر (وہ ایک مقام ہے مثل ٹیلہ کے) تو میں نے دیکھا آگے کی طرف جہاں تک کہ میری نظر گئی کہ سوار اور پیادے ہی نظر آتے تھے اور اپنے داہنی طرف بھی ایسی ہی بھیڑ تھی اور بائیں طرف بھی ایسی ہی بھیر تھی اور پیچھے بھی ایسی ہی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بیچ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف اترتا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حقیقت کو خوب جانتے تھے اور جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا وہی ہم نے بھی کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کے ساتھ لبیک پکاری اور کہا «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ» اور لوگوں نے بھی یہی لبیک پکاری جو اب لوگ پکارتے ہیں (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک میں کچھ لفظ بڑھا کر پکارے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روکا نہیں) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلملبیک ہی پکارتے رہے اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم حج کے سوا اور کچھ ارادہ نہیں رکھتے تھے اور عمرہ کو پہجانتے ہی نہ تھے (بلکہ ایام حج میں عمرہ بجا لانا ایام جاہلیت سے برا جانتے تھے) یہاں تک کہ جب ہم بیت اللہ میں آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوا رکن کو (یعنی حجر اسود کو) اور طواف میں تین بار اچھل اچھل کر چھوٹے ڈگ رکھ کے شانے اچھال اچھال کر چلے اور چار بار عادت کے موافق چلے پھر مقام ابراہیم پر آئے اور یہ آیت پڑھی «وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى» یعنی (مقرر کرو مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ) اور مقام کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں کیا، پھر میرے باپ کہتے تھے اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے ذکر کیا ہو مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ذکر کیا ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھیں دو رکعتیں اور ان میں «قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ» اور «قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ» پڑھی۔ پھر لوٹ کر گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس اور اس کو بوسہ دیا اور نکلے اس دروازہ سے جو صفا کی طرف ہے پھر جب صفا کے قریب پہنچے (وہ ایک پہاڑ کا نام ہے جو کعبہ کے دروازے سے بیس پچیس قدم پر ہے) تو یہ آیت پڑھی «ِنَّ الصَّفَا والْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ»یعنی ”صفا اور مروہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں“ اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”ہم شروع کرتے ہیں جس سے شروع کیا اللہ تعالیٰ نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا اور قبلہ کی طرف دیکھا اور اللہ تعالیٰ کی توحید بیان کی اور اس کی بڑائی بیان کی (یعنی «لاالٰه الا الله» اور «الله اكبر» کہا اور کہا «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الأَحْزَابَ») یعنی کوئی معبود لائق عبادت نہیں سوا اللہ تعالیٰ کے، اکیلا ہے وہ، پورا کیا اس نے اپنا وعدہ (یعنی دین کے پھیلانے کا اور اپنے نبیصلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا) اور مدد کی اس نے اپنے غلام کی (یعنی محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی) اور شکست دی اس نے اکیلے سب لشکروں کو۔“ پھر اس کے بعد دعا کی، پھر ایسا ہی کہا، پھر دعا کی غرض تین بار ایسا ہی کیا پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے یہاں تک کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم میدان کے بیچ میں اترے تو دوڑے یہاں تک کہ مروہ پر پہنچے پھر مروہ پر بھی ویسا ہی کیا جیسے کہ صفا پر کیا تھا یعنی وہ کلمات کہے اور دعا کی قبلہ رخ کھڑے ہو کر یہاں تک کہ جب طواف تمام ہوا مردہ پر (یعنی سات شوط ہو چکے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اگر پہلے سے معلوم ہوتا اپنا کام جو بعد معلوم ہوا تو میں ہدی ساتھ نہ لاتا (اور مکہ ہی میں خرید لیتا) اور اپنے اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالتا اب تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے (یعنی طواف و سعی تو ہو چکی اور عمرہ کے افعال پورے ہو گئے) اور اس کو عمرہ کر لے۔“ پھر سراقہ بن مالک جعشم کھڑے ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ حج کو عمرہ کر ڈالنا ہمارے اسی سال کے لیے خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے اس کی اجازت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ کے لیے اجازت ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے۔“ اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ یمن سے نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے کر آئے اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ ان میں ہیں جنہوں نے احرام کھول ڈالا اور رنگین کپڑے پہنے ہوئی ہیں اور سرمہ لگائے ہوئی ہیں تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے برا مانا تو انہوں نے فرمایا کہ میرے باپ نے حکم فرمایا اس کا۔ پھر راوی نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ عراق میں فرماتے تھے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا غصہ کرتا ہوا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر اس کے احرام کھولنے کے سبب سے جو انہوں نے کیا تھا پوچھنے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات کو جو اس نے ذکر کی اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی میں نے کہ برا جانا اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فاطمہ نے سچ کہا سچ کہا۔“ (یعنی میں نے ہی ان کو احرام کھولنے کا حکم دیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کیا کہا جب حج کا قصد کیا؟“ تو میں نے عرض کی کہ میں نے کہا: یااللہ! میں اہلال کرتا ہوں اس کا جس کا اہلال کیا ہے تیرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ ہدی ہے(اس لیے میں نے احرام نہیں کھولا) اب تم بھی احرام نہ کھولو۔“ کہا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر وہ اونٹ جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ لائے تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ لائے سب مل کر سو اونٹ ہو گئے، کہا سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہ پھر سب لوگوں نے احرام کھول ڈالا اور بال کترائے مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جن کے ساتھ قربانی تھی (کہ وہ محرم ہی رہے) پھر جب ترویہ کا دن ہوا (یعنی آٹھویں تاریخ ذی الحجہ کی) تو سب لوگ منیٰ کو چلے اور حج کی لبیک پکاری اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے اور منیٰ میں ظہر اور عصر اور مغرب اور عشاء اور فجر (پانچ نمازیں) پڑھیں۔ پھر تھوڑی دیر ٹھہرے یہاں تک کہ آفتاب نکل آیا اور حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خیمہ کا جو بالوں کا بنا ہوا تھا کہ لگایا جائے نمرہ میں (کہ نام ہے ایک مقام کا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور قریش یقین کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم المشعر الحرام میں وقوف کریں گے جیسے سب قریش کے لوگوں کی عادت تھی ایام جاہلیت میں اور آپ وہاں سے آگے بڑھ گئے یہاں تک عرفات پہنچے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ اپنا نمرہ میں لگایا اور اس میں اترے یہاں تک کہ جب آفتاب ڈھل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا رکھ دی گئی (یعنی ان چیزوں کا اعتبار نہ رہا) اور جاہلیت کے خون بے اعتبار ہو گئے اور پہلا وہ خون جو میں اپنے خونوں میں سے معاف کئے دیتا ہوں۔ ابن ربیعہ کا خون کہ وہ دودھ پیتا تھا بنی سعد میں اور اس کو ہذیل نے قتل کر ڈالا (غرض میں اس کا بدلہ نہیں لیتا) اور اسی طرح زمانہ جاہلیت کا سود سب چھوڑ دیا گیا۔ (یعنی کوئی اس وقت کا چڑھا سود نہ لے) اور پہلے جو سود کہ ہم نے اپنے یہاں کے سود میں سے چھوڑ دیتے (اور طلب نہیں کرتے) عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے اس لیے وہ سب معاف کر دیا گیا اور تم لوگ اب ڈرو اللہ سے کہ عورتوں پر زیادتی نہ کرو اس لیے کہ ان کو تم نے اللہ پاک کی امان سے لیا ہے اور حلال کیا ہے تم نے ان کے ستر کو اللہ تعالیٰ کے کلمہ سے اور تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ تمہارے بچھونے پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں (یعنی تمہارے گھر میں) جس کا آنا تم کو ناگوار ہو۔ پھر اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسا مارو کہ ان کو سخت چوٹ نہ لگے (یعنی ہڈی وغیرہ نہ ٹوٹے، کوئی عضو ضائع نہ ہو۔ حسن صورت میں فرق نہ آئے کہ تمہاری کھیتی اجڑ جائے) اور ان کا حق تمہارے اوپر اتنا ہے کہ روٹی ان کی اور کپڑا ان کا دستور کے موافق تمہارے ذمہ ہے اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا اور یونہی اشارہ کیا پھر اذان اور تکبیر ہوئی اور ظہر کی نماز پڑھی اور پھر اقامت کہی اور عصر پڑھی اور ان دونوں کے بیچ کچھ نہیں پڑھا۔ (یعنی سنت وغیرہ) پھر سوار ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک کہ آئے کھڑے ہونے کی جگہ میں۔ پھر اونٹنی کا پیٹ کر دیا پتھروں کی طرف اور پگڈنڈی کو اپنے آگے کر لیا اور قبلہ کی طرف منہ کیا اور کھڑے رہے یہاں تک کہ آفتاب ڈوب گیا اور زردی تھوڑی تھوڑی جاتی رہی اور سورج کی ٹکیا ڈوب گئی اور اسامہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور لوٹے اور مہار قصواء کی اس قدر کھینچی ہوئی تھی کہ سر اس کا کجاوہ کے آگے مورک میں لگ گیا تھا (مورک وہ جگہ ہے جہاں سوار بعض وقت تھک کر اپنا پیر جو لٹکا ہوا رہتا ہے اس جگہ رکھتا ہے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے کہ ”اے لوگو! رساں رساں چلو آرام سے۔“ اور جب کسی ریت کی ڈھیری پر آ جاتے (جہاں بھیڑ کم پاتے) تو ذرا مہار ڈھیلی کر دیتے یہاں تک کہ اونٹنی چڑھ جاتی آخر مزدلفہ پہنچ گئے اور وہاں مغرب اور عشاء پڑھی ایک اذان سے (جو مغرب سے پہلے کہی) اور دو تکبیروں سے اور ان دونوں فرضوں کے بیچ میں نفل کچھ نہیں پڑھے (یعنی سنت وغیرہ نہیں پڑھی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ رہے یہاں تک کہ صبح برآمد ہوئی پھر فجر کی نماز ادا کی (سبحان اللہ! کیسے کیسے خادم ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے کہ رات دن، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سونے بیٹھنے، اٹھنے جاگنے، کھانے پینے پر نظر ہے اور ہر فعل مبارک کی یاد داشت و حفاظت ہے اللہ تعالیٰ رحمت کرے ان پر) جب فجر خوب ظاہر ہو گئی اذان اور تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی، پھر قصواء اونٹنی پر سوار ہوئے یہاں تک کہ المشعر الحرام میں آئے اور وہاں قبلہ کی طرف منہ کیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ اکبر کہا اور لاالٰہ الااللہ کہا اور اس کی توحید پکاری اور وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ روشنی ہو گئی بخوبی اور لوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے قبل طلوع آفتاب کے اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا اور فضل ایک نوجوان اچھے بالوں والا گورا چٹا خوبصورت جوان تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلمچلے تو ایک گروہ عورتوں کا ایسا چلا جاتا تھا کہ ایک ایک اونٹ پر ایک عورت سوار تھی اور سب چلی چاتی تھیں اور فضل ان کی طرف دیکھنے لگے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا (اور زبان سے کچھ نہ فرمایا سبحان اللہ! یہ اخلاق کی بات تھی اور نہی عن المنکر کس خوبی سے ادا کیا) اور فضل نے منہ اپنا دوسری جانب پھیر لیا اور دیکھنے لگے (یہ ان کے کمال اطمینان کی وجہ تھی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم پر) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اپنا ہاتھ ادھر پھیر کر ان کے منہ پر رکھ دیا تو فضل پھر دوسری طرف منہ پھیر کر پھر دیکھنے لگے یہاں تک کہ بطن محسر میں پہنچے تب اونٹنی کو ذرا چلایا اور بیچ کی راہ لی جو جمرہ کبریٰ پر جا نکلی ہے یہاں تک کہ اس جمرہ کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے (اور اسی کو جمرہ عقبہ کہتے ہیں) اور سات کنکریاں اس کو ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے ایسی کنکریں جو چٹکی سے ماری جاتی ہیں (اور دانہ باقلا کے برابر ہوں) اور وادی کے بیچ میں کھڑے ہو کر ماریں (کہ منٰی اور عرفات اور مزدلفہ داہنی طرف اور مکہ بائیں طرف رہا) پھر نحر کی جگہ آئے اور تریسٹھ اونٹ اپنے دست مبارک سے نحر کئیے (قربان دست و باز دیت شوم) باقی سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو دئیے کہ انہوں نے نحر کئیے اور شریک کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی ہدی میں پھر حکم فرمایا کہ ہر اونٹ میں سے ایک ٹکڑا لیں اور ایک ہانڈی میں ڈالا اور پکایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں نے اس میں سے گوشت کھایا اور اس کا شوربہ پیا پھر سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف آئے اور طواف افاضہ کیا اور ظہر مکہ میں پڑھی اور بنی عبدالمطلب کے پاس آئے کہ وہ لوگ زمزم پر پانی پلا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانی بھرو اے اولاد عبدالمطلب کی اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ لوگ بھیڑ کر کے تمہیں پانی نہ بھرنے دیں گے تو میں بھی تمہارا شریک ہو کر پانی بھرتا۔“ (یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھرتے سنت ہو جاتا تو پھر ساری امت بھرنے لگتی) اور ان کی سقایت جاتی رہتی، پھر ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔
وحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيل، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ: وَكَانَتِ الْعَرَبُ يَدْفَعُ بِهِمْ أَبُو سَيَّارَةَ عَلَى حِمَارٍ عُرْيٍ، فَلَمَّا أَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، لَمْ تَشُكَّ قُرَيْشٌ أَنَّهُ سَيَقْتَصِرُ عَلَيْهِ وَيَكُونُ مَنْزِلُهُ، ثَمَّ فَأَجَازَ وَلَمْ يَعْرِضْ لَهُ حَتَّى أَتَى عَرَفَاتٍ فَنَزَلَ.
جعفر بن محمد نے کہا: میرے باپ نے مجھ سے بیان کیا کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا حال پوچھا اور انہوں نے بیان کی حدیث جیسے حاتم بن اسماعیل نے بیان کی تھی اور اس میں اتنا زیادہ کیا کہ عرب کا قاعدہ تھا (یعنی ایام جاہلیت میں) کہ ابوسیارہ (ایک شخص کی کنیت ہے) ان کو مزدلفہ سے لوٹا لاتا تھا (اور عرفات کو لے جاتا تھا) پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے آگے بڑھے تو قریش نے یقین کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم المشعر الحرام میں ٹھہریں گے اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل ہو گی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بھی آگے بڑھ گئے اور اس سے کچھ تعرض نہ کیا یہاں تک کہ عرفات پہنچے (یعنی قریب عرفات) اور وہاں اترے۔
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَابِرٍ فِي حَدِيثِهِ ذَلِكَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَحَرْتُ هَاهُنَا وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی حدیث میں یہ زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں نے یہاں نحر کیا اور منیٰ ساری نحر کی جگہ ہے تو تم اپنے اترنے کی جگہ میں نحر کرو اور میں نے یہاں وقوف کیا اور عرفہ سارا وقوف کی جگہ ہے اور المشعر الحرام اور مزدلفہ سب وقوف کی جگہ ہے اور میں نے یہاں وقوف کیا۔“
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اسی میں حدیث یوں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے حجر اسود کو چوما اور تین پھیروں میں رمل کیا اور چار میں عادت کے موافق چلے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ، وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا، ثُمَّ يُفِيضَ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199 ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قریش اور جو لوگ ان کی چال پر تھے مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس نام رکھتے تھے (ابوالہثیم نے کہا کہ یہ نام ہے قریش کا اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لیے کہ حمس رکھتے تھے اپنے دین میں یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے جب اسلام آیا اللہ پاک نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں اور یہی مطلب ہے اس آیت کا «ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ» یعنی ”لوٹو وہیں سے جہاں سے اور لوگ لوٹتے ہیں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كَانَتِ الْعَرَبُ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرَاةً إِلَّا الْحُمْسَ وَالْحُمْسُ قُرَيْشٌ، وَمَا وَلَدَتْ كَانُوا يَطُوفُونَ عُرَاةً إِلَّا أَنْ تُعْطِيَهُمُ الْحُمْسُ ثِيَابًا، فَيُعْطِي الرِّجَالُ الرِّجَالَ وَالنِّسَاءُ النِّسَاءَ، وَكَانَتِ الْحُمْسُ لَا يَخْرُجُونَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانَ النَّاسُ كُلُّهُمْ يَبْلُغُونَ عَرَفَاتٍ "، قَالَ هِشَامٌ: فَحَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " الْحُمْسُ هُمُ الَّذِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِمْ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يُفِيضُونَ مِنْ عَرَفَاتٍ وَكَانَ الْحُمْسُ يُفِيضُونَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ يَقُولُونَ: لَا نُفِيضُ إِلَّا مِنَ الْحَرَمِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199 رَجَعُوا إِلَى عَرَفَاتٍ ".
ہشام نے اپنے باپ سے روایت کی کہ عرب طواف کرتے تھے بیت اللہ کا ننگے مگر حمس اور حمس قریش ہیں اور ان کی اولاد، غرض لوگ ننگے طواف کرتے تھے مگر جب کہ قریش ان کو کپڑے دے دیتے تھے سو مرد مردوں کو اور عورتیں عورتوں کو کپڑے دیا کرتی تھیں اور حمس مزدلفہ سے باہر نہ جاتے اور سب لوگ عرفات تک جاتے۔ ہشام نے کہا: میرے باپ نے مجھے خبر دی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی مضمون فرمایا جو ابھی اوپر گزرا اتنی بات زیادہ ہے کہ جب آیت مذکورہ اتری تو سب عرفات جانے لگے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: " أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَمِنَ الْحُمْسِ، فَمَا شَأْنُهُ هَاهُنَا وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُعَدُّ مِنَ الْحُمْسِ ".
جبیر بن مطعم نے کہا کہ میرا ایک اونٹ کھو گیا اور اس کی تلاش کو نکلا عرفہ کے دن تو کیا دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں عرفات میں، تو میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! یہ تو حمس کے لوگ ہیں ان کو کیا ہوا جو یہاں تک آ گئے (یعنی قریش تو مزدلفہ سے آگے نہیں آتے تھے) اور قریش حمس میں شمار کیے جاتے تھے (جو لوگ مزدلفہ سے باہر نہ جاتے تھے)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ لِي: " أَحَجَجْتَ؟ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَقَدْ أَحْسَنْتَ، طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَحِلَّ "، قَالَ: فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ بَنِي قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَائْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ،
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ بٹھائے ہوئے بطحائے مکہ میں تھے اور مجھ سے فرمایا: ”تم نے حج کی نیت کی؟“ میں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا احرام باندھا؟“ میں نے عرض کی کہ میں نے کہا: لبیک مانند لبیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا خوب کیا، اب بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا اور مروہ کا اور احرام کھول ڈالو۔“ اس لیے کہ ان کے ساتھ ہدی تو تھی ہی نہیں، پھر میں نے طواف کیا بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا اور قبیلہ بنی قیس کی ایک عورت کے پاس آیا اس نے میرے سر کی جوئیں دیکھ دیں، پھر میں نے حج کی لبیک پکاری اور میں لوگوں کو بھی فتویٰ دیتا تھا (کہ جو حج کو آئے بے ہدی کے وہ عمرہ کر کے احرام کھول ڈالے پھر یوم الترویہ میں حج کا احرام باندھ لے) یہاں تک کہ جب خلافت ہوئی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تو ایک شخص نے مجھ سے کہا: اے ابوموسیٰ! یا کہا اے عبداللہ بن قیس! تم اپنے بعض فتوے کو روک رکھو اس لیے کہ تم کو معلوم نہیں کہ امیرالمؤمنین نے کون سی نئی بات نکالی نسک میں تمہارے پیچھے (معلوم ہوا کہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ خلفا کی بات کو بھی احداث جانتے تھے اور نو پیدا خیال کرتے تھے اور سنت میں داخل نہ جانتے تھے اسی وجہ سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی جماعت تراویح جس کو آپ نے مقرر فرمایا تھا «نِعْمَتِ الْبِدْعَتهُ ھٰذهٖ» فرمایا اور یہ نہ کہا «نِعْمَتِ السُّنَةُ ھٰذهٖ» حالانکہ اصل تراویح کی سنت سے ثابت تھی بلکہ اصل جماعت کی بھی ثابت تھی مگر صرف دوام اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا تھا اور دوام کا حکم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے دیا اتنے سے تغیر کو جو ان کی جانب سے تھا آپ کو پسند نہ آیا کہ اس کو سنت میں داخل کریں۔ سبحان اللہ! کیا ادب تھا صحابہ کو جناب راست مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اسی سے معلوم ہوا کہ قول صحابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حجت نہیں ورنہ خلفاء کی بات کو احداث نہ کہتے) تب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے لوگو! جن کو میں نے فتویٰ دیا ہے (یعنی احرام کھولنے کا) تو وہ تامل کریں اس لیے کہ امیرالمؤمنین آنے والے ہیں سو تم ان کی پیروی کرو، کہا راوی نے پھر آئے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور میں نے ان سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا: اگر ہم اللہ کی کتاب پر چلیں تو وہ حکم فرماتی ہے پورا حج و عمرہ بجا لانے کا اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام نہیں کھولا جب تک قربانی نہ پہنچ گئی اپنی جگہ پر۔
وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَاأَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
شعبہ سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟ "، قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ "، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ، فَائْتَمُّوا فَلَمَّا قَدِمَ، قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟، قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196 وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ،
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: ”کیا اہلال کیا تم نے؟“ میں نے عرض کی جو اہلال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم قربانی ساتھ لائے ہو؟“ میں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔“ اور میں نے طواف کیا ویسا ہی پھر میں ایک عورت کے پاس آیا اپنی قوم کی اس نے میرے سر میں کنگھی کر دی اور میرا سر دھویا غرض میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَوَافَقْتُهُ فِي الْعَامِ الَّذِي حَجَّ فِيهِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا مُوسَى كَيْفَ قُلْتَ حِينَ أَحْرَمْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ إِهْلَالًا كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هَلْ سُقْتَ هَدْيًا؟ "، فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَانْطَلِقْ فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَحِلَّ "، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ.
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا اتنی بات زیادہ ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو بھیجا تھا اور میں اس سال آیا جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا آگے وہی مطلب ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، أَنَّهُ كَانَ يُفْتِي بِالْمُتْعَةِ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: رُوَيْدَكَ بِبَعْضِ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدُ، حَتَّى لَقِيَهُ بَعْدُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ عُمَرُ : " قَدْ عَلِمْتُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَهُ وَأَصْحَابُهُ، وَلَكِنْ كَرِهْتُ أَنْ يَظَلُّوا مُعْرِسِينَ بِهِنَّ فِي الْأَرَاكِ، ثُمَّ يَرُوحُونَ فِي الْحَجِّ تَقْطُرُ رُءُوسُهُمْ ".
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ فتویٰ دیتے تھے متعہ کا (جیسا اوپر گزرا کہ حج کو عمرہ کر کے فسخ کر ڈالنا اور پھر یوم الترویہ میں حج کا احرام باندھنا) تو ایک شخص نے کہا: تم اپنے بعض فتوے کو روک رکھو اس لیے کہ تم کو معلوم نہیں کہ امیر المؤمنین نے کون سی نئی بات نکالی نسک میں۔ پھر وہ ملے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور ان سے پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متعہ کیا اور ان کے اصحاب نے ایام حج میں مطلق عمرہ بجا لانے کو اور پھر اس سال حج کرنے کو بھی متعہ کہتے ہیں۔ مگر میں جو منع کرتا ہوں تو اس لیے کہ مجھے برا معلوم ہوتا ہے کہ ہم لوگ عورتوں کے ساتھ شب باشی پیلو کے درختوں میں کریں۔ پھر حج کو جائیں کہ ان کے سر سے پانی ٹپکتا ہو (اور اس حال میں عرفات کو جائیں)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَقِيقٍ : كَانَ عُثْمَانُ يَنْهَى عَنِ الْمُتْعَةِ، وَكَانَ عَلِيٌّ يَأْمُرُ بِهَا، فَقَالَ عُثْمَانُ لِعَلِيٍّ كَلِمَةً "، ثُمَّ قَالَ عَلِيٌّ : " لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّا قَدْ تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَقَالَ: " أَجَلْ وَلَكِنَّا كُنَّا خَائِفِينَ "،
عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے منع کیا تمتع سے اور سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اس کا حکم کرتے تھے تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کچھ کہا تب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ ہم نے متعہ کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (یعنی تمتع حج کا) تو انہوں نے کہا ہاں مگر ہم اس وقت ڈرتے تھے۔
وحَدَّثَنِيهِ يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
شعبہ سے ان اسناد کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، قَالَ: اجْتَمَعَ عَلِيٌّ وَعُثْمَانُ رضي الله عنهما بعسفان، فكان عثمان ينهى عَنِ الْمُتْعَةِ أَوِ الْعُمْرَةِ، فَقَالَعَلِيٌّ : " مَا تُرِيدُ إِلَى أَمْرٍ فَعَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنْهَى عَنْهُ "، فَقَالَ عُثْمَانُ : " دَعْنَا مِنْكَ "، فَقَالَ: " إِنِّي لَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَدَعَكَ "، فَلَمَّا أَنْ رَأَى عَلِيٌّ ذَلِكَ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا.
سعید بن مسیّب رحمہ اللہ نے کہا کہ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ دونوں عسفان (کہ نام ہے ایک مقام کا) میں جمع ہوئے اور سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ متعہ سے منع کرتے تھے (یعنی ایام حج میں کہ وہ تمتع ہے)تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا اراداہ ہے تمہارا اس کام کے ساتھ جو خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے اور تم اس سے منع کرتے ہو؟ تو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا: تم ہمیں چھوڑ دو ہمارے حال پر۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تمہیں نہیں چھوڑ سکتا۔ پھر جب سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا تو حج اور عمرہ دونوں کا لبیک پکارا۔
وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كَانَتِ الْمُتْعَةُ فِي الْحَجِّ لِأَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَاصَّةً ".
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج کا خاص تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے لیے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَيَّاشٍ الْعَامِرِيِّ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كَانَتْ لَنَا رُخْصَةً " يَعْنِي: الْمُتْعَةَ فِي الْحَجِّ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: تمتع حج میں ہمارے ہی لیے خاص تھا۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ فُضَيْلٍ ، عَنْ زُبَيْدٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: " لَا تَصْلُحُ الْمُتْعَتَانِ، إِلَّا لَنَا خَاصَّةً " يَعْنِي: مُتْعَةَ النِّسَاءِ وَمُتْعَةَ الْحَجِّ.
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: دو متعے ایسے ہیں کہ ہمارے لیے خاص تھے۔ یعنی متعہ عورتوں کا یعنی نکاح کرنا ایک وقت مقررہ تک اور متعہ حج کا۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، قَالَ: أَتَيْتُ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيَّ، وَإِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيَّ، فَقُلْتُ " إِنِّي أَهُمُّ أَنْ أَجْمَعَ الْعُمْرَةَ وَالْحَجَّ الْعَامَ "، فَقَالَ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ : " لَكِنْ أَبُوكَ لَمْ يَكُنْ لِيَهُمَّ بِذَلِكَ "، قَالَ قُتَيْبَةُ : حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ مَرَّ بِأَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِالرَّبَذَةِ، فَذَكَرَ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا كَانَتْ لَنَا خَاصَّةً دُونَكُمْ ".
عبدالرحمٰن بن ابی الشعثاء نے کہا کہ آیا میں ابراہیم نخفی اور ابراہیم تیمی کے پاس اور کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ جمع کروں حج اور عمرہ دونوں کو اس سال میں سو ابراہیم نخعی نے کہا کہ تمہارے والد تو کبھی ایسا ارادہ نہ کرتے تھے۔ اور قتیبہ نے کہا کہ روایت کی ہم سے سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے، ان سے بیان نے، ان سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے باپ نے کہ وہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ربذہ کو گئے اور ان سے حج و عمرہ جمع کرنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم لوگوں کے لیے خاص تھا اور تمہارے واسطے نہیں ہے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کے سوا اوروں کو روا نہیں۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنِ الْفَزَارِيِّ ، قَالَ سَعِيدٌ: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ غُنَيْمِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنِ الْمُتْعَةِ، فَقَالَ: " فَعَلْنَاهَا، وَهَذَا يَوْمَئِذٍ كَافِرٌ بِالْعُرُشِ " يَعْنِي: بُيُوتَ مَكَّةَ،
فزاری نے روایت کی کہ سعید نے کہا کہ روایت کی مجھ سے مروان نے جو فرزند ہیں معاویہ کے کہ خبر دی ہم کو سلیمان تیمی نے غنیم بن قیس سے کہ انہوں نے کہا: میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے پوچھا متعہ کے بارے میں تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے متعہ کیا ہے اور معاویہ اس دن کافر تھے مکہ کے گھروں میں۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي رِوَايَتِهِ: يَعْنِي: مُعَاوِيَةَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَارَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ جَمِيعًا، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَ حَدِيثِهِمَا، وَفِي حَدِيثِ سُفْيَانَ الْمُتْعَةُ فِي الْحَجِّ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے اور سفیان کی روایت میں حج تمتع کے الفاظ ہیں۔
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : " إِنِّي لَأُحَدِّثُكَ بِالْحَدِيثِ الْيَوْمَ يَنْفَعُكَ اللَّهُ بِهِ بَعْدَ الْيَوْمِ، وَاعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَعْمَرَ طَائِفَةً مِنْ أَهْلِهِ فِي الْعَشْرِ، فَلَمْ تَنْزِلْ آيَةٌ تَنْسَخُ ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهُ حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ، ارْتَأَى كُلُّ امْرِئٍ بَعْدُ مَا شَاءَ أَنْ يَرْتَئِيَ "،
مطرف نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے آج ایک حدیث بیان کروں کہ اللہ تعالیٰ تم کو آج کے بعد اس کا نفع دے اور جان لو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروالوں سے ایک گروہ کو عمرہ کروایا عشرہ ذی الحجہ میں اور پھر اس پر کوئی آیت نہ اتری کہ اس کو منسوخ کرتی اور نہ ان دونوں میں عمرہ سے منع فرمایا یہاں تک کہ دنیا سے چلے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس کا جو جی چاہے، اپنی رائے سے کہا کرے۔
وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ كِلَاهُمَا، عَنْ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، وقَالَ ابْنُ حَاتِمٍ فِي رِوَايَتِهِ " ارْتَأَى رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ "، يَعْنِي عُمَرَ.
جریری سے اسی سند سے یہی حدیث مروی ہے اور ابن حاتم کی روایت میں یہ ہے کہ پھر ایک شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا یعنی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے۔
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : " أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهِ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ حَجَّةٍ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْهَ عَنْهُ حَتَّى مَاتَ وَلَمْ يَنْزِلْ فِيهِ قُرْآنٌ يُحَرِّمُهُ، وَقَدْ كَانَ يُسَلَّمُ عَلَيَّ حَتَّى اكْتَوَيْتُ، فَتُرِكْتُ ثُمَّ تَرَكْتُ الْكَيَّ فَعَادَ "،
مطرف نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تم سے ایک حدیث بیان کروں شاید اللہ عزوجل تم کو فائدہ بخشے اور وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ جمع کیا اور پھر اس سے منع نہ فرمایا یہاں تک کہ آپ فوت ہو گئے اور نہ اس میں کوئی قرآن کی آیت اتری جس سے ان کا جمع کرنا حرام ہوتا اور ہمیشہ میرے لیے سلام فرمایا جاتا تھا جب تک میں نے داغ نہیں لیا تھا پھر جب داغ لیا تو سلام موقوف ہو گیا پھر میں نے داغ لینا چھوڑ دیا تو پھر سلام ہونے لگا مجھ سے۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا ، قَالَ: قَالَ لِي عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : بِمِثْلِ حَدِيثِ مُعَاذٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، قَالَ: بَعَثَ إِلَيَّ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، فَقَالَ: " إِنِّي كُنْتُ مُحَدِّثَكَ بِأَحَادِيثَ لَعَلَّ اللَّهَ أَنْ يَنْفَعَكَ بِهَا بَعْدِي، فَإِنْ عِشْتُ فَاكْتُمْ عَنِّي، وَإِنْ مُتُّ فَحَدِّثْ بِهَا إِنْ شِئْتَ، إِنَّهُ قَدْ سُلِّمَ عَلَيَّ، وَاعْلَمْ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَمَعَ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابُ اللَّهِ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ رَجُلٌ فِيهَا بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ ".
مطرف نے کہا: مجھے پیغام بھیج کر سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا اس بیماری میں جس ان کی وفات ہوئی تھی اور کہا: میں تم سے کئی حدیثیں بیان کرتا ہوں شاید اللہ تعالیٰ میرے بعد تم کو اس سے نفع دے پھر اگر میں جیتا رہا (یعنی اس مرض سے اچھا ہو کر) تو تم اس کو میرے نام سے بیان نہ کرنا اور پوشیدہ رکھنا اور اگر میں مر گیا تو چاہنا تو بیان کرنا۔ اول بات یہ ہے کہ مجھ پر سلام کیا گیا (یعنی فرشتوں کا) دوسرے یہ کہ میں خوب جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو جمع کیا(یعنی ایام حج میں) اور پھر اس میں نہ تو قرآن اترا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جمع سے منع فرمایا اور اس شخص نے جو چاہا سو اپنی رائے سے کہہ دیا (یعنی سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے)۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ الْحُصَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " اعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ بَيْنَ حَجٍّ وَعُمْرَةٍ، ثُمَّ لَمْ يَنْزِلْ فِيهَا كِتَابٌ وَلَمْ يَنْهَنَا عَنْهُمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ فِيهَا رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جان لو نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے حج اور عمرہ کو اکھٹا کیا، پھر نہ تو اس بارے میں قرآن اترا اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اور ایک شخص نے اس بارے میں اپنی رائے سے جو جی چاہا کہہ دیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " تَمَتَّعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَنْزِلْ فِيهِ الْقُرْآنُ، قَالَ رَجُلٌ بِرَأْيِهِ مَا شَاءَ "،
مطرف سے مروی ہے کہ عمران نے ان سے کہا کہ معتہ کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور نہ اترا اس میں قرآن (یعنی اس سے نہی میں) پھر فلاں شخص نے اپنی رائے سے جو چاہا کہہ دیا۔
وحَدَّثَنِيهِ حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ وَاسِعٍ ، عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِهَذَا الْحَدِيثِ ، قَالَ : " تَمَتَّعَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَمَتَّعْنَا مَعَهُ " .
اور کہا امام مسلم رحمہ اللہ نے کہ روایت کی مجھ سے حجاج بن شاعر نے ان سے عبیداللہ بن عبدالمجید نے، ان سے اسماعیل بن مسلم نے، ان سے محمد بن واسع نے، ان سے مطرف بن عبداللہ بن شخیر نے، ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے یہی حدیث کہ متعہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اور متعہ کیا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ۔
حَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ ، قَالَ: قَالَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ : " نَزَلَتْ آيَةُ الْمُتْعَةِ فِي كِتَابِ اللَّهِ يَعْنِي مُتْعَةَ الْحَجِّ، وَأَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَمْ تَنْزِلْ آيَةٌ تَنْسَخُ آيَةَ مُتْعَةِ الْحَجِّ، وَلَمْ يَنْهَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَاتَ، قَالَ رَجُلٌ: بِرَأْيِهِ بَعْدُ مَا شَاءَ "،
وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا کہا مسلم نے کہ روایت کی کہ مجھ سے محمد بن حاتم نے، ان سے یحییٰ نے، ان سے عمران قیصر نے، ان سے ابورجاء نے، ان سے عمران بن حصین نے مثل اسی روایت کے مگر اتنا فرق ہے کہ انہوں نے کہا کہ کیا ہم نے یہ (یعنی متعہ حج کا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اور یہ نہیں کہا کہ حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یعنی جیسے اوپر کی روایت میں حکم کا ذکر تھا ویسا اس میں نہیں۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عِمْرَانَ الْقَصِيرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَجَاءٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ " وَفَعَلْنَاهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَلَمْ يَقُلْ: " وَأَمَرَنَا بِهَا ".
ابورجاء سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اسی طرح سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسی طرح کیا اور«اَمَرََنَا» کے الفاظ نہیں بولے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، وَأَهْدَى فَسَاقَ مَعَهُ الْهَدْيَ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَبَدَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهَلَّ بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَتَمَتَّعَ النَّاسُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَكَانَ مِنَ النَّاسِ مَنْ أَهْدَى فَسَاقَ الْهَدْيَ، وَمِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُهْدِ، فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَالَ لِلنَّاسِ: " مَنْ كَانَ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَإِنَّهُ لَا يَحِلُّ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ حَتَّى يَقْضِيَ حَجَّهُ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْكُمْ أَهْدَى، فَلْيَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَلْيُقَصِّرْ وَلْيَحْلِلْ، ثُمَّ لِيُهِلَّ بِالْحَجِّ وَلْيُهْدِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا فَلْيَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَسَبْعَةً إِذَا رَجَعَ إِلَى أَهْلِهِ "، وَطَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ، فَاسْتَلَمَ الرُّكْنَ أَوَّلَ شَيْءٍ، ثُمَّ خَبَّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ وَمَشَى أَرْبَعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ رَكَعَ حِينَ قَضَى طَوَافَهُ بِالْبَيْتِ عِنْدَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ سَلَّمَ فَانْصَرَفَ فَأَتَى الصَّفَا فَطَافَ بِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعَةَ أَطْوَافٍ، ثُمَّ لَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى قَضَى حَجَّهُ وَنَحَرَ هَدْيَهُ يَوْمَ النَّحْرِ وَأَفَاضَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، وَفَعَلَ مِثْلَ مَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ أَهْدَى وَسَاقَ الْهَدْيَ مِنَ النَّاسِ.
سالم بن عبداللہ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ متعہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں عمرہ کے ساتھ حج میں ملا کر اور قربانی کی اور قربانی کے جانور اپنے ساتھ لے گئے ذی الحلیفہ سے اور شروع میں آپ نے لبیک پکاری عمرہ کی پھر لبیک پکاری حج کی اور اسی طرح لوگوں نے بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لبیک پکاری عمرہ اور حج کے ساتھ اور لوگوں میں کسی کے پاس قربانی تھی کہ وہ قربانی کا جانور اپنے ساتھ لایا تھا اور کسی کے پاس قربانی نہ تھی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ پہنچے لوگوں سے فرمایا: ”جو قربانی لایا ہو وہ کسی چیز سے حلال نہ ہو جس سے حالت میں حرام میں دور رہا ہے جب تک اپنے حج سے فارغ نہ ہو اور جو قربانی نہ لایا ہو تو وہ بیت اللہ کا طواف کرے اور صفا اور مروہ میں سعی کر کے اپنے بال کتر ڈالے اور احرام کھول ڈالے پھر حج کی لبیک پکارے یعنی آٹھویں تاریخ اور چاہئیے کہ بعد حج کے قربانی کرے، پھر جس کو قربانی میسر نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے حج میں اور سات روزے رکھے جب اپنے گھر پہنچے۔“ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں آئے تو پہلے پہل حجر اسود کو بوسہ دیا، پھر تین بار کو کود کود کر شانہ اچھال کر طواف بیت اللہ کیا (یعنی جسے رمل کہتے ہیں) اور چار بار چل کر طواف کیا (جیسے عادت کے موافق چلتے ہیں) پھر دو رکعات پڑھیں جب طواف سے فارغ ہو چکے اور دو رکعت مقام ابراہیم کے پاس ادا کیں پھر سلام پھیرا اور صفا پر تشریف فرما ہوئے اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سات بار طواف کیا اور پھر کسی چیز کو اپنے اوپر حلال نہیں کیا ان چیزوں میں سے جن کو بہ سبب احرام کے اپنے اوپر حرام کیا تھا یہاں تک کہ حج سے بالکل فارغ ہو گئے اور قربانی اپنی ذبح کی یوم النحر یعنی دسویں تاریخ اور پھر مکہ کو لوٹ آئے اور طواف افاضہ کیا بیت اللہ کا، پھر ہر چیز کو اپنے اوپر حلال کر لیا جن کو احرام سے حرام کیا تھا اور جو لوگ قربانی اپنے ساتھ لائے تھے انہوں نے بھی ویسا ہی کیا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي تَمَتُّعِهِ بِالْحَجِّ إِلَى الْعُمْرَةِ وَتَمَتُّعِ النَّاسِ مَعَهُ "، بِمِثْلِ الَّذِي أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یہ حدیث چند الفاظ کے اختلاف سے اس سند کے ساتھ بھی آئی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ حَفْصَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوا، وَلَمْ تَحْلِلْ أَنْتَ مِنْ عُمْرَتِكَ؟، قَالَ: " إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلَا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی اے االلہ کے رسول! لوگوں نے اپنا احرام کھول ڈالا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کر کے احرام کیوں نہیں کھولا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:””میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلوں میں ہارڈالے ہیں سو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک کہ قربانی ذبح نہ کر لوں۔“
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ: مَا لَكَ لَمْ تَحِلَّ؟ بِنَحْوِهِ.
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابن نمیر نے، ان سے خالد بن مخلد نے، ان سے مالک نے، ان سے نافع نے، ان سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! کیا سبب ہے کہ آپ نے احرام نہ کھولا مانند اوپر کی روایت کے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، قَالَتْ: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا شَأْنُ النَّاسِ حَلُّوا وَلَمْ تَحِلَّ مِنْ عُمْرَتِكَ؟، قَالَ: " إِنِّي قَلَّدْتُ هَدْيِي، وَلَبَّدْتُ رَأْسِي، فَلَا أَحِلُّ حَتَّى أَحِلَّ مِنَ الْحَجِّ "،
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں احرام نہ کھولوں گا جب تک حج کا احرام نہ کھولوں۔“ اور کہا مسلم رحمہ اللہ نے کہ روایت کی ہم سے ابوبکر بن ابوشیبہ نے، ان سے ابواسامہ نے، ان سے عبیداللہ نے، ان سے نافع نے، ان سے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اور روایت کی مثل حدیث مالک رحمہ اللہ کے اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں احرام نہ کھولوں گا جب تک کہ قربانی ذبح نہ کر لوں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ: " فَلَا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ ".
مذکورہ بالا حدیث ایک اور سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَخْزُومِيُّ ، وَعَبْدُ الْمَجِيدِ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي حَفْصَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ أَزْوَاجَهُ أَنْ يَحْلِلْنَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، قَالَتْ حَفْصَةُ: فَقُلْتُ مَا يَمْنَعُكَ أَنْ تَحِلَّ؟، قَالَ: " إِنِّي لَبَّدْتُ رَأْسِي، وَقَلَّدْتُ هَدْيِي، فَلَا أَحِلُّ حَتَّى أَنْحَرَ هَدْيِي ".
عبداللہ، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے لخت جگر نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اپنی بیبیوں کو کہ احرام کھول ڈالیں حجتہ الوداع کے سال میں، تو بی بی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کون روکتا ہے احرام کھولنے سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں نے اپنے سر کے بالوں کو خطمی وغیرہ سے جمایا ہے اور اپنی قربانی کے گلے میں ہار ڈالا ہے سو میں احرام نہ کھولوں گا جب تک اپنی قربانی ذبح نہ کر لوں۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا خَرَجَ فِي الْفِتْنَةِ مُعْتَمِرًا، وَقَالَ: إِنْ صُدِدْتُ عَنِ الْبَيْتِ صَنَعْنَا كَمَا صَنَعْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ فَأَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، وَسَارَ حَتَّى إِذَا ظَهَرَ عَلَى الْبَيْدَاءِ الْتَفَتَ إِلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ الْحَجَّ مَعَ الْعُمْرَةِ "، فَخَرَجَ حَتَّى إِذَا جَاءَ الْبَيْتَ طَافَ بِهِ سَبْعًا، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، لَمْ يَزِدْ عَلَيْهِ، وَرَأَى أَنَّهُ مُجْزِئٌ عَنْهُ وَأَهْدَى.
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نکلے ایام فتنہ میں عمرے کو اور کہا: اگر میں روکا گیا بیت اللہ سے تو ویسا ہی کریں گے جیسا کہ ہم نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں کیا تھا، پھر نکلے عمرہ کا احرام کر کے یہاں تک کہ بیداء پہنچے (جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لبیک اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے سنی تھی حجتہ الوداع میں) اپنے یاروں سے کہا کہ حج اور عمرہ کا حکم ایک ہی ہے کہ دونوں سے اہلال کر سکتے ہیں تو میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے اپنے اوپر حج بھی عمرہ کے ساتھ واجب کر لیا اور چلے یہاں تک کہ بیت اللہ پہنچے اور وہاں سات بار طواف کیا اور سات بار صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کی اور اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔ اور اسی کو کافی سمجھا اور قربانی کی۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَسَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ حِينَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ لِقِتَالِ ابْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَا: لَا يَضُرُّكَ أَنْ لَا تَحُجَّ الْعَامَ، فَإِنَّا نَخْشَى أَنْ يَكُونَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ، يُحَالُ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، قَالَ: فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً، فَانْطَلَقَ حَتَّى أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ فَلَبَّى بِالْعُمْرَةِ، ثُمَّ قَالَ: إِنْ خُلِّيَ سَبِيلِي قَضَيْتُ عُمْرَتِي، وَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ فَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ، ثُمَّ تَلَا لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21 ثُمَّ سَارَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَهْرِ الْبَيْدَاءِ قَالَ: " مَا أَمْرُهُمَا إِلَّا وَاحِدٌ، إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْعُمْرَةِ، حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْحَجِّ، أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجَّةً مَعَ عُمْرَةٍ "، فَانْطَلَقَ حَتَّى ابْتَاعَ بِقُدَيْدٍ هَدْيًا، ثُمَّ طَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ لَمْ يَحِلَّ مِنْهُمَا، حَتَّى حَلَّ مِنْهُمَا بِحَجَّةٍ يَوْمَ النَّحْرِ،
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبداللہ اور سالم بن عبداللہ ان دونوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا جن دنوں حجاج بن یوسف، سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے لڑنے آیا تھا کہ اگر آپ اس سال حج نہ کریں تو کیا ضرر ہے اس لیے کہ ہم کو خوف ہے کہ ایسا نہ ہو کہ لوگوں میں لڑائی ہو اور آپ بیت اللہ نہ جا سکیں تو انہوں نے کہا: اگر میں نہ جا سکوں تو ویسا ہی کروں گا جیسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہے جب کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک لیا تھا بیت اللہ سے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ گواہ رہو میں نے عمرہ اپنے اوپر واجب کیا اور چلے یہاں تک کہ ذوالحلیفہ پہنچے اور عمرہ کی لبیک پکاری پھر کہا: اگر میری راہ کھل گئی تو میں عمرہ بجا لاؤں گا اور اگر میرے اور بیت اللہ میں کوئی حائل ہو گیا تو ویسا ہی کروں گا جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا پھر یہ آیت پڑھی کہ «لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (۳۳-الاحزاب:۲۱) یعنی ”تم کو اچھی پیروی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں۔“ پھر چلے یہاں تک کہ جب بیداء کی پیٹھ پر پہنچے تو کہا کہ حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی حکم ہے کہ اگر میں اپنے سے عمرہ سے روکا گیا تو حج سے بھی روکا جاؤں گا میں تم کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے حج بھی اپنے عمرہ کے ساتھ واجب کیا پھر چلے یہاں تک کہ قدید سے قربانی خریدی اور حج اور عمرہ دونوں کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کی بیت اللہ اور صفا مروہ کی اور احرام نہ کھولا یہاں تک کہ حج سے فارغ ہوئے اور قربانی کے دن دونوں سے احرام کھولا۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ عُمَرَ الْحَجَّ حِينَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ هَذِهِ الْقِصَّةِ، وَقَالَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ: وَكَانَ يَقُولُ: " مَنْ جَمَعَ بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ كَفَاهُ طَوَافٌ وَاحِدٌ، وَلَمْ يَحِلَّ حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا ".
نافع سے وہی قصہ مذکور ہے مگر اخیر میں یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ جو حج و عمرہ جمع کرے اس کو ایک طواف کافی ہے اور احرام نہ کھولے یہاں تک کہ دونوں سے فارغ ہو کر احرام کھولے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ أَرَادَ الْحَجَّ عَامَ نَزَلَ الْحَجَّاجُ بِابْنِ الزُّبَيْرِ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ كَائِنٌ بَيْنَهُمْ قِتَالٌ، وَإِنَّا نَخَافُ أَنْ يَصُدُّوكَ، فَقَالَ: " لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ، أَصْنَعُ كَمَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنِّي أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ عُمْرَةً "، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِظَاهِرِ الْبَيْدَاءِ، قَالَ: مَا شَأْنُ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ إِلَّا وَاحِدٌ اشْهَدُوا، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ حَجًّا مَعَ عُمْرَتِي وَأَهْدَى هَدْيًا اشْتَرَاهُ بِقُدَيْدٍ، ثُمَّ انْطَلَقَ يُهِلُّ بِهِمَا جَمِيعًا حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ وَلَمْ يَزِدْ عَلَى ذَلِكَ، وَلَمْ يَنْحَرْ وَلَمْ يَحْلِقْ وَلَمْ يُقَصِّرْ وَلَمْ يَحْلِلْ مِنْ شَيْءٍ حَرُمَ مِنْهُ، حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ فَنَحَرَ وَحَلَقَ، وَرَأَى أَنْ قَدْ قَضَى طَوَافَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ بِطَوَافِهِ الْأَوَّلِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: كَذَلِكَ فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
نافع سے وہی مضمون مروی ہوا جو کئی بار اوپر گزرا اتنی بات زیادہ ہے کہ جب سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں آئے تو حج اور عمرہ دونوں کی لبیک پکارتے تھے اور بیت اللہ اور صفا مروہ کا ایک ہی بار طواف کیا۔ اور نہ قربانی کی اور نہ سر منڈایا، نہ بال کترائے اور نہ کسی چیز کو حلال کیا جن کو احرام کے سبب سے حرام کیا تھا۔ یہاں تک کہ نحر کا دن ہوا (یعنی دسویں تاریخ ذی الحجہ کی) اور قربانی کی اور سر منڈایا۔ اور خیال کیا کہ حج اور عمرہ کو وہی طواف اول کافی ہو گیا۔ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایسا ہی کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل كِلَاهُمَا، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ بِهَذِهِ الْقِصَّةِ، وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ حِينَ قِيلَ لَهُ يَصُدُّوكَ عَنِ الْبَيْتِ، قَالَ: إِذًا أَفْعَلَ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا ذَكَرَهُ اللَّيْثُ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہ قصہ اسی طرح بیان کیا گیا ہے آپ نے سوائے حدیث کے آغاز کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا۔ جب ان سے کہا گیا کہ لوگ آپ کو بیت اللہ سے روک دیں گے تو آپ نے فرمایا کہ تب میں وہی کروں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور حدیث کے آخر میں یہ نہیں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح کیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ الْهِلَالِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَبَّادٍ الْمُهَلَّبِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ فِي رِوَايَةِ يَحْيَى، قَالَ: " أَهْلَلْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا "، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ عَوْنٍ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَهَلَّ بِالْحَجِّ مُفْرَدًا ".
سیدنا عبداللہ، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے فرزند سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا لبیک پکاری ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اکیلے حج کی اور ابن عون کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیلے حج کی لبیک پکاری۔
وحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ بَكْرٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُلَبِّي بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ جَمِيعًا "، قَالَ بَكْرٌ: فَحَدَّثْتُ بِذَلِكَ ابْنَ عُمَرَ ، فَقَالَ: لَبَّى بِالْحَجِّ وَحْدَهُ، فَلَقِيتُ أَنَسًا، فَحَدَّثْتُهُ بِقَوْلِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ أَنَسٌ: مَا تَعُدُّونَنَا إِلَّا صِبْيَانًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لبیک پکارتے تھے حج اور عمرہ دونوں کی۔ بکر نے کہا کہ میں نے یہی حدیث سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کی تو انہوں نے کہا: فقط حج کی لبیک پکاری۔ سو میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو یوں کہتے ہیں۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ ہم کو بچہ جانتے ہو۔ میں نے بخوبی سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”لبیک ہے عمرہ کی اور حج کی۔“
وحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ الْعَيْشِيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " جَمَعَ بَيْنَهُمَا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ "، قَالَ: فَسَأَلْتُ ابْنَ عُمَرَ، فَقَالَ: أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَنَسٍ فَأَخْبَرْتُهُ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَ: كَأَنَّمَا كُنَّا صِبْيَانًا.
مضمون وہی ہے صرف الفاظ میں یہ فرق ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا گویا ہم بچے تھے (یعنی سمجھے نہیں)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْثَرٌ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: أَيَصْلُحُ لِي أَنْ أَطُوفَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ آتِيَ الْمَوْقِفَ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ: لَا تَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى تَأْتِيَ الْمَوْقِفَ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : " فَقَدْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ الْمَوْقِفَ، فَبِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَأْخُذَ، أَوْ بِقَوْلِ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ".
وبرہ نے کہا کہ میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص آیا اور کہا کہ مجھے طواف کرنا قبل عرفات میں جانے کے درست ہے؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں۔ اس نے کہا: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو کہتے ہیں کہ جب تک عرفات میں نہ جائے تب تک طواف نہ کرے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا عرفات میں جانے سے پہلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول لینا بہتر ہے یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اگر سچا ہے تو۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ بَيَانٍ ، عَنْ وَبَرَةَ ، قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَطُوفُ بِالْبَيْتِ وَقَدْ أَحْرَمْتُ بِالْحَجِّ؟، فَقَالَ: وَمَا يَمْنَعُكَ؟، قَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ ابْنَ فُلَانٍ يَكْرَهُهُ، وَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْهُ، رَأَيْنَاهُ قَدْ فَتَنَتْهُ الدُّنْيَا، فَقَالَ: وَأَيُّنَا أَوْ أَيُّكُمْ لَمْ تَفْتِنْهُ الدُّنْيَا، ثُمَّ قَالَ: " رَأَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ، وَطَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، فَسُنَّةُ اللَّهِ وَسُنَّةُ رَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَقُّ أَنْ تَتَّبِعَ مِنْ سُنَّةِ فُلَانٍ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا ".
وبرہ نے کہا کہ ایک شخص نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ میں طواف کروں بیت اللہ کا اور میں نے حج کا احرام باندھا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ طواف سے تم کو کون روک سکتا ہے انہوں نے کہا کہ میں نے فلانے کے فرزند کو دیکھا (یعنی ابن عباس رضی اللہ عنہما کو) کہ وہ اس کو مکروہ جانتے ہیں اور آپ ان سے زیادہ ہمارے پیارے ہیں اور میں ان کو دیکھتا ہوں کہ دنیا نے ان کو غافل کر دیا ہے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم میں اور تم میں کون ایسا ہے جس کو دنیا نے غافل نہیں کیا۔ پھر کہا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے حج کا احرام باندھا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ میں سعی کی اور سنت اللہ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہتر ہے تابعداری کے لیے فلانے کی سنت سے اگر تو سچا ایمان دار ہے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، قَالَ: سَأَلْنَا ابْنَ عُمَرَ عَنْ رَجُلٍ قَدِمَ بِعُمْرَةٍ فَطَافَ بِالْبَيْتِ وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، أَيَأْتِي امْرَأَتَهُ؟، فَقَالَ: " قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا، وَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ سَبْعًا، وَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ "،
عمرو بن دینار نے کہا کہ ہم نے پوچھا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص عمرہ لایا اور بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے بیچ میں نہیں پھرا کیا وہ اپنی بی بی سے صحبت کرے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے اور بیت اللہ کا طواف کیا سات بار اور مقام ابراھیم کے پیچھے نماز پڑھی دو رکعت اور صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کی سات بار اور تم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی خوب ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ جَمِيعًا، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابن عیینہ کی طرح روایت کی۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ قَالَ لَهُ: سَلْ لِي عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، عَنْ رَجُلٍ يُهِلُّ بِالْحَجِّ فَإِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ أَيَحِلُّ أَمْ لَا؟، فَإِنْ قَالَ لَكَ: لَا يَحِلُّ، فَقُلْ لَهُ: إِنَّ رَجُلًا يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: " لَا يَحِلُّ مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا بِالْحَجِّ "، قُلْتُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يَقُولُ ذَلِكَ، قَالَ: بِئْسَ مَا قَالَ، فَتَصَدَّانِي الرَّجُلُ فَسَأَلَنِي فَحَدَّثْتُهُ، فَقَالَ: فَقُلْ لَهُ: فَإِنَّ رَجُلًا كَانَ يُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ فَعَلَ ذَلِكَ، وَمَا شَأْنُ أَسْمَاءَ وَالزُّبَيْرِ قَدْ فَعَلَا ذَلِكَ، قَالَ فَجِئْتُهُ فَذَكَرْتُ لَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟، فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَمَا بَالُهُ لَا يَأْتِينِي بِنَفْسِهِ يَسْأَلُنِي أَظُنُّهُ عِرَاقِيًّا، قُلْتُ: لَا أَدْرِي، قَالَ: فَإِنَّهُ قَدْ كَذَبَ: " قَدْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ أَنَّهُ تَوَضَّأَ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ "، ثُمَّ حَجَّ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ عُمَرُ مِثْلُ ذَلِكَ، ثُمَّ حَجَّ عُثْمَانُ، فَرَأَيْتُهُ أَوَّلُ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ مُعَاوِيَةُ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، ثُمَّ حَجَجْتُ مَعَ أَبِي الزُّبَيْرِ بْنِ الْعَوَّامِ، فَكَانَ أَوَّلَ شَيْءٍ بَدَأَ بِهِ الطَّوَافُ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ رَأَيْتُ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارَ يَفْعَلُونَ ذَلِكَ، ثُمَّ لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ، ثُمَّ آخِرُ مَنْ رَأَيْتُ فَعَلَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ، ثُمَّ لَمْ يَنْقُضْهَا بِعُمْرَةٍ، وَهَذَا ابْنُ عُمَرَ عِنْدَهُمْ أَفَلَا يَسْأَلُونَهُ، وَلَا أَحَدٌ مِمَّنْ مَضَى مَا كَانُوا يَبْدَءُونَ بِشَيْءٍ حِينَ يَضَعُونَ أَقْدَامَهُمْ، أَوَّلَ مِنَ الطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ لَا يَحِلُّونَ، وَقَدْ رَأَيْتُ أُمِّي وَخَالَتِي حِينَ تَقْدَمَانِ، لَا تَبْدَآنِ بِشَيْءٍ أَوَّلَ مِنَ الْبَيْتِ تَطُوفَانِ بِهِ، ثُمَّ لَا تَحِلَّانِ، وَقَدْ أَخْبَرَتْنِي أُمِّي أَنَّهَا أَقْبَلَتْ هِيَ وَأُخْتُهَا وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ بِعُمْرَةٍ قَطُّ، فَلَمَّا مَسَحُوا الرُّكْنَ حَلُّوا، وَقَدْ كَذَبَ فِيمَا ذَكَرَ مِنْ ذَلِكَ.
محمد جو فرزند ہیں عبدالرحمٰن کے روایت ہے کہ ایک شخص نے عراق والوں سے ان سے کہا کہ سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے میرے لیے یہ پوچھ دو کہ جو شخص لبیک پکارے حج کی اور طواف کر چکے بیت اللہ کا تو وہ حلال ہو چکا یا یا نہیں؟ (یعنی احرام اس کا کھل گیا یا نہیں؟) پھر اگر وہ تم سے کہیں کہ نہیں حلال ہوا تو ان سے کہو کہ ایک شخص کہتا ہے کہ وہ حلال ہو گیا۔ محمد نے کہا کہ پھر میں نے عروہ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں حلال ہوا وہ شخص جس نے لبیک حج کی پکاری ہے جب تک کہ حج پورا نہ کرے۔ میں نے کہا کہ ایک شخص کہتا ہے حلال ہو گیا، تو انہوں نے فرمایا: بہت برا کہتا ہے پھر وہ عراقی مجھے ملا اور مجھ سے پوچھا تو میں نے اس سے بیان کر دیا (یعنی جواب عروہ کا) تو اس نے کہا کہ ان سے کہو وہ یہ کہتا ہے کہ ایک شخص نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا اور اسماء اور زبیر نے بھی دونوں نے ایسا کیوں کیا؟ محمد نے کہا: میں پھر عروہ کے پاس گیا اور ان سے اس کا ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ کون شخص ہے؟ میں نے کہا: میں اس کا حال نہیں جانتا۔ انہوں نے فرمایا کہ وہ میرے پاس آ کر کیوں نہیں پوچھ لیتا میں اس کو عراق والا جانتا ہوں، میں نے کہا میں نہیں جانتا (اس وقت تک شاید ان کو بھی معلوم نہ ہو کہ یہ عراقی ہے بعد میں معلوم ہوا ہو) تب عروہ نے کہا کہ اس نے جھوٹ کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے جو حج کیا تو اس کی خبر دی مجھ کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ پہلے پہل جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے تو وضو کیا اور بیت اللہ کا طواف کیا (اس سے ثابت ہوا وضو کرنا اور امت کا اجماع ہے کہ وضو طواف کے لیے مشروع ہے مگر اس میں اختلاف ہے کہ واجب ہے یا شرط صحت طواف کی۔ امام مالک اور شافعی اور جمہور اور امام احمد رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ شرط ہے یعنی بغیر وضو طواف صحیح نہیں اور ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مستحب ہے اور شرط نہیں اور جمہور کی دلیل یہی حدیث ہے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہی اس کی دلیل ہے جو ترمذی رحمہ اللہ وغیرہ نے روایت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طواف بیت اللہ کا نماز ہے مگر االلہ تعالیٰ نے اس میں کلام روا کر دیا اور اگرچہ صحیح یہی ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ہی ہے مگر جب قول صحابی مشہور ہو جائے اور کوئی اس پر انکار نہ کرے تو حجت ہے علی الخصوص جب فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس پر دال ہو، پھر اس کی حجت ہونے میں کیا مقال ہے)پھر حج کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور انہوں نے بھی پہلے طواف کیا۔ بیت اللہ کا اور نہ تھا کچھ سوا اس کے یہاں پر جو متن میں «لَمْ يَكُنْ غَيْرُهُ» ہے اور آگے بھی کئی جگہ یہی لفط آیا ہے اس کو قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا کہ کہ کاتب کی غلطی ہے صحیح یہ ہے کہ «لَمْ يَكُنْ عُمْرَةٍ» یعنی پھر سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے طواف کر کے اپنے حج کو عمرہ نہیں کر ڈالا کہ عمرہ کر کے احرام کھول دیتے ہوں اور حج کا احرام پھر دوبارہ مکہ سے باندھے ہوں جیسا مذہب ہے بعض کا اور یہی قول ہے ابن قیم رحمہ اللہ کا اور دلائل اس کے ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اور اس سائل کا بھی مذہب یہی تھا اور نووی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ «غيره» کا لفظ غلط نہیں ہے بلکہ لفظ اور معنی دونوں صحیح ہیں یعنی «لم يكن غيره» تشدید یاء ہے یعنی پھر طواف کر کے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کو بدل نہیں ڈالا کہ حج کو عمرہ کر دیا ہو یا قران کر دیا ہو) پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی اس کی مثل کیا پھر حج کیا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اور ان کو بھی میں نے دیکھا کہ پہلے طواف بیت اللہ کیا اور اس کو بدلا نہیں، پھر سیدنا معاویہ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم نے بھی، پھر حج کیا میں نے اپنے باپ سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ سو انہوں نے بھی پہلے طواف کیا بیت اللہ کا اور پھر اس کو بدلا نہیں، پھر میں نے مہاجرین اور انصار کو بھی یہی کرتے دیکھا، پھر میں نے سب کے اخیر میں جس کو ایسا کرتے دیکھا وہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہیں کہ انہوں نے بھی حج کو عمرہ کر کے توڑ نہیں ڈالا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما تو ان کے پاس موجود ہیں یہ لوگ ان سے کیوں نہیں پوچھ لیتے اور اسی طرح جتنے لوگ گزر چکے ہیں سب لوگ جب مکہ میں قدم رکھتے تھے تو پہلے طواف کرتے تھے بیت اللہ کا اور پھر احرام نہیں کھولتے تھے (اس سے معلوم ہوا کہ طواف قدوم سے احرام نہیں کھلتا اور معلوم ہوا کہ باہر کا آدمی جب حرم میں داخل ہو تو پہلے طواف کرے۔ تحیتہ المسجد نہ پڑھے اور یہ سب باتیں متفق علیہ ہیں) اور میں نے اپنی والدہ اور خالہ کو دیکھا کہ جب یہ تشریف لاتیں۔ (یعنی جب تک حج اور عمرہ سے فارغ نہ ہو لیتیں) اور میری ماں نے مجھے خبر دی ہے کہ وہ آئیں اور ان کی بہن (یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا) اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ اور فلانے فلانے عمرہ لے کر پھر جب حجر اسود کو چھوا حلال ہو گئیں (یعنی بعد اتمام طواف اور سعی کے) اور اس عراقی نے جو کہا جھوٹ کہا (اس مسئلہ میں)۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ صَفِيَّةَ بِنْتِ شَيْبَةَ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَتْ: خَرَجْنَا مُحْرِمِينَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كَانَ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَقُمْ عَلَى إِحْرَامِهِ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ فَلْيَحْلِلْ "، فَلَمْ يَكُنْ مَعِي هَدْيٌ فَحَلَلْتُ، وَكَانَ مَعَ الزُّبَيْرِ هَدْيٌ فَلَمْ يَحْلِلْ، قَالَتْ: فَلَبِسْتُ ثِيَابِي ثُمَّ خَرَجْتُ فَجَلَسْتُ إِلَى الزُّبَيْرِ، فَقَالَ: قُومِي عَنِّي، فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ،
سیدہ اسماءرضی اللہ عنہا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ہم احرام باندھ کر نکلے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جس کے ساتھ ہدی ہو وہ تو اپنے احرام پر قائم رہے اور جس کے ساتھ نہ ہو وہ احرام کھول ڈالے۔“ اور میرے ساتھ ہدی نہ تھی سو میں نے احرام کھول ڈالا اور زبیر کے ساتھ ہدی تھی (یہ ان کے شوہر تھے) سو انہوں نے احرام نہ کھولا اسماء کہتی ہیں کہ پھر میں نے اپنے کپڑے پہنے اور نکلی اور زبیر کے پاس جا بیٹھی تو انہوں نے کہا کہ تم میرے پاس سے اٹھ جاؤ (اس لیے میں احرام ہوں اور یہ احتیاط اور تقویٰ کی بات ہے کہ شاید بی بی کی طرف مائل ہوں اور شہوت سے چھیڑ چھاڑ ہو) تو میں نے ان سے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تمہارے اوپر کود پڑوں گی؟ (یہ انہوں نے ظرافت سے کہا کہ مرد ہو کر عورتوں سے کیا ڈرتے ہو)۔
وَحَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ الْمُغِيرَةُ بْنُ سَلَمَةَ الْمَخْزُومِيُّ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أُمِّهِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَقَالَ: اسْتَرْخِي عَنِّي اسْتَرْخِي عَنِّي، فَقُلْتُ: أَتَخْشَى أَنْ أَثِبَ عَلَيْكَ.
سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ جب سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کپڑے بدل کر سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو انہوں نے فرمایا: تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تم مجھ سے دور ہو جاؤ، تو انہوں نے کہا کہ کیا تم ڈرتے ہو کہ میں تم پر کود پڑوں گی؟
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ كُلَّمَا مَرَّتْ بِالْحَجُونِ، تَقُولُ: " صَلَّى اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَاهُنَا، وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافُ الْحَقَائِبِ قَلِيلٌ ظَهْرُنَا قَلِيلَةٌ أَزْوَادُنَا، فَاعْتَمَرْتُ أَنَا وَأُخْتِي عَائِشَةُ، وَالزُّبَيْرُ وَفُلَانٌ وَفُلَانٌ، فَلَمَّا مَسَحْنَا الْبَيْتَ أَحْلَلْنَا، ثُمَّ أَهْلَلْنَا مِنَ الْعَشِيِّ بِالْحَجِّ "، قَالَ هَارُونُ فِي رِوَايَتِهِ: أَنَّ مَوْلَى أَسْمَاءَ، وَلَمْ يُسَمِّ عَبْدَ اللَّهِ.
ابوالاسود سے روایت ہے کہ عبداللہ نے جو کہ مولیٰ ہیں سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کے ان سے بیان کیا کہ اسماء ہمیشہ جب حجون کے اوپر گزرتیں (حجون بفتح قریب مکہ کی بلندی کی طرف اور جب جانے والا محصب پر چڑھتا ہے تو وہ داہنی طرف پڑتا ہے) فرماتیں کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرے اپنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ ہم ان کے ساتھ یہاں اترے ہیں اور ہمارے پاس ان دنوں بوجھے کم تھے اور سواریاں تھوڑی تھیں اور توشہ قلیل تھا (یعنی عرب کی سادگی اور دنیا سے آزادگی تھی) اور میں نے اور میری بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے اور فلانے فلانے شخصوں نے عمرہ کیا تھا، پھر جب ہم نے بیت اللہ کو چھوا (یعنی طواف اور سعی پوری کی) تو حلال ہو گئی، پھر تیسرے پہر کو حج کا احرام باندھا اور ہارون نے اپنی روایت میں کہا کہ روایت کی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے مولیٰ نے اور ان کا نام عبداللہ نہیں لیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْقُرِّيِّ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ مُتْعَةِ الْحَجِّ فَرَخَّصَ فِيهَا، وَكَانَ ابْنُ الزُّبَيْرِ يَنْهَى عَنْهَا، فَقَالَ: هَذِهِ أُمُّ ابْنِ الزُّبَيْرِ ، تُحَدِّثُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِيهَا، فَادْخُلُوا عَلَيْهَا فَاسْأَلُوهَا، قَالَ: فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا فَإِذَا امْرَأَةٌ ضَخْمَةٌ عَمْيَاءُ، فَقَالَتْ: " قَدْ رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا "،
مسلم قری نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حج کے تمتع کو پوچھا تو انہوں نے اجازت دی اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ اس سے منع کرتے تھے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی ماں موجود ہیں، روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے سو تم لوگ ان کے پاس جاؤ اور ان سے پوچھو، کہا انہوں نے کہ پھر ہم ان کے پاس گئے اور ان کو دیکھا کہ وہ ایک فربہ عورت ہیں اور نابینا۔ سو انہوں نے کہا کہ بے شک اجازت دی ہے تمتع کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ . ح وحَدَّثَنَاه ابْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ جَمِيعًا، عَنْ شُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، فَأَمَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَفِي حَدِيثِهِ الْمُتْعَةُ، وَلَمْ يَقُلْ مُتْعَةُ الْحَجِّ، وَأَمَّا ابْنُ جَعْفَرٍ، فَقَالَ شُعْبَةُ: قَالَ مُسْلِمٌ: لَا أَدْرِي مُتْعَةُ الْحَجِّ أَوْ مُتْعَةُ النِّسَاءِ.
شعبہ نے اسی اسناد سے یہی مضمون روایت کیا اور عبدالرحمٰن کی روایت میں صرف متعہ کا لفظ ہے اور معتہ حج مذکور نہیں اور ابن جعفر کی روایت میں ہے کہ انہوں نے کہا کہ شعبہ نے کہا کہ مسلم نے کہا: میں نہیں جانتا کہ یہ متعہ حج کا ہے یا متعہ عورتوں کا۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ الْقُرِّيُّ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " أَهَلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُمْرَةٍ، وَأَهَلَّ أَصْحَابُهُ بِحَجٍّ، فَلَمْ يَحِلَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا مَنْ سَاقَ الْهَدْيَ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَحَلَّ بَقِيَّتُهُمْ، فَكَانَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فِيمَنْ سَاقَ الْهَدْيَ فَلَمْ يَحِلَّ "،
مسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ کہتے تھے کہ لبیک پکاری نبی کریمصلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ ے بعد، احرام نہیں کھولا اور نہ ان لوگوں نے جو قربانی لائے تھے اور باقی لوگوں نے عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا اور طلحہ بن عبیداللہ ان میں تھے جو قربانی لائے تھے سو انہوں نے احرام نہیں کھولا۔ مسلم نے کہا کہ روایت کی ہم سے یہی حدیث محمد بن بشار نے، ان سے محمد نے یعنی ابن جعفر نے، ان سے شعبہ نے اسی اسناد سے مگر اس میں یہ ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ ان لوگوں میں تھےجوقربانی نہیں لائے تھےاور ایک اورشخص بھی انہی میں تھے سو ان دونوں نے احرام کھول ڈالا۔
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: " وَكَانَ مِمَّنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ الْهَدْيُ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَرَجُلٌ آخَرُ فَأَحَلَّا ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے لیکن اس میں ہے کہ طلحہ بن عبیداللہ اور ایک شخص جن کے پاس قربانی نہیں تھی وہ دونوں حلال ہو گئے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانُوا يَرَوْنَ أَنَّ الْعُمْرَةَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ مِنْ أَفْجَرِ الْفُجُورِ فِي الْأَرْضِ، وَيَجْعَلُونَ الْمُحَرَّمَ صَفَرًا، وَيَقُولُونَ إِذَا بَرَأَ الدَّبَرْ وَعَفَا الْأَثَرْ وَانْسَلَخَ صَفَرْ، حَلَّتِ الْعُمْرَةُ لِمَنِ اعْتَمَرْ، فَقَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ صَبِيحَةَ رَابِعَةٍ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً، فَتَعَاظَمَ ذَلِكَ عِنْدَهُمْ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْحِلِّ؟ قَالَ: " الْحِلُّ كُلُّهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ لوگ جاہلیت میں(یعنی اسلام کے زمانہ سے پہلے) حج کے دونوں میں عمرہ لانے کو زمین کے اوپر بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے (یعنی اس لیے کہ تین مہینے برابر ماہ حرام کے جو آتے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ پوٹ نہ کر سکتے اس لیے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ پاٹ کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسئی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے) کہتے تھے: جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں (یعنی جو سفر حج کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئیں ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ جائز ہے عمرہ کرنے والے کو پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چوتھی ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا دیں (جیسے مذہب ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ اوپر بدلائل گزر چکا) سو یہ لوگوں کو بڑی انوکھی بات لگی اور عرض کی: یا رسول اللہ! ہم کیسے حلال ہوں! (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”پورے حلال ہو۔“ یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ، فَقَدِمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ فَصَلَّى الصُّبْحَ، وَقَالَ لَمَّا صَلَّى الصُّبْحَ: " مَنْ شَاءَ أَنْ يَجْعَلَهَا عُمْرَةً فَلْيَجْعَلْهَا عُمْرَةً "،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فرزند فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری حج کی، پھر جب چار تاریخیں گزریں ذی الحجہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی، پھر جب نماز صبح سے فارغ ہوئے فرمایا: ”جس کا جی چاہے اس احرم حج کو عمرہ کر ڈالے۔“
وحَدَّثَنَاه إِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الْمُبَارَكِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ شُعْبَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ أَمَّا رَوْحٌ، وَيَحْيَى بْنُ كَثِيرٍ، فَقَالَ نَصْرٌ: " أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ "، وَأَمَّا أَبُو شِهَابٍ فَفِي رِوَايَتِهِ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُهِلُّ بِالْحَجِّ "، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا فَصَلَّى الصُّبْحَ بِالْبَطْحَاءِ، خَلَا الْجَهْضَمِيَّ فَإِنَّهُ لَمْ يَقُلْهُ.
چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ السَّدُوسِيُّ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ الْبَرَّاءِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ لِأَرْبَعٍ خَلَوْنَ مِنَ الْعَشْرِ، وَهُمْ يُلَبُّونَ بِالْحَجِّ، فَأَمَرَهُمْ أَنْ يَجْعَلُوهَا عُمْرَةً ".
عبداللہ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے فرزند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب چوتھی تاریخ ذی الحجہ کی مکہ میں آئے لبیک پکارتے ہوئے حج کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا: ”اس کو عمرہ کر ڈالو۔“
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصُّبْحَ بِذِي طَوًى، وَقَدِمَ لِأَرْبَعٍ مَضَيْنَ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُحَوِّلُوا إِحْرَامَهُمْ بِعُمْرَةٍ، إِلَّا مَنْ كَانَ مَعَهُ الْهَدْيُ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی ذی طویٰ میں (وہ ایک وادی ہے مکہ کے قریب) اور مکہ میں صبح آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تاریخ چوتھی گزر چکی ذی الحجہ کی اور اپنے یاروں کو حکم فرمایا کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کر ڈالیں۔ مگر جن کے پاس قربانی ہو۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَذِهِ عُمْرَةٌ اسْتَمْتَعْنَا بِهَا، فَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ الْهَدْيُ، فَلْيَحِلَّ الْحِلَّ كُلَّهُ، فَإِنَّ الْعُمْرَةَ قَدْ دَخَلَتْ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ جس سے ہم نے نفع لیا سو جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ اسی طرح حج کا احرام عمرہ کر کے کھول ڈالے اس لیے کہ عمرہ حج کے دنوں میں روا ہو گیا قیامت تک۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَمْرَةَ الضُّبَعِيَّ ، قَالَ: تَمَتَّعْتُ فَنَهَانِي نَاسٌ عَنْ ذَلِكَ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، فَأَمَرَنِي بِهَا، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَنِمْتُ، فَأَتَانِي آتٍ فِي مَنَامِي، فَقَالَ: " عُمْرَةٌ مُتَقَبَّلَةٌ وَحَجٌّ مَبْرُورٌ "، قَالَ: فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي رَأَيْتُ، فَقَالَ: " اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ سُنَّةُ أَبِي الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
شعبہ نے ابوجمرہ ضبعی سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے تمتع کیا اور لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، سو انہوں نے مجھے حکم دیا اور پھر میں بیت اللہ کے پاس جا کر سو رہا اور خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ عمرہ بھی مقبول ہے اور حج بھی مقبول ہے۔ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خواب بیان کیا کہا: سب بزرگی اللہ کو ہے، سب بزرگی اللہ کو ہے، یہ سنت ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ (یعنی پھر کیوں نہ قبول ہو)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ أَبِي عَدِيٍّ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الظُّهْرَ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، ثُمَّ دَعَا بِنَاقَتِهِ فَأَشْعَرَهَا فِي صَفْحَةِ سَنَامِهَا الْأَيْمَنِ، وَسَلَتَ الدَّمَ وَقَلَّدَهَا نَعْلَيْنِ، ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَلَمَّا اسْتَوَتْ بِهِ عَلَى الْبَيْدَاءِ، أَهَلَّ بِالْحَجِّ "،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز پڑھی ذوالحلیفہ میں اور اپنی اونٹنی کو منگایا (یعنی قربانی کی) اور اس کی کوہان کے اوپر داہنی طرف اشعار کیا (یعنی ایک زخم لگا دیا) اور خون کو صاف کر دیا اور اس کے گلے میں دو جوتوں کا ہار لٹکا دیا (یہ تقلید ہوئی) پھر اپنی سواری پر سوار ہوئے اور جب اونٹنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لےکر بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری (یعنی اگرچہ نماز کے بعد بھی لبیک کہہ چکے مگر یہاں بھی پکاری)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، بِمَعْنَى حَدِيثِ شُعْبَةَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ ". وَلَمْ يَقُلْ: " صَلَّى بِهَا الظُّهْرَ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔ اس میں یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحلیفہ آئے۔ اس میں ظہر کی نماز کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَسَّانَ الْأَعْرَجَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي الْهُجَيْمِ لِابْنِ عَبَّاسٍ : مَا هَذَا الْفُتْيَا الَّتِي قَدْ تَشَغَّفَتْ أَوْ تَشَغَّبَتْ بِالنَّاسِ، أَنَّ مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ فَقَدْ حَلَّ؟، فَقَالَ: " سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ رَغِمْتُمْ ".
قتادہ نے کہا: میں نے ابوحسان اعرج سے سنا ہے کہ ایک شخص نے بنی ھجیم کے قبیلہ میں سے کہا کہ اے ابن عباس! یہ کیا فتویٰ آپ دیتے ہیں جس میں لوگ مشغول ہو رہے ہیں یا جس میں لوگ گڑبڑ کر رہے ہیں کہ جس نے طواف کیا بیت اللہ کا (یعنی حاجیوں میں سے اور اس طواف سے طواف قدوم مراد ہے) سو وہ حلال ہو گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ سنت ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اگرچہ تمہاری ناک مین خاک بھر جائے۔(یعنی تمہارے خلاف ہو تو ہوا کرے)۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاق ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ ، قَالَ: قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ : " إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ قَدْ تَفَشَّغَ بِالنَّاسِ، مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ فَقَدْ حَلَّ الطَّوَافُ عُمْرَةٌ "، فَقَالَ: " سُنَّةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنْ رَغَمْتُمْ ".
قتادہ سے روایت ہے کہ ابوحسان نے کہا کہ کسی نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ یہ مسئلہ ایسا ہے کہ لوگوں میں بہت پھیل گیا ہے کہ جو طواف کرے بیت اللہ کا وہ حلال ہو گیا اور اس کو عمرہ کر ڈالے (یعنی اگرچہ احرام حج کا ہو) تو انہوں نے فرمایا کہ یہ سنت تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے اگرچہ تمہاری ناک میں خاک بھرے۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " لَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ حَاجٌّ، وَلَا غَيْرُ حَاجٍّ، إِلَّا حَلَّ "، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: مِنْ أَيْنَ يَقُولُ ذَلِكَ؟، قَالَ: مِنْ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ سورة الحج آية 33، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ ذَلِكَ بَعْدَ الْمُعَرَّفِ، فَقَالَ: كَانَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُولُ: هُوَ بَعْدَ الْمُعَرَّفِ وَقَبْلَهُ، " وَكَانَ يَأْخُذُ ذَلِكَ مِنْ أَمْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حِينَ أَمَرَهُمْ أَنْ يَحِلُّوا فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ".
عطاء نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فتویٰ دیتے تھے کہ جس نے طواف کیا بیت اللہ کا (یعنی پہلے پہل مکہ کے آتے ہی) وہ حلال ہو گیا خواہ حاجی ہو یا غیر حاجی(یعنی معتمر ہو) میں نے عطاء سے کہا کہ وہ یہ بات کہاں سے کہتے تھے؟ انہوں نے کہا: اس آیت سے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے «ثُمَّ مَحِلُّهَا إِلَى الْبَيْتِ الْعَتِيقِ» ”پھر جگہ اس قربانی کے پہنچنے کی بیت اللہ تک ہے۔“ تو میں نے کہا: یہ تو عرفات سے آنے کے بعد ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول یہ ہے کہ محل اس کا بیت اللہ ہے خواہ بعد عرفات کے ہو یا قبل اس کے اور وہ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک سے نکالتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حکم فرمایا کہ لوگ احرام کھول ڈالیں حجۃ الوداع میں۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حُجَيْرٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : قَالَ لِي مُعَاوِيَةُ: " أَعَلِمْتَ أَنِّي قَصَّرْتُ مِنْ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَرْوَةِ بِمِشْقَصٍ "، فَقُلْتُ لَهُ: " لَا أَعْلَمُ هَذَا إِلَّا حُجَّةً عَلَيْكَ ".
طاؤس رحمہ اللہ نے کہا کہ مجھ سے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا، مجھ سے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہیں خبر دے چکا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کے بال کترے ہیں مروہ کے نزدیک تیر کی پیکان سے سو میں نے ان کو جواب دیا کہ یہ تو تمہارے اوپر حجت ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: " قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِشْقَصٍ، وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصَّرُ عَنْهُ بِمِشْقَصٍ وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ ".
طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو خبر دی کہ میں نے بال کترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مروہ کے اوپر تیر کی بھال سے یا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بال کتروا رہے ہیں تیر کی بھال سے مروہ پر۔
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصْرُخُ بِالْحَجِّ صُرَاخًا، فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ، أَمَرَنَا أَنْ نَجْعَلَهَا عُمْرَةً إِلَّا مَنْ سَاقَ الْهَدْيَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ التَّرْوِيَةِ وَرُحْنَا إِلَى مِنًى، أَهْلَلْنَا بِالْحَجِّ ".
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو پکارتے ہوئے پھر جب مکہ میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ہم اس احرام حج کو عمرہ کر ڈالیں مگر وہ لوگ جن کے ساتھ قربانی ہے، پھر جب آٹھویں تاریخ ہوئی ذوالحجہ کی اور سب منیٰ کو چلے تو پھر لبیک پکاری حج کی یعنی بیچ میں عمرہ کر کے احرام کھول ڈالا تھا۔
وحَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرٍ ، وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: " قَدِمْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَصْرُخُ بِالْحَجِّ صُرَاخًا ".
سیدنا جابر اور سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کو آئے حج پکارتے ہوئے۔
حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: " إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ اخْتَلَفَا فِي الْمُتْعَتَيْنِ "، فَقَالَ جَابِرٌ : " فَعَلْنَاهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْهُمَا عُمَرُ، فَلَمْ نَعُدْ لَهُمَا ".
ابونضرہ نے کہا کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا کہ ایک شخص نے آ کر کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ دونوں متعوں میں اختلاف کر رہے ہیں (یعنی ایک متعہ نساء میں اور ایک متعہ حج میں،) تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کئیے ہیں پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو منع فرمایا تو ہم نے نہیں کیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنِي سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ یمن سے آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے کیا احرام باندھا؟“ انہوں نے کہا: میں نے یوں لبیک پکاری کہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہو وہی میری لبیک ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میرے ساتھ اگر قربانی نہ ہوتی تو میں عمرہ کر کے احرام کھول ڈالتا۔“ (یعنی اب تم بھی احرام نہ کھولنا جیسے میں نہ کھولوں گا)۔
وحَدَّثَنِيهِ حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ . ح وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي رِوَايَةِ بَهْزٍ " لَحَلَلْتُ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق ، وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، وَحُمَيْدٍ ، أَنَّهُمْ سَمِعُوا أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهَلَّ بِهِمَا جَمِيعًا، لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا لَبَّيْكَ، عُمْرَةً وَحَجًّا ".
یحییٰ وغیرہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری حج اور عمرہ دونوں کی۔
وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاق ، وَحُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ أَنَسًا يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا "، وقَالَ حُمَيْدٌ: قَالَ أَنَسٌ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث بیان کی گئی ہے۔ ایک روایت میں «لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا» کے الفاظ ہیں اور دوسری روایت میں «لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجٍّ» کے الفاظ ہیں۔
وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وزهير بن حرب جميعا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ سَعِيدٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، عَنْ حَنْظَلَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَيُهِلَّنَّ ابْنُ مَرْيَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَاءِ حَاجًّا أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ لَيَثْنِيَنَّهُمَا "،
حنظلہ جو قبیلہ بنی اسلم سے ہیں انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ البتہ بلاشک و شبہ عیسیٰ علیہ السلام فرزند مریم کے روحاء کی گھاٹی میں جو کہ مکہ مدینہ کے بیچ میں ہے لبیک پکاریں گے حج کی یا عمرہ کی یا قران کریں گے اور دونوں کی لبیک پکاریں گے، ایک ہی ساتھ۔“
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ "،
وہی مضمون ہے جو اوپر مذکور ہوا۔
وَحَدَّثَنِيهِ حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حَنْظَلَةَ بْنِ عَلِيٍّ الْأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ "، بِمِثْلِ حَدِيثِهِمَا.
کہا مسلم نے روایت کی مجھ سے حرملہ نے، ان سے ابن وہب نے، ان سے یونس نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے حنظلہ بن علی اسلمی نے انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”اس پروردگار کی قسم ہے کہ میری جان جس کے ہاتھ میں ہے۔“ آگے وہی مضمون ہے جو اوپر کی روایت میں دونوں راویوں نے بیان کیا ہے۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، أَنَّ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ، كُلُّهُنَّ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، إِلَّا الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ عُمْرَةً مِنَ الْحُدَيْبِيَةِ، أَوْ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مِنْ جِعْرَانَةَ حَيْثُ قَسَمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةً مَعَ حَجَّتِهِ "،
قتادہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے اور سب ذی قعدہ میں مگر جو حج کے ساتھ ہوا کہ ایک عمرہ حدیبیہ ذی قعدہ میں، دوسرا، اس کے بعد سال میں ذی قعدہ میں، تیسرا عمرہ جو جعرانہ سے لائے جہاں حنین کی لوٹ تقسیم کی ذیقعدہ میں اور چوتھا وہ جو حج کے ساتھ ہوا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، قَالَ: " سَأَلْتُ أَنَسًا كَمْ حَجَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " حَجَّةً وَاحِدَةً وَاعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ ". ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ هَدَّابٍ.
قتادہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کیے؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک حج کیا اور چار عمرے کیے۔ باقی مضمون وہی ہے جو اوپر کی روایت میں گزرا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، قَالَ: " سَأَلْتُ زَيْدَ بْنَ أَرْقَمَ كَمْ غَزَوْتَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ "، قَالَ: " سَبْعَ عَشْرَةَ "، قَالَ: وَحَدَّثَنِي زَيْدُ بْنُ أَرْقَمَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا تِسْعَ عَشْرَةَ، وَأَنَّهُ حَجَّ بَعْدَ مَا هَاجَرَ حَجَّةً وَاحِدَةً حَجَّةَ الْوَدَاعِ "، قَالَ أَبُو إِسْحَاق: " وَبِمَكَّةَ أُخْرَى ".
ابواسحٰق نے کہا کہ میں نے زید بن ارقم سے پوچھا کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کتنے جہادوں میں رہے؟ انہوں نے کہا: سترہ میں اور انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انیس جہاد کیے اور ہجرت کے بعد ایک حج کیا جسے حجتہ الوداع کہتے ہیں اور ابواسحاق نے کہا: دوسرا جب حج کیا کہ مکہ میں تھے یعنی قبل ہجرت کے۔
وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يُخْبِرُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَابْنُ عُمَرَ مُسْتَنِدَيْنِ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَإِنَّا لَنَسْمَعُ ضَرْبَهَا بِالسِّوَاكِ تَسْتَنُّ، قَالَ: فَقُلْتُ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَقُلْتُ لِعَائِشَةَ : أَيْ أُمَّتَاهُ أَلَا تَسْمَعِينَ مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ؟، قَالَتْ: وَمَا يَقُولُ؟، قُلْتُ: يَقُولُ اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ لَعَمْرِي مَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ وَمَا اعْتَمَرَ مِنْ عُمْرَةٍ إِلَّا وَإِنَّهُ لَمَعَهُ "، قَالَ: وَابْنُ عُمَرَ يَسْمَعُ، فَمَا قَالَ لَا، وَلَا نَعَمْ، سَكَتَ.
عطاء رحمہ اللہ نے کہا: خبر دی مجھے عروہ نے کہا: میں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما دونوں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے سے تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مسواک کر رہی تھیں اور ہم ان کے مسواک کی آواز سن رہے تھے۔ سو میں نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی، کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں عمرہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اے میری ماں آپ سنتی ہیں کہ ابوعبدالرحمٰن کیا کہتے ہیں؟ میں نے کہا: وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلمنے رجب میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ اللہ بخشے ابوعبدالرحمٰن کو قسم ہے میری جان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رجب میں عمرہ نہیں کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کیا تو ابوعبدالرحمٰن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ بات سنی اور نہ ہاں کہا نہ نا، اور چپ ہو رہے۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ جَالِسٌ إِلَى حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ الضُّحَى فِي الْمَسْجِدِ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ صَلَاتِهِمْ، فَقَالَ: بِدْعَةٌ، فَقَالَ لَهُ عُرْوَةُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ كَمِ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَقَالَ: أَرْبَعَ عُمَرٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، فَكَرِهْنَا أَنْ نُكَذِّبَهُ وَنَرُدَّ عَلَيْهِ، وَسَمِعْنَا اسْتِنَانَ عَائِشَةَ فِي الْحُجْرَةِ، فَقَالَ عُرْوَةُ: أَلَا تَسْمَعِينَ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ إِلَى مَا يَقُولُ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ، فَقَالَتْ: وَمَا يَقُولُ؟، قَالَ: يَقُولُ: اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعَ عُمَرٍ إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ، فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا وَهُوَ مَعَهُ، وَمَا اعْتَمَرَ فِي رَجَبٍ قَطُّ ".
مجاہد سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں اور عروہ دونوں مسجد نبوی میں گئے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس بیٹھے تھے اور لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے، سو میں نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ نماز کیسی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ بدعت ہے (یعنی مسجد میں ادا کرنا اس کا اور اہتمام کرنا مثل صلوۃ مفروضہ کے بدعت ہے) پھر ان سے کہا عروہ نے اے ابوعبدالرحمٰن! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کیے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ چار، ایک ان میں سے رجب میں ہے سو ہم کو برا معلوم ہوا کہ ہم ان کی تکذیب کریں یا ان کو رد کر دیں اور مسواک کرنے کی آواز سنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کہ وہ حجرے میں تھیں۔ سو عروہ نے کہا کہ آپ سنتی ہیں اے مؤمنوں کی ماں! جو ابوعبدالرحمٰن کہہ رہے ہیں؟ انہوں نے پوچھا کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا: وہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے ہیں ایک رجب میں تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رحمت کرے ابوعبدالرحمٰن پر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جو یہ ان کے ساتھ نہ ہوں اور رجب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی عمرہ نہیں کیا۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يُحَدِّثُنَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِامْرَأَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، سَمَّاهَا ابْنُ عَبَّاسٍ، فَنَسِيتُ اسْمَهَا: " مَا مَنَعَكِ أَنْ تَحُجِّي مَعَنَا؟ "، قَالَتْ: لَمْ يَكُنْ لَنَا إِلَّا نَاضِحَانِ فَحَجَّ أَبُو وَلَدِهَا، وَابْنُهَا عَلَى نَاضِحٍ، وَتَرَكَ لَنَا نَاضِحًا نَنْضِحُ عَلَيْهِ، قَالَ: " فَإِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فَاعْتَمِرِي، فَإِنَّ عُمْرَةً فِيهِ تَعْدِلُ حَجَّةً ".
عطاء نے کہا: میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کی ایک بی بی سے فرمایا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان کا نام بھی لیا مگر میں بھول گیا کہ کیوں تم ہمارے ساتھ حج کو نہیں چلتیں؟ تو انہوں نے عرض کی کہ ہمارے پاس پانی لانے کے لئے دو ہی اونٹ تھے سو ایک پر ہمارا شوہر اور ہمارا بیٹا حج کو گیا اور ایک اونٹ ہمارے لئے چھوڑ گیا کہ اس پر ہم پانی لاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا جب رمضان آئے تو تم ایک عمرہ کر لینا کہ اس کا بھی ثواب حج کے برابر ہے۔“
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِامْرَأَةٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، يُقَالُ لَهَا: أُمُّ سِنَانٍ: " مَا مَنَعَكِ أَنْ تَكُونِي حَجَجْتِ مَعَنَا؟ "، قَالَتْ: نَاضِحَانِ كَانَا لِأَبِي فُلَانٍ زَوْجِهَا، حَجَّ هُوَ وَابْنُهُ عَلَى أَحَدِهِمَا، وَكَانَ الْآخَرُ يَسْقِي عَلَيْهِ غُلَامُنَا، قَالَ: " فَعُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَقْضِي حَجَّةً أَوْ حَجَّةً مَعِي ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں ہے کہ اس عورت نے کہا کہ ہمارے شوہر کے دو اونٹ تھے، ایک پر وہ اور ان کا لڑکا حج کو گیا ہے اور دوسرے پر ہمارا چھوکرا پانی لاتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ”عمرہ رمضان میں حج کے برابر ہے۔“ یا فرمایا: ”ہمارے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔“اور یہ بھی ہے کہ ان صحابیہ کا نام ام سنان رضی اللہ عنہا تھا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا 9 ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَخْرُجُ مِنْ طَرِيقِ الشَّجَرَةِ، وَيَدْخُلُ مِنْ طَرِيقِ الْمُعَرَّسِ، وَإِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنَ الثَّنِيَّةِ الْعُلْيَا، وَيَخْرُجُ مِنَ الثَّنِيَّةِ السُّفْلَى "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ سے نکلتے تو شجرہ کی راہ سے نکلتے اور معرس کی راہ سے داخل ہوتے (معرس ایک مقام ہے مدینہ سے چھ میل پر) اور جب مکہ میں داخل ہوتے تو اونچے ٹیلے سے اور جب نکلتے تو نیچے کے ٹیلے سے۔
وَحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ فِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ: الْعُلْيَا الَّتِي بِالْبَطْحَاءِ.
عبیداللہ سے اسی سند سے یہی مضمون مروی ہوا اور ایک روایت میں زہیر کی یہ ہے کہ داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں اوپر کے ٹیلے سے جو بطحاء میں ہے (اور وہ ایک مقام کا نام ہے محصب کے بازو میں اور یہ وہ ٹیلہ ہے کہ اس سے مقابر مکہ میں اتر جاتے ہیں)۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا جَاءَ إِلَى مَكَّةَ، دَخَلَهَا مِنْ أَعْلَاهَا، وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں آئے تو داخل ہوئے اوپر کی طرف سے اور نکلے تو نیچے کی طرف سے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلَ عَامَ الْفَتْحِ مِنْ كَدَاءٍ مِنْ أَعْلَى مَكَّةَ "، قَالَ هِشَامٌ: فَكَانَ أَبِي يَدْخُلُ مِنْهُمَا كِلَيْهِمَا، وَكَانَ أَبِي أَكْثَرَ مَا يَدْخُلُ مِنْ كَدَاءٍ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا کداء کی طرف سے داخل ہوئے جو مکہ کی بلندی کی طرف ہے (کداء ہمزہ کے ساتھ اور مد سے ایک ٹیلہ ہے مکہ کی بلندی کی طرف اور کدا بغیر مد کے ایک ٹیلہ ہے مکہ کے نیچے کی طرف) ہشام نے کہا کہ میرے والدین دونوں کی طرف سے داخل ہوتے تھے اور اکثر کداء کی طرف سے داخل ہوتے تھے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بَاتَ بِذِي طَوًى حَتَّى أَصْبَحَ، ثُمَّ دَخَلَ مَكَّةَ "، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَفْعَلُ ذَلِكَ، وَفِي رِوَايَةِ ابْنِ سَعِيدٍ: حَتَّى صَلَّى الصُّبْحَ، قَالَ يَحْيَى: أَوَ قَالَ: حَتَّى أَصْبَحَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شب کو ذی طویٰ میں رہے، (ذی طویٰ ایک مقام مشہور ہے مکہ کے قریب) صبح کے وقت تک پھر مکہ میں داخل ہوئے اور عبداللہ بھی ایسا ہی کرتے تھے اور ابن سعید کی روایت میں ہے کہ ذی طویٰ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ : " كَانَ لَا يَقْدَمُ مَكَّةَ إِلَّا بَاتَ بِذِي طَوًى، حَتَّى يُصْبِحَ وَيَغْتَسِلَ، ثُمَّ يَدْخُلُ مَكَّةَ نَهَارًا "، وَيَذْكُرُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ فَعَلَهُ.
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں نہ جاتے جب تک ذی طویٰ میں رات کو نہ رہتے پھر جب وہاں صبح ہو جاتی نہاتے پھر داخل ہوتے دن کو اور ذکر کرتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ، حَدَّثَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَنْزِلُ بِذِي طَوًى وَيَبِيتُ بِهِ، حَتَّى يُصَلِّيَ الصُّبْحَ، حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ، وَمُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ، عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ لَيْسَ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي بُنِيَ، ثَمَّ وَلَكِنْ أَسْفَلَ مِنْ ذَلِكَ عَلَى أَكَمَةٍ غَلِيظَةٍ ".
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے ذی طویٰ میں اور شب کو وہاں رہتے یہاں تک کہ صبح کو نماز پڑھتے جب مکہ کو آتے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ اوپر ایک موٹے ٹیلے کے ہے کہ وہ ٹیلا اس مسجد میں نہیں ہے جو وہاں بنی ہے مگر اس سے نیچے ہے ایک موٹے ٹیلے پر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ، أَخْبَرَهُ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اسْتَقْبَلَ فُرْضَتَيِ الْجَبَلِ، الَّذِي بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجَبَلِ الطَّوِيلِ نَحْوَ الْكَعْبَةِ، يَجْعَلُ الْمَسْجِدَ الَّذِي بُنِيَ، ثَمَّ يَسَارَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِطَرَفِ الْأَكَمَةِ، وَمُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْفَلَ مِنْهُ عَلَى الْأَكَمَةِ السَّوْدَاءِ، يَدَعُ مِنَ الْأَكَمَةِ عَشْرَةَ أَذْرُعٍ أَوْ نَحْوَهَا، ثُمَّ يُصَلِّي مُسْتَقْبِلَ الْفُرْضَتَيْنِ مِنَ الْجَبَلِ الطَّوِيلِ، الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْكَعْبَةِ ".
نافع کو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منہ کیا طرف دونوں ٹیلوں کے اس پہاڑ کے جو پہاڑ ان کے اور کعبہ کے بیچ میں تھا اور اس مسجد کو جو وہاں بنی ہے بائیں طرف کر دیتے ہیں، اس مسجد کے جو کنارے پر ہے ٹیلہ کے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ اس کالے ٹیلے کے نیچے ہے، اس کالے ٹیلے سے دس ہاتھ چھوڑ کر یا اس سے کچھ کم و بیش پھر نماز پڑھتے تھے منہ کیے ہوئے دونوں ٹیلوں کی طرف اس لمبے پہاڑ کے جو تیرے اور کعبہ کے بیچ میں ہے اللہ رحمت اور سلام بھیجے ان پر۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا طَافَ بِالْبَيْتِ الطَّوَافَ الْأَوَّلَ، خَبَّ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا، وَكَانَ يَسْعَى بِبَطْنِ الْمَسِيلِ إِذَا طَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ "، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمجب پہلا طواف کرتے بیت اللہ کا تو تین بار جلدی جلدی چلتے چھوٹے چھوٹے قدم رکھ کے اور چار بار عادت کے موافق چلتے اور بہیا کے آنے کی جگہ میں دوڑتے جب سعی کرتے صفا اور مروہ میں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ إِذَا طَافَ فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَوَّلَ مَا يَقْدَمُ، فَإِنَّهُ يَسْعَى ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ يَمْشِي أَرْبَعَةً، ثُمَّ يُصَلِّي سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج میں یا عمرہ میں پہلے پہل طواف کرتے تو تین بار دوڑتے اور چار بار چلتے اور دو رکعت نماز پڑھتے پھر سعی کرتے صفا اور مروہ کی۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَ حَرْمَلَةُ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ يَقْدَمُ مَكَّةَ، إِذَا اسْتَلَمَ الرُّكْنَ الْأَسْوَدَ أَوَّلَ مَا يَطُوفُ، حِينَ يَقْدَمُ يَخُبُّ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ السَّبْعِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب مکہ آتے اور حجر اسود کو چھوتے اور پہلے پہل طواف کرتے تین بار دوڑتے سات پھیروں سے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ أَبَانٍ الْجُعْفِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " رَمَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثًا، وَمَشَى أَرْبَعًا ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکروں میں عام چلے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ أَخْضَرَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ : " رَمَلَ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ "، وَذَكَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ.
نافع نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حجر اسود سے حجر اسود تک رمل کیا اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَلَ مِنَ الْحَجَرِ الْأَسْوَدِ، حَتَّى انْتَهَى إِلَيْهِ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجر اسود سے رمل کرتے دیکھا یہاں تک کہ اس تک تین چکر پورے ہو گئے۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، وَابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " رَمَلَ الثَّلَاثَةَ أَطْوَافٍ مِنَ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود تک تین چکروں میں رمل کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : أَرَأَيْتَ هَذَا الرَّمَلَ بِالْبَيْتِ ثَلَاثَةَ أَطْوَافٍ وَمَشْيَ أَرْبَعَةِ أَطْوَافٍ أَسُنَّةٌ هُوَ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ قَالَ: فَقَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا، قَالَ: قُلْتُ: مَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا؟ قَالَ: " إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ مَكَّةَ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ مُحَمَّدًا، وَأَصْحَابَهُ لَا يَسْتَطِيعُونَ أَنْ يَطُوفُوا بِالْبَيْتِ مِنَ الْهُزَالِ، وَكَانُوا يَحْسُدُونَهُ، قَالَ: " فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا ثَلَاثًا وَيَمْشُوا أَرْبَعًا "، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: أَخْبِرْنِي عَنِ الطَّوَافِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا أَسُنَّةٌ هُوَ؟ فَإِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُ سُنَّةٌ، قَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا قَوْلُكَ صَدَقُوا وَكَذَبُوا؟ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثُرَ عَلَيْهِ النَّاسُ، يَقُولُونَ: هَذَا مُحَمَّدٌ هَذَا مُحَمَّدٌ حَتَّى خَرَجَ الْعَوَاتِقُ مِنَ الْبُيُوتِ، قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُضْرَبُ النَّاسُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَلَمَّا كَثُرَ عَلَيْهِ رَكِبَ، وَالْمَشْيُ وَالسَّعْيُ أَفْضَلُ "،
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ مجھے خبر دو بیت اللہ کے طواف کی اور اس میں تین بار رمل کرنا اور چار بار چلنا سنت ہے؟ اس لئے کہ تمہارے لوگ کہتے ہیں کہ وہ سنت ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ جھوٹے بھی ہیں سچے بھی۔ میں نے کہا: اس کا کیا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ میں تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے یار بیت اللہ شریف کا طواف نہیں کر سکتے ضعف اور لاغری کے سبب سے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد رکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ تین بار رمل کریں اور چار بار عادت کے موافق چلیں (غرض یہ ہے کہ انہوں نے اس فعل کو جو سنت مؤکدہ مقصود سمجھا یہ ان کا جھوٹ تھا باقی بات سچ تھی) پھر میں نے کہا: ہم کو خبر دیجئیے صفا اور مروہ کے بیچ میں سعی کرنے کی سوار ہو کر کے وہ سنت ہے کہ آپ کے لوگ اسے سنت کہتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: وہ سچے بھی ہیں جھوٹے بھی۔ میں نے کہا: اس کا مطلب؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے تو لوگوں کی بھیڑ بھاڑ ایسی ہوئی کہ کنواری عورتیں تک باہر نکل آئیں اور لوگ کہنے لگے کہ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی ایسی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے لوگ مارے نہ جاتے تھے (یعنی ہٹو، بچو، بغل ہو، چلو جیسے امرائے دنیا کے واسطے ہوتی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نہ ہوتی تھی) پھر جب لوگوں کی بڑی بھیڑ ہوئی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو گئے اور پیدل سعی کرنا افضل ہے (یعنی اتنا جھوٹ ہوا کہ جو چیز بضرورت ہوتی تھی اس کو بلاضرورت سنت کہا باقی سچ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعی سوار ہو کر کی ہے)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: وَكَانَ أَهْلُ مَكَّةَ: قَوْمَ حَسَدٍ، وَلَمْ يَقُلْ: يَحْسُدُونَهُ.
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے محمد بن مثنیٰ نے، ان سے یزید نے، ان سے جریری نے، اسی اسناد سے اسی روایت کی مانند مگر اس میں یوں ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مکہ کے لوگ حاسد تھے اور یہ نہیں کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے حسد رکھتے تھے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي حُسَيْنٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : إِنَّ قَوْمَكَ يَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَمَلَ بِالْبَيْتِ، وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَهِيَ سُنَّةٌ "، قَالَ: صَدَقُوا وَكَذَبُوا.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے چند الفاظ کے فرق کے ساتھ۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْأَبْجَرِ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ : أُرَانِي قَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَصِفْهُ لِي، قَالَ: قُلْتُ: " رَأَيْتُهُ عِنْدَ الْمَرْوَةِ عَلَى نَاقَةٍ، وَقَدْ كَثُرَ النَّاسُ عَلَيْهِ "، قَالَ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: ذَاكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّهُمْ كَانُوا لَا يُدَعُّونَ عَنْهُ وَلَا يُكْرَهُونَ ".
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں خیال کرتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان کرو۔ ابوالطفیل نے کہا: میں نے مروہ کے پاس ایک اونٹنی پر دیکھا اور لوگوں کا ان پر ہجوم تھا تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہاں وہی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلمکے پاس سے ہانکتے نہ تھے اور نہ ہٹاتے تھے۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ مَكَّةَ، وَقَدْ وَهَنَتْهُمْ حُمَّى يَثْرِبَ، قَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّهُ يَقْدَمُ عَلَيْكُمْ غَدًا قَوْمٌ قَدْ وَهَنَتْهُمُ الْحُمَّى، وَلَقُوا مِنْهَا شِدَّةً، فَجَلَسُوا مِمَّا يَلِي الْحِجْرَ، وَأَمَرَهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْمُلُوا ثَلَاثَةَ أَشْوَاطٍ، وَيَمْشُوا مَا بَيْنَ الرُّكْنَيْنِ، لِيَرَى الْمُشْرِكُونَ جَلَدَهُمْ "، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّ الْحُمَّى قَدْ وَهَنَتْهُمْ، هَؤُلَاءِ أَجْلَدُ مِنْ كَذَا وَكَذَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَلَمْ يَمْنَعْهُ أَنْ يَأْمُرَهُمْ أَنْ يَرْمُلُوا الْأَشْوَاطَ كُلَّهَا، إِلَّا الْإِبْقَاءُ عَلَيْهِمْ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب مکہ میں آئے اور ان کو ضعیف کر دیا تھا مدینہ کے بخار نے اور مشرکوں نے کہہ رکھا تھا کہ کل تمہارے پاس ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کو بخار نے ضعیف و ناتواں کر رکھا ہے اور بڑی ناتوانی ان کو ہو گئی ہے اور مشرکین حطیم کے پاس بیٹھے اور نبیصلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ تین شوط میں رمل کریں اور مابین حجر اسود کے اور رکن یمانی کے عادت کے موافق چلیں کہ مشرکوں کو ان کی قوت و طاقت معلوم ہو۔ سو مشرکوں نے کہا کہ تم نے تو کہا تھا کہ ان کو بخار نے ناتواں کر دیا ہے یہ تو ایسے ایسے طاقتور ہیں کہ کیا کہنا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ان کو ساتوں پھیروں میں رمل کا حکم نہیں دیا تو اس لیے کہ تھک جائیں گے۔
وَحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ عَبْدَةَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " إِنَّمَا سَعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَمَلَ بِالْبَيْتِ، لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کے طواف میں اس لئے رمل کیا کہ مشرک لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت دیکھیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ مِنَ الْبَيْتِ، إِلَّا الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے انہی دونوں یمن کی طرف کے کونوں کو بوسہ دیتے دیکھا۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ : أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ مِنْ أَرْكَانِ الْبَيْتِ، إِلَّا الرُّكْنَ الْأَسْوَدَ، وَالَّذِي يَلِيهِ مِنْ نَحْوِ دُورِ الْجُمَحِيِّينَ ".
سالم نے اپنے باپ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے چاروں کونوں میں سے رکن اسود اور اس کے پاس والے کونے کو جو بنی جمح کے مکانوں کی طرف ہے، استلام کرتے تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، ذَكَرَ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ لَا يَسْتَلِمُ إِلَّا الْحَجَرَ، وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو چھوتے تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنْ يَحْيَى الْقَطَّانِ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " مَا تَرَكْتُ اسْتِلَامَ هَذَيْنِ الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَ، وَالْحَجَرَ، مُذْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُمَا فِي شِدَّةٍ وَلَا رَخَاءٍ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا حجر اسود اور رکن یمانی کو استلام کرتے ہوئے جب سے میں نے نہیں چھوڑا نہ سختی میں نہ آرام میں (یعنی کتنی ہی بھیڑ بھاڑ ہو میں استلام نہیں چھوڑتا)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ " يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَبَّلَ يَدَهُ، وَقَالَ: مَا تَرَكْتُهُ مُنْذُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ.
نافع نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ حجر اسود کو اپنے ہاتھ سے چھوا اور ہاتھ کو بوسہ دیا اور کہا کہ جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو دیکھا ہے ایسا کرتے ہوئے جب سے میں نے اسے نہیں چھوڑا۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ قَتَادَةَ بْنَ دِعَامَةَ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا الطُّفَيْلِ الْبَكْرِيَّ ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " لَمْ أَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُ غَيْرَ الرُّكْنَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ دیتے نہیں دیکھا سوا ان دو رکن یمانی کے۔
وَحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، وَعَمْرٌو . ح وَحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، أَنَّ أَبَاهُ ، حَدَّثَهُ، قَالَ: قَبَّلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، الْحَجَرَ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ مَا قَبَّلْتُكَ "، زَادَ هَارُونُ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ عَمْرٌو، وَحَدَّثَنِي بِمِثْلِهَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ أَسْلَمَ.
سالم کے باپ نے روایت کی ہے کہ بوسہ دیا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو اور کہا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم آگاہ ہو کہ میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے اور اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ وہ تجھے بوسہ دیتے تھے تو کبھی بوسہ نہ دیتا۔ ہارون نے اپنی روایت میں یہ کہا کہ اسی کی مثل مجھ سے روایت کی زید بن اسلم نے اپنے باپ اسلم سے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنَّ عُمَرَ قَبَّلَ الْحَجَرَ، وَقَالَ: " إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي لَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَكِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور کہا کہ میں تجھے چوم رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے لیکن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے دیکھا ہے۔
حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ، وَالْمُقَدَّمِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، كلهم عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ: خَلَفٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ: رَأَيْتُ الْأَصْلَعَ يَعْنِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَإِنِّي أَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَأَنَّكَ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبَّلَكَ مَا قَبَّلْتُكَ "، وَفِي رِوَايَةِ الْمُقَدَّمِيِّ، وَأَبِي كَامِلٍ: رَأَيْتُ الْأُصَيْلِعَ.
عبداللہ بن سرجس نے کہا کہ میں نے اصلع کو (یعنی جس کے سر پر بال نہ ہوں) دیکھا مراد اس سے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں (اس سے معلوم ہوا کہ لقب کسی کا اگر مشہور ہو جائے اور وہ اس سے برا نہ مانے تو اس سے یاد کرنا درست ہے اگرچہ دوسرا شخص برا مانے) اور فرماتے تھے حجر کو بوسہ دیتے ہوئے کہ قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ میں تجھ کو بوسہ دیتا ہوں اور جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے کہ نہ ضرر پہنچا سکتا ہے، نہ نفع دے سکتا ہے (اس قول سے بت پرستوں اور چلہ پرستوں کی نانی مر گئی جو قبروں وغیرہ کو اس خیال سے بوسہ دیتے ہیں کہ ہماری مراد دیں گے اس لیے کہ جب حجر اسود جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اس کا بوسہ بھی اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلمکے سبب سے ہے نہ اس خیال سے کہ یہ ضرر رساں یا نفع دہندہ ہے تو پھر اور چیزیں جن کا بوسہ کہیں ثابت نہیں، بلکہ منع ہے اس خیال ناپاک کے ساتھ کیونکر جائز ہو گا) اور آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ يَحْيَى : أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ يُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " إِنِّي لَأُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند کے ساتھ بھی اسی طرح مذکور ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ : قَبَّلَ الْحَجَرَ وَالْتَزَمَهُ، وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا "،
سوید نے کہا کہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے بوسہ لیا حجر اسود کا اور لپٹ گئے اور فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ وہ بہت تجھے چاہتے تھے۔
وَحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: وَلَكِنِّي رَأَيْتُ أَبَا الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَ حَفِيًّا، وَلَمْ يَقُلْ: وَالْتَزَمَهُ.
سیدنا سفیان رضی اللہ عنہ سے وہی روایت مروی ہے مگر اس میں لپٹنے کا ذکر نہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " طَافَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى بَعِيرٍ يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور حجر اسود کو اپنی چھڑی سے چھو لیتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: " طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى رَاحِلَتِهِ، يَسْتَلِمُ الْحَجَرَ بِمِحْجَنِهِ، لِأَنْ يَرَاهُ النَّاسُ وَلِيُشْرِفَ وَلِيَسْأَلُوهُ، فَإِنَّ النَّاسَ غَشُوهُ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ طواف کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا حجتہ الوداع میں اپنی اونٹنی پر اور حجر کو اپنی چھڑی سے چھوتے تھے تاکہ لوگ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہو جائیں اور آپ سے مسائل پوچھیں اس لئے کہ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت گھیرا تھا۔
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ بَكْرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ عَلَى رَاحِلَتِهِ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِيَرَاهُ النَّاسُ، وَلِيُشْرِفَ وَلِيَسْأَلُوهُ، فَإِنَّ النَّاسَ غَشُوهُ "، وَلَمْ يَذْكُرْ ابْنُ خَشْرَمٍ: وَلِيَسْأَلُوهُ فَقَطْ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے اور ابن خشرم کی روایت میں «وَلِيَسْأَلُوهُ» نہیں ہے۔
حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى الْقَنْطَرِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَوْلَ الْكَعْبَةِ عَلَى بَعِيرِهِ، يَسْتَلِمُ الرُّكْنَ كَرَاهِيَةَ أَنْ يُضْرَبَ عَنْهُ النَّاسُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ طواف کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں کعبہ کے گرد اپنی اونٹنی پر اور رکن کو چھوتے جاتے اور اس لیے سوار ہوئے کہ لوگوں کو اپنے پاس سے ہٹانا نہ پڑے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا مَعْرُوفُ بْنُ خَرَّبُوذَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الطُّفَيْلِ ، يَقُولُ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، وَيَسْتَلِمُ الرُّكْنَ بِمِحْجَنٍ مَعَهُ، وَيُقَبِّلُ الْمِحْجَنَ ".
سیدنا ابوالطفیل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ طواف کرتے تھے اور رکن اپنی چھڑی سے چھوتے اور چھڑی کو چوم لیتے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: شَكَوْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَشْتَكِي، فَقَالَ: " طُوفِي مِنْ وَرَاءِ النَّاسِ وَأَنْتِ رَاكِبَةٌ "، قَالَتْ: فَطُفْتُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ يُصَلِّي إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ وَهُوَ يَقْرَأُ بِ الطُّورِ وَكِتَابٍ مَسْطُورٍ ".
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے شکایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں بیمار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب لوگوں کے پیچھے سوار ہو کر طواف کر لو۔“سو میں نے کہا کہ میں طواف کرتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہ طور پڑھ رہے تھے نماز میں بیت اللہ کے بازو پر۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَ: قُلْتُ لَهَا: إِنِّي لَأَظُنُّ رَجُلًا لَوْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ مَا ضَرَّهُ، قَالَتْ: لِمَ؟ قُلْتُ: لِأَنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَقَالَتْ: مَا أَتَمَّ اللَّهُ حَجَّ امْرِئٍ وَلَا عُمْرَتَهُ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ "، وَلَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا؟ وَهَلْ تَدْرِي فِيمَا كَانَ ذَاكَ إِنَّمَا كَانَ ذَاكَ؟ أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا يُهِلُّونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ لِصَنَمَيْنِ عَلَى شَطِّ الْبَحْرِ، يُقَالُ لَهُمَا: إِسَافٌ، وَنَائِلَةُ، ثُمَّ يَجِيئُونَ فَيَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ يَحْلِقُونَ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ كَرِهُوا أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَهُمَا، لِلَّذِي كَانُوا يَصْنَعُونَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، قَالَتْ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، إِلَى آخِرِهَا، قَالَتْ: فَطَافُوا ".
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اگر کوئی صفا اور مروہ میں سعی نہ کرے تو کچھ مضائقہ نہیں۔ انہوں نے فرمایا: ”کیوں؟“ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» کہ ”صفا اور مروہ اللہ پاک کی قدرت کی نشانیوں سے ہیں سو کچھ گناہ نہیں ان میں طواف کرنے سے۔“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا یہ بات نہیں بلکہ یوں ہے کہ حج پورا نہیں ہوتا کسی کا اور نہ عمرہ جب تک طواف نہ کر لے صفا اور مروہ کا (یعنی سعی نہ کرے) اور اگر ایسا ہوتا جیسا تم نے جانا ہے تو االلہ تعالٰی یوں فرماتا کہ ”کچھ گناہ نہیں ان میں طواف نہ کرنے سے“ اور تم جانتے ہو کہ یہ آیت کیونکر اور کس حال میں اتری ہے کیفیت اس کی یہ ہے کہ دریا کے کنارے پر ایام جاہلیت میں دو بت تھے ایک کا نام اساف دوسرے کا نائلہ تھا اور لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور پھر آ کر سعی کرتے تھے صفا اور مروہ پر اور پھر سر منڈاتے تھے، پھر جب اسلام آیا تو مسلمانوں نے ان میں سعی کرنے کو برا جانا (یعنی مشرکوں کی چال سمجھی) تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری اسی لئے یوں فرمایا «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» کہ ”صفا اور مروہ شعائر اللہ سے ہیں اور ان میں طواف کرنا گناہ نہیں۔“ پھر لوگ سعی کرنے لگے (غرض یہ کہ اب سعی واجب ہے اور ترک اس کا روا نہیں)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ : مَا أَرَى عَلَيَّ جُنَاحًا أَنْ لَا أَتَطَوَّفَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، قَالَتْ: لِمَ؟ قُلْتُ: لِأَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلّ يَقُولُ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، الْآيَةَ، فَقَالَتْ: " لَوْ كَانَ كَمَا تَقُولُ لَكَانَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا، إِنَّمَا أُنْزِلَ هَذَا فِي أُنَاسٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، كَانُوا إِذَا أَهَلُّوا أَهَلُّوا لِمَنَاةَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَلَا يَحِلُّ لَهُمْ أَنْ يَطَّوَّفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا قَدِمُوا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْحَجِّ ذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى هَذِهِ الْآيَةَ، فَلَعَمْرِي مَا أَتَمَّ اللَّهُ حَجَّ مَنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ ".
عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ اگر کوئی طواف نہ کرے صفا اور مروہ میں تو میں جانتا ہوں کہ کچھ حرج نہیں۔ انہوں نے فرمایا: کیوں؟ کہا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّه» کہ ”صفا اور مروہ اللہ کی نشانیون سے ہیں پھر گناہ نہیں کوئی اس میں طواف کرے۔“ تو انہوں نے فرمایا: اگر یہ بات ہوتی تو یوں فرماتا اللہ پاک کہ ”اگر کوئی طواف نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں“ اور یہ آیت تو انصار کے لوگوں میں اتری کہ وہ لوگ جب لبیک پکارتے تو لبیک پکارا کرتے تھے، مناۃ کے نام سے ایام جاہلیت میں اور کہتے تھے کہ ہم کو صفا اور مروہ میں سعی کرنا درست نہیں، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کو آئے تو اس کا ذکر ہوا تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری سو اب قسم ہے میری جان کی کہ پورا نہ ہو گا حج اس کا جو سعی نہ کرے صفا اور مروہ کی۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ: ابْنُ أَبِي عُمَرَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ ، يُحَدِّثُ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا أَرَى عَلَى أَحَدٍ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ شَيْئًا، وَمَا أُبَالِي أَنْ لَا أَطُوفَ بَيْنَهُمَا، قَالَتْ: " بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أُخْتِي، طَافَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَطَافَ الْمُسْلِمُونَ فَكَانَتْ سُنَّةً، وَإِنَّمَا كَانَ مَنْ أَهَلَّ لِمَنَاةَ الطَّاغِيَةِ الَّتِي بِالْمُشَلَّلِ، لَا يَطُوفُونَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ سَأَلْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، وَلَوْ كَانَتْ كَمَا تَقُولُ، لَكَانَتْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ لَا يَطَّوَّفَ بِهِمَا "، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، فَأَعْجَبَهُ ذَلِكَ، وَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْعِلْمُ، وَلَقَدْ سَمِعْتُ رِجَالًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ يَقُولُونَ: إِنَّمَا كَانَ مَنْ لَا يَطُوفُ بَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ مِنَ الْعَرَبِ، يَقُولُونَ: إِنَّ طَوَافَنَا بَيْنَ هَذَيْنِ الْحَجَرَيْنِ مِنْ أَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ، وَقَالَ آخَرُونَ مِنَ الْأَنْصَارِ: إِنَّمَا أُمِرْنَا بِالطَّوَافِ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ نُؤْمَرْ بِهِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158، قَالَ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: فَأُرَاهَا قَدْ نَزَلَتْ فِي هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ.
عروہ نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ جو سعی نہ کرے صفا اور مروہ میں اس پر کچھ گناہ نہیں اور میں تو پرواہ نہیں رکھتا اگر نہ سعی کروں ان میں۔ تو انہوں نے فرمایا کہ برا کہا تو نے اے میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے اور مسلمانوں نے سب نے سعی کی ہے اور یہ سنت ہے یہاں سنت سے مراد واجب ہے اور حقیقت اس کی یہ ہے کہ عرب میں دستور تھا کہ جو مناۃ بدبخت کا جو مثلل میں تھا لبیک پکارتا تھا۔ وہ سعی نہ کرتا تھا صفا، مروہ میں، پھر جب اسلام ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ہم لوگوں نے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» کہ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہے پھر جو حج کرے یا عمرہ لائے اس پر گناہ نہیں کہ ان میں سعی کرے۔“ اور اگر وہ بات ہوتی جو تم نے کہی تو یوں فرماتے کہ گناہ نہیں اس پر جو سعی نہ کرے، ان میں زہری نے کہا کہ میں نے یہ روایت ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے بیان کی تو انہوں نے بہت پسند کی اور انہوں نے کہا کہ علم اسی کا نام ہے یعنی جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس آیت سے سمجھا اور ابوبکر نے کہا: میں نے سنا ہے بہت لوگوں سے جو علم رکھتے تھے وہ کہتے تھے کہ یہ طواف نہ کرنے والے صفا اور مروہ میں عرب کے لوگ تھے کہ وہ کہتے تھے کہ ان دو پتھروں کے بیچ میں طواف کرنا جاہلیت کا کام تھا، اور دوسرے لوگوں کا قول تھا کہ ہم کو طواف بیت اللہ کا حکم ہوا ہے صفا اور مروہ میں پھرنے کا حکم نہیں ہوا جب اللہ تعالٰی نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ»کہ ”صفا اور مروہ دونوں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہیں۔“ آخر آیت تک ابوبکر نے کہا کہ میں بھی یہی خیال کرتا ہوں کہ انہی دو گروہوں کے واسطے یہ آیت اتری۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِهِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا نَتَحَرَّجُ أَنْ نَطُوفَ بِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158، قَالَتْ عَائِشَةُ: " قَدْ سَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الطَّوَافَ بَيْنَهُمَا، فَلَيْسَ لِأَحَدٍ أَنْ يَتْرُكَ الطَّوَافَ بِهِمَا.
عروہ نے وہی قصہ روایت کیا جو اوپر مذکور ہوا اور اس میں یہ ہے کہ جب لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم کو یہاں طواف کرنا برا معلوم ہوتا ہے تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا» (۲:البقرۃ:۱۵۸)۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ پھر سنت ٹھہرا دیا اس سعی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، اب کسی کو اس کا ترک کرنا روا نہیں۔
وحَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: " أَنَّ الْأَنْصَارَ كَانُوا قَبْلَ أَنْ يُسْلِمُوا هُمْ وَغَسَّانُ يُهِلُّونَ لِمَنَاةَ، فَتَحَرَّجُوا أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَكَانَ ذَلِكَ سُنَّةً فِي آبَائِهِمْ، مَنْ أَحْرَمَ لِمَنَاةَ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنَّهُمْ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ حِينَ أَسْلَمُوا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِي ذَلِكَ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ سورة البقرة آية 158 ".
عروہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو خبر دی کہ انصار کا قاعدہ تھا اور غسان کا کہ وہ اسلام سے پیشتر مناۃ کے لئے لبیک پکارتے تھے اور صفا اور مروہ میں سعی کرنا برا جانتے تھے اور یہی طریقہ تھا ان کے باپ دادا کا جس نے احرام باندھا مناۃ کے لیے وہ صفا اور مروہ میں سعی نہ کرتا تھا اور جب وہ لوگ مسلمان ہوئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تب اللہ پاک نے یہ آیت اتاری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلاَ جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَإِنَّ اللَّهَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ» کہ ”صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں سے ہے سو جو حج کرے بیت اللہ کا یا عمرہ کرے اس کو گناہ نہیں ہے کہ سعی کرے ان دونوں میں اور جس نے خوشی سے نیکی کی ہے اللہ تعالیٰ اس کا قدردان اور جاننے والا ہے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: " كَانَتِ الْأَنْصَارُ يَكْرَهُونَ أَنْ يَطُوفُوا بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، حَتَّى نَزَلَتْ: إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِهِمَا سورة البقرة آية 158 ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انصار صفا اور مروہ کی سعی کو برا جانتے تھے یہاں تک یہ آیت اتری «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِن شَعَائِرِ اللَّهِ فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ أَن يَطَّوَّفَ بِهِمَا» ۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " لَمْ يَطُفْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا أَصْحَابُهُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا "،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ سعی نہیں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے صفا اور مروہ کی مگر ایک بار۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَقَالَ: إِلَّا طَوَافًا وَاحِدًا: طَوَافَهُ الْأَوَّلَ.
مسلم نے فرمایا کہ روایت کی ہم سے عبد بن حمید نے، ان کو خبر دی محمد بن بکر نے، ان کو ابن جریج نے اسی سند سے مثل روایت مذکورہ کے اور اس میں یہ ہے کہ ایک ہی بار طواف کیا (یعنی صفا اور مروہ کا جو پہلی بار کیا تھا)۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ: قَالَ: أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: رَدِفْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَاتٍ، فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشِّعْبَ الْأَيْسَرَ الَّذِي دُونَ الْمُزْدَلِفَةِ، أَنَاخَ فَبَالَ، ثُمَّ جَاءَ فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ الْوَضُوءَ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا خَفِيفًا، ثُمَّ قُلْتُ: الصَّلَاةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ "، فَرَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ فَصَلَّى، ثُمَّ رَدِفَ الْفَضْلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ جَمْعٍ ". (حديث موقوف) قَالَ قَالَ كُرَيْبٌ : فَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي، حَتَّى بَلَغَ الْجَمْرَةَ ".
سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری پر پیچھے بیٹھا عرفات سے پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں گھاٹی پر پہنچے مزدلفہ کے قریب تو اونٹ بٹھایا پیشاب کیا اور آئے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا سو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکا وضو کیا پھر میں نے عرض کیا کہ نماز کا وقت آ گیا ہے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور مزدلفہ آئے اور نماز پڑھی پھر فضل کو اپنے پیچھے بٹھایا صبح کو مزدلفہ کی۔ کریب نے کہا کہ خبر دی مجھے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا فضل رضی اللہ عنہ سے کہ رسالت مآب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ پر پہنچے (یعنی جمرہ عقبہ پر)۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، كلاهما عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ ، قَالَ ابْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْدَفَ الْفَضْلَ مِنْ جَمْعٍ، قَالَ: فَأَخْبَرَنِيابْنُ عَبَّاسٍ ، أَنَّ الْفَضْلَ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اونٹنی پر بٹھا لیا سیدنا فضل رضی اللہ عنہ کو مزدلفہ سے اور راوی نے کہا کہ خبر دی مجھ کو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ خبر دی ان کو فضل نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ رمی کی جمرہ عقبہ کی۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ وَكَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي عَشِيَّةِ عَرَفَةَ وَغَدَاةِ جَمْعٍ لِلنَّاسِ، حِينَ دَفَعُوا عَلَيْكُمْ بِالسَّكِينَةِ وَهُوَ كَافٌّ نَاقَتَهُ، حَتَّى دَخَلَ مُحَسِّرًا وَهُوَ مِنْ مِنًى، قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِحَصَى الْخَذْفِ الَّذِي يُرْمَى بِهِ الْجَمْرَةُ "، وَقَالَ: " لَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ "،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ جو ردیف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کی شام کو اور مزدلفہ کی صبح کو لوگوں سے فرماتے تھے کہ ”آرام سے چلو۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو روکے ہوئے چلتے تھے یہاں تک کہ محسر میں داخل ہوئے اور محسر منیٰ میں ہے تو وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”چٹکی سے مارنے کی کنکریان اٹھا لو کہ ان سے جمرہ کو مارا جائے۔“ اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برابر لیبک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ کو کنکریاں ماریں۔
وَحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ: وَلَمْ يَزَلْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ، وَزَادَ فِي حَدِيثِهِ: وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُشِيرُ بِيَدِهِ كَمَا يَخْذِفُ الْإِنْسَانُ.
مسلم رحمہ اللہ نے کہا اور روایت کی ہم سے یہی حدیث زہیر بن حرب نے، ان سے ابن جریج نے، ان سے ابوالزبیر نے اسی سند سے مگر اس میں یہ ذکر نہیں کیا کہ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم لبیک پکارتے رہے یہاں تک کہ جمرہ کو کنکر مارے اور یہ بات زیادہ بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اشارہ کرتے تھے ہاتھ سے (یعنی جب کنکر اٹھانے کا حکم دیا تھا) کہ جیسے چٹکی سے پکڑ کر آدمی کنکرے پھینکتا ہے (یعنی ایسے کنکر اٹھانا)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ ، وَنَحْنُ بِجَمْعٍ: سَمِعْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، يَقُولُ فِي هَذَا الْمَقَامِ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ".
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہم سے مزدلفہ میں کہتے تھے کہ میں نے سنا ہے ان کو جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے کہ وہ اس مقام میں لبیک پکارتے تھے۔
وحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ لَبَّى حِينَ أَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ، فَقِيلَ أَعْرَابِيٌّ: هَذَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: أَنَسِيَ النَّاسُ أَمْ ضَلُّوا، سَمِعْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ، يَقُولُ فِي هَذَا الْمَكَانِ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ "،
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے لبیک پکاری جب مزدلفہ سے لوٹے تو لوگوں نے کہا کہ شاید یہ کوئی گاؤں کا آدمی ہے (یعنی جو اب لبیک پکارتا ہے) تو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا لوگ بھول گئے (یعنی سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی) یا گمراہ ہو گئے میں نے خود سنا ہے ان سے جن پر سورہ بقرہ نازل ہوئی ہے کہ وہ اس جگہ میں لبیک پکارتے تھے۔
وَحَدَّثَنَاه حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وَحَدَّثَنِيهِ يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْمَعْنِيُّ ، حَدَّثَنَا زِيَادٌ يَعْنِي الْبَكَّائِيَّ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُدْرِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، وَالْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَا: سَمِعْنَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ بِجَمْعٍ: سَمِعْتُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ هَاهُنَا، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ "، ثُمَّ لَبَّى وَلَبَّيْنَا مَعَهُ.
ایک اور روایت میں ہے کہ ہم نے عبداللہ بن اسود کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے اس ذات سے سنا جس پر یہاں سورۃ البقرہ نازل ہوئی آپ فرما رہے تھے «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ» پھر سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی تلبیہ پڑھی اور ہم نے آپ کے ساتھ پڑھی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَا جَمِيعًا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " غَدَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ، مِنَّا الْمُلَبِّي، وَمِنَّا الْمُكَبِّرُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب ہم صبح کو چلے منیٰ سے عرفات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو کوئی ہم میں سے لبیک پکارتا تھا اور کوئی تکبیر کہتا تھا۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَيَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَدَاةِ عَرَفَةَ، فَمِنَّا الْمُكَبِّرُ، وَمِنَّا الْمُهَلِّلُ، فَأَمَّا نَحْنُ فَنُكَبِّرُ "، قَالَ: قُلْتُ: وَاللَّهِ لَعَجَبًا مِنْكُمْ كَيْفَ لَمْ تَقُولُوا لَهُ: مَاذَا رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے عرفہ کی صبح کو سو کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا کوئی «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اور ہم ان میں تھے جو «الله اكبر» کہتے تھے میں نے ان سے کہا کہ بڑے تعجب کی بات ہے تم نے ان سے یہ کیوں نہ پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرتے دیکھا۔ (سبحان اللہ! سنت سے محبت کرنے والے ایسے ہوتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل دریافت کیوں نہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے تھے)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الثَّقَفِيِّ ، أَنَّهُ سَأَلَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، وَهُمَا غَادِيَانِ مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَةَ: كَيْفَ كُنْتُمْ تَصْنَعُونَ فِي هَذَا الْيَوْمِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: " كَانَ يُهِلُّ الْمُهِلُّ مِنَّا، فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ، وَيُكَبِّرُ الْمُكَبِّرُ مِنَّا، فَلَا يُنْكَرُ عَلَيْهِ ".
محمد بن ابوبکر ثقفی نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا اور دونوں منیٰ سے عرفات کو جاتے تھے کہ تم لوگ کیا کرتے تھے آج کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ؟ سو سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ کوئی ہم میں سے «لَا إِلَـٰہَ إِلَّا اللَّـہُ» اللہ کہتا تھا سو اس کو کوئی منع نہ کرتا تھا اور کوئی ہم میں سے «الله اكبر» کہتا تھا تب بھی کوئی اس کو منع نہ کرتا تھا۔
وَحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَجَاءٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : غَدَاةَ عَرَفَةَ مَا تَقُولُ فِي التَّلْبِيَةِ هَذَا الْيَوْمَ؟ قَالَ: " سِرْتُ هَذَا الْمَسِيرَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَمِنَّا الْمُكَبِّرُ، وَمِنَّا الْمُهَلِّلُ، وَلَا يَعِيبُ أَحَدُنَا عَلَى صَاحِبِهِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے عرفہ کی صبح تلبیہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو پھر آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اس سفر میں نبیصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو کوئی ہم میں سے تکبیر کہتا اور کوئی تہلیل اور کوئی بھی اپنے ساتھی پر عیب نہ لگاتا تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: دَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَةَ حَتَّى إِذَا كَانَ بِالشِّعْبِ نَزَلَ، فَبَالَ ثُمَّ تَوَضَّأَ وَلَمْ يُسْبِغْ الْوُضُوءَ، فَقُلْتُ لَهُ: الصَّلَاةَ، قَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ "، فَرَكِبَ فَلَمَّا جَاءَ الْمُزْدَلِفَةَ نَزَلَ فَتَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ، ثُمَّ أَنَاخَ كُلُّ إِنْسَانٍ بَعِيرَهُ فِي مَنْزِلِهِ، ثُمَّ أُقِيمَتِ الْعِشَاءُ فَصَلَّاهَا، وَلَمْ يُصَلِّ بَيْنَهُمَا شَيْئًا .
کریب جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام ہیں انہوں نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: لوٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے یہاں تک کہ جب گھاٹی کے پاس آئے اترے اور پیشاب کیا اور ہلکا سا وضو کیا اور مبالغہ نہیں کیا وضو میں، میں نے کہا: نماز کا وقت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ اور پھر سوار ہوئے اور مزدلفہ میں آئے اور اترے اور وضو کیا پوری طرح سے پھر نماز کی تکبیر ہوئی اور مغرب پڑھی پھر ہر ایک نے اپنا اونٹ جہاں تھا وہیں بٹھا دیا پھر تکبیر ہوئی اور عشاء پڑھی اور ان کے بیچ میں کچھ نہیں پڑھا (یعنی سنت نہ پڑھی)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الدَّفْعَةِ مِنْ عَرَفَاتٍ إِلَى بَعْضِ تِلْكَ الشِّعَابِ لِحَاجَتِهِ، فَصَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْمَاءِ، فَقُلْتُ: أَتُصَلِّي، فَقَالَ: " الْمُصَلَّى أَمَامَكَ " .
کریب نے کہا کہ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوٹے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے اور بعض گھاٹیوں میں اترے حاجت کے واسطے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پانی ڈالا یعنی وضو کے وقت اور کہا کہ آپ نماز پڑھیں گے؟ تو فرمایا:”نماز کی جگہ تمہارے آگے ہے۔“ (یعنی مزدلفہ اور باقی تفصیل اس حدیث اسامہ رضی اللہ عنہ کی اوپر گزر چکی ہے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ، يَقُولُ: أَفَاضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَاتٍ، فَلَمَّا انْتَهَى إِلَى الشِّعْبِ نَزَلَ فَبَالَ، وَلَمْ يَقُلْ أُسَامَةُ: أَرَاقَ الْمَاءَ، قَالَ: فَدَعَا بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةَ، قَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ "، قَالَ: ثُمَّ سَارَ حَتَّى بَلَغَ جَمْعًا، فَصَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ .
کریب نے وہی مضمون سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا اور اس میں سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کے پانی ڈالنے کا ذکر نہیں ہے اور یہ بات زیادہ ہے کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ پہنچے اور مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ أَبُو خَيْثَمَةَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عُقْبَةَ ، أَخْبَرَنِي كُرَيْبٌ ، أَنَّهُ سَأَلَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ : كَيْفَ صَنَعْتُمْ حِينَ رَدِفْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ؟ فَقَالَ: جِئْنَا الشِّعْبَ الَّذِي يُنِيخُ النَّاسُ فِيهِ لِلْمَغْرِبِ، فَأَنَاخَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاقَتَهُ وَبَالَ، وَمَا قَالَ: أَهَرَاقَ الْمَاءَ، ثُمَّ دَعَا بِالْوَضُوءِ، فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا لَيْسَ بِالْبَالِغِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةَ، فَقَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ "، فَرَكِبَ حَتَّى جِئْنَا الْمُزْدَلِفَةَ فَأَقَامَ الْمَغْرِبَ ، ثُمَّ أَنَاخَ النَّاسُ فِي مَنَازِلِهِمْ، وَلَمْ يَحُلُّوا حَتَّى أَقَامَ الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ فَصَلَّى، ثُمَّ حَلُّوا: قُلْتُ فَكَيْفَ فَعَلْتُمْ حِينَ أَصْبَحْتُمْ؟ قَالَ: رَدِفَهُ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ: وَانْطَلَقْتُ أَنَا فِي سُبَّاقِ قُرَيْشٍ عَلَى رِجْلَيَّ.
کریب نے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ جب تم سوار ہوئے رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تو کیا کیا عرفہ کی شام کو؟ انہوں نے کہا کہ ہم اس گھاٹی تک آئے جہاں لوگ اونٹوں کو بٹھاتے ہیں نماز مغرب کے لیے سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹنی کو بٹھایا اور اترے اور پیشاب کیا اور پانی دینے کا ذکر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا پھر وضو کا پانی مانگا اور ہلکا سا وضو کیا پورا نہیں (یعنی ایک ایک بار اعضاء دھوئے) اور میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! نماز، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز تمہارے آگے ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے یہاں تک کہ ہم مزدلفہ آئے اور مغرب کی تکبیر ہوئی اور لوگوں نے اونٹ بٹھائے اور کھولے نہیں یہاں تک کہ عشاء کی تکبیر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء بھی پڑھی پھر اونٹ کھول دئیے، میں نے کہا کہ پھر تم نے صبح کو کیا کیا؟ انہوں نے کہا کہ پھر سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیچھے سوار ہوئے اور میں قریش کی راہ سے پیدل چلا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَتَى النَّقْبَ الَّذِي يَنْزِلُهُ الْأُمَرَاءُ نَزَلَ فَبَالَ، وَلَمْ يَقُلْ أَهَرَاقَ، ثُمَّ دَعَا بِوَضُوءٍ فَتَوَضَّأَ وُضُوءًا خَفِيفًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الصَّلَاةَ، فَقَالَ: " الصَّلَاةُ أَمَامَكَ " .
وہی مضمون ہے جو اوپر کئی بار گزرا اس میں یہ ہے کہ اس گھاٹی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترے جہاں اُمرا اترتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى ابْنِ سِبَاعٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ : أَنَّهُ كَانَ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ " أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ، فَلَمَّا جَاءَ الشِّعْبَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ، ثُمَّ ذَهَبَ إِلَى الْغَائِطِ، فَلَمَّا رَجَعَ صَبَبْتُ عَلَيْهِ مِنَ الْإِدَاوَةِ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ رَكِبَ، ثُمَّ أَتَى الْمُزْدَلِفَةَ، فَجَمَعَ بِهَا بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ " .
وہی مضمون ہے مگر اس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پائخانے تشریف لے گئے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے چھاگل سے پانی ڈالا تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ، وَأُسَامَةُ رِدْفُهُ، قَالَ أُسَامَةُ: فَمَا زَالَ يَسِيرُ عَلَى هَيْئَتِهِ حَتَّى أَتَى جَمْعًا " .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات سے لوٹے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار ہوئے اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے رہے یہاں تک کہ مزدلفہ میں پہنچے۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَبُو الرَّبِيعِ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ سُئِلَ أُسَامَةُ، وَأَنَا شَاهِدٌ، أَوَ قَالَ: سَأَلْتُ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْدَفَهُ مِنْ عَرَفَاتٍ، قُلْتُ: كَيْفَ كَانَ يَسِيرُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ أَفَاضَ مِنْ عَرَفَةَ؟ قَالَ: " كَانَ يَسِيرُ الْعَنَقَ، فَإِذَا وَجَدَ فَجْوَةً نَصَّ " .
ہشام نے اپنے باپ سے روایت کی کہ ان کے سامنے کسی نے سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا یا انہوں نے خود پوچھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی اونٹنی پر سوار کر لیا تھا عرفات سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیونکر چلتے تھے؟ یعنی اونٹنی کو کس چال سے لیے جاتے تھے۔ تو انہوں نے کہا کہ میٹھی چال چلاتے تھے پھر جب ذرا کھلی جگہ پاتے یعنی جہاں بھیڑ کم ہوتی تو اس جگہ ذرا تیز کر دیتے۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ فِي حَدِيثِ حُمَيْدٍ، قَالَ هِشَامٌ: وَالنَّصُّ فَوْقَ الْعَنَقِ.
ہشام بن عروہ سے اسی اسناد سے وہی مضمون مروی ہوا مگر حمید کی روایت میں یہ ہے کہ ہشام نے کہا کہ نص جو اونٹنی کی چال ہے وہ عنق سے تیز ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَنِي عَدِيُّ بْنُ ثَابِتٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الْخَطْمِيَّ ، حَدَّثَهُ: أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ " ،
ابوایوب سے روایت ہے کہ انہوں نے نماز پڑھی حجتہ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے مزدلفہ میں۔
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ ، وَابْنُ رُمْحٍ ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ فِي رِوَايَتِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ الْخَطْمِيِّ: وَكَانَ أَمِيرًا عَلَى الْكُوفَةِ عَلَى عَهْدِ ابْنِ الزُّبَيْرِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِالْمُزْدَلِفَةِ جَمِيعًا " .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کی نماز جمع کر کے مزدلفہ میں پڑھی۔
وَحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُبَيْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَاهُ ، قَالَ: " جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ، بِجَمْعٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا سَجْدَةٌ، وَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثَ رَكَعَاتٍ، وَصَلَّى الْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ " ، فَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُصَلِّي بِجَمْعٍ كَذَلِكَ حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ تَعَالَى.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء ملا کر پڑھی مزدلفہ میں اور ان کے بیچ میں ایک رکعت بھی نہیں پڑھی اور مغرب کی تین رکعت اور عشاء کی دو پڑھیں اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بھی آخر عمر تک مزدلفہ میں اسی طرح پڑھتے رہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، وَسَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ : " أَنَّهُ صَلَّى الْمَغْرِبَ بِجَمْعٍ، وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ " ، ثُمَّ حَدَّثَ عَنِ ابْنِ عُمَرَ: أَنَّهُ صَلَّى مِثْلَ ذَلِكَ، وَحَدَّثَ ابْنُ عُمَرَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ مِثْلَ ذَلِكَ،
سعید بن جبیر نے مغرب اور عشاء کی نماز ایک تکبیر سے پڑھی اور بیان کیا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی ایسا ہی کیا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا۔
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: صَلَّاهُمَا بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں یہ ہے کہ دونوں نمازیں ایک اقامت کے ساتھ پڑھیں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: " جَمَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ، صَلَّى الْمَغْرِبَ ثَلَاثًا، وَالْعِشَاءَ رَكْعَتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب اور عشاء کو جمع کیا مزدلفہ کے مقام پر مغرب کی تین اور عشاء کی دو رکعت پڑھیں ایک ہی اقامت کے ساتھ۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، قَالَ: قَالَ سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ : أَفَضْنَا مَعَ ابْنِ عُمَرَ حَتَّى أَتَيْنَا جَمْعًا، فَصَلَّى بِنَا الْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ "، ثُمَّ انْصَرَفَ فَقَالَ: هَكَذَا صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَكَانِ ".
سعید نے کہا کہ ہم لوٹے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ اور آئے مزدلفہ میں اور وہاں مغرب اور عشاء ایک تکبیر سے پڑھی اور کہا کہ اسی طرح ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں نماز پڑھی تھی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً إِلَّا لِمِيقَاتِهَا، إِلَّا صَلَاتَيْنِ صَلَاةَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِجَمْعٍ، وَصَلَّى الْفَجْرَ يَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِيقَاتِهَا "،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب دیکھا تو نماز وقتوں ہی پر پڑھتے دیکھا مگر دو نمازیں ایک مغرب و عشاء کو مزدلفہ میں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ملا کر پڑھیں اور اس کی صبح کو صبح کی نماز اپنے وقت سے پہلے پڑھی۔
وحَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، جَمِيعًا عَنْ جَرِيرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: قَبْلَ وَقْتِهَا بِغَلَسٍ.
اعمش سے اسی اسناد سے مروی ہے یہی روایت اور اس میں یہ ہے کہ صبح کی نماز کو وقت سے پہلے پڑھا، اندھیرے میں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا أَفْلَحُ يَعْنِي ابْنَ حُمَيْدٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّهَا قَالَتْ: " اسْتَأْذَنَتْ سَوْدَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْمُزْدَلِفَةِ، تَدْفَعُ قَبْلَهُ وَقَبْلَ حَطْمَةِ النَّاسِ، وَكَانَتِ امْرَأَةً ثَبِطَةً يَقُولُ الْقَاسِمُ: وَالثَّبِطَةُ: الثَّقِيلَةُ، قَالَ: فَأَذِنَ لَهَا فَخَرَجَتْ قَبْلَ دَفْعِهِ، وَحَبَسَنَا حَتَّى أَصْبَحْنَا فَدَفَعْنَا بِدَفْعِهِ "، وَلَأَنْ أَكُونَ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، فَأَكُونَ أَدْفَعُ بِإِذْنِهِ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ مَفْرُوحٍ بِهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزدلفہ کی رات کو کہ آپ سے پہلے منیٰ کو لوٹ جائیں اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ سے آگے نکل جائیں اور وہ ذرا فربہ بی بی تھیں، راوی نے کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ روانہ ہو گئیں قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لوٹنے کے اور ہم لوگ سب رکے رہے یہاں تک کہ صبح کی ہم نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹے اور اگر میں بھی اجازت لیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی اجازت سے چلی جاتی تو خوب تھا اور اس سے بہتر تھا جس کے سبب سے میں خوش ہو رہی تھی۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، جميعا عَنِ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَتْ سَوْدَةُ امْرَأَةً ضَخْمَةً ثَبِطَةً " فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُفِيضَ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ، فَأَذِنَ لَهَا "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَلَيْتَنِي كُنْتُ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، وَكَانَتْ عَائِشَةُ لَا تُفِيضُ إِلَّا مَعَ الْإِمَامِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا بہت بھاری بھر کم بی بی تھیں۔ سو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لی کہ مزدلفہ سے رات ہی رات روانہ ہو جائیں (یعنی منیٰ کو) سو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ان کو اجازت دے دی سو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ کاش میں بھی آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لیتی جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے لی تھی، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عادت تھی کہ آپ مزدلفہ سے امام کے ساتھ لوٹا کرتی تھیں۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ اسْتَأْذَنْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَمَا اسْتَأْذَنَتْهُ سَوْدَةُ، فَأُصَلِّي الصُّبْحَ بِمِنًى، فَأَرْمِي الْجَمْرَةَ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَ النَّاسُ، فَقِيلَ لِعَائِشَةَ: فَكَانَتْ سَوْدَةُ اسْتَأْذَنَتْهُ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، إِنَّهَا كَانَتِ امْرَأَةً ثَقِيلَةً ثَبِطَةً، فَاسْتَأْذَنَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَذِنَ لَهَا "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آرزو کی کہ میں بھی اجازت لیتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی اور نماز صبح کی منیٰ میں پڑھتی اور لوگوں کے آنے سے پہلے رمی جمرہ کر لیتی تو کسی نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کیا سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا نے اجازت لی تھی؟ انہوں نے کہا: ہاں وہ فربہ عورت تھیں سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وَحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، كِلَاهُمَا عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ، قَالَ: قَالَتْ لِي أَسْمَاءُ ، وَهِيَ عِنْدَ دَارِ الْمُزْدَلِفَةِ: هَلْ غَابَ الْقَمَرُ، قُلْتُ: لَا، فَصَلَّتْ سَاعَةً، ثُمّ قَالَتْ: يَا بُنَيَّ، هَلْ غَابَ الْقَمَرُ؟ قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: ارْحَلْ بِي، فَارْتَحَلْنَا حَتَّى رَمَتِ الْجَمْرَةَ، ثُمَّ صَلَّتْ فِي مَنْزِلِهَا، فَقُلْتُ لَهَا: أَيْ هَنْتَاهْ لَقَدْ غَلَّسْنَا، قَالَتْ: كَلَّا أَيْ بُنَيَّ " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِلظُّعُنِ "،
عبداللہ جو غلام آزاد ہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کے انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے فرمایا اور وہ مزدلفہ کے گھر کے پاس ٹھہری ہوئی تھی کہ کیا چاند غروب ہو گیا؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے تھوڑی دیر نماز پڑھی، پھر مجھ سے فرمایا کہ اے میرے بچے! چاند ڈوب گیا؟ میں نے کہا: ہاں، انہوں نے فرمایا کہ میرے ساتھ روانہ ہو۔ سو ہم روانہ ہوئے یہاں تک کہ انہوں نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں پھر نماز پڑھی اپنی فرودگاہ میں۔ سو میں نے کہا: اے بی بی! ہم بہت سویرے روانہ ہوئے، انہوں نے فرمایا کہ کچھ حرج نہیں اے میرے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو اجازت دی ہے سویرے روانہ ہونے کی۔
وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي رِوَايَتِهِ: قَالَتْ: لَا أَيْ بُنَيَّ، إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَذِنَ لِظُعُنِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے سوائے اس کے کہ اس میں ہے کہ اے بیٹے! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بی بی کو اجازت دے دی تھی۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ . ح وَحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ ابْنَ شَوَّالٍ ، أَخْبَرَهُ أَنَّهُ دَخَلَ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ ، فَأَخْبَرَتْهُ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِهَا مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ ".
عطاء کو ابن شوال نے خبر دی کہ وہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ سے رات کو روانہ کر دیا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ شَوَّالٍ ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ ، قَالَتْ: " كُنَّا نَفْعَلُهُ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نُغَلِّسُ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى "، وَفِي رِوَايَةِ النَّاقِدِ: نُغَلِّسُ مِنْ مُزْدَلِفَةَ.
سالم بن شوال سے مروی ہے کہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہم ہمیشہ یہی کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں کہ اندھیرے میں چل نکلتی تھی مزدلفہ سے منیٰ کو اور ایک روایت میں جو ناقد سے مروی ہے یوں ہے کہ ہم اندھیرے میں چل نکلتی تھیں مزدلفہ سے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى : أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الثَّقَلِ، أَوَ قَالَ: فِي الضَّعَفَةِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ ".
عبیداللہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ فرماتے تھے: مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان کے ساتھ روانہ کر دیا یا ہوں کہا کہ ضعیفوں کے ہمراہ روانہ کر دیا مزدلفہ سے رات کو۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: " أَنَا مِمَّنْ قَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں ان میں تھا جن کو آگے روانہ کر دیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے ضعیفوں میں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنَا عَمْرٌو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " كُنْتُ فِيمَنْ قَدَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ضَعَفَةِ أَهْلِهِ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " بَعَثَ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَحَرٍ مِنْ جَمْعٍ فِي ثَقَلِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قُلْتُ: أَبَلَغَكَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: بَعَثَ بِي بِلَيْلٍ طَوِيلٍ، قَالَ: لَا، إِلَّا كَذَلِكَ بِسَحَرٍ، قُلْتُ لَهُ: فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: رَمَيْنَا الْجَمْرَةَ قَبْلَ الْفَجْرِ، وَأَيْنَ صَلَّى الْفَجْرَ؟ قَالَ: لَا، إِلَّا كَذَلِكَ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھ کو بھیج دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے آخر شب سے مزدلفہ سے سامان کے ساتھ میں نے کہا: کیا تم کو خبر پہنچی ہے کہ انہوں نے یوں کہا کہ مجھ کو روانہ کیا بہت رات سے؟ تو راوی نے کہا کہ نہیں مگر یوں ہی کہا کہ سحر کو یعنی آخر شب کو روانہ کیا پھر میں نے ان سے پوچھا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بھی کہا کہ کنکر مارے ہم نے جمرہ کو فجر سے پہلے اور نماز کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: نہیں یہ کچھ نہیں کہا فقط اتنا ہی کہا جو اوپر کہا ہے۔
وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ : كَانَ يُقَدِّمُ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، فَيَقِفُونَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِاللَّيْلِ، فَيَذْكُرُونَ اللَّهَ مَا بَدَا لَهُمْ، ثُمَّ يَدْفَعُونَ قَبْلَ أَنْ يَقِفَ الْإِمَامُ وَقَبْلَ أَنْ يَدْفَعَ، فَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ مِنًى لِصَلَاةِ الْفَجْرِ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقْدَمُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَإِذَا قَدِمُوا رَمَوْا الْجَمْرَةَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَقُولُ: " أَرْخَصَ فِي أُولَئِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
سالم بن عبداللہ نے خبر دی کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے ساتھ کے ضعیف لوگوں کو آگے بھیج دیتے تھے کہ وہ المشعر الحرام میں جو مزدلفہ میں ہے وقوف کر لیں رات کو اور االلہ تعالٰی کو یاد کرتے رہیں جب تک چاہیں پھر لوٹ جائیں امام کے موقوف کرنے سے پہلے اور امام کے لوٹنے سے پیشتر سو ان میں سے کوئی تو صبح کی نماز کے وقت منیٰ پہنچ جاتا تھا اور کوئی اس کے بعد پہنچتا تھا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ضعیفوں کو اس کی اجازت دی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: رَمَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ أُنَاسًا يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: هَذَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ".
عبدالرحمٰن نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پچھلے جمرہ کو کنکریاں نالے کے اندر سے ماریں اور سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے سو ان سے کسی نے کہا کہ لوگ تو اوپر سے ان کو کنکریاں مارتے تھے تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قسم ہے اس معبود کی کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ یہ مقام(جہاں سے میں نے ماری ہیں) اس کا ہے جس پر سورہ بقرہ اتری ہے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا)۔
وحَدَّثَنَا مِنْجَابُ بْنُ الْحَارِثِ التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ بْنَ يُوسُفَ، يَقُولُ، وَهُوَ يَخْطُبُ عَلَى الْمِنْبَرِ: أَلِّفُوا الْقُرْآنَ كَمَا أَلَّفَهُ جِبْرِيلُ، السُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا الْبَقَرَةُ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا النِّسَاءُ، وَالسُّورَةُ الَّتِي يُذْكَرُ فِيهَا آلُ عِمْرَانَ، قَالَ: فَلَقِيتُ إِبْرَاهِيمَ ، فَأَخْبَرْتُهُ بِقَوْلِهِ، فَسَبَّهُ، وَقَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ يَزِيدَ ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، فَأَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، فَاسْتَبْطَنَ الْوَادِي، فَاسْتَعْرَضَهَا فَرَمَاهَا مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ: إِنَّ النَّاسَ يَرْمُونَهَا مِنْ فَوْقِهَا، فَقَالَ: هَذَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ".
اعمش نے کہا کہ میں نے حجاج بن یوسف کو سنا کہ وہ خطبہ میں کہتا تھا کہ قرآن شریف کی وہی ترتیب رکھو کہ جو جبرئیل علیہ السلام نے رکھی ہے کہ وہ سورت پہلے ہو جس میں بقرہ کا ذکر ہے، پھر وہ جس میں نساء کا ذکر ہے، پھر وہ جس میں آل عمران کا ذکر ہے۔ اعمش نے کہا کہ پھر میں ابراہیم سے ملا اور ان کو اس بات کی خبر دی تو انہوں نے اس کو برا کہا اور پھر کہا کہ روایت کی مجھ سے عبدالرحمٰن بن یزید نے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اور جمرہ عقبہ پر آئے اور نالہ کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور جمرہ کو آگے کیا اور اس کو سات کنکریاں ماریں نالہ کے بیچ سے اور ہر کنکری پر اللہ اکبر کہتے تھے۔ راوی نے کہا کہ پھر میں نے ان سے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! (یہ کنیت ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی) لوگ تو اوپر سے کھڑے ہو کر کنکریاں مارتے ہیں، تو انہوں کہا کہ یہ جگہ، اس معبود کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے، اس کی ہے جس پر سورہ بقرہ اتری ہے۔
وَحَدَّثَنِي يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كِلَاهُمَا، عَنِ الْأَعْمَشِ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَجَّاجَ، يَقُولُ: لَا تَقُولُوا سُورَةُ الْبَقَرَةِ، وَاقْتَصَّا الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ.
اعمش نے کہا کہ میں نے حجاج سے سنا کہ وہ کہتا تھا کہ یوں نہ کہو سورۂ بقرہ اور بیان کی حدیث مثل ابن مسہر کی یعنی وہی روایت جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّهُ حَجَّ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: فَرَمَى الْجَمْرَةَ بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، وَجَعَلَ الْبَيْتَ عَنْ يَسَارِهِ وَمِنًى عَنْ يَمِينِهِ، وَقَالَ: هَذَا مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ "،
عبدالرحمٰن نے حج کیا سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور جمرہ کو کنکریاں ماریں سات اور کعبہ کو بائیں طرف کیا اور منیٰ کو داہنی طرف اور کہا: یہ جگہ اس کی ہے جس پر سورۂ بقرہ اتری ہے۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَلَمَّا أَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ.
شعبہ سے اس اسناد سے یہی روایت مروی ہے اور اس میں یوں ہے کہ جمرہ عقبہ پر آئے باقی مضمون وہی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُحَيَّاةِ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ يَعْلَى أَبُو الْمُحَيَّاةِ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قِيلَ لِعَبْدِ اللَّهِ : إِنَّ نَاسًا يَرْمُونَ الْجَمْرَةَ مِنْ فَوْقِ الْعَقَبَةِ، قَالَ: فَرَمَاهَا عَبْدُ اللَّهِ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي، ثُمَّ قَالَ: مِنْ هَا هُنَا، وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ رَمَاهَا الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ".
مضمون وہی ہے جو اوپر کئی بار گزرا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، جميعا عَنْ عِيسَى بْنِ يُونُسَ ، قَالَ ابْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا ، يَقُولُ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي عَلَى رَاحِلَتِهِ يَوْمَ النَّحْرِ، وَيَقُولُ: لِتَأْخُذُوا مَنَاسِكَكُمْ، فَإِنِّي لَا أَدْرِي لَعَلِّي لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِي هَذِهِ ".
ابوالزبیر نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا: میں نے دیکھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ وہ جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے تھے اپنی اونٹنی پر سے قربانی کے دن اور فرماتے تھے: ”سیکھ لو مجھ سے مناسک اپنے حج کے اس لیے کہ میں نہیں جانتا کہ اس کے بعد حج کروں۔“
وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ حُصَيْنٍ ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَيْنِ ، قَالَ: سَمِعْتُهَا تَقُولُ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، فَرَأَيْتُهُ حِينَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، وَانْصَرَفَ وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَمَعَهُ بِلَالٌ، وَأُسَامَةُ، أَحَدُهُمَا يَقُودُ بِهِ رَاحِلَتَهُ، وَالْآخَرُ رَافِعٌ ثَوْبَهُ عَلَى رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الشَّمْسِ، قَالَتْ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْلًا كَثِيرًا، ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ مُجَدَّعٌ حَسِبْتُهَا قَالَتْ: أَسْوَدُ يَقُودُكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا ".
یحییٰ نے اپنی دادی سیدہ ام الحصین رضی اللہ عنہا سے سنا کہ وہ فرماتی تھیں کہ حج کیا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجتہ الوداع۔ سو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جمرہ عقبہ کو کنکر مارے اور لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار تھے اپنی اونٹنی پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال اور سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہما تھے کہ ایک تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی مہار پکڑ کر کھینچتا تھا اور دوسرا اپنا کپڑا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر پکڑے ہوئے تھا دھوپ کے سبب سے سو ام حصین نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت باتیں فرمائیں، پھر میں نے سنا کہ فرماتے تھے: ”اگر تمہارے اوپر ایک غلام کن کٹا حاکم کیا جائے میں خیال کرتا ہوں کہ ام حصین نے یہ بھی کہا کہ کالا غلام ہو اور کہا کہ تم کو کتاب اللہ کے مطابق حکم دے تو بھی اس کی بات سنو اور اس کا کہنا مانو۔“
وَحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ أُمِّ الْحُصَيْنِ جَدَّتِهِ، قَالَتْ: " حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ، فَرَأَيْتُ أُسَامَةَ، وَبِلَالًا، وَأَحَدُهُمَا آخِذٌ بِخِطَامِ نَاقَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ رَافِعٌ ثَوْبَهُ يَسْتُرُهُ مِنَ الْحَرِّ، حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ "، قَالَ مُسْلِم: وَاسْمُ أَبِي عَبْدِ الرَّحِيمِ خَالِدُ بْنُ أَبِي يَزِيدَ، وَهُوَ خَالُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَمَةَ، رَوَى عَنْهُ، وَكِيعٌ، وَحَجَّاجٌ الْأَعْوَرُ.
ام الحصین رضی اللہ عنہا سے وہی مضمون مروی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ کہا مسلم رحمہ اللہ نے کہ نام ابوعبدالرحیم کا خالد بن ابویزید ہے اور وہ ماموں ہیں محمد بن سلمہ کے اور روایت کی ہے ان سے وکیع اور حجاج اعور نے۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى الْجَمْرَةَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو وہ کنکریاں ماریں جو چٹکی سے پھینکی جاتی ہیں۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، وَابْنُ إِدْرِيسَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: " رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدُ فَإِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ "،
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریاں ماریں جمرہ کو نحر کے دن، پہر دن چڑھے اور بعد کے دنوں میں جب آفتاب ڈھل گیا۔
وحَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وَحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حَدَّثَنَا مَعْقِلٌ وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ الْجَزَرِيُّ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الِاسْتِجْمَارُ تَوٌّ، وَرَمْيُ الْجِمَارِ تَوٌّ، وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ تَوٌّ، وَالطَّوَافُ تَوٌّ، وَإِذَا اسْتَجْمَرَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْتَجْمِرْ بِتَوٍّ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھیلے لینا استنجا کے طاق ہیں اور کنکریاں جمرہ کی طاق ہیں اور سعی صفا اور مروہ کی طاق ہے اور طواف کعبہ کا طاق ہے (یعنی یہ تینوں سات سات ہیں) اور اسی لیے ضروری ہے کہ جو لے ڈھیلے استنجا کے لیے تو طاق لے (یعنی تین یا پانچ جس میں طہارت خوب ہو جائے۔ یعنی اگر طہارت چار میں ہو جائے تو بھی ایک اور لے کہ طاق ہو جائیں اور بعض بے وقوف سفہا نام کے فقہا نے جو یہ لکھا کہ ڈھیلے کے تئیں طہارت کے وقت تین بار ٹھونک لے کہ تسبیح سے باز رہے یہ بدعت ہے اور بے اصل اور لغو حرکت ہے اور طاق لینا ڈھیلوں کا جمہور علماء کے نزدیک مستحب ہے)۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ ، قَالَ: " حَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: وَالْمُقَصِّرِينَ ".
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈایا اور ایک گروہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے سر منڈایا اور بعض نے فقط بال کترائے۔ عبداللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ رحم کرے سر منڈانے والوں پر۔“ ایک بار دعا کی یا دو بار پھر فرمایا: ”کہ کتروانے والوں پر بھی۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ ارْحَمْ الْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَالْمُقَصِّرِينَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! رحمت کر سر منڈانے والوں پر۔“ لوگوں نے عرض کی کہ کتروانے والوں پر بھی اے اللہ کے رسول، تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ ارْحَمِ الْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! رحمت کر سر منڈانے والوں پر۔“ لوگوں نے پھر عرض کی کہ کتروانے والوں پر بھی یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:«وَالْمُقَصِّرِينَ» ”کتروانے والوں پر بھی۔“
أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سُفْيَانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ الْحَجَّاجِ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: وَالْمُقَصِّرِينَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَالْمُقَصِّرِينَ "،
وہی مضمون ہے مگر اس سر منڈانے والوں کو تین تین بار دعا دی اور کتروانے والوں کو چوتھی بار۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَلَمَّا كَانَتِ الرَّابِعَةُ، قَالَ: وَالْمُقَصِّرِينَ.
کہا مسلم نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابن مثنیٰ نے، ان سے عبدالوہاب نے، ان سے عبیداللہ نے اسی سند سے اور اس حدیث میں بھی جب چوتھی بار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَالْمُقَصِّرِينَ» ”اور کتروانے والوں پر بھی۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِلْمُقَصِّرِينَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِلْمُقَصِّرِينَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلِلْمُقَصِّرِينَ، قَالَ: " وَلِلْمُقَصِّرِينَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! بخشش کر سر منڈانے والوں کی۔“ پھر عرض کی کہ کتروانے والوں کی یا رسول اللہ! پھر فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ! بخشش کر سر منڈانے والوں کی۔“ پھر عرض کی یہ یا رسول اللہ کتروانے والوں کی بھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: «اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِلْمُحَلِّقِينَ» ”یا اللہ بخشش کر منڈانے والوں کی۔“ پھر لوگوں نے عرض کی کہ کتروانے والوں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «وَلِلْمُقَصِّرِينَ» ”اور کترنے والوں کی بھی“۔
وَحَدَّثَنِي أُمَيَّةُ بْنُ بِسْطَامَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حَدَّثَنَارَوْحٌ ، عَنِ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
کہا مسلم نے اور روایت کی مجھ سے امیہ نے، ان سے یزید نے، ان سے روح نے ان سے علاء نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی مضمون جو ابوزرعہ نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اوپر روایت کیا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ جَدَّتِهِ ، أَنَّهَا سَمِعَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، دَعَا لِلْمُحَلِّقِينَ ثَلَاثًا وَلِلْمُقَصِّرِينَ مَرَّةً "، وَلَمْ يَقُلْ وَكِيعٌ: فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
یحییٰ نے اپنی دادی سے روایت کی کہ انہوں نے حجتہ الوداع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلمکو سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈانے والوں کے لیے تین بار دعا کی اور کتروانے والوں کے لیے ایک بار اور وکیع کی روایت میں حجتہ الودع کا لفظ نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، كِلَاهُمَا عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَقَ رَأْسَهُ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈایا اپنا حجتہ الوداع میں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مِنًى، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ: " خُذْ وَأَشَارَ إِلَى جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيهِ النَّاسَ "،
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منیٰ میں آئے تو پہلے جمرہ عقبہ پر گئے اور کنکریاں ماریں، پھر اپنے فرودگاہ میں تشریف لائے۔ منیٰ میں اترے قربانی کی پھر حجام سے کہا کہ ”لو۔“ اور اشارہ کیا داہنی طرف میں سر کے اور پھر بائیں پھر لوگوں کو دینے شروع کیے۔ (یعنی موئے مبارک اپنے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَمَّا أَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ فِي رِوَايَتِهِ لِلْحَلَّاقِ: " هَا وَأَشَارَ بِيَدِهِ إِلَى الْجَانِبِ الْأَيْمَنِ هَكَذَا فَقَسَمَ شَعَرَهُ بَيْنَ مَنْ يَلِيهِ "، قَالَ: " ثُمَّ أَشَارَ إِلَى الْحَلَّاقِ وَإِلَى الْجَانِبِ الْأَيْسَرِ فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أُمَّ سُلَيْمٍ "، وَأَمَّا فِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ: " فَبَدَأَ بِالشِّقِّ الْأَيْمَنِ فَوَزَّعَهُ الشَّعَرَةَ وَالشَّعَرَتَيْنِ بَيْنَ النَّاسِ "، ثُمَّ قَالَ: " بِالْأَيْسَرِ فَصَنَعَ بِهِ مِثْلَ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ: " هَا هُنَا أَبُو طَلْحَةَ "، فَدَفَعَهُ إِلَى أَبِي طَلْحَةَ.
روایت کی ہم سے ابوبکر بن ابوشیبہ اور ابن نمیر اور ابوکریب نے، تینوں نے کہا کہ روایت کہ ہم سے حفص بن غیاث نے۔ انہوں نے ہشام سے اسی اسناد سے اب سنو کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا حجام سے ”یہاں۔“ اور اشارہ کیا اپنے ہاتھ سے داہنی طرف اس طرح اور بانٹ دیے بال اپنے ان لوگوں کو جو قریب تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ کہا راوی نے اشارہ کیا حجام کو بائیں طرف کے سر کا تو اس طرف کے بال مونڈے تو ام سلیم کو عطا فرماے اور ابوکریب کی روایت میں ہے کہ داہنی طرف سے شروع کیا اور ایک ایک دو دو بال بانٹ دیے لوگوں کو پھر بائیں طرف اشارہ کیا اور ان کو بھی ایسا ہی کیا یعنی منڈانا پھر فرمایا کہ ”یہاں ابوطلحہ ہیں۔“ سو ان کو دے دیا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْبُدْنِ فَنَحَرَهَا، وَالْحَجَّامُ جَالِسٌ، وَقَالَ بِيَدِهِ عَنْ رَأْسِهِ، فَحَلَقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَقَسَمَهُ فِيمَنْ يَلِيهِ، ثُمَّ قَالَ: " احْلِقْ الشِّقَّ الْآخَرَ "، فَقَالَ: " أَيْنَ أَبُو طَلْحَةَ "، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ.
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی کی اور پھر آئے تو اونٹ کو ذبح کیا اور حجام بیٹھا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا سو داہنی طرف کا سر منڈایا اور ان بالوں کو تقسیم کیا، ان لوگوں میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک تھے۔ پھر فرمایا کہ ”اب دوسری جانب مونڈو۔“ سو فرمایا کہ ”ابوطلحہ کہاں ہیں؟“ وہ بال ان کو عنایت فرمائے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعْتُ هِشَامَ بْنَ حَسَّانَ ، يُخْبِرُ عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " لَمَّا رَمَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ، وَنَحَرَ نُسُكَهُ، وَحَلَقَ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ، ثُمَّ دَعَا أَبَا طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيَّ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ، ثُمَّ نَاوَلَهُ الشِّقَّ الْأَيْسَرَ، فَقَالَ: احْلِقْ فَحَلَقَهُ، فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، فَقَالَ: اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کو کنکریاں مار لیں اور قربانی کر لی اور سر منڈوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دائیں جانب آگے کی اس مونڈ دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ انصاری کو بلایا اور ان کو وہ بال دے دیے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بائیں جانب آگے کی کہ”اس کو مونڈو۔“ جب وہ مونڈ دی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ کو وہ بال دے دیے کہ لوگوں میں تقسیم کر دو۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ فَقَالَ: " اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ "، ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، فَقَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ، إِلَّا قَالَ: " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیچ منیٰ کے حجتہ الوداع میں کھڑے ہوئے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھیں سو ایک شخص آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا اور سر منڈا لیا اونٹ نحر کرنے سے پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب قربانی ذبح کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ پھر دوسرا آیا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا اور قربانی ذبح کر لی کنکر مارنے سے پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اب کنکر مار لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ غرض ان سے جس عمل کی تقدیم تاخیر کو پوچھا تو یہی فرمایا کہہ ”کچھ مضائقہ نہیں اب کر لو۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَطَفِقَ نَاسٌ يَسْأَلُونَهُ، فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَشْعُرُ أَنَّ الرَّمْيَ قَبْلَ النَّحْرِ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: وَطَفِقَ آخَرُ يَقُولُ: إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ أَنَّ النَّحْرَ قَبْلَ الْحَلْقِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، فَيَقُولُ: " انْحَرْ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ يُسْأَلُ يَوْمَئِذٍ عَنْ أَمْرٍ مِمَّا يَنْسَى الْمَرْءُ وَيَجْهَلُ مِنْ تَقْدِيمِ بَعْضِ الأُمُورِ قَبْلَ بَعْضٍ وَأَشْبَاهِهَا، إِلَّا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " افْعَلُوا ذَلِكَ وَلَا حَرَجَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلماپنی اونٹنی پر سوار ہو کر کھڑے رہے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلے پوچھنے لگے، سو ایک نے کہا: یا رسول اللہ! میں نے نہ جانا کہ رمی نحر کے قبل ضروری ہے اور میں نے نحر کر لیا رمی سے پہلے۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: ”اب رمی کر لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ اور دوسرے نے کہا کہ میں نے نہ جانا کہ نحر قبل حلق کے ہے اور حلق کر لیا قبل نحر کے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”اب نحر کر لو اور کچھ حرج نہیں ہے۔“ راوی نے کہا: میں نے بھی سنا کہ جس نے اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی ایسا کام پوچھا کہ جسے انسان بھول جاتا ہے اور آگے پیچھے کر لیتا ہے اور اس کی مانند تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا کہ ”اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“
حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِح ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، بِمِثْلِ حَدِيثِ يُونُسَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، إِلَى آخِرِهِ.
کہا امام مسلم رحمہ اللہ علیہ نے اور روایت کی ہم سے حسن حلوانی نے، ان سے یعقوب نے، ان سے ان کے باپ نے، ان سے صالح نے، ان سے ابن شہاب نے مثل حدیث یونس کی جو زہری سے مروی ہو چکی آخر تک۔
وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ شِهَابٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَحْسِبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّ كَذَا وَكَذَا قَبْلَ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتُ أَحْسِبُ أَنَّ كَذَا قَبْلَ كَذَا وَكَذَا لِهَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ، قَالَ: " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نحر کے دن خطبہ پڑھا اور ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: یا رسول اللہ! آگے وہی مضمون ہے جو اوپر کی روایتوں میں کئی بار گزرا۔
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ . ح وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَمَّا رِوَايَةُ ابْنِ بَكْرٍ، فَكَرِوَايَةِ عِيسَى، إِلَّا قَوْلَهُ: لِهَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ، وَأَمَّا يَحْيَى الأُمَوِيُّ، فَفِي رِوَايَتِهِ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، وَأَشْبَاهُ ذَلِكَ.
کہا مسلم نے روایت کی ہم سے یہی حدیث عبد بن حمید نے، ان سے محمد بن بکر نے اور کہا مسلم نے اور روایت کی مجھ سے سعید بن یحییٰ اموی نے، ان سے ان کے باپ نے اور سب نے روایت کی ابن جریج سے اسی اسناد سے مگر ابن بکر کی روایت مثل روایت عیسیٰ کی ہے مگر قول ان کا کہ یہ تین چیزیں (یعنی رمی اور نحر اور حلق) یہ مذکور نہیں اور یحییٰ کی روایت میں یوں ہے کہ ایک نے کہا: حلق کیا ہے میں قبل نحر کے اور نحر کی قبل رمی کے اور اسی کی مانند۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ رَجُلٌ فقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَح، قَالَ: " فَاذْبَحْ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوا لیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قربانی کر کوئی حرج نہیں ہے۔“ کہا کہ میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر اور کوئی حرج نہیں۔“
وَحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَةٍ بِمِنًى، فَجَاءَهُ رَجُلٌ بِمَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَتَاهُ رَجُلٌ يَوْمَ النَّحْرِ وَهُوَ وَاقِفٌ عَنْدَ الْجَمْرَةِ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، فقَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، وَأَتَاهُ آخَرُ، فقَالَ: إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، وَأَتَاهُ آخَرُ، فقَالَ: إِنِّي أَفَضْتُ إِلَى الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُهُ سُئِلَ يَوْمَئِذٍ عَنْ شَيْءٍ، إِلَّا قَالَ: " افْعَلُوا وَلَا حَرَجَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو اور ان کے پاس ایک شخص آیا نحر کے دن اور جمرہ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلمکھڑے ہوئے تھے، سو اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! میں نے سر منڈا لیا کنکریاں مارنے سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کنکریاں مار لو اور کچھ مضائقہ نہیں۔“ اور دوسرا آیا اور عرض کی کہ میں نے ذبح کیا رمی سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“ اور تیسرا آیا اور عرض کی کہ میں نے طواف افاضہ کیا بیت اللہ کا رمی سے پہلے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب رمی کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“روای نے کہا: اس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو چیز پوچھی کہ آگے پیچھے ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب کر لو اور کچھ حرج نہیں۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِيلَ لَهُ: فِي الذَّبْحِ، وَالْحَلْقِ، وَالرَّمْيِ، وَالتَّقْدِيمِ، وَالتَّأْخِيرِ، فقَالَ: " لَا حَرَجَ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی، حلق رمی کے آگے پیچھے ہونے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں ہے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَاضَ يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَلَّى الظُّهْرَ بِمِنًى "، قَالَ نَافِعٌ: فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يُفِيضُ يَوْمَ النَّحْرِ ثُمَّ يَرْجِعُ فَيُصَلِّي الظُّهْرَ بِمِنًى وَيَذْكُرُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَهُ.
نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف افاضہ کیا نحر کے دن اور پھر لوٹے اور ظہر منیٰ میں پڑھی۔ نافع نے کہا: ابن عمر رضی اللہ عنہما طواف افاضہ کرتے تھے نحر کے دن اور پھر لوٹ کر منیٰ میں ظہر پڑھتے تھے اور کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ شَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ؟ قَالَ: بِمِنًى، قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ؟، قَالَ: بِالْأَبْطَحِ، ثُمَّ قَالَ: افْعَلْ مَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ.
عبدالعزیز، رفیع کے فرزند نے کہا کہ پوچھا میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے خبر دو مجھے جو تم نے یاد رکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ترویہ کے دن(یعنی آٹھویں تاریخ) نماز ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، پھر میں نے کہا: نماز عصر کہاں پڑھی کوچ کے دن؟ کہا: ابطح میں، پھر کہا: کرو تم جیسا کرتے ہیں تمہارے حاکم لوگ۔
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ كَانُوا يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ابطح میں اترا کرتے تھے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، حدثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حدثنا صَخْرُ بْنُ جُوَيْرِيَةَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " كَانَ يَرَى التَّحْصِيبَ سُنَّةً، وَكَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ يَوْمَ النَّفْرِ بِالْحَصْبَةِ "، قَالَ نَافِعٌ: قَدْ حَصَّبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْخُلَفَاءُ بَعْدَهُ.
نافع نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کی کہ وہ محصب میں اترنے کو سنت جانتے تھے اور ظہر وہیں پڑھتے تھے نحر کے دن کی۔ نافع نے کہا کہ محصب میں اترے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اترے ہیں خلیفہ آپ کے۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " نُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ بِسُنَّةٍ، إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ إِذَا خَرَجَ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ محصب میں اترنا کچھ واجب نہیں اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم تو صرف اس لیے وہاں اترے ہیں کہ وہاں سے نکلنا آسان تھا جب مکہ سے آپ نکلے۔
وحدثناهأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ . ح وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حدثنا حَمَّاد يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ . ح وحدثناه أَبُو كَامِلٍ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حدثنا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ ، كُلُّهُمْ عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ : أَنَّ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ، وَابْنَ عُمَرَ: كَانُوا يَنْزِلُونَ الْأَبْطَح، قَالَ الزُّهْرِيُّ ، وَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنَّهَا لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُ ذَلِكَ، وَقَالَتْ: " إِنَّمَا نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَنَّهُ كَانَ مَنْزِلًا أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ ".
سالم نے کہا کہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ابطح میں اترے تھے۔ زہری نے کہا کہ مجھے عروہ نے خبر دی سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ وہ نہیں وہاں اترتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو وہاں اترتے تھے تو اس لیے کہ وہاں سے روانہ ہو جانا مکہ سے آسان تھا۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عطاء نے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ محصب میں اترنا کچھ سنت و واجب نہیں وہ تو ایک منزل ہے کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اترے ہیں۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، قَالَ: قَالَ أَبُو رَافِعٍ : " لَمْ يَأْمُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَنْزِلَ الْأَبْطَحَ حِينَ خَرَجَ مِنْ مِنًى، وَلَكِنِّي جِئْتُ فَضَرَبْتُ فِيهِ قُبَّتَهُ فَجَاءَ فَنَزَلَ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَةِ صَالِح، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ وَفِي رِوَايَةِ قُتَيْبَةَ، قَالَ: عَنْ أَبِي رَافِعٍ: وَكَانَ عَلَى ثَقَلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سلیمان بن یسار نے روایت کی کہ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم نہیں کیا تھا کہ میں اتروں ابطح میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ سے نکلے، مگر میں آیا اور میں نے وہاں قبہ لگا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمآئے اور وہاں اتر پڑے۔ ابوبکر کی روایت میں صالح سے یوں ہے کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے سلیمان بن یسار سے اور قتیبہ کی روایت میں ہے کہ ابورافع نے کہا اور ابورافع رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر مقرر تھے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " نَنْزِلُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کل ہم اللہ چاہے گا تو خیف کنانہ میں اتریں گے جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی آپس میں۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي الزُّهْرِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، حدثنا أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ بِمِنًى: " نَحْنُ نَازِلُونَ غَدًا بِخَيْفِ بَنِي كِنَانَةَ، حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ، وَذَلِكَ إِنَّ قُرَيْشًا، وَبَنِي كِنَانَةَ تَحَالَفَتْ عَلَى بَنِي هَاشِمٍ، وَبَنِي الْمُطَّلِبِ، أَنْ لَا يُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا يُبَايِعُوهُمْ حَتَّى يُسْلِمُوا إِلَيْهِمْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، يَعْنِي بِذَلِكَ: الْمُحَصَّبَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا منیٰ میں کہ ”کل ہم خیف بنی کنانہ میں اترنے والے ہیں جہاں کافروں نے کفر پر قسم کھائی تھی۔“ اور کیفیت اس کی یہ تھی کہ قریش نے اور بنی کنانہ نے قسم کھائی تھی کہ بنی ہاشم اور بنی عبدالمطلب سے یعنی ان کے قبیلوں سے نہ نکاح کریں، نہ خرید و فرخت کریں جب تک وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سپرد نہ کر دیں اور مراد خیف بنی کنانہ سے محصب ہے (تفصیل اس کی آگے آئے گی ان شاءاللہ تعالیٰ)۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا شَبَابَةُ ، حَدَّثَنِي وَرْقَاءُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْزِلُنَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ إِذَا فَتَحَ اللَّهُ الْخَيْفُ حَيْثُ تَقَاسَمُوا عَلَى الْكُفْرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ نے چاہا اور فتح دی تو منزل ہماری خیف ہے جہاں قسم کھائی انہوں نے (یعنی کافروں نے) کفر پر۔“
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، قَالَا: حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنَّ الْعَبَّاسَ بْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: اسْتَأْذَنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيتَ بِمَكَّةَ لَيَالِي مِنًى مِنْ أَجْلِ سِقَايَتِهِ فَأَذِنَ لَهُ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ عباس رضی اللہ عنہ نے اجازت مانگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ رات کو منیٰ کی راتوں میں مکہ میں رہیں، اس لیے کہ ان کے حصے زمزم پلانے کی خدمت تھی۔
وحدثناه إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ . ح وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمِنْهَالِ الضَّرِيرُ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، حدثنا حُمَيْدٌ الطَّوِيلُ ، عَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْدَ الْكَعْبَةِ، فَأَتَاهُ أَعْرَابِيٌّ، فقَالَ: مَا لِي أَرَى بَنِي عَمِّكُمْ يَسْقُونَ الْعَسَلَ وَاللَّبَنَ، وَأَنْتُمْ تَسْقُونَ النَّبِيذَ؟ أَمِنْ حَاجَةٍ بِكُمْ، أَمْ مِنْ بُخْلٍ؟ فقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : " الْحَمْدُ لِلَّهِ مَا بِنَا مِنْ حَاجَةٍ، وَلَا بُخْلٍ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، وَخَلْفَهُ أُسَامَةُ، فَاسْتَسْقَى فَأَتَيْنَاهُ بِإِنَاءٍ مِنْ نَبِيذٍ، فَشَرِبَ وَسَقَى فَضْلَهُ أُسَامَةَ وَقَالَ: أَحْسَنْتُمْ وَأَجْمَلْتُمْ كَذَا، فَاصْنَعُوا، فَلَا نُرِيدُ تَغْيِيرَ مَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عبداللہ مزنی فرزند بکر نے کہا کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا کعبہ کے نزدیک کہ ایک گاؤں کا آدمی آیا اور اس نے کہا: کیا سبب ہے کہ میں تمہارے چچا کی اولاد کو دیکھتا ہوں کہ وہ شہد کا شربت اور دودھ پلاتے ہیں اور تم کھجور کا شربت پلاتے ہو کیا تم نے محتاجی کے سبب سے اسے اختیار کیا ہے یا بخیلی کی وجہ سے؟ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: الحمداللہ نہ ہم کو محتاجی ہے نہ بخیلی۔ اصل وجہ اس کی یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اپنی اونٹنی پر اور ان کے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا سو ہم ایک پیالہ کھجور کے شربت کا لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیا اور اس میں سے جو بچا وہ اسامہ رضی اللہ عنہ کو پلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے خوب اچھا کام کیا اور ایسا ہی کیا کرو۔“ سو ہم اس کو بدلنا نہیں چاہتے جس کا حکم رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: " أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا، وَجُلُودِهَا، وَأَجِلَّتِهَا، وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عَنْدِنَا "،
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں پر کھڑا رہوں اور ان کا گوشت اور کھالیں اور جھولیں خیرات کر دوں اور قصاب کی مزدوری اس میں نہ دوں اور فرمایا: ”کہ مزدوری قصاب کی ہم اپنے پاس سے دیں گے۔“
وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوا: حدثنا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ الْجَزَرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، وَقَالَ إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ : أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، كِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ أَبِي نَجِيح عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا: أَجْرُ الْجَازِرِ.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے مگر اس میں قصاب کی مزدوری کا ذکر نہیں ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ مَيْمُونٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مَرْزُوقٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عَبد: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، أَنَّ مُجَاهِدًا ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَمَرَهُ أَنْ يَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَمَرَهُ أَنْ يَقْسِمَ بُدْنَهُ كُلَّهَا لُحُومَهَا، وَجُلُودَهَا، وَجِلَالَهَا، فِي الْمَسَاكِينِ، وَلَا يُعْطِيَ فِي جِزَارَتِهَا مِنْهَا شَيْئًا "،
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ کھڑے ہوں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قربانی کے اونٹوں پر اور حکم دیا کہ سارا گوشت اور جھولیں ان کی خیرات کر دیں مسکینوں کو اور قصاب کی مزدوری اس میں سے کچھ نہ دیں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْكَرِيمِ بْنُ مَالِكٍ الْجَزَرِيُّ ، أَنَّ مُجَاهِدًا ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَهُ بِمِثْلِهِ.
ایک اور سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا مَالِكٌ . ح وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " نَحَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نحر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ کے سال اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور بیل سات آدمیوں کی طرف سے۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ . ح وحدثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حدثنا زُهَيْرٌ ، حدثنا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُهِلِّينَ بِالْحَجِّ " فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَشْتَرِكَ فِي الْإِبِلِ، وَالْبَقَرِ كُلُّ سَبْعَةٍ مِنَّا فِي بَدَنَةٍ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ شریک ہو جائیں اونٹ اور گائے میں سات سات آدمی ہم میں کے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا وَكِيعٌ ، حدثنا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " حَجَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَحَرْنَا الْبَعِيرَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ حج کیا ہم نے اونٹ اور گائے کو سات افراد کی طرف سے ذبح کیا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " اشْتَرَكْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ كُلُّ سَبْعَةٍ فِي بَدَنَةٍ "، فقَالَ رَجُلٌ لِجَابِرٍ: أَيُشْتَرَكُ فِي الْبَدَنَةِ مَا يُشْتَرَكُ فِي الْجَزُورِ؟ قَالَ: مَا هِيَ إِلَّا مِنَ الْبُدْنِ وَحَضَرَ جَابِرٌ الْحُدَيْبِيَةَ، قَالَ: نَحَرْنَا يَوْمَئِذٍ سَبْعِينَ بَدَنَةً اشْتَرَكْنَا كُلُّ سَبْعَةٍ فِي بَدَنَةٍ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: شریک ہوئے ہم ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج اور عمرہ میں سات سات آدمی ایک بدنہ میں۔ ایک شخص نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ کیا بدنہ میں بھی اتنے ہی آدمی شریک ہو سکتے ہیں جتنے جزور میں ہوتے ہیں؟ تو سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بدنہ اور جزور تو ایک ہی چیز ہے (یعنی دونوں اونٹ کو کہتے ہیں) اور حاضر ہوئے جابر رضی اللہ عنہ حدیبیہ میں تو انہوں نے کہا کہ نحر کیے ہم نے ستر اونٹ اور ہر اونٹ میں سات آدمی شریک تھے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يُحَدِّثُ، عَنْ حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَأَمَرَنَا إِذَا أَحْلَلْنَا أَنْ نُهْدِيَ وَيَجْتَمِعَ النَّفَرُ مِنَّا فِي الْهَدِيَّةِ "، وَذَلِكَ حِينَ أَمَرَهُمْ أَنْ يَحِلُّوا مِنْ حَجِّهِمْ فِي هَذَا الْحَدِيثِ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کو، تو کہا کہ حکم کیا ہم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب ہم احرام کھول ڈالیں تو قربانی کر لیں اور چند آدمی ہم میں سے ایک ایک قربانی میں شریک ہو جائیں اور یہ جب ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں احرام حج کا عمرہ کروا کے کھلوا دیا تھا۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " كُنَّا نَتَمَتَّعُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعُمْرَةِ، فَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ نَشْتَرِكُ فِيهَا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم تمتع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوئے تو ایک گائے میں سات آدمی شریک ہو جاتے تھے۔
حدثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّاءَ بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: " ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً يَوْمَ النَّحْرِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی نحر کے دن۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حدثنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " نَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ نِسَائِهِ "، وَفِي حَدِيثِ ابْنِ بَكْرٍ: عَنْ عَائِشَةَ بَقَرَةً فِي حَجَّتِهِ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیبیوں رضی اللہ عنہن کی طرف سے قربانی کی اور ابن بکر کی روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ایک گائے ذبح کی اپنے حج میں۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ ، أَنَّ ابْنَ عُمَر أَتَى عَلَى رَجُلٍ وَهُوَ يَنْحَرُ بَدَنَتَهُ بَارِكَةً، فقَالَ: " ابْعَثْهَا قِيَامًا مُقَيَّدَةً سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
زیاد نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اونٹ کو بٹھا کر نحر کرتا ہے تو کہا کہ اس کو اٹھا لو اور پیر باندھ دو اور نحر کرو، یہ سنت ہے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، قَالَ: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحدثنا قُتَيْبَةُ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أن عائشة ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُهْدِي مِنَ الْمَدِينَةِ، فَأَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِهِ، ثُمَّ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے قربانی روانہ کر دیتے تھے اور میں ان کے گلوں کے ہار بٹ دیا کرتی تھی پھر وہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کیا کرتے تھے جیسے محرم پرہیز کیا کرتا ہے۔
وحَدَّثَنِيهِ حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ،
ابن شہاب سے وہی مضمون مروی ہوا۔
وحدثناه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَخَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيَّ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِهِ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے آپ کو دیکھتی ہوں کہ میں بٹا کرتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ہار، آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا۔
وحدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: " كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ هَاتَيْنِ، ثُمَّ لَا يَعْتَزِلُ شَيْئًا وَلَا يَتْرُكُهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے ہار بٹا کرتی تھی اپنے ہاتھوں سے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی چیز نہ چھوڑتے تھے۔
وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا أَفْلَح ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " فَتَلْتُ قَلَائِدَ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ، ثُمَّ أَشْعَرَهَا وَقَلَّدَهَا، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا إِلَى الْبَيْتِ وَأَقَامَ بِالْمَدِينَةِ، فَمَا حَرُمَ عَلَيْهِ شَيْءٌ كَانَ لَهُ حِلًّا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ میں اپنے ہاتھوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کے ہار بٹا کرتی تھی پھر آپ ان کے کوہانوں کو چیرا لگاتے پھر ہار ڈالتے اور بیت اللہ کی طرف بھیجتے پھر آپ خود مدینہ میں قیام کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی چیز جو پہلے حلال تھی حرام نہ ہوتی۔
وحدثنا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَيَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ ، قَالَ ابْنُ حُجْرٍ: حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْعَثُ بِالْهَدْيِ أَفْتِلُ قَلَائِدَهَا بِيَدَيَّ ثُمَّ لَا يُمْسِكُ، عَنْ شَيْءٍ لَا يُمْسِكُ، عَنْهُ الْحَلَالُ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے روایت کی گئی ہے۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا حُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ ، حدثنا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، قَالَتْ: " أَنَا فَتَلْتُ تِلْكَ الْقَلَائِدَ مِنْ عِهْنٍ كَانَ عَنْدَنَا، فَأَصْبَحَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَالًا يَأْتِي مَا يَأْتِي الْحَلَالُ مِنْ أَهْلِهِ، أَوْ يَأْتِي مَا يَأْتِي الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ ".
ام المؤمنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ میں نے ہار بٹے ہیں اون سے جو رکھی ہوئی تھی ہمارے پاس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان حلال رہے (یعنی قربانی بھیج کر) اور اپنی بیبیوں سے صحبت کرتے تھے، جیسے حلال لوگ کرتے ہیں (یعنی جن کو احرام نہیں ہوتا)۔
وَحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " لَقَدْ رَأَيْتُنِي أَفْتِلُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَنَمِ فَيَبْعَثُ بِهِ، ثُمَّ يُقِيمُ فِينَا حَلَالًا ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اپنے کو دیکھ چکی ہوں کہ بٹتی تھی ہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانی کی بکریوں کے لیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمان کو بھیج کر پھر حلال رہتے تھے (یعنی محرم نہ ہوتے تھے)۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " رُبَّمَا فَتَلْتُ الْقَلَائِدَ لِهَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيُقَلِّدُ هَدْيَهُ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهِ، ثُمَّ يُقِيمُ لَا يَجْتَنِبُ شَيْئًا مِمَّا يَجْتَنِبُ الْمُحْرِمُ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مروی ہے۔
وَحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: " أَهْدَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً إِلَى الْبَيْتِ غَنَمًا، فَقَلَّدَهَا ".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار بکریاں بھیجیں بیت اللہ کو اور ان کے گلے میں ہار ڈالا۔
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " كُنَّا نُقَلِّدُ الشَّاءَ، فَنُرْسِلُ بِهَا، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَالٌ لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ مِنْهُ شَيْءٌ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ہم بکریوں کی گردنوں میں ہار ڈالتے اور ان کو روانہ کر دیتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حلال ہی رہتے وہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام نہیں کرتے تھے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ ابْنَ زِيَادٍ كَتَبَ إِلَى عَائِشَةَ: أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَنْ أَهْدَى هَدْيًا حَرُمَ عَلَيْهِ مَا يَحْرُمُ عَلَى الْحَاجِّ حَتَّى يُنْحَرَ الْهَدْيُ، وَقَدْ بَعَثْتُ بِهَدْيِي، فَاكْتُبِي إِلَيَّ بِأَمْرِكِ، قَالَت عَمْرَةُ، قَالَت عَائِشَةُ : " لَيْسَ كَمَا قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ، " أَنَا فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ، ثُمَّ قَلَّدَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، ثُمَّ بَعَثَ بِهَا مَعَ أَبِي، فَلَمْ يَحْرُمْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْءٌ أَحَلَّهُ اللَّهُ لَهُ حَتَّى نُحِرَ الْهَدْيُ ".
عمرہ، عبدالرحمٰن کی بیٹی نے کہا کہ ابن زیاد نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو لکھا کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جس نے قربانی بھیجی اس پر حرام ہو چکیں وہ چیزیں جو حاجی پر حرام ہوتی ہیں جب تک کہ قربانی ذبح نہ ہو اور میں نے قربانی روانہ کی ہے سو جو حکم ہو مجھے لکھو، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جیسا کہا ویسا نہیں ہے، میں نے خود بٹے ہیں ہار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربانیوں کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گلے میں ڈال کر میرے باپ کے ساتھ قربانی روانہ کر دی اور کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلمپر حرام نہ ہوئی اس کے ذبح تک جو اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حلال کی تھی۔
وحدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، وَهِيَ مِنْ وَرَاءِ الْحِجَابِ تصفق، وتقول: " كنت أفتل قلائد هدي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيَّ، ثُمَّ يَبْعَثُ بِهَا وَمَا يُمْسِكُ، عَنْ شَيْءٍ مِمَّا يُمْسِكُ، عَنْهُ الْمُحْرِمُ حَتَّى يُنْحَرَ هَدْيُهُ "،
مسروق نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سنا کہ وہ پردے کی آڑ میں دستک دیتی تھیں اور فرماتی تھیں کہ میں بٹا کرتی تھی ہار قربانی کے اپنے ہاتھوں سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو روانہ کر دیتے تھے اور پھر اس کے ذبح تک کسی چیز سے پرہیز نہ کرتے تھے۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حدثنا دَاوُدُ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا زَكَرِيَّاءُ ، كِلَاهُمَا عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، بِمِثْلِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس سند سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی روایت بیان کرتی ہی۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً، فقَالَ: ارْكَبْهَا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا بَدَنَةٌ، فقَالَ: ارْكَبْهَا وَيْلَكَ فِي الثَّانِيَةِ، أَوْ فِي الثَّالِثَةِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص دیکھا کہ قربانی کا اونٹ کھینچ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کی قربانی کا ہے، پھر فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے پھر وہی عرض کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری یا دوسری بار فرمایا: ”خرابی ہو تیری سوار ہو جا۔“
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِزَامِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَدَنَةً مُقَلَّدَةً.
ابوالزناد کی روایت میں بھی وہی مضمون ہے اور اس میں ہے کہ اس اونٹ کے گلے میں ہار بھی تھا۔
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حدثنا مَعْمَرٌ ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ ، قَالَ: هَذَا مَا حدثنا أَبُو هُرَيْرَةَ ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا، وَقَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يَسُوقُ بَدَنَةً مُقَلَّدَةً، قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَيْلَكَ ارْكَبْهَا "، فقَالَ: بَدَنَةٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَيْلَكَ ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ ارْكَبْهَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کئی حدیثیں روایت کیں ان میں یہ بھی تھی کہ ایک شخص ایک اونٹ کو کھینچ رہا تھا جو اونٹ مقلد تھا (یعنی اس کے گلے میں ہار پڑا ہوا تھا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خرابی ہو تیری اس پر سوار ہو جا۔“ اس نے عرض کی: یا رسول اللہ! یہ قربانی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”سوار ہو جا۔ خرابی ہے تیری۔ سوار ہو جا خرابی ہے تیری۔“
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، قَالَا: حدثنا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: وَأَظُنُّنِي قَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ أَنَسٍ. ح وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِرَجُلٍ يَسُوقُ بَدَنَةً، فقَالَ: " ارْكَبْهَا "، فقَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ: " ارْكَبْهَا "، مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو اپنی قربانی کے اونٹ کو دھکیل رہا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”سوار ہو جا۔“ اس نے کہا: یہ قربانی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا: کہ ”سوار ہو جا۔“
وَحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَخْنَسِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَدَنَةٍ أَوْ هَدِيَّةٍ، فقَالَ: " ارْكَبْهَا "، قَالَ: إِنَّهَا بَدَنَةٌ أَوْ هَدِيَّةٌ، فقَالَ: " وَإِنْ "،
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے اختلاف سے مروی ہے۔
وحدثناهأَبُو كُرَيْبٍ ، حدثنا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، حَدَّثَنِي بُكَيْرُ بْنُ الْأَخْنَسِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، يَقُولُ: مُرَّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَدَنَةٍ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، سُئِلَ عَنْ رُكُوبِ الْهَدْيِ، فقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ إِذَا أُلْجِئْتَ إِلَيْهَا حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے کسی نے قربانی کے اونٹ پر سوار ہونے کو پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فرماتے تھے: ”کہ اس پر ایسی طرح سوار ہو کہ تکلیف نہ دو اور جب تمہیں ضرورت ہو اور سواری نہ ملے۔“
وحَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حدثنا الْحَسَنُ بْنُ أَعْيَنَ ، حدثنا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، قَالَ: سَأَلْتُ جَابِرًا عَنْ رُكُوبِ الْهَدْيِ، فقَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " ارْكَبْهَا بِالْمَعْرُوفِ حَتَّى تَجِدَ ظَهْرًا ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ الضُّبَعِيِّ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ سَلَمَةَ الْهُذَلِيُّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَسِنَانُ بْنُ سَلَمَةَ مُعْتَمِرَيْنِ، قَالَ: وَانْطَلَقَ سِنَانٌ مَعَهُ بِبَدَنَةٍ يَسُوقُهَا، فَأَزْحَفَتْ عَلَيْهِ بِالطَّرِيقِ فَعَيِيَ بِشَأْنِهَا إِنْ هِيَ أُبْدِعَتْ كَيْفَ يَأْتِي بِهَا، فقَالَ: لَئِنْ قَدِمْتُ الْبَلَدَ لَأَسْتَحْفِيَنَّ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَأَضْحَيْتُ فَلَمَّا نَزَلْنَا الْبَطْحَاءَ، قَالَ: انْطَلِقْ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ ، نَتَحَدَّثْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَذَكَرَ لَهُ شَأْنَ بَدَنَتِهِ، فقَالَ: عَلَى الْخَبِيرِ سَقَطْتَ بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسِتَّ عَشْرَةَ بَدَنَةً مَعَ رَجُلٍ وَأَمَّرَهُ فِيهَا، قَالَ: فَمَضَى، ثُمَّ رَجَعَ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا أُبْدِعَ عَلَيَّ مِنْهَا؟ قَالَ: " انْحَرْهَا، ثُمَّ اصْبُغْ نَعْلَيْهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ اجْعَلْهُ عَلَى صَفْحَتِهَا، وَلَا تَأْكُلْ مِنْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ "،
موسیٰ بن سلمہ نے کہا: میں اور سنان دونوں عمرے کو چلے اور سنان کے ساتھ ایک قربانی کا اونٹ تھا اور اسے کھینچتے تھے اور وہ راہ میں تھک گیا اور یہ اس کا حال دیکھ کر عاجز ہوئے کہ اگر یہ بالکل رہ گیا تو اسے کیونکر لاؤں گا اور کہنے لگے کہ اگر میں بلدہ پہنچا تو اس کا حکم بخوبی معلوم کروں گا پھر اتنے میں پہر دن چڑھا اور ہم بطحاء میں اترے اور سنان نے مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس چلو کہ ان سے ذکر کریں غرض ان سے جا کر ذکر کیا۔ انہوں نے کہا: تم نے خبردار شخص کو پایا۔ اب سنو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ اونٹ ایک شخص کے ساتھ روانہ کیئے اور وہ چلا پھر لوٹ آیا اور پوچھا: یا رسول اللہ! اگر ان میں سے کوئی تھک جائے تو کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””اسے نحر کر دو اور اس کے گلے کی جوتیاں (جو ہار میں لٹکائی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ قربانی کا جانور ہے) اس کے خون میں رنگ کر اس کے کوہان میں چھاپا مار دو اور اس میں سے نہ تم کھاؤ نہ تمہارا کوئی رفیق۔“
وحدثناه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَبِي التَّيَّاح ، عَنْ مُوسَى بْنِ سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ بِثَمَانَ عَشْرَةَ بَدَنَةً مَعَ رَجُلٍ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ عَبْدِ الْوَارِثِ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَوَّلَ الْحَدِيثِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹون کے روانہ کرنے کا مضمون ہے مگر اس میں اٹھارہ اونٹ مذکور ہے اور باقی مضمون وہی ہے اور اول کا قصہ سنان وغیرہ کا اس میں نہیں ہے۔
حَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حدثنا سَعِيدٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ سِنَانِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ ذُؤَيْبًا أَبَا قَبِيصَةَ ، حَدَّثَهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَبْعَثُ مَعَهُ بِالْبُدْنِ، ثُمَّ يَقُولُ: " إِنْ عَطِبَ مِنْهَا شَيْءٌ فَخَشِيتَ عَلَيْهِ مَوْتًا، فَانْحَرْهَا، ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ اضْرِبْ بِهِ صَفْحَتَهَا، وَلَا تَطْعَمْهَا أَنْتَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِكَ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ذویب نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ قربانی کے اونٹ روانہ کئیے اور فرمایا: ”اگر کوئی ان میں سے تھک جائے اور مرنے کا ڈر ہو تو اس کو نحر کرنا اور اس کے جوتے خون میں ڈبو کر اس کے کوہان میں چھاپا مار دینا اور نہ تم کھانا اور نہ تمہارا کوئی رفیق۔“
حدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَحْوَلِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كَانَ النَّاسُ يَنْصَرِفُونَ فِي كُلِّ وَجْهٍ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْفِرَنَّ أَحَدٌ حَتَّى يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ "، قَالَ زُهَيْرٌ: يَنْصَرِفُونَ كُلَّ وَجْهٍ، وَلَمْ يَقُلْ فِي.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگ ادھر ادھر چل پھر رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص کوچ نہ کرے جب تک چلتے وقت طواف نہ کر لے بیت اللہ کا۔“ زہیر کی روایت میں «فی» کا لفظ نہیں۔
حدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَاللَّفْظُ لِسَعِيدٍ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " أُمِرَ النَّاسُ أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهِمْ بِالْبَيْتِ إِلَّا أَنَّهُ خُفِّفَ، عَنِ الْمَرْأَةِ الْحَائِضِ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں کو حکم ہوا ہے کہ آخر میں بیت اللہ کے پاس سے ہو کر جائیں (یعنی طواف کر کے) اور حائضہ پر تخفیف ہو گئی (یعنی طواف وداع کے لیے)۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ إِذْ قَالَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ: تُفْتِي أَنْ تَصْدُرَ الْحَائِضُ قَبْلَ أَنْ يَكُونَ آخِرُ عَهْدِهَا بِالْبَيْتِ، فقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ : إِمَّا لَا فَسَلْ فُلَانَةَ الْأَنْصَارِيَّةَ هَلْ أَمَرَهَا بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَرَجَعَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، يَضْحَكُ، وَهُوَ يَقُولُ: مَا أَرَاكَ إِلَّا قَدْ صَدَقْتَ.
طاؤس نے کہا: میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ فتویٰ دیتے تھے کہ حائضہ عورت نکلنے سے پیشتر گویا حیض کے پہلے طواف رخصت کرے، سو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اگر تم نہیں مانتے ہو تو فلانی انصاری کی بی بی سے پوچھو کہ آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا حکم دیا ہے یا نہیں۔ سو زید بن ثابت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس لوٹ کر آئے ہنستے ہوئے اور بولے: میں جانتا ہوں کہ آپ ہی سچ کہتے ہیں۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ . ح وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْح ، حدثنا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، وَعُرْوَةَ أن عائشة ، قَالَت: حَاضَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ، قَالَت عَائِشَةُ: فَذَكَرْتُ حِيضَتَهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحَابِسَتُنَا هِيَ؟ "، قَالَت: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ كَانَتْ أَفَاضَتْ، وَطَافَتْ بِالْبَيْتِ، ثُمَّ حَاضَتْ بَعْدَ الْإِفَاضَة، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: " فَلْتَنْفِرْ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ صفیہ کو حیض آ گیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو روکنے والی ہے؟۔“میں نے عرض کی کہ وہ طواف افاضہ کر چکیں ہیں، تب حائضہ ہوئی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کوچ کریں۔“
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ أَحْمَدُ حدثنا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَت: طَمِثَتْ صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ زَوْجُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بَعْدَ مَا أَفَاضَتْ طَاهِرًا، بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ،
ابن شہاب اس سند سے بیان کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں۔ باقی حدیث گزشتہ کی طرح ہے۔
وحدثنا قُتَيْبَةُ يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ . ح وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حدثنا أَيُّوبُ ، كُلُّهُمْ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا ذَكَرَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ صَفِيَّةَ قَدْ حَاضَتْ بِمَعْنَى حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا أَفْلَح ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كُنَّا نَتَخَوَّفُ أَنْ تَحِيضَ صَفِيَّةُ قَبْلَ أَنْ تُفِيضَ، قَالَت: فَجَاءَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَحَابِسَتُنَا صَفِيَّةُ؟ "، قُلْنَا: قَدْ أَفَاضَتْ، قَالَ: " فَلَا إِذَنْ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم ڈرتے تھے کہ صفیہ طواف افاضہ سے پہلے حائضہ نہ ہو جائیں۔ فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: ”کہ کیا صفیہ ہم کو روکے رکھے گی؟“ ہم نے بتایا کہ وہ طوافِ افاضہ کر چکیں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تب نہیں۔“
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَت لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ قَدْ حَاضَتْ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَعَلَّهَا تَحْبِسُنَا، أَلَمْ تَكُنْ قَدْ طَافَتْ مَعَكُنَّ بِالْبَيْتِ؟ "، قَالُوا: بَلَى، قَالَ: " فَاخْرُجْنَ ".
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے مروی ہے۔
حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ حَمْزَةَ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ ، لَعَلَّهُ قَالَ: عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ مِنْ صَفِيَّةَ بَعْضَ مَا يُرِيدُ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِهِ، فقَالُوا: إِنَّهَا حَائِضٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَإِنَّهَا لَحَابِسَتُنَا "، فقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهَا قَدْ زَارَتْ يَوْمَ النَّحْرِ، قَالَ: " فَلْتَنْفِرْ مَعَكُمْ ".
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارادہ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہ سے ہوا جو مرد کو اپنی بی بی سے ہوتا ہے تو عرض ہوئی کہ وہ حائضہ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ہم کو روکنا چاہتی ہے۔“ عرض کہ وہ نحر کے دن طواف افاضہ کر چکی ہیں تب فرمایا: ”تمہارے ساتھ کوچ کریں۔“
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ . ح وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْفِرَ إِذَا صَفِيَّةُ عَلَى بَابِ خِبَائِهَا كَئِيبَةً حَزِينَةً، فقَالَ: " عَقْرَى حَلْقَى إِنَّكِ لَحَابِسَتُنَا "، ثُمَّ قَالَ لَهَا: " أَكُنْتِ أَفَضْتِ يَوْمَ النَّحْرِ؟ "، قَالَت: نَعَمْ، قَالَ: " فَانْفِرِي "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ کا ارادہ کیا سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنے خیمے کے دروازے پر غمگین اداس تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بانجیں سر منڈیاں کیا ہم کو روکتی ہیں۔“ پھر ان سے فرمایا: ”کیا تم نے نحر کے دن طواف افاضہ کیا ہے؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چلو۔“ (یعنی طواف وداع معاف)۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، جَمِيعًا عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ الْحَكَمِ غَيْرَ أَنَّهُمَا لَا يَذْكُرَانِ: كَئِيبَةً حَزِينَةً.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے اس میں غمگین، اداس کے الفاظ نہیں ہیں۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ، هُوَ وَأُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْحَجَبِيُّ، فَأَغْلَقَهَا عَلَيْهِ، ثُمَّ مَكَثَ فِيهَا، قَالَ ابْنُ عُمَرَ: فَسَأَلْتُبِلَالًا حِينَ خَرَجَ مَا صَنَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: " جَعَلَ عَمُودَيْنِ، عَنْ يَسَارِهِ وَعَمُودًا، عَنْ يَمِينِهِ وَثَلَاثَةَ أَعْمِدَةٍ وَرَاءَهُ، وَكَانَ الْبَيْتُ يَوْمَئِذٍ عَلَى سِتَّةِ أَعْمِدَةٍ ثُمَّ صَلَّى ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسامہ اور بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم داخل ہوئے کعبہ میں اور دروازہ بند کر لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹھہرے، پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بلال سے پوچھا جب نکلے کہ کیا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ تو انہوں نے کہا کہ تین ستون اپنے بائیں کیے اور ایک داہنے اور تین پیچھے اور کعبہ کے اندر ان دنوں چھ کھمبے تھے پھر نماز پڑھی۔
حدثنا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، كُلُّهُمْ عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ أَبُو كَامِلٍ : حدثنا حَمَّادٌ ، حدثنا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَنَزَلَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، وَأَرْسَلَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، فَجَاءَ بِالْمِفْتَحِ، فَفَتَحَ الْبَابَ، قَالَ: ثُمَّ دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِلَالٌ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، وَأَمَرَ بِالْبَابِ فَأُغْلِقَ، فَلَبِثُوا فِيهِ مَلِيًّا، ثُمَّ فَتَحَ الْبَابَ، فقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَبَادَرْتُ النَّاسَ، فَتَلَقَّيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَارِجًا، وَبِلَالٌ عَلَى إِثْرِهِ، فَقُلْتُ لِبِلَالٍ : " هَلْ صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ، أَيْنَ؟ قَالَ: " بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ تِلْقَاءَ وَجْهِهِ "، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى،
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے فتح مکہ کے دن اور کعبہ کے میدان میں اترے اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہلا بھیجا اور وہ کنجی لائے اور دروازہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور بلال اور اسامہ اور عثمان بن سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہم اندر گئے اور دروازے کو حکم دیا کہ بند کر دو اور تھوڑی دیر ٹھہرے پھر دروازہ کھولا پھر میں سب لوگوں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا کعبہ کے باہر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے سو بلال رضی اللہ عنہ سے میں نے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ میں نے کہا: کہاں؟ انہوں نے کہا کہ دو کھمبوں کے بیچ میں اپنے منہ کے سامنے، اور میں بھول گیا کہ پوچھوں کتنی رکعتیں پڑھیں۔
وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ عَلَى نَاقَةٍ لِأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ حَتَّى أَنَاخَ بِفِنَاءِ الْكَعْبَةِ، ثُمَّ دَعَا عُثْمَانَ بْنَ طَلْحَةَ، فقَالَ: " ائْتِنِي بِالْمِفْتَاحِ "، فَذَهَبَ إِلَى أُمِّهِ، فَأَبَتْ أَنْ تُعْطِيَهُ، فقَالَ: وَاللَّهِ لَتُعْطِينِهِ أَوْ لَيَخْرُجَنَّ هَذَا السَّيْفُ مِنْ صُلْبِي، قَالَ: فَأَعْطَتْهُ إِيَّاهُ، فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَيْهِ، فَفَتَحَ الْبَابَ، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر سوا کعبہ کے صحن میں آئے اور اونٹنی کو بٹھایا اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: ”کنجی لاؤ۔“ وہ اپنی ماں کے پاس گئے اور انہوں نے نہ دی، پھر عثمان نے کہا تم کنجی دے دو نہیں تو یہ تلوار میری پیٹھ سے پار ہو جائے گی، تب دی اور وہ لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ کھولا۔ آگے وہی مضمون ہے جو اوپر گزرا حماد کی روایت میں۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ . ح وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حدثنا عَبْدَةُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ، وَمَعَهُ أُسَامَةُ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، فَأَجَافُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ طَوِيلًا، ثُمَّ فُتِحَ فَكُنْتُ أَوَّلَ مَنْ دَخَلَ، فَلَقِيتُ بِلَالًا ، فَقُلْتُ: أَيْنَ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فقَالَ: " بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْمُقَدَّمَيْنِ "، فَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُ كَمْ صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں گئے اور اسامہ اور بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم کے ساتھ تھے اور لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانے کے بعد دروازہ بند کر لیا بڑی دیر تک۔ پھر دروازہ کھولا تو سب سے پہلے میں اندر گیا اور میں بلال رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا کہ کہاں نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے؟ انہوں نے کہا: دو ستونوں کے بیچ میں میں جو آگے ہیں اور میں بھول گیا ان سے یہ نہ پوچھا کہ کتنی نماز پڑھی۔
وحَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حدثنا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى الْكَعْبَةِ وَقَدْ دَخَلَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِلَالٌ ، وَأُسَامَةُ ، وَأَجَافَ عَلَيْهِمْ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ الْبَابَ، قَالَ: فَمَكَثُوا فِيهِ مَلِيًّا ثُمَّ فُتِحَ الْبَابُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَقِيتُ الدَّرَجَةَ، فَدَخَلْتُ الْبَيْتَ، فَقُلْتُ: " أَيْنَ صَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالُوا: هَا هُنَا "، قَالَ: وَنَسِيتُ أَنْ أَسْأَلَهُمْ كَمْ صَلَّى.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ . ح وحدثنا ابْنُ رُمْح ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّهُ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ هُوَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، فَأَغْلَقُوا عَلَيْهِمْ، فَلَمَّا فَتَحُوا كُنْتُ فِي أَوَّلِ مَنْ وَلَجَ، فَلَقِيتُ بِلَالًا ، فَسَأَلْتُهُ: هَلْ صَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: نَعَمْ، " صَلَّى بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ ".
وہی مضمون ہے لیکن اس میں اتنا ہے کہ راوی نے کہا کہ نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمانی دو ستونوں کے بیچ میں۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ هُوَ، وَأُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، وَبِلَالٌ، وَعُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ، وَلَمْ يَدْخُلْهَا مَعَهُمْ أَحَدٌ، ثُمَّ أُغْلِقَتْ عَلَيْهِمْ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: فَأَخْبَرَنِي بِلَالٌ ، أَوْ عُثْمَانُ بْنُ طَلْحَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ بَيْنَ الْعَمُودَيْنِ الْيَمَانِيَيْنِ ".
سالم بن عبداللہ نے اپنے باپ سے روایت کی انہوں نے کہا کہ میں نے دیکھا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو کہ کعبہ میں گئے اور اسامہ اور بلال اور عثمان رضی اللہ عنہم بھی اور کوئی ان کے ساتھ نہ گیا پھر دروازہ بند کر دیا۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خبر دی مجھے بلال رضی اللہ عنہ نے یا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی کعبہ کے اندر دو یمانی ستونوں کے بیچ میں۔
حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا عَنِ ابْنِ بَكْرٍ، قَالَ عبد: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَسَمِعْتَ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: إِنَّمَا أُمِرْتُمْ بِالطَّوَافِ، وَلَمْ تُؤْمَرُوا بِدُخُولِهِ، قَالَ: لَمْ يَكُنْ يَنْهَى عَنْ دُخُولِهِ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُهُ يَقُولُ: أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ : " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا دَخَلَ الْبَيْتَ دَعَا فِي نَوَاحِيهِ كُلِّهَا، وَلَمْ يُصَلِّ فِيهِ، حَتَّى خَرَجَ، فَلَمَّا خَرَجَ رَكَعَ فِي قُبُلِ الْبَيْتِ رَكْعَتَيْنِ، وَقَالَ: هَذِهِ الْقِبْلَةُ "، قُلْتُ لَهُ: مَا نَوَاحِيهَا، أَفِي زَوَايَاهَا، قَالَ: " بَلْ فِي كُلِّ قِبْلَةٍ مِنَ الْبَيْتِ ".
ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے کہا کہ تم نے سنا ہے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ وہ فرماتے تھے کہ تم کو حکم ہوا ہے طواف کا اور نہیں حکم ہوا ہے کعبہ کے اندر جانے کا، کہا عطاء نے کہ وہ منع نہیں کرتے تھے اس کے اندر جانے سے مگر میں نے ان کو سنا کہ کہتے تھے کہ خبر دی مجھ کو سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب داخل ہوئے کعبہ میں تو ہر طرف اس میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی پھر جب نکلے تو دو رکعت پڑھی قبلہ کے آگے اور فرمایا: ”یہی قبلہ ہے۔“ میں نے ان سے کہا کہ کیا حکم ہے اس کے کناروں کا؟ اور کیا حکم ہے اس کے کونوں میں نماز کا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہر طرف بیت اللہ شریف کے قبلہ ہے۔
حدثنا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حدثنا هَمَّامٌ ، حدثنا عَطَاءٌ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْكَعْبَةَ، وَفِيهَا سِتُّ سَوَارٍ، فَقَامَ عَنْدَ سَارِيَةٍ، فَدَعَا وَلَمْ يُصَلِّ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے کعبہ میں اور اس میں چھ ستون تھے سو ہر ستون کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔
وحَدَّثَنِي سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنِي هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَدَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيْتَ فِي عُمْرَتِهِ؟ قَالَ: لَا.
اسمٰعیل نے کہا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا جو صحابی تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ کیا داخل ہوئے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ میں اپنے عمرہ کی حالت میں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، وَلَجَعَلْتُهَا عَلَى أَسَاسِ إِبْرَاهِيمَ، فَإِنَّ قُرَيْشًا حِينَ بَنَتِ الْبَيْتَ اسْتَقْصَرَتْ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا خَلْفًا "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ توڑتا اور اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر بنا دیتا اس لیے کہ قریش نے جب کعبہ بنایا تو چھوٹا کر دیا اور میں اس میں ایک دروازہ پیچھے بھی بناتا۔“
وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
کہا مسلم رحمہ اللہ نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث ابوبکر بن ابوشیبہ نے اور ابوکریب نے، دونوں نے روایت کی ابن نمیر سے، انہوں نے ہشام سے یہی حدیث اسی سند سے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ "، قَالَت: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ؟، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْت "، فقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ، إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ.
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کہ تم نے نہیں دیکھا کہ جب تمہاری قوم نے کعبہ بنایا تو ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں سے کم کر دیا۔“ سو میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! آپ کیوں نہیں پھیر دیتے اس کو ابراہیم علیہ السلام کی بنیاد پر؟ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں البتہ ایسا کرتا۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ بیشک یہ سنا ہو گا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس لیے میں دیکھتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چھونا ان دونوں کونوں کا اسی واسطے چھوڑ دیا کہ بیت اللہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بنیادوں پر نہیں تھا۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ مَخْرَمَةَ . ح وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ نَافِعًا مَوْلَى ابْنِ عُمَرَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا قَالَت: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ، أَوَ قَالَ: بِكُفْرٍ، لَأَنْفَقْتُ كَنْزَ الْكَعْبَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَجَعَلْتُ بَابَهَا بِالْأَرْضِ، وَلَأَدْخَلْتُ فِيهَا مِنَ الْحِجْرِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا آپصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کہ اگر تمہاری قوم نئی نئی جاہلیت کو نہ چھوڑی ہوتی یا کفر کو تو میں کعبہ کا خزانہ اللہ کی راہ میں صرف کر دیتا۔ (یعنی جہاد میں) اور اس میں دروازے زمین کے برابر بناتا اور حطیم کو کعبہ میں ملا دیتا۔“
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حدثنا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، عَنْ سَعِيدٍ يَعْنِي ابْنَ مِينَاءَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي يَعْنِي عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِشِرْكٍ، لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ، فَأَلْزَقْتُهَا بِالْأَرْضِ، وَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ: بَابًا شَرْقِيًّا، وَبَابًا غَرْبِيًّا، وَزِدْتُ فِيهَا سِتَّةَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا اقْتَصَرَتْهَا حَيْثُ بَنَتِ الْكَعْبَةَ ".
وہی مضمون ہے مگر یہ زیادہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں کعبہ کو گرا کر زمین سے اس کے دروازے ملا دیتا اور دروازے رکھتا ایک شرق کی جانب دوسرا غرب کی طرف چھ ہاتھ حطیم میں سے زمین ملا دیتا اس لیے کہ قریش نے جب بنایا تو چھوٹا کر دیا۔“
حدثنا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، حدثنا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَطَاءٍ ، قَالَ: لَمَّا احْتَرَقَ الْبَيْتُ زَمَنَ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ حِينَ غَزَاهَا أَهْلُ الشَّامِ، فَكَانَ مِنْ أَمْرِهِ مَا كَانَ تَرَكَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ حَتَّى قَدِمَ النَّاسُ الْمَوْسِمَ يُرِيدُ أَنْ يُجَرِّئَهُمْ أَوْ يُحَرِّبَهُمْ عَلَى أَهْلِ الشَّامِ، فَلَمَّا صَدَرَ النَّاسُ، قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي الْكَعْبَةِ أَنْقُضُهَا، ثُمَّ أَبْنِي بِنَاءَهَا، أَوْ أُصْلِحُ مَا وَهَى مِنْهَا، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَإِنِّي قَدْ فُرِقَ لِي رَأْيٌ فِيهَا أَرَى أَنْ تُصْلِحَ مَا وَهَى مِنْهَا وَتَدَعَ بَيْتًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهِ وَأَحْجَارًا أَسْلَمَ النَّاسُ عَلَيْهَا وَبُعِثَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: لَوْ كَانَ أَحَدُكُمُ احْتَرَقَ بَيْتُهُ مَا رَضِيَ حَتَّى يُجِدَّهُ، فَكَيْفَ بَيْتُ رَبِّكُمْ، إِنِّي مُسْتَخِيرٌ رَبِّي ثَلَاثًا، ثُمَّ عَازِمٌ عَلَى أَمْرِي، فَلَمَّا مَضَى الثَّلَاثُ أَجْمَعَ رَأْيَهُ عَلَى أَنْ يَنْقُضَهَا، فَتَحَامَاهُ النَّاسُ أَنْ يَنْزِلَ بِأَوَّلِ النَّاسِ يَصْعَدُ فِيهِ أَمْرٌ مِنَ السَّمَاءِ حَتَّى صَعِدَهُ رَجُلٌ، فَأَلْقَى مِنْهُ حِجَارَةً، فَلَمَّا لَمْ يَرَهُ النَّاسُ أَصَابَهُ شَيْءٌ تَتَابَعُوا، فَنَقَضُوهُ حَتَّى بَلَغُوا بِهِ الْأَرْضَ، فَجَعَلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ أَعْمِدَةً فَسَتَّرَ عَلَيْهَا السُّتُورَ حَتَّى ارْتَفَعَ بِنَاؤُهُ، وَقَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ : إِنِّي سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلَا أَنَّ النَّاسَ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ بِكُفْرٍ وَلَيْسَ عَنْدِي مِنَ النَّفَقَةِ مَا يُقَوِّي عَلَى بِنَائِهِ، لَكُنْتُ أَدْخَلْتُ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ خَمْسَ أَذْرُعٍ، وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابًا يَدْخُلُ النَّاسُ مِنْهُ، وَبَابًا يَخْرُجُونَ مِنْهُ "، قَالَ: فَأَنَا الْيَوْمَ أَجِدُ مَا أُنْفِقُ وَلَسْتُ أَخَافُ النَّاسَ، قَالَ: فَزَادَ فِيهِ خَمْسَ أَذْرُعٍ مِنَ الْحِجْرِ حَتَّى أَبْدَى أُسًّا نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، فَبَنَى عَلَيْهِ الْبِنَاءَ وَكَانَ طُولُ الْكَعْبَةِ ثَمَانِيَ عَشْرَةَ ذِرَاعًا، فَلَمَّا زَادَ فِيهِ اسْتَقْصَرَهُ، فَزَادَ فِي طُولِهِ عَشْرَ أَذْرُعٍ، وَجَعَلَ لَهُ بَابَيْنِ أَحَدُهُمَا يُدْخَلُ مِنْهُ، وَالْآخَرُ يُخْرَجُ مِنْهُ، فَلَمَّا قُتِلَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، كَتَبَ الْحَجَّاجُ إِلَى عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَرْوَانَ، يُخْبِرُهُ بِذَلِكَ، وَيُخْبِرُهُ أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ قَدْ وَضَعَ الْبِنَاءَ عَلَى أُسٍّ نَظَرَ إِلَيْهِ الْعُدُولُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ عَبْدُ الْمَلِكِ إِنَّا لَسْنَا مِنْ تَلْطِيخِ ابْنِ الزُّبَيْرِ فِي شَيْءٍ، أَمَّا مَا زَادَ فِي طُولِهِ فَأَقِرَّهُ، وَأَمَّا مَا زَادَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ فَرُدَّهُ إِلَى بِنَائِهِ، وَسُدَّ الْبَابَ الَّذِي فَتَحَهُ فَنَقَضَهُ، وَأَعَادَهُ إِلَى بِنَائِهِ.
عطاء نے کہا کہ جب کعبہ جل گیا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں جب کہ مکہ میں آ کر شام والے لڑے تھے اور جو حال اس کو ہوا سو ہوا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کعبہ شریف کو ویسا ہی رہنے دیا، یہاں تک کہ لوگ موسم حج میں جمع ہوئے اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا ارادہ تھا کہ لوگوں کو خانہ کعبہ دکھا کر جرأت دلائیں اہل شام کی لڑائی پر یا ان کا تجربہ کریں کہ انہیں کچھ حمیت دین ہے یا نہیں پھر جب لوگ آ گئے تو انہوں نے کہا: اے لوگو! مشورہ دو مجھے خانہ کعبہ کے لیے کہ میں اسے توڑ کر نئے سرے سے بناؤں یا جو اس میں بودا ہو گیا ہے اسے درست کر دوں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ مجھے ایک رائے سوجھی ہے اور میں تو یہ جانتا ہوں کہ تم صرف جو ان میں بودا ہو گیا ہے اس کی مرمت کر دو اور خانہ کعبہ کو ویسا ہی رہنے دو جیسا کہ لوگوں کے وقت تھا اور ان ہی پتھروں کو رہنے دو جن کے اوپر لوگ مسلمان ہوئے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے ہیں تو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تم میں سے کسی کا گھر جل جائے تو اس کا دل کبھی نہ چاہے جب تک نیا نہ بنائے، پھر تمہارے رب کا گھر تو اس سے کہیں افضل ہے اس کا کیا حال ہے اور میں اپنے رب سے استخارہ کرتا ہوں۔ تین بار پھر مصمم ارادہ کرتا ہوں اپنے کام کا، پھر جب تین بار استخارہ ہو چکا تو ان کی رائے میں آیا کہ خانہ مبارک کو توڑ کر بنائیں اور جو لوگ خوف کرنے لگے کہ ایسا نہ ہو جو شخص کہ پہلے خانہ کے اوپر توڑنے چڑھے اس پر کوئی بلائے آسمانی نازل نہ ہو (اس سے معلوم ہوا کہ مالک اس گھر کا اوپر ہے اور تمام صحابہ کا یہی عقیدہ تھا) یہاں تک کہ ایک شخص چڑھا اور اس میں سے ایک پتھر گرا دیا پھر جب لوگوں نے دیکھا کہ اس پر کوئی بلا نہ اتری تو ایک دوسرے پر گرنے لگے اور خانہ مبارک کو ڈھا کر زمین تک پہنچا دیا اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے چند ستون کھڑے کر کے ان پر پردہ ڈال دیا (تاکہ لوگ اسی پردہ کی طرف نماز پڑھتے رہیں اور مقام کعبہ کو جانتے رہیں اور وہ پردے میں پڑے رہے) یہاں تک کہ دیواریں اس کی اونچی ہو گئیں اور سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا ہے کہ فرماتی تھیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”کہ اگر لوگ نئے نئے کفر نہ چھوڑے ہوتے اور میرے پاس اتنا بھی خرچ نہیں ہے کہ اس کو بنا سکوں ورنہ پانچ گز حطیم سے کعبہ کے اندر کر دیتا اور ایک دروازہ تو اس میں ایسا رہنے دیتا کہ لوگ اس میں داخل ہوتے اور دوسرا ایسا بناتا کہ لوگ اس سے باہر جاتے۔“پھر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم آج کے دن اتنا خرچ بھی رکھتے ہیں کہ اسے صرف کریں اور لوگوں کا خوف بھی نہیں۔ کہا راوی نے پھر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے پانچ گز اس کی دیواریں زیادہ کر دیں حطیم کی جانب سے یہاں تک کہ نکلی وہاں پر ایک بنیاد کہ لوگوں نے اسے خوب دیکھا (اور وہ بنیاد تھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی) پھر اسی بنیاد پر سے دیوار اٹھانا شروع کی اور طول کعبہ کا اٹھارہ ذراع تھا پھر جب اس میں زیادہ کیا تو چھوٹا نظر آنے لگا (چوڑان زیادہ ہو گئی اور لمبان کم نظر آنے لگی)سو اس کی لمبان میں بھی دس ذراع زیادہ کیئے اور اس کے دو دروازے رکھے ایک میں سے اندر جائیں، دوسرے سے باہر آئیں پھر جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے تو حجاج نے عبدالملک بن مروان کو یہ خبر لکھ بھیجی کہ سیدنا ابن زیبر رضی اللہ عنہ نے بناء کی وہ ان ہی بنیادوں پر کی جس کو معتبر لوگ مکہ کے دیکھ چکے ہیں (یعنی بنائے ابراہیم علیہ السلام پر کی) سو عبدالملک نے اس کو جواب لکھا کہ ہم کو سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی لت پت سے کچھ نہیں اور تم ایسا کرو جو انہوں نے طول میں زیادہ کر دیا ہے اس کو تو رہنے دو اور جو حطیم کی طرف سے زیادہ کیا ہے اس کو نکال ڈالو اور پھر حالت اولیٰ پر بنا دو اور وہ دروازہ بند کر دو جو کہ انہوں نے زیادہ کھولا ہے غرض حجاج نے اسے توڑ کر بنائے اول پر بنا دیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وَالْوَلِيدَ بْنَ عَطَاءٍ ، يحدثان: عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ ، وَفَدَ الْحَارِثُ بن عبد الله، على عبد الملك بن مروان، في خلافته، فقال عبد الملك: ما أظن أبا خبيب يعني ابن الزبير، سَمِعَ مِنْ عَائِشَةَ مَا كَانَ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَهُ مِنْهَا، قَالَ الْحَارِثُ : بَلَى، أَنَا سَمِعْتُهُ مِنْهَا، قَالَ: سَمِعْتَهَا تَقُولُ مَاذَا؟ قَالَ: قَالَت: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوا مِنْ بُنْيَانِ الْبَيْتِ، وَلَوْلَا حَدَاثَةُ عَهْدِهِمْ بِالشِّرْكِ أَعَدْتُ مَا تَرَكُوا مِنْهُ، فَإِنْ بَدَا لِقَوْمِكِ مِنْ بَعْدِي أَنْ يَبْنُوهُ فَهَلُمِّي لِأُرِيَكِ مَا تَرَكُوا مِنْهُ، فَأَرَاهَا قَرِيبًا مِنْ سَبْعَةِ أَذْرُعٍ "، هَذَا حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدٍ، وَزَادَ عَلَيْهِ الْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءٍ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَلَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ مَوْضُوعَيْنِ فِي الْأَرْضِ شَرْقِيًّا وَغَرْبِيًّا، وَهَلْ تَدْرِينَ لِمَ كَانَ قَوْمُكِ رَفَعُوا بَابَهَا؟ "، قَالَت: قُلْتُ: لَا، قَالَ: " تَعَزُّزًا أَنْ لَا يَدْخُلَهَا إِلَّا مَنْ أَرَادُوا، فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا هُوَ أَرَادَ أَنْ يَدْخُلَهَا يَدَعُونَهُ يَرْتَقِي حَتَّى إِذَا كَادَ أَنْ يَدْخُلَ دَفَعُوهُ فَسَقَطَ "، قَالَ: عَبْدُ الْمَلِكِ لِلْحَارِثِ: أَنْتَ سَمِعْتَهَا تَقُولُ هَذَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَنَكَتَ سَاعَةً بِعَصَاهُ، ثُمَّ قَالَ: وَدِدْتُ أَنِّي تَرَكْتُهُ وَمَا تَحَمَّلَ،
حارث سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عبید نے کہا کہ حارث وفد بن کر گئے عبدالملک کے پاس، جب عبدالملک خلیفہ تھا غرض کہ عبدالملک نے حارث بن عبداللہ سے کہا کہ مجھے گمان ہے کہ ابوخبیب یعنی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ حدیث سنی ہے یعنی جس میں بنائے کعبہ کا ذکر ہے تو وہ جھوٹ کہتے ہیں، انہوں نے کچھ نہیں سنا، تب حارث نے کہا کہ نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ حدیث سنی ہے عبدالملک نے کہا کہ تم نے ان سے کیا سنا ہے؟ تو حارث نے کہا کہ وہ فرماتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تمہاری قوم نے کعبہ کی بنا کو چھوٹا کر دیا اور اگر تمہاری قوم نے نیا شرک نہ چھوڑا ہوتا تو میں جتنا انہوں نے چھوڑ دیا ہے اس کو بنا دیتا۔ سو اگر تمہاری قوم کا ارادہ ہو کہ ویسا بنا دیں جیسا میں چاہتا ہوں میرے بعد تو آؤ میں دکھا دوں جو انہوں نے چھوڑا ہے۔“ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو دکھا دیا کہ وہ قریب سات ہاتھ تھا یعنی حطیم کی طرف سے یہ تو عبداللہ بن عبید کی روایت ہوئی اور ولید بن عطاء نے یہ مضمون اور زیادہ کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ””کہ میں اس میں دو دروازے زمین سے ملے ہوئے رکھتا ایک مشرق کی طرف دوسرا مغرب کی طرف اور تم جانتی ہو کہ تمہاری قوم نے دروازہ اس کا اونچا کیوں کر دیا؟“ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ میں نہیں جانتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تکبر کی راہ سے اور اس لیے کہ کوئی اندر نہ جا سکے مگر جسے وہ چاہیں اور حال ان کا یہ تھا کہ جب کوئی اندر جانے کا ارادہ کرتا تو اس کو جانے دیتے جب اندر جانے لگتا تو اسے دھکیل دیتے کہ گر پڑتا۔“ پھر عبدالملک نے حارث سے کہا کہ تم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے خود سنا کہ وہ ایسا فرماتی تھیں؟ انہوں نے کہا: ہاں، تب وہ اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگا (جیسے کوئی شرمندہ اور متفکر ہو جاتا ہے) اور پھر کہا: میں آرزو کرتا ہوں کہ اسی طرح چھوڑ دیتا اور جو کچھ وہاں ہے۔
وحدثناه مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حدثنا أَبُو عَاصِمٍ . ح وحدثنا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، كِلَاهُمَا، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ بَكْرٍ.
کہا مسلم رحمہ اللہ نے روایت کی ہم سے حدیث محمد بن عمرو نے، ان سے ابوعاصم نے اور کہا مسلم نے کہ روایت کی ہم سے عبد بن حمید نے، ان سے عبدالرزاق نے، اور ان دونوں نے روایت کی ابن جریج سے اسی اسناد سے ابن بکر کی حدیث کے مانند جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرٍ السَّهْمِيُّ ، حدثنا حَاتِمُ بْنُ أَبِي صَغِيرَةَ ، عَنْ أَبِي قَزَعَةَ ، أَنَّ عَبْدَ الْمَلِكِ بْنَ مَرْوَانَ بَيْنَمَا هُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، إِذْ قَالَ: قَاتَلَ اللَّهُ ابْنَ الزُّبَيْرِ حَيْثُ يَكْذِبُ عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُهَا تَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَنَقَضْتُ الْبَيْتَ حَتَّى أَزِيدَ فِيهِ مِنَ الْحِجْرِ، فَإِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرُوا فِي الْبِنَاءِ "، فقَالَ الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ: لَا تَقُلْ هَذَا يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَأَنَا سَمِعْتُ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ تُحَدِّثُ هَذَا، قَالَ: لَوْ كُنْتُ سَمِعْتُهُ قَبْلَ أَنْ أَهْدِمَهُ لَتَرَكْتُهُ عَلَى مَا بَنَى ابْنُ الزُّبَيْرِ.
ابوقزعہ سے روایت ہے کہ عبدالملک بن مروان طواف کر رہا تھا بیت اللہ کا کہنے لگا: اللہ تعالیٰ ہلاک کرے (سیدنا) ابن زبیر (رضی اللہ عنہ) کو وہ جھوٹ باندھتا تھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر اور کہتا تھا کہ میں نے ان سے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ اے عائشہ! اگر تمہاری قوم نے نیا نیا کفر نہ چھوڑا ہوتا تو میں کعبہ کو توڑا کر حجر کو (حطیم کو) زیادہ کرتا اس لیے کہ تمہاری قوم نے بنائے کعبہ کم کر دی۔“ سو حارث نے کہا کہ اے امیرالمؤمنین! ایسا نہ فرمائیے اس لیے کہ میں نے بھی ام المؤمنین سے سنا ہے وہ بھی یہی حدیث بیان فرماتی تھیں تو عبدالملک نے کہا کہ اگر کعبہ گرانے کے قبل میں یہ حدیث سنتا تو ابن زبیر رضی اللہ عنہ ہی کی بناء کو قائم رکھتا۔
حدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا أَبُو الْأَحْوَصِ ، حدثنا أَشْعَثُ بْنُ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْجَدْرِ أَمِنَ الْبَيْتِ هُوَ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قُلْتُ: فَلِمَ لَمْ يُدْخِلُوهُ فِي الْبَيْتِ؟ قَالَ: " إِنَّ قَوْمَكِ قَصَّرَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ "، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا؟ قَالَ: " فَعَلَ ذَلِكِ قَوْمُكِ لِيُدْخِلُوا مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوا مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَأَخَافُ أَنْ تُنْكِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ أَنْ أُدْخِلَ الْجَدْرَ فِي الْبَيْتِ وَأَنْ أُلْزِقَ بَابَهُ بِالْأَرْضِ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حطیم کی دیوار بیت اللہ میں داخل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ (اس سے بھی رد ہو گیا مذہب ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اور ناجائز ہوا طواف حطیم کے اندر سے اس لیے کہ وہ داخل بیت اللہ ہے) پھر میں نے عرض کی: اس کو بیت اللہ میں کیوں نہ داخل کیا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ یہ تمہاری قوم کی حرکت ہے کہ ان کے پاس خرچ کم ہو گیا۔“ پھر میں نے عرض کی کہ دروازہ اس کا کیوں اونچا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”یہ بھی تمہاری قوم کا کیا ہوا ہے تاکہ جس کو چاہیں اسے جانے دیں اور جس کو چاہیں نہ جانے دیں اور اگر تمہاری قوم نے نئی نئی جاہلیت نہ چھوڑی ہوتی اور مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ ان کے دل بدل جائیں گے تو میں ارادہ کرتا کہ داخل کر دوں دیواروں کو یعنی حطیم کی بیت اللہ میں اور دروازہ اس کا زمین کو لگا دیتا۔“
وحدثناهأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى ، حدثنا شَيْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ أَبِي الْأَحْوَصِ، وَقَالَ فِيهِ: فَقُلْتُ فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا لَا يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلَّا بِسُلَّمٍ، وَقَالَ: مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ.
کہا مسلم رحمہ اللہ نے روایت کی ہم سے یہی حدیث ابوبکر بن ابوشیبہ نے، ان سے عبیداللہ یعنی ابن موسیٰ نے، ان سے شیبان نے، ان سے اشعث نے، ان سے اسود نے، ان سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ انہوں نے کہا: پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے حجر کو اور بیان کی حدیث ابوالاحوص کی حدیث کے ہم معنی اور اس میں یوں ہے کہ کہا انہوں نے کہ دروازہ اس کا اتنا اونچا کیوں ہے کہ بغیر سیڑھی کے اس پر نہیں جا سکتے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں یوں ہے کہ میں ڈرتا ہوں کہ ان کے دل نفرت نہ کر جائیں۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ الْفَضْلُ بْنُ عَبَّاسٍ رَدِيفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ خَثْعَمَ تَسْتَفْتِيهِ، فَجَعَلَ الْفَضْلُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، وَتَنْظُرُ إِلَيْهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْرِفُ وَجْهَ الْفَضْلِ إِلَى الشِّقِّ الْآخَرِ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ فَرِيضَةَ اللَّهِ عَلَى عِبَادِهِ فِي الْحَجِّ أَدْرَكَتْ أَبِي شَيْخًا كَبِيرًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَثْبُتَ عَلَى الرَّاحِلَةِ، أَفَأَحُجُّ عَنْهُ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، وَذَلِكَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ فضل بن عباس رضی اللہ عنہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار تھے پیچھے، سو ایک عورت آئی خثعم قبیلہ کی اور وہ پوچھنے لگی اور فضل رضی اللہ عنہ اس کی طرف دیکھنے لگے اور وہ فضل کو دیکھنے لگی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کا منہ دوسری طرف پھیر دیتے تھے، غرض اس عورت نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! اللہ نے جو اپنے بندوں پر حج فرض کیا وہ میرے باپ پر بھی ہوا اور وہ بوڑھے ہیں کہ سواری پر سوار نہیں ہو سکتے کیا میں اس کی طرف سے حج کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہاں۔“ اور یہ ذکر حجتہ الوداع کا ہے۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ الْفَضْلِ : أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمَ، قَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ عَلَيْهِ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ وَهُوَ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى ظَهْرِ بَعِيرِهِ، فقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَحُجِّي عَنْهُ ".
فضل سے روایت ہے کہ ایک عورت قبیلہ خثعم کی اس نے کہا: یا رسول اللہ! میرا باپ بوڑھا ہے اور اس پر حج اللہ تعالیٰ کا فرض کیا ہوا ہے اور وہ سواری کی پیٹھ پر بخوبی نہیں بیٹھ سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم اس کی طرف سے حج کرو۔“
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقِيَ رَكْبًا بِالرَّوْحَاءِ، فقَالَ: " مَنِ الْقَوْمُ؟ "، قَالُوا: الْمُسْلِمُونَ، فقَالُوا: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: " رَسُولُ اللَّهِ "، فَرَفَعَتْ إِلَيْهِ امْرَأَةٌ صَبِيًّا، فقَالَت أَلِهَذَا حَجٌّ؟، قَالَ: " نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ اونٹوں کے سوار لوگ ملے روحاء میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ”تم کون لوگ ہو؟۔“ انہوں نے کہا کہ مسلمان۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان لوگوں نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ پاک کا رسول ہوں۔“ تو ایک عورت نے ایک لڑکے کو ہاتھوں سے بلند کیا اور عرض کیا کہ کیا اس کا حج صحیح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ہاں صحیح ہے اور ثواب اس کا تم کو ہے۔“ (یعنی ماں باپ کو)۔
حدثنا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: رَفَعَتِ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَهَا، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک عورت نے بچے کو اٹھایا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! کیا اس کا حج ہو جائے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اور تیرے لیے اس کا اجر بھی۔“
وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ : أَنَّ امْرَأَةً رَفَعَتْ صَبِيًّا، فقَالَت: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِهَذَا حَجٌّ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ "،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، بِمِثْلِهِ.
مزکورہ بالاحدیث اس سند سے بھی آئی ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا الرَّبِيعُ بْنُ مُسْلِمٍ الْقُرَشِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ فَرَضَ اللَّهُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا "، فقَالَ رَجُلٌ: أَكُلَّ عَامٍ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، فَسَكَتَ حَتَّى قَالَهَا ثَلَاثًا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ وَلَمَا اسْتَطَعْتُمْ، ثُمَّ قَالَ: ذَرُونِي مَا تَرَكْتُكُمْ، فَإِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِكَثْرَةِ سُؤَالِهِمْ وَاخْتِلَافِهِمْ عَلَى أَنْبِيَائِهِمْ، فَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَيْءٍ فَأْتُوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ، وَإِذَا نَهَيْتُكُمْ عَنْ شَيْءٍ فَدَعُوهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خطبہ پڑھا ہم پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور فرمایا: ”کہ اے لوگو! تم پر حج فرض ہوا ہے سو حج کرو۔“ ایک شخص نے کہا کہ ہر سال یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم چپ ہو رہے اس نے تین بار یہی عرض کیا۔ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوتا اور پھر تم سے نہ ہو سکتا سو تم مجھے اتنی ہی بات پر چھوڑ دو کہ جس پر میں تمہیں چھوڑ دوں اس لیے کہ اگلے لوگ اسی سبب سے ہلاک ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنے انبیا علیہم السلام سے بہت سوال کیے اور ان سے بہت اختلاف کرتے رہے پھر جب میں تم کو کسی بات کا حکم دوں اس میں سے جتنا ہو سکے بجا لاؤ اور جب کسی بات سے منع کروں اس کو چھوڑ دو“۔
حدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حدثنا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلَاثًا، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ "،
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عورت سفر نہ کرے تین دن کا جب کہ اس کے ساتھ کوئی محرم نہ ہو۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، جَمِيعًا عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، فِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ: فَوْقَ ثَلَاثٍ، وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: عَنْ أَبِيهِ: ثَلَاثَةً إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ.
عبیداللہ سے اسی سند سے ابوبکر کی روایت میں یہ ہے کہ تین دن سے زیادہ اور ابن نمیر کی روایت میں ان کے باپ سے کہ ”تین دن مگر اس کے ساتھ کوئی ذومحرم ہو“۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حلال نہیں کسی عورت کو جو ایمان رکھتی ہو اللہ پر اور پچھلے دن پر کہ سفر کرے تین رات کا مگر اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔“
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، جميعا عَنْ جَرِيرٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ : حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ وَهُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ ، عَنْ قَزَعَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِيثًا فَأَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَأَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ أَسْمَعْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَشُدُّوا الرِّحَالَ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَالْمَسْجِدِ الْأَقْصَى "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ يَوْمَيْنِ مِنَ الدَّهْرِ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا أَوْ زَوْجُهَا "،
قزعہ نے کہا میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث سنی جو مجھے بہت پسند آئی اور میں نے ان سے کہا: آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جو میں نے ان سے نہ سنی ہوتی تو کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرتا ایسی بات جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی؟ اب سنو کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ باندھو تم کجاووں کو (یعنی سفر نہ کرو) مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد اور دوسری المسجد الحرام اور تیسری مسجد اقصیٰ۔“ (یعنی بیت المقدس کی) اور سنا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے کہ ”کوئی عورت سفر نہ کرے دو دن کا زمانہ میں سے مگر اس کے ساتھ ذومحرم ہو یا اس کا شوہر ہو۔“
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَزَعَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْبَعًا، فَأَعْجَبْنَنِي وَآنَقْنَنِي: نَهَى أَنْ تُسَافِرَ الْمَرْأَةُ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ، إِلَّا وَمَعَهَا زَوْجُهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ، وَاقْتَصَّ بَاقِيَ الْحَدِيثِ.
قزعہ نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا کہ انہوں نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار باتوں کو، سو مجھے پسند آئیں اور اچھی معلوم ہوئیں۔ منع کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہ سفر کرے عورت دو دن کا مگر جب اس کے ساتھ اس کا شوہر ہو یا ناتے والا اور بیان کی باقی حدیث۔
حدثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَهْمِ بْنِ مِنْجَابٍ ، عَنْ قَزَعَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ ثَلَاثًا، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ".
مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، جميعا عَنْ مُعَاذِ بْنِ هِشَامٍ ، قَالَ أَبُو غَسَّانَ : حدثنا مُعَاذٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ قَزَعَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تُسَافِرِ امْرَأَةٌ فَوْقَ ثَلَاثِ لَيَالٍ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ تین دن سے زیادہ کوئی عورت سفر نہ کرے سوائے محرم کے ساتھ۔“
وحدثناه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثٍ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ مُسْلِمَةٍ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ لَيْلَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا رَجُلٌ ذُو حُرْمَةٍ مِنْهَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ کسی مسلمان عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک رات کی مسافت طے کرے سوائے اس کے کہ اس کا کوئی محرم ساتھ ہو۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، حدثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ”کوئی بھی عورت جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اس کے لیے ایک دن کی مسافت طے کرنا جائز نہیں سوائے اپنے محرم کے ساتھ۔“
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ تُسَافِرُ مَسِيرَةَ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ عَلَيْهَا ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حدثنا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ ، حدثنا سُهَيْلُ بْنُ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ أَنْ تُسَافِرَ ثَلَاثًا، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا ".
مضمون وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ : حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ تُسَافِرَ سَفَرًا يَكُونُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَصَاعِدًا، إِلَّا وَمَعَهَا أَبُوهَا، أَوِ ابْنُهَا، أَوْ زَوْجُهَا، أَوْ أَخُوهَا، أَوْ ذُو مَحْرَمٍ مِنْهَا "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”حلال نہیں اس عورت کو جو االلہ تعالیٰ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتی ہو کہ تین دن کا سفر کرے یا زیادہ مگر جب اس کے ساتھ اس کا باپ ہو یا فرزند یا شوہر یا بھائی یا اور کوئی ناتہ دار کہ جس سے پردہ نہ ہو۔“
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَا: حدثنا وَكِيعٌ ، حدثنا الْأَعْمَشُ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ كِلَاهُمَا عَنْ سُفْيَانَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ : حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حدثنا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَقُولُ: " لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ، وَلَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ، إِلَّا مَعَ ذِي مَحْرَمٍ "، فَقَامَ رَجُلٌ، فقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي خَرَجَتْ حَاجَّةً، وَإِنِّي اكْتُتِبْتُ فِي غَزْوَةِ كَذَا وَكَذَا، قَالَ: " انْطَلِقْ، فَحُجَّ مَعَ امْرَأَتِكَ "،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا: ”کوئی مرد کسی عورت سے ساتھ اکیلا نہ ہو اور نہ عورت سفر کرے مگر ناتے والے کے ساتھ۔“ سو ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری عورت تو حج کو جاتی ہے اور میں فلاں لشکر میں لکھا گیا ہوں جو فلاں طرف جانا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تو جا اور اپنی عورت کے ساتھ حج کر۔“
وحدثناه أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حدثنا حَمَّادٌ ، عَنْ عَمْرٍو، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وَحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا هِشَامٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ الْمَخْزُومِيُّ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ، إِلَّا وَمَعَهَا ذُو مَحْرَمٍ.
چند الفاظ کے فرق سے اس سند سے یہی حدیث مروی ہے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَلِيًّا الْأَزْدِيَّ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ ابْنَ عُمَرَ ، عَلَّمَهُمْ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَوَى عَلَى بَعِيرِهِ خَارِجًا إِلَى سَفَرٍ كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: " سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا، وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُون، اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِي سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى، وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى، اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا، وَاطْوِ عَنْا بُعْدَهُ، اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِي السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِي الْأَهْلِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ، وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ، وَإِذَا رَجَعَ، قَالَ: " هُنَّ وَزَادَ فِيهِنَّ آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار ہوتے کہیں سفر میں جانے کو تو تین بار «الله اكبر» فرماتے پھر یہ دعا پڑھتے«سُبْحَانَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ فِى سَفَرِنَا هَذَا الْبِرَّ وَالتَّقْوَى وَمِنَ الْعَمَلِ مَا تَرْضَى اللَّهُمَّ هَوِّنْ عَلَيْنَا سَفَرَنَا هَذَا وَاطْوِ عَنَّا بُعْدَهُ اللَّهُمَّ أَنْتَ الصَّاحِبُ فِى السَّفَرِ وَالْخَلِيفَةُ فِى الأَهْلِ اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ وَكَآبَةِ الْمَنْظَرِ وَسُوءِ الْمُنْقَلَبِ فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» یعنی ”پاک ہے پروردگار جس نے ہمارا دبیل کر دیا اس جانور کو اور ہم اس کو دبا نہ سکتے تھے اور ہم اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جانے والے ہیں، یااللہ! ہم مانگتے ہیں تجھ سے اپنے اس سفر میں نیکی اور پرہیزگاری اور ایسے کام جسے تو پسند کرے، یااللہ! آسان کر دے ہم پر اس سفر کو اور اس لمبان کو ہم پر تھوڑا کر دے، یا اللہ! تو رفیق ہے سفر میں اور تو خلیفہ ہے گھر میں، یا اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تجھ سے سفر کی تکلیفوں اور رنج و غم سے اور برے حال میں لوٹ کر آنے سے مال میں اور گھر والوں میں۔“ (یہ تو جاتے وقت پڑھتے) اور جب لوٹ کر آتے جب بھی (یہی دعا پڑھتے)، مگر اس میں اتنا زیادہ کرتے «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» یعنی ”ہم لوٹنے والے ہیں اور توبہ کرنے والے، خاص اپنے رب کو پوجنے والے او اسی کی تعریف کرنے والے۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا سَافَرَ يَتَعَوَّذُ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ، وَكَآبَةِ الْمُنْقَلَبِ، وَالْحَوْرِ بَعْدَ الْكَوْنِ، وَدَعْوَةِ الْمَظْلُومِ، وَسُوءِ الْمَنْظَرِ فِي الْأَهْلِ وَالْمَالِ "،
سیدنا عبداللہ بن سرجس رضی اللہ عنہ نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تو اللہ تعالٰی سے پناہ مانگتے سفر کی مشقتوں سے اور غمگین ہو کر لوٹنے سے اور بھلائی کے بعد برائی کی طرف لوٹنے سے اور اہل و عیال میں برائی کے دیکھنے سے۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ . ح وحَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، حدثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، كِلَاهُمَا عَنْ عَاصِمٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ عَبْدِ الْوَاحِدِ: فِي الْمَالِ وَالْأَهْلِ، وَفِي رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ خَازِمٍ، قَالَ: يَبْدَأُ بِالْأَهْلِ إِذَا رَجَعَ، وَفِي رِوَايَتِهِمَا جَمِيعًا: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ.
عاصم سے اسی اسناد سے وہی دعا مذکور ہوئی۔ مگر عبدالواحد کی روایت میں «فِى الْمَالِ وَالأَهْلِ» ہے اور محمد بن حازم کی روایت میں یہ ہے کہ اہل کا لفظ پہلے بولتے جب لوٹتے اور دونوں کی روایتوں میں یہ لفظ ہے «اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِكَ مِنْ وَعْثَاءِ السَّفَرِ» سے آخرت تک یعنی ”یااللہ! پناہ مانگتا ہوں سفر کی مشقتوں سے۔“
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ . ح وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حدثنا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنَ الْجُيُوشِ، أَوِ السَّرَايَا، أَوِ الْحَجِّ، أَوِ الْعُمْرَةِ، إِذَا أَوْفَى عَلَى ثَنِيَّةٍ، أَوْ فَدْفَدٍ، كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ، سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ "،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب لوٹتے لشکروں سے یا چھوٹی جماعت سے لشکر کی یا حج و عمرہ سے تو جب پہنچ جاتے کسی ٹیلہ پر، یا اونچی زمین کنکریلی پر، تو تین بار اللہ اکبر کہتے تھے پھر «لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَاجِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الأَحْزَابَ وَحْدَهُ» پڑھتے یعنی ”کوئی لائق عبادت کے نہیں ہے سوا اللہ تعالیٰ کے اور کوئی شریک نہیں اس کا، اسی کی ہے سلطنت اور اسی کے لیے ہے سب تعریف اور وہ سب کچھ کر سکتا ہے ہم لوٹنے والے، رجوع ہونے والے، عبادت کرنے والے ہیں، سجدہ کرنے والے، اپنے رب کی خاص حمد کرنے والے ہیں، سچا کیا اللہ پاک نے وعدہ اپنا اور مدد کی اپنے غلام کی اور شکست دی لشکروں کو اسی اکیلے نے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ . ح وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا معنَ ، عَنْ مَالِكٍ . ح وحدثنا ابْنُ رَافِعٍ ، حدثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنَا الضَّحَّاكُ ، كُلُّهُمْ عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ إِلَّا حَدِيثَ أَيُّوبَ، فَإِنَّ فِيهِ التَّكْبِيرَ مَرَّتَيْنِ.
وہی مضمون نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے مگر ایوب کی روایت میں تکبیر دو بار مذکور ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: قَالَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : أَقْبَلْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا، وَأَبُو طَلْحَةَ، وَصَفِيَّةُ رَدِيفَتُهُ عَلَى نَاقَتِهِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِظَهْرِ الْمَدِينَةِ، قَالَ: " آيِبُونَ، تَائِبُونَ، عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ "، فَلَمْ يَزَلْ يَقُولُ ذَلِكَ حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر آپ کے پیچھے سوار تھیں یہاں تک کہ ہم مدینہ کے پشت پر پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے ” «آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ» غرض مدینہ تک یہی کہتے چلے آئے۔
وحدثنا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، حدثنا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَصَلَّى بِهَا "، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھایا کنکریلی زمین میں ذی الحلیفہ کی اور وہاں نماز ادا کی۔ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ الْمِصْرِيُّ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحدثنا قُتَيْبَةُ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ " يُنِيخُ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنِيخُ بِهَا، وَيُصَلِّي بِهَا ".
نافع نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بطحائے ذی الحلیفہ میں اپنا اونٹ بٹھاتے اور نماز پڑھتے اور فرماتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسا ہی کیا ہے اور نماز پڑھی ہے۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ الْمُسَيَّبِيُّ ، حَدَّثَنِي أَنَسٌ يَعْنِي أَبَا ضَمْرَةَ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ ، عَنْ نَافِعٍ : أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ " كَانَ إِذَا صَدَرَ مِنَ الْحَجِّ أَوِ الْعُمْرَةِ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ الَّتِي كَانَ يُنِيخُ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
نافع نے کہا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ جب حج یا عمرہ سے لوٹتے تو بطحائے ذی الحلیفہ میں اونٹ بٹھاتے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بٹھاتے تھے۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، حدثنا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ مُوسَى وَهُوَ ابْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ فِي مُعَرَّسِهِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ ".
سالم نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں ذوالحلیفہ میں اترے ہوئے تھے کہ آپ سے کہا گیا کہ ”تم مبارک میدان میں ہو۔“
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ ، وَسُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، وَاللَّفْظُ لِسُرَيْجٍ، قَالَا: حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ أَخْبَرَنِي مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ وَهُوَ فِي مُعَرَّسِهِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ فِي بَطْنِ الْوَادِي، فَقِيلَ: إِنَّكَ بِبَطْحَاءَ مُبَارَكَةٍ "، قَالَ مُوسَى: وَقَدْ أَنَاخَ بِنَا سَالِمٌ بِالْمُنَاخِ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يُنِيخُ بِهِ يَتَحَرَّى مُعَرَّسَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ أَسْفَلُ مِنَ الْمَسْجِدِ الَّذِي بِبَطْنِ الْوَادِي، بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ وَسَطًا مِنْ ذَلِكَ.
سالم نے اپنے باپ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی فرشتہ آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخر شب میں ذی الحلیفہ میں اترے ہوئے تھے میدان میں۔ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے کہا کہ آپ مبارک میدان میں ہیں۔ اور موسیٰ راوی نے کہا کہ ہمارے ساتھ سالم بن عبداللہ نے اونٹ بٹھائے اس جگہ میں جہاں عبداللہ بٹھا دیتے تھے اور اس کو جانتے اور خیال کرتے تھے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے اترنے کی جگہ ہے اور وہ اس مسجد سے نیچے ہے جو بطن وادی میں بنی ہوئی تھی اور مسجد اور قبلہ کے بیچ میں وہ مقام واقع ہوا ہے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ ، أَخْبَرَهُ، عَنْحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَعَثَنِي أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ فِي الْحَجَّةِ الَّتِي أَمَّرَهُ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فِي رَهْطٍ يُؤَذِّنُونَ فِي النَّاسِ يَوْمَ النَّحْرِ: " لَا يَحُجُّ بَعْدَ الْعَامِ مُشْرِكٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ "، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، يَقُولُ: يَوْمُ النَّحْرِ، يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ مِنْ أَجْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس حج میں روانہ فرمایا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امیر کیا حجتہ الوداع کے قبل اور مجھے روانہ کیا اس جماعت میں کہ جو پکارتے تھے نحر کے دن کہ اس سال کے بعد اب کوئی مشرک حج کو نہ آئے اور نہ کوئی بیت اللہ کا ننگا ہو کر طواف کرے۔(جیسے مشرک لوگ ایام جاہلیت میں کرتے تھے) ابن شہاب زہری نے کہا کہ عبدالرحمٰن کے فرزند حمید یہی کہتے تھے کہ حج اکبر کا دن وہی نحر کا دن ہے۔ اسی ابوہریرہ کی حدیث کے سبب سے۔
حدثنا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالا: حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَخْرَمَةُ بْنُ بُكَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ بْنَ يُوسُفَ ، يَقُولُ: عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: قَالَت عَائِشَةُ : إِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ يَوْمٍ أَكْثَرَ مِنْ أَنْ يُعْتِقَ اللَّهُ فِيهِ عَبْدًا مِنَ النَّارِ مِنْ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَإِنَّهُ لَيَدْنُو، ثُمَّ يُبَاهِي بِهِمُ الْمَلَائِكَةَ، فَيَقُولُ: مَا أَرَادَ هَؤُلَاءِ ".
سعید بن مسیّب رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عرفہ سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں ہے جس میں اللہ تعالیٰ بندوں کو آگ سے اتنا آزاد کرتا ہو جتنا عرفہ کے دن آزاد کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ قریب ہوتا ہے اور فرشتوں پر بندوں کا حال دیکھ کر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ کس ارادہ سے جمع ہوئے ہیں؟۔“
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ سے دوسرا عمرہ کفارہ ہو جاتا ہے بیچ کے گناہوں کا اور حج مقبول کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔“
وحدثناه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالوا: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الْأُمَوِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، عَنْ سُهَيْلٍ . ح وَحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ . ح وَحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حدثنا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، جَمِيعًا عَنْ سُفْيَانَ ، كُلُّ هَؤُلَاءِ عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ مَالِكٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ زُهَيْرٌ: حدثنا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَتَى هَذَا الْبَيْتَ، فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ رَجَعَ كَمَا وَلَدَتْهُ أُمُّهُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو اس گھر میں آیا اور بےہودہ شہوت رانی کی باتیں نہ کیں، نہ گناہ کیا، وہ ایسا پھرا کہ گویا اسے ماں نے ابھی جنا۔“ (یعنی گناہوں سے پاک ہو گیا)۔
وَحدثناه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، وَأَبِي الْأَحْوَصِ . ح وَحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ مِسْعَرٍ ، وَسُفْيَانَ . ح وَحدثنا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حدثنا شُعْبَةُ ، كُلُّ هَؤُلَاءِ، عَنْ مَنْصُورٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَفِي حَدِيثِهِمْ جَمِيعًا مَنْ حَجَّ، فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا هُشَيْمٌ ، عَنْ سَيَّارٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی حدیث اس سند سے روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ : أَنَّ عَلِيَّ بْنَ حُسَيْنٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عَمْرَو بْنَ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، أَخْبَرَهُ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَنْزِلُ فِي دَارِكَ بِمَكَّةَ، فقَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ رِبَاعٍ أَوْ دُورٍ "، وَكَانَ عَقِيلٌ وَرِثَ أَبَا طَالِبٍ هُوَ وَطَالِبٌ، وَلَمْ يَرِثْهُ جَعْفَرٌ، وَلَا عَلِيٌّ شَيْئًا، لِأَنَّهُمَا كَانَا مُسْلِمَيْنِ، وَكَانَ عَقِيلٌ، وَطَالِبٌ كَافِرَيْنِ.
سیدنا اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ مکہ میں اپنے گھر میں اتریں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بھلا عقیل نے ہمارے لیے کوئی چار دیواری یا مکان چھوڑا ہے۔“ اور حقیقت اس کی یہ تھی کہ عقیل اور طالب وارث ہوئے ابوطالب کے اور جعفر اور علی کو ان کی وراثت میں سے کچھ نہ ملا، اس لیے کہ یہ دونوں مسلمان تھے اور عقیل اور طالب دونوں کافر تھے۔
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، قَالَ ابْنُ مِهْرَانَ: حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا؟ وَذَلِكَ فِي حَجَّتِهِ حِينَ دَنَوْنَا مِنْ مَكَّةَ فقَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مَنْزِلًا ".
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کل آپ کہاں اتریں گے؟ اور یہ بات حج کے دنوں کی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں۔“
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ ، وَزَمْعَةُ بْنُ صَالِح ، قَالَا: حدثنا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيْنَ تَنْزِلُ غَدًا إِنْ شَاءَ اللَّهُ؟ وَذَلِكَ زَمَنَ الْفَتْح، قَالَ: " وَهَلْ تَرَكَ لَنَا عَقِيلٌ مِنْ مَنْزِلٍ ".
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کل اللہ نے چاہا اور ہم پہنچ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں اتریں گے اور یہ بات فتح مکہ کے دنوں میں کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”عقیل نے ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا ہی نہیں۔“
حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَسْأَلُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، يَقُولُ: هَلْ سَمِعْتَ فِي الْإِقَامَةِ بِمَكَّةَ شَيْئًا؟ فقَالَ السَّائِبُ : سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لِلْمُهَاجِرِ إِقَامَةُ ثَلَاثٍ بَعْدَ الصَّدَرِ بِمَكَّةَ "، كَأَنَّهُ يَقُولُ: لَا يَزِيدُ عَلَيْهَا.
عمر بن عبدالعزیز سائب بن یزید سے پوچھتے تھے کہ تم نے مکہ میں رہنے کے باب میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں نے علاء بن حضرمی سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: کہ ”مہاجر کو اجازت ہے حج کے بعد لوٹنے کے پیچھے تین روز تک مکہ میں رہنے کی۔“ مراد یہ تھی کہ اس سے زیادہ نہ رہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَقُولُ لِجُلَسَائِهِ: مَا سَمِعْتُمْ فِي سُكْنَى مَكَّةَ؟ فقَالَ: السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ : سَمِعْتُ الْعَلَاءَ، أَوَ قَالَ: الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُقِيمُ الْمُهَاجِرُ بِمَكَّةَ بَعْدَ قَضَاءِ نُسُكِهِ ثَلَاثًا ".
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہاجر مناسک حج کی ادائیگی کے بعد مکہ میں تین دن قیام کر سکتا ہے۔
وحدثنا حَسَنٌ الْحُلْوَانِيُّ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، جَمِيعًا عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ صَالِح ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ يَسْأَلُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، فقَالَ السَّائِبُ : سَمِعْتُ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " ثَلَاثُ لَيَالٍ يَمْكُثُهُنَّ الْمُهَاجِرُ بِمَكَّةَ بَعْدَ الصَّدَرِ ".
اسی طرح کی حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ وَأَمْلَاهُ عَلَيْنَا إِمْلَاءً، أَخْبَرَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ : أَنَّ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ الْعَلَاءَ بْنَ الْحَضْرَمِيِّ ، أَخْبَرَهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَكْثُ الْمُهَاجِرِ بِمَكَّةَ بَعْدَ قَضَاءِ نُسُكِهِ ثَلَاثٌ "،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حدثنا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث آتی ہے۔
حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: " لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، فقَالَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "،
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس دن مکہ فتح ہوا کہ ”آج سے مکہ کی ہجرت نہیں رہی مگر جہاد اور نیت باقی ہے اور تم کو حکام جہاد کے لئے بلائیں تو نکلو اور چلو۔“ اور فرمایا: ”کہ یہ شہر ایسا کہ بے شک اللہ تعالیٰ نے اس کو ادب کی جگہ قرار دیا ہے جس دن سے آسمان و زمین بنایا ہے غرض وہ اللہ کے مقرر کرنے سے حکمت و ادب کی جگہ ٹھہرایا گیا ہے، قیامت تک اور کسی کو اس میں قتال روا نہیں ہوا مجھ سے پیشتر اور مجھے بھی ایک دن کی صرف ایک گھڑی اجازت ہوئی تھی (یعنی لڑائی کی) اور وہ پھر ویسا ہی حرام ہو گیا، اللہ تعالیٰ کے حرام کرنے سے قیامت تک کہ نہ اس کا کانٹا اکھاڑا جائے اور نہ اس کا شکار بھگایا جائے اور نہ اس کی گری پڑی چیز اٹھائی جائے مگر وہ اٹھائے جو اس کو پہنچوائے (کہ جس کی ہو اس کو دے دے) اور نہ اس کی ہری گھاس اکھاڑی جائے۔“ سو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ! مگر اذخر (یعنی اس کی اجازت دیجئیے) کہ وہ سناروں، لوہاروں کے کام آتی ہے اور اس سے گھر چھائے جاتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مگر اذخر۔“ یعنی اس کے توڑنے کی اجازت ہے۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حدثنا مُفَضَّلٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَقَالَ بَدَلَ الْقِتَالِ: الْقَتْلَ، وَقَالَ: لَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ، إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا.
چند الفاظ کے فرق سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ، وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا، قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي، وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ، أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ "، فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ بِذَلِكَ مِنْكَ يَا أَبَا شُرَيْح، إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا، وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ.
سیدنا ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ نے عمرو بن سعید سے کہا کہ جس وقت وہ لشکروں کو روانہ کرتا تھا مکہ کے اوپر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے قتل کو کہ اجازت دو مجھے اے امیر کہ میں ایک حدیث بیان کروں کہ جو خطبہ کے طور سے کھڑے ہو کر فرمائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے دن مکہ کی فتح کے اور میرے کانوں نے سنی اور دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بیان فرمائی، پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: ”مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے اور لوگوں نے حرام نہیں کیا سو کسی شخص کو روا نہیں جو اللہ پر اور پچھلے دن پر ایمان رکھتا ہو کہ اس میں کسی کا خون بہائے اور نہ یہ حلال ہے کہ اس میں درخت کاٹے پھر اگر میرے قتال کی سند سے قتال کی اجازت کوئی شخص نکالے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اجازت دی اس اور تم کو اجازت نہیں دی اور مجھے بھی دن میں ایک گھڑی کے لئے اجازت دی۔ اور پھر اس کی حرمت آج ویسے ہی لوٹ آئی جیسے کل تھی۔ اور ضروری ہے کہ جو حاضر ہو غائبوں کو یہ حدیث پہنچا دے۔“ لوگوں نے ابوشریح سے کہا پھر عمرو نے آپ کو کیا جواب دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ اس نے کہا کہ اے ابوشریح! میں اسے تم سے زیادہ جانتا ہوں (ھائے ظالم) حرم پناہ نہیں دیتا نافرمان کو (یہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو کہا۔ معاذ اللہ من ذلک) اور نہ اس کو جو خون کر کے بھاگا ہو اور نہ اس کو جو چوری اور فساد کر کے بھاگا ہو۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، جميعا عَنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حدثنا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حدثنا الْأَوْزَاعِيُّ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، قَامَ فِي النَّاسِ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ كَانَ قَبْلِي، وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَإِنَّهَا لَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، فَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا، وَلَا يُخْتَلَى شَوْكُهَا، وَلَا تَحِلُّ سَاقِطَتُهَا إِلَّا لِمُنْشِدٍ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُفْدَى، وَإِمَّا أَنْ يُقْتَلَ "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: إِلَّا الْإِذْخِرَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي قُبُورِنَا وَبُيُوتِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "، فَقَامَ أَبُو شَاهٍ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فقَالَ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، قَالَ الْوَلِيدُ: فَقُلْتُ لِلْأَوْزَاعِيِّ: مَا قَوْلُهُ: اكْتُبُوا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: هَذِهِ الْخُطْبَةَ الَّتِي سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب اللہ تعالیٰ نے مکہ کی فتح دی اپنے رسول کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں کھڑے ہو کر اللہ کی حمد و ثناء کی پھر فرمایا: ”اللہ پاک نے اصحاب فیل کو مکہ سے روک دیا اور اپنے رسول کو مؤمنوں کو اس کا حاکم فرمایا اور اس میں لڑنا کسی کو حلال نہیں ہوا مجھ سے پہلے اور مجھے بھی ایک گھڑی کی اجازت ملی دن سے اور اب کبھی حلال نہ ہو گا میرے بعد کسی کو، پھر اس کا شکار بھگایا نہ جائے، اس کا کانٹا توڑا نہ جائے، اس کی گری پڑی چیز اٹھائی نہ جائے مگر وہ شخص اٹھائے جو بتاتا پھرے کہ جس کی ہو اسے دے دے اور جس کا کوئی شخص مارا گیا اس کو دو باتوں کا اختیار ہے، خواہ فدیہ لے لے یعنی خون بہا لے خواہ قاتل کو قصاص میں مروا ڈالے۔“ سو سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ مگر اذخر یا رسول اللہ! کہ ہم اس کو اپنی قبروں میں ڈالتے ہیں اور گھروں کو اس سے چھاتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”کہ خیر اذخر توڑ لو۔“ (گھاس کو اذخر کہا) پھر ابوشاہ ایک شخص یمن کا اٹھا اور اس نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! یہ مجھے لکھ دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”لکھ دو ابوشاہ کو۔“ ولید نے کہا کہ میں نے اوزاعی سے پوچھا کہ اس کا کیا مطلب؟ یا رسول اللہ! یہ مجھے لکھ دو۔ انہوں نے کہا یہی خطبہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (یعنی اس کو ابوشاہ نے لکھوا لیا کہ بڑے نفع کی بات تھی)۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: إِنَّ خُزَاعَةَ قَتَلُوا رَجُلًا مِنْ بَنِي لَيْثٍ عَامَ فَتْحِ مَكَّةَ بِقَتِيلٍ مِنْهُمْ قَتَلُوهُ، فَأُخْبِرَ بِذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَخَطَبَ، فقَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ حَبَسَ عَنْ مَكَّةَ الْفِيلَ، وَسَلَّطَ عَلَيْهَا رَسُولَهُ وَالْمُؤْمِنِينَ، أَلَا وَإِنَّهَا لَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَنْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ بَعْدِي، أَلَا وَإِنَّهَا أُحِلَّتْ لِي سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، أَلَا وَإِنَّهَا سَاعَتِي هَذِهِ حَرَامٌ، لَا يُخْبَطُ شَوْكُهَا، وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا، وَلَا يَلْتَقِطُ سَاقِطَتَهَا، إِلَّا مُنْشِدٌ، وَمَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ، فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ، إِمَّا أَنْ يُعْطَى، يَعْنِي الدِّيَةَ، وَإِمَّا أَنْ يُقَادَ أَهْلُ الْقَتِيلِ "، قَالَ: فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، يُقَالَ لَهُ: أَبُو شَاهٍ، فقَالَ: اكْتُبْ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فقَالَ: " اكْتُبُوا لِأَبِي شَاهٍ "، فقَالَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ: إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّا نَجْعَلُهُ فِي بُيُوتِنَا وَقُبُورِنَا، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ خزاعہ والوں نے ایک شخص کو مار ڈالا قبیلہ بنی لیث سے جس سال مکہ فتح ہوا اپنے ایک مقتول کے بدلے جس کو بنی لیث نے مار ڈالا تھا اور اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور خطبہ پڑھا اور فرمایا: ”اللہ تعالٰی نے مکہ سے اصحاب فیل کو روکا اور اپنے رسول اور مؤمنوں کو اس پر حاکم کیا اور وہ مجھ سے پہلے کسی کو حلال نہیں ہوا تھا اور نہ میرے بعد کسی کو حلال ہو گا اور میرے لئے بھی ایک گھڑی کے لئے حلال ہوا تھا اور اب اس گھڑی میں پھر ویسا ہی مجھ پر حرام ہو گیا (یعنی جیسے پہلے تھا) سو اس کا کانٹا نہ اکھاڑا جائے اور درخت نہ کاٹا جائے اور پڑی چیز نہ اٹھائی جائے مگر بتانے والا اٹھائے اور جس کا کوئی شخص مارا جائے اس کو دو چیزوں کا اختیار ہے خواہ دیت لے لے خواہ قصاص لے لے۔“ پھر ایک شخص یمن کا آیا کہ اسے ابوشاہ کہتے تھے اور اس نے کہا کہ مجھے لکھ دیجئیے یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا: ”کہ اسے لکھ دو۔“ پھر ایک شخص نے قریش میں سے کہا کہ مگر اذخر کو کہ وہ ہمارے گھروں اور قبروں میں کام آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ خیر مگر اذخر۔“
حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، حدثنا ابْنُ أَعْيَنَ ، حدثنا مَعْقِلٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحِلُّ لِأَحَدِكُمْ أَنْ يَحْمِلَ بِمَكَّةَ السِّلَاحَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے: ”حلال نہیں کسی کو مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔“
حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعَنْبِيُّ ، وَيَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَمَّا الْقَعَنْبِيُّ، فقَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، وَأَمَّا قُتَيْبَةُ، فقَالَ حدثنا مَالِكٌ، وقَالَ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ، قُلْتُ لِمَالِكٍ: أَحَدَّثَكَ ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ مَكَّةَ عَامَ الْفَتْحِ وَعَلَى رَأْسِهِ مِغْفَرٌ، فَلَمَّا نَزَعَهُ جَاءَهُ رَجُلٌ، فقَالَ: ابْنُ خَطَلٍ مُتَعَلِّقٌ بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، فقَالَ: اقْتُلُوهُ "، فقَالَ مَالِكٌ: نَعَمْ.
یحییٰ نے یہ لفظ بیان کئیے کہ میں نے مالک سے پوچھا کہ ابن شہاب نے انس سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا، جس سال مکہ فتح ہوا، پھر جب خود اتارا ایک شخص نے آ کر کہا کہ ابن خطل کعبہ کے پردوں میں لٹکا ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو مار ڈالو۔ مالک کہ ہاں مجھ سے روایت بیان کی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ الثَّقَفِيّ ، وقَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ قُتَيْبَةُ: حدثنا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمَّارٍ الدُّهْنِيُّ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيِّ ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ مَكَّةَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ: دَخَلَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ بِغَيْرِ إِحْرَامٍ "، وَفِي رِوَايَةِ قُتَيْبَةَ، قَالَ: حدثنا أَبُو الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ.
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ تھا بغیر احرام کے اور آگے کی روایت میں ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم داخل ہوئے فتح مکہ کے دن اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ تھا۔
حدثنا عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ الْأَوْدِيُّ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَمَّارٍ الدُّهْنِيِّ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَإِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَطَبَ النَّاسَ وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ ".
عمرو بن حریث سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ پڑھا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم پر سیاہ عمامہ تھا۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَالْحَسَنُ الْحُلْوَانِيُّ ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ مُسَاوِرٍ الْوَرَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي، وَفِي رِوَايَةِ الْحُلْوَانِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ جَعْفَرَ بْنَ عَمْرِو بْنِ حُرَيْثٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ، وَعَلَيْهِ عِمَامَةٌ سَوْدَاءُ قَدْ أَرْخَى طَرَفَيْهَا بَيْنَ كَتِفَيْهِ "، وَلَمْ يَقُلْ أَبُو بَكْرٍ: عَلَى الْمِنْبَرِ.
سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ میں گویا دیکھ رہا ہوں رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کو منبر کے اوپر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سیاہ عمامہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے دونوں کناروں کو اپنے شانوں کے بیچ میں لٹکا دیا ہے اور ابوبکر کی روایت میں منبر کا ذکر نہیں ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى الْمَازِنِيِّ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَدَعَا لِأَهْلِهَا، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ، كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، وَإِنِّي دَعَوْتُ فِي صَاعِهَا، وَمُدِّهَا بِمِثْلَيْ مَا دَعَا بِهِ إِبْرَاهِيمُ لِأَهْلِ مَكَّةَ "،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کا حرم مقرر کیا (یعنی حرمت اس کی ظاہر کی ورنہ حرمت اس کی آسمان و زمین کے بننے کے دن تھی) اور اس کے لوگوں کے لئے دعا کی اور میں نے مدینہ کو حرام کیا جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا اور میں نے دعا کی مدینہ کے صاع اور مد کے لئے اس سے دو حصے برابر جیسے ابراہیم علیہ السلام نے کی تھی اہل مکہ کے لئے۔“
وحَدَّثَنِيهِ أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ الْمُخْتَارِ . ح وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ . ح وحدثناه إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْمَخْزُومِيُّ ، حدثنا وُهَيْبٌ ، كُلُّهُمْ عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى هُوَ الْمَازِنِيُّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَمَّا حَدِيثُ وُهَيْبٍ، فَكَرِوَايَةِ الدَّرَاوَرْدِيِّ: بِمِثْلَيْ مَا دَعَا بِهِ إِبْرَاهِيمُ، وَأَمَّا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ، فَفِي رِوَايَتِهِمَا: مِثْلَ مَا دَعَا بِهِ إِبْرَاهِيمُ.
عمرو سے اسی اسناد سے یہی مضمون مروی ہوا اور لیکن وہیب کی روایت میں تو «الدَّرَاوَرْدِىِّ» کی مثل یہی ہے کہ ”میں نے دعا کی ابراہیم علیہ السلام کے دو حصہ برابر۔“ اور سلیمان بن بلال اور عبدالعزیز کی روایت میں یہ ہے کہ ”دعا کی میں نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا کے برابر۔“
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَإِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا "، يُرِيدُ الْمَدِينَةَ.
رافع نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرام قرار دیتا ہوں۔“مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ ہے۔
وحدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعَنْبٍ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عُتْبَةَ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ نَافِعِ بْنِ جُبَيْرٍ : أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ خَطَبَ النَّاسَ، فَذَكَرَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ يَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، فَنَادَاهُ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ ، فقَالَ: " مَا لِي أَسْمَعُكَ ذَكَرْتَ مَكَّةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَلَمْ تَذْكُرِ الْمَدِينَةَ، وَأَهْلَهَا وَحُرْمَتَهَا، وَقَدْ حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا "، وَذَلِكَ عَنْدَنَا فِي أَدِيمٍ خَوْلَانِيٍّ إِنْ شِئْتَ أَقْرَأْتُكَهُ، قَالَ: فَسَكَتَ مَرْوَانُ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ سَمِعْتُ بَعْضَ ذَلِكَ.
نافع نے کہا کہ مروان نے خطبہ پڑھا اور ذکر کیا مکہ کا اور اس کے رہنے والوں کا سو پکارا اس کو سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ صحابی نے اور کہا کہ یہ کیا سنتا ہوں میں تجھ سے کہ تو نے ذکر کیا مکہ کا اور اس کے لوگوں کا اور اس کے حرم ہونے کا اور نہ ذکر کیا مدینہ کا اور نہ وہاں کے لوگوں کا اور نہ اس کے حرم ہونے کا اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا ہے۔ دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں اور یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حرم ٹھہرانے کی ہمارے پاس ایک خولانی چمڑے پر لکھی ہوئی ہے اگر تم چاہو تو میں تم کو پڑھا دوں۔ راوی نے کہا کہ مروان خاموش ہو رہا اور کہا کہ میں نے بھی اس میں سے کچھ سنا ہے۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، كِلَاهُمَا عَنْ أَبِي أَحْمَدَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَسْدِيُّ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، لَا يُقْطَعُ عِضَاهُهَا، وَلَا يُصَادُ صَيْدُهَا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ ابراہیم علیہ السلام نے حرم مقرر کیا مکہ کا اور میں حرم مقرر کرتا ہوں مدینہ کا دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں (یعنی جو مدینہ کے دونوں طرف واقع ہیں) کوئی کانٹے دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کوئی جانور شکار کیا جائے۔“
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ ، حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ أَنْ يُقْطَعَ عِضَاهُهَا، أَوْ يُقْتَلَ صَيْدُهَا "، وَقَالَ: " الْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، لَا يَدَعُهَا أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَبْدَلَ اللَّهُ فِيهَا مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْهُ، وَلَا يَثْبُتُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا وَجَهْدِهَا، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ "،
عامر بن سعد نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں نے حرم مقرر کر دیا درمیان دونوں میدانوں کالے پتھر والوں کے کہ نہ کاٹا جائے کانٹے دار درخت وہاں کا۔“ اور فرمایا: ”کہ مدینہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے کاش وہ اس کو سمجھتے (یہ خطاب ہے ان لوگوں کو جو مدینہ چھوڑ کر اور جگہ چلے جاتے ہیں یا تمام مسلمانوں کو) اور نہیں چھوڑتا کوئی مدینہ کو مگر اللہ تعالیٰ اس سے بہتر کوئی آدمی اس میں بھیج دیتا ہے اور نہیں صبر کرتا ہے کوئی اس کی بھوک، پیاس پر اور محنت و مشقت پر مگر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوتا ہوں قیامت کے دن۔“
وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ ، حدثناعُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ، ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ: وَلَا يُرِيدُ أَحَدٌ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوءٍ، إِلَّا أَذَابَهُ اللَّهُ فِي النَّارِ ذَوْبَ الرَّصَاصِ، أَوْ ذَوْبَ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ.
سیدنا عامر بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے وہی روایت بیان کی مثل حدیث ابن نمیر کی اور اس میں زیادہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”نہیں ارادہ کرتا ہے کوئی اہل مدینہ کے ساتھ برائی کا۔ مگر اللہ تعالیٰ اس کو گھلا دیتا ہے ایسا جیسے سیسہ گھل جاتا ہے آگ میں یا نمک گھل جاتا ہے پانی میں۔“
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، جميعا عَنِ الْعَقَدِيِّ ، قَالَ عبدَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ : أَنَّ سَعْدًا رَكِبَ إِلَى قَصْرِهِ بِالْعَقِيقِ، فَوَجَدَ عَبْدًا يَقْطَعُ شَجَرًا أَوْ يَخْبِطُهُ فَسَلَبَهُ، فَلَمَّا رَجَعَ سَعْدٌ جَاءَهُ أَهْلُ الْعَبْدِ، فَكَلَّمُوهُ أَنْ يَرُدَّ عَلَى غُلَامِهِمْ أَوْ عَلَيْهِمْ مَا أَخَذَ مِنْ غُلَامِهِمْ، فقَالَ: مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ أَرُدَّ شَيْئًا نَفَّلَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبَى أَنْ يَرُدَّ عَلَيْهِمْ.
عامر بن سعد نے کہا کہ سیدنا سعد رضی اللہ عنہ اپنے مکان کو چلے جو عقیق میں تھا، راہ میں ایک غلام کو دیکھا کہ وہ ایک درخت کاٹ رہا ہے یا پتے توڑ رہا ہے۔ سو اس کے کپڑے چھین لئے اور اس کے گھر والے آئے اور انہوں نے کہا: آپ وہ اس کو پھیر دیجئے یا ہم کو عنایت کیجئے، انہوں نے فرمایا کہ اللہ کی پناہ اس سے کہ میں وہ چیز پھیر دوں۔ جو مجھے بطریق انعام کے عنایت کی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور ہرگز نہ پھیرا انہوں نے سامان اس کا۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيل ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ: " الْتَمِسْ لِي غُلَامًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي "، فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ يُرْدِفُنِي وَرَاءَهُ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا نَزَلَ، وقَالَ فِي الْحَدِيثِ: ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا بَدَا لَهُ أُحُدٌ، قَالَ: " هَذَا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ جَبَلَيْهَا مِثْلَ مَا حَرَّمَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ "،
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”کہ ایک لڑکا ڈھونڈھو جو ہماری خدمت کرے۔“ سو سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے لے کر گئے اپنی سواری پر پیچھے بٹھا کر اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اترتے تھے۔ پھر ایک حدیث میں کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے یہاں تک کہ جب کوہ احد آپصلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائی دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد ہم کو دوست رکھتا ہے اور ہم احد کو دوست رکھتے ہیں۔“ پھر جب مدینہ کے قریب آئے تو فرمایا: ”کہ یا اللہ! حرام کرتا ہوں ان دونوں پہاڑوں کے درمیان کو جیسا ابراہیم علیہ السلام نے حرام کیا مکہ کو۔ یا اللہ! برکت دے ان کو ان کے مد اور صاع میں۔“
وحدثناه سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حدثنا يَعْقُوبُ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيُّ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا.
کہا مسلم رحمہ اللہ نے اور روایت کی ہم سے یہی حدیث سعید اور قتیبہ نے، ان سے یعقوب نے، ان سے عمرہ بن ابی عمرہ نے، ان سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مثل اس کے جو اوپر گزری مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں حرام ٹھہراتا ہوں درمیان دونوں کالے پتھر والے میدانوں کے بیچ میں۔“
وحدثناه حَامِدُ بْنُ عُمَرَ ، حدثنا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حدثنا عَاصِمٌ ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : " أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، مَا بَيْنَ كَذَا إِلَى كَذَا فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي: هَذِهِ شَدِيدَةٌ مَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا: فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا "، قَالَ: فقَالَ ابْنُ أَنَسٍ: أَوْ آوَى مُحْدِثًا.
عاصم نے کہا: میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم ٹھہرایا مدینہ کو؟ کہا: ہاں فلاں مقام سے فلاں تک۔ ”سو جو اس میں کوئی بات نکالے یعنی گناہ کی تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتون اور لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ اس سے قیامت کے دن فرض نہ نفل۔“ اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے بیٹے نے کہا: یا جگہ دی کسی نئے گناہ کی بات کرنے والے کو۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ ، قَالَ: سَأَلْتُ أَنَسًا : أَحَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ؟ قَالَ: " نَعَمْ، هِيَ حَرَامٌ، لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا فَمَنْ فَعَلَ ذَلِكَ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ".
عاصم نے کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا مدینہ کو حرم ٹھہرایا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں وہ حرم ہے نہ توڑا جائے گا درخت اس کا اور جو ایسا کرے گا اس پر اللہ اور فرشتوں اور لوگوں کی لعنت ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مِكْيَالِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي صَاعِهِمْ، وَبَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِى مِكْيَالِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى صَاعِهِمْ وَبَارِكْ لَهُمْ فِى مُدِّهِمْ» کہ ”یااللہ! برکت دے ان کو (یعنی مدینہ والوں کو) ان کے ماپ میں اور برکت دے ان کے صاع میں اور برکت دے ان کے مد میں۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ السَّامِيُّ ، قَالَا: حدثنا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حدثنا أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ يُونُسَ ، يُحَدِّثُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَىْ مَا بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ» کہ ”یا اللہ! مدینہ میں مکہ سے دوگنی برکت دے۔“
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو كُرَيْبٍ، حدثنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حدثنا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: خَطَبَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ، فقَالَ: مَنْ زَعَمَ أَنَّ عَنْدَنَا شَيْئًا نَقْرَؤُهُ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ، وَهَذِهِ الصَّحِيفَةَ، قَالَ: وَصَحِيفَةٌ مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ، فَقَدْ كَذَبَ فِيهَا أَسْنَانُ الْإِبِلِ، وَأَشْيَاءُ مِنَ الْجِرَاحَاتِ، وَفِيهَا قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْمَدِينَةُ حَرَمٌ مَا بَيْنَ عَيْرٍ إِلَى ثَوْرٍ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَمَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، أَوِ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا "، وَانْتَهَى حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ، وَزُهَيْرٍ، عَنْدَ قَوْلِهِ: يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، وَلَمْ يَذْكُرَا مَا بَعْدَهُ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِهِمَا: مُعَلَّقَةٌ فِي قِرَابِ سَيْفِهِ،
ابراہیم نے اپنے باپ سے روایت کہ خطبہ پڑھا ہم پر سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ نے اور فرمایا: کہ جو دعویٰ کرے کہ ہمارے پاس (یعنی اہل بیت کے) کوئی اور چیز ہے سوا کتاب اللہ کے اور اس صحیفہ کے اور راوی نے کہا کہ ایک صحیفہ لٹکا ہوا تھا ان کی تلوار کی میان میں تو اس نے جھوٹ کہا اور اس صحیفہ میں اونٹوں کی عمریں (یعنی زکوٰۃ کے متعلقات) اور کچھ زخموں کا بیان تھا (یعنی ان کے قصاص اور دیتوں کا بیان) اور اس صحیفہ میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے عیر اور ثور کے بیچ میں سو جو شخص کہ کوئی نئی بات نکالے اس جگہ یا جگہ دے کسی نئی بات نکالنے والوں کو تو اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی، نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس کا کوئی فرض، نہ سنت اور امان دینا ہر مسلمان کا برابر ہے کہ اعتبار کیا جاتا ہے ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اور جس نے اپنے کو اپنے باپ کے سوا غیر کا فرزند ٹھہرایا یا اپنے آقاؤں کے سوا کسی دوسرے کا غلام اپنے کو قرار دیا، اس پر اللہ تعالیٰ اور فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اس سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ مسلم رحمہ اللہ نے کہا کہ روایت ابوبکر و زہیر کی تو وہیں تک ہو چکی کہ ادنیٰ مسلمان کی پناہ دینے کا بھی اعتبار ہے اور ان دونوں کی روایت میں یہ ذکر نہیں کہ صحیفہ تلوار کے میان میں لٹکا ہوا تھا۔
وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، أَخْبَرَنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وحَدَّثَنِي أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حدثنا وَكِيعٌ ، جَمِيعًا عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي كُرَيْبٍ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، إِلَى آخِرِهِ، وَزَادَ فِى الْحَدِيثِ « فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ لاَ يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ صَرْفٌ وَلاَ عَدْلٌ ». وَلَيْسَ فِى حَدِيثِهِمَا « مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ ». وَلَيْسَ فِى رِوَايَةِ وَكِيعٍ ذِكْرُ يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
اعمش نے اسی اسناد سے یہی مضمون مثل ابوکریب کے روایت کیا جو ابو معاویہ سے مروی ہے، اخیر تک بیان فرمایا اور اتنا زیادہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ جو پناہ توڑے کسی مسلمان کی اس پر لعنت ہے اللہ تعالیٰ کی اور فرشتوں کی اور سب لوگوں کی نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ فرض، نہ سنت۔“ اور ان کی دونوں حدیثوں میں یہ مضمون نہیں ہے کہ جو اپنے کو باپ کے سوا کسی غیر کا فرزند بنا دے اور وکیع کی روایت میں قیامت کا دن مذکور نہیں۔
وحَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، قَالَا: حدثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ، وَوَكِيعٍ، إِلَّا قَوْلَهُ: مَنْ تَوَلَّى غَيْرَ مَوَالِيهِ، وَذِكْرَ اللَّعْنَةِ لَهُ.
مذکورہ بالا حدیث چند الفاظ کے فرق سے اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمَدِينَةُ حَرَمٌ، فَمَنْ أَحْدَثَ فِيهَا حَدَثًا، أَوْ آوَى مُحْدِثًا، فَعَلَيْهِ: لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلٌ، وَلَا صَرْفٌ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے پھر جو کوئی اس میں گناہ کرے یا کوئی گناہ کرنے والے کو جگہ دے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے اور نہ قبول کرے گا اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کوئی فرض نہ نفل۔“
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ النَّضْرِ بْنِ أَبِي النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، وَلَمْ يَقُلْ: يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَزَادَ: وَذِمَّةُ الْمُسْلِمِينَ وَاحِدَةٌ يَسْعَى بِهَا أَدْنَاهُمْ، فَمَنْ أَخْفَرَ مُسْلِمًا، فَعَلَيْهِ: لَعْنَةُ اللَّهِ، وَالْمَلَائِكَةِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ، لَا يُقْبَلُ مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدْلٌ، وَلَا صَرْفٌ.
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اس میں «يوم القيامه» کے الفاظ نہیں اور یہ اضافہ ہے کہ ”مسلمانوں کا ذمہ ایک ہے اور ایک عام مسلمان کی پناہ کا بھی اعتبار کیا جائے گا جس کسی نے مسلمانوں کی پناہ کو توڑا تو اس پر اللہ تعالیٰ، اس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے اس سے قیامت کے دن کوئی نفل اور فرض قبول نہیں کیا جائے گا۔“
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: لَوْ رَأَيْتُ الظِّبَاءَ تَرْتَعُ بِالْمَدِينَةِ مَا ذَعَرْتُهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا حَرَامٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ اگر میں کسی ہرن کو مدینہ میں چرتا دیکھتا ہوں تو کبھی نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: کہ ”دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں حرم ہے۔“
وحدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ إِسْحَاقَ: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حدثنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " حَرَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: فَلَوْ وَجَدْتُ الظِّبَاءَ مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا مَا ذَعَرْتُهَا، وَجَعَلَ اثْنَيْ عَشَرَ مِيلًا حَوْلَ الْمَدِينَةِ حِمًى ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا دونوں کالے پتھروں والے میدانوں کے بیچ میں کہ جو مدینہ کے مشرق اور مغرب کی طرف واقع ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر میں کسی ہرن کو پاؤں جو ان کے بیچ میں چرتا ہو تو کبھی نہ ڈراؤں اور نہ بھگاؤں اس کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے بارہ میل کو مدینہ کے گرداگرد رمنا مقرر کر دیا۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ النَّاسُ إِذَا رَأَوْا أَوَّلَ الثَّمَرِ جَاءُوا بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا أَخَذَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَبَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ، وَخَلِيلُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنِّي عَبْدُكَ، وَنَبِيُّكَ، وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَإِنِّي أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ، بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ، وَمِثْلِهِ مَعَهُ "، قَالَ: ثُمَّ يَدْعُو أَصْغَرَ وَلِيدٍ لَهُ، فَيُعْطِيهِ ذَلِكَ الثَّمَرَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں کی عادت تھی کہ جب نیا کوئی پھل دیکھتے تھے (یعنی ابتدائے فصل کا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب اس کو لے لیتے تو دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى ثَمَرِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنِّى عَبْدُكَ وَنَبِيُّكَ وَإِنَّهُ دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَإِنِّى أَدْعُوكَ لِلْمَدِينَةِ بِمِثْلِ مَا دَعَاكَ لِمَكَّةَ وَمِثْلِهِ مَعَهُ»کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے پھلوں میں، برکت دے ہمارے شہر میں، اور برکت دے ہمارے صاع میں، اور برکت دے ہمارے مد میں۔ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام تیرے غلام اور تیرے دوست اور تیرے نبی تھے اور میں تیرا غلام اور نبی ہوں اور انہوں نے دعا کی تجھ سے مکہ کے لیے اور میں دعا کرتا ہوں تجھ سے مدینہ کے لیے اس کے برابر جو انہوں نے مکہ کے لیے کی مثل اس کے اور بھی۔“ اس کے ساتھ بلاتے آپ کسی چھوٹے لڑکے اپنے کو اور وہ پھل اسے دے دیتے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِح ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُؤْتَى بِأَوَّلِ الثَّمَرِ، فَيَقُولُ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، وَفِي ثِمَارِنَا، وَفِي مُدِّنَا، وَفِي صَاعَنْا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ، ثُمَّ يُعْطِيهِ أَصْغَرَ مَنْ يَحْضُرُهُ مِنَ الْوِلْدَانِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہلا پھل آتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا وَفِى ثِمَارِنَا وَفِى مُدِّنَا وَفِى صَاعِنَا بَرَكَةً مَعَ بَرَكَةٍ» کہ ”یااللہ! برکت دے ہمارے شہر میں اور ہمارے پھلوں میں اور ہمارے مدینہ میں، اور ہمارے صاع میں برکت پر برکت دے۔“ پھر وہ پھل دے دیتے کسی چھوٹے لڑکے کو جو اس وقت حاضر ہوتا۔
حدثنا حَمَّادُ بْنُ إِسْمَاعِيل ابْنِ عُلَيَّةَ ، حدثنا أَبِي ، عَنْ وُهَيْبٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ ، أَنَّهُ حَدَّثَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ أَصَابَهُمْ بِالْمَدِينَةِ جَهْدٌ وَشِدَّةٌ، وَأَنَّهُ أَتَى أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فقَالَ لَهُ: إِنِّي كَثِيرُ الْعِيَالِ، وَقَدْ أَصَابَتْنَا شِدَّةٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَنْقُلَ عِيَالِي إِلَى بَعْضِ الرِّيفِ، فقَالَ أَبُو سَعِيدٍ : لَا تَفْعَلِ الْزَمِ الْمَدِينَةَ، فَإِنَّا خَرَجْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَظُنُّ أَنَّهُ قَالَ: حَتَّى قَدِمْنَا عُسْفَانَ، فَأَقَامَ بِهَا لَيَالِيَ، فقَالَ النَّاسُ: وَاللَّهِ مَا نَحْنُ هَا هُنَا فِي شَيْءٍ وَإِنَّ عِيَالَنَا لَخُلُوفٌ، مَا نَأْمَنُ عَلَيْهِمْ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: " مَا هَذَا الَّذِي بَلَغَنِي مِنْ حَدِيثِكُمْ، مَا أَدْرِي كَيْفَ، قَالَ: " وَالَّذِي أَحْلِفُ بِهِ، أَوْ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَدْ هَمَمْتُ أَوْ إِنْ شِئْتُمْ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا قَالَ لَآمُرَنَّ بِنَاقَتِي تُرْحَلُ، ثُمَّ لَا أَحُلُّ لَهَا عُقْدَةً حَتَّى أَقْدَمَ الْمَدِينَةَ، وَقَالَ: " اللَّهُمَّ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ حَرَّمَ مَكَّةَ، فَجَعَلَهَا حَرَمًا، وَإِنِّي حَرَّمْتُ الْمَدِينَةَ حَرَامًا مَا بَيْنَ مَأْزِمَيْهَا، أَنْ لَا يُهْرَاقَ فِيهَا دَمٌ، وَلَا يُحْمَلَ فِيهَا سِلَاحٌ لِقِتَالٍ، وَلَا تُخْبَطَ فِيهَا شَجَرَةٌ إِلَّا لِعَلْفٍ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا، اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، مَا مِنَ الْمَدِينَةِ شِعْبٌ وَلَا نَقْبٌ، إِلَّا عَلَيْهِ مَلَكَانِ يَحْرُسَانِهَا حَتَّى تَقْدَمُوا إِلَيْهَا "، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: " ارْتَحِلُوا "، فَارْتَحَلْنَا، فَأَقْبَلْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَالَّذِي نَحْلِفُ بِهِ أَوْ يُحْلَفُ بِهِ، الشَّكُّ مِنْ: حَمَّادٍ مَا وَضَعَنْا رِحَالَنَا حِينَ دَخَلْنَا الْمَدِينَةَ حَتَّى أَغَارَ عَلَيْنَا بَنُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ غَطَفَانَ، وَمَا يَهِيجُهُمْ قَبْلَ ذَلِكَ شَيْءٌ.
ابوسعید نے کہا کہ ہم کو مدینہ میں ایک بار محنت اور شامت فاقہ کو پہنچی اور میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ میں کثیر العیال ہوں اور ہم کو سختی پہنچی ہے اور میں نے ارادہ کیا ہے کہ اپنے عیال کو کسی ارزاں اور سرسبز ملک میں لے جاؤں۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مدینہ کو نہ چھوڑو اس لیے کہ ہم ایک بار نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہ یہاں تک کہ عسفان تک پہنچ گئے اور وہاں کئی شب ٹھہرے، سو لوگوں نے کہا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ ہم یہاں بے کار ٹھہرے ہوئے ہیں اور ہمارے عیال پیچھے چھٹے ہوئے ہیں اور ہم کو ان کے اوپر اطمینان نہیں (یعنی خوف ہے کہ کوئی دشمن نہ ستائے) اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کہ یہ کیا بات ہے جو مجھ کو پہنچی ہے؟۔“ راوی نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ کیا بات ہے؟ فرمایا: ”قسم ہے اس اللہ کی جس کی میں قسم کھاتا ہوں یا فرمایا: قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے البتہ میں نے ارادہ کیا یا فرمایا: اگر چاہو تم۔“ میں نہیں جانتا کہ کیا فرمایا ان دونوں باتوں میں سے۔ فرمایا: ”کہ البتہ حکم کروں میں اپنی اونٹنی کو کہ وہ کسی جائے اور پھر اس کی ایک گرہ بھی نہ کھولوں یہاں تک کہ داخل ہوں میں مدینہ میں۔“ اور فرمایا: ”کہ یا اللہ! ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم قرار دیا اور میں نے مدینہ کو حرم ٹھہرایا دو گھاٹیوں یا دو پہاڑوں کے بیچ میں کہ نہ اس میں خون بہایا جائے اور نہ اس میں لڑائی کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے، نہ اس میں کسی درخت کے پتے جھاڑے جائیں مگر صرف چارے کے لیے (کہ اس سے درخت کا چنداں نقصان نہیں ہوتا) (فرمایا)«اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مُدِّنَا اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى مَدِينَتِنَا اللَّهُمَّ اجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں۔ یا اللہ! برکت دے ہماری چوسیری میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے سیر میں، یا اللہ! برکت دے ہمارے شہر میں، یا اللہ برکت کے ساتھ دو برکتیں اور دے۔“ اور فرمایا: ”قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی گھاٹی اور کوئی ناکہ مدینہ کا ایسا نہیں ہے جس پر دو فرشتے نگہبان نہ ہوں جب تک کہ تم وہاں نہ پہنچو گے۔“ (یعنی جب تک وہ نگہبان رہیں گے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوچ کرو۔“ اور ہم نے کوچ کیا اور مدینہ میں آئے سو ہم قسم کھاتے ہیں اس پروردگار کی جس کی ہمیشہ قسم کھایا کرتے ہیں یا کہا: جس کی قسم کھائی جاتی ہے۔ غرض حماد کو اس میں شک ہوا غرض جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم نے ابھی کجاوے اونٹوں پر سے نہیں اتارے تھے کہ بنو عبداللہ بن غطفان نے ہم پر ڈاکہ ڈالا اور اس سے پہلے ان کی ہمت نہ ہوئی (کہ وہاں آ سکیں یہ تصدیق ہوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے فرمانے کی کہ فرشتے وہاں نگہبان ہیں)۔
وحدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُبَارَكِ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، حدثنا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي صَاعَنْا، وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِى صَاعِنَا وَمُدِّنَا وَاجْعَلْ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» کہ ”یا اللہ! برکت دے ہمارے مد میں، اور ہمارے صاع میں، اور ایک برکت پر دو برکتیں اور عنایت فرما۔“
وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنا شَيْبَانُ . ح وحَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حدثنا حَرْبٌ يَعْنِي ابْنَ شَدَّادٍ ، كِلَاهُمَا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ مَوْلَى الْمَهْرِيِّ: أَنَّهُ جَاءَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ لَيَالِي الْحَرَّةِ، فَاسْتَشَارَهُ فِي الْجَلَاءِ مِنَ الْمَدِينَةِ، وَشَكَا إِلَيْهِ أَسْعَارَهَا، وَكَثْرَةَ عِيَالِهِ، وَأَخْبَرَهُ أَنْ لَا صَبْرَ لَهُ عَلَى جَهْدِ الْمَدِينَةِ وَلَأْوَائِهَا، فقَالَ لَهُ: وَيْحَكَ لَا آمُرُكَ بِذَلِكَ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَائِهَا فَيَمُوتَ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا كَانَ مُسْلِمًا ".
ابو سعید مولیٰ مہری سے روایت ہے کہ وہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے حرہ کی راتوں میں (یعنی جن دنوں مدینہ طیبہ میں ایک فتنہ مشہور ہوا ہے اور ظالموں نے مدینہ طیبہ کو لوٹا ہے سن ۶۳ ہجری میں) اور مشورہ کیا ان سے کہ مدینہ سے کہیں اور چلے جائیں اور شکایت کی ان سے وہاں کی گرانی نرخ کی اور کثرت عیال کی اور خبر دی ان کو کہ مجھے صبر نہیں آ سکتا مدینہ کی محنت اور بھوک پر، تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ خرابی ہو تیری میں تجھے تھوڑے یہاں رہنے کا حکم کرتا ہوں بلکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ”کہ صبر نہیں کرتا ہے کوئی یہاں کی تکلیفوں پر اور پھر مر جاتا ہے مگر اس کا شفیع یا گواہ ہوں قیامت کے دن جب وہ مسلمان ہو۔“
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، جَمِيعًا عَنْ أَبِي أُسَامَةَ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حدثنا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ أَبِي سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنِّي حَرَّمْتُ مَا بَيْنَ لَابَتَيِ الْمَدِينَةِ كَمَا حَرَّمَ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ "، قَالَ: ثُمَّ كَانَ أَبُو سَعِيدٍ يَأْخُذُ، وقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَجِدُ أَحَدَنَا فِي يَدِهِ الطَّيْرُ فَيَفُكُّهُ مِنْ يَدِهِ ثُمَّ يُرْسِلُهُ.
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے:”میں نے حرم مقرر کیا ہے درمیان دونوں کالے پتھروں کے میدانوں میں مدینہ کے جیسے حرم قرار دیا تھا ابرہیم علیہ السلام نے مکہ کو۔“ یہاں تک کہ ایک ہم میں کا پاتا تھا یا لیتا تھا اپنے ہاتھ میں چڑیا اور اس کو جدا کر دیتا تھا پھر چھوڑ دیتا تھا۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ يُسَيْرِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ ، قَالَ: " أَهْوَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، فقَالَ: إِنَّهَا حَرَمٌ آمِنٌ ".
سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک مدینہ کی طرف جھکایا اور فرمایا: کہ ”وہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔“
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهِيَ وَبِيئَةٌ، فَاشْتَكَى أَبُو بَكْرٍ، وَاشْتَكَى بِلَالٌ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَكْوَى أَصْحَابِهِ، قَالَ: " اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ مَكَّةَ، أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا، وَبَارِكْ لَنَا فِي صَاعِهَا، وَمُدِّهَا، وَحَوِّلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ جب ہم مدینہ تشریف لائے تو وہاں وبا تھی اور سیدنا ابوبکر اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہما بیمار ہوئے، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بیماری دیکھی تو دعا کی «اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ كَمَا حَبَّبْتَ مَكَّةَ أَوْ أَشَدَّ وَصَحِّحْهَا وَبَارِكْ لَنَا فِى صَاعِهَا وَمُدِّهَا وَحَوِّلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ»”یااللہ دوست کر دے ہمارے مدینہ کو جیسے دوست کیا تھا تو نے مکہ کو، یا اس سے بھی زیادہ اور صحت عطا کر اس کے رہنے والوں کو اور برکت دے ہم کو اس کے چوسیری اور سیر میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔“
وحدثنا أَبُو كُرَيْبٍ ، حدثنا أَبُو أُسَامَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ ، أَخْبَرَنا عِيسَى بْنُ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، حدثنا نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ صَبَرَ عَلَى لَأْوَائِهَا، كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا، أَوْ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے مدینہ کی بھوک پر میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا قیامت کے دن۔“
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ قَطَنِ بْنِ وَهْبِ بْنِ عُوَيْمِرِ بْنِ الْأَجْدَعِ ، عَنْ يُحَنَّسَ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عَنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي الْفِتْنَةِ، فَأَتَتْهُ مَوْلَاةٌ لَهُ تُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فقَالَت: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، اشْتَدَّ عَلَيْنَا الزَّمَانُ، فقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ : اقْعُدِي لَكَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
یحنس زبیر کے آزاد کردہ غلام سے روایت ہے کہ وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آزاد باندی آئی اور ان کو سلام کیا اور یہ فتنہ کے دن تھے (یعنی فتنہ حرہ کے دن جس کا ذکر ابھی تھوڑی دیر پہلے گزرا) اور اس نے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! (یہ کنیت ہے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) ہم پر سخت دن ہیں اور میں ارادہ کرتی ہوں مدینہ سے نکلنے کا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ بیٹھ اے نادان! اس لئے کہ میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو صبر کرے گا مدینہ کی بھوک، پیاس اور مشقت پر تو میں اس کا شفیع ہوں گا (یعنی اگر وہ گنہگار ہے) یا گواہ ہوں گا (یعنی اگر وہ نیکوکار ہے) قیامت کے دن۔“
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، أَخْبَرَنا الضَّحَّاكُ ، عَنْ قَطَنٍ الْخُزَاعِيِّ ، عَنْ يُحَنَّسَ مَوْلَى مُصْعَبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ صَبَرَ عَلَى لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا، كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا، أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ " يَعْنِي: الْمَدِينَةَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ وہی قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ، وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِي، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَوْ شَهِيدًا "،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي هَارُونَ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي يُوسُفُ بْنُ عِيسَى ، حدثنا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي صَالِح عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَصْبِرُ أَحَدٌ عَلَى لَأْوَاءِ الْمَدِينَةِ "، بِمِثْلِهِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " عَلَى أَنْقَابِ الْمَدِينَةِ مَلَائِكَةٌ، لَا يَدْخُلُهَا: الطَّاعُونُ، وَلَا الدَّجَّالُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ ”مدینہ کے ناکوں پر فرشتے ہیں کہ اس میں طاعون اور دجال نہیں آ سکتا۔“
وحدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، جَمِيعًا عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي الْعَلَاءُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي الْمَسِيحُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ هِمَّتُهُ الْمَدِينَةُ حَتَّى يَنْزِلَ دُبُرَ أُحُدٍ، ثُمَّ تَصْرِفُ الْمَلَائِكَةُ وَجْهَهُ قِبَلَ الشَّامِ، وَهُنَالِكَ يَهْلِكُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسیح دجال آئے گا مشرق کی طرف سے ارادہ اس کا مدینہ کا ہو گا یہاں تک کہ اترے گا کوہ احد کے پیچھے اور فرشتے اس کا منہ وہیں سے شام کی طرف پھیر دیں گے اور وہیں تباہ ہو جائے گا۔“
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنِ الْعَلَاءِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَدْعُو الرَّجُلُ ابْنَ عَمِّهِ، وَقَرِيبَهُ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ هَلُمَّ إِلَى الرَّخَاءِ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَا يَخْرُجُ مِنْهُمْ أَحَدٌ رَغْبَةً عَنْهَا، إِلَّا أَخْلَفَ اللَّهُ فِيهَا خَيْرًا مِنْهُ، أَلَا إِنَّ الْمَدِينَةَ كَالْكِيرِ تُخْرِجُ الْخَبِيثَ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَنْفِيَ الْمَدِينَةُ شِرَارَهَا، كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک وقت لوگوں پر ایسا آئے گا کہ آدمی اپنے بھتیجے کو، اپنے قرابت والے کو پکارے گا کہ آؤ ارزانی کے ملک میں، آؤ ارزانی کے ملک میں اور مدینہ ان کے لئے بہتر ہو گا کاش کہ وہ جانتے ہوتے اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ میری جان اس کے ہاتھ میں ہے کہ کوئی شخص مدینہ سے بیزار ہو کر نہیں نکلتا ہے، کہ االلہ تعالٰی اس سے بہتر دوسرا شخص بھیج دیتا ہے مدینہ میں۔ آگاہ ہو کہ مدینہ ایسا ہے جیسے لوہار کی بھٹی کہ نکال دیتا ہے میل کو اور قیامت قائم نہ ہو گی جب تک مدینہ نہ نکال دے گا اپنے شریر لوگوں کو جیسے کہ بھٹی نکال دیتی ہے لوہے کی میل کو۔“
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْحُبَابِ سَعِيدَ بْنَ يَسَارٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرَى، يَقُولُونَ: يَثْرِبَ وَهِيَ الْمَدِينَةُ، تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”کہ مجھے حکم ہوا ہے یعنی (ہجرت کا) ایسے قریہ کی طرف جو سب قریوں کو کھا جائے گا لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے اور لوگوں کو ایسا چھانٹتا ہے جیسے لوہے کی بھٹی میل چھانٹتی ہے۔“
وحدثنا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ . ح وحدثنا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَا: كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ الْخَبَثَ، لَمْ يَذْكُرَا: الْحَدِيدَ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔
حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ : أَنَّ أَعْرَابِيًّا بَايَعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَصَابَ الْأَعْرَابِيَّ وَعْكٌ بِالْمَدِينَةِ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَهُ، فقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي فَأَبَى، ثُمَّ جَاءَهُ، فقَالَ: أَقِلْنِي بَيْعَتِي، فَأَبَى فَخَرَجَ الْأَعْرَابِيُّ، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الْمَدِينَةُ كَالْكِيرِ تَنْفِي خَبَثَهَا، وَيَنْصَعُ طَيِّبُهَا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک گاؤں کا آدمی تھا کہ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی اور اس کو شدت سے بخار آنے لگا مدینہ میں پھر وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی یہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا اور پھر آیا اور کہا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر انکار کیا اور وہ پھر آیا اور کہا کہ یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھ سے اپنی بیعت پھیر لو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کیا اور وہ اعرابی مدینہ سے چلا گیا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”مدینہ تو بھٹی کے مانند ہے کہ اپنی میل کو دور کر دیتا ہے اور پاک کو خالص اور صاف کر لیتا ہے۔“
وحدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ وَهُوَ الْعَنْبَرِيُّ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا شُعْبَةُ ، عَنْ عَدِيٍّ وَهُوَ ابْنُ ثَابِتٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّهَا طَيْبَةُ يَعْنِي الْمَدِينَةَ، وَإِنَّهَا تَنْفِي الْخَبَثَ، كَمَا تَنْفِي النَّارُ خَبَثَ الْفِضَّةِ ".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طیبہ ہے یعنی مدینہ اور پہلے پہل یہ مدینہ میل کو دور کرتا ہے جیسے آگ چاندی کی میل کو دور کرتی ہے۔“
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَهَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالُوا: حدثنا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى سَمَّى الْمَدِينَةَ: طَابَةَ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اللہ جل جلالہ نے نام رکھا مدینہ کا طابہ۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، قَالَا: حدثنا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، كِلَاهُمَا عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يُحَنَّسَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظِ ، أَنَّهُ قَالَ: أَشْهَدُ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ أَهْلَ هَذِهِ الْبَلْدَةِ بِسُوءٍ، يَعْنِي الْمَدِينَةَ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ ".
ابوعبداللہ قراظ نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ابوالقاسمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو ارادہ اس شہر والوں کی (یعنی مدینہ والوں کی) برائی کا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسا گھلا دے گا جیسے نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، قَالَا: حدثنا حَجَّاجٌ . ح وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ الْقَرَّاظَ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ أَهْلَهَا بِسُوءٍ يُرِيدُ الْمَدِينَةَ أَذَابَهُ اللَّهُ، كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ "، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ فِي حَدِيثِ ابْنِ يُحَنَّسَ: بَدَلَ قَوْلِهِ بِسُوءٍ: شَرًّا،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي هَارُونَ مُوسَى بْنِ أَبِي عِيسَى . ح وحدثنا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو ، جَمِيعًا سَمِعَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظَ ، سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نُبَيْهٍ ، أَخْبَرَنِي دِينَارٌ الْقَرَّاظُ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَرَادَ أَهْلَ الْمَدِينَةِ بِسُوءٍ أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ ".
سیدنا ابووقاص رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ”جو کوئی اہل مدینہ سے برائی کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو ایسے پگھلا دے گا جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔“
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ جَعْفَرٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نُبَيْهٍ الْكَعْبِيِّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظِ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: بِدَهْمٍ أَوْ بِسُوءٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، حدثنا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْقَرَّاظِ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَسَعْدًا ، يَقُولَانِ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِي مُدِّهِمْ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ: وَفِيهِ: مَنْ أَرَادَ أَهْلَهَا بِسُوءٍ، أَذَابَهُ اللَّهُ كَمَا يَذُوبُ الْمِلْحُ فِي الْمَاءِ.
سیدنا ابوہریرہ و سعد رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی «اللَّهُمَّ بَارِكْ لأَهْلِ الْمَدِينَةِ فِى مُدِّهِمْ» کہ ”یا اللہ برکت دے مدینہ والوں کے مُد میں۔“ اور آگے وہی مضمون بیان کیا جو اوپر کئی بار گزرا۔
حدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تُفْتَحُ الشَّامُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ تُفْتَحُ الْيَمَنُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ تُفْتَحُ الْعِرَاقُ، فَيَخْرُجُ مِنَ الْمَدِينَةِ قَوْمٌ بِأَهْلِيهِمْ يَبُسُّونَ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ".
سفیان نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شام فتح ہو گا اور کچھ لوگ مدینہ سے نکلیں گے اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے لئے بہتر تھا کاش وہ جانتے ہوتے، پھر فتح ہو گا یمن اور نکلے گی ایک قوم مدینہ کی اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے حق میں بہتر تھا کاش وہ جانتے، پھر فتح ہو گا عراق اور نکلے گی ایک قوم مدینہ کی اپنے گھر والوں کے ساتھ اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور مدینہ ان کے حق میں بہتر تھا کاش وہ جانتے۔“
حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي زُهَيْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يُفْتَحُ الْيَمَنُ، فَيَأْتِي قَوْمٌ يَبُسُّونَ، فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ يُفْتَحُ الشَّامُ، فَيَأْتِي قَوْمٌ يَبُسُّونَ، فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ، ثُمَّ يُفْتَحُ الْعِرَاقُ، فَيَأْتِي قَوْمٌ يَبُسُّونَ، فَيَتَحَمَّلُونَ بِأَهْلِيهِمْ وَمَنْ أَطَاعَهُمْ وَالْمَدِينَةُ خَيْرٌ لَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ".
سفیان نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”یمن فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لاد لے جائیں گے اپنے گھر والوں کو اور جو ان کا کہنا مانے اور مدینہ ان کے لئے بہتر تھا اگر وہ جانتے ہوتے، پھر شام فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لادلے جائیں گے اپنے گھر والوں اور جو ان کا کہنا مانے اور مدینہ بہتر تھا ان کے لئے اگر وہ جانتے ہوتے، پھر عراق فتح ہو گا اور لوگ وہاں جائیں گے اونٹوں کو ہانکتے ہوئے اور لادلے جائیں گے اپنے گھروالوں کو اور جو ان کا کہنا مانے اگر جانتے ہوتے تو مدینہ طیبہ ان کے حق میں بہتر تھا۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا أَبُو صَفْوَانَ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمَدِينَةِ: " لَيَتْرُكَنَّهَا أَهْلُهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ مُذَلَّلَةً لِلْعَوَافِي "، يَعْنِي: السِّبَاعَ وَالطَّيْرَ، قَالَ مُسْلِم أَبُو صَفْوَانَ: هَذَا هُوَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ يَتِيمُ ابْنِ جُرَيْجٍ عَشْرَ سِنِينَ كَانَ فِي حَجْرِهِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے لیے فرمایا: ”لوگ وہاں کے مدینہ کو چھوڑ دیں گے اور مدینہ ان کے لیے بہتر ہو گا اور ایسا چھوڑیں گے کہ وطن ہو جائے گا درندوں اور پرندوں کا۔“
وحَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " يَتْرُكُونَ الْمَدِينَةَ عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، لَا يَغْشَاهَا إِلَّا الْعَوَافِي يُرِيدُ: عَوَافِيَ السِّبَاعِ وَالطَّيْرِ، ثُمَّ يَخْرُجُ رَاعِيَانِ مِنْ مُزَيْنَةَ يُرِيدَانِ الْمَدِينَةَ، يَنْعِقَانِ بِغَنَمِهِمَا، فَيَجِدَانِهَا وَحْشًا حَتَّى إِذَا بَلَغَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ خَرَّا عَلَى وُجُوهِهِمَا ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”لوگ مدینہ کو چھوڑ دیں گے اور وہ بہتر ہو گا اور نہ رہے گا اس میں کوئی مگر درندے اور پرندے، پھر نکلیں گے دو چرواہے قبیلہ مزینہ سے ارادہ کرتے ہوں گے مدینہ کا، للکارتے ہوں گے اپنی بکریوں کو اور پائیں گے مدینہ کو ویران یہاں تک کہ جب پہنچیں گے ثنیتہ الوداع تک کہ ٹیلہ ہے گر پڑیں گے اپنے منہ کے بل۔“
حدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ ، فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْمَازِنيِّ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " مَا بَيْنَ بَيْتِي، وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ".
سیدنا عبداللہ بن زید المازنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کے درمیان ایک چمن ہے جنت کے چمنوں میں سے۔“
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا بَيْنَ مِنْبَرِي، وَبَيْتِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حدثنا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحدثنا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ خُبَيْبِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " مَا بَيْنَ بَيْتِي، وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ، وَمِنْبَرِي عَلَى حَوْضِي ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے گھر اور منبر کے بیچ میں ایک کیاری ہے جنت کی کیاریوں میں سے اور منبر میرا میرے حوض پر ہے۔“
حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعَنْبِيُّ ، حدثنا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ السَّاعِدِيِّ ، عَنْ أَبِي حُمَيْدٍ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَفِيهِ ثُمَّ أَقْبَلْنَا حَتَّى قَدِمْنَا وَادِي الْقُرَى، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي مُسْرِعٌ، فَمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ فَلْيُسْرِعْ مَعِي، وَمَنْ شَاءَ فَلْيَمْكُثْ "، فَخَرَجْنَا حَتَّى أَشْرَفْنَا عَلَى الْمَدِينَةِ، فقَالَ: " هَذِهِ طَابَةُ وَهَذَا أُحُدٌ، وَهُوَ جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ".
ابوحمید نے کہا کہ نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ تبوک میں اور حدیث بیان کی اور اس میں یہ کہا کہ چلے ہم یہاں تک کہ پہنچے وادی قریٰ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جلدی چلنے والا ہوں جس کا جی چاہے میرے ساتھ چلے اور جس کا جی چاہے ٹھہر کر آئے۔“ سو ہم نکلے یہاں تک کہ دیکھنے لگے مدینہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ طابہ ہے اور یہ احد ہے اور یہ پہاڑ ایسا ہے کہ ہم اس کو دوست رکھتے ہیں اور یہ ہم کو دوست رکھتا ہے۔“
حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، حدثنا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”احد پہاڑ ہے کہ وہ ہم کو دوست رکھتا ہے اور ہم اس کو۔“
وحَدَّثَنِيهِ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنِي حَرَمِيُّ بْنُ عُمَارَةَ ، حدثنا قُرَّةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: نَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أُحُدٍ، فقَالَ: " إِنَّ أُحُدًا جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِعَمْرٍو، قَالَا: حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز میری اس مسجد میں ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی افضل ہے سوا المسجد الحرام کے یعنی مکہ کی مسجد کے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ عبدَ: أَخْبَرَنا، وَقَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِي غَيْرِهِ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک نماز میری اس مسجد میں ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی افضل ہے سوا المسجد الحرام کے۔“
حَدَّثَنِي إِسْحَاقَ بْنُ مَنْصُورٍ ، حدثنا عِيسَى بْنُ الْمُنْذِرِ الْحِمْصِيُّ ، حدثنا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا الزُّبَيْدِيُّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وأبى عبد الله الأغر ، مولى الجهنيين، وكان من أصحاب أبي هريرة، أنهما سمعاأبا هريرة ، يَقُولُ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدَهُ آخِرُ الْمَسَاجِدِ "، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ، وَأَبُو عَبْدِ اللَّهِ، لَمْ نَشُكَّ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ كَانَ يَقُولُ، عَنْ حَدِيثِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنَعَنْا ذَلِكَ أَنْ نَسْتَثْبِتَ أَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِكَ الْحَدِيثِ حَتَّى إِذَا تُوُفِّيَ أَبُو هُرَيْرَةَ تَذَاكَرْنَا ذَلِكَ، وَتَلَاوَمْنَا أَنْ لَا نَكُونَ كَلَّمْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ فِي ذَلِكَ حَتَّى يُسْنِدَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنْ كَانَ سَمِعَهُ مِنْهُ، فَبَيْنَا نَحْنُ عَلَى ذَلِكَ جَالَسَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَارِظٍ ، فَذَكَرْنَا ذَلِكَ الْحَدِيثَ، وَالَّذِي فَرَّطْنَا فِيهِ مِنْ نَصِّ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْهُ، فقَالَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ، قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنِّي آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ، وَإِنَّ مَسْجِدِي آخِرُ الْمَسَاجِدِ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ایک نماز مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجدوں کی سوا مسجد الحرام کے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر الانبیا ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد آخر مساجد ہے۔“ (یعنی جو نبیوں نے بنائی ہے) اور ابوسلمہ اور ابوعبداللہ نے کہا کہ بلاشک سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جو یہ بات کہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے کہی ہو گی (اس لیے کہ ایسی بات کوئی قیاس سے نہیں کہہ سکتا) اور ہم نے اس حدیث کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے پکے طور سے دریافت نہیں کیا تو اسی وجہ سے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو گا، جب تو کہا یہاں تک کہ جب وفات ہوئی سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی تو ہم نے آپس میں اس کا ذکر کیا اور ایک دوسرے کو ملامت کی کہ کیوں نہ پوچھ لیا ہم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کو کہ وہ نسبت کرتے اس حدیث کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوتی۔ غرض ہم اسی بات چیت میں تھے کہ عبداللہ بن ابراہیم کے پاس جابیٹھے اور ان سے اس کا ذکر کیا اور یہ وجہ بیان کی جس کے سبب سے ہم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس کو دریافت نہیں کیا تھا تب عبداللہ نے ہم سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے ہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”بے شک میں آخر الانبیا ہوں اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى وَابْنُ أَبِي عُمَرَ جَمِيعًا، عَنِ الثَّقَفِيِّ ، قَالَ بْنُ الْمُثَنَّى حدثنا عَبْدُ الْوَهَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أَبَا صَالِحٍ هَلْ سَمِعْتَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَذْكُرُ فَضْلَ الصَّلَاةِ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فقَالَ: لَا، وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ قَارِظٍ : أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ، أَوْ كَأَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ "،
یحییٰ بن سعید کہتے تھے کہ میں نے ابوصالح سے پوچھا کہ تم نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز کی فضیلت بیان فرماتے تھے انہوں نے کہا کہ نہیں مگر مجھے عبداللہ بن ابراہیم نے خبر دی ہے کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:”ایک نماز میری اس مسجد میں بہتر ہے ہزاروں نمازوں سے جو اور مسجدوں میں ادا ہوں مگر مسجد حرام میں۔“
وحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ،وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، قَالُوا: حدثنا يَحْيَى الْقَطَّانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِي هَذَا أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ، إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایک نماز میری اس مسجد میں افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجد میں پڑھنے سے سوا المسجد الحرام کے۔“
وَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ . ح وَحَدَّثَنَاهُ ابْنُ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي . ح وَحَدَّثَنَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، كُلُّهُمْ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ بِمِثْلِهِ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔ آگے وہی جو اوپر گزرا۔
وحدثناه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحدثنا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، جميعا عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ قُتَيْبَةُ: حدثنا لَيْثٌ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: إِنَّ امْرَأَةً اشْتَكَتْ شَكْوَى، فقَالَت: إِنْ شَفَانِي اللَّهُ لَأَخْرُجَنَّ، فَلَأُصَلِّيَنَّ فِي بَيْتِ الْمَقْدِس، فَبَرَأَتْ، ثُمَّ تَجَهَّزَتْ تُرِيدُ الْخُرُوجَ، فَجَاءَتْ مَيْمُونَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تُسَلِّمُ عَلَيْهَا فَأَخْبَرَتْهَا ذَلِكَ، فقَالَت: اجْلِسِي فَكُلِي مَا صَنَعْتِ، وَصَلِّي فِي مَسْجِدِ الرَّسُولِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " صَلَاةٌ فِيهِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ مِنَ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا مَسْجِدَ الْكَعْبَةِ ".
سیدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک عورت بیمار ہوئی اور اس نے کہا کہ اگر اللہ تعالٰی نے مجھے شفا دی تو میں جاؤں گی اور بیت المقدس میں نماز پڑھوں گی پھر وہ اچھی ہو گئی اور تیاری کی اس نے جانے کی اور سيده میمونہ رضی اللہ عنہا ام المؤمنین بی بی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کے پاس حاضر ہوئی اور ان کو سلام کیا اور اپنے ارادے کی خبر دی تو انہوں نے فرمایا: کہ جو تم نے توشہ تیار کیا ہے وہ کھاؤ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد مبارک میں نماز پڑھو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے وہ فرماتے تھے: کہ ”ایک نماز اس میں ادا کرنا افضل ہے ہزار نمازوں سے اور مسجدوں سے سوا مسجد کعبہ کے۔“
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو : حدثنا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِي هَذَا، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ، وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ کجاوے نہ باندھے جائیں مگر تین مسجدوں کی طرف ایک میری یہ مسجد یعنی جو مدینہ میں ہے اور مسجد الحرام اور مسجد اقصیٰ۔“ (یعنی بیت المقدس)۔
وحدثناه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ.
زہری سے اس سند سے روایت ہے علاوہ اس کے کہ تین مساجد کی طرف کجاوے باندھے جائیں۔
وحدثنا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَنَّ عِمْرَانَ بْنَ أَبِي أَنَسٍ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ سَلْمَانَ الْأَغَرَّ ، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ : يُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم، قَالَ: " إِنَّمَا يُسَافَرُ إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِ الْكَعْبَةِ، وَمَسْجِدِي، وَمَسْجِدِ إِيلِيَاءَ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ خبر دیتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”سفر نہ کرے کوئی مگر تین مسجدوں کی طرف مسجد کعبہ اور میری مسجد اور مسجد ایلیاء۔“ (یعنی بیت المقدس)۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حدثنا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدٍ الْخَرَّاطِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: مَرَّ بِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ لَهُ: كَيْفَ سَمِعْتَ أَبَاكَ يَذْكُرُ فِي الْمَسْجِدِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى؟ قَالَ: قَالَ أَبِي : دَخَلْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ بَعْضِ نِسَائِهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْمَسْجِدَيْنِ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى؟ قَالَ: فَأَخَذَ كَفًّا مِنْ حَصْبَاءَ، فَضَرَبَ بِهِ الْأَرْضَ، ثُمَّ قَالَ: " هُوَ مَسْجِدُكُمْ هَذَا لِمَسْجِدِ الْمَدِينَةِ "، قَالَ: فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ أَبَاكَ هَكَذَا يَذْكُرُهُ.
ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میرے پاس سے عبدالرحمٰن بن ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ گزرے اور میں نے ان سے کہا کہ آپ نے اپنے والد کو کیسے سنا کہ وہ بیان فرماتے تھے کہ وہ مسجد کون سی ہے جس کی بنا تقویٰ پر ہوئی ہے تو انہوں نے کہا کہ میرے باپ نے کہا کہ داخل ہوا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلمکی بیبیوں رضی اللہ عنہن سے کسی کے گھر میں اور میں نے عرض کی کہ اے رسول اللہ کے! وہ مسجد کون سی ہے جس کو اللہ فرماتا ہے کہ تقویٰ پر بنائی گئی ہے؟ سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مٹھی کنکر لیے اور زمین پر مارے اور فرمایا: کہ ”وہ یہی تمہاری مسجد ہے مدینہ کی مسجد۔“ سو میں نے کہا کہ میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے بھی تمہارے والد سے سنا ہے کہ ایسا ہی ذکر کرتے تھے اس مسجد کا۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَسَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، قَالَ سَعِيدٌ: أَخْبَرَنا، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حدثنا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، عَنْ حُمَيْدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي سَعِيدٍ، فِي الْإِسْنَادِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث اسی طرح مذکور ہے۔
حدثنا أَبُو جَعْفَرٍ أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ ، حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حدثنا أَيُّوبُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَزُورُ قُبَاءً رَاكِبًا وَمَاشِيًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کرتے تھے مسجد قباء کی سوار بھی اور پیادہ بھی۔
وحدثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حدثنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَأَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ . ح وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حدثنا أَبِي ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ رَاكِبًا وَمَاشِيًا، فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ "، قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: فَيُصَلِّي فِيهِ رَكْعَتَيْنِ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا تشریف لاتے تھے سوار بھی اور پیادہ بھی اور اس میں دو رکعت ادا کرتے تھے۔
وحدثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حدثنا يَحْيَى ، حدثنا عُبَيْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَأْتِي قُبَاءً رَاكِبًا وَمَاشِيًا "،
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی صلی اللہ علیہ وسلممسجد قباء میں پیدل اور سوار آیا کرتے تھے۔
وحَدَّثَنِي أَبُو مَعَنِ الرَّقَاشِيُّ زَيْدُ بْنُ يَزِيدَ الثّقَفِيُّ بَصْرِيٌّ ثِقَةٌ، حدثنا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ يَحْيَى الْقَطَّانِ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَأْتِي قُبَاءً رَاكِبًا وَمَاشِيًا ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحدثنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حدثنا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي قُبَاءً رَاكِبًا وَمَاشِيًا ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حدثنا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ : أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " كَانَ يَأْتِي قُبَاءً كُلَّ سَبْتٍ، وَكَانَ يَقُولُ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِيهِ كُلَّ سَبْتٍ ".
عبداللہ بن دینار نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ہر ہفتہ میں ایک بار جاتے تھے مسجد قبا میں اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے كہ آپصلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ میں جاتے تھے۔
وحدثناه ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حدثنا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " كَانَ يَأْتِي قُبَاءً يَعْنِي كُلَّ سَبْتٍ كَانَ يَأْتِيهِ رَاكِبًا وَمَاشِيًا "، قَالَ ابْنُ دِينَارٍ: وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَفْعَلُهُ،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قباء کو آتے تھے ہر ہفتہ میں اور آتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار بھی اور پیادہ بھی اور ابن دینار نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حدثنا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ ابْنِ دِينَارٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ: كُلَّ سَبْتٍ.
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مذکور ہے مگر اس میں ہر ہفتے کا ذکر نہیں۔