مشکوٰة شر یف

حرم مکہ کی حرمت کا بیان

حرم مکہ کی حرمت کا بیان

حرم مکہ (اللہ تعالیٰ اس کی حرمت کو آفات سے محفوظ رکھے) کی حرمت کا بیان

 

 حرم   زمین کے اس قطعہ کو کہتے ہیں جو کعبہ اور مکہ کے گرداگرد ہے۔ ! اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی عظمت کے سبب اس زمین کو بھی معظم و مکرم کیا ہے۔ اس زمین کو حرم اس لئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس خطہ زمین کی بزرگی کی وجہ سے اس کی حدود میں ایسی بہت سی چیزیں حرام قرار دی ہیں جو اور جگہ حرام نہیں ہیں۔ مثلاً حدود حرم میں شکار کرنا، درخت کاٹنا اور جانوروں کو ستانا وغیرہ درست نہیں۔ !بعض علماء کہتے ہیں کہ زمین کا یہ حصہ حرم اس طرح مقرر ہوا کہ جب حضرت آدم زمین پر اتارے گئے تو شیاطین سے ڈرتے تھے کہ مجھے ہلاک نہ کر ڈالیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت و نگہبانی کے لئے فرشتوں کو بھیجا ان فرشتوں نے مکہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا لہٰذا مکہ کے گرداگرد جہاں جہاں فرشتوں نے کھڑے ہو کر حد بندی کی وہ حرم کی حد مقرر ہوئی اور اس طرح کعبہ مکرمہ اور ان فرشتوں کے کھڑے ہونے کی جگہ کے درمیان جو زمین آ گئی، وہ حرم ہوئی۔ بعض حضرات یہ فرماتے ہیں کہ حضرت آدم نے جب کعبہ بناتے وقت حجر اسود رکھا تو اس کی وجہ سے ہر چہار طرف کی زمین روشن ہو گئی چنانچہ اس کی روشنی اس زمین کے چاروں طرف جہاں جہاں تک پہنچی وہیں حرم کی حد مقرر ہوئی زمین حرم کے حدود یہ ہیں، مدینہ منورہ کی طرف تین میل (مقام تنعیم تک) یمن، طائف، جعرانہ اور جدہ کی طرف سات سات میل بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ جدہ کی طرف دس میل اور جعرانہ کی طرف نو میل۔ چاروں طرف جہاں جہاں حرم کی زمین ختم ہوتی ہے۔ وہاں حدود کی علامت کے طور پر برجیاں بنی ہوئی ہیں مگر جدہ اور جعرانہ کی طرف برجیاں نہیں ہیں۔

حرم مکہ کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا کہ اب مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرض نہیں ہے البتہ جہاد اور عمل میں نیت کا اخلاص ضروری ہے لہٰذا جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے یعنی تمہارا امیر تمہیں جو جہاد کا حکم دے تو جہاد کے لئے نکل کھڑے ہو۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ ہی کے دن یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شہر یعنی تمام زمین حرم کو حرام کیا ہے بایں طور کہ تمام لوگوں پر اس مقدس خطہ زمین کی ہتک و بے حرمتی حرام ہے اور اس کی تعظیم واجب ہے اسی دن سے جب کہ اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا یعنی اس خطہ زمین کی حرمت شروع ہی سے ہے لہٰذا یہ خطہ زمین اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کے سبب قیامت تک کے لئے حرام کیا گیا بلاشہ اس خطہ زمین میں نہ تو مجھ سے پہلے کسی کے لئے قتل و قتال حلال کیا گیا تھا اور نہ میرے لئے حلال ہوا ہے علاوہ فتح مکہ کے دن کی ایک ساعت کے پس اس دن کے بعد یہ خطہ زمین اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی حرمت کے سبب قیامت کے دن پہلا صور پھونکے جانے تک ہر شخص کے لئے حرام کر دیا گیا ہے لہٰذا نہ تو اس زمین کا کوئی خاردار درخت ہی کاٹا جائے اگرچہ وہ ایذاء دے نہ اس کا شکار بہکایا جائے یعنی کوئی شکار کی غرض سے یا محض بھڑکانے ستانے کے لئے یہاں کے کسی جانور کے ساتھ تعرض نہ کرے اور نہ یہاں کا لقطہ اٹھایا جائے ہاں وہ شخص اس کو اٹھا سکتا ہے جو اس کا اعلان کرے اور نہ اس کی زمین کی گھاس کاٹی جائے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مگر اذخر (ایک قسم کی گھاس) تو ایسی چیز ہے جو لوہاروں اور سناروں کے لئے لوہا اور سونا گلانے کے کام آتی ہے اور گھروں کی چھتیں بنانے میں اس کی ضرورت پڑتی ہے اس کو کاٹنے کی اجازت دے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں! اذخر کاٹی جا سکتی ہے۔ (بخاری و مسلم) اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نہ یہاں کا درخت کاٹا جائے اور نہ یہاں کی گری پڑی کوئی چیز اٹھائی جائے البتہ اس کے مالک کو تلاش کرنے والا اٹھا سکتا ہے۔

 

تشریح

 

 آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف لائے تو اس وقت ہجرت ہر اس شخص پر فرض تھی جو اس کی استطاعت رکھتا تھا۔ پھر جب مکہ فتح ہو گیا تو اس ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا جو فرض تھی کیونکہ اس کے بعد مکہ دارالحرب نہیں رہا تھا لہٰذا ارشاد گرامی اب ہجرت نہیں الخ، کا مطلب یہی ہے کہ اگر اب کوئی ہجرت کرے تو اسے وہ درجہ حاصل نہیں ہو گا جو مہاجرین کو حاصل ہو چکا ہے البتہ جہاد اور اعمال میں حسن نیت کا اجر اب بھی باقی ہے اور ہمیشہ ہمیشہ باقی رہے گا، اسی طرح وہ ہجرت بھی باقی ہے جو اپنے دین اور اسلام کے احکام و شعائر کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی ملتا ہے۔

  نہ کوئی خاردار درخت کاٹا جائے اس سے معلوم ہوا کہ بغیر خاردار درخت کو کاٹنا تو بدرجہ اولیٰ جائز نہیں ہو گا ہدایہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص زمین حرم کی ایسی گھاس یا ایسا درخت کاٹے جو کسی کی ملکیت میں نہ ہو اور خود رو ہو تو اس پر اس گھاس یا درخت کی قیمت بطور جزاء واجب ہو گی، البتہ خشک گھاس کاٹنے کی صورت میں قیمت واجب نہیں ہوتی لیکن اس کا کاٹنا بھی درست نہیں ہے۔ ! زمین حرم کی گھاس کو چرانا بھی جائز نہیں ہے، البتہ اذخر کو کاٹنا بھی جائز ہے اور چرانا بھی، اسی طرح کماۃ یعنی کھنبی (ایک قسم کا خود رو ساگ) بھی مستثنی ہے کیونکہ یہ نباتات میں سے نہیں ہے ! حضرت امام شافعی کے مسلک میں زمین حرم کی گھاس میں جانوروں کو چرانا بھی جائز ہے۔

  لقطہ اس چیز کو کہتے ہیں جو کہیں گری پڑی پائی جائے اور اس کا مالک معلوم نہ ہو۔ زمین حرم کے علاوہ عام طور پر لقطہ کا حکم تو یہ ہے کہ اس کو اٹھانے والا عام لوگوں میں یہ اعلان کراتا رہے کہ میں نے کسی کی کوئی چیز پائی ہے جس شخص کی ہو وہ حاصل کر لے۔ اگر اس اعلان کے بعد بھی اس چیز کا مالک نہ ملے تو وہ شخص اگر خود نادار و مستحق ہو تو اسے اپنے استعمال میں لے آئے اور اگر نادار نہ ہو تو پھر کسی نادار کو بطور صدقہ دے دے پھر اگر بعد میں اس کا مالک مل جاے تو اس کو اس کی قیمت ادا کرے لیکن زمین حرم کے لقطہ میں، جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث سے معلوم ہوا، یہ بات نہیں ہے بلکہ صرف اعلان ہے جب تک کہ اس کا مالک نہ مل جائے یعنی جب تک اس کے مالک کا پتہ نہ لگے اس وقت تک اس کا اعلان کیا جاتا رہے اور مالک کا انتظار کیا جائے، اس کو آخر تک نہ تو اپنے استعمال میں لا سکتا ہے نہ کسی کو بطور صدقہ دیا جا سکتا ہے اور نہ اپنی ملکیت بنایا جا سکتا ہے، چنانچہ حضرت امام شافعی کا یہی مسلک ہے لیکن اکثر علماء کے نزدیک حرم اور غیر حرم کے لقطہ کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے، ان کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں مطلق طور پر لقطہ کا حکم بیان کیا گیا ہے جو انشاء اللہ لقطہ کے باب میں آئیں گی۔

 حدیث کے الفاظ الا من عرفہا کا مطلب ان علماء کے نزدیک یہ ہے کہ زمین حرم کے لقطہ کو اٹھانے والا پورے ایک برس تک مکہ میں اس کا اعلان کرتا کراتا رہے جیسا کہ اور جگہ کرتے ہیں، اعلان کو صرف ایام حج کے ساتھ مخصوص نہ کرے، گویا حدیث کے اس جملہ کا حاصل یہ ہوا کہ زمین حرم کے لقطہ کے بارے میں کسی کو یہ غلط فہمی و گمان نہ ہونا چاہئے کہ وہاں اس کا اعلان صرف ایام حج ہی کے دوران کرنا کرانا کافی ہے۔

مکہ میں بلا ضرورت ہتھیار اٹھانا درست نہیں

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے کسی کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ مکہ میں ہتھیار اٹھائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اکثر علماء کے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ مکہ میں بلاضرورت ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے، لیکن حضرت امام حسن فرماتے ہیں کہ مکہ میں نہ صرف بلا ضرورت بلکہ بضرورت بھی ہتھیار اٹھانا درست نہیں ہے۔

حرم مکہ میں قصاص اور حد جاری کرنے کا مسئلہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے دن مکہ معظمہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک پر خود تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس خود کو اتارا تو ایک شخص (یعنی فضل بن عبید رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا کہ ابن خطل کعبہ کے پردہ کو پکڑے ہوئے ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کو مار ڈالو۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 علامہ طیبی نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا خود پہن کر مکہ میں داخل ہونا حضرت امام شافعی کے اس مسلک کی دلیل ہے کہ جو شخص نسک حج یا عمرہ کا ارادہ نہ رکھتا ہو وہ احرام کے بغیر مکہ میں داخل ہو سکتا ہے۔ لیکن حنفیہ کا مسلک چونکہ یہ ہے کہ جو شخص (بشرطیکہ وہ آفاقی ہو) مکہ میں داخل ہونا چاہے خواہ وہ حج یا عمرہ کا ارادہ رکھتا ہو یا کسی اور غرض سے مکہ جا رہا ہو تو وہ میقات سے احرام باندھے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔ اس لئے شمنی کہتے ہیں کہ حنفیہ کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ کوئی شخص احرام باندھے بغیر میقات سے آگے نہ بڑھے۔ نیز یہ کہ احرام تو محص اس مقدس جگہ یعنی خانہ کعبہ کی تعظیم کے لئے باندھا جاتا ہے اس لئے چاہے کوئی حج یا عمرہ کے لئے مکہ جائے چاہے کسی اور غرض سے، اس کے لئے ضروری ہے کہ خانہ کعبہ کی تعظیم کے پیش نظر احرام کے بغیر مکہ میں داخل نہ ہو۔

 اب رہی یہ بات کہ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم احرام کے بغیر مکہ میں کیسے داخل ہوئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فتح مکہ کے دن اس خاص ساعت میں بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے حلال ہو گیا تھا، چنانچہ اس کی تائید باب کی پہلی حدیث کے ان الفاظ ولم یحل لی الا ساعۃ من نہا (اور نہ میرے لئے حلال ہوا ہے علاوہ دن کی ایک ساعت کے) سے ہوئی ہے۔

 ابن خطل کے بارے میں علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ مسلمان تھا مگر پھر مرتد ہو گیا تھا اور اس نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا تھا۔ جو اس کا خدمت گار تھا، نیز اس نے ایک پیشہ ور گانے والی لڑکی پال رکھی تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، آپ کے صحابہ کرام اور اسلام کے احکام و شعائر کی ہجو کرتی تھی اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو مار ڈالنے کا حکم دیا۔

 اس بات سے حضرت امام مالک اور حضرت امام شافعی یہ استدلال کرتے ہیں کہ حرم مکہ میں قصاص اور حدود سزائیں جاری کرنا جائز ہے، حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے، امام صاحب فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے دیا کہ وہ مرتد ہو گیا تھا، تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو قصاص کے طور پر قتال کرایا تو پھر یہ کہا جائے گا کہ اس کا قتل اس خاص ساعت میں ہوا ہو گا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے زمین حرم مباح کر دی گئی تھی۔

بغیر احرام مکہ میں داخلہ

حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے دن بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہوئے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر پر خود پہن کر اس کے اوپر سیاہ عمامہ باندھ رکھا ہو گا، بغیر احرام مکہ میں داخل ہونے کے بارے میں حدیث نمبر۳ کی تشریح میں بحث کی جا چکی ہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ سیاہ رنگ کی پگڑی استعمال کرنا مستحب ہے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے۔

کعبہ کی تخریب کے بارے میں ایک پیشگوئی

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک لشکر خانہ کعبہ پر چڑھائی کرنے کا ارادہ کرے گا تاکہ وہ خانہ کعبہ کو نقصان پہنچائے، چنانچہ جب وہ لشکر زمین کے ایک میدانی حصہ میں، پہنچے گا تو وہ اول سے آخر تک (یعنی پورا لشکر) زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ وہ لشکر اول سے آخر تک (یعنی سب کو) کس طرح دھنسا دیا جائے گا جب کہ ان میں کاروباری لوگ بھی ہوں گے اور ان میں وہ شخص بھی ہو گا جو ان میں سے نہیں ہے، لشکر میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جو نہ سب لشکر والوں کی طرح کافر ہوں گے اور نہ کعبہ کو نقصان پہنچانے میں ان کے ہمنوا و شریک ہوں گے بلکہ ان کو زبردستی لشکر میں شامل کر لیا ہو گا تو کیا ایسے لوگ بھی زمین میں دھنسا دیئے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اول سے آخرت تک سب ہی دھنسا دئیے جائیں گے البتہ انہیں ان کی نیتون کے مطابق اٹھایا جائے گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 یہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس زمانہ کے بارے میں پیش گوئی فرمائی ہے جب دنیا اپنی عمر کے آخری دور میں ہو گی، چنانچہ اس آخری زمانہ میں حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد مصر کے حکمران سفیانی کا ایک لشکر خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے کے ناپاک ارادہ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہو گا مگر وہ اپنے اس ناپاک ارادہ میں کامیاب ہونے سے پہلے ہی زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ ایسے لوگ لشکر کے ناپاک ارادوں کے ہمنوا نہ ہوں گے اور خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانا یا اس کی توہین کرنا ان کا مقصد نہیں ہو گا مگر چونکہ وہ لشکر میں شامل ہو کر نہ صرف یہ کہ ان کی بھیڑ میں اضافہ کریں گے بلکہ ایک طرح سے ان کے ناپاک ارادوں میں اعانت کا سبب بھی بنیں گے اس لئے پورے لشکر کے ساتھ ان کو بھی زمین میں دھنسا دیا جائے، ہاں پھر قیامت میں سب کو ان کی نیتوں کے مطابق اٹھایا جائے گا کہ جو شخص کسی مجبور اور زبردستی کے تحت لشکر میں شامل ہوا ہو گا اور اس کی نیت صاف اور اس کا قلب ایمان و اسلام کی روشنی سے منور ہو گا وہ جنت میں داخل کیا جائے گا اور جو لوگ واقعی ناپاک ارادوں کے ساتھ اور بہ نیت کفر لشکر میں شامل ہوں گے انہیں دوزخ کی آگ کے حوالہ کر دیا جائے گا۔

مخرب کعبہ کے بارے میں پیش گوئی

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خانہ کعبہ کو نقصان پہنچانے والا حبشیوں میں سے وہ شخص ہو گا جس کی پنڈلیاں چھوٹی اور پتلی ہوں گی۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 یہ مقدر ہو چکا ہے کہ خانہ کعبہ کی تخریب ایک حبشی کے ہاتھوں ہو گی! چنانچہ یہ عبرت پکڑنے کی بات ہے کہ خانہ کعبہ باوجود اپنی قدر عظمت کے ایک حقیر آدمی کے ہاتھوں تباہ و خراب ہو گا اور جب خانہ کعبہ تباہ و خراب ہو گا تو قیامت آ جائے گی جس کے نتیجہ میں پوری دنیا تباہ و خراب ہو جائے گی کیونکہ اس عالم کی آبادی وغیرہ خانہ کعبہ کے وجود کے ساتھ متعلق ہے۔

 

 

٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ گویا میں خانہ کعبہ کی تخریب کرنے والے کو دیکھ رہا ہوں، وہ ایک سیاہ رنگ کا اور پھڈا شخص ہو گا جو خانہ کعبہ کا ایک پتھر اکھاڑ ڈالے گا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 افحج (پھڈا) اس شخص کو کہتے ہیں جس کے پنجے آپس میں ملے ہوں ہو اور ایڑیاں اور پنڈلیاں دور دور ہوں۔

حرم میں احتکار، کجروی ہے

حضرت یعلی بن امیہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، حرم میں غلہ کا احتکار (یعنی گراں بیچنے کے لئے غلہ کی ذخیر اندوزی) کجروی ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

  احتکار کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً کوئی شخص گراں بازاری کے دور میں غلہ اس نیت سے خرید کر رکھے کہ جب گرانی اور زیادہ بڑے گی تو اسے فروخت کرے گا۔ یہ نہ صرف یہ کہ ایک سماجی اور معاشرتی ظلم ہے بلکہ شرعی طور پر گناہ بھی ہے اسلامی نقطہ نظر سے یہ قابل نفریں فعل ویسے تو ہر جگہ اور ہر شہر میں حرام ہے لیکن حرم میں اس کا ارتکاب اشد حرام ہے جس پر کجروی یعنی حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف مائل ہونا کا اطلاق فرمایا گیا ہے اور حرم میں کجروی کے بارے میں حق تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا ہے۔ آیت (ومن یرد فیہ بالحاد بظلم نذقہ من عذاب الیم)۔ اور جو شخص حرم میں ظلم کے ساتھ کجروی کا ارادہ کرے گا ہم اسے دردناک عذاب کا مزہ چکھا دینگے۔

 

مسئلہ

 گراں فروشی کی نیت سے انسان اور جانوروں کی غذائی چیزوں کو روکے رکھنا اس شہر میں مکروہ ہے جس کے رہنے والوں کو اس سے تکلیف پہنچتی ہو۔

مکہ مکرمہ کی فضیلت

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے بعد وہاں سے واپس ہوتے وقت مکہ کی نسبت فرمایا کہ تو کتنا اچھا شہر ہے ! اور تو مجھے بہت ہی پیارا ہے! اگر میری قوم قریش کے لوگ مجھے یہاں سے نہ نکال چکے ہوتے تو میں اس شہر کے علاوہ کہیں نہ رہتا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث اسناد کے اعتبار سے حسن، صحیح، غریب ہے۔

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ سے افضل ہے چنانچہ اکثر علماء کا یہی قول ہے لیکن امام مالک کے نزدیک مدینہ کی فضیلت مکہ سے زیادہ ہے۔

 

 

٭٭ حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے دیکھا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حزورہ پر کھڑے ہوئے (مکہ کی نسبت) فرما رہے تھے کہ خدا کی قسم! تو خدا کی زمین کا سب سے بہتر قطعہ ہے، اور تو خدا کے نزدیک خدا کی زمین کا سب سے محبوب حصہ ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نہ نکالا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

  حزورہ  مکہ میں ایک جگہ کا نام ہے، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسی جگہ کھڑے ہو کر مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے مذکورہ بالا جملے ارشاد فرمائے۔

 اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ مؤمن کی شان کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس شہر مقدس میں اپنے قیام کو ایک عظیم سعادت تصور کرتے ہوئے مکہ کی اقامت کو اس وقت تک ترک نہ کرے جب تک وہ اس پر حقیقۃً یا حکما (یعنی دینی و دنیاوی ضرورت کے تحت) مجبور نہ ہو اسی لئے کہا گیا ہے کہ مکہ میں داخل ہونا سعادت اور وہاں سے نکلنا شقاوت ہے۔

 درمختار میں لکھا ہے کہ مکہ اور مدینہ کی مجاورت (یعنی ان دونوں شہروں میں مستقل طور پر رہنا) اس شخص کے لئے مکروہ نہیں ہے جس کو اپنے نفس پر قابو حاصل ہو۔ گویا جس شخص کو یہ یقین ہو کہ مجھ سے گناہ سرزد نہیں ہوں گے تو وہ ان شہروں میں اقامت حاصل کرے مگر جس شخص کو یہ یقین حاصل نہ ہو وہ اقامت اختیار نہ کرے۔

مکہ مکرمہ کی فضیلت

حضرت ابوشریح عدوی رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے اس وقت جب کہ وہ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مقابلے پر مکہ کی طرف لشکر بھیج رہے تھے، یہ کہا کہ میرے سردار مجھے اجازت دیجئے کہ میں آپ کے سامنے وہ بات بیان کروں جس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فتح مکہ کے اگلے دن ایک خطبہ کے دوران ارشاد فرمایا تھا، اس بات کو میرے کانوں نے سنا، میرے دل نے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ بات فرماتے دیکھا ہے! چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کی اور پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ تعالیٰ نے عظمت بخشی ہے، اس کو لوگوں نے بزرگی نہیں دی ہے، لہٰذا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس شہر میں خونریزی کرے یعنی کوئی مسلمان اس شہر میں کسی کو قتل نہ کرے اگرچہ وہ لائق قتل ہی کیوں نہ اور جو شخص لائق قتل نہ ہو اس کو قتل کرنا ہر جگہ حرام ہے خواہ حرم مکہ کے اندر ہو خواہ اس کے باہر اور یہ حلال ہے کہ اس کی زمین کا درخت کاٹے، اور اگر کوئی شخص اس شہر میں قتل و قتال کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل سے (جیسا کہ حدیث نمبر ۳ میں ابن خطل کے قتل کا واقعہ گزرا) جواز پیدا کرے تو اس سے کہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اجازت دے دی تھی اور تم کو اجازت نہیں ہے، چنانچہ مجھے بھی ایک دن کی صرف ایک ساعت کے لئے اس شہر میں قتل کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور اب آج کے دن (جب کہ یہ خطبہ دیا جا رہا ہے) اس شہر کی عظمت و حرمت بحالہ ہے جو کل گزشتہ اس مباح ساعت کے علاوہ تھی۔ جو لوگ یہاں موجود ہیں ان کو چاہئے کہ میری اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں ابوشریح رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر آپ سے کیا کہا۔ انہوں نے فرمایا کہ عمرو بن سعید رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا کہ ابوشریح! میں اس حدیث کو تم سے زیادہ جانتا ہوں لیکن سر زمین حرم نافرمان کو پناہ نہیں دیتی اور نہ اس شخص کو پناہ دیتی ہے جو خون کر کے بھاگا ہو یا کوئی تقصیر کر کے فرار ہوا ہو۔ (بخاری و مسلم)

 بخاری کی روایت میں الخربۃ کے معنی  قصور کے ہیں

 

 

تشریح

 

 عمرو بن سعید، خلیفہ عبدالملک بن مروان کی جانب سے مدینہ کے حاکم تھے، انہوں نے جب حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کے لئے مدینہ سے مکہ کو لشکر روانہ کیا تو حضرت ابوشریح صحابی رضی اللہ عنہ نے ان کے اس فیصلہ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مذکورہ بالا حدیث بیان کی جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حرم مکہ میں تو لائق قتل شخص کو بھی قتل کرنے کی اجازت نہیں ہے چہ جائکہ آپ ایک جلیل القدر صحابی کا خون بہانے کے لئے وہاں لشکر بھیج رہے ہیں۔ اس کے جواب میں عمرو بن سعید نے کہا کہ زمین حرم اس شخص کو پناہ نہیں دیتی جو خلیفہ سے بغاوت کر کے نافرمانی کا مرتکب ہوا ہو، گویا عمرو بن سعید کے گمان میں عبدالملک بن مروان، خلیفہ برحق تھا اور حضرت عبداللہ بن زبیر اس کے باغی، حالانکہ عبدالملک بن مروان خلیفہ برحق نہیں تھا کہ اس کی خلافت کا انکار کرنے والے کو شرعی نقطہ نظر سے باغی قرار دیا جاتا، اسی طرح عمرو بن سعید نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کا خون کر کے حرم میں چلا جائے تو حرم اس کو بھی پناہ نہیں دیتا ایسے ہی اگر کوئی شخص تقصیر کر کے یعنی دین میں فساد کا بیج بو کر یا کوئی دینی جرم کر کے یا کوئی اور قصور کر کے مثلاً کسی کا مال تلف کر کے یا کسی کا حق غصب کر کے بھاگ جائے اور حرم میں پناہ لے لے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے درگزر کر لیا جائے! گویا عمرو بن سعید کے جواب کا حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن زبیر ایک گنہگار و نافرمان شخص ہیں کیونکہ انہوں نے خلیفہ کی اطاعت سے انحراف کیا ہے، اگر وہ زمین حرم سے باہر آ جائیں گے تو وہاں ان کو سزا دی جائے گی اور اگر حرم ہی میں رہیں گے تو ان کو حرم ہی میں سزا دوں گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا یعنی زمین حرم ہی میں ان کو شہید کر دیا گیا۔

 

 

٭٭ حضرت عیاش ابن ابی ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ امت اس وقت تک بھلائی کے ساتھ رہے گی جب تک کہ اس حرمت یعنی مکہ کی حرمت کی تعظیم کرتی رہے گی جیسا کہ اس کی تعظیم کا حق ہے اور جب لوگ اس تعظیم کو ترک کر دیں گے تو ہلاک کر دئیے جائیں گے۔ (ابن ماجہ)