جامع ترمذی

خرید و فروخت کے احکام و مسائل

مشتبہ چیزوں کو ترک کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1205

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، أَنْبَأَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْنَ ذَلِكَ أُمُورٌ مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَدْرِي كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏أَمِنَ الْحَلَالِ هِيَ أَمْ مِنَ الْحَرَامِ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ تَرَكَهَا اسْتِبْرَاءً لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ سَلِمَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَاقَعَ شَيْئًا مِنْهَا يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَ الْحَرَامَ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا أَنَّهُ مَنْ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى، ‏‏‏‏‏‏يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، ‏‏‏‏‏‏أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ ". حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ.

نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور اس کے درمیان بہت سی چیزیں شبہ والی ہیں ۱؎ جنہیں بہت سے لوگ نہیں جانتے ہیں کہ یہ حلال کے قبیل سے ہیں یا حرام کے۔ تو جس نے اپنے دین کو پاک کرنے اور اپنی عزت بچانے کے لیے انہیں چھوڑے رکھا تو وہ مامون رہا اور جو ان میں سے کسی میں پڑ گیا یعنی انہیں اختیار کر لیا تو قریب ہے کہ وہ حرام میں مبتلا ہو جائے، جیسے وہ شخص جو سرکاری چراگاہ کے قریب (اپنا جانور) چرا رہا ہو، قریب ہے کہ وہ اس میں واقع ہو جائے، جان لو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے اور اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں"۔ دوسری سند سے مؤلف نے شعبی سے اور انہوں نے نے نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے اسی طرح کی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے، اسے کئی رواۃ نے شعبی سے اور شعبی نے نعمان بن بشیر سے روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۳۹ (۵۲) ، والبیوع ۲ (۲۰۵۱) ، صحیح مسلم/المساقاة ۲۰ (البیوع ۴۰) ، (۱۵۹۹) ، سنن ابی داود/ البیوع ۳ (۳۳۲۹) ، سنن النسائی/البیوع ۲ (۴۴۵۸) ، سنن ابن ماجہ/الفتن ۱۴ (۲۹۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۶۲۴) ، مسند احمد (۴/۲۶۷، ۲۶۹، ۲۷۰، ۲۷۱، ۲۷۵) ، سنن الدارمی/البیوع ۱ (۲۵۷۳) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : مشتبہات (شبہ والی چیزوں) سے مراد ایسے امور و معاملات ہیں جن کی حلت و حرمت سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں ، تقویٰ یہ ہے کہ انہیں اختیار کرنے سے انسان گریز کرے ، اور جو شخص حلت و حرمت کی پرواہ کئے بغیر ان میں ملوث ہو گیا تو سمجھ لو وہ حرام میں مبتلا ہو گیا ، اس میں تجارت اور کاروبار کرنے والوں کے لیے بڑی تنبیہ ہے کہ وہ صرف ایسے طریقے اختیار کریں جو واضح طور پر حلال ہوں اور مشتبہ امور و معاملات سے اجتناب کریں۔

سود خوری کا بیان

حد یث نمبر - 1206

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُؤْكِلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَشَاهِدَيْهِ وَكَاتِبَهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي جُحَيْفَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے، سود دینے والے، اس کے دونوں گواہوں اور اس کے لکھنے والے پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبداللہ بن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، جابر اور ابوجحیفہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۴ (۳۳۳۳) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۸ (۲۲۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۹۳۵۶) ، مسند احمد (۱/۳۹۹۳، ۴۰۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے سود کی حرمت سے شدت ظاہر ہوتی ہے کہ سود لینے اور دینے والوں کے علاوہ گواہوں اور معاہدہ لکھنے والوں پر بھی لعنت بھیجی گئی ہے ، حالانکہ مؤخرالذ کر دونوں حضرات کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، لیکن صرف یک گو نہ تعاون کی وجہ سے ہی ان کو بھی ملعون قرار دے دیا گیا ، گویا سودی معاملے میں کسی قسم کا تعاون بھی لعنت اور غضب الٰہی کا باعث ہے کیونکہ سود کی بنیاد خود غرضی ، دوسروں کے استحصال اور ظلم پر قائم ہوتی ہے اور اسلام ایسا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی بنیاد بھائی چارہ ، اخوت ہمدردی ، ایثار اور قربانی پر ہو۔

جھوٹ اور جھوٹی گواہی وغیرہ پر وارد وعید کا بیان

حد یث نمبر - 1207

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الصَّنْعَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْكَبَائِرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " الشِّرْكُ بِاللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَتْلُ النَّفْسِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَوْلُ الزُّورِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَيْمَنَ بْنِ خُرَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبیرہ گناہوں ۱؎ سے متعلق فرمایا: "اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی کو(ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (کبائر میں سے ہیں" ۲؎)۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابوبکرہ، ایمن بن خریم اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشہادات ۱۰ (۲۶۵۳) ، والأدب ۶ (۶۸۷۱) ، صحیح مسلم/الإیمان ۳۸ (۸۸) ، سنن النسائی/المحاربہ (تحریم الدم) ۳ (۴۰۱۵) ، والقسامة ۴۸ (۴۸۷۱) ، (التحفہ: ۱۰۷۷) مسند احمد ۳/۱۳۱، ۱۳۴) والمؤلف في تفسیر النساء (۳۰۱۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : کبیرہ گناہ وہ ہے جس کے ارتکاب پر قرآن کریم یا حدیث شریف میں سخت وعید وارد ہو۔ ۲؎ : کبیرہ گناہ اور بھی بہت سارے ہیں یہاں موقع کی مناسبت سے چند ایک کا تذکرہ فرمایا گیا ہے ، یا مقصد یہ بتانا ہے کہ یہ چند مذکورہ گناہ کبیرہ گناہوں میں سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ یہاں مولف کے اس حدیث کو کتاب البیوع میں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خرید و فروخت میں بھی جھوٹ کی وہی قباحت ہے جو عام معاملات میں ہے ، مومن تاجر کو اس سے پرہیز کرنا چاہیئے۔

تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1208

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نُسَمَّى السَّمَاسِرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ الشَّيْطَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْإِثْمَ، ‏‏‏‏‏‏يَحْضُرَانِ الْبَيْعَ فَشُوبُوا بَيْعَكُمْ بِالصَّدَقَةِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرِفَاعَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏رَوَاهُ مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، وَحَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، وغير واحد، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْقَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، وَلَا نَعْرِفُ لِقَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، أبي وَائِلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرَزَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَهُ بِمَعْنَاهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.

قیس بن ابی غرزہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم (اس وقت) «سماسرہ» ۱؎ (دلال) کہلاتے تھے، آپ نے فرمایا: "اے تاجروں کی جماعت! خرید و فروخت کے وقت شیطان اور گناہ سے سابقہ پڑ ہی جاتا ہے، لہٰذا تم اپنی خرید فروخت کو صدقہ کے ساتھ ملا لیا کرو" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- قیس بن ابی غرزہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے منصور نے بسند «الأعمش وحبيب بن أبي ثابت» ، اور دیگر کئی لوگوں نے بسند«أبي وائل عن قيس بن أبي غرزة» سے روایت کیا ہے۔ ہم اس کے علاوہ قیس کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۳- مؤلف نے بسند «أبو معاوية عن الأعمش عن شقيق بن سلمة وشقيق هو أبو وائل عن قيس بن أبي غرزة عن النبي صلى الله عليه وسلم» اسی جیسی اسی مفہوم کی حدیث روایت کی ہے، ۴- یہ حدیث صحیح ہے، ۵- اس باب میں براء بن عازب اور رفاعہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۱ (۳۳۲۶) ، سنن النسائی/الأیمان والنذور ۲۲ (۳۸۳۱) ، والبیوع ۷ (۴۴۷۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳ (۳۱۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۱۰۳) ، مسند احمد (۴/۶، ۲۸۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : «سماسرہ» ، «سمسار» کی جمع ہے ، یہ عجمی لفظ ہے ، چونکہ عرب میں اس وقت عجم زیادہ تجارت کرتے تھے اس لیے ان کے لیے یہی لفظ رائج تھا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے «تجار» کا لفظ پسند کیا جو عربی ہے ، «سمسار» اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدار) کے درمیان دلالی کرتا ہے۔ ۲؎ : یعنی صدقہ کر کے اس کی تلافی کر لیا کرو۔

تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1209

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، ‏‏‏‏‏‏وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو حَمْزَةَ اسْمَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَابِرٍ وَهُوَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سچا اور امانت دار تاجر (قیامت کے دن) انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ہم اسے بروایت ثوری صرف اسی سند سے جانتے ہیں انہوں نے ابوحمزہ سے روایت کی ہے، ۲- اور ابوحمزہ کا نام عبداللہ بن جابر ہے اور وہ بصرہ کے شیخ ہیں -

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۹۹۴) (صحیح) (ابن ماجہ (۲۱۳۹) اور مستدرک الحاکم (۲۱۴۲) میں یہ حدیث ابن عمر سے آئی ہے جس میں نبيين اور صديقين کا ذکر نہیں ہے، اور اس میں ایک راوی کلثوم بن جوشن ہیں، جس کے بارے میں حاکم کہتے ہیں کہ وہ قلیل الحدیث ہیں، اور بخاری ومسلم نے ان سے روایت نہیں کی ہے، اور اور حسن بصری کی مرسل روایت اس حدیث کی شاہد ہے، ابو حاتم الرازی نے ان کو ضعیف الحدیث کہا ہے، اور ابن معین نے لیس بہ بأس، اور امام بخاری نے توثیق کی ہے، اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے، خلاصہ یہ ہے کہ یہ متکلم فیہ راوی ہیں، لیکن ان کی حدیث سے ابو سعید خدری کی حدیث جس میں حسن بصری ہیں، کو تقویت مل گئی، اسی وجہ سے البانی صاحب نے ابو سعید خدری کی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا، اور ابن عمر کی حدیث کو حسن صحیح، نیز ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب والترہیب ۱۷۸۲، وتراجع الألبانی ۵۲۵)

 

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.

دوسری سند سے سفیان ثوری نے ابوحمزہ سے اسی سند سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

تاجروں کا ذکر اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے نام رکھنے کا بیان

حد یث نمبر - 1210

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ بْنِ رِفَاعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُصَلَّى، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى النَّاسَ يَتَبَايَعُونَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا مَعْشَرَ التُّجَّارِ "، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَجَابُوا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَفَعُوا أَعْنَاقَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبْصَارَهُمْ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ، ‏‏‏‏‏‏وَصَدَقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَيُقَالُ إِسْمَاعِيل بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ رِفَاعَةَ أَيْضًا.

رفاعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ عید گاہ کی طرف نکلے، آپ نے لوگوں کو خرید و فروخت کرتے دیکھا تو فرمایا: "اے تاجروں کی جماعت!" تو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے لگے اور انہوں نے آپ کی طرف اپنی گردنیں اور نگاہیں اونچی کر لیں، آپ نے فرمایا: "تاجر لوگ قیامت کے دن گنہگار اٹھائے جائیں گے سوائے اس کے جو اللہ سے ڈرے نیک کام کرے اور سچ بولے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسماعیل بن عبید بن رفاعہ کو اسماعیل بن عبیداللہ بن رفاعہ بھی کہا جاتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۳ (۲۱۴۶) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ اسماعیل بن عبید بن رفاعہ ‘‘ لین الحدیث ہیں)

سودے پر جھوٹی قسم کھانے والے کا بیان

حد یث نمبر - 1211

حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ مُدْرِكٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحَرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ "، ‏‏‏‏‏‏قُلْنَا:‏‏‏‏ مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " الْمَنَّانُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْقِلِ بْنِ يَسَارٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي ذَرٍّ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین لوگ ایسے ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ (رحمت کی نظر سے)نہیں دیکھے گا، نہ انہیں (گناہوں سے) پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا"، ہم نے پوچھا: اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ یہ تو نقصان اور گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا: "احسان جتانے والا، اپنے تہبند (ٹخنے سے نیچے) لٹکانے والا ۱؎ اور جھوٹی قسم کے ذریعہ اپنے سامان کو رواج دینے والا" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوذر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود، ابوہریرہ، ابوامامہ بن ثعلبہ، عمران بن حصین اور معقل بن یسار رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۴۶ (۱۰۶) ، سنن ابی داود/ اللباس ۲۸ (۴۰۷) ، سنن النسائی/الزکاة ۶۹ (۴۶۵۲) ، والبیوع ۵ (۴۴۶۴) ، والزینة ۱۰۴ (۵۳۳۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۰ (۲۲۰۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۹۰۹) ، مسند احمد (۴/۱۴۸، ۱۵۸، ۱۶۲، ۱۶۸، ۱۷۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ تہبند ٹخنے سے نیچے لٹکانا ، حرام ہے ، تہبند ہی کے حکم میں شلوار یا پاجامہ اور پتلون وغیرہ بھی ہے ، واضح رہے کہ یہ حکم مردوں کے لیے ہے عورتوں کے لیے اس کے برعکس ٹخنے بلکہ پیر تک بھی ڈھکنے ضروری ہیں۔ ۲؎ : جھوٹی قسم کھانا مطلقاً حرام ہے لیکن سودا بیچنے کے لیے گاہک کو دھوکہ دینے کی نیت سے جھوٹی قسم کھانا اور زیادہ بڑا جرم ہے ، اس میں دو جرم اکٹھے ہو جاتے ہیں : ایک تو جھوٹی قسم کھانے کا جرم دوسرے دھوکہ دہی کا جرم۔

سامان تجارت لے کر سویرے نکلنے کا بیان

حد یث نمبر - 1212

حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدَّوْرَقِيُّ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ حَدِيدٍ، عَنْ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " اللَّهُمَّ بَارِكْ لِأُمَّتِي فِي بُكُورِهَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَكَانَ إِذَا بَعَثَ سَرِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏أَوْ جَيْشًا بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ صَخْرٌ رَجُلًا تَاجِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ إِذَا بَعَثَ تِجَارَةً بَعَثَهُمْ أَوَّلَ النَّهَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَثْرَى، ‏‏‏‏‏‏وَكَثُرَ مَالُهُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ صَخْرٍ الْغَامِدِيِّ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا نَعْرِفُ لِصَخْرٍ الْغَامِدِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ هَذَا الْحَدِيثَ.

صخر غامدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! میری امت کو اس کے دن کے ابتدائی حصہ میں برکت دے" ۱؎ صخر کہتے ہیں کہ آپ جب کسی سریہ یا لشکر کو روانہ کرتے تو اسے دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ اور صخر ایک تاجر آدمی تھے۔ جب وہ تجارت کا سامان لے کر (اپنے آدمیوں کو) روانہ کرتے تو انہیں دن کے ابتدائی حصہ میں روانہ کرتے۔ تو وہ مالدار ہو گئے اور ان کی دولت بڑھ گئی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- صخر غامدی کی حدیث حسن ہے۔ ہم اس حدیث کے علاوہ صخر غامدی کی کوئی اور حدیث نہیں جانتے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہو، ۲- اس باب میں علی، ابن مسعود، بریدہ، انس، ابن عمر، ابن عباس، اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۸۵ (۲۶۰۶) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۱ (۲۶۳۶) (تحفة الأشراف : ۴۸۵۲) ، مسند احمد (۳/۴۱۶، ۴۱۷، ۴۳۲) ، و (۴/۳۸۴، ۳۹۰، ۳۹۱) ، سنن الدارمی/السیر۱ (۲۴۷۹) (صحیح) دون قولہ ’’ وکان إذا بعث سریة أو جیش، بعثہم أول النہار ‘‘ فإنہ ضعیف) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ عمارہ بن جدید ‘‘ مجہول ہں۲، اور ان کے مذکورہ ’’ ضعیف ‘‘ جملے کا کوئی متابع وشاہد نہیں ہے، تراجع الالبانی ۲۷۷، وصحیح ابی داود ط۔غراس ۲۳۴۵)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سفر تجارت ہو یا اور کوئی کام ہو ان کا آغاز دن کے پہلے پہر سے کرنا زیادہ مفید اور بابرکت ہے ، اس وقت انسان تازہ دم ہوتا ہے اور قوت عمل وافر ہوتی ہے جو ترقی اور برکت کا باعث بنتی ہے۔

کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1213

حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ عَمَرُو بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، أَخْبَرَنَا عُمَارَةُ بْنُ أَبِي حَفْصَةَ، أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ، عَنْعَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ كَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَوْبَانِ قِطْرِيَّانِ غَلِيظَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ إِذَا قَعَدَ فَعَرِقَ ثَقُلَا عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدِمَ بَزٌّ مِنْ الشَّامِ لِفُلَانٍ الْيَهُودِيِّ، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَوْ بَعَثْتَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَيْتَ مِنْهُ ثَوْبَيْنِ إِلَى الْمَيْسَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ قَدْ عَلِمْتُ مَا يُرِيدُ إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَذْهَبَ بِمَالِي، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بِدَرَاهِمِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " كَذَبَ قَدْ عَلِمَ أَنِّي مِنْ أَتْقَاهُمْ لِلَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَآدَاهُمْ لِلْأَمَانَةِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ وسَمِعْت مُحَمَّدَ بْنَ فِرَاسٍ الْبَصْرِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ الطَّيَالِسِيَّ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سُئِلَ شُعْبَةُ يَوْمًا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ فَقَالَ:‏‏‏‏ لَسْتُ أُحَدِّثُكُمْ حَتَّى تَقُومُوا إِلَى حَرَمِيِّ بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَتُقَبِّلُوا رَأَسَهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَرَمِيٌّ فِي الْقَوْمِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ أَيْ إِعْجَابًا بِهَذَا الْحَدِيثِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک پر دو موٹے قطری کپڑے تھے، جب آپ بیٹھتے اور پسینہ آتا تو وہ آپ پر بوجھل ہو جاتے، شام سے فلاں یہودی کے کپڑے آئے۔ تو میں نے عرض کیا: کاش! آپ اس کے پاس کسی کو بھیجتے اور اس سے دو کپڑے اس وعدے پر خرید لیتے کہ جب گنجائش ہو گی تو قیمت دے دیں گے، آپ نے اس کے پاس ایک آدمی بھیجا، تو اس نے کہا: جو وہ چاہتے ہیں مجھے معلوم ہے، ان کا ارادہ ہے کہ میرا مال یا میرے دراہم ہڑپ کر لیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ جھوٹا ہے، اسے خوب معلوم ہے کہ میں لوگوں میں اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور امانت کو سب سے زیادہ ادا کرنے والا ہوں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن غریب صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ نے بھی عمارہ بن ابی حفصہ سے روایت کیا ہے، ۳- ابوداؤد طیالسی کہتے ہیں: ایک دن شعبہ سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: میں تم سے اس وقت اسے نہیں بیان کر سکتا جب تک کہ تم کھڑے ہو کر حرمی بن عمارہ بن ابی حفصہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کا سر نہیں چومتے اور حرمی (وہاں) لوگوں میں موجود تھے، انہوں نے اس حدیث سے حد درجہ خوش ہوتے ہوئے یہ بات کہی، ۴- اس باب میں ابن عباس، انس اور اسماء بنت یزید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/البیوع ۷۰ (۴۶۳۲) ، مسند احمد (۶/۱۴۷) (تحفة الأشراف : ۱۷۴۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ ایک معینہ مدت تک کے لیے ادھار سودا کرنا درست ہے کیونکہ آپ نے اس طرح کی بیع پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اس یہودی کے پاس اس کے لیے آدمی بھیجا ، اسی سے باب پر استدلال ہے۔

کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1214

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، وَعُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " تُوُفِّيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَدِرْعُهُ مَرْهُونَةٌ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخَذَهُ لِأَهْلِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ بیس صاع غلے کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ آپ نے اسے اپنے گھر والوں کے لیے لیا تھا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/البیوع ۸۳ (۴۶۵۵) ، (تحفة الأشراف : ۶۲۲۸) ، سنن الدارمی/البیوع ۴۴ (۲۶۲۴) ، مسند احمد (۱/۲۳۶، ۳۶۱) ، وأخرجہ کل من: سنن ابن ماجہ/الرہون ۱ (۲۴۳۹) ، مسند احمد (۱/۳۰۰) من غیر ہذا الوجہ (صحیح)

کسی چیز کو مدت کے وعدے پر خریدنے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1215

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ. ح قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَحَدَّثَنَامُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ مَشَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخُبْزِ شَعِيرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ رُهِنَ لَهُ دِرْعٌ، ‏‏‏‏‏‏عِنْدَ يَهُودِيٍّ بِعِشْرِينَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَخَذَهُ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ سَمِعْتُهُ ذَاتَ يَوْمٍ يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَا أَمْسَى فِي آلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعُ تَمْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا صَاعُ حَبٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّ عِنْدَهُ يَوْمَئِذٍ لَتِسْعَ نِسْوَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو کی روٹی اور پگھلی ہوئی چربی جس میں کچھ تبدیلی آ چکی تھی لے کر چلا، آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس بیس صاع غلے کے عوض جسے آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے لے رکھا تھا گروی رکھی ہوئی تھی ۱؎ قتادہ کہتے ہیں میں نے ایک دن انس رضی الله عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں کے پاس ایک صاع کھجور یا ایک صاع غلہ شام کو نہیں ہوتا تھا جب کہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۴ (۲۰۶۹) ، والرہون ۱ (۲۵۰۸) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ۱ (الأحکام ۶۲) ، (۲۴۳۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۵۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اہل کتاب سے ادھار وغیرہ کا معاملہ کرنا جائز ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام میں سے کسی سے ادھار لینے کے بجائے ایک یہودی سے اس لیے ادھار لیا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ اہل کتاب سے اس طرح کا معاملہ کرنا جائز ہے ، یا اس لیے کہ صحابہ کرام آپ سے کوئی معاوضہ یا رقم واپس لینا پسند نہ فرماتے جبکہ آپ کی طبع غیور کو یہ بات پسند نہیں تھی۔

خرید و فروخت کے شرائط لکھ لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1216

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ لَيْثٍ صَاحِبُ الْكَرَابِيسِيِّ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَجِيدِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ لِي الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ:‏‏‏‏ أَلَا أُقْرِئُكَ كِتَابًا كَتَبَهُ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ بَلَى فَأَخْرَجَ لِي كِتَابًا " هَذَا مَا اشْتَرَى الْعَدَّاءُ بْنُ خَالِدِ بْنِ هَوْذَةَ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اشْتَرَى مِنْهُ عَبْدًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ أَمَةً، ‏‏‏‏‏‏لَا دَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا غَائِلَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خِبْثَةَ بَيْعَ الْمُسْلِمِ الْمُسْلِمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبَّادِ بْنِ لَيْثٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى عَنْهُ هَذَا الْحَدِيثَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْحَدِيثِ.

عبدالمجید بن وہب کہتے ہیں کہ مجھ سے عداء بن خالد بن ھوذہ نے کہا: کیا میں تمہیں ایک تحریر نہ پڑھاؤں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے لکھی تھی؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور پڑھائیے، پھر انہوں نے ایک تحریر نکالی، (جس میں لکھا تھا) "یہ بیع نامہ ہے ایک ایسی چیز کا جو عداء بن خالد بن ھوذہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے خریدی ہے"، انہوں نے آپ سے غلام یا لونڈی کی خریداری اس شرط کے ساتھ کی کہ اس میں نہ کوئی بیماری ہو، نہ وہ بھگیوڑو ہو اور نہ حرام مال کا ہو، یہ مسلمان کی مسلمان سے بیع ہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے، ہم اسے صرف عباد بن لیث کی روایت سے جانتے ہیں۔ ان سے یہ حدیث محدثین میں سے کئی لوگوں نے روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۹ (تعلیقاً فی الترجمة) سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۷ (۲۲۵۱) (تحفة الأشراف : ۹۸۴۸) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں تحریروں کا رواج عام تھا اور مختلف موضوعات پر احادیث لکھی جاتی تھیں۔

ناپ و تول کا بیان

حد یث نمبر - 1217

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَعْقُوبَ الطَّالَقَانِيُّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِ الْمِكْيَالِ وَالْمِيزَانِ:‏‏‏‏ " إِنَّكُمْ قَدْ وُلِّيتُمْ أَمْرَيْنِ هَلَكَتْ فِيهِ الْأُمَمُ السَّالِفَةُ قَبْلَكُمْ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ حُسَيْنِ بْنِ قَيْسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُسَيْنُ بْنُ قَيْسٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا بِإِسْنَادٍ صَحِيحٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَوْقُوفًا.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپ تول والوں سے فرمایا: "تمہارے دو ایسے کام ۱؎ کیے گئے ہیں جس میں تم سے پہلے کی امتیں ہلاک ہو گئیں" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ہم اس حدیث کو صرف بروایت حسین بن قیس مرفوع جانتے ہیں، اور حسین بن قیس حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں۔ نیز یہ صحیح سند سے ابن عباس سے موقوفاً مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۰۲۶) (ضعیف) (سند میں ’’ حسین بن قیس ‘‘ متروک الحدیث راوی ہے، لیکن موقوفا یعنی ابن عباس کے قول سے ثابت ہے جیسا کہ مرفوع روایت کی تضعیف کے بعد امام ترمذی نے خود واضح فرمایا ہے)

وضاحت: ۱؎ : یعنی ناپ اور تول۔ اس حدیث کے آغاز میں امام ترمذی نے اپنے استاذ سعید بن یعقوب طالقانی سے اس روایت کی سند کا جو آغاز کیا ہے تو … یہ طالقان موجود افغانستان کے شمال میں واقع ہے ، اور آج بھی وہاں سلفی اہل حدیث لوگ بحمدللہ موجود ہیں اور اپنے اسلاف کے ورثہ حدیث کو تھامے ہوئے ہیں۔ ۲؎ : مثلاً شعیب علیہ السلام کی قوم جو لینا ہوتا تو پورا پورا لیتی تھی اور دینا ہوتا تو کم دیتی تھی۔

نیلامی کا بیان

حد یث نمبر - 1218

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ شُمَيْطِ بْنِ عَجْلَانَ، حَدَّثَنَا الْأَخْضَرُ بْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ الْحَنَفِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَاعَ حِلْسًا وَقَدَحًا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ يَشْتَرِي هَذَا الْحِلْسَ وَالْقَدَحَ "، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَجُلٌ:‏‏‏‏ أَخَذْتُهُمَا بِدِرْهَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ مَنْ يَزِيدُ عَلَى دِرْهَمٍ "، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ رَجُلٌ دِرْهَمَيْنِ فَبَاعَهُمَا مِنْهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدُ اللَّهِ الْحَنَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏الَّذِي رَوَى عَنْ أَنَسٍ هُوَ أَبُو بَكْرٍ الْحَنَفِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ لَمْ يَرَوْا بَأْسًا بِبَيْعِ مَنْ يَزِيدُ فِي الْغَنَائِمِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَوَارِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ كِبَارِ النَّاسِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَخْضَرِ بْنِ عَجْلَانَ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ٹاٹ جو کجاوہ کے نیچے بچھایا جاتا ہے اور ایک پیالہ بیچا، آپ نے فرمایا: "یہ ٹاٹ اور پیالہ کون خریدے گا؟ ایک آدمی نے عرض کیا: میں انہیں ایک درہم میں لے سکتا ہوں"، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک درہم سے زیادہ کون دے گا؟" تو ایک آدمی نے آپ کو دو درہم دیا، تو آپ نے اسی کے ہاتھ سے یہ دونوں چیزیں بیچ دیں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے۔ ہم اسے صرف اخضر بن عجلان کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اور عبداللہ حنفی ہی جنہوں نے انس سے روایت کی ہے ابوبکر حنفی ہیں ۱؎، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غنیمت اور میراث کے سامان کو زیادہ قیمت دینے والے سے بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں، ۴- یہ حدیث معتمر بن سلیمان اور دوسرے کئی بڑے لوگوں نے بھی اخضر بن عجلان سے روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الزکاة ۲۶ (۱۶۴۱) ، سنن النسائی/البیوع ۲۲ (۴۵۱۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۵ (۲۱۹۸) ، مسند احمد (۳/۱۰۰) (صحیح) (اس کے راوی ’’ ابوبکر عبد اللہ حنفی ‘‘ مجہول ہیں، لیکن طرق وشواہد کی وجہ سے حدیث صحیح لغیرہ ہے، صحیح الترغیب ۸۳۴، وتراجع الألبانی ۱۷۸۰) واضح رہے کہ ابن ماجہ کی تحقیق میں حدیث کی سند کو ضعیف قرار دیا گیا ہے۔

وضاحت: ۱؎ : حنفی سے مراد ہے بنو حنیفہ کے ایک فرد ، نہ کہ حنفی المذہب۔

مدبر غلام کے بیچنے کا بیان

حد یث نمبر - 1219

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ جَابِرٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ دَبَّرَ غُلَامًا لَهُ فَمَاتَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا غَيْرَهُ فَبَاعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ النَّحَّامِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ جَابِرٌ:‏‏‏‏ عَبْدًا قِبْطِيًّا مَاتَ عَامَ الْأَوَّلِ فِي إِمَارَةِ ابْنِ الزُّبَيْرِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَرُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَرَوْا بِبَيْعِ الْمُدَبَّرِ بَأْسًا وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ بَيْعَ الْمُدَبَّرِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَوْزَاعِيِّ.

جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار کے ایک شخص نے ۱؎ اپنے غلام کو مدبر ۲؎ بنا دیا (یعنی اس سے یہ کہہ دیا کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو)، پھر وہ مر گیا، اور اس غلام کے علاوہ اس نے کوئی اور مال نہیں چھوڑا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیچ دیا ۳؎ اور نعیم بن عبداللہ بن نحام نے اسے خریدا۔ جابر کہتے ہیں: وہ ایک قبطی غلام تھا۔ عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی امارت کے پہلے سال وہ فوت ہوا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ جابر بن عبداللہ سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ مدبر غلام کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے مدبر کی بیع کو مکروہ جانا ہے۔ یہ سفیان ثوری، مالک اور اوزاعی کا قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۱۱۰ (۲۲۳۱) ، صحیح مسلم/الأیمان والنذور ۱۳ (۹۹۷) ، سنن ابن ماجہ/العتق ۱ (الأحکام ۹۴) ، (۲۵۱۳) (تحفة الأشراف : ۲۵۲۶) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/کفارات الأیمان ۷ (۶۷۱۶) ، والا کراہ ۴ (۶۹۴۷) ، صحیح مسلم/الأیمان (المصدر المذکور) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ اس شخص کا نام ابومذکور انصاری تھا اور غلام کا نام یعقوب۔ ۲؎ : مدبر وہ غلام ہے جس کا مالک اس سے یہ کہہ دے کہ میرے مرنے کے بعد تو آزاد ہے۔۳؎ : بعض روایات میں ہے کہ وہ مقروض تھا اس لیے آپ نے اسے بیچا تاکہ اس کے ذریعہ سے اس کے قرض کی ادائیگی کر دی جائے اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مدبر غلام کو ضرورت کے وقت بیچنا جائز ہے۔

مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1220

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ تَلَقِّي الْبُيُوعِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے سے منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں علی، ابن عباس، ابوہریرہ، ابو سعید خدری، ابن عمر، اور ایک اور صحابی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۶۴ (۲۱۴۹) ، و۷۱ (۲۱۶۴) ، صحیح مسلم/البیوع ۵ (۱۵۱۸) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۶ (۲۱۸۰) ، مسند احمد (۱/۴۳۰) (تحفة الأشراف : ۹۳۷۷) (صحیح)

مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے جا کر ملنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1221

حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّقِّيُّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى أَنْ يُتَلَقَّى الْجَلَبُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ تَلَقَّاهُ إِنْسَانٌ فَابْتَاعَهُ فَصَاحِبُ السِّلْعَةِ فِيهَا بِالْخِيَارِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا وَرَدَ السُّوقَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ حَدِيثِ أَيُّوبَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ تَلَقِّي الْبُيُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏مِنْ أَصْحَابِنَا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر سے آنے والے سامانوں کو بازار میں پہنچنے سے پہلے آگے جا کر خرید لینے سے منع فرمایا: اگر کسی آدمی نے مل کر خرید لیا تو صاحب مال کو جب وہ بازار میں پہنچے تو اختیار ہے (چاہے تو وہ بیچے چاہے تو نہ بیچے) ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ایوب کی روایت سے حسن غریب ہے، ۲- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے مال بیچنے والوں سے بازار میں پہنچنے سے پہلے مل کر مال خریدنے کو ناجائز کہا ہے یہ دھوکے کی ایک قسم ہے ہمارے اصحاب میں سے شافعی وغیرہ کا یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۴۵ (۳۴۳۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۴۴۸) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع ۵ (۱۵۱۹) ، سنن النسائی/البیوع ۱۸ (۴۵۰۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۶ (۲۱۷۹) ، مسند احمد (۲/۲۸۴، ۴۰۳، ۴۸۸) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ شہری آدمی بدوی (دیہاتی) سے اس کے شہر کی مارکیٹ میں پہنچنے سے پہلے جا ملے تاکہ بھاؤ کے متعلق بیان کر کے اس سے سامان سستے داموں خرید لے ، ایسا کرنے سے منع کرنے سے مقصود یہ ہے کہ صاحب سامان دھوکہ اور نقصان سے بچ جائے ، چونکہ بیچنے والے کو ابھی بازار کی قیمت کا علم نہیں ہو پایا ہے اس لیے بازار میں پہنچنے سے پہلے اس سے سامان خرید لینے میں اسے دھوکہ ہو سکتا ہے ، اسی لیے یہ ممانعت آئی ہے۔

شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے

حد یث نمبر - 1222

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ وَقَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ طَلْحَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَكِيمِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَمْرِو بْنِ عَوْفٍ الْمُزْنِيِّ جَدِّ كَثِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے ۱؎ (بلکہ دیہاتی کو خود بیچنے دے")۔

امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں طلحہ، جابر، انس، ابن عباس، ابویزید کثیر بن عبداللہ کے دادا عمرو بن عوف مزنی اور ایک اور صحابی رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰) ، صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۳) ، والبیوع ۶ (۱۵۲۰) ، سنن النسائی/النکاح ۲۰ (۳۲۴۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۵ (۲۱۷۵) (تحفة الأشراف : ۱۳۱۲۳) ، مسند احمد (۲/۲۳۸) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع ۶۴ (۲۱۵۰) ، و۷۰ (۲۱۶۰) ، و۷۱ (۲۱۶۲) ، والشروط ۸ (۲۷۲۳) ، و ۱۱ (۲۷۲۷) ، صحیح مسلم/النکاح (المصدر المذکور) ، سنن النسائی/البیوع ۱۶ (۴۴۹۶) ، و۱۹ (۴۵۰۶) ، و۲۱ (۴۵۱۰) ، مسند احمد (۲/۲۷۴، ۳۹۴، ۴۸۷) من غیر ہذا الوجہ (وانظر أیضا حدیث رقم ۱۱۳۴ و ۱۱۹۰) و۱۲۲۲، و۱۳۰۴)

وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کا دلال نہ بنے ، کیونکہ ایسا کرنے میں بستی والوں کا خسارہ ہے ، اگر باہر سے آنے والا خود بیچتا ہے تو وہ مسافر ہونے کی وجہ سے بازار میں جس دن پہنچا ہے اسی دن کی قیمت میں اسے بیچ کر اپنے گھر چلا جائے گا اس سے خریداروں کو فائدہ ہو گا۔

شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال نہ بیچے

حد یث نمبر - 1223

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ دَعُوا النَّاسَ يَرْزُقُ اللَّهُ بَعْضَهُمْ مِنْ بَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ جَابِرٍ فِي هَذَا هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي أَنْ يَشْتَرِيَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ يُكْرَهُ أَنْ يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ بَاعَ فَالْبَيْعُ جَائِزٌ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی شہری کسی گاؤں والے کا سامان نہ فروخت کرے، تم لوگوں کو (ان کا سامان خود بیچنے کے لیے) چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ بعض کو بعض کے ذریعے رزق دیتا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔ ۲- اس باب میں جابر کی حدیث بھی حسن صحیح ہے۔ ۳- صحابہ کرام میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے مکروہ سمجھا ہے کہ شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا سامان بیچے، ۴- اور بعض لوگوں نے رخصت دی ہے کہ شہری دیہاتی کے لیے سامان خرید سکتا ہے۔ ۵- شافعی کہتے ہیں کہ شہری کا دیہاتی کے سامان کو بیچنا مکروہ ہے اور اگر وہ بیچ دے تو بیع جائز ہو گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۶ (۱۵۲۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۵ (۲۱۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۲۷۶۴) ، مسند احمد (۳/۳۰۷) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ۴۷ (۲۴۴۲) ، سنن النسائی/البیوع ۱۷ (۴۵۰۰) ، مسند احمد ۳/۳۱۲، ۳۸۶، ۳۹۲) من غیر ہذا الوجہ۔

محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 1224

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْإِسْكَنْدَرَانِيُّ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُحَاقَلَةُ بَيْعُ الزَّرْعِ بِالْحِنْطَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةُ بَيْعُ الثَّمَرِ عَلَى رُءُوسِ النَّخْلِ بِالتَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا بَيْعَ الْمُحَاقَلَةِ وَالْمُزَابَنَةِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، زید بن ثابت، سعد، جابر، رافع بن خدیج اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بالیوں میں کھڑی کھیتی کو گیہوں سے بیچنے کو محاقلہ کہتے ہیں، اور درخت پر لگے ہوئی کھجور توڑی گئی کھجور سے بیچنے کو مزابنہ کہتے ہیں، ۴- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ محاقلہ اور مزابنہ کو مکروہ سمجھتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۷ (۱۵۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۷۶۸) ، مسند احمد (۲/۴۱۹) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/المزارعة ۲ (۳۹۱۵) ، مسند احمد (۲/۳۹۲، ۴۸۴) من غیر ہذا الوجہ۔

محاقلہ اور مزابنہ کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 1225

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّ زَيْدًا أَبَا عَيَّاشٍ، سَأَلَ سَعْدًا، ‏‏‏‏‏‏عَنِ الْبَيْضَاءِ بِالسُّلْتِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ أَيُّهُمَا أَفْضَلُ ؟، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الْبَيْضَاءُ:‏‏‏‏ فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ سَعْدٌ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْ اشْتِرَاءِ التَّمْرِ بِالرُّطَبِ ؟، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لِمَنْ حَوْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَيَنْقُصُ الرُّطَبُ إِذَا يَبِسَ ؟ "، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ نَعَمْ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ. حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ زَيْدٍ أَبِي عَيَّاشٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سَأَلْنَا سَعْدًا فَذَكَرَ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَصْحَابِنَا.

عبداللہ بن یزید سے روایت ہے کہ ابوعیاش زید نے سعد رضی الله عنہ سے گیہوں کو چھلکا اتارے ہوئے جو سے بیچنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے پوچھا: ان دونوں میں کون افضل ہے؟ انہوں نے کہا: گیہوں، تو انہوں نے اس سے منع فرمایا۔ اور سعد رضی الله عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے تر کھجور سے خشک کھجور خریدنے کا مسئلہ پوچھا جا رہا تھا۔ تو آپ نے قریب بیٹھے لوگوں سے پوچھا: "کیا تر کھجور خشک ہونے پر کم ہو جائے گا؟ ۱؎" لوگوں نے کہا ہاں (کم ہو جائے گا)، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔ مؤلف نے بسند «وكيع عن مالك» اسی طرح کی حدیث بیان کی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اور یہی شافعی اور ہمارے اصحاب کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۱۸ (۳۳۵۹) ، سنن النسائی/البیوع ۳۶ (۴۵۴۹) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۵ (۲۴۶۴) ، (تحفة الأشراف : ۳۸۵۴) ، موطا امام مالک/البیوع ۱۲ (۲۲) ، مسند احمد (۱/۱۱۵، ۱۷۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کے علم و تجربہ میں اگر کوئی بات پہلے سے نہ ہو تو فتوی دینے سے پہلے وہ مسئلہ کے بارے میں تحقیق کر لے۔

پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل کو بیچنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1226

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يَزْهُوَ ".

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے کھجور کے درخت کی بیع سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ خوش رنگ ہو جائے (پختگی کو پہنچ جائے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۳ (۱۵۳۵) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۳ (۳۳۶۸) ، سنن النسائی/البیوع ۴۰ (۴۵۵۵) ، (تحفة الأشراف : ۵۷۱۵) ، مسند احمد (۲/۵) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الزکاة ۵۸ (۱۴۸۶) ، والبیوع ۸۲ (۲۱۸۳) ، و۸۵ (۲۱۹۴) ، و۸۷ (۲۱۹۹) ، والسلم ۴ (۲۲۴۷ و۲۲۴۹) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۳ (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۳ (۳۳۶۷) ، سنن النسائی/البیوع ۲۸ (۴۵۲۳) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۲ (۲۲۱۴) ، موطا امام مالک/البیوع ۸ (۱۰) ، مسند احمد (۲/۷، ۴۶، ۵۶، ۶۱، ۸۰، ۱۲۳) ، سنن الدارمی/البیوع ۲۱ (۲۵۹۷) من غیر ہذا الوجہ۔

پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل کو بیچنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1227

وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ بَيْعِ السُّنْبُلِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَبْيَضَّ، ‏‏‏‏‏‏وَيَأْمَنَ الْعَاهَةَ نَهَى الْبَائِعَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِيَ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا بَيْعَ الثِّمَارِ قَبْلَ أَنْ يَبْدُوَ صَلَاحُهَا وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

اسی سند سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (گیہوں اور جو وغیرہ کے) خوشے بیچنے سے منع فرمایا یہاں تک کہ وہ پختہ ہو جائیں اور آفت سے مامون ہو جائیں، آپ نے بائع اور مشتری دونوں کو منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس، عائشہ، ابوہریرہ، ابن عباس، جابر، ابو سعید خدری اور زید بن ثابت رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ پھل کی پختگی ظاہر ہونے سے پہلے اس کے بیچنے کو مکروہ سمجھتے ہیں، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

پختگی ظاہر ہونے سے پہلے پھل کو بیچنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1228

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، وَعَفَّانُ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْحُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ حَتَّى يَسْوَدَّ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ بَيْعِ الْحَبِّ حَتَّى يَشْتَدَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگور کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سیاہ (پختہ) ہو جائے۔ اور دانے (غلے) کو بیچنے سے منع فرمایا ہے یہاں تک کہ وہ سخت ہو جائے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف بروایت حماد بن سلمہ ہی مرفوع جانتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۲۳ (۳۳۷۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۲ (۲۲۱۷) ، (تحفة الأشراف : ۶۱۳) (صحیح) وأخرجہ: مسند احمد (۳/۱۱۵) ، من غیر ہذا الوجہ۔

حمل کے حمل کو بیچنے کا بیان

حد یث نمبر - 1229

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ بَيْعِ حَبَلِ الْحَبَلَةِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ نِتَاجُ النِّتَاجِ وَهُوَ بَيْعٌ مَفْسُوخٌ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ وَهُوَ مِنْ بَيُوعِ الْغَرَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍوَرَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، وَنَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا أَصَحُّ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حمل کے حمل کو بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- شعبہ نے اس حدیث کو بطریق: «عن أيوب عن سعيد بن جبير عن ابن عباس» روایت کیا ہے۔ اور عبدالوھاب ثقفی وغیرہ نے بطریق: «عن أيوب عن سعيد بن جبير ونافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے۔ اور یہ زیادہ صحیح ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «حبل الحبلة» (حمل کے حمل) سے مراد اونٹنی کے بچے کا بچہ ہے۔ اہل علم کے نزدیک یہ بیع منسوخ ہے اور یہ دھوکہ کی بیع میں سے ایک بیع ہے، ۴- اس باب میں عبداللہ بن عباس اور ابو سعید خدری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (وأخرجہ النسائي في الکبریٰ) (تحفة الأشراف : ۷۵۵۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : حمل کے حمل کو بیچنے کی صورت یہ ہے کہ کوئی کہے کہ میں تم سے اس حاملہ اونٹنی کے پیٹ کے اندر جو مادہ بچہ ہے اس کے پیدا ہونے کے بعد اس کے پیٹ سے جو بچہ ہو گا اس کو اتنے میں بیچتا ہوں ، تو یہ بیع جائز نہ ہو گی کیونکہ یہ معدوم اور مجہول کی بیع ہے۔

بیع غرر (دھوکہ) کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 1230

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَنْبَأَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْعِ الْحَصَاةِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا بَيْعَ الْغَرَرِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَمِنْ بُيُوعِ الْغَرَرِ بَيْعُ السَّمَكِ فِي الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْعُ الْعَبْدِ الْآبِقِ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْعُ الطَّيْرِ فِي السَّمَاءِ وَنَحْوُ ذَلِكَ مِنَ الْبُيُوعِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى بَيْعِ الْحَصَاةِ:‏‏‏‏ أَنْ يَقُولَ الْبَائِعُ لِلْمُشْتَرِي:‏‏‏‏ إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ بِالْحَصَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ فِيمَا بَيْنِي وَبَيْنَكَ وَهَذَا شَبِيهٌ بِبَيْعِ الْمُنَابَذَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع غرر ۱؎ اور بیع حصاۃ سے منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر، ابن عباس، ابوسعید اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ بیع غرر کو مکروہ سمجھتے ہیں، ۴- شافعی کہتے ہیں: مچھلی کی بیع جو پانی میں ہو، بھاگے ہوئے غلام کی بیع، آسمان میں اڑتے پرندوں کی بیع اور اسی طرح کی دوسری بیع، بیع غرر کی قبیل سے ہیں، ۵- اور بیع حصاۃ سے مراد یہ ہے کہ بیچنے والا خریدنے والے سے یہ کہے کہ جب میں تیری طرف کنکری پھینک دوں تو میرے اور تیرے درمیان میں بیع واجب ہو گئی۔ یہ بیع منابذہ کے مشابہ ہے۔ اور یہ جاہلیت کی بیع کی قسموں میں سے ایک قسم تھی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۲ (۱۵۱۳) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۵ (۳۳۷۶) ، سنن النسائی/البیوع ۲۷ (۴۵۲۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۳ (۲۱۹۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۷۹۴) ، مسند احمد (۲/۲۵۰، ۴۳۶، ۴۳۹، ۴۹۶) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (۲/۳۷۶) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ : بیع غرر : معدوم و مجہول کی بیع ہے ، یا ایسی چیز کی بیع ہے جسے مشتری کے حوالہ کرنے پر بائع کو قدرت نہ ہو۔

ایک بیع میں دو بیع کرنے کی ممانعت

حد یث نمبر - 1231

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". وَفِي الْبَاب:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ فَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ قَالُوا:‏‏‏‏ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ بِنَقْدٍ بِعَشَرَةٍ وَبِنَسِيئَةٍ بِعِشْرِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُفَارِقُهُ عَلَى أَحَدِ الْبَيْعَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا فَارَقَهُ عَلَى أَحَدِهِمَا فَلَا بَأْسَ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَتِ الْعُقْدَةُ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَمِنْ مَعْنَى نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ أَبِيعَكَ دَارِي هَذِهِ بِكَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَلَى أَنْ تَبِيعَنِي غُلَامَكَ بِكَذَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا وَجَبَ لِي غُلَامُكَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَبَتْ لَكَ دَارِي، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا يُفَارِقُ عَنْ بَيْعٍ بِغَيْرِ ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَدْرِي كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏عَلَى مَا وَقَعَتْ عَلَيْهِ صَفْقَتُهُ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیع میں دو بیع کرنے سے منع فرمایا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، ابن عمر اور ابن مسعود رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- بعض اہل علم نے ایک بیع میں دو بیع کی تفسیر یوں کی ہے کہ ایک بیع میں دو بیع یہ ہے کہ مثلاً کہے: میں تمہیں یہ کپڑا نقد دس روپے میں اور ادھار بیس روپے میں بیچتا ہوں اور مشتری دونوں بیعوں میں سے کسی ایک پر جدا نہ ہو، (بلکہ بغیر کسی ایک کی تعیین کے مبہم بیع ہی پر وہاں سے چلا جائے) جب وہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر جدا ہو تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ان دونوں میں سے کسی ایک پر بیع منعقد ہو گئی ہو، ۵- شافعی کہتے ہیں: ایک بیع میں دو بیع کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی کہے: میں اپنا یہ گھر اتنے روپے میں اس شرط پر بیچ رہا ہوں کہ تم اپنا غلام مجھ سے اتنے روپے میں بیچ دو۔ جب تیرا غلام میرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا تو میرا گھر تیرے لیے واجب و ثابت ہو جائے گا، یہ بیع بغیر ثمن معلوم کے واقع ہوئی ہے ۲؎ اور بائع اور مشتری میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کا سودا کس چیز پر واقع ہوا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۵۰۵۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/البیوع ۷۳ (۴۶۳۶) ، موطا امام مالک/البیوع ۳۳ (۷۲) (بلاغا) مسند احمد (۲/۴۳۲، ۴۷۵، ۵۰۳) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ : امام ترمذی نے دو قول ذکر کئے اس کے علاوہ بعض علماء نے ایک تیسری تفسیر بھی ذکر کی ہے کہ کوئی کسی سے ایک ماہ کے وعدے پر ایک دینار کے عوض گیہوں خرید لے اور جب ایک ماہ گزر جائے تو جا کر اس سے گیہوں کا مطالبہ کرے اور وہ کہے کہ جو گیہوں تیرا میرے ذمہ ہے اسے تو مجھ سے دو مہینے کے وعدے پر دو بوری گیہوں کے بدلے بیچ دے تو یہ ایک بیع میں دو بیع ہوئی۔ ۲؎ : اور یہی جہالت بیع کے جائز نہ ہونے کی وجہ ہے گو ظاہر میں دونوں کی قیمت متعین معلوم ہوتی ہے۔

جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں

حد یث نمبر - 1232

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَأْتِينِي الرَّجُلُ، ‏‏‏‏‏‏يَسْأَلُنِي مِنَ الْبَيْعِ مَا لَيْسَ عِنْدِي أَبْتَاعُ لَهُ مِنَ السُّوقِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ أَبِيعُهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَبِعْ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ". قال:‏‏‏‏ وفَي البْابِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللهَ بْنِ عُمَرَ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کو بیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: "جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے- حکم ۱۲۳۴ میں آ رہا ہے، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۷۰ (۳۵۰۳) ، سنن النسائی/البیوع ۶۰ (۴۶۱۷) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۰ (۲۱۸۷) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۳۶) ، مسند احمد (۳/۴۰۲، ۴۳۴) (صحیح)

جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں

حد یث نمبر - 1233

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَحْمَدَ:‏‏‏‏ مَا مَعْنَى نَهَى عَنْ سَلَفٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَنْ يَكُونَ يُقْرِضُهُ قَرْضًا، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ يُبَايِعُهُ عَلَيْهِ بَيْعًا، ‏‏‏‏‏‏يَزْدَادُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَيَحْتَمِلُ أَنْ يَكُونَ يُسْلِفُ إِلَيْهِ فِي شَيْءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقُولُ:‏‏‏‏ إِنْ لَمْ يَتَهَيَّأْ عِنْدَكَ فَهُوَ بَيْعٌ عَلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ يَعْنِي ابْنَ رَاهَوَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ لِأَحْمَدَ:‏‏‏‏ وَعَنْ بَيْعِ مَا لَمْ تَضْمَنْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ لَا يَكُونُ عِنْدِي إِلَّا فِي الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏مَا لَمْ تَقْبِضْ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏كَمَا قَالَ:‏‏‏‏ فِي كُلِّ مَا يُكَالُ أَوْ يُوزَنُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ إِذَا قَالَ أَبِيعُكَ هَذَا الثَّوْبَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ وَقَصَارَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَهَذَا مِنْ نَحْوِ شَرْطَيْنِ فِي بَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا قَالَ:‏‏‏‏ أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ خِيَاطَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا بَأْسَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ أَبِيعُكَهُ وَعَلَيَّ قَصَارَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا بَأْسَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا هُوَ شَرْطٌ وَاحِدٌ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا جو میرے پاس نہ ہو۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل سے پوچھا: بیع کے ساتھ قرض سے منع فرمانے کا کیا مفہوم ہے؟ انہوں نے کہا: اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی کو قرض دے پھر اس سے بیع کرے اور سامان کی قیمت زیادہ لے اور یہ بھی احتمال ہے کہ کوئی کسی سے کسی چیز میں سلف کرے اور کہے: اگر تیرے پاس روپیہ فراہم نہیں ہو سکا تو تجھے یہ سامان میرے ہاتھ بیچ دینا ہو گا۔ اسحاق (ابن راھویہ) نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے،۳- اسحاق بن منصور نے کہا: میں نے احمد سے ایسی چیز کی بیع کے بارے میں پوچھا جس کا بائع ضامن نہیں تو انہوں نے جواب دیا، (یہ ممانعت) میرے نزدیک صرف طعام کی بیع کے ساتھ ہے جب تک قبضہ نہ ہو یعنی ضمان سے قبضہ مراد ہے، اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے لیکن یہ ممانعت ہر اس چیز میں ہے جو ناپی یا تولی جاتی ہو۔ احمد بن حنبل کہتے ہیں: جب بائع یہ کہے: میں آپ سے یہ کپڑا اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہے۔ تو بیع کی یہ شکل ایک بیع میں دو شرط کے قبیل سے ہے۔ اور جب بائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی سلائی میرے ذمہ ہے۔ یا بائع یہ کہے: میں یہ کپڑا آپ کو اس شرط کے ساتھ بیچ رہا ہوں کہ اس کی دھلائی میرے ذمہ ہے، تو اس بیع میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، یہ ایک ہی شرط ہے۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی بات کہی ہے جو احمد نے کہی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں

حد یث نمبر - 1234

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْأَبِيهِ، حَتَّى ذَكَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَحِلُّ سَلَفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَبَيْعٌ وَلَا شَرْطَانِ فِي بَيْعٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا رِبْحُ مَا لَمْ يُضْمَنْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَيْعُ مَا لَيْسَ عِنْدَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ رُوِيَ عَنْهُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏رَوَى أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَوْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهِشَامُ بْنُ حَسَّانَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا رَوَاهُ ابْنُ سِيرِينَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ السَّخْتِيَانِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیع کے ساتھ قرض جائز نہیں ہے ۱؎، اور نہ ایک بیع میں دو شرطیں جائز ہیں ۲؎ اور نہ ایسی چیز سے فائدہ اٹھانا جائز ہے جس کا وہ ضامن نہ ہو ۳؎ اور نہ ایسی چیز کی بیع جائز ہے جو تمہارے پاس نہ ہو۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حکیم بن حزام کی حدیث حسن ہے (۱۲۳۲، ۱۲۳۳)، یہ ان سے اور بھی سندوں سے مروی ہے۔ اور ایوب سختیانی اور ابوبشر نے اسے یوسف بن ماہک سے اور یوسف نے حکیم بن حزام سے روایت کیا ہے۔ اور عوف اور ہشام بن حسان نے اس حدیث کو ابن سیرین سے اور ابن سیرین نے حکیم بن حزام سے اور حکیم بن حزام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور یہ حدیث (روایت) مرسل (منقطع) ہے۔ اسے (اصلاً) ابن سیرین نے ایوب سختیانی سے اور ایوب نے یوسف بن ماہک سے اور یوسف بن ماہک نے حکیم بن حزام سے اسی طرح روایت کیا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۷۰ (۳۵۰۴) ، سنن النسائی/البیوع ۶۰ (۴۶۱۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۰ (۲۱۸۸) ، (تحفة الأشراف : ۸۶۶۴) ، مسند احمد (۲/۱۷۹) (حسن صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ فروخت کنندہ ، بائع کہے کہ میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ دس روپے میں فروخت کرتا ہوں بشرطیکہ مجھے دس روپے قرض دے دو یا یوں کہے کہ میں تمہیں دس روپے قرض دیتا ہوں بشرطیکہ تم اپنا یہ سامان میرے ہاتھ سے بیچ دو۔ ۲؎ : اس کے متعلق ایک قول یہ ہے اس سے مراد ایک بیع میں دو فروختیں اور امام احمد کہتے ہیں اس کی شکل یہ ہے کہ بیچنے والا کہے میں یہ کپڑا تیرے ہاتھ بیچ رہا ہوں اس شرط پر کہ اس کی سلائی اور دھلائی میرے ذمہ ہو گی۔ ۳؎ : یعنی کسی سامان کا منافع حاصل کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ وہ اس کا مالک نہ ہو جائے اور اسے اپنے قبضہ میں نہ لے لے۔

جو چیز موجود نہ ہو اس کی بیع جائز نہیں

حد یث نمبر - 1235

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، وَعَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ أَبُو سَهْلٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَبِيعَ مَا لَيْسَ عِنْدِي ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَرَوَى وَكِيعٌ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَزِيدَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ L8387، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ سِيرِينَ L7016، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَيُّوبَ L746، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ L2468 وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَرِوَايَةُ عَبْدِ الصَّمَدِ أَصَحُّ وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ L8208 هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَعْلَى بْنِ حَكِيمٍ L8546، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ L8584، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِصْمَةَ L4953، ‏‏‏‏‏‏عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ L2468، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا أَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ مَا لَيْسَ عِنْدَهُ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس چیز کے بیچنے سے منع فرمایا ہے جو میرے پاس نہیں ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- وکیع نے اس حدیث کو بطریق: «عن يزيد بن إبراهيم عن ابن سيرين عن أيوب عن حكيم بن حزام» روایت کیا ہے اور اس میں یوسف بن ماہک کے واسطے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ عبدالصمد کی روایت زیادہ صحیح ہے (جس میں ابن سیرین کا ذکر ہے)۔ اور یحییٰ بن ابی کثیر نے یہ حدیث بطریق: «عن يعلى بن حكيم عن يوسف بن ماهك عن عبد الله بن عصمة عن حكيم بن حزام عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے، ۲- اکثر اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، یہ لوگ اس چیز کی بیع کو مکروہ سمجھتے ہیں جو آدمی کے پاس نہ ہو۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۱۲۳۲) (صحیح)

میراث ولاء کو بیچنے اور اس کو ہبہ کرنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1236

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، وَشُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَهِبَتِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْوَلَاءِ وَهِبَتِهِ "، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ وَهْمٌ وَهِمَ فِيهِ يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سُلَيْمٍ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء ۱؎ کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱ - یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے صرف بروایت عبداللہ بن دینار جانتے ہیں جسے انہوں نے ابن عمر سے روایت کی ہے، ۳- یحییٰ بن سلیم نے یہ حدیث بطریق: «عبيد الله بن عمر عن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے کہ آپ نے ولاء کو بیچنے اور ہبہ کرنے سے منع فرمایا۔ اس سند میں وہم ہے۔ اس کے اندر یحییٰ بن سلیم سے وہم ہوا ہے، ۴- عبدالوھاب ثقفی، اور عبداللہ بن نمیر اور دیگر کئی لوگوں نے بطریق: «عن عبيد الله بن عمر عن عبد الله بن دينار عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اور یہ یحییٰ بن سلیم کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے، ۵- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/العتق ۱۰ (۲۵۳۵) ، و الفرائض ۲۱ (۶۷۵۶) ، صحیح مسلم/ العتق ۳ (۱۵۰۶) ، سنن ابی داود/ الفرائض ۱۴ (۲۹۱۹) ، سنن النسائی/البیوع ۸۷ (۴۶۶۶) ، سنن ابن ماجہ/ الفرائض ۱۵ (۲۷۴۷) ، ویأتي برقم (۲۱۲۶) ، (التحفہ: ۷۱۵، و۷۱۸۹) ، و موطا امام مالک/العتق ۱۰ (۲۰) ، و مسند احمد (۲/۹، ۷۹، ۱۰۷) ، سنن الدارمی/ البیوع ۳۶ (۲۶۱۴) ، والفرائض ۵۳ (۳۲۰۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ولاء اس حق وراثت کو کہتے ہیں جو آزاد کرنے والے کو آزاد کردہ غلام کی طرف سے ملتا ہے۔ ۲؎ : عرب آزاد ہونے والے کی موت سے پہلے ہی ولاء کو فروخت کر دیتے یا ہبہ کر دیتے تھے ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ممنوع قرار دیا تاکہ ولاء آزاد کرنے والے کے وارثوں کو ملے یا اگر خود زندہ ہے تو وہ خود حاصل کرے ، لہٰذا ایسے غلام کا بیچنا یا اسے ہبہ کرنا جائز نہیں جمہور علماء سلف وخلف کا یہی مذہب ہے۔

جانور کو جانور سے ادھار بیچنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1237

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ مُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْسَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا قَالَ:‏‏‏‏ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو جانور سے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حسن کا سماع سمرہ سے صحیح ہے۔ علی بن مدینی وغیرہ نے ایسا ہی کہا ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس، جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا جانور کو جانور سے ادھار بیچنے کے مسئلہ میں اسی حدیث پر عمل ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ احمد بھی اسی کے قائل ہیں، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور کے جانور سے ادھار بیچنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہی شافعی، اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۱۵ (۳۳۵۶) ، سنن النسائی/البیوع ۶۵ (۴۶۲۴) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۶ (۲۲۷۰) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۸۳) ، مسند احمد (۵/۱۲، ۲۱، ۲۲) (صحیح)

جانور کو جانور سے ادھار بیچنے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1238

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ الْحَجَّاجِ وَهُوَ ابْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْجَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْحَيَوَانُ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ لَا يَصْلُحُ نَسِيئًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا بَأْسَ بِهِ يَدًا بِيَدٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دو جانور کو ایک جانوروں سے ادھار بیچنا درست نہیں ہے، ہاتھوں ہاتھ (نقد) بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۶ (۲۲۷۱) ، (تحفة الأشراف : ۲۶۷۶) (صحیح)

ایک غلام کو دو غلام سے خریدنے کا بیان

حد یث نمبر - 1239

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَاءَ عَبْدٌ فَبَايَعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْهِجْرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَشْعُرُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ عَبْدٌ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ سَيِّدُهُ يُرِيدُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " بِعْنِيهِ فَاشْتَرَاهُ بِعَبْدَيْنِ أَسْوَدَيْنِ "، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَمْ يُبَايِعْ أَحَدًا بَعْدُ حَتَّى يَسْأَلَهُ أَعَبْدٌ هُوَ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِعَبْدٍ بِعَبْدَيْنِ يَدًا بِيَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفُوا فِيهِ إِذَا كَانَ نَسِيئًا.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک غلام آیا اور اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت پر بیعت کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں جان سکے کہ یہ غلام ہے۔ اتنے میں اس کا مالک آ گیا وہ اس کا مطالبہ رہا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: تم اسے مجھ سے بیچ دو، چنانچہ آپ نے اسے دو کالے غلاموں کے عوض خرید لیا، پھر اس کے بعد آپ کسی سے اس وقت تک بیعت نہیں لیتے تھے جب تک کہ اس سے دریافت نہ کر لیتے کہ کیا وہ غلام ہے؟

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں انس رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۳- اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے کہ ایک غلام کو دو غلام سے نقدا نقد خریدنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور جب ادھار ہو تو اس میں اختلاف ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۲۳ (البیوع ۴۴) ، (۱۶۰۲) ، سنن ابی داود/ البیوع ۱۷ (۳۳۵۸) ، سنن النسائی/البیعة ۲۱ (۴۱۸۹) ، و البیوع ۶۶ (۴۶۲۵) ، سنن ابن ماجہ/الجہاد ۴۱ (۲۸۹۶) ، مسند احمد (۳/۳۷۲) ، ویأتي عند المؤلف في السیر ۳۶ (۱۵۹۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۹۰۴) (صحیح)

گیہوں کو گیہوں سے برابر برابر بیچنے اور اس کے اندر کمی و بیشی کے درست نہ ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1240

حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمِلْحُ بِالْمِلْحِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَنْ زَادَ أَوِ ازْدَادَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ أَرْبَى بِيعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيعُوا الْبُرَّ بِالتَّمْرِ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبِيعُوا الشَّعِيرَ بِالتَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عُبَادَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ بِيعُوا الْبُرُّ بِالشَّعِيرِ، ‏‏‏‏‏‏كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ خَالِدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَدِيثَ وَزَادَ فِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ خَالِدٌ:‏‏‏‏ قَالَ أَبُو قِلَابَةَ:‏‏‏‏ " بِيعُوا الْبُرَّ بِالشَّعِيرِ كَيْفَ شِئْتُمْ. فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَرَوْنَ أَنْ يُبَاعَ الْبُرُّ بِالْبُرِّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا اخْتَلَفَ الْأَصْنَافُ فَلَا بَأْسَ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يُبَاعَ مُتَفَاضِلًا إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ "، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏قَوْلُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " بِيعُوا الشَّعِيرَ بِالْبُرِّ كَيْفَ شِئْتُمْ يَدًا بِيَدٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنْ تُبَاعَ الْحِنْطَةُ بِالشَّعِيرِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ.

عبادہ بن صامت رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سونے کو سونے سے، چاندی کو چاندی سے، کھجور کو کھجور سے، گیہوں کو گیہوں سے، نمک کو نمک سے اور جو کو جو سے برابر برابر بیچو، جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا اس نے سود کا معاملہ کیا۔ سونے کو چاندی سے نقداً نقد، جیسے چاہو بیچو، گیہوں کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو، اور جو کو کھجور سے نقداً نقد جیسے چاہو بیچو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عبادہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اسی سند سے روایت کیا ہے اس میں یہ ہے کہ گیہوں کو جو سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۳- بعض لوگوں نے اس حدیث کو خالد سے اور خالد نے ابوقلابہ سے اور ابوقلابہ نے ابوالاشعث سے اور ابوالاشعث نے عبادہ سے اور عبادہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے: خالد کہتے ہیں: ابوقلابہ نے کہا: گیہوں کو جو سے جیسے سے چاہو بیچو۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی، ۴- اس باب میں ابوسعید، ابوہریرہ، بلال اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ ۵- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ لوگ گیہوں کو گیہوں سے اور جو کو جو سے صرف برابر برابر ہی بیچنے کو جائز سمجھتے ہیں اور جب اجناس مختلف ہو جائیں تو کمی، بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ بیع نقداً نقد ہو۔ صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا یہی قول ہے۔ سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ شافعی کہتے ہیں: اس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے کہ جو کو گیہوں سے نقدا نقد جیسے چاہو بیچو، ۶- اہل علم کی ایک جماعت نے جو سے بھی گیہوں کے بیچنے کو مکروہ سمجھا ہے، الا یہ کہ وزن میں مساوی ہوں، پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۵ (البیوع ۳۶) ، (۱۵۸۷) ، سنن ابی داود/ البیوع ۱۲ (۳۳۴۹، ۳۳۵۰) ، سنن النسائی/البیوع ۴۴ (۴۵۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۰۸۹) ، مسند احمد (۵/۳۱۴، ۳۲۰) (صحیح) وأخرجہ کل من: سنن النسائی/۴۳ (۴۵۶۴، ۴۵۶۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۸ (۲۲۵۴) ، من غیر ہذا الوجہ۔

صرف کا بیان

حد یث نمبر - 1241

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا شَيبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ نَافِعٍ، قَالَ:‏‏‏‏ انْطَلَقْتُ أَنَاوَابْنُ عُمَر، إلى أبي سعيد فحدثنا، ‏‏‏‏‏‏أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ هَاتَانِ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَا تَبِيعُوا الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، ‏‏‏‏‏‏لَا يُشَفُّ بَعْضُهُ عَلَى بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَبِيعُوا مِنْهُ غَائِبًا بِنَاجِزٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعُثْمَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، ‏‏‏‏‏‏وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بَكْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي الدَّرْدَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِلَالٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الرِّبَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مَا رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ لَا يَرَى بَأْسًا أَنْ يُبَاعَ الذَّهَبُ بِالذَّهَبِ مُتَفَاضِلًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْفِضَّةُ بِالْفِضَّةِ مُتَفَاضِلًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ يَدًا بِيَدٍ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَذَلِكَ رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ شَيْءٌ مِنْ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ رَجَعَ عَنْ قَوْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏حِينَ حَدَّثَهُ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ لَيْسَ فِي الصَّرْفِ اخْتِلَافٌ.

نافع کہتے ہیں کہ میں اور ابن عمر دونوں ابو سعید خدری رضی الله عنہم کے پاس آئے تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اسے میرے دونوں کانوں نے آپ سے سنا) : "سونے کو سونے سے برابر برابر ہی بیچو اور چاندی کو چاندی سے برابر برابر ہی بیچو۔ ایک کو دوسرے سے کم و بیش نہ کیا جائے اور غیر موجود کو موجود سے نہ بیچو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رباء کے سلسلہ میں ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے حسن صحیح ہے، ۲-اس باب میں ابوبکر، عمر، عثمان، ابوہریرہ، ہشام بن عامر، براء، زید بن ارقم، فضالہ بن عبید، ابوبکرہ، ابن عمر، ابودرداء اور بلال رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- مگر وہ جو ابن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ وہ سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے کمی بیشی کے ساتھ بیچنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے، جب کہ بیع نقدا نقد ہو، اور وہ یہ بھی کہتے تھے کہ سود تو ادھار بیچنے میں ہے اور ایسا ہی کچھ ان کے بعض اصحاب سے بھی مروی ہے، ۵- اور ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ ابو سعید خدری نے جب ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا، پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔ اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی سفیان ثوری، ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور ابن مبارک کہتے ہیں: صرف ۱؎ میں اختلاف نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۷۸ (۲۱۷۷) ، صحیح مسلم/المساقاة ۱۴ (البیوع ۳۵) ، (۱۵۸۴) ، سنن النسائی/البیوع ۴۷ (۴۵۷۴) ، (تحفة الأشراف : ۴۳۸۵) ، موطا امام مالک/البیوع ۱۶ (۳۰) ، مسند احمد (۳/۴، ۵۱، ۶۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : سونے چاندی کو بعوض سونے چاندی نقداً بیچنا بیع صرف ہے۔

صرف کا بیان

حد یث نمبر - 1242

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ، ‏‏‏‏‏‏فَآخُذُ مَكَانَهَا الْوَرِقَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِيعُ بِالْوَرِقِ فَآخُذُ مَكَانَهَا الدَّنَانِيرَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُهُ خَارِجًا مِنْ بَيْتِ حَفْصَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَسَأَلْتُهُ عَنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَا بَأْسَ بِهِ بِالْقِيمَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى دَاوُدُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ لَا بَأْسَ أَنْ يَقْتَضِيَ الذَّهَبَ مِنَ الْوَرِقِ وَالْوَرِقَ، ‏‏‏‏‏‏مِنَ الذَّهَبِ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ ذَلِكَ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع کے بازار میں اونٹ بیچا کرتا تھا، میں دیناروں سے بیچتا تھا، اس کے بدلے چاندی لیتا تھا، اور چاندی سے بیچتا تھا اور اس کے بدلے دینار لیتا تھا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ حفصہ رضی الله عنہا کے گھر سے نکل رہے ہیں تو میں نے آپ سے اس کے بارے میں پوچھا آپ نے فرمایا: "قیمت کے ساتھ ایسا کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ہم اس حدیث کو صرف سماک بن حرب ہی کی روایت سے مرفوع جانتے ہیں، ۲- سماک نے اسے سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عمر سے روایت کی ہے اور داود بن ابی ھند نے یہ حدیث سعید بن جبیر سے اور سعید نے ابن عمر سے موقوفاً روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا عمل اسی حدیث پر ہے کہ اگر کوئی سونا کے بدلے چاندی لے یا چاندی کے بدلے سونا لے، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ یہی احمد اور اسحاق کا بھی قول ہے، ۴- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اسے مکروہ جانا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۱۴ (۳۳۵۴) ، سنن النسائی/البیوع ۵۰ (۴۵۸۶) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۱ (۲۲۶۲) ، (تحفة الأشراف : ۷۰۵۳) ، مسند احمد (۲/۳۳، ۵۹، ۹۹، ۱۰۱، ۱۳۹) (ضعیف) (اس کے راوی ’’ سماک ‘‘ اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور تلقین کو قبول کرتے تھے، ان کے ثقہ ساتھیوں نے اس کو ابن عمر رضی الله عنہما پر موقوف کیا ہے)

صرف کا بیان

حد یث نمبر - 1243

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ أَقْبَلْتُ أَقُولُ مَنْ يَصْطَرِفُ الدَّرَاهِمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَهُوَ عِنْدَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ:‏‏‏‏ أَرِنَا ذَهَبَكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ ائْتِنَا إِذَا جَاءَ خَادِمُنَا نُعْطِكَ وَرِقَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ كَلَّا وَاللَّهِ لَتُعْطِيَنَّهُ وَرِقَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ لَتَرُدَّنَّ إِلَيْهِ ذَهَبَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " الْوَرِقُ بِالذَّهَبِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ يَقُولُ يَدًا بِيَدٍ.

مالک بن اوس بن حدثان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں (بازار میں) یہ کہتے ہوئے آیا: درہموں کو (دینار وغیرہ سے) کون بدلے گا؟ تو طلحہ بن عبیداللہ رضی الله عنہ نے کہا اور وہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ کے پاس تھے: ہمیں اپنا سونا دکھاؤ، اور جب ہمارا خادم آ جائے تو ہمارے پاس آ جاؤ ہم (اس کے بدلے) تمہیں چاندی دے دیں گے۔ (یہ سن کر) عمر رضی الله عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا تم اسے چاندی ہی دو ورنہ اس کا سونا ہی لوٹا دو، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "سونے کے بدلے چاندی لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو ۱؎، گیہوں کے بدلے گیہوں لینا سود ہے، الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو، جو کے بدلے جو لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو، اور کھجور کے بدلے کھجور لینا سود ہے الا یہ کہ ایک ہاتھ سے دو، دوسرے ہاتھ سے لو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ «إلاھاء وھاء» کا مفہوم ہے نقدا نقد۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۴ (۲۱۳۴) ، و۷۴ (۲۱۷۰) ، و۷۶ (۲۱۷۴) ، صحیح مسلم/المساقاة (البیوع ۳۷) ، (۱۵۸۶) ، سنن ابی داود/ البیوع ۳۳۴۸) ، سنن النسائی/البیوع ۱۷ (۳۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۶۳۰) ، مسند احمد (۱/۲۴، ۲۵، ۴۵) ، سنن الدارمی/البیوع ۴۱ (۲۶۲۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : چاندی کے بدلے سونا ، اور سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے بیچنا جائز تو ہے ، مگر نقدا نقد اس حدیث کا یہی مطلب ہے ، نہ یہ کہ سونا کے بدلے چاندی کم و بیش کر کے نہیں بیچ سکتے ، دیکھئیے حدیث (رقم ۱۲۴۰)۔

پیوند کاری کے بعد کھجور کے درخت کو بیچنے کا اور ایسے غلام کو بیچنے کا بیان جس کے پاس مال ہو

حد یث نمبر - 1244

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلَّذِي بَاعَهَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنِ ابْتَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏هَكَذَا رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا بَعْدَ أَنْ تُؤَبَّرَ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَاعَهُ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ "، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنِ ابْتَاعَ نَخْلًا قَدْ أُبِّرَتْ فَثَمَرَتُهَا لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ "، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ بَاعَ عَبْدًا وَلَهُ مَالٌ فَمَالُهُ لِلْبَائِعِ إِلَّا أَنْ يَشْتَرِطَ الْمُبْتَاعُ ". هَكَذَا رَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نافع، الحديثين. وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ نَافِعٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا. وَرَوَى عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوَ حَدِيثِ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل:‏‏‏‏ حَدِيثُ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَالِمٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَحُّ مَا جَاءَ فِي هَذَا الْبَابِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جس نے «تأبیر» ۱؎ (پیوند کاری) کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا ۲؎ الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت پھل کی) شرط لگا لے۔ اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (خریدتے وقت مال کی) شرط لگا لے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسی طرح اور بھی طرق سے بسند «عن الزهري عن سالم عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» سے روایت ہے آپ نے فرمایا: "جس نے پیوند کاری کے بعد کھجور کا درخت خریدا تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے اور جس نے کوئی ایسا غلام خریدا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا(غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے"، ۳- یہ نافع سے بھی مروی ہے انہوں نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: "جس نے کھجور کا کوئی درخت خریدا جس کی پیوند کاری کی جا چکی ہو تو اس کا پھل بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (درخت کے ساتھ پھل کی بھی) شرط لگا لے"، ۴- نافع سے مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جس نے کوئی غلام بیچا جس کے پاس مال ہو تو اس کا مال بیچنے والے ہی کا ہو گا الا یہ کہ خریدنے والا (غلام کے ساتھ مال کی بھی) شرط لگا لے، ۵- اسی طرح عبیداللہ بن عمر وغیرہ نے نافع سے دونوں حدیثیں روایت کی ہیں، ۶- نیز بعض لوگوں نے یہ حدیث نافع سے، نافع نے ابن عمر سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۷- عکرمہ بن خالد نے ابن عمر سے ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سالم کی حدیث کی طرح روایت کی ہے۔ ۸- محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں کہ زہری کی حدیث جسے انہوں نے بطریق: «عن سالم عن أبيه عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے اس باب میں سب سے زیادہ صحیح ہے، ۹- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۱۰- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ۱۷ (۲۳۷۹) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۵ (۱۵۴۳) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۱ (۲۲۱۱) ، (تحفة الأشراف : ۶۹۰۷) (صحیح) و أخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع ۹۰ (۲۲۰۳) ، و ۹۲ (۲۲۰۶) ، والشروط ۲ (۲۷۱۶) ، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکو ر) ، سنن ابی داود/ البیوع ۴۴ (۳۴۳۳) ، سنن النسائی/البیوع ۷۵ (۴۶۳۹) ، و۷۶ (۴۶۴۰) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۱ (۲۲۱۰) ، موطا امام مالک/البیوع ۷ (۹) ، مسند احمد (۲/۶، ۹، ۵۴، ۶۳، ۷۸) ، من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ : «تأبیر» : پیوند کاری کرنے کو کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ نر کھجور کا گابھا لے کر مادہ کھجور کے خوشے میں رکھ دیتے ہیں ، جب وہ گابھا کھلتا اور پھٹتا ہے تو باذن الٰہی وہ پھل زیادہ دیتا ہے۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ اگر پیوند کاری نہ کی گئی ہو تو پھل کھجور کے درخت کی بیع میں شامل ہو گا اور وہ خریدار کا ہو گا ، جمہور کی یہی رائے ہے ، جب کہ امام ابوحنیفہ کا یہ قول ہے کہ دونوں صورتوں میں بائع کا حق ہے ، اور ابن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں خریدار کا حق ہے ، مگر یہ دونوں اقوال احادیث کے خلاف ہیں۔

بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے

حد یث نمبر - 1245

حَدَّثَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا الْكوِفِيُّ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:‏‏‏‏ " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا " أَوْ " يَخْتَارَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ فَكَانَ ابْنُ عُمَرَ إِذَا ابْتَاعَ بَيْعًا وَهُوَ قَاعِدٌ، ‏‏‏‏‏‏قَامَ لِيَجِبَ لَهُ الْبَيْعُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَرْزَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَسَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ لَا بِالْكَلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ مَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا يَعْنِي الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ "، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ لِأَنَّ ابْنَ عُمَرَ هُوَ رَوَى عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ أَعْلَمُ بِمَعْنَى مَا رَوَى. وَرُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوجِبَ الْبَيْعَ مَشَى لِيَجِبَ لَهُ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے اور فسخ کرنے کا اختیار ہے ۱؎ یا وہ دونوں اختیار کی شرط کر لیں" ۲؎۔ نافع کہتے ہیں: جب ابن عمر رضی الله عنہما کوئی چیز خریدتے اور بیٹھے ہوتے تو کھڑے ہو جاتے تاکہ بیع واجب (پکی) ہو جائے (اور اختیار باقی نہ رہے)۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوبرزہ، حکیم بن حزام، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن عمرو، سمرہ اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ تفرق سے مراد جسمانی جدائی ہے نہ کہ قولی جدائی، یعنی مجلس سے جدائی مراد ہے گفتگو کا موضوع بدلنا مراد نہیں، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «مالم يتفرقا» سے مراد قولی جدائی ہے، پہلا قول زیادہ صحیح ہے، اس لیے کہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ہی اس کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ اور وہ اپنی روایت کردہ حدیث کا معنی زیادہ جانتے ہیں اور ان سے مروی ہے کہ جب وہ بیع واجب (پکی) کرنے کا ارادہ کرتے تو(مجلس سے اٹھ کر) چل دیتے تاکہ بیع واجب ہو جائے، ۵- ابوبرزہ رضی الله عنہ سے بھی اسی طرح مروی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۴۲ (۲۱۰۷) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۰ (۱۵۳۱) ، سنن النسائی/البیوع ۹ (۴۴۷۸) ، (تحفة الأشراف : ۸۵۲۲) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/البیوع ۴۳ (۲۱۰۹) ، و ۴۴ (۲۱۱۱) ، و۴۵ (۲۱۱۲) ، و۴۶ (۲۱۱۳) ، صحیح مسلم/البیوع (المصدر المذکور) ، سنن ابی داود/ البیوع ۵۳ (۳۴۵۴) ، سنن النسائی/البیوع ۹ (۴۴۷۰-۴۴۷۷) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۷ (۲۱۸۱) ، موطا امام مالک/البیوع ۳۸ (۷۹) ، مسند احمد (۲/۴، ۹، ۵۲، ۵۴، ۷۳، ۱۱۹، ۱۳۵) من غیر ہذا الوجہ۔

وضاحت: ۱؎ : یعنی عقد کو فسخ کرنے سے پہلے مجلس عقد سے اگر بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدنے والا) دونوں جسمانی طور پر جدا ہو گئے تو بیع پکی ہو جائے گی اس کے بعد ان دونوں میں سے کسی کو فسخ کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔ ۲؎ : اس صورت میں جدا ہونے کے بعد بھی شرط کے مطابق اختیار کا حق رہے گا ، یعنی خیار کی شرط کر لی ہو تو مجلس سے علاحدگی کے بعد بھی شروط کے مطابق خیار باقی رہے گا۔

بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے

حد یث نمبر - 1246

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ صَالِحٍ أَبِي الْخَلِيلِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا "، ‏‏‏‏‏‏هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ وَهَكَذَا رُوِيَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَجُلَيْنِ اخْتَصَمَا إِلَيْهِ فِي فَرَسٍ بَعْدَ مَا تَبَايَعَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانُوا فِي سَفِينَةٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ لَا أَرَاكُمَا افْتَرَقْتُمَا، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا ". وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَهْلِ الْكُوفَةِ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏إِلَى أَنَّ الْفُرْقَةَ بِالْكَلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ. وَهَكَذَا رُوِيَ عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِي عَنْ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ كَيْفَ أَرُدُّ هَذَا ؟ وَالْحَدِيثُ فِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَحِيحٌ وَقَوَّى هَذَا الْمَذْهَبَ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِلَّا بَيْعَ الْخِيَارِ " مَعْنَاهُ:‏‏‏‏ أَنْ يُخَيِّرَ الْبَائِعُ الْمُشْتَرِيَ بَعْدَ إِيجَابِ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَإِذَا خَيَّرَهُ فَاخْتَارَ الْبَيْعَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ ذَلِكَ فِي فَسْخِ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَتَفَرَّقَا هَكَذَا فَسَّرَهُ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَغَيْرُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَمِمَّا يُقَوِّي قَوْلَ:‏‏‏‏ مَنْ يَقُولُ الْفُرْقَةُ بِالْأَبْدَانِ، ‏‏‏‏‏‏لَا بِالْكَلَامِ حَدِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بائع (بیچنے والا) اور مشتری (خریدار) جب تک جدا نہ ہوں ۱؎ دونوں کو بیع کے باقی رکھنے اور فسخ کر دینے کا اختیار ہے، اگر وہ دونوں سچ کہیں اور سامان خوبی اور خرابی واضح کر دیں تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر ان دونوں نے عیب کو چھپایا اور جھوٹی باتیں کہیں تو ان کی بیع کی برکت ختم کر دی جائے گی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث صحیح ہے، ۲- اسی طرح ابوبرزہ اسلمی سے بھی مروی ہے کہ دو آدمی ایک گھوڑے کی بیع کرنے کے بعد اس کا مقدمہ لے کر ان کے پاس آئے، وہ لوگ ایک کشتی میں تھے۔ ابوبرزہ نے کہا: میں نہیں سمجھتا کہ تم دونوں جدا ہوئے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "بائع اور مشتری کو جب تک (مجلس سے) جدا نہ ہوں اختیار ہے"، ۳- اہل کوفہ وغیرہم میں سے بعض اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ جدائی قول سے ہو گی، یہی سفیان ثوری کا قول ہے، اور اسی طرح مالک بن انس سے بھی مروی ہے، ۴- اور ابن مبارک کا کہنا ہے کہ میں اس مسلک کو کیسے رد کر دوں؟ جب کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وارد حدیث صحیح ہے، ۵- اور انہوں نے اس کو قوی کہا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول «إلا بيع الخيار» کا مطلب یہ ہے کہ بائع مشتری کو بیع کے واجب کرنے کے بعد اختیار دیدے، پھر جب مشتری بیع کو اختیار کر لے تو اس کے بعد اس کو بیع فسخ کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، اگرچہ وہ دونوں جدا نہ ہوئے ہوں۔ اسی طرح شافعی وغیرہ نے اس کی تفسیر کی ہے، ۶- اور جو لوگ جسمانی جدائی (تفرق بالابدان) کے قائل ہیں ان کے قول کو عبداللہ بن عمرو کی حدیث تقویت دے رہی ہے جسے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں (آگے ہی آ رہی ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۹ (۲۰۷۹) ، و۲۲ (۲۰۸۲) ، و۴۲ (۲۱۰۸) ، و ۴۴ (۲۱۱۰) ، و ۴۶ (۲۱۱۴) ، صحیح مسلم/البیوع ۱ (۱۵۳۲) ، سنن ابی داود/ البیوع ۵۳ (۳۴۵۹) ، سنن النسائی/البیوع ۵ (۴۴۶۲) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۲۷) و مسند احمد (۳/۴۰۲، ۴۰۳، ۴۳۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : جدا نہ ہوں سے مراد مجلس سے ادھر ادھر چلے جانا ہے ، خود راوی حدیث ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی یہی تفسیر مروی ہے ، بعض نے بات چیت ختم کر دینا مراد لیا ہے جو ظاہر کے خلاف ہے۔

بیچنے والا اور خریدار دونوں کو جب تک وہ جدا نہ ہوں بیع کو باقی رکھنے یا فسخ کرنے کا اختیار ہے

حد یث نمبر - 1247

أَخْبَرَنَا بِذَلِكَ قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا إِلَّا أَنْ تَكُونَ صَفْقَةَ خِيَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَ صَاحِبَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى هَذَا أَنْ يُفَارِقَهُ بَعْدَ الْبَيْعِ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَوْ كَانَتِ الْفُرْقَةُ بِالْكَلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ لَهُ خِيَارٌ بَعْدَ الْبَيْعِ لَمْ يَكُنْ لِهَذَا الْحَدِيثِ مَعْنًى حَيْثُ قَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " وَلَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفَارِقَهُ خَشْيَةَ أَنْ يَسْتَقِيلَهُ ".

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بائع اور مشتری جب تک جدا نہ ہوں ان کو اختیار ہے الا یہ کہ بیع خیار ہو (تب جدا ہونے کے بعد بھی واپسی کا اختیار باقی رہتا ہے)، اور بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ اپنے ساتھی (مشتری) سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ بیع کو فسخ کر دے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن ہے، ۲- اور اس کا معنی یہی ہے کہ بیع کے بعد وہ مشتری سے جدا ہو جائے اس ڈر سے کہ وہ اسے فسخ کر دے گا اور اگر جدائی صرف کلام سے ہو جاتی، اور بیع کے بعد مشتری کو اختیار نہ ہوتا تو اس حدیث کا کوئی معنی نہ ہو گا جو کہ آپ نے فرمایا ہے: "بائع کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مشتری سے اس ڈر سے جدا ہو جائے کہ وہ اس کی بیع کو فسخ کر دے گا"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۵۳ (۳۴۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۸۷۹۷) ، و مسند احمد (۲/۱۸۳) (حسن صحیح)

بائع اور مشتری کی رضا مندی اور اختیار سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1248

حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ وَهُوَ الْبَجَلِيُّ الكوفي، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا زُرْعَةَ بْنَ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَتَفَرَّقَنَّ عَنْ بَيْعٍ إِلَّا عَنْ تَرَاضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بائع اور مشتری بیع (کی مجلس) سے رضا مندی کے ساتھ ہی جدا ہوں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۵۳ (۳۴۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۹۲۴) ، و مسند احمد (۲/۵۳۶) (حسن صحیح)

بائع اور مشتری کی رضا مندی اور اختیار سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1249

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " خَيَّرَ أَعْرَابِيَّا بَعْدَ الْبَيْعِ ". وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع کے بعد ایک اعرابی کو اختیار دیا۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۸ (۲۱۸۴) ، (تحفة الأشراف : ۲۸۳۴) (حسن)

جسے بیع میں دھوکہ دے دیا جاتا ہو وہ کیا کرے

حد یث نمبر - 1250

حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ حَمَّادٍ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ رَجُلًا كَانَ فِي عُقْدَتِهِ ضَعْفٌ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُبَايِعُ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَّ أَهْلَهُ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏احْجُرْ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏فَدَعَاهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَهَاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي لَا أَصْبِرُ عَنِ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا بَايَعْتَ فَقُلْ:‏‏‏‏ هَاءَ وَهَاءَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خِلَابَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ. وَحَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ الْحَجْرُ عَلَى الرَّجُلِ الْحُرِّ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ إِذَا كَانَ ضَعِيفَ الْعَقْلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَرَ بَعْضُهُمْ أَنْ يُحْجَرَ عَلَى الْحُرِّ الْبَالِغِ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی خرید و فروخت کرنے میں بودا ۱؎ تھا اور وہ (اکثر) خرید و فروخت کرتا تھا، اس کے گھر والے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ان لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ اس کو (خرید و فروخت سے) روک دیجئیے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اسے اس سے منع فرما دیا۔ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں بیع سے باز رہنے پر صبر نہیں کر سکوں گا، آپ نے فرمایا: "(اچھا) جب تم بیع کرو تو یہ کہہ لیا کرو کہ ایک ہاتھ سے دو اور دوسرے ہاتھ سے لو اور کوئی دھوکہ دھڑی نہیں ۲؎"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس کی حدیث حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے، وہ کہتے ہیں کہ آزاد شخص کو خرید و فروخت سے اس وقت روکا جا سکتا ہے جب وہ ضعیف العقل ہو، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض لوگ آزاد بالغ کو بیع سے روکنے کو درست نہیں سمجھتے ہیں ۳؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۶۸ (۳۵۰۱) ، سنن النسائی/البیوع ۱۲ (۴۴۹۰) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۴ (۲۳۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۷۵) ، و مسند احمد ۳/۲۱۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حبان بن منقذ بن عمرو انصاری تھے اور ایک قول کے مطابق اس سے مراد ان کے والد تھے ان کے سر میں ایک غزوے کے دوران جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لڑا تھا پتھر سے شدید زخم آ گیا تھا جس کی وجہ سے ان کے حافظے اور عقل میں کمزوری آ گئی تھی اور زبان میں بھی تغیر آ گیا تھا لیکن ابھی تمیز کے دائرہ سے خارج نہیں ہوئے تھے۔ ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ دین میں دھوکہ و فریب نہیں کیونکہ دین تو نصیحت وخیر خواہی کا نام ہے۔ ۳؎ : ان کا کہنا ہے کہ یہ حبان بن منقذ کے ساتھ خاص تھا۔

جس جانور کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو اس کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 1251

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنِ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ إِذَا حَلَبَهَا إِنْ شَاءَ رَدَّهَا وَرَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں (کئی دنوں سے) روک دیا گیا ہو، تو جب وہ اس کا دودھ دو ہے تو اسے اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ایک صاع کھجور کے ساتھ اس کو واپس کر دے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں انس اور ایک اور صحابی سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۳۶۵) ، ولہ طریق آخر انظر الحدیث الآتی (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ایک صاع کھجور کی واپسی کا جو حکم دیا گیا ہے اس لیے ہے کہ اس جانور سے حاصل کردہ دودھ کا معاوضہ ہو جائے کیونکہ کچھ دودھ تو خریدار کی ملکیت میں نئی چیز ہے اور کچھ دودھ اس نے خریدا ہے اب چونکہ خریدار کو یہ تمیز کرنا مشکل ہے کہ کتنا دودھ خریدا ہوا ہے اور کتنا نیا داخل ہے چنانچہ عدم تمیز کی بنا پر اسے واپس کرنا یا اس کی قیمت واپس کرنا ممکن نہیں تھا اس لیے شارع نے ایک صاع مقرر فرما دیا کہ فروخت کرنے والے اور خریدار کے مابین تنازع اور جھگڑا پیدا نہ ہو خریدار نے جو دودھ حاصل کیا ہے اس کا معاوضہ ہو جائے قطع نظر اس سے کہ دودھ کی مقدار کم تھی یا زیادہ۔

جس جانور کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو اس کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 1252

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ، حَدَّثَنَا قُرَّةُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنِ اشْتَرَى مُصَرَّاةً فَهُوَ بِالْخِيَارِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ رَدَّهَا رَدَّ مَعَهَا صَاعًا مِنْ طَعَامٍ لَا سَمْرَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَصْحَابِنَا مِنْهُمْ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى قَوْلِهِ:‏‏‏‏ " لَا سَمْرَاءَ " يَعْنِي:‏‏‏‏ لَا بُرَّ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے کوئی ایسا جانور خریدا جس کا دودھ تھن میں روک دیا گیا ہو تو اسے تین دن تک اختیار ہے۔ اگر وہ اسے واپس کرے تو اس کے ساتھ ایک صاع کوئی غلہ بھی واپس کرے جو گیہوں نہ ہو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہمارے اصحاب کا اسی پر عمل ہے۔ ان ہی میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ ہیں۔ آپ کے قول «لا سمراء» کا مطلب «لابُرّ» ہے یعنی گیہوں نہ ہو (کھانے کی کوئی اور چیز ہو، پچھلی حدیث میں کھجور کا تذکرہ ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۶۴ (۲۱۴۸) ، صحیح مسلم/البیوع ۴ (۱۵۱۵) ، سنن النسائی/البیوع ۱۴ (۴۴۹۳، ۴۴۹۴) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۲ (۲۲۳۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۵۰۰) (صحیح)

جانور بیچتے وقت اس پر سواری کی شرط لگا کر لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1253

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، " أَنَّهُ بَاعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعِيرًا، ‏‏‏‏‏‏وَاشْتَرَطَ ظَهْرَهُ إِلَى أَهْلِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏يَرَوْنَ الشَّرْطَ فِي الْبَيْعِ جَائِزًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا كَانَ شَرْطًا وَاحِدًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ، ‏‏‏‏‏‏أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَا يَجُوزُ الشَّرْطُ فِي الْبَيْعِ وَلَا يَتِمُّ الْبَيْعُ إِذَا كَانَ فِيهِ شَرْطٌ.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے (راستے میں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک اونٹ بیچا اور اپنے گھر والوں تک سوار ہو کر جانے کی شرط رکھی لگائی ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ اور بھی سندوں سے جابر سے مروی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ بیع میں شرط کو جائز سمجھتے ہیں جب شرط ایک ہو۔ یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا ہے، ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ بیع میں شرط جائز نہیں ہے اور جب اس میں شرط ہو تو بیع تام نہیں ہو گی۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۴۳ (۲۰۹۷) ، والاستقراض ۱ (۲۳۸۵) ، و ۱۸ (۲۴۰۶) ، والمظالم ۲۶ (۲۴۷۰) ، والشروط۴ (۲۷۱۸) ، والجہاد ۴۹ (۲۸۶۱) ، و ۱۱۳ (۲۹۶۷) ، صحیح مسلم/البیوع ۴۲ (المساقاة ۲۱) ، (۲۱۵) ، والرضاع ۱۶ ۵۷ و ۵۸) ، سنن ابی داود/ البیوع ۷۷ (۴۶۴۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۹ (۲۲۰۵) ، (تحفہ الأشراف: ۲۳۴۱) ، و مسند احمد (۳/۲۹۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے معلوم ہوا کہ بیع میں اگر جائز شرط ہو تو بیع اور شرط دونوں درست ہیں۔

رہن سے فائدہ اٹھانے کا بیان

حد یث نمبر - 1254

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَيُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " الظَّهْرُ يُرْكَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَبَنُ الدَّرِّ يُشْرَبُ إِذَا كَانَ مَرْهُونًا، ‏‏‏‏‏‏وَعَلَى الَّذِي يَرْكَبُ وَيَشْرَبُ نَفَقَتُهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ مَوْقُوفًا، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ لَيْسَ لَهُ أَنْ يَنْتَفِعَ مِنَ الرَّهْنِ بِشَيْءٍ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سواری کا جانور جب رہن رکھا ہو تو اس پر سواری کی جائے اور دودھ والا جانور جب گروی رکھا ہو تو اس کا دودھ پیا جائے، اور جو سواری کرے اور دودھ پیے جانور کا خرچ اسی کے ذمہ ہے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- ہم اسے بروایت عامر شعبی ہی مرفوع جانتے ہیں، انہوں نے ابوہریرہ سے روایت کی ہے اور کئی لوگوں نے اس حدیث کو اعمش سے روایت کیا ہے اور اعمش نے ابوصالح سے اور ابوصالح نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے موقوفا روایت کی ہے، ۳- بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور یہی قول احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے، ۴- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اٹھانا درست نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الرہن ۴ (۲۵۱۱) ، سنن ابی داود/ البیوع ۷۸ (۳۵۲۶) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ۲ (۲۴۴۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۵۴۰) ، و مسند احمد ۲/۲۲۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : «مرہون» " گروی رکھی ہوئی چیز " سے فائدہ اٹھانا «مرتہن» " رہن رکھنے والے " کے لیے درست نہیں البتہ اگر «مرہون» جانور ہو تو اس حدیث کی رو سے اس پر اس کے چارے کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور اس کا دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔

سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار خریدنے کا بیان

حد یث نمبر - 1255

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ، عَنْ حَنَشٍ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ اشْتَرَيْتُ يَوْمَ خَيْبَرَ قِلَادَةً بِاثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا فِيهَا ذَهَبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَخَرَزٌ فَفَصَلْتُهَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدْتُ فِيهَا أَكْثَرَ مِنَ اثْنَيْ عَشَرَ دِينَارًا. فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " لَا تُبَاعُ حَتَّى تُفْصَلَ ". حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي شُجَاعٍ سَعِيدِ بْنِ يَزِيدَ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى 12:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَرَوْا أَنْ يُبَاعَ السَّيْفُ مُحَلًّى، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِنْطَقَةٌ مُفَضَّضَةٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِثْلُ هَذَا بِدَرَاهِمَ حَتَّى يُمَيَّزَ وَيُفْصَلَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ذَلِكَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ.

فضالہ بن عبید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، جس میں سونے اور جواہرات جڑے ہوئے تھے، میں نے انہیں (توڑ کر)جدا جدا کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ ملے۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا: "(سونے اور جواہرات جڑے ہوئے ہار) نہ بیچے جائیں جب تک انہیں جدا جدا نہ کر لیا جائے"۔ اسی طرح مؤلف نے قتیبہ سے اسی سند سے حدیث روایت کی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ چاندی جڑی ہوئی تلوار یا کمر بند یا اسی جیسی دوسرے چیزوں کو درہم سے فروخت کرنا درست نہیں سمجھتے ہیں، جب تک کہ ان سے چاندی الگ نہ کر لی جائے۔ ابن مبارک، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ ۳- اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۷ (البیوع ۳۸) ، سنن ابی داود/ البیوع ۱۳ (۳۳۵۱) ، سنن النسائی/البیوع (۴۵۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۰۲۷) ، و مسند احمد (۶/۱۹، ۲۱) (صحیح)

ولاء کی شرط لگانے اور اس پر سرزنش کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1256

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْعَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَطُوا الْوَلَاءَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " اشْتَرِيهَا فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ لِمَنْ وَلِيَ النِّعْمَةَ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ عَائِشَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَنْصُورُ بْنُ الْمُعْتَمِرِ يُكْنَى:‏‏‏‏ أَبَا عَتَّابٍ. حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ الْبَصْرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ إِذَا حُدِّثْتَ عَنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ مَلَأْتَ يَدَكَ مِنَ الْخَيْرِ لَا تُرِدْ غَيْرَهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمّ قَالَ يَحْيَى:‏‏‏‏ مَا أَجِدُ فِي إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَمُجَاهِدٍ، ‏‏‏‏‏‏أَثْبَتَ مِنْ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ مَنْصُورٌ، ‏‏‏‏‏‏أَثْبَتُ أَهْلِ الْكُوفَةِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ (لونڈی) کو خریدنا چاہا، تو بریرہ کے مالکوں نے ولاء ۱؎ کی شرط لگائی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ سے فرمایا: "تم اسے خرید لو، (اور آزاد کر دو) اس لیے کہ ولاء تو اسی کا ہو گا جو قیمت ادا کرے، یا جو نعمت (آزاد کرنے) کا مالک ہو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر رضی الله عنہما سے بھی حدیث مروی ہے، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/کفارات الأیمان ۸ (۶۷۱۷) ، سنن النسائی/الطلاق ۳۰ (۳۴۷۹) ، (وانظر أیضا ما یقدم برقم: ۱۱۵۴، وما یأتي برقم: ۲۱۲۴ و۲۱۲۵) (تحفة الأشراف : ۱۵۹۹۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ولاء وہ ترکہ ہے جسے آزاد کیا ہوا غلام چھوڑ کر مرے ، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بائع کے لیے ولاء کی شرط لگانا صحیح نہیں ، ولاء اسی کا ہو گا جو خرید کر آزاد کرے۔

سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1257

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حُصَيْنٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ بَعَثَ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ يَشْتَرِي لَهُ أُضْحِيَّةً بِدِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَى أُضْحِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَأُرْبِحَ فِيهَا دِينَارًا، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَى أُخْرَى مَكَانَهَا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَ بِالْأُضْحِيَّةِ وَالدِّينَارِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " ضَحِّ بِالشَّاةِ، ‏‏‏‏‏‏وَتَصَدَّقْ بِالدِّينَار ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ لَمْ يَسْمَعْ عِنْدِي مِنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ.

حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک دینار میں قربانی کا جانور خریدنے کے لیے بھیجا، تو انہوں نے قربانی کا ایک جانور خریدا (پھر اسے دو دینار میں بیچ دیا)، اس میں انہیں ایک دینار کا فائدہ ہوا، پھر انہوں نے اس کی جگہ ایک دینار میں دوسرا جانور خریدا، قربانی کا جانور اور ایک دینار لے کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، تو آپ نے فرمایا: "بکری کی قربانی کر دو اور دینار کو صدقہ کر دو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: حکیم بن حزام کی حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں، اور میرے نزدیک جبیب بن ابی ثابت کا سماع حکیم بن حزام سے ثابت نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۴۲۳) (ضعیف) (مولف نے ضعف کی وجہ بیان کر سنن الدارمی/ ہے، یعنی حبیب کا سماع حکیم بن حزام سے آپ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اس لیے سند میں انقطاع کی وجہ سے یہ ضعیف ہے)

سابقہ باب سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1258

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْأَعْوَرُ الْمُقْرِئُ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ، عَنْ أَبِي لَبِيدٍ، عَنْ عُرْوَةَ الْبَارِقِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ دَفَعَ إِلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِينَارًا لِأَشْتَرِيَ لَهُ شَاةً، ‏‏‏‏‏‏فَاشْتَرَيْتُ لَهُ شَاتَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَبِعْتُ إِحْدَاهُمَا بِدِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُ بِالشَّاةِ وَالدِّينَارِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَذَكَرَ لَهُ مَا كَانَ مِنْ أَمْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لَهُ:‏‏‏‏ " بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي صَفْقَةِ يَمِينِكَ "، ‏‏‏‏‏‏فَكَانَ يَخْرُجُ بَعْدَ ذَلِكَ إِلَى كُنَاسَةِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَرْبَحُ الرِّبْحَ الْعَظِيمَ فَكَانَ مِنْ أَكْثَرِ أَهْلِ الْكُوفَةِ مَالًا. حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ خِرِّيتٍ فَذَكَرَ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي لَبِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا بِهِ:‏‏‏‏ وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَأْخُذْ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ بِهَذَا الْحَدِيثِ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَسَعِيدُ بْنُ زَيْدٍ أَخُو حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو لَبِيدٍ اسْمُهُ لِمَازَةُ بْنُ زَبَّارٍ.

عروہ بارقی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری خریدنے کے لیے مجھے ایک دینار دیا، تو میں نے اس سے دو بکریاں خریدیں، پھر ان میں سے ایک کو ایک دینار میں بیچ دیا اور ایک بکری اور ایک دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے تمام معاملہ بیان کیا اور آپ نے فرمایا: "اللہ تمہیں تمہارے ہاتھ کے سودے میں برکت دے"، پھر اس کے بعد وہ کوفہ کے کناسہ کی طرف جاتے اور بہت زیادہ منافع کماتے تھے۔ چنانچہ وہ کوفہ کے سب سے زیادہ مالدار آدمی بن گئے۔ مؤلف نے احمد بن سعید دارمی کے طرق سے زبیر بن خریت سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں اور وہ اسی کے قائل ہیں اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ بعض اہل علم نے اس حدیث کو نہیں لیا ہے، انہیں لوگوں میں شافعی اور حماد بن زید سعید بن زید کے بھائی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب ۲۸ (۳۶۴۲) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۸ (۳۳۸۴) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۷ (۲۴۰۲) ، (تحفہ الأشراف: ۹۸۹۸) (صحیح)

مکاتب غلام کا بیان جس کے پاس اتنا ہو کہ کتابت کی قیمت ادا کر سکے

حد یث نمبر - 1259

حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ مِيرَاثًا وَرِثَ بِحِسَابِ مَا عَتَقَ مِنْهُ "، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يُؤَدِّي الْمُكَاتَبُ بِحِصَّةِ مَا أَدَّى دِيَةَ حُرٍّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ عَبْدٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ. وَهَكَذَا رَوَى يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. وَرَوَى خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عِكْرِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ قَوْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏الْمُكَاتَبُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ دِرْهَمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مکاتب غلام کسی دیت یا میراث کا مستحق ہو تو اسی کے مطابق وہ حصہ پائے گا جتنا وہ آزاد کیا جا چکا ہے"، نیز آپ نے فرمایا: "مکاتب جتنا زر کتابت ادا کر چکا ہے اتنی آزادی کے مطابق دیت دیا جائے گا اور جو باقی ہے اس کے مطابق غلام کی دیت دیا جائے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن ہے، ۲- اسی طرح یحییٰ بن ابی کثیر نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے ابن عباس سے اور ابن عباس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، ۳- اس باب میں ام سلمہ رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے، ۴- لیکن خالد الحذاء نے بھی عکرمہ سے (روایت کی ہے مگر ان کے مطابق) عکرمہ نے علی رضی الله عنہ کے قول سے روایت کی ہے، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا کہنا ہے کہ جب تک مکاتب پر ایک درہم بھی باقی ہے وہ غلام ہے، سفیان ثوری، شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الدیات ۲۲ (۴۵۸۱) ، سنن النسائی/القسامة ۳۸، ۳۹ (۴۸۱۲-۴۸۱۶) ، (تحفة الأشراف : ۵۹۹۳) ، و مسند احمد (۱/۲۲۲، ۲۲۶، ۲۶۳) (صحیح)

مکاتب غلام کا بیان جس کے پاس اتنا ہو کہ کتابت کی قیمت ادا کر سکے

حد یث نمبر - 1260

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَخْطُبُ يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَنْ كَاتَبَ عَبْدَهُ عَلَى مِائَةِ، ‏‏‏‏‏‏أُوقِيَّةٍ فَأَدَّاهَا إِلَّا عَشْرَ أَوَاقٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ عَشَرَةَ دَرَاهِمَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ عَجَزَ فَهُوَ رَقِيقٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ الْمُكَاتَبَ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنْ كِتَابَتِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى الْحَجَّاجُ بْنُ أَرْطَاةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ نَحْوَهُ.

عبداللہ بن عمر و رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ کے دوران کہتے سنا: "جو اپنے غلام سے سو اوقیہ (بارہ سو درہم) پر مکاتبت کرے اور وہ دس اوقیہ کے علاوہ تمام ادا کر دے پھر باقی کی ادائیگی سے وہ عاجز رہے تو وہ غلام ہی رہے گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- حجاج بن ارطاۃ نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے کہ جب تک مکاتب پر کچھ بھی زر کتابت باقی ہے وہ غلام ہی رہے گا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العتق ۱ (۳۹۲۶) ، ۳۹۲۷ سنن ابن ماجہ/العتق ۳ (۲۵۱۹) (تحفة الأشراف : ۸۸۱۴) (حسن)

مکاتب غلام کا بیان جس کے پاس اتنا ہو کہ کتابت کی قیمت ادا کر سکے

حد یث نمبر - 1261

حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ نَبْهَانَ مَوْلَى أُمِّ سَلَمَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا كَانَ عِنْدَ مُكَاتَبِ إِحْدَاكُنَّ مَا يُؤَدِّي، ‏‏‏‏‏‏فَلْتَحْتَجِبْ مِنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى التَّوَرُّعِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا يُعْتَقُ الْمُكَاتَبُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ عِنْدَهُ مَا يُؤَدِّي حَتَّى يُؤَدِّيَ.

ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کسی کے مکاتب غلام کے پاس اتنی رقم ہو کہ وہ زر کتابت ادا کر سکے تو اسے اس سے پردہ کرنا چاہیئے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم کا اس حدیث پر عمل ازراہ ورع و تقویٰ اور احتیاط ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ مکاتب غلام جب تک زر کتابت نہ ادا کر دے آزاد نہیں ہو گا اگرچہ اس کے پاس زر کتابت ادا کرنے کے لیے رقم موجود ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ العتق ۱ (۳۹۲۸) ، سنن ابن ماجہ/العتق ۳ (۲۵۲۰) ، (تحفة الأشراف : ۱۸۲۲۱) (ضعیف) (سند میں ’’ نبہان ‘‘ لین الحدیث ہیں نیز ام المومنین عائشہ رضی الله عنہا کی روایت کے مطابق امہات المومنین کا عمل اس کے برعکس تھا، ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۱۷۶۹)

قرض دار مفلس ہو جائے اور آدمی اس کے پاس اپنا سامان پائے تو اس کے حکم کا بیان

حد یث نمبر - 1262

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " أَيُّمَا امْرِئٍ أَفْلَسَ، ‏‏‏‏‏‏وَوَجَدَ رَجُلٌ سِلْعَتَهُ عِنْدَهُ بِعَيْنِهَا فَهُوَ أَوْلَى بِهَا مِنْ غَيْرِهِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ هُوَ أُسْوَةُ الْغُرَمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَهْلِ الْكُوفَةِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو (قرض دار) آدمی مفلس ہو جائے اور (قرض دینے والا) آدمی اپنا سامان اس کے پاس بعینہ پائے تو وہ اس سامان کا دوسرے سے زیادہ مستحق ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں سمرہ اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے اور یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، اور بعض اہل علم کہتے ہیں: وہ بھی دوسرے قرض خواہوں کی طرح ہو گا، یہی اہل کوفہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الاستقراض ۱۴ (۲۴۰۲) ، صحیح مسلم/المساقاة ۵ (البیوع ۲۶) ، (۱۵۵۹) ، سنن ابی داود/ البیوع ۷۶ (۳۵۱۹) ، سنن النسائی/البیوع ۹۵ (۴۶۸۰) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۲۶ (۴۳۵۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۸۶۱) ، وط/البیوع ۴۲ (۸۸) ، و مسند احمد (۲/۲۲۸) ، ۲۵۸، ۴۱۰، ۴۶۸، ۴۸۴، ۵۰۸) (صحیح)

مسلمان ذمی کو شراب بیچنے کے لیے دے یہ منع ہے

حد یث نمبر - 1263

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ أَبِي الْوَدَّاكِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ كَانَ عِنْدَنَا خَمْرٌ لِيَتِيمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا نَزَلَتْ الْمَائِدَةُ، ‏‏‏‏‏‏سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقُلْتُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ لِيَتِيمٍ. فَقَالَ:‏‏‏‏ " أَهْرِيقُوهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي سَعِيدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بِهَذَا بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ وَكَرِهُوا أَنْ تُتَّخَذَ الْخَمْرُ خَلَّا، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَكُونَ الْمُسْلِمُ فِي بَيْتِهِ خَمْرٌ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَصِيرَ خَلَّا، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي خَلِّ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏إِذَا وُجِدَ قَدْ صَارَ خَلًّا أَبُو الْوَدَّاكِ اسْمُهُ:‏‏‏‏ جَبْرُ بْنُ نَوْفٍ.

ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک یتیم کی شراب تھی، جب سورۃ المائدہ نازل ہوئی (جس میں شراب کی حرمت مذکور ہے) تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا اور عرض کیا کہ وہ ایک یتیم کی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: "اسے بہا دو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابو سعید خدری رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اور بھی سندوں سے یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح مروی ہے، ۳-اس باب میں انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے، ۴- بعض اہل علم اسی کے قائل ہیں، یہ لوگ شراب کا سرکہ بنانے کو مکروہ سمجھتے ہیں، اس وجہ سے اسے مکروہ قرار دیا گیا ہے کہ مسلمان کے گھر میں شراب رہے یہاں تک کہ وہ سرکہ بن جائے۔ «واللہ اعلم» ، ۵- بعض لوگوں نے شراب کے سرکہ کی اجازت دی ہے جب وہ خود سرکہ بن جائے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۹۹۱) (صحیح)

خرید و فروخت (بیع و شرائط) سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1264

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ، عَنْ شَرِيكٍ، وَقَيْسٌ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَدِّ الْأَمَانَةَ إِلَى مَنِ ائْتَمَنَكَ وَلَا تَخُنْ مَنْ خَانَكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ إِلَى هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ عَلَى آخَرَ شَيْءٌ فَذَهَبَ بِهِ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَحْبِسَ عَنْهُ بِقَدْرِ مَا ذَهَبَ لَهُ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَرَاهِمُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَقَعَ لَهُ عِنْدَهُ دَنَانِيرُ فَلَيْسَ لَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَحْبِسَ بِمَكَانِ دَرَاهِمِهِ إِلَّا أَنْ يَقَعَ عِنْدَهُ لَهُ دَرَاهِمُ فَلَهُ حِينَئِذٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَحْبِسَ مِنْ دَرَاهِمِهِ بِقَدْرِ مَا لَهُ عَلَيْهِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے امانت لوٹاؤ ۱؎ اور جو تمہارے ساتھ خیانت کرے اس کے ساتھ (بھی) خیانت نہ کرو" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم اسی حدیث کی طرف گئے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ جب آدمی کا کسی دوسرے کے ذمہ کوئی چیز ہو اور وہ اسے لے کر چلا جائے پھر اس جانے والے کی کوئی چیز اس کے ہاتھ میں آئے تو اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس میں سے اتنا روک لے جتنا وہ اس کالے کر گیا ہے،۳- تابعین میں سے بعض اہل علم نے اس کی اجازت دی ہے، اور یہی ثوری کا بھی قول ہے، وہ کہتے ہیں: اگر اس کے ذمہ درہم ہو اور (بطور امانت) اس کے پاس اس کے دینار آ گئے تو اس کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے دراہم کے بدلے اسے روک لے، البتہ اس کے پاس اس کے دراہم آ جائیں تو اس وقت اس کے لیے درست ہو گا کہ اس کے دراہم میں سے اتنا روک لے جتنا اس کے ذمہ اس کا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۸۱ (۳۵۳۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۸۳۶) ، وسنن الدارمی/البیوع ۵۷ (۲۶۳۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حکم واجب ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے : «إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها» (النساء : ۵۸)۔ ۲؎ : یہ حکم استحبابی ہے اس لیے کہ ارشاد باری ہے : «وجزاء سيئة سيئة مثلها» (الشورى : ۴۰) " برائی کی جزاء اسی کے مثل برائی ہے " نیز ارشاد ہے : «وإن عاقبتم فعاقبوا بمثل ما عوقبتم به» (النحل : ۱۲۶)یہ دونوں آیتیں اس بات پر دلالت کر رہی ہیں کہ اپنا حق وصول کر لینا چاہیئے ، ابن حزم کا قول ہے کہ جس نے خیانت کی ہے اس کے مال پر قابو پانے کی صورت میں اپنا حق وصول لینا واجب ہے ، اور یہ خیانت میں شمار نہیں ہو گی بلکہ خیانت اس صورت میں ہو گی جب وہ اپنے حق سے زیادہ وصول کرے۔

عاریت لی ہوئی چیز کو واپس کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1265

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي الْخُطْبَةِ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ:‏‏‏‏ " الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالدَّيْنُ مَقْضِيٌّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَصَفْوَانَ بْنِ أُمَيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَحَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْضًا مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.

ابوامامہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے سال خطبہ میں فرماتے سنا: "عاریت لی ہوئی چیز لوٹائی جائے گی، ضامن کو تاوان دینا ہو گا اور قرض واجب الاداء ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوامامہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اور یہ ابوامامہ کے واسطے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور بھی طریق سے مروی ہے، ۳- اس باب میں سمرہ، صفوان بن امیہ اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصدقات ۵ (۲۳۹۸) ، (تحفة الأشراف : ۴۸۸۴) (صحیح)

عاریت لی ہوئی چیز کو واپس کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1266

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " عَلَى الْيَدِ مَا أَخَذَتْ حَتَّى تُؤَدِّيَ ". قَالَ قَتَادَةُ:‏‏‏‏ ثُمَّ نَسِيَ الْحَسَنُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " فَهُوَ أَمِينُكَ لَا ضَمَانَ عَلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏يَعْنِي الْعَارِيَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ ذَهَبَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏إِلَى هَذَا وَقَالُوا:‏‏‏‏ يَضْمَنُ صَاحِبُ الْعَارِيَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ:‏‏‏‏ لَيْسَ عَلَى صَاحِبِ الْعَارِيَةِ ضَمَانٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يُخَالِفَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الْثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ إِسْحَاق.

سمرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کچھ ہاتھ نے لیا ہے جب تک وہ اسے ادا نہ کر دے اس کے ذمہ ہے" ۱؎، قتادہ کہتے ہیں: پھر حسن بصری اس حدیث کو بھول گئے اور کہنے لگے "جس نے عاریت لی ہے" وہ تیرا امین ہے، اس پر تاوان نہیں ہے، یعنی عاریت لی ہوئی چیز تلف ہونے پر تاوان نہیں ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم اسی طرف گئے ہیں یہ لوگ کہتے ہیں: عاریۃً لینے والا ضامن ہوتا ہے۔ اور یہی شافعی اور احمد کا بھی قول ہے، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کہتے ہیں کہ عاریت لینے والے پر تاوان نہیں ہے، الا یہ کہ وہ سامان والے کی مخالفت کرے۔ ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے اور اسحاق بن راہویہ بھی اسی کے قائل ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۹۰ (۳۵۶۱) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۵ (۲۴۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۸۴) ، و مسند احمد (۵/۱۲، ۱۳) ، وسنن الدارمی/البیوع ۵۶ (۲۶۳۸) (ضعیف) (قتادہ اور حسن بصری دونوں مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، اس لیے یہ سند ضعیف ہے)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عاریت لی ہوئی چیز جب تک واپس نہ کر دے عاریت لینے والے پر واجب الاداء رہتی ہے ، عاریت لی ہوئی چیز کی ضمانت عاریت لینے والے پر ہے یا نہیں ، اس بارے میں تین اقوال ہیں : پہلا قول یہ ہے کہ ہر صورت میں وہ اس کا ضامن ہے خواہ اس نے ضمانت کی شرط کی ہو یا نہ کی ہو ، ابن عباس ، زید بن علی ، عطاء ، احمد ، اسحاق اور امام شافعی رحمہم اللہ کی یہی رائے ہے ، دوسرا قول یہ ہے کہ اگر ضمانت کی شرط نہ کی ہو گی تو اس کی ذمہ داری اس پر عائد نہ ہو گی ، تیسرا قول یہ ہے کہ شرط کے باوجود بھی ضمانت کی شرط نہیں بشرطیکہ خیانت نہ کرے اس حدیث سے پہلے قول کی تائید ہوتی ہے۔

ذخیرہ اندوزی کا بیان

حد یث نمبر - 1267

حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَضْلَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ "، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ لِسَعِيدٍ:‏‏‏‏ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّكَ تَحْتَكِرُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَمَعْمَرٌ، ‏‏‏‏‏‏قَدْ كَانَ يَحْتَكِرُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ كَانَ يَحْتَكِرُ الزَّيْتَ وَالْحِنْطَةَ وَنَحْوَ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا احْتِكَارَ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي الِاحْتِكَارِ فِي غَيْرِ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ:‏‏‏‏ لَا بَأْسَ بِالِاحْتِكَارِ فِي الْقُطْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّخْتِيَانِ وَنَحْوِ ذَلِكَ.

معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا ہے" ۱؎۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا: ابو محمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- معمر کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- سعید بن مسیب سے مروی ہے، وہ تیل، گیہوں اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے، ۳-اس باب میں عمر، علی، ابوامامہ، اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کھانے کی ذخیرہ اندوزی ناجائز کہا ہے،۵- بعض اہل علم نے کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے، ۶- ابن مبارک کہتے ہیں: روئی، دباغت دی ہوئی بکری کی کھال، اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۲۶ (البیوع ۴۷) ، (۱۶۰۵) ، سنن ابی داود/ البیوع ۴۹ (۳۴۴۷) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۶ (۲۱۵۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۴۸۱) ، و مسند احمد (۶/۴۰۰) وسنن الدارمی/البیوع ۱۲ (۲۵۸۵) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : «احتکار» : ذخیرہ اندوزی کو کہتے ہیں ، یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلے کی ضرورت ہو تو مزید مہنگائی کے انتظار میں اسے بازار میں نہ لایا جائے ، اگر بازار میں غلہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔ کھانے کے سوا دیگر غیر ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔

تھن میں دودھ روکے ہوئے جانور کی بیع کا بیان

حد یث نمبر - 1268

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَسْتَقْبِلُوا السُّوقَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُحَفِّلُوا، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُنَفِّقْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. وَحَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا بَيْعَ الْمُحَفَّلَةِ وَهِيَ الْمُصَرَّاةُ، ‏‏‏‏‏‏لَا يَحْلُبُهَا صَاحِبُهَا أَيَّامًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ لِيَجْتَمِعَ اللَّبَنُ فِي ضَرْعِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَغْتَرَّ بِهَا الْمُشْتَرِي وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْغَرَرِ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(بازار میں آنے والے قافلہ تجارت کا بازار سے پہلے) استقبال نہ کرو، جانور کے تھن میں دودھ نہ روکو (تاکہ خریدار دھوکہ کھا جائے) اور (جھوٹا خریدار بن کر) ایک دوسرے کا سامان نہ فروخت کراؤ"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن مسعود اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، یہ لوگ ایسے جانور کی بیع کو جس کا دودھ تھن میں روک لیا گیا ہو جائز نہیں سمجھتے، ۴- محفلۃ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کا دودھ تھن میں چھوڑے رکھا گیا ہو، اس کا مالک کچھ دن سے اسے نہ دوہتا ہوتا کہ اس کی تھن میں دودھ جمع ہو جائے اور خریدار اس سے دھوکہ کھا جائے۔ یہ فریب اور دھوکہ ہی کی ایک شکل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۶۱۱۶) (حسن) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ عکرمہ سے سماک کی روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے)

جھوٹی قسم کے ذریعہ کسی مسلمان کا مال ہتھیانے کا بیان

حد یث نمبر - 1269

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ وَهُوَ فِيهَا فَاجِرٌ لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ ". فَقَالَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ:‏‏‏‏ فِيَّ وَاللَّهِ لَقَدْ كَانَ ذَلِكَ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنَ الْيَهُودِ أَرْضٌ فَجَحَدَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لِي:‏‏‏‏ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَلَكَ بَيِّنَةٌ ؟ "، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ:‏‏‏‏ لَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ:‏‏‏‏ " احْلِفْ "، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِذًا يَحْلِفُ، ‏‏‏‏‏‏فَيَذْهَبُ بِمَالِي، ‏‏‏‏‏‏فَأَنْزَلَ اللَّهَ تَعَالَى:‏‏‏‏ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مُوسَى، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي أُمَامَةَ بْنِ ثَعْلَبَةَ الْأَنْصَارِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَعِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے جھوٹی قسم کھائی تاکہ اس کے ذریعہ وہ کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہو گا"۔ اشعث بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! آپ نے میرے سلسلے میں یہ حدیث بیان فرمائی تھی۔ میرے اور ایک یہودی کے درمیان ایک زمین مشترک تھی، اس نے میرے حصے کا انکار کیا تو میں اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پاس لے گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس کوئی گواہ ہے؟" میں نے عرض کیا: نہیں، تو آپ نے یہودی سے فرمایا: "تم قسم کھاؤ" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو قسم کھا لے گا اور میرا مال ہضم کر لے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی «إن الذين يشترون بعهد الله وأيمانهم ثمنا قليلا» "اور جو لوگ اللہ کے قرار اور اپنی قسموں کے عوض تھوڑا سا مول حاصل کرتے ہیں ..." (آل عمران: ۷۷)۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن مسعود کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں وائل بن حجر، ابوموسیٰ، ابوامامہ بن ثعلبہ انصاری اور عمران بن حصین رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ۴ (۲۳۵۶) ، والخصومات ۴ (۲۴۱۶) ، والرہن ۶ (۲۵۱۵) ، والشہادات ۱۹ (۲۶۶۶) ، و ۲۰ (۲۶۶۹) ، و۲۳ (۲۶۷۳) ، و ۲۵ (۲۶۷۶) ، وتفسیر آل عمران ۳ (۴۵۴۹) ، والایمان والنذور ۱۱ (۶۶۵۹) ، و۱۷ (۶۶۷۶) ، والأحکام ۳۰ (۷۱۸۳) ، والتوحید ۲۴ (۷۴۴۵) ، صحیح مسلم/الإیمان ۶۱ (۲۲۰) ، سنن ابی داود/ الأیمان والنذور ۲ (۳۲۴۳) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۸ (۲۳۷۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۵۸و ۹۲۴۴) ، و مسند احمد (۱/۳۷۷) (صحیح)

بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدنے والے) کے اختلاف کا بیان

حد یث نمبر - 1270

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يُدْرِكْ ابْنَ مَسْعُودٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ مُرْسَلٌ أَيْضًا، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو عِيسَى 12:‏‏‏‏ قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، ‏‏‏‏‏‏قُلْتُ لِأَحْمَدَ:‏‏‏‏ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ الْقَوْلُ مَا قَالَ رَبُّ السِّلْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَتَرَادَّانِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ كَمَا قَالَ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلُّ مَنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ فَعَلَيْهِ الْيَمِينُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ شُرَيْحٌ وَغَيْرُهُ نَحْوُ هَذَا.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے تو بات بائع کی مانی جائے گی، اور مشتری کو اختیار ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث مرسل ہے، عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا، ۲- اور قاسم بن عبدالرحمٰن سے بھی یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے ابن مسعود سے اور ابن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہ روایت بھی مرسل ہے، ۳- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی؟ انہوں نے کہا: بات وہی معتبر ہو گی جو سامان کا مالک کہے گا، یا پھر دونوں اپنی اپنی چیز واپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اور مشتری قیمت۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہا ہے جو احمد نے کہا ہے، ۴- اور بات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہو گا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے، انہیں میں شریح بھی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۹۵۳۱) (صحیح) وانظر أیضا: سنن ابی داود/ البیوع ۷۴ (۳۵۱۱) ، سنن النسائی/البیوع ۸۲ (۴۶۵۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۹ (۲۱۸۶) ، مسند احمد (۱/۴۴۶)

ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان

حد یث نمبر - 1271

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَطَّارُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ عَبْدٍ الْمُزَنِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمَاءِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُهَيْسَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ إِيَاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُمْ كَرِهُوا بَيْعَ الْمَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ ابْنِ الْمُبَارَكِ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي بَيْعِ الْمَاءِ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ الْحَسَنُ الْبَصْرِيُّ.

ایاس بن عبد مزنی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی بیچنے سے منع فرمایا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ایاس کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، بہیسہ، بہیسہ کے باپ، ابوہریرہ، عائشہ، انس اور عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے پانی بیچنے کو ناجائز کہا ہے، یہی ابن مبارک شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۴- اور بعض اہل علم نے پانی بیچنے کی اجازت دی ہے، جن میں حسن بصری بھی شامل ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۶۳ (۳۴۷۸) ، سنن النسائی/البیوع ۸۸ (۴۶۶۶) ، سنن ابن ماجہ/الرہون ۱۸ (الأحکام ۷۹ (۲۴۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۱۷۴۷) ، و مسند احمد (۳/۳۱۷) ، وسنن الدارمی/البیوع ۶۹ (۲۶۵۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس سے مراد نہر و چشمے وغیرہ کا پانی ہے جو کسی کی ذاتی ملکیت میں نہ ہو اور اگر پانی پر کسی طرح کا خرچ آیا ہو تو ایسے پانی کا بیچنا منع نہیں ہے مثلاً راستوں میں ٹھنڈا پانی یا مینرل واٹر وغیرہ بیچنا جائز ہے۔

ضرورت سے زائد پانی کے بیچنے کا بیان

حد یث نمبر - 1272

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَاءِ لِيُمْنَعَ بِهِ الْكَلَأُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمِنْهَالِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُطْعِمٍ كُوفِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ الَّذِي رَوَى عَنْهُ حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمِنْهَالِ سَيَّارُ بْنُ سَلَامَةَ بَصْرِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏صَاحِبُ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ضرورت سے زائد پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے سبب گھاس سے روک دیا جائے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ۲ (۲۳۵۳) ، صحیح مسلم/البیوع ۲۹ (المساقاة ۸) (۱۵۶۶) ، سنن ابی داود/ البیوع ۶۲ (۳۴۷۳) ، سنن ابن ماجہ/الأحکام ۱۹ (۲۴۲۸) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۹۸) ، وط/الأقضیة ۲۵ (۲۹) و مسند احمد (۲/۲۴۴، ۲۷۳، ۳۰۹) ، ۴۸۲، ۴۹۴، ۵۰۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ سوچ کر دوسروں کے جانوروں کو فاضل پانی پلانے سے نہ روکا جائے کہ جب جانوروں کو پانی پلانے کو لوگ نہ پائیں گے تو جانور ادھر نہ لائیں گے ، اس طرح گھاس ان کے جانوروں کے لیے بچی رہے گی ، یہ کھلی ہوئی خود غرضی ہے جو اسلام کو پسند نہیں۔

نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1273

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، وَأَبُو عَمَّارٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي قَبُولِ الْكَرَامَةِ عَلَى ذَلِكَ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے سے منع فرمایا ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ، انس اور ابوسعید رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ بعض علماء نے اس کام پر بخشش قبول کرنے کی اجازت دی ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تحریمی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإجارة ۲۱ (۲۲۸۴) ، سنن ابی داود/ البیوع ۴۲ (۳۴۲۹) ، سنن النسائی/البیوع ۹۴ (۴۶۷۵) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۳۳) ، و مسند احمد (۲/۴) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : چونکہ مادہ کا حاملہ ہونا قطعی نہیں ہے ، حمل قرار پانے اور نہ پانے دونوں کا شبہ ہے اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجرت لینے سے منع فرمایا ہے۔

نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1274

حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْخُزَاعِيُّ الْبَصْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ الرُّؤَاسِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ كِلَابٍ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ " فَنَهَاهُ "، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّا نُطْرِقُ الْفَحْلَ، ‏‏‏‏‏‏فَنُكْرَمُ، ‏‏‏‏‏‏" فَرَخَّصَ لَهُ فِي الْكَرَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ حُمَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ کلاب کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نر کو مادہ پر چھوڑنے کی اجرت لینے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے اسے منع کر دیا، پھر اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مادہ پر نر چھوڑتے ہیں تو ہمیں بخشش دی جاتی ہے (تو اس کا حکم کیا ہے؟) آپ نے اسے بخشش لینے کی اجازت دے دی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے صرف ابراہیم بن حمید ہی کی روایت سے جانتے ہیں جسے انہوں نے ہشام بن عروہ سے روایت کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/البیوع ۹۴ (۴۶۷۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۵۰) (صحیح)

کتے کی قیمت کا بیان

حد یث نمبر - 1275

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " كَسْبُ الْحَجَّامِ خَبِيثٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَهْرُ الْبَغِيِّ خَبِيثٌ، ‏‏‏‏‏‏وَثَمَنُ الْكَلْبِ خَبِيثٌ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ رَافِعٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا ثَمَنَ الْكَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي ثَمَنِ كَلْبِ الصَّيْدِ.

رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پچھنا لگانے والے کی کمائی خبیث (گھٹیا) ہے ۱؎ زانیہ کی اجرت ناپاک ۲؎ ہے اور کتے کی قیمت ناپاک ہے" ۳؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- رافع رضی اللہ عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر، علی، ابن مسعود، ابومسعود، جابر، ابوہریرہ، ابن عباس، ابن عمر اور عبداللہ ابن جعفر رضی اللہ عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کتے کی قیمت کو ناجائز جانا ہے، یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ اور بعض اہل علم نے شکاری کتے کی قیمت کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۹ (البیوع ۳۰) ، (۱۵۶۸) ، سنن ابی داود/ البیوع ۳۹ (۳۴۲۱) ، سنن النسائی/الذبائح ۱۵ (۴۲۹۹) ، تحفة الأشراف : ۳۵۵۵) ، و مسند احمد (۳/۴۶۴، ۴۶۵) ، و ۴/۱۴۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : «كسب الحجام خبيث» میں «خبيث» کا لفظ حرام ہونے کے مفہوم میں نہیں ہے بلکہ گھٹیا اور غیرشریفانہ ہونے کے معنی میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محیصہ رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا کہ پچھنا لگانے کی اجرت سے اپنے اونٹ اور غلام کو فائدہ پہنچاؤ ، نیز آپ نے خود پچھنا لگوایا اور لگانے والے کو اس کی اجرت بھی دی ، لہذا پچھنا لگانے والے کی کمائی کے متعلق خبیث کا لفظ ایسے ہی ہے جیسے آپ نے لہسن اور پیاز کو خبیث کہا باوجود یہ کہ ان دونوں کااستعمال حرام نہیں ہے ، اسی طرح حجام کی کمائی بھی حرام نہیں ہے یہ اور بات ہے کہ غیرشریفانہ ہے۔ یہاں «خبيث» بمعنی حرام ہے۔ ۲؎ : چونکہ زنا فحش امور اور کبیرہ گناہوں میں سے ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی اجرت بھی ناپاک اور حرام ہے اس میں کوئی فرق نہیں کہ زانیہ لونڈی ہو یا آزاد ہو۔ ۳؎ : کتا چونکہ نجس اور ناپاک جانور ہے اس لیے اس سے حاصل ہونے والی قیمت بھی ناپاک ہو گی ، اس کی نجاست کا حال یہ ہے کہ شریعت نے اس برتن کو جس میں کتا منہ ڈال دے سات مرتبہ دھونے کا حکم دیا ہے جس میں ایک مرتبہ مٹی سے دھونا بھی شامل ہے ، اسی سبب کتے کی خرید و فروخت اور اس سے فائدہ اٹھانا منع ہے ، الا یہ کہ کسی شدید ضرورت سے ہو مثلاً گھر جائداد اور جانوروں کی حفاظت کے لیے ہو۔ پھر بھی قیمت لینا گھٹیا کام ہے ، ہدیہ کر دینا چاہیے۔

کتے کی قیمت کا بیان

حد یث نمبر - 1276

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ. ح وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيُّ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَمَهْرِ الْبَغِيِّ وَحُلْوَانِ الْكَاهِنِ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، زانیہ کی کمائی اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۱۳۳ (تحفة الأشراف : ۱۰۰۱۰) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : علم غیب رب العالمین کے لیے خاص ہے اس کا دعویٰ کرنا گناہ عظیم ہے ، اسی طرح اس دعویٰ کی آڑ میں کاہن اور نجومی عوام سے باطل طریقے سے جو مال حاصل کرتے ہیں وہ بھی حرام ہے۔

پچھنا لگانے والے کی کمائی کا بیان

حد یث نمبر - 1277

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ ابْنِ مُحَيِّصَةَ أَخَا بَنِي حَارِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي إِجَارَةِ الْحَجَّامِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَاهُ عَنْهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يَزَلْ يَسْأَلُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْتَأْذِنُهُ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى قَالَ:‏‏‏‏ " اعْلِفْهُ نَاضِحَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَطْعِمْهُ رَقِيقَكَ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي جُحَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَالسَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ مُحَيِّصَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ أَحْمَدُ:‏‏‏‏ إِنْ سَأَلَنِي حَجَّامٌ نَهَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَآخُذُ بِهَذَا الْحَدِيثِ.

محیصہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے والے کی اجرت کی اجازت طلب کی، تو آپ نے انہیں اس سے منع فرمایا ۱؎ لیکن وہ باربار آپ سے پوچھتے اور اجازت طلب کرتے رہے یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "اسے اپنے اونٹ کے چارہ پر خرچ کرو یا اپنے غلام کو کھلا دو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- محیصہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں رافع بن خدیج، جحیفہ، جابر اور سائب بن یزید سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ۴- احمد کہتے ہیں: اگر مجھ سے کوئی پچھنا لگانے والا مزدوری طلب کرے تو میں نہیں دوں گا اور دلیل میں یہی حدیث پیش کروں گا۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۳۹ (۳۴۲۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۰ (۲۱۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۱۲۳۸) ، و موطا امام مالک/الاستئذان ۱۰ (۲۸مرسلا) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ ممانعت اس وجہ سے تھی کہ یہ ایک گھٹیا اور غیر شریفانہ عمل ہے ، جہاں تک اس کے جواز کا معاملہ ہے تو آپ نے خود ابوطیبہ کو پچھنا لگانے کی اجرت دی ہے جیسا کہ کہ اگلی روایت سے واضح ہے ، جمہور اسی کے قائل ہیں اور ممانعت والی روایت کو نہیں تنزیہی پر محمول کرتے ہیں یا کہتے ہیں کہ وہ منسوخ ہے۔

پچھنا لگانے والے کی کمائی کے جائز ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1278

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ أَنَسٌ عَنْ كَسْبِ الْحَجَّامِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَنَسٌ:‏‏‏‏ " احْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَجَمَهُ أَبُو طَيْبَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَ لَهُ بِصَاعَيْنِ مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏وَكَلَّمَ أَهْلَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَوَضَعُوا عَنْهُ مِنْ خَرَاجِهِ ". وَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّ أَفْضَلَ مَا تَدَاوَيْتُمْ بِهِ الْحِجَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ إِنَّ مِنْ أَمْثَلِ دَوَائِكُمُ الْحِجَامَةَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَنَسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏فِي كَسْبِ الْحَجَّامِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ.

حمید کہتے ہیں کہ انس رضی الله عنہ سے پچھنا لگانے والے کی کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو انس رضی الله عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، اور آپ کو پچھنا لگانے والے ابوطیبہ تھے، تو آپ نے انہیں دو صاع غلہ دینے کا حکم دیا اور ان کے مالکوں سے بات کی، تو انہوں نے ابوطیبہ کے خراج میں کمی کر دی اور آپ نے فرمایا: "جن چیزوں سے تم دوا کرتے ہو ان میں سب سے افضل پچھنا ہے" یا فرمایا: "تمہاری بہتر دواؤں میں سے پچھنا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- انس رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں علی، ابن عباس اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳ - صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے پچھنا لگانے والے کی اجرت کو جائز قرار دیا ہے۔ یہی شافعی کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۱۱ (البیوع ۳۲) (۱۵۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۰) (صحیح)

کتے اور بلی کی قیمت کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1279

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، قَالَا:‏‏‏‏ أَنْبَأَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ، ‏‏‏‏‏‏وَالسِّنَّوْرِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَصِحُّ فِي ثَمَنِ السِّنَّوْرِ. وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الْأَعْمَشِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِهِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ وَاضْطَرَبُوا عَلَى الْأَعْمَشِ فِي رِوَايَةِ هَذَا الْحَدِيثِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ ثَمَنَ الْهِرِّ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِيهِ بَعْضُهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى ابْنُ فُضَيْلٍ، عنْ الْأَعْمَشِ، عنْ أَبِي حَازِمٍ، عنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے اور بلی کی قیمت سے منع فرمایا ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے۔ بلی کی قیمت کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے، ۲- یہ حدیث اعمش سے مروی ہے انہوں نے اپنے بعض اصحاب سے روایت کی ہے اور اس نے جابر سے، یہ لوگ اعمش سے اس حدیث کی روایت میں اضطراب کا شکار ہیں، ۳- اور ابن فضل نے اس سند کے علاوہ دوسری سند سے بطریق: «الأعمش، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کی ہے، ۴- اہل علم کی ایک جماعت نے بلی کی قیمت کو ناجائز کہا ہے، ۵- اور بعض لوگوں نے اس کی رخصت دی ہے، یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۶۴ (۳۴۷۹) (تحفة الأشراف : ۲۳۰۹) و انظر أیضا ما عند صحیح مسلم/المساقاة ۹ (۱۵۶۹) ، وسنن النسائی/الذبائح ۶۱ (۴۳۰۰) ، وسنن ابن ماجہ/التجارات ۹ (۲۱۶۱) ، و مسند احمد (۳/۳۳۹) (صحیح)

کتے اور بلی کی قیمت کی کراہت کا بیان

حد یث نمبر - 1280

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ زَيْدٍ الصَّنْعَانِيُّ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْهِرِّ وَثَمَنِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَرُ بْنُ زَيْدٍ لَا نَعْرِفُ كَبِيرَ أَحَدٍ رَوَى عَنْهُ غَيْرَ عَبْدِ الرَّزَّاقِ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلی اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرمایا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- اور ہم عبدالرزاق کے علاوہ کسی بڑے محدث کو نہیں جانتے جس نے عمرو بن زید سے روایت کی ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۶۴ (۳۴۸۰) ، سنن ابن ماجہ/الصید ۲۰ (۳۲۵۰) ، (تحفة الأشراف : ۲۸۹۴) ، و مسند احمد (۳/۲۹۷) (ضعیف) (سند میں عمر بن زید صنعانی ضعیف ہیں)

کتے کی قیمت کھانے سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1281

أَخْبَرَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي الْمُهَزِّمِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنْ ثَمَنِ الْكَلْبِ إِلَّا كَلْبَ الصَّيْدِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ لَا يَصِحُّ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْمُهَزِّمِ اسْمُهُ يَزِيدُ بْنُ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَكَلَّمَ فِيهِ شُعْبَةُ بْنُ الْحَجَّاجِ وَضَعَّفَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَحْوُ هَذَا وَلَا يَصِحُّ إِسْنَادُهُ أَيْضًا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ کتے کی قیمت سے (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) منع فرمایا ہے سوائے شکاری کتے کی قیمت کے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث اس طریق سے صحیح نہیں ہے، ۲- ابومہزم کا نام یزید بن سفیان ہے، ان کے سلسلہ میں شعبہ بن حجاج نے کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے، ۳- اور جابر سے مروی ہے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی ہے، اور اس کی سند بھی صحیح نہیں ہے (دیکھئیے الصحیحۃ رقم: ۲۹۷۱)۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۴۸۳۴) (حسن) (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کے راوی ’’ ابو المہزم ‘‘ ضعیف ہیں)

گانے والی لونڈی کی بیع کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 1282

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَبِيعُوا الْقَيْنَاتِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَشْتَرُوهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تُعَلِّمُوهُنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا خَيْرَ فِي تِجَارَةٍ فِيهِنَّ، ‏‏‏‏‏‏وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ ". فِي مِثْلِ هَذَا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ:‏‏‏‏ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ سورة لقمان آية 6 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ إِنَّمَا نَعْرِفُهُ مِثْلَ هَذَا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ وَضَعَّفَهُ وَهُوَ شَامِيٌّ.

ابوامامہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو اور نہ انہیں خریدو، اور نہ انہیں (گانا) سکھاؤ ۱؎، ان کی تجارت میں خیر و برکت نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔ اور اسی جیسی چیزوں کے بارے میں یہ آیت اتری ہے: «ومن الناس من يشتري لهو الحديث ليضل عن سبيل الله» "اور بعض لوگ ایسے ہیں جو لغو باتوں کو خرید لیتے ہیں تاکہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے بہکائیں" (لقمان: ۶)"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوامامہ کی حدیث کو ہم اس طرح صرف اسی طریق سے جانتے ہیں، اور بعض اہل علم نے علی بن یزید کے بارے میں کلام کیا ہے اور ان کی تضعیف کی ہے۔ اور یہ شام کے رہنے والے ہیں، ۲- اس باب میں عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۱ (۲۱۶۸) ، (تحفة الأشراف : ۴۸۹۸) (ضعیف) (سند میں عبیداللہ بن زحر اور علی بن یزید بن جدعان دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن ابن ماجہ کی سند حسن درجے کی ہے)

وضاحت: ۱؎ : کیونکہ یہ فسق اور گناہ کے کاموں کی طرف لے جاتا ہے۔

غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے

حد یث نمبر - 1283

حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصٍ الشَّيْبَانِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي حُيَيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحُبُلِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ، قَالَ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الْوَالِدَةِ وَوَلَدِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَرَّقَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَحِبَّتِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.

ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "جو شخص ماں اور اس کے بچے کے درمیان جدائی ڈالے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اور اس کے دوستوں کے درمیان جدائی ڈال دے گا" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وأعادہ في السیر ۱۷ (۱۵۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۳۴۶۸) ، وانظر مسند احمد (۵/۴۱۳، ۴۱۴) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : یہ حدیث ماں اور بچے کے درمیان جدائی ڈالنے کی حرمت پر دلالت کرتی ہے ، خواہ یہ بیع کے ذریعہ ہو یا ہبہ کے ذریعہ یا دھوکہ دھڑی کے ذریعہ ، اور والدہ کا لفظ مطلق ہے اس میں والد بھی شامل ہیں۔

غلاموں کی بیع میں دو بھائیوں یا ماں اور اس کے بچے کے درمیان تفریق کی حرام ہے

حد یث نمبر - 1284

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ قَزَعَةَ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ الْحَجَّاجِ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْمَيْمُونِ بْنِ أَبِي شَبِيبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قَالَ:‏‏‏‏ وَهَبَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُلَامَيْنِ أَخَوَيْنِ، ‏‏‏‏‏‏فَبِعْتُ أَحَدَهُمَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " يَا عَلِيُّ، ‏‏‏‏‏‏مَا فَعَلَ غُلَامُكَ ؟ " فَأَخْبَرْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " رُدَّهُ رُدَّهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ كَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏التَّفْرِيقَ بَيْنَ السَّبْيِ فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏وَيُكْرَهُ أَنْ يُفَرِّقَ بَيْنَ الْوَالِدةِ وَوَلَدِهَا وَبَيْنَ الإِخْوَةَ وَالأَخَوَاتِ فِي الْبيع، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي التَّفْرِيقِ بَيْنَ الْمُوَلَّدَاتِ الَّذِينَ وُلِدُوا فِي أَرْضِ الْإِسْلَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْقَوْلُ الْأَوَّلُ أَصَحُّ. وَرُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ أَنَّهُ فَرَّقَ بَيْنَ وَالِدَةٍ وَوَلَدِهَا فِي الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ لَهُ:‏‏‏‏ فِي ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنِّي قَدِ اسْتَأْذَنْتُهَا بِذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَضِيَتْ.

علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دو غلام دیئے جو آپس میں بھائی تھے، میں نے ان میں سے ایک کو بیچ دیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: "علی! تمہارا غلام کیا ہوا؟"، میں نے آپ کو بتایا (کہ میں نے ایک کو بیچ دیا ہے) تو آپ نے فرمایا: "اسے واپس لوٹا لو، اسے واپس لوٹا لو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم بیچتے وقت (رشتہ دار) قیدیوں کے درمیان جدائی ڈالنے کو ناجائز کہا ہے، ۳- اور بعض اہل علم نے ان لڑکوں کے درمیان جدائی کو جائز قرار دیا ہے جو سر زمین اسلام میں پیدا ہوئے ہیں۔ پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے، ۴- ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ انہوں نے بیچتے وقت ماں اور اس کے لڑکے کے درمیان تفریق، چنانچہ ان پر یہ اعتراض کیا گیا تو انہوں نے کہا: میں نے اس کی ماں سے اس کی اجازت مانگی تو وہ اس پر راضی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۶ (۲۲۴۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۰۲۸۵) ، و مسند احمد (۱/۱۰۲) (ضعیف) (میمون کی ملاقات علی رضی الله عنہ سے نہیں ہے، لیکن پچھلی حدیث اور دیگر شواہد سے یہ مسئلہ ثابت ہے)

غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب پا جائے تو کیا کرے

حد یث نمبر - 1285

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، وَأَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ مَخْلَدِ بْنِ خُفَافٍ، عَنْعُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ..

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ فائدے کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- یہ اور بھی سندوں سے مروی ہے، ۳ - اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۷۳ (۳۵۰۸) ، سنن النسائی/البیوع ۱۵ (۴۴۹۵) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۴۳ (۲۲۴۲ و۲۲۴۳) ، التحفة: ۱۶۵۵) ، و مسند احمد (۶/۴۹، ۲۰۸، ۲۳۷) (حسن)

غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب پا جائے تو کیا کرے

حد یث نمبر - 1286

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ عَلِيٍّ الْمُقَدَّمِيُّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ الْخَرَاجَ بِالضَّمَانِ ". قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَقَدْ رَوَى مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عن هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، وَرَوَاهُ جَرِيرٌ، عنْهِشَامٍ أَيْضًا. وَحَدِيثُ جَرِيرٍ يُقَالُ:‏‏‏‏ تَدْلِيسٌ دَلَّسَ فِيهِ جَرِيرٌ لَمْ يَسْمَعْهُ مِنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَتَفْسِيرُ الْخَرَاجِ بِالضَّمَانِ، ‏‏‏‏‏‏هُوَ الرَّجُلُ يَشْتَرِي الْعَبْدَ، ‏‏‏‏‏‏فَيَسْتَغِلُّهُ ثُمَّ يَجِدُ بِهِ عَيْبًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَرُدُّهُ عَلَى الْبَائِعِ، ‏‏‏‏‏‏فَالْغَلَّةُ لِلْمُشْتَرِي لِأَنَّ الْعَبْدَ لَوْ هَلَكَ هَلَكَ مِنْ مَالِ الْمُشْتَرِي، ‏‏‏‏‏‏وَنَحْوُ هَذَا مِنَ الْمَسَائِلِ يَكُونُ فِيهِ الْخَرَاجُ بِالضَّمَانِ.

ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی بنیاد پر ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث ہشام بن عروہ کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- امام ترمذی کہتے ہیں: محمد بن اسماعیل نے اس حدیث کو عمر بن علی کی روایت سے غریب جانا ہے۔ میں نے پوچھا: کیا آپ کی نظر میں اس میں تدلیس ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، ۳- مسلم بن خالد زنجی نے اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے روایت کیا ہے۔ ۴- جریر نے بھی اسے ہشام سے روایت کیا ہے، ۵- اور کہا جاتا ہے کہ جریر کی حدیث میں تدلیس ہے، اس میں جریر نے تدلیس کی ہے، انہوں نے اسے ہشام بن عروہ سے نہیں سنا ہے، ۶- «الخراج بالضمان» کی تفسیر یہ ہے کہ آدمی غلام خریدے اور اس سے مزدوری کرائے پھر اس میں کوئی عیب دیکھے اور اس کو بیچنے والے کے پاس لوٹا دے، تو غلام کی جو مزدوری اور فائدہ ہے وہ خریدنے والے کا ہو گا۔ اس لیے کہ اگر غلام ہلاک ہو جاتا تو مشتری (خریدار) کا مال ہلاک ہوتا۔ یہ اور اس طرح کے مسائل میں فائدہ کا استحقاق ضامن ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف : ۱۷۱۲۶) (حسن)

راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1287

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي الشَّوَارِبِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ دَخَلَ حَائِطًا فَلْيَأْكُلْ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَتَّخِذْ خُبْنَةً ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعَبَّادِ بْنِ شُرَحْبِيلَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، ‏‏‏‏‏‏وَعُمَيْرٍ مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا مِنْ حَدِيثِ يَحْيَى بْنِ سَلِيمِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ لِابْنِ السَّبِيلِ فِي أَكْلِ الثِّمَارِ، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَهُ بَعْضُهُمْ إِلَّا بِالثَّمَنِ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی باغ میں داخل ہو تو (پھل) کھائے، کپڑوں میں باندھ کر نہ لے جائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث غریب ہے۔ ہم اسے اس طریق سے صرف یحییٰ بن سلیم ہی کی روایت سے جانتے ہیں، ۲- اس باب میں عبداللہ بن عمرو، عباد بن شرحبیل، رافع بن عمرو، عمیر مولی آبی اللحم اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- بعض اہل علم نے راہ گیر کے لیے پھل کھانے کی رخصت دی ہے۔ اور بعض نے اسے ناجائز کہا ہے، الا یہ کہ قیمت ادا کر کے ہو۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/التجارات ۶۷ (۲۳۰۱) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۲۲) (صحیح)

راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1288

حَدَّثَنَا أَبُو عَمَّارٍ الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيُّ، حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنْ صَالِحِ بْنِ أَبِي جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْرَافِعِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ:‏‏‏‏ كُنْتُ أَرْمِي نَخْلَ الْأَنْصَارِ، ‏‏‏‏‏‏فَأَخَذُونِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبُوا بِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا رَافِعُ، ‏‏‏‏‏‏لِمَ تَرْمِي نَخْلَهُمْ "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قُلْتُ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏الْجُوعُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَرْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُلْ مَا وَقَعَ أَشْبَعَكَ اللَّهُ وَأَرْوَاكَ ". هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ.

رافع بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں انصار کے کھجور کے درختوں پر پتھر مارتا تھا، ان لوگوں نے مجھے پکڑ لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے آپ نے پوچھا: "رافع! تم ان کے کھجور کے درختوں پر پتھر کیوں مارتے ہو؟" میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بھوک کی وجہ سے، آپ نے فرمایا: "پتھر مت مارو، جو خودبخود گر جائے اسے کھاؤ اللہ تمہیں آسودہ اور سیراب کرے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۹۴ (۲۶۲۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۶۷ (۲۲۹۹) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۹۵) (ضعیف) (سند میں ’’ صالح ‘‘ اور ان کے باپ ’’ ابو جبیر ‘‘ دونوں مجہول ہیں، اور ابوداود وابن ماجہ کی سند میں ’’ ابن ابی الحکم ‘‘ مجہول ہیں نیز ان کی دادی مبہم ہیں)

راہی کے لیے راستہ کے درخت کا پھل کھانے کی رخصت کا بیان

حد یث نمبر - 1289

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الثَّمَرِ الْمُعَلَّقِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَصَابَ مِنْهُ مِنْ ذِي حَاجَةٍ غَيْرَ مُتَّخِذٍ خُبْنَةً فَلَا شَيْءَ عَلَيْهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.

عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے لٹکے ہوئے پھل کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: "جو ضرورت مند اس میں سے(ضرورت کے مطابق) لے لے اور کپڑے میں جمع کرنے والا نہ ہو تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ اللقطة ح رقم ۱۰ (۱۷۱۰) و الحدود ۱۲ (۴۳۹۰) ، سنن النسائی/قطع السارق ۱۱ (۴۹۶۱) ، (تحفة الأشراف : ۸۷۹۸) (حسن)

بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 1290

حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ الْبَغْدَادِيُّ، أَخْبَرَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، قَالَ:‏‏‏‏ أَخْبَرَنِي سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُخَابَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالثُّنْيَا إِلَّا أَنْ تُعْلَمَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ مِنْ حَدِيثِ يُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَطَاءٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے بروایت یونس بن عبید جسے یونس نے عطاء سے اور عطاء نے جابر سے روایت کی ہے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الشرب والمساقاة ۱۷ (۲۳۸۱) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶) ، سنن ابی داود/ البیوع ۳۴ (۳۴۰۵) ، سنن النسائی/الأیمان (والمزارعة) ، ۴۵ (۳۹۱۰) ، والبیوع ۷۴ (۴۶۴۷) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۴ (۲۲۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۴۹۵) ، و مسند احمد (۳/۳۱۳، ۳۵۶، ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۹۱، ۳۹۲) ، وانظر ما یأتي برقم ۱۳۱۳ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر گزر چکی ہے دیکھئیے حدیث نمبر (۱۲۲۴)۔ ۲؎ : مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا ، یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں ، بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوار مزارع کے لیے اور کسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کر لیتے تھے ، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے ، کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اور مالک والا تباہ ہو جاتا ہے ، اور کبھی اس کے برعکس ہو جاتا ہے ، اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتا ہے ، اس لیے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ ۳؎ : اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیونکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔ اور اگر تعیین کر دے تو جائز ہے جیسا کہ اوپر حدیث میں اس کی اجازت موجود ہے۔

قبضہ سے پہلے غلہ بیچنا ناجائز ہے

حد یث نمبر - 1291

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنِ ابْتَاعَ طَعَامًا فَلَا يَبِعْهُ حَتَّى يَسْتَوْفِيَهُ ". قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:‏‏‏‏ وَأَحْسِبُ كُلَّ شَيْءٍ مِثْلَهُ. قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا بَيْعَ الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَقْبِضَهُ الْمُشْتَرِي، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِيمَنِ ابْتَاعَ شَيْئًا مِمَّا لَا يُكَالُ وَلَا يُوزَنُ مِمَّا لَا يُؤْكَلُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يُشْرَبُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَبِيعَهُ قَبْلَ أَنْ يَسْتَوْفِيَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا التَّشْدِيدُ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص غلہ خریدے تو اسے نہ بیچے جب تک کہ اس پر قبضہ نہ کر لے" ۱؎، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: میں ہر چیز کو غلے ہی کے مثل سمجھتا ہوں۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، ابن عمر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳-اکثر اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے غلہ کی بیع کو ناجائز کہا ہے۔ جب تک مشتری اس پر قبضہ نہ کر لے، ۴- اور بعض اہل علم نے قبضہ سے پہلے اس شخص کو بیچنے کی رخصت دی ہے جو کوئی ایسی چیز خریدے جو ناپی اور تولی نہ جاتی ہو اور نہ کھائی اور پی جاتی ہو، ۵- اہل علم کے نزدیک سختی غلے کے سلسلے میں ہے۔ احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تخريج: صحیح البخاری/البیوع ۵۴ (۲۱۳۲) ، صحیح مسلم/البیوع ۸ (۱۵۲۵) ، سنن ابی داود/ البیوع ۶۷ (۳۴۹۶) ، سنن النسائی/البیوع ۵۵ (۴۶۰۴) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۷ (۲۲۲۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۷۳۶) ، و مسند احمد (۱/۲۱۵، ۲۲۱، ۲۵۱، ۲۷۰، ۲۸۵، ۳۵۶، ۳۶۸، ۳۶۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : خرید و فروخت میں شریعت اسلامیہ کا بنیادی اصول یہ ہے کہ خریدی ہوئی چیز پر خریدار جب تک مکمل قبضہ نہ کر لے اسے دوسرے کے ہاتھ نہ بیچے ، اور یہ قبضہ ہر چیز پر اسی چیز کے حساب سے ہو گا ، نیز اس سلسلہ میں علاقے کے عرف (رسم و رواج) کا اعتبار بھی ہو گا کہ وہاں کسی چیز پر کیسے قبضہ مانا جاتا ہے مثلاً منقولہ چیزوں میں شریعت نے ایک عام اصول برائے مکمل قبضہ یہ بتایا ہے کہ اس چیز کو مشتری بائع کی جگہ سے اپنی جگہ میں منتقل کر لے یا ناپنے والی چیز کو ناپ لے اور تولنے والی چیز کو تول لے اور اندازہ کی جانے والی چیز کی جگہ بدل لے۔

اپنے بھائی کی بیع پر بیع کرنا منع ہے

حد یث نمبر - 1292

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَبِعْ بَعْضُكُمْ عَلَى بَيْعِ بَعْضٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا يَخْطُبْ بَعْضُكُمْ عَلَى خِطْبَةِ بَعْضٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَسَمُرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عُمَرَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ. وَقَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَسُومُ الرَّجُلُ عَلَى سَوْمِ أَخِيهِ "، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى الْبَيْعِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ هُوَ السَّوْمُ.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی دوسرے کی بیع پر بیع نہ کرے ۱؎ اور نہ کوئی کسی کے شادی کے پیغام پر پیغام دے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عمر رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور سمرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا آدمی اپنے بھائی کے بھاؤ پر بھاؤ نہ کرے۔ ۴- اور بعض اہل علم کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی اس حدیث میں بیع سے مراد بھاؤ تاؤ اور مول تول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النکاح ۴۵ (۵۱۴۲) ، صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۲) ، والبیوع ۱۴۱۲) ، سنن ابی داود/ النکاح ۱۸ (۲۰۸۱) ، سنن النسائی/النکاح ۲۰ (۳۲۴۰) ، و۲۱ (۳۲۴۵) ، والبیوع ۲۰ (۴۵۰۷) ، سنن ابن ماجہ/النکاح ۱۰ (۱۸۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۸۲۸۴) ، و مسند احمد (۲/۱۲۲، ۱۲۴، ۱۲۶، ۱۳۰، ۱۴۲، ۱۵۳) ، سنن الدارمی/النکاح ۷ (۲۲۲۲) ، والبیوع ۳۳ (۲۶۰۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : دوسرے کی بیع پر بیع کی صورت یہ ہے ، بیع ہو جانے کے بعد مدت خیار کے اندر کوئی آ کر یہ کہے کہ تو یہ بیع فسخ کر دے تو میں تجھ کو اس سے عمدہ چیز اس سے کم قیمت پر دیتا ہوں کہ اس طرح کہنا جائز نہیں۔

شراب کی بیع اور اس کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 1293

حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ لَيْثًا يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْأَبِي طَلْحَةَ، أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏إِنِّي اشْتَرَيْتُ خَمْرًا لِأَيْتَامٍ فِي حِجْرِي، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " أَهْرِقْ الْخَمْرَ، ‏‏‏‏‏‏وَاكْسِرِ الدِّنَانَ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي طَلْحَةَ رَوَىالثَّوْرِيُّ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنَّ أَبَا طَلْحَةَ كَانَ عِنْدَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ.

ابوطلحہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں نے ان یتیموں کے لیے شراب خریدی تھی جو میری پرورش میں ہیں۔ (اس کا کیا حکم ہے؟)آپ نے فرمایا: "شراب بہا دو اور مٹکے توڑ دو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوطلحہ رضی الله عنہ کی اس حدیث کو ثوری نے بطریق: «السدي، عن يحيى بن عباد، عن أنس» روایت کیا ہے کہ ابوطلحہ آپ کے پاس تھے ۱؎، اور یہ لیث کی روایت سے زیادہ صحیح ہے، ۲- اس باب میں جابر، عائشہ، ابوسعید، ابن مسعود، ابن عمر، اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۷۷۲) (حسن)

وضاحت: ۱؎ : اس اعتبار سے یہ حدیث انس کی مسانید میں سے ہو گی نہ کہ ابوطلحہ کی۔

شراب کا سرکہ بنانا منع ہے

حد یث نمبر - 1294

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ السُّدِّيِّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَيُتَّخَذُ الْخَمْرُ خَلًّا ؟ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کیا شراب کا سرکہ بنایا جا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "نہیں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الأشربة ۲ (۱۹۸۳) ، سنن ابی داود/ الأشربة ۳ (۳۶۷۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۶۶۸) ، وسنن الدارمی/الأشربة ۱۷ (۲۱۶۱) (صحیح)

شراب کا سرکہ بنانا منع ہے

حد یث نمبر - 1295

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُنِيرٍ، قَال:‏‏‏‏ سَمِعْتُ أَبَا عَاصِمٍ، عَنْ شَبِيبِ بْنِ بِشْرٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:‏‏‏‏ " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخَمْرِ عَشْرَةً عَاصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمُعْتَصِرَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَشَارِبَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَحَامِلَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَحْمُولَةُ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَسَاقِيَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَبَائِعَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَآكِلَ ثَمَنِهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرِي لَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُشْتَرَاةُ لَهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ أَنَسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رُوِيَ نَحْوُ هَذَا، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کی وجہ سے "دس آدمیوں پر لعنت بھیجی: اس کے نچوڑوانے والے پر، اس کے پینے والے پر، اس کے لے جانے والے پر، اس کے منگوانے والے پر، اور جس کے لیے لے جائی جائے اس پر، اس کے پلانے والے پر، اور اس کے بیچنے والے پر، اس کی قیمت کھانے والے پر، اس کو خریدنے والے پر اور جس کے لیے خریدی گئی ہو اس پر"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث انس رضی الله عنہ کی روایت سے غریب ہے، ۲- اور اسی حدیث کی طرح ابن عباس، ابن مسعود اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی مروی ہے جسے یہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الأشربة ۶ (۳۳۸۱) ، (تحفة الأشراف : ۹۰۰) (حسن صحیح)

مالک کی اجازت کے بغیر جانور کے دوہنے کا بیان

حد یث نمبر - 1296

حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ عَلَى مَاشِيَةٍ فَإِنْ كَانَ فِيهَا صَاحِبُهَا فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَذِنَ لَهُ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا أَحَدٌ فَلْيُصَوِّتْ ثَلَاثًا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ أَجَابَهُ أَحَدٌ فَلْيَسْتَأْذِنْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنْ لَمْ يُجِبْهُ أَحَدٌ فَلْيَحْتَلِبْ وَلْيَشْرَبْ وَلَا يَحْمِلْ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي سَعِيدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق. قَالَ أَبُو عِيسَى 12:‏‏‏‏ وَقَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏سَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ تَكَلَّمَ بَعْضُ أَهْلِ الْحَدِيثِ فِي رِوَايَةِ الْحَسَنِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَمُرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّمَا يُحَدِّثُ عَنْ صَحِيفَةِ سَمُرَةَ.

سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی کسی ریوڑ کے پاس (دودھ پینے) آئے تو اگر ان میں ان کا مالک موجود ہو تو اس سے اجازت لے، اگر وہ اجازت دیدے تو دودھ پی لے۔ اگر ان میں کوئی نہ ہو تو تین بار آواز لگائے، اگر کوئی جواب دے تو اس سے اجازت لے لے، اور اگر کوئی جواب نہ دے تو دودھ پی لے لیکن ساتھ نہ لے جائے" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں عمر اور ابو سعید خدری سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے، احمد اور اسحاق بن راہویہ اسی کے قائل ہیں، ۴- علی بن مدینی کہتے ہیں کہ سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے، ۵- بعض محدثین نے حسن کی روایت میں جسے انہوں نے سمرہ سے روایت کی ہے کلام کیا ہے، وہ لوگ کہتے ہیں کہ حسن سمرہ کے صحیفہ سے حدیث روایت کرتے تھے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ الجہاد ۹۳ (۲۶۱۹) ، (تحفة الأشراف : ۴۵۹۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ حکم اس پریشان حال اور مضطر و مجبور مسافر کے لیے ہے جسے کھانا نہ ملنے کی صورت میں اپنی جان کے ہلاک ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو یہ تاویل اس وجہ سے ضروری ہے کہ یہ حدیث ایک دوسری حدیث «للايحلبنّ أحد ماشية أحدٍ بغير إذنه» کے معارض ہے۔ ۲؎ : اس سے معلوم ہوا کہ سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کے پاس بھی لکھی ہوئی احادیث کا صحیفہ تھا۔

مردار کی کھالوں اور بتوں کے بیچنے کا بیان

حد یث نمبر - 1297

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمَيْتَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْخِنْزِيرِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْأَصْنَامِ "، ‏‏‏‏‏‏فَقِيلَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ ؟ فَإِنَّهُ يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ، ‏‏‏‏‏‏وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ، ‏‏‏‏‏‏وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا، ‏‏‏‏‏‏هُوَ حَرَامٌ "، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ:‏‏‏‏ " قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْهِمُ الشُّحُومَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَجْمَلُوهُ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ بَاعُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، خنزیر اور بتوں کی بیع کو حرام قرار دیا ہے"، عرض کیا گیا، اللہ کے رسول! مجھے مردار کی چربی کے بارے میں بتائیے، اسے کشتیوں پہ ملا جاتا ہے، چمڑوں پہ لگایا جاتا ہے، اور لوگ اس سے چراغ جلاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، یہ جائز نہیں، یہ حرام ہے"، پھر آپ نے اسی وقت فرمایا: "یہود پر اللہ کی مار ہو، اللہ نے ان کے لیے چربی حرام قرار دے دی، تو انہوں نے اس کو پگھلایا پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- جابر رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۱۱۲ (۲۲۳۶) ، والمغازي ۵۱ (۴۲۹۶) ، وتفسیر سورة الأنعام ۶ (۴۶۳۳) ، صحیح مسلم/المساقاة ۱۳ (۱۵۸۱) ، سنن ابی داود/ البیوع ۶۶ (۲۴۸۶) ، سنن النسائی/الفرع والعتیرة ۸ (۴۲۶۷) ، والبیوع ۹۳ (۴۶۷۳) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۱ (۲۱۶۷) ، (تحفة الأشراف : ۲۴۹۴) ، و مسند احمد (۳/۳۲۴) ، ۳۲۶، ۳۷۰) (صحیح)

ہبہ کو واپس لینے پر وارد وعید کا بیان

حد یث نمبر - 1298

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السُّوءِ الْعَائِدُ فِي هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ ".

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بری مثال ہمارے لیے مناسب نہیں، ہدیہ دے کر واپس لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹتا ہے" ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الہبة ۳۰ (۲۶۲۲) ، والحیل ۱۴ (۶۹۷۵) ، سنن النسائی/الہبة ۳ (۳۷۲۸، ۳۷۲۹) ، (تحفة الأشراف : ۵۹۹۲) ، و مسند احمد (۱/۲۱۷) وانظر الحدیث الآتي، مایأتي برقم: ۲۱۳۱ و ۲۱۳۲ (صحیح) وانظر أیضا: صحیح البخاری/الہبة ۱۴ (۲۵۸۹) ، صحیح مسلم/الہبات ۲ (۱۶۲۲) ، سنن النسائی/الہبة ۲ (۳۷۲۱-۳۷۲۲) ، و۳ (۳۷۲۳، ۳۷۲۵-۳۷۲۷، ۳۷۳۰) ، و۴ (۳۷۳۱-۳۷۳۳)

وضاحت: ۱؎ : اس سے ہبہ کو واپس لینے کی شناعت و قباحت واضح ہوتی ہے ، ایک تو ایسے شخص کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے ، دوسرے ہبہ کی گئی چیز کو قے سے تعبیر کیا جس سے انسان انتہائی کراہت محسوس کرتا ہے۔

ہبہ کو واپس لینے پر وارد وعید کا بیان

حد یث نمبر - 1299

قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهُ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ ". حَدَّثَنَا بِذَلِكَ مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ طَاوُسًا يُحَدِّثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ يَرْفَعَانِ الْحَدِيثَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا الْحَدِيثِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏قَالُوا:‏‏‏‏ مَنْ وَهَبَ هِبَةً لِذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏وَمَنْ وَهَبَ هِبَةً لِغَيْرِ ذِي رَحِمٍ مَحْرَمٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏مَا لَمْ يُثَبْ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الثَّوْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً فَيَرْجِعَ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ. وَاحْتَجَّ الشَّافِعِيُّ بِحَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:‏‏‏‏ " لَا يَحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يُعْطِيَ عَطِيَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَيَرْجِعَ فِيهَا إِلَّا الْوَالِدَ فِيمَا يُعْطِي وَلَدَهُ ".

عبداللہ بن عمر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم کا اسی حدیث پر عمل ہے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کسی ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو پھر اسے واپس لینے کا اختیار نہیں، اور جو کسی غیر ذی محرم کو کوئی چیز بطور ہبہ دے تو اس کے لیے اسے واپس لینا جائز ہے جب اسے اس کا بدلہ نہ دیا گیا ہو، یہی ثوری کا قول ہے، ۳- اور شافعی کہتے ہیں: کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی کو کوئی عطیہ دے پھر اسے واپس لے، سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے، شافعی نے عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کی حدیث سے استدلال کیا ہے جسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: "کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی عطیہ دے کر اسے واپس لے سوائے باپ کے جو اپنے بیٹے کو دے"۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۸۳ (۳۵۳۹) ، سنن النسائی/الہبة ۲ (۳۷۲۰) ، و ۴ (۳۷۳۳) ، سنن ابن ماجہ/الہبات ۱ (۲۳۷۷) ، (تحفة الأشراف : ۵۷۴۳ و ۷۰۹۷) ، و مسند احمد (۲/۲۷، ۷۸) (ویأتي برقم ۲۱۳۲) (صحیح)

عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1300

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ قَدْ أَذِنَ لِأَهْلِ الْعَرَايَا، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَبِيعُوهَا بِمِثْلِ خَرْصِهَا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ هَكَذَا رَوَى مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى أَيُّوبُ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ "، ‏‏‏‏‏‏وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَنَّهُ رَخَّصَ فِي الْعَرَايَا "، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا أَصَحُّ مِنْ حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق.

زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اندازہ لگا کر اسے اتنی ہی کھجور میں بیچنے کی اجازت دی ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- زید بن ثابت رضی الله عنہ کی حدیث کو محمد بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے۔ اور ایوب، عبیداللہ بن عمر اور مالک بن انس نے نافع سے اور نافع نے ابن عمر سے روایت کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے، ۲- اس باب میں ابوہریرہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔ اور اسی سند سے ابن عمر نے زید بن ثابت سے اور انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ آپ نے بیع عرایا کی اجازت دی۔ اور یہ محمد بن اسحاق کی حدیث سے زیادہ صحیح ہے ۲؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۷۵ (۲۱۷۲، ۲۱۷۳) ، و۸۲ (۲۱۸۴) ، و ۸۴ (۲۱۹۲) ، والشرب والمساقاة ۱۷ (۲۳۸۰) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۴ (۱۵۳۹) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۰ (۳۳۶۲) ، سنن النسائی/البیوع ۳۲ (۴۵۳۶، ۴۵۴۰) ، و ۳۴ (۴۵۴۳، ۴۵۴۳) ، سنن ابن ماجہ/التجارات۵۵ (۲۲۶۸، ۲۲۶۹) ، (تحفة الأشراف : ۳۷۲۳) ، وط/البیوع ۹ (۱۴) ، و مسند احمد (۵/۱۸۱، ۱۸۲، ۱۸۸، ۱۹۲) ویأتي برقم ۱۳۰۲ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : عرایا کی صورت یہ ہے مثلاً کوئی شخص اپنے باغ کے دو ایک درخت کا پھل کسی مسکین کو دیدے لیکن دینے کے بعد باربار اس کے آنے جانے سے اسے تکلیف پہنچے تو کہے : بھائی اندازہ لگا کر خشک یا تر کھجور ہم سے لے لو اور اس درخت کا پھل ہمارے لیے چھوڑ دو ہر چند کہ یہ مزابنہ ہے لیکن چونکہ یہ ایک ضرورت ہے ، اور وہ بھی مسکینوں کو مل رہا ہے اس لیے اسے جائز قرار دیا گیا ہے۔ ۲؎ : مطلب یہ ہے کہ محمد بن اسحاق نے «عن نافع ، عن ابن عمر ، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے : محاقلہ اور مزابنہ سے ممانعت کو عرایا والے جملے کے ساتھ روایت کیا ہے ، جب کہ ایوب وغیرہ نے «عن نافع ، عن ابن عمر»کے طریق سے (یعنی مسند ابن عمر سے) صرف محاقلہ و مزابنہ کی ممانعت والی بات ہی روایت کی ہے ، نیز «عن أيوب ، عن ابن عمر ، عن زيد بن ثابت» کے طریق سے بھی ایک روایت ہے مگر اس میں محمد بن اسحاق والے حدیث کے دونوں ٹکڑے ایک ساتھ نہیں ہیں ، بلکہ صرف «عرایا» والا ٹکڑا ہی ہے ، اور بقول مؤلف یہ روایت زیادہ صحیح ہے (یہ روایت آگے آ رہی ہے)۔

عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1301

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ "، ‏‏‏‏‏‏أَوْ كَذَا.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم میں عرایا کے بیچنے کی اجازت دی ہے یا ایسے ہی کچھ آپ نے فرمایا۔ راوی کو شک ہے کہ حدیث کے یہی الفاظ ہیں یا کچھ فرق ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۸۳ (۲۱۹۰) ، والشرب والمساقاة ۱۷ (۲۳۸۲) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۴ (۱۵۴۱) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۱ (۳۳۶۴) ، سنن النسائی/البیوع ۳۵ (۴۵۴۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۹۴۳) ، و مسند احمد (۲/۲۳۷) (صحیح)

 

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ حُصَيْنٍ نَحْوَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَرُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ مَالِكٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِي خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ ".

اس سند سے سابقہ حدیث کی طرح روایت آئی ہے۔ مالک ۱؎ سے یہ حدیث مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق میں یا پانچ وسق سے کم میں عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : یہ اسی سند سے اسی حدیث کی تکرار ہے ، کیونکہ سبھی کے یہاں یہ حدیث اسی سند («مالك ، عن داود به») سے مروی ہے۔

عاریت والی بیع کے جائز ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1302

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْخَصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا بِخَرْصِهَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَيْهِ عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيُّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ إِنَّ الْعَرَايَا مُسْتَثْنَاةٌ مِنْ جُمْلَةِ نَهْيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " إِذْ نَهَى عَنِ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجُّوا "، ‏‏‏‏‏‏بِحَدِيثِ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا لَهُ:‏‏‏‏ أَنْ يَشْتَرِيَ مَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ التَّوْسِعَةَ عَلَيْهِمْ فِي هَذَا لِأَنَّهُمْ شَكَوْا إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالُوا:‏‏‏‏ لَا نَجِدُ مَا نَشْتَرِي مِنَ الثَّمَرِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا بِالتَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَخَّصَ لَهُمْ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَشْتَرُوهَا، ‏‏‏‏‏‏فَيَأْكُلُوهَا رُطَبًا.

زید بن ثابت رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندازہ لگا کر عرایا کو بیچنے کی اجازت دی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ جس میں شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی میں شامل ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے من جملہ جن چیزوں سے منع فرمایا ہے اس سے عرایا مستثنیٰ ہے، اس لیے کہ آپ نے محاقلہ اور مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔ ان لوگوں نے زید بن ثابت اور ابوہریرہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پانچ وسق سے کم خریدنا جائز ہے، ۳- بعض اہل علم کے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیش نظر اس سلسلہ میں توسع اور گنجائش دینا ہے، اس لیے کہ عرایا والوں نے آپ سے شکایت کی اور عرض کیا کہ خشک کھجور کے سوا ہمیں کوئی اور چیز میسر نہیں جس سے ہم تازہ کھجور خرید سکیں۔ تو آپ نے انہیں پانچ وسق سے کم میں خریدنے کی اجازت دے دی تاکہ وہ تازہ کھجور کھا سکیں۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۳۰۰ (صحیح)

بیع عرایا سے متعلق ایک اور باب

حد یث نمبر - 1303

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، وَسَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ حَدَّثَاهُ، ‏‏‏‏‏‏" أَنَّ ّرَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا لِأَصْحَابِ الْعَرَايَا، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّهُ قَدْ أَذِنَ لَهُمْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ بَيْعِ الْعِنَبِ بِالزَّبِيبِ، ‏‏‏‏‏‏وَعَنْ كُلِّ ثَمَرٍ بِخَرْصِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہما کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ یعنی سوکھی کھجوروں کے عوض درخت پر لگی کھجور بیچنے سے منع فرمایا، البتہ آپ نے عرایا والوں کو اجازت دی، اور خشک انگور کے عوض تر انگور بیچنے سے اور اندازہ لگا کر کوئی بھی پھل بیچنے سے منع فرمایا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۸۳ (۲۱۹۱) ، والشرب والمساقاة ۱۷ (۲۳۸۴) ، صحیح مسلم/البیوع ۱۴ (۱۵۴۰) ، سنن ابی داود/ البیوع ۲۰ (۲۳۶۳) ، سنن النسائی/البیوع ۳۵ (۴۵۴۶) ، (تحفة الأشراف : ۳۵۵۲و۴۶۴۶) و مسند احمد (۴/۲) (صحیح)

بیع میں نجش کے حرام ہونے کا بیان

حد یث نمبر - 1304

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، وَأَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ قُتَيْبَةُ:‏‏‏‏ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " لَا تَنَاجَشُوا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَسٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا النَّجْشَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ وَالنَّجْشُ أَنْ يَأْتِيَ الرَّجُلُ الَّذِي يَفْصِلُ السِّلْعَةَ إِلَى صَاحِبِ السِّلْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَسْتَامُ بِأَكْثَرَ مِمَّا تَسْوَى وَذَلِكَ عِنْدَمَا يَحْضُرُهُ الْمُشْتَرِي، ‏‏‏‏‏‏يُرِيدُ أَنْ يَغْتَرَّ الْمُشْتَرِي بِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ مِنْ رَأْيِهِ الشِّرَاءُ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا يُرِيدُ أَنْ يَخْدَعَ الْمُشْتَرِيَ بِمَا يَسْتَامُ، ‏‏‏‏‏‏وَهَذَا ضَرْبٌ مِنَ الْخَدِيعَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ الشَّافِعِيُّ:‏‏‏‏ وَإِنْ نَجَشَ رَجَلٌ فَالنَّاجِشُ آثِمٌ فِيمَا يَصْنَعُ، ‏‏‏‏‏‏وَالْبَيْعُ جَائِزٌ لِأَنَّ الْبَائِعَ غَيْرُ النَّاجِشِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نجش نہ کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن عمر اور انس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، ان لوگوں نے «نجش» کو ناجائز کہا ہے، ۴- «نجش» یہ ہے کہ ایسا آدمی جو سامان کے اچھے برے کی تمیز رکھتا ہو سامان والے کے پاس آئے اور اصل قیمت سے بڑھا کر سامان کی قیمت لگائے اور یہ ایسے وقت ہو جب خریدار اس کے پاس موجود ہو، مقصد صرف یہ ہو کہ اس سے خریدار دھوکہ کھا جائے اور وہ (دام بڑھا چڑھا کر لگانے والا) خریدنے کا خیال نہ رکھتا ہو بلکہ صرف یہ چاہتا ہو کہ اس کی قیمت لگانے کی وجہ سے خریدار دھوکہ کھا جائے۔ یہ دھوکہ ہی کی ایک قسم ہے، ۵- شافعی کہتے ہیں: اگر کوئی آدمی «نجش» کرتا ہے تو اپنے اس فعل کی وجہ سے وہ یعنی «نجش» کرنے والا گنہگار ہو گا اور بیع جائز ہو گی، اس لیے کہ بیچنے والا تو «نجش» نہیں کر رہا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/البیوع ۵۸ (۲۱۴۰) ، و۶۴ (۲۱۵۰) ، و۷۰ (۲۱۶۰) ، والشروط ۸ (۲۷۲۳) ، صحیح مسلم/النکاح ۶ (۱۴۱۳/۵۲) ، سنن ابی داود/ البیوع ۴۶ (۳۴۳۸) ، سنن النسائی/البیوع ۱۶ (۴۵۱۰) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۳ (۲۱۷۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۱۲۳) ، و موطا امام مالک/البیوع ۴۵ (۹۶) ، و مسند احمد (۲/۲۳۸، ۴۷۴، ۴۸۷) ، وانظر ما تقدم بأرقام: ۱۱۳۴، ۱۱۹۰، ۱۲۲۲) (صحیح)

(ترازو) جھکا کر (زیادہ) تولنے کا بیان

حد یث نمبر - 1305

حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ جَلَبْتُ أَنَا وَمَخْرَفَةُ الْعَبْدِيُّ بَزًّا مِنْ هَجَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَاوَمَنَا بِسَرَاوِيلَ وَعِنْدِي وَزَّانٌ يَزِنُ بِالْأَجْرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " لِلْوَزَّانِ زِنْ وَأَرْجِحْ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ سُوَيْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَسْتَحِبُّونَ الرُّجْحَانَ فِي الْوَزْنِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَوَى شُعْبَةُ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سِمَاكٍ، فَقَالَ:‏‏‏‏ عَنْ أَبِي صَفْوَانَ وَذَكَرَ الْحَدِيثَ.

سوید بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مخرمہ عبدی دونوں مقام ہجر سے ایک کپڑا لے آئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ نے ہم سے ایک پائجامے کا مول بھاؤ کیا۔ میرے پاس ایک تولنے ولا تھا جو اجرت لے کر تولتا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تولنے والے سے فرمایا: "جھکا کر تول"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سوید رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اہل علم جھکا کر تولنے کو مستحب سمجھتے ہیں، ۳- اس باب میں جابر اور ابوہریرہ رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- اور شعبہ نے بھی اس حدیث کو سماک سے روایت کیا ہے، لیکن انہوں نے «عن سوید بن قیس» کی جگہ «عن ابی صفوان» کہا ہے پھر آگے حدیث ذکر کی ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۷ (۳۳۳۶) ، سنن النسائی/البیوع ۵۴ (۴۵۹۶) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۴ (۲۲۲۰) ، واللباس ۱۲ (۳۵۷۹) (تحفة الأشراف : ۴۸۱۰) ، و مسند احمد ۴/۳۵۲) ، وسنن الدارمی/البیوع ۴۷ (۲۶۲۷) (صحیح)

تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے اور تقاضے میں نرمی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1306

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ وَضَعَ لَهُ أَظَلَّهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ تَحْتَ ظِلِّ عَرْشِهِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي الْيَسَرِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ مَسْعُودٍ، ‏‏‏‏‏‏وَعُبَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَجَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کسی تنگ دست (قرض دار) کو مہلت دے یا اس کا کچھ قرض معاف کر دے، تو اللہ اسے قیامت کے دن اپنے عرش کے سایہ کے نیچے جگہ دے گا جس دن اس کے سایہ کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہو گا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے، ۲- اس باب میں ابویسر (کعب بن عمرو)، ابوقتادہ، حذیفہ، ابن مسعود، عبادہ اور جابر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف وانظر مسند احمد (۲/۳۵۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۳۲۴) (صحیح)

تنگ دست قرض دار کو مہلت دینے اور تقاضے میں نرمی کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1307

حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " حُوسِبَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ يُوجَدْ لَهُ مِنَ الْخَيْرِ شَيْءٌ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنَّهُ كَانَ رَجُلًا مُوسِرًا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يُخَالِطُ النَّاسَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ يَأْمُرُ غِلْمَانَهُ، ‏‏‏‏‏‏أَنْ يَتَجَاوَزُوا عَنِ الْمُعْسِرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ:‏‏‏‏ نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْهُ تَجَاوَزُوا عَنْهُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبُو الْيَسَرِ كَعْبُ بْنُ عَمْرٍو.

ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم سے پہلی امتوں میں سے ایک آدمی کا حساب (اس کی موت کے بعد) لیا گیا، تو اس کے پاس کوئی نیکی نہیں ملی، سوائے اس کے کہ وہ ایک مالدار آدمی تھا، لوگوں سے لین دین کرتا تھا اور اپنے خادموں کو حکم دیتا تھا کہ (تقاضے کے وقت) تنگ دست سے درگزر کریں، تو اللہ تعالیٰ نے (فرشتوں سے) فرمایا: ہم اس سے زیادہ اس کے (درگزر کے) حقدار ہیں، تم لوگ اسے معاف کر دو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۶ (البیوع ۲۷) ، (۱۵۶۱) ، (تحفة الأشراف : ۹۹۹۲) ، و مسند احمد (۴/۱۲۰) (صحیح)

مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے

حد یث نمبر - 1308

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيَتْبَعْ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشَّرِيدِ بْنِ سُوَيْدٍ الثَّقَفِيِّ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: "مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے ۱؎ اور جب تم میں سے کوئی کسی مالدار کی حوالگی میں دیا جائے تو چاہیئے کہ اس کی حوالگی اسے قبول کرے" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: اس باب میں ابن عمر اور شرید بن سوید ثقفی رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الحوالة ۲ (۲۲۸۸) ، والاستقراض ۱۲ (۲۴۰۰) ، صحیح مسلم/المساقاة ۷ (البیوع ۲۸) (۱۵۶۴) ، سنن ابی داود/ البیوع ۱۰ (۳۳۴۵) ، سنن النسائی/البیوع ۱۰۰ (۴۶۹۲) ، و ۱۰۱ (۴۶۹۵) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۸ (الأحکام ۴۸) ، (۲۴۰۳) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۶۶۲) ، وط/البیوع ۴۰ (۸۴) ، و مسند احمد (۲/۲۴۵، ۲۵۴، ۲۶۰، ۳۱۵، ۳۷۷، ۳۸۰، ۴۶۳، ۴۶۵) ، سنن الدارمی/البیوع ۴۸ (۲۶۲۸) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : قرض کی ادائیگی کے باوجود قرض ادا نہ کرنا ٹال مٹول ہے ، بلا وجہ قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لینا کبیرہ گناہ ہے۔ ۲؎ : اپنے ذمہ کا قرض دوسرے کے ذمہ کر دینا یہی حوالہ ہے ، مثلاً زید عمرو کا مقروض ہے پھر زید مقابلہ بکر سے یہ کہہ کر کرا دے کہ اب میرے ذمہ کے قرض کی ادائیگی بکر کے سر ہے اور بکر اسے تسلیم بھی کر لے تو عمرو کو یہ حوالگی قبول کرنی چاہیئے ، اس میں گویا حسن معاملہ کی ترغیب ہے۔

مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے

حد یث نمبر - 1309

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْهَرَوِيُّ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا أُحِلْتَ عَلَى مَلِيءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاتْبَعْهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا تَبِعْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَمَعْنَاهُ:‏‏‏‏ إِذَا أُحِيلَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيٍّ فَلْيَتْبَعْ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى مَلِيءٍ، ‏‏‏‏‏‏فَاحْتَالَهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَدْ بَرِئَ الْمُحِيلُ وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْمُحِيلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ:‏‏‏‏ إِذَا تَوِيَ مَالُ هَذَا بِإِفْلَاسِ الْمُحَالِ عَلَيْهِ فَلَهُ أَنْ يَرْجِعَ عَلَى الْأَوَّلِ، ‏‏‏‏‏‏وَاحْتَجُّوا بِقَوْلِ عُثْمَانَ وَغَيْرِهِ، ‏‏‏‏‏‏حِينَ قَالُوا:‏‏‏‏ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى، ‏‏‏‏‏‏قَالَ إِسْحَاق:‏‏‏‏ مَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ لَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوِيَ هَذَا إِذَا أُحِيلَ الرَّجُلُ عَلَى آخَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ مَلِيٌّ فَإِذَا هُوَ مُعْدِمٌ، ‏‏‏‏‏‏فَلَيْسَ عَلَى مَالِ مُسْلِمٍ تَوًى.

عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مالدار آدمی کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ اور جب تم کسی مالدار کے حوالے کئے جاؤ تو اسے قبول کر لو، اور ایک بیع میں دو بیع نہ کرو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم میں سے کوئی قرض وصول کرنے میں کسی مالدار کے حوالے کیا جائے تو اسے قبول کرنا چاہیئے، ۳- بعض اہل علم کہتے ہیں کہ جب آدمی کو کسی مالدار کے حوالے کیا جائے اور وہ حوالہ قبول کر لے تو حوالے کرنے والا بری ہو جائے گا اور قرض خواہ کے لیے درست نہیں کہ پھر حوالے کرنے والے کی طرف پلٹے۔ یہی شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔ ۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں: کہ «محتال علیہ» "جس آدمی کی طرف تحویل کیا گیا ہے"، کے مفلس ہو جانے کی وجہ سے اس کے مال کے ڈوب جانے کا خطرہ ہو تو قرض خواہ کے لیے جائز ہو گا کہ وہ پہلے کی طرف لوٹ جائے، ان لوگوں نے اس بات پر عثمان رضی الله عنہ وغیرہ کے قول سے استدلال کیا ہے کہ مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے، ۵-اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: اس حدیث «ليس على مال مسلم توي» "مسلمان کا مال ضائع نہیں ہوتا ہے"، کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی قرض خواہ کسی کے حوالے کیا گیا اور اسے مالدار سمجھ رہا ہو لیکن درحقیقت وہ غریب ہو تو ایسی صورت میں مسلمان کا مال ضائع نہ ہو گا (اور وہ اصل قرض دار سے اپنا مال طلب کر سکتا ہے)۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الصدقات ۸ (الأحکام ۴۸) ، (۲۴۰۴) ، (تحفة الأشراف : ۸۵۳۵) ، و مسند احمد (۲/۷۱) (صحیح)

بیع ملامسہ اور بیع منابذہ کا بیان

حد یث نمبر - 1310

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْمُنَابَذَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُلَامَسَةِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَمَعْنَى هَذَا الْحَدِيثِ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ إِذَا نَبَذْتُ إِلَيْكَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ بَيْنِي وَبَيْنَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُلَامَسَةُ أَنْ يَقُولَ:‏‏‏‏ إِذَا لَمَسْتَ الشَّيْءَ فَقَدْ وَجَبَ الْبَيْعُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنْ كَانَ لَا يَرَى مِنْهُ شَيْئًا مِثْلَ مَا يَكُونُ فِي الْجِرَابِ أَوْ غَيْرِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا مِنْ بُيُوعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، ‏‏‏‏‏‏فَنَهَى عَنْ ذَلِكَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع منابذہ اور بیع ملامسہ سے منع فرمایا۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابوسعید اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں تمہاری طرف یہ چیز پھینک دوں تو میرے اور تمہارے درمیان بیع واجب ہو جائے گی۔ (یہ منابذہ کی صورت ہے)اور ملامسہ یہ ہے کہ کوئی شخص یہ کہے: جب میں یہ چیز چھولوں تو بیع واجب ہو جائے گی اگرچہ وہ سامان کو بالکل نہ دیکھ رہا ہو۔ مثلاً تھیلے وغیرہ میں ہو۔ یہ دونوں جاہلیت کی مروج بیعوں میں سے تھیں لہٰذا آپ نے اس سے منع فرمایا ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلاة ۱۰ (۳۶۸) ، ومواقیت الصلاة ۳۰ (۵۸۴) ، والبیوع ۶۳ (۲۱۴۶) ، واللباس ۲۰ (۵۸۱۹) ، و۲۱ (۵۸۲۱) ، صحیح مسلم/البیوع ۱ (۱۵۱۱) ، سنن النسائی/البیوع ۲۳ (۴۵۱۳) ، و۲۶ (۴۵۱۷ و ۴۵۲۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۱۲ (۲۱۶۹) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۶۶۱) ، وط/البیوع ۳۵ (۷۶) ، واللباس ۸ (۱۷) ، و مسند احمد (۲/۳۷۹، ۴۱۹، ۴۶۴) ، ۴۷۶، ۴۸۰) ، ۴۹۱) ، ۴۹۶، ۵۲۱) ، ۵۲۹) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : کیونکہ اس میں دھوکہ ہے ، «مبیع» (سودا) مجہول ہے۔

غلے اور کھجور میں بیع سلف (پیشگی قیمت ادا کرنے) کا بیان

حد یث نمبر - 1311

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي الْمِنْهَالِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهُمْ يُسْلِفُونَ فِي الثَّمَرِ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ أَسْلَفَ، ‏‏‏‏‏‏فَلْيُسْلِفْ فِي كَيْلٍ مَعْلُومٍ، ‏‏‏‏‏‏وَوَزْنٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى، ‏‏‏‏‏‏وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبْزَى. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ ابْنِ عَبَّاسٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏أَجَازُوا السَّلَفَ فِي الطَّعَامِ، ‏‏‏‏‏‏وَالثِّيَابِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏مِمَّا يُعْرَفُ حَدُّهُ، ‏‏‏‏‏‏وَصِفَتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَاخْتَلَفُوا فِي السَّلَمِ فِي الْحَيَوَانِ، ‏‏‏‏‏‏فَرَأَى بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ جَائِزًا، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، ‏‏‏‏‏‏السَّلَمَ فِي الْحَيَوَانِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ سُفْيَانَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَبُو الْمِنْهَالِ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُطْعِمٍ.

عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور اہل مدینہ پھلوں میں سلف کیا کرتے تھے یعنی قیمت پہلے ادا کر دیتے تھے، آپ نے فرمایا: "جو سلف کرے وہ متعین ناپ تول اور متعین مدت میں سلف کرے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابن عباس رضی الله عنہما کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اس باب میں ابن ابی اوفی اور عبدالرحمٰن بن ابزی رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ یہ لوگ غلہ، کپڑا، اور جن چیزوں کی حد اور صفت معلوم ہو اس کی خریداری کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں، ۴- جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے میں اختلاف ہے، ۵- بعض اہل علم جانور خریدنے کے لیے پیشگی رقم دینے کو جائز کہتے ہیں۔ شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور خریدنے کے لیے پیشگی دینے کو مکروہ سمجھا ہے۔ سفیان اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/السلم ۱ (۲۲۳۹) ، و۲ (۲۲۴۰) ، و ۷ (۲۲۵۳) ، صحیح مسلم/المساقاة ۲۵ (۱۶۰۴) ، سنن ابی داود/ البیوع ۵۷ (۳۴۶۳) ، سنن النسائی/البیوع ۶۳ (۴۶۲۰) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۹ (۴۴۸۰) ، (تحفة الأشراف : ۵۸۲۰) ، و مسند احمد (۱/۲۱۷، ۲۲۲، ۲۸۲، ۳۵۸) (صحیح)

مشترکہ زمین جس کا حصہ دار اپنا حصہ بیچنا چاہے

حد یث نمبر - 1312

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ كَانَ لَهُ شَرِيكٌ فِي حَائِطٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَا يَبِيعُ نَصِيبَهُ مِنْ ذَلِكَ، ‏‏‏‏‏‏حَتَّى يَعْرِضَهُ عَلَى شَرِيكِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ إِسْنَادُهُ لَيْسَ بِمُتَّصِلٍ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْت مُحَمَّدًا يَقُولُ:‏‏‏‏ سُلَيْمَانُ الْيَشْكُرِيُّ، ‏‏‏‏‏‏يُقَالُ:‏‏‏‏ إِنَّهُ مَاتَ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَلَمْ يَسْمَعْ مِنْهُ قَتَادَةُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا أَبُو بِشْرٍ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ مُحَمَّدٌ:‏‏‏‏ وَلَا نَعْرِفُ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ سَمَاعًا مِنْ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏إِلَّا أَنْ يَكُونَ عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَعَلَّهُ سَمِعَ مِنْهُ فِي حَيَاةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَإِنَّمَا يُحَدِّثُ قَتَادَةُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ صَحِيفَةِ سُلَيْمَانَ الْيَشْكُرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لَهُ كِتَابٌ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ الْعَطَّارُ عَبْدُ الْقُدُّوسِ قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ:‏‏‏‏ قَالَ سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ:‏‏‏‏ ذَهَبُوا بِصَحِيفَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ إِلَى الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ فَأَخَذَهَا، ‏‏‏‏‏‏أَوْ قَالَ:‏‏‏‏ فَرَوَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَذَهَبُوا بِهَا إِلَى قَتَادَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَرَوَاهَا، ‏‏‏‏‏‏وَأَتَوْنِي بِهَا، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ أَرْوِهَا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ رَدَدْتُهَا.

جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس آدمی کے باغ میں کوئی ساجھی دار ہو تو وہ اپنا حصہ اس وقت تک نہ بیچے جب تک کہ اسے اپنے ساجھی دار پر پیش نہ کر لے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- اس حدیث کی سند متصل نہیں ہے، ۲- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری کو کہتے سنا: سلیمان یشکری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں مر گئے تھے، ان سے قتادہ اور ابوبشر کا سماع نہیں ہے۔ محمد بن اسماعیل بخاری کہتے ہیں: میں نہیں جانتا ہوں کہ ان میں سے کسی نے سلیمان یشکری سے کچھ سنا ہو سوائے عمرو بن دینار کے، شاید انہوں نے جابر بن عبداللہ کی زندگی ہی میں سلیمان یشکری سے حدیث سنی ہو۔ وہ کہتے ہیں کہ قتادہ، سلیمان یشکری کی کتاب سے حدیث روایت کرتے تھے، سلیمان کے پاس ایک کتاب تھی جس میں جابر بن عبداللہ سے مروی احادیث لکھی تھیں، ۳- سلیمان تمیمی کہتے ہیں: لوگ جابر بن عبداللہ کی کتاب حسن بصری کے پاس لے گئے تو انہوں نے اسے لیا یا اس کی روایت کی۔ اور لوگ اسے قتادہ کے پاس لے گئے تو انہوں نے بھی اس کی روایت کی اور میرے پاس لے کر آئے تو میں نے اس کی روایت نہیں کی میں نے اسے رد کر دیا۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ مؤلف، وانظر مسند احمد (۳/۳۵۷) (صحیح لغیرہ) و أخرجہ کل من: صحیح مسلم/المساقاة ۲۸ (البیوع ۴۹) ، (۱۶۰۸) ، سنن ابی داود/ البیوع ۷۵ (۳۵۱۳) ، سنن النسائی/البیوع ۸۰ (۴۶۵۰) ، و ۱۰۷ (۴۷۰۴، ۴۷۰۵) ، (تحفة الأشراف : ۲۲۷۲) ، و مسند احمد (۳/۳۱۲، ۳۱۶، ۳۹۷) ، وسنن الدارمی/البیوع ۸۳ (۲۶۷۰) معناہ في سیاق حدیث ’’ الشفعة ‘‘

مخابرہ اور معاومہ کا بیان

حد یث نمبر - 1313

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ الْمُحَاقَلَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُزَابَنَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُخَابَرَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَالْمُعَاوَمَةِ، ‏‏‏‏‏‏وَرَخَّصَ فِي الْعَرَايَا ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع محاقلہ، مزابنہ ۱؎، مخابرہ ۲؎ اور معاومہ ۳؎ سے منع فرمایا، اور آپ نے عرایا ۴؎ کی اجازت دی ہے۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/البیوع ۱۶ (۱۵۳۶/۸۵) ، سنن ابی داود/ البیوع ۳۴ (۳۴۰۴) ، سنن النسائی/الأیمان والمزارعة ۴۵ (۳۹۱۰) ، والبیوع ۷۴ (۴۶۳۷) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۵۴ (۲۲۶۶) ، (تحفة الأشراف : ۲۶۶۶) ، و مسند احمد (۳/۳۱۳، ۳۵۶، ۳۶۰، ۳۶۴، ۳۹۱، ۳۹۲) وانظر ما تقدم برقم ۱۲۹۰، وما عند صحیح البخاری/البیوع ۸۳ (۲۳۸۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : محاقلہ اور مزابنہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم (۱۲۲۴)۔ ۲؎ : مخابرہ کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حدیث رقم (۱۲۹۰)۔ ۳؎ : عرایا کی تفسیر کے لیے دیکھئیے حاشیہ حدیث رقم (۱۳۰۰)۔ ۴؎ : «بیع سنین» کو بیع معاومہ بھی کہتے ہیں ، اس کی صورت یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کو کئی سالوں کے لیے بیچ دے ، یہ بیع جائز نہیں ہے کیونکہ یہ معدوم کی بیع کی قبیل سے ہے ، اس میں دھوکہ ہے ، ممکن ہے کہ درخت میں پھل ہی نہ آئے ، یا آئے مگر جتنی قیمت دی ہے اس سے زیادہ پھل آئے۔

چیزوں کی قیمت مقرر کرنے کا بیان

حد یث نمبر - 1314

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَثَابِتٌ، وَحُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:‏‏‏‏ غَلَا السِّعْرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالُوا:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏سَعِّرْ لَنَا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّزَّاقُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَلْقَى رَبِّي، ‏‏‏‏‏‏وَلَيْسَ أَحَدٌ مِنْكُمْ، ‏‏‏‏‏‏يَطْلُبُنِي بِمَظْلِمَةٍ فِي دَمٍ، ‏‏‏‏‏‏وَلَا مَالٍ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (غلہ وغیرہ کا) نرخ بڑھ گیا، تو لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ ہمارے لیے نرخ مقرر کر دیجئیے، آپ نے فرمایا: "نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ ہی ہے، وہی روزی تنگ کرنے والا، کشادہ کرنے والا اور کھولنے والا اور بہت روزی دینے والا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی مجھ سے جان و مال کے سلسلے میں کسی ظلم (کے بدلے) کا مطالبہ کرنے والا نہ ہو"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/ البیوع ۵۱ (۳۴۵۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۲۷ (۲۲۰۰) ، (تحفة الأشراف : ۳۱۸ و ۶۱۴ و ۱۱۵۸) ، و مسند احمد (۳/۲۸۶) (صحیح)

بیع میں دھوکہ دینے کی حرمت کا بیان

حد یث نمبر - 1315

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، ‏‏‏‏‏‏فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، ‏‏‏‏‏‏فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ مَا هَذَا "، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ "، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي الْحَمْرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏وَابْنِ عَبَّاسٍ، ‏‏‏‏‏‏وَبُرَيْدَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَأَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ، ‏‏‏‏‏‏وَحُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا الْغِشَّ وَقَالُوا:‏‏‏‏ الْغِشُّ حَرَامٌ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: "غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟" اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا: "اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں"، پھر آپ نے فرمایا: "جو دھوکہ دے ۱؎، ہم میں سے نہیں ہے" ۲؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲ - اس باب میں ابن عمر، ابوحمراء، ابن عباس، بریدہ، ابوبردہ بن دینار اور حذیفہ بن یمان رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ دھوکہ دھڑی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسے حرام کہتے ہیں۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان ۴۳ (۱۰۲) ، سنن ابی داود/ البیوع ۵۲ (۳۴۵۲) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۶ (۲۲۲۴) ، (تحفة الأشراف : ۱۳۹۷۹) ، و مسند احمد (۲/۲۴۲) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ بیع میں دھوکہ دہی کی مختلف صورتیں ہیں ، مثلاً سودے میں کوئی عیب ہو اسے ظاہر نہ کرنا ، اچھے مال میں ردی اور گھٹیا مال کی ملاوٹ کر دینا ، سودے میں کسی اور چیز کی ملاوٹ کر دینا تاکہ اس کا وزن زیادہ ہو جائے وغیرہ وغیرہ۔ ۲؎ : " ہم میں سے نہیں " ، کا مطلب ہے مسلمانوں کے طریقے پر نہیں ، اس کا یہ فعل مسلمان کے فعل کے منافی ہے۔

اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1316

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:‏‏‏‏ اسْتَقْرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنًّا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطَاهُ سِنًّا خَيْرًا مِنْ سِنِّهِ، ‏‏‏‏‏‏وَقَالَ:‏‏‏‏ " خِيَارُكُمْ أَحَاسِنُكُمْ قَضَاءً ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي رَافِعٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَاهُ شُعْبَةُ، وُسُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏لَمْ يَرَوْا بِاسْتِقْرَاضِ السِّنِّ بَأْسًا مِنَ الْإِبِلِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ الشَّافِعِيِّ، ‏‏‏‏‏‏وَأَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ ذَلِكَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا اور آپ نے اسے اس سے بہتر اونٹ دیا اور فرمایا: "تم میں سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- اسے شعبہ اور سفیان نے بھی سلمہ سے روایت کیا ہے، ۳- اس باب میں ابورافع رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے، ۴- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ کسی بھی عمر کا اونٹ قرض لینے کو مکروہ نہیں سمجھتے ہیں، ۵- اور بعض لوگوں نے اسے مکروہ جانا ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوکالة ۵ (۲۳۰۵) ، و۶ (۲۳۰۶) ، والاستقراض ۴ (۲۳۹۰) ، و ۶ (۲۳۹۲) ، و ۷ (۲۳۹۳) ، والہبة ۲۳ (۲۶۰۶) ، و ۲۵ (۲۶۰۹) ، صحیح مسلم/المساقاة ۲۲ (البیوع ۴۳) (۱۶۰۱) ، سنن النسائی/البیوع ۶۴ (۴۶۲۲) ، و۱۰۳ (۴۶۹۷) ، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۱۶ (الأحکام ۵۶) ، (۲۳۲۲) ، (مقتصراً علی قولہ المرفوع) (تحفة الأشراف : ۱۴۹۶۳) ، و مسند احمد (۲/۳۷۴، ۳۹۳، ۴۱۶، ۴۳۱) ، ۴۵۶، ۴۷۶، ۵۰۹) (صحیح)

اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1317

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَجُلًا تَقَاضَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَغْلَظَ لَهُ فَهَمَّ بِهِ أَصْحَابُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " دَعُوهُ فَإِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا "، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ قَالَ:‏‏‏‏ " اشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَطَلَبُوهُ فَلَمْ يَجِدُوا إِلَّا سِنَّا أَفْضَلَ مِنْ سِنِّهِ "، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ:‏‏‏‏ " اشْتَرُوهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ، ‏‏‏‏‏‏فَإِنَّ خَيْرَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً ".

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (قرض کا) تقاضہ کیا اور سختی کی، صحابہ نے اسے دفع کرنے کا قصد کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، کیونکہ حقدار کو کہنے کا حق ہے"، پھر آپ نے فرمایا: "اسے ایک اونٹ خرید کر دے دو"، لوگوں نے تلاش کیا تو انہیں ایسا ہی اونٹ ملا جو اس کے اونٹ سے بہتر تھا، آپ نے فرمایا: "اسی کو خرید کر دے دو، کیونکہ تم میں بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں بہتر ہوں"۔

تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)

 

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

مولف نے محمد بن بشار کی سند سے اسی طرح کی حدیث روایت کی۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم ۱۳۱۶

اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1318

حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْأَبِي رَافِعٍ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَكْرًا، ‏‏‏‏‏‏فَجَاءَتْهُ إِبِلٌ مِنَ الصَّدَقَةِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ أَبُو رَافِعٍ:‏‏‏‏ " فَأَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقْضِيَ الرَّجُلَ بَكْرَهُ "، ‏‏‏‏‏‏فَقُلْتُ:‏‏‏‏ لَا أَجِدُ فِي الْإِبِلِ إِلَّا جَمَلًا خِيَارًا رَبَاعِيًا، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " أَعْطِهِ إِيَّاهُ فَإِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.

ابورافع رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جوان اونٹ قرض لیا، پھر آپ کے پاس صدقے کا اونٹ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں اس آدمی کا اونٹ ادا کر دوں، میں نے آپ سے عرض کیا: مجھے چار دانتوں والے ایک عمدہ اونٹ کے علاوہ کوئی اور اونٹ نہیں مل رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: "اسے اسی کو دے دو، کیونکہ لوگوں میں سب سے اچھے وہ ہیں جو قرض کی ادائیگی میں سب سے اچھے ہوں" ۱؎۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/المساقاة ۲۲ (البیوع ۴۳) (۱۶۰۰) ، سنن ابی داود/ البیوع ۱۱ (۳۳۴۶) ، سنن النسائی/البیوع ۶۴ (۴۶۲۱) ، سنن ابن ماجہ/التجارات ۶۲ (۲۲۸۵) ، (تحفة الأشراف : ۱۲۰۲۵) ، وط/البیوع ۴۳ (۸۹) ، و مسند احمد (۶/۳۹۰) ، وسنن الدارمی/البیوع ۳۱ (۲۵۰۷) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقروض اگر خود بخود اپنی رضا مندی سے ادائیگی قرض کے وقت واجب الادا قرض سے مقدار میں زیادہ یا بہتر اور عمدہ ادا کرے تو یہ جائز ہے ، اور اگر قرض خواہ قرض دیتے وقت یہ شرط کر لے تو یہ سود ہو گا جو بہر صورت حرام ہے۔

اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1319

حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّازِيُّ، عَنْ مُغِيرَةَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ سَمْحَ الْبَيْعِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الشِّرَاءِ، ‏‏‏‏‏‏سَمْحَ الْقَضَاءِ ". قَالَ:‏‏‏‏ وَفِي الْبَاب، ‏‏‏‏‏‏عَنْ جَابِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ يُونُسَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ بیچنے، خریدنے اور قرض کے مطالبہ میں نرمی و آسانی کو پسند کرتا ہے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث غریب ہے، ۲- بعض لوگوں نے اس حدیث کو بسند «عن يونس عن سعيد المقبري عن أبي هريرة» روایت کی ہے، ۳- اس باب میں جابر رضی الله عنہ سے بھی روایت ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۱۲۲۴۶) (صحیح) (متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے، ورنہ حسن بصری کا سماع ابی ہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں ہے، انہوں نے تدلیساً ان سے یہ روایت کر سنن الدارمی/ ہے، ملاحظہ ہو الصحیحة: ۸۹۰۹)

اونٹ یا کوئی اور جانور قرض لینے کا بیان

حد یث نمبر - 1320

حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ، أَخْبَرَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ للَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ " غَفَرَ اللَّهُ لِرَجُلٍ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ قَبْلَكُمْ، ‏‏‏‏‏‏كَانَ سَهْلًا إِذَا بَاعَ سَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا اشْتَرَى سَهْلًا، ‏‏‏‏‏‏إِذَا اقْتَضَى ". قَالَ:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.

جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اللہ تعالیٰ نے ایک شخص کو جو تم سے پہلے تھا بخش دیا، جو نرمی کرنے والا تھا جب بیچتا اور جب خریدتا اور جب قرض کا مطالبہ کرتا"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث اس طریق سے حسن، صحیح، غریب ہے۔

تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف : ۳۰۱۸) وہو عند صحیح البخاری/البیوع ۱۶ (۲۰۷۶) ، وق في التجارات ۲۸ (۲۲۰۳) ، بسیاق آخر و مسند احمد (۳/۳۴۰) (صحیح)

مسجد میں خرید و فروخت کی ممانعت کا بیان

حد یث نمبر - 1321

حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْخَلَّالُ، حَدَّثَنَا عَارِمٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ " إِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَبِيعُ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ يَبْتَاعُ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا أَرْبَحَ اللَّهُ تِجَارَتَكَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِذَا رَأَيْتُمْ مَنْ يَنْشُدُ فِيهِ ضَالَّةً، ‏‏‏‏‏‏فَقُولُوا:‏‏‏‏ لَا رَدَّ اللَّهُ عَلَيْكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، ‏‏‏‏‏‏وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ، ‏‏‏‏‏‏كَرِهُوا الْبَيْعَ، ‏‏‏‏‏‏وَالشِّرَاءَ فِي الْمَسْجِدِ، ‏‏‏‏‏‏وَهُوَ قَوْلُ:‏‏‏‏ أَحْمَدَ، ‏‏‏‏‏‏وَإِسْحَاق، ‏‏‏‏‏‏وَقَدْ رَخَّصَ فِيهِ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ فِي الْبَيْعِ وَالشِّرَاءِ فِي الْمَسْجِدِ.

ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں خرید و فروخت کر رہا ہو تو کہو: اللہ تعالیٰ تمہاری تجارت میں نفع نہ دے، اور جب ایسے شخص کو دیکھو جو مسجد میں گمشدہ چیز (کا اعلان کرتے ہوئے اسے) تلاش کرتا ہو تو کہو: اللہ تمہاری چیز تمہیں نہ لوٹائے"۔

امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- ابوہریرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن غریب ہے، ۲- بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، وہ مسجد میں خرید و فروخت ناجائز سمجھتے ہیں۔ یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے، ۳- بعض اہل علم نے اس میں خرید و فروخت کی رخصت دی ہے ۱؎۔

تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/عمل الیوم واللیلة ۶۸ (۱۷۶) ، (تحفة الأشراف : ۱۴۵۹۱) (صحیح)

وضاحت: ۱؎ : ان لوگوں کا کہنا ہے کہ حدیث میں جو اس کی ممانعت آئی ہے وہ نہی تنزیہی ہے تحریمی نہیں ، یعنی نہ بیچنا بہتر ہے ، مگر یہ نری تاویل ہے ، جب صحیح حدیث میں بالصراحت ممانعت موجود ہے تو پھر مساجد میں خرید و فروخت سے باز رہتے ہوئے بازار اور مساجد میں فرق کو قائم رکھنا چاہیئے ، پہلی قومیں اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے احکام کی نافرمانیوں اور غلط تاویلوں کی وجہ سے تباہ ہو گئی تھیں۔ «اللهم أحفظنا بما تحفظ به عبادك الصالحين»