مشکوٰة شر یف

خرچ کرنے کی فضیلت اور بخل کی کراہت کا بیان

مال و زر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذبہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو مجھے یہ گوارا نہ ہوتا کہ تین راتیں گزر جاتیں اور وہ تمام سونا یا اس کا کچھ حصہ علاوہ بقدر ادائے قرض کے میرے پاس موجود رہتا۔ (بخاری)

مال و زر کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا جذبہ

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر میرے پاس احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہوتا تو میرے لیے سب سے زیادہ پسندیدہ بات یہ ہوتی کہ میں تمام سونا تین رات کے اندر اندر ہی لوگوں میں تقسیم کر دیتا ، اس میں سے اپنے پاس کچھ بھی نہ رکھتا ہاں اتنا سونا ضرور بچا لیتا جس سے میں اپنا قرض ادا کر سکتا کیونکہ قرض ادا کرنا صدقہ سے مقدم ہے۔

 اس ارشاد گرامی سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انتہائی سخاوت فیاضی کا وصف سامنے آتا ہے وہیں یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو لوگ اپنے مال و زر کی خیرات نکالتے ہیں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اپنی آسائش و راحت کے ذرائع مہیا کرتے ہیں۔ مثلاً عالیشان بلڈنگیں بناتے ہیں کوٹھیاں تعمیر کرتے ہیں یا اسی قسم کی دوسرا آسائش زندگی کے لیے بے تحاشا مال خرچ کرتے ہیں مگر ان کے اوپر دوسرے لوگوں کے حقوق ہوتے ہیں وہ ان کے حقوق کی ادائیگی تو کیا کرتے ان کی طرف ان کا دھیان بھی کبھی نہیں جاتا تو یہ کوئی اچھی اور پسندیدہ بات نہیں ہے بلکہ شرعی طور پر انتہائی غلط ہے۔

 شریعت و اخلاق ہی نہیں بلکہ محض عقل و دانش اور انسانی ہمدردی کے نقطہ نظر سے بھی کیا یہ بات گوارا کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص تو دولت و حرص و ہوس کا پتلا بن کر اپنی تجوریاں بھرے بیٹھا ہوا بے مصرف مال و زر کے انبار لگائے ہوئے ہو اور سونے چاندی کے خزانے جمع کئے مگر ایک دوسرا شخص اس کے آنکھوں کے سامنے نان جویں کے لیے بھی محتاج ہوا ور اس کی تجوری کا منہ نہ کھلے ، ایک غریب بھوک و افلاس کے مارے دم توڑ رہا ہو مگر اس کے اندر اتنی بھی ہمدردی نہ ہو کہ اس غریب کو کھانا کھلا کر اس کی زندگی کے چراغ کو بجھنے سے بچائے؟

 جی ہاں! آج کے اس دور میں بھی جب کہ سوشلزم ، مساوات اور انسانی بھائی چارگی و ہمدردی کے نعرے ہمہ وقت فضا میں گونجتے رہتے ہیں کون نہیں دیکھتا کہ مال و زر کے بندے اپنی ادنی سی خواہش کے لیے تجوریوں کے منہ کھول دیتے ہیں اپنی دنیاوی آسائش و راحت کی خاطر مال و زر کے تختے بچھا دیتے ہیں مگر جب بھوک و پیاس سے بلکتا کوئی انہیں جیسا ان کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو ان کی جبین پر بل پڑ جاتے ہیں اور ان کے منہ سے نفرت و حقارت کے الفاظ ابلنے لگتے ہیں وہ شقی القلب یہ نہیں سوچتے کہ اگر معاملہ برعکس ہوتا تو ان کے جذبات و احساسات کیا ہوتے؟ لہٰذا جنگ زرگری کے موجودہ دور میں مسلمانوں ہی کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے یہ ارشاد گرامی ایک دعوت عمل اور مینارہ نور ہے۔

سخی کے لیے فرشتوں کی دعا اور بخیل کے لیے بد دعا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا روزانہ صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ان میں سے ایک فرشتہ تو سخی کے لیے یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو بدل عطا فرما یعنی جو شخص جائز جگہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اس کو بہت زیادہ بدلہ عطا فرما بایں طور کہ یا تو دنیا میں اسے خرچ کرنے سے کہیں زیادہ مال دے دے یا آخرت میں اجر و ثواب عطا فرما اور دوسرا فرشتہ بخیل کے لیے بد دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! بخیل کو تلف (نقصان) دے اور یعنی جو شخص مال و دولت جمع کرتا ہے اور جائز جگہ خرچ نہیں کرتا بلکہ بے محل اور بے مصرف خرچ کرتا ہے تو اس کا مال تلف و ضائع کر دے۔ (بخاری و مسلم)

سخاوت کا حکم

حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس جگہ مال خرچ کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہو وہاں اپنا مال خرچ کرو اور یہ شمار نہ کرو کہ کتنا خرچ کروں اور کیا خرچ کروں نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے بارے میں شمار کرے گا (یعنی اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہارے مال میں برکت ختم کر کے تمہارا رزق کم کر دے گا بایں طور کہ اسے ایک معدودع و محدود چیز کی مانند کر دے گا یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے مال و زر کے بارے میں تم سے محاسبہ کرے گا اور جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے حاجت مندوں سے روک کر نہ رکھو نہیں تو اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں اپنی زائد عطاء و بخشش روک لے گا، نیز یہ کہ تم سے جو کچھ بھی ہو سکے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے رہو۔ (بخاری و مسلم)

سخاوت کا حکم

 

تشریح

 

 لفظ لاتحصی (اور یہ شمار نہ کرو الخ) کے ایک معنی تو وہی ہیں جو اوپر ترجمے میں مذکور ہوئے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مال کو جمع کرنے کے لیے نہ شمار کرو اور اس مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ترک نہ کرو۔

 حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے تم اپنی حیثیت و قدرت کے مطابق جو کچھ بھی خرچ کر سکو اسے خدا کی راہ میں جرور خرچ کرو خواہ وہ مقدار تعداد کتنا ہی کم کیوں نہ ہو بلکہ اسے حقیق بھی نہ سمجھو کیونکہ خلوص نیت کے ساتھ خدا کی راہ میں خرچ کیا جانے والا ایک ذرہ بھی خدا کے نزدیک بہت وقیع اور میزان عمل میں بہت وزنی ہے۔

سخاوت کا حکم

٭٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے اولاد آدم میری راہ میں اپنا مال خرچ کر میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ اے اولاد آدم! تو دنیا کے فانی مال کو میری راہ میں خرچ کر تاکہ آخرت میں تجھے اموال عالیہ حاصل ہوں۔

 بعض حضرات نے اس کے یہ معنی بیان کیے ہیں کہ جو کچھ میں نے تجھے عطا کیا ہے اس میں سے تو لوگوں کو دے تاکہ میں تجھے دنیا و عقبی میں اس سے زیادہ عطا کروں گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ آیت (وَمَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَہوَ يُخْلِفُہ) 24۔سبأ:39)۔ تم جو کچھ بھی خدا کی خوشنودی کے لیے خرچ کرتے ہو خدا تمہیں اس کا بدلہ عطا کرتا ہے۔

ضرورت سے زائد مال کو خرچ کرنے کا حکم

حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اے اولاد آدم! جو مال تمہاری حاجت و ضرورت سے زائد ہو اسے خدا کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا تمہارے لیے دنیا و آخرت میں بہتر ہے اور اسے روکے رکھنا یعنی خرچ نہ کرنا اللہ کے نزدیک بھی اور بندوں کے نزدیک بھی تمہارے لیے برا ہے ! بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے اور جو مال تمہاری حاجت سے زائد ہو اسے خرچ کرنے کے سلسلے میں اپنے اہل و عیال سے ابتداء کرو۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ولا تلام علی کفاف(بقدر کفایت مال پر کوئی ملامت نہیں ہے) کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم اتنا مال اپنے پاس بچائے رکھو جو تمہاری زندگی کی بقاء کے لیے ضروری ہو بایں طور کہ اس کی وجہ سے تمہاری غذائی ضرورت پوری ہو اور تم کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے بچے رہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ بقاء زندگی کے بقدر مال کا تعین اشخاص و احوال اور زمانہ کے مطابق ہوتا ہے یعنی بعض اشخاص کے بقاء زندگی کے بقدر مال کی مقدار کم ہوتی ہے اور بعضوں کے لیے زیادہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی واقعی ضروریات زندگی کے لیے کم مال درکار ہوتا ہے اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے زیادہ مقدار ضروری ہوتی ہے اسی طرح بعض دنوں میں بقاء زندگی کے لیے کم مال درکار ہوتا ہے اور بعض دنوں میں زیادہ مقدار میں ضروری ہوتا ہے نیز بعض حالات میں تھوڑا مال کفایت کر جاتا ہے اور بعض حالات میں زیادہ مال کی ضرورت ہوتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص اپنی حیثیت کے مطابق کسی واقعی ضرورت و حاجت کے بقدر مال و زر بچائے رکھتا ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

 حدیث کے آخری الفاظ و ابدا بمن تعول کا مفہوم یہ ہے کہ سخاوت خرچ کے معاملے میں اپنے اہل و عیال اور ان لوگوں کو مقدم رکھنا چاہئے جن کا نفقہ اپنے اوپر واجب ہو یعنی ان لوگوں کو دو ، جب ان سے بچ رہے تو دوسرے لوگوں کو دینا چاہئے اور اس انداز سے خرچ کرنا کوئی مستحسن بات نہیں ہے کہ اپنے اہل و عیال تو ضرورت مند و محتاج رہیں اور دوسروں کو دیا جائے۔

 حدیث کے ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ ارشاد بھی حدیث قدسی (اللہ تعالیٰ کا ارشاد) ہے اگرچہ حدیث میں صراحتا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہی ارشاد کے لیے یہ اسلوب اختیار فرمایا ہو۔ واللہ اعلم۔

صدقہ دینے والے اور بخیل کی مثال

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بخیل اور صدقہ دینے والے کی مثال ایسے دو شخصوں کی ہے جن کے جسم پر لوہے کی زرہیں اور ان زرہوں کے تنگ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے ہاتھ ان کی چھاتیوں اور گردن کی ہنسلی کی طرف چمٹے ہوئے ہوں چنانچہ جب صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کھل جاتی ہے اور جب بخیل صدقہ دینے کا قصد کرتا ہے تو اس کی زرہ کے حلقے اور تنگ ہو جاتے ہیں اور اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ سخی انسان جب خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرنے کا قصد کرتا ہے تو اس جذبہ صدق کی بنا پر اس کا سینہ کشادہ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ اس کے قلب و احساسات کے تابع ہوتے ہیں بایں طورکہ وہ مال خرچ کرنے کے لیے دراز ہوتے ہیں اس کے برخلاف ایسے مواقع پر بخیل انسان کا سینہ تنگ ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ سمٹ جاتے ہیں۔

 اس مثال کا حاصل یہ ہے کہ جب سخی انسان خیر و بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو توفیق الٰہی اس کے شامل حال ہوتی ہے بایں طور کہ اس کے لیے خیر و بھلائی اور نیکی کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور بخیل کے لیے نیکی و بھلائی کا راستہ دشوار گزار ہو جاتا ہے۔

بخل کی مذمت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ظلم سے بچو کیونکہ قیامت کے روز ظلم اندھیروں کی شکل میں ہو گا (جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا) اور بخل سے بچو کیونکہ بخل نے ان لوگوں کو ہلاک کیا ہے جو تم سے پہلے گزرے ہیں بخل ہی کے باعث انہوں نے خونریزی کی اور حرام کو حلال جانا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 ظلم کا اصل مفہوم ہے کسی چیز کو اس کی غیر جگہ استعمال کرنا مثلاً انسان کی تخلیق کا مقصد ہے خدا کی عبادت و اطاعت کرنا اور نیک راہ پر چلنا اب اگر انسان کا نفس امارہ اسے اس کی تخلیق کے اصل مقصد سے ہٹا کر خدا سے بغاوت و سرکشی اور برائی کے راستے پر چلاتا ہے تو یہ ظلم کہلائے گا۔ لہٰذا ظلم کا مفہوم تمام گناہوں کو شامل ہے یعنی جو بھی گنہگار ہو گا۔ وہ ظالم کہلائے گا۔ ظلم اندھیروں کی شکل میں ہو گا، کے بارے میں علامہ طیبی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ جملہ اپنے ظاہر معنی پر محمول ہے یعنی قیامت کے روز ظلم گناہ ظالم کے سامنے اندھیروں کی صورت میں ہو گا جس میں ظالم بھٹکتا پھرے گا اور ان کی وجہ سے نجات کا راستہ نہیں پائے گا جس طرح کہ مومن صالح کے بارے میں منقول ہے کہ وہ قیامت کے روز نجات کی راہ اس طرح پائیں گے کہ ان سب کی سعادت نیک بختی کا نور ان کے آگے آگے دوڑتا ہو گا جس کی روشنی میں جنت کی ابدی سعادتوں کا راستہ ان کے سامنے ہو گا اور وہ اس پر اطمینان و آسانی چل کر اپنے مولا کی خوشنودی اور رحمت کو پا لیں گے۔

نیز یہ بھی احتمال ہے کہ اندھیروں سے قیامت کے دن ہولناکیاں اور شدائد مراد ہوں یعنی ایک ظلم قیامت کی بہت سی ہولناکیوں اور شدائد کا باعث ہو گا۔

 بخل سے بچنے کے لیے اس لیے فرمایا گیا ہے کہ بخل بھی نہ صرف یہ کہ ظلم ہی کی ایک قسم ہے بلکہ ظلم کی ایک بہت بڑی قسم ہے یہی وجہ ہے کہ ظلم سے بچنے کا حکم عمومی طور پر فرمانے کے بعد پھر بھی بعد میں بطور خاص بخل سے بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے۔

 بخل کو خونریزی اور حرام کو حلال جاننے کا باعث بتایا گیا ہے کیونکہ اپنے مال و زر کو دوسروں کی راحت بھلائی کے لیے خرچ کرنا اور اس طرح اپنے مسلمان بھائیوں کی خبر گیری درحقیقت آپس کی محبت و ملاپ کا ذریعہ اور سبب ہے اس کے برعکس بخل ترک ملاقات اور انقطاع تعلقات کا سبب ہے جس کا آخری نتیجہ آپس کی دشمنی اور مخاصمت ہے اور یہ بالکل ظاہری بات ہے کہ جب ایک دوسرے سے دشمنی اور مخاصمت ہوتی ہے تو پھر خونریزی بھی ہوتی ہے اسی دشمنی اور مخاصمت کا ایک دوسرا پہلو حرام باتوں کو مباح و حلال سمجھ لینا بھی ہوتا ہے کیونکہ کوئی بھی شخص ہو وہ دشمنی کے جذبات سے مغلوب ہو کر اپنے دشمن کی عورتوں کو، اس کے مال و زر کو اوور اس کی آبرو ریزی وغیرہ کو حلال جانتا ہے اسی لئے جہاں ایک طرف بخل کو خونریزی کا سبب بتایا گیا ہے وہیں دوسری طرف اسے حرام کو حلال سمجھ لینے کا باعث بھی فرمایا گیا ہے۔

ایک ایسا زمانہ آئے جب کوئی صدقہ لینے والا نہیں ہو گا

حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرو، کیونکہ انسانی زندگی میں ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جب ایک شخص صدقہ کا مال لے کر نکلے گا مگر وہ کسی ایسے شخص کو نہ پائے گا جو اس کا صدقہ قبول کر لے بلکہ ہر شخص یہی کہے گا کہ اگر تم صدقہ کے اس مال کو کل لے کر آتے تو میں قبول کر لیتا آج تو مجھے اس کی حاجت و ضرورت نہیں ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 خدا کی خوشنودی کے لیے اپنا مال خرچ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تو خدا کی راہ میں اپنا مال و زر خرچ کرنے کو غنیمت اور اپنے حق میں باعث سعادت جانو کیونکہ ابھی تو صدقہ کے مال کو قبول کرنے والے بہت سے مل جانتے ہیں لیکن ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ صدقہ کے مال کو قبول کرنے والا کوئی شخص ڈھونڈے سے نہیں ملے گا کیونکہ یا تو اس وقت سب ہی لوگ مالدار ہوں گے یا پھر یہ کہ دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی طرف میلان اور رغبت کی وجہ سے ان کے دل غنی و بے پرواہ ہوں گے۔ علماء لکھتے ہیں کہ یہ اس زمانے کی طرف اشارہ جب کہ یہ فانی دنیا اپنی عمر کی آخری حدوں کو پہنچ چکی ہو گی اور حضرت امام مہدی علیہ السلام اس عالم میں تشریف فرما ہوں گے۔

افضل صدقہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ثواب کے اعتبار سے کونسا بڑا صدقہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا افضل صدقہ وہ ہے کہ تم خدا کی راہ میں اس وقت اپنا مال خرچ کرو جب کہ تم توانا و تندرست ہو اور مال جمع کرنے کی حرص رکھتے ہو، فقر و افلاس سے ڈرتے رہو اور حصول دولت کے امیدوار ہو یاد رکھو صدقہ خیرات کے معاملے میں ڈھیل نہ دو، یہاں تک کہ جب تمہاری جان حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں کے لیے ہے اور اتنا مال فلاں کے لیے ہے۔ درآنحالیکہ اس مال کا مالک فلاں وارث ہو جائے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ افضل اور بہت زیادہ ثواب کا باعث وہ صدقہ ہوتا ہے جو زندگی کے اس دور میں ادا ہو جب کہ صحت تندرستی رفیق جان ہو، کیونکہ زندگی کے اس حصہ میں درازیِ عمر کی امید مال جمع کرنے کی حرص کا باعث ہوتی ہے صحت مند و تندرست انسان نہ صرف یہ کہ جنگ زرگری کے میدان میں آگے رہنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس کی جبلت طبعی، بخل کی طرف مائل ہوتی ہے اندر کا چھپا ہوا شیطان اسے فقر و محتاجگی سے ڈراتا رہتا ہے اور اس کے دل میں یہ وسوسہ و خیال پیدا کرتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنے کی وجہ سے کہیں مفلس و قلاش نہ بن جاؤں نیز زیادہ سے زیادہ دوسلت حاصل کرنے آرزو بسا اوقات حرص و ہوس کا روپ اختیار کر لیتی ہے لہٰذا زندگی کے اس حصے میں خدا کی خوشنودی کے لیے مال خرچ کرنا درحقیقت نیک بختی و سعادت کی معراج ہے۔

 حدیث کے آخری جملے ولا تمہل الخ کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ دینے اور خیرات کرنے میں اتنی تاخیر، سستی اور غفلت نہ کرو کہ جب زندگی کا پیمانہ لبریز ہونے لگے جان نکل کر حلق میں آ جائے تو کہنے لگو کہ اتنا مال فلاں شخص کے لیے ہے اور اتنا مال فلاں نیک کام کے لیے حالانکہ اس وقت وہ مال وارثوں کا ہو جاتا ہے بایں طور کہ وارثوں کا حق متعلق ہو جاتا ہے۔

 بہرحال اس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنا بڑی فضیلت اور ثواب کی بات ہے مگر جب مرنے کا وقت آئے تو اس وقت اپنے مال کو نیک کاموں میں خرچ کرنے کی وصیت کرنا یا اسے اس وقت خدا کی راہ میں خرچ کرنا زیادہ ثواب کا باعث نہیں ہے۔

خدا کی راہ میں خرچ نہ کرنے والے سرمایہ دار خسارے میں ہیں

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں اس وقت پہنچا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کعبہ کے سایہ میں تشریف فرماتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظر مبارک مجھ پر پڑی تو فرمایا رب کعبہ کی قسم وہ لوگ بہت ٹوٹے میں ہیں میں نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کون ہیں وہ لوگ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو زیادہ مال جمع کرتے ہیں ہاں! وہ لوگ مستثنی ہیں جو اپنے ادھر ادھر اور اس طرف یعنی اپنے آگے اپنے پیچھے اپنے دائیں اپنے بائیں غرض یہ کہ ہر طرح اور ہر جگہ خدا کی خوشنودی کی خاطر اپنا مال خرچ کرتے رہتے ہیں۔ مگر ایسے لوگ کم ہی ہیں (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے چونکہ فقر افلاس کو اپنی زندگی کا امتیاز بنا لیا تھا اور اس طرح انہوں نے دنیا کی آسائشوں سے منہ موڑ کر غنا و تونگر پر فقر افلاس کو ترجیح دے رکھی تھی اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کی تسلی اور ان کے اطمینان قلب کی خاطر یہ بات ارشاد فرمائی۔ گویا اس ارشاد گرامی میں دنیا سے بے رغبتی اور فقر کی فضیلت کی طرف اشارہ ہے۔

عابد بخیل پر جاہل سخی کی فضیلت

حضرت ابوہریررہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سخی اللہ کی رحمت کے نزدیک ہے ، بہشت کے قریب ہے ، لوگوں کے قریب ہے (یعنی سب ہی اسے عزیز رکھتے ہیں) اور آگ سے دور ہے۔ مگر بخیل جو کہ اپنے اوپر واجب حقوق کی بھی ادائیگی نہ کرے اللہ کی رحمت سے دور ہے ، بہشت سے دور ہے ، لوگوں سے دور ہے اور آگ سے نزدیک ہے بلاشبہ اللہ کے نزدیک عابد بخیل سے جاہل سخی بہت پیارا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 جاہل سخی سے عابد کی ضد یعنی وہ سخی مراد ہے جو فرائض تو ادا کرتا ہو مگر نوافل کا پابند نہ ہو اسی طرح عابد بخیل سے مراد وہ بخیل ہے جو نوافل بہت زیادہ ادا کرتا ہے خواہ عالم ہو یا عالم نہ ہو۔

بحالت تندرستی صدقہ دینے کی فضیلت

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کسی شخص کا اپنی تندرستی کی حالت میں ایک درہم خدا کی راہ میں خرچ کرنا اپنے مرنے کے وقت راہ خدا میں ایک سو درہم خرچ کرنے سے بہتر ہے۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال کم تعداد میں اور کم مقدار میں بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا مرتے وقت بہت زیادہ مال خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس کے مقابلے میں بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے۔

موت کے وقت خیرات کرنے والے کی مثال

حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنی موت کے وقت خیرات کرتا ہے یا غلام آزاد کرتا ہے اس شخص کی مانند ہے جو کسی کو ایسے وقت میں تحفہ (یعنی کھانا) بھیجتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہوتا ہے۔ (ترمذی، نسائی ، دارمی اور امام ترمذی نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مفہوم بھی یہی ہے کہ مرتے وقت خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جس طرح کہ کسی ضرورت مند کو ایسے وقت کھانا دینا کم ثواب کا باعث ہوتا ہے جب کہ اس کا پیٹ بھر چکا ہو لہٰذا جس طرح کسی شخص کو اس کی بھوک کی حالت میں کھانا کھلانا یا اس کے ساتھ سخاوت کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کا باعث ہے اسی طرح صحت و تندرستی کی حالت میں اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرنا یا غلام کو آزاد کرنا زیادہ افضل اور زیادہ ثواب کی بات ہے۔

ایمان اور بخل دو متضاد صفتیں ہیں

حضرت ابوسعید راوی رضی اللہ عنہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مومن میں دو خصلتیں جمع نہیں ہوتیں ایک تو بخل دوسری بد خلقی۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 اس ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ یہ مناسب اور لائق نہیں ہے کہ مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں جمع ہوں یا یہ مراد ہے کہ کسی مومن کامل میں یہ دونوں بری خصلتیں اس درجے کی نہیں ہوتیں کہ وہ کبھی اس سے جدا ہی نہ ہوں اور وہ ان کی موجودگی سے مطمئن اور راضی ہو ہاں اگر کبھی بمقتضائے طبیعت بشری کوئی مومن کامل بد خلقی کرے یا اس میں بخل پیدا ہو جائے پھر بعد میں اسے ندامت و شرمندگی ہو اور ان کی وجہ سے وہ پشیمان ہو نیز اپنے نفس کو ملامت کرے تو یہ کمال ایمان کے منافی نہیں ہو گا۔

  خلق ان امور پر عمل کرنے کا نام ہے جن کی شریعت نے تعلیم دی ہے۔ خلق یا اخلاق دوسرے سے جھک کر خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنے یا تمام معاملات میں نرمی برتنے ہی کا نام نہیں ہے جیسا کہ عام لوگوں میں مشہور ہے اس لیے کہ بعض امور میں شدت اور سختی اختیار کرنا ہی تقاضائے ایمان ہے لہٰذا یہاں حدیث میں مذکور بد خلقی سے مراد یہ ہے کہ ان امور کی خلاف ورزی کرنا جن کی اسلام نے تعلیم دی ہے۔

بخل کے لیے وعید

امیرالمومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت میں نہ تو مکار داخل ہو گا نہ بخیل نہ خدا کی راہ میں کسی کو مال دے کر احسان جتانے والا۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ یہ تینوں جنت میں ابتداء بغیر عذاب کے داخل نہیں ہوں گے بلکہ یہ اپنے اپنے جرم کی سزا پا لیں گے تو عذاب کے بعد جنت میں داخل ہوں گے۔

  بخیل سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال میں سے حق واجب ادا نہ کرے۔  منان کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمے میں مذکور ہیں اس کے دوسرے معنی کاٹنے والا ہیں یعنی وہ شخص جو اپنے اعزا اور رشتہ داروں سے ترک تعلقات کرے اور مسلمانوں سے محبت و مروت کا معاملہ نہ کرے۔

بدترین خصلتیں کیا ہیں

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انسان میں جو خصلتیں ہوتی ہیں ان میں سے دو خصلتیں سب سے بدترین ہیں۔ ایک تو انتہائی درجہ کا بخل اور دوسری انتہائی درجہ کی نامردی۔ (ابوداؤد)

وسنذکر حدیث ابی ہریرہ لایجتمع الشح والایمان فی کتاب الجہا ان شاء اللہ تعالیٰ

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سے بعض نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا کہ ہم میں کون سی بیوی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جلد ملاقات کرے گی یعنی آپ کے وصال کے بعد ہم میں سب سے پہلے کس بیوی کا انتقال ہو گا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے۔ (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد سن کر) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات نے بانس یا سرکنڈے کا ایک ٹکڑا لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کیے ان سب میں حضرت سودہ کے ہاتھ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایک زوجہ مطہرہ تھیں سب سے لمبے تھے مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ تھا اور ہم میں سے جس نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یعنی سب سے پہلے جس کا انتقال ہوا وہ حضرت زینب تھیں اور وہ صدقہ و خیرات کرنے کو بہت پسند کرتی تھیں۔ (بخاری) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ازواج مطہرات کے سوال کے جواب میں فرمایا کہ تم میں میں سے مجھ سے جلد ملنے والی وہ ہو گی جس کے ہاتھ لمبے ہوں گے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن آپس میں ہاتھوں کی لمبائی ناپتی تھیں کہ ان میں سے کون سی لمبے ہاتھوں والی ہے ، چنانچہ ہم میں سب سے لمبے ہاتھ والی حضرت زینب تھیں کیونکہ وہ اپنے ہاتھ سے سب کام کرتی تھیں اور صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔ 

خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی فضیلت

 

تشریح

 

 فعلمنا بعد (مگر پھر بعد میں ہمیں معلوم ہواالخ) کا مطلب یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا تو ہم نے پہلے تو ہاتھ کی لمبائی کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا کہ واقعۃً جس کے ہاتھ سب سے لمبے ہوں گے وہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جلد ملاقات کرے گی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ازواج مطہرات میں سب سے پہلے جب حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا تو معلوم ہوا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد صدقہ و خیرات کی کثرت تھی گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی وہ ہے جو سب سے زیادہ صدقہ و خیرات کرتی ہے۔

 حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے چمڑے کی دباغت کا کام انجام دیتی تھیں پھر اس کو فروخت کرتی اور قیمت ملتی اسے اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لیے اس کی راہ میں خرچ کرتی تھیں۔

بنی اسرائیل کا واقعہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک مرتبہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص نے اپنے دل میں یا کسی اپنے دوست سے کہا کہ میں آج رات میں خدا کی راہ میں کچھ مال خرچ کروں گا چنانچہ اس نے اپنے قصد و ارادہ کے مطابق خیرات کے لیے کچھ مال نکالا ، تاکہ اسے کسی مستحق کو دے دے اور وہ مال اس نے ایک چور کے ہاتھ میں دے دیا۔ اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ چور ہے کہ جس وجہ سے خیرات کے مال کا مستحق نہیں ہے جب صبح ہوئی اور لوگوں کو الہام خداوندی کے سبب یا خود اس چور کی زبانی معلوم ہوا تو بطریق تعجب لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات ایک چور کو صدقہ کا مال دیا گیا ہے۔ جب صدقہ دینے والے کو بھی صورتحال معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ اے اللہ! تیرے ہی لیے تعریف ہے باوجودیکہ صدقہ کا مال ایک چور کے ہاتھ لگا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا تاکہ وہ مستحق کو مل جائے چنانچہ اس نے صدقہ کی نیت سے پھر کچھ مال نکالا اور اس مرتبہ بھی غلط فہمی میں وہ مال ایک زانیہ کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج تو ایک زانیہ صدقہ کا مال لے اڑی وہ شخص کہنے لگا کہ اے اللہ! تعریف تیرے ہی لیے ہے اگرچہ اس مرتبہ صدقہ کا مال ایک زانیہ کے ہاتھ لگ گیا اور پھر کہنے لگا کہ آج کی رات پھر صدقہ دوں گا چنانچہ اس نے پھر کچھ مال صدقہ کی نیت سے نکالا اور اس مرتبہ پھر غلط فہمی میں وہ مال ایک غنی کے ہاتھ میں دے دیا، جب صبح ہوئی تو پھر لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ آج کی رات تو ایک دولت مند کو مل گیا۔ جب وہ شخص سویا تو خواب میں اس سے کہا گیا کہ تو نے جتنے صدقے دئیے ہیں سب قبول ہو گئے۔ کیونکہ صدقہ کا جو مال تو نے چور کو دیا ہے۔ وہ بے فائدہ اور خالی از ثواب نہیں ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے چوری سے باز رہے اور صدقہ کا جو مال تو نے زانیہ کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے زنا سے باز رہے اور صدقے کا جو مال تو نے دولت مند کو دیا ہے ممکن ہے وہ اس کی وجہ سے عبرت حاصل کر لے اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ دیا ہے اس میں سے خرچ کرے۔ (بخاری و مسلم الفاظ بخاری کے ہیں)

بنی اسرائیل کا واقعہ

 

تشریح

 

 صدقہ دینے والے نے خدا کی تعریف یا بطریق شکر کی کہ خدا کا شکر ہے کہ میں نے صدقہ تو دیا اگرچہ وہ غیر مستحق ہی کے ہاتھ لگا یا پھر بطریق تعجب یا اپنے دل کے اطمینان کے لیے اس نے خدا کی تعریف کی۔

 بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بنی اسرائیل کے اس شخص کا یہ واقعہ اس لیے بیان فرمایا تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ خدا کی خوشنودی کی خاطر صدقہ و خیرات بہر نوع بہتر اور باعث ثواب ہے جس کسی کو بھی صدقہ دیا جائے گا ثواب ضرور پائے گا۔

صدقہ خاتمہ بخیر کی سعادت سے نوازتا ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا صدقہ کرنا اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 اللہ کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص خدا کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ دنیا میں عافیت و سکون کے ساتھ رکھتا ہے اور اس پر بلائیں نازل نہیں کرتا۔

 بری موت سے بچاتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والا مرنے کے وقت بری حالت سے محفوظ رہتا ہے یعنی نہ تو اسے شیطان اپنے وسوسوں میں مبتلا کر پاتا ہے اور نہ وہ شخص کسی ایسی سخت بیماری و تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ ضبط کا دامن چھوڑ کر کفر و کفران کی دلدل میں پھنس جائے ، حاصل یہ کہ خدا کی خوشنودی و رضا کی خاطر اپنا مال و زر خرچ کرنے والا  خاتمہ بالخیر کی ابدی سعادت سے نوازا جاتا ہے۔