مشکوٰة شر یف

حج کے کچھ مسائل اور ادائیگی حج کا طریقہ

حج کے کچھ مسائل اور ادائیگی حج کا طریقہ

اگرچہ احادیث کی تشریح  میں حج کے اکثر مسائل بیان کئے جا چکے ہیں مگر اب  کتاب الحج  کے اختتام پر مناسب ہے کہ کچھ اور مسائل یکجا طور پر ذکر کر دئیے جائیں اور حج کی ادائیگی کا طریقہ بھی بیان کر دیا جائے۔

 حج میں چار چیزیں فرض ہیں۔ (١) احرام۔ (٢) عرفہ کے دن وقوف عرفات (٣) طواف الزیارت (٤) ان فرائض میں ترتیب کا لحاظ یعنی احرام کو وقوف عرفات پر وقوف عرفات کو طواف الزیارت پر مقدم کرنا۔

 واجبات حج یہ ہیں، وقوف مزدلفہ، صفا و مروہ کے درمیاں سعی، رمی جمار، آفاقی کے لئے طواف قدوم، حلق یا تقصیر ، احرام میقات سے باندھنا، غروب آفتاب تک وقوف عرفات، طواف حجر اسود سے شروع کرنا (بعض علماء نے اسے سنت کہا ہے) طواف کی ابتداء دائیں طرف سے کرنا، طواف پیادہ پا کرنا بشرطیکہ کوئی عذر لاحق نہ ہو، طواف با طہارت کرنا، طواف میں ستر ڈھانکنا، سعی کی ابتداء صفا سے کرنا، سعی پا پیادہ کرنا بشرطیکہ کوئی عذر نہ ہو، قارن اور متمتع کو بکری یا اس کی مانند جانور ذبح کرنا، ہر سات شوط یعنی ایک طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا، رمی حلق اور قربانی میں ترتیب کا لحاظ رکھنا بایں طور کہ پہلے رمی کی جائے پھر قربانی پھر حلق اور پھر طواف زیارت کی جائے ، طواف الزیارۃ ایام نحر میں کرنا، طواف اس طرح کرنا کہ حطیم طواف کے اندر آ جائے ، سعی طواف کے بعد کرنا، حلق حرم اور ایام نحر میں کرنا، وقوف عرفہ کے بعد ممنوعات احرام مثلاً جماع وغیرہ سے اجتناب ، نیز وہ چیزیں بھی واجبات حج میں شامل ہیں، جن کو ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے ، ان چیزوں کے علاوہ اور سب حج کے مستحبات اور آداب میں سے ہیں۔

 غنی کا حج فقیر کے حج سے افضل ہے ، والدین کی فرمانبرداری سے حج فرض تو اولیٰ ہے لیکن حج نفل اولیٰ نہیں ہے۔ بلکہ والدین کی فرمانبرداری ہی حج نفل سے افضل ہے۔ سرائے بنانا حج نفل سے افضل ہے۔ البتہ صدقہ کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ بعض تو صدقہ کو افضل کہتے ہیں۔ اور بعض نے حج نفل کو افضل کہا ہے ، تاہم بزازیہ میں ہے کہ حج نفل کی فضیلت ہی کو ترجیح دی گئی ہے ، کیونکہ حج میں مال بھی خرچ ہوتا ہے اور جسمانی مشقت بھی ہوتی ہے جب کہ صدقہ میں صرف مال خرچ ہوتا ہے جس حج میں وقوف عرفات جمعہ کے دن ہو وہ حج ستر حجوں پر فضیلت رکھتا ہے اور اس حج میں ہر شخص کی بلاواسطہ مغفرت ہوتی ہے ، اس بارہ میں اختلافی اقوال ہیں کہ آیا حج کی وجہ سے کبیرہ گناہ ساقط ہو جاتے ہیں یا نہین؟ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ ساقط ہو جاتے ہیں جس طرح کہ جب کوئی حربی کافر اسلام قبول کرتا ہے تو اس کے سب گناہ ساقط ہو جاتے ہیں لیکن بعض حضرات کا یہ قول ہے کہ حج کی وجہ سے حقوق اللہ تو معاف ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد معاف نہیں ہوتے جس طرح کہ جب کوئی ذمی کافر، اسلام قبول کر لیتا ہے تو اس کے ذمہ سے حقوق اللہ تو ساقط ہو جاتے ہیں لیکن حقوق العباد ساقط نہیں ہوتے۔

 قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ تمام علماء اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ کبیرہ گناہ صرف توبہ ہی سے ساقط ہوتے ہیں، محض حج کی وجہ سے بھی ساقط نہیں ہوتے ، نیز کوئی بھی عالم حج کی وجہ سے دین(قرض) کے ساقط ہونے کا بھی قائل نہیں ہے۔ خواہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ ہی سے ہو جیسے نماز و زکوۃ، ہاں ادائیگی قرض یا ادائیگی نماز وغیرہ میں تاخیر کا گناہ ضرور ساقط ہو جاتا ہے لہٰذا جو علماء کبیرہ گناہ کے ساقط ہو جانے کے قائل ہیں ان کی مراد بھی یہی ہے۔

 خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونا مستحب ہے بشرطیکہ خود اس کو یا کسی اور کو اس سے تکلیف نہ پہنچے ، خانہ کعبہ کا غلاف اور پردہ بنی شیبہ سے خریدنا جائز نہیں ہے ہاں امام سے یا اس کے نائب سے لینا جائز ہے ، خانہ کعبہ کے غلاف و پردہ کو لباس میں استعمال کرنا جائز ہے اگرچہ جنبی (ناپاک) یا حائضہ ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی شخص کسی کو قتل کر کے حرم میں پناہ لے لے تو اس کو بطور قصاص قتل کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک کہ وہ حرم میں رہے ، ہاں اگر قاتل نے حرم ہی میں قتل کا ارتکاب کیا ہو تو اس کو بھی حرم میں مار ڈالنا جائز ہے لیکن خانہ کعبہ کے اندر قاتل کو اس صورت میں بھی قتل کرنا جائز نہیں ہے جب کہ اس نے خانہ کعبہ کے اندر ہی قتل کا ارتکاب کیا ہو۔

 آب زمزم سے استنجا کرنا تو مکروہ ہے لیکن نہانا مکروہ نہیں ہے۔ مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ سے افضل ہے لیکن مدینہ منورہ کی زمین کا وہ قطعہ پاک جس پر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آرام فرما ہیں مطلقاً افضل ہے حتیٰ کہ کعبہ اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ اطہر کی زیارت کرنا مستحب ہے بلکہ بعض علماء تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لئے واجب ہے جسے فراغت میسر ہو! حج فرض کی ادائیگی کی صورت میں حج روضہ اطہر کی زیارت سے پہلے کرنا چاہئے ہاں نفل کی صورت میں اختیار ہے کہ چا ہے تو پہلے کیا جائے چا ہے پہلے زیارت کی جائے بشرطیکہ مدینہ راستہ میں نہ پڑتا ہو۔ اگر مکہ کا راستہ مدینہ سے ہو کر گزرتا ہو تو پھر پہلے روضہ اطہر کی زیارت کرنا ضروری ہے ، روضہ اطہر کی زیارت کے ساتھ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کی نیت بھی کرنی چاہئے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ مسجد نبوی میں ادا کی جانے والی ایک نماز مسجد حرام کے علاوہ دوسری مساجد میں ادا کی جانے والی ہزار نمازوں سے بہتر ہے (مسجد حرام کا استثناء اس لئے ہے کہ اس میں ادا کی جانے والی ایک نماز کا ثواب دس لاکھ نمازوں کے ثواب کے برابر ہوتا ہے)

 حج کی ادائیگی کا طریقہ یہ ہے کہ جس خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے حج کی سعادت عظمی کی توفیق بخشے اور وہ حج کا ارادہ کرے تو اسے چاہئے کہ پہلے وہ اپنی نیت کو درست کرے کہ اس کے پیش نظر محض اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور ادائیگی فرض ہو، کوئی دنیاوی غرض یا نام و نمود کا کوئی ہلکا سا تصور بھی نہ ہو ورنہ سب محنت اکارت جائے گی، پھر اپنے ماں باپ سے اجازت لے کر، اعزہ و احباب سے رخصت ہو کر ، سب سے معافی تلافی کر کے اپنے وطن سے کم از کم ایسے وقت روانہ ہو کہ مکہ مکرمہ میں ساتویں ذی الحجہ سے پہلے پہنچ جائے اور ساتویں تاریخ کا خطبہ سن سکے ، جب میقات پر پہنچے (ہندوستانیوں کی میقات یلملم ہے) تو احرام باندھے ، اگر مفرد ہو تو صرف حج، کا قارن ہو تو حج و عمرہ دونوں کا اور متمتع وہ تو صرف عمرہ کا احرام باندھے ، مستحب یہ ہے کہ احرام باندھنے سے پہلے ہاتھ پاؤں کے ناخن کٹوائے ، زیر ناف اور بغل کے بال صاف کرے ، حجامت بنوائے ، اگر سر منڈانے کی عادت ہو تو سر منڈائے ورنہ بال درست کرائے اور ان میں کنگھی کرے ، اگر بیوی ہمراہ ہو تو صحبت کرے ، پھر وضو کرے یا نہائے لیکن نہانا افضل ہے اس کے بعد احرام کا لباس پہنے یعنی ایک لنگی باندھے اور ایک چادر اس طرح اوڑھے کہ سر کھلا رہے ، یہ دونوں کپڑے نئے ہوں تو افضل ہے ورنہ صاف دھلے ہوئے ہونے چاہئیں، اگر کسی کے پاس دو کپڑے میسر نہ ہوں تو ایک ایسا کپڑا لپیٹ لینا بھی جائز ہے جس سے ستر پوشی ہو جائے پھر خوشبو لگائے ، اس کے بعد نیت کرے ، اگر قران کا ارادہ ہو تو اس طرح کہے۔ دعا (اللہم انی ارید الحج والعمرۃ فیسرہمالی وتقبلہما منی)۔ اگر تمتع کا ارادہ ہو تو یوں کہے۔ دعا (اللہم انی ارید العمرۃ فیسرہا لی وتقبلہا منی)۔ اور اگر افراد کا ارادہ رکھتا ہو تو اس طرح کہے دعا (اللہم انی ارید الحج فیسرہ لی وتقبلہ منی۔) اگر نیت کے مذکورہ بالا الفاظ زبان سے ادا نہ کئے جائیں بلکہ دل ہی میں نیت کر لی جائے تو بھی جائز ہے ، نیت کے بعد لبیک کہے حج یا عمرہ کی نیت کے ساتھ لبیک کہتے ہی محرم ہو جائے گا، لبیک کے الفاظ یہ ہیں۔ لبیک اللہم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد والنعمۃ لک والملک لا شریک لک۔ ان الفاظ میں کمی نہ کی جائے ہاں زیادتی جائز ہے چنانچہ یہ الفاظ بھی منقول ہیں جن کے اضافہ میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لبیک و سعدیک والخیر بیدیک لبیک والرغباء الیک والعمل لبیک لبیک الہ الخلق لبیک۔ بعد ازاں اکثر اوقات آواز بلند لبیک کہتا رہے خصوصاً نماز کے بعد خواہ فرض ہو خواہ نفل نماز ، صبح کے وقت ، باہم ملاقات کے ، بلندی پر چڑھتے یا نشیب میں اترتے وقت، غرضیکہ یہ سفر حج چونکہ نماز کے حکم میں ہے کہ جس طرح نماز میں ہر حالت کی تبدیلی پر تکبیر کہی جاتی ہے اس طرح اس سفر میں ہر حالت کی تبدیلی کے وقت لبیک کہنی چاہئے ! احرام باندھ لینے کے بعد ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے جو حالت احرام میں ممنوع ہیں مثلاً سلے ہوئے کپڑے جیسے کرتہ، انگرکھا، پاجامہ، فرغل ، جبہ، قبا، بارانی موزہ، دستانہ اور ٹوپی وغیرہ نہ پہنے جائیں ، جو کپڑے رنگ دار خوشبو جیسے زعفران وغیرہ میں رنگے ہوئے ہوں وہ بھی استعمال نہ کئے جائیں ہاں دھلنے کے بعد کہ جس سے خوشبو نہ آتی ہو استعمال کرنا جائز ہے ، سر اور منہ کسی چیز سے نہ ڈھانکا جائے ، جوئیں نہ ماری جائیں ، بیوی سے نہ تو صحبت کی جائے اور نہ ان چیزوں کا ارتکاب کیا جائے جو جماع کا باعث بنتی ہیں مثلاً بوسہ لینا، شہوت کے ساتھ عورت کو ہاتھ لگانا یا اس کے سامنے فحش باتیں یا جماع کا ذکر کرنا وغیرہ وغیرہ۔ فسق و فجور سے پرہیز کیا جائے کسی کے ساتھ جنگ و جدل سے گریز کیا جائے ، صحرائی وحشی جانوروں کا شکار نہ کیا جائے حتی ٰ کہ کوئی محرم نہ تو شکار کی طرف اشارہ کرے اور نہ شکار میں کسی کی اعانت کرے ، ہاں دریائی جانوروں مثلاً مچھلی کا شکار درست ہے۔ خوشبو کا استعمال نہ کیا جائے ، ناخن نہ کٹوائے جائیں، سر داڑھی بلکہ تمام بدن کے بال نہ کتروائے جائیں نہ منڈوائے جائیں اور نہ اکھاڑے جائیں، سر و داڑھی کے بالوں کو خطمی سے نہ دھویا جائے البتہ محرم نہا سکتا ہے ، حمام میں داخل ہو سکتا ہے ، گھر اور کجاوہ کے سایہ میں بیٹھ سکتا ہے ، ہمیانی (یعنی روپیہ رکھنے والی تھیلی) کمر میں باندھ سکتا ہے اور اپنے دشمن سے دفاعی لڑائی لڑ سکتا ہے۔ احرام کی حالت میں جن جانوروں کو مارنا جائز ہے اور جن کے مارنے کی وجہ سے بطور جزاء نہ دم لازم ہوتا ہے نہ صدقہ وہ یہ ہیں۔ کوا، چیل، سانپ ، بچھو، چوہا، چیچڑی، کچھوا ، بھیڑیا، گیدڑ، پتنگا، مکھی ، چیونٹی، گرگٹ ، بھڑ، مچھر، حملہ آور درندہ اور موذی جانور۔

 جب مکہ مکرمہ کے قریب آ جائے تو غسل کرے کہ یہ مستحب ہے پھر دن میں کسی وقت باب المعلیٰ سے مکہ میں داخل ہو، اور اپنی قیام گاہ پر سامان وغیرہ رکھ کر سب سے پہلے مسجد حرام کی زیارت کرے ، مستحب یہ ہے کہ مسجد حرام میں لبیک کہتا ہوا اور باب السلام سے داخل ہو اور اس وقت نہایت خشوع و خضوع کی حالت اپنے اوپر طاری کرے اور اس مقدس مقام کی عظمت و جلالت کا تصور دل میں رکھے اور کعبہ کے جمال دلربا پر نظر پڑتے ہی جو کچھ دل چا ہے اپنے پروردگار سے طلب کرے پھر تکبیر و تہلیل کرتا ہوا حمد و صلوٰۃ پڑھتا ہوا حجر اسود کے سامنے آئے اور اس کو بوسہ دے اور بوسہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کو اس طرح اٹھائے جس طرح تکبیر تحریمہ کے وقت اٹھاتے ہیں، اگر اژدہام کی وجہ سے بوسہ نہ دے سکے تو حجر اسود کو ہاتھ لگا کر ہاتھ کو چوم لے اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی لکڑی سے حجر اسود کو چھو کر چومے اور اگر یہ بھی نہ کر سکے تو پھر دونوں ہتھیلیوں سے حجر اسود کی طرف اشارہ کر کے ہتھیلیوں کو چوم لے ، حجر اسود کے استلام کے بعد حجر اسود کے پاس ہی سے اپنی داہنی جانب سے طواف قدوم شروع کرے ، طواف میں سات شوط (چکر) کرے ، اور ہر شوط کو حجر اسود ہی پر ختم کرتے اور ہر شوط ختم کرنے کے بعد مذکورہ بالا طریقے سے حجر اسود کا استلام اور تکبیر و تہلیل کرے طواف میں حطیم کو بھی شامل کرے ، طواف میں اضطباع کرے اور پہلے تین شوطوں میں رمل کرے نیز ہر شوط میں رکن یمانی کا ابھی استلام کرے مگر اس کے استلام میں اس کو چومنا نہیں چاہئے طواف ختم کرنے کے بعد دو رکعت نماز طواف مقام ابراہیم کے قریب پڑھے ، یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے ، اگر اژدحام وغیرہ کی وجہ سے اس نماز کو مقام ابراہیم کے قریب پڑھنا ممکن نہ ہو تو پھر مسجد حرام میں جہاں بھی چا ہے پڑھ لے ، اس نماز کی پہلی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورہ قل یا ایہا الکافرون اور دوسری رکعت میں قل ھو اللہ کی قرأت کرے ، اور دعا میں جو چا ہے اللہ سے مانگے ، اس کے بعد چاہ زمزم پر آئے اور زمزم کا پانی پیٹ بھر کر پئے پھر مقام ملتزم میں آئے اور ہاتھ اٹھا کر اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے پھر صفا سے مروہ کی طرف اپنی چال کے ساتھ چلے مگر جب وادی بطن پہنچے ، تو میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے اور پھر جب مروہ پر چڑھے تو وہی کچھ یعنی تکبیر و تہلیل وغیرہ کرے جو صفا پر کیا جاتا ہے۔ اسی طرح صفا و مروہ کے درمیان سات شوط کرے ، ہر شوط کی ابتداء صفا سے ہو اور انتہا مروہ پر اور ہر شوط میں میلین اخضرین کے درمیان تیز تیز چلے ، یہ بات ذہن میں رہے کہ سعی سے پہلے طواف کرنا ضروری ہے اگر کسی نے طواف سے پہلے سعی کر لی تو اس کے لئے ضروری ہو گا کہ وہ طواف کے بعد پھر دوبارہ سعی کرے۔ یہ بھی معلوم رہنا چاہئے کہ اس سعی ، وقوف عرفات، وقوف مزدلفہ اور رمی جمار کے لئے طہارت (پاکی) شرط نہیں ہے لیکن اولیٰ ضرور ہے جب کہ طواف کے لئے طہارت شرط ہے۔ نیز طواف و سعی کے وقت ٹھہرا رہے اور اس کے دوران نفل طواف جس قدر ہو سکے کرتا رہے ، مگر نفل طواف کے درمیان رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے ، پھر ساتویں ذی الحجہ کو مسجد حرام میں خطبہ سنے ، اس خطبہ میں جو ظہر کی نماز کے بعد ہوتا ہے امام حج کے احکام و مسائل بیان کرتا ہے ، پھر اگر احرام کھول چکا ہو تو آٹھ ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھ کر طلوع آفتاب کے بعد منیٰ روانہ ہو جائے ، اگر ظہر کی نماز پڑھ کر منیٰ میں پہنچے تو بھی کوئی مضائقہ نہیں، رات منیٰ میں گزارے اور عرفہ کے روز یعنی نویں تاریخ کو فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھ کر طلوع آفتاب کے بعد عرفات جائے اگر کوئی آٹھویں تاریخ کو منیٰ میں نہ جائے بلکہ نویں کو عرفات میں پہنچ جائے تو بھی جائز ہے مگر یہ خلاف سنت ہے۔ عرفات میں بطن عرنہ کے علاوہ جس جگہ چا ہے اترے لیکن جبل عرفات کے نزدیک اترنا افضل ہے پھر اسی دن زوال آفتاب کے بعد غسل کرے (جو سنت ہے) اور عرفات میں وقوف کرے (جو فرض ہے اور جس کے بغیر حج ہوتا ہی نہیں) امام جو خطبہ دے اسے سنے اور امام کے ساتھ بشرط احرام ظہر و عصر کی نماز ایک وقت میں پڑھے اور جبل رحمت کے پاس کھڑا ہو کر نہایت خشوع و خضوع اور تذلل و اخلاص کے ساتھ تکبیر و تہلیل کرے ، تسبیح پڑھے ، اللہ کی ثنا کرے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجے اور اپنے تمام اعزہ و احباب کے لئے استغفار کرے اور تمام مقاصد دینی و دنیوی کے لئے دعا مانگے ، پھر غروب آفتاب کے بعد امام کے ہمراہ مزدلفہ کی طرف روانہ ہو جائے اور راستہ میں استغفار، لبیک ، حمد و صلوۃ اور اذکار میں مشغول رہے مزدلفہ پہنچ کر امام کے ہمراہ مغرب و عشاء کی نماز ایک ساتھ پڑھے اور رات میں وہیں رہے کیونکہ رات میں وہاں رہنا واجب ہے ، نیز اس پوری رات میں نماز، تلاوت قرآن اور ذکر و دعا میں مشغول رہنا مستحب ہے ، جب صبح ہو جائے تو (یعنی دسویں ذی الحجہ کو) فجر کی نماز اول وقت اندھیرے میں پڑھے اور وہاں وقوف کرے ، مزدلفہ میں سوائے بطن محسر کے جہاں چا ہے وقوف کر سکتا ہے ، اس وقوف کی حالت میں نہایت الحاح و زاری کے ساتھ اپنے دینی و دنیاوی مقصد کے لئے خداوند عالم سے دعا مانگے ، آفتاب نکلنے سے کچھ پہلے وقوف ختم کر لیا جائے ، پھر جب روشنی خوب پھیل جائے تو آفتاب سے پہلے منیٰ واپس پہنچ کر جمرۃ العقبہ پر سات کنکریاں مارے اور پہلی کنکری مارتے ہی تلبیہ موقوف کر دے ، اس کے بعد قربانی کرے پھر سر منڈوائے یا بال کتروائے ، اس کے بعد وہ تمام چیزیں جو حالت احرام میں ممنوع تھیں، سوائے رفث کے ، جائز ہو جائیں گی، پھر عید کی نماز منیٰ ہی میں پڑھ کر اسی دن مکہ آ جائے اور طواف زیارت کرے ، اس طواف کے بعد سعی نہ کرے ہاں اگر پہلے سعی نہ کر چکا ہو تو وہ پھر اس طواف کے بعد سعی کرے ، اس کے بعد رفث بھی جائز ہو جائے گا طواف زیارت سے فارغ ہو کر پھر منیٰ واپس آ جائے اور رات میں وہاں قیام کرے۔گیارہویں تاریخ کو تینوں جمرات کی رمی کرے بایں طور کہ پہلے تو اس جمرہ پر سات کنکریاں مارے جو مسجد خیف کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ اولیٰ کہتے ہیں اس کے بعد اس جمرہ پر جو اس کے قریب ہے اور جس کو جمرۃ وسطیٰ کہتے ہیں سات کنکریاں مارے اور پھر سوار ہو کر پا پیادہ ہی جمرہ عقبہ پر سات کنکریاں مارے اور ہر کنکری مارتے وقت تکبری کہتا رہے ، اسی طرح بارہویں تاریخ ہی کو منیٰ سے رخصت ہو گیا تو پھر اس پر تیرہویں تاریخ کو واجب نہیں ہو گی۔ گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخوں میں رمی کا وقت زوال آفتاب کے بعد ہے لیکن تیرہویں تاریخ کو اگر طلوع فجر کے بعد اور زوال آفتاب سے پہلے بھی رمی کرے تو جائز ہے مگر مسنون زوال آفتاب کے بعد ہی ہے جب کہ گیارہویں اور بارہویں تاریخوں میں زوال آفتاب سے پہلے رمی جائز نہیں ہے۔ آخری دن رمی سے فارغ ہو کر مکہ روانہ ہو جائے اور راستہ میں تھوڑی دیر کے لئے محصب میں اترے ، پھر جب مکہ مکرمہ سے وطن کے لئے روانہ ہونے لگے طواف وداع کرے اس طواف میں بھی رمل اور اس کے بعد سعی نہ کرے طواف کے بعد دو رکعت پڑھ کر زمزم کا مبارک پانی گھونٹ گھونٹ کر کے پیے اور ہر مرتبہ کعبہ مکرمہ کی طرف دیکھ کر حسرت سے آہ سرد بھرے نیز اس مبارک پانی کو منہ، سر اور بدن پر ملے پھر خانہ کعبہ کی طرف آئے اگر ممکن ہو بیت اللہ کے اندر داخل ہو اگر اندر نہ جا سکے تو اس کی مقدس چوکھٹ کو بوسہ دے اور اپنا سینہ اور منہ ملتزم پر رکھ دے اور کعبہ مکرمہ کے پردوں کر پکڑ پکڑ کر دعا کرے اور روئے اور اس وقت بھی تکبیر و تہلیل ، حمد و ثنا اور دعاء استغفار میں مشغول رہے اور اللہ تعالیٰ سے اپنے مقاصد کی تکمیل طلب کرے۔ اس کے بعد پچھلے پیروں یعنی کعبہ مکرمہ کی طرف پشت نہ کر کے مسجد حرام سے باہر نکل آئے حج تمام افعال ختم ہو گئے۔

عمرہ کے احکام

عمرہ واجب نہیں ہے بلکہ عمر بھر میں ایک مرتبہ سنت مؤکدہ ہے عمرہ کے لئے کسی خاص زمانہ کی شرط نہیں ہے ، جیسا کہ حج کے لئے ہے بلکہ جس وقت چا ہے کر سکتا ہے اسی طرح ایک سال میں کئی مرتبہ بھی عمرہ کیا جا سکتا ہے ، البتہ غیر قارن کو ایام حج میں عمرہ کرنا مکروہ ہے ایام حج کا اطلاق یوم عرفہ یوم نحر اور ایام تشریق پر ہوتا ہے۔ عمرہ کا رکن طواف ہے اور اس میں دو چیزیں واجب ہیں ایک تو صفا و مروہ کے درمیان سعی اور دوسرے سر منڈوانے یا بال کتروانا۔ جو شرائط اور سنن و آداب حج کے ہیں وہی عمرہ کے بھی ہیں۔

جنایات کے احکام

حج کے بیان میں  جنایت اس حرام فعل کو کہتے ہیں جس کی حرمت احرام یا حرم کے سبب سے ہو اور جس کے مرتکب پر کوئی چیز مثلاً قربانی یا صدقہ بطور جزاء یعنی بطور کفارہ واجب ہوتی ہو ، چنانچہ اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ اگر محرم اپنے کسی ایک پورے عضو پر خوشبو لگائے یا کوئی خوشبودار چیز کھا کر منہ کو خوشبو دار کرے بشرطیکہ وہ خوشبو خالص ہو اور اس میں کسی دوسری چیز کی آمیزش نہ ہو یا رقیق مہندی کا استعمال کرے خواہ سر میں لگائے یا داڑھی یا ہاتھ پر وغیرہ میں یا زیتون لگائے یا پورے ایک دن سلے ہوئے کپڑے رواج و عادت کے موافق استعمال کرے یا پورا دن اپنا سر ڈھانکے رکھے یا سر، داڑھی چوتھائی یا اس سے زیادہ منڈوائے یا پوری ایک بغل کے بال یا زیر ناف بال یا گردن کے بالوں کو دور کرے یا دونوں ہاتھوں یا دونوں پیروں یا ایک ہاتھ اور ایک پیر کے ناخن ترشوائے یا طواف قدوم یا طواف صدر حلالت جناب میں کرے یا طواف زیارت (یعنی طواف فرض) بے وضو کرے یا عرفات سے امام سے پہلے واپس آ جائے یا سعی چھوڑے یا وقوف مزدلفہ چھوڑ دے یا تمام دنوں کی رمی یا ایک دن کی یا پہلے دن کی رمی نہ کرے ، یا حلق و تقصیر حرم سے باہر کرائے یا احرام کی حالت میں بیوی کا بوسہ لے لے یا اس کو شہوت کے ساتھ چومے یا حلق و تقصری یا طواف زیارت ایام نحر گزر جانے کے بعد کرے ، یا افعال حج کی واجب ترتیب کو بدل دے مثلاً قربانی سے پہلے سر منڈوا لے تو ان تمام صورتوں میں اس پر بطور جزاء ایک قربانی واجب ہو گی۔ اور اگر محرم تلبید کرے یعنی اپنے سر کے بال گوند وغیرہ لگا کر جما لے یا قارن ہونے کی صورت میں قربانی سے پہلے حلق یا تقصیر کرائے تو اس پر دو قربانی واجب ہوں گی۔ اور اگر محرم ایک عضو سے کم میں خوشبو استعمال کرے یا ایک دن سے کم اپنا سر ڈھانکے یا سلا ہوا کپڑا پہنے یا سر داڑھی چوتھائی حصہ سے کم منڈوائے یا پانچ ناخن سے کم ترشوائے یا پانچ ناخن مختلف مجلسوں میں ترشوائے یا طواف صدر یا طواف قدوم بے وضو کرے یا یوم نحر کے بعد تینوں جمرات میں سے کسی ایک جمرہ کی رمی ترک کر دے تو ان سب صورتوں میں اس پر صدقہ واجب ہو گا جس کی مقدار نصف صاع گیہوں ہے۔ اگر محرم کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے خوشبو استعمال کرے یا سر منڈوائے یا سلا ہوا کپڑا پہنے تو ان صورتوں میں اسے اختیار ہو گا کہ چا ہے تو ایک بکری ذبح کرے چا ہے چھ مسکینوں ایک ایک مقدار صدقہ فطر دے دے اور چا ہے تین روزے مسلسل یا غیر مسلسل رکھ لے۔ خوشبو یا خوشبودار پھول یا خوشبو دار میوہ سونگھنے سے محرم پر کچھ واجب نہیں ہوتا تاہم یہ مکروہ ہے۔ اگر کوئی محرم جوں مارے تو بطور صدقہ تھوڑی سی کھانے کی چیز مثلاً ایک مٹھی آٹا دے دے بشرطیکہ اس نے وہ جوں اپنے بدن سے یا سر سے یا کپڑے سے نکال کر ماری ہو، اور اگر زمین سے پکڑ کر مارے تو کچھ بھی واجب نہیں ہوتا اور اگر اس نے اپنے کپڑے دھوپ میں اس نیت سے ڈال دیئے کہ اس میں موجود جوئیں مر جائیں اور پھر بہت ساری جوئیں مر جائیں تو اس پر نصف صاع گیہوں کا صدقہ واجب ہو گا۔ ہاں اگر کپڑے کو خشک کرنے کی نیت سے دھوپ میں ڈالے اور جوئیں مارنا اس کا مقصد نہ ہو اور پھر اس صورت میں جوئیں مر جائیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہو گا۔ اگر محرم شکار مارے یا کسی کو شکار کی راہ بتائے یا شکار کی طرف کسی کو متوجہ کرے تو اس پر بطور جزاء اس شکار کی وہ قیمت واجب ہو گی جو دو عادل شخص تجویز کریں اور وہ قیمت اس مقام کے اعتبار سے ہو جہاں شکار مارا گیا ہے ہو یا اس کے قریب تر مقام کے اعتبار سے ہو، اس بارہ میں محرم کو اختیار ہو گا کہ چا ہے تو وہ اس قیمت سے قربانی کا کوئی جانور خرید کر ذبح ہونے کے لئے حرم بھیج دے چا ہے اس قیمت سے گیہوں وغیرہ خرید کر ہر فقیر کو صدقہ فطر کی ایک مقدار تقسیم کر دے اور چا ہے ہر فقیر کی مقدار صدقہ کے عوض ایک ایک روزہ رکھ لے۔

 آخر میں یہ بات بھی بتا دینی ضروری ہے کہ ان تمام جنایات کے ارتکاب میں قصداً اور اضطرار علم اور لاعلمی، رغبت اور جبر سب برابر ہے یعنی محرم ممنوعات احرام میں سے جو بھی فعل کرے گا اس پر جزاء بہر صورت واجب ہو گی خواہ اس سے اس فعل کا ارتکاب قصداً ہوا ہو یا بلا قصد اس کے علم کے باوجود ہوا ہو یا اس کی لاعلمی کی وجہ سے اور اس نے وہ فعل اپنی رغبت سے کیا ہو یا کسی دوسرے کی زبردستی کی وجہ سے۔

روضۂ اطہر کی زیارت کے احکام و آداب

جو کوئی حج کرنے جائے اس کو چاہئے کہ اگر حج فرض ہو تو پہلے اپنے حج سے فارغ ہو جائے پھر روضہ اطہر کی زیارت کے لئے مدینہ جائے اور اگر حج نفل ہو تو اختیار ہے کہ چا ہے تو پہلے زیارت کرے اور اس کے بعد حج کرے چا ہے پہلے حج کر لے بعد میں زیارت کرے بشرطیکہ حج کے لئے مکہ جانے والا راستہ مدینہ کی طرف سے نہ ہو،۔ جب زیارت کے لئے چلے تو یہ نیت کرے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد انور کی زیارت کے لئے سفر کرتا ہوں۔ راستہ میں جتنی مسجدیں ملیں سب میں نماز پڑھے ، راستہ میں درود پڑھتا رہے ، جب مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو اس شہر مقدس کی عظمت کو دل میں جاگزیں کرے ، جب مدینہ منورہ بالکل سامنے آ جائے تو بہ خیال ادب اور بہ مقتضائے شوق اپنی سواری سے اتر پڑے اور اگر ممکن ہو تو وہاں سے مسجد شریف تک پاپیادہ جائے۔ حدود شہر میں داخل ہونے سے پہلے اگر ممکن ہو تو غسل کر لے ورنہ وضو کر کے عمدہ اور خاص طور پر سفید کپڑے پہن لے اور خوشبو لگائے ، شہر کے اندر پہنچ کر سب سے پہلے مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جائے ، مسجد نبوی میں داخلہ سے پہلے غسل کر لے تو بہتر ہے ورنہ وضو کرے اور خوشبو لگائے ، مسجد نبوی پہنچ کر تحیۃ المسجد اور نماز شکر پڑھے ، اس کے بعد اس تصور و یقین کے ساتھ بصد ادب و احترام قبر اقدس کی زیارت کی طرف متوجہ ہو کہ میں اس با عظمت درگاہ میں حاضر ہو رہا ہوں جس کے سامنے تمام دنیا کے پر جلال بادشاہوں کی بھی کوئی وقعت نہیں، پھر مرقد اطہر کے پاس آ کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز کی طرح داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر اس طرح کھڑا ہو کہ حضرت سید بشر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف منہ ہو اور قبلہ کی طرف پیٹھ اور اس بات کا یقین کرے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری حاضری سے واقف ہیں، میرے سلام کا جواب دیتے ہیں اور میری دعا پر آمین کہتے ہیں اور پھر انتہائی شوق و ذوق کے ساتھ معتدل آواز میں سلام و صلوٰۃ پیش کرے اور عرض و معروض کرے ، جب اپنی عرض و نیاز سے فارغ ہو جائے تو اپنے اعزاء و احباب میں سے جس نے عرض سلام کی درخواست کی ہو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس کی طرف سے اس طرح سلام عرض کر دے کہ یا رسول اللہ!(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) فلاں بن فلاں نے آپ کو سلام عرض کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے لئے پروردگار سے شفاعت کریں۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق اور پھر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے سر مبارک کے سامنے کھڑا ہو اور ان کی خدمت میں سلام عرض کرے ، اس کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک کے سامنے پہلے کی طرح دست بستہ کھڑا ہو اور بہت ذوق و شوق کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام عرض کرے اور جو جو خواہش رکھتا ہو، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل میں حق تعالیٰ سے مانگے ، وہاں سے ہٹ کر حضرت ابولبابہ رضی اللہ عنہ کے ستون کے پاس جس قدر ممکن ہو نوافل پڑھے اور توبہ و استغفار کرے اس کے بعد آثار نبویہ کی زیارت کرے جو معلمین بتا دیتے ہیں، اور جنت البقیع جائے وہاں صحابہ کرام اور اہل بیعت کے مزارات مقدسہ کی زیارت کرے پھر شہدائے احد خصوصاً سید الشہداء حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کی قبر کی زیارت کرے اور ان تمام مشاہد

و مزارات پر فاتحہ پڑھے اور شنبہ کے دن یا جس دن ممکن ہو مسجد قبا کی زیارت کرے اور دو رکعت نماز بہ نیت تحیۃ المسجد پڑھے۔

 مدینہ منورہ اور روضہ اطہر کی زیارت کے آداب یہ ہیں کہ جتنے دنوں مدینہ منورہ میں قیام ہو سکے اس کو غنیمت سمجھے حتی الامکان اپنا اکثر وقت مسجد شریف نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں صرف کرے وہاں اعتکاف کرے اور ہر قسم کی عبادت یعنی نماز، روزہ تلاوت، درود اور صدقہ و خیرات سے اپنے اوقات کو آباد رکھے ، جب تک مسجد میں رہے حجرہ شریف کی طرف نہایت شوق کی نگاہوں سے نظر کرتا رہے اور اگر مسجد سے باہر ہو تو بنظر احترام و تعظیم اور انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ قبہ شریف کو دیکھتا رہے کیونکہ روضہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر نظر ڈالنا استحباباً حکم نظر کرنے کعبہ شریف کا ہے نیز شہر سے باہر قبہ شریف پر نظر کرنے سے اہل شوق کو جو نورانیت اور سرور و ذوق حاصل ہوتا ہے اس کا ادراک اسی حالت پر موقوف ہے جس کو الفاظ کے ذریعہ ظاہر نہیں کیا جا سکتا۔ع ذوق ایں می نشناسی بخدا تانہ چشی۔

 مسجد نبوی میں جس قدر بھی شب بیداری کی سعادت حاصل ہو سکے خواہ ایک ہی شب کے لئے ہو اسے ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ شب قدر و منزلت کے اعتبار سے شب قدر سے کم نہیں ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے اس لئے اس ایک رات کو اپنی تمام عمر کا ماحصل اور خلاصہ سمجھ کر عبادت میں کاٹ دے بہتر یہی ہے کہ اس رات میں اور کوئی عبادت نہ کرے بلکہ صرف درود شریف پڑھتا رہے ، اور اگر نیند آنے لگے تو حبیب کبریا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضوری اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال باکمال کا سرور آمیز تصور کر کے نیند کو دفع کرے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جمال کمال کا تصور اس کے دل و دماغ کو کیف حضوری کا سرور بخشے گا تو کہاں نیند رہے گی اور کہاں غفلت قرار چیست صبوری کدام و خواب کجا۔ مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں جب تک رہے اپنے دل ، اپنی زبان اور تمام اعضاء کو برے کلمات و خیالات اور ہر خلاف اولیٰ فعل سے محفوظ رکھے اور محبوب دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حضوری کے تصور کے سوا اور کسی طرف متوجہ نہ ہو اگر کوئی اس کی مشغولیت میں مخل ہو تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرے ہاں کسی سے نہایت ضروری گفتگو کرنی ہو تو مختصر کلام کر کے اسی جناب مقدس صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف متوجہ ہو جائے ، مسجد شریف کے آداب کے بطور خاص خیال رکھے تھوک وغیرہ وہاں نہ گرنے پائے مسجد میں آنے سے قبل روضہ اطہر اور منبر کے درمیان اپنا مصلے پہلے سے نہ بچھوائے رکھے بلکہ اس اگر اس مقدس مقام پر ادائیگی نماز کی فضیلت کے حصول کا شوق ہو تو سب سے پہلے مسجد میں پہنچنے کی کوشش کرے اور وہاں بیٹھ جائے اس مقدس مسجد میں جو نزول قرآن و جبریل کی جگہ ہے قرآن پاک ختم کرنے میں کوتاہی نہ کرے کم از کم ایک قرآن مجید کا ختم اس مسجد پاک میں ضرور کرے اگر ممکن ہو تو ایسی کتابیں پڑھے یا سنے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک حالات و خصائل اور فضائل ہوں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملاقات اور عبادت کا شوق فزوں ہو۔ قبر شریف کے سامنے سے جتنی مرتبہ بھی گزرنا ہو وہاں تمام آداب زیارت کو ملحوظ رکھ کر کھڑا ہو جائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں سلام و  صلوٰۃ پیش کرے ، مدینہ منورہ اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رہنے والوں اور خدمت گاروں کی محبت و تعظیم کو ہمہ وقت ملحوظ رکھے چا ہے ان میں کوئی بات خلاف شریعت و سنت ہی کیوں نہ دیکھے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہمسائیگی کا شرف ہی ان کی سب سے بڑی فضیلت ہے جو کسی گناہ و بدعت کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا اور انہیں حسن خاتمہ و مغفرت کی سعادت سے محروم نہیں ہونے دیتا۔ 

دیار مقدس سے وطن کو واپسی

جب مدینہ منورہ میں قیام کی مدت ختم ہو جائے اور اس مقام مقدس سے جدا ہو کر وطن کو روانہ ہونے کا ارادہ ہو جائے تو مصلی نبوی یا اس کے قریب نماز پڑھ کر اور دعا مانگ کر مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے رخصت ہو بعد ازاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابوبکر و حضرت عمر رضی اللہ عنہما کی زیارت کرے اور اللہ تعالیٰ سے نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے اعزاء و احباب کے لئے کونین کی سعادتوں کے حصول کی دعا مانگے نیز دیار مقدس میں اپنی تمام عبادات کی قبولیت اور اپنے اہل و عیال کے پاس امن و سلامتی کے ساتھ پہنچنے کی درخواست کرے اور یہ دعا پڑھے (اللہم انا نسئلک فی سفرنا ہذا لبر والتقویٰ ومن العمل ما تحب وترضی اللہم لا تجعل ہذا آخر العہد بنبیک ومسجدہ وحرمہ ویسر لی العود الیہ والعکوف لدیہ وارزقنی العفو والعافیۃ فی الدنیا والآخرۃ ورددنا الی اھلنا سالمین غانمین آمنین۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ مقبولیت دعا اور حصول مقصد کی علامت یہ ہے کہ اس وقت بے اختیار آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں اور دل دیار محبوب کی جدائی کی حسرت و یاس سے معمور ہو بلکہ درحقیقت تمام اوقات دعا میں گریہ و زاری حصول رزق کا باعث اور امیدواری رحمت کی علامت ہے ایں دلم باغست وچشم ابروش ابر گرید باغ خندوشادوخوش!۔

 اس وقت اگر خدانخواستہ کسی شخص پر حالت گریہ و زاری طاری نہ ہو تو وہ بہ تکلف اپنے اوپر یہ حالت طاری کرے اور ان باتوں کا تصور کرے جو ذوق اور گریہ و رقت کی حالت پیدا کریں کیونکہ اس وقت حالت گریہ ہی بہر صورت قبولیت کی علامت ہے ، اور پھر وہاں کی جدائی سے بہ چشم نم اور بہ حسرت و یاس رخصت ہو اور رخصت ہوتے وقت پچھلے پیروں نہ لوٹے کیونکہ یہ صرف خانہ کعبہ کے ساتھ مخصوص ہے اور وقت وداع جس قدر ہو سکے صدقہ و خیرات کرے اور ان تمام آداب کو ملحوظ رکھے جو سفر سے واپسی کے وقت کے سلسلہ میں منقول ہیں اور پھر جب اپنے شہر کے قریب پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔ (اللہم انی اسئلک خیرہا وخیر اھلہا وخیر ما فیہا واعوذبک من شرہا وشر اھلہا وشر ما فیہا اللہم اجعل لنا بہا قرار اور زقا حسنا)۔ اور جب شہر میں پہنچ جائے تو یہ دعا پڑھے۔(لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وہو علی کل شیء قدیر اٰئبون تائبون عابدون ساجدون لربنا حامدون لاالہ الا اللہ وحدہ صدق وعدہ ونصر عبدہ وھزم الاحزاب وحدہ واعز جندہ فلا شیء بعدہ)۔ اور چاہئے کہ اپنے شہر و مکان تک پہنچنے سے پہلے اپنے اعزہ کو خبر کر دے کہ میں فلاں دن فلاں وقت پہنچ رہا ہوں بغیر اطلاع کے ایک دم نہ پہنچ جائے نیز اپنے شہر میں پہنچنے کا بہترین وقت چاشت ہے یا شام۔ رات کے وقت نہ پہنچے پھر جب اپنے مکان پہنچ جائے۔ تو مکان کے اندر جانے سے پہلے اگر وقت مکروہہ نہ ہو تو مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھے دعا مانگے اور بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ جانے پر باری تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور یہ کہے الحمد للہ الذی بنعمتہ وجلالہ تتم الصالحات۔