مشکوٰة شر یف

حدود کے مقدمہ میں سفارش کا بیان

حدود کے مقدمہ میں سفارش کا بیان

اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ معلوم ہو گا کہ امام یعنی حاکم کو سفارش کرنا کہ وہ فلاں مجرم کو معاف کر دے اور اس پر حد جاری نہ کرے، جائز ہے یا نہیں اور یہ کہ حاکم اس سفارش کو قبول کرنے کا اختیار رکھتا ہے یا نہیں،

حدود میں سفارش نہیں قبول کی جا سکتی

حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ (ایک مرتبہ) قریشی صحابہ ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور لوگوں سے عاریۃً) سامان لے کر مکر بھی جاتی تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تھا) ان قریشی صحابہ نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ اس عورت کے مقدمہ میں کون شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو (یعنی سفارش) کر سکتا ہے، اور پھر انہوں نے یہ کہا کہ حضرت اسامہ ابن زید سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو بہت محبت و تعلق ہے اس لئے اس بارے میں آپ سے کچھ کہنے کی جرأت اسامہ کے علاوہ اور کسی کو نہیں ہو سکتی (چنانچہ ان سب نے حضرت اسامہ کو اس پر تیار کیا کہ وہ اس عورت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کریں ) حضرت اسامہ نے (ان لوگوں کے کہنے پر ) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے گفتگو کی، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان کی بات سن کر) فرمایا کہ  تم اللہ کی حدود میں سے ایک حد کے بارے میں سفارش کرتے ہو ؟  اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کھڑے ہوئے خطبہ دیا اور (حمد و ثنا کے بعد اس خطبہ میں) فرمایا کہ  تم سے پہلے لوگ جو گزرے ہیں ان کو اسی چیز نے ہلاک کیا کہ ان میں سے کوئی شریف آدمی (یعنی دنیاوی عزت و طاقت رکھنے والا) چوری کرتا تو وہ اس کو (سزا دیئے بغیر) چھوڑ دیتے تھے اور اگر ان میں سے کوئی کمزور و غریب آدمی چوری کرتا تو سزا دیتے تھے، قسم ہے خدا کی ! اگر محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالوں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ نے بیان کیا  ایک مخزومی عورت (کی یہ عادت) تھی کہ وہ لوگوں سے عاریۃً کوئی چیز لیتی اور پھر اس سے انکار کر دیتی تھی، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا ہاتھ کاٹ ڈالنے کا حکم دے دیا (جب) اس عورت کے اعزا (کو اس کا علم ہوا تو وہ) حضرت اسامہ کے پاس آئے اور ان سے اس بارے میں گفتگو کی (کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سفارش کریں) اور پھر حضرت اسامہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کے متعلق عرض کیا۔ اس کے بعد حدیث کے وہی الفاظ مذکور ہیں جو اوپر کی حدیث میں نقل کئے گئے ہیں۔ 

 

تشریح

 

 حدیث میں جس عورت کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام فاطمہ بنت اسود ابن الاسد تھا اور وہ حضرت ابو سلمہ کے بھائی کی بیٹی تھی، چونکہ وہ بنی مخزوم سے تھی جو قریش کا ایک بڑا قبیلہ تھا۔ اس لئے قبیلہ کی طرف نسبت کرتے ہوئے اس کو  مخزومیہ  کہا گیا ہے۔

اس حدیث کے بموجب علماء کا اس بات پر اجماع و اتفاق ہے کہ جب حد کا کوئی قضیہ امام(حاکم) کے پاس پہنچ جائے تو اس کے بعد مجرم کے حق میں امام سے سفارش کرنا بھی حرام ہے اور کسی دوسرے سے سفارش کرانا بھی حرام۔ ہاں امام کے پاس قضیہ پہنچنے سے پہلے سفارش کرنے کرانے کی اکثر علماء نے اجازت دی ہے بشرطیکہ جس شخص کے حق میں سفارش کی جائے وہ شریف اور لوگوں کو ایذاء پہنچانے والا نہ ہو۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی ایسے جرم و گناہ کا ارتکاب کیا ہو جس میں حد جاری نہ ہوتی ہو بلکہ  تعزیر نافذ ہوتی ہو تو اس کے حق میں سفارش کرنا اور سفارش کرانا بہرصورت جائز ہے خواہ اس کا قضیہ امام کے پاس پہنچ چکا ہو یا نہ پہنچا ہو کیونکہ ایسی صورت میں سفارش کرنا نہ صرف یہ کہ آسان ہے بلکہ مستحب بھی ہے بشرطیکہ جس شخص کے حق میں سفارش کی جائے وہ کوئی شریف اور لوگوں کو ایذاء پہنچانے والا نہ ہو۔

مسلم کی جو دوسری روایت نقل کی گئی ہے اس کے الفاظ سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو اس جرم میں ہاتھ کاٹنے کی سزا دی تھی کہ وہ لوگوں سے عاریۃً چیزیں لے کر مکر جاتی تھی حالانکہ یہ واقعہ کے بھی خلاف ہے اور شرعی مسئلہ کے بھی منافی ہے، چنانچہ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسری روایت میں  انکار کا ذکر محض اس عورت کا حال بتانے کے لئے ہے کہ وہ عورت اس قسم کی تھی اور اس کو قطع ید کی جو سزا دی گئی اس کا تعلق اس کے چوری کے جرم سے تھا جیسا کہ پہلی روایت (جس کو بخاری و مسلم دونوں نے نقل کیا ہے) میں بیان ہوا۔ گویا حاصل یہ نکلا کہ دوسری روایت لفظ وتجحدہ کے بعد لفظ فسرقت مقدر ہے، یعنی یہ لفظ  فسرقت  اگرچہ عبارت میں نہیں ہے مگر اس کے معنی مراد لئے جائیں گے۔ جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ جو شخص کسی سے عاریۃً کوئی چیز لے کر اس سے مر جائے اس کو ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی جب کہ حضرت امام احمد اور اسحاق کا قول یہ ہے کہ ایسے شخص کا بھی ہاتھ کاٹنا واجب ہے۔

ہذا الباب خال عن الفصل الثانی۔ اس باب میں دوسری فصل نہیں ہے۔

حد میں سفارش کرنے والا گویا خدا کے حکم کی مخالف کرنے والا ہے

حضرت عبداللہ ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ  جس شخص کی سفارش اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے کسی حد کے درمیان حائل ہو (یعنی جو شخص اپنی سفارش کے ذریعہ حاکم کو نفاذ حد سے روکے) اس نے اللہ تعالیٰ سے ضد کی (اور گویا اس طرح اس نے اللہ تعالیٰ کی خلاف ورزی کی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہی ہے کہ حد جاری کی) اور جو شخص جانتے ہوئے بھی کسی ناحق اور جھوٹی بات میں کسی سے جھگڑتا ہے) تو وہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہتا ہے جب کہ اس سے باز نہ آ جائے۔ اور جس نے کسی مؤمن کے بارے میں کوئی ایسی بات کہی جو اس میں نہیں پائی جاتی (یعنی مؤمن کو کوئی عیب لگائے یا اس کی طرف کسی غلط بات کی تہمت کر کے اس کو نقصان پہنچائے) تو اس کو اللہ تعالیٰ اس وقت تک دوزخیوں کے کیچڑ، پیپ اور خون میں رکھے گا جب تک کہ وہ اپنی کہی ہوئی بات سے نہ نکل آئے یعنی جب تک کہ وہ توبہ کر کے اس گناہ سے نہ نکل آئے وہ دوزخیوں کی سی حالت میں رہے گا، یا یہ کہ جب تک کہ وہ اس گناہ عذاب کو بھگت کر پاک نہ ہو جائے دوزخیوں کے درمیان رہے گا) اس روایت کو احمد اور ابوداؤد نے نقل کیا ہے۔ اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ  جو شخص کسی ایسے جھگڑے میں مدد کرے جس کے حق و ناحق ہونے کا اس کو علم نہیں تو جب تک کہ وہ اپنی مدد سے باز نہ آ جائے اللہ تعالیٰ کے غضب میں رہے گا۔

اقرار جرم پر چوری کی سزا

اور حضرت ابو امیہ مخزومی بیان کرتے ہیں کہ (ایک دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک چور کو پیش کیا گیا جس نے اپنے جرم کا صریح اعتراف و اقرار کیا لیکن (چوری کے مال میں سے) کوئی چیز اس کے پاس نہیں نکلی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے  اس نے کہا کہ  ہاں ! میں نے چوری کی ہے  آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دو بار یا تین بار یہ کہا (کہ میرا خیال نہیں ہے کہ تم نے چوری کی ہے) مگر وہ ہر بار یہ اعتراف و اقرار کرتا تھا (کہ میں نے چوری کی ہے) آخر کار آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم جاری کیا پھر کٹنے کے بعد) اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں لایا گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ  (اپنی زبان کے ذریعہ) اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرو (اور اپنے دل کے ذریعہ) اس کی طرف متوجہ ہو۔ اس نے کہا میں اللہ سے بخشش مانگتا ہوں اور اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں (یعنی توبہ کرتا ہوں) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے تین بار فرمایا  اے اللہ ! اس کی توبہ قبول فرما۔ (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) اور صاحب مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ) میں نے اس روایت کو ان چاروں اصل کتابوں (ابو داؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی) میں جامع الاصول میں، بیہقی کی شعب الایمان میں، اور خطابی کی معالم السنن میں اسی طرح یعنی ابو امیہ سے منقول پایا ہے لیکن مصابیح کے بعض نسخوں میں اس روایت میں ابو رمثہ (ہمزہ اور یا کی بجائے را مکسورہ اور ثا مثلثہ کے ساتھ) منقول ہے مگر حضرت شیخ حافظ ابن حجر عسقلانی نے وضاحت کی ہے کہ اس روایت کا ابو رمثہ سے منقول ہونا غلط ہے، اور ابو رمثہ اگرچہ صحابی ہیں لیکن یہ روایت ان سے منقول نہیں ہے۔

 

تشریح

 

  اس ارشاد میں، میں خیال نہیں کرتا الخ  سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا منشاء یہ تھا کہ وہ شخص اپنے اعتراف سے رجوع کرے تاکہ اس پر حد ساقط ہو جائے اور اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے،جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم زنا کا اقرار کرنے والوں کے سامنے اس طرح کے جملے ارشاد فرماتے تھے جن کا مقصد  تلقین عذر  ہوتا تھا۔ یہ حضرت امام شافعی کے دو قولوں میں سے ایک قول ہے لیکن حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور دوسرے ائمہ کے نزدیک اس طرح کی  تلقین عذر اور تلقین رجوع  صرف زنا کی حد کے ساتھ مخصوص ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو جو استغفار کا حکم دیا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص پر حد جاری ہوئی ہے اس کو وہ حد بالکل (یعنی تمام گناہوں سے) پاک نہیں کرتی بلکہ اس کے اسی گناہ کو ختم کرتی ہے جس کی وجہ سے اس پر حد جاری ہوئی ہے کہ حد جاری ہو جانے کے بعد وہ پروردگار کی جانب سے اس کے سبب دوبارہ عذاب میں مبتلا نہیں کیا جائے گا۔