حدود حد کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع نیز اس چیز کو بھی حد کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اصطلاح شریعت میں حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں جیسے چوری، زنا،شراب نوشی کی سزائیں۔ لفظ حد کے اصل معنی ممنوع یا حائل اگر پیش نظر ہوں تو واضح ہو گا کہ شرعی سزاؤں کو حدود اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔
حدود اللہ محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا) اسی طرح مقادیر شرعی یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا وغیرہ کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی حدود کا اطلاق اصل معنی ممنوع ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح و خلوت) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔
شرعی قانون نے جرم و سزاء کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔
(١) وہ سزائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعین کر دیا ہے مگر ان کے اجزاء کو خود بندوں پر چھوڑ دیا ہے ان میں کسی خارجی طاقت جیسے حاکم یا حکومت کو دخل انداز ہونے کا حکم نہیں ہے،شریعت نے اس طرح کی سزا کا نام کفارہ رکھا ہے جیسے قسم کی خلاف ورزی یا رمضان میں بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کا نام کفارہ !
(٢) وہ سزائیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں، ان سزاؤں کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر ان میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے چوری، زنا، اور شراب نوشی کی سزائیں۔
(٣) وہ سزائیں جنہیں کتاب و سنت نے متعین تو نہیں کیا ہے مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ حاکم یا حکومت کے سپرد کر دیا ہے کہ وہ موقع و محل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں تعزیر کہلاتی ہے۔
حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں عقوبت ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کر سکتا، اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ بندہ اس میں تصرف کر سکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کر سکتا ہے اور موقع و محل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر و تبدل بھی کر سکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔
چونکہ قصاص بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کر سکتا ہے اس لئے اس کو بھی حد نہیں کہا جاتا۔
حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید ابن خالد کہتے ہیں ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں دو آدمی اپنا قضیہ لے کر آئے، ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق حکم کیجئے دوسرے نے بھی عرض کیا کہ ہاں، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے درمیان کتاب اللہ کے موافق حکم کیجئے اور مجھے اجازت دیجئے کہ میں بیان کروں کہ قضیہ کی صورت کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیان کرو اس شخص نے بیان کیا کہ میرا بیٹا اس شخص کے ہاں مزدور تھا اس نے اس کی بیوی سے زنا کیا، لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تمہارے بیٹے کی سزا سنگساری ہے لیکن میں نے اس کو سنگسار کرنے کے بدلے میں سو بکریاں اور ایک لونڈی دے دی، پھر جب میں نے اس بارے میں علماء سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ تمہارا بیٹا چونکہ محصن یعنی شادی شدہ نہیں ہے اسی لئے اس کو سزا سو کوڑے ہیں اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اس شخص کی عورت کی سزا سنگساری ہے کیونکہ وہ شادی شدہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ قصہ سن کر فرمایا کہ آگاہ ! قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے ہاتھ یعنی قبضہ قدرت میں میری جان ہے میں تمہارے درمیان کتاب اللہ ہی کے موافق فیصلہ کروں گا تو سنو کہ تمہاری بکریاں اور تمہاری لونڈی تمہیں واپس مل جائے گی اور اگر خود ملزم کے اقرار یا چار گواہوں کی شہادت سے زنا کا جرم ثابت ہے تو تمہارے بیٹے کو سو کوڑوں کی سزا دی جائے گی اور ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے گا پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت انیس کو فرمایا کہ انیس تم اس شخص کی عورت کے پاس جاؤ اگر وہ زنا کا اقرار کر لے تو اس کو سنگسار کر دو چنانچہ اس عورت نے زنا کا اقرار کر لیا اور حضرت انیس نے اس کو سنگسار کر دیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
کتاب اللہ سے مراد قرآن کریم نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم مراد ہے کیونکہ قرآن کریم میں رجم و سنگساری کا حکم مذکور نہیں ہے، لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ کتاب اللہ سے قرآن کریم ہی مراد ہو اس صورت میں کہا جائے گا کہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ آیت رجم کے الفاظ قرآن کریم سے منسوخ التلاوت نہیں ہوئے تھے۔
ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے گا کے بارے میں حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ ایک سال کی جلا وطنی بھی حد میں داخل ہے یعنی ان کے نزدیک غیر شدہ زنا کار کی حد شرعی سزا یہ ہے کہ اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن بھی کر دیا جائے جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ ایک سال کی جلاوطنی کے حکم کو مصلحت پر محمول فرماتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ ایک سال کی جلاوطنی حد کے طور پر نہیں ہے بلکہ بطور مصلحت ہے کہ اگر امام وقت اور حکومت کسی سیاسی اور حکومتی مصلحت کے پیش نظر ضروری سمجھے تو ایک سال کے لئے جلا وطن بھی کیا جا سکتا ہے، بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ابتداء اسلام میں یہی حکم نافذ جاری تھا مگر جب یہ آیت کریمہ (اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ) 24۔ النور:2) (یعنی زانی اور زانیہ کو کوڑے مارے جائیں اور ان دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارے جائیں) نازل ہوئی تو یہ حکم منسوخ ہو گیا۔
(فاعترفت فرجمہا) چنانچہ اس عورت نے اقرار کیا اور حضرت انیس نے اس کو سنگسار کر دیا اس سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حد زنا کے جاری ہونے کے لئے ایک مرتبہ اقرار کرنا کافی ہے جیسا کہ امام شافعی کا مسلک ہے لیکن امام ابو حنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ چار مجلسوں میں چار بار اقرار کرنا ضروری ہے، یہاں حدیث میں جس اقرار کا ذکر کیا گیا ہے اس سے امام اعظم وہی اقرار یعنی چار مرتبہ مراد لیتے ہیں جو اس سلسلہ میں معتبر و مقرر ہے چنانچہ دوسری احادیث سے یہ صراحتہً ثابت ہے کہ چار مرتبہ اقرار کرنا ضروری ہے۔
اور حضرت زید ابن خالد کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو غیر محصن کے بارے میں یہ حکم دیتے ہوئے سنا ہے کہ اس کو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کیا جائے۔ (بخاری)
تشریح
محصن اس عاقل بالغ مسلمان کو کہتے ہیں جس کی شادی ہو چکی ہو اور اپنی بیوی سے ہم بستری کر چکا ہو غیر محصن اگر زنا کا مرتکب ہو تو اس کی سزا اس حدیث کے مطابق سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے،جلا وطنی کے بارے میں جو تفصیل ہے وہ پہلے بیان ہو چکی۔ کوڑے مارنے کے سلسلہ میں یہ حکم ہے کہ سر، منہ، اور ستر پر کوڑے نہ مارے جائیں۔
اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو حق کے ساتھ بھیجا اور ان پر اپنی کتاب نازل کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب میں جو کچھ نازل کیا ہے اس میں آیت رجم بھی ہے۔ اور کتاب اللہ میں اس شخص کو رجم کرنے کا حکم ثابت ہے جو محصن ہونے کے باوجود زنا کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو اور یہ رجم کی سزا اس وقت دی جائے گی،جب کہ زنا کا جرم گواہوں کے ذریعہ یا حمل کے ذریعہ اور یا اعتراف و اقرار کے ذریعہ ثابت ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اوپر کی حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی تھی جو غیر محصن ہو، اس حدیث میں اس زانی کی سزا بیان کی گئی ہے جو محصن ہو، محصن کی وضاحت اوپر کی حدیث کے ضمن میں کی جاچکی ہے چنانچہ جو شخص محصن ہونے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور اس کا جرم ثابت ہو جائے اس کی سزا رجم یعنی سنگساری ہے کہ اس شخص کو پتھروں سے مار مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
جس آیت سے رجم کا حکم ثابت ہے وہ پہلے قرآن کریم میں موجود تھی لیکن بعد میں اس کی تلاوت منسوخ ہو گئی یعنی اس کے الفاظ قرآن میں باقی نہیں رکھے گئے لیکن ان کا حکم بحالہ باقی رہا، وہ آیت یہ ہے۔
(الشیخ والشیخۃ اذا زنیا فرجموہما البتۃ نکالا من اللہ واللہ عزیز حکیم)۔
حدیث کے آخر میں زنا کے ثبوت جرم کے لئے تین چیزوں میں سے کسی ایک چیز کو ضروری قرار دیا گیا ہے یعنی (١) گواہ (٢) حمل (٣) اقرار، ان تینوں میں سے حمل کا تعلق اس عورت سے ہے جو بغیر خاوند والی ہو لیکن اس کا حکم بھی منسوخ ہو گیا ہے، گواہوں اور اقرار کا حکم جوں کا توں ہے کہ محصن زانی کو اسی وقت رجم (سنگسار) کیا جائے گا جب کہ اس کا جرم یا تو گواہوں کے ذریعہ ثابت ہو یا وہ خود اپنے جرم کا اعتراف و اقرار کرے۔
اور حضرت عبادہ ابن صامت راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا زانیہ کے بارے میں مجھ سے یہ حکم حاصل کرو، مجھ سے یہ حکم حاصل کرو کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقرر کر دی ہے، جو غیر محصن مرد کسی غیر محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے۔ اور جو محصن مرد کسی محصنہ عورت سے زنا کرے تو سو کوڑے مارے جائیں اور سنگسار کیا جائے۔ (مسلم)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے راہ مقر کر دی ہے یہ دراصل اس آیت کریمہ (اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلاً) 4۔ النساء:15) کی وضاحت ہے۔
علامہ تورپشتی فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا جب زانی اور زانیہ کے لئے حد مشروع ہوئی تھی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد میں راہ سے مراد حد ہے جو اس سے پہلے تک مشروع نہیں تھی بلکہ اس بارے میں وہ حکم مشروع تھا جو آیت کریمہ میں مذکور ہے
(وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَاۗىِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْھُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰىھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللّٰهُ لَھُنَّ سَبِيْلاً)۔ 4۔ النساء:15)
تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بے حیائی کا کام کریں ان پر اپنے میں سے چار آدمیوں کو گواہ کر لو، سو اگر وہ گواہی دے دیں تو تم ان کو گھروں کے اندر مقید رکھو۔ یہاں تک کہ موت ان کا خاتمہ کر دے، یا اللہ تعالیٰ ان کے لئے کوئی راہ مقرر کر دے۔
حاصل یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اگر عورتیں زنا کی مرتکب ہوں اور گواہوں کے ذریعہ ان کا یہ جرم ثابت ہو جائے تو ان کو گھر میں قید کر دیا جائے یا تاآنکہ اسی قید کی حالت میں مر جائیں یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے کوئی راہ یعنی حد مقرر کی جائے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حد کا حکم نازل فرمایا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لئے یہ راہ یعنی حد مقرر فرما دی ہے اور پھر اس کے بعد آپ نے حد کی وضاحت فرمائی۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی محصن (شادی شدہ) زنا کا ارتکاب کرے تو اس کو سو کوڑے بھی مارے جائیں اور سنگسار بھی کیا جائے، چنانچہ علماء ظواہر نے اور صحابہ و تابعین میں سے بعض نے اس پر عمل کیا ہے جب کہ جمہور علماء کا یہ متفقہ فیصلہ ہے کہ جو زانی سنگسار کا مستوجب قرار پا چکا ہو اس کے حق میں سو کوڑے مارے جانے کا سزا کالعدم ہو گی یعنی اس کو صرف سنگسار کیا جائے گا۔ سو کوڑے نہیں مارے جائیں گے، کیونکہ یہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک شخص ماعز کو جو شادی شدہ ہونے کی باوجود زنا کے مرتکب قرار دئیے گئے تھے صرف سنگسار کیا تھا ان کو سو کوڑے مارنے کا حکم نہیں تھا، اسی طرح آگے آنے والی ایک حدیث میں ایک غامدیہ عورت کا جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے یا حضرت انیس کی جو حدیث پیچھے گزری ہے ان سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔
٭٭ اور حضرت عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ ایک دن یہودیوں کی ایک جماعت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے یہ بیان کیا کہ ان کی قوم میں سے ایک عورت اور ایک مرد نے جو دونوں محصن (یعنی شادی شدہ تھے) نے زنا کیا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے تورات میں رجم کے بارے میں کیا پڑھا ہے ؟ یہودیوں نے کہا کہ ہم زنا کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں اور ان کو کوڑے مارے جاتے ہیں ان کی یہ بات سن کر حضرت عبداللہ ابن سلام نے کہا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو، تورات میں بھی رجم کا حکم مذکور ہے تورات لاؤ میں تمہیں رجم کا حکم دکھاتا ہوں چنانچہ جب تورات لائی گئی اور اس کو کھولا گیا تو یہودیوں میں سے ایک شخص نے جھٹ سے اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کے بارے میں آیت تھی یعنی اس نے اپنے ہاتھوں سے رجم کی آیت کو چھپانے کی کوشش کی اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا یہ دیکھ کر حضرت عبداللہ بن سلام نے اس سے کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے، اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ دونوں سنگسار کر دیئے گئے۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عبداللہ بن سلام نے اس شخص سے (کہ جس نے رجم کی آیت کو اپنے ہاتھ کے نیچے چھپانے کی کوشش کی تھی) کہا کہ اپنا ہاتھ ہٹاؤ، اور پھر جب اس نے اپنا ہاتھ اٹھایا تو دیکھا گیا کہ وہاں رجم کی آیت موجود تھی، اس آیت کے نیچے کو چھپانے والے نے کہا کہ اے محمد ! تورات میں رجم کی آیت موجود ہے مگر ہم آپس میں آپس میں اس کو ظاہر نہیں کرتے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور سنگسار کر دیئے گئے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حضرت عبداللہ بن سلام پہلے یہودی تھے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو راہ ہدایت پر گامزن کیا اور وہ مسلمان ہو گئے ان کا شمار بڑے اونچے درجہ کے علماء یہود میں ہوتا تھا تورات پر عبور رکھتے تھے، چنانچہ مجلس نبوی میں جب یہودیوں نے اپنی روایتی تلبیس و تحریف سے کام لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ کہا کہ تورات میں زنا کے مرتکب کو سنگسار کرنے کا حکم نہیں ہے بلکہ ہم نے تورات میں یہ پڑھا ہے کہ جو شخص زنا کا ارتکاب کرے اس کو تعزیر کے ذریعہ ذلیل و رسوا کیا جائے اور کوڑے مارے جائیں تو حضرت عبداللہ ابن اسلام نے اس کی تکذیب کی اور یہ بتایا کہ تم یہ بات کہہ رہے ہو وہ سراسر تحریف ہے تورات میں رجم کا حکم موجود نہیں ہے اور پھر جب انہوں نے تورات منگائی اس میں مذکور رجم کی آیت دکھانی چاہی تو اس موقع پر بھی یہودیوں نے اپنی عیاری و مکاری دکھانی چاہی اور ان میں سے ایک شخص نے ایک روایت کے مطابق جس کا نام عبداللہ ابن صوریا تھا، اس جگہ اپنا ہاتھ رکھ دیا جہاں رجم کی آیت مذکور تھی۔ اور اس کے آگے پیچھے کی آیتیں پڑھنے لگا ! مگر عبداللہ بن سلام نے ان کی اس عیاری کا راز بھی طشت از بام کر دیا۔
اگر یہاں یہ اشکال پیدا ہو کہ رجم (سنگساری) کا سزاوار ہونے کے لئے محصن شادی شدہ ہونا شرط ہے اور محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے یعنی سنگساری کی سزا اسی زانی کو دی جا سکتی ہے جو محصن ہو اور محصن اطلاق اسی شخص پر ہو سکتا ہے جو مسلمان ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان یہودیوں کو جو مسلمان نہیں تھے رجم کا حکم کیوں دیا ؟
اس کا جواب ہے یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان یہود کو رجم کا جو حکم دیا وہ تورات کے حکم کے تحت تھا اور یہودیوں کے مذہب میں رجم کے سزاوار کے لئے محصن ہونا شرط نہیں تھا، پھر یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس بارے میں پہلے تورات کے حکم پر عمل کرتے تھے مگر جب قرآن میں اس کا حکم نازل ہو گیا تو تورات کا حکم منسوخ ہو گیا۔
اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ حضرت امام شافعی کے نزدیک محصن ہونے کے لئے مسلمان ہونا شرط نہیں ہے یعنی ان کے مسلک کے مطابق محصن کا اطلاق اس شادی شدہ آدمی پر بھی ہو سکتا ہے جو مسلمان نہ ہو نیز حنیفہ میں سے حضرت امام ابو یوسف کا بھی ایک قول یہی ہے۔
ایک اشکال یہ بھی پیدا ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے محض یہودیوں کے کہنے پر ان دونوں کو کیسے سنگسار کرا دیا کیونکہ یہودیوں کی گواہی سرے سے معتبر ہی نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ کیا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف ان یہودیوں کے کہنے پر ہی حکم نافذ کیا ہو، بلکہ بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یا تو خود ان دونوں نے زنا کا اقرار کیا ہو گا یا ان کے زنا کی چار مسلمانوں نے گواہی دی ہو گی اور اسی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں کو سنگسار کرایا ہو گا۔
اس موقع پر ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے یہاں اس کا خلاصہ نقل کیا گیا ہے اہل علم ان کی کتاب مرقات سے مراجعت کر سکتے ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسجد نبوی تشریف فرما تھے، اس شخص نے آواز دی یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا وہ شخص پھر اس سمت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا جدھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا منہ پھیرا تھا اور کہا کہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا، یہاں تک کہ جب اس نے اس طرح چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ کیا تو دیوانہ ہے ؟ اس نے کہا کہ نہیں ! پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کیا تو محصن ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں یا رسول اللہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اس شخص کو لے جاؤ اور اس کو سنگسار کر دو۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن شہاب کا بیان ہے کہ جس شخص نے اس حدیث کو حضرت جابر ابن عبداللہ سے سنا تھا، اس نے مجھے بتایا کہ حضرت جابر نے کہا کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس حکم کے بعد اس شخص کو مدینہ میں سنگسار کیا چنانچہ جب ہم نے اس کو پتھر مارنے شروع کئے اور اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ ہم نے اس کو حرہ میں جا کر پکڑا مدینہ کا وہ مضافاتی علاقہ جو کالے پتھروں والا تھا حرہ کہلاتا تھا اور پھر اس کو سنگسار کیا تا آنکہ وہ مر گیا۔ (بخاری و مسلم)
اور امام بخاری کی ایک اور روایت میں جو حضرت جابر سے منقول ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پوچھنے پر کہ کیا تو محصن ہے ؟ اس شخص کے جواب ہاں کے بعد یہ الفاظ ہیں کہ اس کے بعد آپ نے اس شخص کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چنانچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا جب اس کو پتھر لگنے لگے تو وہ بھاگ کھڑا ہوا مگر پھر پکڑ لیا گیا اور سنگسار کیا گیا یہاں تک کہ مر گیا اس کے مرنے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بھلائی بیان کی یعنی اس کی تعریف و توصیف کی اور اس کی نماز جنازہ پڑھی یا (وصلی علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے دعا کی۔
تشریح
اور اس نے چار مرتبہ اقرار کیا یعنی اس شخص نے چاروں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آ کر اپنے جرم کا اقرار کر کے اور گویا ہر دفعہ میں تبدیل مجلس کر کے اس طرح چار مجلسوں میں چار مرتبہ اپنے جرم کا اقرار کیا۔ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ نے اس کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے چہرہ مبارک کے سامنے چاروں طرف سے آ کر اقرار کرنے سے یہ استدلال کیا ہے کہ زنا کے ثبوت جرم کے لئے ملزم کا چار مجلسوں میں چار بار اقرار کرنا شرط ہے۔
کیا تو دیوانہ ہے؟ یعنی کیا تم پر دیوانگی طاری ہے کہ تم اپنے گناہ کا خود افشاء کر رہے ہو اور سنگساری کے ذریعہ خود اپنی ہلاکت کا باعث بن رہے ہو حالانکہ چاہئے تو یہ کہ تم خدا سے توبہ استغفار کرو اور آئندہ کے لئے ہر برائی سے بچنے کا پختہ عہد و عزم کرو۔ نووی فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کا مقصد اس شخص کے حال کی تحقیق تھا کیونکہ عام طور پر کوئی بھی انسان اپنے کسی بھی ایسے جرم و گناہ کے اقرار پر مصر نہیں ہوتا جس کی سزا میں اس کو موت کا منہ دیکھنا پڑے بلکہ وہ اسی میں اپنی راہ نجات دیکھتا ہے کہ اپنے جرم و گناہ پر شرمسار و نادم ہو کر خدا سے توبہ استغفار کرے اور اس کے ذریعہ اپنے گناہ کو ختم کرائے۔
حاصل یہ کہ یہ ارشاد جہاں اس بات کو واضح کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں مسلمان کی حالت کی تحقیق و تفتیش میں پوری پوری سعی کرنی چاہئے تا کہ فیصلہ میں کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہ رہے وہیں اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ کسی جرم کی سزا میں ایک مسلمان کی جان بچانے کے لئے اس کو جو بھی قانونی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہو اس سے صرف نظر نہ کیا جائے، نیز یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ اگر کوئی دیوانہ یہ کہے کہ میں نے زنا کیا ہے تو اس کا اقرار کا اعتبار نہیں ہو گا اور نہ اس پر حد جاری کی جائے گی۔
کیا تو محصن ہے ؟ امام نووی فرماتے ہیں کہ اس جملہ میں اس طرف اشارہ ہے کہ امام وقت یا قاضی پر لازم ہے کہ وہ ان چیزوں کے بارے میں تحقیق کر لے جو سزائے رجم (سنگساری) کے نفاذ کے لئے شرط ہیں جیسے محصن ہونا وغیرہ، خواہ زنا کا جرم خود اس کے اقرار سے ثابت ہو چکا ہو یا گواہوں کے ذریعہ ثابت کیا گیا ہو، نیز اس ارشاد سے کنایۃً یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایسا شخص اپنے اقرار سے رجوع کر لے تو اس کو معافی دے کر زنا کی حد ساقط کر دی جائے۔
وہ بھاگ کھڑا ہوا۔ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کسی مرد کو کسی بھی حد یا تعزیر میں مارا جائے تو کھڑا کر کے مارا جائے لٹکا کر نہ مارا جائے اور عورت کو بٹھا کر مارا جائے بلکہ اگر کسی عورت کو رجم کی سزا دی جا رہی ہو تو بہتر ہے کہ ایک گڑھا کھود کر اس میں اس کو (سینہ تک ) گاڑ کر سنگسار کیا جائے کیونکہ اس میں اس کے ستر (پردہ پوشی) کی زیادہ رعایت ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے غامدیہ کے لئے گڑھا کھدوایا تھا۔
یہاں تک کہ ہم نے اس کو حرہ میں جا کر پکڑا اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ اگر سنگسار کیا جانے والا سنگساری کے دوران بھاگ کھڑا ہو تو اس کا پیچھا نہ کیا جائے بشرطیکہ اس کے جرم زنا خود اس کے اقرار سے ثابت ہوا ہو اور اگر اس کا جرم زنا گواہوں کے ذریعہ ثابت ہوا ہو تو پھر اس کا پیچھا کیا جائے اور اس کو سنگسار کیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے کیونکہ اس کا بھاگنا دراصل اس کے رجوع (جرم سے انکار) کو ظاہر کرتا ہے اور یہ رجوع کار آمد نہیں ہو گا۔
نووی کہتے ہیں کہ علماء نے لکھا ہے کہ اس جملہ (فرجم بالمصلی) (چنانچہ اس کو عید گاہ میں سنگسار کیا گیا) میں مصلی سے مراد وہ جگہ ہے جہاں جنازے کی نماز پڑھی جاتی تھی، چنانچہ ایک روایت سے اس کی تائید ہوتی ہے۔
بخاری وغیرہ کہتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس جگہ جنازے اور عیدین کی نماز پڑھی جاتی ہو اگر اس کو مسجد قرار نہ دیا گیا ہو تو وہ جگہ مسجد کے حکم میں نہیں ہوتی کیونکہ جنازہ یا عیدین کی نماز پڑھنے کی جگہ کا وہی حکم ہوتا جو مسجد کا ہوتا ہم تو اس جگہ کو خون سے آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے اور اس کی تقدیس و احترام کے پیش نظر وہاں زانی کو سنگسار نہ کیا جاتا۔
علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ مسجد میں کسی پر کوئی حد جاری کی جائے اور نہ کسی کو کوئی تعزیر دی جائے کیونکہ اس پر تمام علماء کا اجماع و اتفاق ہے اور اس کی بنیاد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے۔
حدیث (قال جنبوا مساجد صبیانکم و مجانینکم ورفع اصواتکم وشرائکم وبیع واقامۃ حدودکم وجمروہا فی جمعکم وضعوا علی ابوابہا المطاہر)۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم اپنی مسجدوں کو اپنے بچوں سے، دیوانوں سے، شور مچانے سے، خرید وفروخت کرنے سے، اور حد قائم کرنے سے بچائے رکھو، اور جمعہ کے دن مسجدوں کو اگر کی دھونی دو نیز مسجدوں کے دروازوں پر طہارت (وضو) کی جگہ بناؤ۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ماعز ابن مالک، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس (مسجد نبی میں ) آئے اور کہا کہ مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ شائد تم نے اجنبیہ کا بوسہ لیا ہو گا، یا اس کو شہوت کے ساتھ چھوا ہو گا یا دیکھا ہو گا یعنی یہ چیزیں زنا کا باعث بنتی ہیں تم ان سے کوئی حرکت کر گزرے ہوں گے اور اب اسی کو زنا سے تعبیر کر رہے ہوں انہوں نے عرض کیا کہ نہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تم نے جماع کیا ہے۔ اور راوی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بات اشارے میں نہیں پوچھی بلکہ صاف لفظوں میں پوچھا کہ کیا واقعی تم نے زنا کیا ہے ؟ ماعز نے کہا ہاں میں نے جماع کیا ہے اس (تحقیق و تفتیش) کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز کو سنگسار کئے جانے کا حکم فرمایا۔ (بخاری)
اور حضرت بریدہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ماعز ابن مالک آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے یعنی (مجھ سے جو گناہ سر زد ہو گیا ہے اس کی حد جاری کر کے میرے گناہ کی معافی کا سبب بن جائے) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تجھ پر افسوس ہے واپس جا یعنی زبان کے ذریعہ استغفار کر اور دل سے توبہ کر راوی کہتے ہیں وہ چلا گیا اور تھوڑی دور جا کر پھر واپس آ گیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے وہی الفاظ فرمائے جو پہلے فرمائے تھے، چار مرتبہ اسی طرح ہوا اور (جب چوتھی بار ماعز نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ میں تجھے کس چیز سے اور کس وجہ سے پاک کروں ؟ اس نے کہا کہ (حد جاری کر کے) زنا کے گناہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا اس نے شراب پی رکھی ہے ؟ (یہ سن کر ایک شخص نے کھڑے ہو کر اس کا منہ سونگھا تا کہ معلوم ہو جائے کہ اس نے شراب پی رکھی ہے یا نہیں) لیکن شراب کی بو نہیں پائی گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر ماعز سے پوچھا کہ کیا (واقعی) تو نے زنا کیا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں ! اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا چنانچہ اس کو سنگسار کر دیا گیا دو یا تین روز اسی طرح گزر گئے یعنی مجلس نبوی میں ماعز کی سنگساری کے بارے میں دو تین دن تک کوئی ذکر نہیں ہوا پھر (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے تو فرمایا کہ تم لوگ ماعز کے درجات کی بلندی کے لئے دعا کرو بلا شبہ اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کے ثواب کو پوری امت پر تقسیم کیا جائے تو وہ سب کے لئے کافر ہو جائے، پھر اس کے بعد (ایک دن) ایک عورت جو قبیلہ ازد کے خاندان غامد میں سے تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے پاک کر دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تجھ پر افسوس ہے، واپس جا اور اللہ تعالیٰ سے استغفار توبہ کر۔ اس عورت نے عرض کیا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز ابن مالک کو پہلی دفعہ واپس کر دیا تھا اسی طرح مجھ کو بھی واپس کر دیں ؟ اور درآنحالیکہ (میں) وہ عورت (ہوں جو) زنا کے ذریعہ حاملہ ہے لہٰذا اس اقرار کے بعد میرے انکار کی گنجائش تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تو ! (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرح سے اپنے تغافل کو ظاہر کرنے اور اس کو اقرار زنا سے رجوع کرنے کا ایک اور موقع دینے کے لئے فرمایا کہ یہ تو کیا کہہ رہی ہے ؟ کیا زنا کے ذریعہ حاملہ ہے !) اس عورت نے اس کے باوجود اپنے اقرار پر اصرار کیا اور کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا تو اس وقت تک انتظار کر جب تک تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہو جائے۔ راوی کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کے بعد ایک انصاری نے اس عورت کی خبر گیری اور کفالت کا اس وقت تک کے لئے ذمہ لے لیا جب تک کہ وہ ولادت سے فارغ نہ ہو جائے اور پھر کچھ عرصہ کے بعد اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ غامدیہ عورت ولادت سے فارغ ہو گئی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ہم ابھی اس کو سنگسار نہیں کریں گے اور اس کمسن بچے کو اس حالت میں نہیں چھوڑیں گے کہ کوئی اس کو دودھ پلانے والا نہ ہو۔ یعنی اگر ہم نے اس کو ابھی سنگسار کر دیا تو اس کا بچہ جو شیر خوار اور بہت چھوٹا ہے ہلاک ہو جائے گا، کیونکہ اس کی ماں کے بعد اس کی خبر گیری کرنے والا کوئی نہیں ہے اس لئے ابھی اس کو سنگسار کرنا مناسب نہیں ہے) ایک اور انصاری (یہ سن کر) کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! اس بچہ کے دودھ پلانے اور اس کی خبر گیری کا میں ذمہ دار ہوں راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کی گئی)۔ ایک اور روایت میں یوں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت سے فرمایا کہ جا جب تک کہ تو ولادت سے فارغ نہ ہو جائے (انتظار کر) پھر جب وہ ولادت سے فارغ ہو گئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا جا اس بچہ کو دودھ پلا تا آنکہ تو اس کا دودھ چھڑائے اور پھر جب اس نے بچہ کا دودھ بھی چھڑا دیا تو اس بچہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئی اس وقت اس کے بچہ کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا، اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میں نے اس بچہ کا دودھ چھڑا دیا ہے یہ اب روٹی کھانے لگا ہے ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بچہ کو ایک مسلمان کے حوالے کیا اور اس عورت کے لئے حکم فرمایا کہ ایک گڑھا کھودا جائے جو اس کے سینہ تک کھودا جائے جب اس کے سینہ تک گڑھا کھود دیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کیا گیا اس کی سنگساری کے دوران جب حضرت خالد ابن ولید نے ایک پتھر اس کے سر پر مارا اور اس کے سر کا خون حضرت خالد کے منہ پر آ کر پڑا تو حضرت خالد اس کو برا بھلا کہنے لگے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ خالد ! اس کی بخشش ہو چکی ہے اس کو برا بھلا مت کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر توبہ (ناروا) ٹیکس لینے والا کرے تو اس کی مغفرت و بخشش ہو جائے۔ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں سے اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا چنانچہ پڑھی گئی اور وہ دفن کی گئی۔ (مسلم)
تشریح
بلاشبہ ماعز نے توبہ کی اس ارشاد کے ذریعہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز کی سعادت اور اس کی توبہ کی فضیلت کو ظاہر فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی ہے جو اس مغفرت اور رحمت کو لازم کرتی ہے جس کا دامن، مخلوق خدا کی ایک بہت بڑی جماعت پر سایہ فگن ہو سکتا ہے یہاں اقامت حد (حد کی قائم ہونے) کو توبہ اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ جس طرح توبہ کے ذریعہ گناہ دھل جاتے ہیں اسی طرح حد جاری ہونے سے بھی گناہ ختم ہو جاتا ہے۔
جب تک کہ تو اپنے بچہ کی ولادت سے فارغ نہ ہو جائے ابن مالک کہتے ہیں کہ اس ارشاد سے یہ معلوم ہوا کہ حاملہ جب تک کہ ولادت سے فارغ نہ ہو جائے اس پر حد قائم نہ کی جائے تا کہ ایک بے گناہ کو جو اس کے پیٹ میں ہے ہلاک کرنا لازم نہ آئے۔
میں نے اس کا دودھ چھڑا دیا ہے اس سے معلوم ہوا کہ زانیہ کو سنگسار کرنے میں اس وقت تک کی مہلت دی جائے جب تک کہ اس کا وہ بچہ جو اس کے زنا کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے اس سے مستغنی نہ ہو جائے بشرطیکہ اس کی پرورش اور دیکھ بھال کرنے والا اور کوئی نہ ہو، چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا یہی مسلک ہے۔
اگر ایسی توبہ (ناورا) ٹیکس لینے والا کرے اس سے معلوم ہوا کہ جو لوگ غیر شرعی طور پر اور نامناسب طریقوں سے لوگوں سے محصول ٹیکس وصول کرتے ہیں وہ بڑے گناہگار ہیں کیونکہ اس طرح کے محصول و ٹیکس وصول کرنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی شخص کا مال زور زبر دستی سے اور ظلم کر کے چھین لیا جائے۔
حدیث کے آخری جملہ میں لفظ صلی مسلم کے تمام راویوں سے صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ منقول ہے جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کی نماز جنازہ پڑھی تھی جب کہ طبری کے نزدیک اور ابن ابی شیبہ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ لفظ صاد کے پیش اور لام کے زیر یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ منقول ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کی نماز جنازہ دوسرے لوگوں نے پڑھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں پڑھی چنانچہ ابوداؤد کی روایت میں تو صراحت کے ساتھ یہ منقول ہے کہ (لم یصل علیہا) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس کی نماز جنازہ پڑھنے کا حکم دیا، اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں سنگسار کئے جانے والے کی نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں اختلافی اقوال ہیں۔ چنانچہ امام مالک کے ہاں اس کی نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے اور حضرت امام احمد یہ فرماتے ہیں کہ امام وقت اور اہل فضل نہ پڑھیں دوسرے لوگ پڑھ سکتے ہیں لیکن حضرت امام شافعی اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے بلکہ ہر اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو کلمہ گو اور اہل قبلہ ہو اگرچہ وہ فاسق و فاجر ہو یا اس پر حد قائم کی گئی ہو نیز ایک روایت میں امام احمد سے بھی یہی منقول ہے۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ صحیح مسلم کے تمام راویوں نے لفظ صلی کو صاد اور لام کے زبر یعنی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا ہے جب کہ طبری کے نزدیک یہ لفظ صاد کے پیش یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ ہے نیز ابی شیبہ ابوداؤد اور امام نووی نے بھی اس طرح نقل کیا ہے لہٰذا اس بارے میں یہ بات کہنی زیادہ مناسب ہے کہ یہ لفظ اصل میں تو صیغہ معروف ہی کے ساتھ ہے البتہ ماقبل کے الفاظ (ثم امربہا) اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کی مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو اس عورت کے جنازہ کو نہلانے کفنانے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ لانے کا حکم دیا، چنانچہ اس کی تائید اس عبارت سے ہوتی ہے جو مسلم کی روایت میں ہے کہ حدیث (امربہا النبی صلی اللہ علیہ و سلم فرجمت ثم صلی علیہا فقال لہ عمر تصلی علیہا یا نبی اللہ وقد زنت) یہ روایت صراحت کے ساتھ یہ ثابت کرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے جنازہ کی نماز پڑھی تھی۔ اور ابوداؤد کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ حدیث (ثم امرہم یصلوا علیہا) (یعنی پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حکم دیا کہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے قاضی عیاض نے بھی وضاحت کی ہے کہ اگرچہ مسلم نے اپنی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا معاذ ابن مالک کے جنازے کی نماز پڑھنا ذکر نہیں کیا ہے لیکن بخاری نے اس کو ذکر کیا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ جب مسلم کے اکثر راویوں نے لفظ صلی صیغہ معروف کے ساتھ نقل کیا تو یہاں صاحب مشکوٰۃ نے اس لفظ کو صیغہ مجہول کے ساتھ کیوں نقل کیا ؟ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگرچہ اثبات، نفی پر مقدم ہوتا ہے اس اعتبار سے صاحب مشکوٰۃ کو یہ لفظ صیغہ معروف کے ساتھ کر کے اثبات کو ترجیح دینا چاہئے تھا لیکن جب انہوں نے معتمد صحیح نسخوں میں دیکھا کہ اس بارے میں مختلف روایات ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کے جنازے کی نماز پڑھی یا نہیں پڑھی تو انہوں نے لفظ صلی کو صیغہ مجہول کے ساتھ نقل کرنے کو ترجیح دی تا کہ اس صورت میں دونوں ہی احتمال ملحوظ رہیں لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ صورت ابہام سے خالی نہیں ہے اس لئے اس بارے میں اولیٰ اور بہتر یہی ہے کہ جمہور کی متابعت اور نقل مشہور کی موافقت کے پیش نظر اس لفظ کو صیغہ معروف ہی کے ساتھ قبول کیا جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی تھی۔
بہرکیف یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ حد، اس گناہ کو ختم کر دیتی ہے جس کی سزا میں اس کا نفاذ اجراء ہوتا ہے مثلاً اگر زید زنا کا مرتکب ہوا اور اس کے اس جرم کی سزا میں اس پر حد جاری کی جائے تو وہ زنا کے گناہ سے بری ہو جائے گا اور آخرت میں اس سے اس زنا پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہو گا۔
ایک بات اور نووی کہتے ہیں کہ (یہاں اس عورت کے بارے میں دو روایتیں نقل کی گئی ہیں اور) بظاہر دوسری روایت پہلی روایت کے مخالف ہے کیونکہ دوسری روایت سے تو صراحۃً یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس عورت کو اس وقت سنگسار کیا گیا جب اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا اور وہ روٹی کھانے لگا تھا لیکن پہلی روایت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس بچے کی ولادت کے بعد ہی سنگسار کر دیا گیا تھا، لہٰذا دوسری دوسری روایت کے صریح مفہوم کے پیش نظر پہلی روایت کی تاویل کرنی ضروری ہوئی تاکہ دونوں روایتوں کا مفہوم یکساں ہو جائے کیونکہ دونوں روایتوں کا تعلق ایک ہی واقعہ سے ہے اور دونوں ہی روایتیں صحیح ہیں، پس تاویل یہ ہے کہ پہلی روایت میں جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ ایک انصاری نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں اس بچے کو دودھ پلانے کا ذمہ دار ہوں تو انہوں نے یہ بات اس وقت کہی تھی جب کہ اس عورت نے اپنے بچے کا دودھ چھڑا دیا تھا، اور دودھ پلانے کا ذمہ دار ہونے سے اس کی مراد یہ تھی کہ میں اس بچہ کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری لیتا ہوں اور اپنے اس مفہوم کو انہوں نے مجازاً دودھ پلانے سے تعبیر کیا۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تم میں سے کسی شخص کی لونڈی، زنا کی مرتکب ہو اور اس کا زنا ظاہر ہو جائے (یعنی اس کی زنا کاری ثابت ہو جائے) تو وہ اس پر حد جاری کرے اور اس کو عار نہ دلائے اگر وہ پھر زنا کی مرتکب ہو تو اس پر حد جاری کرے اور اس کو عار نہ دلائے اور اگر وہ تیسری مرتبہ زنا کی مرتکب ہو اور اس کی زنا کاری ثابت ہو جائے تو اب اس کو چاہئے کہ وہ لونڈی کو بیچ ڈالے اگرچہ بالوں کی رسی (یعنی حقیر ترین چیز) ہی کے بدلے میں کیوں نہ بیچنا پڑے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
تو ! وہ اس پر حد جاری کرے، یعنی اس کو پچاس کوڑے مارے ! یہ واضح رہے کہ لونڈی غلام کی حد، آزاد مرد عورت کی بہ نسبت آدھی حد ہے اور لونڈی غلام کے لئے سنگساری کی سزا مشروع نہیں ہے۔ حضرت امام شافعی نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ آقا کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مملوک پر خود بخود جاری کرے جب کہ حنفی علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، ان کے نزدیک یہ حکم وہ اس پر حد جاری کرے دراصل سبب پر محمول ہے یعنی اس حکم کا مطلب یہ ہے کہ آقا اپنی زنا کار لونڈی پر جاری ہونے کا سبب اور واسطہ بنے بایں طور کہ وہ اس لونڈی کو حاکم کے سامنے پیش کر دے تا کہ وہ اس پر حد جاری کرے۔
اور اس کو عار نہ دلائے کا مطلب یہ ہے کہ حد جاری ہو جانے کے بعد اس لونڈی پر لعن طعن نہ کرے اور نہ اس کو حد جاری ہونے کی عار وغیرہ دلائے کیونکہ جب اس نے حد کی صورت میں اپنے گناہ کا کفارہ بھر دیا اور وہ گناہ سے پاک ہو گئی تو اب اس پر لعن طعن کیسا اور اسے عار کیوں دلائی جائے ! اور یہ حکم خاص طور پر لونڈی ہی کے لئے نہیں ہے بلکہ آزاد کا بھی یہی حکم ہے لیکن لونڈیاں چونکہ توبیخ و سرزنش کا محل ہوتی ہیں اس لئے خاص طور پر لونڈی کے بارے میں یہ حکم بیان کیا گیا۔
وہ اس لونڈی کو بیچ ڈالے کا مطلب یہ ہے کہ چاہئے تو حد جاری کرنے کے بعد اس کو بیچے اور چاہے حد جاری کرنے سے پہلے ہی بیچ دے لیکن حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ حد جاری کرنے سے پہلے ہی بیچ دینا چاہئے۔
امام نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ فاسق وفاجر اور اہل معاصی کے ساتھ رہن سہن کو ترک کر دینا اور اس طرح کی لونڈی کو بیچ دینا مستحب ہے لیکن علماء ظواہر کے نزدیک واجب ہے۔
اور حضرت علی کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا لوگو! اپنے غلام لونڈیوں پر حد جاری کرو یعنی اگر وہ زنا کے مرتکب ہوں تو پچاس کوڑے مارو خواہ وہ محصن یعنی شادی شدہ ہوں یا غیر محصن۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک لونڈی نے زنا کا ارتکاب کیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس پر حد جاری کروں مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ ابھی حال ہی میں اس کی ولادت ہوئی ہے تو مجھے اندیشہ ہوا کہ اگر میں اس کے پچاس کوڑے مارتا ہوں تو وہ مر جائے گی چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اچھا کیا کہ اس حالت میں اس پر حد جاری نہیں کی۔ (مسلم)
اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ (جب حضرت علی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس بارے میں ذکر کیا تو) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جب تک کہ اس کا نفاس کا خون بند نہ ہو جائے اس وقت تک کے لئے اسے چھوڑ دو اس کے بعد اس پر حد جاری کرو اور اپنے بردوں غلام لونڈیوں پر حد جاری کیا کرو۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حد کی سزا اور عورت اگر نفاس کی حالت میں ہو تو اس پر اس وقت تک حد جاری نہ کی جائے جب تک کہ وہ نفاس سے فارغ نہ ہو جائے کیونکہ نفاس ایک طرح کا مرض ہے اور مریض کو اس کے اچھا ہونے تک مہلت دینی چاہئے۔
ابن ہمام فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مریض، زنا کا مرتکب ہو اور اس کے محصن شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو رجم سنگساری کا سزا اور گردانا چکا ہو تو اس کو اسی مرض کی حالت میں رجم کیا جائے اور اگر اس کے غیر محصن غیر شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کو کوڑے مارے جانے کا سزا وار گردانا گیا ہو تو پھر اس کو اس وقت تک کوڑے نہ مارے جائیں جب تک کہ وہ اچھا نہ ہو جائے ہاں اگر وہ کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے بچنے کی امید نہ کی جاتی ہو جیسے دق وسل وغیرہ یا وہ ناقص و ضعیف الخلقت ہو تو اس صورت میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام شافعی کے نزدیک مسئلہ یہ ہے کہ سزا پوری کرنے کے لئے اس کو کھجور کی کسی ایسی بڑی شاخ سے مارا جائے جس میں چھوٹی چھوٹی سو ٹہنیاں ہوں اور وہ شاخ اس کو ایک دفعہ اس طرح ماری جائے کہ اس کی ایک ایک ٹہنی اس کے بدن پر لگ جائے اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس مقصد کے لئے پھیلی ہوئی شاخ استعمال کرنا ضروری ہے۔
یہ بھی ملحوظ رہے کہ تلف کے خوف سے کوڑے مارنے کی حد نہ تو شدید گرمی میں جاری کی جائے اور نہ سخت جاڑے میں بلکہ اس کے لئے معتدل موسم کا انتظار کیا جائے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ ماعز اسلمی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا کہ اس نے (یعنی میں نے) زنا کیا ہے، یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا منہ اس طرف سے پھیر لیا وہ دوسری جانب سے گھوم کر یعنی تبدیل مجلس کر کے پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا اور کہا کہ اس نے زنا کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پھر اس کی طرف منہ پھیر لیا اور وہ بھی پھر دوسری جانب سے گھوم کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! اس نے زنا کیا ہے ! آخر کار چوتھی مرتبہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے سنگساری کا حکم صادر فرمایا، چنانچہ اس کو حرہ میں لایا گیا جو مدینہ کا کالے پتھروں والا مضافاتی علاقہ ہے اور اس کو پتھر مارے جانے لگے جب اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو بھاگ کھڑا ہوا یہاں تک کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرا جس کے ہاتھ میں اونٹ کے جبڑے کی ہڈی تھی اس شخص نے اسی جبڑے کی ہڈی سے اس کو مارا اور دوسرے لوگوں نے بھی دوسری چیزوں سے اس کا مارا تاآنکہ وہ مر گیا۔ جب صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ذکر کیا کہ وہ پتھروں کو چوٹ کھا کر اور موت کی سختی دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا لیکن ہم نے اس کا پیچھا کر کے سنگسار کر دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا ؟۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ ذکر سن کر فرمایا کہ تم لوگوں نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا، بہت ممکن تھا کہ وہ توبہ کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا۔
تشریح
حدیث (یتوب فیتوب اللہ علیہ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ تو اپنے اس برے فعل سے رجوع کرتا (یعنی ندامت و شرمساری کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے اپنے اس گناہ کی معافی چاہتا اور اللہ تعالیٰ قبولیت توبہ کے ساتھ اس پر رجوع کرتا یعنی بنظر رحمت اس کی طرح متوجہ ہوتا اور اس کے گناہ کو معاف کر دیتا۔)
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اگر کوئی شخص پہلے اپنے ارتکاب زنا کا خود اقرار کرے، اور پھر بعد میں یہ کہے کہ میں نے زنا کا ارتکاب نہیں کیا ہے یا میں جھوٹ بولا ہے یا میں اب اپنے اقرار سے رجوع کرتا ہوں تو اس صورت میں اس سے حد ساقط ہو جائے گی اسی طرح اگر وہ حد قائم ہونے کے درمیان اپنے اقرار سے رجوع کرے تو حد کا جو حصہ باقی رہ گیا ہے وہ ساقط ہو جائے گا جب کہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ اس سے حد ساقط نہیں ہو گئی۔
اور حضرت ابن عباس راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز ابن مالک سے فرمایا کہ تمہارے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ تم نے فلاں شخص کی لونڈی سے زنا کیا ہے ؟ ماعز نے عرض کیا کہ ہاں (یہ سچ ہے) اور اس نے یہ (چار مجلسوں میں) چار مرتبہ اقرار کیا۔ لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی سنگساری کا حکم فرمایا اور ان کو سنگسار کر دیا گیا ! (مسلم)
تشریح
اس حدیث کے بارے میں صاحب مصابیح پر یہ اعتراض وارد ہوتا ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو پہلی فصل کے بجائے یہاں دوسری فصل میں کیوں نقل کیا ؟
اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ماعز کے ارتکاب زنا کا علم تھا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے اعتراف جرم کرایا جب کہ دوسری احادیث سے اس کے برخلاف ثابت ہوتا ہے ؟ گویا اس اعتبار سے ان احادیث میں باہم تضاد نظر آتا ہے لہٰذا ان کے درمیان وجہ تطبیق یہ ہو گی کہ دراصل اس حدیث میں اختصار کو ملحوظ رکھا گیا ہے اور پورا واقعہ نقل کئے بغیر صرف رجم کا ذکر کیا گیا ہے جب کہ دوسری احادیث میں واقعہ کو پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا گیا چنانچہ یہ اغلب ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ماعز کے ارتکاب زنا کا علم پہلے سے ہو گا پھر بعد میں'آپ صلی اللہ علیہ و سلم خود ماعز سے اس کا اقرار کرایا اور صورت وہ اختیار کی جو دوسری احادیث میں تفصیل کے ساتھ مذکور ہے کہ جب ماعز اپنے ارتکاب زنا کا اقرار کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم اس کی طرف سے اپنا منہ پھیر لیتے تھے، اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جب گویا چار مجلسوں میں چار مرتبہ اقرار کرا لیا تب سنگساری کا حکم صادر فرمایا، اس اعتبار سے ان احادیث میں باہم کوئی تضاد نہیں رہا۔
اور حضرت یزید ابن نعیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ماعز رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کے سامنے (چار مجلسوں) چار مرتبہ (اپنے زنا) کا اقرار کیا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور اس کو سنگسار کر دیا گیا نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزال سے فرمایا کہ اگر تم ماعز کو اپنے کپڑے سے چھپا لیتے یعنی اس کے زنا کے واقعہ پر پردہ ڈال دیتے اور اس کو ظاہر نہ کرتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا ابن منکدر جو تابعی اور اس حدیث کے راوی ہیں کہتے ہیں کہ ہزال ہی نے ماعز سے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنے واقعہ سے آگاہ کر دو۔ (ابو داؤد)
تشریح
ہزال کی ایک لونڈی تھی جس کا نام فاطمہ تھا اس کو انہوں نے آزاد کر دیا تھا اسی فاطمہ سے ماعز نے زنا کا ارتکاب کیا اور جب ہزال کو اس کا علم ہو گیا تو انہوں نے ماعز کو آمادہ کیا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جا کر واقعہ کی اطلاع دے اور اپنے جرم کا اعتراف کر لے اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہزال سے فرمایا کہ اگر تم اس کے گناہ کا افشاء نہ کرتے بلکہ اس پر پردہ ڈال دیتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا کہ اس کے سبب اللہ تعالیٰ تمہیں خیر و بھلائی سے نوازتا اور تمہارے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا۔
اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا حضرت عبداللہ بن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم آپس میں اپنی حدود کو معاف و محو کر دیا کرو اس سے پہلے کہ ان کی خبر مجھ تک پہنچے ہاں اگر اطلاع مجھ تک پہنچ جائے گی اور وہ ثابت ہو جائے گا تو پھر اس پر حد جاری کرنا واجب یعنی فرض ہو جائے گا۔ (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
حدود کو معاف و محو کر دیا کرو یہ دراصل عوام سے خطاب ہے چنانچہ ان کو اس احسان کی تلقین کی جاری ہے کہ اگر تم میں سے کسی شخص سے کوئی گناہ جرم سرزد ہو جائے تو اس کا قضیہ حاکم کے سامنے نہ لے جاؤ بلکہ اس سے در گزر کرو۔ ہاں اگر وہ قضیہ حاکم کے پاس پہنچ جائے گا تو پھر حاکم کے لئے یہ جائز نہیں ہوتا کہ وہ اس کو معاف کر دے، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد اگر جرم کی اطلاع مجھ تک پہنچ جائے گی کے ذریعہ اسی کو واضح کیا ہے کہ جو اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ قضیہ حاکم کے پاس پہنچ جائے اور اس میں حد واجب ہوتی ہو تو اس حد کو معاف کرنا اس کے لئے جائز نہیں ہو گا۔
حدیث کا مطلق مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اگر کسی مملوک (غلام یا لونڈی) سے اس قسم کا کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کے آقا کو نہ تو خود اس مملوک پر حد جاری کرنا چاہئے اور نہ اس کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ اس مملوک کو حاکم کے سامنے پیش کرے بلکہ چاہئے کہ وہ اس کو معاف کر دے۔
یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ حدیث میں معاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ استحباب کے طور پر ہے۔
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا عزت داروں کی خطائیں معاف کرو علاوہ حدوں کے کہ ان کی معافی جائز نہیں ہے (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر ان سے بھول چوک میں کوئی گناہ سر زد ہو جائے اور ناگہانی طور پر کسی لغزش میں مبتلا ہو جائیں تو ان کو معاف کر دیا جائے، سزا و عقوبت میں مبتلا کر کے ظاہری طور پر ان کو ذلیل و رسوا مت کرو خواہ ان کی لغزش و گناہ کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے ہاں اگر ان سے کوئی ایسا جرم صادر ہو جس کی وجہ سے ان پر حد جاری کرنا واجب ہوتا ہو تو اس جرم کو معاف کرنے کی اجازت نہیں ہے خواہ اس جرم کا تعلق حقوق اللہ سے ہو یا حقوق العباد سے۔ گویا اس حکم کے مخاطب دوسرے لوگ بھی ہیں نیز یہ حکم بھی استحباب کے طور پر ہے۔
اور حضرت عائشہ راوی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو حد کی سزا سے بچاؤ اگر مسلمان (ملزم) کے لئے بچاؤ کا ذرا بھی کوئی موقع نکل آئے تو اس کی راہ چھوڑ دو یعنی اس کو بری کر دو کیونکہ امام یعنی حاکم و منصف کا معاف کرنے میں خطا کرنا، سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ سے روایت کی گئی ہے اور اس کا سلسلہ رواۃ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تک نہیں پہنچایا گیا ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ کا اپنا ارشاد ہے حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ حدیث موقوف ثابت ہوتی ہے وہ اس سلسلہ سند سے زیادہ صحیح اور قوی ہے جس سے اس کا حدیث مرفوع ہونا معلوم ہوتا ہے۔
تشریح
اس ارشاد کے مخاطب دراصل حکام ہیں جنہیں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ اگر کسی مسلمان کے بارے میں کوئی ایسا قضیہ ان کے پاس آئے جس کی سزا حد ہے مثلاً زنا کا قضیہ، تو انہیں چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے اس مسلمان کو حد سے بچانے کی کوشش کریں اور شبہ کا جو بھی موقع نکلتا ہو اس کا فائدہ ملزم کو پہنچائیں، یہی نہیں بلکہ وہ ملزم کو عذر کی تلقین کریں یعنی اس سے پوچھیں کہ کیا تم دیوانے ہو؟
کیا تم نے شراب پی رکھی ہے ؟ کیا ایسا تو نہیں ہے کہ تم نے اس عورت سے زنا کے ارتکاب کے بجائے اس کا بوسہ لے لیا ہو یا شہوت کے ساتھ اس کو چھو لیا ہو۔ اور اب تم اس کو اپنے اقرار میں زنا سے تعبیر کر رہے ہو غرضیکہ اس سے اس قسم کے سوالات کئے جائیں تاکہ وہ اس تلقین عذر کی بنا پر کوئی عذر بیان کر دے جس سے حد کا اجراء نہ ہو سکے اور وہ بری ہو جائے، چنانچہ ماعز وغیرہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو اس قسم کے سوالات کئے ان کا مقصد بھی تلقین عذر تھا۔
آخر میں نے جو یہ فرمایا کہ امام کے معاف کرنے میں خطاء سزا دینے میں خطا کرنے سے بہتر ہے تو اس کا منشاء بھی مذکورہ بالا بات کو مبالغہ و تاکید کے ساتھ بیان کرنا ہے اور یہ واضح کرنا ہے کہ اگر کوئی حاکم کسی مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے ملزم کو بری کر دے اور اس کے اس فیصلہ میں کوئی غلطی ہو جائے یا وہ ملزم کو سزا دینے کا فیصلہ کرے اور اس میں کوئی غلطی ہو جائے تو اگرچہ غلطی کے اعتبار سے دونوں ہی فیصلے محل نظر ہوں گے اور انصاف کے معیار پر پورے نہیں اتریں گے لیکن چونکہ ملزم کی برات میں بہرحال ایک مسلمان کی جان و عزت بچ جائے گی۔ اس لئے یہ غلطی اس غلطی سے بہتر ہو گی جو سزا کے فیصلہ میں سرزد ہو اور جس کے نتیجے میں ایک مسلمان کو اپنی جان اور عزت سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اور حضرت وائل ابن حجر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایک عورت کے ساتھ زبردستی کی گئی یعنی ایک مرد نے اس سے زبردستی زنا کیا اس عورت کو تو حد سے برات دی گئی لیکن اس زنا کرنے والے پر حد جاری کی گئی۔ راوی نے یہ ذکر نہیں کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو زنا کرنے والے سے مہر بھی دلوایا۔ (ترمذی)
تشریح
راوی کے ذکر نہ کرنے سے لازم نہیں آتا کہ ایسی صورت میں مہر واجب نہیں ہوتا کیونکہ دوسری احادیث سے یہ ثابت ہے کہ جس عورت سے زنا بالجبر کیا گیا ہو اس کے لئے مہر واجب ہوتا ہے اور یہاں مہر سے مراد عقر صحبت حرام اور صحبت تشبہ کے مابین (عوض اور بدلہ) کو کہتے ہیں اور اس کا اطلاق ایک ایسی مقدار پر ہوتا ہے کہ اگر حرام صحبت کی اجرت یعنی حلال ہوتی تو وہ مقدار واجب ہوتی۔ برجندی فتاویٰ عالمگیری میں یہ لکھا ہے کہ عقر مہر مثل کو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ زنا بالجبر کی صورت میں زنا کرنے والے مرد سے عورت کو جو رقم دلوائی جائے گی اس کی مقدار اس عورت کے مہر کے مثل کے برابر ہونی چاہئے۔
٭٭ اور حضرت وائل ابن حجر کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ایک دن ایک عورت نماز کے لئے گھر سے نکلی تو راستہ میں اس کو ایک شخص ملا جس نے اس پر کپڑا ڈال کر اس سے اپنی حاجت پوری کر لی یعنی اس کے ساتھ زبردستی زنا کیا وہ عورت چلائی اور وہ مرد اس کو وہیں چھوڑ کر چلا گیا، جب کچھ مہاجر صحابہ ادھر سے گزرے تو اس عورت نے ان کو بتایا کہ اس شخص نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے یعنی میرے اوپر کپڑا ڈال کر مجھے بے بس کر دیا اور پھر مجھ سے بدکاری کی لوگوں نے اس شخص کو پکڑ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے اور سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت سے تو یہ فرمایا کہ جاؤ تمہیں اللہ تعالیٰ نے بخشش دیا ہے۔ (کیونکہ اس بدکاری میں نہ صرف یہ کہ تمہاری خواہش و رضا کا داخل نہیں تھا بلکہ تمہیں مجبور و بے بس بھی کر دیا گیا تھا) اور جس شخص نے اس عورت سے بدکاری کی تھی اس کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ اس کو سنگسار کر دیا جائے یعنی اس نے اپنے جرم کا اقرار کیا اور چونکہ وہ محصن تھا اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے لوگوں کو حکم دیا کہ اس کو سنگسار کر دو چنانچہ اس کو سنگسار کر دیا گیا۔ اس سنگسار کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس شخص نے اپنے اوپر حد جاری کرا کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس طرح کی توبہ مدینہ والے کرتے تو ان کی توبہ قبول کی جاتی۔ (ترمذی ابوداؤد)
تشریح
حدیث کے آخر جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے جرم کی سزا بھگت کر ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس توبہ کو اہل مدنیہ کے درمیان تقسیم کیا جاتا تو نہ صرف یہ کہ ان سب کی توبہ قبول کی جاتی بلکہ اس کا ثواب سارے مدینے والوں کے لئے کافی ہو جاتا۔ گویا اس ارشاد کے ذریعہ آپ نے یہ واضح کیا کہ اس شخص نے اگرچہ شروع میں ایک بڑی بے حیائی کا ارتکاب کیا اور سخت برا کام کیا مگر جب اس پر حد جاری کر دی گئی تو وہ اپنے جرم سے پاک ہو گیا اور بخش دیا گیا۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک عورت سے زنا کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کوڑے مارے جانے کا حکم دیا، چنانچہ اس کو بطور حد، کوڑے مارے گئے، اس کے بعد جب آپ کو بتایا گیا کہ وہ شخص محصن ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا اور وہ سنگسار کر دیا گیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلے کوڑے مارے کا جو حکم دیا اس کے بارے میں یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کو یہ بتایا گیا ہو گا کہ وہ شخص غیر محصن غیر شادی شدہ ہے اور یہ بھی احتمال ہے کہ آپ کو بتایا نہیں گیا ہو گا بلکہ خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہی گمان کیا ہو گا کہ یہ غیر محصن ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو کوڑے کی سزا دی، لیکن جب بعد میں یہ ثابت ہوا کہ یہ شخص محصن ہے اور محصن ہونے کی وجہ سے سنگساری کا سزاوار ہے تو اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا، اس سے یہ بات ثابت ہوئی کہ اگر امام وقت (حاکم شرعی) کسی کو حد کی کوئی سزا دے اور پھر بعد میں اسے معلوم ہو کہ یہ مجرم حد کی اس سزا کا نہیں بلکہ حد کی کسی دوسری سزا کا مستوجب ہے مثلاً اس کو کوڑے مارنے کی سزا دی مگر بعد میں ثابت ہوا کہ حقیقت میں یہ سنگساری کا سزا وار ہے تو اس حاکم کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوبارہ اس سزا کو جاری کرے جس کا وہ مجرم شرعی طور پر مستوجب ہے۔
اور حضرت سعید بن سعد ابن عبادہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد ابن عبادہ ایک ایسے شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لائے جو اپنے محلہ کا ایک ناقص الخلقت کمزور اور بیمار شخص تھا (اور ایسا بیمار تھا کہ اس کے اچھا ہونے کی کوئی امید نہ تھی اس شخص کو اہل محلہ کی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی کے ساتھ زنا کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں یہ حکم صادر فرمایا کہ کھجور کی ایک ایسی (بڑی) ٹہنی لو جس میں سو چھوٹی چھوٹی ٹہنیاں ہوں اور پھر اس ٹہنی سے اس شخص کو ایک دفعہ مارو (شرح السنۃ) ابن ماجہ نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے۔
تشریح
ایک دفعہ مارو کا مطلب یہ ہے کہ اس بڑی ٹہنی کو اس طرح ایک دفعہ مارو کہ اس کی ساری سو ٹہنیوں کی چوٹ اس کے جسم کو پہنچ جائے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ امام حاکم کو اس بات کی نگہبانی کرنی چاہئے کہ جس شخص کو کوڑے مارنے کی سزا دی جاری ہو وہ مر نہ جائے۔ اور یہ مسئلہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ اگر کوئی مریض کسی حد کا مستوجب ہو تو اس پر اس وقت تک حد جاری نہ کی جائے جب تک کہ وہ اچھا نہ ہو جائے اور جس مریض کے اچھا ہونے کی توقع ہی نہ ہو اس پر اس طرح حد جاری کی جائے جس طرح اس حدیث میں مذکور ہے۔
اور حضرت عکرمہ حضرت ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر تم کسی شخص کو قوم لوط کا سا عمل کرتے ہوئے پاؤ تو فاعل اور مفعول دونوں کو مار ڈالو۔ (ترمذی ابن ماجہ)
تشریح
شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اغلام کی حد کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چنانچہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول اور صاحبین حضرت امام ابو یوسف اور حضرت امام محمد کا قول یہ ہے کہ فاعل اغلام کرنے والے کی حد وہی ہے جو زانی کی حد ہے یعنی اگر وہ محصن ہو تو اس کو سنگسار کیا جائے اور اگر غیر محصن ہو تو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لئے جلا وطن کر دیا جائے خواہ وہ مرد ہو یا عورت جب کہ ایک جماعت کا رجحان اس طرف ہے کہ اغلام کرنے والے کو بہر صورت سنگسار کیا جائے خواہ محصن ہو یا غیر محصن ہو حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کا قول بھی یہی ہے حضرت امام شافعی کا دوسرا قول یہ ہے کہ فاعل و مفعول اغلام کرنے والے اور اغلام کرانے والے دونوں ہی کو قتل کر دیا جائے جیسا کہ اس حدیث کے ظاہر مفہوم سے معلوم ہوتا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ ان کے قتل کا طریقہ کیا ہو تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں پر مکان گرا دیا جائے تاکہ وہ اس کے نیچے دب کر مر جائیں اور بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ ان کو پہاڑ کے اوپر لے جا کر وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔
اس بارے میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اغلام کی سزا کے تعین کا اختیار حاکم وقت کے سپرد ہے کہ اگر وہ چاہے تو اغلام کرنے والے کو قتل کر دے جب کہ یہ برائی اس کی عادت بن چکی ہو، نیز چاہے اس کو مارے اور چاہے قید خانہ میں ڈال دے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی جانور سے ساتھ بد فعلی کرے اس کو قتل کر دو اس کے ساتھ اس جانور کو بھی قتل کر دو۔ حضرت ابن عباس سے کہا گیا کہ جانور کے بارے میں یہ حکم کیوں ہے یعنی نہ تو عقل رکھتا ہے اور نہ وہ مکلف ہے تو اس کو قتل کرنے کا کیوں حکم ہے ؟ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ میں نے اس کی حکمت و مصلحت کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کچھ نہیں سنا ہے البتہ میرا گمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بات کو ناپسند فرمایا کہ جس جانور کے ساتھ بد فعلی کی گئی ہے اس کا گوشت کھایا جائے یا اس کے دودھ بالوں اور اس کی افزائش نسل سے فائدہ اٹھایا جائے اور جب اس جانور سے کسی قسم کا کوئی فائدہ اٹھانا مکروہ ہوا تو پھر اس کو قتل کر دینا ہی ضروری ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، ابوداؤد)
تشریح
اس کو قتل کر دو سے مراد یہ ہے کہ اس کی بہت سخت پٹائی کرو۔گویا اس کو قتل کر دینے کا حکم سخت زجر و تہدیر کے طور پر ہے اس کو واقعۃً قتل کر دینا مراد نہیں ہے۔
اس کے جانور کو بھی قتل کر دو اس حکم کی حکمت و علت بعض حضرات نے یہ بیان کی ہے کہ اگر وہ جانور زندہ رکھا گیا تو ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے اس کے ساتھ بد فعلی کی ہے اس کا نطفہ اس کے رحم میں قرار پا جائے اور اس کے نتیجہ میں ایک حیوان بصورت انسان پیدا ہو جائے اس لئے اس صورت حال سے بچنے کے لئے اس کو مار ڈالنا ہی ضروری ہے یا یہ کہ اس جانور کی موجودگی اس کے مالک کو دنیاوی ذلت و رسوائی سے دو چار کر سکتی ہے لہٰذا اس کو مار ڈالا جائے۔
شرح مظہر میں لکھا ہے کہ چاروں امام اس بات پر متفق ہیں کہ جو شخص کسی جانور کے ساتھ بد فعلی کرے اس کو قتل نہ کیا جائے بلکہ تعزیراً کوئی دوسری سزا دی جائے اور یہ حدیث زجر و توبیخ پر محمول ہے رہی جانور کی بات تو بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ جانور ایسا ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے تو اس کو قتل کر دیا جائے اور اگر اس کا گوشت نہیں کھایا جاتا تو اس کے بارے میں دونوں صورتیں ہیں کہ اگر اس حدیث کا ظاہر مفہوم پیش نظر ہو تو اس کو قتل کر دیا جائے اور اگر اس کو ملحوظ رکھا جائے کہ جانور کا گوشت کھانا مقصود یا حلال نہ ہو اس کو ذبح کرنے کی ممانعت منقول ہے تو اس جانور کو قتل نہ کیا جائے۔
اور حضرت جابر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اپنی امت کے بارے میں مجھے سب سے زیادہ جس چیز کا خوف ہے وہ قوم لوط کا عمل (یعنی اغلام) ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
تشریح
یعنی مجھے اس بات کا خوف ہے کہ کہیں میری امت کے لوگ خواہشات نفسانی کا شکار ہو کر بے صبری نہ کر بیٹھیں اور اس برائی میں مبتلا ہو جائیں۔ یا یہ مطلب ہے کہ یہ کام نہایت برا اور سخت قبیح ہے اور اس کی حرمت بڑی شدید ہے میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری امت کے لوگ اس میں مبتلا نہ ہو جائیں اور اس کی وجہ سے انہیں عذاب الٰہی میں گرفتار ہونا پڑے۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ ایک دن بکر بن لیث کے خاندان کا ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور اقرار کیا کہ اس نے (یعنی میں نے) ایک عورت کے ساتھ چار بار یعنی چار مجلسوں میں زنا کیا ہے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سو کوڑے لگوائے اور وہ شخص غیر محصن یعنی کنوارہ تھا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے اس عورت کی زنا کاری پر گواہ طلب کئے،عورت نے عرض کیا کہ خدا کی قسم یا رسول اللہ ! یہ شخص جھوٹ بولتا ہے اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص پر تہمت لگانے کی حد جاری کی۔ (ابو داؤد)
تشریح
گواہ طلب کئے کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص نے ایک عورت کے ساتھ زنا کا اقرار کیا تو اس کے اس اقرار پر اس کو زنا کی سزا دی گئی یعنی اس کے سو کوڑے مارے گئے اور چونکہ یہ بات اس عورت کو بھی زنا کا مرتکب گردانتی تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص سے کہا کہ اب تو ایسے گواہوں کو پیش کرو جو اس عورت کے ساتھ تمہارے زنا کو ثابت کریں مگر جب وہ شخص گواہ پیش کرنے سے عاجز رہا تو اس عورت نے کہا کہ خدا کی قسم یہ شخص جھوٹا ہے یہ میری طرف زنا کی نسبت کر رہا ہے حالانکہ میں اس برائی سے پاک ہوں اس طرح اس عورت نے یہ ثابت کیا کہ اس مرد نے اس پر تہمت لگائی ہے لہٰذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو دوسری سزا تہمت لگانے کی دی یعنی اسی کوڑے مارے۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب میری برات نازل ہوئی یعنی عفت و پاکدامنی کے ثبوت میں آیتیں نازل ہوئیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا اور اس کا ذکر کیا اور پھر جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر سے اترے تو دو مردوں اور ایک عورت کو سزا دینے کا فیصلہ کیا چنانچہ تہمت لگانے کی ان پر حد جاری کی گئی۔ (ابو داؤد)
تشریح
بعض لوگوں نے حضرت عائشہ صدیقہ پر نعوذ باللہ زنا کا بہتان لگایا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں بھی اس کی طرف سے کچھ شک پڑھ گیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی برات نازل کی جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ ان کے دامن عفت و عصمت پر تہمت کے جو چھینٹے ڈالے گئے ان کا تعلق محض ایک سازش اور چند لوگوں کی مفسدہ پردازی سے تھا، چنانچہ جب حضرت عائشہ کی عفت و پاکدامنی کے ثبوت میں آیتیں نازل ہوئیں جو سورہ نور میں ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منبر پر کھڑے ہو کر ایک خطبہ ارشاد فرمایا اور یہ اعلان کیا کہ اللہ تعالی نے حرم نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کی تقدیس و حرمت کی لاج رکھ لی ہے اور عائشہ کو عفت مآب و پاک دامن قرار دیا ہے اور اس کے ثبوت میں آپ نے نازل ہونے والی آیتوں کا ذکر کیا پھر منبر سے اترتے ہی آپ نے ان لوگوں پر حد قذف تہمت لگانے کی شرعی سزا کہ وہ اسی کوڑے ہیں جاری کرنے کا حکم دیا جنہوں نے اس ناپاک سازش میں حصہ لیا تھا، ان میں دو مرد تھے جن کا نام مسطح اور حسان ابن ثابت تھا اور ایک عورت تھی جس کا نام حمنہ بنت جحش تھا اور جو اس واقعہ میں سب سے بڑی فتنہ پرداز تھی ان سب کو اسی اسی کوڑے مارے گئے۔
حضرت نافع سے روایت ہے کہ حضرت صفیہ بنت ابو عبید نے ان سے بیان کیا کہ امارت و خلافت یعنی حضرت عمر کی حکومت کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زنا کرنا چاہا جو مال غنیمت کے خمس میں سے تھی اور جب وہ لونڈی اس بدکاری کے لئے تیار نہیں ہوئی تو اس نے اس کے ساتھ زبردستی جماع کیا یہاں تک کہ اس کی بکارت یعنی اس کے کنوارپنے کو زائل کر دیا چنانچہ حضرت عمر فاروق نے اس کو پچاس درے لگوائے اور لونڈی کے درے نہیں لگوائے یعنی اس کو اس بدکاری کی سزا نہیں دی کیونکہ اس غلام نے اس کے ساتھ زبردستی جماع کیا تھا۔ (بخاری)
اور حضرت یزید ابن نعیم ابن ہزال اپنے حضرت نعیم ابن ہزال سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت نعیم نے کہا کہ ماعز ابن مالک یتیم تھا میرے والد حضرت ہزال کی پرورش میں تھا اس نے جوان ہو کر محلہ کی ایک لونڈی سے زنا کر لیا جب میرے والد کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے کہا کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں چلا جا اور جو کچھ تو نے کہا وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتا دے شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تیری مغفرت کی دعا کر دیں اور میرے والد کے اس کہنے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ استغفار گناہ سے اس کی نجات کا سبب بن جائے یعنی میرے والد کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیں جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے ماعز نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی بات سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا وہ وہاں سے ہٹ گیا اور پھر آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے یہاں تک کہ اس نے یہ بات چار بار یعنی چار مجلسوں میں کہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تو نے یہ بات چار بار کہی یعنی چار بار اقرار کرنے سے تیرا جرم زنا ثابت ہو گیا ہے اب یہ بتا کہ تو نے کس کے ساتھ زنا کیا ہے اس نے نام لے کر کہا کہ فلاں عورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تو اس کے ساتھ ہمخواب یعنی آغوش ہوا تھا اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے بدن کو اپنے بدن سے لپٹایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے ساتھ جماع کیا تھا ؟اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور جب وہاں سنگسار کیا جانے لگا اور اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو وہ بدحواس ہو گیا یعنی وہ پتھروں کی چوٹ برداشت نہ کر سکا اور جہاں سنگسار کیا جا رہا تھا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا راستہ میں اس کو عبداللہ ابن انیس ملے جن کے ساتھی یا ماعز کو سنگسار کرنے والے تھک گئے عبداللہ نے اونٹ کے پاؤں کی ہڈی اٹھائی اور اس سے ماعز کو مارا یہاں تک کہ انہوں نے اس کو ختم کر ڈالا اس کے بعد عبداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ اپنے اقرار سے رجوع کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر کے سنگساری کئے بغیر ہی اس کا گناہ معاف کر دیتا۔ (ابو داؤد)۔
تشریح
اس کو حرہ لے جایا گیا، ابن حمام کہتے ہے کہ صحیح بخاری کی روایت میں تو یہ ہے کہ ماعز کو مصلی میں سنگسار کیا گیا اور مسلم اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ اس کو بقیع غرقد لے جایا گیا ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے لیکن اگر یہ بات ملحوظ رہے کہ مصلی سے نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ مراد ہے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ وہیں بقیع غرقد میں تھی تو پھر کوئی تضاد نہیں رہے گا رہی یہ بات کہ ترمذی کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ ماعز کے چوتھی بار اقرار کرنے کے بعد اس کو سنگساری کا حکم جاری کیا گیا چنانچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور وہاں سنگسار کیا گیا جیسا کہ یہاں ابوداؤد کی روایت میں بھی یہی ہے کہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ جب وہ پتھروں کی چوٹ کھا کر بھاگا تو اس کا پیچھا کیا گیا تاآنکہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل کی ضروری ہے کہ پھر یہ بات صحیح ثابت نہیں ہو گی کہ ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ لے گیا تھا کیونکہ صحاح اور حسان کی روایتیں اس بات کی موئید ہیں کہ شروع میں ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ کی طرف نہیں لے جایا گیا تھا بلکہ جب اس کو سنگسار کیا جانے لگا تو وہ خود بھاگ کر حرہ چلا گیا تھا یا یہ توجیہ کی جائے کہ مصلی جہاں ماعز کو سنگسار کیا گیا حرہ ہی کے آس پاس ہو گا لہٰذا کسی راوی نے تو مصلی کا ذکر کیا اور کسی راوی نے حرہ کا اس صورت میں دونوں احادیث کے مفہوم میں یکسانیت پیدا ہو جائے گی۔
اور حضرت عمرو ابن العاص کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب قوم میں زنا کی کثرت ہو جاتی ہے اس کو قحط اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور جس قوم میں رشوت کی وبا عام ہو جاتی ہے اس پر رعب (و خوف) مسلط کر دیا جاتا ہے۔ (احمد)
تشریح
رشوت اس مال کو کہتے ہیں جو کسی شخص کو اس شرط کے ساتھ دیا جائے کہ وہ اس کے کام میں مدد کرے۔ بعض حضرات نے اس کی تعریف میں اس قید کا بھی اضافہ کیا ہے کہ اس کام میں اتنی مشقت و محنت نہ ہو جس کی اجرت عام طور پر دئیے گئے مال کی بقدر دی جاتی ہو جیسے کسی بادشاہ یا حاکم کے سامنے کوئی بات سفارش کے طور پر کہہ دینی یا اس میں سعی و کوشش کرنی اس سے معلوم ہوا کہ محنت و مشقت کے بقدر مال دینا رشوت نہیں کہلائے گا اسی طرح اگر بلا شرط مال دیا جائے تو بھی رشوت کے حکم میں نہیں ہو گا۔
بہرکیف اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رشوت محض ایک سماجی برائی اور ایک شرعی گناہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی ظلم بھی ہے کہ جس کی سزا آخرت میں تو ملے گی اس کا وبال مختلف صورتوں میں اس دنیا میں بھی ظاہر ہوتا ہے چنانچہ یہاں حدیث میں اسی کو ذکر کیا گیا ہے کہ رشوت کی نحوست ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور اسے بزدل بنا کر غیروں کی ہیبت میں اور اپنوں کے خوف میں مبتلا کر دیتی ہے۔
غیروں کی ہیبت تو یوں مسلط ہو جاتی ہے کہ راشی رشوت لینے والا اپنا ضمیر و ایمان بیچ ڈالتا ہے اور جب وہ ضمیر و ایمانداری کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے تو اس کے اندر سے وہ ساری توانائی اور قوت ختم ہو جاتی ہے جو اس کو غیروں کے مقابلہ پر عظمت و برتری کا احساس دلاتی ہے۔ اپنوں کا خوف اس طرح مسلط ہو جاتا ہے کہ اگر کوئی حاکم و کارکن رشوت نہیں لیتا تو وہ اپنا حکم اپنے ہر ادنی و اعلیٰ پر جاری کرتا ہے اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کسی قسم کی جھجک محسوس نہیں کرتا لیکن جب وہ رشوت سے آلودہ ہو جاتا ہے تو پھر اس پر ایک خوف مسلط ہو جاتا ہے جو اسے قدم قدم پر اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی اور اجرائے احکام سے جھجکاتا رہتا ہے کہ اس کے کسی حکم یا کسی کاروائی سے کوئی ایسا شخص ناراض نہ ہو جائے جس سے کہ اس کو رشوت کی صورت میں ناجائز مالی فائدے حاصل ہیں یا جو اس کو رشوت ستانی کے جرم کا راز دار ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب رشوت کی وبا عام ہو جاتی ہے اور اس کی وجہ سے ہر حاکم و کارکن ہیبت و خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے تو پورا نظام حکومت بہت خوفناک قسم کی بدحالی و بے اعتمادی اور لا قانونیت کا شکار ہو جاتا ہے اور ساری قوم بے اطمینانی اور مصائب و پریشانیوں میں گھر کر رہ جاتی ہے۔
اور حضرت ابن عباس اور حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص قوم لوط کا سا عمل یعنی اغلام کرے وہ ملعون ہے۔ (رزین)
اور رزین ہی کی ایک روایت میں حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ حضرت علی نے بطور سزا اغلام کرنے والے اور کرانے والے دونوں کو جلوا دیا تھا اور حضرت ابوبکر نے ان پر دیوار گروا دی تھی۔ ۔
تشریح
جامع صغیر میں امام احمد نے حضرت حسن کی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں کہ جو شخص اپنی ماں کو برا کہے وہ ملعون ہے جو شخص غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرے وہ ملعون ہے جو شخص اسلامی سلطنت کی زمین کی سرحدوں میں رد و بدل کرے وہ ملعون ہے جو شخص کسی اندھے کو غلط راستہ بتائے وہ ملعون ہے جو شخص جانور سے بد فعلی کرے وہ ملعون ہے اور جو شخص قوم لوط کا سا عمل کرے یعنی اغلام کرے وہ ملعون ہے۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ عزوجل اس شخص پر نظر رحمت نہیں کرتا جو کسی مرد یا عورت کے ساتھ بد فعلی کرے۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
اور حضرت ابن عباس سے منقول ہے کہ انہوں نے (بطریق مرفوع) کہا کہ جو شخص جانور کے ساتھ بد فعلی کرے وہ حد کا سزاوار نہیں لیکن قابل تعزیر ہے اس روایت کو ترمذی اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے نیز ترمذی سفیان ثوری سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے (یعنی سفیان نے) کہا کہ یہ حدیث ابن عباس کی اس پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے جو دوسری فصل میں ان سے نقل کی گئی ہے اور وہ پہلی حدیث یہ ہے کہ جو شخص جانور سے بد فعلی کرے اس کو مار ڈالو چنانچہ علماء نے اسی پر عمل کیا ہے کہ جانور کے ساتھ بد فعلی کرنے والا حد کا سزا وار نہیں ہوتا البتہ بطور تعزیر اس کو کوئی سزا دی جا سکتی ہے۔
تشریح
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث حضرت ابن عباس کا اپنا قول ہے لیکن اس صورت میں سفیان ثوری کے اس قول کہ یہ حدیث پہلی حدیث سے زیادہ صحیح ہے کے کوئی معنی نہیں رہیں گے لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ یہ حضرت ابن عباس کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے۔
اور حضرت عبادہ ابن صامت راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قریب و بعید سب پر حدود اللہ جاری کرو اور خبر دار اللہ کا حکم یعنی حد جاری کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت تمہارے آڑے نہ آئے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
قریب و بعید سے نزدیک کے اور دور کے رشتے دار مراد ہیں کہ اگر مجرم تمہارا دور کا جاننے والا ہے تو اس پر بھی حد جاری کرو اور اگر نزدیکی رشتہ دار ہے تو اس پر حد جاری کرنے سے باز ہو یا یہ کہ قریب سے مراد کمزور ہے کہ اس تک پہنچنا نزدیک اور اس پر حد جاری کرنا آسان ہوتا ہے اور بعید سے مراد قوی ہے کہ اس تک پہنچنا بعید اور اس پر حد جاری کرنا دشوار ہوتا ہے اور یہی مراد حدیث کی منشاء کے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہاں بھی ہدایت دینا مقصد ہے کہ حد ہر مجرم پر جاری کرو خواہ وہ امیر ہو یا غریب، شاہ ہو یا گدا کمزور ہو یا قوی اور اپنا عزیز ہو یا غیر عزیز ہو۔
اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حدود اللہ میں سے کسی ایک حد کا جاری کرنا خدا کے تمام شہروں پر چالیس رات تک بارش برسنے سے بہتر ہے (ابن ماجہ) نسائی نے اس روایت کو حضرت ابوہریرہ سے نقل کیا ہے۔
تشریح
اس کی وجہ یہ ہے کہ حد جاری کرنا گویا مخلوق کو گناہ سے اور معاصی کے ارتکاب سے روکنا ہے اور یہ آسمان کے دروازوں کے کھلنے یعنی نزول برکات کا سبب ہے، اس کے برخلاف حدود کو معاف کرنا یا ان کو جاری کرنے میں سستی کرنا گویا مخلوق کو گناہ و معاصی میں مبتلا ہونے کا موقع دینا ہے اور یہ چیز یعنی گناہ و معاصی کا پھیل جانا قحط سالی میں گرفتار ہونے کا سبب اور انسان ہی نہیں بلکہ غیر انسانی مخلوق کو بھی ہلاکت و بربادی کے دروازے پر پہنچانے کا ذریعہ ہے جیسا کہ منقول ہے کہ حباری بنی آدم کے گناہوں کے سبب مارے دبلاپے کے مر جاتا ہے یعنی انسان عمومی طور پر برائیوں کی راہ پر لگ جاتا ہے اور گناہ و معاصی کے ارتکاب کی کثرت ہو جاتی ہے تو اس کی نحوست سے اللہ تعالیٰ بارش نہیں برساتا اور جب بارش نہیں ہوتی تو صرف انسانوں ہی کے لئے قحط نہیں پھیلتا بلکہ اس کی وجہ سے چرند و پرند بھی اپنے رزق سے محروم ہو جاتے ہیں اور وہ بھی مرنے لگتے ہیں۔
حباری ایک جانور کا نام ہے یہاں خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ دور دور سے اپنے لیے چارہ تلاش کر کے لاتا ہے۔