حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْعَدَوِيِّ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ أَنَّهُ حَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ فِيهَا دَمًا أَوْ يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً، فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ بِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا، فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يَأْذَنْ لَكَ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهِ سَاعَةً مِنَ النَّهَارِ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ ". فَقِيلَ لِأَبِي شُرَيْحٍ: مَا قَالَ لَكَ عَمْرٌو ؟ قَالَ: أَنَا أَعْلَمُ مِنْكَ بِذَلِكَ يَا أَبَا شُرَيْحٍ إِنَّ الْحَرَمَ لَا يُعِيذُ عَاصِيًا وَلَا فَارًّا بِدَمٍ وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُرْوَى وَلَا فَارًّا بِخِزْيَةٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي شُرَيْحٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيُّ اسْمُهُ خُوَيْلِدُ بْنُ عَمْرٍو وَهُوَ الْعَدَوِيُّ وَهُوَ الْكَعْبِيُّ، وَمَعْنَى قَوْلِهِ: وَلَا فَارًّا بِخَرْبَةٍ يَعْنِي الْجِنَايَةَ، يَقُولُ: مَنْ جَنَى جِنَايَةً أَوْ أَصَابَ دَمًا ثُمَّ لَجَأَ إِلَى الْحَرَمِ، فَإِنَّهُ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ.
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: "مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو، یہ جائز نہیں کہ وہ اس میں خون بہائے، یا اس کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کو دلیل بنا کر (قتال کا) جواز نکالے تو اس سے کہو: اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دی تھی، تمہیں نہیں دی ہے۔ تو مجھے بھی دن کے کچھ وقت کے لیے آج اجازت تھی، آج اس کی حرمت ویسے ہی لوٹ آئی ہے جیسے کل تھی۔ جو لوگ موجود ہیں وہ یہ بات ان لوگوں کو پہنچا دیں جو موجود نہیں ہیں"، ابوشریح سے پوچھا گیا: اس پر عمرو بن سعید نے آپ سے کیا کہا؟ کہا: اس نے مجھ سے کہا: ابوشریح! میں یہ بات آپ سے زیادہ اچھی طرح جانتا ہوں، حرم مکہ کسی نافرمان (یعنی باغی) کو پناہ نہیں دیتا اور نہ کسی کا خون کر کے بھاگنے والے کو اور نہ چوری کر کے بھاگنے والے کو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوشریح رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابوشریح خزاعی کا نام خویلد بن عمرو ہے۔ اور یہی عدوی اور کعبی یہی ہیں، ۳- اس باب میں ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- «ولا فارا بخربة» کی بجائے «ولا فارا بخزية» زائے منقوطہٰ اور یاء کے ساتھ بھی مروی ہے، ۵- اور «ولا فارا بخربة» میں «خربہ» کے معنی گناہ اور جرم کے ہیں یعنی جس نے کوئی جرم کیا یا خون کیا پھر حرم میں پناہ لی تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۳۷ (۱۰۴) ، وجزاء الصید ۸ (۱۸۳۲) ، والمغازي ۵۱ (۴۲۹۵) ، صحیح مسلم/الحج ۸۲ (۱۳۵۴) ، سنن النسائی/الحج ۱۱۱ (۲۸۷۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۰۵۷) ، مسند احمد (۴/۳۱) ، ویأتي عند المؤلف في الدیات (برقم: ۱۴۰۶) ، و مسند احمد (۶/۳۸۵) من غیر ہذا الطریق (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت ۵ھ یا ۶ھ میں ہوئی اور بعض نے ۹ھ یا ۱۰ھ کہا ہے ، زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔ ۲؎ : عمرو بن سعید : یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَابِعُوا بَيْنَ الْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ، وَلَيْسَ لِلْحَجَّةِ الْمَبْرُورَةِ ثَوَابٌ إِلَّا الْجَنَّةُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ، وَأُمِّ سَلَمَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، مِنْ حَدِيثِ عَبْدُ الله ابْنِ مَسْعُودٍ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حج اور عمرہ ایک کے بعد دوسرے کو ادا کرو اس لیے کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو اس طرح مٹا دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کے میل کو مٹا دیتی ہے اور حج مبرور ۱؎ کا بدلہ صرف جنت ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن ہے، اور ابن مسعود کی روایت سے غریب ہے، ۲- اس باب میں عمر، عامر بن ربیعہ، ابوہریرہ، عبداللہ بن حبشی، ام سلمہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۶ (۲۶۳۲) ، (تحفة الأشراف : ۹۲۷۴) ، مسند احمد (۱/۳۸۷) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حج مبرور وہ حج ہے جس میں حاجی اللہ کی کسی نافرمانی کا ارتکاب نہ کرے اور بعض نے حج مبرور کے معنی حج مقبول کے کئے ہیں ، اس کی علامت یہ بتائی ہے کہ حج کے بعد وہ انسان اللہ کا عبادت گزار بن جائے جب کہ وہ اس سے پہلے غافل رہا ہو۔ اور ہر طرح کے شرک و کفر اور بدعت اور فسق و فجور کے کام سے تائب ہو کر اسلامی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَجَّ فَلَمْ يَرْفُثْ وَلَمْ يَفْسُقْ غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَازِمٍ كُوفِيٌّ وَهُوَ الْأَشْجَعِيُّ وَاسْمُهُ سَلْمَانُ مَوْلَى عَزَّةَ الْأَشْجَعِيَّةِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے حج کیا اور اس نے کوئی فحش اور بیہیودہ بات نہیں کی، اور نہ ہی کوئی گناہ کا کام کیا ۱؎تو اس کے گزشتہ تمام گناہ ۲؎ بخش دئیے جائیں گے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۴ (۱۵۲۱) ، والمحصر ۹ (۱۸۱۹) ، و۱۰ (۱۸۲۰) ، صحیح مسلم/الحج ۷۹ (۱۳۵۰) ، سنن النسائی/الحج ۴ (۲۶۲۸) ، سنن ابن ماجہ/الحج ۳ (۲۸۸۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۴۳۱) ، مسند احمد (۲/۴۱۰، ۴۸۴، ۴۹۴) (صحیح) (غفر له ما تقدم من ذنبه کا لفظ شاذ ہے، اور اس کی جگہ رجع من ذنوبه كيوم ولدته أمهصحیح اور متفق علیہ ہے، تراجع الالبانی ۳۴۲)
وضاحت: ۱؎ : «رفث» کے اصل معنی جماع کرنے کے ہیں ، یہاں مراد فحش گوئی اور بے ہودگی کی باتیں کرنی اور بیوی سے زبان سے جنسی خواہش کی آرزو کرنا ہے ، حج کے دوران چونکہ بیوی سے مجامعت جائز نہیں ہے اس لیے اس موضوع پر اس سے گفتگو بھی ناپسندیدہ ہے ، اور «فسق» سے مراد اللہ کی نافرمانی ہے ، اور«جدال» سے مراد لوگوں سے لڑائی جھگڑا ہے ، دوران حج ان چیزوں سے اجتناب ضروری ہے۔ ۲؎ : اس سے مراد وہ صغیر (چھوٹے) گناہ ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے ، رہے بڑے بڑے گناہ اور وہ چھوٹے گناہ جو حقوق العباد سے متعلق ہیں تو وہ توبہ حق کے ادا کئے بغیر معاف نہیں ہوں گے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى رَبِيعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ الْبَاهِلِيِّ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَفِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَهِلَالُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ مَجْهُولٌ، وَالْحَارِثُ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت اللہ تک پہنچا سکے اور وہ حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہو کر مرے یا عیسائی ہو کر، اور یہ اس لیے کہ اللہ نے اپنی کتاب (قرآن) میں فرمایا ہے: "اللہ کے لیے بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے ۱؎، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- اس کی سند میں کلام ہے۔ ہلال بن عبداللہ مجہول راوی ہیں۔ اور حارث حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (ضعیف) (سند میں ہلال اور حارث اعور دونوں ضعیف راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎ : ضعیف ہے ، مگر علی رضی الله عنہ کے اپنے قول سے صحیح ہے ، اور ایسی بات کوئی صحابی اپنی رائے سے نہیں کہہ سکتا۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا يُوجِبُ الْحَجَّ ؟ قَالَ: " الزَّادُ وَالرَّاحِلَةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً وَجَبَ عَلَيْهِ الْحَجُّ، وَإِبْرَاهِيمُ هُوَ ابْنُ يَزِيدَ الْخُوزِيُّ الْمَكِّيُّ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا چیز حج واجب کرتی ہے؟ آپ نے فرمایا:"سفر خرچ اور سواری"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابراہیم ہی ابن یزید خوزی مکی ہیں اور ان کے حافظہ کے تعلق سے بعض اہل علم نے ان پر کلام کیا ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ آدمی جب سفر خرچ اور سواری کا مالک ہو جائے تو اس پر حج واجب ہو جاتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصیام ۶ (۲۸۹۶) ، ویأتي في التفسیر (برقم: ۲۹۹۸) (تحفة الأشراف : ۸۴۴) (ضعیف جدا) (سند میں ’’ ابراہیم بن یزید الخوزی ‘‘ متروک الحدیث راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا مَنْصُورُ بْنُ وَرْدَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلا سورة آل عمران آية 97 قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفِي كُلِّ عَامٍ ؟ فَسَكَتَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ: " لَا، وَلَوْ قُلْتُ: نَعَمْ، لَوَجَبَتْ " فَأَنْزَلَ اللَّهُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَاسْمُ أَبِي البَخْتَرِيِّ سَعِيدُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ وَهُوَ سَعِيدُ بْنُ فَيْرُوزَ.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب یہ حکم نازل ہوا کہ "اللہ کے لیے لوگوں پر خانہ کعبہ کا حج فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھیں"، تو لوگوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا حج ہر سال (فرض ہے) ؟ آپ خاموش رہے۔ لوگوں نے پھر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا ہر سال؟ آپ نے فرمایا: "نہیں"، اور "اگر میں ہاں کہہ دیتا تو (ہر سال) واجب ہو جاتا اور پھر اللہ نے یہ حکم نازل فرمایا: "اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت پوچھا کرو کہ اگر وہ تمہارے لیے ظاہر کر دی جائیں تو تم پر شاق گزریں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- ابوالبختری کا نام سعید بن ابی عمران ہے اور یہی سعید بن فیروز ہیں، ۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصیام ۲ (۲۸۸۴) ، ویأتي عند المؤلف في تفسیر المائدہ (۳۰۵۵) (ضعیف) (سند میں ابو البختری کی علی رضی الله عنہ سے معاصرت وسماع نہیں ہے، اس لیے سند منقطع ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَاب، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّ ثَلَاثَ حِجَجٍ، حَجَّتَيْنِ قَبْلَ أَنْ يُهَاجِرَ، وَحَجَّةً بَعْدَ مَا هَاجَرَ وَمَعَهَا عُمْرَةٌ، فَسَاقَ ثَلَاثَةً وَسِتِّينَ بَدَنَةً، وَجَاءَ عَلِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ بِبَقِيَّتِهَا فِيهَا جَمَلٌ لِأَبِي جَهْلٍ فِي أَنْفِهِ بُرَةٌ مِنْ فِضَّةٍ فَنَحَرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " وَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كُلِّ بَدَنَةٍ بِبَضْعَةٍ فَطُبِخَتْ وَشَرِبَ مِنْ مَرَقِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ زَيْدِ بْنِ حُبَاب، وَرَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ فِي كُتُبِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا فَلَمْ يَعْرِفْهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَأَيْتُهُ لَمْ يَعُدَّ هَذَا الْحَدِيثَ مَحْفُوظًا، وقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَى عَنْ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ مُجَاهِدٍ مُرْسَلًا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین حج کئے، دو حج ہجرت سے پہلے اور ایک حج ہجرت کے بعد، اس کے ساتھ آپ نے عمرہ بھی کیا اور ترسٹھ اونٹ ہدی کے طور پر ساتھ لے گئے اور باقی اونٹ یمن سے علی لے کر آئے۔ ان میں ابوجہل کا ایک اونٹ تھا۔ اس کی ناک میں چاندی کا ایک حلقہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نحر کیا، پھر آپ نے ہر اونٹ میں سے ایک ایک ٹکڑا لے کر اسے پکانے کا حکم دیا، تو پکایا گیا اور آپ نے اس کا شوربہ پیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث سفیان کی روایت سے غریب ہے، ہم اسے صرف زید بن حباب کے طریق سے جانتے ہیں ۱؎، ۲- میں نے عبداللہ بن عبدالرحمٰن دارمی کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں یہ حدیث عبداللہ بن ابی زیاد کے واسطہ سے روایت کی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے سلسلے میں پوچھا تو وہ اسے بروایت «الثوري عن جعفر عن أبيه عن جابر عن النبي صلى الله عليه وسلم» نہیں جان سکے، میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس حدیث کو محفوظ شمار نہیں کیا، اور کہا: یہ ثوری سے روایت کی جاتی ہے اور ثوری نے ابواسحاق سے اور ابواسحاق نے مجاہد سے مرسلاً روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحج ۸۴ (۳۰۷۶) (تحفة الأشراف : ۲۶۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابن ماجہ کے یہاں "عبدالرحمٰن بن داود" نے "زید بن حباب" کی متابعت کی ہے ، نیز ان کے یہاں اس کی ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت شاہد بھی موجود ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: كَمْ حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: " حَجَّةً وَاحِدَةً وَاعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ، عُمْرَةٌ فِي ذِي الْقَعْدَةِ وَعُمْرَةُ الْحُدَيْبِيَةِ وَعُمْرَةٌ مَعَ حَجَّتِهِ وَعُمْرَةُ الجِعِرَّانَةِ إِذْ قَسَّمَ غَنِيمَةَ حُنَيْنٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ هُوَ أَبُو حَبِيبٍ الْبَصْرِيُّ هُوَ جَلِيلٌ ثِقَةٌ، وَثَّقَهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ.
قتادۃ کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے حج کئے؟ انہوں نے کہا: صرف ایک حج ۱؎ اور چار عمرے کئے۔ ایک عمرہ ذی قعدہ میں، ایک عمرہ حدیبیہ ۲؎ میں اور ایک عمرہ اپنے حج کے ساتھ، اور ایک جعرانہ ۳؎ کا عمرہ جب آپ نے حنین کا مال غنیمت تقسیم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمرة ۳ (۱۷۷۸) ، صحیح مسلم/الحج ۳۵ (۱۲۵۳) ، سنن ابی داود/ المناسک ۸۰ (۱۹۹۴) (تحفة الأشراف : ۱۳۹۳) ، مسند احمد (۳/۲۵۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۳ (۱۸۲۸)
وضاحت: ۱؎ : یہ حجۃ الوداع ہے۔ ۲؎ : مکہ سے نو میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔ جہاں صلح حدیبیہ منعقد ہوئی تھی۔ ۳؎ : مکہ سے نو میل کی دوری پر اور ایک قول کے مطابق چھ میل کی دوری پر ایک جگہ کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ: عُمْرَةَ الْحُدَيْبِيَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّانِيَةِ مِنْ قَابِلٍ، وَعُمْرَةَ الْقَضَاءِ فِي ذِي الْقَعْدَةِ، وَعُمْرَةَ الثَّالِثَةِ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ، وَالرَّابِعَةِ الَّتِي مَعَ حَجَّتِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ،
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے: حدیبیہ کا عمرہ، دوسرا عمرہ اگلے سال یعنی ذی قعدہ میں قضاء کا عمرہ، تیسرا عمرہ جعرانہ ۱؎ کا، چوتھا عمرہ جو اپنے حج کے ساتھ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں انس، عبداللہ بن عمرو اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المناسک ۸۰ (۱۹۹۳) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵۰ (۳۰۰۳) (تحفة الأشراف : ۶۱۶۸) ، مسند احمد (۱/۲۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جعرانہ طائف اور مکہ کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ حنین کے مال غنیمت کی تقسیم کے بعد یہیں سے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔
وَرَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " اعْتَمَرَ أَرْبَعَ عُمَرٍ " وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ: حَدَّثَنَا بِذَلِكَ سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
ابن عیینہ نے بسند عمرو بن دینار عن عکرمہ روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے، اس میں عکرمہ نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، پھر ترمذی نے اپنی سند سے اسے عکرمہ سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم … آگے اسی طرح کی حدیث ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۶۱۶۸) (حسن) (یہ مرسل ہے، لیکن سابقہ سند سے تقویت پا کر حسن لغیرہ ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " لَمَّا أَرَادَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا، فَلَمَّا أَتَى الْبَيْدَاءَ أَحْرَمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ، وَالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کا ارادہ کیا تو آپ نے لوگوں میں اعلان کرایا۔ (مدینہ میں) لوگ اکٹھا ہو گئے، چنانچہ جب آپ (وہاں سے چل کر) بیداء پہنچے تو احرام باندھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، انس، مسور بن مخرمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۶۱۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درحقیقت ذو الحلیفہ کی مسجد میں نماز کے بعد احرام باندھا ، دیکھئیے اگلی حدیث۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: الْبَيْدَاءُ الَّتِي يَكْذِبُونَ فِيهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " وَاللَّهِ مَا أَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا مِنْ عِنْدِ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الشَّجَرَةِ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں: بیداء جس کے بارے میں لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھتے ہیں (کہ وہاں سے احرام باندھا) ۱؎ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد (ذی الحلیفہ) کے پاس درخت کے قریب تلبیہ پکارا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۲ (۱۵۱۵) ، و۲۰ (۱۵۴۱) ، والجہاد ۵۳ (۲۸۶۵) ، صحیح مسلم/الحج (۱۱۸۶) ، سنن ابی داود/ المناسک ۲۱ (۱۷۷۱) ، سنن النسائی/الحج ۵۶ (۲۷۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۲۰) ، موطا امام مالک/الحج ۹ (۳۰) ، مسند احمد (۲/۱۰، ۶۶، ۱۵۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ بات ابن عمر نے ان لوگوں کی غلط فہمی کے ازالہ کے لیے کہی جو یہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیداء کے مقام سے احرام باندھا تھا۔۲؎ : ان روایات میں بظاہر تعارض ہے ، ان میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ آپ نے احرام تو مسجد کے اندر ہی باندھا تھا جنہوں نے وہاں آپ کے احرام کا مشاہدہ کیا انہوں نے اس کا ذکر کیا اور جب آپ مسجد سے باہر تشریف لائے اور اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور بلند آواز سے تلبیہ پکارا تو دیکھنے والوں نے سمجھا کہ آپ نے اسی وقت احرام باندھا ہے ، پھر جب آپ بیداء پر پہنچے اور آپ نے لبیک کہا تو جن حضرات نے وہاں لبیک کہتے سنا انہوں نے سمجھا کہ آپ نے یہاں احرام باندھا ہے ، گویا ہر شخص نے اپنے مشاہدہ کے مطابق خبر دی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَهَلَّ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ غَيْرَ عَبْدِ السَّلَامِ بْنِ حَرْبٍ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يُحْرِمَ الرَّجُلُ فِي دُبُرِ الصَّلَاةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے بعد احرام باندھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم عبدالسلام بن حرب کے علاوہ کسی کو نہیں جانتے جس نے یہ حدیث روایت کی ہو، ۳- جس چیز کو اہل علم نے مستحب قرار دیا ہے وہ یہی ہے کہ آدمی نماز کے بعد احرام باندھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۵۶ (۲۷۵۵) (تحفة الأشراف : ۵۵۰۲) (ضعیف) (سند میں خصیف مختلط راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفْرَدَ الْحَجَّ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ. (حديث مرفوع) وَرُوِي عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفْرَدَ الْحَجَّ ". وَأَفْرَدَ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نَافِعٍ الصَّائِغُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ بِهَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وقَالَ الثَّوْرِيُّ: إِنْ أَفْرَدْتَ الْحَجَّ فَحَسَنٌ وَإِنْ قَرَنْتَ فَحَسَنٌ وَإِنْ تَمَتَّعْتَ فَحَسَنٌ. وقَالَ الشَّافِعِيُّ مِثْلَهُ، وَقَالَ: أَحَبُّ إِلَيْنَا الْإِفْرَادُ ثُمَّ التَّمَتُّعُ ثُمَّ الْقِرَانُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد ۱؎ کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج افراد کیا، ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی افراد کیا، ۵-ثوری کہتے ہیں کہ حج افراد کرو تو بھی بہتر ہے، حج قران کرو تو بھی بہتر ہے اور حج تمتع کرو تو بھی بہتر ہے۔ شافعی نے بھی اسی جیسی بات کہی، ۶- کہا: ہمیں سب سے زیادہ افراد پسند ہے پھر تمتع اور پھر قران۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۱۷ (۱۲۱۱) ، سنن ابی داود/ المناسک ۲۳ (۱۷۷۷) ، سنن النسائی/الحج ۴۸ (۲۷۱۶) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۳۷ (۲۹۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۵۱۷) ، موطا امام مالک/الحج ۱۱ (۳۷) ، سنن الدارمی/المناسک ۱۶ (۱۸۵۳) (صحیح الإسناد شاذ) وأخرجہ مسند احمد (۶/۲۴۳) من غیر ہذا الطریق۔(نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا حج، حج قران تھا، اس لیے صحت سند کے باوجود متن شاذ ہے)۔
وضاحت: ۱؎ حج کی تین قسمیں ہیں : افراد ، قِران اور تمتع ، حج افراد یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں صرف حج کی نیت سے احرام باندھے ، اور حج قِران یہ ہے کہ حج اور عمرہ دونوں کی ایک ساتھ نیت کرے ، اور قربانی کا جانور ساتھ ، جب کہ حج تمتع یہ ہے کہ حج کے مہینے میں میقات سے صرف عمرے کی نیت کرے پھر مکہ میں جا کر عمرہ کی ادائیگی کے بعد احرام کھول دے اور پھر آٹھویں تاریخ کو مکہ مکرمہ ہی سے نئے سرے سے احرام باندھے۔ اب رہی یہ بات کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا حج کیا تھا ؟ تو صحیح بات یہ ہے کہ آپ نے قِران کیا تھا ، تفصیل کے لیے حدیث رقم ۸۲۲ کا حاشیہ دیکھیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَبَّيْكَ بِعُمْرَةٍ وَحَجَّةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا، وَاخْتَارُوهُ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «لبيك بعمرة وحجة» فرماتے سنا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور عمران بن حصین سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں، اہل کوفہ وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۱۱) (صحیح) وقد أخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازی ۶۱ (۴۳۵۴) ، وصحیح مسلم/الحج ۲۷ (۱۲۳۲) ، من غیر ھذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرے دونوں کا تلبیہ ایک ساتھ پکارا۔ انس رضی الله عنہ کا بیان اس بنیاد پر ہے کہ جب آپ کو حکم دیا گیا کہ حج میں عمرہ بھی شامل کر لیں تو آپ سے کہا گیا «قل عمرۃ فی حجۃ» اس بناء کے انس نے یہ روایت بیان کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ لَيْثٍ،عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعُثْمَانُ وَأَوَّلُ مَنْ نَهَى عَنْهَا مُعَاوِيَةُ. قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کیا ۱؎ اور ابوبکر، عمر اور عثمان رضی الله عنہم نے بھی ۲؎ اور سب سے پہلے جس نے اس سے روکا وہ معاویہ رضی الله عنہ ہیں ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف و۳۴ (۱۲۵۱) ، و سنن ابی داود/ المناسک ۲۴ (۱۷۹۵) ، وسنن ابن ماجہ/الحج ۱۴ (۲۹۱۷) ، و۳۸ (۲۹۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۵۷۴۵) ، و مسند احمد (۳/۹۹) ، وسنن الدارمی/المناسک ۷۸ (۱۹۶۴) ، من غیر ہذا الطریق وبتصرف فی السیاق (ضعیف الإسناد) (سند میں لیث بن ابی سُلیم اختلاط کی وجہ سے متروک الحدیث راوی ہے، لیکن اس حدیث کا اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کون سا حج کیا تھا ؟ اس بارے میں احادیث مختلف ہیں ، بعض احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ نے حج افراد کیا اور بعض سے حج تمتع اور بعض سے حج قران ، ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ہر ایک نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اس چیز کی نسبت کر دی ہے جس کا آپ نے اسے حکم دیا تھا ، اور یہ صحیح ہے کہ آپ نے حج افراد کا احرام باندھا تھا اور بعد میں آپ قارن ہو گئے تھے ، جن لوگوں نے اس بات کی روایت کی ہے کہ آپ نے حج تمتع کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے انہیں اس کا حکم دیا کیونکہ آپ کا ارشاد ہے «لولا معي الهدى لأحللت» " اگر میرے ساتھ ہدی کا جانور نہ ہوتا تو میں عمرہ کرنے کے بعد حلال ہو جاتا " ، اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ آپ متمتع نہیں تھے ، نیز صحابہ کی اصطلاح میں قِران کو بھی تمتع کہا جاتا تھا ، کیونکہ ایک ہی سفر میں عمرہ اور حج دونوں کا فائدہ تو بہرحال حج قران میں بھی حاصل ہے ، اسی طرح جن لوگوں نے قران کی روایت کی ہے انہوں نے آخری حال کی خبر دی ہے کیونکہ شروع میں آپ کے پیش نظر حج افراد تھا بعد میں آپ نے حج میں عمرہ کو بھی شامل کر لیا ، اور آپ سے کہا گیا : «قل عمرة في حجة» اس طرح آپ نے حج افراد کو حج قِران سے بدل دیا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ ان تینوں قسموں میں سے کون سی قسم افضل ہے ؟ تو احناف حج قرِان کو افضل کہتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب کے لیے اسی حج کو پسند کیا تھا اور اس میں مشقت بھی زیادہ اٹھانی پڑتی ہے ، امام احمد اور امام مالک نے حج تمتع کو افضل کہا ہے کیونکہ اس میں سہولت ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرحلہ پر اس کی خواہش کا اظہار بھی فرمایا تھا اور بعض نے حج افراد کو افضل قرار دیا ہے۔ آخری اور حق بات یہی ہے کہ حج تمتع سب سے افضل ہے۔ ۲؎ : یہ حدیث مسلم کی اس روایت کے معارض ہے جس میں ہے : «قال عبدالله بن شقيق : كان عثمان ينهى عن المتعة وكان علي يأمربها» اور نیچے کی روایت سے عمر رضی الله عنہ کا منع کرنا بھی ثابت ہوتا ہے ، تطبیق اس طرح سے دی جاتی ہے کہ ان دونوں کی ممانعت تنزیہی تھی ، ان دونوں کی نہی اس وقت کی ہے جب انہیں اس کے جائز ہونے کا علم نہیں تھا ، پھر جب انہیں اس کا جواز معلوم ہوا تو انہوں نے بھی تمتع کیا۔ ۳؎ : روایات سے معاویہ رضی الله عنہ سے پہلے عمر و عثمان رضی الله عنہما سے ممانعت ثابت ہے ، ان کی یہ ممانعت تنزیہی تھی ، اور معاویہ رضی الله عنہ کی نہی تحریمی ، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ معاویہ رضی الله عنہ کی اوّلیت تحریم کے اعتبار سے تھی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ، وَالضَّحَّاكَ بْنَ قَيْسٍ وَهُمَا " يَذْكُرَانِ التَّمَتُّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: لَا يَصْنَعُ ذَلِكَ إِلَّا مَنْ جَهِلَ أَمْرَ اللَّهِ، فَقَالَ سَعْدٌ: بِئْسَ مَا قُلْتَ يَا ابْنَ أَخِي، فَقَالَ الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: فَإِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَدْ نَهَى عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ سَعْدٌ: قَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَنَعْنَاهَا مَعَهُ ". قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل کہتے ہیں کہ انہوں نے سعد بن ابی وقاص اور ضحاک بن قیس رضی الله عنہما سے سنا، دونوں عمرہ کو حج میں ملانے کا ذکر کر رہے تھے۔ ضحاک بن قیس نے کہا: ایسا وہی کرے گا جو اللہ کے حکم سے ناواقف ہو، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: بہت بری بات ہے جو تم نے کہی، میرے بھتیجے! تو ضحاک بن قیس نے کہا: عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے اس سے منع کیا ہے، اس پر سعد رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہے اور آپ کے ساتھ ہم نے بھی اسے کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۵۰ (۲۷۳۵) ، (تحفة الأشراف : ۳۹۲۸) ، موطا امام مالک/الحج ۱۹ (۶۰) ، سنن الدارمی/الحج ۱۸ (۱۸۵۵) (ضعیف الإسناد) (سند میں محمد بن عبداللہ بن حارث بن نوفل لین الحدیث ہیں، لیکن اصل مسئلہ دیگر احادیث سے ثابت ہے)
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ سَالِمَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الشَّامِ وَهُوَ يَسْأَلُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنِ التَّمَتُّعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: هِيَ حَلَالٌ، فَقَالَ الشَّامِيُّ: إِنَّ أَبَاكَ قَدْ نَهَى عَنْهَا، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ أَبِي نَهَى عَنْهَا وَصَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَأَمْرَ أَبِي نَتَّبِعُ أَمْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ: الرَّجُلُ بَلْ أَمْرَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: لَقَدْ صَنَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ سالم بن عبداللہ نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے اہل شام میں سے ایک شخص سے سنا، وہ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے حج میں عمرہ سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں پوچھ رہا تھا، تو عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: یہ جائز ہے۔ اس پر شامی نے کہا: آپ کے والد نے تو اس سے روکا ہے؟ عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے کہا: ذرا تم ہی بتاؤ اگر میرے والد کسی چیز سے روکیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کیا ہو تو میرے والد کے حکم کی پیروی کی جائے گی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو اس نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی، تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث (۸۲۲) حسن ہے، ۲- اس باب میں علی، عثمان، جابر، سعد، اسماء بنت ابی بکر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے ایک جماعت نے اسی کو پسند کیا ہے کہ حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنا درست ہے، ۴- اور حج تمتع یہ ہے کہ آدمی حج کے مہینوں میں عمرہ کے ذریعہ داخل ہو، پھر عمرہ کر کے وہیں ٹھہرا رہے یہاں تک کہ حج کر لے تو وہ متمتع ہے، اس پر ہدی کی جو اسے میسر ہو قربانی لازم ہو گی، اگر اسے ہدی نہ مل سکے تو حج میں تین دن اور گھر لوٹ کر سات دن کے روزے رکھے، ۵- متمتع کے لیے مستحب ہے کہ جب وہ حج میں تین روزے رکھے تو ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں میں رکھے اور اس کا آخری روزہ یوم عرفہ کو ہو، اور صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم جن میں ابن عمر اور عائشہ رضی الله عنہم بھی شامل ہیں کے قول کی رو سے اگر وہ دس دنوں میں یہ روزے نہ رکھ سکے تو ایام تشریق میں رکھ لے۔ یہی مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۶- اور بعض کہتے ہیں: ایام تشریق میں روزہ نہیں رکھے گا۔ یہ اہل کوفہ کا قول ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اہل حدیث حج میں عمرہ کو شامل کر کے حج تمتع کرنے کو پسند کرتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۸۶۲) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ تَلْبِيَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ، لَا شَرِيكَ لَكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنْ زَادَ فِي التَّلْبِيَةِ شَيْئًا مِنْ تَعْظِيمِ اللَّهِ فَلَا بَأْسَ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَأَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَإِنَّمَا قُلْنَا: لَا بَأْسَ بِزِيَادَةِ تَعْظِيمِ اللَّهِ فِيهَا، لِمَا جَاءَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَهُوَ حَفِظَ التَّلْبِيَةَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ زَادَ ابْنُ عُمَرَ فِي تَلْبِيَتِهِ مِنْ قِبَلِهِ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَلُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ یہ تھا «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» "حاضر ہوں، اے اللہ میں حاضر ہوں، حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں میں حاضر ہوں۔ سب تعریف اور نعمت تیری ہی ہے اور سلطنت بھی، تیرا کوئی شریک نہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، جابر، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا، ابن عباس اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- شافعی کہتے ہیں: اگر وہ اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات کا اضافہ کر لے تو کوئی حرج نہیں ہو گا - ان شاء اللہ- لیکن میرے نزدیک پسندیدہ بات یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ پر اکتفا کرے۔ شافعی کہتے ہیں: ہم نے جو یہ کہا کہ "اللہ کی تعظیم کے کچھ کلمات بڑھا لینے میں کوئی حرج نہیں تو اس دلیل سے کہ ابن عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تلبیہ یاد کیا پھر اپنی طرف سے اس میں «لبيك والرغباء إليك والعمل» "حاضر ہوں، تیری ہی طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے" کا اضافہ کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۵۹۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۲۶ (۱۵۴۹) ، واللباس ۶۹ (۵۹۵۱) ، صحیح مسلم/الحج ۳ (۱۱۸۳) ، سنن ابی داود/ الحج ۲۷ (۱۸۱۲) ، سنن النسائی/الحج ۵۴ (۲۷۴۸) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱ (۲۹۸) ، موطا امام مالک/الحج ۹ (۲۸) ، مسند احمد (۲/۳، ۲۸، ۳۴، ۴۱، ۴۳، ۴۷، ۴۸، ۵۳، ۷۶، ۷۷، ۷۹، ۱۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۱۳ (۱۸۴۹) ، من غیر ہذا الطریق، وانظر الحدیث الآتی۔
وضاحت: ۱؎ : جابر بن عبداللہ کی ایک روایت میں ہے کہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ میں اپنی طرف سے «ذا المعارج» اور اس جیسے کلمات بڑھاتے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سنتے تھے لیکن کچھ نہ فرماتے تھے ، اس سے معلوم ہوا کہ اس طرح کا اضافہ جائز ہے ، اگر جائز نہ ہوتا تو آپ منع فرما دیتے ، آپ کی خاموشی تلبیہ کے مخصوص الفاظ پر اضافے کے جواز کی دلیل ہے ، ابن عمر رضی الله عنہما کا یہ اضافہ بھی اسی قبیل سے ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ أَهَلَّ فَانْطَلَقَ يُهِلُّ، فَيَقُولُ: " لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ " قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: هَذِهِ تَلْبِيَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ يَزِيدُ مِنْ عِنْدِهِ فِي أَثَرِ تَلْبِيَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ، وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ، وَالْعَمَلُ " قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
نافع کہتے ہیں: عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما نے تلبیہ پکارا اور تلبیہ پکارتے ہوئے چلے، وہ کہہ رہے تھے: «لبيك اللهم لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك»۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے تھے: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تلبیہ ہے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیہ کے اخیر میں اپنی طرف سے ان الفاظ کا اضافہ کرتے: «لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» "حاضر ہوں تیری خدمت میں حاضر ہوں تیری خدمت میں اور خوش ہوں تیری تابعداری پر اور ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی دونوں ہاتھوں میں ہے اور تیری طرف رغبت ہے اور عمل بھی تیرے ہی لیے ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۳۱۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ. ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْحَجِّ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: " الْعَجُّ وَالثَّجُّ ".
ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سا حج افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس میں کثرت سے تلبیہ پکارا گیا ہو اور خوب خون بہایا گیا ہو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحج ۱۶ (۲۹۲۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۱۰۸) ، سنن الدارمی/المناسک ۸ (۱۸۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی قربانی کی گئی ہو۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلَّا لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ، أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ، حَتَّى تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا ". حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الزَّعْفَرَانِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَاعِيل بْنِ عَيَّاشٍ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي بَكْرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، وَقَدْ رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى أَبُو نُعَيْمٍ الطَّحَّانُ ضِرَارُ بْنُ صُرَدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخْطَأَ فِيهِ ضِرَارٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ يَقُولُ: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مَنْ قَالَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ ابْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَرْبُوعٍ، عَنْ أَبِيهِ، فَقَدْ أَخْطَأَ، قَالَ: وسَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: وَذَكَرْتُ لَهُ حَدِيثَ ضِرَارِ بْنِ صُرَدٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، فَقَالَ: هُوَ خَطَأٌ، فَقُلْتُ: قَدْ رَوَاهُ غَيْرُهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ أَيْضًا مِثْلَ رِوَايَتِهِ، فَقَالَ: لَا شَيْءَ إِنَّمَا رَوَوْهُ عَنْ ابْنِ أَبِي فُدَيْكٍ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَرَأَيْتُهُ يُضَعِّفُ ضِرَارَ بْنَ صُرَدٍ، وَالْعَجُّ: هُوَ رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ، وَالثَّجُّ: هُوَ نَحْرُ الْبُدْنِ.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مسلمان بھی تلبیہ پکارتا ہے اس کے دائیں یا بائیں پائے جانے والے پتھر، درخت اور ڈھیلے سبھی تلبیہ پکارتے ہیں، یہاں تک کہ دونوں طرف کی زمین کے آخری سرے تک کی چیزیں سبھی تلبیہ پکارتی ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوبکر رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، ہم اسے ابن ابی فدیک ہی کے طریق سے جانتے ہیں، انہوں نے ضحاک بن عثمان سے روایت کی ہے، ۲- محمد بن منکدر نے عبدالرحمٰن بن یربوع سے اسے نہیں سنا ہے، البتہ محمد بن منکدر نے بسند «سعید بن عبدالرحمٰن بن یربوع عن أبیہ عبدالرحمٰن بن یربوع» اس حدیث کے علاوہ دوسری چیزیں روایت کی ہیں، ۳- ابونعیم طحان ضرار بن صرد نے یہ حدیث بطریق: «ابن أبي فديك عن الضحاك بن عثمان عن محمد بن المنكدر عن سعيد بن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه عن أبي بكر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اور اس میں ضرار سے غلطی ہوئی ہے، ۴- احمد بن حنبل کہتے ہیں: جس نے اس حدیث میں یوں کہا: «عن محمد بن المنكدر عن ابن عبدالرحمٰن بن يربوع عن أبيه» اس نے غلطی کی ہے، ۵- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے ضرار بن صرد کی حدیث ذکر کی جسے انہوں نے ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا: یہ غلط ہے، میں نے کہا: اسے دوسرے لوگوں نے بھی انہیں کی طرح ابن ابی فدیک سے روایت کی ہے تو انہوں نے کہا: یہ کچھ نہیں ہے لوگوں نے اسے ابن ابی فدیک سے روایت کیا ہے اور اس میں سعید بن عبدالرحمٰن کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، میں نے بخاری کو دیکھا کہ وہ ضرار بن صرد کی تضعیف کر رہے تھے، ۶- اس باب میں ابن عمر اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۷- «عج» : تلبیہ میں آواز بلند کرنے کو اور «ثج»: اونٹنیاں نحر (ذبح) کرنے کو کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۵ (۲۹۲۱) ، (تحفة الأشراف : ۴۷۳۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يَرْفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ بِالْإِهْلَالِ وَالتَّلْبِيَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ خَلَّادٍ، عَنْ أَبِيهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يَصِحُّ، وَالصَّحِيحُ هُوَ عَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ أَبِيهِ: وَهُوَ خَلَّادُ بْنُ السَّائِبِ بْنِ خَلَّادِ بْنِ سُوَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ.
سائب بن خلاد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے پاس جبرائیل نے آ کر مجھے حکم دیا کہ میں اپنے صحابہ کو حکم دوں کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز بلند کریں" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- خلاد بن السائب کی حدیث جسے انہوں نے اپنے والد سے روایت کی ہے، حسن صحیح ہے۔ ۲- بعض لوگوں نے یہ حدیث بطریق: «خلاد بن السائب عن زيد بن خالد عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ صحیح یہی ہے کہ خلاد بن سائب نے اپنے باپ سے روایت کی ہے، اور یہ خلاد بن سائب بن خلاد بن سوید انصاری ہیں، ۳- اس باب میں زید بن خالد، ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۲۷ (۱۸۱۴) ، سنن النسائی/الحج ۵۵ (۲۷۵۴) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۶ (۲۹۲۲) ، (تحفة الأشراف : ۳۷۸۸) ، موطا امام مالک/الحج ۱۰ (۳۴) ، مسند احمد (۴/۵۵، ۵۶) ، سنن الدارمی/الحج ۱۴ (۱۸۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مردوں کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مستحب ہے «اصحابی» کی قید سے عورتیں خارج ہو گئیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ وہ تلبیہ میں اپنی آواز پست رکھیں۔ مگر وجوب کی دلیل بالصراحت کہیں نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَعْقُوبَ الْمَدَنِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاغْتِسَالَ عِنْدَ الْإِحْرَامِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ.
زید بن ثابت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنے کپڑے اتارے اور غسل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اہل علم کی ایک جماعت نے احرام باندھنے کے وقت غسل کرنے کو مستحب قرار دیا ہے۔ یہی شافعی بھی کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر: سنن الدارمی/المناسک ۶ (۱۸۳۵) (تحفة الأشراف : ۳۷۱۰) (صحیح) (سند میں عبداللہ بن یعقوب مجہول الحال ہیں، لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے ، اکثر لوگوں کی یہی رائے ہے ، اور بعض نے اسے واجب کہا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: مِنْ أَيْنَ نُهِلُّ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ ". قَالَ: وَيَقُولُونَ: وَأَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا: "اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، جابر بن عبداللہ اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۵۹۳) وانظر: مسند احمد (۲/۴۸، ۶۵) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/العلم ۵۲ (۱۳۳) ، والحج ۴ (۱۵۲۲) ، و۸ (۱۵۲۵) ، و۱۰ (۱۵۲۷) ، والاعتصام ۱۵ (۷۳۳۴) ، صحیح مسلم/الحج ۲ (۱۱۸۲) ، سنن ابی داود/ المناسک ۹ (۱۷۳۷) ، سنن النسائی/المناسک ۱۷ (۲۶۵۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۳ (۲۹۱۴) ، موطا امام مالک/الحج ۸ (۲۲) ، مسند احمد (۲/۵۵) ، سنن الدارمی/المناسک ۵ (۱۸۳۱) ، من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : «مواقیت» میقات کی جمع ہے ، میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے۔ ۲؎ : مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔ جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔ ۳؎ : مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔ ۴؎ : اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں ، یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔ مکہ سے اس کی دوری ۹۵ کیلو میٹر ہے۔ ۵؎ : ایک معروف مقام کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَقَّتَ لِأَهْلِ الْمَشْرِقِ الْعَقِيقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ أبُو جَعْفَرٍ مُحمَّدُ بنُ عَلِيِّ بنِ حُسَيْنِ بنِ عَلِيِّ بنِ أبِي طَالبٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کی میقات عقیق ۱؎ مقرر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- محمد بن علی ہی ابو جعفر محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۹ (۱۷۴۰) ، (تحفة الأشراف : ۶۴۴۳) (ضعیف منکر) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے، نیز محمد بن علی کا اپنے دادا ابن عباس سے سماع ثابت نہیں ہے، اور حدیث میں وارد ’’ عقیق ‘‘ کا لفظ منکر ہے، صحیح لفظ ’’ ذات عرق ‘‘ ہے، الإرواء: ۱۰۰۲، ضعیف سنن ابی داود: ۳۰۶)
وضاحت: ۱؎ : یہ ایک معروف مقام ہے ، جو عراق کی میقات "ذات العرق" کے قریب ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنَ الثِّيَابِ فِي الْحَرَمِ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَلْبَسُوا الْقُمُصَ وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ وَلَا الْبَرَانِسَ وَلَا الْعَمَائِمَ وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ وَلَا الْوَرْسُ، وَلَا تَنْتَقِبْ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، وَلَا تَلْبَسْ الْقُفَّازَيْنِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کھڑ ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں احرام میں کون کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہ قمیص پہنو، نہ پاجامے، نہ عمامے اور نہ موزے، الا یہ کہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ خف (چمڑے کے موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے سے نیچے کر لے ۱؎ اور نہ ایسا کوئی کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگا ہو ۲؎، اور محرم عورت نقاب نہ لگائے اور نہ دستانے پہنے" ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۸) ، سنن ابی داود/ المناسک ۳۲ (۱۸۲۵) ، سنن النسائی/الحج ۲۸ (۲۶۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۷۵) ، مسند احمد (۲/۱۱۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/العلم ۵۳ (۱۳۴) ، والصلاة ۹ (۳۹۶) ، والحج ۲۱ (۱۵۴۲) ، وجزاء الصید ۱۵ (۱۸۴۲) ، واللباس ۸ (۵۷۹۴) ، و۱۳ (۵۸۰۳) ، و۱۴ (۵۸۰۵) ، و۱۵ (۵۸۰۶) ، و۳۴ (۵۸۴۷) ، و۳۷ (۵۸۵۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۹ (۲۹۲۹) ، موطا امام مالک/الحج ۳ (۸) ، مسند احمد (۲/۴، ۸، ۲۹، ۳۲، ۳۴، ۴۱، ۵۴، ۵۶، ۵۹، ۶۵، ۷۷) ، سنن الدارمی/الحج ۹ (۱۸۳۹) من غیر الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : جمہور نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے «خف» " چمڑے کے موزوں " کے کاٹنے کی شرط لگائی ہے لیکن امام احمد نے بغیر کاٹے«خف» (موزہ) پہننے کو جائز قرار دیا ہے کیونکہ ابن عباس رضی الله عنہ کی روایت «من لم يجد نعلين فليلبس خفين» جو بخاری میں آئی ہے مطلق ہے ، لیکن جمہور نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں مطلق کو مقید پر محمول کیا جائے گا ، حنابلہ نے اس روایت کے کئی جوابات دیئے ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہ کی یہ روایت منسوخ ہے کیونکہ یہ احرام سے پہلے مدینہ کا واقعہ ہے اور ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت عرفات کی ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ ابن عمر رضی الله عنہما کی روایت حجت کے اعتبار سے ابن عباس کی روایت سے بڑھی ہوئی ہے کیونکہ وہ ایسی سند سے مروی ہے جو أصح الاسانید ہے۔ ۲؎ : ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے ، اس بات پر اجماع ہے کہ حالت احرام میں مرد کے لیے حدیث میں مذکور یہ کپڑے پہننے جائز نہیں ہیں ، قمیص اور سراویل (پاجانے) میں تمام سلے ہوئے کپڑے داخل ہیں ، اسی طرح عمامہ اور خفین سے ہر وہ چیز مراد ہے جو سر اور قدم کو ڈھانپ لے ، البتہ پانی میں سر کو ڈبونے یا ہاتھ یا چھتری سے سر کو چھپانے میں کوئی حرج نہیں ، عورت کے لیے حالت احرام میں وہ تمام کپڑے پہننے جائز ہیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے البتہ وہ ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے نہ پہننے۔ ۳؎ : محرم عورت کے لیے نقاب پہننا منع ہے ، مگر اس حدیث میں جس نقاب کا ذکر ہے وہ چہرے پر باندھا جاتا تھا ، برصغیر ہندو پاک کے موجودہ برقعوں کا نقاب چادر کے پلو کی طرح ہے جس کو ازواج مطہرات مردوں کے گزرتے وقت چہروں پر لٹکا لیا کرتی تھیں اس لیے اس نقاب کو عورتیں بوقت ضرورت چہرے پر لٹکا سکتی ہیں اور چونکہ اس وقت حج میں ہر وقت اجنبی مردوں کا سامنا پڑتا ہے اس لیے ہر وقت اس نقاب کو چہرے پر لٹکائے رکھ سکتی ہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْمُحْرِمُ إِذَا لَمْ يَجِدِ الْإِزَارَ فَلْيَلْبَسْ السَّرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرٍو نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا لَمْ يَجِدِ الْمُحْرِمُ الْإِزَارَ لَبِسَ السَّرَاوِيلَ، وَإِذَا لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ لَبِسَ الْخُفَّيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ عَلَى حَدِيثِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا لَمْ يَجِدْ نَعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ، وَلْيَقْطَعْهُمَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ " وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "محرم کو جب تہبند میسر نہ ہو تو پاجامہ پہن لے اور جب جوتے میسر نہ ہوں تو «خف» (چمڑے کے موزے) پہن لے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب محرم تہ بند نہ پائے تو پاجامہ پہن لے، اور جب جوتے نہ پائے تو «خف» (چرمی موزے) پہن لے۔ یہ احمد کا قول ہے، ۴- بعض نے ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کی بنیاد پر جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہا ہے کہ جب وہ جوتے نہ پائے تو «خف» (چرمی موزے) پہنے اور اسے کاٹ کر ٹخنے کے نیچے کر لے، سفیان ثوری، شافعی، اور مالک اسی کے قائل ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۵ (۱۸۴۱) ، و۱۶ (۱۸۴۳) ، واللباس ۱۴ (۵۸۰۴) ، و۳۷ (۵۸۵۳) ، صحیح مسلم/الحج ۸۱ (۱۱۷) ، سنن النسائی/الحج ۳۲ (۲۶۷۲، ۲۶۷۳) ، و۳۷ (۲۶۸۰) ، والزینة ۹۸ (۵۳۲۷) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۲۰ (۲۹۳۱) ، مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۲۸، ۲۷۹، ۳۳۷) (تحفة الأشراف : ۵۳۷۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اسی حدیث سے امام احمد نے استدلال کرتے ہوئے چمڑے کے موزہ کو بغیر کاٹے پہننے کی اجازت دی ہے ، حنابلہ کا کہنا ہے کہ قطع (کاٹنا) فساد ہے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ، اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے فساد وہ ہے جس کی شرع میں ممانعت وارد ہو ، نہ کہ وہ جس کی شریعت نے اجازت دی ہو ، بعض نے موزے کو پاجامے پر قیاس کیا ہے ، اس کا جواب یہ دیا گیا ہے کہ نص کی موجودگی میں قیاس درست نہیں ، رہا یہ مسئلہ کہ جوتا نہ ہونے کی صورت میں موزہ پہننے والے پر فدیہ ہے یا نہیں تو اس میں بھی علماء کا اختلاف ہے ، ظاہر حدیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ فدیہ نہیں ہے ، لیکن حنفیہ کہتے ہیں فدیہ واجب ہے ، ان کے جواب میں یہ کہا گیا ہے کہ اگر فدیہ واجب ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے کیونکہ «تأخير البيان عن وقت الحاجة» جائز نہیں۔ (یعنی ضرورت کے کے وقت مسئلہ کی وضاحت ہو جانی چاہیئے ، وضاحت اور بیان ٹالا نہیں جا سکتا ہے)۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، قَالَ: " رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْرَابِيًّا قَدْ أَحْرَمَ وَعَلَيْهِ جُبَّةٌ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَنْزِعَهَا ".
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی کو دیکھا جو احرام کی حالت میں کرتا پہنے ہوئے تھا۔ تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ اسے اتار دے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۳۱ (۱۸۲۰) ، (۴/۲۲۴) ، وانظر الحدیث الآتي (تحفة الأشراف : ۱۱۸۴۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں تھے تفصیل کے لیے دیکھئیے ابوداؤد المناسک ۳۱ ، نسائی الحج ۲۹۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. وَهَذَا أَصَحُّ وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَاهُ قَتَادَةُ، وَالْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یعلیٰ رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں۔ یہ زیادہ صحیح ہے اور حدیث میں ایک قصہ ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسی طرح اسے قتادہ، حجاج بن ارطاۃ اور دوسرے کئی لوگوں نے عطا سے اور انہوں نے یعلیٰ بن امیہ سے روایت کی ہے۔ لیکن صحیح وہی ہے جسے عمرو بن دینار اور ابن جریج نے عطاء سے، اور عطاء نے صفوان بن یعلیٰ سے اور صفوان نے اپنے والد یعلیٰ سے اور یعلیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۷ (۱۵۳۶) ، والعمرة ۱۰ (۱۷۸۹) ، وجزاء الصید ۱۹ (۱۸۴۷) ، والمغازي ۵۶ (۴۳۲۹) ، وفضائل القرآن ۲ (۴۹۸۵) ، صحیح مسلم/الحج ۱ (۱۱۸۰) ، سنن ابی داود/ الحج ۳۱ (۱۸۱۹) ، سنن النسائی/الحج ۲۹ (۲۶۶۹) ، و۴۴ (۲۷۰۹-۲۷۱۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۳۶) ، مسند احمد (۴/۲۲۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس قصہ کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو ابوداؤد المناسک ۳۱ ، ونسائی الحج ۲۹۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسُ فَوَاسِقَ يُقْتَلْنَ فِي الْحَرَمِ، الْفَأْرَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْغُرَابُ وَالْحُدَيَّا وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ موذی جانور ہیں جو حرم میں یا حالت احرام میں بھی مارے جا سکتے ہیں: چوہیا، بچھو، کوا، چیل، کاٹ کھانے والا کتا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر، ابوہریرہ، ابوسعید اور ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/بدء الخلق ۱۶ (۳۳۱۴) ، صحیح مسلم/الحج ۹ (۱۱۹۸) ، سنن النسائی/الحج ۱۱۸ (۲۸۹۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۶۲۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید ۷ (۱۸۲۹) ، سنن النسائی/الحج ۸۳ (۲۸۳۲) ، و۱۱۳ (۲۸۸۴) ، و۱۱۴ (۲۸۸۵) ، و۱۱۶ (۲۸۹۰) ، و۱۱۷ (۲۸۹۱) ، سنن ابن ماجہ/الحج ۹۱ (۳۰۸۷) مسند احمد (۶/۸۷، ۹۷، ۱۲۲، ۲۰۳، ۲۵۹، ۲۶۱) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ کاٹ کھانے والے کتے سے مراد وہ تمام درندے ہیں جو لوگوں پر حملہ کر کے انہیں زخمی کر دیتے ہوں مثلاً شیر چیتا بھیڑیا وغیرہ۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَقْتُلُ الْمُحْرِمُ: السَّبُعَ الْعَادِيَ وَالْكَلْبَ الْعَقُورَ وَالْفَأْرَةَ وَالْعَقْرَبَ وَالْحِدَأَةَ وَالْغُرَابَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: الْمُحْرِمُ يَقْتُلُ السَّبُعَ الْعَادِيَ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: كُلُّ سَبُعٍ عَدَا عَلَى النَّاسِ أَوْ عَلَى دَوَابِّهِمْ فَلِلْمُحْرِمِ قَتْلُهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "محرم سرکش درندے، کاٹ کھانے والے کتے، چوہا، بچھو، چیل اور کوے مار سکتا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں: محرم ظلم ڈھانے والے درندوں کو مار سکتا ہے، سفیان ثوری اور شافعی کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: محرم ہر اس درندے کو جو لوگوں کو یا جانوروں کو ایذاء پہنچائے، مار سکتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۴۰ (۱۸۴۸) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۱ (۳۰۸۹) ، (تحفة الأشراف : ۴۱۳۳) ، مسند احمد (۳/۳) (ضعیف) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، وَعَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " احْتَجَمَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ ابْنِ بُحَيْنَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْحِجَامَةِ لِلْمُحْرِمِ، قَالُوا: لَا يَحْلِقُ شَعْرًا، وقَالَ مَالِكٌ: لَا يَحْتَجِمُ الْمُحْرِمُ إِلَّا مِنْ ضَرُورَةٍ، وقَالَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَالشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ يَحْتَجِمَ الْمُحْرِمُ وَلَا يَنْزِعُ شَعَرًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا اور آپ محرم تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس ۲؎، عبداللہ بن بحینہ ۳؎ اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو پچھنا لگوانے کی اجازت دی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ بال نہیں منڈائے گا، ۴- مالک کہتے ہیں کہ محرم پچھنا نہیں لگوا سکتا، الا یہ کہ ضروری ہو، ۵- سفیان ثوری اور شافعی کہتے ہیں: محرم کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ بال نہیں اتار سکتا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۱ (۱۸۳۵) ، والصوم ۳۲ (۱۹۳۸) ، والطب ۱۲ (۵۶۹۵) ، و۱۵ (۵۷۰۰) ، صحیح مسلم/الحج ۱۱ (۱۲۰۳) ، سنن ابی داود/ المناسک ۳۶ (۱۸۳۵) ، سنن النسائی/الحج ۹۲ (۲۸۴۸) ، مسند احمد (۱/۲۲۱، ۲۹۲، ۳۷۲) ، (تحفة الأشراف : ۵۷۳۷، ۵۹۳۹) ، وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۷ (۳۰۸۱) ، مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۲۲، ۲۳۶، ۲۴۸، ۲۴۹، ۲۸۳، ۲۸۶، ۳۱۵، ۳۴۶، ۳۵۱، ۳۷۲) ، سنن الدارمی/ الحج ۲۰ (۱۸۶۰) من غیر ہذا الطریق وبتصرف یسیر فی السیاق (صحیح)
وضاحت: ۱؎ اس روایت سے معلوم ہوا کہ حالت احرام میں پچھنا لگوانا جائز ہے ، البتہ اگر بچھنا لگوانے میں بال اتروانا پڑے تو فدیہ دینا ضروری ہو گا ، یہ فدیہ ایک بکری ذبح کرنا ہے ، یا تین دن کے روزے رکھنا ، یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلانا۔ ۲؎ : انس رضی الله عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں اپنے پاؤں کی پشت پر تکلیف کی وجہ سے پچھنا لگوایا۔ ۳؎ : عبداللہ ابن بحینہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں لحی جمل میں اپنے سرکے وسط میں پچھنا لگوایا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَرَادَ ابْنُ مَعْمَرٍ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ، فَبَعَثَنِي إِلَى أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَوْسِمِ بِمَكَّةَ، فَأَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخَاكَ يُرِيدُ أَنْ يُنْكِحَ ابْنَهُ فَأَحَبَّ أَنْ يُشْهِدَكَ ذَلِكَ، قَالَ: لَا أُرَاهُ إِلَّا أَعْرَابِيًّا جَافِيًا، إِنَّ الْمُحْرِمَ لَا يَنْكِحُ وَلَا يُنْكَحُ أَوْ كَمَا قَالَ: ثُمَّ حَدَّثَ عَنْ عُثْمَانَ مِثْلَهُ يَرْفَعُهُ، وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي رَافِعٍ، وَمَيْمُونَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُثْمَانَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَابْنُ عُمَرَ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق لَا يَرَوْنَ أَنْ يَتَزَوَّجَ الْمُحْرِمُ، قَالُوا: فَإِنْ نَكَحَ فَنِكَاحُهُ بَاطِلٌ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ ابن معمر نے اپنے بیٹے کی شادی کرنی چاہی، تو انہوں نے مجھے ابان بن عثمان کے پاس بھیجا، وہ مکہ میں امیر حج تھے۔ میں ان کے پاس آیا اور میں نے ان سے کہا: آپ کے بھائی اپنے بیٹے کی شادی کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو انہوں نے کہا: میں انہیں ایک گنوار اعرابی سمجھتا ہوں، محرم نہ خود نکاح کر سکتا اور نہ کسی کا نکاح کرا سکتا ہے - «أو كما قال» - پھر انہوں نے (اپنے والد) عثمان رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہوئے اسی کے مثل بیان کیا، وہ اسے مرفوع روایت کر رہے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عثمان رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابورافع اور میمونہ رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض صحابہ کرام جن میں عمر بن خطاب، علی بن ابی طالب اور ابن عمر رضی الله عنہم بھی شامل ہیں اسی پر عمل ہے، اور یہی بعض تابعین فقہاء کا بھی قول ہے اور مالک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی یہی کہتے ہیں۔ یہ لوگ محرم کے لیے نکاح کرنا جائز نہیں سمجھتے، ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر محرم نے نکاح کر لیا تو اس کا نکاح باطل ہو گا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۵ (۱۴۰۹) ، سنن ابی داود/ الحج ۳۹ (۱۸۴۱) ، سنن النسائی/الحج ۹۱ (۲۸۴۵) ، والنکاح ۳۸ (۳۲۷۵) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۵ (۱۹۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۹۷۷۶) ، موطا امام مالک/الحج ۲۲ (۷۰) ، مسند احمد (۱/۵۷، ۶۴، ۶۹، ۷۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۱ (۱۸۶۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: شرعی ضابطہ یہی ہے کہ محرم حالت احرام میں نہ تو خود اپنا نکاح کر سکتا ہے اور نہ کسی دوسرے کا نکاح کرا سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي رَافِعٍ، قَالَ: " تَزَوَّجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ، وَبَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ، وَكُنْتُ أَنَا الرَّسُولَ فِيمَا بَيْنَهُمَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ وَلَا نَعْلَمُ أَحَدًا أَسْنَدَهُ غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ، عَنْ رَبِيعَةَ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ، وَهُوَ حَلَالٌ " رَوَاهُ مَالِكٌ مُرْسَلًا، قَالَ: وَرَوَاهُ أَيْضًا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ رَبِيعَةَ مُرْسَلًا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرُوِي عَنْيَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ حَلَالٌ ". وَيَزِيدُ بْنُ الْأَصَمِّ هُوَ ابْنُ أُخْتِ مَيْمُونَةَ.
ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے نکاح کیا اور آپ حلال تھے پھر ان کے خلوت میں گئے تب بھی آپ حلال تھے، اور میں ہی آپ دونوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور ہم حماد بن زید کے علاوہ کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے مطر وراق کے واسطے سے ربیعہ سے مسنداً روایت کیا ہو، ۳- اور مالک بن انس نے ربیعہ سے، اور ربیعہ نے سلیمان بن یسار سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔ اسے مالک نے مرسلا روایت کیا ہے، اور سلیمان بن ہلال نے بھی اسے ربیعہ سے مرسلا روایت کیا ہے، ۴- یزید بن اصم ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی اور آپ حلال تھے یعنی محرم نہیں تھے۔ یزید بن اصم میمونہ کے بھانجے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وانظر سنن الدارمی/المناسک ۲۱ (۱۸۶۶) (تحفة الأشراف : ۱۲۰۱۷) ، و مسند احمد (۶/۳۹۲-۳۹۳) (ضعیف) (اس کا آخری ٹکڑا میں ’’ أنا الرسول بينهما ‘‘ میں دونوں کے درمیان قاصد تھا) ، ضعیف ہے کیونکہ اس سے قوی روایت میں ہے کہ ’’ عباس رضی الله عنہ ‘‘ نے یہ شادی کرائی تھی، اس کے راوی ’’ مطرالوراق ‘‘ حافظے کے ضعیف ہیں، اس روایت کا مرسل ہونا ہی زیادہ صحیح ہے، اس کا پہلا ٹکڑا حدیث رقم: ۸۴۵کے طریق سے صحیح ہے)
حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حَبِيبٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَأَهْلُ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری اور اہل کوفہ بھی کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۲۳۰) (صحیح) (یہ روایت سنداً صحیح ہے، لیکن ابن عباس رضی الله عنہما سے اس واقعہ کے نقل کرنے میں وہم ہو گیا تھا، اس لیے یہ شاذ کے حکم میں ہے، اور صحیح یہ ہے کہ میمونہ رضی الله عنہا کی شادی حلال ہونے کے بعد ہوئی جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۲ (۱۸۳۷) ، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۸) ، والنکاح ۳۰ (۵۱۱۴) ، صحیح مسلم/النکاح ۵ (۱۴۱۰) ، سنن ابی داود/ الحج ۳۹ (۱۸۴۴) ، سنن النسائی/الحج ۹۰ (۲۸۴۰- ۲۸۴۴) ، والنکاح ۳۷ (۳۲۷۳) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۵ (۱۹۶۵) ، مسند احمد (۱/۲۲، ۲۴، ۲۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۱ (۱۸۶۳) ، من غیر ہذا الطریق۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ محرم تھے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۵۹۹۰) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)
وضاحت: ۱؎ : سعید بن مسیب کا بیان ہے کہ ابن عباس کو اس سلسلہ میں وہم ہوا ہے کیونکہ ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کا خود بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو ہم دونوں حلال تھے ، اسی طرح ان کے وکیل ابورافع کا بیان بھی جیسا کہ گزرا یہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے نکاح کیا تو آپ حلال تھے ، اس سلسلہ میں صاحب معاملہ کا بیان زیادہ معتبر ہو گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، قَال: سَمِعْتُ أَبَا الشَّعْثَاءِ يُحَدِّثُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ مُحْرِمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو الشَّعْثَاءِ اسْمُهُ جَابِرُ بْنُ زَيْدٍ، وَاخْتَلَفُوا فِي تَزْوِيجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَيْمُونَةَ، لِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزَوَّجَهَا فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: تَزَوَّجَهَا حَلَالًا وَظَهَرَ أَمْرُ تَزْوِيجِهَا، وَهُوَ مُحْرِمٌ، ثُمَّ بَنَى بِهَا وَهُوَ حَلَالٌ بِسَرِفَ فِي طَرِيقِ مَكَّةَ، وَمَاتَتْ مَيْمُونَةُ بِسَرِفَ حَيْثُ بَنَى بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدُفِنَتْ بِسَرِفَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی تو آپ محرم تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے میمونہ سے شادی کرنے کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے کے راستے میں ان سے شادی کی تھی، بعض لوگوں نے کہا: آپ نے جب ان سے شادی کی تو آپ حلال تھے البتہ آپ کے ان سے شادی کرنے کی بات ظاہر ہوئی تو آپ محرم تھے، اور آپ نے مکے کے راستے میں مقام سرف میں ان کے ساتھ خلوت میں گئے تو بھی آپ حلال تھے۔ میمونہ کا انتقال بھی سرف میں ہوا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خلوت کی تھی اور وہ مقام سرف میں ہی دفن کی گئیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۸۴۲ (تحفة الأشراف : ۵۳۷۶) (صحیح) (سندا صحیح ہے، لیکن متن شاذ ہے، کماتقدم)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، قَال: سَمِعْتُ أَبَا فَزَارَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، عَنْ مَيْمُونَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَهَا وَهُوَ حَلَالٌ، وَبَنَى بِهَا حَلَالًا، وَمَاتَتْ بِسَرِفَ، وَدَفَنَّاهَا فِي الظُّلَّةِ الَّتِي بَنَى بِهَا فِيهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَرَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ مُرْسَلًا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " تَزَوَّجَ مَيْمُونَةَ وَهُوَ حَلَالٌ ".
ام المؤمنین میمونہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے شادی کی اور آپ حلال تھے اور ان سے خلوت کی تو بھی آپ حلال تھے۔ اور انہوں نے سرف ہی میں انتقال کیا، ہم نے انہیں اسی سایہ دار مقام میں دفن کیا جہاں آپ نے ان سے خلوت کی تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- دیگر کئی لوگوں نے یہ حدیث یزید بن اصم سے مرسلاً روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میمونہ سے شادی کی اور آپ حلال تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/النکاح ۵ (۱۴۱۱) ، سنن ابی داود/ الحج ۳۹ (۱۸۴۳) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۴۵ (۱۹۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۰۸۲) ، مسند احمد (۳۳۳، ۳۳۵) ، دي ۲۱ (۱۸۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَطَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، وَالْمُطَّلِبُ لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِأَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا إِذَا لَمْ يَصْطَدْهُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِهِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: هَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَاب وَأَفْسَرُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۲- جابر کی حدیث مفسَّر ہے، ۳- اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے،۴- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خود اس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیا گیا ہو،۵- شافعی کہتے ہیں: یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اور قیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے، اور اسی پر عمل ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۴۱ (۱۸۵۱) ، سنن النسائی/الحج ۸۱ (۲۸۳۰) ، (تحفة الأشراف : ۳۰۹۸) ، مسند احمد (۳/۳۶۲) (ضعیف) (سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَأَدْرَكُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکے کا کچھ راستہ طے کر چکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی (اتر کر) اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا، تو بعض صحابہ کرام نے اس شکار میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے اور اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: "یہ تو ایک ایسی غذا ہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایا ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۴ (۱۸۲۳) ، والجہاد ۸۸ (۲۹۱۴) ، والذباع ۱۰ (۵۴۹۰) ، و۱۱ (۵۴۹۲) ، صحیح مسلم/الحج ۸ (۱۱۹۶) ، سنن ابی داود/ الحج ۴۱ (۱۸۵۲) ، سنن النسائی/الحج ۷۸ (۲۸۱۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۱۳۱) ، موطا امام مالک/الحج ۲۴ (۷۶) ، مسند احمد (۵/۳۰۱) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید ۲ (۱۸۲۱) ، و۳ (۱۸۲۲) ، و۵ (۱۸۲۴) ، والہبة ۳ (۲۵۷۰) ، والجہاد ۴۶ (۲۸۵۴) ، والأطعمة ۱۹ (۵۴۰۶، ۵۴۰۷) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۳ (۳۰۹۳) ، مسند احمد (۵/۳۰۷) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۲ (۱۸۶۷) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے ، اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضر ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۲۱۲۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ الصَّعْبَ بْنَ جَثَّامَةَ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ بِالْأَبْوَاءِ أَوْ بِوَدَّانَ، فَأَهْدَى لَهُ حِمَارًا وَحْشِيًّا، فَرَدَّهُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا فِي وَجْهِهِ مِنَ الْكَرَاهِيَةِ، فَقَالَ: " إِنَّهُ لَيْسَ بِنَا رَدٌّ عَلَيْكَ وَلَكِنَّا حُرُمٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ ذَهَبَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ وَكَرِهُوا أَكْلَ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا وَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا إِنَّمَا رَدَّهُ عَلَيْهِ، لَمَّا ظَنَّ أَنَّهُ صِيدَ مِنْ أَجْلِهِ وَتَرَكَهُ عَلَى التَّنَزُّهِ، وَقَدْ رَوَى بَعْضُ أَصْحَابِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ هَذَا الْحَدِيثَ، وَقَالَ: أَهْدَى لَهُ لَحْمَ حِمَارٍ وَحْشٍ، وَهُوَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ صعب بن جثامہ رضی الله عنہ نے انہیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابواء یا ودان میں ان کے پاس سے گزرے، تو انہوں نے آپ کو ایک نیل گائے ہدیہ کیا، تو آپ نے اسے لوٹا دیا۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو فرمایا: "ہم تمہیں لوٹاتے نہیں لیکن ہم محرم ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کی ایک جماعت اسی حدیث کی طرف گئی ہے اور انہوں نے محرم کے لیے شکار کا گوشت کھانے کو مکروہ کہا ہے، ۳- شافعی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے وہ گوشت صرف اس لیے لوٹا دیا کہ آپ کو گمان ہوا کہ وہ آپ ہی کی خاطر شکار کیا گیا ہے۔ سو آپ نے اسے تنزیہاً چھوڑ دیا، ۴- زہری کے بعض تلامذہ نے یہ حدیث زہری سے روایت کی ہے۔ اور اس میں «أهدى له حمارا وحشياً» کے بجائے «أهدى له لحم حمارٍ وحشٍ» ہے لیکن یہ غیر محفوظ ہے، ۵- اس باب میں علی اور زید بن ارقم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۶ (۱۸۲۵) ، والہبة ۶ (۲۵۷۳) ، و۱۷ (۲۵۹۶) ، صحیح مسلم/الحج ۸ (۱۱۹۳) ، سنن النسائی/الحج ۷۹ (۲۸۲۱، ۲۸۲۲، ۲۸۲۵، ۲۸۲۶) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۲ (۳۰۹۰) ، (تحفة الأشراف : ۴۹۴۰) ، موطا امام مالک/الحج ۲۴ (۸۳) ، مسند احمد (۴/۳۷، ۳۸، ۷۱، ۷۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۲ (۱۸۷۰، و۱۸۷۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ، فَاسْتَقْبَلَنَا رِجْلٌ مِنْ جَرَادٍ، فَجَعَلْنَا نَضْرِبُهُ بِسِيَاطِنَا وَعِصِيِّنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُوهُ فَإِنَّهُ مِنْ صَيْدِ الْبَحْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ، وَقَدْ تَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلْمُحْرِمِ أَنْ يَصِيدَ الْجَرَادَ وَيَأْكُلَهُ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ عَلَيْهِ صَدَقَةً إِذَا اصْطَادَهُ وَأَكَلَهُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج یا عمرہ کے لیے نکلے تھے کہ ہمارے سامنے ٹڈی کا ایک دل آ گیا، ہم انہیں اپنے کوڑوں اور لاٹھیوں سے مارنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کھاؤ، کیونکہ یہ سمندر کا شکار ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف ابوالمھزم کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے، ۲- ابوالمہزم کا نام یزید بن سفیان ہے۔ شعبہ نے ان میں کلام کیا ہے، ۳- اہل علم کی ایک جماعت نے محرم کو ٹڈی کا شکار کرنے اور اسے کھانے کی رخصت دی ہے، ۴- اور بعض کا خیال ہے کہ اگر وہ اس کا شکار کرے اور اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۴۲ (۱۸۵۴) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۲۹ (۳۲۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۸۳۲) ، مسند احمد (۲/۳۰۶، ۳۶۴) (ضعیف) (سند میں ابو الہزم ضعیف راوی ہے)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ أَبِي عَمَّارٍ، قَالَ: قُلْتُ لِجَابِرٍ: الضَّبُعُ أَصَيْدٌ هِيَ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ آكُلُهَا، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: قُلْتُ: أَقَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: وَرَوَى جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: عَنْ جَابِرٍ، عَنْ عُمَرَ، وَحَدِيثُ ابْنِ جُرَيْجٍ أَصَحُّ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُحْرِمِ إِذَا أَصَابَ ضَبُعًا، أَنَّ عَلَيْهِ الْجَزَاءَ.
ابن ابی عمار کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی الله عنہ سے پوچھا: کیا لکڑ بگھا شکار میں داخل ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں، (پھر) میں نے پوچھا: کیا میں اسے کھا سکتا ہوں ـ؟انہوںنےکہا: ہاں،میںنےکہا: کیااسےرسولاللہصلیاللہعلیہوسلمنےفرمایاہے؟انہوںنےکہا: ہاں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کا بیان ہے کہ یہ حدیث جریر بن حزم نے بھی روایت کی ہے لیکن انہوں نے جابر سے اور جابر نے عمر رضی الله عنہ سے روایت کی ہے، ابن جریج کی حدیث زیادہ صحیح ہے، ۳- اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ محرم جب لگڑ بگھا کا شکار کرے یا اسے کھائے تو اس پر فدیہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الأطعمة ۳۲ (۳۸۰۱) ، سنن النسائی/الحج ۸۹ (۲۸۳۹) ، والصید ۲۸ (۴۳۲۸) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۰ (۳۰۸۵) ، والصید ۱۵ (۳۲۳۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۳۸۱) ، مسند احمد (۳/۲۹۷، ۳۱۸، ۳۲۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۹۰ (۱۹۸۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ صَالِحٍ الْبَلْخِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " اغْتَسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِدُخُولِهِ مَكَّةَ بِفَخٍّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى نَافِعٌ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَغْتَسِلُ لِدُخُولِ مَكَّةَ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ يُسْتَحَبُّ الِاغْتِسَالُ لِدُخُولِ مَكَّةَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، ضَعَّفَهُ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَعَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُمَا، وَلَا نَعْرِفُ هَذَا الْحَدِيثَ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے میں داخل ہونے کے لیے (مقام) فخ میں ۱؎ غسل کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غیر محفوظ ہے، ۲- صحیح وہ روایت ہے جسے نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ وہ مکے میں داخل ہونے کے لیے غسل کرتے تھے۔ اور یہی شافعی بھی کہتے ہیں کہ مکے میں داخل ہونے کے لیے غسل کرنا مستحب ہے، ۳- عبدالرحمٰن بن زید بن اسلم حدیث میں ضعیف ہیں۔ احمد بن حنبل اور علی بن مدینی وغیرہما نے ان کی تضعیف کی ہے اور ہم اس حدیث کو صرف انہی کے طریق سے مرفوع جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۷۳۲) (ضعیف الإسناد جدا) (سند میں عبدالرحمن بن زید بن اسلم سخت ضعیف ہیں، لیکن مقام ’’ فخ ‘‘ کے ذکر کے بغیر مطلق دخول مکہ کے لیے غسل ابن عمر ہی سے بخاری ومسلم میں مروی ہے)
وضاحت: ۱؎ : مکہ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " لَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ، دَخَلَ مِنْ أَعْلَاهَا وَخَرَجَ مِنْ أَسْفَلِهَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آتے تو بلندی کی طرف سے داخل ہوتے اور نشیب کی طرف سے نکلتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۴۱ (۱۵۷۶) ، صحیح مسلم/الحج ۳۷ (۱۲۵۷) ، سنن ابی داود/ الحج (۱۸۶۹) (تحفة الأشراف : ۱۶۹۲۳) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/المغازي ۴۹ (۴۲۹۰) ، سنن ابی داود/ الحج ۴۵ (۱۸۶۸) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : بلندی سے مراد ثنیہ کداء ہے جو مکہ مکرمہ کی مقبرۃ المعلیٰ کی طرف ہے ، اور بلند ہے اور نشیب سے مراد ثنیۃ کدی ہے جو باب العمرۃ اور اب ملک فہد کی طرف نشیب میں ہے۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْعُمَرِيُّ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " دَخَلَ مَكَّةَ نَهَارًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دن کے وقت داخل ہوئے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۲۶ (۲۹۴۱) (تحفة الأشراف : ۷۷۲۳) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ عبداللہ العمری ‘‘ ضعیف ہیں، دیکھئے صحیح ابی داود: ۱۶۲۹، وسنن ابی داود: ۱۸۶۵)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ افضل یہ ہے کہ مکہ میں دن کے وقت داخل ہوا جائے مگر یہ قدرت اور امکان پر منحصر ہے۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي قَزَعَةَ الْبَاهِلِيِّ، عَنْ الْمُهَاجِرِ الْمَكِّيِّ، قَالَ: سُئِلَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَيَرْفَعُ الرَّجُلُ يَدَيْهِ إِذَا رَأَى الْبَيْتَ ؟ فَقَالَ: " حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا نَفْعَلُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: رَفْعُ الْيَدَيْنِ عِنْدَ رُؤْيَةِ الْبَيْتِ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي قَزَعَةَ، وَأَبُو قَزَعَةَ اسْمُهُ سُوَيْدُ بْنُ حُجَيْرٍ.
مہاجر مکی کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ سے پوچھا گیا: جب آدمی بیت اللہ کو دیکھے تو کیا اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے؟ انہوں نے کہا: ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، تو کیا ہم ایسا کرتے تھے؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں: بیت اللہ کو دیکھ کر ہاتھ اٹھانے کی حدیث ہم شعبہ ہی کے طریق سے جانتے ہیں، شعبہ ابوقزعہ سے روایت کرتے ہیں، اور ابوقزعہ کا نام سوید بن حجیر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۴۶ (۱۸۷۰) ، سنن النسائی/الحج ۱۲۲ (۲۸۹۸) ، سنن الدارمی/المناسک ۷۵ (۱۹۶۱) (تحفة الأشراف : ۳۱۱۶) (ضعیف) (سند میں مہاجر بن عکرمہ، لین الحدیث راوی ہیں، نیز اس کے متن میں اثبات ونفی تک کا اختلاف ہے)
وضاحت: ۱؎ : یہاں استفہام انکار کے لیے ہے ، ابوداؤد کی روایت میں «أفكنا نفعله» کے بجائے «فلم يكن يفعله» اور نسائی کی روایت میں «فلم نكن نفعله» ہے لیکن یہ روایت ضعیف ہے اس سے استدلال صحیح نہیں اس کے برعکس صحیح احادیث اور آثار سے بیت اللہ پر نظر پڑتے وقت ہاتھ اٹھانا ثابت ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " لَمَّا قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ، دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَاسْتَلَمَ الْحَجَرَ، ثُمَّ مَضَى عَلَى يَمِينِهِ، فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا، ثُمَّ أَتَى الْمَقَامَ، فَقَالَ: " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 "، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَالْمَقَامُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ بَعْدَ الرَّكْعَتَيْنِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّفَا أَظُنُّهُ، قَالَ: " إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ آئے تو آپ مسجد الحرام میں داخل ہوئے، اور حجر اسود کا بوسہ لیا، پھر اپنے دائیں جانب چلے آپ نے تین چکر میں رمل کیا ۱؎ اور چار چکر میں عام چال چلے۔ پھر آپ نے مقام ابراہیم کے پاس آ کر فرمایا: "مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بناؤ"، چنانچہ آپ نے دو رکعت نماز پڑھی، اور مقام ابراہیم آپ کے اور بیت اللہ کے درمیان تھا۔ پھر دو رکعت کے بعد حجر اسود کے پاس آ کر اس کا استلام کیا۔ پھر صفا کی طرف گئے۔ میرا خیال ہے کہ(وہاں) آپ نے یہ آیت پڑھی: «(إن الصفا والمروة من شعائر الله» "صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۱۹ (۱۲۱۸) ، سنن ابی داود/ الحج ۵۷ (۱۹۰۵) ، والحروف ۱ (۳۹۶۹) ، سنن النسائی/الحج ۱۴۹ (۲۹۴۲) ، ۱۶۳ (۲۹۶۴، ۲۹۶۵) ، و۱۶۴ (۲۹۶۶) ، و۱۷۲ (۲۹۷۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۵۶ (۱۰۰۸) ، والمناسک ۲۹ (۲۹۵۱) ، و۸۴ (۳۰۷۴) ، (تحفة الأشراف : ۲۵۹۴ و۲۵۹۵ و۲۵۹۶) ، مسند احمد (۳/۳۲۰) ، سنن الدارمی/المناسک ۱۱ (۱۸۴۶) ، وانظر ما یأتي برقم: ۸۵۷ و۸۶۲ و۲۹۶۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : رمل یعنی اکڑ کر مونڈھا ہلاتے ہوئے چلنا جیسے سپاہی جنگ کے لیے چلتا ہے ، یہ طواف کعبہ کے پہلے تین پھیروں میں سنت ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا تھا کہ وہ کافروں کے سامنے اپنے طاقتور اور توانا ہونے کا مظاہرہ کر سکیں ، کیونکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا تھے کہ مدینہ کے بخار نے انہیں کمزور کر دیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَمَلَ مِنْ الْحَجَرِ إِلَى الْحَجَرِ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: إِذَا تَرَكَ الرَّمَلَ عَمْدًا فَقَدْ أَسَاءَ وَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ، وَإِذَا لَمْ يَرْمُلْ فِي الْأَشْوَاطِ الثَّلَاثَةِ لَمْ يَرْمُلْ فِيمَا بَقِيَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ عَلَى أَهْلِ مَكَّةَ رَمَلٌ وَلَا عَلَى مَنْ أَحْرَمَ مِنْهَا.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود سے حجر اسود تک تین پھیروں میں رمل ۱؎ کیا اور چار میں عام چل چلے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴-شافعی کہتے ہیں: جب کوئی جان بوجھ کر رمل کرنا چھوڑ دے تو اس نے غلط کیا لیکن اس پر کوئی چیز واجب نہیں اور جب اس نے ابتدائی تین پھیروں میں رمل نہ کیا ہو تو باقی میں نہیں کرے گا، ۵- بعض اہل علم کہتے ہیں: اہل مکہ کے لیے رمل نہیں ہے اور نہ ہی اس پر جس نے مکہ سے احرام باندھا ہو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رمل حجر اسود سے حجر اسود تک پورے مطاف میں مشروع ہے ، رہی ابن عباس کی روایت جس میں رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان عام چال چلنے کا ذکر ہے تو وہ منسوخ ہے ، اس لیے کہ ابن عباس کی روایت عمرہ قضاء کے موقع کی ہے جو ۷ھ میں فتح مکہ سے پہلے ہوا ہے اور جابر رضی الله عنہ کی حدیث حجۃ الوداع کے موقع کی ہے جو ۱۰ھ میں ہوا ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَمُعَاوِيَةُ لَا يَمُرُّ بِرُكْنٍ إِلَّا اسْتَلَمَهُ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ: " إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَكُنْ يَسْتَلِمُ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ " فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: لَيْسَ شَيْءٌ مِنْ الْبَيْتِ مَهْجُورًا. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنْ لَا يَسْتَلِمَ إِلَّا الْحَجَرَ الْأَسْوَدَ، وَالرُّكْنَ الْيَمَانِيَ.
ابوالطفیل کہتے ہیں کہ میں ابن عباس رضی الله عنہما کے ساتھ تھا، معاویہ رضی الله عنہ جس رکن کے بھی پاس سے گزرتے، اس کا استلام کرتے ۱؎ تو ابن عباس نے ان سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہیں کیا، اس پر معاویہ رضی الله عنہ نے کہا: بیت اللہ کی کوئی چیز چھوڑی جانے کے لائق نہیں ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حجر اسود اور رکن یمانی کے علاوہ کسی کا استلام نہ کیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۷۸۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : خانہ کعبہ چار رکنوں پر مشتمل ہے ، پہلے رکن کو دو فضیلتیں حاصل ہیں ، ایک یہ کہ اس میں حجر اسود نصب ہے دوسرے یہ کہ قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور دوسرے رکن کو صرف دوسری فضیلت حاصل ہے یعنی وہ بھی قواعد ابراہیمی پر قائم ہے اور رکن شامی اور رکن عراقی کو ان دونوں فضیلتوں میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ، یہ دونوں قواعد ابراہیمی پر قائم نہیں اس لیے پہلے کی تقبیل (بوسہ) ہے اور دوسرے کا صرف استلام (چھونا) ہے اور باقی دونوں کی نہ تقبیل ہے نہ استلام ، یہی جمہور کی رائے ہے ، اور بعض لوگ رکن یمانی کی تقبیل کو بھی مستحب کہتے ہیں ، جو ممنوع نہیں ہے۔ ۲؎ : معاویہ رضی الله عنہ کے اس قول کا جواب امام شافعی نے یہ کہہ کر دیا ہے کہ ان رکن شامی اور رکن عراقی دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا نہیں ہے حاجی ان کا طواف کر رہا ہے انہیں چھوڑ نہیں رہا ، بلکہ یہ فعلاً اور ترکاً دونوں اعتبار سے سنت کی اتباع ہے ، اگر ان دونوں کا استلام نہ کرنا انہیں چھوڑنا ہے تو ارکان کے درمیان جو جگہیں ہیں ان کا استلام نہ کرنا بھی انہیں چھوڑنا ہوا حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " طَافَ بِالْبَيْتِ مُضْطَبِعًا وَعَلَيْهِ بُرْدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثُ الثَّوْرِيِّ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِهِ، وَهُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَبْدُ الْحَمِيدِ هُوَ ابْنُ جُبَيْرَةَ بْنِ شَيْبَةَ، عَنْ ابْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ وَهُوَ يَعْلَى بْنُ أُمَيَّةَ.
یعلیٰ بن امیہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اضطباع کی حالت میں ۱؎ بیت اللہ کا طواف کیا، آپ کے جسم مبارک پر ایک چادر تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہی ثوری کی حدیث ہے جسے انہوں نے ابن جریج سے روایت کی ہے اور اسے ہم صرف کے انہی طریق سے جانتے ہیں، ۳- عبدالحمید جبیرہ بن شیبہ کے بیٹے ہیں، جنہوں نے ابن یعلیٰ سے اور ابن یعلیٰ نے اپنے والد سے روایت کی ہے اور یعلیٰ سے مراد یعلیٰ بن امیہ ہیں رضی الله عنہ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۵۰ (۱۸۸۳) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۳۰ (۲۹۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۸۳۹) ، مسند احمد (۴/۲۲۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۸ (۱۸۸۵) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : چادر ایک سرے کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر سینے سے گزارتے ہوئے پیٹھ کی طرف کے دونوں کناروں کو بائیں کندھے پر ڈالنے کو اضطباع کہتے ہیں ، یہ طواف کے سبھی پھیروں میں سنت ہے ، بخلاف رمل کے ، وہ صرف شروع کے تین پھیروں (چکروں) میں ہے ، طواف کے علاوہ کسی جگہ اور کسی حالت میں اضطباع نہیں ہے بعض لوگ حج و عمرہ میں احرام ہی کے وقت سے اضطباع کرتے ہیں ، اس کی کوئی اصل نہیں بلکہ نماز کی حالت میں یہ مکروہ ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَابِسِ بْنِ رَبِيعَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِيُقَبِّلُ الْحَجَرَ، وَيَقُولُ: " إِنِّي أُقَبِّلُكَ وَأَعْلَمُ أَنَّكَ حَجَرٌ، وَلَوْلَا أَنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُكَ لَمْ أُقَبِّلْكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عابس بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی الله عنہ کو حجر اسود کا بوسہ لیتے دیکھا، وہ کہہ رہے تھے: میں تیرا بوسہ لے رہا ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ تو ایک پتھر ہے، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ لیتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبکر اور ابن عمر سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۵۰ (۱۵۹۷) ، و۵۷ (۱۶۰۵) ، (۱۶۱۰) ، صحیح مسلم/الحج ۴۱ (۱۲۷۰) ، سنن ابی داود/ المناسک ۴۷ (۱۸۷۳) ، سنن النسائی/الحج ۱۴۷ (۲۹۴۰) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۲۷ (۲۹۴۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۴۷۳) ، مسند احمد (۱/۲۶، ۴۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: موطا امام مالک/الحج ۳۶ (۱۱۵) ، مسند احمد (۱/۲۱، ۳۴، ۳۵، ۳۹، ۵۱، ۵۳، ۵۴) ، سنن الدارمی/المناسک ۴۲ (۱۹۰۶) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : اپنے اس قول سے عمر رضی الله عنہ لوگوں کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ حجر اسود کا چومنا رسول اللہ کے فعل کی اتباع میں ہے نہ کہ اس وجہ سے کہ یہ خود نفع و نقصان پہنچا سکتا ہے جیسا کہ جاہلیت میں بتوں کے سلسلہ میں اس طرح کا لوگ عقیدہ رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ الزُّبَيْرِ بْنِ عَرَبِيٍّ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ ابْنَ عُمَرَ " عَنِ اسْتِلَامِ الْحَجَرِ، فَقَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ ". فَقَالَ الرَّجُلُ: أَرَأَيْتَ إِنْ غُلِبْتُ عَلَيْهِ، أَرَأَيْتَ إِنْ زُوحِمْتُ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: اجْعَلْ أَرَأَيْتَ بِالْيَمَنِ، رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَلِمُهُ وَيُقَبِّلُهُ. قَالَ: وَهَذَا هُوَ الزُّبَيْرُ بْنُ عَرَبِيٍّ، رَوَى عَنْهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَالزُّبَيْرُ بْنُ عَدِيٍّ كُوفِيٌّ يُكْنَى أَبَا سَلَمَةَ، سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ وَغَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ وَغَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْأَئِمَّةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ تَقْبِيلَ الْحَجَرِ، فَإِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ وَلَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَلَمَهُ بِيَدِهِ وَقَبَّلَ يَدَهُ، وَإِنْ لَمْ يَصِلْ إِلَيْهِ اسْتَقْبَلَهُ إِذَا حَاذَى بِهِ وَكَبَّرَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
زبیر بن عربی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے ابن عمر رضی الله عنہما سے حجر اسود کا بوسہ لینے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ اس نے کہا: اچھا بتائیے اگر میں وہاں تک پہنچنے میں مغلوب ہو جاؤں اور اگر میں بھیڑ میں پھنس جاؤں؟ تو اس پر ابن عمر نے کہا: تم (یہ اپنا) اگر مگر یمن میں رکھو ۱؎ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے چھوتے اور بوسہ لیتے دیکھا ہے۔ یہ زبیر بن عربی وہی ہیں، جن سے حماد بن زید نے روایت کی ہے، کوفے کے رہنے والے تھے، ان کی کنیت ابوسلمہ ہے۔ انہوں نے انس بن مالک اور دوسرے کئی صحابہ سے حدیثیں روایت کیں ہیں۔ اور ان سے سفیان ثوری اور دوسرے کئی اور ائمہ نے روایت کی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ان سے یہ دوسری سندوں سے بھی مروی ہے۔ ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ حجر اسود کے بوسہ لینے کو مستحب سمجھتے ہیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو اور آدمی وہاں تک نہ پہنچ سکے تو اسے اپنے ہاتھ سے چھو لے اور اپنے ہاتھ کا بوسہ لے لے اور اگر وہ اس تک نہ پہنچ سکے تو جب اس کے سامنے میں پہنچے تو اس کی طرف رخ کرے اور اللہ اکبر کہے، یہ شافعی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۶۰ (۱۶۱۱) ، سنن النسائی/الحج ۱۵۵ (۲۹۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۶۷۱۹) ، مسند احمد (۲/۱۵۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ مطلب یہ ہے کہ "اگر مگر" چھوڑ دو ، اس طرح کے سوالات سنت رسول کے شیدائیوں کو زیب نہیں دیتے ، یہ تو تارکین سنت کا شیوہ ہے ، سنت رسول کو جان لینے کے بعد اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیئے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " حِينَ قَدِمَ مَكَّةَ طَافَ بِالْبَيْتِ سَبْعًا وَأَتَى الْمَقَامَ فَقَرَأَ: " وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى سورة البقرة آية 125 " فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ، ثُمَّ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ قَالَ: " نَبْدَأُ بِمَا بَدَأَ اللَّهُ بِهِ "، فَبَدَأَ بِالصَّفَا وَقَرَأَ: " إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ سورة البقرة آية 158 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّهُ يَبْدَأُ بِالصَّفَا قَبْلَ الْمَرْوَةِ، فَإِنْ بَدَأَ بِالْمَرْوَةِ قَبْلَ الصَّفَا لَمْ يُجْزِهِ وَبَدَأَ بِالصَّفَا، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ، وَلَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ: الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يَطُفْ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى خَرَجَ مِنْ مَكَّةَ، فَإِنْ ذَكَرَ وَهُوَ قَرِيبٌ مِنْهَا رَجَعَ فَطَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، وَإِنْ لَمْ يَذْكُرْ حَتَّى أَتَى بِلَادَهُ أَجْزَأَهُ وَعَلَيْهِ دَمٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنْ تَرَكَ الطَّوَافَ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ حَتَّى رَجَعَ إِلَى بِلَادِهِ فَإِنَّهُ لَا يُجْزِيهِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، قَالَ: الطَّوَافُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَاجِبٌ لَا يَجُوزُ الْحَجُّ إِلَّا بِهِ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جس وقت مکہ آئے تو آپ نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے اور یہ آیت پڑھی: «(واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» "مقام ابراہیم کو مصلی بناؤ یعنی وہاں نماز پڑھو" (البقرہ: ۱۲۵)، پھر مقام ابراہیم کے پیچھے نماز پڑھی، پھر حجر اسود کے پاس آئے اور اس کا استلام کیا پھر فرمایا: "ہم (سعی) اسی سے شروع کریں گے جس سے اللہ نے شروع کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے صفا سے سعی شروع کی اور یہ آیت پڑھی: «إن الصفا والمروة من شعائر الله» "صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں" (البقرہ: ۱۵۸)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی پر اہل علم کا عمل ہے کہ سعی مروہ کے بجائے صفا سے شروع کی جائے۔ اگر کسی نے صفا کے بجائے مروہ سے سعی شروع کر دی تو یہ سعی کافی نہ ہو گی اور سعی پھر سے صفا سے شروع کرے گا، ۳- اہل علم کا اس شخص کے بارے میں اختلاف ہے کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی نہیں کی، یہاں تک کہ واپس گھر چلا گیا، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اگر کسی نے صفا و مروہ کے درمیان سعی نہیں کی یہاں تک کہ وہ مکہ سے باہر نکل آیا پھر اسے یاد آیا، اور وہ مکے کے قریب ہے تو واپس جا کر صفا و مروہ کی سعی کرے۔ اور اگر اسے یاد نہیں آیا یہاں تک کہ وہ اپنے ملک واپس آ گیا تو اسے کافی ہو جائے گا لیکن اس پر دم لازم ہو گا، یہی سفیان ثوری کا قول ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اگر اس نے صفا و مروہ کے درمیان سعی چھوڑ دی یہاں تک کہ اپنے ملک واپس آ گیا تو یہ اسے کافی نہ ہو گا۔ یہ شافعی کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ صفا و مروہ کے درمیان سعی واجب ہے، اس کے بغیر حج درست نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم: ۸۵۶ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " إِنَّمَا سَعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِيُرِيَ الْمُشْرِكِينَ قُوَّتَهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي يَسْتَحِبُّهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ يَسْعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، فَإِنْ لَمْ يَسْعَ وَمَشَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَأَوْهُ جَائِزًا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی، تاکہ مشرکین کو اپنی قوت دکھا سکیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عائشہ، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم اسی کو مستحب سمجھتے ہیں کہ آدمی صفا و مروہ کے درمیان سعی کرے، اگر وہ سعی نہ کرے بلکہ صفا و مروہ کے درمیان عام چال چلے تو اسے جائز سمجھتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۷۴۱) ، مسند احمد (۱/۲۵۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ جُمْهَانَ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَيَمْشِي فِي السَّعْيِ، فَقُلْتُ لَهُ: " أَتَمْشِي فِي السَّعْيِ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، قَالَ: لَئِنْ سَعَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْعَى، وَلَئِنْ مَشَيْتُ لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي وَأَنَا شَيْخٌ كَبِيرٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِي عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوُهُ.
کثیر بن جمہان کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر رضی الله عنہما کو سعی میں عام چال چلتے دیکھا تو میں نے ان سے کہا: کیا آپ صفا و مروہ کی سعی میں عام چال چلتے ہیں؟ انہوں نے کہا: اگر میں دوڑوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوڑتے بھی دیکھا ہے، اور اگر میں عام چال چلوں تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عام چال چلتے بھی دیکھا ہے، اور میں کافی بوڑھا ہوں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن جبیر کے واسطے سے ابن عمر سے اسی طرح مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۵۶ (۱۹۰۴) ، سنن النسائی/الحج ۱۷۴ (۲۹۷۹) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۴۳ (۲۹۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۷۳۷۹) ، مسند احمد (۲/۵۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ هِلَالٍ الصَّوَّافُ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " طَافَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ فَإِذَا انْتَهَى إِلَى الرُّكْنِ أَشَارَ إِلَيْهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي الطُّفَيْلِ، وَأُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ يَطُوفَ الرَّجُلُ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ رَاكِبًا إِلَّا مِنْ عُذْرٍ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری پر بیت اللہ کا طواف کیا جب ۱؎ آپ حجر اسود کے پاس پہنچتے تو اس کی طرف اشارہ کرتے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، ابوالطفیل اور ام سلمہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-اہل علم کی ایک جماعت نے بیت اللہ کا طواف، اور صفا و مروہ کی سعی سوار ہو کر کرنے کو مکروہ کہا ہے الا یہ کہ کوئی عذر ہو، یہی شافعی کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۶۱ (۱۶۱۲) ، و۶۲ (۱۶۱۳) ، و۷۴ (۱۶۳۲) ، والطلاق ۲۴ (۵۲۹۳) ، سنن النسائی/الحج ۱۶۰ (۲۹۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۶۰۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : سواری پر طواف آپ نے اس لیے کیا تھا تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں اور آپ سے حج کے مسائل پوچھ سکیں کیونکہ لوگ آپ کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے۔ ۲؎ : یہ اشارہ آپ اپنی چھڑی سے کرتے تھے پھر اسے چوم لیتے تھے جیسا کہ ابوالطفیل رضی الله عنہ کی روایت میں ہے جو صحیح مسلم میں آئی ہے۔
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَمَانٍ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ طَافَ بِالْبَيْتِ خَمْسِينَ مَرَّةً، خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنَّمَا يُرْوَى هَذَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَوْلُهُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے بیت اللہ کا طواف پچاس بار کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آئے گا جیسے اسی دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس باب میں انس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ تو ابن عباس سے ان کے اپنے قول سے روایت کیا جاتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۵۳۱) (ضعیف) (سند میں سفیان بن وکیع یحییٰ بن یمان شریک القاضی اور ابواسحاق سبیعی سب میں کلام ہے، صحیح بات یہ ہے کہ یہ ابن عباس کا اپنا قول ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، قَالَ: كَانُوا يَعُدُّونَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ أَفْضَلَ مِنْ أَبِيهِ، وَلِعَبْدِ اللَّهِ أَخٌ يُقَالُ لَهُ: عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَقَدْ رَوَى عَنْهُ أَيْضًا.
ایوب سختیانی کہتے ہیں کہ لوگ عبداللہ بن سعید بن جبیر کو ان کے والد سے افضل شمار کرتے تھے۔ اور عبداللہ کے ایک بھائی ہیں جنہیں عبدالملک بن سعید بن جبیر کہتے ہیں۔ انہوں نے ان سے بھی روایت کی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۸۴۵۲) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : مؤلف نے یہ اثر پچھلی حدیث کے راوی "عبداللہ بن سعید بن جبیر" کی تعریف میں پیش کیا ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَاباهَ، عَنْجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ مَنَافٍ لَا تَمْنَعُوا أَحَدًا طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ، وَصَلَّى أَيَّةَ سَاعَةٍ شَاءَ مِنْ لَيْلٍ أَوْ نَهَارٍ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي ذَرٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جُبَيْرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَاباهَ أَيْضًا، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي الصَّلَاةِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ بِمَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ وَالطَّوَافِ بَعْدَ الْعَصْرِ وَبَعْدَ الصُّبْحِ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا. وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا طَافَ بَعْدَ الْعَصْرِ لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ، وَكَذَلِكَ إِنْ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ أَيْضًا لَمْ يُصَلِّ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَاحْتَجُّوا بِحَدِيثِ عُمَرَ أَنَّهُ طَافَ بَعْدَ صَلَاةِ الصُّبْحِ فَلَمْ يُصَلِّ، وَخَرَجَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى نَزَلَ بِذِي طُوًى فَصَلَّى بَعْدَ مَا طَلَعَتِ الشَّمْسُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ.
جبیر بن مطعم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے بنی عبد مناف! رات دن کے کسی بھی حصہ میں کسی کو اس گھر کا طواف کرنے اور نماز پڑھنے سے نہ روکو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جبیر مطعم رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عبداللہ بن ابی نجیح نے بھی یہ حدیث عبداللہ بن باباہ سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس اور ابوذر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- مکے میں عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں: عصر کے بعد اور فجر کے بعد نماز پڑھنے اور طواف کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے ۱؎ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ۲؎ سے دلیل لی ہے۔ اور بعض کہتے ہیں: اگر کوئی عصر کے بعد طواف کرے تو سورج ڈوبنے تک نماز نہ پڑھے۔ اسی طرح اگر کوئی فجر کے بعد طواف کرے تو سورج نکلنے تک نماز نہ پڑھے۔ ان کی دلیل عمر رضی الله عنہ کی حدیث ہے کہ انہوں نے فجر کے بعد طواف کیا اور نماز نہیں پڑھی پھر مکہ سے نکل گئے یہاں تک کہ وہ ذی طویٰ میں اترے تو سورج نکل جانے کے بعد نماز پڑھی۔ یہ سفیان ثوری اور مالک بن انس کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۵۳ (۱۸۹۴) ، سنن النسائی/المواقیت ۴۱ (۵۸۶) ، والحج ۱۳۷ (۲۹۲۷) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۱۴۹ (۱۲۵۶) ، (تحفة الأشراف : ۳۱۸۷) ، مسند احمد (۴/۸۰، ۸۱، ۸۴) ، سنن الدارمی/المناسک ۷۹ (۱۹۶۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اور یہی ارجح و اشبہ ہے۔ ۲؎ : جو اس باب میں مذکور ہے ، اس کا ماحصل یہ ہے کہ مکے میں مکروہ اور ممنوع اوقات کا لحاظ نہیں ہے۔ (خاص کر طواف کے بعد دو رکعتوں کے سلسلے میں) جب کہ عام جگہوں میں فجر و عصر کے بعد کوئی نفل نماز نہیں ہے۔
أَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ الْمَدَنِيُّ قِرَاءَةً، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ: بِسُورَتَيْ الْإِخْلَاصِ قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف کی دو رکعت میں اخلاص کی دونوں سورتیں یعنی «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۶۱۳) (صحیح) (جعفر صادق کے طریق سے صحیح مسلم میں مروی طویل حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ مولف کی اس سند میں عبدالعزیز بن عمران متروک الحدیث راوی ہے)
وضاحت: ۱؎ : «قل يا أيها الكافرون» کو سورۃ الاخلاص تغلیباً کہا گیا ہے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ " يَسْتَحِبُّ أَنْ يَقْرَأَ فِي رَكْعَتَيِ الطَّوَافِ بِ: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ وَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عِمْرَانَ، وَحَدِيثُ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عِمْرَانَ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ.
محمد (محمد بن علی الباقر) سے روایت ہے کہ وہ طواف کی دونوں رکعتوں میں: «قل يا أيها الكافرون» اور «قل هو الله أحد» پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سفیان کی جعفر بن محمد عن أبیہ کی روایت عبدالعزیز بن عمران کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اور (سفیان کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی حدیث جسے وہ اپنے والد (کے عمل سے) سے روایت کرتے ہیں (عبدالعزیز کی روایت کردہ) جعفر بن محمد کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جسے وہ اپنے والد سے اور وہ جابر سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں ۱؎، ۳- عبدالعزیز بن عمران حدیث میں ضعیف ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۹۳۲۴) (صحیح الإسناد)
وضاحت: ۱؎ : امام ترمذی کے اس قول میں نظر ہے کیونکہ عبدالعزیز بن عمران اس حدیث کو «عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے روایت کرنے میں منفرد نہیں ہیں ، امام مسلم نے اپنی صحیح میں (برقم : ۱۲۱۸) «حاتم بن اسماعیل المدنی عن جعفر بن محمد عن أبیہ عن جابر» کے طریق سے اس حدیث کو روایت کیا ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ زَيْدِ بْنِ أُثَيْعٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَلِيًّا بِأَيِّ شَيْءٍ بُعِثْتَ، قَالَ: " بِأَرْبَعٍ: لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ، وَلَا يَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرْيَانٌ، وَلَا يَجْتَمِعُ الْمُسْلِمُونَ وَالْمُشْرِكُونَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَذَا، وَمَنْ كَانَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهْدٌ، فَعَهْدُهُ إِلَى مُدَّتِهِ، وَمَنْ لَا مُدَّةَ لَهُ فَأَرْبَعَةُ أَشْهُرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ. ح
زید بن اثیع کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ سے پوچھا: آپ کو کن باتوں کا حکم دے کر بھیجا گیا ہے؟ ۱؎ انہوں نے کہا: چار باتوں کا: جنت میں صرف وہی جان داخل ہو گی جو مسلمان ہو، بیت اللہ کا طواف کوئی ننگا ہو کر نہ کرے۔ مسلمان اور مشرک اس سال کے بعد جمع نہ ہوں، جس کسی کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عہد ہو تو اس کا یہ عہد اس کی مدت تک کے لیے ہو گا۔ اور جس کی کوئی مدت نہ ہو تو اس کی مدت چار ماہ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، وأعادہ في تفسیر التوبة (۳۰۹۲) (تحفة الأشراف : ۱۰۱۰۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ اس سال کے حج کی بات ہے جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی الله عنہ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا ، (آٹھویں یا نویں سال ہجرت میں) اور پھر اللہ عزوجل کی طرف سے حرم مکی میں مشرکین و کفار کے داخلہ پر پابندی کا حکم نازل ہو جانے کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی الله عنہ کو ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس مکہ میں یہ احکام دے کر روانہ فرمایا تھا ، راوی حدیث زید بن اثیع الہمدانی ان سے انہی احکام و اوامر کے بارے میں دریافت کر رہے ہیں جو ان کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دے کر بھیجا گیا تھا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، وَنَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق نَحْوَهُ، وَقَالَا: زَيْدُ بْنُ يُثَيْعٍ وَهَذَا أَصَحُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَشُعْبَةُ وَهِمَ فِيهِ، فَقَالَ: زَيْدُ بْنُ أُثَيْلٍ.
ہم سے ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے بیان کیا، یہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا اور سفیان نے ابواسحاق سبیعی سے اسی طرح کی حدیث روایت کی، البتہ ابن ابی عمر اور نصر بن علی نے (زید بن اثیع کے بجائے) زید بن یثیع کہا ہے، اور یہ زیادہ صحیح ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: شعبہ کو اس میں وہم ہوا ہے، انہوں نے: زید بن اثیل کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِي وَهُوَ قَرِيرُ الْعَيْنِ طَيِّبُ النَّفْسِ، فَرَجَعَ إِلَيَّ وَهُوَ حَزِينٌ، فَقُلْتُ لَهُ: فَقَالَ: " إِنِّي دَخَلْتُ الْكَعْبَةَ وَوَدِدْتُ أَنِّي لَمْ أَكُنْ فَعَلْتُ إِنِّي أَخَافُ أَنْ أَكُونَ أَتْعَبْتُ أُمَّتِي مِنْ بَعْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے نکل کر گئے، آپ کی آنکھیں ٹھنڈی تھیں اور طبیعت خوش، پھر میرے پاس لوٹ کر آئے، تو غمگین اور افسردہ تھے، میں نے آپ سے (وجہ) پوچھی، تو آپ نے فرمایا: "میں کعبہ کے اندر گیا۔ اور میری خواہش ہوئی کہ کاش میں نے ایسا نہ کیا ہوتا۔ میں ڈر رہا ہوں کہ اپنے بعد میں نے اپنی امت کو زحمت میں ڈال دیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۹۵ (۲۰۲۹) ، سنن ابن ماجہ/المناسک (۷۹) (۳۰۶۴) (تحفة الأشراف : ۱۶۲۳۰) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ اسماعیل بن عبدالملک ‘‘ کثیرالوہم ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ بِلَالٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى فِي جَوْفِ الْكَعْبَةِ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَمْ يُصَلِّ وَلَكِنَّهُ كَبَّرَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعُثْمَانَ بْنِ طَلْحَةَ، وَشَيْبَةَ بْنِ عُثْمَانَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ بِلَالٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِالصَّلَاةِ فِي الْكَعْبَةِ بَأْسًا، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَا بَأْسَ بِالصَّلَاةِ النَّافِلَةِ فِي الْكَعْبَةِ، وَكَرِهَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ فِي الْكَعْبَةِ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَا بَأْسَ أَنْ تُصَلَّى الْمَكْتُوبَةُ وَالتَّطَوُّعُ فِي الْكَعْبَةِ، لِأَنَّ حُكْمَ النَّافِلَةِ وَالْمَكْتُوبَةِ فِي الطَّهَارَةِ وَالْقِبْلَةِ سَوَاءٌ.
بلال رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی۔ جب کہ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: آپ نے نماز نہیں پڑھی بلکہ آپ نے صرف تکبیر کہی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بلال رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسامہ بن زید، فضل بن عباس، عثمان بن طلحہ اور شیبہ بن عثمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے، ۴- مالک بن انس کہتے ہیں: کعبے میں نفل نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، اور انہوں نے کعبہ کے اندر فرض نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں: کعبہ کے اندر فرض اور نفل کوئی بھی نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اس لیے کہ نفل اور فرض کا حکم وضو اور قبلے کے بارے میں ایک ہی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۰۳۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الصلاة ۳۰ (۳۹۷) ، و۸۱ (۴۸۶) ، و۹۶ (۵۰۴) ، والتہجد ۲۵ (۱۱۶۷) ، والحج ۵۱ (۱۵۹۸) ، والجہاد ۱۲۷ (۲۹۸۸) ، والمغازي ۴۹ (۴۲۸۹) ، و۷۷ (۴۴۰۰) ، صحیح مسلم/الحج ۲۸ (۱۳۲۹) ، سنن ابی داود/ الحج ۹۳ (۲۰۲۳) ، سنن النسائی/المساجد ۵ (۶۹۱) ، والقبلة ۶ (۷۴۸) ، والحج ۱۲۶ (۲۹۰۸) ، و۱۲۷ (۲۹۰۹) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۹ (۳۰۶۳) ، موطا امام مالک/الحج ۶۳ (۱۹۳) ، مسند احمد (۲/۳۳، ۵۵، ۱۱۳، ۱۲۰۰، ۱۳۸) ، سنن الدارمی/المناسک ۴۳ (۱۹۰۸) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر فی السیاق۔
وضاحت: ۱؎ : راجح بلال رضی الله عنہ کی روایت ہے کیونکہ اس سے کعبہ کے اندر نماز پڑھنا ثابت ہو رہا ہے ، رہی ابن عباس رضی الله عنہما کی نفی ، تو یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے کیونکہ اسامہ بن زید رضی الله عنہما نے انہیں اسی کی خبر دی تھی اور اسامہ کے اس سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ لوگ کعبہ کے اندر گئے تو ان لوگوں نے دروازہ بند کر لیا اور ذکر و دعا میں مشغول ہو گئے جب اسامہ نے دیکھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں مشغول ہیں تو وہ بھی ایک گوشے میں جا کر دعا میں مشغول ہو گئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے گوشے میں تھے اور بلال رضی الله عنہ آپ سے قریب تھے اور آپ دونوں کے بیچ میں تھے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز چونکہ بہت ہلکی تھی اور اسامہ خود ذکر و دعا میں مشغول و منہمک تھے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بیچ میں بلال حائل تھے اس لیے اسامہ کو آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہ ہو سکا ہو گا اسی بنا پر انہوں نے اس کی نفی کی ، «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ ابْنَ الزُّبَيْرِ، قَالَ لَهُ: حَدِّثْنِي بِمَا كَانَتْ تُفْضِي إِلَيْكَ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ يَعْنِي عَائِشَةَ، فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهَا: " لَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُو عَهْدٍ بِالْجَاهِلِيَّةِ لَهَدَمْتُ الْكَعْبَةَ وَجَعَلْتُ لَهَا بَابيْنِ ". قَالَ: فَلَمَّا مَلَكَ ابْنُ الزُّبَيْرِ هَدَمَهَا وَجَعَلَ لَهَا بَابيْنِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اسود بن یزید سے روایت ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما نے ان سے کہا: تم مجھ سے وہ باتیں بیان کرو، جسے ام المؤمنین یعنی عائشہ رضی الله عنہا تم سے رازدارانہ طور سے بیان کیا کرتی تھیں، انہوں نے کہا: مجھ سے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "اگر تمہاری قوم کے لوگ جاہلیت چھوڑ کر نئے نئے مسلمان نہ ہوئے ہوتے، تو میں کعبہ کو گرا دیتا اور اس میں دو دروازے کر دیتا"، چنانچہ ابن زبیر رضی الله عنہما جب اقتدار میں آئے تو انہوں نے کعبہ گرا کر اس میں دو دروازے کر دیئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۱۲۵ (۲۹۰۵) (تحفة الأشراف : ۱۶۰۳۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۴۲ (۱۵۸۳) ، والأنبیاء ۱۰ (۳۳۶۸) ، وتفسیر البقرة ۱۰ (۴۴۸۴) ، صحیح مسلم/الحج ۶۹ (۱۳۳۳) ، سنن النسائی/الحج ۱۲۵ (۲۹۰۳) ، موطا امام مالک/الحج ۳۳ (۱۰۴) ، مسند احمد (۶/۱۱۳، ۱۷۷، ۲۴۷، ۲۵۳، ۲۵۲) من غیر ہذا الطریق وبتغیر یسیر في السیاق۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أُحِبُّ أَنْ أَدْخُلَ الْبَيْتَ فَأُصَلِّيَ فِيهِ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِي فَأَدْخَلَنِي الْحِجْرَ، فَقَالَ: " صَلِّي فِي الْحِجْرِ إِنْ أَرَدْتِ دُخُولَ الْبَيْتِ، فَإِنَّمَا هُوَ قِطْعَةٌ مِنْ الْبَيْتِ، وَلَكِنَّ قَوْمَكِ اسْتَقْصَرُوهُ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ، فَأَخْرَجُوهُ مِنْ الْبَيْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ هُوَ عَلْقَمَةُ بْنُ بِلَالٍ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: "اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۹۴ (۲۰۲۸) ، سنن النسائی/الحج ۱۲۸ (۲۹۱۵) (تحفة الأشراف : ۱۷۹۶۱) ، مسند احمد (۶/۹۲) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے ، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیئے ، اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَزَلَ الْحَجَرُ الْأَسْوَدُ مِنَ الْجَنَّةِ وَهُوَ أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ، فَسَوَّدَتْهُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حجر اسود جنت سے اترا، وہ دودھ سے زیادہ سفید تھا، لیکن اسے بنی آدم کے گناہوں نے کالا کر دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۱۴۵ (۲۹۳۸) (تحفة الأشراف : ۵۵۷۱) ، مسند احمد (۱/۳۰۷، ۳۲۹، ۳۷۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : زیادہ طور پر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ عقلاً و نقلاً اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے ، بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اس سے حجر اسود کی تعظیم شان میں مبالغہ اور گناہوں کی سنگینی بتانا مقصود ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، عَنْ رَجَاءٍ أَبِي يَحْيَى، قَال: سَمِعْتُ مُسَافِعًا الْحَاجِبَ، قَال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الرُّكْنَ، وَالْمَقَامَ يَاقُوتَتَانِ مِنْ يَاقُوتِ الْجَنَّةِ، طَمَسَ اللَّهُ نُورَهُمَا، وَلَوْ لَمْ يَطْمِسْ نُورَهُمَا لَأَضَاءَتَا مَا بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا يُرْوَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو مَوْقُوفًا قَوْلُهُ، وَفِيهِ عَنْ أَنَسٍ أَيْضًا، وَهُوَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "حجر اسود اور مقام ابراہیم دونوں جنت کے یاقوت میں سے دو یاقوت ہیں، اللہ نے ان کا نور ختم کر دیا، اگر اللہ ان کا نور ختم نہ کرتا تو وہ مشرق و مغرب کے سارے مقام کو روشن کر دیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- یہ عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے موقوفاً ان کا قول روایت کیا جاتا ہے، ۳- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر: مسند احمد (۲/۲۱۳، ۲۱۴) (التحفة: ۸۹۳۰) (صحیح) (سند میں رجاء بن صبیح ابو یحییٰ ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، دیکھیے صحیح الترغیب رقم: ۱۱۴۷)
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ وَالْفَجْرَ ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ قَدْ تَكَلَّمُوا فِيهِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ ۱؎ میں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر پڑھائی ۲؎ پھر آپ صبح ۳؎ ہی عرفات کے لیے روانہ ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم پر ان کے حافظے کے تعلق سے لوگوں نے کلام کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحج ۵۱ (۳۰۰۴) (تحفة الأشراف : ۵۸۸۱) (صحیح) (سند میں اسماعیل بن مسلم کے اندر ائمہ کا کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : منیٰ : مکہ اور مزدلفہ کے درمیان کئی وادیوں پر مشتمل ایک کھلے میدان کا نام ہے ، مشرقی سمت میں اس کی حد وہ نشیبی وادی ہے جو وادی محسّر سے اترتے وقت پڑتی ہے اور مغربی سمت میں جمرہ عقبہ ہے۔ ۲؎ : یوم الترویہ یعنی آٹھویں ذی الحجہ۔ ۳؎ : یعنی سورج نکلنے کے بعد۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَجْلَحِ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " صَلَّى بِمِنًى الظُّهْرَ وَالْفَجْرَ، ثُمَّ غَدَا إِلَى عَرَفَاتٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مِقْسَمٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ: قَالَ يَحْيَى: قَالَ شُعْبَةُ: لَمْ يَسْمَعْ الْحَكَمُ مِنْ مِقْسَمٍ إِلَّا خَمْسَةَ أَشْيَاءَ وَعَدَّهَا، وَلَيْسَ هَذَا الْحَدِيثُ فِيمَا عَدَّ شُعْبَةُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منیٰ میں ظہر اور فجر پڑھی ۱؎، پھر آپ صبح ہی صبح ۲؎ عرفات کے لیے روانہ ہو گئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- مقسم کی حدیث ابن عباس سے مروی ہے، ۲- شعبہ کا بیان ہے کہ حکم نے مقسم سے صرف پانچ چیزیں سنی ہیں، اور انہوں نے انہیں شمار کیا تو یہ حدیث شعبہ کی شمار کی ہوئی حدیثوں میں نہیں تھی، ۳- اس باب میں عبداللہ بن زبیر اور انس سے بھی احادیث آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۵۹ (۹۱۱) (تحفة الأشراف : ۶۴۶۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی : ظہر سے لے کر فجر تک پڑھی۔ ظہر ، عصر جمع اور قصر کر کے ، پھر مغرب اور عشاء جمع اور قصر کر کے۔ ۲؎ : یعنی نویں ذی الحجہ کو سورج نکلنے کے فوراً بعد۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ أَبَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ أُمِّهِ مُسَيْكَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَلَا نَبْنِي لَكَ بَيْتًا يُظِلُّكَ بِمِنًى، قَالَ: " لَا مِنًى مُنَاخُ مَنْ سَبَقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے لیے منی میں ایک گھر نہ بنا دیں جو آپ کو سایہ دے۔ آپ نے فرمایا:"نہیں ۱؎، منیٰ میں اس کا حق ہے جو وہاں پہلے پہنچے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۹۰ (۲۰۱۹) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵۲ (۳۰۰۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۸۷ (۱۹۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۹۶۳) (ضعیف) (یوسف کی والدہ ’’ مسیکہ ‘‘ مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ منی کو کسی کے لیے خاص کرنا درست نہیں ، وہ رمی ، ذبح اور حلق وغیرہ عبادات کی سر زمین ہے ، اگر مکان بنانے کی اجازت دے دی جائے تو پورا میدان مکانات ہی سے بھر جائے گا اور عبادت کے لیے جگہ نہیں رہ جائے گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ، قَالَ: " صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى آمَنَ مَا كَانَ النَّاسُ وَأَكْثَرَهُ رَكْعَتَيْنِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ حَارِثَةَ بْنِ وَهْبٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى رَكْعَتَيْنِ، وَمَعَ أَبِي بَكْرٍ وَمَعَ عُمَرَ وَمَعَ عُثْمَانَ رَكْعَتَيْنِ صَدْرًا مِنْ إِمَارَتِهِ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي تَقْصِيرِ الصَّلَاةِ بِمِنًى لِأَهْلِ مَكَّةَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لَيْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، إِلَّا مَنْ كَانَ بِمِنًى مُسَافِرًا، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَسُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا بَأْسَ لِأَهْلِ مَكَّةَ أَنْ يَقْصُرُوا الصَّلَاةَ بِمِنًى، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَمَالِكٍ، وَسُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَهْدِيٍّ.
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعت نماز پڑھی جب کہ لوگ ہمیشہ سے زیادہ مامون اور بےخوف تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حارثہ بن وہب کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور ابن مسعود رضی الله عنہ سے بھی مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ منیٰ میں دو رکعتیں پڑھیں، پھر ابوبکر کے ساتھ، عمر کے ساتھ اور عثمان رضی الله عنہم کے ساتھ ان کے ابتدائی دور خلافت میں دو رکعتیں پڑھیں، ۴- اہل مکہ کے منیٰ میں نماز قصر کرنے کے سلسلے میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ منیٰ میں نماز قصر کریں ۱؎، بجز ایسے شخص کے جو منیٰ میں مسافر کی حیثیت سے ہو، یہ ابن جریج، سفیان ثوری، یحییٰ بن سعید قطان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ اہل مکہ کے لیے منیٰ میں نماز قصر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہ اوزاعی، مالک، سفیان بن عیینہ، اور عبدالرحمٰن بن مہدی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/تقصیرالصلاة ۲ (۱۰۸۳) ، والحج ۸۴ (۱۶۵۷) ، صحیح مسلم/المسافرین ۲ (۶۹۶) ، سنن ابی داود/ الحج ۷۷ (۱۹۶۵) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ۳ (۱۴۴۶) ، (تحفة الأشراف : ۳۲۸۴) ، مسند احمد (۴/۳۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ان لوگوں کے نزدیک منیٰ میں قصر کی وجہ منسک حج نہیں سفر ہے ، مکہ اور منیٰ کے درمیان اتنی دوری نہیں کہ آدمی اس میں نماز قصر کرے ، اور جوگ مکہ والوں کے لیے منیٰ میں قصر کو جائز کہتے ہیں ان کے نزدیک قصر کی وجہ سفر نہیں بلکہ اس کے حج کا نسک ہوتا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ شَيْبَانَ، قَالَ: أَتَانَا ابْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ وَنَحْنُ وُقُوفٌ بِالْمَوْقِفِ مَكَانًا يُبَاعِدُهُ عَمْرٌو، فَقَالَ: إِنِّي رَسُولُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكُمْ، يَقُولُ: " كُونُوا عَلَى مَشَاعِرِكُمْ، فَإِنَّكُمْ عَلَى إِرْثٍ مِنْ إِرْثِ إِبْرَاهِيمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَعَائِشَةَ، وَجُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ، وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، وَابْنُ مِرْبَعٍ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ مِرْبَعٍ الْأَنْصَارِيُّ، وَإِنَّمَا يُعْرَفُ لَهُ هَذَا الْحَدِيثُ الْوَاحِدُ.
یزید بن شیبان کہتے ہیں: ہمارے پاس یزید بن مربع انصاری رضی الله عنہ آئے، ہم لوگ موقف (عرفات) میں ایسی جگہ ٹھہرے ہوئے تھے جسے عمرو بن عبداللہ امام سے دور سمجھتے تھے ۱؎ تو یزید بن مربع نے کہا: میں تمہاری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھیجا ہوا قاصد ہوں، تم لوگ مشاعر ۲؎ پر ٹھہرو کیونکہ تم ابراہیم کے وارث ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یزید بن مربع انصاری کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے ہم صرف ابن عیینہ کے طریق سے جانتے ہیں، اور ابن عیینہ عمرو بن دینار سے روایت کرتے ہیں، ۳- ابن مربع کا نام یزید بن مربع انصاری ہے، ان کی صرف یہی ایک حدیث جانی جاتی ہے، ۴- اس باب میں علی، عائشہ، جبیر بن مطعم، شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۳ (۱۹۱۹) ، سنن النسائی/الحج ۲۰۲ (۳۰۱۷) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵۵ (۳۰۱۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۵۲۶) ، مسند احمد (۴/۱۳۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ جملہ مدرج ہے عمرو بن دینار کا تشریحی قول ہے۔ ۲؎ : مشاعر سے مراد مواضع نسک اور مواقف قدیمہ ہیں ، یعنی ان مقامات پر تم بھی وقوف کرو کیونکہ ان پر وقوف تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام ہی کے دور سے بطور روایت چلا آ رہا ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الطُّفَاوِيُّ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَتْ قُرَيْشٌ وَمَنْ كَانَ عَلَى دِينِهَا وَهُمْ الْحُمْسُ يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، يَقُولُونَ: نَحْنُ قَطِينُ اللَّهِ، وَكَانَ مَنْ سِوَاهُمْ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ كَانُوا لَا يَخْرُجُونَ مِنْ الْحَرَمِ، وَعَرَفَةُ خَارِجٌ مِنْ الْحَرَمِ، وَأَهْلُ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَيَقُولُونَ: نَحْنُ قَطِينُ اللَّهِ يَعْنِي سُكَّانَ اللَّهِ، وَمَنْ سِوَى أَهْلِ مَكَّةَ كَانُوا يَقِفُونَ بِعَرَفَاتٍ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199. وَالْحُمْسُ هُمْ: أَهْلُ الْحَرَمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: قریش اور ان کے ہم مذہب لوگ - اور یہ «حمس» ۱؎ کہلاتے ہیں - مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم تو اللہ کے خادم ہیں۔ (عرفات نہیں جاتے)، اور جوان کے علاوہ لوگ تھے وہ عرفہ میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے آیت کریمہ «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» "اور تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں" (البقرہ: ۱۹۹) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اہل مکہ حرم سے باہر نہیں جاتے تھے اور عرفہ حرم سے باہر ہے۔ اہل مکہ مزدلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے اور کہتے تھے: ہم اللہ کے آباد کئے ہوئے لوگ ہیں۔ اور اہل مکہ کے علاوہ لوگ عرفات میں وقوف کرتے تھے تو اللہ نے حکم نازل فرمایا: «ثم أفيضوا من حيث أفاض الناس» "تم بھی وہاں سے لوٹو جہاں سے لوگ لوٹتے ہیں" «حمس» سے مراد اہل حرم ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۷۲۳۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «حمس» کے معنی بہادر اور شجاع کے ہیں۔ مکہ والے اپنے آپ کے لیے یہ لفظ استعمال کیا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَلِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَفَةَ، فَقَالَ: " هَذِهِ عَرَفَةُ وَهَذَا هُوَ الْمَوْقِفُ، وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ "، ثُمَّ أَفَاضَ حِينَ غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ وَجَعَلَ يُشِيرُ بِيَدِهِ عَلَى هِينَتِهِ وَالنَّاسُ يَضْرِبُونَ يَمِينًا وَشِمَالًا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، وَيَقُولُ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيْكُمُ السَّكِينَةَ. ثُمَّ أَتَى جَمْعًا فَصَلَّى بِهِمُ الصَّلَاتَيْنِ جَمِيعًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ أَتَى قُزَحَ فَوَقَفَ عَلَيْهِ، وَقَالَ: " هَذَا قُزَحُ، وَهُوَ الْمَوْقِفُ وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ "، ثُمَّ أَفَاضَ حَتَّى انْتَهَى إِلَى وَادِي مُحَسِّرٍ، فَقَرَعَ نَاقَتَهُ فَخَبَّتْ حَتَّى جَاوَزَ الْوَادِيَ، فَوَقَفَ وَأَرْدَفَ الْفَضْلَ، ثُمَّ أَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا ثُمَّ أَتَى الْمَنْحَرَ، فَقَالَ: " هَذَا الْمَنْحَرُ وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ "، وَاسْتَفْتَتْهُ جَارِيَةٌ شَابَّةٌ مِنْ خَثْعَمٍ، فَقَالَتْ: إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ قَدْ أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، أَفَيُجْزِئُ أَنْ أَحُجَّ عَنْهُ ؟ قَالَ: حُجِّي عَنْ أَبِيكِ، قَالَ: وَلَوَى عُنُقَ الْفَضْلِ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ لَوَيْتَ عُنُقَ ابْنِ عَمِّكَ ؟ قَالَ: " رَأَيْتُ شَابًّا وَشَابَّةً فَلَمْ آمَنِ الشَّيْطَانَ عَلَيْهِمَا "، ثُمَّ أَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَفَضْتُ قَبْلَ أَنْ أَحْلِقَ، قَالَ: " احْلِقْ أَوْ قَصِّرْ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: وَجَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي ذَبَحْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: ثُمَّ أَتَى الْبَيْتَ فَطَافَ بِهِ، ثُمَّ أَتَى زَمْزَمَ، فَقَالَ: " يَا بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ لَوْلَا أَنْ يَغْلِبَكُمُ النَّاسُ عَنْهُ لَنَزَعْتُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَلِيٍّ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَيَّاشٍ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الثَّوْرِيِّ مِثْلَ هَذَا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ رَأَوْا أَنْ يُجْمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ بِعَرَفَةَ فِي وَقْتِ الظُّهْرِ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا صَلَّى الرَّجُلُ فِي رَحْلِهِ وَلَمْ يَشْهَدِ الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ إِنْ شَاءَ جَمَعَ هُوَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ مِثْلَ مَا صَنَعَ الْإِمَامُ، قَالَ: وَزَيْدُ بْنُ عَلِيٍّ هُوَ ابْنُ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَلَيْهِ السَّلَام.
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات میں قیام کیا اور فرمایا: "یہ عرفہ ہے، یہی وقوف (ٹھہرنے) کی جگہ ہے، عرفہ(عرفات) کا پورا ٹھہرنے کی جگہ ہے، پھر آپ جس وقت سورج ڈوب گیا تو وہاں سے لوٹے۔ اسامہ بن زید کو پیچھے بٹھایا، اور آپ اپنی عام رفتار سے چلتے ہوئے اپنے ہاتھ سے اشارہ کر رہے تھے، اور لوگ دائیں بائیں اپنے اونٹوں کو مار رہے تھے، آپ ان کی طرف متوجہ ہو کر کہتے جاتے تھے: "لوگو! سکون و وقار کو لازم پکڑو"، پھر آپ مزدلفہ آئے اور لوگوں کو دونوں نمازیں (مغرب اور عشاء قصر کر کے) ایک ساتھ پڑھائیں، جب صبح ہوئی تو آپ قزح ۱؎ آ کر ٹھہرے، اور فرمایا: "یہ قزح ہے اور یہ بھی موقف ہے اور مزدلفہ پورا کا پورا موقف ہے"، پھر آپ لوٹے یہاں تک کہ آپ وادی محسر ۲؎ پہنچے اور آپ نے اپنی اونٹنی کو مارا تو وہ دوڑی یہاں تک کہ اس نے وادی پار کر لی، پھر آپ نے وقوف کیا۔ اور فضل بن عباس رضی الله عنہما کو (اونٹنی پر) پیچھے بٹھایا، پھر آپ جمرہ آئے اور رمی کی، پھر منحر (قربانی کی جگہ) آئے اور فرمایا: "یہ منحر ہے، اور منیٰ پورا کا پورا منحر (قربانی کرنے کی جگہ) ہے"، قبیلہ خثعم کی ایک نوجوان عورت نے آپ سے مسئلہ پوچھا، اس نے عرض کیا: میرے والد بوڑھے ہو چکے ہیں اور ان پر اللہ کا فریضہ حج واجب ہو چکا ہے۔ کیا میں ان کی طرف سے حج کر لوں تو کافی ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہاں، اپنے باپ کی طرف سے حج کر لے"۔ علی رضی الله عنہ کہتے ہیں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل کی گردن موڑ دی، اس پر آپ سے، عباس رضی الله عنہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کی گردن کیوں پلٹ دی؟ تو آپ نے فرمایا: "میں نے دیکھا کہ لڑکا اور لڑکی دونوں جوان ہیں تو میں ان دونوں کے سلسلہ میں شیطان سے مامون نہیں رہا" ۳؎، پھر ایک شخص نے آپ کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے سر منڈانے سے پہلے طواف افاضہ کر لیا۔ آپ نے فرمایا: "سر منڈوا لو یا بال کتروا لو کوئی حرج نہیں ہے"۔ پھر ایک دوسرے شخص نے آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی، آپ نے فرمایا: "رمی کر لو کوئی حرج نہیں" ۴؎ پھر آپ بیت اللہ آئے اور اس کا طواف کیا، پھر زمزم پر آئے، اور فرمایا: "بنی عبدالمطلب! اگر یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ لوگ تمہیں مغلوب کر دیں گے تو میں بھی (تمہارے ساتھ) پانی کھینچتا"۔ (اور لوگوں کو پلاتے)
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم اسے علی کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔ یعنی عبدالرحمٰن بن حارث بن عیاش کی سند سے، اور دیگر کئی لوگوں نے بھی ثوری سے اسی کے مثل روایت کی ہے، ۲- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کا خیال ہے کہ عرفہ میں ظہر کے وقت ظہر اور عصر کو ملا کر ایک ساتھ پڑھے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: جب آدمی اپنے ڈیرے (خیمے) میں نماز پڑھے اور امام کے ساتھ نماز میں شریک نہ ہو تو چاہے دونوں نمازوں کو ایک ساتھ جمع اور قصر کر کے پڑھ لے، جیسا کہ امام نے کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۴ (۱۹۲۲) (مختصراً) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : مزدلفہ میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ ۲؎ : منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان ایک وادی ہے جس میں اصحاب فیل پر عذاب آیات ھا۔ ۳؎ : یعنی : مجھے اندیشہ ہوا کہ فضل جب نوجوان لڑکی کی طرف سے ملتفت تھے ، شیطان ان کو بہکا نہ دے۔ ۴؎ : حاجی کو دسویں ذوالحجہ میں چار کام کرنے پڑتے ہیں ، ۱- جمرہ عقبیٰ کی رمی ، ۲- نحر ہدی (جانور ذبح کرنا) ، ۳- حلق یا قصر ، ۴- طواف افاضہ ، ان چاروں میں ترتیب افضل ہے ، اور اگر کسی وجہ سے ترتیب قائم نہ رہ سکے تو اس سے دم لازم نہیں ہو گا اور نہ ہی حج میں کوئی حرج واقع ہو گا جب کہ بعض نے کہا کہ حرج تو کچھ نہیں ہو گا لیکن دم لازم آئے گا۔ مگر ان کے پاس نص صریح میں سے کوئی دلیل نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، وَبِشْرُ بْنُ السَّرِيِّ، وَأَبُو نُعَيْمٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَوْضَعَ فِي وَادِي مُحَسِّرٍ وَزَادَ فِيهِ بِشْرٌ، وَأَفَاضَ مِنْ جَمْعٍ وَعَلَيْهِ السَّكِينَةُ وَأَمَرَهُمْ بِالسَّكِينَةِ، وَزَادَ فِيهِ أَبُو نُعَيْمٍ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يَرْمُوا بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ، وَقَالَ لَعَلِّي: " لَا أَرَاكُمْ بَعْدَ عَامِي هَذَا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وادی محسر میں تیز چال چلے۔ (بشر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ) آپ مزدلفہ سے لوٹے، آپ پرسکون یعنی عام رفتار سے چل رہے تھے، لوگوں کو بھی آپ نے سکون و اطمینان سے چلنے کا حکم دیا۔ (اور ابونعیم کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے انہیں ایسی کنکریوں سے رمی کرنے کا حکم دیا جو دو انگلیوں میں پکڑی جا سکیں، اور فرمایا: "شاید میں اس سال کے بعد تمہیں نہ دیکھ سکوں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں اسامہ بن زید رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۶ (۱۹۴۴) ، سنن النسائی/الحج ۲۰۴ (۳۰۲۴) ، و۲۱۵ (۳۰۵۵) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۱ (۳۰۲۳) ، (تحفة الأشراف : ۲۷۴۷ و۲۷۵) ، مسند احمد (۳/۳۰۱، ۳۳۲، ۳۶۷، ۳۹۱) ، ویأتي عند المؤلف رقم: ۸۹۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " صَلَّى بِجَمْعٍ، فَجَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِإِقَامَةٍ "، وَقَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ هَذَا فِي هَذَا الْمَكَانِ.
عبداللہ بن مالک کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے مزدلفہ میں نماز پڑھی اور ایک اقامت سے مغرب اور عشاء کی دونوں نمازیں ایک ساتھ ملا کر پڑھیں اور کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ پر ایسے ہی کرتے دیکھا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۵ (۱۹۲۹) (تحفة الأشراف : ۷۲۸۵) (صحیح) (ہر صلاة کے لیے الگ الگ اقامت کے ذکر کے ساتھ یہ حدیث صحیح ہے/ دیکھئے اگلی روایت)
وضاحت: ۱؎ : اس کے برخلاف جابر رضی الله عنہ کی ایک روایت صحیح مسلم میں ہے کہ آپ نے ایک اذان اور دو تکبیروں سے دونوں نمازیں ادا کیں اور یہی راجح ہے ، «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ: قَالَ يَحْيَى: وَالصَّوَابُ حَدِيثُ سُفْيَانَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي أَيُّوبَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَجَابِرٍ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنُ عُمَرَ فِي رِوَايَةِ سُفْيَانَ أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي خَالِدٍ، وَحَدِيثُ سُفْيَانَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، لِأَنَّهُ لَا تُصَلَّى صَلَاةُ الْمَغْرِبِ دُونَ جَمْعٍ، فَإِذَا أَتَى جَمْعًا وَهُوَ الْمُزْدَلِفَةُ جَمَعَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ بِإِقَامَةٍ وَاحِدَةٍ وَلَمْ يَتَطَوَّعْ فِيمَا بَيْنَهُمَا، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَذَهَبَ إِلَيْهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، قَالَ سُفْيَانُ: وَإِنْ شَاءَ صَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ تَعَشَّى وَوَضَعَ ثِيَابَهُ، ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: يَجْمَعُ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ بِالْمُزْدَلِفَةِ بِأَذَانٍ وَإِقَامَتَيْنِ، يُؤَذِّنُ لِصَلَاةِ الْمَغْرِبِ وَيُقِيمُ وَيُصَلِّي الْمَغْرِبَ، ثُمَّ يُقِيمُ وَيُصَلِّي الْعِشَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى إِسْرَائِيلُ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدٍ ابْنَيْ مَالِكٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ وَحَدِيثُ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، رَوَاهُ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَأَمَّا أَبُو إِسْحَاق فَرَوَاهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَخَالِدٍ ابني مالك، عَنْ ابْنِ عُمَرَ.
اس سند سے بھی ابن عمر رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کرتے ہیں۔ محمد بن بشار نے («حدثنا» کے بجائے) «قال یحییٰ»کہا ہے۔ اور صحیح سفیان والی روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث جسے سفیان نے روایت کی ہے اسماعیل بن ابی خالد کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، اور سفیان کی حدیث صحیح حسن ہے، ۲- اسرائیل نے یہ حدیث ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے اور ابواسحاق سبیعی نے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور عبداللہ اور خالد نے ابن عمر سے روایت کی ہے۔ اور سعید بن جبیر کی حدیث جسے انہوں نے ابن عمر رضی الله عنہما سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، سلمہ بن کہیل نے اسے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے، رہے ابواسحاق سبیعی تو انہوں نے اسے مالک کے دونوں بیٹوں عبداللہ اور خالد سے اور ان دونوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوایوب، عبداللہ بن سعید، جابر اور اسامہ بن زید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اس لیے کہ مغرب مزدلفہ آنے سے پہلے نہیں پڑھی جائے گی، جب حجاج جمع ۱؎ یعنی مزدلفہ جائیں تو دونوں نمازیں ایک اقامت سے اکٹھی پڑھیں اور ان کے درمیان کوئی نفل نماز نہیں پڑھیں گے۔ یہی مسلک ہے جسے بعض اہل علم نے اختیار کیا ہے اور اس کی طرف گئے ہیں اور یہی سفیان ثوری کا بھی قول ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ چاہے تو مغرب پڑھے پھر شام کا کھانا کھائے، اور اپنے کپڑے اتارے پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کو مزدلفہ میں ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ جمع کرے۔ مغرب کے لیے اذان کہے اور تکبیر کہے اور مغرب پڑھے، پھر تکبیر کہے اور عشاء پڑھے یہ شافعی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۴۷ (۱۲۸۶) ، سنن ابی داود/ الحج ۶۵ (۹۹۳۰، ۱۹۳۲) ، سنن النسائی/الصلاة ۱۸ (۴۸۲) ، و۲۰ (۴۸۴، ۴۸۵) ، والمواقیت ۴۹ (۶۰۷) ، والأذان ۱۹ (۶۵۸) ، و۲۰ (۶۵۹) ، والحج ۲۰۷ (۳۰۳۳) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۵۲) ، مسند احمد (۲/۳، ۶۲، ۷۹، ۸۱) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۳ (۱۵۵۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جمع مزدلفہ کا نام ہے ، کہا جاتا ہے کہ آدم اور حوا جب جنت سے اتارے گئے تو اسی مقام پر آ کر دونوں اکٹھا ہوئے تھے اس لیے اس کا نام جمع پڑ گیا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَهْلِ نَجْدٍ أَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، فَسَأَلُوهُ فَأَمَرَ مُنَادِيًا فَنَادَى: " الْحَجُّ عَرَفَةُ، مَنْ جَاءَ لَيْلَةَ جَمْعٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ فَقَدْ أَدْرَكَ الْحَجَّ أَيَّامُ مِنًى ثَلَاثَةٌ، فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ، وَمَنْ تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ". قَالَ مُحَمْدٍ: وَزَادَ يَحْيَى: وَأَرْدَفَ رَجُلًا فَنَادَى بِهِ.
عبدالرحمٰن بن یعمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نجد کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اس وقت آپ عرفہ میں تھے۔ انہوں نے آپ سے حج کے متعلق پوچھا تو آپ نے منادی کو حکم دیا تو اس نے اعلان کیا: حج عرفات میں ٹھہرنا ہے ۱؎ جو کوئی مزدلفہ کی رات کو طلوع فجر سے پہلے عرفہ آ جائے، اس نے حج کو پا لیا ۲؎ منی کے تین دن ہیں، جو جلدی کرے اور دو دن ہی میں چلا جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں اور جو دیر کرے تیسرے دن جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں۔ (یحییٰ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ نے ایک شخص کو پیچھے بٹھایا اور اس نے آواز لگائی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۹ (۱۹۴۹) ، سنن النسائی/الحج ۲۰۳ (۳۰۱۹) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵۷ (۳۰۱۵) ، (تحفة الأشراف : ۹۷۳۵) ، مسند احمد (۴/۳۰۹، ۳۱۰، ۳۳۵) ، سنن الدارمی/المناسک ۵۴ (۱۹۲۹) ، ویأتي في التفسیر برقم: ۲۹۷۵ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اصل حج عرفات میں وقوف ہے کیونکہ اس کے فوت ہو جانے سے حج فوت ہو جاتا ہے۔ ۲؎ : یعنی اس نے عرفہ کا وقوف پا لیا جو حج کا ایک رکن ہے اور حج کے فوت ہو جانے سے مامون و بےخوف ہو گیا ، یہ مطلب نہیں کہ اس کا حج پورا ہو گیا اور اسے اب کچھ اور نہیں کرنا ہے ، ابھی تو طواف افاضہ جوحج کا ایک اہم رکن ہے باقی ہے بغیر اس کے حج کیسے پورا ہو سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. وقَالَ ابْنُ أَبِي عُمَرَ: قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: وَهَذَا أَجْوَدُ حَدِيثٍ رَوَاهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَعْمَرَ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّهُ مَنْ لَمْ يَقِفْ بِعَرَفَاتٍ قَبْلَ طُلُوعِ الْفَجْرِ، فَقَدْ فَاتَهُ الْحَجُّ وَلَا يُجْزِئُ عَنْهُ إِنْ جَاءَ بَعْدَ طُلُوعِ الْفَجْرِ وَيَجْعَلُهَا عُمْرَةً وَعَلَيْهِ الْحَجُّ مِنْ قَابِلٍ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَطَاءٍ نَحْوَ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، قَالَ: وسَمِعْت الْجَارُودَ، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا أَنَّهُ ذَكَرَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالَ: هَذَا الْحَدِيثُ أُمُّ الْمَنَاسِكِ.
۸۹۰- ابن ابی عمر نے بسند سفیان بن عیینہ عن سفیان الثوری عن بکیر بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن یعمر عن النبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: قال سفیان بن عیینہ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔ © امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے، ۲- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں ام المناسک کی حیثیت رکھتی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ "جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہو گیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہو گا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے"، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ ابن ابی عمر نے بسند «سفيان الثوري عن بكير بن عطاء عن عبدالرحمٰن بن يعمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے۔ ابن ابی عمر کہتے ہیں: «قال سفيان بن عيينة» ، اور یہ سب سے اچھی حدیث ہے جسے سفیان ثوری نے روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- شعبہ نے بھی بکیر بن عطا سے ثوری ہی کی طرح روایت کی ہے، ۲- وکیع نے اس حدیث کا ذکر کیا تو کہا کہ یہ حدیث حج کے سلسلہ میں "ام المناسک" کی حیثیت رکھتی ہے، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا عمل عبدالرحمٰن بن یعمر کی حدیث پر ہے کہ "جو طلوع فجر سے پہلے عرفات میں نہیں ٹھہرا، اس کا حج فوت ہو گیا، اور اگر وہ طلوع فجر کے بعد آئے تو یہ اسے کافی نہیں ہو گا۔ اسے عمرہ بنا لے اور اگلے سال حج کرے"، یہ ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ وَإِسْمَاعِيلَ بْنِ أَبِي خَالِدٍ وَزَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ مُضَرِّسِ بْنِ أَوْسِ بْنِ حَارِثَةَ بْنِ لاَمٍ الطَّائِيِّ، قَالَ: أَتَيْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، حِينَ خَرَجَ إِلَى الصَّلاَةِ، فَقُلْتُ: يَارَسُولَ اللَّهِ! إِنِّي جِئْتُ مِنْ جَبَلَيْ طَيِّئٍ أَكْلَلْتُ رَاحِلَتِي وَأَتْعَبْتُ نَفْسِي وَاللهِ! مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. فَهَلْ لِي مِنْ حَجٍّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "مَنْ شَهِدَ صَلاَتَنَا هَذِهِ وَوَقَفَ مَعَنَا حَتَّى نَدْفَعَ، وَقَدْ وَقَفَ بِعَرَفَةَ قَبْلَ ذَلِكَ لَيْلاً أَوْ نَهَارًا، فَقَدْ أَتَمَّ حَجَّهُ وَقَضَى تَفَثَهُ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ: قَوْلُهُ تَفَثَهُ يَعْنِي نُسُكَهُ. قَوْلُهُ مَا تَرَكْتُ مِنْ حَبْلٍ إِلاَّ وَقَفْتُ عَلَيْهِ. إِذَا كَانَ مِنْ رَمْلٍ يُقَالُ لَهُ حَبْلٌ. وَإِذَا كَانَ مِنْ حِجَارَةٍ يُقَالُ لَهُ جَبَلٌ.
عروہ بن مضرس بن اوس بن حارثہ بن لام الطائی رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مزدلفہ آیا، جس وقت آپ نماز کے لیے نکلے تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں قبیلہ طی کے دونوں پہاڑوں سے ہوتا ہوا آیا ہوں، میں نے اپنی سواری کو اور خود اپنے کو خوب تھکا دیا ہے، اللہ کی قسم! میں نے کوئی پہاڑ نہیں چھوڑا جہاں میں نے (یہ سوچ کر کہ عرفات کا ٹیلہ ہے) وقوف نہ کیا ہو تو کیا میرا حج ہو گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی ہماری اس نماز میں حاضر رہا اور اس نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہم یہاں سے روانہ ہوں اور وہ اس سے پہلے دن یا رات میں عرفہ میں وقوف کر چکا ہو ۱؎ تو اس نے اپنا حج پورا کر لیا، اور اپنا میل کچیل ختم کر لیا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «تَفَثَهُ» کے معنی «نسكه» کے ہیں یعنی مناسک حج کے ہیں۔ اور اس کے قول: «ما تركت من حبل إلا وقفت عليه» "کوئی ٹیلہ ایسا نہ تھا جہاں میں نے وقوف نہ کیا ہو" کے سلسلے میں یہ ہے کہ جب ریت کا ٹیلہ ہو تو اسے حبل اور جب پتھر کا ہو تو اسے جبل کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۶۹ (۱۹۵۰) ، سنن النسائی/الحج ۲۱۱ (۳۰۴۳) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۵۷ (۳۰۱۶) ، (تحفة الأشراف : ۹۹۰۰) ، مسند احمد (۴/۲۶۱، ۲۶۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۵۴ (۱۹۳۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عرفات میں ٹھہرنا ضروری ہے اور اس کا وقت نو ذی الحجہ کو سورج ڈھلنے سے لے کر دسویں تاریخ کے طلوع فجر تک ہے ان دونوں وقتوں کے بیچ اگر تھوڑی دیر کے لیے بھی عرفات میں وقوف مل جائے تو اس کا حج ادا ہو جائے گا۔ ۲؎ : یعنی حالت احرام میں پراگندہ ہو کر رہنے کی مدت اس نے پوری کر لی اب وہ اپنا سارا میل کچیل جو چھوڑ رکھا تھا دور کر سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَقَلٍ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأُمِّ حَبِيبَةَ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ، بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَقَلٍ، حَدِيثٌ صَحِيحٌ، رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ مُشَاشٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ مِنْ جَمْعٍ بِلَيْلٍ " وَهَذَا حَدِيثٌ خَطَأٌ أَخْطَأَ فِيهِ مُشَاشٌ وَزَادَ فِيهِ عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَرَوَى ابْنُ جُرَيْجٍ وَغَيْرُهُ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَمُشَاشٌ بَصْرِيٌّ، رَوَى عَنْهُ شُعْبَةُ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے رات ہی میں اسباب (کمزور عورتوں اور ان کے اسباب) کے ساتھ روانہ کر دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا، ام حبیبہ، اسماء بنت ابی بکر اور فضل بن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۹۸ (۱۶۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۹۹۷) ، مسند احمد (۱/۲۴۵، ۳۳۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدَّمَ ضَعَفَةَ أَهْلِهِ، وَقَالَ: " لَا تَرْمُوا الْجَمْرَةَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا أَنْ يَتَقَدَّمَ الضَّعَفَةُ مِنْ الْمُزْدَلِفَةِ بِلَيْلٍ يَصِيرُونَ إِلَى مِنًى، وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِحَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يَرْمُوا بِلَيْلٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ لَا يَرْمُونَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزوروں (یعنی عورتوں اور بچوں) کو پہلے ہی روانہ کر دیا، اور آپ نے (ان سے) فرمایا: "جب تک سورج نہ نکل جائے رمی جمار نہ کرنا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث «بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثقل» صحیح حدیث ہے، یہ ان سے کئی سندوں سے مروی ہے، شعبہ نے یہ حدیث مشاش سے اور مشاش نے عطاء سے اور عطا نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے فضل بن عباس سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں میں سے کمزور لوگوں کو پہلے ہی رات کے وقت مزدلفہ سے منیٰ کے لیے روانہ کر دیا تھا، یہ حدیث غلط ہے۔ مشاش نے اس میں غلطی کی ہے، انہوں نے اس میں "فضل بن عباس" کا اضافہ کر دیا ہے۔ ابن جریج اور دیگر لوگوں نے یہ حدیث عطاء سے اور عطاء نے ابن عباس سے روایت کی ہے اور اس میں فضل بن عباس کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- مشاش بصرہ کے رہنے والے ہیں اور ان سے شعبہ نے روایت کی ہے، ۴- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے کہ کمزور لوگ مزدلفہ سے رات ہی کو منیٰ کے لیے روانہ ہو جائیں، ۵-اکثر اہل علم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق ہی کہا ہے کہ لوگ جب تک سورج طلوع نہ ہو رمی نہ کریں، ۶- اور بعض اہل علم نے رات ہی کو رمی کر لینے کی رخصت دی ہے۔ اور عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر ہے کہ وہ رمی نہ کریں جب تک کہ سورج نہ نکل جائے، یہی سفیان ثوری اور شافعی کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۴۷۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن ابی داود/ الحج ۶۶ (۱۹۴۰) ، سنن النسائی/الحج ۲۲۲ (۳۰۶۶) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۲ (۳۰۲۵) ، مسند احمد (۱/۲۳۴، ۳۱۱) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ عورتوں اور بچوں کو مزدلفہ سے رات ہی میں منیٰ بھیج دینا جائز ہے تاکہ وہ بھیڑ بھاڑ سے پہلے کنکریاں مار کر فارغ ہو جائیں لیکن سورج نکلنے سے پہلے کنکریاں نہ ماریں ، ابن عباس کی ایک روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رانوں پر دھیرے سے مارتے تھے اور فرماتے تھے : اے میرے بچو جمرہ پر کنکریاں نہ مارنا جب تک کہ سورج نہ نکل جائے ، یہی قول راجح ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ ضُحًى، وَأَمَّا بَعْدَ ذَلِكَ فَبَعْدَ زَوَالِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّهُ لَا يَرْمِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ إِلَّا بَعْدَ الزَّوَالِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دسویں ذی الحجہ کو (ٹھنڈی) چاشت کے وقت رمی کرتے تھے اور اس کے بعد زوال کے بعد کرتے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ وہ دسویں ذی الحجہ کے زوال بعد کے بعد ہی رمی کرے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۵۳ (۱۲۹۹) ، سنن ابی داود/ الحج ۷۸ (۱۹۷۱) ، سنن النسائی/الحج ۲۲۱ (۳۰۶۵) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۵ (۳۰۵۳) ، سنن ابی داود/ المناسک ۵۸ (۱۹۳۷) (تحفة الأشراف : ۲۷۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ سنت یہی ہے کہ یوم النحر (دسویں ذوالحجہ ، قربانی والے دن) کے علاوہ دوسرے ، گیارہ اور بارہ والے دنوں میں رمی سورج ڈھلنے کے بعد کی جائے ، یہی جمہور کا قول ہے اور عطاء و طاؤس نے اسے زوال سے پہلے مطلقاً جائز کہا ہے ، اور حنفیہ نے کوچ کے دن زوال سے پہلے رمی کی رخصت دی ہے ، عطاء و طاؤس کے قول پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل و قول سے کوئی دلیل نہیں ہے ، البتہ حنفیہ نے اپنے قول پر ابن عباس کے ایک اثر سے استدلال کیا ہے ، لیکن وہ اثر ضعیف ہے اس لیے جمہو رہی کا قول قابل اعتماد ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَفَاضَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ يَنْتَظِرُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ ثُمَّ يُفِيضُونَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (مزدلفہ سے) سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- جاہلیت کے زمانے میں لوگ انتظار کرتے یہاں تک کہ سورج نکل آتا پھر لوٹتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۴۷۳) (صحیح بما بعدہ) (شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ حکم ‘‘ نے ’’ مقسم ‘‘ سے صرف پانچ احادیث سنی ہیں، اور یہ حدیث شاید ان میں سے نہیں ہے؟)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق قَال: سَمِعْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍيُحَدِّثُ، يَقُولُ: كُنَّا وُقُوفًا بِجَمْعٍ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " إِنَّ الْمُشْرِكِينَ كَانُوا لَا يُفِيضُونَ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ، وَكَانُوا يَقُولُونَ أَشْرِقْ ثَبِيرُ، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَالَفَهُمْ، فَأَفَاضَ عُمَرُ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمرو بن میمون بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ مزدلفہ میں ٹھہرے ہوئے تھے، عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: مشرکین جب تک کہ سورج نکل نہیں آتا نہیں لوٹتے تھے اور کہتے تھے: ثبیر! تو روشن ہو جا (تب ہم لوٹیں گے)، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت کی، چنانچہ عمر رضی الله عنہ سورج نکلنے سے پہلے لوٹے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۰۰ (۱۶۸۴) ، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۸) ، سنن ابی داود/ الحج ۶۵ (۱۹۳۸) ، سنن النسائی/الحج ۲۱۳ (۳۰۵۰) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۱ (۳۰۲۲) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۶۱۶) ، مسند احمد (۱/۱۴، ۲۹، ۳۹، ۴۲، ۵۰) ، سنن الدارمی/المناسک ۵۵ (۱۹۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ، عَنْ أُمِّهِ وَهِيَ أُمُّ جُنْدُبٍ الْأَزْدِيَّةُ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَالْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُثْمَانَ التَّيْمِيِّ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنْ تَكُونَ الْجِمَارُ الَّتِي يُرْمَى بِهَا مِثْلَ حَصَى الْخَذْفِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ایسی کنکریوں سے رمی جمار کر رہے تھے جو انگوٹھے اور شہادت والی انگلی کے درمیان پکڑی جا سکتی تھیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سلیمان بن عمرو بن احوص (جو اپنی ماں ام جندب ازدیہ سے روایت کرتے ہیں)، ابن عباس، فضل بن عباس، عبدالرحمٰن بن عثمان تمیمی اور عبدالرحمٰن بن معاذ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور اسی کو اہل علم نے اختیار کیا ہے کہ کنکریاں جن سے رمی کی جاتی ہے ایسی ہوں جو انگوٹھے اور شہادت کی انگلی سے پکڑی جا سکیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم: ۸۸۶ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ کنکریاں «باقلاّ» کے دانے کے برابر ہوتی تھیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمی جمار اس وقت کرتے جب سورج ڈھل جاتا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۵ (۳۰۵۴) (تحفة الأشراف : ۶۴۶۶) (صحیح) (سابقہ حدیث نمبر۸۹۴سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، حکم نے مقسم سے صرف پانچ احادیث ہی سنی ہیں، اور یہ شاید ان میں سے نہیں)
وضاحت: ۱؎ : یعنی یوم النحر کے علاوہ باقی دنوں میں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، أَخْبَرَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " رَمَى الْجَمْرَةَ يَوْمَ النَّحْرِ رَاكِبًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ جَابِرٍ، وَقُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَأُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَاخْتَارَ بَعْضُهُمْ أَنْ يَمْشِيَ إِلَى الْجِمَارِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ " يَمْشِي إِلَى الْجِمَارِ " وَوَجْهُ هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَنَا أَنَّهُ رَكِبَ فِي بَعْضِ الْأَيَّامِ لِيُقْتَدَى بِهِ فِي فِعْلِهِ، وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ مُسْتَعْمَلٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دسویں ذی الحجہ کو جمرہ کی رمی سواری پر کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں جابر، قدامہ بن عبداللہ، اور سلیمان بن عمرو بن احوص کی ماں (رضی الله عنہم) سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض نے یہ پسند کیا ہے کہ وہ جمرات تک پیدل چل کر جائیں، ۵- ابن عمر سے مروی ہے، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ جمرات تک پیدل چل کر جاتے، ۶- ہمارے نزدیک اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ آپ نے کبھی کبھار سواری پر رمی اس لیے کی تاکہ آپ کے اس فعل کی بھی لوگ پیروی کریں۔ اور دونوں ہی حدیثوں پر اہل علم کا عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک۶۶ (۳۰۳۴) (تحفة الأشراف : ۶۴۶۷) (صحیح) (سابقہ جابر کی حدیث نمبر۸۸۶سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " إِذَا رَمَى الْجِمَارَ مَشَى إِلَيْهَا ذَاهِبًا وَرَاجِعًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: يَرْكَبُ يَوْمَ النَّحْرِ وَيَمْشِي فِي الْأَيَّامِ الَّتِي بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَكَأَنَّ مَنْ قَالَ: هَذَا إِنَّمَا أَرَادَ اتِّبَاعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي فِعْلِهِ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا رُوِيَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ " رَكِبَ يَوْمَ النَّحْرِ حَيْثُ ذَهَبَ يَرْمِي الْجِمَارُ، وَلَا يَرْمِي يَوْمَ النَّحْرِ إِلَّا جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رمی جمار کرتے، تو جمرات تک پیدل آتے جاتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے اسے عبیداللہ (العمری) سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، ۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض لوگ کہتے ہیں کہ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہو سکتا ہے، اور دسویں کے بعد باقی دنوں میں پیدل جائے گا۔ گویا جس نے یہ کہا ہے اس کے پیش نظر صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فعل کی اتباع ہے۔ اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ دسویں ذی الحجہ کو سوار ہوئے جب آپ رمی جمار کرنے گئے۔ اور دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرہ عقبہ ہی کی رمی کرے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۸۰۱۱) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (۲/۱۳۸) من طریق عبد العمری عن نافع بہ۔
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ أَبِي صَخْرَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: لَمَّا أَتَى عَبْدُ اللَّهِ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ اسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَجَعَلَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ عَلَى حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ رَمَى بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمَّ قَالَ: " وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، مِنْ هَاهُنَا رَمَى الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ ". حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ الْمَسْعُودِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وجابر. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ أَنْ يَرْمِيَ الرَّجُلُ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِنْ لَمْ يُمْكِنْهُ أَنْ يَرْمِيَ مِنْ بَطْنِ الْوَادِي رَمَى مِنْ حَيْثُ قَدَرَ عَلَيْهِ، وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِي بَطْنِ الْوَادِي.
عبدالرحمٰن بن یزید کہتے ہیں کہ جب عبداللہ (عبداللہ بن مسعود) جمرہ عقبہ کے پاس آئے تو وادی کے بیچ میں کھڑے ہوئے اور قبلہ رخ ہو کر اپنے داہنے ابرو کے مقابل رمی شروع کی۔ پھر سات کنکریوں سے رمی کی۔ ہر کنکری پر وہ "اللہ اکبر" کہتے تھے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اس ذات نے بھی یہیں سے رمی کی جس پر سورۃ البقرہ نازل کی گئی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں فضل بن عباس، ابن عباس، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان کے نزدیک پسندیدہ یہی ہے کہ آدمی بطن وادی میں کھڑے ہو کر سات کنکریوں سے رمی کرے اور ہر کنکری پر"اللہ اکبر" کہے، ۴- اور بعض اہل علم نے اجازت دی ہے کہ اگر بطن وادی سے رمی کرنا ممکن نہ ہو تو ایسی جگہ سے کرے جہاں سے وہ اس پر قادر ہو گو وہ بطن وادی میں نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۳۵ (۱۱۴۷) ، و ۱۳۸ (۱۷۵۰) ، صحیح مسلم/الحج ۵۰ (۱۲۹۶) ، سنن ابی داود/ الحج ۷۸ (۱۹۷۴) ، سنن النسائی/المناسک ۲۲۶ (۳۰۷۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۴ (۳۰۳۰) (تحفة الأشراف : ۹۳۸۲) ، مسند احمد (۱/۴۱۵، ۴۲۷، ۴۳۰، ۴۳۲، ۴۳۶، ۴۵۶، ۴۵۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْالْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّمَا جُعِلَ رَمْيُ الْجِمَارِ وَالسَّعْيُ بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ لِإِقَامَةِ ذِكْرِ اللَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جمرات کی رمی اور صفا و مروہ کی سعی اللہ کے ذکر کو قائم کرنے کے لیے شروع کی گئی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۹۱ (۱۸۸۸) (تحفة الأشراف : ۱۷۵۳۳) ، مسند احمد (۶/۱۳۹) ، سنن الدارمی/المناسک ۳۶ (۱۸۹۵) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ عبیداللہ بن ابی زیاد ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْمِي الْجِمَارُ عَلَى نَاقَةٍ لَيْسَ ضَرْبٌ وَلَا طَرْدٌ وَلَا إِلَيْكَ إِلَيْكَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْظَلَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ قُدَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَهُوَ حَدِيثُ أَيْمَنَ بْنِ نَابِلٍ، وَهُوَ ثِقَةٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ.
قدامہ بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ ایک اونٹنی پر جمرات کی رمی کر رہے تھے، نہ لوگوں کو دھکیلنے اور ہانکنے کی آواز تھی اور نہ ہٹو ہٹو کی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قدامہ بن عبداللہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث اسی طریق سے جانی جاتی ہے، یہ ایمن بن نابل کی حدیث ہے۔ اور ایمن اہل حدیث(محدثین) کے نزدیک ثقہ ہیں، ۳- اس باب میں عبداللہ بن حنظلہ رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۲۲۰ (۳۰۶۴) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۶ (۳۰۳۵) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۰ (تحفة الأشراف : ۱۱۰۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ جیسا کہ آج کل کسی بڑے افسر و حاکم کے آنے پر کیا جاتا ہے۔ اور ایسے مواقع پر دوسروں کو دھکیلنا اور دھکے نہیں دینا چاہیئے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " نَحَرْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَدَنَةَ عَنْ سَبْعَةٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ الْجَزُورَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ وَرُوِي، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ الْبَقَرَةَ عَنْ سَبْعَةٍ، وَالْجَزُورَ عَنْ عَشَرَةٍ ". وَهُوَ قَوْلُ إِسْحَاق، وَاحْتَجَّ بِهَذَا الْحَدِيثِ، وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ وَجْهٍ وَاحِدٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حدیبیہ کے سال ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گائے اور اونٹ کو سات سات آدمیوں کی جانب سے نحر (ذبح) کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابوہریرہ، عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ اونٹ سات لوگوں کی طرف سے اور گائے سات لوگوں کی طرف سے ہو گی۔ اور یہی سفیان ثوری، شافعی اور احمد کا قول ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ گائے سات لوگوں کی طرف سے اور اونٹ دس لوگوں کی طرف سے کافی ہو گا ۱؎۔ یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ اور انہوں نے اسی حدیث سے دلیل لی ہے۔ ابن عباس کی حدیث کو ہم صرف ایک ہی طریق سے جانتے ہیں (ملاحظہ ہو آنے والی حدیث: ۹۰۵)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۶۲ (۱۳۱۸) ، سنن ابی داود/ الضحایا ۷ (۲۸۰۹) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۵ (۳۱۳۲) (تحفة الأشراف : ۲۹۳۳) ، موطا امام مالک/الضحایا ۵ (۹) ، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي ۸ (۱۵۰۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: (صحیح مسلم/المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ المصدر المذکور سنن النسائی/الضحایا ۱۶ (۴۳۹۸) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : جابر رضی الله عنہ کی یہ حدیث حج و عمرہ کے «ھدی» کے بارے میں ہے ، جس کے اندر ابن عباس رضی الله عنہما کی اگلی حدیث قربانی کے بارے میں ہے (اور اس کی تائید صحیحین میں مروی رافع بن خدیج کی حدیث سے بھی ہوتی ہے ، اس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں ایک اونٹ کے بدلے دس بکریاں تقسیم کیں ، یعنی : ایک اونٹ برابر دس بکریوں کے ہے) شوکانی نے ان دونوں حدیثوں میں یہی تطبیق دی ہے۔
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ، عَنْ عِلْبَاءَ بْنِ أَحْمَرَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ عَشَرَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَهُوَ حَدِيثُ حُسَيْنِ بْنِ وَاقِدٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، اور یہ حسین بن واقد کی حدیث (روایت) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الضحایا ۱۵ (۴۳۹۷) ، سنن ابن ماجہ/الأضاحي ۵ (۳۱۳۱) (تحفة الأشراف : ۶۱۵۸) ، مسند احمد (۱/۲۷۵) ، ویأتي عند المؤلف في الأضاحي ۸ (۱۵۰۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي حَسَّانَ الْأَعْرَجِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَلَّدَ نَعْلَيْنِ، وَأَشْعَرَ الْهَدْيَ فِي الشِّقِّ الْأَيْمَنِ بِذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَمَاطَ عَنْهُ الدَّمَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو حَسَّانَ الْأَعْرَجُ اسْمُهُ مُسْلِمٌ. وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ الْإِشْعَارَ، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ: سَمِعْت يُوسُفَ بْنَ عِيسَى، يَقُولُ: سَمِعْتُ وَكِيعًا، يَقُولُ حِينَ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ، قَالَ: لَا تَنْظُرُوا إِلَى قَوْلِ أَهْلِ الرَّأْيِ فِي هَذَا، فَإِنَّ الْإِشْعَارَ سُنَّةٌ وَقَوْلُهُمْ بِدْعَةٌ. قَالَ: وسَمِعْت أَبَا السَّائِبِ، يَقُولُ: كُنَّا عِنْدَ وَكِيعٍ، فَقَالَ لِرَجُلٍ عِنْدَهُ مِمَّنْ يَنْظُرُ فِي الرَّأْيِ: " أَشْعَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " وَيَقُولُ أَبُو حَنِيفَةَ هُوَ مُثْلَةٌ، قَالَ الرَّجُلُ: فَإِنَّهُ قَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: الْإِشْعَارُ مُثْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ وَكِيعًا غَضِبَ غَضَبًا شَدِيدًا، وَقَالَ: أَقُولُ لَكَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُ: قَالَ إِبْرَاهِيمُ: مَا أَحَقَّكَ بِأَنْ تُحْبَسَ، ثُمَّ لَا تَخْرُجَ حَتَّى تَنْزِعَ عَنْ قَوْلِكَ هَذَا.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذو الحلیفہ میں (ہدی کے جانور کو) دو جوتیوں کے ہار پہنائے اور ان کی کوہان کے دائیں طرف اشعار ۱؎ کیا اور اس سے خون صاف کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام رضی الله عنہم وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ اشعار کے قائل ہیں۔ یہی ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۳- یوسف بن عیسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو کہتے سنا جس وقت انہوں نے یہ حدیث روایت کی کہ اس سلسلے میں اہل رائے کے قول کو نہ دیکھو، کیونکہ اشعار سنت ہے اور ان کا قول بدعت ہے، ۴- میں نے ابوسائب کو کہتے سنا کہ ہم لوگ وکیع کے پاس تھے تو انہوں نے اپنے پاس کے ایک شخص سے جو ان لوگوں میں سے تھا جو رائے میں غور و فکر کرتے ہیں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشعار کیا ہے، اور ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ وہ مثلہ ہے تو اس آدمی نے کہا: ابراہیم نخعی سے مروی ہے انہوں نے بھی کہا ہے کہ اشعار مثلہ ہے، ابوسائب کہتے ہیں: تو میں نے وکیع کو دیکھا کہ (اس کی اس بات سے) وہ سخت ناراض ہوئے اور کہا: میں تم سے کہتا ہوں کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے" اور تم کہتے ہو: ابراہیم نے کہا: تم تو اس لائق ہو کہ تمہیں قید کر دیا جائے پھر اس وقت تک قید سے تمہیں نہ نکالا جائے جب تک کہ تم اپنے اس قول سے باز نہ آ جاؤ ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۳۲ (۱۲۴۳) ، سنن ابی داود/ الحج ۱۵ (۱۷۵۲) ، سنن النسائی/الحج ۶۳ (۲۷۷۵) ، و۶۷ (۲۷۸۴) ، و۷۰ (۲۷۹۳) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۶ (۳۰۹۷) ، (تحفة الأشراف : ۶۴۵۹) ، مسند احمد (۱/۲۱۶، ۲۴۵، ۲۸۰، ۳۳۹، ۳۴۴، ۳۴۷، ۳۷۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۸ (۱۹۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ہدی کے اونٹ کی کوہان پر داہنے جانب چیر کر خون نکالنے اور اس کے آس پاس مل دینے کا نام اشعار ہے ، یہ ہدی کے جانوروں کی علامت اور پہچان ہے۔ ۲؎ : وکیع کے اس قول سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیئے جو ائمہ کے اقوال کو حدیث رسول کے مخالف پا کر بھی انہیں اقوال سے حجت پکڑتے ہیں اور حدیث رسول کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس حدیث میں اندھی تقلید کا زبردست رد ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ الْيَمَانِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " اشْتَرَى هَدْيَهُ مِنْ قُدَيْدٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ الْيَمَانِ، وَرُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ " اشْتَرَى هَدْيَهُ مِنْ قُدَيْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَذَا أَصَحُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہدی کا جانور قدید سے خریدا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے ثوری کی حدیث سے صرف یحییٰ بن یمان ہی کی روایت سے جانتے ہیں: اور نافع سے مروی ہے کہ ابن عمر نے قدید ۱؎ سے خریدا، اور یہ زیادہ صحیح ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۹ (۳۰۹۸) (تحفة الأشراف : ۷۸۹۷) (ضعیف الإسناد) (سند میں یحییٰ بن یمان اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے، صحیح بات یہ ہے کہ قدید سے ہدی کا جانور خود ابن عمر رضی الله عنہما نے خریدا تھا جیسا کہ بخاری نے روایت کی ہے (الحج ۱۰۵ ح۱۶۹۳) یحییٰ بن یمان نے اس کو مرفوع کر دیا ہے)
وضاحت: ۱؎ : قدید مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے۔ ۲؎ : یعنی یہ موقوف اثر اس مرفوع حدیث سے کہ جسے یحییٰ بن یمان نے ثوری سے روایت کیا ہے زیادہ صحیح ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " فَتَلْتُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَمْ يُحْرِمْ وَلَمْ يَتْرُكْ شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ الْهَدْيَ وَهُوَ يُرِيدُ الْحَجَّ، لَمْ يَحْرُمْ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنَ الثِّيَابِ وَالطِّيبِ حَتَّى يُحْرِمَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا قَلَّدَ الرَّجُلُ هَدْيَهُ، فَقَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ مَا وَجَبَ عَلَى الْمُحْرِمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کے قلادے بٹے، پھر آپ نہ محرم ہوئے اور نہ ہی آپ نے کوئی کپڑا پہننا چھوڑا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنا دے اور وہ حج کا ارادہ رکھتا ہو تو اس پر کپڑا پہننا یا خوشبو لگانا حرام نہیں ہوتا جب تک کہ وہ احرام نہ باندھ لے، ۳- اور بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ جب آدمی اپنے ہدی (کے جانور) کو قلادہ پہنا دے تو اس پر وہ سب واجب ہو جاتا ہے جو ایک محرم پر واجب ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الحج ۶۸ (۲۷۸۶) (تحفة الأشراف : ۱۷۵۱۳) ، مسند احمد (۶/۸۵) (صحیح) (وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۱۰۶ (۱۶۹۸) ، و۱۰۷ (۱۶۹۹) ، و۱۰۸ (۱۶۹۹) ، و۱۰۹ (۱۷۰۰) ، و۱۱۰ (۱۷۰۲، ۱۷۰۳) ، الوکالة ۱۴ (۲۳۱۷) ، والأضاحي ۱۵ (۵۵۶۶) ، صحیح مسلم/الحج ۶۴ (۱۳۲۱) ، سنن ابی داود/ الحج ۱۷ (۱۷۵۸) ، سنن النسائی/الحج ۶۵ (۲۷۷۷-۲۷۸۱) ، و۶۶ (۲۷۸۲) ، ۶۸ (۲۷۸۵) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۹۴ (۳۰۹۵) ، مسند احمد (۶/۳۵، ۳۶، ۷۸، ۹۱، ۱۰۲، ۱۲۷، ۱۷۴، ۱۸۰، ۱۸۵، ۱۹۰، ۱۹۱، ۲۰۰، ۲۰۸، ۲۱۳، ۲۱۶، ۲۲۵، ۲۳۶، ۲۵۳، ۲۶۲) من غیر ہذا الطریق۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَفْتِلُ قَلَائِدَ هَدْيِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّهَا غَنَمًا، ثُمَّ لَا يُحْرِمُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ يَرَوْنَ تَقْلِيدَ الْغَنَمِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدی کی بکریوں کے سارے قلادے (پٹے) میں ہی بٹتی تھی ۱؎ پھر آپ احرام نہ باندھتے(حلال ہی رہتے تھے)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہ میں سے بعض اہل علم کے نزدیک اسی پر عمل ہے، وہ بکریوں کے قلادہ پہنانے کے قائل ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (تحفة الأشراف : ۱۵۹۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بکریوں کی تقلید بھی مستحب ہے ، امام مالک اور امام ابوحنیفہ کہتے ہیں کہ بکریوں کی تقلید مستحب نہیں ان دونوں نے تقلید کو اونٹ گائے کے ساتھ خاص کیا ہے ، یہ حدیث ان دونوں کے خلاف صریح حجت ہے ، ان کا کہنا ہے کہ یہ کمزوری کا باعث ہو گی ، لیکن یہ دلیل انتہائی کمزور ہے اس لیے کہ تقلید سے مقصود پہچان ہے انہیں ایسی چیز کا قلادہ پہنایا جائے جس سے انہیں کمزوری نہ ہو۔ اللہ عزوجل ہم سب کو مذہبی و معنوی تقلید سے محفوظ رکھے ، «اللہم آمین»۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاق الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ نَاجِيَةَ الْخُزَاعِيِّصَاحِبِ بُدْنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أَصْنَعُ بِمَا عَطِبَ مِنَ الْبُدْنِ ؟ قَالَ: " انْحَرْهَا ثُمَّ اغْمِسْ نَعْلَهَا فِي دَمِهَا، ثُمَّ خَلِّ بَيْنَ النَّاسِ وَبَيْنَهَا فَيَأْكُلُوهَا ". وَفِي الْبَاب عَنْ ذُؤَيْبٍ أَبِي قَبِيصَةَ الْخُزَاعِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ نَاجِيَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا فِي هَدْيِ التَّطَوُّعِ إِذَا عَطِبَ: لَا يَأْكُلُ هُوَ وَلَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ رُفْقَتِهِ، وَيُخَلَّى بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّاسِ يَأْكُلُونَهُ، وَقَدْ أَجْزَأَ عَنْهُ. وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَالُوا: إِنْ أَكَلَ مِنْهُ شَيْئًا غَرِمَ بِقَدْرِ مَا أَكَلَ مِنْهُ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَكَلَ مِنْ هَدْيِ التَّطَوُّعِ شَيْئًا فَقَدْ ضَمِنَ الَّذِي أَكَلَ.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں کی دیکھ بھال کرنے والے ناجیہ خزاعی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جو اونٹ راستے میں مرنے لگیں انہیں میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: "انہیں نحر (ذبح) کر دو، پھر ان کی جوتی انہیں کے خون میں لت پت کر دو، پھر انہیں لوگوں کے لیے چھوڑ دو کہ وہ ان کا گوشت کھائیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ناجیہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ذویب ابو قبیصہ خزاعی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ نفلی ہدی کا جانور جب مرنے لگے تو نہ وہ خود اسے کھائے اور نہ اس کے سفر کے ساتھی کھائیں۔ وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑ دے، کہ وہ اسے کھائیں۔ یہی اس کے لیے کافی ہے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اس نے اس میں سے کچھ کھا لیا تو جتنا اس نے اس میں سے کھایا ہے اسی کے بقدر وہ تاوان دے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب وہ نفلی ہدی کے جانور میں سے کچھ کھا لے تو جس نے کھایا وہ اس کا ضامن ہو گا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۱۹ (۱۷۶۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۰۱ (۳۱۰۶) (تحفة الأشراف : ۱۱۵۸۱) ، موطا امام مالک/الحج ۴۷ (۱۴۸) ، مسند احمد (۴/۳۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۶ (۱۹۵۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأَى رَجُلًا يَسُوقُ بَدَنَةً، فَقَالَ لَهُ: " ارْكَبْهَا " فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهَا بَدَنَةٌ، قَالَ لَهُ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الرَّابِعَةِ: " ارْكَبْهَا وَيْحَكَ " أَوْ وَيْلَكَ، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ فِي رُكُوبِ الْبَدَنَةِ إِذَا احْتَاجَ إِلَى ظَهْرِهَا، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يَرْكَبُ مَا لَمْ يُضْطَرَّ إِلَيْهَا.
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ہدی کے اونٹ ہانکتے دیکھا، تو اسے حکم دیا "اس پر سوار ہو جاؤ"، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ہدی کا اونٹ ہے، پھر آپ نے اس سے تیسری یا چوتھی بار میں کہا: "اس پر سوار ہو جاؤ، تمہارا برا ہو ۱؎ یا تمہاری ہلاکت ہو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابوہریرہ، اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہ میں سے اہل علم کی ایک جماعت نے ہدی کے جانور پر سوار ہونے کی اجازت دی ہے، جب کہ وہ اس کا محتاج ہو، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے،۴- بعض کہتے ہیں: جب تک مجبور نہ ہو ہدی کے جانور پر سوار نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۱۲ (۲۷۵۴) (تحفة الأشراف : ۱۴۳۷) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/۱۰۳ (۱۶۹۰) ، والأدب ۹۵ (۶۱۵۹) ، صحیح مسلم/الحج ۶۵ (۱۳۲۳) ، سنن النسائی/الحج ۷۴ (۲۸۰۲) ، مسند احمد (۳/۹۹، ۱۷۰، ۱۷۳، ۲۰۲، ۲۳۱، ۳۳۴، ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۹۱) ، سنن الدارمی/المناسک ۴۹ () من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : یہ آپ نے تنبیہ اور ڈانٹ کے طور پر فرمایا کیونکہ سواری کی اجازت آپ اسے پہلے دے چکے تھے اور آپ کو یہ پہلے معلوم تھا کہ یہ ہدی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: لَمَّا رَمَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْجَمْرَةَ نَحَرَ نُسُكَهُ، ثُمَّ نَاوَلَ الْحَالِقَ شِقَّهُ الْأَيْمَنَ فَحَلَقَهُ فَأَعْطَاهُ أَبَا طَلْحَةَ، ثُمَّ نَاوَلَهُ شِقَّهُ الْأَيْسَرَ فَحَلَقَهُ، فَقَالَ: " اقْسِمْهُ بَيْنَ النَّاسِ ". حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْهِشَامٍ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کر لی تو اپنے ہدی کے اونٹ نحر (ذبح) کیے۔ پھر سر مونڈنے والے کو اپنے سر کا داہنا جانب ۱؎ دیا اور اس نے سر مونڈا، تو یہ بال آپ نے ابوطلحہ کو دئیے، پھر اپنا بایاں جانب اسے دیا تو اس نے اسے بھی مونڈا تو آپ نے فرمایا: "یہ بال لوگوں میں تقسیم کر دو" ۲؎۔ ابن ابی عمر کی سند سے ہشام سے اسی طرح حدیث روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۵۶ (۱۳۰۵) ، سنن ابی داود/ الحج ۷۹ (۱۹۰) (تحفة الأشراف : ۱۴۵۶) (صحیح) وأخرجہ البخاري الوضوء ۲۳ (۱۷۱) من غیر ہذا الوجہ بتغیر یسیر في السیاق۔
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حاجی حلق یا تقصیر (بال مونڈنا یا کٹوانا کا کام) داہنی جانب سے شروع کرے ، مونڈنے والے کو بھی اس سنت کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ۲؎ : یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے موئے مبارک کی خصوصیت ہے ، دوسرے اولیاء و صلحاء کے بالوں سے تبرک سلف کا شیوہ نہیں رہا یہی بات یا تھوک وغیرہ سے تبرک میں بھی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: حَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَلَقَ طَائِفَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، وَقَصَّرَ بَعْضُهُمْ " قَالَ ابْنُ عُمَرَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رَحِمَ اللَّهُ الْمُحَلِّقِينَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ " ثُمَّ قَالَ: " وَالْمُقَصِّرِينَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ أُمِّ الْحُصَيْنِ، وَمَارِبَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَأَبِي مَرْيَمَ، وَحُبْشِيِّ بْنِ جُنَادَةَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ يَخْتَارُونَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَحْلِقَ رَأْسَهُ، وَإِنْ قَصَّرَ يَرَوْنَ أَنَّ ذَلِكَ يُجْزِئُ عَنْهُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاقَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر منڈوایا، صحابہ کی ایک جماعت نے بھی سر مونڈوایا اور بعض لوگوں نے بال کتروائے۔ ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بار یا دو بار فرمایا: "اللہ سر مونڈانے والوں پر رحم فرمائے"، پھر فرمایا: "کتروانے والوں پر بھی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس، ابن ام الحصین، مارب، ابو سعید خدری، ابومریم، حبشی بن جنادہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور وہ آدمی کے لیے سر منڈانے کو پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی صرف کتروا لے تو وہ اسے بھی اس کی طرف سے کافی سمجھتے ہیں۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول بھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۲۷ (تعلیقا عقب حدیث ۱۷۲۷) ، صحیح مسلم/الحج ۵۵ (۱۳۰۱) (تحفة الأشراف : ۸۲۶۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۱۲۷ (۱۷۲۷) ، صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۱ (۳۰۴۳) ، موطا امام مالک/الحج ۶۰ (۱۸۴) ، مسند احمد (۲/۳۴، ۱۳۸، ۱۵۱) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۴ (۱۹۴۷) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حلق (منڈوانا) تقصیر (کٹوانے) کے مقابلہ میں افضل ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى الْحَرَشِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ خِلَاسِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ عورت اپنا سر مونڈوائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/الزینة ۴ (۵۰۵۲) (تحفة الأشراف : ۱۰۰۸۵) (ضعیف) (اس سند میں اضطراب ہے جس کو مؤلف نے بیان کر دیا ہے، جیسا کہ اگلی حدیث میں آ رہا ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ خِلَاسٍ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ فِيهِ اضْطِرَابٌ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَى أَنْ تَحْلِقَ الْمَرْأَةُ رَأْسَهَا ". وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ عَلَى الْمَرْأَةِ حَلْقًا، وَيَرَوْنَ أَنَّ عَلَيْهَا التَّقْصِيرَ.
اس سند سے بھی خلاس سے اسی طرح مروی ہے، لیکن اس میں انہوں نے علی رضی الله عنہ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- علی رضی الله عنہ کی حدیث میں اضطراب ہے، یہ حدیث حماد بن سلمہ سے بطریق: «قتادة عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم» مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کو اپنا سر مونڈانے سے منع فرمایا، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ عورت کے لیے سر منڈانے کو درست نہیں سمجھتے ان کا خیال ہے کہ اس پر تقصیر (بال کتروانا) ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۸۶۱۷) (ضعیف)
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ، فَقَالَ: " اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ ". وَسَأَلَهُ آخَرُ، فَقَالَ: نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَابْنِ عُمَرَ، وَأُسَامَةَ بْنِ شَرِيكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا قَدَّمَ نُسُكًا قَبْلَ نُسُكٍ فَعَلَيْهِ دَمٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں نے ذبح کرنے سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ نے فرمایا:"اب ذبح کر لو کوئی حرج نہیں" ایک دوسرے نے پوچھا: میں نے رمی سے پہلے نحر (ذبح) کر لیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اب رمی کر لو کوئی حرج نہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، جابر، ابن عباس، ابن عمر، اسامہ بن شریک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں: اگر کسی نسک کو یعنی رمی یا نحر یا حلق وغیرہ میں سے کسی ایک کو دوسرے سے پہلے کر لے تو اس پر دم (ذبیحہ) لازم ہو گا (مگر یہ بات بغیر دلیل کے ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العلم ۲۳ (۸۳) ، والحج ۱۳۱ (۱۷۳۶) ، والأیمان والنذور ۱۵ (۶۶۶۵) ، صحیح مسلم/الحج ۵۷ (۱۳۰۶) ، سنن ابی داود/ المناسک ۸۸ (۲۰۱۴) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۴ (۳۰۵۱) (تحفة الأشراف : ۸۹۰۶) ، موطا امام مالک/الحج ۸۱ (۲۴۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۵ (۱۹۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا مَنْصُورٌ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: " طَيَّبْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يُحْرِمَ، وَيَوْمَ النَّحْرِ قَبْلَ أَنْ يَطُوفَ بِالْبَيْتِ بِطِيبٍ فِيهِ مِسْكٌ ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، يَرَوْنَ أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ يَوْمَ النَّحْرِ وَذَبَحَ وَحَلَقَ أَوْ قَصَّرَ، فَقَدْ حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ حَرُمَ عَلَيْهِ إِلَّا النِّسَاءَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، أَنَّهُ قَالَ: " حَلَّ لَهُ كُلُّ شَيْءٍ إِلَّا النِّسَاءَ وَالطِّيبَ ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے احرام باندھنے سے پہلے اور دسویں ذی الحجہ کو بیت اللہ کا طواف کرنے سے پہلے خوشبو لگائی جس میں مشک تھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب دسویں ذی الحجہ کو جمرہ عقبہ کی رمی کر لے، جانور ذبح کر لے، اور سر مونڈا لے یا بال کتروا لے تو اب اس کے لیے ہر وہ چیز حلال ہو گئی جو اس پر حرام تھی سوائے عورتوں کے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۴- عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ اس کے لیے ہر چیز حلال ہو گئی سوائے عورتوں اور خوشبو کے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، اور یہی کوفہ والوں کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۷ (۱۱۸۹) ، سنن النسائی/الحج ۴۱ (۲۶۹۳) (تحفة الأشراف : ۱۷۵۲۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۱۸ (۱۵۳۹) ، و۱۴۳ (۱۷۵۴) ، واللباس ۷۳ (۵۹۲۲) ، و۷۹ (۵۹۲۸) ، و۸۱ (۵۹۳۰) ، سنن ابی داود/ المناسک ۱۱ (۱۷۴۵) ، سنن النسائی/الحج ۴۱ (۲۶۸۵-۲۶۹۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۱ (۲۹۲۶) ، و۷۰ (۳۰۴۲) ، موطا امام مالک/الحج ۷ (۱۷) ، مسند احمد (۶/۹۸، ۱۰۶، ۱۳۰، ۱۶۲، ۱۸۱، ۱۸۶، ۱۹۲، ۲۰۰، ۲۰۷، ۲۰۹، ۲۱۴، ۲۱۶، ۲۳۷، ۲۳۸، ۲۴۴، ۲۴۵، ۲۵۸) ، سنن الدارمی/المناسک (۱۸۴۴) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : دسویں تاریخ کو جمرہ عقبہ کی رمی کے بعد حاجی حلال ہو جاتا ہے ، اسے تحلل اول کہتے ہیں ، تحلل اول میں عورت کے علاوہ ساری چیزیں حلال ہو جاتی ہیں ، اور طواف افاضہ کے بعد عورت بھی حلال ہو جاتی ہے ، اب وہ عورت سے صحبت یا بوس وکنار کر سکتا ہے اسے تحلل ثانی کہتے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " أَرْدَفَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ جَمْعٍ إِلَى مِنًى، فَلَمْ يَزَلْ يُلَبِّي حَتَّى رَمَى الْجَمْرَةَ ". وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَابْنِ مَسْعُودٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْحَاجَّ لَا يَقْطَعُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَرْمِيَ الْجَمْرَةَ، وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مزدلفہ سے منیٰ تک اپنا ردیف بنایا (یعنی آپ مجھے اپنے پیچھے سواری پر بٹھا کر لے گئے)آپ برابر تلبیہ کہتے رہے یہاں تک کہ آپ نے جمرہ (عقبہ) کی رمی کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ حاجی تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ جمرہ کی رمی نہ کر لے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۰۲ (۱۶۸۵) ، صحیح مسلم/الحج ۴۵ (۱۲۸۱) ، سنن ابی داود/ المناسک ۲۸ (۱۸۱۵) ، سنن النسائی/الحج ۲۱۶ (۳۰۵۷) ، و۲۲۸ (۳۰۸۱) ، و۲۲۹ (۳۰۸۲) ، مسند احمد (۱/۲۱۰، ۲۱۱، ۲۱۲، ۲۱۳) (تحفة الأشراف : ۱۱۰۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحج ۲۲ (۱۵۴۳) ، و۹۳ (۱۶۷۰) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۹ (۳۰۴۰) ، مسند احمد (۱/۲۱۴) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۰ (۱۹۴۳) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : ان لوگوں کا استدلال «حتى يرمي الجمرة» سے ہے کہ جمرہ عقبہ کی رمی کر لینے کے بعد تلبیہ پکارنا بند کرے ، لیکن جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جمرہ عقبہ کی پہلی کنکری مارنے کے ساتھ ہی تلبیہ پکارنا بند کر دینا چاہیئے ، ان کی دلیل صحیح بخاری وصحیح مسلم کی روایت ہے جس میں «لم يزل يلبي حتى بلغ الجمرة» کے الفاظ وارد ہیں۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعُ الْحَدِيثَ " أَنَّهُ كَانَ يُمْسِكُ عَنِ التَّلْبِيَةِ فِي الْعُمْرَةِ إِذَا اسْتَلَمَ الْحَجَرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: لَا يَقْطَعُ الْمُعْتَمِرُ التَّلْبِيَةَ حَتَّى يَسْتَلِمَ الْحَجَرَ، وقَالَ بَعْضُهُمْ: إِذَا انْتَهَى إِلَى بُيُوتِ مَكَّةَ قَطَعَ التَّلْبِيَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبِهِ يَقُولُ سُفْيَانُ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ میں تلبیہ پکارنا اس وقت بند کرتے جب حجر اسود کا استلام کر لیتے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والا شخص تلبیہ بند نہ کرے جب تک کہ حجر اسود کا استلام نہ کر لے، ۴- بعض کہتے ہیں کہ جب مکے کے گھروں یعنی مکہ کی آبادی میں پہنچ جائے تو تلبیہ پکارنا بند کر دے۔ لیکن عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی (مذکورہ) حدیث پر ہے۔ یہی سفیان، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۲۹ (۱۸۱۷) (تحفة الأشراف : ۵۹۵۸) (ضعیف) (سند میں محمد بن عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَخَّرَ طَوَافَ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي أَنْ يُؤَخَّرَ طَوَافُ الزِّيَارَةِ إِلَى اللَّيْلِ، وَاسْتَحَبَّ بَعْضُهُمْ أَنْ يَزُورَ يَوْمَ النَّحْرِ، وَوَسَّعَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُؤَخَّرَ وَلَوْ إِلَى آخِرِ أَيَّامِ مِنًى.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما اور ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ۲؎، ۲- بعض اہل علم نے طواف زیارت کو رات تک مؤخر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور بعض نے دسویں ذی الحجہ کو طواف زیارت کرنے کو مستحب قرار دیا ہے، لیکن بعض نے اُسے منیٰ کے آخری دن تک مؤخر کرنے کی گنجائش رکھی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۳۰ (تعلیقا فی الترجمة) ، سنن ابی داود/ المناسک ۸۳ (۲۰۰۰) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۷۷ (۳۰۵۹) ، (تحفة الأشراف : ۶۴۵۲ و ۱۷۵۹۴) ، مسند احمد (۱/۲۸۸) (ضعیف شاذ) (ابو الزبیر مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ابوالزبیر کا دونوں صحابہ سے سماع نہیں ہے، اور یہ حدیث اس صحیح حدیث کے خلاف ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے دن میں طواف زیارت فرمایا تھا، اس لیے شاذ ہے)۔
وضاحت: ۱؎ عبداللہ بن عباس اور عائشہ رضی الله عنہم کی یہ حدیث ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث کے مخالف ہے جسے بخاری و مسلم نے روایت کی ہے ، جس میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم النحر کو دن میں طواف کیا ، امام بخاری نے دونوں میں تطبیق اس طرح دی ہے کہ ابن عمر اور جابر کی حدیث کو پہلے دن پر محمول کیا جائے اور ابن عباس اور عائشہ کی حدیث کو اس کے علاوہ باقی دنوں پر ، صاحب تحفۃ الأحوذی فرماتے ہیں : «حديث ابن عباس وعائشة المذكور في هذا الباب ضعيف فلا حاجة إلى الجمع الذي أشار إليه البخاري ، وأما على تقدير الصحة فهذا الجمع متعين»۔(ابن عباس اور عائشہ کی باب میں مذکور حدیث ضعیف ہے ، اس لیے بخاری نے جس جمع و تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے اس کی ضرورت نہیں ہے اور صحت ماننے کی صورت میں جمع وتطبیق متعین ہے)۔ ۲؎ امام ترمذی کا اس حدیث کو حسن صحیح کہنا درست نہیں ہے ، صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث قابل استدلال نہیں ، کیونکہ ابو الزبیر کا ابن عباس سے اور عائشہ رضی الله عنہا سے سماع نہیں ہے ، ابوالحسن القطان کہتے ہیں «عندي أن هذا الحديث ليس بصحيح إنما طاف النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ نهارا»۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ يَنْزِلُونَ الْأَبْطَحَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَأَبِي رَافِعٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَقَدِ اسْتَحَبَّ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ نُزُولَ الْأَبْطَحِ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَرَوْا ذَلِكَ وَاجِبًا إِلَّا مَنْ أَحَبَّ ذَلِكَ. قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَنُزُولُ الْأَبْطَحِ لَيْسَ مِنَ النُّسُكِ فِي شَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر، عمر، اور عثمان رضی الله عنہم ابطح ۱؎ میں قیام کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ ہم اسے صرف عبدالرزاق کی سند سے جانتے ہیں، وہ عبیداللہ بن عمر سے روایت کرتے ہیں، ۲- اس باب میں عائشہ، ابورافع اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم نے ابطح میں قیام کو مستحب قرار دیا ہے، واجب نہیں، جو چاہے وہاں قیام کرے، ۴- شافعی کہتے ہیں: ابطح کا قیام حج کے مناسک میں سے نہیں ہے۔ یہ تو بس ایک مقام ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۱ (۳۰۶۹) (تحفة الأشراف : ۸۰۲۵) (صحیح) وأخرجہ مسلم فی الحج (۵۹/۱۳۱۰) من غیر ہذا الوجہ)
وضاحت: ۱؎ : ابطح ، بطحاء خیف کنانہ اور محصب سب ہم معنی ہیں اس سے مراد مکہ اور منیٰ کے درمیان کا علاقہ ہے جو منی سے زیادہ قریب ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " لَيْسَ التَّحْصِيبُ بِشَيْءٍ، إِنَّمَا هُوَ مَنْزِلٌ نَزَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: التَّحْصِيبُ نُزُولُ الْأَبْطَحِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ وادی محصب میں قیام کوئی چیز نہیں ۱؎، یہ تو بس ایک جگہ ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام فرمایا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- «تحصیب» کے معنی ابطح میں قیام کرنے کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۱۴۷ (۱۷۶۶) ، صحیح مسلم/الحج ۵۹ (۱۳۱۲) (تحفة الأشراف : ۵۹۴۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : محصب میں نزول و اقامت مناسک حج میں سے نہیں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زوال کے بعد آرام فرمانے کے لیے یہاں اقامت کی ، ظہر و عصر اور مغرب اور عشاء پڑھی اور چودھویں رات گزاری ، چونکہ آپ نے یہاں نزول فرمایا تھا اس لیے آپ کی اتباع میں یہاں کی اقامت مستحب ہے ، خلفاء نے آپ کے بعد اس پر عمل کیا ، امام مالک امام شافعی اور جمہور اہل علم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی الله عنہم کی اقتداء میں اسے مستحب قرار دیا ہے اگر کسی نے وہاں نزول نہ کیا تو بالاجماع کوئی حرج کی بات نہیں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: " إِنَّمَا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْأَبْطَحَ لِأَنَّهُ كَانَ أَسْمَحَ لِخُرُوجِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ نَحْوَهُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابطح میں قیام فرمایا اس لیے کہ یہاں سے (مدینے کے لیے) روانہ ہونا زیادہ آسان تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ ہم سے ابن ابی عمر نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا اور سفیان نے ہشام بن عروہ سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۵۹ (۱۳۱۱) (تحفة الأشراف : ۱۶۷۸۵) ، وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۱ (۳۰۶۷) من غیر ھذا الوجہ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَرِيفٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سُوقَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَفَعَتِ امْرَأَةٌ صَبِيًّا لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِهَذَا حَجٌّ ؟ قَالَ: " نَعَمْ، وَلَكِ أَجْرٌ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک عورت نے اپنے بچے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھا کر پوچھا: اللہ کے رسول! کیا اس پر بھی حج ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، اور اجر تجھے ملے گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر کی حدیث غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۱ (۲۹۱۰) (تحفة الأشراف : ۳۰۷۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ اس میں شافعی احمد ، مالک اور جمہور علماء کے لیے دلیل ہے ، جو اس بات کے قائل ہیں کہ نابالغ بچے کا حج صحیح ہے ، اس پر اسے ثواب دیا جائے گا اگرچہ اس سے فرض ساقط نہیں ہو گا اور بالغ ہونے کی استطاعت کی صورت میں اسے پھر سے حج کرنا پڑے گا اور نابالغ کا یہ حج نفلی حج ہو گا ، امام ابوحنیفہ کا کہنا ہے کہ نابالغ بچے کا حج منعقد نہیں ہو گا وہ صرف تمرین ومشق کے لیے اسے کرے گا اس پر اسے کوئی ثواب نہیں ملے گا ، یہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا قَزَعَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْبَاهِلِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، يَعْنِى حَدِيثَ مُحَمَّدِ بْنِ طَرِيفٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا.
اس سند سے بھی جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ محمد بن منکدر سے بھی روایت کی گئی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہے، ۲- اہل علم کا اس پر اجماع ہے کہ بچہ جب بالغ ہونے سے پہلے حج کر لے تو (اس کا فریضہ ساقط نہیں ہو گا) جب وہ بالغ ہو جائے گا تو اس کے ذمہ حج ہو گا، کم سنی کا یہ حج اسلام کے عائد کردہ فریضہ حج کے لیے کافی نہیں ہو گا۔ اسی طرح غلام کا معاملہ ہے، اگر وہ غلامی میں حج کر چکا ہو پھر آزاد کر دیا جائے تو آزادی کی حالت میں اس پر حج فرض ہو گا جب وہ اس کی سبیل پا لے، غلامی کی حالت میں کیا ہوا حج کافی نہیں ہو گا۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: " حَجَّ بِي أَبِي مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ أَنَّ الصَّبِيَّ إِذَا حَجَّ قَبْلَ أَنْ يُدْرِكَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ، إِذَا أَدْرَكَ لَا تُجْزِئُ عَنْهُ تِلْكَ الْحَجَّةُ عَنْ حَجَّةِ الْإِسْلَامِ، وَكَذَلِكَ الْمَمْلُوكُ إِذَا حَجَّ فِي رِقِّهِ ثُمَّ أُعْتِقَ فَعَلَيْهِ الْحَجُّ إِذَا وَجَدَ إِلَى ذَلِكَ سَبِيلًا، وَلَا يُجْزِئُ عَنْهُ مَا حَجَّ فِي حَالِ رِقِّهِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
سائب بن یزید رضی الله عنہا کہتے ہیں کہ میرے باپ نے حجۃ الوداع میں مجھے ساتھ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا، میں سات برس کا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۲۵ (۱۸۵۸) (تحفة الأشراف : ۳۸۰۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الْوَاسِطِيُّ، قَال: سَمِعْتُ ابْنَ نُمَيْرٍ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سَوَّارٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: " كُنَّا إِذَا حَجَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكُنَّا نُلَبِّي عَنِ النِّسَاءِ وَنَرْمِي عَنِ الصِّبْيَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ أَجْمَعَ أَهْلُ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ الْمَرْأَةَ لَا يُلَبِّي عَنْهَا غَيْرُهَا بَلْ هِيَ تُلَبِّي عَنْ نَفْسِهَا، وَيُكْرَهُ لَهَا رَفْعُ الصَّوْتِ بِالتَّلْبِيَةِ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تو ہم عورتوں کی طرف سے تلبیہ کہتے اور بچوں کی طرف سے رمی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، ۲- اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت کی طرف سے کوئی دوسرا تلبیہ نہیں کہے گا، بلکہ وہ خود ہی تلبیہ کہے گی البتہ اس کے لیے تلبیہ میں آواز بلند کرنا مکروہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۸ (۳۰۳۸) (تحفة الأشراف : ۲۶۶۲) (ضعیف) (سند میں اشعث بن سوار ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ خَثْعَمٍ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي أَدْرَكَتْهُ فَرِيضَةُ اللَّهِ فِي الْحَجِّ، وَهُوَ شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْتَوِيَ عَلَى ظَهْرِ الْبَعِيرِ. قَالَ: " حُجِّي عَنْهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَبُرَيْدَةَ، وَحُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ، وَأَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ، وَسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ حُصَيْنِ بْنِ عَوْفٍ الْمُزَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَيْضًا، عَن سِنَانِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عَمَّتِه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذِهِ الرِّوَايَاتِ، فَقَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب مَا رَوَى ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ ابْنُ عَبَّاسٍ سَمِعَهُ مِنْ الْفَضْلِ وَغَيْرِهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَوَى هَذَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْسَلَهُ وَلَمْ يَذْكُرِ الَّذِي سَمِعَهُ مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ صَحَّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَاب غَيْرُ حَدِيثٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَبِهِ يَقُولُ: الثَّوْرِيُّ، وَابْنُ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: يَرَوْنَ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْمَيِّتِ، وقَالَ مَالِكٌ: إِذَا أَوْصَى أَنْ يُحَجَّ عَنْهُ حُجَّ عَنْهُ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحَجَّ عَنِ الْحَيِّ إِذَا كَانَ كَبِيرًا، أَوْ بِحَالٍ لَا يَقْدِرُ أَنْ يَحُجَّ، وَهُوَ قَوْلُ ابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ.
فضل بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد کو اللہ کے فریضہ حج نے پا لیا ہے لیکن وہ اتنے بوڑھے ہیں کہ اونٹ کی پیٹھ پر بیٹھ نہیں سکتے (تو کیا کیا جائے؟)۔ آپ نے فرمایا: "تو ان کی طرف سے حج کر لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- فضل بن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ابن عباس رضی الله عنہما سے حصین بن عوف مزنی رضی الله عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ سنان بن عبداللہ جہنی رضی الله عنہ نے اپنی پھوپھی سے اور ان کی پھوپھی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۴- ابن عباس رضی الله عنہما نے براہ راست نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کی ہے، ۵-
امام ترمذی کہتے ہیں: میں نے ان روایات کے بارے میں محمد بن اسماعیل بخاری سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اس باب میں سب سے صحیح روایت وہ ہے جسے ابن عباس نے فضل بن عباس سے اور فضل نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے ۶- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ اس کا بھی احتمال ہے کہ ابن عباس نے اسے(اپنے بھائی) فضل سے اور ان کے علاوہ دوسرے لوگوں سے بھی سنا ہو اور ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، اور پھر ابن عباس رضی الله عنہما نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کی ہو اور جس سے انہوں نے اسے سنا ہو اس کا نام ذکر نہ کیا ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کئی اور بھی احادیث ہیں، ۷- اس باب میں علی، بریدہ، حصین بن عوف، ابورزین عقیلی، سودہ بنت زمعہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۸- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے حج کیا جا سکتا ہے، ۹-مالک کہتے ہیں: میت کی طرف سے حج اس وقت کیا جائے گا جب وہ حج کرنے کی وصیت کر گیا ہو، ۱۰- بعض لوگوں نے زندہ شخص کی طرف سے جب وہ بہت زیادہ بوڑھا ہو گیا ہو یا ایسی حالت میں ہو کہ وہ حج پر قدرت نہ رکھتا ہو حج کرنے کی اجازت دی ہے۔ یہی ابن مبارک اور شافعی کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۲۳ (۱۸۵۳) ، صحیح مسلم/الحج ۷۱ (۱۳۲۵) ، سنن النسائی/آداب القضاة ۹ (۵۳۹۱) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۰ (۲۹۰۹) (تحفة الأشراف : ۱۱۰۴۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ. قَالَ: وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ أَفَأَحُجُّ عَنْهَا ؟ قَالَ: " نَعَمْ، حُجِّي عَنْهَا ". قَالَ: وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
بریدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میری ماں مر گئی ہے، وہ حج نہیں کر سکی تھی، کیا میں اس کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، تو اس کی طرف سے حج کر لے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الصیام ۲۷ (۱۱۴۹) (بزیادة) (تحفة الأشراف : ۱۹۸۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي رَزِينٍ الْعُقَيْلِيِّ، أَنَّهُ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَبِي شَيْخٌ كَبِيرٌ لَا يَسْتَطِيعُ الْحَجَّ وَلَا الْعُمْرَةَ وَلَا الظَّعْنَ، قَالَ: " حُجَّ عَنْ أَبِيكَ وَاعْتَمِرْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا ذُكِرَتِ الْعُمْرَةُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، أَنْ يَعْتَمِرَ الرَّجُلُ عَنْ غَيْرِهِ. وَأَبُو رَزِينٍ الْعُقَيْلِيُّ اسْمُهُ لَقِيطُ بْنُ عَامِرٍ.
ابورزین عقیلی لقیط بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے والد بہت بوڑھے ہیں، وہ حج و عمرہ کرنے اور سوار ہو کر سفر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ نے فرمایا: "تم اپنے والد کی طرف سے حج اور عمرہ کر لو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- عمرے کا ذکر صرف اسی حدیث میں مذکور ہوا ہے کہ آدمی غیر کی طرف سے عمرہ کر سکتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۲۶ (۱۸۱۰) ، سنن النسائی/الحج ۲ (۲۶۲۲) ، و۱۰ (۲۶۳۸) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۱۰ (۲۹۰۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۷۳) ، مسند احمد (۴/۱۰-۱۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْعُمْرَةِ أَوَاجِبَةٌ هِيَ ؟ قَالَ: " لَا، وَأَنْ تَعْتَمِرُوا هُوَ أَفْضَلُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ قَوْلُ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: الْعُمْرَةُ لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ. وَكَانَ يُقَالُ: هُمَا حَجَّانِ: الْحَجُّ الْأَكْبَرُ يَوْمُ النَّحْرِ، وَالْحَجُّ الْأَصْغَرُ الْعُمْرَةُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: الْعُمْرَةُ سُنَّةٌ، لَا نَعْلَمُ أَحَدًا رَخَّصَ فِي تَرْكِهَا، وَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ ثَابِتٌ بِأَنَّهَا تَطَوُّعٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِسْنَادٍ، وَهُوَ ضَعِيفٌ لَا تَقُومُ بِمِثْلِهِ الْحُجَّةُ، وَقَدْ بَلَغَنَا عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ كَانَ يُوجِبُهَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: كُلُّهُ كَلَامُ الشَّافِعِيِّ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرے کے بارے میں پوچھا گیا: کیا یہ واجب ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، لیکن عمرہ کرنا بہتر ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور یہی بعض اہل علم کا قول ہے، وہ کہتے ہیں کہ عمرہ واجب نہیں ہے، ۳- اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حج دو ہیں: ایک حج اکبر ہے جو یوم نحر (دسویں ذی الحجہ کو) ہوتا ہے اور دوسرا حج اصغر ہے جسے عمرہ کہتے ہیں، ۴- شافعی کہتے ہیں: عمرہ (کا وجوب) سنت سے ثابت ہے، ہم کسی ایسے شخص کو نہیں جانتے جس نے اسے چھوڑنے کی اجازت دی ہو۔ اور اس کے نفل ہونے کے سلسلے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جس سند سے (نفل ہونا) مروی ہے وہ ضعیف ہے۔ اس جیسی حدیث سے حجت نہیں پکڑی جا سکتی، اور ہم تک یہ بات بھی پہنچی ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما اسے واجب قرار دیتے تھے۔ یہ سب شافعی کا کلام ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۱۱) (ضعیف الإسناد) (سند حجاج بن ارطاة کثیرالارسال والتدلیس ہیں)
وضاحت: ۱؎ : اس سے حنفیہ اور مالکیہ نے اس بات پر استدلال کیا ہے کہ عمرہ واجب نہیں ہے ، لیکن یہ حدیث ضعیف ہے لائق استدلال نہیں۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنْ لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَهَكَذَا قَالَ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ: أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا لَا يَعْتَمِرُونَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ: " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ". يَعْنِي: لَا بَأْسَ بِالْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَأَشْهُرُ الْحَجِّ شَوَّالٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَعَشْرٌ مِنْ ذِي الْحِجَّةِ، لَا يَنْبَغِي لِلرَّجُلِ أَنْ يُهِلَّ بِالْحَجِّ إِلَّا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ وَأَشْهُرُ الْحُرُمِ رَجَبٌ وَذُو الْقَعْدَةِ وَذُو الْحِجَّةِ وَالْمُحَرَّمُ، هَكَذَا قَالَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں سراقہ بن جعشم اور جابر بن عبداللہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی تشریح شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کی ہے کہ جاہلیت کے لوگ حج کے مہینوں میں عمرہ نہیں کرتے تھے، جب اسلام آیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دے دی اور فرمایا: "عمرہ حج میں قیامت تک کے لیے داخل ہو چکا ہے"، یعنی حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اشہر حج شوال، ذی قعدہ اور ذی الحجہ کے دس دن ہیں"، کسی شخص کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی اور مہینے میں حج کا احرام باندھے، اور حرمت والے مہینے یہ ہیں: رجب، ذی قعدہ، ذی الحجہ اور محرم۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم اسی کے قائل ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۴۳۰۱) (صحیح) (سند میں یزید بن ابی زیاد ضعیف ہیں، لیکن متابعات وشواہد سے تقویت پا کر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج ۳۱ (۱۲۴۱) ، سنن ابی داود/ المناسک ۲۳ (۱۷۹۰) ، سنن النسائی/الحج ۷۷ (۱۸۱۷) ، مسند احمد (۱/۲۳۶، ۲۵۳، ۲۵۹، ۳۴۱) ، سنن الدارمی/المناسک ۱۸ (۱۸۹۸) ، من غیر ہذا الطریق، وأصلہ عند: صحیح البخاری/تقصیر الصلاة ۳ (۱۰۸۵) ، والحج ۲۳ (۱۵۴۵) ، و۳۴ (۱۵۶۴) ، والشرکة ۱۵ (۲۵۰۵) ، ومناقب الأنصار ۲۶ (۳۸۳۲)
وضاحت: ۱؎ : مگر حرمت والے مہینوں کا حج کے لیے احرام باندھنے سے کوئی تعلق نہیں ہے ، امام رحمہ اللہ نے ان کا ذکر صرف وضاحت کے لیے کیا ہے تاکہ دونوں خلط ملط نہ جائیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ تُكَفِّرُ مَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۷۹ (۱۳۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۵۵۶) ، مسند احمد (۲/۲۴۶، ۴۶۱) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/العمرة (۱۷۷۳) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) سنن النسائی/الحج ۳ (۲۶۲۳) ، و۵ (۲۶۳۰) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۳ (۲۸۸۸) ، موطا امام مالک/الحج ۲۱ (۶۵) ، مسند احمد (۲/۲۶۲) ، سنن الدارمی/المناسک ۷ (۱۸۰۲) ، من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : مراد صغائر (چھوٹے گناہ) ہیں نہ کہ کبائر (بڑے گناہ) کیونکہ کبائر بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ ۲؎ : حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي بَكْرٍ أَنْ يُعْمِرَ عَائِشَةَ مِنَ التَّنْعِيمِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبدالرحمٰن بن ابی بکر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ وہ عائشہ رضی الله عنہا کو تنعیم ۱؎ سے عمرہ کرائیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العمرة ۶ (۱۷۸۴) ، والجہاد ۱۲۴ (۲۹۸۵) ، صحیح مسلم/الحج ۱۷ (۱۲۱۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۴۸ (۲۹۹۹) ، (تحفة الأشراف : ۹۶۸۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : تنعیم مکہ سے باہر ایک معروف جگہ کا نام ہے جو مدینہ کی جہت میں مکہ سے چار میل کی دوری پر ہے ، عمرہ کے لیے اہل مکہ کی میقات حل (حرم مکہ سے باہر کی جگہ) ہے ، اور تنعیم چونکہ سب سے قریبی حِل ہے اس لیے آپ نے عائشہ رضی الله عنہا کو تنعیم سے احرام باندھنے کا حکم دیا۔ اور یہ عمرہ ان کے لیے اس عمرے کے بدلے میں تھا جو وہ حج سے قبل حیض آ جانے کی وجہ سے نہیں کر سکی تھیں ، اس سے حج کے بعد عمرہ پر عمرہ کرنے کی موجودہ چلن پر دلیل نہیں پکڑی جا سکتی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ مُزَاحِمِ بْنِ أَبِي مُزَاحِمٍ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، " أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مِنْ الْجِعِرَّانَةِ لَيْلًا مُعْتَمِرًا، فَدَخَلَ مَكَّةَ لَيْلًا فَقَضَى عُمْرَتَهُ، ثُمَّ خَرَجَ مِنْ لَيْلَتِهِ فَأَصْبَحَ بِالْجِعِرَّانَةِ كَبَائِتٍ، فَلَمَّا زَالَتِ الشَّمْسُ مِنَ الْغَدِ خَرَجَ مِنْ بَطْنِ سَرِفَ حَتَّى جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ، طَرِيقِ جَمْعٍ بِبَطْنِ سَرِفَ، فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ خَفِيَتْ عُمْرَتُهُ عَلَى النَّاسِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا نَعْرِفُ لِمُحَرِّشٍ الْكَعْبِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَيُقَالُ: جَاءَ مَعَ الطَّرِيقِ مَوْصُولٌ.
محرش کعبی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ سے رات کو عمرے کی نیت سے نکلے اور رات ہی میں مکے میں داخل ہوئے، آپ نے اپنا عمرہ پورا کیا، پھر اسی رات (مکہ سے) نکل پڑے اور آپ نے واپس جعرانہ ۱؎ میں صبح کی، گویا آپ نے وہیں رات گزاری ہو، اور جب دوسرے دن سورج ڈھل گیا تو آپ وادی سرف ۲؎ سے نکلے یہاں تک کہ اس راستے پر آئے جس سے وادی سرف والا راستہ آ کر مل جاتا ہے۔ اسی وجہ سے (بہت سے) لوگوں سے آپ کا عمرہ پوشیدہ رہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اس حدیث کے علاوہ محرش کعبی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو اور کہا جاتا ہے: «جاء مع الطريق» والا ٹکڑا موصول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۸۱ (۱۹۹۶) ، سنن النسائی/الحج ۱۰۴ (۲۸۶۶، ۲۸۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۲۲۰) ، مسند احمد (۳/۴۲۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۴۱ (۱۹۰۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مکہ اور طائف کے درمیان ایک جگہ کا نام ہے۔ ۲؎ : مکہ سے تین میل کی دوری پر ایک جگہ ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْعُرْوَةَ، قَالَ: سُئِلَ ابْنُ عُمَرَ فِي أَيِّ شَهْرٍ اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ فَقَالَ: " فِي رَجَبٍ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: " مَا اعْتَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ مَعَهُ تَعْنِي ابْنَ عُمَرَ، وَمَا اعْتَمَرَ فِي شَهْرِ رَجَبٍ قَطُّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ.
عروہ کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما سے پوچھا گیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس مہینے میں عمرہ کیا تھا؟ تو انہوں نے کہا: رجب میں، اس پر عائشہ رضی الله عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی عمرہ کیا، اس میں وہ یعنی ابن عمر آپ کے ساتھ تھے، آپ نے رجب کے مہینے میں کبھی بھی عمرہ نہیں کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ جبیب بن ابی ثابت نے عروہ بن زبیر سے نہیں سنا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۳۷ (۲۹۹۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۳۷۳) ، وراجع ما عند صحیح البخاری/العمرة ۳ (۱۷۷۶) ، صحیح مسلم/الحج ۳۵ (۱۲۵۵، ۱۲۹) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابن عمر عائشہ رضی الله عنہا کی یہ بات سن کر خاموش رہے ، کچھ نہیں بولے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ ان پر مشتبہ تھا ، یا تو وہ بھول گئے تھے ، یا انہیں شک ہو گیا تھا ، اسی وجہ سے ام المؤمنین کی بات کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا ، اس سلسلہ میں صحیح بات ام المؤمنین کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب میں کوئی عمرہ نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ أَرْبَعًا إِحْدَاهُنَّ فِي رَجَبٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کیے، ان میں سے ایک رجب میں تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ (بہذا السیاق) المؤلف، وراجع ما عند: صحیح البخاری/العمرة ۳ (۱۷۷۵) ، صحیح مسلم/الحج ۱۳۵ (۱۲۵۵، ۲۲۰) ، (تحفة الأشراف : ۷۳۸۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ترمذی نے یہ حدیث مختصراً روایت کی ہے شیخین نے اسے «جریر عن منصور عن مجاہد» کے طریق سے مفصلاً روایت کی ہے صحیح بخاری کے الفاظ یہ ہیں «قال : دخلت أنا وعروۃ بن الزبیر المسجد فإذا عبداللہ بن عمر جالس إلی حجرۃ عائشۃ ، وإذا ناس یصلون فی المسجد صلاۃ الضحیٰ ، قال : فسألناہ عن صلاتہم فقال : بدعۃ ، ثم قال لہ : کم اعتمر النبي صلى الله عليه وسلم قال : اربع احداہن فی رجب ، فکرہنا أن نردعلیہ وقال : سمعنا استنان عائشۃ أم المؤمنین فی الحجرۃ فقال عروۃ : یا أم المؤمنین ! ألاتسمعین ما یقول ابوعبدالرحمٰن ؟ قالت : مایقول ؟ قال : یقول : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم اعتمر أربع عمرات إحداہن فی رجب ، قالت : - یرحمہ اللہ اباعبدالرحمٰن - ما اعتمر عمرۃ إلا وہو شاہد ، وما اعتمرفی رجب قط»۔ مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن زبیر مسجد نبوی میں داخل ہوئے اور عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کو عائشہ رضی الله عنہا کے حجرے کے پاس بیٹھا پایا ، لوگ مسجد میں نماز الضحی (چاشت کی نماز) پڑھ رہے تھے ، ہم نے ابن عمر رضی الله عنہما سے ان لوگوں کی نماز کے بارے میں پوچھا ، فرمایا : یہ بدعت ہے ، پھر مجاہد نے ان سے پوچھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے عمرے کئے تھے ؟ کہا : چار عمرے ایک ماہ رجب میں تھا ، ہم نے یہ ناپسند کیا کہ ان کی تردید کریں ، ہم نے ام المؤمنین عائشہ کی حجرے میں آواز سنی تو عروہ نے کہا : ام المؤمنین ابوعبدالرحمٰن ابن عمر جو کہہ رہے ہیں کیا آپ اسے سن رہی ہیں ؟ کہا : کیا کہہ رہے ہیں ؟ ، کہا کہہ رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار عمرے کئے ایک رجب میں تھا فرمایا : اللہ ابوعبدالرحمٰن ابن عمر پر اپنا رحم فرمائے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر عمرہ میں وہ حاضر تھے (پھر بھی یہ بات کہہ رہے ہیں) آپ نے رجب میں ہرگز عمرہ نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ هُوَ: السَّلُولِيُّ الْكُوفِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَمَرَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَفِي الْبَاب: عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
براء رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ کے مہینہ میں عمرہ کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۷ (۱۸۴۴) ، والصلح ۶ (۲۶۹۹) ، والمغازي ۴۳ (۴۲۵۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۰۳) (صحیح) وأخرجہ صحیح البخاری/العمرة ۳ (۱۷۸۱) من غیر ہذا الوجہ۔
وضاحت: ۱؎ : بخاری کی ایک روایت میں ہے «اعتمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذي القعدة قبل أن يحج مرتين»۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج سے پہلے آپ نے ذوقعدہ میں دو مرتبہ عمرہ کیا)۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ أُمِّ مَعْقِلٍ، عَنْ أُمِّ مَعْقِلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " عُمْرَةٌ فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً ". وَفِي الْبَاب عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَنَسٍ، وَوَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَيُقَالُ: هَرِمُ بْنُ خَنْبَشٍ، قَالَ بَيَانٌ، وَجَابِرٌ: عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ وَهْبِ بْنِ خَنْبَشٍ، وقَالَ دَاوُدُ الْأَوْدِيُّ: عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ هَرِمُ بْنِ خَنْبَشٍ، وَوَهْبٌ أَصَحُّ، وَحَدِيثُ أُمِّ مَعْقِلٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: قَدْ ثَبَتَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّ عُمْرَةً فِي رَمَضَانَ تَعْدِلُ حَجَّةً "، قَالَ إِسْحَاق: مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ مِثْلُ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ قَرَأَ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ فَقَدْ قَرَأَ ثُلُثَ الْقُرْآنِ ".
ام معقل رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "رمضان کا عمرہ ایک حج کے برابر ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام معقل کی حدیث اس سند سے حسن غریب ہے، ۲- (وہب کے بجائے) ھرم بن خنبش بھی کہا جاتا ہے۔ بیان اور جابر نے یوں کہا ہے«عن الشعبي عن وهب بن خنبش» اور داود اودی نے یوں کہا ہے «عن الشعبي عن هرم بن خنبش» لیکن صحیح وہب بن خنبش ہی ہے، ۳-اس باب میں ابن عباس، جابر، ابوہریرہ، انس اور وہب بن خنبش رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ رمضان کا عمرہ حج کے ثواب برابر ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مفہوم بھی اس حدیث کے مفہوم کی طرح ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی گئی ہے کہ جس نے سورۂ «قل هو الله أحد» پڑھی اس نے تہائی قرآن پڑھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۴۵ (۲۹۹۳) (تحفة الأشراف : ۱۸۳۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر اعتبار سے عمرہ حج کے برابر ہے ، بلکہ صرف اجر و ثواب میں حج کے برابر ہے ، ایسا نہیں کہ اس سے فریضہء حج ادا ہو جائے گا ، یا نذر مانا ہوا حج پورا ہو جائے گا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْعِكْرِمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَجَّاجُ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ كُسِرَ أَوْ عَرِجَ فَقَدْ حَلَّ وَعَلَيْهِ حَجَّةٌ أُخْرَى "، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، فَقَالَا: صَدَقَ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَامُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيُّ، عَنْ الْحَجَّاجِ مِثْلَهُ، قَالَ: وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، هَكَذَا رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ الْحَجَّاجِ الصَّوَّافِ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَى مَعْمَرٌ، وَمُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، وَحَجَّاجٌ الصَّوَّافُ لَمْ يَذْكُرْ فِي حَدِيثِهِ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ رَافِعٍ، وَحَجَّاجٌ ثِقَةٌ حَافِظٌ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وسَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: رِوَايَةُ مَعْمَرٍ وَمُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ أَصَحُّ. حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْالْحَجَّاجِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ.
حجاج بن عمرو رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کا کوئی عضو ٹوٹ جائے یا وہ لنگڑا ہو جائے تو اس کے لیے احرام کھول دینا درست ہے، اس پر دوسرا حج لازم ہو گا" ۱؎۔ میں نے اس کا ذکر ابوہریرہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے کیا تو ان دونوں نے کہا کہ انہوں نے (حجاج) سچ کہا۔ اسحاق بن منصور کی سند بھی حجاج رضی الله عنہ سے اسی کے مثل روایت ہے البتہ اس میں «عن الحجاج بن عمرو قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم» کے بجائے «سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم» کے الفاظ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح کئی اور لوگوں نے بھی حجاج الصواف سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- معمر اور معاویہ بن سلام نے بھی یہ حدیث بطریق: «يحيى بن أبي كثير عن عكرمة عن عبد الله بن رافع عن الحجاج بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۴- اور حجاج الصواف نے اپنی روایت میں عبداللہ بن رافع کا ذکر نہیں کیا ہے، حجاج الصواف محدثین کے نزدیک ثقہ اور حافظ ہیں، ۵- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ معمر اور معاویہ بن سلام کی روایت سب سے زیادہ صحیح ہے، ۶- عبدالرزاق نے بسند «معمر عن يحيى بن أبي كثير عن عكرمة عن عبد الله بن رافع عن الحجاج بن عمرو عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۴۴ (۱۸۶۲) ، سنن النسائی/الحج ۱۰۲ (۲۸۶۳) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۵ (۳۰۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۳۲۹۴) ، مسند احمد (۳/۴۵۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ابوداؤد کی ایک روایت میں «مِنْ قَابِلٍ» کا اضافہ ہے ، یعنی اگلے سال وہ اس حج کی قضاء کرے گا ، خطابی کہتے ہیں : یہ اس شخص کے لیے ہے جس کا یہ حج فرض حج رہا ہو ، لیکن نفلی حج کرنے والا اگر روک دیا جائے تو اس پر قضاء نہیں ، یہی مالک اور شافعی کا قول ہے ، جب کہ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا کہنا ہے کہ اس پر حج اور عمرہ دونوں لازم ہو گا ، امام نخعی کا بھی قول یہی ہے۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ عَوَّامٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ ضُبَاعَةَ بِنْتَ الزُّبَيْرِ أَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ الْحَجَّ أَفَأَشْتَرِطُ ؟ قَالَ: " نَعَمْ "، قَالَتْ: كَيْفَ أَقُولُ ؟ قَالَ: " قُولِي: لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ، مَحِلِّي مِنَ الْأَرْضِ حَيْثُ تَحْبِسُنِي ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَأَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَعَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَرَوْنَ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ، وَيَقُولُونَ: إِنِ اشْتَرَطَ فَعَرَضَ لَهُ مَرَضٌ أَوْ عُذْرٌ، فَلَهُ أَنْ يَحِلَّ وَيَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَلَمْ يَرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ، وَقَالُوا: إِنِ اشْتَرَطَ فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَخْرُجَ مِنْ إِحْرَامِهِ، وَيَرَوْنَهُ كَمَنْ لَمْ يَشْتَرِطْ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ضباعہ بنت زبیر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں حج کا ارادہ رکھتی ہوں، تو کیا میں شرط لگا سکتی ہوں؟ (کہ اگر کوئی عذر شرعی لاحق ہوا تو احرام کھول دوں گی) آپ نے فرمایا: "ہاں، تو انہوں نے پوچھا: میں کیسے کہوں؟ آپ نے فرمایا: «لبيك اللهم لبيك لبيك محلي من الأرض حيث تحبسني» "حاضر ہوں اے اللہ حاضر ہوں حاضر ہوں، میرے احرام کھولنے کی جگہ وہ ہے جہاں تو مجھے روک دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، اسماء بنت ابی بکر اور عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اسی پر بعض اہل علم کا عمل ہے، وہ حج میں شرط لگا لینے کو درست سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط کر لی پھر اسے کوئی مرض یا عذر لاحق ہوا تو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ حلال ہو جائے اور اپنے احرام سے نکل آئے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- بعض اہل علم حج میں شرط لگانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر اس نے شرط لگا بھی لی تو اسے احرام سے نکلنے کا حق نہیں، یہ لوگ اسے اس شخص کی طرح سمجھتے ہیں جس نے شرط نہیں لگائی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۲۲ (۱۷۷۶) ، سنن النسائی/الحج ۶۰ (۲۷۶۷) ، سنن الدارمی/المناسک ۱۵ (۱۸۵۲) ، (تحفة الأشراف : ۶۲۳۲) (صحیح) و أخرجہ: سنن النسائی/الحج ۵۹ (۲۷۶۶) ، و۶۰ (۲۷۶۸) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۲۴ (۲۹۳۸) ، مسند احمد (۱/۳۵۳۷) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : یہ لوگ ضباعہ بنت زبیر کی روایت کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ ضباعہ ہی کے ساتھ خاص تھا ، ایک تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ «محلي حيث حبسني» " میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو مجھے روک دے " کا معنی «محلي حيث حبسني الموت» " میرے احرام کھولنے کی جگہ وہی ہے جہاں تو نے مجھے موت دے دی " ہے کیونکہ مر جانے سے احرام خود بخود ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ دونوں تاویلیں باطل ہیں ، ایک قول یہ ہے کہ شرط خاص عمرہ سے تحلل کے ساتھ ہے حج کے تحلل سے نہیں ، لیکن ضباعہ کا واقعہ اس قول کو باطل کر دیتا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنِي مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ كَانَ يُنْكِرُ الِاشْتِرَاطَ فِي الْحَجِّ، وَيَقُولُ: " أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ وہ حج میں شرط لگانے سے انکار کرتے تھے اور کہتے تھے: کیا تمہارے لیے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ کافی نہیں ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المحصر ۲ (۱۸۱۰) ، سنن النسائی/الحج ۶۱ (۲۷۷۰) (تحفة الأشراف : ۶۹۳۷) ، مسند احمد (۲/۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : دراصل ابن عمر رضی الله عنہما نے یہ بات ابن عباس رضی الله عنہما کی تردید میں کہی تھی جو شرط لگانے کا فتوی دیتے تھے ، ان کو ضباعہ رضی الله عنہا والی حدیث نہیں پہنچی تھی ورنہ ایسی بات نہ کہتے ، اور آپ کا اشارہ صلح حدیبیہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عمرہ سے روک دیئے جانے کی طرف تھا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: ذَكَرْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ صَفِيَّةَ بِنْتَ حُيَيٍّ حَاضَتْ فِي أَيَّامِ مِنًى، فَقَالَ: " أَحَابِسَتُنَا هِيَ ؟ " قَالُوا: إِنَّهَا قَدْ أَفَاضَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَا إِذًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْمَرْأَةَ إِذَا طَافَتْ طَوَافَ الزِّيَارَةِ ثُمَّ حَاضَتْ فَإِنَّهَا تَنْفِرُ وَلَيْسَ عَلَيْهَا شَيْءٌ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ صفیہ بنت حیی منیٰ کے دنوں میں حائضہ ہو گئی ہیں، آپ نے پوچھا:"کیا وہ ہمیں (مکے سے روانہ ہونے سے) روک دے گی؟" لوگوں نے عرض کیا: وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تب تو کوئی حرج نہیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ عورت جب طواف زیارت کر چکی ہو اور پھر اسے حیض آ جائے تو وہ روانہ ہو سکتی ہے، طواف وداع چھوڑ دینے سے اس پر کوئی چیز لازم نہیں ہو گی۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۶۷ (۱۲۱۱/۳۸۳) (تحفة الأشراف : ۱۷۵۱۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحیض ۲۷ (۳۲۸) ، والحج ۱۲۹ (۱۷۳۳) ، و۱۴۵ (۱۷۵۷) ، و۱۵ (۱۷۷۱) ، صحیح مسلم/الحج (المصدر المذکور رقم: ۳۸۲) ، سنن ابی داود/ الحج ۸۵ (۲۰۰۳) ، سنن النسائی/الحیض ۲۳ (۳۹۱) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۳ (۳۰۷۲) ، موطا امام مالک/الحج ۷۵ (۲۶۶) ، مسند احمد (۶/۳۸، ۳۹، ۸۲، ۹۹، ۱۲۲، ۱۶۴، ۱۷۵، ۱۹۳، ۲۰۲، ۲۰۷، ۲۱۳، ۲۲۴، ۲۳۱، ۲۵۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۷۳ (۱۹۵۸) من غیر ہذا الطریق۔
حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " مَنْ حَجَّ الْبَيْتَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ إِلَّا الْحُيَّضَ، وَرَخَّصَ لَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جس نے بیت اللہ کا حج کیا، اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف (وداع) ہونا چاہیئے حائضہ عورتوں کے سوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رخصت دی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبری) (تحفة الأشراف : ۸۰۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ، عَنْ جَابِرٍ وَهُوَ: ابْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ: " حِضْتُ فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا إِلَّا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: الْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ الْحَائِضَ تَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا مَا خَلَا الطَّوَافَ بِالْبَيْتِ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَائِشَةَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ أَيْضًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرنے کا حکم دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس طریق کے علاوہ سے بھی عائشہ سے مروی ہے۔ ۲- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ حائضہ خانہ کعبہ کے طواف کے علاوہ سبھی مناسک ادا کرے گی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۰۱۳) (صحیح) (سند میں جابر جعفی سخت ضعیف ہیں، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الحیض ۷ (۳۰۵) ، والحج ۳۳ (۱۵۰۶) ، و۸۱ (۱۶۵۰) ، والعمرة ۹ (۱۷۸۸) ، والأضاحي ۳ (۵۵۴۸) ، و۱۰ (۵۵۵۹) ، صحیح مسلم/الحج ۱۷ (۱۲۱۱) ، سنن ابی داود/ المناسک ۲۳ (۱۷۸۲) ، سنن النسائی/الطہارة ۱۸۳ (۲۹۱) ، والحیض ۱ (۳۴۹) ، والجہاد ۵ (۲۷۴۲) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۳۶ (۲۹۶۳) ، سنن الدارمی/المناسک ۶۲ (۱۹۴۵) من غیر ہذا الطریق وبسیاق آخر۔
وضاحت: ۱؎ : بخاری و مسلم کی روایت میں ہے «أهلي بالحج واصنعي ما يصنع الحاج غير أن لا تطوفي بالبيت» یعنی حج کا تلبیہ پکارو اور وہ سارے کام کرو جو حاجی کرتا ہے سوائے خانہ کعبہ کے طواف کے۔
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ شُجَاعٍ الْجَزَرِيُّ، عَنْ خُصَيْفٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، وَمُجَاهِدٍ، وَعَطَاءٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، رَفَعَ الْحَدِيثَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ النُّفَسَاءَ وَالْحَائِضَ تَغْتَسِلُ وَتُحْرِمُ وَتَقْضِي الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا غَيْرَ أَنْ لَا تَطُوفَ بِالْبَيْتِ حَتَّى تَطْهُرَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے کہ "نفاس اور حیض والی عورتیں غسل کریں گی، تلبیہ پکاریں گی اور تمام مناسک حج ادا کریں گی البتہ وہ خانہ کعبہ کا طواف نہیں کریں گی جب تک کہ پاک نہ ہو جائیں"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ المناسک ۱۰ (۱۷۴۴) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۹۳ و۶۰۹۷ و۶۳۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْبَيْلَمَانِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ حَجَّ هَذَا الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلْيَكُنْ آخِرُ عَهْدِهِ بِالْبَيْتِ ". فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: خَرَرْتَ مِنْ يَدَيْكَ، سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ تُخْبِرْنَا بِهِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسٍ حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَهَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أرْطَاةَ مِثْلَ هَذَا وَقَدْ خُولِفَ الْحَجَّاجُ فِي بَعْضِ هَذَا الْإِسْنَادِ.
حارث بن عبداللہ بن اوس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے اس گھر (بیت اللہ) کا حج یا عمرہ کیا تو چاہیئے کہ اس کا آخری کام بیت اللہ کا طواف ہو۔ تو ان سے عمر رضی الله عنہ نے کہا: تم اپنے ہاتھوں کے بل زمین پر گرو یعنی ہلاک ہو، تم نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی اور ہمیں نہیں بتائی" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- حارث بن عبداللہ بن اوس رضی الله عنہ کی حدیث غریب ہے، اسی طرح دوسرے اور لوگوں نے بھی حجاج بن ارطاۃ سے اسی کے مثل روایت کی ہے۔ اور اس سند کے بعض حصہ کے سلسلہ میں حجاج سے اختلاف کیا گیا ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف، (تحفة الأشراف : ۳۲۷۸) وانظر مسند احمد (۳/۴۱۶-۴۱۷) (منکر) (اس لفظ سے منکر ہے، لیکن اس کا معنی دوسرے طرق سے صحیح ہے، اور ’’ أواعتمر ‘‘ کا لفظ ثابت نہیں ہے، سند میں ’’ عبدالرحمن بن بیلمانی ضعیف ہیں، اور حجاج بن ارطاة مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)
وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طواف وداع واجب ہے یہی اکثر علماء کا قول ہے ، وہ اس کے ترک سے دم کو لازم قرار دیتے ہیں ، امام مالک ، داود اور ابن المنذر کہتے ہیں کہ یہ سنت ہے اور اس کے ترک سے کوئی چیز لازم نہیں آتی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَنَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ، قَالُوا: الْقَارِنُ يَطُوفُ طَوَافًا وَاحِدًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ: يَطُوفُ طَوَافَيْنِ وَيَسْعَى سَعْيَيْنِ، وَهُوَ قَوْلُ: الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
جابر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کو ملا کر ایک ساتھ کیا اور ان کے لیے ایک ہی طواف کیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی روایت ہے، ۳- صحابہ کرام رضی الله عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ حج قران کرنے والا ایک ہی طواف کرے گا۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے، ۴-اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ وہ دو طواف اور دو سعی کرے گا۔ یہی ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۲۶۷۷) (صحیح) (سند میں حجاج بن ارطاة اور ابوالزبیر دونوں مدلس راوی ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے جمہور نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ قارن کے لیے ایک ہی طواف کافی ہے۔ اور اس سے مراد «طواف بین الصفا والمروۃ» یعنی سعی ہے نہ کہ خانہ کعبہ کا طواف ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرہ میں بھی خانہ کعبہ کا طواف کیا ، اور یوم النحر کو طواف افاضہ بھی کیا ، البتہ طواف افاضہ میں صفا و مروہ کی سعی نہیں کی (دیکھئیے صحیح مسلم کتاب الحج باب رقم : ۱۹)۔
حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ أَسْلَمَ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحْرَمَ بِالْحَجِّ وَالْعُمْرَةِ أَجْزَأَهُ طَوَافٌ وَاحِدٌ وَسَعْيٌ وَاحِدٌ عَنْهُمَا حَتَّى يَحِلَّ مِنْهُمَا جَمِيعًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، تَفَرَّدَ بِهِ: الدَّرَاوَرْدِيُّ عَلَى ذَلِكَ اللَّفْظِ، وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَهُوَ أَصَحُّ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا اس کے لیے ایک طواف اور ایک سعی کافی ہے یہاں تک کہ وہ ان دونوں کا احرام کھول دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اسے ان الفاظ کے ساتھ روایت کرنے میں عبدالعزیز دراوردی منفرد ہیں، اسے دوسرے کئی اور لوگوں نے بھی عبیداللہ بن عمر (العمری) سے روایت کیا ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۳۹ (۲۹۷۵) ، (تحفة الأشراف : ۸۰۲۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حُمَيْدٍ، سَمِعَ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَضْرَمِيِّ يَعْنِي مَرْفُوعًا، قَالَ: " يَمْكُثُ الْمُهَاجِرُ بَعْدَ قَضَاءِ نُسُكِهِ بِمَكَّةَ ثَلَاثًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مَرْفُوعًا.
علاء بن حضرمی رضی الله عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مہاجر اپنے حج کے مناسک ادا کرنے کے بعد مکے میں تین دن ٹھہر سکتا ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اس سند سے اور طرح سے بھی یہ حدیث مرفوعاً روایت کی گئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/مناقب الأنصار ۴۷ (۳۹۳۳) ، صحیح مسلم/الحج ۸۱ (۱۳۵۲) ، سنن ابی داود/ المناسک ۹۲ (۲۰۲۲) ، سنن النسائی/تقصیر الصلاة ۴ (۱۴۵۵) ، سنن ابن ماجہ/الإقامة ۷۶ (۱۰۷۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۰۰۸) ، مسند احمد (۵/۵۲) ، سنن الدارمی/الصلاة ۱۸۰ (۱۲۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : پہلے منیٰ سے لوٹنے کے بعد مہاجرین کی مکہ میں اقامت جائز نہیں تھی ، بعد میں اسے جائز کر دیا گیا اور تین دن کی تحدید کر دی گئی ، اس سے زیادہ کی اقامت اس کے لیے جائز نہیں کیونکہ اس نے اس شہر کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ دیا ہے لہٰذا اس سے زیادہ وہ وہاں قیام نہ کرے ، ورنہ یہ اس کے واپس آ جانے کے مشابہ ہو گا (یہ مدینے کے مہاجرین مکہ کے لیے خاص تھا)۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوَةً أَوْ حَجٍّ أَوْ عُمْرَةٍ فَعَلَا، فَدْفَدًا مِنَ الْأَرْضِ، أَوْ شَرَفًا كَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ سَائِحُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ، صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ". وَفِي الْبَاب: عَنْ الْبَرَاءِ، وَأَنَسٍ، وجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوے، حج یا عمرے سے لوٹتے اور کسی بلند مقام پر چڑھتے تو تین بار اللہ اکبر کہتے، پھر کہتے: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير آيبون تائبون عابدون سائحون لربنا حامدون صدق الله وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب» "اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں۔ سلطنت اسی کی ہے اور تمام تعریفیں بھی اسی کے لیے ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ ہم لوٹنے والے ہیں، رجوع کرنے والے ہیں، عبادت کرنے والے ہیں، سیر و سیاحت کرنے والے ہیں، اپنے رب کی تعریف کرنے والے ہیں۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا ہی ساری فوجوں کو شکست دے دی"،
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں براء، انس اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۷۶ (۱۳۴۴) ، (تحفة الأشراف : ۷۵۳۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/العمرة ۱۲ (۱۷۹۷) ، والجہاد ۱۳۳ (۲۹۹۵) ، والمغازي ۲۹ (۴۱۱۶) ، والدعوات ۵۲ (۶۳۸۵) ، صحیح مسلم/الحج ۷۶ (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ الجہاد ۱۷۰ (۲۷۷۰) ، مسند احمد (۲/۵، ۱۵، ۲۱، ۳۸، ۶۳، ۱۰۵) من غیر ہذا الوجہ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَرَأَى رَجُلًا قَدْ سَقَطَ مِنْ بَعِيرِهِ فَوُقِصَ فَمَاتَ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلُوهُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَكَفِّنُوهُ فِي ثَوْبَيْهِ، وَلَا تُخَمِّرُوا رَأْسَهُ، فَإِنَّهُ يُبْعَثُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يُهِلُّ أَوْ يُلَبِّي ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا مَاتَ الْمُحْرِمُ انْقَطَعَ إِحْرَامُهُ وَيُصْنَعُ بِهِ كَمَا يُصْنَعُ بِغَيْرِ الْمُحْرِمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، آپ نے دیکھا کہ ایک شخص اپنے اونٹ سے گر پڑا، اس کی گردن ٹوٹ گئی اور وہ مر گیا وہ محرم تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دو اور اسے اس کے انہی (احرام کے) دونوں کپڑوں میں کفناؤ اور اس کا سر نہ چھپاؤ، اس لیے کہ وہ قیامت کے دن تلبیہ پکارتا ہوا اٹھایا جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہی سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب محرم مر جاتا ہے تو اس کا احرام ختم ہو جاتا ہے، اور اس کے ساتھ بھی وہی سب کچھ کیا جائے گا جو غیر محرم کے ساتھ کیا جاتا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۲۱ (۱۲۶۸) ، وجزاء الصید ۲۰ (۱۸۴۹) ، صحیح مسلم/الحج ۱۴ (۱۲۰۶) ، سنن ابی داود/ الجنائز ۸۴ (۳۲۲۸) ، سنن النسائی/الجنائز (۱۹۰۵) ، والحج ۴۷ (۲۷۱۵) ، و۱۰۱ (۱۸۶۱) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۹ (۳۰۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۵۵۸۲) ، مسند احمد (۱/۳۴۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز ۱۹ (۱۲۶۵) ، و۲۰ (۱۲۶۶) ، و۲۱ (۱۲۶۷) ، وجزاء الصید ۱۳ (۱۸۳۹) ، و۲۱ (۱۸۵۱) ، صحیح مسلم/الحج (المصدرالمذکور) ، سنن النسائی/الحج ۴۷ (۲۷۱۴) ، و۹۷ (۲۸۵۶) ، و۹۸ (۲۸۵۷) ، و۹۹ (۲۸۵۸، ۲۸۵۹) ، و۱۰۰ (۲۸۶۰) ، مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۶۶، ۲۸۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۳۵ (۱۸۹۴) من غیر ہذا الطریق۔
وضاحت: ۱؎ : یہ قول حنفیہ اور مالکیہ کا ہے ، ان کی دلیل ابوہریرہ کی حدیث «إذا مات ابن آدم انقطع عمله» ہے اور باب کی حدیث کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ممکن ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ یہ بتا دیا گیا ہو کہ یہ شخص مرنے کے بعد اپنے احرام ہی کی حالت میں باقی رہے گا ، یہ خاص ہے اسی آدمی کے ساتھ ، لیکن کیا اس خصوصیت کی کوئی دلیل ہے ؟ ، ایسی فقہ کا کیا فائدہ جو قرآن وسنت کی نصوص کے ہی خلاف ہو۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى، عَنْ نُبَيْهِ بْنِ وَهْبٍ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْمَرٍ اشْتَكَى عَيْنَيْهُ وَهُوَ مُحْرِمٌ، فَسَأَلَ أَبَانَ بْنَ عُثْمَانَ، فَقَالَ: اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ فَإِنِّي سَمِعْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَيَذْكُرُهَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اضْمِدْهُمَا بِالصَّبِرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بَأْسًا أَنْ يَتَدَاوَى الْمُحْرِمُ بِدَوَاءٍ مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ طِيبٌ.
نبیہ بن وہب کہتے ہیں کہ عمر بن عبیداللہ بن معمر کی آنکھیں دکھنے لگیں، وہ احرام سے تھے، انہوں نے ابان بن عثمان سے مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا: ان میں ایلوے کا لیپ کر لو، کیونکہ میں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کو اس کا ذکر کرتے سنا ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کر رہے تھے آپ نے فرمایا: "ان پر ایلوے کا لیپ کر لو" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ محرم کے ایسی دوا سے علاج کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جس میں خوشبو نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحج ۱۲ (۱۲۰۴) ، سنن ابی داود/ المناسک ۳۷ (۱۸۳۸) ، سنن النسائی/المناسک ۴۵ (۲۷۱۲) ، (تحفة الأشراف : ۹۷۷۷) ، مسند احمد (۱/۶۰، ۶۵، ۶۸، ۶۹) ، سنن الدارمی/المناسک ۸۳ (۱۹۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایلوے ، یا اس جیسی چیز جس میں خوشبو نہ ہو سے آنکھوں میں لیپ لگانا جائز ہے ، اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں ہو گا ، رہیں ایسی چیزیں جن میں خوشبو ہو تو بوقت ضرورت و حاجت ان سے بھی لیپ کرنا درست ہو گا ، لیکن اس پر فدیہ دینا ہو گا ، علماء کا اس پر بھی اتفاق ہے کہ بوقت ضرورت محرم کے لیے آنکھ میں سرمہ لگانا جس میں خوشبو نہ ہو جائز ہے ، اس سے اس پر کوئی فدیہ لازم نہیں آئے گا ، البتہ زینت کے لیے سرمہ لگانے کو امام شافعی وغیرہ نے مکروہ کہا ہے ، اور ایک جماعت نے اس سے منع کیا ہے ، امام احمد اور اسحاق کی بھی یہی رائے ہے کہ زینت کے لیے سرمہ لگانا درست نہیں۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، وَابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، وحميد الأعرج، وعبد الكريم، عَنْمُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ كَعْبِ بْنِ عُجْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ بِهِ وَهُوَ بِالْحُدَيْبِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ مَكَّةَ، وَهُوَ مُحْرِمٌ، وَهُوَ يُوقِدُ تَحْتَ قِدْرٍ، وَالْقَمْلُ يَتَهَافَتُ عَلَى وَجْهِهِ، فَقَالَ: " أَتُؤْذِيكَ هَوَامُّكَ هَذِهِ "، فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَ: " احْلِقْ وَأَطْعِمْ فَرَقًا بَيْنَ سِتَّةِ مَسَاكِينَ، وَالْفَرَقُ ثَلَاثَةُ آصُعٍ أَوْ صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ أَوِ انْسُكْ نَسِيكَةً ". قَالَ ابْنُ أَبِي نَجِيحٍ: " أَوِ اذْبَحْ شَاةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ الْمُحْرِمَ إِذَا حَلَقَ رَأْسَهُ أَوْ لَبِسَ مِنَ الثِّيَابِ مَا، لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَلْبَسَ فِي إِحْرَامِهِ أَوْ تَطَيَّبَ، فَعَلَيْهِ الْكَفَّارَةُ، بِمِثْلِ مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
کعب بن عجرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہونے سے پہلے ان کے پاس سے گزرے، وہ حدیبیہ میں تھے، احرام باندھے ہوئے تھے۔ اور ایک ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہے تھے۔ جوئیں ان کے منہ پر گر رہی تھیں تو آپ نے پوچھا: کیا یہ جوئیں تمہیں تکلیف پہنچا رہی ہیں؟ کہا: ہاں، آپ نے فرمایا:"سر منڈوا لو اور چھ مسکینوں کو ایک فرق کھانا کھلا دو، (فرق تین صاع کا ہوتا ہے) یا تین دن کے روزے رکھ لو۔ یا ایک جانور قربان کر دو۔ ابن ابی نجیح کی روایت میں ہے "یا ایک بکری ذبح کر دو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام رضی الله عنہم وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ محرم جب اپنا سر مونڈا لے، یا ایسے کپڑے پہن لے جن کا پہننا احرام میں درست نہیں یا خوشبو لگا لے۔ تو اس پر اسی کے مثل کفارہ ہو گا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المحصر (۱۸۱۴) ، و۶ (۱۸۱۵) ، و۷ (۱۸۱۶) ، و۸ (۱۸۱۷) ، والمغازي ۳۵ (۴۱۵۹، ۴۱۹۰) ، وتفسیر البقرة ۳۲ (۴۵۱۷) ، والمرضی ۱۶ (۵۶۶۵) ، والطب ۱۶ (۵۷۰۳) ، والکفارات ۱ (۶۸۰۸) ، صحیح مسلم/الحج ۱۰ (۱۲۰۱) ، سنن ابی داود/ المناسک ۴۳ (۱۸۵۶) ، سنن النسائی/المناسک ۹۶ (۲۸۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۱۴) ، موطا امام مالک/الحج ۷۸ (۲۳۸) ، مسند احمد (۴/۲۴۲، ۲۴۳) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الحج ۱۰ (المصدر المذکور) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۶ (۳۰۷۹) ، مسند احمد (۴/۲۴۲، ۲۴۳) من غیر ہذا الوجہ۔
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَرْخَصَ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، وَرِوَايَةُ مَالِكٍ أَصَحُّ، وَقَدْ رَخَّصَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ لِلرِّعَاءِ أَنْ يَرْمُوا يَوْمًا وَيَدَعُوا يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ.
عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چرواہوں کو رخصت دی کہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن چھوڑ دیں ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح ابن عیینہ نے بھی روایت کی ہے، اور مالک بن انس نے بسند «عبد الله بن أبي بكر بن محمد ابن عمرو بن حزم عن أبيه عن أبي البداح بن عدي عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، اور مالک کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کی ایک جماعت نے چرواہوں کو رخصت دی ہے کہ وہ ایک دن رمی کریں اور ایک دن ترک کر دیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحج ۷۸ (۱۹۷۵) ، سنن النسائی/الحج ۲۲۵ (۳۰۷۱) ، سنن ابن ماجہ/المناسک ۶۷ (۳۰۳۶) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۳۰) ، مسند احمد (۵/۴۵۰) ، سنن الدارمی/المناسک ۵۸ (۱۹۳۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی چرواہوں کے لیے جائز ہے کہ وہ ایام تشریق کے پہلے دن گیارہویں کی رمی کریں پھر وہ اپنے اونٹوں کو چرانے چلے جائیں پھر تیسرے دن یعنی تیرہویں کو دوسرے اور تیسرے یعنی بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی کریں ، اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ یوم النحر کو جمرہ عقبہ کی رمی کریں پھر اس کے بعد والے دن گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی کریں اور پھر روانگی کے دن تیرہویں کی رمی کریں۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْأَبِيهِ، عَنْ أَبِي الْبَدَّاحِ بْنِ عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَخَّصَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِرِعَاءِ الْإِبِلِ فِي الْبَيْتُوتَةِ، أَنْ يَرْمُوا يَوْمَ النَّحْرِ، ثُمَّ يَجْمَعُوا رَمْيَ يَوْمَيْنِ بَعْدَ يَوْمِ النَّحْرِ، فَيَرْمُونَهُ فِي أَحَدِهِمَا ". قَالَ مَالِكٌ: ظَنَنْتُ أَنَّهُ قَالَ: " فِي الْأَوَّلِ مِنْهُمَا، ثُمَّ يَرْمُونَ يَوْمَ النَّفْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ.
عاصم بن عدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ کے چرواہوں کو (منی میں) رات گزارنے کے سلسلہ میں رخصت دی کہ وہ دسویں ذی الحجہ کو (جمرہ عقبہ کی) رمی کر لیں۔ پھر دسویں ذی الحجہ کے بعد کے دو دنوں کی رمی جمع کر کے ایک دن میں اکٹھی کر لیں ۱؎ (مالک کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ راوی نے کہا) "پہلے دن رمی کر لے پھر کوچ کے دن رمی کرے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اور یہ ابن عیینہ کی عبداللہ بن ابی بکر سے روایت والی حدیث سے زیادہ صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس جمع کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ تیرہویں کو بارہویں اور تیرہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں ، دوسری صورت یہ ہے کہ گیارہویں کو گیارہویں اور بارہویں دونوں دنوں کی رمی ایک ساتھ کریں پھر تیرہویں کو آ کر رمی کریں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ حَيَّانَ، قَال: سَمِعْتُ مَرْوَانَ الْأَصْفَرَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنّ " عَلِيًّا قَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ الْيَمَنِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ ؟ " قَالَ: أَهْلَلْتُ بِمَا أَهَلَّ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلَا أَنَّ مَعِي هَدْيًا لَأَحْلَلْتُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے آئے تو آپ نے پوچھا: "تم نے کیا تلبیہ پکارا، اور کون سا احرام باندھا ہے؟" انہوں نے عرض کیا: میں نے وہی تلبیہ پکارا، اور اسی کا احرام باندھا ہے جس کا تلبیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکارا، اور جو احرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے ۱؎ آپ نے فرمایا: "اگر میرے ساتھ ہدی کے جانور نہ ہوتے تو میں احرام کھول دیتا" ۲؎،
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۳۲ (۱۵۵۸) ، صحیح مسلم/الحج ۳۴ (۱۲۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۸۵) ، مسند احمد (۳/۱۸۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے احرام کو دوسرے کے احرام پر معلق کرنا جائز ہے۔ ۲؎ : یعنی : عمرہ کے بعد احرام کھول دیتا ، پھر ۸ ذی الحجہ کو حج کے لیے دوبارہ احرام باندھنا ، جیسا کہ حج تمتع میں کیا جاتا ہے ، مذکورہ مجبوری کی وجہ سے آپ نے قران ہی کیا ، ورنہ تمتع کرتے ، اس لیے تمتع افضل ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ يَوْمِ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ، فَقَالَ: " يَوْمُ النَّحْرِ ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: حج اکبر (بڑے حج) کا دن کون سا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: «یوم النحر» "قربانی کا دن"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأخرجہ في تفسیر التوبة أیضا (۳۰۸۸) (تحفة الأشراف : ۱۰۰۴۹) (صحیح) (سند میں حارث اعور سخت ضعیف راوی ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ: " يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ يَوْمُ النَّحْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَرِوَايَةُ ابْنِ عُيَيْنَةَ مَوْقُوفًا، أَصَحُّ مِنْ رِوَايَةِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق مَرْفُوعًا، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ مِنَ الْحُفَّاظِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا، وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، قَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ مَوْقُوفًا.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ حج اکبر (بڑے حج) کا دن دسویں ذی الحجہ کا دن ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابن ابی عمر نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے اور یہ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے اور ابن عیینہ کی موقوف روایت محمد بن اسحاق کی مرفوع روایت سے زیادہ صحیح ہے۔ اسی طرح بہت سے حفاظ حدیث نے اسے بسند «أبي إسحق عن الحارث عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، شعبہ نے بھی ابواسحاق سبیعی سے روایت کی ہے انہوں نے یوں کہا ہے «عن عبد الله بن مرة عن الحارث عن علي موقوفا» ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : دسویں تاریخ کو حج اکبر (بڑا حج) اس لیے کہا جاتا ہے کہ اسی دن حج کے اکثر افعال انجام دیئے جاتے ہیں ، مثلاً جمرہ عقبہ کی رمی (کنکری مارنا) ، حلق (سر منڈوانا) ، ذبح ، طواف زیارت وغیرہ اعمال حج ، اور عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ حج اکبر اس حج کو کہتے ہیں جس میں دسویں تاریخ جمعہ کو آ پڑی ہو ، تو اس کی کوئی اصل نہیں ، رہی طلحہ بن عبیداللہ بن کرز کی روایت «أفضل الأيام يوم عرفه وإذا وافق يوم جمعة فهو أفضل من سبعين حجة في غير يوم جمعة» تو یہ مرسل ہے ، اور اس کی سند بھی معلوم نہیں ، اور حج اصغر سے جمہور عمرہ مراد لیتے ہیں اور ایک قول یہ بھی ہے کہ حج اصغر یوم عرفہ ہے اور حج اکبر یوم النحر۔ ۲؎ : یعنی شعبہ والی روایت میں ابواسحاق سبیعی اور حارث کے درمیان عبداللہ بن مرہ کے واسطے کا اضافہ ہے جب کہ دیگر حفاظ کی روایت میں ایسا نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ كَانَ يُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُهُ. فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّكَ تُزَاحِمُ عَلَى الرُّكْنَيْنِ زِحَامًا مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُزَاحِمُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: إِنْ أَفْعَلْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مَسْحَهُمَا كَفَّارَةٌ لِلْخَطَايَا "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " مَنْ طَافَ بِهَذَا الْبَيْتِ أُسْبُوعًا فَأَحْصَاهُ، كَانَ كَعِتْقِ رَقَبَةٍ "، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَا يَضَعُ قَدَمًا وَلَا يَرْفَعُ أُخْرَى إِلَّا حَطَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطِيئَةً، وَكَتَبَ لَهُ بِهَا حَسَنَةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ ابْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ نَحْوَهُ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ أَبِيهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبید بن عمیر کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی الله عنہما حجر اسود اور رکن یمانی پر ایسی بھیڑ لگاتے تھے جو میں نے صحابہ میں سے کسی کو کرتے نہیں دیکھا۔ تو میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! آپ دونوں رکن پر ایسی بھیڑ لگاتے ہیں کہ میں نے صحابہ میں سے کسی کو ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ تو انہوں نے کہا: اگر میں ایسا کرتا ہوں تو اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "ان پر ہاتھ پھیرنا گناہوں کا کفارہ ہے"۔ اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: "جس نے اس گھر کا طواف سات مرتبہ (سات چکر) کیا اور اسے گنا، تو یہ ایسے ہی ہے گویا اس نے ایک غلام آزاد کیا۔" اور میں نے آپ کو فرماتے سنا ہے: "وہ جتنے بھی قدم رکھے اور اٹھائے گا اللہ ہر ایک کے بدلے اس کی ایک غلطی معاف کرے گا اور ایک نیکی لکھے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- حماد بن زید نے بطریق: «عطا بن السائب، عن ابن عبید بن عمير، عن ابن عمر» روایت کی ہے اور اس میں انہوں نے ابن عبید کے باپ کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۷۳۱۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الطَّوَافُ حَوْلَ الْبَيْتِ مِثْلُ الصَّلَاةِ إِلَّا أَنَّكُمْ تَتَكَلَّمُونَ فِيهِ، فَمَنْ تَكَلَّمَ فِيهِ، فَلَا يَتَكَلَّمَنَّ إِلَّا بِخَيْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا، وَلَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ، أَنْ لَا يَتَكَلَّمَ الرَّجُلُ فِي الطَّوَافِ إِلَّا لِحَاجَةٍ، أَوْ يَذْكُرُ اللَّهَ تَعَالَى، أَوْ مِنَ الْعِلْمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیت اللہ کے گرد طواف نماز کے مثل ہے۔ البتہ اس میں تم بول سکتے ہو (جب کہ نماز میں تم بول نہیں سکتے) تو جو اس میں بولے وہ زبان سے بھلی بات ہی نکالے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ابن طاؤس وغیرہ نے ابن عباس سے موقوفاً روایت کی ہے۔ ہم اسے صرف عطاء بن سائب کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، ۲-اسی پر اکثر اہل علم کا عمل ہے، یہ لوگ اس بات کو مستحب قرار دیتے ہیں کہ آدمی طواف میں بلا ضرورت نہ بولے (اور اگر بولے) تو اللہ کا ذکر کرے یا پھر علم کی کوئی بات کہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۵۷۳۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ جَرِيرٍ، عَنْ ابْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْحَجَرِ: " وَاللَّهِ لَيَبْعَثَنَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَهُ عَيْنَانِ يُبْصِرُ بِهِمَا، وَلِسَانٌ يَنْطِقُ بِهِ يَشْهَدُ عَلَى مَنِ اسْتَلَمَهُ بِحَقٍّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: "اللہ کی قسم! اللہ اسے قیامت کے دن اس حال میں اٹھائے گا کہ اس کی دو آنکھیں ہوں گی، جس سے یہ دیکھے گا، ایک زبان ہو گی جس سے یہ بولے گا۔ اور یہ اس شخص کے ایمان کی گواہی دے گا جس نے حق کے ساتھ(یعنی ایمان اور اجر کی نیت سے) اس کا استلام کیا ہو گا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۲۷ (۲۷۳۵) ، (تحفة الأشراف : ۵۵۳۶) ، سنن الدارمی/المناسک ۲۶ (۱۸۸۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کو چوما یا چھوا ہو گا یہ حدیث اپنے ظاہر ہی پر محمول ہو گی اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے کہ وہ حجر اسود کو آنکھیں اور زبان دیدے اور دیکھنے اور بولنے کی طاقت بخش دے بعض لوگوں نے اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ یہ کنایہ ہے حجر اسود کا استلام کرنے والے کو ثواب دینے اور اور اس کی کوشش کو ضائع نہ کرنے سے لیکن یہ محض فلسفیانہ موشگافی ہے ، صحیح یہی ہے کہ حدیث کو ظاہر ہی پر محمول کیا جائے۔ اور ایسا ہونے پر ایمان لایا جائے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَدَّهِنُ بِالزَّيْتِ وَهُوَ مُحْرِمٌ غَيْرِ الْمُقَتَّتِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: الْمُقَتَّتُ الْمُطَيَّبُ، . قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَقَدْ تَكَلَّمَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، فِي فَرْقَدٍ السَّبَخِيِّ، وَرَوَى عَنْهُ النَّاسُ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حالت احرام میں زیتون کا تیل لگاتے تھے اور یہ (تیل) بغیر خوشبو کے ہوتا تھا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اسے ہم صرف فرقد سبخی کی روایت سے جانتے ہیں، اور فرقد نے سعید بن جبیر سے روایت کی ہے۔ یحییٰ بن سعید نے فرقد سبخی کے سلسلے میں کلام کیا ہے، اور فرقد سے لوگوں نے روایت کی ہے، ۲- مقتت کے معنی خوشبودار کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/المناسک ۸۸ (۳۰۸۳) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۶۰) (ضعیف الإسناد) (سند میں فرقد سبخی لین الحدیث اور کثیر الخطاء راوی ہںذ) (وأخرجہ صحیح البخاری/الحج۱۸ (۱۵۳۷) موقوفا علی ابن عمر وہو أصح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم کے لیے زیتون کا تیل جس میں خوشبو کی ملاوٹ نہ ہو لگانا جائز ہے ، لیکن حدیث ضعیف ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَزِيدَ الْجُعْفِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، " أَنَّهَا كَانَتْ تَحْمِلُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ، وَتُخْبِرُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَحْمِلُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ زمزم کا پانی ساتھ مدینہ لے جاتی تھیں، اور بیان کرتی تھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی زمزم ساتھ لے جاتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۹۰۵) (صحیح) (سند میں خلاد بن یزید جعفی کے حفظ میں کچھ کلام ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎ : اس میں اس بات کی دلیل ہے کہ حاجیوں کے لیے زمزم کا پانی مکہ سے اپنے وطن لے جانا مستحب ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَزِيرِ الْوَاسِطِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْسُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ، قَالَ: قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ عَقَلْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ صَلَّى الظُّهْرَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ ؟ قَالَ: " بِمِنًى ". قَالَ: قُلْتُ: فَأَيْنَ صَلَّى الْعَصْرَ يَوْمَ النَّفْرِ ؟ قَالَ: " بِالْأَبْطَحِ "، ثُمَّ قَالَ: " افْعَلْ كَمَا يَفْعَلُ أُمَرَاؤُكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، يُسْتَغْرَبُ مِنْ حَدِيثِ إِسْحَاق بْنِ يُوسُفَ الْأَزْرَقِ، عَنْ الثَّوْرِيِّ.
عبدالعزیز بن رفیع کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی الله عنہ سے کہا: مجھ سے آپ کوئی ایسی بات بیان کیجئیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کر رکھی ہو۔ بتائیے آپ نے آٹھویں ذی الحجہ کو ظہر کہاں پڑھی؟ انہوں نے کہا: منیٰ میں، (پھر) میں نے پوچھا: اور کوچ کے دن عصر کہاں پڑھی؟ کہا: ابطح میں لیکن تم ویسے ہی کرو جیسے تمہارے امراء و حکام کرتے ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور اسحاق بن یوسف الازرق کی روایت سے غریب جانی جاتی ہے جسے انہوں نے ثوری سے روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحج ۸۳ (۱۶۵۳) ، و۱۴۶ (۱۷۸۳) ، صحیح مسلم/الحج ۵۸ (۱۳۰۹) ، سنن ابی داود/ المناسک ۵۹ (۱۹۱۲) ، سنن النسائی/الحج ۱۹۰ (۳۰۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۹۸۸) ، سنن الدارمی/المناسک ۴۶ (۱۹۱۴) (صحیح)