حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر مبارک جب احد پہاڑ پر پڑی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں (پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا کہ) اے اللہ! حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام کیا (یعنی اس کے حرم ہونے کو ظاہر کیا) اور میں اس قطعہ زمین کو حرام کرتا ہوں (یعنی قابل تعظیم قرار دیتا ہوں) جو سنگسان مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے یہ جملہ بلا شک و شبہ اپنے طاہری معنی ہی پر محمول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جمادات (یعنی پتھروں وغیرہ) میں بھی ان کے حسب حال علم و فہم اور محبت و عداوت، خاص طور سے انبیاء و اولیاء اور بالاخص حضرت سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی محبت پیدا کی ہے ، نیز یہ کہ پروردگار عالم جس کو دوست رکھتا ہے اس کو تمام چیزیں دوست رکھتی ہیں کیونکہ ہر چیز پروردگار کی مخلوق اور اس کی تابعدار ہے ، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مفارقت کی وجہ سے کھجور کے تنے کے رونے کا واقعہ اس دعویٰ کی صریح دلیل ہے۔
وانی احرم ما بین لابتیہا کا مطلب جیسا کہ ترجمہ میں بھی ظاہر کیا گیا ، یہ ہے کہ میں اس قطعہ زمین کو جس میں مدینہ ہے بزرگ قدر اور قابل تعظیم قرار دیتا ہوں، اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ مکہ کی طرح مدینہ اور اس کے اطراف کی زمین بھی بایں معنی حرم ہے کہ اس کا درخت کاٹنا اور اس میں شکار وغیرہ حرام ہے۔
٭٭حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے اور ہم اس سے محبت رکھتے ہیں۔ (بخاری)
حضر سلیمان بن ابوعبداللہ (تابعی) کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پکڑا جو اس حرم مدینہ (یعنی مدینہ کے اطراف) میں شکار مار رہا تھا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حرام یعنی قابل تعظیم) قرار دیا ہے ، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے کپڑے زجر و تنبیہ کے طور پر چھین لئے ، پھر اس شخص کے مالک آئے اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اس کے بارہ میں گفتگو کی، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حرم کو حرام قرار دیا ہے ، نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص کسی ایسے آدمی کو پکڑے جو اس میں شکار مار رہا ہو تو وہ اس کا سامان چھین لے۔ لہٰذا جو چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے دلوائی ہے (یعنی جو چیز میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے حاصل کی ہے) وہ تو میں (کسی حال میں بھی) واپس نہیں کروں گا ، ہاں اگر تم چاہو تو میں اس کی قیمت (از راہ مروت و احسان) تمہیں دے دوں۔ (ابوداؤد)
٭٭حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے غلاموں میں سے کچھ غلاموں کو مدینہ کا درخت کاٹتے ہوئے پایا تو انہوں نے ان کے اسباب ضبط کر لئے اور پھر ان کے مالکوں سے فرمایا کہ میں نے خود سنا ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کے درخت کا کوئی بھی حصہ کاٹنے سے منع فرمایا ہے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص مدینہ کے درخت کا کچھ بھی حصہ کاٹے تو اس کا اسباب اس شخص کے لئے ہے جو اس کو پکڑے۔ (ابوداؤد)
تشریح
عن صالح مولیٰ لسعد (حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام صالح کہتے ہیں) کے بجائے صحیح یوں ہے عن صالح عن مولیٰ لسعد (صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام سے روایت کرتے ہیں) گویا مولیٰ لسعد سے پہلے لفظ عن یا تو کاتب کی غلطی سے نہیں لکھا گیا ، یا پھر اس بارہ میں خود مصنف کو سہو ہوا ہے کیونکہ صالح حضرت سعد کے آزاد کردہ غلام نہیں بلکہ توامہ کے آزاد کردہ غلام ہیں اور صالح نے یہ روایت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام سے نقل کی ہے۔
حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وج کا شکار اور اس کے خاردار درخت حرام ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لئے (یعنی اللہ تعالیٰ بموجب) حرام کیے گئے (یا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں یعنی غازیوں کی وجہ سے) حرام کیے گئے ہیں۔ (ابوداؤد)
امام محی السنہ فرماتے ہیں کہ وج کے بارہ میں علماء نے لکھا ہے کہ یہ یعنی وج طائف کے کنارے ایک مقام ہے ، نیز خطابی نے انہا من ناحیۃ الطائف میں انہا کی بجائے انہ لکھا ہے۔
تشریح
علماء لکھتے ہیں کہ مقام وج میں شکار وغیرہ کی حرمت حمی کے طور پر تھی (حمی اس چراگاہ کو کہتے ہیں جس میں دوسروں کے جانور کو چرانے کی ممانعت ہو) چنانچہ مقام وج میں چونکہ غازیوں کے گھوڑوں کے لئے گھاس وغیرہ روکی جاتی تھی اس لئے اس مقام میں شکار کے لئے جانا یا اس کے درخت وغیرہ کاٹنا ممنوع تھا، حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مقام وج کی مذکورہ بالا حرمت حرم کے طور پر تھی ، اور اگر یہ حرمت حرم ہی کے طور پر تھی تو پھر کہا جائے گا کہ اس حرمت کا تعلق ایک مخصوص زمانہ کے ساتھ تھا جو بعد میں منسوخ ہو گئی تھی۔
امام شافعی اس بات کے قائل ہیں کہ مقام وج میں نہ تو شکار کیا جائے نہ وہاں کے درخت وغیرہ کاٹے جائیں تاہم انہوں نے اس میں ضمان (یعنی بطور جزاء و کفارہ کسی چیز کا واجب ہونا) ذکر نہیں کیا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص مدینہ میں مر سکتا ہو اسے مدینہ ہی میں مرنا چاہئے کیونکہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ (احمد، ترمذی)
امام ترمذی کہتے ہیں کہ یہ حدیث سند کے اعتبار سے حسن صحیح غریب ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اس بات پر قادر ہو کہ مدینہ میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک رہ سکے ، تو اسے چاہئے کہ وہ مدینہ ہی میں رہے تاآنکہ اس کی موت اسی مقدس شہر میں واقع ہو اور میں اس کی شفاعت کروں بایں طور کہ اگر وہ گنہگار ہو گا تو میں اسے بخشواؤں گا اور اگر نیکوکار ہو گا تو اس کے درجات بلند کراؤں گا۔
واضح رہے کہ یہاں شفاعت سے مراد وہ خاص شفاعت ہے جو صرف مدینہ میں رہنے والوں ہی کو حاصل ہو گی اور کسی دوسرے کو نصیب نہ ہو گی ، البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت عام ہر مسلمان کے لئے ہو گی۔ لہٰذا افضل یہ ہے کہ جس کی عمر زیادہ ہو جائے یا کشف وغیرہ کے ذریعہ اسے معلوم ہو جائے کہ اس کی موت کا وقت قریب آ گیا ہے تو وہ مدینہ منورہ میں جا رہے تاکہ وہاں مرنے کی وجہ سے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت خاص کی اس سعادت عظیم کا حق دار ہو جائے ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا کیا خوب ہے۔ اللہم ارزقنی شہادۃ فی سبیلک واجعل موتی ببلد رسولک۔ اے اللہ! مجھی اپنی راہ میں شہادت نصیب کر اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے شہر میں مجھے موت دے۔
دعا ہے کہ رب کریم ہم جیسے بے رز و بے پر کو بھی یہ دولت نصیب کرے۔ آمین
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ویران و اجاڑ ہونے والے اسلامی شہروں میں سب سے آخری نمبر مدینہ کا ہو گا امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب قیامت قریب ہو گی تو تمام آبادیاں اور شہر ویران و اجاڑ ہو جائیں گے اور ان میں مدینہ سب سے آخر میں ویران و اجاڑ ہو گا۔ گویا مدینہ کو یہ برکت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی مجھے مطلع فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان تین شہروں (١) مدینہ (٢) بحرین(٣) قنسرین۔ میں سے جس شہر میں (رہنے کے لئے) اتریں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے دارالہجرت (ہجرت کا مکان) ہو گا۔ (ترمذی)
تشریح
بحرین موجودہ جغرافیائی نقشہ کے مطابق ان متعدد جزیروں کے مجموعہ کا نام ہے جو خلیج غربی کے جنوب مغربی گوشے میں واقع ہیں، ان جزیروں میں سب سے بڑا جزیرہ ، جزیرہ منامہ ہے جس کا دوسرا نام بحرین بھی ہے اسی جزیرہ کے نام پر پورے ملک کو بحرین کہتے ہیں۔ لیکن حدیث شریف اور تاریخ کی کتابوں میں بحرین کا لفظ اس علاقہ کے متعلق آیا ہے جو جزیرہ العرب کے مشرقی ساحل پر خلیج بصرہ سے قطر اور عمان تک پھیلا ہوا ہے اور موجودہ بحرین کے مغرب میں واقع ہے۔ اس علاقہ کو اب احساء کہا جاتا ہے ، لہٰذا یہاں حدیث میں بھی بحرین سے مراد وہی علاقہ ہے جس کا نام اب احساء ہے۔
قنسرین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے ! بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اختیار دیا تھا کہ ان تین شہروں میں جس شہر کے بارہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خواہش ہو مکہ سے ہجرت کر کے وہاں چلے جائیں اور اسی شہر کو اپنا مسکن قرار دیجئے۔ لیکن تاریخ مدینہ میں لکھا ہے کہ اگرچہ شروع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان تین شہروں میں سے کسی بھی ایک شہر میں رہنے کا اختیار دیا گیا تھا مگر آخر میں مدینہ ہی کو متعین کر دیا گیا تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لے آئے۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مدینہ میں کانے دجال کا خوف (بھی) داخل نہیں ہو گا، اس دن (جب کہ کانا دجال نمودار ہو گا) مدینہ کے سات دروازے (یعنی سات راستے) ہوں گے اور ہر دروازہ یعنی ہر راستہ پر دائیں بائیں دو فرشتے (مدینہ کی حفاظت پر مامور) ہوں گے۔ (بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (بطور دعا) فرمایا۔ اے اللہ! مدینہ کو اس برکت سے دوگنی برکت عطا فرما جو تو نے مکہ کو عطا کی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
دعا کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! مکہ کی شان و شوکت کی نسبت مدینہ کو دوگنی شان و شوکت عطا فرما، یہ دعا مدینہ پر مکہ کی فضیلت کے منافی بایں اعتبار نہیں ہے کہ مکہ میں حسنات کی زیادتی اس کے افضل ہونے کی سب سے بڑی وجہ ترجیح ہے۔
اور خطاب کے خاندان کا ایک شخص ناقل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا وہ قیامت کے دن میرا ہمسایہ اور میری پناہ میں ہو گا، جس شخص نے مدینہ میں سکونت اختیار کر کے اس کی سختیوں پر صبر کیا قیامت کے دن میں اس کی اطاعت کا گواہ بنوں گا اور اس کے گناہوں کی بخشش کے لئے شفاعت کروں گا، اور جو شخص حرمین (مکہ اور مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے گا قیامت کے دن اسے اللہ تعالیٰ امن والوں میں اٹھائے گا (یعنی یہ قیامت کے دن عذاب کے خوف سے مامون رہے گا)۔
تشریح
جو شخص بالقصد میری زیارت کرے گا، کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص تجارت، دکھانے سنانے ، یا اسی طرح کی اور کسی دنیاوی غرض کے لئے نہیں بلکہ حصول ثواب کے پیش نظر صرف میری زیارت کے لئے آئے گا اسے مذکورہ سعادت حاصل ہو گی۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بطریق مرفوع (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور پھر میرے وصال کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ اس شخص کی مانند ہو گا جس نے میری زندگی میں میری زیارت کی یہ دونوں روایتیں بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کی ہیں۔
تشریح
روضہ اطہر کی زیارت کرنے والا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت کرنے والے کی مانند اس لئے ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حیات ہیں! یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روضہ اطہر کی زیارت حج کے افعال سے فراغت کے بعد کی جائے۔
ایک اور روایت میں منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص میری قبر کی زیارت کرتا ہے اس کے لئے میری شفاعت واجب و لازم ہوتی ہے ایک اور روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے حج بیت اللہ کی اور میری زیارت نہیں کی اس نے مجھ پر ظلم کیا۔ اسی طرح ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ جس شخص نے مکہ یعنی حج کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے لئے یعنی اس کے نامہ اعمال میں دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں۔
حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے کہ ایک دن مدینہ میں ایک قبر کھودی جا رہی تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی وہاں تشریف فرما تھے ، ایک شخص نے قبر میں جھانکا اور کہنے لگا یہ قبر مومن کے لئے بری خوابگاہ ہے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا کہ بری تو وہ چیز ہے کہ جو تم نے کہی ہے اس شخص نے عرض کیا کہ میرا منشاء یہ نہیں تھا، بلکہ اس بات سے میرا مطلب اللہ کی راہ میں شہید ہونے کی فضیلت کو ظاہر کرنا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (ہاں یہ بات تو صحیح ہے کہ) اللہ کی راہ میں شہید ہونے سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے لیکن یہ بات بھی ہے کہ روئے زمین کا کوئی بھی ٹکڑا ایسا نہیں جس میں میری قبر بنے اور وہ مجھے مدینہ سے زیادہ محبوب ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ اس روایت کو امام مالک نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔
تشریح
بری تو وہ چیز ہے جو تم نے کہی ہے کا مطلب یہ ہے کہ تمہاری یہ بات بری اور غلط ہے کہ قبر مؤمن کے لئے بری خوابگاہ ہے کیونکہ تم نے مؤمن کی قبر کو برا کہا ہے حالانکہ مؤمن کی قبر جنت کے باغات میں سے ایک باغ ہے۔ چنانچہ اس شخص نے اپنی بات کی وضاحت کی کہ میرا منشاء قبر کو مطلقاً مؤمن کی بری خوابگاہ کہنا نہیں تھا بلکہ میرا مطلب تو یہ تھا کہ اللہ کی راہ میں شہید ہونا گھر میں مرنے سے بہتر ہے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے اس نکتہ کو پسند فرمایا اور تصدیق کی کہ واقعی اللہ کی راہ میں شہید ہونے کے برابر کوئی چیز نہیں ہے ، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی قبر کے لئے مدینہ کی زمین کو پسند فرما کر اس شخص کی فضیلت کو ظاہر کیا جو مدینہ میں مرے اور مدینہ ہی میں دفن کیا جائے خواہ وہ شہید ہو یا غیر شہید۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے وادی عقیق میں (جو مدینہ کا ایک جنگل ہے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آج کی رات میرے پروردگار کی طرف سے ایک آنے والا یعنی فرشتہ میرے پاس آیا اور کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھئے اور وہ عمرہ کہئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ اور عمرہ و حج کہئے (یعنی اس وادی میں نماز پڑھنا حج و عمرہ کے برابر ہے۔ (بخاری)
تشریح
پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ عربی قواعد کے مطابق لفظ قول فعل کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے ، لہٰذا حدیث کے آخری جملہ قل عمرۃ فی حجۃ کے معنی ہیں اور اس نماز کو وہ عمرہ شمار کیجئے جو حج کے ساتھ ہوتا ہے گویا اس جملہ کے ذریعہ وادی عقیق میں ادا کی جانے والی نماز کی فضیلت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ وادی عقیق میں جو نماز پڑھی جاتی ہے اس کا ثواب اس عمرہ کے برابر ہے جو حج کے ساتھ کیا جاتا ہے ، اسی طرح دوسری روایت کے الفاظ وقل عمرۃ وحجۃ کا مطلب یہ ہے کہ وادی عقیق میں پڑھی جانے والی نماز عمرہ و حج کے برابر ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ حکیم مطلق اللہ جل شانہ، نے اس شہر پاک کی خاک پاک اور وہاں کے میوہ جات میں تاثیر شفا ودیعت فرمائی ہے۔ اکثر احادیث میں منقول ہے کہ مدینہ کے غبار میں ہر قسم کے مرض کی شفا ہے بعض دوسرے طرق سے منقول احادیث میں ہے کہ مدینہ کے غبار میں جذام اور برص کی شفا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا تھا کہ وہ بخار کا علاج اس کی خاک پاک سے کریں۔ چنانچہ نہ صرف مدینہ ہی میں اس حکم پر عمل ہوتا رہا ہے بلکہ اس خاک پاک کو بطور دوا لے جانے کے سلسلہ میں بھی کتنے ہی آثار منقول ہیں اور بعض علماء نے تو اس معالجہ کا تجربہ بھی کیا ہے ، حضرت شیخ مجددالدین فیروز آبادی کا بیان ہے کہ میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے کہ میرا ایک خدمت گار مسلسل ایک سال سے بخار کے مرض میں مبتلا تھا میں نے مدینہ کی وہ تھوڑی سی خاک پاک پانی میں گھول کر اس خدمت گار کو پلا دی اور وہ اسی دن صحت یاب ہو گیا۔
حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ مدینہ کی خاک پاک سے معالجہ کا تجربہ مجھے بھی ہوا ہے وہ اس طرح کہ جن دنوں میں مدینہ منورہ میں مقیم تھا میرے پاؤں میں ایک سخت مرض پیدا ہو گیا جس کے بارہ میں تمام اطباء کا یہ متفقہ فیصلہ تھا کہ اس کا آخری درجہ موت ہے اور اب صحت دشوار ہے۔ میں نے اسی خاک پاک سے اپنا علاج کیا، تھوڑے ہی دنوں میں بہت آسانی سے صحت حاصل ہو گئی۔ اسی قسم کی خاصیتیں وہاں کی کھجور کے بارہ میں بھی منقول ہیں چنانچہ صحیح احادیث میں وارد ہے کہ اگر کوئی شخص سات عجوہ کھجوریں (عجوہ مدینہ کی کھجور کی ایک قسم ہے) نہار منہ کھا لیا کرے تو کوئی زہر اور کوئی سحر اس پر اثر نہیں کرے گا۔
فضائل مدینہ کے سلسلہ میں یہ بات بھی بطور خاص قابل لحاظ ہے کہ اس مقدس شہر کی عظمت و بزرگی ہی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو اس شہر کے رہنے والوں کی تعظیم و تکریم کی یہ وصیت کی تھی کہ میری امت کے لوگوں کو چاہئے کہ وہ میرے ہمسایوں یعنی اہل مدینہ کے احترام کو ہمیشہ پیش ملحوظ رکھیں، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں، ان سے اگر کوئی لغزش ہو جائے تو اس پر مواخذہ نہ کریں اور اس وقت تک ان کی خطاؤں سے درگزر کریں جب تک کہ وہ کبائر سے اجتناب کریں (یعنی اگر وہ کبائر کے مرتکب ہوں تو پھر رعایت اور درگزر کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ اللہ اور بندوں کے حقوق کے سلسلے میں شریعت کا جو حکم ہو اسے جاری کرے) یاد رکھو، جو شخص ان کے احترام کو ہمیشہ ملحوظ رکھے گا میں قیامت کے دن اس کا گواہ اور شفاعت کرنے والا ہوں گا اور جو شخص اہل مدینہ کے احترام و حرمت کو ملحوظ نہیں رکھے گا اسے طینۃ الخبال کا سیال پلایا جائے گا (واضح رہے کہ طینۃ الخبال دوزخ کے ایک حوض کا نام ہے جس میں دوزخیوں کی پیپ اور لہو جمع ہوتا ہے)
ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دست دعا بلند کئے اور یوں گویا ہوئے خداوندا! جو شخص میرے اور میرے شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اس کو جلد ہی ہلاک کر دے نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو ڈرایا اس نے گویا مجھے ڈرایا نسائی کی روایت میں یہ ہے کہ جس شخص نے اہل مدینہ کو اپنے ظلم کے خوف میں مبتلا کیا اسے (اللہ تعالیٰ خوف میں مبتلا کرے گا اور اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہو گی اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ایسے شخص کا کوئی بھی عمل بارگاہ خداوندی میں مقبول نہیں ہو گا خواہ فرض ہو یا نفل۔
مدینہ اور اس کی گرداگرد زمین کی حرمت کے بارے میں بھی احادیث منقول ہیں، لیکن اس سلسلہ میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، چنانچہ حنفی علماء کے نزدیک مدینہ اور اس کی گرداگرد زمین کی حرمت کا مطلب یہ ہے کہ اس شہر مقدس اور اس کی چاروں طرف کی زمین کی تعظیم و تکریم کی جائے، نہ یہ کہ اس کا بھی وہی حکم ہے جو مکہ اور اس کی گردا گرد زمین کا ہے، لہٰذا حنفی مسلک کے مطابق مدینہ اور اس کی اطراف کی زمین میں درخت وغیرہ کاٹنا اور شکار کرنا حرام نہیں ہے۔ لیکن ائمہ ثلاثہ کے نزدیک چونکہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کا ایک ہی حکم ہے اس لئے ان کے مسلک میں مدینہ اور اس کے اطراف کی زمین میں وہ تمام چیزیں جو حرام ہیں جو مکہ اور اس کے اطراف کی زمین میں حرام ہیں تاہم ان ائمہ کے ہاں بھی حرم مدینہ میں ان چیزوں کے ارتکاب سے جزاء واجب نہیں ہوتی۔
حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طرف سے علاوہ قرآن اور ان باتوں کے جو اس صحیفہ میں ہیں، اور کچھ نہیں لکھا ہے ! حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے اس صحیفہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی بھی لکھا ہے کہ مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، لہٰذا جو شخص مدینہ میں بدعت پیدا کرے یعنی ایسی بات کہے یا رائج کرے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو یا کسی بدعتی کو پناہ دے تو اس پر خدا کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، اس شخص کے نہ (کامل طور) فرض (اعمال) قبول کئے جاتے ہیں نہ نفل! مسلمانوں کے عہد ایک ہے جس کے لئے ان کا ادنیٰ شخص بھی کوشش کر سکتا ہے لہٰذا جو شخص کسی مسلمان کے عہد کو توڑے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل! جو شخص اپنے ساتھوں کی اجازت کے بغیر کسی قوم سے موالات (دوستی) قائم کرے اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب آدمیوں کی لعنت ہے، نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل! (بخاری و مسلم)
بخاری اور مسلم ہی کی ایک اور روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ جو شخص اپنے باپ کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنی نسبت کا دعویٰ کرے (یعنی یوں کہے کہ میں زید کا بیٹا ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا بیٹا ہو) یا اپنے مالک کی بجائے کسی دوسرے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرے (مثلاً یوں کہے کہ میں زید کا غلام یا خدمت گار ہوں جب کہ حقیقت میں وہ بکر کا غلام یا خدمت گار ہو) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور سب لوگوں کی لعنت ہے نہ تو اس کے فرض قبول کئے جاتے ہیں اور نہ نفل۔
تشریح
کچھ لوگوں نے آپس میں کہا ہو گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب بطور خاص عنایت کی ہے جس کا علم اور کسی کو نہیں ہے، جب یہ بات حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سنی تو اس کی تردید کی اور فرمایا کہ میں نے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے صرف قرآن کریم لکھا ہے یا پھر چند احکام پر مشتمل وہ احادیث لکھی ہیں جو اس صحیفہ میں ہیں، ان کے علاوہ نہ تو میں نے کوئی اور کتاب لکھی ہے اور نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرآن کریم کے علاوہ مجھے اور کوئی کتاب دی ہے، چنانچہ اس صحیفہ سے مراد وہ لکھا ہوا ورق تھا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیات کے احکام اور چند دوسرے احکام تحریر کرائے تھے اور جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار کی نیام میں رہتا تھا۔
اس صحیفہ یا ورق میں دیات کے احکام کے علاوہ اور جو احکام لکھے ہوئے تھے ان میں مدینہ کے بارے میں بھی یہی حکم تھا، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا حدیث میں بیان کیا۔ لہٰذا مدینہ عیر اور ثور کے درمیان حرام ہے، کا مطلب یہ ہے کہ مدینہ منورہ اور اس کے گرداگرد زمین کا وہ حصہ جو عیر اور ثور کے درمیان ہے بزرگ قدر اور با عظمت ہے! اس میں ایسی چیزوں کا ارتکاب ممنوع ہے، جو اس مقدس شہر اور اس کی با عظمت زمین کی توہین و حقارت کا سبب ہوں، لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک حرام سے مراد حرم ہے یعنی مدینہ، حرم مکہ کی مانند ہے کہ جو چیزیں مثلاً شکار وغیرہ حرم مکہ میں حرام ہیں وہ مدینہ میں بھی حرام ہیں، اس طرح ان کے ہاں حرم مدینہ کی حدود عیر اور ثور نامی پہاڑ ہیں جو مدینہ مطہرہ کے دونوں طرف واقع ہیں۔
لایقبل منہ صرف ولاعدل، میں لفظ صرف کے معنی فرض بھی مراد لئے جا سکتے ہیں اور نفل بھی نیز توبہ اور شفاعت بھی اس لفظ کے معنی ہو سکتے ہیں، اس طرح لفظ عدل کے معنی نفل بھی مراد لئے جا سکتے ہیں اور فرض بھی۔ نیز فدیہ اور بعض حضرات کے قول کے مطابق شفاعت، یا توبہ، بھی اس لفظ کے معنیٰ ہو سکتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس صحیفہ میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا لکھوایا ہو ادوسرا حکم یہ بیان کیا کہ مسلمانوں کا امان ایک شئے واحد کی مانند ہے کہ اس کا تعلق ملت کے ہر فرد سے ہو سکتا ہے خواہ وہ برتر ہو یا کمتر، مثلاً جس طرح کسی اعلیٰ حیثیت کے مسلمان کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو عہد امان دے اسی طرح کسی ادنیٰ ترین مسلمان کو بھی عہد امان دینے کا اختیار حاصل ہے اور اس کے عہد امان کا لحاظ کرنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے، گویا اس حکم کا حاصل یہ ہوا کہ مسلمانوں میں سے اگر کوئی بھی شخص خواہ وہ کتنا ہی حقیر و کمتر ہو (جیسے غلام وغیرہ) کسی غیر مسلم کو امان دے اور اس سے اس کی جان و مال کی حفاظت کا عہد کرے، اس کو اپنی پناہ میں لے لے تو اس کے عہد کو توڑنا کسی دوسرے مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کے عہد امان کو پامال کرے گا بایں طور کہ اس کے زیر امان غیر مسلم کی جان و مال کو نقصان پہنچائے تو وہ خدا کی، فرشتوں کی اور تمام مسلمانوں کی لعنت کا مستحق ہو گا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس صحیفہ کا ایک حکم یہ بھی بیان کیا کہ جو شخص اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی اجازت کے بغیر دوسرے لوگوں سے سلسلہ موالات یعنی رابطہ دوستی قائم کرے وہ بھی لعنت کا مستحق ہوتا ہے! اس ضمن میں کچھ تفصیل ہے اس کو جان لینا چاہئے ولاء کی دو قسمیں ہیں پہلی قسم تو ولاء موالات ہے جس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلاً اہل عرب کا یہ معمول تھا کہ کچھ لوگ آپس میں دوستی کا رشتہ قائم کر کے یہ عہد کرتے اور قسم کھاتے تھے کہ ہم دوسرے کے بھلے برے میں شریک رہیں گے، زندگی کے ہر مرحلہ پر ہر ایک دوسرے کا ممد و معاون رہے گا، آپس میں ایک دوسرے کے دوست سے دوستی رکھیں گے اور دشمن کو دشمن سمجھیں گے۔ اسی کو ولاء موالات کہتے ہیں۔ ایام جاہلیت میں تو آپس کے عہد و پیمان کا تعلق صحیح و غلط، حق و ناحق، ہر معاملہ سے ہوتا تھا، ایک شخص چاہے حق پر ہو چاہے ناحق پر، اس کے دوسرے ساتھی اس کی مدد ہر حال میں کرتے تھے۔ لیکن جب اسلام کی روشنی نے عہد جاہلیت کی ظلمت کو ختم کیا تو مسلمانوں نے اس میں اتنی ترمیم کی کہ ان کا ایک دوسروں کے ساتھ تعاون و اشتراک صرف صحیح اور حق معاملہ تک محدود رہتا لیکن اس کے باوجود یہ معمول جاری رہا یہاں تک کہ اکثر اہل عجم، عرب میں آ کر صحابہ سے اس کا سلسلہ قائم کرتے تھے۔
دوسری قسم ولاء عتاقت ہے اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے کسی غلام کو آزاد کرتا ہے تو اس غلام پر یہ حق ولاء ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کے عصبہ (بیٹا پوتا وغیرہ) نہ ہونے کی صورت میں وہ آزاد کرنے والا اس کا وارث بن جاتا ہے لہٰذا ذوی الفروض (باپ دادا وغیرہ سے جو کچھ بچتا ہے وہ اس کا مالک ہوتا ہے۔
اس تفصیل کو ذہن میں رکھ کر اب سمجھئے کہ حدیث میں مذکورہ موالات سے ولاء کی پہلی قسم بھی مراد ہو سکتی ہے، اس صورت میں اس حکم کے معنی یہ ہوں گے کہ جس شخص کے موالی یعنی مذکورہ بالا عہد و پیمان کے مطابق دوست اور رفقاء ہوں تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے ان دوستوں کی اجازت کے بغیر کسی اور جماعت کو اپنا موالی (دوست) نہ بنائے کیونکہ اس کی وجہ سے ایک طرح کی عہد شکنی بھی ہوتی ہے اور مسلمانوں کو قلبی اذیت اور روحانی تکلیف میں مبتلا کرنا بھی ہوتا ہے جو کسی مسلمان کے لئے قطعاً مناسب نہیں ہے۔ اور یہ احتمال بھی ہے کہ موالات سے ولاء کی دوسری قسم مراد ہو، اس کے پیش نظر معنی یہ ہوں گے کہ جو شخص اپنی آزادی کی نسبت آزاد کرنے والے کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ مستحق لعنت ہوتا ہے جیسا کہ اپنے باپ کی بجائے کسی غیر کی طرف اپنی نسبت کرنے والا شخص مستحق لعنت ہوتا ہے اس صورت میں بغیر اذن موالیہ کی قید اکثر کے اعتبار سے ہو گی کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اگر آزادی یافتہ غلام اپنے مالک سے اس بات کی اجازت چاہتا ہے کہ وہ اپنی آزادی کی نسبت اس کی بجائے کسی دوسرے کی طرف کرے تو وہ اس کی اجازت نہیں دیتا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر مالک اجازت دے دے تو پھر غیر مالک کی طرف نسبت کرنا درست ہو جائے گا کیونکہ پھر جھوٹ کی صورت بن جائے گی جو ویسے بھی جائز نہیں ہے۔
شیعہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک وصیت نامہ مرتبہ کرایا تھا، جس میں جہاں اور بہت سی خاص باتیں تھیں وہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ اول مقرر کرنے کی ہدایت بھی تھی۔ اس وصیت نامہ کا علم اہل بیت میں سے چند مخصوص افراد (مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ وحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا وغیرہ) کے علاوہ اور کسی کو نہیں تھا، ظاہر ہے کہ شیعہ حضرات کا یہ قول اختراع سے زیادہ کچھ اہمیت نہیں رکھتا کیونکہ مذکورہ بالا حدیث اس قول کی تردید میں مضبوط دلیل ہے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خود وضاحت کے ساتھ فرما رہے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے قرآن کریم اور صحیفہ مذکورہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لکھی ہے۔
آخر میں ایک بات یہ بھی جان لیجئے کہ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ علم کی باتوں کو لکھنا اور مرتب کرنا مستحب ہے، جو ایک عظیم الشان خدمت بھی ہے اور اجر و ثواب کا باعث بھی۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں مدینہ کے دونوں پہاڑوں کے کناروں کے درمیان کو حرام (با عظمت) قرار دیتا ہوں، لہٰذا نہ تو اس زمین کے (جو، ان دونوں پہاڑوں کے درمیان ہے) خاردار درخت کاٹے جائیں اور نہ اس میں شکار مارا جائے (حنفیہ کے نزدیک یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے) مدینہ ان (لوگوں) کے لئے (جو مدینہ میں رہتے ہیں) بہتر ہے (یعنی مدینہ کا قیام دنیا و عقبی کی بھلائی کا ضامن ہے) بشرطیکہ وہ اس کی بھلائی و بہتری کو جانیں تو اس شہر کی اقامت کو ترک نہ کریں اور دنیا کے آرام و راحت کے لئے اس کو چھوڑ کر اور کہیں نہ جائیں جو بھی شخص بے رغبتی کے ساتھ (یعنی بلا ضرورت) اس شہر کو چھوڑے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی دوسرے ایسے شخص کو مقیم کر دے گا جو اس سے بہتر ہو گا (یعنی بے رغبتی کے ساتھ مدینہ کو چھوڑنا مدینہ کے لئے نقصان دہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے لئے مفید ہی ہو گا کہ اس شخص کی جگہ کوئی اس سے بہتر شخص آ کر مقیم ہو گا کہ ضرورت و مجبوری کے تحت مدینہ کو چھوڑنا اس حکم میں داخل نہیں) اور جو بھی شخص مدینہ میں سختیوں اور بھوک پر ثابت قدم رہے گا (یعنی وہاں کی ہر تنگی و پریشانی پر صبر کرے گا) تو میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا یہ فرمایا کہ میں اس(کی اطاعت) کا گواہ بنوں گا۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث میں جہاں مدینہ کے رہنے والوں کے لئے خاتمہ بخیر کی سعادت عظمی کی بشارت ہے وہیں یہ تنبیہ بھی ہے کہ مومن کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ حرمین شریفین یعنی مکہ مکرمہ و مدینہ منورہ کی سکونت پر اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت پر شکر بھی کرتا رہے اور وہاں کی ہر سختی و مصیبت پر صابر بھی رہے، نیز یہ کہ وہ ان مقدس شہروں کی بھلائی سے صرف نظر کر کے دوسری جگہوں کی ظاہری نعمت اور راحت و آرام پر نظر نہ رکھے کیونکہ اصل نعمت اور اصل راحت تو آخرت کی نعمت اور وہاں کی راحت ہے جیسا کہ یہ حدیث ہے۔ اللہم لا عیش الا عیش الآخرۃ۔ اے اللہ! آخرت کی راحت و آرام کے علاوہ اور کوئی راحت و آرام نہیں ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کا جو بھی شخص مدینہ میں سختی و بھوک پر اور وہاں کی کسی بھی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں کا معمول تھا کہ جب وہ کوئی نیا پھل دیکھتے تو اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لاتے اور جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پھل کو لیتے تو فرماتے، اے اللہ! ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت عطا فرما، ہمارے صاع میں برکت عطا فرما (صاع ایک پیمانہ کا نام تھا) ہمارے مد میں برکت عطا فرما (مد بھی ایک پیمانہ کا نام تھا) اور اے اللہ! ابراہیم تیرے بندے تھے، تیرے خاص دوست تھے اور تیرے نبی تھے، اور میں بھی تیرا بندہ ہوں اور تیرا نبی ہوں، ابراہیم نے تجھ سے مکہ کے لئے دعا مانگی تھی (جو اس آیت (فَاجْعَلْ اَفْىِٕدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِیٓ اِلَیهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّهُمْ یشْكُرُوْنَ) 14۔ ابراہیم:37) اور میں بھی تجھ سے مدینہ کے لئے دعا مانگتا ہوں اسی طرح کی دعا جو ابراہیم نے مکہ کے لئے مانگی تھی بلکہ اس کی مانند اور بھی دعا (یعنی ابراہیم نے جو دعا مانگی تھی میں نہ صرف اسی طرح کی دعا بلکہ اس سے بھی دو چند دعا مانگتا ہوں) پھر ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے خاندان کے سب سے چھوٹے بچے کو بلاتے اور اس کو وہ پھل عنایت فرماتے (تاکہ وہ بچہ خوش ہو جائے) (مسلم)
تشریح
برکت کے معنی ہیں زیادہ ہونا لہٰذا پھل میں برکت کی دعا مانگنے کا مطلب تو ظاہر ہی ہے، البتہ شہر میں برکت کا مطلب یہ ہے کہ شہر میں وسعت ہو، اس میں لوگ کثرت سے آباد ہوں اور اس کی تہذیبی و تمدنی حیثیت مثالی درجہ اختیار کرے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا اس طرح قبول ہوئی کہ شہر کا رقبہ بڑھا، اس کی آبادی بڑھی، مسجد نبوی کی بھی توسیع ہوئی اور دور دور سے آ کر مسلمان کثیر تعداد میں یہاں آباد ہوئے اور اس کے علاوہ یہ شہر اپنی تہذیبی و تمدنی حیثیت سے بھی مثالی درجہ پر پہنچا! صاع اور مد میں برکت سے مراد یہ ہے کہ رزق میں فراخی ہو۔
حضرت ابراہیم اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ تعالیٰ کے حبیب! اس کے باوجود کہ خلیل سے حبیب کا مرتبہ بڑا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابراہیم کی اس صفت کو ذکر کیا مگر سبب تواضع و انکسار اپنی صفت کو ذکر نہیں کیا اپنے کو صف اللہ کا بندہ اور اس کا نبی کہنے پر اکتفاء فرمایا۔
حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا حضرت ابرہیم نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرم قرار دیا (یعنی انہوں نے مکہ کی بزرگی اور حرم کو ظاہر کیا) اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس میں خونریزی کی جائے نہ وہاں جنگ کے لئے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جا سکتے ہیں۔ (مسلم)
تشریح
علامہ تو پشتی کہتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ وانی حرمت المدینہ میں تحریم سے مراد تعظیم ہے (جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کی گیا ہے) اس سے وہ احکام مراد نہیں جو حرم سے متعلق ہیں یعنی شکار وغیرہ کا حرام ہونا چنانچہ اس بات کی دلیل خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد ہے کہ اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں البتہ جانوروں کے کھانے کے لئے جھاڑے جا سکتے ہیں (اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حرم مکہ کا جو حکم ہے وہ حرم مدینہ کا نہیں ہے) کیونکہ مکہ کے جو درخت ہیں ان کے پتے جھاڑنے کسی حالت میں بھی درست نہیں ہیں، جہاں تک شکار کا تعلق ہے تو اگرچہ بعض صحابہ نے مدینہ میں شکار مارنے کو حرام کہا ہے لیکن اکثر صحابہ نے مدینہ کے پرندوں کے شکار کا انکار (یعنی اس سے منع) نہیں کیا ہے نیز اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی ممانعت کسی ایسے طریق سے ہم تک نہیں پہنچی ہے جس پر اعتماد کیا جا سکے، یہ علامہ تو پشتی کا اقتباس ہے اس بارے میں ملا علی قاری نے بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی ہے، اہل علم ان کی شرح سے مراجعت کر سکتے ہیں۔
حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ جو عشرہ مبشرہ میں سے ایک جلیل القدر صحابی ہیں اپنی حویلی کی طرف جو مدینہ کے قریب مقام عقیق میں تھی، سوار ہو کر چلے تو راستہ میں انہوں نے ایک غلام کو دیکھا جو ایک درخت کاٹ رہا تھا یا اس درخت کے پتے جھاڑ رہا تھا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے بطور سزا و تنبیہ اس غلام کے کپڑے چھین لئے، پھر جب وہ مدینہ واپس آئے تو غلام کے مالک ان کی خدمت میں آئے اور یہ گفتگو کی کہ انہوں نے جو چیز ان کے غلام سے لی ہے یعنی اس کے کپڑے اسے وہ غلام کو واپس کر دیں یا ان مالکوں کو دے دیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی پناہ میں اس چیز کو کیسے واپس کر سکتا ہوں جو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دلوائی ہے۔ چنانچہ سعد نے کپڑے واپس کرنے سے بالکل انکار کر دیا۔ (مسلم)
تشریح
ان یرد علی غلامہم او علیہم، حرف او راوی کے شک کو ظاہر کر رہا ہے کہ ان کے مالکوں نے یا تو کہا تھا کہ غلام کے کپڑے غلام کو واپس کر دیں یا اس کے بجائے یہ کہا تھا کہ جو کپڑے ہمارے غلام سے لئے ہیں وہ ہمیں دے دیں۔ حدیث کے اس جملہ جو مجھے رسول اللہ نے دلوائی ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس بات کی اجازت دی تھی کہ جو شخص کسی کو مدینہ میں شکار مارتے یا درخت کاٹتے دیکھے تو وہ اس کے کپڑے ضبط کر لے، لہٰذا کہا جائے گا کہ یا تو یہ حدیث منسوخ ہے یا پھر یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف سے یہ اجازت زجر تنبیہ کے طور پر دی گئی تھی۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مدینہ میں شکار مارنے یا درخت کاٹنے کی وجہ سے بدلہ کفارہ واجب نہیں ہوتا بلکہ مدینہ میں یہ چیزیں بغیر بدلہ کے حرام ہیں، جب کہ بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ جس طرح مکہ میں ان چیزوں کے ارتکاب سے بدلہ واجب ہوتا ہے اسی طرح مدینہ میں بھی ان کی وجہ سے بدلہ میں واجب ہوتا ہے لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک مدینہ میں یہ چیزیں حرام نہیں ہیں البتہ مکروہ ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور صحابہ جب مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ بخار میں مبتلا ہو گئے، چنانچہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ان کی بیماری کی خبر دی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی اے اللہ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے جس طرح تو نے مکہ کو ہمارا محبوب بنایا تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ، اور مدینہ کی آب و ہوا درست فرما دے اور مدینہ کے صاع و مد میں ہمارے لئے برکت عطا فرما، نیز مدینہ کے بخار کو (یعنی بخار کی کثرت و وباء کو) کو یہاں سے نکال کر جحفہ میں منتقل کر دے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
منقول ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شدت بخار میں مبتلا ہوئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی مزاج پرسی کی تو اس وقت وہ مکہ اور وہاں کی آب و ہوا، وہاں کے مکانات اور پہاڑوں کی صحت افزاء فضاؤں وغیرہ کا بآواز بلند ذکر کرنے لگے، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ حال ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ بالا دعا فرمائی۔
جحفہ ایک مقام کا نام ہے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع ہے، اس مقام پر یہودی آباد تھے، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمانوں کی طرف سے کفار کے لئے مہلک امراض اور ان کے شہروں کی خرابی کی بددعا کرنا جائز ہے، چنانچہ اس حدیث کے علاوہ ایک روایت یہ بھی منقول ہے کہ مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے پہلے بیماری اور وباؤں کی کثرت تھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان وباؤں کو (اللہ تعالیٰ سے دعا کے ذریعہ) کفار کے علاقوں میں بھیج دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمر مدینہ سے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خواب کے سلسلہ میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے ایک کالی عورت کو دیکھا جس کے بال پراگندہ تھے وہ مدینہ سے نکلی اور مہیعہ چلی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے اس خواب کی تعبیر یہ لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ یعنی جحفہ کی طرف منتقل کر دی گئی ہے۔ (بخاری)
حضرت سفیان بن ابوزہیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے۔ جب یمن فتح ہو جائے گا تو ایک ایسا گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہو گا (یعنی مدینہ میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے، جو محنت و مشقت سے دور رہ کر دنیا کی راحت و آرام کے طالب ہوں گے) چنانچہ وہ لوگ اپنے و اہل و عیال کے ساتھ مدینہ سے چلے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہو گی اگر وہ مدینہ کے بہتر ہونے کو جانیں تو مدینہ کو نہ چھوڑیں۔ جب شام فتح ہو گا تو ایک گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہو گا چنانچہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال کے ساتھ مدینہ سے چلے جائیں گے حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہو گی اگر وہ جانیں۔ اسی طرح جب عراق کو فتح کیا جائے گا تو ایک گروہ آئے گا جو آہستہ رو ہو گا چنانچہ وہ لوگ اپنے اہل و عیال کو لے کر مدینہ سے چلے جائیں گے۔ حالانکہ مدینہ ان کے لئے بہتر جگہ ہو گی اگر وہ جانیں (تو مدینہ کو نہ چھوڑیں گے)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مدینہ کے کچھ لوگوں کے بارے میں پیش گوئی فرمائی ہے کہ جب مذکورہ بالا ممالک مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہو جائیں تو وہ لوگ مدینہ کی سخت کوش زندگی سے اکتا کر طلب معاش اور دنیا کے فانی فائدوں اور آسائشوں کی خاطر اس مقدس و بابرکت شہر کو چھوڑ کر ان ممالک میں جا بسیں گے، حالانکہ ہر اعتبار سے مدینہ ہی ان کے لئے سب سے بہتر جگہ ہو گی، اگر وہ اس حقیقت کو جان لیں اور دنیا و آخرت کی سعادت و بھلائی ان کے پیش نظر رہے تو مدینہ کو نہ چھوڑیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے اور اس بستی کو لوگ یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے جو برے آدمیوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال دیتی ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جو تمام بستیوں پر غالب رہتی ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مدینہ میں رہتے ہیں وہ دوسرے لوگوں پر غالب رہتے ہیں اور دوسرے شہروں کو فتح کرتے ہیں، چنانچہ تاریخی طور پر اس عظیم الشان شہر کی یہ خصوصیت ثابت ہے کہ مدینہ میں آ کر بسنے والے دوسروں پر غالب اور بیشتر شہروں کے فاتح رہے ہیں، پہلے قوم عمالقہ آ کر شہر میں آباد ہوئی اس نے غلبہ حاصل کیا اور کتنے ہی شہروں اور علاقوں کو فتح کیا، پھر یہود آئے تو وہ عمالقہ پر غالب ہوئے پھر انصار پہنچے تو انہوں نے یہودیوں پر اپنا اقتدار قائم کیا، یہاں تک کہ جب سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم نے اس شہر کو اپنا مسکن بنایا تو ان کو جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انہوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیر اثر کیا وہ سامنے کی بات ہے۔
اس شہر کا نام پہلے یثرب اور اثرب تھا، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شہر کی مدنیت اور کثرت آبادی کے پیش نظر اس کا نام مدینہ رکھا نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم دیا کہ آئندہ اس شہر کو یثرب نہ کہا جائے کیونکہ اول تو یہ زمانہ اسلام سے قبل کا نام تھا جس سے عہد جاہلیت کی بو آتی تھی، دوسرے یہ کہ معنوی طور پر بھی یہ نام بالکل نامناسب تھا اس لئے کہ یثرب کے معنی ہیں ہلاک و فساد نیز یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یثرب ایک بت یا ایک بہت بڑے ظالم شخص کا نام تھا۔
بخاری نے اپنی تاریخ میں ایک روایت نقل کی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ایک مرتبہ یثرب کہے تو اسے چاہئے کہ وہ دس مرتبہ مدینہ کہے تاکہ اس مقدس شہر کا ممنوع نام لینے کا تدارک اور اس کی تلافی ہو جائے، نیز ایک روایت یہ بھی ہے کہ جو شخص یثرب کہے وہ استغفار کرے۔
برے آدمیوں سے مراد اہل کفر و شرک ہیں، جو اسلام کا غلبہ ہو جانے کے بعد اس شہر سے نکال دئیے گئے تھے، چنانچہ کفار و مشرکین پر اس شہر کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دئیے گئے ہیں۔
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لسان مقدس کے ذریعہ مدینہ کا نام طابہ ظاہر فرمایا ہے، اور ایک روایت میں طیبہ ہے جس کے معنی ہیں پاک و خوش یعنی یہ شہر مقدس کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک ہے، اس کی آب و ہوا طبائع سلیم کو موافق ہے اور یہاں کے رہنے والے خوش و خرم ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں رہنے کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بیعت کی، کچھ ہی دنوں کے بعد جب وہ مدینہ کے شدید بخار میں مبتلا ہوا اور اس صورت میں اس سے مدینہ رہنا گوارا نہ ہوا اور وہاں سے چلے جانے کا ارادہ کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انکار کر دیا، وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مرتبہ بھی انکار کر دیا، اس کے بعد وہ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے محمد! میری بیعت فسخ کر دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر انکار کر دیا، چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اجازت کے بغیر ہی مدینہ سے بھاگ گیا، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ مدینہ بھٹی کی مانند ہے جو اپنے میل کو دور کر دیتا ہے اور اپنے اچھے آدمی کو نکھار دیتا ہے یعنی برے آدمی کو نکال باہر کرتا ہے اور پاک باطن و مخلص آدمی کو پلید ذہن اور بد طینت آدمی سے الگ کر دیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی بیعت کو فسخ کرنے سے اس لئے انکار فرمایا کہ جس طرح اسلام کی بیعت کو فسخ کر دینا جائز نہیں تھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ رہنے کی بیعت کو بھی فسخ کر دینے کی اجازت نہیں تھی۔
علماء لکھتے ہیں کہ مدینہ کی اس خاصیت یعنی برے آدمیوں کو نکال دینے اور اچھے آدمیوں کو خالص کر دینے کا تعلق یا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے زمانہ کے ساتھ خاص تھا یا پھر آخر زمانہ میں قیامت کے قریب اس مقدس شہر کی یہ خاصیت ظاہر ہو گی کہ جب دجال نمودار ہو گا تو مدینہ کو تین مرتبہ ہلایا اور جھنجھوڑا جائے گا چنانچہ اس وقت مدینہ میں جتنے بھی برے لوگ ہوں گے (خواہ وہ کافر ہوں یا منافق) اس شہر سے نکل پڑیں گے اور دجال کے پاس پہنچ جائیں گے، نیز یہ احتمال بھی ہے کہ اس خاصیت کا تعلق ہر زمانہ کے ساتھ ہو۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک کہ مدینہ اپنے شریر (یعنی برے) لوگوں کو اس طرح نہ نکال پھینکے گا جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو نکال پھینکتی ہے۔ (مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مدینہ کے راستوں یا اس کے دروازوں پر بطور نگہبان فرشتے متعین ہیں، نہ تو مدینہ میں طاعون کی بیماری داخل ہو گی نہ دجال داخل ہو گا (بخاری و مسلم)
تشریح
طاعون وبا کے علاوہ ایک خاص بیماری کو بھی کہتے ہیں چنانچہ یہاں حدیث میں اسی خاص بیماری کے بارے میں فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا کی برکت سے یہ بیماری مدینہ میں داخل نہیں ہو گی، گویا یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک صریح معجزہ ہے۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنی کتاب میں طاعون کا ترجمہ وباء ہی کیا ہے اور فرمایا ہے کہ مدینہ میں وباء کا داخل نہ ہونا یا تو دجال کے ظاہر ہونے کے وقت ہو گا یا یہ کہ اس کا تعلق ہر زمانہ سے ہے۔
٭٭ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ایسا کوئی شہر نہیں ہے جسے دجال نہ روندے گا اور مدینہ، یا مکہ اور مدینہ میں سے ہر ایک کے راستوں میں ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس پر صف باندھے ہوئے فرشتے نہ کھڑے ہوں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں چنانچہ جب دجال مدینہ سے باہر زمین شور میں نمودار ہو گا تو مدینہ اپنے باشندوں کے ساتھ زلزلہ کی صورت میں تین مرتبہ ہلے گا جس کے نتیجہ میں ہی کافر و منافق مدینہ سے نکل پڑے گا اور دجال کے پاس چلا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)
حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص بھی مدینہ والوں سے مکر و فریب کرے گا وہ اس طرح گھل جائے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
تاریخ اسلام کی بدنام ترین شخصیت یزید کا یہی حال ہوا کہ وہ واقعہ حرہ کے بعد دق اور سل کی بیماری میں گھل گھل کر مر گیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی سفر سے واپس ہوتے تو مدینہ منورہ کی دیواریں (یعنی اس کی عمارتیں) دیکھ کر اپنے اونٹ کو دوڑانے لگتے اور اگر گھوڑے یا خچر پر سوار ہوتے تو اس کو تیز کر دیتے اور یہ اس وجہ سے تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مدینہ سے محبت تھی۔ (بخاری)