امل کے معنی ہیں امید رکھنا اور حرص کے معنی ہیں لالچ کرنا یا آرزو و ارادے کو دراز وسیع کرنا، حرص کا تعلق نیک آرزوؤں اور اچھے ارادوں سے بھی ہو سکتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہے۔ آیت(ان تحرص علی ہداہم) اور لفظ حرص کا اطلاق نفسانی خواہشات کے زیادتی اور دنیاوی چیزوں کے لالچ پر بھی ہوتا ہے جو ایک بری چیز ہے، چنانچہ قاموس میں لکھا ہے کہ بدترین حرص یہ ہے کہ تم اپنا حصہ بھی حاصل کر لو اور غیر کے حصے کی بھی طمع رکھو۔ حاصل یہ کہ نیک امور جیسے حصول علم، خدا کے دین کی سربلندی اور اچھے اعمال، اس میں حریص ہونا یعنی آرزؤں اور ارادوں کو دراز و وسیع کرنا، متفقہ طور پر علما کے نزدیک بہت اچھی بات ہے، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ طوبی لمن طال عمرہ وحسن عملہ۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی عمر کے آخر میں اس آرزو اور ارادہ کا اظہار فرمایا تھا کہ اگر میں اگلے سال تک جیتا رہا تو (محرم کی) نویں تاریخ کو بھی روزہ ضرور رکھوں گا اس کے برخلاف جس آرزو و ارادے کی درازی کا تعلق دنیاوی خواہشات نفس جیسے مال و دولت جمع کرنے اور جاہ و منصب کی طلب سے ہو تو وہ بہت بری بات ہے۔
جہاں تک عنوان کے پہلے لفظ 'امل کا تعلق ہے تو اس سے مراد دنیاوی امور (یعنی خوش حال زندگی اور محض دنیاوی بہبودی و ترقی وغیرہ) کی امیدوں، تمناؤں اور خیالی منصوبوں کی درازی و وسعت میں اس حد تک مبتلا ہو جانا ہے کہ موت کے لئے مستعد رہنے اور توشہ آخرت تیار کرنے سے غافل ہو جائے۔ اور یہ شان صرف انہی لوگوں کی ہو سکتی ہے جو دین و آخرت سے غافل، خدا فراموش اور دنیاوی زندگی ہی کو سب کچھ سمجھنے والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
آیت(ذرہم یاکلوا ویتمتعوا ویلہہم الامل)، یعنی آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ان کافروں کو ان کے حال پر چھوڑ دیجئے کہ (وہ خوب) کھا لیں اور چین اڑا لیں اور خیالی منصوبے (یعنی دنیا بھر کی آرزوئیں اور تمنائیں) ان کو غفلت میں ڈالے رکھیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمارے سمجھانے کے لئے چار خطہ کھینچ کر ایک مربع بنایا، پھر اس مربع کے درمیان ایک اور خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس درمیانی خط کے اس حصہ کی طرف جو (مربع کے) خطوں کے درمیان تھا، چھوٹے چھوٹے کئی خطوط کھینچے اور پھر فرمایا) اس خاکہ کو اچھی طرح سمجھ لو۔ درمیانی خط کا یہ حصہ کہ مربع کے خطوں کے درمیان ہے، گویا انسان ہے اور یہ خط کہ جس نے چاروں طرف سے مربع بنا رکھا ہے اس انسان کی موت ہے (یعنی مربع کے چاروں خطوط گویا اس کی موت کا وقت اور اس کی عمر کی آخری حد ہے جس نے چاروں طرف سے اس کو گھیر رکھا ہے) اور درمیانی خط کہ یہ حصہ کہ جو مربع سے باہر نکلا ہوا ہے، اس انسان کی (وہ) آرزو اور تمنا ہے (جس کے بارے میں وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ میں موت آنے سے پہلے اس کو حاصل کر لوں گا) حالانکہ وہ ایک بے بنیاد خیال میں مبتلا ہے کیونکہ اس کی آرزوؤں کی تکمیل سے زیادہ قریب ہے اور درمیانی خط کے اندرونی حصے پر جو یہ چھوٹے چھوٹے خطوط ہیں وہ عوارض(یعنی آفات و حادثات جیسے بھوک پیاس اور افلاس و بیماری وغیرہ) ہیں کہ جو انسان پر ہر طرف سے مسلط رہتے ہیں اور اگر وہ عوارض اپنا کام کر جاتے ہیں تو وہ ہلاک ہو جاتا ہے پس اگر وہ انسان کسی ایک حادثہ و عارضہ سے بچ جاتا ہے تو دوسرا حادثہ و عارضہ گھیر لیتا ہے، اگر اس حادثہ و عارضہ سے بھی بچ نکلتا ہے تو پھر تیسرا حملہ کر دیتا ہے غرضیکہ متعدد حوادث و عارضات اس کی تاک میں رہتے ہیں جن سے وہ یکے بعد دیگرے دوچار ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ موت آ کر اس کا کام تمام کر دیتی ہے۔ (بخاری)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان دور دراز کی امیدیں اور آرزوئیں رکھتا ہے اور اس وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ اس کی وہ امیدیں اور آرزوئیں کبھی نہ کبھی پوری ہوں گی۔ حالانکہ حقیقت میں وہ ان امیدوں اور آرزوؤں سے بہت دور اور اپنی موت سے بہت قریب ہوتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی منزل تکمیل تک پہنچنے سے پہلے موت کی آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کئی خطوط کھینچے جیسا کہ پہلی حدیث میں گزرا کہ آپ نے چار خط کھینچ کر ایک مربع بنایا اور اس مربع کے درمیان ایک اور خط کھینچا جو مربع سے باہر نکلا ہوا تھا پھر فرمایا کہ درمیانی خط کا یہ حصہ جو مربع سے باہر نکلا ہوا ہے انسان کی آرزو ہے، اور یہ خط جس نے چاروں طرف سے ایک مربع بنا رکھا ہے اس انسان کی موت ہے پس انسان اسی حالت میں (یعنی امیدوں اور آرزوؤں کے پورا ہونے کی فکر میں) رہتا ہے کہ اچانک موت کا خط اس کو آ دبوچتا ہے جو اس کے زیادہ قریب ہے۔ (بخاری)
تشریح
اس انسان کی خواہش تو یہ ہوتی ہے کہ وہ اس خط تک پہنچ جائے جہاں اس کی دنیائے آرزو بستی ہے اور جو اس سے بہت دور واقع ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ ناگہاں موت اس کو آ دبوچتی ہے اور وہ آرزو حاصل کیے بغیر اس جہاں سے چل کھڑا ہوتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان (خود تو بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اس میں دو چیزیں جوان اور قوی ہو جاتی ہیں، ایک تو مال جمع کرنے کی حرص اور اس کو خرچ نہ کرنے کی عادت اور دوسرے درازی عمر کی آرزو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
یہ حقیقت ہے کہ انسان خواہ کتنا ہی بوڑھا ہو جائے، اس کے مزاج و اطوار اور اس کی جبلت پر مذکورہ بالا دونوں خصلتوں کی گرفت ڈھیلی نہیں ہوتی بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ ان دونوں چیزوں کا زور بھی بڑھتا رہتا ہے اور بظاہر اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نفس اگر علم و عمل اور ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ محفوظ و پاکیزہ نہ ہو جائے تو وہ اپنی خواہشات اور اپنے جذبات کی گرفت میں رہتا ہے اور ظاہر ہے کہ خواہشات و جذبات کی تکمیل، مال اور عمر کے بغیر نہیں ہو سکتی، دوسرے یہ کہ انسان جب بڑھاپے کی منزل میں پہنچ جاتا ہے تو اس میں ان نفسانی خواہشات و جذبات کا وجود تو جوں کا توں قائم رہتا ہے لیکن وہ قوت عقلیہ کو (قوت شہوانیہ) کے محرکات کو دفع نہیں کر سکتی! اسی اعتبار سے سے ان دونوں چیزوں کو جوان اور قوی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بوڑھے کا دل ہمیشہ دو باتوں میں جوان (قوی) رہتا ہے ایک تو دنیا کی محبت میں اور دوسرے آرزو کی درازی میں۔ (اور یہ دونوں ہی باتیں مضر ہیں کیونکہ دنیا کی محبت موت کو عزیز نہیں رکھنے دیتی اور آرزوئے درازی عمر، تاخیر عمل اور کوتاہی عمل کی مقتضی ہوتی ہے۔ بخاری، مسلم)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آدمی کے لئے عذر کا کوئی موقع نہیں چھوڑا (یعنی اس کا عذر دور کر دیا) جس کی موت کو اتنا موخر کیا کہ اس کو ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا دیا۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ نے اتنی لمبی عمر عطا کی اور اتنے طویل زمانہ تک اس کو مہلت دی اور اس نے اس کے باوجود توبہ و انابت کی راہ اختیار نہیں کی اور گناہوں سے باز نہیں آیا تو اب اس کے لئے عذر خواہی کا وہ کون سا موقع رہ گیا ہے جس کے سہارے وہ قیامت میں عفو و بخشش کی امید رکھتا ہے۔ اگر کوئی جوان گناہ و معصیت اور بے عملی کی راہ اختیار کئے ہوئے ہے تو وہ کہتا ہے کہ جب میں بڑھاپے کی منزل میں پہنچوں گا تو اپنی بد عملیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر لوں گا اور اپنی زندگی کے اس حصہ کو خدا کی رضا جوئی اور اس کی عبادت میں صرف کروں گا، لیکن جو شخص بڑھاپے کی منزل میں پہنچ چکا ہے اور توبہ و انابت اور عمل کرنے کا آخری موقع بھی اس کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو وہ اپنی بے عملی اور گناہوں پر کیا کہے گا؟ ہائے! کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو عمر کی آخری منزل میں بھی پہنچ کر اپنی بے عملیوں اور اپنے گناہوں پر نادم و شرمسار نہیں ہیں اور اس آخری مرحلہ پر بھی جب کہ موت ان کو آ دبوچنے کے لئے بالکل تیار کھڑی ہے، انہیں اپنے رحیم و کریم پروردگار کا دامن عفو و رحمت پکڑ لینے کی توفیق نہیں ہوتی۔
بعض حضرات کے قول کے مطابق اس ارشاد گرامی کے معنی یہ ہے کہ بوڑھے شخص پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ واجب ہے کہ وہ برابر پروردگار کی بارگاہ میں عذر خواہی اور توبہ و استغفار کرتا رہے اور اس میں قطعاً تقصیر و کوتاہی نہ کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر (بالفرض والتقدیر) آدمی کے پاس مال و دولت سے بھرے ہوئے دو جنگل ہوں تب بھی وہ تیسرے جنگل کی تلاش میں رہے گا (یعنی اس کی حرص و طمع کی درازی کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی حد پر پہنچ کر اس کو سیری حاصل نہیں ہوتی اور آدمی کے پیٹ کو مٹی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بھر سکتی (یعنی جب تک وہ قبر میں جا کر نہیں لیٹ جاتا اس وقت تک اس کی حرص و طمع کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ تاہم یہ بات اکثر لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے ورنہ ایسے بندگان خدا بھی ہیں جن میں حرص و طمع ہونے کا تو کیا سوال اپنی ضرورت کے بقدر مال و اسباب کی بھی انہیں پروا نہیں ہوتی۔ اور اللہ تعالیٰ بری حرص سے جس بندہ کی توبہ چاہتا ہے قبول کر لیتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کو قبول کرنا چونکہ پروردگار کی شان رحمت ہے اور ان گناہوں کا تعلق خواہ ظاہری بد عملیوں سے یا باطنی برائیوں سے، اس لئے بری حرص میں مبتلا ہونے والا شخص اگر اخلاص و پختگی کے ساتھ اس برائی سے اپنے نفس کو باز رکھنے کا عہد کر لیتا ہے اور اپنے پروردگار سے توبہ و استغفار کرتا ہے تو اس کی توبہ قبول کی جاتی ہے، یا یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جس شخص کو اس برائی سے پاک کرنا چاہتا ہے اس پر اپنی رحمت کے ساتھ متوجہ ہوتا ہے بایں طور کہ اس کو اس بری خصلت کے ازالہ کی توفیق اور نفس کو پاکیزہ و مہذب بنانے کی باطنی طاقت عطا فرماتا ہے۔
اس حدیث میں یہ تنبیہ بھی ہے کہ انسان کی جبلت میں بخل کا مادہ رکھا گیا ہے اور یہ بخل ہی ہے جو حرص و امل اور طمع و لالچ کا باعث بنتا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ انفاق و ایثار کے ذریعہ بخل کی سرکوبی کرتا رہے تاکہ حرص کو راہ پانے کا موقع نہ ملے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرے جسم کے ایک حصہ (یعنی دونوں مونڈھوں) کو پکڑ کر فرمایا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا کہ تم مسافر ہو یا راہ گیر ہو، اور تم اپنا شمار ان لوگوں میں کرو جو دنیا سے گزر گئے ہیں اور اپنی قبروں میں آسودہ خواب ہیں (یعنی تم مر دوں کی مشابہت اختیار کرو کہ جس طرح وہ دنیا کی تمام چیزوں سے منہ موڑ کر ایک گوشہ میں پڑے ہوئے ہیں اسی طرح تم بھی دنیاداری کے علائق سے اپنا دامن بنا کر نہایت سادگی اور یکسوئی کے ساتھ زندگی گزارو۔ (بخاری)
تشریح
میرک رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ اس روایت کا بخاری کی طرف منسوب ہونا محل نظر ہے کیونکہ یہاں جو الفاظ نقل کئے گئے ہیں وہ بعینہ ترمذی کے روایت کردہ ہیں اور بخاری نے اس حدیث کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے وہ اس سے مختلف ہیں۔
او عابر سبیل میں حرف او یا تو تنویع کے لئے ہے جیسا کہ ترجمہ میں ظاہر کیا گیا ہے اور یا یہ کہ یہاں یہ حرف بل کے معنی میں استعمال فرمایا گیا ہے جو ترقی کے لئے آتا ہے، اس صورت میں پورے جملہ کا ترجمہ یوں ہو گا۔ تم دنیا میں اس طرح رہو گویا تم مسافر ہو، بلکہ راہ گیر ہو۔ اس طرح بات میں زیادہ زور پیدا ہو جاتا ہے۔ اور اس ارشاد گرامی کا مقصد جس مفہوم کو بیان کرنا ہے وہ زیادہ پر تاثیر انداز میں واضح ہوتا ہے کیونکہ مسافر تو پھر بھی کچھ دنوں کے لئے یا کچھ عرصہ کے لئے کہیں کہیں ٹھہر کر وہاں کی چیزوں میں کسی نہ کسی حد تک مشغول ہوتا ہے اور ان سے کچھ نہ کچھ تعلق اس کو ضرور رکھنا پڑتا ہے، لیکن جو شخص سر راہ گزر رہا ہوتا ہے وہ بس آگے کی طرف چلتا ہی رہتا ہے اس کو نہ تو اس راستے کی کسی چیز سے سروکار ہوتا ہے اور نہ ادھر ادھر کی مشغولیت میں اپنا وقت ضائع کر کے اپنے سفر میں رخنہ اندازی کو گوارا کرتا ہے۔
حدیث کے آخری جزء کی تشریح تھوڑی سی تفصیل کا تقاضہ کرتی ہے، لہٰذا اس سلسلہ میں پہلے تو یہ جان لینا چاہئے کہ موت کی حقیقت کیا ہے؟ بدن سے روح کے تصرف کا منقطع ہو جانا، روح و بدن کے باہمی رشتہ کا ٹوٹ جانا اور بدن کا روح کے آلہ کار کی حیثیت سے باہر ہو جانا، موت کا مفہوم ہے! بدن کی موت سے روح معدوم و نابود نہیں ہو جاتی صرف اس کی وہ حیثیت و حالت بدل جاتی ہے جو بدن کے ساتھ تعلق رکھنے کی صورت میں اس کو حاصل ہوتی ہے مثلاً یہ بدن کی موت کے ساتھ اس کی بصارت اس کی سماعت اس کی گویائی اور اسی طرح ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضائے جسم کی وہ طاقتیں اس سے سلب کر لی جاتی ہیں جن کے ذریعہ وہ (روح) بدن پر اپنا تصرف ظاہر کرتی ہے، ایسے ہی اس کے تمام اہل و عیال، اقربا و آشنا، اور دوست و عزیز اس سے جدا کر دئیے جاتے ہیں، نیز دنیا کی وہ تمام چیزیں اس سے الگ کر دی جاتی ہیں، جن سے وہ اپنے بدن کے ساتھ تعلق رکھتی تھی جیسے گھر بار، اسباب و سامان، زمین و جائداد، فوج و حشم، لونڈی و غلام اور گھوڑے و دیگر چوپائے اور دیگر ضروری و غیر ضروری چیزیں، پس مر دوں میں اپنا شمار کرنا اور ان کی مشابہت اختیار کرنا گویا اس مفہوم کا حامل ہے کہ انسان جسمانی علائق سے حتی الامکان قطع تعلق اختیار کر لے، جس کی صورت یہ ہے کہ اعضائے جسم پر سے روح کا وہ تصرف ختم کر دے جس کے پنجہ میں حرام و مکروہ امور کا ارتکاب ہوتا ہے اور اس میں یقین رکھے کہ دنیا کی جو بھی چیزیں میرے تصرف و اختیار میں ہیں، ان سب کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کی ملکیت سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس بات کو اس کی علامت سمجھے کہ اگر ان چیزوں میں سے کوئی چیز اس کے پاس سے جاتی رہے تو کوئی غم نہ ہو، اور کوئی چیز اپنے پاس آئے تو خوش نہ ہو، اسی طرح اپنے اہل و اولاد، عزیز و اقارب اور دوستوں وغیرہ سے تعلق محبت کے وہ جذبات منقطع کر لے جن کی وجہ سے حرام مکروہ چیزوں کا ارتکاب ہوتا ہے پس جس شخص نے اپنے آپ کو اس وصف سے متصف کر لیا وہ دنیا سے بے تعلقی میں گویا مر دوں کے مشابہ ہو گیا، اور اس کا شمار آسودگان خاک کے حکم میں ہو گا۔ اس کے بعد اس شخص کی شان کے مناسب یہ بات ہو گی کہ وہ ان آداب و شرائط کو ملحوظ رکھے جن کے سبب اس کا مر دوں کے مشابہ ہونا صحیح قرار پا سکے، مثلاً ایک تو یہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اپنے ہر مطلوب سے دست کنارہ کش ہو جائے جیسا کہ موت کی صورت میں، تیسرے یہ کہ توکل کی راہ پر گامزن رہے یعنی دنیاوی اسباب و وسائل کی ناروا قید سے آزاد ہو جائے جیسا کہ موت کی صورت میں، چوتھے یہ کہ قناعت پر عامل رہے یعنی نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کرے جیسا کہ موت کی صورت میں، پانچویں یہ کہ صرف اللہ کی طرف متوجہ رہے اور ماسوا اللہ کی طرف نظر نہ اٹھائے تاکہ اللہ عزوجل کے سوا کوئی مطلوب، کوئی محبوب اور کوئی مقصود نہ ہو جیسا کہ موت کی صورت میں، چھٹے یہ کہ صبر کی راہ اختیار کرے یعنی ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ نفس امارہ سے قطع تعلق کر لے جیسا کہ موت میں،
ساتویں یہ کہ رضا کے راستہ پر چلے یعنی اپنے نفس کی خوشنودی کے جال سے نکل کر حق سبحانہ و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے دائرے میں آ جائے، احکام ازلیہ کو بلاچوں و چرا تسلیم کرے اور اپنے تمام امور کو بغیر کسی اعتراض و منازعت کے حق تعالیٰ تدبیر و اختیار کے سپرد کر دے جیسا کہ موت کی صورت میں، آٹھویں یہ کہ ذکر سے غافل نہ رہے یعنی اللہ تعالیٰ کی یاد اور اس کے ذکر میں اپنے دل اور اپنی زبان کو مشغول رکھے اور ماسوا اللہ کی یاد اور اس کے ذکر و خیال کی الجھن سے آزاد رہے جیسا کہ موت کی صورت میں، اور نویں یہ کہ مراقبہ کو اختیار کرے یعنی ہر طرح کی قوت و سطوت اور ہر مقتدر طاقت سے بے نیاز ہو کر اور اس کو چھوڑ کر بس احکم الحاکمین کی طاقت و قدرت کا دھیان رکھے اور اس کی طاقت اور قدرت کو اپنے تمام امور کا مالک و متصرف جانے جیسا کہ موت کی صورت میں، پس یہ صفات و کیفیات پیدا ہو جائیں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مر دوں کی مشابہت حاصل ہو گئی اور اہل قبور میں شمار کرانے کا حکم پورا ہو گیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد وعد نفسک من اہل القبور کا یہی مفہوم ہے اور یہی معنی اس حدیث کے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے موتوا قبل ان تموتوا موت آنے سے پہلے موت کو اختیار کر لو، چنانچہ ایک موت تو وہ ہے جو اچانک روح وبدن کے باہمی رشتہ کو یکسر منقطع کر دیتی ہے اور ایک موت وہ ہے جس کو انسان مذکورہ بالا صفات کی صورت میں اختیار کر کے اپنے نفس امارہ کو کچل ڈالتا ہے، اور یہی موت اختیاری موت کہلاتی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ایک دن میں اور میری والدہ گارے سے کسی چیز کو یعنی اپنے مکان کی دیواروں یا چھت کو لیپ پوت رہے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا گزر ہماری طرف ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہمیں اس حالت میں دیکھ کر فرمایا کہ عبداللہ یہ کیا ہے یعنی یہ لیپ پوت کس وجہ سے ہو رہی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ اس چیز (یعنی دیواروں یا چھت) کی درستی و مرمت کر رہے ہیں (یا اس کو اس لئے لیپ پوت رہے ہیں تاکہ اس میں پختگی آ جائے) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا امر، یعنی اجل اس سے بھی زیادہ جلد آنے والی ہے۔ (احمد، ترمذی) اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ موت کا آنا اس مکان کی ٹوٹ پھوٹ اور خرابی سے کہیں پہلے متوقع ہے۔ تم لیپ پوت کے ذریعہ اس مکان کی مرمت و درستگی میں اس لئے مصروف ہو کہ کہیں اس کے در و دیوار اور چھت تمہاری زندگی ختم ہونے سے پہلے نہ گر پڑے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس مکان کے گر پڑنے اور اس کے خراب ہونے سے تم خود موت کی آغوش میں پہنچ سکتے ہو پس تمہارے لئے اپنے عمل کی اصلاح کی طرف متوجہ رہنا اس مکان کی مرمت و درستگی میں مشغول ہونے سے زیادہ بہتر ہے اور اس میں دل لگانا عبث ہے۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ کا اپنے مکان کو گارا مٹی لگانا اشد ضرورت کے تحت نہیں ہو گا بلکہ وہ زیادہ مضبوطی اور آرائش کے لئے اس کو لیپ پوت رہے ہوں گے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کبھی ایسا ہوتا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پیشاب کرنے کے بعد اور وضو کرنے سے پہلے مٹی سے تیمم کر لیتے، میں (یعنی ابن عباس رضی الہ عنہ یہ دیکھ کر) عرض کرتا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پانی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بہت قریب ہے (یعنی جب پانی آپ کی دسترس سے اتنا دور نہیں ہے کہ وضو کر سکتے ہیں تو پھر تیمم کیوں کرتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری اس بات کے جواب میں فرماتے۔ مجھے کیا معلوم کہ میں اس پانی تک پہنچ بھی سکوں گا یا نہیں؟ اس روایت کو بغوی نے شرح السنہ میں اور ابن جوزی نے کتاب الوفا میں نقل کیا ہے۔
تشریح
یعنی مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میری عمر کتنی ہے اور ہر لمحہ موت متوقع ہے اس لئے میں ڈرتا ہوں کہ پیشاب کرنے کے بعد مجھے اتنی مہلت بھی نہ ملے کہ پانی تک پہنچ کر وضو کر سکوں۔ لہٰذا فوری طور پر تیمم کر لیتا ہوں تاکہ ایک طرح کی طہارت تو حاصل رہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہ تو ابن آدم(انسان) ہے اور یہ اس کی موت ہے یہ فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف رکھا (یعنی پہلے تو ایک جگہ اشارہ کر کے بتایا کہ یہ انسان ہے اور پھر اس جگہ سے ذرا پیچھے کی طرف اشارہ کر کے بتایا کہ یہ اس کی موت ہے) اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ کو پھیلایا (اور دور اشارہ کر کے) فرمایا کہ اس جگہ انسان کی آرزو ہے (یعنی انسان کی موت اس کے بہت قریب ہے جب کہ اس کی آرزو اس سے بہت دور ہے۔ (ترمذی)
تشریح
یہ ابن آدم ہے میں گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مخاطبین کو ایک ظاہری اشارہ کے ذریعہ تصوراتی وجود کی طرف متوجہ کیا اور یہی اسلوب یہ اس کی موت ہے بھی اختیار فرمایا گیا۔ اس بات کو وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ پہلے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے سامنے کی جانب زمین کے گوشہ پر یا ہوا میں اپنے ہاتھ کے ذریعہ اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو یہ تصور کرو کہ یہاں انسان ہے، پھر اپنے ہاتھ کو پیچھے ہٹایا اور جس جگہ پہلے اشارہ فرمایا تھا اس کے بالکل قریب عقب میں ہاتھ کو رکھ کر بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں انسان کی موت ہے، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ کو بالشت اور انگلیوں کی کافی کشادگی کے ساتھ پھیلایا۔ یا بسط کے معنی یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھ کو اس جگہ سے کہ جہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پہلے اشارہ فرمایا تھا، بہت آگے تک دراز کیا اور وہاں اشارہ کر کے بتایا کہ اس جگہ کو وہ مقام تصور کرو جہاں گویا انسان کی آرزو ہے اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس اسلوب بیان اور اشارہ کے ذریعہ گویا لوگوں کو خواب غفلت سے بیدار کیا اور متنبہ فرمایا کہ انسان کی موت اس کے بہت قریب کھڑی ہے جب کہ اس کی وہ آرزوئیں اور امیدیں کہ جن کے پیچھے وہ مارا مارا پھرتا ہے اس سے بہت دور واقع ہیں۔
کسی شاعر نے، اللہ اس پر اپنی رحمتیں نازل کرے، کیا خوب کہا ہے
کل امری مصبح فی اہلہ
والموت ادنی من شراک نعلہ
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے سامنے ایک لکڑی زمین میں گاڑی، پھر ایک اور لکڑی دونوں لکڑیوں سے یا دوسری لکڑی سے کافی فاصلہ پر نصب فرمائی اور پھر فرمایا۔ تم لوگ جانتے ہو یہ کیا ہے؟ یعنی ان لکڑیوں سے کیا مراد ہے اور یہ کس چیز کی مثالیں ہیں؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تو سنو یہ پہلی لکڑی گویا انسان ہے اور یہ دوسری لکڑی گویا اس انسان کی موت ہے جو انسان کے اتنے ہی قریب ہے جتنا کہ یہ دوسری لکڑی پہلی لکڑی کے قریب ہے حضرت ابو سعید رضی الہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا گمان ہے کہ اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا۔ اور یہ تیسری لکڑی کہ جس کو میں نے کافی فاصلہ پر گاڑا ہے گویا اس انسان کی آرزو ہے جو اس سے بہت دور ہے پس انسان اپنی امید اور آرزو کی تکمیل کی جستجو میں رہتا ہے اور اپنا وقت اس کوشش میں صرف کرتا رہتا ہے کہ اس آرزو کو حاصل کر لے مگر ہوتا یہ ہے کہ اس کی موت، اس کی آرزو کے پورا ہونے سے پہلے ہی اس کو آ دبوچتی ہے۔ (شرح السنۃ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کے لوگوں کی عمر ساٹھ سال سے ستر سال تک ہے۔ اس روایت کو امام ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ امت محمدیہ کے لوگوں کی عمر کا حصہ تناسب ساٹھ سال اور ستر سال کے درمیان رہے گا۔ ظاہر ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بات اکثر لوگوں کے اعتبار سے فرمائی ہے ورنہ تو اس امت میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی ساٹھ سال تک بھی نہیں پہنچ پاتی، اور ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کی عمر ستر سال سے بھی متجاوز ہو جاتی ہے جیسا کہ آگے کی حدیث سے واضح ہو گا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میری امت کے اکثر لوگوں کی عمر ساٹھ اور ستر سال کے درمیان رہے گی اور میری امت میں ایسے لوگوں کی تعداد کم ہی ہو گی جو اس (ستر سال) سے تجاوز کر جائیں اور ان کی عمر سو یا سو سال سے بھی زائد ہو۔ (ترمذی، ابن ماجہ) اور حضرت عبداللہ بن شخیر کی روایت باب عیادۃ المریض میں نقل کی جا چکی ہے۔
تشریح
یوں تو ہر دور میں امت محمدی میں ایسے لوگوں کی بھی تھوڑی تعداد رہی ہے جن کی عمر سو یا سو سال سے بھی زائد ہوتی ہے لیکن خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے کے لوگوں یعنی صحابہ کرام میں بھی ایسے لوگوں کا وجود پایا جاتا ہے جنہوں نے کافی عمر پائی، مثلاً حضرت انس بن مالک رضی الہ عنہ کی وفات ایک سو تین سال کی عمر میں ہوئی، اسما بنت ابو بکر رضی الہ عنہا نے سو سال کی عمر پائی، ان کی حالت تو یہ تھی کہ آخر عمر تک بھی ان کے دانت نہیں ٹوٹے تھے اور عقل و حواس ذرہ برابر مختل نہیں ہوئے تھے۔ ان دونوں سے زیادہ عمر حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ہوئی جنہوں نے ایک سو بیس سال کی عمر میں اس دنیا کو خیر باد کہا، ابتدائی ساٹھ سال تک تو کفر کی حالت میں رہے اور پھر ساٹھ سال تک ایمان واسلام کی حالت میں بسر کئے، ان سے بھی طویل عمر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ہوئی، کہا جاتا ہے جب ان کی وفات ہوئی تو اس وقت ان کی عمر ڈھائی سو سال تھی، اگرچہ ایک روایت ساڑھے تین سو سال کی بھی ہے لیکن صحیح پہلا ہی قول ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس امت کی پہلی نیکی، یقین کرنا اور زہد اختیار کرنا ہے اور اس امت کا پہلا فساد، بخل اور دنیا میں باق رہنے کی آرزو کو دراز کرنا ہے۔ (بیہقی)
تشریح
یقین سے مراد ہے اس بات پر کامل اعتقاد رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رازق ہے اور رزق پہنچانے کا متکفل و ضامن ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت(وما من مدابۃ فی الارض الاّ علی اللہ رزقہا) یعنی روئے زمین پر ایسا کوئی چلنے والا جاندار نہیں ہے جس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو۔
زہد اختیار کرنے کا مطلب دنیا کی محبت میں گرفتار ہونے سے بچنا اور دنیا کی نعمتوں و لذتوں سے بے اعتنائی و لاپرواہی برتنا ہے۔ حاصل یہ کہ دین و آخرت کی بھلائی و کامیابی کا مدار تقویٰ پر ہے جو زہد و یقین سے حاصل ہوتا ہے اور دین و آخرت کی خرابی کی جڑ، طمع و لالچ ہے جو بخل اور درازی عمر کی آرزو سے پیدا ہوتا ہے۔
چنانچہ جب حق تعالیٰ کی رزاقیت پر کام اعتقاد ویقین ہوتا ہے تو بخل کا مادہ فساد نہیں پھیلاتا کیونکہ بخل کا سبب وہ بے یقینی ہوتی ہے جو رزق پہنچنے کے تئیں انسان اپنے اوپر طاری کر لیتا ہے یعنی اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میرے پاس جو مال و زر ہے اگر میں نے اس کو انفاق و ایثار کی صورت میں خرچ کر دیا تو پھر کل کہاں سے کھاؤں گا۔ اسی طرح جب زہد کی راہ اختیار کی جاتی ہے تو دنیا میں باقی رہنے کی تمنا اور آرزوؤں کی درازی ختم ہو جاتی ہے اس لئے یہ فرمایا گیا ہے کہ اس امت کا پہلا فساد بخل اور آرزو ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خصلتیں رزاقیت حق پر یقین اور زہد کی ضد ہیں۔
اس موقع پر یہ بات واضح کر دینا ضروری ہے کہ یقین کا اصل مفہوم کیا ہے؟ چنانچہ حضرت شیخ عبدالوہاب متقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ حبل المتین فی تحصیل الیقین میں لکھا ہے کہ اعتقاد کا جزم کی حد تک پہنچ جانا اور دلیل و برہان کے ذریعہ اتنا مضبوط و مستند ہو جانا کہ حق کو ثابت کر دے حکما و متکلمین کی اصطلاح میں یقین کہلاتا ہے، لیکن صوفیہ کی اصطلاح میں اس مفہوم پر یقین کا اطلاق اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ تصدیق دل پر اس حد تک غالب نہ ہو جائے کہ دل پر اس کے تصرف و حکمرانی کا سکہ چلنے لگے۔ یا اس دل کو صرف انہی چیزوں کی طرف مائل کرنے لگے جو شریعت کے مطابق ہوں اور ان چیزوں سے باز رہے جو شرعی احکام کے خلاف ہوں۔ مثلاً موت کا اعتقاد ہر شخص رکھتا ہے اور وہ اعتقاد نہ صرف جزم کی حد تک ہوتا ہے بلکہ دلیل و برہان کے ذریعہ اتنا مضبوط و مستند ہوتا ہے کہ وہ موت کو ایک اٹل حقیقت بھی ثابت کرتا ہے تو حکما متکلمین کے نزدیک اس اعتقاد پر یقین کا اطلاق کیا جا سکتا ہے لیکن صوفیا کے نزدیک وہ اعتقاد حقیقی معنی میں یقین نہیں کہلا سکتا اور اس اعتقاد کا حامل صاحب یقین شمار نہیں ہو سکتا تاوقتیکہ اس کے دل پر موت کی یاد غالب نہ ہو، اور موت کا احساس اس حد تک اس پر متصرف و حکمران نہ ہو کہ وہ طاعات کی مشغولیت اور گناہ کے ترک کے ذریعہ ہر وقت موت کے لئے تیار رہے۔
واضح رہے کہ چار امور ایسے ہیں جو یقین کا محل ہیں۔ یوں تو وہ تمام چیزیں یقین کی متقاضی ہیں جن کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دی ہے لیکن ان تمام چیزوں کی اصل اور بنیاد ہونے کی حیثیت سے وہ چار امور اس درجہ کے ہیں کہ ان پر ہر سالک کو یقین رکھنا بنیادی طور پر ضروری ہے۔ ایک تو توحید، یعنی یہ پختہ اعتقاد رکھنا کہ جو کچھ بھی واقع ہوتا ہے حق تعالیٰ ہی کی قدرت سے واقع ہوتا ہے دوسرے توکل، یعنی اس بات پر کامل یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ رزق پہنچانے کے متکفل و ضامن ہے، تیسرے جزا سزا کا اعتقاد، یعنی یہ یقین رکھنا کہ ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے تمام اعمال پر ثواب عذاب کا مرتب ہونا لازمی امر ہے اور چوتھے یہ یقین رکھنا کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے تمام احوال کیفیات اور تمام حرکات و سکنات سے پوری طرح باخبر اور مطلع ہے پس توحید کے تئیں یقین کا فائدہ یہ ہو گا کہ مخلوقات کی طرف رغبت و التفات نہیں رکھے گا۔ اللہ تعالی کی طرف سے رزق پہنچنے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ ہو گا کہ یا تو حصول رزق کی طلب و کوشش میں میانہ روی اختیار کرے گا، یا اگر افلاس و ناداری کی صورت میں غذائی ضروریات پوری نہ ہوں گی تو کسی تاسف اور بد دلی میں مبتلا نہیں ہو گا، اعمال کے جزا و سزا کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ طاعات و عبادات کی مشغولیت اور خدا کی رضا و خوشنودی کے حصول میں زیادہ سے زیادہ سعی و کوشش کرے گا اور گناہ و معصیت کی زندگی سے اجتناب کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے علیم و خبیر ہونے کے تئیں یقین رکھنے کا فائدہ یہ ہو گا کہ اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح کی طرح زیادہ سے زیادہ متوجہ رہے گا۔ یہ حضرت شیخ عبدالوہاب کے کلام کا خلاصہ تھا۔ اب آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت، رزق پہنچنے، اور اللہ تعالیٰ نے رزق دینے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر کامل توکل اعتماد رکھنا، تمام روحانی و باطنی اعلیٰ مراتب میں سے ایک بہت بڑا مرتبہ ہے نیز سالک راہ حق کو یہ مرتبہ اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہیں، اور تمام عبادات وطاعات میں قلبی فروغ و اطمینان کا انحصار اس مرتبہ پر ہے۔ امام زمانہ، قطب وقت، حضرت الشیخ ابو الحسن شاذلی رحمۃ اللہ نے بڑی عارفانہ بات کہی ہے کہ دو ہی چیزیں ایسی ہیں جو عام طور پر بندہ اور خدا کے درمیان پردہ کی طرح حائل ہو جاتی ہیں یعنی ان دونوں چیزوں کی وجہ سے بندہ معرفت حق حاصل کرنے سے محروم رہتا ہے ایک تو رزق کا فکر، اور دوسرے مخلوق کا خوف اور ان دونوں میں سے بھی زیادہ سخت پردہ رزق کا فکر ہے۔
امام اصمعی رحمۃ اللہ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دیہاتی کے سامنے سورہ والذاریات کی تلاوت شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچا آیت(وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ) 51۔ الذاریات:22) تو اس دیہاتی نے (جو بڑے غور کے ساتھ میری تلاوت سن رہا تھا) ایک دم کہا کہ بس کیجئے۔ اور پھر وہ اپنی اونٹنی کی طرف متوجہ ہوا، اس نے اس اونٹنی کو نحر کیا اور اس کا گوشت کاٹ بنا کر ان تمام لوگوں کے درمیان تقسیم کر دیا جو اس کے آس پاس موجود تھے، اس کے بعد اس نے اپنی تلوار اور کمان اٹھائی اور ان کو بھی توڑ کر پھینک دیا، اور پھر بغیر کچھ کہے سنے وہاں سے اٹھ کر چلا گیا، کافی عرصہ کے بعد میں ایک دن بیت اللہ کا طواف کر رہا تھا کہ اچانک اس دیہاتی سے ملاقات ہو گئی جو خود بھی طواف کر رہا تھا میں اس کو دیکھ کر حیران رہ گیا، اس کا بدن بالکل سوکھ گیا تھا اور رنگ زرد ہو گیا تھا، اس نے مجھ کو دیکھ کر سلام کیا اور کہنے لگا کہ وہی سورت پھر پڑھیے جو آپ نے اس دن پڑھی تھی چنانچہ میں نے وہ سورت پڑھنی شروع کی اور جب اسی آیت یعنی (وَفِي السَّمَاۗءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ) 51۔ الذاریات:22) پر پہنچا تو اس نے ایک چیخ ماری اور کہا آیت(قَدْ وَجَدْنَا مَا وَعَدَنَا رَبُّنَا حَقّاً) 7۔ الاعراف:44)، اس کے بعد اس نے کہا کہ کچھ اور ؟ (یعنی اب آگے کی آیت پڑھیے) میں نے آگے کی آیت پڑھی (فَوَرَبِّ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ اِنَّهٗ لَحَقٌّ) 51۔ الذاریات:23) اس نے آیت سن کر پھر ایک چیخ ماری اور کہنے لگا، یا اللہ پاک ہے تیری ذات، وہ کون بد بخت ہے جس نے اللہ کو اتنا غصہ دلایا کہ اس کو قسم کھانی پڑی ؟ اس شخص کی بد بختی کا کیا ٹھکانا ہے کہ پروردگار نے جو کچھ فرمایا اور جو وعدہ کیا اس پر اس نے یقین نہیں کیا یہاں تک کہ پروردگار کو قسم کھا کر اس بات کا یقین دلانا پڑا؟ اس دیہاتی نے تین مرتبہ یہی جملے ادا کئے اور اس کے ساتھ ہی اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا۔ دنیا میں زہد اس کا نام نہیں ہے کہ موٹے چھوٹے اور سخت کپڑے پہن لئے جائیں اور روکھا سوکھا اور بدمزہ کھانا کھایا جائے بلکہ دنیا سے زہد اختیار کرنا حقیقت میں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا نام ہے۔ (شرح السنۃ)
تشریح
غلیظ سے وہ کپڑا مراد ہوتا ہے جس کے سوت نہایت موٹے اور بھدے ہوں اور خشن سے مراد وہ کپڑا ہوتا ہے جو نہایت سخت اور کھدری بناوٹ کا ہو جشب اس کھانے کو کہتے ہیں جو نہایت بد مزہ ہو، اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ بغیر سالن کی روٹی کو جشب کہتے ہیں آرزوؤں اور امیدوں کی کمی کا مطلب ہے دنیاوی چیزوں کے حصول کی خواہشات اور درازی عمر کی تمنا کو ختم کر کے بلا تاخیر توبہ و انابت اور علم و عمل کی راہ اختیار کر لینا اور ہمہ وقت موت کے لئے تیار رہنا۔
حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ کے مذکورہ بالا عارفانہ قول کا مطلب یہ ہے کہ زہد، دنیا سے بے رغبتی بے اعتنائی کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسانی قلب پر اس طرح طاری ہو کہ وہ قلب دنیا سے بیزار، اور آخرت کی طرف راغب و متوجہ رہے، گویا زہد کا مدار اس بات پر نہیں ہے کہ انسان کا قالب یعنی جسم و بدن دنیا کی جائز و مباح چیزوں سے فائدہ اٹھاتا ہے یا نہیں کیونکہ حقیقت کے اعتبار سے اس زہد کے معاملہ میں یہ دونوں برابر ہوں یعنی ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاک و خوش خوراک ہونے کے باوجود قلبی طور پر ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ و راغب رہ سکتا ہے اور ایک شخص جسمانی طور پر خوش پوشاکی و خوش خوراکی سے بیزار رہتے ہوئے بھی قلبی طور پر آخرت کی طرف زیادہ متوجہ و راغب نہیں رہ سکتا۔ اگرچہ لباس کی بے حیثیتی و سادگی اور کھانے کی بدمزگی، سلوک و طریقت کی راہ میں بندے کی استقامت و استواری پر بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ حاصل یہ کہ جو سالک جسمانی طور پر تو دنیا سے اجتناب کرے لیکن اس کے دل میں دنیا کی محبت جاگزیں ہو تو یہ چیز اس کے لئے نہایت مہلک اور تباہ کن ہے۔ اس کے برخلاف اگر وہ جسمانی طور پر تو دنیا کی جائز و مباح نعمتوں اور لذتوں سے فائدہ اٹھائے، مگر اس کا دل دنیا کی محبت سے خالی اور آخرت کی طرف متوجہ ہو تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہے۔
جاننا چاہئے کہ دل کی مثال کشتی کی سی ہے کہ اگر پانی کشتی کے اندر آ جائے تو وہ نہ صرف کشتی بلکہ اس میں بیٹھے لوگوں کو بھی ڈبو دیتا ہے، لیکن وہی پانی جب اسی کشتی کے باہر اور اس کے گرد رہتا ہے تو اس کشتی کو رواں کرتا ہے اور منزل تک پہنچاتا ہے، اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے نعم المال المال الصالح للرجل الصالح اور اسی وجہ سے صوفیا کی ایک جماعت کے بارے میں منقول ہے کہ وہ حضرات اسی طرح کا لباس پہنا کرتے تھے جیسا کہ عام طور پر رائج تھا بلکہ بعض نے تو امیروں اور رئیسوں جیسا لباس بھی پہنا ہے تاکہ ان کے باطنی احوال کا انکشاف نہ ہو۔
حضرت زید بن حصین رضی اللہ عنہ (جو حضرت امام ملک رحمۃ اللہ کے رفقا اور مصاحبین میں سے تھے) کہتے ہیں میں نے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جب کہ ان سے پوچھا گیا کہ دنیا سے زہد اختیار کرنا کس چیز کا نام ہے؟ انہوں نے فرمایا۔ حلال کمائی اور آرزوؤں کی کمی کا نام، زہد ہے۔ (بیہقی)
تشریح
کسب یہاں مکسوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی کھانے پینے کی وہ چیزیں جو حلال و پاکیزہ ہوں! حاصل یہ کہ زہد اس چیز کا نام نہیں ہے کہ انسان ان چیزوں کو بھی کھانے پینے اور ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھانے سے پرہیز کرے جو اس کے حق میں حلال و پاکیزہ ہیں، کیونکہ اگر ان چیزوں سے فائدہ اٹھانا زہد کے منافی اور غیر مستحسن ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں سے یہ نہ فرماتا کہ آیت(کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) اور نہ اہل ایمان کو یہ حکم دیا جاتا کہ آیت(یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقناکم واشکروا للہ ان کنتم ایاہ تعبدون)۔ بلکہ زہد یہ ہے انسان کو جائز وسائل و ذرائع سے جو حلال پاکیزہ چیزیں حاصل ہوں ان سے بقدر ضرورت فائدہ اٹھائے اور غیر حلال وغیرہ پاکیزہ چیزوں سے کلیۃ اجتناب کرے، اسی طرح ایک اور چیز، جس کا تعلق زہد سے ہے، یہ ہے کہ انسان آرزوؤں اور امیدوں کا اسیر بن کر کاہل و سست اور آخرت سے غافل نہ بن جائے بلکہ ہمہ وقت آخرت کی طرف متوجہ رہے اور زیادہ سے زیادہ اچھے عمل کرنے میں مشغول رہے تاکہ جس وقت بھی پیغام اجل آ جائے، وہ اپنی جان، جاں آفریں کے سپرد کرنے پر اپنے کو بالکل تیار پائے، یہی وہ زہد ہے جو شریعت کی نظر میں مطلوب ہے اور جو انسان کو عاقبت اندیش بناتا ہے اور آخرت کی طرف متوجہ رکھتا ہے۔
اگر اس موقع پر ذہن میں یہ سوال پیدا ہو کہ زہد محض اس چیز کا نام ہے کہ دنیا سے بالکل بے تعلقی اور کنارہ کشی اختیار کر لی جائے، موٹا جھوٹا کپڑا پہنچا جائے اور روکھی سوکھی روٹی کھانے پر عمل پیرا رہا جائے، چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ نے اس بات کو بجا طور پر واضح فرمایا حقیقی زہد وہ نہیں ہے جس کو تم نے اپنے گمان میں جگہ دے رکھی ہے بلکہ زہد کی حقیقت یہ ہے کہ خدا تمہیں جائز ذریعوں سے جو کچھ حلال و پاکیزہ چیزیں عطا کرے ان کو کھاؤ پیو، ان سے فائدہ اٹھاؤ اور قدر ضرورت پر قناعت کرو نیز ضرورت سے زیادہ چیزوں کی امید و آرزو اور درازی عمر کی تمنا نہ رکھو جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے۔ دنیا سے زہد اختیار کرنا اس چیز کا نام نہیں ہے کہ حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام قرار دے لو اور اپنے مال و اسباب کو ضائع کر ڈالو، بلکہ زہد دراصل اس چیز کا نام ہے کہ جو چیز تمہارے ہاتھ میں اس پر اس چیز سے زیادہ اعتماد نہ کرو جو اللہ کے ہاتھ میں ہے۔