حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى الْقُطَعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ، عَنْعَلِيٍّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " رُفِعَ الْقَلَمُ عَنْ ثَلَاثَةٍ: عَنِ النَّائِمِ حَتَّى يَسْتَيْقِظَ، وَعَنِ الصَّبِيِّ حَتَّى يَشِبَّ، وَعَنِ الْمَعْتُوهِ حَتَّى يَعْقِلَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَائِشَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَلِيٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَكَرَ بَعْضُهُمْ: وَعَنِ الْغُلَامِ حَتَّى يَحْتَلِمَ، وَلَا نَعْرِفُ لِلْحَسَنِ سَمَاعًا مِنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْأَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا الْحَدِيثِ، وَرَوَاهُ الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عَلِيٍّ، مَوْقُوفًا وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: قَدْ كَانَ الْحَسَنُ فِي زَمَانِ عَلِيٍّ وَقَدْ أَدْرَكَهُ، وَلَكِنَّا لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْهُ، وَأَبُو ظَبْيَانَ اسْمُهُ: حُصَيْنُ بْنُ جُنْدَبٍ.
علی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین طرح کے لوگ مرفوع القلم ہیں (یعنی قابل مواخذہ نہیں ہیں) : سونے والا جب تک کہ نیند سے بیدار نہ ہو جائے، بچہ جب تک کہ بالغ نہ ہو جائے، اور دیوانہ جب تک کہ سمجھ بوجھ والا نہ ہو جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس سند سے علی رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- یہ حدیث کئی اور سندوں سے بھی علی رضی الله عنہ سے مروی ہے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، ۳- بعض راویوں نے «وعن الغلام حتى يحتلم» کہا ہے، یعنی بچہ جب تک بالغ نہ ہو جائے مرفوع القلم ہے، ۴ - علی رضی الله عنہ کے زمانے میں حسن بصری موجود تھے، حسن نے ان کا زمانہ پایا ہے، لیکن علی رضی الله عنہ سے ان کے سماع کا ہمیں علم نہیں ہے، ۵- یہ حدیث: عطاء بن سائب سے بھی مروی ہے انہوں نے یہ حدیث بطریق: «أبي ظبيان عن علي بن أبي طالب عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اعمش نے بطریق: «أبي ظبيان عن ابن عباس عن علي» موقوفاً روایت کیا ہے، انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا، ۶- اس باب میں عائشہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۷- اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفة الأشراف : ۱۰۰۹۷) ، وراجع: سنن ابی داود/ الحدود ۱۶ (۴۳۹۹- ۴۴۰۳) ، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۱۵ (۲۰۴۲) ، و مسند احمد (۱/۱۱۶، ۱۴۰، ۹۵۵، ۱۵۸) (صحیح) (شواہد ومتابعات کی بنا پر یہ صحیح ہے، ورنہ حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز ان کا سماع بھی علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے اور دیگر طرق بھی کلام سے خالی نہیں ہیں، دیکھئے: الإرواء رقم ۲۹۷)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ أَبُو عَمْرٍو الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَبِيعَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ، عَنْالزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادْرَءُوا الْحُدُودَ عَنِ الْمُسْلِمِينَ مَا اسْتَطَعْتُمْ، فَإِنْ كَانَ لَهُ مَخْرَجٌ فَخَلُّوا سَبِيلَهُ، فَإِنَّ الْإِمَامَ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعَفْوِ خَيْرٌ مِنْ أَنْ يُخْطِئَ فِي الْعُقُوبَةِ ". حَدَّثَنَاهَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ، نَحْوَ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زِيَادٍ، نَحْوَهُ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرِوَايَةُ وَكِيعٍ أَصَحُّ، وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمْ قَالُوا مِثْلَ ذَلِكَ، وَيَزِيدُ بْنُ زِيَادٍ الدِّمَشْقِيُّ ضَعِيفٌ فِي الْحَدِيثِ، وَيَزِيدُ بْنُ أَبِي زِيَادٍ الْكُوفِيُّ، أَثْبَتُ مِنْ هَذَا وَأَقْدَمُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جہاں تک تم سے ہو سکے مسلمانوں سے حدود کو دفع کرو، اگر مجرم کے بچ نکلنے کی کوئی صورت ہو تو اسے چھوڑ دو، کیونکہ مجرم کو معاف کر دینے میں امام کا غلطی کرنا اسے سزا دینے میں غلطی کرنے سے کہیں بہتر ہے۔ اس سند سے وکیع نے یزید بن زیاد سے محمد بن ربیعہ کی حدیث کی طرح بیان کیا، لیکن انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کو ہم مرفوع صرف بطریق: «محمد بن ربيعة عن يزيد بن زياد الدمشقي عن الزهري عن عروة عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم» ہی جانتے ہیں، ۲- اسے وکیع نے بھی یزید بن زیاد سے اسی طرح روایت کیا ہے، لیکن یہ مرفوع نہیں ہے، اور وکیع کی روایت زیادہ صحیح ہے، ۳- یزید بن زیاد دمشقی حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور یزید بن ابوزیاد کوفی ان سے زیادہ اثبت اور اقدم ہیں، ۴- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ سے اسی طرح مروی ہے، ان تمام لوگوں نے ایسا ہی کہا ہے، ۵- اس باب میں ابوہریرہ اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۶۶۸۹) (ضعیف) (سند میں ’’ یزید بن زیاد الدمشقی ‘‘ متروک ہے)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ، سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللَّهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، هَكَذَا رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ رِوَايَةِ أَبِي عَوَانَةَ، وَرَوَى أَسْبَاطُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ، وَكَأَنَّ هَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ عُبَيْدُ بْنُ أَسْبَاطَ بْنِ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ الْأَعْمَشِ، بِهَذَا الْحَدِيثِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کسی مومن سے دنیا کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی اللہ اس کے آخرت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا، اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی تو اللہ دنیا و آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا، اللہ بندے کی مدد میں لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث کو اسی طرح کئی لوگوں نے بطریق: «الأعمش عن أبي صالح عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» ، اور اسباط بن محمد نے اعمش سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے ابوصالح کے واسطہ سے بیان کیا گیا ہے، انہوں نے ابوہریرہ سے اور ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی ہے، ۳- ہم سے اسے عبید بن اسباط بن محمد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے میرے والد نے اعمش کے واسطہ سے یہ حدیث بیان کی، ۴- اس باب میں عقبہ بن عامر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الذکر ۱۱ (۲۲۹۹) ، سنن ابی داود/ الأدب ۶۸ (۴۹۴۶) ، سنن ابن ماجہ/المقدمة ۱۷ (۲۲۵) ، والحدود ۵ (۲۵۴۴) ، ویأتي عند المؤلف فی البر والصلة ۱۹ (۱۹۳۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۵۰۰) ، و مسند احمد (۲/۲۵۲) ، سنن الدارمی/المقدمة ۳۲ (۳۶۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، وَمَنْ كَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيهِ، كَانَ اللَّهُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ كُرْبَةً، فَرَّجَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان مسلمان کا بھائی ہے ۱؎، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اس کی مدد چھوڑتا ہے، اور جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہوتا ہے، جو اپنے کسی مسلمان کی پریشانی دور کرتا ہے اللہ اس کی وجہ سے اس سے قیامت کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کرے گا، اور جو کسی مسلمان کے عیب پر پردہ ڈالے گا اللہ قیامت کے دن اس کے عیب پر پردہ ڈالے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ۳ (۲۴۴۲) ، والإکراہ ۷ (۶۹۵۱) ، صحیح مسلم/البر والصلة ۱۵ (۲۵۰۸) ، (تحفة الأشراف : ۶۸۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اللہ تعالیٰ کے فرمان : «إنما المؤمنون إخوة» (الحجرات : ۱۰)کا بھی یہی مفہوم ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ: " أَحَقٌّ مَا بَلَغَنِي عَنْكَ ؟ " قَالَ: وَمَا بَلَغَكَ عَنِّي، قَالَ: " بَلَغَنِي أَنَّكَ وَقَعْتَ عَلَى جَارِيَةِ آلِ فُلَانٍ "، قَالَ: نَعَمْ، فَشَهِدَ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَأَمَرَ بِهِ فَرُجِمَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَى شُعْبَةُ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍمُرْسَلًا، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی الله عنہ سے فرمایا: "تمہارے بارے میں جو مجھے خبر ملی ہے کیا وہ صحیح ہے؟" ماعز رضی الله عنہ نے کہا: میرے بارے میں آپ کو کیا خبر ملی ہے؟ آپ نے فرمایا: "مجھے خبر ملی ہے کہ تم نے فلاں قبیلے کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا ہے؟"انہوں نے کہا: ہاں، پھر انہوں نے چار مرتبہ اقرار کیا، تو آپ نے حکم دیا، تو انہیں رجم کر دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اس حدیث کو شعبہ نے سماک بن حرب سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے مرسلاً روایت کیا ہے، انہوں نے اس سند میں ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے، ۳- اس باب میں سائب بن یزید سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۵ (۱۶۹۳) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۴ (۴۴۲۵) ، (تحفة الأشراف : ۵۵۱۹) ، و مسند احمد (۱/۲۴۵، ۳۱۴، ۳۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی مجرم اگر اپنے گناہ کا خود اقرار کر رہا ہو تو اس کے سامنے ایسی باتیں رکھنا جن کی وجہ سے اس پر حد واجب نہ ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَ مَاعِزٌ الْأَسْلَمِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ زَنَى فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ جَاءَ مِنْ شِقِّهِ الْآخَرِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ قَدْ زَنَى، فَأَمَرَ بِهِ فِي الرَّابِعَةِ فَأُخْرِجَ إِلَى الْحَرَّةِ، فَرُجِمَ بِالْحِجَارَةِ، فَلَمَّا وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ فَرَّ يَشْتَدُّ، حَتَّى مَرَّ بِرَجُلٍ مَعَهُ لَحْيُ جَمَلٍ فَضَرَبَهُ بِهِ، وَضَرَبَهُ النَّاسُ حَتَّى مَاتَ، فَذَكَرُوا ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ فَرَّ حِينَ وَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ وَمَسَّ الْمَوْتِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلَّا تَرَكْتُمُوهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی رضی الله عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اعتراف کیا کہ میں نے زنا کیا ہے، آپ نے ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، آپ نے پھر ان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر وہ دوسری طرف سے آئے اور بولے: اللہ کے رسول! میں نے زنا کیا ہے، پھر چوتھی مرتبہ اعتراف کرنے پر آپ نے رجم کا حکم دے دیا، چنانچہ وہ ایک پتھریلی زمین کی طرف لے جائے گئے اور انہیں رجم کیا گیا، جب انہیں پتھر کی چوٹ لگی تو دوڑتے ہوئے بھاگے، حتیٰ کہ ایک ایسے آدمی کے قریب سے گزرے جس کے پاس اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی، اس نے ماعز کو اسی سے مارا اور لوگوں نے بھی مارا یہاں تک کہ وہ مر گئے، پھر لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا کہ جب پتھر اور موت کی تکلیف انہیں محسوس ہوئی تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگوں نے اسے کیوں نہیں چھوڑ دیا" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- ابوہریرہ رضی الله عنہ سے کئی اور سندوں سے بھی مروی ہے، یہ حدیث زہری سے بھی مروی ہے، انہوں نے اسے بطریق: «عن أبي سلمة عن جابر بن عبد الله عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی طرح روایت کی ہے (جو آگے آ رہی ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۲۲ (۶۸۱۵) ، والأحکام ۱۹ (۷۱۶۷) ، صحیح مسلم/الحدود ۵ (۱۶) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۹ (۲۵۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۰۶۱) ، و مسند احمد (۲/۲۸۶-۲۸۷، ۴۵۰، ۴۵۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں : «هلا تركتموه لعله أن يتوب فيتوب الله عليه» یعنی " اسے تم لوگوں نے کیوں نہیں چھوڑ دیا ، ہو سکتا ہے وہ اپنے اقرار سے پھر جاتا اور توبہ کرتا ، پھر اللہ اس کی توبہ قبول کرتا " (اسی ٹکڑے میں باب سے مطابقت ہے)۔
حَدَّثَنَا بِذَلِكَ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلالُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاعْتَرَفَ بِالزِّنَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، ثُمَّ اعْتَرَفَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ، حَتَّى شَهِدَ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ شَهَادَاتٍ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَبِكَ جُنُونٌ ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " أَحْصَنْتَ "، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَمَرَ بِهِ، فَرُجِمَ بِالْمُصَلَّى، فَلَمَّا أَذْلَقَتْهُ الْحِجَارَةُ، فَرَّ فَأُدْرِكَ فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " خَيْرًا "، وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَنَّ الْمُعْتَرِفَ بِالزِّنَا إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: إِذَا أَقَرَّ عَلَى نَفْسِهِ مَرَّةً، أُقِيمَ عَلَيْهِ الْحَدُّ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَحُجَّةُ مَنْ قَالَ هَذَا الْقَوْلَ، حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنِي زَنَى بِامْرَأَةِ، هَذَا الْحَدِيثُ بِطُولِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْهَا "، وَلَمْ يَقُلْ فَإِنِ اعْتَرَفَتْ أَرْبَعَ مَرَّاتٍ.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں قبیلہ اسلم کے ایک آدمی نے آ کر زنا کا اعتراف کیا، تو آپ نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر اس نے اقرار کیا، آپ نے پھر منہ پھیر لیا، حتیٰ کہ اس نے خود چار مرتبہ اقرار کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم پاگل ہو؟"اس نے کہا: نہیں، آپ نے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اس نے کہا ہاں: پھر آپ نے رجم کا حکم دیا، چنانچہ اسے عید گاہ میں رجم کیا گیا، جب اسے پتھروں نے نڈھال کر دیا تو وہ بھاگ کھڑا ہوا، پھر اسے پکڑا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے حق میں کلمہ خیر کہا لیکن اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ زنا کا اقرار کرنے والا جب اپنے اوپر چار مرتبہ گواہی دے تو اس پر حد قائم کی جائے گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں: ایک مرتبہ بھی کوئی زنا کا اقرار کر لے گا تو اس پر حد قائم کر دی جائے گی، یہ مالک بن انس اور شافعی کا قول ہے، اس بات کے قائلین کی دلیل ابوہریرہ رضی الله عنہ اور زید بن خالد کی یہ حدیث ہے کہ دو آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اپنا قضیہ لے گئے، ایک نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بیٹے نے اس کی بیوی سے زنا کیا، یہ ایک لمبی حدیث ہے، (آخر میں ہے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انیس! اس کی بیوی کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کرے تو اسے رجم کر دو"، آپ نے اس حدیث میں یہ نہیں فرمایا کہ "جب چار مرتبہ اقرار کرے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطلاق ۱۱ (۵۲۷۰) ، والحدود ۲۱ (۶۸۱۴) ، و۲۵ (۶۸۲۰) ، صحیح مسلم/الحدود ۵ (۱۶) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۴ (۴۴۳۰) ، سنن النسائی/الجنائز ۶۳ (۱۹۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۳۱۴۹) ، و مسند احمد (۳/۳۲۳) ، وسنن الدارمی/الحدود ۱۲ (۲۳۶۱) (صحیح) (إلاّ أن البخاري قال: ’’ وصلی علیہ ‘‘ وہی شاذة)
وضاحت: ۱؎ : بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ہے ، تطبیق کی صورت یہ ہے کہ نفی کی روایت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ رجم والے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی ، جب کہ اثبات والی روایت کا مفہوم یہ ہے کہ دوسرے دن آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی ، اس کی تائید صحیح مسلم کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو عمران بن حصین سے قبیلہ جہینہ کی اس عورت کے متعلق آئی ہے جس سے زنا کا عمل ہوا پھر اسے رجم کیا گیا ، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر رضی الله عنہ نے کہا : «أتصلي عليها وقد زنت ؟» کیا اس زانیہ عورت کی نماز جنازہ آپ پڑھیں گے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «لقد تابت توبة لو قسمت بين سبعين لوسعتهم» یعنی اس نے جو توبہ کی ہے اسے اگر ستر افراد کے درمیان بانٹ دیا جائے تو وہ ان سب کے لیے کافی ہو گی ، عمران بن حصین کی یہ حدیث ترمذی میں بھی ہے ، دیکھئیے : كتاب الحدود ، باب تربص الرجم بالحبلى حتى تضع ، حدیث رقم ۱۴۳۵۔ ۲؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ چار مرتبہ اقرار کی نوبت اس وقت پیش آتی ہے جب اقرار کرنے والے کی بابت عقلی و ذہنی اعتبار سے کسی قسم کا اشتباہ ہو بصورت دیگر حد جاری کرنے کے لیے صرف ایک اقرار کافی ہے ، پوری حدیث «باب الرجم علی الثیب» کے تحت آگے آ رہی ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ قُرَيْشًا أَهَمَّهُمْ شَأْنُ الْمَرْأَةِ الْمَخْزُومِيَّةِ الَّتِي سَرَقَتْ، فَقَالُوا: مَنْ يُكَلِّمُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: مَنْ يَجْتَرِئُ عَلَيْهِ إِلَّا أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ، حِبُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَلَّمَهُ أُسَامَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَشْفَعُ فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ "، ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا أَهْلَكَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ، أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الشَّرِيفُ تَرَكُوهُ، وَإِذَا سَرَقَ فِيهِمُ الضَّعِيفُ أَقَامُوا عَلَيْهِ الْحَدَّ، وَايْمُ اللَّهِ، لَوْ أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ 55 سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ مَسْعُودِ ابْنِ الْعَجْمَاءِ، وَابْنِ عُمَرَ، وَجَابِرٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَيُقَالُ: مَسْعُودُ بْنُ الْأَعْجَمِ، وَلَهُ هَذَا الْحَدِيثُ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ قریش قبیلہ بنو مخزوم کی ایک عورت ۱؎ کے معاملے میں جس نے چوری کی تھی، کافی فکرمند ہوئے، وہ کہنے لگے: اس کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون گفتگو کرے گا؟ لوگوں نے جواب دیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہیتے اسامہ بن زید کے علاوہ کون اس کی جرات کر سکتا ہے؟ چنانچہ اسامہ نے آپ سے گفتگو کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کر رہے ہو؟" پھر آپ کھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے آپ نے فرمایا: "لوگو! تم سے پہلے کے لوگ اپنی اس روش کی بنا پر ہلاک ہوئے کہ جب کوئی اعلیٰ خاندان کا شخص چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کمزور حال شخص چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے، اللہ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی تو میں اس کا (بھی) ہاتھ کاٹ دیتا" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں مسعود بن عجماء، ابن عمر اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-مسعود بن عجماء کو مسعود بن اعجم بھی کہا جاتا ہے، ان سے صرف یہی ایک حدیث آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۸ (۲۶۴۸) ، والأنبیاء ۵۴ (۳۴۷۵) ، وفضائل الصحابة ۱۸ (۳۷۳۲) ، والمغازي ۵۳ (۴۳۰۴) ، والحدود ۱۱ (۶۷۸۷) ، و۱۲ (۶۷۸۸) و۱۴ (۶۸۰۰) ، صحیح مسلم/الحدود ۲ (۱۶۸۸) ، سنن ابی داود/ الحدود ۴ (۴۳۷۳) ، سنن النسائی/قطع السارق ۶ (۴۹۰۶) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۶ (۴۵۴۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۵۷۸) ، و مسند احمد (۶/۱۶۲) ، وسنن الدارمی/الحدود ۵ (۲۳۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قبیلہ بنو مخزوم کی اس عورت کا نام فاطمہ بنت اسود تھا ، اس کی یہ عادت بھی تھی کہ جب کسی سے کوئی سامان ضرورت پڑنے پر لے لیتی تو پھر اس سے مکر جاتی۔ ۲؎ : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد کہ " اگر محمد کی بیٹی فاطمہ چوری کرتی " ، یہ بالفرض والتقدیر ہے ، ورنہ فاطمہ رضی الله عنہا کی شان اس سے کہیں عظیم تر ہے کہ وہ ایسی کسی غلطی میں مبتلا ہوں ، قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سارے اہل بیت کی عفت و طہارت کی خبر دی ہے «إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا» (الأحزاب : ۳۳)فاطمہ رضی الله عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آپ کے اہل خانہ میں سب سے زیادہ عزیز تھیں اسی لیے ان کے ذریعہ مثال بیان کی گئی۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: " رَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمَ أَبُو بَكْرٍ، وَرَجَمْتُ، وَلَوْلَا أَنِّي أَكْرَهُ أَنْ أَزِيدَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، لَكَتَبْتُهُ فِي الْمُصْحَفِ، فَإِنِّي قَدْ خَشِيتُ أَنْ تَجِيءَ أَقْوَامٌ فَلَا يَجِدُونَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَكْفُرُونَ بِهِ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا، ابوبکر رضی الله عنہ نے رجم کیا، اور میں نے بھی رجم کیا، اگر میں کتاب اللہ میں زیادتی حرام نہ سمجھتا تو اس کو ۱؎ مصحف میں لکھ دیتا، کیونکہ مجھے اندیشہ ہے کہ کچھ قومیں آئیں گی اور کتاب اللہ میں حکم رجم (سے متعلق آیت) نہ پا کر اس کا انکار کر دیں۔ ابوعیسیٰ (ترمذی) کہتے ہیں: ۱- عمر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور دوسری سندوں سے بھی عمر رضی الله عنہ سے روایت کی گئی ہے، ۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۰۴۵۱) ، وانظر مسند احمد (۱/۳۶، ۴۳) وانظر ما یأتي (صحیح) (متابعات کی بنا پر صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں ’’ سعید بن مسیب ‘‘ اور ’’ عمر رضی الله عنہ ‘‘ کے درمیان انقطاع ہے)
وضاحت: ۱؎ : یعنی آیت رجم «الشيخ والشيخة إذا زنيا فأرجموهما البتة نكالا من الله ...» کو مصحف میں ضرور لکھ دیتا۔ ۲؎ : سلف صالحین رحمہم اللہ کو اللہ کے احکام و فرائض کے سلسلہ میں کس قدر فکر لاحق تھی اس کا اندازہ عمر رضی الله عنہ کے اس قول سے لگایا جا سکتا ہے ، عمر رضی الله عنہ نے جس اندیشہ کا اظہار کیا تھا وہ سو فیصد درست ثابت ہوا ، چنانچہ معتزلہ اور خوارج کی ایک جماعت نے رجم کا انکار کیا ، افسوس صد افسوس ! برصغیر میں بھی کچھ ایسے سر پھرے لوگ موجود ہیں جو اس سزا کے منکر ہیں ، رجم کے انکار کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے کہ ایسے لوگوں کی فکری بنیاد انکار حدیث پر ہے ، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ جو احادیث صحیح سندوں سے ثابت اور ان کے راویوں کی ایک بڑی تعداد ہو پھر بھی ان کا انکار کیا جائے۔
حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، وَالْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَكَانَ فِيمَا أَنْزَلَ عَلَيْهِ آيَةُ " الرَّجْمِ "، فَرَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَجَمْنَا بَعْدَهُ، وَإِنِّي خَائِفٌ أَنْ يَطُولَ بِالنَّاسِ زَمَانٌ، فَيَقُولَ قَائِلٌ: لَا نَجِدُ الرَّجْمَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَيَضِلُّوا بِتَرْكِ فَرِيضَةٍ أَنْزَلَهَا اللَّهُ، أَلَا وَإِنَّ الرَّجْمَ حَقٌّ عَلَى مَنْ زَنَى، إِذَا أَحْصَنَ وَقَامَتِ الْبَيِّنَةُ، أَوْ كَانَ حَبَلٌ أَوِ اعْتِرَافٌ ". وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، اور آپ پر کتاب نازل کی، آپ پر جو کچھ نازل کیا گیا اس میں آیت رجم بھی تھی ۱؎، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی رجم کیا، (لیکن) مجھے اندیشہ ہے کہ جب لوگوں پر زمانہ دراز ہو جائے گا تو کہنے والے کہیں گے: اللہ کی کتاب میں ہم رجم کا حکم نہیں پاتے، ایسے لوگ اللہ کا نازل کردہ ایک فریضہ چھوڑنے کی وجہ سے گمراہ ہو جائیں گے، خبردار! جب زانی شادی شدہ ہو اور گواہ موجود ہوں، یا جس عورت کے ساتھ زنا کیا گیا ہو وہ حاملہ ہو جائے، یا زانی خود اعتراف کر لے تو رجم کرنا واجب ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور کئی سندوں سے یہ حدیث عمر رضی الله عنہ سے آئی ہے، ۳- اس باب میں علی رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۳۰ (۶۸۲۹) ، صحیح مسلم/الحدود ۴ (۱۶۹۱) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۳ (۴۴۱۸) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۸ (۲۵۵۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۵۰۸) ، و مسند احمد (۱/۲۹، ۴۰، ۴۷، ۵۰، ۵۵) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۶ (۲۳۶۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آیت رجم کی تلاوت منسوخ ہے لیکن اس کا حکم قیامت تک کے لیے باقی ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، سَمِعَهُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، أَنَّهُمْ كَانُوا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُ رَجُلَانِ يَخْتَصِمَانِ، فَقَامَ إِلَيْهِ أَحَدُهُمَا، وَقَالَ: أَنْشُدُكَ اللَّهَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمَا قَضَيْتَ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَقَالَ خَصْمُهُ وَكَانَ أَفْقَهَ مِنْهُ: أَجَلْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، اقْضِ بَيْنَنَا بِكِتَابِ اللَّهِ، وَائْذَنْ لِي فَأَتَكَلَّمَ، إِنَّ ابْنِي كَانَ عَسِيفًا عَلَى هَذَا، فَزَنَى بِامْرَأَتِهِ، فَأَخْبَرُونِي أَنَّ عَلَى ابْنِي الرَّجْمَ، فَفَدَيْتُ مِنْهُ بِمِائَةِ شَاةٍ وَخَادِمٍ، ثُمَّ لَقِيتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَزَعَمُوا أَنَّ عَلَى ابْنِي جَلْدَ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبَ عَامٍ، وَإِنَّمَا الرَّجْمُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ، الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَيْكَ، وَعَلَى ابْنِكَ جَلْدُ مِائَةٍ، وَتَغْرِيبُ عَامٍ، وَاغْدُ يَا أُنَيْسُ عَلَى امْرَأَةِ هَذَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ، فَارْجُمْهَا "، فَغَدَا عَلَيْهَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَهَا. حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَ حَدِيثِ مَالِكٍ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، وَهَزَّالٍ، وَبُرَيْدَةَ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، وَأَبِي بَرْزَةَ، وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، وأبي هريرة، وأبي سعيد، وابن عباس، وجابر بن سمرة، وهزال، وبريدة، وسلمة بن المحبق، وأبي برزة، وعمران بن حصين. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا رَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَمَعْمَرٌ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَوْا بِهَذَا الْإِسْنَادِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا، فَإِنْ زَنَتْ فِي الرَّابِعَةِ فَبِيعُوهَا وَلَوْ بِضَفِيرٍ "، وَرَوَى سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، قَالُوا: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا رَوَى ابْنُ عُيَيْنَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَهِمَ فِيهِ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، أَدْخَلَ حَدِيثًا فِي حَدِيثٍ، وَالصَّحِيحُ مَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ الزُّبَيْدِيُّ، وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ فَاجْلِدُوهَا "، وَالزُّهْرِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ شِبْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا زَنَتِ الْأَمَةُ "، وَهَذَا الصَّحِيحُ عِنْدَ أَهْلِ الْحَدِيثِ، وَشِبْلُ بْنُ خَالِدٍ، لَمْ يُدْرِكِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِنَّمَا رَوَى شِبْلٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا الصَّحِيحُ، وَحَدِيثُ ابْنِ عُيَيْنَةَ غَيْرُ مَحْفُوظٍ، وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: شِبْلُ بْنُ حَامِدٍ، وَهُوَ خَطَأٌ إِنَّمَا هُوَ: شِبْلُ بْنُ خَالِدٍ وَيُقَالُ أَيْضًا: شِبْلُ بْنُ خُلَيْدٍ.
ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اسی دوران آپ کے پاس جھگڑتے ہوئے دو آدمی آئے، ان میں سے ایک کھڑا ہوا اور بولا: اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں! آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے (یہ سن کر)مدعی علیہ نے کہا اور وہ اس سے زیادہ سمجھدار تھا، ہاں، اللہ کے رسول! ہمارے درمیان آپ کتاب اللہ کے موافق فیصلہ کیجئے، اور مجھے مدعا بیان کرنے کی اجازت دیجئیے،(چنانچہ اس نے بیان کیا) میرا لڑکا اس کے پاس مزدور تھا، چنانچہ وہ اس کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا ۱؎، لوگوں (یعنی بعض علماء) نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے پر رجم واجب ہے، لہٰذا میں نے اس کی طرف سے سو بکری اور ایک خادم فدیہ میں دے دی، پھر میری ملاقات کچھ اہل علم سے ہوئی تو ان لوگوں نے کہا: میرے بیٹے پر سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی واجب ہے ۲؎، اور اس کی بیوی پر رجم واجب ہے ۳؎، (یہ سن کر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں تمہارے درمیان کتاب اللہ کے موافق ہی فیصلہ کروں گا، سو بکری اور خادم تمہیں واپس مل جائیں گے، (اور) تمہارے بیٹے کو سو کوڑے لگیں گے اور ایک سال کے لیے اسے شہر بدر کیا جائے گا، انیس! ۴؎ تم اس کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کر لے تو اسے رجم کر دو"، چنانچہ انیس اس کے گھر گئے، اس نے اقبال جرم کر لیا، لہٰذا انہوں نے اسے رجم کر دیا ۵؎۔ اس سند سے ابوہریرہ اور زید بن خالد جہنی سے، اسی جیسی اسی معنی کی حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے۔ اس سند سے بھی مالک کی سابقہ حدیث جیسی اسی معنی کی حدیث روایت ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ اور زید بن خالد کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح مالک بن انس، معمر اور کئی لوگوں نے بطریق: «الزهري، عن عبيد الله بن عتبة، عن أبي هريرة و زيد بن خالد، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۳- کچھ اور لوگوں نے بھی اسی سند سے ۶؎نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اس میں ہے کہ "جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی مرتبہ زنا کرے تو اسے بیچ دو، خواہ قیمت میں گندھے ہوئے بالوں کی رسی ہی کیوں نہ ملے"، ۴- اور سفیان بن عیینہ زہری سے، زہری عبیداللہ سے، عبیداللہ ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں، ان لوگوں نے کہا: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، ۵- ابن عیینہ نے اسی طرح دونوں حدیثوں کو ابوہریرہ، زید بن خالد اور شبل رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے، ابن عیینہ کی حدیث میں سفیان بن عیینہ سے وہم ہوا ہے، انہوں نے ایک حدیث کو دوسری حدیث کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے، صحیح وہ حدیث ہے جسے محمد بن ولید زبیدی، یونس بن عبید اور زہری کے بھتیجے نے زہری سے، زہری نے عبیداللہ سے، عبیداللہ نے ابوہریرہ اور زید بن خالد سے اور ان دونوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، آپ نے فرمایا: "جب لونڈی زنا کرے تو اسے کوڑے لگاؤ"، ۶- اور زہری نے عبیداللہ سے، عبیداللہ نے شبل بن خالد سے، شبل نے عبداللہ بن مالک اوسی سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ نے فرمایا: "جب لونڈی زنا کرے"،۷- اہل حدیث کے نزدیک (شبل کی روایت بواسطہ عبداللہ بن مالک) یہی صحیح ہے، کیونکہ شبل بن خالد نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پایا ہے، بلکہ شبل، عبداللہ بن مالک اوسی سے اور وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، یہی صحیح ہے اور ابن عیینہ کی حدیث غیر محفوظ ہے، کیونکہ انہوں نے اپنی روایت میں "شبل بن حامد" کہا ہے، یہ غلط ہے، صحیح "شبل بن خالد" ہے اور انہیں "شبل بن خلید" بھی کہا جاتا ہے، ۸- اس باب میں ابوبکرہ، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ، ابوسعید، ابن عباس، جابر بن سمرہ، ہزال، بریدہ، سلمہ بن محبق، ابوبرزہ اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوکالة ۱۳ (۲۳۱۴) ، والصلح ۵ (۲۶۵۵) ، والشروط ۹ (۲۷۲۴) ، والأیمان والنذور ۳ (۶۶۳۳) ، والحدود ۳۰ (۶۸۲۷) ، و ۳۴ (۶۸۳۵) ، و۴۶ (۶۸۶۰) ، والأحکام ۴۳ (۷۱۹۳) ، وخبر الآحاد ۱ (۷۲۵۸) ، صحیح مسلم/الحدود۵ (۱۶۹۷) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۵ (۴۴۴۵) ، سنن النسائی/آداب القضاة ۲۲ (۵۴۱۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۷ (۲۵۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۳۷۵۵، و ۴۸۱۴، ۱۴۱۰۶) ، وط/الحدود ۱ (۶) ، و مسند احمد (۴/۱۱۵، ۱۱۶) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۲ (۲۳۶۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس لڑکے کا کام صرف اپنے مالک کے کاموں اور اس کی ضرورتوں کو پورا کرنا ہی نہیں تھا بلکہ وہ مالک کی اجازت سے اس کی بیوی کے کاموں میں بھی معاون تھا ، چنانچہ اس کے ساتھ جو یہ حادثہ پیش آیا اس کا سبب یہی تھا۔ اس لیے تنہائی میں عورت کے پاس غیر محرم مرد کا دخول منع ہے۔ ۲؎ : کیونکہ یہ غیر شادی شدہ ہے۔ ۳؎ : کیونکہ یہ شادی شدہ ہے۔ ۴؎ : یہ انیس بن ضحاک اسلمی ہیں۔ ۵؎ : عورت چونکہ شادی شدہ تھی اس لیے اسے پتھر مار مار کر ہلاک کر دیا گیا ، اور لڑکا شادی شدہ نہیں تھا اس لیے اس کے لیے ایک سال کی جلا وطنی اور سو کوڑوں کی سزا متعین کی گئی۔ ۶؎؎ : یعنی شبل کا ذکر کئے بغیر ابوہریرہ اور زید بن خالد کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ مَنْصُورِ بْنِ زَاذَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ حِطَّانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذُوا عَنِّي فَقَدْ جَعَلَ اللَّهُ لَهُنَّ سَبِيلًا، الثَّيِّبُ بِالثَّيِّبِ جَلْدُ مِائَةٍ، ثُمَّ الرَّجْمُ، وَالْبِكْرُ بِالْبِكْرِ جَلْدُ مِائَةٍ، وَنَفْيُ سَنَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: الثَّيِّبُ تُجْلَدُ وَتُرْجَمُ، وَإِلَى هَذَا ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ قَوْلُ: إِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَغَيْرُهُمَا، الثَّيِّبُ إِنَّمَا عَلَيْهِ الرَّجْمُ، وَلَا يُجْلَدُ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلُ هَذَا فِي غَيْرِ حَدِيثٍ فِي قِصَّةِ مَاعِزٍ وَغَيْرِهِ، أَنَّهُ أَمَرَ بِالرَّجْمِ، وَلَمْ يَأْمُرْ أَنْ يُجْلَدَ قَبْلَ أَنْ يُرْجَمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(دین خاص طور پر زنا کے احکام) مجھ سے سیکھ لو، اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے ۱؎ راہ نکال دی ہے: شادی شدہ مرد شادی شدہ عورت کے ساتھ ملوث ہو تو سو کوڑوں اور رجم کی سزا ہے، اور کنوارا کنواری کے ساتھ زنا کا مرتکب ہو تو سو کوڑوں اور ایک سال کی جلا وطنی کی سزا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اہل علم صحابہ کا اسی پر عمل ہے، ان میں علی بن ابی طالب، ابی بن کعب اور عبداللہ بن مسعود وغیرہ رضی الله عنہم شامل ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: شادی شدہ زانی کو کوڑے لگائے جائیں گے اور رجم کیا جائے گا، بعض اہل علم کا یہی مسلک ہے، اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے، ۳- جب کہ صحابہ میں سے بعض اہل علم جن میں ابوبکر اور عمر وغیرہ رضی الله عنہما شامل ہیں، کہتے ہیں: شادی شدہ زنا کار پر صرف رجم واجب ہے، اسے کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح دوسری حدیث میں ماعز وغیرہ کے قصہ کے سلسلے میں آئی ہے کہ آپ نے صرف رجم کا حکم دیا، رجم سے پہلے کوڑے لگانے کا حکم نہیں دیا، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی اور احمد کا یہی قول ہے۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۳ (۱۶۹۰) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۳ (۴۴۱۵) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۷ (۲۵۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۸۳) ، و مسند احمد (۳/۴۷۵) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۹ (۲۳۷۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : جنہیں زنا کے جرم میں گھروں میں قید رکھنے کا حکم دیا گیا تھا اور اللہ کے حکم کا انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا ، اللہ نے ایسے لوگوں کے لیے راہ نکال دی ہے ، اس سے اشارہ اس آیت کی طرف ہے «واللاتي يأتين الفاحشة من نسآئكم فاستشهدوا عليهن أربعة منكم فإن شهدوا فأمسكوهن في البيوت حتى يتوفاهن الموت أو يجعل الله لهن سبيلا» " یعنی تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار گواہ طلب کرو ، اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو ، یہاں تک کی موت ان کی عمریں پوری کر دے ، یا اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور راستہ نکالے " (النساء : ۱۵)، یہ ابتدائے اسلام میں بدکار عورتوں کی وہ عارضی سزا ہے جب زنا کی سزا متعین نہیں ہوئی تھی۔ ۲؎ : جمہور علماء اور ائمہ اربعہ کا یہی قول ہے کہ کوڑے کی سزا اور رجم دونوں اکٹھا نہیں ہو سکتے ، کیونکہ قتل کے ساتھ اگر کئی حدود ایک ساتھ جمع ہو جائیں تو صرف قتل کافی ہو گا اور باقی حدود ساقط ہو جائیں گی «واللہ اعلم»۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَلِّبِعَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ جُهَيْنَةَ اعْتَرَفَتْ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالزِّنَا، فَقَالَتْ: إِنِّي حُبْلَى فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِيَّهَا، فَقَالَ: " أَحْسِنْ إِلَيْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ حَمْلَهَا، فَأَخْبِرْنِي ". فَفَعَلَ، فَأَمَرَ بِهَا فَشُدَّتْ عَلَيْهَا ثِيَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِرَجْمِهَا، فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّى عَلَيْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَجَمْتَهَا ثُمَّ تُصَلِّي عَلَيْهَا، فَقَالَ: " لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ شَيْئًا أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا لِلَّهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عمران بن حصین رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زنا کا اقرار کیا، اور عرض کیا: میں حاملہ ہوں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ولی کو طلب کیا اور فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو اور جب بچہ جنے تو مجھے خبر کرو، چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا، اور پھر آپ نے حکم دیا، چنانچہ اس کے کپڑے باندھ دیئے گئے ۱؎ پھر آپ نے اس کو رجم کرنے کا حکم دیا، چنانچہ اسے رجم کر دیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ نے اسے رجم کیا ہے، پھر اس کی نماز پڑھ رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر یہ مدینہ کے ستر آدمیوں کے درمیان تقسیم کر دی جائے تو سب کو شامل ہو جائے گی ۲؎، عمر! اس سے اچھی کوئی چیز تمہاری نظر میں ہے کہ اس نے اللہ کے لیے اپنی جان قربان کر دی"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۵ (۱۶۹۶) ، سنن ابی داود/ الحدود ۲۵ (۴۴۴۰) ، سنن النسائی/الجنائز ۶۴ (۱۹۵۹) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۹ (۲۵۵۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۸۸۱) ، و مسند احمد (۴/۴۲۰، ۴۳۵، ۴۳۷، ۴۴۰) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۸ (۲۳۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : معلوم ہوا کہ عورتوں پر حد جاری کرتے وقت ان کے جسم کی ستر پوشی کا خیال رکھنا چاہیئے۔ ۲؎ : مسلمانوں کے دیگر اموات کی طرح جس پر حد جاری ہو اس پر بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی ، کیونکہ حد کا نفاذ صاحب حد کے لیے باعث کفارہ ہے ، اس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے ، یہی وجہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی الله عنہ سے اس تائبہ کے توبہ کی کیا اہمیت ہے اسے واضح کیا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اور یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حدیث میں ایک قصہ کا بھی ذکر ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجنائز ۶۰ (۱۳۲۹) ، والمناقب ۲۶ (۳۶۳۵) ، والحدود ۲۴ (۶۸۱۹) ، صحیح مسلم/الحدود ۶ (۱۶۹۹) ، سنن ابی داود/ الحدود۲۶ (۴۴۴۶) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۰ (۲۵۵۶) ، (تحفة الأشراف : ۸۳۲۴) ، وط/الحدود ۱ (۱) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۵ (۲۳۴۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : امام ترمذی نے جس قصہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ یہ ہے : یہود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے مرد اور عورت کو لائے جن سے زنا کا صدور ہوا تھا ، اللہ کے رسول نے ان لوگوں سے پوچھا : اس کے متعلق توراۃ میں کیا حکم ہے ؟ کیونکہ ہمارے یہاں اس کی سزا رجم ہے ، ان لوگوں نے کہا : کوڑے کی سزا ہے ، یا چہرے پر کالا پوت کر عوام میں رسوا کیا جانا ہے ، عبداللہ بن سلام نے کہا : تم کذب بیانی سے کام لے رہے ہو ، اس میں بھی رجم کا حکم ہے ، چنانچہ توراۃ طلب کی گئی ، اسے پڑھا جانے لگا تو پڑھنے والے نے آیت رجم کو چھپا کر اس سے ما قبل اور بعد کی آیات پڑھیں ، پھر عبداللہ بن سلام کے کہنے پر اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو آیت رجم موجود تھی ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رجم کا حکم دیا۔
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجَمَ يَهُودِيًّا وَيَهُودِيَّةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَالْبَرَاءِ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ أَبِي أَوْفَى، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، قَالُوا: إِذَا اخْتَصَمَ أَهْلُ الْكِتَابِ، وَتَرَافَعُوا إِلَى حُكَّامِ الْمُسْلِمِينَ، حَكَمُوا بَيْنَهُمْ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ وَبِأَحْكَامِ الْمُسْلِمِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا يُقَامُ عَلَيْهِمُ الْحَدُّ فِي الزِّنَا، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
جابر بن سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو رجم کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر بن سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، براء، جابر، ابن ابی اوفی، عبداللہ بن حارث بن جزء اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں: جب اہل کتاب آپس میں جھگڑیں اور مسلم حکمرانوں کے پاس اپنا مقدمہ پیش کریں تو ان پر لازم ہے کہ وہ کتاب و سنت اور مسلمانوں کے احکام کے مطابق فیصلہ کریں، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۴- بعض لوگ کہتے ہیں: اہل کتاب پر زنا کی حد نہ قائم کی جائے، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۰ (۲۵۵۷) ، (تحفة الأشراف : ۲۱۷۵) (صحیح) (سند میں ’’ شریک القاضی ‘‘ حافظے کے کمزور ہیں، لیکن پچھلی حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)
وضاحت: ۱؎ : کیونکہ یہ قول اس باب کی احادیث کے مطابق ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيَحْيَى بْنُ أَكْثَمَ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ، وَغَرَّبَ "، وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَعُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ. رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، فَرَفَعُوهُ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ إِدْرِيسَ، هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ. حَدَّثَنَا بِذَلِكَ أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ. وَهَكَذَا رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ رِوَايَةِ ابْنِ إِدْرِيسَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ نَحْوَ هَذَا، وَهَكَذَا رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَأَنَّ عُمَرَ: ضَرَبَ وَغَرَّبَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَدْ صَحَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّفْيُ، رَوَاهُ أَبُو هُرَيْرَةَ، وَزَيْدُ بْنُ خَالِدٍ، وعبادة بن الصامت، وغيرهم، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعَلِيٌّ، وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، وَأَبُو ذَرٍّ، وَغَيْرُهُمْ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَمَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کو) کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، اور عمر رضی الله عنہ نے بھی کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے، ۲- اسے کئی لوگوں نے عبداللہ بن ادریس سے روایت کیا ہے، اور ان لوگوں نے اسے مرفوع کیا ہے، (جب کہ) بعض لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: «عن عبد الله بن إدريس هذا الحديث عن عبيد الله عن نافع عن ابن عمر»(موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے (غیر شادی شدہ زانی کو) کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، عمر رضی الله عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، زید بن خالد اور عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ہم سے اسے ابوسعید اشج نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے عبداللہ بن ادریس نے بیان کیا، نیز اسی طرح یہ حدیث عبداللہ بن ادریس کے علاوہ کئی ایک نے عبیداللہ بن عمر سے روایت کی ہے، اسی طرح اسے محمد بن اسحاق نے نافع سے، نافع نے ابن عمر رضی الله عنہما سے (موقوفاً) روایت کیا ہے کہ ابوبکر رضی الله عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، اور عمر رضی الله عنہ نے کوڑے لگائے اور شہر بدر کیا، لیکن اس میں ان لوگوں نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے، ۱- حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی شہر بدر کرنے کی روایت صحیح ہے، ۲- اسے ابوہریرہ، زید بن خالد اور عبادہ بن صامت وغیرہ رضی الله عنہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے بعض اہل علم کا عمل اسی پر ہے، ان لوگوں میں ابوبکر، عمر، علی، ابی بن کعب، عبداللہ بن مسعود اور ابوذر وغیرہم رضی الله عنہم شامل ہیں، اسی طرح یہ حدیث کئی تابعین فقہاء سے مروی ہے، سفیان ثوری مالک بن انس، عبداللہ بن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) ، (تحفة الأشراف : ۷۹۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ، فَقَالَ: " تُبَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَا تُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا، وَلَا تَسْرِقُوا، وَلَا تَزْنُوا "، قَرَأَ عَلَيْهِمُ الْآيَةَ، فَمَنْ وَفَّى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ عَلَيْهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ، وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ فَهُوَ إِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَجَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، وَخُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: لَمْ أَسْمَعْ فِي هَذَا الْبَابِ أَنَّ الْحُدُودَ تَكُونُ كَفَّارَةً لِأَهْلِهَا شَيْئًا أَحْسَنَ مِنْ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: وَأُحِبُّ لِمَنْ أَصَابَ ذَنْبًا فَسَتَرَهُ اللَّهُ عَلَيْهِ، أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ، وَيَتُوبَ فِيمَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّهِ، وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ أَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ، أَنَّهُمَا أَمَرَا رَجُلًا أَنْ يَسْتُرَ عَلَى نَفْسِهِ.
عبادہ بن صامت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مجلس میں موجود تھے، آپ نے فرمایا: "ہم سے اس بات پر بیعت کرو کہ تم اللہ کے ساتھ شرک نہ کرو گے، چوری نہ کرو گے اور زنا نہ کرو گے، پھر آپ نے ان کے سامنے آیت پڑھی ۱؎ اور فرمایا: جو اس اقرار کو پورا کرے گا اس کا اجر اللہ کے ذمہ ہے اور جو ان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہوا پھر اس پر حد قائم ہو گئی تو یہ اس کے لیے کفارہ ہو جائے گا ۲؎، اور جس نے کوئی گناہ کیا اور اللہ نے اس پر پردہ ڈال دیا تو وہ اللہ کے اختیار میں ہے، چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے بخش دے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ بن صامت کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- امام شافعی کہتے ہیں: میں نے اس باب میں اس حدیث سے اچھی کوئی چیز نہیں سنی کہ حدود اصحاب حدود کے لیے کفارہ ہیں، ۳- شافعی کہتے ہیں: میں چاہتا ہوں کہ جب کوئی گناہ کرے اور اللہ اس پر پردہ ڈال دے تو وہ خود اپنے اوپر پردہ ڈال لے اور اپنے اس گناہ کی ایسی توبہ کرے کہ اسے اور اس کے رب کے سوا کسی کو اس کا علم نہ ہو، ۴- ابوبکر اور عمر رضی الله عنہما سے اسی طرح مروی ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ وہ اپنے اوپر پردہ ڈال لے، ۵- اس باب میں علی، جریر بن عبداللہ اور خزیمہ بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۱۱ (۱۸) ، ومناقب الأنصار ۴۳ (۳۸۹۲) ، وتفسیر الممتحنة ۳ (۴۸۹۴) ، والحدود ۸ (۶۷۸۴) ، و۱۴ (۶۸۰۱) ، والدیات ۲ (۶۸۷۳) ، والأحکام ۴۹ (۷۲۱۳) ، والتوحید ۳۱ (۷۴۶۸) ، صحیح مسلم/الحدود ۱۰ (۱۷۰۹) ، سنن النسائی/البیعة ۹ (۴۱۶۶) ، و۱۷ (۴۱۸۳) ، و۳۸ (۴۲۱۵) ، والإیمان ۱۴ (۵۰۰۵) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۹۴) ، و مسند احمد (۵/۳۱۴، ۳۲۱، ۳۳۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یہ آیت کس سورۃ کی تھی ؟ اس سلسلہ میں بصراحت کسی صحابی سے کچھ بھی ثابت نہیں ہے ، کیونکہ شرک باللہ ، چوری اور زنانہ کرنے کی صورت میں پورا پورا اجر ملنے کا ذکر قرآن کریم کی متعدد سورتوں میں ہے اور یہ کہنا کہ فلاں سورۃ کی فلاں آیت ہی مقصود ہے تو اس کے ثبوت کے لیے کسی صحابی سے اس کی تصریح ضروری ہے۔ اکثر علماء نے اس آیت سے مراد سورۃ الممتحنہ کی آیت رقم ۱۲ مراد لیا ہے ، جو یہ ہے «يا أيها النبي إذا جائك المؤمنات يبايعنك»إلى آخره. ۲؎ : اس حدیث میں جو یہ عموم پایا جا رہا ہے کہ جوان میں سے کسی گناہ کا مرتکب ہو پھر اس پر حد قائم ہو تو یہ حد اس کے لیے کفارہ ہے تو یہ عموم آیت کریمہ : «إن الله لا يغفر أن يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» (النساء : ۱۱۶)سے خاص ہے ، لہٰذا ارتداد کی بنا پر اگر کسی کا قتل ہوا تو یہ قتل اس کے لیے باعث کفارہ نہیں ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا زَنَتْ أَمَةُ أَحَدِكُمْ فَلْيَجْلِدْهَا ثَلَاثًا بِكِتَابِ اللَّهِ، فَإِنْ عَادَتْ فَلْيَبِعْهَا وَلَوْ بِحَبْلٍ مِنْ شَعَرٍ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَزَيْدِ بْنِ خَالِدٍ، وَشِبْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكٍ الْأَوْسِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَغَيْرِهِمْ رَأَوْا أَنْ يُقِيمَ الرَّجُلُ الْحَدَّ عَلَى مَمْلُوكِهِ دُونَ السُّلْطَانِ، وَهُوَ قَوْلُ: أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ بَعْضُهُمْ: يُرْفَعُ إِلَى السُّلْطَانِ، وَلَا يُقِيمُ الْحَدَّ هُوَ بِنَفْسِهِ، وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کی لونڈی زنا کرے تو اللہ کی کتاب کے (حکم کے) مطابق تین بار اسے کوڑے لگاؤ ۱؎ اگر وہ پھر بھی (یعنی چوتھی بار) زنا کرے تو اسے فروخت کر دو، چاہے قیمت میں بال کی رسی ہی ملے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ان سے یہ حدیث کئی سندوں سے آئی ہے، ۳- اس باب میں علی، ابوہریرہ، زید بن خالد رضی الله عنہم سے اور شبل سے بواسطہ عبداللہ بن مالک اوسی بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ سلطان (حاکم) کے بجائے آدمی اپنے مملوک (غلام) پر خود حد نافذ کرے، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- بعض لوگ کہتے ہیں: سلطان(حاکم) کے پاس مقدمہ پیش کیا جائے گا، کوئی آدمی بذات خود حد نافذ نہیں کرے گا، لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفة الأشراف : ۱۲۴۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی زنا کی حرکت اس سے اگر تین بار سرزد ہوئی ہے تو ہر مرتبہ اسے کوڑے کی سزا ملے گی ، اور چوتھی مرتبہ اسے شہر بدر کر دیا جائے گا۔ ۲؎ : کیونکہ باب کی حدیث کا مفہوم یہی ہے ، مالک کے پاس اپنی لونڈی یا غلام کی بدکاری سے متعلق اگر معتبر شہادت موجود ہو تو مالک بذات خود حد قائم کر سکتا ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ بْنُ قُدَامَةَ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ، قَالَ: خَطَبَ عَلِيٌّ، فَقَالَ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ، أَقِيمُوا الْحُدُودَ عَلَى أَرِقَّائِكُمْ مَنْ أَحْصَنَ مِنْهُمْ، وَمَنْ لَمْ يُحْصِنْ، وَإِنَّ أَمَةً لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَنَتْ، فَأَمَرَنِي أَنْ أَجْلِدَهَا، فَأَتَيْتُهَا فَإِذَا هِيَ حَدِيثَةُ عَهْدٍ بِنِفَاسٍ، فَخَشِيتُ إِنْ أَنَا جَلَدْتُهَا أَنْ أَقْتُلَهَا، أَوْ قَالَ: تَمُوتَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " أَحْسَنْتَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالسُّدِّيُّ اسْمُهُ: إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ مِنَ التَّابِعِينَ، قَدْ سَمِعَ مِنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، وَرَأَى حُسَيْنَ بْنَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
ابوعبدالرحمٰن سلمی کہتے ہیں کہ علی رضی الله عنہ نے خطبہ کے دوران کہا: لوگو! اپنے غلاموں اور لونڈیوں پر حد قائم کرو، جس کی شادی ہوئی ہو اس پر بھی اور جس کی شادی نہ ہوئی ہو اس پر بھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک لونڈی نے زنا کیا، چنانچہ آپ نے مجھے کوڑے لگانے کا حکم دیا، میں اس کے پاس آیا تو (دیکھا) اس کو کچھ ہی دن پہلے نفاس کا خون آیا تھا ۱؎ لہٰذا مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں نے اسے کوڑے لگائے تو کہیں میں اسے قتل نہ کر بیٹھوں، یا انہوں نے کہا: کہیں وہ مر نہ جائے ۲؎، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے اسے بیان کیا، تو آپ نے فرمایا: "تم نے اچھا کیا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۷ (۱۷۰۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۱۷۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کچھ ہی دن قبل اس سے ولادت ہوئی تھی۔ ۲؎ : یہ شک راوی کی طرف سے ہے۔
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ زَيْدٍ الْعَمِّيِّ، عَنْ أَبِي الصِّدِّيقِ النَّاجِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَرَبَ الْحَدَّ بِنَعْلَيْنِ أَرْبَعِينَ ". قَالَ مِسْعَرٌ: أَظُنُّهُ فِي الْخَمْرِ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عَلِيٍّ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَالسَّائِبِ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو الصِّدِّيقِ النَّاجِيُّ اسْمُهُ: بَكْرُ بْنُ عَمْرٍو، وَيُقَالُ: بَكْرُ بْنُ قَيْسٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حد قائم کرتے ہوئے چالیس جوتیوں کی سزا دی، مسعر راوی کہتے ہیں: میرا خیال ہے شراب کی حد میں (آپ نے چالیس جوتیوں کی سزا دی)۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوسعید رضی الله عنہ کی حدیث حسن ہے، ۲- اس باب میں علی، عبدالرحمٰن بن ازہر، ابوہریرہ، سائب، ابن عباس اور عقبہ بن حارث رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (أخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفة الأشراف : ۳۹۷۵) (ضعیف الإسناد) (سند میں زید العمی سخت ضعیف راوی ہے، لیکن دیگر احادیث صحیحہ سے شرابی کو جوتے سے مارنا ثابت ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَال: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّهُ أُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ، فَضَرَبَهُ بِجَرِيدَتَيْنِ نَحْوَ الْأَرْبَعِينَ "، وَفَعَلَهُ أَبُو بَكْرٍ، فَلَمَّا كَانَ عُمَرُ، اسْتَشَارَ النَّاسَ، فَقَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ: كَأَخَفِّ الْحُدُودِ ثَمَانِينَ، فَأَمَرَ بِهِ عُمَرُ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنَّ حَدَّ السَّكْرَانِ ثَمَانُونَ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے شراب پی تھی، آپ نے اسے کھجور کی دو چھڑیوں سے چالیس کے قریب مارا، ابوبکر رضی الله عنہ نے بھی (اپنے دور خلافت میں) ایسا ہی کیا، پھر جب عمر رضی الله عنہ خلیفہ ہوئے تو انہوں نے اس سلسلے میں لوگوں سے مشورہ کیا، چنانچہ عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا: حدوں میں سب سے ہلکی حد اسی کوڑے ہیں، چنانچہ عمر نے اسی کا حکم دیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ میں سے اہل علم اور دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ شرابی کی حد اسی کوڑے ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۲ (۶۷۷۱) ، (بدون قصة الاستشارة) ، صحیح مسلم/الحدود ۸ (۱۷۰۶) سنن ابی داود/ الحدود ۳۶ (۴۴۷۹) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۶ (۲۵۷۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۵۴) ، و مسند احمد (۳/۱۱۵، ۱۸۰، ۲۴۷، ۲۷۲- ۲۷۳) ، سنن الدارمی/الحدود ۹ (۲۳۵۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس سلسلہ میں صحیح قول یہ ہے کہ شرابی کی حد چالیس کوڑے ہیں ، البتہ امام اس سے زائد اسی کوڑے تک کی سزا دے سکتا ہے ، لیکن اس کا انحصار حسب ضرورت امام کے اپنے اجتہاد پر ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالشَّرِيدِ، وَشُرَحْبِيلَ بْنِ أَوْسٍ، وَجَرِيرٍ، وَأَبِي الرَّمَدِ الْبَلَوِيِّ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ مُعَاوِيَةَ هَكَذَا رَوَى الثَّوْرِيُّ أَيْضًا، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَىابْنُ جُرَيْجٍ، وَمَعْمَرٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ: حَدِيثُ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا فِي أَوَّلِ الْأَمْرِ ثُمَّ نُسِخَ بَعْدُ، هَكَذَا رَوَىمُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ فَاجْلِدُوهُ، فَإِنْ عَادَ فِي الرَّابِعَةِ فَاقْتُلُوهُ "، قَالَ: ثُمَّ أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ بِرَجُلٍ قَدْ شَرِبَ الْخَمْرَ فِي الرَّابِعَةِ، فَضَرَبَهُ، وَلَمْ يَقْتُلْهُ، وَكَذَلِكَ رَوَى الزُّهْرِيُّ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ ذُؤَيْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ هَذَا، قَالَ: فَرُفِعَ الْقَتْلُ، وَكَانَتْ رُخْصَةً، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ عَامَّةِ أَهْلِ الْعِلْمِ، لَا نَعْلَمُ بَيْنَهُمُ اخْتِلَافًا فِي ذَلِكَ فِي الْقَدِيمِ وَالْحَدِيثِ، وَمِمَّا يُقَوِّي هَذَا مَا رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَوْجُهٍ كَثِيرَةٍ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ، النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ ".
معاویہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئے تو اسے قتل کر دو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معاویہ رضی الله عنہ کی حدیث کو اسی طرح ثوری نے بطریق: «عاصم عن أبي صالح عن معاوية عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، اور ابن جریج اور معمر نے بطریق: «سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ابوصالح کی حدیث جو بواسطہ معاویہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں آئی ہے، یہ ابوصالح کی اس حدیث سے جو بواسطہ ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے زیادہ صحیح ہے، ۳- اس باب میں ابوہریرہ، شرید، شرحبیل بن اوس، جریر، ابورمد بلوی اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- یہ حکم ابتداء اسلام میں تھا ۱؎ پھر اس کے بعد منسوخ ہو گیا، اسی طرح محمد بن اسحاق نے " «محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله» کے طریق سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "جو شراب پئیے اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگر چوتھی بار پئیے تو اسے قتل کر دو"، پھر اس کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے چوتھی بار شراب پی تھی، تو آپ نے اسے کوڑے لگائے اور قتل نہیں کیا، اسی طرح زہری نے قبیصہ بن ذویب سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۵-چنانچہ قتل کا حکم منسوخ ہو گیا، پہلے اس کی رخصت تھی، عام اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، میرے علم میں اس مسئلہ میں ان کے درمیان نہ پہلے اختلاف تھا نہ اب اختلاف ہے، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بےشمار سندوں سے آئی ہے کہ آپ نے فرمایا: جو مسلمان شہادت دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں تو اس کا خون تین میں سے کسی ایک چیز کی بنا پر ہی حلال ہو سکتا ہے: ناحق کسی کا قاتل ہو، شادی شدہ زانی ہو، یا اپنا دین (اسلام) چھوڑنے والا (مرتد) ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۳۷ (۴۴۸۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۷ (۲۵۷۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۴۱۲) ، و مسند احمد (۴/۹۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی شرابی کے قتل کا حکم ابتدائے اسلام میں تھا پھر منسوخ ہو گیا چنانچہ قتل سے متعلق روایت بعض اہل ظاہر کو چھوڑ کر تمام اہل علم کے نزدیک منسوخ ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَتْهُ عَمْرَةُ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ: " يَقْطَعُ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عَائِشَةَ، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، مَرْفُوعًا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چوتھائی دینار ۱؎ اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سندوں سے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے مرفوعاً آئی ہے، جب کہ بعض لوگوں نے اسے عمرہ کے واسطہ سے عائشہ رضی الله عنہا سے موقوفاً روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۱۳ (۶۷۸۹) ، صحیح مسلم/الحدود ۱ (۱۶۸۴) ، سنن ابی داود/ الحدود ۱۱ (۴۳۸۳) ، سنن النسائی/قطع السارق ۹ (۴۹۲۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲۲ (۲۵۸۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۹۲۰) ، وط/الحدود ۷ (۲۴) ، و مسند احمد (۶/۳۶، ۸۰، ۸۱، ۱۰۴، ۱۶۳، ۲۴۹، ۲۵۲) ، سنن الدارمی/الحدو ۴ (۲۳۴۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : موجودہ وزن کے اعتبار سے ایک دینار کا وزن تقریباً سوا چار گرام سونا ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: " قَطَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِجَنٍّ قِيمَتُهُ ثَلَاثَةُ دَرَاهِمَ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَعْدٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَيْمَنَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ، أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: قَطَعَ فِي خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، وَرُوِي عَنْ عُثْمَانَ، وَعَلِيٍّ، أَنَّهُمَا: قَطَعَا فِي رُبُعِ دِينَارٍ، وَرُوِي عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَأَبِي سَعِيدٍ، أَنَّهُمَا قَالَا: تُقْطَعُ الْيَدُ فِي خَمْسَةِ دَرَاهِمَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، رَأَوْا الْقَطْعَ فِي رُبُعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، أَنَّهُ قَالَ: لَا قَطْعَ إِلَّا فِي دِينَارٍ، أَوْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَهُوَ حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، رَوَاهُ الْقَاسِمُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَالْقَاسِمُ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، قَالُوا: لَا قَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَرُوِي عَنْ عَلِيٍّ، أَنَّهُ قَالَ: لَا قَطْعَ فِي أَقَلَّ مِنْ عَشَرَةِ دَرَاهِمَ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈھال کی چوری پر ہاتھ کاٹا جس کی قیمت تین درہم ۱؎ تھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سعد، عبداللہ بن عمرو، ابن عباس، ابوہریرہ اور ایمن رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان میں ابوبکر رضی الله عنہ بھی شامل ہیں، انہوں نے پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ۴- عثمان اور علی رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ ان لوگوں نے چوتھائی دینار کی چوری پر ہاتھ کاٹا، ۵- ابوہریرہ اور ابو سعید خدری رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ پانچ درہم کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ۶- بعض فقہائے تابعین کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: چوتھائی دینار اور اس سے زیادہ کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا، ۷- اور ابن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک دینار یا دس درہم کی چوری پر ہی ہاتھ کاٹا جائے گا، لیکن یہ مرسل (یعنی منقطع)حدیث ہے اسے قاسم بن عبدالرحمٰن نے ابن مسعود رضی الله عنہ سے روایت کیا ہے، حالانکہ قاسم نے ابن مسعود سے نہیں سنا ہے، بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، چنانچہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہ کاٹا جائے، ۸- علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ دس درہم سے کم کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا، لیکن اس کی سند متصل نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۱۳ (۶۷۹۵) ، صحیح مسلم/الحدود ۱ (۱۶۸۶) ، سنن ابی داود/ الحدود ۱۱ (۴۳۸۵) ، سنن النسائی/قطع السارق ۸ (۴۹۱۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲۲ (۲۵۸۴) ، التحفة: ۸۲۷۸) ، موطا امام مالک/الحدود ۷ (۲۱) ، و مسند احمد (۲/۶، ۵۴، ۶۴، ۸۰، ۱۴۳) ، سنن الدارمی/الحدود ۴ (۲۳۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : آج کے وزن کے اعتبار سے ایک درہم (چاندی) تقریباً تین گرام کے برابر ہے ، معلوم ہوا کہ چوتھائی دینار (سونا) : یعنی تین درہم (چاندی) یا اس سے زیادہ کی مالیت کا سامان اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اس کے بدلے اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: سَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ، عَنْ تَعْلِيقِ الْيَدِ فِي عُنُقِ السَّارِقِ، أَمِنَ السُّنَّةِ هُوَ ؟ قَالَ: " أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَارِقٍ، فَقُطِعَتْ يَدُهُ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَعُلِّقَتْ فِي عُنُقِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيِّ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَيْرِيزٍ: هُوَ أَخُو عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَيْرِيزٍ شَامِيٌّ.
عبدالرحمٰن بن محیریز کہتے ہیں کہ میں نے فضالہ بن عبید سے پوچھا: کیا چور کا ہاتھ کاٹنے کے بعد اس کی گردن میں لٹکانا سنت ہے؟ انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چور لایا گیا اس کا ہاتھ کاٹا گیا، پھر آپ نے حکم دیا ہاتھ اس کی گردن میں لٹکا دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- ہم اسے صرف عمر بن علی مقدمی ہی کی روایت سے جانتے ہیں، انہوں نے اسے حجاج بن ارطاۃ سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۲۱ (۴۴۱۱) ، سنن النسائی/قطع السارق ۱۹ (۴۹۸۵) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲۳ (۲۵۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۰۲۹) ، و مسند احمد (۶/۱۹) (ضعیف) (سند میں ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ ضعیف، اور ’’ عبدالرحمن بن محیریز ‘‘ مجہول ہیں) دیکھئے: الإرواء: ۲۴۳۲)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَيْسَ عَلَى خَائِنٍ، وَلَا مُنْتَهِبٍ، وَلَا مُخْتَلِسٍ، قَطْعٌ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رَوَاهُ مُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ جُرَيْجٍ، وَمُغِيرَةُ بْنُ مُسْلِمٍ هُوَ: بَصْرِيٌّ أَخُو عَبْدِ الْعَزِيزِ الْقَسْمَلِيِّ، كَذَا قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيّ.
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "خیانت کرنے والے، ڈاکو اور اچکے کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے" ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- مغیرہ بن مسلم نے ابن جریج کی حدیث کی طرح اسے ابوزبیر سے، ابوزبیر نے جابر رضی الله عنہ سے اور جابر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۱۳ (۴۳۹۱) ، سنن النسائی/قطع السارق ۱۴ (۴۹۷۴) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲۶ (۲۵۹۱) ، (تحفة الأشراف : ۲۸۰۰) ، و مسند احمد (۳/۳۸۰) ، سنن الدارمی/الحدود ۸ (۲۳۵۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : کسی محفوظ جگہ سے جہاں مال اچھی طرح سے چھپا کر رکھا گیا مال چرانا «سرقہ» ہے اور خیانت ، اچکنا اور ڈاکہ زنی یہ سب کے سب «سرقہ» کی تعریف سے خارج ہیں ، لہٰذا ان کی سزا ہاتھ کاٹنا نہیں ہے ، «خائن» اسے کہتے ہیں جو خفیہ طریقہ پر مال لیتا رہے اور مالک کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا اظہار کرے۔ حدیث میں مذکورہ جرائم پر حاکم جو مناسب سزا تجویز کرے گا وہ نافذ کی جائے گی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا قَطْعَ فِي ثَمَرٍ، وَلَا كَثَرٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رَوَى بَعْضُهُمْ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَ رِوَايَةِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، وَرَوَى مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، هَذَا الْحَدِيثَ عَنْيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَمْ يَذْكُرُوا فِيهِ عَنْ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "پھل اور کھجور کے گابھے کی چوری میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اسی طرح بعض اور لوگوں نے بھی لیث بن سعد کی روایت کی طرح بطریق: «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن عمه واسع بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۲- مالک بن انس اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو بطریق: «يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن رافع بن خديج عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ان لوگوں نے اس حدیث کی سند میں واسع بن حبان کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۱۲ (۴۳۸۸) ، سنن النسائی/قطع السارق ۱۴ (۴۹۹۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲۷ (۲۵۹۳) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۸۸) ، وط/الحدود ۱۱ (۳۲) ، و مسند احمد (۳/۴۶۳، ۴۶۴) و (۵/۱۴۰، ۱۴۲) ، سنن الدارمی/الحدود ۷ (۲۳۵۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ عَيَّاشِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ شُيَيْمِ بْنِ بَيْتَانَ، عَنْ جُنَادَةَ بْنِ أَبِي أُمَيَّةَ، عَنْ بُسْرِ بْنِ أَرْطَاةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا تُقْطَعُ الْأَيْدِي فِي الْغَزْوِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ ابْنِ لَهِيعَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ هَذَا، وَيُقَالُ بُسْرُ بْنُ أَبِي أَرْطَاةَ أَيْضًا، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، مِنْهُمْ الْأَوْزَاعِيُّ، لَا يَرَوْنَ أَنْ يُقَامَ الْحَدُّ فِي الْغَزْوِ بِحَضْرَةِ الْعَدُوِّ، مَخَافَةَ أَنْ يَلْحَقَ مَنْ يُقَامُ عَلَيْهِ الْحَدُّ بِالْعَدُوِّ، فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ مِنْ أَرْضِ الْحَرْبِ، وَرَجَعَ إِلَى دَارِ الْإِسْلَامِ، أَقَامَ الْحَدَّ عَلَى مَنْ أَصَابَهُ، كَذَلِكَ قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ.
بسر بن ارطاۃ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جنگ کے دوران (چوری کرنے والے کا) ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- ابن لہیعہ کے علاوہ کچھ دوسرے لوگوں نے بھی اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، انہیں میں اوزاعی بھی ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں: دشمن کی موجودگی میں جہاد کے دوران (چوری کرنے پر) حد قائم نہیں کی جائے گی، کیونکہ جس پر حد قائم کی جائے گی اندیشہ ہے کہ وہ دشمن سے مل جائے، البتہ امام جب دارالحرب سے نکل کر دارالاسلام واپس آ جائے تو چوری کرنے والے پر حد قائم کرے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۱۸ (۴۴۰۸) ، سنن النسائی/قطع السارق ۱۷ (۴۹۸۲) ، (تحفة الأشراف : ۲۰۱۵) ، و مسند احمد (۴/۱۸۱) (صحیح) (متابعات کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے جس کا ذکر مؤلف نے کیا ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ ابن لھیعہ ‘‘ ضعیف ہیں)
وضاحت: ۱؎ : مسند احمد میں عبادہ بن صامت کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «أقيموا الحدود في الحضر والسفر» حضر اور سفر دونوں میں حدود قائم کرو ، اس میں اور بسر بن ارطاۃ کی حدیث میں تعارض ہے ، علامہ شوکانی کہتے ہیں : دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہے ، کیونکہ بسر ارطاۃ کی حدیث خاص ہے جب کہ عبادہ کی حدیث عام ہے ، کیونکہ ہر مسافر مجاہد نہیں ہوتا البتہ ہر مجاہد مسافر ہوتا ہے ، نیز بسر کی حدیث کا تعلق چوری کی حد سے ہے ، جب کہ عبادہ کی حدیث کا تعلق عام حد سے ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، وَأَيُّوبَ بْنِ مِسْكِينٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: رُفِعَ إِلَى النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، رَجُلٌ وَقَعَ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَقَالَ: لَأَقْضِيَنَّ فِيهَا بِقَضَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَئِنْ كَانَتْ أَحَلَّتْهَا لَهُ لَأَجْلِدَنَّهُ مِائَةً، وَإِنْ لَمْ تَكُنْ أَحَلَّتْهَا لَهُ رَجَمْتُهُ ".
حبیب بن سالم کہتے ہیں کہ نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کے پاس ایک ایسے شخص کا مقدمہ پیش ہوا جس نے اپنی بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کیا تھا، انہوں نے کہا: میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ کروں گا: اگر اس کی بیوی نے اسے لونڈی کے ساتھ جماع کی اجازت دی ہے تو (بطور تادیب)اسے سو کوڑے ماروں گا اور اگر اس نے اجازت نہیں دی ہے تو (بطور حد) اسے رجم کروں گا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۲۸ (۴۴۵۸) ، سنن النسائی/النکاح ۷۰ (۳۳۶۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود (۲۵۵۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۶۱۳) ، و مسند احمد (۶/۲۷۲، ۲۷۶، ۲۷۶، ۲۷۷) ، سنن الدارمی/الحدود ۲۰ (۲۳۷۴) (ضعیف) (سند میں ’’ حبیب بن سالم ‘‘ میں بہت کلام ہے، نیز بقول خطابی ان کا سماع نعمان رضی الله عنہ سے نہیں ہے)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ نَحْوَهُ، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْمُحَبَّقِ، قَالَ: أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ النُّعْمَانِ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: لَمْ يَسْمَعْ قَتَادَةُ مِنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، إِنَّمَا رَوَاهُ عَنْ خَالِدِ بْنِ عُرْفُطَةَ، وَيُرْوَى عَنْ قَتَادَةَ، أَنَّهُ قَالَ: كُتِبَ بِهِ إِلَى حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ، وَأَبُو بِشْرٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ حَبِيبِ بْنِ سَالِمٍ هَذَا أَيْضًا، إنما قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ، فِي الرَّجُلِ يَقَعُ عَلَى جَارِيَةِ امْرَأَتِهِ، فَرُوِيَ عَنْ غَيْرِ وَاحِدٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ عَلِيٌّ، وَابْنُ عُمَرَ، أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ، وقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: لَيْسَ عَلَيْهِ حَدٌّ، وَلَكِنْ يُعَزَّرُ، وَذَهَبَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق، إِلَى مَا رَوَى النُّعْمَانُ بْنُ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
اس سند سے بھی نعمان بن بشیر سے اسی جیسی حدیث آئی ہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا: حبیب بن سالم کے پاس یہ مسئلہ لکھ کر بھیجا گیا ۱؎۔ ابوبشر نے بھی یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- نعمان کی حدیث کی سند میں اضطراب ہے میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا کہ قتادہ نے اس حدیث کو حبیب بن سالم سے نہیں سنا ہے، انہوں نے اسے خالد بن عرفطہٰ سے روایت کیا ہے، ۲- اس باب میں سلمہ بن محبق سے بھی روایت ہے، ۳- بیوی کی لونڈی کے ساتھ زنا کرنے والے کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ سے مروی ہے جن میں علی اور ابن عمر بھی شامل ہیں کہ اس پر رجم واجب ہے، ابن مسعود کہتے ہیں: اس پر کوئی حد نہیں ہے، البتہ اس کی تادیبی سزا ہو گی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا مسلک اس (حدیث) کے مطابق ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بواسطہ نعمان بن بشیر آئی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف)
وضاحت: ۱؎ : گویا قتادہ نے یہ حدیث حبیب بن سالم سے نہیں سنی ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، حَدَّثَنَا مُعَمَّرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ، عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ، عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " اسْتُكْرِهَتِ امْرَأَةٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَرَأَ عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدَّ، وَأَقَامَهُ عَلَى الَّذِي أَصَابَهَا، وَلَمْ يُذْكَرْ أَنَّهُ جَعَلَ لَهَا مَهْرًا "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِمُتَّصِلٍ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: سَمِعْت مُحَمَّدًا، يَقُولُ: عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ، وَلَا أَدْرَكَهُ، يُقَالُ: إِنَّهُ وُلِدَ بَعْدَ مَوْتِ أَبِيهِ بِأَشْهُرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، أَنْ لَيْسَ عَلَى الْمُسْتَكْرَهَةِ حَدٌّ.
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی زنا کیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حد سے بری کر دیا اور زانی پر حد جاری کی، راوی نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ آپ نے اسے کچھ مہر بھی دلایا ہو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، اس کی اسناد متصل نہیں ہے، ۲- یہ حدیث دوسری سند سے بھی آئی ہے، ۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے ہوئے سنا: عبدالجبار بن وائل بن حجر کا سماع ان کے باپ سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے اپنے والد کا زمانہ نہیں پایا ہے، کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے والد کی موت کے کچھ مہینے بعد پیدا ہوئے، ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے کہ جس سے جبراً زنا کیا گیا ہو اس پر حد واجب نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحدود ۳۰ (۲۵۹۸) (ضعیف) (نہ تو ’’ حجاج بن ارطاة ‘‘ نے ’’ عبدالجبار ‘‘ سے سنا ہے، نہ ہی ’’ عبدالجبار ‘‘ نے اپنے باپ سے سنا ہے، یعنی سند میں دو جگہ انقطاع ہے، لیکن یہ مسئلہ اگلی حدیث سے ثابت ہے)
وضاحت: ۱؎ : لیکن دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جماع کے بدلے اس عورت کو کچھ دلایا بھی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِيِّ، عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرِيدُ الصَّلَاةَ، فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَهَا، فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا، فَصَاحَتْ، فَانْطَلَقَ، وَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ، فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا، فَانْطَلَقُوا، فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَتَوْهَا، فَقَالَتْ: نَعَمْ هُوَ هَذَا، فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ لِيُرْجَمَ، قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَا صَاحِبُهَا، فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا، وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا: ارْجُمُوهُ، وَقَالَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ، وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ، وَعَبْدُ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: "تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے ۲؎" اور آپ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا: "اسے رجم کرو"، آپ نے یہ بھی فرمایا: "اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۷ (۴۳۷۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۷۷) ، و مسند احمد (۶/۳۹۹) (حسن) (اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا، دیکھئے: الصحیحہ رقم ۹۰۰)
وضاحت: ۱؎ : حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا ، عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔ ۲؎ : کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔ ۳؎ : یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے ، کیونکہ یہ بےقصور تھا۔ ۴؎ : چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا ، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ وَقَعَ عَلَى بَهِيمَةٍ فَاقْتُلُوهُ وَاقْتُلُوا الْبَهِيمَةَ "، فَقِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: مَا شَأْنُ الْبَهِيمَةِ ؟ قَالَ: مَا سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ: " أَرَى رَسُولَ اللَّهِ كَرِهَ أَنْ يُؤْكَلَ مِنْ لَحْمِهَا، أَوْ يُنْتَفَعَ بِهَا، وَقَدْ عُمِلَ بِهَا ذَلِكَ الْعَمَلُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس آدمی کو جانور کے ساتھ وطی (جماع) کرتے ہوئے پاؤ تو اسے قتل کر دو اور(ساتھ میں) جانور کو بھی قتل کر دو"۔ عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے پوچھا گیا: جانور کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ نہیں سنا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ جس جانور کے ساتھ یہ برا فعل کیا گیا ہو، اس کا گوشت کھانے اور اس سے فائدہ اٹھانے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند سمجھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عمرو بن ابی عمرو کی حدیث کو جسے وہ بطریق: «عكرمة عن ابن عباس عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کرتے ہیں۔ ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۲۹ (۳۰۶۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۳ (۴۴۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۶۱۷۶) ، و مسند احمد (۱/۲۶۹، ۳۰۰ (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی عاصم کی روایت جو ابن عباس سے موقوف ہے یہ زیادہ صحیح ہے عمرو بن ابی عمرو کی روایت سے جو اس سے پہلے مذکور ہوئی ہے۔ ۲؎ : یعنی ان کا عمل عاصم کی موقوف روایت پر ہے کہ جانور سے وطی کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔
وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي رُزَيْنٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ أَتَى بَهِيمَةً فَلَا حَدَّ عَلَيْهِ "، حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وَهَذَا أَصَحُّ مِنَ الْحَدِيثِ الْأَوَّلِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
اور سفیان ثوری نے بطریق: «عاصم عن أبي رزين عن ابن عباس» (موقوفاً عليه) روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: جانور سے «وطی» (جماع) کرنے والے پر کوئی حد نہیں ہے۔ ہم سے اس حدیث کو محمد بن بشار نے بسند «عبدالرحمٰن بن مهدي حدثنا سفيان الثوري» بیان کیا اور یہ ۱؎ پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے ۲؎، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ مالمؤلف و انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۶۴۵۴) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ يَعْمَلُ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، فَاقْتُلُوا الْفَاعِلَ، وَالْمَفْعُولَ بِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ جَابِرٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَرَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، فَقَالَ: مَلْعُونٌ مَنْ عَمِلَ عَمَلَ قَوْمِ لُوطٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ الْقَتْلَ، وَذَكَرَ فِيهِ مَلْعُونٌ مَنْ أَتَى بَهِيمَةً، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " اقْتُلُوا الْفَاعِلَ وَالْمَفْعُولَ بِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ مَقَالٌ، وَلَا نَعْرِفُ أَحَدًا رَوَاهُ عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، غَيْرَ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ الْعُمَرِيِّ، وَعَاصِمُ بْنُ عُمَرَ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي حَدِّ اللُّوطِيِّ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنَّ عَلَيْهِ الرَّجْمَ أَحْصَنَ أَوْ لَمْ يُحْصِنْ، وَهَذَا قَوْلُ مَالِكٍ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ فُقَهَاءِ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ، وَإِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ، وَعَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ، وَغَيْرُهُمْ قَالُوا: حَدُّ اللُّوطِيِّ حَدُّ الزَّانِي، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم لوگ جسے قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول(بدفعلی کرنے اور کرانے والے) دونوں کو قتل کر دو ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث بواسطہ ابن عباس رضی الله عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اسی سند سے جانی جاتی ہے، محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو عمرو بن ابی عمرو سے روایت کیا ہے، (لیکن اس میں ہے) آپ نے فرمایا: "قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) کرنے والا ملعون ہے"، راوی نے اس حدیث میں قتل کا ذکر نہیں کیا، البتہ اس میں یہ بیان ہے کہ جانور سے وطی (جماع) کرنے والا ملعون ہے"، اور یہ حدیث بطریق: «عاصم بن عمر عن سهيل بن أبي صالح عن أبيه عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی گئی ہے۔ (اس میں ہے کہ) آپ نے فرمایا: "فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو"، ۲- اس حدیث کی سند میں کلام ہے، ہم نہیں جانتے کہ اسے سہیل بن ابی صالح سے عاصم بن عمر العمری کے علاوہ کسی اور نے روایت کیا ہے اور عاصم بن عمر کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴-اغلام بازی (بدفعلی) کرنے والے کی حد کے سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والا شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ اس کی سزا رجم ہے، مالک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۵- فقہاء تابعین میں سے بعض اہل علم نے جن میں حسن بصری، ابراہیم نخعی اور عطا بن ابی رباح وغیرہ شامل ہیں کہتے ہیں: بدفعلی کرنے والے کی سزا زانی کی سزا کی طرح ہے، ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الحدود ۲۹ (۴۴۶۲) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۳ (۲۵۶۱) (تحفة الأشراف : ۶۱۷۶) ، و مسند احمد (۱/۲۶۹، ۳۰۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس میں کوئی شک نہیں کہ اغلام بازی امور معصیت کے کاموں میں سے ہلاکت خیزی کے اعتبار سے سب سے خطرناک کام ہے اور فساد و بگاڑ کے اعتبار سے کفر کے بعد اسی کا درجہ ہے ، اس کی تباہ کاری بسا اوقات قتل کی تباہ کاریوں سے کہیں بڑھ کر ہوتی ہے ، قوم لوط سے پہلے عالمی پیمانہ پر کوئی دوسری قوم اس فحش عمل میں ملوث نہیں پائی گئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ یہ قوم مختلف قسم کے عذاب سے دوچار ہوئی ، چنانچہ یہ اپنی رہائش گاہوں کے ساتھ پلٹ دی گئی اور زمین میں دھنسنے کے ساتھ آسمان سے نازل ہونے والے پتھروں کا شکار ہوئی ، اسی لیے جمہور علماء کا کہنا ہے کہ اس کی سزا زنا کی سزا سے کہیں سخت ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الْوَاحِدِ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلٍ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرًا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي عَمَلُ قَوْمِ لُوطٍ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عُقَيْلِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، عَنْ جَابِرٍ.
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مجھے اپنی امت کے بارے میں جس چیز کا سب سے زیادہ خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (اغلام بازی) ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور ہم اسے صرف اسی سند «عن عبد الله بن محمد بن عقيل بن أبي طالب عن جابر»سے ہی جانتے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۲ (۲۵۶۳) ، (تحفة الأشراف : ۲۳۶۷) (حسن)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ عَلِيًّا حَرَّقَ قَوْمًا ارْتَدُّوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَقَتَلْتُهُمْ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ "، وَلَمْ أَكُنْ لِأُحَرِّقَهُمْ، لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ "، فَبَلَغَ ذَلِكَ عَلِيًّا، فَقَالَ: صَدَقَ ابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْمُرْتَدِّ، وَاخْتَلَفُوا فِي الْمَرْأَةِ إِذَا ارْتَدَّتْ عَنِ الْإِسْلَامِ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: تُقْتَلُ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: تُحْبَسُ، وَلَا تُقْتَلُ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَغَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ.
عکرمہ سے روایت ہے کہ علی رضی الله عنہ نے کچھ ایسے لوگوں کو زندہ جلا دیا جو اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، جب ابن عباس رضی الله عنہما کو یہ بات معلوم ہوئی ۱؎ تو انہوں نے کہا: اگر (علی رضی الله عنہ کی جگہ) میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "جو اپنے دین (اسلام) کو بدل ڈالے اسے قتل کرو"، اور میں انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "اللہ کے عذاب خاص جیسا تم لوگ عذاب نہ دو"، پھر اس بات کی خبر علی رضی الله عنہ کو ہوئی تو انہوں نے کہا: ابن عباس رضی الله عنہما نے سچ کہا ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح حسن ہے، ۲- مرتد کے سلسلے میں اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۳- جب عورت اسلام سے مرتد ہو جائے تو اس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے: اسے قتل کیا جائے گا، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے، ۴- اور اہل علم کی دوسری جماعت کہتی ہے: اسے قتل نہیں بلکہ قید کیا جائے گا، سفیان ثوری اور ان کے علاوہ بعض اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجہاد ۱۴۹ (۳۰۱۷) ، والمرتدین ۲ (۶۹۲۲) ، سنن ابی داود/ الحدود ۱ (۴۳۵۱) ، سنن النسائی/المحاربة ۱۴ (۴۰۶۵) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۲ (۲۵۳۵) (تحفة الأشراف : ۵۹۸۷) ، و مسند احمد (۱/۲۸۲، ۲۸۳، ۳۲۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما علی رضی الله عنہ کی جانب سے اس وقت بصرہ کے گورنر تھے۔ ۲؎ : جو شخص اسلام میں داخل ہو گیا اور اسے اچھی طرح پہچاننے کے بعد پھر اس سے مرتد ہو گیا تو اس کا کفر اسلام نہ لانے والے کافر سے بڑھ کر ہے ، اس لیے ایسے شخص کی سزا قتل ہے اور یہ سزا حدیث رسول «من بدل دينه فاقتلوه» کے مطابق سب کے لیے عام ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ «واللہ اعلم»
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَأَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا "، قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ الزُّبَيْرِ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَسَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي مُوسَى، حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو ہمارے خلاف ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے" ۱؎۔ اس باب میں ابن عمر، ابن زبیر، ابوہریرہ اور سلمہ بن الاکوع رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الفتن ۷ (۷۰۷۱) ، صحیح مسلم/الإیمان ۴۲ (۱۰۰) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۹ (۲۵۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۰۴۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : مسلمانوں کے خلاف ناحق ہتھیار اٹھانے والا اگر اسے حلال سمجھ کر ان سے صف آرا ہے تو اس کے کافر ہونے میں کسی کو شبہ نہیں اور اگر اس کا یہ عمل کسی دنیاوی طمع و حرص کی بناء پر ہے تو اس کا شمار باغیوں میں سے ہو گا اور اس سے قتال جائز ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَدُّ السَّاحِرِ ضَرْبَةٌ بِالسَّيْفِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ الْمَكِّيُّ، يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِبَلِ حِفْظِهِ، وَإِسْمَاعِيل بْنُ مُسْلِمٍ الْعَبْدِيُّ الْبَصْرِيُّ، قَالَ وَكِيعٌ: هُوَ ثِقَةٌ، وَيُرْوَى عَنْ الْحَسَنِ أَيْضًا، وَالصَّحِيحُ عَنْ جُنْدَبٍ مَوْقُوفٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا يُقْتَلُ السَّاحِرُ إِذَا كَانَ يَعْمَلُ فِي سِحْرِهِ مَا يَبْلُغُ بِهِ الْكُفْرَ، فَإِذَا عَمِلَ عَمَلًا دُونَ الْكُفْرِ، فَلَمْ نَرَ عَلَيْهِ قَتْلًا.
جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جادوگر کی سزا تلوار سے گردن مارنا ہے"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن سے بھی مروی ہے، اور صحیح یہ ہے کہ جندب سے موقوفاً مروی ہے۔ ۲- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے مرفوع جانتے ہیں، ۳- اسماعیل بن مسلم مکی اپنے حفظ کے تعلق سے حدیث بیان کرنے میں ضعیف ہیں، اور اسماعیل بن مسلم جن کی نسبت عبدی اور بصریٰ ہے وکیع نے انہیں ثقہ کہا ہے۔ ۴- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم صحابہ اور کچھ دوسرے لوگوں کا اسی پر عمل ہے، مالک بن انس کا یہی قول ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں: جب جادوگر کا جادو حد کفر تک پہنچے تو اسے قتل کیا جائے گا اور جب اس کا جادو حد کفر تک نہ پہنچے تو ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا قتل نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۲۶۹) (ضعیف) (سند میں ’’ اسماعیل بن مسلم ‘‘ ضعیف ہیں جیسا کہ مؤلف نے خود صراحت کر سنن الدارمی/ ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو السَّوَّاقُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ وَجَدْتُمُوهُ غَلَّ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَاحْرِقُوا مَتَاعَهُ "، قَالَ صَالِحٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى مَسْلَمَةَ، وَمَعَهُ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَوَجَدَ رَجُلًا قَدْ غَلَّ، فَحَدَّثَ سَالِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُحْرِقَ مَتَاعُهُ، فَوُجِدَ فِي مَتَاعِهِ مُصْحَفٌ، فَقَالَ سَالِمٌ: بِعْ هَذَا وَتَصَدَّقْ بِثَمَنِهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا الْحَدِيثُ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: إِنَّمَا رَوَى هَذَا صَالِحُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَائِدَةَ وَهُوَ: أَبُو وَاقِدٍ اللَّيْثِيُّ، وَهُوَ مُنْكَرُ الْحَدِيثِ، قَالَ مُحَمَّدٌ: وَقَدْ رُوِيَ فِي غَيْرِ حَدِيثٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْغَالِّ، فَلَمْ يَأْمُرْ فِيهِ بِحَرْقِ مَتَاعِهِ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.
عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو اللہ کی راہ میں مال (غنیمت) میں خیانت کرتے ہوئے پاؤ اس کا سامان جلا دو"۔ صالح کہتے ہیں: میں مسلمہ کے پاس گیا، ان کے ساتھ سالم بن عبداللہ تھے تو مسلمہ نے ایک ایسے آدمی کو پایا جس نے مال غنیمت میں خیانت کی تھی، چنانچہ سالم نے (ان سے) یہ حدیث بیان کی، تو مسلمہ نے حکم دیا پھر اس (خائن) کا سامان جلا دیا گیا اور اس کے سامان میں ایک مصحف بھی پایا گیا تو سالم نے کہا: اسے بیچ دو اور اس کی قیمت صدقہ کر دو۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: اسے صالح بن محمد بن زائدہ نے روایت کیا ہے، یہی ابوواقد لیثی ہے، یہ منکرالحدیث ہے، ۳- بخاری کہتے ہیں کہ مال غنیمت میں خیانت کرنے والے کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسری احادیث بھی آئی ہیں، آپ نے ان میں اس (خائن) کے سامان جلانے کا حکم نہیں دیا ہے، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا یہی قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۱۴۵ (۲۷۱۳) ، (تحفة الأشراف : ۶۷۶۳) ، سنن الدارمی/السیر ۴۹ (۲۵۳۷) (ضعیف) (سند میں ’’ صالح بن محمد بن زائدہ ‘‘ ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ إِسْمَاعِيل بْنِ أَبِي حَبِيبَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِذَا قَالَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: يَا يَهُودِيُّ، فَاضْرِبُوهُ عِشْرِينَ، وَإِذَا قَالَ: يَا مُخَنَّثُ، فَاضْرِبُوهُ عِشْرِينَ، وَمَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ، فَاقْتُلُوهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ إِسْمَاعِيل يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ رَوَاهُ الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ، وَقُرَّةُ بْنُ إِيَاسٍ الْمُزَنِيُّ، أَنَّ رَجُلًا تَزَوَّجَ امْرَأَةَ أَبِيهِ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَتْلِهِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَصْحَابِنَا، قَالُوا: مَنْ أَتَى ذَاتَ مَحْرَمٍ وَهُوَ يَعْلَمُ فَعَلَيْهِ الْقَتْلُ، وقَالَ أَحْمَدُ: مَنْ تَزَوَّجَ أُمَّهُ قُتِلَ، وقَالَ إِسْحَاق: مَنْ وَقَعَ عَلَى ذَاتِ مَحْرَمٍ قُتِلَ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب کوئی آدمی دوسرے کو یہودی کہہ کر پکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اور جب مخنث (ہجڑا) کہہ کر پکارے تو اسے بیس کوڑے لگاؤ، اور جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کر دو"۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف اسی سند سے جانتے ہیں، ۲- ابراہیم بن اسماعیل بن علیہ حدیث کی روایت میں ضعیف ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کئی سندوں سے مروی ہے، ۴- براء بن عازب اور قرہ بن ایاس مزنی سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا، ۵- ہمارے اصحاب (محدثین) کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ کہتے ہیں: جو جانتے ہوئے کسی محرم کے ساتھ زنا کرے تو اس پر قتل واجب ہے، ۶- (امام) احمد کہتے ہیں: جو اپنی ماں سے نکاح کرے گا اسے قتل کیا جائے گا، ۷- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: جو کسی محرم کے ساتھ زنا کرے اسے قتل کیا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الحدود ۱۵ (۲۵۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۶۰۷۵) (ضعیف) (سند میں ’’ ابراہیم بن اسماعیل ‘‘ ضعیف راوی ہیں)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُجْلَدُ فَوْقَ عَشْرِ جَلَدَاتٍ، إِلَّا فِي حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، وَقَدِ اخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي التَّعْزِيرِ، وَأَحْسَنُ شَيْءٍ رُوِيَ فِي التَّعْزِيرِ، هَذَا الْحَدِيثُ، قَالَ: وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ ابْنُ لَهِيعَةَ، عَنْ بُكَيْرٍ، فَأَخْطَأَ فِيهِ، وَقَالَ: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ خَطَأٌ، وَالصَّحِيحُ حَدِيثُ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، إِنَّمَا هُوَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوبردہ بن نیار رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "دس سے زیادہ کسی کو کوڑے نہ لگائے جائیں ۱؎ سوائے اس کے کہ اللہ کی حدود میں سے کوئی حد جاری کرنا ہو" ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف بکیر بن اشج کی روایت سے جانتے ہیں۔ ۲-تعزیر کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے، تعزیر کے باب میں یہ حدیث سب سے اچھی ہے، ۳- اس حدیث کو ابن لہیعہ نے بکیر سے روایت کیا ہے، لیکن ان سے اس سند میں غلطی ہوئی ہے، انہوں نے سند اس طرح بیان کی ہے: «عن عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد الله عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» حالانکہ یہ غلط ہے، صحیح لیث بن سعد کی حدیث ہے، اس کی سند اس طرح ہے: «عبدالرحمٰن بن جابر بن عبد الله عن أبي بردة بن نيار عن النبي صلى الله عليه وسلم»۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحدود ۴۲ (۶۸۴۸) ، صحیح مسلم/الحدود ۹ (۱۷۰۸) ، سنن ابی داود/ الحدود ۳۹ (۴۴۹۱) ، سنن ابن ماجہ/الحدود ۳۲ (۲۶۰۱) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۷۲۰) ، و مسند احمد (۳/۴۶۶) ، سنن الدارمی/الحدود ۱۱ (۲۳۶۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے کا صحیح محل یہ ہے کہ یہ بال بچوں اور غلام و خادم کی تادیب سے متعلق ہے کہ آدمی اپنے زیر لوگوں کو ادب سکھائے تو دس کوڑے تک کی سزا دے ، رہ گئی دوسری وہ خطائیں جن میں شریعت نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے جیسا کہ خائن ، لٹیرے ، ڈاکو اور اچکے پر خاص حد نہیں ہے تو یہ حاکم کی رائے پر منحصر ہے ، اگر حاکم اس میں تعزیراً سزا دینا چاہے تو دس کوڑے سے زیادہ جتنا چاہے حتیٰ کہ قتل تک سزا دے سکتا ہے ، رہ گئی زیر نظر حدیث تو اس میں اور یہ ایسے تادیبی امور ہیں جن کا تعلق معصیت سے نہیں ہے ، مثلاً والد کا اپنی چھوٹی اولاد کو بطور تأدیب سزا دینا۔ ۲؎ : ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اس حدیث میں حدود سے مراد ایسے حقوق ہیں جن کا تعلق اوامر الٰہی اور منہیات الٰہی سے ہے ، چنانچہ «ومن يتعد حدود الله فأولئك هم الظالمون» (البقرة : ۲۲۹)اسی طرح «تلك حدود الله فلا تقربوها» (البقرة : ۱۸۷)میں "حدود" کا یہی مفہوم ہے۔ اگر بات شریعت کے اوامر و نواہی کی ہو تو حاکم کو مناسب سزاؤں کے اختیار کی اجازت ہے۔