اسلامی نقطہ نظر سے کائنات انسانی کی عملی زندگی کی دو محور ہیں اول حقوق اللہ کہ جسے عبادات کہتے ہیں اور دو حقوق العباد کہ جسے معاملات کہا جاتا ہے یہی دو اصطلاحیں ہیں جو انسانی نظام حیات کے تمام اصول و قواعد اور قوانین کی بنیاد ہیں
ان دونوں میں چونکہ حقوق اللہ کی عمومیت حاصل ہے کہ اس کا تعلق کائنات انسانی کے ہر فرد سے ہے اس لئے مصنف کتاب نے پہلے ان کو بیان کیا اب اس کے بعد حقوق العباد یعنی معاملات کا بیان شروع کیا ہے جس کا سب سے اہم جزو بیع ہے۔
بیع کے معنی ہیں بیچنا یعنی فروخت کرنا لیکن کبھی اس کے معنی خریدنا بھی مراد ہوتے ہیں اس لئے بیع کا ترجمہ اصطلاحی طور پر خرید و فروخت کیا جاتا ہے۔
فخر الاسلام کا بیان ہے کہ اصطلاح شریعت میں آپس کی رضا مندی سے مال کے ساتھ مال بدلنا بیع کہلاتا ہے
بیع یعنی خرید و فروخت کا شرعی ہونا قرآن کریم کی اس آیت (وَاَحَلَّ اللّٰہ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا) 2۔ البقرۃ:275) (اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے) اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث جو (آگے آئیں گی) سے ثابت ہے
بیع یعنی خریدو فروخت میں بنیادی طورپر تین چیزیں ہوتی ہیں اول تو عقد بیع یعنی نفس معاملہ کہ ایک شخص کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور دوسرا اسے خریدتا ہے دوم مبیع یعنی وہ چیز جس کو فروخت کیا جاتا ہے اور سوم ثمن یعنی قیمت ان تینوں کے اعتبار سے فقہی طور پر بیع کی کچھ قسمیں ہیں۔ چنانچہ نفس معاملہ اور اس کے حکم کہ بیع صحیح ہوئی یا نہیں۔ کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں
1 نافذ 2موقوف 3فاسد 4باطل
بیع نافذ اس بیع کو کہتے ہیں کہ طرفین میں مال ہو یعنی بیچنے والے کے پاس بیع ہو خریدار کے پاس ثمن ہو اور عاقدین یعنی بیچنے والا اور خریدار دونوں عاقل ہوں نیز وہ دونوں بیع یا تو اصالۃ کریں یا وکالۃ اور دلالۃ جس بیع میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی وہ بیع بالکل صحیح اور نافذ ہو گی بیع موقوف اس بیع کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی چیز کو اس کی اجازت یا ولایت کے بغیر فروخت کرے۔ اس بیع کا حکم یہ ہے کہ جب تک کہ اصل مالک کی اجازت و رضا مندی حاصل نہ ہو جائے یہ بیع صحیح نہیں ہوتی۔ اجازت کے بعد صحیح ہو جاتی ہے بیع فاسد وہ بیع ہے جو باصلہ یعنی معاملہ کے اعتبار سے تو درست ہو مگر بوصفہ یعنی کسی خاص وجہ کی بنا پر درست نہ ہو بیع باطل اس بیع کو کہتے ہیں جو نہ باصلہ درست ہو اور نہ بوصفہ بیع فاسد اور بیع باطل کی تفصیل اور ان کی مثالیں ان شاء اللہ باب المنہی عنہا من البیوع میں ذکر کی جائیں گی
مبیع یعنی فروخت کی جانے والی چیز کے اعتبار سے بھی مبیع کی چار قسمیں ہیں۔
1مقائضہ 2 صرف 3 سلم 4 بیع مطلق
بیع مقائضہ یہ ہے کہ مبیع بھی مال اور ثمن بھی مال ہو مثلاً ایک شخص کپڑا دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں اس کو غلہ دے۔ گویا بیع کی یہ وہ صورت ہے جسے عرف عام میں تبادلہ مال کہا جاتا ہے۔ بیع صرف یہ ہے کہ نقد کا تبادلہ نقد سے کیا جائے مثلاً ایک شخص ایک روپیہ کا نوٹ دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں ایک روپیہ کے پیسے دے یا ایک شخص اشرفی دے اور دوسرا شخص اس کے بدلے میں اسے روپیہ دے گویا روپیہ بھنانا یا روپیہ کی ریزگاری لینا دینا بیع صرف کی ایک قسم ہے۔ بیع سلم یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کسی چیز کی قیمت پیشگی لے لے اور یہ طے ہو جائے کہ خریدار یہ چیز اتنی مدت مثلاً ایک دو مہینے کے بعد لے لے گا۔ بیع مطلق یہ ہے کہ کسی چیز کی بیع نقد کے عوض کی جائے مثلاً بیچنے والا ایک من گیہوں دے اور خریدار اس کی قیمت کے طور پر تیس روپے ادا کرے۔
ثمن یعنی قیمت کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں یہ ہے۔
1مرابحہ 2 تولیت 3ودیعت 4مساومت
مرابحہ کی یہ صورت ہے کہ بیچنے والا مبیع کو اپنے خریدار سے نفع لے کر فروخت کرے تولیت کی یہ صورت ہے کہ بیچنے والا مبیع کو بلا نفع کے اس قیمت پر فروخت کرے جتنی قیمت میں اس نے خود خریدی ہو اور مساومت کی صورت یہ ہے کہ بیچنے والا اور خریدار آپس کی رضا مندی سے کسی چیز کی خریدو فروخت چا ہے جس قیمت پر کریں اور اس میں بیچنے والے کی قیمت خرید کا کوئی لحاظ نہ ہو۔
کسب اور طلب حلال کا مطلب ہے اپنی معاشی ضروریات مثلاً روٹی کپڑے وغیرہ کے حصول کے لئے کمانا اور پاک روزی وحلال پیشہ کو بہرصورت اختیار کرنا چنانچہ اس باب میں کسب معاش کی فضیلت ذکر کی گئی ہے اور یہ بیان کیا گیا ہے کہ کون سا کسب اور کون سا پیشہ اچھا ہے اور کون سا برا ہے۔
فقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ سب سے بہتر کسب و پیشہ جہاد ہے اس کے بعد تجارت پھر زراعت اور پھر دستکاری یعنی کتابت وغیرہ۔
کسب یعنی کمانا فرض بھی ہے اور مستحب بھی اسی طرح مباح بھی ہے اور حرام بھی چنانچہ اتنا کمانا فرض ہے جو کمانے والے اور اس کے اہل و عیال کی معاشی ضروریات کے لئے اور اگر اس کے ذمہ قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے لئے کافی ہو جائے اس سے زیادہ کمانا مستحب ہے بشرطیکہ اس نیت کے ساتھ زیادہ کمائے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات سے جو کچھ بچے گا وہ فقراء و مساکین اور اپنے دوسرے مستحق اقرباء پر خرچ کروں گا اسی طرح ضروریات زندگی سے زیادہ کمانا اس صورت میں مباح ہے جب کہ نیت اپنی شان و شوکت اور اپنے وقار و تمکنت کی حفاظت ہو البتہ محض مال و دولت جمع کر کے فخر و تکبر کے اظہار کے لئے زیادہ حرام ہے اگرچہ حلال ذرائع ہی سے کیوں نہ کمایا جائے۔
کمانے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کمائی کو اپنی ذات پر اور اپنے اہل و عیال پر اس طرح خرچ کرے کہ نہ تو اسراف میں مبتلا ہو اور نہ بخل و تنگی کرے۔
جو شخص کمانے اور اپنی روزی خود فراہم کرنے پر قادر ہو اس پر لازم ہے کہ وہ کمائے اور جس طرح بھی ہو سکے حلال ذرائع سے اپنی اور اپنے اہل و عیال کی آبرومندانہ زندگی کے تحفظ کے لئے معاشی ضروریات خود فراہم کر کے دوسروں پر بار نہ بنے ہاں جو شخص کسی بھی مجبوری اور عذر کی وجہ سے کسب و کمائی پر قادر نہ ہو تو پھر اس کے لئے یہ ضروری ہو گا کہ وہ دوسروں سے سوال کر کے اپنی زندگی کی حفاظت کرے اگر اس صورت میں کوئی شخص محض اس وجہ سے کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا اس کی غیرت کو گوارا نہیں اس نے کسی سے سوال نہیں کیا یہاں تک کہ بھوک و افلاس نے اس کی زندگی کے چراغ کو گل کر دیا تو نہ صرف یہ کہ وہ اپنی موت کا خود ذمہ دار ہو گا بلکہ ایک گنہگار کی موت مرے گا۔ نیز جو شخص خود کما کر اپنا پیٹ بھرنے سے عاجز ہو تو اس کا حال جاننے والے پر یہ فرض ہے کہ وہ اس کی سفارش کرے جو اس کی مدد کرنے پر قادر ہو حضرت مولانا شاہ عبد العزیز دہلوی نے اس آیت کریمہ (يٰٓاَيُّہا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ) 2۔ البقرۃ:172) (اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے) کی تفسیر میں یہ لکھا ہے کہ سب سے بہتر کسب جہاد ہے بشرطیکہ جہاد کے ارادے کے وقت مال غنیمت کے حصول کا خیال دل میں قطعاً نہ ہو بلکہ نیت میں اخلاص ہو اس کے بعد تجارت کا درجہ ہے خاص طور پر وہ تجارت جو ایک ملک سے دوسرے ملک میں یا ایک شہر سے دوسرے شہر میں مسلمانوں کی ضروریات خاص کی چیزوں کو لانے لے جانے کا ذریعہ ہو اس قسم کی تجارت کرنے والا شخص اگر حصول منفعت کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی خدمت اور ان کی حاجت روائی کی نیت بھی رکھے تو اس کی تجارت عبادت کی بھی ایک صورت بن جائے گی۔ تجارت کے بعد زراعت کا درجہ ہے زراعت کا پیشہ بھی دنیاوی منفعت کے علاوہ اجر و ثواب کا ایک بڑا ذریعہ بنا جاتا ہے جب کہ اس میں مخلوق خدا یعنی انسانوں اور جانوروں کی غذائی ضروریات کی فراہمی کی نیت خیر اور اللہ تعالیٰ کی رحمت یعنی بارش وہوا وغیرہ پر توکل اور اعتماد ہو ان تینوں پیشوں کے علاوہ اور پیشے آپس میں کوئی فضیلت نہیں رکھتے البتہ کتابت کا پیشہ بہتر درجہ ضرور رکھتا ہے کیونکہ اس پیشے میں نہ صرف یہ کہ علم کی خدمت ہوتی ہے بلکہ دینی علوم، شرعی احکام، انبیاء اور بزرگوں کے احوال بھی یاد ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ بالا پیشوں کے بعد ان پیشوں کا درجہ آتا ہے جو بقاء عالم اور معاشرت وتمدن کی اصل ضروریات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں مثلاً معماری، بیلداری، خشت سازی، چونا بنانا گھی اور تیل نکالنا روئی بیچنا سوت کا تنا کپڑے سینا اور آٹا پیسنا وغیرہ یہ تمام کسب اور پیشے ان پیشوں سے بہتر ہیں جو محض تکلف و تزئین اور اظہار امارت و دولت کے کام آتے ہیں جیسے زردوزی و نقاشی مٹھائی بنانا عطر بنانا بیچنا اور رنگریزی وغیرہ تاہم یہ پیشے بھی اگر حسب موقع ہوں بایں طور کہ ان کی وجہ سے خلاف شرع امور کا ارتکاب نہ ہوتا ہو تو ان میں بھی کچھ کراہیت نہیں ہے۔ بخلاف ان پیشوں کے جن میں آلودگی نجاست مخلوق خدا کی بد خواہی گناہوں کے ارتکاب میں اعانت دین فروشی کذب و جہل سازی اور فریب و دغا کا دخل رہتا ہو جیسے شاخ کشی جاروب کشی دباغی احتکار غلہ حمالی مردہ شوئی کفن فروشی کٹنائی ناچنا گانا نقالی جرہ بازی (پہلے زمانے میں ایک مستقل پیشہ تھا کہ کچھ چہل باز شارع عام پر ایک شخص کو کھڑا کر دیتے جو راہ چلتے آدمی کو کوکھ میں اس طرح ٹھوکا مار دیتا کہ اسے یہ پتہ نہ چلتا کہ یہ کس کی حرکت ہے چنانچہ جب وہ اس پر حیران وپریشان ہوتا تو سب چہل باز اس پر قہقہے لگاتے اس کو جرہ بازی کہتے تھے) نقالی دلالی اور وکالت (جس میں جھوٹ فریب سے کام لیا جاتا ہو) امام اذان اور خدمت مسجد کی اجرت اور قرآن کی تلاوت و تعلیم کا معاوضہ لینا وغیرہ یہ سب پیشے مکروہ ہیں (شاہ عبد العزیز)
مغنی الطالب میں لکھا ہے کہ کسب اور کسب کرنے والے کی فضیلت احادیث میں بہت منقول ہے اسی طرح جو شخص کسب پر قادر ہونے کے باوجود از راہ کسل و سستی کسب نہ کرے بلکہ اپنی گزر اوقات کے لئے دوسروں سے مانگتا پھرے اس کے حق میں بڑی وعید بیان کی گئی ہے لیکن جو شخص خدا کی رزاقی پر اعتماد و بھروسہ کرتے ہوئے کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے اور نہ ہی اپنی دینی مصروفیات اور عبادت و اذکار میں خلل پڑنے کی وجہ سے کسب وغیرہ کرے تو اس وعید میں داخل نہیں بشرطیکہ اپنی امداد کے لئے دوسرے لوگوں کی طرف نہ تو اس کا دل متوجہ ہو اور نہ وہ کسی سے اپنی امداد و اعانت کی توقع رکھتا ہو کیونکہ اسے سوال دلی کہتے ہیں جو سوال زبانی سے کہیں بد تر چیز ہے۔
جو شخص اتنا مال زر رکھتا ہو جو اس کی معاشی ضروریات کے لئے کافی ہو یا اوقات وغیرہ اسے بقدر ضروریات روپیہ پیسہ مل جاتا ہو (مطلب یہ کہ گھر بیٹھے اسے کسی بھی جائز وسیلے سے بقدر ضروریات آمدنی ہو جاتی ہو) تو اس کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ عبادت وغیرہ میں مشغول رہے اپنے اوقات کسی کسب وغیرہ میں صرف نہ کرے ، اسی طرح دینی علوم کی تعلیم دینے والے مفتی، قاضی اور اسی زمرہ کے دوسرے لوگوں کے لئے بھی یہی حکم ہے اگر یہ لوگ بقدر کفایت ضروریات آمدنی رکھتے ہوں تو ان کو اپنے امور ہی میں مصروف رہنا چاہئے کسب وغیرہ میں مصروف نہ ہوں۔
جو شخص کسی کسب مثلاً تجارت وغیرہ کا پیشہ اختیار کرے تو اس پر فرض ہے کہ وہ صرف حلال اور جائز مال کمائے حرام سے کلیۃً اجتناب کرے اور اپنے پیشے و ہنر میں احکام شرعی کی رعایت بہرصورت ملحوظ رکھے نیز اپنے پیشہ میں تمام تر محنت و جد و جہد کے باوجود اللہ کی ذات پر توکل و اعتماد رکھے کہ رزاق مطلق صرف اللہ تعالیٰ اور کسب محض ایک ظاہری وسیلہ کے درجہ کی چیز ہے اپنے پیشے و کسب کو رزاق ہرگز نہ سمجھے کیونکہ یہ شرک خفی ہے۔ حرام کسب کے ذریعے حاصل ہونے والے مال و زر سے مکمل پرہیز کرے کیونکہ اس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ وعید منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص حرام مال سے صدقہ و خیرات کرتا ہے تو اس کا صدقہ قبول نہیں ہوتا اور مال حرام اپنے پیچھے یعنی مالک کی موت کے بعد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتا کہ وہ اپنے مالک کے لئے ایسا برا زاد راہ بن جاتا ہے جو اسے یعنی مالک کو دوزخ کی آگ میں پہنچا دیتا ہے۔
بعض لوگ حرام مال کی بڑی تعداد سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن قلیل مقدار میں احتیاط نہیں کرتے حالانکہ حرام مال کی قلیل ترین مقدار سے بھی اسی طرح اجتناب کرنا چاہئے جس طرح بڑی سے بڑی مقدار سے اجتناب ضروری ہے اس بارے میں یہ احساس ہونا چاہئے کہ حرام مال کی وہ قلیل ترین مقدار بقیہ تمام حلال مال میں مل کر سارے مال کو مشتبہ بنا دے گی اور مشتبہ مال و مشتبہ پیشے کے بارے میں بھی یہ مسئلہ ہے کہ اس سے اجتناب ہی اولیٰ ہے۔
اگر کوئی شخص کسی کو بطور ہدیہ وغیرہ کوئی ایسی چیز یا ایسا مال دے جس کی حرمت و حلت کے بارے میں شبہ ہو تو چاہئے کہ اس چیز یا اس مال کو اچھے انداز میں اور نرمی کے ساتھ دینے والے کو واپس کر دے ہاں اگر واپس کرنے دینے والا آزردہ خاطر ہو تو پھر واپس نہ کرنا چاہئے یہی حکم اس مشتبہ مال کی تحقیق کرنے کا بھی ہے کہ اگر وہ مشتبہ مال دینے والا آزردہ خاطر نہ ہو تو تب اس مال کی تحقیق کی جائے اور اگر وہ تحقیق کرنے سے آزردہ خاطر ہو تو پھر تحقیق بھی نہ کی جائے کیونکہ کسی مسلمان کو آزردہ خاطر کرنا حرام ہے جب کہ مشتبہ مال کی تحقیق کرنا ورع (تقوی) ہے اور اس بارے میں مسئلہ یہ ہے کہ ورع کے لئے حرام کا ارتکاب نہ کرنا چاہئے ہاں جس مال کے بارے میں بالکل تحقیق ہو کہ یہ حرام محض ہے تو پھر اس کو واپس کر دینا بہرصورت ضروری ہے اگرچہ دینے والا آزردہ خاطر ہی کیوں نہ ہو البتہ اگر اس مال کو واپس کرنے میں کسی فتنہ انگیزی کا خوف ہو تو پھر اسے بھی واپس نہ کرے بلکہ اسے لے کر کسی مضطرب کو دیدے اور اگر خود مضطر ہو تو اسے اپنے استعمال میں لے آئے۔
جس بازار میں حرام مال کی تجارت ہوتی ہو اس بازار سے بھی اجتناب کرنا چاہئے کہ اس میں خرید و فروخت نہ کرے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ فلاں مال حرام ہے مشتبہ ہے اس کی تحقیق و تفتیش ضروری نہیں کیونکہ حرمت و شبہ کے معلوم نہ ہونے کی صورت میں ہر جگہ اور ہر چیز کی تحقیق و تجسس محض وسوسہ ہے۔
غیر مشروع کسب کی اجرت بھی حرام ہے مثلاً مردوں کے لئے ریشمی کپڑے سینا یا مردوں کے لئے سونے کے زیور بنانا اسی طرح غیر مشروع خرید و فروخت سے حاصل ہونے ولا نفع و مال بھی حرام ہے جیسے محتکرہ غلہ بیچنا تمام تجارتوں میں سب سے بہتر تجارت بزازی ہے اسی طرح تمام پیشوں میں سب سے بہتر پیشہ مشک بنانا و سینا ہے۔ خریدو فروخت میں کھوٹے سکوں کو پھیلانا قطعاً نا جائز ہے اگر کھوٹے ہاتھ لگیں تو انہیں کنویں وغیرہ میں ڈال کر ضائع کر دینا چاہئے۔
اسی طرح ہر تاجر اور دوکاندار کے لئے ضروری ہے کہ وہ معاملات میں مکر و فریب سے کام نہ لے بات بات پر قسم نہ کھائے کسی چیز میں اگر کوئی عیب ہو تو اسے خریدار سے پوشیدہ نہ رکھے اپنی اشیاء کی تعریف و توصیف حقیقت سے زیادہ نہ کرے کوئی چیز کسی ایسے شخص کے ہاتھ فروخت نہ کرے جو اسے حرام کام میں استعمال کرے مثلاً انگور کسی شراب ساز کو نہ بیچے یا ہتھیار وغیرہ کسی ڈاکو و قزاق وغیرہ کے ہاتھ فروخت نہ کرے دستکار و صنعت گر اپنی بنائی ہوئی چیز میں کھوٹ ملاوٹ اور غلط چیزوں کی آمیزش نہ کرے کیونکہ ایسی چیز سے حاصل ہونے والی اجرت و قیمت حرام ہوتی ہے ناپ تول میں کمی نہ کرے غبن و دھوکہ دہی میں اپنا دامن ملوث نہ کرے ہمہ وقت یہ تصور رکھے کہ نا جائز طریقوں اور حرام ذرائع سے حاصل ہونے والا ایک پیسہ بھی جنت میں داخل ہونے سے روک دے گا تھوڑے منافع پر اکتفاء کرے کہ یہ مستحب ہے اور جس تجارت و حرفت میں مشغول ہو اور اس سے اس کی ضروریات پوری ہو جاتی ہوں تو اسی پر قناعت کرے اس کی موجودگی میں دوسری تجارتوں اور دوسرے کاروبار کے ذریعے زیادہ کمانے کی حرص نہ رکھے بلکہ اپنے بقیہ اوقات کو آخرت کی بھلائیوں کو حاصل کرنے میں صرف کرے کیونکہ صرف اس دنیا کی فانی زندگی کی راحت و تعیش کے حصول میں ہمہ وقت لگے رہنا اور آخرت کی ابدی زندگی کی سعادتوں سے بے پرواہ ہو جانا عقل و دانش سے بعید تر بات ہے۔
حضرت مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کبھی کسی نے اپنے ہاتھ کی محنت کی روزی سے بہتر کوئی کھانا نہیں کھایا یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمائی ہوئی روزی کھاتے تھے (بخاری)
تشریح
حضرت داؤد علیہ السلام اللہ کے ایک جلیل القدر نبی تھے اور ساتھ ہی خدا نے انہیں دنیا کی سلطنت حکومت بھی عطا کی تھی۔ ان کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اپنی حکومت میں لوگوں سے اپنے بارے میں تجسس کرتے رہتے تھے چنانچہ جو شخص ان کو نہیں پہچانتا تھا اس سے وہ دریافت کرتے کہ بتاؤ داؤد کیسا ہے؟ لوگوں میں اس کی سیرت و عادت کس درجے کی ہے اور اس کے بارے میں تمہارا تاثر کیا ہے ایک دن ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو آدمی کی صورت میں ان کے پاس بھیجا انہوں نے اس سے بھی اس قسم کے سوال کئے اس نے کہا داؤد علیہ السلام ہیں تو بہت اچھے آدمی مگر اتنی بات ضرور ہے کہ وہ بیت المال سے روزی کھاتے ہیں بس یہ سننا تھا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے دل و دماغ میں ایک بجلی سی کوند گئی فوراً اپنے پروردگار سے دعا کی کہ رب العالمین مجھے بیت المال سے مستغنی بنا دے اور مجھے کوئی ایسا ہنر عطا کر دے کہ جس سے میں اپنی روزی کما سکوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول کی اور انہیں زرہ بنانے کا ہنر عطا فرمایا منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو ایسی خاصیت عنایت کی کہ لوہا ان کے ہاتھوں میں پہنچتے ہی موم کی طرح نرم ہو جاتا تھا جس سے وہ زرہ بناتے اور جو چار چار ہزار درہم میں فروخت ہوتی بلکہ بعض علماء نے تو یہ لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام ہر روز ایک زرہ بناتے اور اس کو چھ ہار درہم میں فروخت کرتے پھر اس چھ ہزار کو اس طرح صرف کرتے کہ دو ہزار تو اپنی ذات اور اہل و عیال پر خرچ کرتے اور چار ہزار درہم بنی اسرائیل کے فقراء ومساکین میں بطور صدقہ وخیرات تقسیم کر دیتے۔
بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ بالا ارشاد گرامی کے ذریعے جہاں یہ ارشاد فرمایا کہ کسب یعنی اپنی روزی خود پیدا کرنا انبیاء کی سنت ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے عمل سے معلوم ہوا اس لئے تم بھی ان کے طریقے کو اختیار کرو وہیں گویا آپ نے اپنی روزی خود اپنی صنعت وحرفت کے ذریعے پیدا کرنے پر لوگوں کو ترغیب دلائی ہے کیونکہ اس میں بڑے بڑے فائدے ہیں مثلاً جو شخص اپنی صنعت وحرفت سے کماتا ہے نہ صرف یہ کہ خود اسے منافع حاصل ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اس کی صنعت وحرفت سے فائدہ پہنچتا ہے پھر یہ کہ ایسا شخص اپنے پیشے میں مصروف رہنے کی وجہ سے بری باتوں اور لہوولعب سے محفوظ رہتا ہے نیز چونکہ اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کی وجہ سے کسرنفسی بھی پیدا ہوتی ہے اس لئے وہ اپنے نفس کی سرکشی سے بچتا ہے اور پھر سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ایسا شخص کسی کا محتاج نہیں رہتا کسی کے آگے دست سوال دراز نہیں کرتا کسی کے آگے جھکتا نہیں اور اسے ایک ابرومندانہ زندگی حاصل رہتی ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمام کمی اور عیوب سے پاک ہیں اس پاک ذات کی بارگاہ میں صرف وہی صدقات و اعمال مقبول ہوتے ہیں جو شرعی عیوب اور نیت کے فساد سے پاک ہوں۔ یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے جس چیز (یعنی حلال مال کھانے اور اچھے اعمال) کا حکم اپنے رسولوں کو دیا ہے اسی چیز کا حکم تمام مؤمنوں کو بھی دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت (یا ایہا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا) (یعنی اے رسولو حلال روزی کھاؤ اور اچھے اعمال کرو) نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (یا ایہا الذین امنوا کلوا من طیبات ما رزقنکم) (یعنی اے مؤمنو تم صرف وہی پاک و حلال رزق کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطاء کیا ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور مثال ایک شخص کا حال ذکر کیا کہ وہ طول طویل سفر اختیار کرتا ہے پراگندہ بال اور غبار آلودہ ہے وہ اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتا ہے اور کہتا ہے اے میرے رب اے میرے رب یعنی وہ اپنے مقاصد کے لئے دعا مانگتا ہے حالانکہ کھانا اس کا حرام لباس اس کا حرام شروع سے اب تک پرورش اس کی حرام ہی غذاؤں سے ہوئی پھر کیونکر اس کی دعا قبول کی جائے۔ (مسلم)
تشریح
اس ارشاد گرامی میں پہلے تو حلال مال کمانے کی فضیلت اور اس کا حکم بیان کرتے ہوئے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کہ خود پاک ہے اور حلال رزق کو اس کی جناب پاک میں اس وجہ سے ایک نسبت حاصل ہے کہ حلال رزق بھی حرمت کی نجاستوں سے پاک ہوتا ہے تو تقاضاء عبودیت یہی ہے کہ بندہ حلال ہی رزق کھائے تاکہ اس پاک وحلال رزق کی وجہ سے اس بندہ کو بارگاہ خداوندی میں تقرب کی دولت حاصل ہو،
اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بتایا ہے کہ حرام مال سے اجتناب نہ کرنے کا اثر دعا کا قبول نہ ہونا ہے چنانچہ اس بات کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مثال کے ذریعے ظاہر فرمایا ہے کہ ایک شخص حج یا اور عبادات کے لئے طول طویل سفر اختیار کرتا ہے وہ ان مقامات مقدسہ تک پہنچنے میں پوری مشقت وجد وجہد کرتا ہے جہاں مانگی جانے والی دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے یہاں تکہ کہ وہ ان مقامات تک پہنچ جاتا ہے وہاں پہنچ کر وہ اس حال میں دست سوال اٹھاتا ہے کہ سفر کی مشقت وطوالت کی وجہ سے اس کے بال پراگندہ ہیں پورا جسم گرد وغبار سے آلودہ ہے اور تضرع والحاح کی پوری کیفت اس پر طاری ہے ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں اس کی دعا بظاہر قبول ہونی چاہئے کیونکہ اول تو ایک عبادت گزار بندہ ہے پھر وہ مسافر بھی ہے اور مسافر کے بارے میں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ اس کی دعا باب قبولیت تک پہنچ کر رہتی ہے دوسرے یہ کہ اس جگہ دعا مانگ رہا ہے جہاں مانگی جانے والی ہر دعا کی لاج رکھی جاتی ہے غرضیکہ قبولیت دعا کے تمام آثار موجود ہیں مگر اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی کیوں اس لئے کہ جاننے والا جانتا ہے کہ وہ حرام مال سے پرہیز نہیں کرتا گویا اس کی ساری محنت ومشقت اور اس کی ساری عبادت وحالت اس کی دعا کو صرف اس لئے مؤثر نہیں بنا سکی وہ حرام مال کھاتا ہے حرام لباس پہنتا ہے اور کمائی کے حرام ذرائع سے اجتناب نہیں کرتا اس سے معلوم ہوا کہ دعا کی قبولیت حلال رزق پر موقوف ہے اسی لئے کہا گیا ہے کہ دعا کے دو بازو ہیں (جن کے سہارے وہ دعا باب قبولیت تک پہنچتی ہے) ایک تو اکل حلال دوسرا صدق مقال یعنی حلال کھانا اور سچ بولنا۔
اور حضرت ابوہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئیگا کہ آدمی کو جو مال ملے گا اس کے بارے میں وہ اس کی پرواہ نہیں کرے گا کہ یہ حلال ہے یا حرام(بخاری)
تشریح
قیامت کے قریبی زمانہ میں جہاں عام گمراہی کی وجہ سے افکار و اعمال کی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہونگی وہیں ایک بڑی خرابی بھی پیدا ہو گی کہ لوگ حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرنا چھوڑ دینگے جس کو جو بھی مال ملے گا اور جس ذریعہ سے بھی ملے گا اسے یہ دیکھے بغیر کہ یہ حلال ہے یا حرام ہضم کر جائے گا اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ یہ پیش گوئی آج کے زمانہ پر پوری طرح منطبق ہے آج ایسے کتنے لوگ ہیں جو حلال وحرام مال کے درمیان تمیز کرتے ہیں ہر شخص مال و زر بٹورنے کی ہوس میں مبتلا ہے مال حلال ہے یا حرام ہے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی بس ہاتھ لگنا چاہئے کسی نے سچ کہا ہے
(ہرچہ آمد بدہان شاں خورند و آنچہ آمد بزبان شان گفتند)
یہ اس دور کی عام وبا ہے جس سے کوئی طبقہ اور کوئی جماعت محفوظ نہیں ہے۔
اور حضرت نعمان ابن بشیر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حلال ظاہر ہے حرام ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے لہذا جس شخص نے مشتبہ چیزوں سے پرہیز کیا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو پاک ومحفوظ کر لیا (یعنی مشتبہ چیزوں سے بچنے والے کے نہ تو دین میں کسی خرابی کا خوف رہیگا اور نہ کوئی اس پر طعن وتشنیع کریگا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہوا وہ حرام میں مبتلا ہو گیا اور اس کی مثال اس چروا ہے کی سی ہے جو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چراتا ہے اور ہر وقت اس کا امکان رہتا ہے کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں گھس کر چرنے لگیں۔ جان لو ہر بادشاہ کی ممنوعہ چراگاہ ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ممنوعہ چراگاہ حرام چیزوں ہیں اور اس بات کو بھی ملحوظ رکھو کہ انسان کے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست حالت میں رہتا ہے یعنی جب وہ ایمان و عرفان اور یقین کے نور سے منور رہتا ہے تو اعمال خیر اور حسن اخلاق واحوال کی وجہ سے پورا جسم درست حالت میں رہتا ہے اور جب اس ٹکڑے میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے یاد رکھو گوشت کا وہ ٹکڑا دل ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
حلال ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں تو وہ ہیں جن کا حلال ہونا سب کو معلوم ہے نیک کلام اچھی باتیں وہ مباح چیزیں ہیں جن کو کرنا یا جن کی طرف دیکھنا درست ہے شادی بیاہ کرنا اور چلنا پھرنا وغیرہ وغیرہ اسی طرح حرام ظاہر ہے کا مطلب یہ ہے کہ کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کا حرام ہونا نص کے ذریعہ بالکل واضح طور پر معلوم ہو گیا ہے جیسے شراب خنزیر مردار جانور، جاری خون زنا سود جھوٹ غیبت چغل خوری امرد اور اجنبی عورت کی طرف بہ نظربد دیکھنا وغیرہ وغیرہ ایسے ہی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کی حرمت یا حلت کے بارہ میں دلائل کے تعارض کی بناء پر کوئی واضح حکم معلوم نہیں ہوتا بلکہ یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ یہ حرام ہیں یا حلال ایسی کتنی ہی چیزیں ہیں جن کے حلال ہونے کی دلیلیں بھی ہیں اور حرام ہونے کی بھی اس صورت میں کوئی واضح فیصلہ کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی چیزوں کے بارے میں دونوں طرف کی دلیلوں میں سے کسی ایک طرف کی دلیل کو اپنی قوت اجتہاد اور بصیرت فکر ونظر کے ذریعہ راجح قرار دے کر کوئی واضح فیصلہ کر لیتے ہیں۔ بہرکیف مشتبہ چیز کے بارہ میں علماء کے تین قول ہیں۔
-1 ایسی چیز کو نہ حلال سمجھا جائے نہ حرام اور نہ مباح یہی قول سب سے زیادہ صحیح ہے اور اسی پر عمل کرنا چاہئے جس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی چیز سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہے۔
-2 ایسی چیز کو حرام سمجھا جائے
-3 ایسی چیز کو مباح سمجھا جائے
اب ان تینوں اقول کو ذہن میں رکھ کر مشتبہ کو بطور مثال اس طرح سمجھئے کہ مثلاً ایک شخص نے کسی عورت سے نکاح کیا ایک دوسری عورت نے آ کر کہا کہ میں نے ان دونوں کو اپنا دودھ پلایا ہے اس صورت میں وہ منکوحہ عورت اس شخص کے حق میں مشتبہ ہو گئی کیونکہ ایک طرف تو عورت کا بیان ہے کہ میں نے چونکہ ان دونوں کو دودھ پلایا ہے اس لئے یہ دونوں رضاعی بہن بھئی ہوئے اور ظاہر ہے کہ رضاعی بھائی بہن کے درمیان نکاح درست نہیں ہوتا لہذا اس دلیل کا تو یہ تقاضا ہے کہ اس نکاح کو قطعاً نا جائز کہا جائے مگر دوسری طرف نکاح کے جائز رہنے کی یہ دلیل ہے کہ صرف یہ ایک عورت کی بات ہے جس پر کوئی شرعی گواہی نہیں ہے اس پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ یہ عورت صحیح ہی کہہ رہی ہے ہو سکتا ہے کہ یہ محض بدنیتی کی وجہ سے یہ بات کہ کر ان دونوں کے درمیان افتراق کرانا چاہتی ہے اس صورت میں کہا جائے گا کہ نکاح جائز اور درست ہے دلائل کے اس تعارض کی وجہ سے لا محالہ یہی حکم ہو گا کہ یہ ایک مشتبہ مسئلہ ہو گیا ہے اس لئے اس شخص کے حق میں بہتر یہی ہو گا کہ وہ اس عورت کو اپنے نکاح میں نہ رکھے کیونکہ مشتبہ چیز سے اجتناب ہی اولیٰ ہے مشتبہ چیز کی دوسری مثال یہ ہے کہ مثلاً ایک شخص کے پاس کچھ روپے ہیں جن میں سے کچھ تو جائز آمدنی کے ہیں اور کچھ نا جائز آمدنی کے اس صورت میں وہ سب روپے اس شخص کے حق میں مشتبہ ہیں لہذا اس کو ان روپیوں سے اجتناب وپرہیز کرنا چاہئے۔
ارشاد گرامی میں حرام چیزوں کو ممنوعہ چراگاہ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح کوئی حاکم کسی خاص چراگاہ کو دوسروں کے لئے منوع قرار دے دیتا ہے جس کے نتیجہ میں لوگوں کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو اس ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھیں اسی طرح جو چیزیں شریعت نے حرام قرار دی ہیں وہ لوگوں کے لئے ممنوع ہیں کہ ان کے ارتکاب سے اجتناب وپرہیز واجب و ضروری ہے اور مشتبہ چیزوں میں مبتلا ہونے کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ (منڈیر) پر عام جانور چرانے کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح چروا ہے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ سے دور رکھ کر چرائے تا کہ اس کے جانور اس ممنوعہ چراگاہ میں نہ گھس جائیں اور اگر وہ اپنے جانوروں کو ممنوعہ چراگاہ کی مینڈ پر چرائے گا تو پھر اس بات کا ہر وقت احتمال رہے گا کہ اس کے جانور ممنوعہ چراگاہ میں گھس جائیں جس کے نتیجہ میں اسے مجرم قرار دے دیا جائیگا اسی طرح انسان کو چاہئے کہ وہ مشتبہ چیزوں سے دور رہے تا کہ محرمات حارم چیزوں میں مبتلا نہ ہو جائے اس کے بعد آپ نے مذکورہ بالا تشبیہ کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ جان لو کہ ہر بادشاہ کا ایک ایسا ممنوعہ علاقہ ہوتا ہے جس میں جانور چرانا جرم سمجھا جاتا ہے (یہ گویا زمانہ جاہلیت کے بادشاہوں اور حکام کے بارہ میں خبر دی ہے یا یہ کہ مسلمانوں میں سے ان بادشاہوں اور حکام کے بارے میں خبر دی ہے جو غیر عادل ہیں کیونکہ کسی علاقہ کی گھاس کو جانوروں کے چرنے سے روک کو ممنوعہ چراگاہ قرار دینا درست نہیں ہے) اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ممنوعہ علاقہ حرام چیزیں ہیں کہ جن میں مبتلا ہونا لوگوں کے لئے ممنوع قرار دے دیا گیا ہے لہذا جو کوئی اس ممنوعہ علاقہ میں داخل ہو گا یعنی حرام چیزوں کا ارتکاب کریگا اسے مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا اور پھر ان حرام چیزوں میں بھی بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کے مرتکب کی بخشش ہی نہیں ہو گی جیسے شرک اور کچھ چیزیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہیں کہ چا ہے ان کے مرتکب کو بخشے چا ہے نہ بخشے البتہ سچے دل کے ساتھ توبہ استغفار سے ہر چیز بخشی جائے گی۔
حضرت شیخ علی متقی نے اس موقع پر یہ ترتیب ضروری مباح مکروہ حرام کفر قائم کر کے لکھا ہے کہ جب بندہ اپنی معاشی تمدنی اور سماجی زندگی کے تمام گوشوں میں اس قدر ضرورت پر اکتفاء کر لیتا ہے جس سے اس کا وجود اور اس کی عزت باقی رہے تو وہ اپنے دین میں ہر خطرہ سے سلامت رہتا ہے مگر جب حد ضرورت سے گزرنے کی کوشش کرتا ہے تو حد مکروہات میں داخل ہو جاتا ہے یہاں تک کہ حرص وہوس حد مکروہات سے نکال کر محرمات کی مد میں داخل کر دیتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا اگلا قدم کفر میں پہنچ جاتا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔
حدیث کے آخر میں انسانی جسم میں گوشت کے اس ٹکڑے کی اہمیت بیان کی گئی ہے جسے دل کہا جاتا ہے چنانچہ فرمایا کہ جب وہ ٹکڑا بگڑ جاتا ہے یعنی انکار شک اور کفر کی وجہ سے اس پر ظلمت طاری ہو جاتی ہے تو اس کے نتیجہ میں ارتکاب گناہ ومصیبت کی وجہ سے پورا جسم بگڑ جاتا ہے لہذا ہر عاقل وبالغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دل کی طرف متوجہ رہے اور اس کو خواہشات نفسانی میں منہمک ہونے سے روکے تاکہ وہ آگے بڑھ کر مشتبہ چیزوں کی حد میں داخل نہ ہو جائے کیونکہ جب دل خواہشات نفسانی کی طرف چل پڑتا ہے تو پھر خدا کی پناہ وہ تمام حدوں کو پھلانگتا ہوا ظلمت کی آخری حدوں تک پہنچ جاتا ہے۔
آخر میں یہ سمجھ لیجئے کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کر رہی ہے کہ بدن کی بھلائی وبہتری حلال غذا پر موقوف ہے کیونکہ حلال غذا سے دل کو صفائی حاصل ہوتی ہے اور دل کی صفائی ہی سے تمام بدن اچھی حالت میں رہتا ہے بایں طور کہ اس کے ایک ایک عضو سے اچھے اعمال ہی صادر ہوتے ہیں اور تمام اعضاء کا برائی کی طرف میلان ختم ہو جاتا ہے۔
اور اب ایک بات یہ جان لیجئے کہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ حدیث علم ومسائل کے بڑے وسیع خزانے کی حامل ہے نیز جن حدیثوں پر اسلامی شرائع واحکام کا مدار ہے وہ تین ہیں ایک تو حدیث (انما الاعمال بالنیات) دوسری حدیث (من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ) اور تیسری ہی ہے حدیث (الحلال بین) الخ۔
اور حضرت رافع ابن خدیج کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کتے کی قیمت ناپاک مال ہے زنا کار عورت کی اجرت حرام مال ہے سینگی کھینچنے والے کی کمائی نا پسندیدہ مال ہے۔
تشریح
پہلے تو یہ سمجھ لیجئے کہ لفظ خبیث کے لغوی معنی ، ناپاک اور برا، کے ہیں لیکن فقہی طور پر اس کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ ائمہ مجتہدین اور فقہاء حسب موقع و محل اس کے معنی کبھی حرام کبھی ناپاک اور کبھی مکروہ وغیرہ مراد لیتے ہیں۔
چنانچہ حضرت امام شافعی نے ثمن الکلب خبیث میں خبیث کے معنی حرام مراد لیتے ہوئے کہا ہے کہ حدیث سے چونکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ کتے کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال حرام ہے اس لئے کتے کی خریدو فروخت بھی نا جائز ہے۔ کتا خواہ معلم (یعنی سدھایا ہوا ہو خواہ غیر معلم (یعنی سدھایا ہوا نہ) ہو حضرت امام اعظم ابوحنیفہ حضرت امام محمد اور بعض دوسرے ائمہ کا قول یہ ہے کہ ان کتوں چیتوں اور درندوں کی خرید و فروخت جائز ہے جن سے فائدے حاصل ہوتے ہیں خواہ وہ معلم ہوں یا غیر معلم ان حضرات نے ثمن الکلب خبیث کے بارہ میں یہ کہا ہے کہ لفظ خبیث محض حرمت ہی پر دلالت نہیں کرتا جس کی واضح مثال اس حدیث کے الفاظ وکسب الحجام خبیث ہیں اگر لفظ خبیث سے حرام ہی مراد لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا سینگی کھینچنے والے کو جو اجرت حاصل ہوتی ہے وہ بھی حرام ہے حالانکہ متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک وہ حرام نہیں ہے لہذا ثمن الکلب خبیث میں لفظ خبیث کے معنی ناپاک مراد لیتے ہوئے اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ کتے کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال ناپاک یعنی مکروہ ہے حرام نہیں ہے۔
کسب الحجام خبیث میں لفظ خبیث کے معنی نا پسندیدہ مراد لئے گئے ہیں کیونکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارہ میں ثابت ہے کہ آپ نے سینگی کھنچوانے کی اجرت ادا کی ہے اگر یہ اجرت حرام ہوتی تو آپ خود کیوں دیتے لہذا اس جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ سینگی کھینچنے والے کو اپنی اجرت کے طورپر جو مال ملتا ہے وہ ناپسندیدہ یعنی مکروہ تنزیہی ہے۔
اور حضرت ابومسعود انصاری کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت بدکار عورت کی اجرت اور کاہن کے حلوان یعنی اس کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
تشریح
کتے کی خریدو فروخت اور اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے سلسلہ میں تفصیلی بحث اس سے پہلی حدیث کی تشریح میں کی جا چکی ہے چنانچہ اس حدیث میں کتے کی قیمت کے ممنوع ہونے کا جو حکم بیان کیا گیا اس کے بارے میں حنفی علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حکم اس وقت تھا جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم دیا تھا نیز آپ نے کتوں سے فائدہ حاصل کرنے کی بھی ممانعت کر دی تھی مگر پھر بعد میں آپ نے یہ اجازت دے دی تھی کہ کتوں سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے یہاں تکہ یہ بھی منقول ہے کہ ایک شخص نے ایک شکاری کتے کو مار ڈالا تو آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ مالک کو اس کتے کے بدلہ میں ایک دنبہ دے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں ک جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ نہ تو کتے کی خریدو فروخت جائز ہے اور نہ کسی کتے کو مار ڈالنے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اس کتے کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے کتا خواہ معلم ہو یا غیر معلم ہو اسی طرح خواہ اس کتے کا پالنا جائز ہو یا نا جائز ہو لیکن حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نے اس کتے کی خرید و فروخت جائز قرار دی ہے جس سے فائدہ اٹھانا مقصود ہو مثلاً گھر بار کی نگرانی یا ریوڑ گلوں کی نگہبانی وغیرہ نیز حضرت امام اعظم نے ایسے کتے کو مار ڈالنے والے کے لئے یہ ضروری قرار دیا ہے کہ وہ اس کتے کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے۔
بدکار عورت کے اس مال کا حکم جو اس نے اپنی بدکاری کی اجرت کے طور پر حاصل کیا ہو گذشتہ حدیث کی تشریح میں ذکر کیا جا چکا ہے کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو آنے والے زمانہ کی خبریں بتایا کرتا ہے اسی طرح حلوان کے لغوی معنی اگرچہ شیرینی اور مٹھائی ہے لیکن اصطلاحی طور پر عربی میں حلوان اس اجرت کو کہتے ہیں جو کاہن آئندہ کی خبریں معلوم کرنے والے سے وصول کرتا ہے خواہ وہ مٹھائی اور کھانے وغیرہ کی صورت میں ہو یا کپڑے زیور اور نقدی وغیرہ کی شکل میں کاہن کی اجرت کو حلوان کہنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح شیرینی اور مٹھائی کھانے سے طبیعت کو فرحت محسوس ہوتی ہے اسی طرح کاہن کو اپنی یہ اجرت لے کر بہت ہی فرحت محسوس ہوتی ہے کیونکہ بغیر کسی محنت ومشقت کے وہ اچھا خاصا مال بٹور لیتا ہے۔
یہ بات تو معلوم ہی ہو گی کہ جس طرح کاہن کے پاس جانا اور ان سے آئندہ کی خبریں معلوم کرنا حرام ہے اسی طرح پوشیدہ باتوں کو معلوم کرنے کے لئے نجومی اور پامسٹ وغیرہ کے پاس جانا اور ان کی بتائی ہوئی باتوں پر یقین کرنا حرام ہے اس بارے میں کسی عالم کا کوئی اختلاف نہیں ہے اس کی تفصیلی بحث ان شاء اللہ باب السحر والکہانۃ میں آئے گی۔
اور حضرت ابو جحیفہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خون کی قیمت کتے کی قیمت اور بدکار عورت کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کے استعمال سے منع فرمایا ہے نیز آپ نے سود لینے والے اور سود دینے والے گودنے والے اور گودوانے والے اور مصور پر لعنت فرمائی ہے۔
تشریح
خون کی قیمت سے منع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے خون کی خریدو فروخت سے منع فرمایا ہے کیونکہ خون نجس ہوتا ہے اور اس کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جس چیز کی خریدو فروخت نا جائز ہوتی ہے اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال بھی نا جائز ہوتا ہے بعض حضرات نے ثمن الدم(خون کی قیمت) کو سینگی کھینچنے والے کی اجرت پر محمول کیا ہے اس صورت میں ممانعت کا تعلق مکروہ تنزیہی سے ہو گا کتے کی قیمت اور بدکار عورت کی اجرت کے بارے میں گزشتہ احادیث میں بیان کی جا چکی ہے۔
گودنے کی صورت یہ ہوتی ہے کہ جسم کے کسی حصہ پر یا پورے جسم پر سوئی سے گود کر سرمہ یا تیل بھر دیتے ہیں جس سے سرمئی یا نیلے داغ ہو جاتے ہیں چنانچہ آپ نے گودنے والے پر بھی اور گودوانے والے پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ کیونکہ یہ فاسقوں اور غیر مسلموں کا کام ہے نیز اس طریقہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا شدہ جسم کی اصل خلقت میں تغیر و بدنمائی ہوتی ہے اگر کسی مسلمان کے جسم پر گودنے کے داغ ہوں تو اس کے بارہ میں تعلیق القرار میں لکھا ہے کہ اسے کسی بھی تدبیر سے مٹا دیا جائے اور اگر زخم و خراش پیدا کئے بغیر کسی بھی تدبیر سے اس کو مٹانا ممکن نہ ہو تو پھر چھوڑ دیا جائے ان کو مٹانے کے لئے زخم و خراش کی تکلیف برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہے تا ہم بہرصورت اس قبیح فعل پر ندامت کے ساتھ توبہ کی جائے توبہ کے بعد گناہگار نہیں رہے گا۔
آپ نے مصور پر بھی لعنت فرمائی ہے لیکن مصور سے مراد یہ ہے وہ جانور کا فوٹو کھینچنے یا جاندار کی تصویر بنائے یا تصویر گاڑھے غیر جاندار چیزوں مثلاً مکانات درخت اور پہاڑ وغیرہ کی تصویریں کھینچنا بنانا اور گاڑنا درست ہے۔
خطابی نے لکھا ہے کہ تصویر کی دو قسمیں ہوتی ہیں ایک تو یہ ہے کہ جس چیز پر تصویر بنائی جاتی ہے وہ چیز تصویر کی ایک ضمنی شئ ہوتی ہے اور تصویر مقصود بالذات ہوتی ہے مثلاً جب فوٹو کھینچا جاتا ہے یا کاغذ پر تصویر بنائی جاتی ہے تو اس فوٹو یا تصویر کے کاغذ کی حیثیت محض ضمنی ہوتی ہے اصل مقصد کا تعلق تصویر سے ہوتا ہے دوسری قسم یہ ہے کہ جس چیز پر تصویر بنی ہوئی ہوتی ہے وہ چیز مقصود بالذات ہوتی ہے اور تصویر اس چیز کا ایک ضمنی وصف ہوتا ہے مثلاً برتن دیواروں چھتوں قالینوں اور پردوں وغیرہ پر بنی ہوئی تصویریں۔ لہذا دوسری قسم کی خرید و فروخت جائز ہے جب کہ بنانا دونوں ہی کا نا جائز ہے۔
اور حضرت جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے فتح مکہ کے سال مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول نے شراب مردار خنزیر اور بتوں کی خریدو فروخت کو حرام قرار دیا ہے جب آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہمیں مردار کی چربی کا حکم بھی بتائیے جو کشتیوں پر ملی جاتی ہے نیز اس سے چمڑوں کو چکنا کیا جاتا ہے اور لوگ(گھروں میں) اس سے چراغ جلاتے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ مردار کی چربی بھی حرام ہے اس لئے اس سے یہ فائدے اٹھانے جائز نہیں پھر آپ نے اسی وقت یہ بھی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہود پر لعنت فرمائے جب اللہ تعالیٰ نے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو یہود (نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ) چربی کو پگھلاتے اور بیچ ڈالتے اور پھر اس کی قیمت کھا جاتے (بخاری و مسلم)
تشریح
عطاء نے لکھا ہے کہ شراب وغیرہ کے مذکورہ بالا حکم میں باجا بھی داخل ہے کہ اس کی خریدو فروخت بھی جائز نہیں ہے نیز اگر کوئی شخص کسی باجے کو تلف کر دے تو اس پر ضمان یعنی مالک کو اس کی قیمت ادا کرنا واجب نہیں ہوتا۔
حضرت امام شافعی کا مسلم یہ ہے کہ مردار کی چربی کی خریدو فروخت تو جائز نہیں ہے لیکن اس چربی سے فائدہ اٹھانا یعنی اس کو کھانے اور آدمی کے جسم پر ملنے کے علاوہ اور کام میں استعمال کرنا جائز ہے خواہ کشتی پر ملے خواہ چراغ میں جلائے اور خواہ کسی اور کام میں لائے اسی طرح ان کے مسلک کے مطابق جو گھی یا زیت یا اور کوئی تیل نجاست پڑ جانے کی وجہ سے نجس ہو گیا ہو تو اس کو چراغ میں جلانے یا اس کا صابون بنانا جائز ہے جب کہ جمہور کا مسلک یہ ہے کہ جس طرح مردار کی خریدو فروخت نا جائز ہے اسی طرح اس سے کسی بھی طرح کا فائدہ اٹھانا یعنی اس کی کسی بھی چیز کو اپنے استعمال میں لانا جائز نہیں ہے کیونکہ مردار کی حرمت بطریق عموم ثابت ہے البتہ دباغت کیا ہوا چمڑا اس سے مستثنی ہے کیونکہ اس کا جواز خصوصی طور پر ثابت ہے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے متبعین علماء نے نجس زیت کو بیچنے کی اجازت دی ہے البتہ ان کے نزدیک نجس تیل کو چراغ میں جلانا بالخصوص مسجد میں جلانا مکروہ ہے۔
حدیث کے آخر میں یہودیوں کی ایک خاص عیاری کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جب ان کے لئے مردار کی چربی کو حرام قرار دیا تو انہوں نے یہ حیلہ اختیار کیا کہ وہ چربی کو پگھلا کر اس کو بیچ دیتے تھے اور پھر اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو اپنے استعمال میں لے آتے اور یہ کہتے تھے کہ اللہ نے تو چربی کھانے سے منع کیا ہے اور ہم چربی نہیں کھاتے بلکہ اس کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال کھاتے ہیں گویا وہ جاہل چربی کو پگھلا کر یہ سمجھتے تھے کہ ہم نے چربی کی حقیقت کو بدل دیا ہے کہ پگھلنے کے بعد وہ چربی نہیں رہ گئی ہے اس لئے اس صورت میں حکم الٰہی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس عیارانہ چال کی وجہ سے ان کو اللہ کی لعنت کا مستحق قرار دیا اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ایسا حیلہ اختیار کرنا کہ جس کے سبب سے حرام کا ارتکاب ہوتا ہو بالکل غلط ہے نیز یہ حدیث اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کسی چیز کی قیمت حکم کے اعتبار سے اسی چیز کے تابع ہے کہ اگر وہ چیز حرام ہو گی تو اس کی قیمت بھی حرام ہو گی اور جو چیز حلال ہو گی اس کی قیمت بھی حلال ہو گی۔
اور حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ یہودیوں کو ہلاک کرے ان پر مردار کی چربیاں حرام کی گیں تو انہوں نے اس کو پگھلایا تاکہ چربی کا نام باقی نہ رہے اور پھر اس کی خریدو فروخت شروع کر دی اس کی وضاحت حدیث بالا میں کی جا چکی ہے۔ (بخاری و مسلم)
اور حضرت جابر کہتے کہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے اور بلی کی قیمت کو استعمال میں لانے سے منع فرمایا ہے (مسلم)
تشریح
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ بلی کی قیمت کو استعمال میں لانے کی یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے چنانچہ تقریباً تمام علماء نے بلی کی خریدو فروخت ہبہ کرنے اور عاریۃ دینے کو جائز کہا ہے البتہ حضرت ابوہریرہ اور تابعین میں سے کچھ حضرات اس حدیث کے ظاہری معنی کے پیش نظر اس کے جواز کے قائل نہیں تھے۔
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ ابوطیبہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پچھنے لگائے تو آپ نے اس کے مالکوں کو حکم دیا کہ وہ ابوطیبہ کی کمائی میں سے کم لیا کریں۔
تشریح
اہل عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے غلاموں اور لونڈیوں کو مختلف پیشوں میں لگا دیتے تھے اور ان سے یہ طے کر دیتے تھے کہ اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال میں سے اتنا حصہ ہمارا ہو گا اور باقی کے تم حقدار ہو گے چنانچہ ابوطیبہ نے جو بنی بیاضہ کے غلام تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت گزاری کی تو آپ ان سے بہت خوش ہوئے اور ان کے مالکوں سے کہا کہ تم لوگ ابوطیبہ کی کمائی میں جو کچھ روزانہ لیا کرتے ہو اس میں کمی کر دو۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ پچھنے لگانے کا پیشہ ایک حلال پیشہ ہے اور اس کی اجرت دینا جائز ہے نیز اس حدیث سے چند اور مسائل ثابت ہوتے اول یہ کہ علاج کرنا اور علاج کرانے کی اجرت دینا مباح ہے دوم یہ کہ مالک کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے غلام کو کمائی پر لگا دے اور اس کے کمائے ہوئے مال میں سے اپنا کوئی حصہ مقرر کرے سوم یہ کہ صاحب حق اور صاحب مطالبہ سے سفارش کرنا جائز ہے۔
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو کچھ تم کھاتے ہو اس میں سب سے بہتر وہ چیز ہے جو تمہیں کمائی سے حاصل ہوئی ہے اور تمہاری اولاد بھی تمہاری کمائی ہے (ترمذی نسائی ابن اجہ)
تشریح
اولاد کو کمائی اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ ماں باپ کے آپس کے نکاح کے نتیجہ ہی میں پیدا ہوتی ہے گویا اس ارشاد کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ ماں باپ اگر خود کمانے کے قابل نہ ہوں تو ان کے لئے اپنی اولاد کی کمائی کھانا جائز ہے ہاں اگر ماں باپ اپنے دست وبازو کی محنت سے اپنے رزق کی راہیں خود بنا سکتے ہوں تو پھر ان کے لئے یہ جائز نہیں ہو گا کہ وہ اپنی اولاد پر بار بنیں البتہ اولاد کی خوشنودی و مرضی اگر یہی ہو کہ ماں اس کی کمائی کھائیں تو پھر بہرصورت اولاد کی کمائی کھانا جائز ہو گا چنانچہ حنفی علماء کا یہی قول ہے۔
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ اگر والدین محتاج ہوں تو ان کی ضوررت زندگی کی کفالت لڑکے پر واجب ہے لیکن حضرت امام شافعی کے مسلک میں اس وجوب کی شرط یہ ہے وہ کمانے سے معذور بھی ہوں جب کہ دوسرے علماء کے ہاں یہ شرط نہیں ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کوئی بندہ حرام مال کما کر اس میں سے صدقہ وخیرات کرتا ہو اور اس کا وہ صدقہ قبول کر لیا جاتا ہو یعنی اگر کوئی شخص حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال صدقہ وخیرات کرے تو اس کا صدقہ قطعاً قبول نہیں ہوتا اور نہ اسے کوئی ثواب ملتا ہے اور نہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ شخص اس حرام کو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کرتا ہو اور اس میں اسے برکت حاصل ہوتی ہو یعنی حرام مال میں سے جو بھی خرچ کیا جاتا ہے اس میں بالکل برکت نہیں ہوتی اور جو شخص اپنے مرنے کے بعد حرام مال چھوڑ جاتا ہے اس کی حیثیت اس کے علاوہ اور کچھ نہیں رہتی کہ وہ مال اس شخص کے لئے ایک ایسا توشہ بن جاتا ہے جو اسے دوزخ کی آگ تک پہنچا دیتا ہے اور یہ بات یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ برائی کو برائی کے ذریعہ دور نہیں کرتا بلکہ برائی کو بھلائی کے ذریعہ دور کرتا ہے اسی طرح ناپاک مال ناپاک کو دور نہیں کرتا یعنی حرام مال برائی کو دور نہیں کرتا بلکہ حلال مال برائی کو دور کرتا ہے (شرح السنۃ)
تشریح
خدا کی پناہ مال و زر کی ہوس انسان کو کتنا اندھا بنا دیتی ہے کہ وہ اس چند روزہ دنیا کی جائز و نا جائز آسائشوں کی خاطر عاقبت کی کبھی نہ ختم ہونے والی زندگی کو تباہ و برباد کر لیتا ہے۔ وہ یہ نہیں سوچتا کہ جس مال و زر کی خاطر وہ اپنی زندگی کو عزت و آبرو کی بڑی سے بڑی نیلام گاہ میں لا کھڑا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں کبھی جھوٹ بولتا ہے کبھی مکر و فریب سے کام لیتا ہے کبھی دوسروں کا حق غصب کرتا ہے کبھی غریبوں کا خون چوستا ہے یہاں تکہ کہ اپنے دین و ایمان کا سودا کرتا ہے اپنے ضمیر کو گروی رکھتا ہے اپنی عزت کو داؤ پر لگاتا ہے اور انسانی شرف و عظمت کی ساری حدوں کو پار کر جاتا ہے آخر کار ان تمام ذرائع اور حرام طریقوں سے کمایا ہوا وہی مال و زر اپنے کمانے والے کے لئے بعد مرگ ایک ایسا توشہ اور ذریعہ بن جاتا ہے جو اسے جہنم کی آگ تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ اول تو حرام ذرائع سے کمانے اور پھر اس کمائی سے فائدہ اٹھانے کا گناہ اس پر ہوتا ہے اس کے علاوہ مرنے کے بعد وہ جو کچھ حرام مال و زر چھوڑ جاتا ہے وہ یکے بعد دیگرے اس کے وارثوں کی ملکیت میں جاتا ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی وجہ سے وہ سب گناہ و معصیت میں مبتلا ہوتے ہیں اور انجام کار اس حرام مال کے ذریعہ قیامت تک صادر ہونے والے گناہوں کی سیاہی اس کے نامہ اعمال کو داغدار کرتی رہتی ہے۔
(ان اللہ لا یمحوا لسئی) یہ جملہ مستانفہ یعنی ایک علیحدہ جملہ ہے جو بمنزلہ تعلیل عدم قبول یعنی مال حرام کے صدقہ کے قبول نہ ہونے کی علت کو بیان کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ حرام مال میں سے صدقہ دینا ثواب کا ذریعہ تو کیا ہوتا یہ خود ایک برائی اور گناہ ہے اور اللہ تعالیٰ برے اعمال کو برائیوں کے ذریعہ دور نہیں کرتا یعنی اگر کوئی یہ چا ہے کہ اپنے حرام مال میں سے کچھ خدا کے نام پر صدقہ دے کر اپنے گناہوں میں تخفیف کا سامان کرے تو یہ ناممکن ہے کیونکہ حرام مال میں سے صدقہ دینا خود گناہ ہے بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی حرام مال میں سے صدقہ و خیرات کرے اور پھر اس پر ثواب کی امید رکھے تو وہ کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے نیز اگر کسی فقیر و محتاج کو یہ معلوم ہو جائے کہ اسے صدقہ دینے والا بطور صدقہ جو مال دے رہا ہے وہ حرام ذرائع سے حاصل کیا گیا ہے اور اس کے باوجود وہ صدقہ دینے والے کے لئے دعا کرے تو وہ بھی کفر کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔
(ولکن یمحوا السیئی بالحسن) کا تعلق ما قبل کے جملہ سے ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں میں تخفیف یا گناہوں کی بخشش تو نیک اعمال اور اچھے کاموں کے ذریعہ ہوتی ہے مثلاً حلال میں سے صدقہ کرنا ایک نیک عمل ہے جو شخص اپنے حلال مال میں سے خدا کی راہ میں خرچ کریگا اسے اس کا ثواب بھی ملے گا اور اس کے گناہ بھی دور کئے جائیں گے گویا اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے آیت (اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْہبْنَ السَّيِّاٰتِ) 11۔ہود:114) (بلاشبہ نیکیاں برائیوں کو دور کرتی ہیں) اور یہ سب جملے اصل حدیث کی آخری عبارت (ان الخبیث) کی تمہید ومقدمہ کے طور پر ہیں۔
اور حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا وہ گوشت جس نے حرام مال سے پرورش پائی ہے جنت میں داخل نہیں ہو گا اور جو گوشت یعنی جو جسم حرام مال سے نشوونما پائے وہ دوزخ کی آگ ہی کے لائق ہے (احمد دارمی بیہقی)
تشریح
حرام مال سے نشوونما پانے والے جسم کے دوزخ میں داخل ہونے سے مراد یا تو یہ ہے کہ ایسا شخص شروع میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہو گا بلکہ اس نے جتنا حرام مال کھایا ہو گا اس کے بقدر جب سزا بھگت لے گا تو اس کو جنت میں داخل کیا جائے گا یا یہ کہ ایسا شخص جنت کے اعلی درجات میں داخل نہیں ہو سکے گا یا یہ مراد ہے وہ لوگ جنت میں داخل نہیں ہوں گے جو حرام مال کو حرام مال سمجھ کر نہیں بلکہ حلال مال یقین کر کے کھاتے ہیں یا پھر یہ کہ اس ارشاد گرامی کا اصل مقصد حرام مال کھانے کی برائی بیان کرنا ہے اور اس سے مراد زجر و توبیخ تہدید اور سخت وعید ہے۔
جو شخص حرام مال کھانے کمانے کے بعد اپنے اس قبیح فعل پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ سچے دل سے توبہ کرے یا اللہ تعالیٰ اس کو بغیر توبہ کے محض اپنے فضل وکرم سے بخش دے اور اس نے جن لوگوں کا مال حرام طریقوں سے کمایا ہو گا ان کو راضی کر دے اور یا اسے کسی کی شفاعت حاصل ہو جائے تو وہ شخص اس وعید سے مستثنی ہو گا۔
اور حضرت حسن ابن علی کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد گرامی کو خود سنا ہے اور اسے یاد رکھا ہے کہ جو چیز تم کو شک میں ڈالے اس کو چھوڑ دو اور اس چیز کی طرف میلان رکھو جو تم کو شک میں نہ ڈالے کیونکہ حق دل کے اطمینان کا باعث ہے اور باطل شک و تردد کا موجب)
تشریح
ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ شبہات میں پڑنے سے بچو اور جو چیزیں شبہات میں مبتلا کرنے والی ہوں ان سے اجتناب کرو بعض علماء کے نزدیک یہ مطلب ہے کہ از قسم اقوال و اعمال جس چیز کی حلت و حرمت کے بارے میں تمہارا ضمیر شک میں مبتلا ہو جائے تو اس چیز کو چھوڑ کر اس چیز کو اختیار کر لو جس کے بارے میں تمہارا ضمیر کسی شک میں مبتلا نہ ہو کیونکہ انسان کا ضمیر چونکہ غلط راہنمائی نہیں کرتا اس لئے کسی چیز کے بارے میں ضمیر کا شک میں مبتلا ہونا اس چیز کے غلط اور باطل ہونے کی علامت ہے اور کسی چیز کے بارے میں ضمیر کا مطمئن ہو جانا اس چیز کے صحیح اور حق ہونے کی علامت ہے گویا کسی چیز کے صحیح یا غلط ہونے اور اس کے حلال یا حرام ہونے کی پہچان کے لئے یہ ایک قاعدہ اور کسوٹی ہے تاہم یہ ذہن نشین رہنا چاہئے کہ یہ بات ہر شخص کو حلال نہیں ہوتی بلکہ یہ وصف خاص ان صالح انسانوں کو نصیب ہوتا ہے جن کے ذہن و فکر اور جن کے دل و دماغ تقویٰ و ایمان داری اور راستبازی وحق پسندی کے جوہر سے معمور ہوتے ہیں۔
اور حضرت وابصہ ابن معبد کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا وابصہ تم یہی پوچھنے آئے ہو ناں کہ نیکی کیا ہے اور گناہ کیا ہے میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ان کا بیان ہے کہ یہ سن کر آپ نے اپنی انگلیوں کو اکٹھا کیا اور میرے سینے پر مار کر فرمایا کہ اپنے آپ سے دریافت کرو اپنے دل سے دریافت کرو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ تین مرتبہ فرمائے اور پھر فرمایا کہ نیکی وہ ہے جس سے انسان خود مطمئن ہو جائے اور جس سے اس کے دل کو سکون حاصل ہو جائے اور گناہ وہ ہے جس سے انسان کا وجود خلش محسوس کرے اور جس سے اس کے دل و سینہ میں شک و تردد پیدا ہو جائے اگرچہ لوگ اسے صحیح کہیں (احمد، دارمی)
تشریح
اس ارشاد گرامی میں نیکی و بدی اور اچھائی و برائی کو پہچاننے کی ایک ایسی واضح علامت بتائی گئی ہے جسے ہر صالح انسان اپنے ہر قول و فعل کی کسوٹی بنا سکتا ہے جس قول اور جس عمل پر اپنا جی مطمئن ہو جائے اور دل سکون محسوس کرے تو سمجھنا چاہئے کہ وہ قول یا عمل نیک اور اچھا ہے اور جس قول یا عمل پر طبیعت میں خلش و چبھن اور دل میں شک و تردد کی کسک پیدا ہو جائے سمجھ لینا چاہئے کہ وہ قول یا فعل غلط اور برا ہے چنانچہ حدیث کا حاصل یہی ہے کہ ہر قول و فعل کے بارے میں خود اپنے ضمیر کی راہنمائی حاصل کرو جس چیز سے خاطر جمعی حاصل ہو اور دل میں یہ خلجان نہ ہو کہ یہ بری ہے سمجھو کہ وہی نیکی ہے اور جس چیز سے خاطر جمعی حاصل نہ ہو اور دل میں تردد و خلجان پیدا ہو جائے سمجھو کہ وہی گناہ ہے اگرچہ لوگ اس چیز کے بارے میں یہی کیوں نہ کہیں کہ یہ صحیح اور اچھی ہے اور کوئی مفتی اس کے صحیح ہونے کا فتوی ہی کیوں نہ دے دے لہذا ان کے کہنے پر عمل نہ کرو۔ مثلاً اگر کسی شخص کے بارے میں تمہیں یہ معلوم ہو کہ اس کے پاس حلال مال بھی ہے اور حرام مال بھی اور وہ شخص تمہیں اپنے مال میں سے کچھ دینا چاہتا ہے تو اگر تمہارا دل اس پر مطمئن ہو کہ وہ تمھیں جو مال دے رہا ہے وہ وہی مال ہے جو اس نے صرف حلال ذرائع سے کمایا ہے تو تم لے لو اور اگر تمہارا دل مطمئن نہ ہو اور تمہیں یہ خوف ہو کہ کہیں یہ وہ مال نہ ہو جو اس نے حرام ذرائع سے کمایا ہے تو تم اس سے ہرگز کچھ نہ لو اگرچہ وہ خود یہ کہے کہ میں تمہیں اپنے حلال میں سے دے رہا ہوں اور کوئی مفتی یہ فتوے بھی دے رہا ہو کہ تمہارے لئے یہ مال لینا جائز ہے کیونکہ فتوی اور چیز ہے اور تقویٰ اور چیز ہے تقویٰ پر عمل کرنا فتوی پر عمل کرنے سے کہیں بہتر ہے۔
گزشتہ حدیث کی تشریح میں بھی یہ بات بتائی جا چکی ہے کہ ضمیر کی صحیح راہنمائی کا جوہر ہر شخص کو نصیب نہیں ہوتا اور اب اس موقع پر بھی جان لیجئے کہ حدیث میں اپنے دل سے دریافت کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس کا تعلق ان صالح لوگوں سے ہے جن کے دل خواہشات نفسانی کی کدورت سے صاف اور تقویٰ و خدا ترسی کے جوہر سے معمور ہوتے ہیں کیوکہ ان کے طبائع اور ان کے قلوب صرف خیر و بھلائی کی طرف مائل اور برائی سے بیزار رہتے ہیں جبکہ برے لوگ نفسانی خواہشات میں گرفتار رہتے ہیں اور نیکی و بھلائی سے بے اعتنائی اختیار کئے ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس صورت میں انہیں ضمیر کی صحیح راہنمائی حاصل نہیں ہو سکتی نیز یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ اپنے دل سے دریافت کرنے کا یہ حکم اس صورت میں ہے جبکہ کسی چیز کے بارے میں کوئی واضح شرعی فیصلہ سامنے نہ ہو چنانچہ جب کسی چیز کے حکم کے بارے میں قرآن کی آیتوں میں تعارض نظر آئے تو واجب ہے کہ حدیث کی طرف رجوع کیا جائے حدیث جس آیت کے مطابق فیصلہ کرے اسی آیت پر عمل کیا جائے اگر حدیثوں میں بھی تعارض ہو تو پھر علماء کے اقوال کی طرف رجوع کرنا واجب ہے اور اگر علماء کے اقوال میں بھی تعارض ہو تو پھر اس کے بعد اپنے دل کی راہنمائی حاصل کرے اور ان اقوال میں سے اس قول کے مطابق عمل کرے جس کو اپنا دل صحیح و راجح تسلیم کرے اور اس پر مطمئن ہو جائے۔
آخر میں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ جب حضرت وابصہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے اپنی حاضری کا مقصد خود بیان نہیں کیا تھا بلکہ یہ اعجاز نبوت تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے از خود از راہ مکاشفہ ان کے دل کی بات بیان فرما دی نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی انگلیاں اٹھا کر ان کے سینہ پر اس لئے ماریں تاکہ آپ کے مبارک ہاتھوں کی برکت کی وجہ سے ان کو آپ کے کلام کی پوری سمجھ حاصل ہو جائے دوسرے ان کے دل کی طرف اشارہ کرنا بھی مقصود تھا کہ دل یہاں ہے اس سے دریافت کر لو۔
اور حضرت عطیہ سعدی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بندہ اس وقت تک کامل پرہیزگاروں کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ ان چیزوں کو نہ چھوڑ دے جن میں کوئی قباحت نہیں ہے تاکہ اس طرح وہ ان چیزوں سے بچ سکے جن میں قباحت ہے (ترمذی ابن ماجہ)
تشریح
شرعی نقطہ نظر سے متقی یعنی پرہیزگار وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو ان چیزوں سے دور رکھے جنہیں اختیار کرنا اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے عذاب کا سبب ہو۔ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ تقویٰ یعنی پرہیزگاری کے تین درجے ہیں۔
چنانچہ جو بندہ شرک سے بچتا ہے وہ دائمی عذاب سے نجات پاتا ہے اس آیت کریمہ (وَاَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى) 48۔ الفتح:26) (اور اللہ نے ان مؤمنوں کو پرہیزگاری کی بات (یعنی توحید پر قائم کیا) میں یہی درجہ مراد ہے۔
دوم ہر گناہ یہاں تک کہ صغیرہ گناہوں سے بھی اجتناب۔ چنانچہ بعض علماء کے نزدیک تقویٰ کی جو مشہور شرعی اصطلاح ہے اس کا اطلاق اسی درجہ پر ہوتا ہے اور اس آیت کریمہ (وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓی اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا) 7۔ الاعراف:96) (اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور پرہیزگار ہو جاتے) میں بھی یہی درجہ مراد ہے۔
سوم ہر چیز میں پوری احتیاط ملحوظ رکھنا یہاں تک کہ بعض مباح چیزوں کو بھی احتیاط اور مصلحت کے پیش نظر ترک کر دینا اپنا دل غیر اللہ میں نہ لگانا اور غیر اللہ سے اپنا دھیان ہٹا کر صرف اسی کی طرف متوجہ رکھنا چنانچہ اس آیت کریمہ (یٰٓاَیھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِہٖ) 3۔ آل عمران: 102) (اے مؤمنو اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے) میں تقویٰ کے یہی معنی مراد ہیں اور مذکورہ بالا حدیث میں بھی تقویٰ یعنی پرہیزگاری کا یہی کامل درجہ مراد ہے۔
حدیث کاحاصل یہ ہے کہ کوئی بندہ اس وقت تک پورا متقی و پرہیزگار نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اس خوف کی وجہ سے مباح چیزیں بھی نہیں چھوڑ دیتا کہ مبادا یہ مباح چیز کسی حرام یا مکروہ یا مشتبہ چیز تک پہنچنے کا ذریعہ بن جائے مثلاً اگر وہ شادی شدہ نہ ہو تو شہوت کا غلبہ بھی زیادہ ہوتا ہے اسی طرح خوشبو وغیرہ نہ لگائے اور نہ کوئی ایسی مباح چیز استعمال کرے جس سے جذبات میں ہیجان پیدا ہوتا ہو بہرکیف حرام مکروہ اور مشتبہ چیزوں سے اجتناب کے بعد احتیاط کے پیش نظر بعض مباح چیزوں سے بھی بچنا تقویٰ و پرہیزگاری کا کامل ترین درجہ ہے چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حرام میں مبتلا ہو جانے کے خوف سے دس حلال حصوں میں سے نو حصے چھوڑ دیتے تھے۔ اسی طرح حضرت ابوبکر صدیق کے بارے میں منقول ہے وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم لوگ حرام میں مبتلا ہو جانے کے خوف سے از قسم مباح ستر حصے ترک کر دیتے تھے۔
حضرت انس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے شراب کے معاملہ میں ان دس آدمیوں پر لعنت فرمائی ہے 1شراب کشید کرنے والا 2 شراب کشید کرانے والا 3شراب پینے والا 4شراب اٹھانے والا یعنی وہ شخص جو کسی کو شراب اٹھا کر دے 5 شراب اٹھوانے والا یعنی وہ شخص جو کسی کو شراب اٹھا لانے کا حکم دے 6شراب پلانے والا
7 شراب بیچنے والا8 شراب کی قیمت کھانے والا 9 خریدوانے والا یعنی وہ شخص جو کسی دوسرے کے پینے کے لئے یا اس کی تجارت کے لئے بطریق وکالت یا بطریق ولایت 10شراب خریدنے خریدوانے والا یعنی وہ شخص جو کسی دوسرے سے اپنے پینے یا اپنی تجارت کے لئے شراب خرید منگوائے
تشریح
کشید کرنے والے سے مراد وہ شخص ہے جو شراب بنانے کے لئے انگور کا شیرہ کشید کرے خواہ اپنے لئے کشید کرے خواہ دوسرے کے لئے اسی طرح کشید کرانے والا خواہ اپنے لئے کشید کرائے خواہ دوسرے کے لئے بہرصورت وہ لعنت کا مستحق ہے بیچنے والے سے مراد وہ شخص بھی ہے جو خود اپنی تجارت کے طور پر شراب بیچتا ہو اور وہ شخص بھی مراد ہے جو کسی دوسرے کی طرف سے بطور دلال یا بطور وکیل بیچتا ہو نیز جو شخص شراب کشید کرنے والے کے ہاتھ انگور بیچتا ہے اور اس انگور کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال کھاتا ہے وہ بھی اس لعنت کا مستحق ہے۔
٭٭ اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے لعنت فرمائی ہے شراب پر شراب پینے والے پر شراب بیچنے والے پر شراب خریدنے والے پر شراب کشید کرنے والے پر شراب کشید کرانے والے پر شراب اٹھانے والے پر شراب اٹھوانے والے پر۔
تشریح
شراب پر اللہ تعالیٰ نے لعنت اس لئے فرمائی ہے کہ شراب ام الخبائث یعنی تمام برائیوں کی جڑ ہے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہا یہاں شراب سے مراد وہ شخص ہو جو شراب کی قیمت کے طور پر حاصل ہونے والا مال کھاتا ہے۔
حضرت محیصہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پچھنے لگانے والے کی کمائی کھانے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں منع کر دیا چنانچہ جب وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بار بار اجازت مانگتے رہے تو آپ نے انہیں یہ حکم دیا کہ اس کمائی کا مال اپنے اونٹ کو کھلا دو یا اپنے بردہ (غلام لونڈی) کو کھلاؤ۔
تشریح
اکثر صحابہ کی ملکیت میں غلاموں کی ایک بڑی تعداد رہتی تھی جن میں سے کچھ غلاموں کو وہ پچھنے لگانے کے کام پر مامور کر دیتے تھے اور پھر ان کی اجرت کے طور پر حاصل ہونے والے مال کو اپنے استعمال میں لا تے تھے چنانچہ ایک صحابی حضرت محیصہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ جاننا چاہا کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی آیا جائز ہے یا نہیں اور یہ اجازت مانگی کہ میرا غلام پچھنے لگانے کی جو اجرت حاصل کرتا ہے چونکہ اس میں سے کچھ حصہ میری ملکیت میں آتا ہے اس لئے میں اپنے اس حصہ کو اپنے استعمال میں لاؤں یا نہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اس کی اجازت نہیں دی چونکہ صحابہ اپنے بعض غلاموں سے پچھنے لگانے کی حاصل ہونے والی اجرت میں سے اپنا حصہ لیکر اسے اپنی ضروریات میں صرف کرتے تھے اور اسے وہ پسند بھی کرتے تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس کی اجازت نہ دینے سے محیصہ اس بارے میں دشواری محسوس ہوئی اور اس امید کی بناء پر کہ آپ اجازت دے دیں وہ بار بار اجازت طلب کرتے تھے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اتنی اجازت دیدی کہ وہ اس اجرت کو اپنے اونٹوں کے گھاس اور چارے میں اور اپنے غلاموں لونڈیوں پر صرف کر لیں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک طرف تو اشارہ فرمایا کہ پچھنے لگانے سے جو اجرت حاصل ہوتی ہے وہ اگرچہ جائز مال ہے مگر چونکہ وہ خون نکالنے کی کمائی ہے اس لئے اس کو شرفاء کے لئے استعمال کرنا مکروہ اور انکی شان کے خلاف ہے اور لونڈی غلام چونکہ آزاد لوگوں کے برخلاف ایسا شرف نہیں رکھتے جو اس پیشہ کی دنائت کے منافی ہو اس لئے پچھنے لگانے کی کمائی کھانا اس کی شان سے فروتر نہیں ہے۔ دوسری طرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے ذریعہ گویا اولو العزمی اور عالی ہمتی کی ترغیب بھی دی ہے کہ شرفاء کو با وقار پیشہ اور اپنے دست و بازو کی محنت کی ہی کمائی کھانی چاہئے۔
بہرکیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت محیصہ کو جو اجازت نہیں دی وہ محض نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پچھنے لگانے کی اجرت مال حرام ہے کیونکہ اگر یہ مال حرام ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم ان کو اسے اپنے جانور اور اپنے غلام لونڈی پر خرچ کی اجازت نہیں دیتے اس لئے کہ آقا کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے جانوروں یا اپنے غلام لونڈی کو حرام مال کھلائے لہذا حدیث کا حاصل یہ ہے کہ پچھنے لگانے والے کی کمائی کھانا مکروہ تنزیہی ہے۔
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کتے کی قیمت اور گانے والیوں کی کمائی کھانے سے منع فرمایا ہے (شرح السنۃ)
تشریح
بعض علماء کا قول یہ ہے کہ زمارۃ سے مراد مغنیہ یعنی گانے والی عورت کی بجائے وہ خوب صورت عورت ہے جو بدکاری کراتی ہے اسی طرح بعض حضرات کا کہنا یہ ہے کہ لفظ زمارۃ مشتق ہے زمر سے جس کے معنی ہیں چشم و ابرو کے ذریعہ اشارہ کرنا اور بدکار عورتیں چونکہ مردوں کو اپنے چشم وابرو کے اشاروں سے فریفتہ کر کے انہیں اپنے چنگل میں پھنساتی ہیں اس لئے ارشاد گرامی میں بد کار عورت کو زمارۃ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
حضرت ابوامامہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا گانے والی لونڈیوں کو نہ بیچو نہ ان کو خریدو اور نہ لونڈیوں کو گانا سکھاؤ اور ان گانے والی لونڈیوں کی حاصل ہونے والی قیمت مال حرام ہے اور اسی سلسلہ میں یعنی گانے والیوں کو خریدنے کی مذمت میں یہ آیت نازل کی گئی ہے (وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یشْتَرِی لَهْوَ الْحَدِیثِ) 31۔ لقمان:6) یعنی اور انسانوں میں بعض ایسے نادان و غلط کار لوگ ہیں جو کھیل کی بات خریدتے ہیں (احمد ترمذی ابن ماجہ) امام ترمذی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی علی ابن یزید روایت حدیث کے سلسلہ میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں۔
تشریح
بعض علماء نے حدیث کے ظاہری الفاظ (وثمنہن حرام) (یعنی ان کی حاصل ہونے والی قیمت مال حرام ہے) کے پیش نظر یہ کہا ہے کہ گانے والی لونڈیوں کو بیچنا جائز نہیں ہے جبکہ بقیہ تمام علماء یہ کہتے ہیں کہ ان کو بیچنا جائز ہے یہ حدیث اگرچہ ضعیف ہے جس کی بناء پر اس کو کسی مسلک کی دلیل قرار دینا مناسب نہیں ہے لیکن اس کے باوجود (ثمنہن حرام) کی تاویل یہ کی جاتی ہے کہ اس حدیث کا مطلب صرف ان کے گانے کی اجرت کی حرمت کو بیان کرنا ہے یعنی ان کے گانے سے حاصل ہونے والی اجرت مال حرام ہے جیسا کہ کسی شراب فروش یا شراب بنانے والے کے ہاتھ جو انگور فروخت کئے جاتے ہیں کہ اس کی حاصل ہونے والی قیمت مال حرام کے حکم میں ہوتی ہے نہ کہ فی نفسہٖ انگور کی قیمت حرام ہوتی ہے اسی طرح گانے والی لونڈیوں کی وہ اجرت جو ان کے گانے کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اس لئے مال حرام ہے کہ وہ ایک حرام ذریعہ سے حاصل ہوتی ہے نہ کہ اس لئے حرام ہے کہ ان لونڈیوں کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے۔ آیت کریمہ میں کھیل کی بات سے مراد ہیں وہ گانے گیت اور حرام آوازیں جو ذکر اللہ سے باز رکھیں اور گناہ و معصیت کا سبب بنیں چنانچہ کہانیاں جھوٹی باتیں خرافات بکنا ٹھٹھے کی باتی موسیقی سیکھنا اور اسی قسم کی اور تمام فضول و لغو چیزیں بھی اس حکم میں داخل ہیں اس آیت کے نازل ہونے کا پس منظر یہ ہے کہ ایک شخص نصر ابن حارث تھا جو گانے والی لونڈیاں اس مقصد سے خریدتا تھا کہ ان کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کے راستہ سے گمراہ کرے چنانچہ اس کی مذمت میں یہ آیت نازل ہوئی اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ نضر ابن حارث نے عجمیوں کی لکھی ہوئی چند کتابیں خریدی تھیں جن کی جھوٹی سچی کہانیاں پڑھ کر قریش کو سنایا کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم تو تمہارے سامنے قوم عاد و ثمود کے قصص بیان کرتے ہیں اور میں تمہارے سامنے رستم و اسفندیار اور بادشاہوں کی کہانیاں سناتا ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت بالا کے ذریعہ اس کی مذمت بیان فرمائی۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حلال روزی کمانا فرض کے بعد ایک فرض ہے (بیہقی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اپنی اور اپنے اہل وعیال کی معاشی ضروریات کی کفالت کے لئے اپنے دست و بازو کی محنت سے کمانا فرض ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے جو فرائض مقرر کئے ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ پہلے ان کا درجہ ہے کہ ان فرائض کی تکمیل کے بعد حلال روزی کمانا فرض ہے۔
اس بارے میں فقہی مسئلہ یہ ہے کہ کمانا اس شخص پر فرض ہے جو اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال (کہ جن کی کفالت اس کے ذمہ ضروری ہے) کی ضروریات زندگی کی کفالت کے لئے کمائی کا محتاج ہو۔
حدیث میں مذکور کسب حلال یعنی حلال کمائی سے مراد وہ روزی ہے جس کا حرام نہ ہونا یقینی ہو گویا یہاں حلال روزی کا اطلاق اس مال پر بھی ہو سکتا ہے جو مشتبہ ہو کیونکہ احادیث میں مشتبہ سے پرہیز کرنے کا حکم محض احتیاط کے طور پر ہے فرض ہونے کے طور پر نہیں ہے نیز ایک بات یہ بھی ذہن میں رہنی چاہئے کہ اس حدیث میں حلال روزی کمانے کو جو فرض کہا گیا ہے اس کا مخاطب ہر شخص بذاتہٖ نہیں ہے کیونکہ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کی ضروریات زندگی کی کفالت دوسروں پر واجب ہوتی ہے جس کی وجہ سے خود انہیں کمانا ضروری نہیں ہوتا۔
حضرت ابن عباس کے بارے میں منقول ہے کہ ان سے کتابت قرآن کی اجرت کا حکم دریافت کیا گیا کہ کتابت قرآن کی اجرت کھانا جائز ہے یا نہیں تو انہوں نے فرمایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ کاتب لوگ تو صرف نقش کھینچنے والے ہیں جو اپنے ہاتھوں کی کمائی کھاتے ہیں (رزین)
تشریح
سائل نے گویا کتابت قرآن کی اجرت لینے اور اس کے کھانے کو ایک بعید سی بات جانی اس لئے اس نے حضرت ابن عباس سے اس کا حکم دریافت کیا چنانچہ ابن عباس نے اسے جواب دیا کہ کاتب تو کاغذ پر الفاظ نقش بناتے ہیں یعنی ان کا کام صرف کتابت کرنا اور لکھنا ہے جس کی وہ اجرت حاصل کرتے ہیں خواہ وہ قرآن کی کتابت کریں یا کسی اور کتاب کی اور یہی ان کا ہنر و پیشہ ہوتا ہے جو ان کی حلال روزی کا ذریعہ ہے۔
حضرت رافع بن خدیج راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ پوچھا گیا کہ کونسا کسب پاکیزہ یعنی افضل ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ انسان کا اپنے ہاتھ سے کمانا اور ہر وہ تجارت جو مقبول یعنی شرعی اصول وقواعد کے مطابق ہو (احمد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب کا حاصل یہ ہے کہ سب سے بہتر تو وہ کسب و پیشہ ہے جس میں انسان کو اپنے ہاتھوں سے محنت کرنی پڑتی ہو جیسے زراعت اور کتابت وغیرہ اور اگر کوئی شخص ہاتھوں کی محنت والا کسب اختیار نہ کر سکے تو پھر ایسی تجارت کے ذریعے اپنی حلال روزی پیدا کرے جس میں دیانت و امانت کی روح بہرصورت کار فرما رہے کیونکہ ایسی تجارت بھی ایک پاک و حلال کسب ہے۔
حضرت ابوبکر ابن مریم تابعی کہتے ہیں کہ حضرت مقدام ابن معدی کرب (صحابی) کی ایک باندی ان کے گھر کے جانوروں کا دودھ بیچا کرتی تھی اور مقدام اس سے دودھ کی حاصل ہونے والی قیمت لے لیا کرتے تھے چنانچہ ایک روز مقدام سے کسی نے کہا کہ سبحان اللہ کتنی عجیب بات ہے کہ باندی دودھ بیچتی ہے اور تم اس کی قیمت لے لیتے ہو مقدام نے کہا کہ ٹھیک تو ہے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں درہم و دینار کے علاوہ کوئی چیز فائدہ نہیں دے گی۔
تشریح
گویا لوگوں نے حضرت مقدام کو طعنہ دیا کہ آپ کی باندی آپ کے جانوروں کا دودھ بیچتی ہے اور آپ اس دودھ کی قیمت لے کر کھاتے ہیں حالانکہ دودھ کے بارے میں تو بہتر یہی ہے کہ اسے فقراء و مساکین میں صدقہ و خیرات کے طور پر تقسیم کر دیا جائے یا اسے اپنے دوستوں اور متعلقین پر صرف کیا جائے دودھ کو بیچنا اور ان کی قیمت وصول کرنا آپ جیسوں کی شان کے لائق نہیں ہے اس کا جواب حضرت مقدام نے یہ دیا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کیونکہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس میں کوئی شرعی نقصان ہو دودھ بیچنا اور اس کی قیمت وصول کرنا نہ ہی حرام ہے اور نہ مکروہ ہے اور پھر میرا یہ فعل کسی لالچ کی بناء پر یا مال و زر کی ہوس میں نہیں ہے بلکہ دراصل میں اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لئے اس کا محتاج ہوں اس کے بعد حضرت مقدام نے آنے والے زمانے میں مال و زر کی طرف لوگوں کے شدید میلان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ پیش گوئی بیان کی کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں لوگوں کی تمام تر توجہ اور کوششوں کا مرکز صرف مال و زر بن جائے گا۔ چونکہ لوگ اپنی ضروریات کا دائرہ وسیع کریں گے اور اسباب معیشت کی قلت و گرانی ہمہ قسم کی پریشانیوں اور نقصانات میں مبتلا کر دے گی اس لئے نہ علم و ہنر کی طرف توجہ ہو گی اور نہ اہل علم و کمال کی قدر و منزلت بلکہ صرف مال و زر کی طرف توجہ ہو گی اور مالداروں کی قدر و منزلت۔
منقول ہے کہ صحابہ آپس میں فرمایا کرتے تھے کہ تجارت و محنت کے ذریعے اتنا مال و زر ضرور کما لیا کرو جس سے آبرومندانہ زندگی کا تحفظ ہو سکے اور یاد رکھو کہ ایک ایسا بھی دور آنے والا ہے کہ جب تم میں سے کوئی محتاج و تنگدست ہو گا تو سب سے پہلے اپنے دین و ایمان ہی کو کھا جائے گا۔
حضرت نافع کہتے ہیں کہ میں اپنی تجارت کا مال و اسباب تیار کر کے اپنے ملازموں اور وکیلوں کی سپردگی میں شام اور مصر بھیجا کرتا تھا پھر بعد میں ایک مرتبہ میں نے اپنا تجارتی سامان عراق کی طرف بھیجنے کا ارادہ کیا اور ام المؤمنین حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے عرض کیا کہ ام المؤمنین میں (پہلے تو) اپنا تجارتی سامان شام بھیجا کرتا تھا مگر اب میرا ارادہ ہے کہ اپنا تجارتی سامان لے کر عراق کی طرف جاؤں یہ سن کر حضرت عائشہ نے فرمایا کہ ایسا نہ کرو تمہیں اور تمہاری تجارت کو کیا ہوا ہے کہ تم شام کے سلسلہ تجارت کو منقطع کرتے ہو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے رزق کا کوئی سبب کسی صورت میں پیدا کر دے تو اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے حتی کہ اس میں کوئی تبدیلی پیدا ہو جائے یا نقصان پہنچنے لگے۔
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے رزق کا جو بھی جائز ذریعہ ہو مثلاً وہ سامان تجارت کہیں باہر بھیجتا ہو جس کے نفع سے اسے رزاق حاصل ہوتا ہو تو وہ اس کو بلا سبب چھوڑے نہیں ہاں اگر کوئی ایسا امر پیش آ جائے جس کی بناء پر اس ذریعے کو ختم کرنا ہی ضروری ہو مثلاً نفع ہونا بند ہو جائے یا اصل مال میں نقصان واقع ہونے لگے تو ایسی صورت میں اسے چھوڑ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص از قسم مباح کسی اچھی چیز کو حاصل کر لے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کو اللہ کی ایک نعمت سمجھ کر اس پر قائم و برقرار رہے اور بغیر کسی قوی عذر کے اسے چھوڑ کر اس کے بغیر کی طرف مائل نہ ہو۔
حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق کے پاس ایک غلام تھا جو اپنی کمائی میں سے ایک مقررہ حصہ حضرت ابوبکر کو دیا کرتا تھا (جیسا کہ اہل عرب کا معمول تھا کہ وہ اپنے غلاموں کو کمائی پر لگا دیتے تھے اور ان کو حاصل ہونے والی اجرت میں سے کوئی حصہ اپنے لئے مقرر کر لیتے تھے) چنانچہ حضرت ابوبکر اس غلام کی لائی ہوئی چیز کو کھا لیا کرتے تھے ایک مرتبہ وہ غلام کوئی چیز لایا جس میں سے حضرت ابوبکر نے بھی کھایا ان کے کھانے کے بعد غلام نے کہا کہ آپ جانتے بھی ہیں یہ کیسی چیز ہے حضرت ابوبکر نے فرمایا کہ مجھے کیا معلوم تم ہی بتاؤ یہ کیسی چیز ہے غلام نے کہا کہ میں ایام جاہلیت میں (یعنی اپنی حالت کفر میں) ایک شخص کو غیب کی باتیں بتایا کرتا تھا حالانکہ میں کہانت کا فن (یعنی پوشیدہ باتیں بتانے کا فن) اچھی طرح نہیں جانتا تھا بلکہ میں اس کو (غلط سلط باتیں بنا کر) فریب دیا کرتا تھا (اتفاقا آج) اس شخص سے میری ملاقات ہو گئی تو اس نے مجھے یہ چیز دی یہ وہی چیز ہے جو آپ نے کھائی ہے حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ یہ سنتے ہی حضرت ابوبکر نے اپنے منہ (یعنی حلق) میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور جو کچھ پیٹ میں تھا (از راہ احتیاط) سب باہر نکال دیا (بخاری)
تشریح
یہ حدیث حضرت ابوبکر صدیق کی دینی احتیاط اور ان کے کمال تقویٰ کی واضح مثال ہے کہ انہیں جیسے ہی معلوم ہوا کہ ان کے پیٹ میں ایک چیز ایسی چلی گئی ہے جو ایک حرام سلسلے میں حاصل ہوئی تھی انہوں نے فوارا قے کر کے اسے باہر نکال دیا بلکہ وہ چیز چونکہ کہانت اور اس کے ساتھ ہی فریب کی آمیزش کی وجہ سے بڑی شدید حرمت کی حامل تھی اس لئے انہوں نے قے کر کے صرف اسی چیز کو نکال دینے پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ہر اس چیز کو نکالنا ضروری سمجھا جو پیٹ کے اندر اس کے علاوہ تھی کیونکہ انہیں خوف تھا کہ اس چیز کے کسی بھی جزء نے پیٹ میں دوسری چیزوں کو بھی ملوث کر دیا ہو گا۔
حضرت ابوبکر کے اس فعل سے حضرت امام شافعی نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اگر کسی شخص نے کوئی حرام چیز کھا لی ہو اور وہ اس نے اس کی حرمت کے علم کے باوجود کھائی یا لاعلمی میں کھائی ہو اور بعد میں اسے معلوم ہوا کہ وہ حرام چیز تھی تو اس پر لازم ہے کہ فوراً قے کر کے اس چیز کو پیٹ سے نکال دے۔
حضرت امام غزالی نے منہاج العابدین میں لکھا ہے کہ حضرت ابوبکر کا یہ فعل ورع یعنی تقویٰ و پرہیزگاری کی قسم سے ہے نیز انہوں نے لکھا ہے کہ ورع کا حکم یہ ہے کہ تم کسی سے کوئی چیز اس وقت تک نہ لو جب تک کہ اس کے بارے میں پوری تحقیق نہ کر لو پھر تحقیق کے بعد یہ یقین بھی حاصل کر لو کہ اس چیز میں کسی بھی درجے کا کوئی اشتباہ نہیں ہے اگر اس چیز کے بارے میں پوری تحقیق اور یہ یقین حاصل نہ ہو سکے تو اس چیز کو نہ لو اور اگر لے لی ہو تو اسے واپس کر دو۔
حضرت ابوبکر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس بدن نے حرام مال سے پرورش پائی ہو گی وہ شروع ہی میں نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ اور جزا بھگتے بغیر جنت میں داخل نہ ہو گا۔
حضرت زید ابن اسلم جو حضرت عمر فاروق کے آزاد کردہ غلام تھے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ابن خطاب نے دودھ پیا جو ان کو عجیب معلوم ہوا انہوں نے اس شخص سے کہا جس نے دودھ لا کر پلایا تھا پوچھا کہ یہ دودھ تمہیں کہاں سے ملا تو اس نے ان کو بتایا کہ وہ (یعنی میں) پانی کے ایک چشمے یا کنویں پر گیا تھا اس نے چشمے یا کنویں کا نام بھی بتایا وہاں میں نے دیکھا کہ زکوٰۃ کے کچھ جانور (یعنی اونٹ و بکری وغیرہ پانی پینے کے لئے آئے ہوئے) ہیں اور ان جانوروں کے نگران ان کا دودھ نکال کر لوگوں کو پلا رہے ہیں چنانچہ انہوں نے میرے لئے بھی دودھ دوہا جسے میں نے لے کر اپنی مشک میں ڈال لیا یہ وہی دودھ تھا یہ سن کر حضرت عمر نے اپنے حلق میں ہاتھ ڈال کر قے کر دی اور اس دودھ کو پیٹ سے باہر نکال دیا کیونکہ وہ زکوٰۃ کا مال تھا جو ان کے لے جائز نہیں تھا ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔
تشریح
حضرت سید جمال الدین محدث نے لکھا ہے کہ یہ حدیث مشکوک ہے اکثر نسخوں میں اس موقع پر مذکور نہیں ہے چنانچہ ہم نے مشکوٰۃ کے جس نسخے میں اپنے استاد سے حدیثیں سماعت کی ہیں اس میں بھی یہاں یہ حدیث نہیں البتہ اس کے حاشیے میں لکھی ہوئی ہے اس لئے مناسب یہی ہے کہ یہ حدیث اس باب سے محذوف رکھی جائے ویسے بھی یہ حدیث چونکہ مشکوٰۃ کی کتاب الزکوٰۃ میں چند الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ نقل کی جا چکی ہے اس لئے یہاں دوبارہ نقل کرنا مشکوٰۃ کی ترتیب کے مطابق موزوں نہیں ہے۔ لہذا جن نسخوں میں اس موقع پر یہ حدیث نقل نہیں کی گئی ہے ان میں پہلی حدیث یعنی حضرت ابوبکر کی روایت کے بعد یہ عبارت (رواہما البیہقی) لکھا ہوا ہے۔
٭٭ حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص مثلاً ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان میں ایک درہم بھی حرام مال کا ہو تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک اس شخص کی نماز نہیں قبول کرے گا جب تک کہ آدمی کے جسم پر وہ کپڑا ہو گا اس کے بعد حضرت ابن عمر نے اپنی شہادت کی دونوں انگلیاں اپنے کانوں میں ڈالیں اور کہا کہ یہ دونوں کان بہرے ہو جائیں اگر میں نے یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے نہ سنا ہو۔ (احمد بیہقی اور بیہقی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی اسناد ضعیف ہیں)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اگر حرام مال کا قلیل ترین جزء بھی جسم پر موجود ہو تو اس سے عبادت کا نتیجہ اثرپذیر ہو جاتا ہے چنانچہ اس بات کو بطور مثال بیان کیا گیا کہ اگر کوئی شخص ایک کپڑا دس درہم میں خریدے اور ان دس درہم میں ایک درہم ہو جو اسے کسی بھی حرام ذریعے سے حاصل ہوا تو وہ کپڑا جب تک کہ اس کے جسم پر رہے گا اس کی نماز قبول نہیں ہو گی اگرچہ اس شخص کے ذمہ سے فرضیت ساقط ہو جائے گی مگر اس کی نماز اس لائق نہیں ہو گی کہ اسے ثواب سے نوازا جائے جس طرح کہ اگر کوئی شخص کسی غصب کردہ زمیں پر نماز پڑھتا ہے تو اگرچہ اس کے ذمہ سے فرضیت ساقط ہو جاتی ہے مگر اس سے نماز کا پورا ثواب نہیں ملتا۔
روایت کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ جو بات میں نے کہی ہے وہ کوئی میری اپنی بات نہیں ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ ارشاد گرامی ہے جسے خود میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے اگر میں نے یہ حدیث اپنے کانوں سے نہ سنی ہو اور میں یہ غلط کہہ رہا ہوں تو خدا کرے میرے دونوں کان بہرے ہو جائیں۔
باہمی لین دین اور خرید و فروخت کے معاملات میں نرمی اور مسامحت اختیار کرنا معاشرتی تعلقات کے استحکام اور آپس کے تعاون و ہمدردی کے نقطہ نظر سے انتہائی ضروری ہے چنانچہ اس باب میں اسی موضوع سے متعلق احادیث نقل کی جائیں گی۔
حضرت جابر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص پر اپنی رحمت نازل فرمائے جو بیچنے میں خریدنے میں اور تقاضہ کرنے میں نرمی کرتا ہے۔
حضرت حذیفہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تم سے پہلے گزرے ہوئے لوگو (یعنی گزشتہ امتوں میں) سے ایک شخص کا واقعہ ہے کہ جب اس کے پاس موت کا فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آیا تو اس سے پوچھا گیا کہ کیا تو نے کوئی نیک کام کیا ہے؟ اس نے کہا مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے کوئی نیک کام کیا ہوا اس سے پھر کہا گیا کہ اچھی طرح سوچ لے اس نے کہا کہ مجھے قطعاً یاد نہیں آ رہا ہے ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میں دنیا میں جب لوگوں سے خرید و فروخت کے معاملات کیا کرتا تھا تو تقاضہ کے وقت یعنی مطالبات کی وصولی میں ان پر احسان کیا کرتا تھا بایں طور کہ مستطیع لوگوں کو تو مہلت دے دیتا تھا اور جو نادار ہوتے ان کو معاف کر دیتا تھا (یعنی اپنے مطالبات کا کوئی حصہ یا پورا مطالبہ ان کے لئے معاف کر دیتا تھا) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اسی عمل سے خوش ہو کر اس کو جنت میں داخل کر دیا (بخاری و مسلم)
اور مسلم کی ایک اور روایت میں جو عقبہ ابن عامر اور ابو مسعود انصاری نے اسی کے مثل (یعنی کچھ الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ) نقل کی ہے یہ الفاظ ہیں کہ جب اس شخص نے اپنا یہ عمل بیان کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں اس کا یعنی معاف کرنے کا حق تجھ سے زیادہ رکھتا ہوں اور پر فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے سے درگزر کرو۔
تشریح
(اتاہ الملک) سے مرادی تو یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی اس کی روح قبض کرنے آئے تھے یا پھر یہ کہ ان فرشتوں میں سے کوئی فرشتہ آیا ہو گا جو حضرت عزرائیل علیہ السلام کے مددگار و ماتحت ہیں لیکن اغلب یہ ہے کہ خود حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی آئے ہوں گے کیونکہ قبض روح کے سلسلے میں زیادہ صحیح بات یہی ہے کہ ارواح قبض کرنے کا کام حضرت عزرائیل علیہ السلام ہی انجام دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
آیت (قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم) کہہ دیجئے کہ تمہیں وہ ملک الموت (عزرائیل علیہ السلام) مارتا ہے جو تم پر اس کام کے لیے متعین ہے
چنانچہ حضرت عزرائیل علیہ السلام جب روح قبض کر لیتے ہیں تو جو اچھی یعنی پاکباز روح ہوتی ہے اسے رحمت کے فرشتے لے لیتے ہیں اور جو بری روح ہوتی ہے وہ عذاب کے فرشتوں کی نگرانی (CUSTODY) میں چلی جاتی ہے لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ ملک الموت (خواہ وہ عزرائیل ہوں یا کوئی اور فرشتہ) روح قبض کرنے کا صرف ایک ظاہری ذریعہ بنتا ہے ورنہ حقیقت میں تو روح قبض کرنے والا اور موت طاری کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے جیسا کہ خود اسی کا ارشاد ہے آیت (اللہ یتوفی الانفس حین موتہا) ہر نفس کو اس کی موت کے وقت اللہ تعالیٰ ہی مارتا ہے
فقیل لہ (تو اس سے پوچھا گیا) اس کے بارے میں بھی دونوں احتمال ہیں یا تو اس سے یہ سوال اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا یا فرشتوں نے یہ بات پوچھی نیز وقت سوال کے سلسلے میں زیادہ واضح بات تو یہ ہے کہ اس شخص سے یہ سوال روح قبض کرنے سے پہلے کیا گیا تھا جیسا کہ حدیث کے ابتدائی الفاظ سے مفہوم ہوتا ہے لیکن یہ بھی احتمال ہے کہ یہ سوال روح قبض ہونے کے بعد قبر میں کیا گیا ہو گا جیسا کہ شیخ مظہر کا قول ہے اور علامہ طیبی نے ایک یہ احتمال بھی بیان کیا ہے کہ دراصل یہ سوال قیامت میں کیا جائے گا۔
بہرکیف اس حدیث سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطالبات کی وصولی میں مستطیع کو مہلت دینا اور نادار شخص کو معاف کر دیا بڑے ثواب کی چیز ہے
حضرت ابوقتادہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنی تجارتی زندگی میں زیادہ قسمیں کھانے سے پرہیز کرو کیونکہ تجارتی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانا پہلے تو کاروبار کو رواج دیتا ہے مگر پھر برکت کو کھو دیتا ہے۔ (مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگرچہ تجارتی معاملات میں زیادہ قسمیں کھانے کی وجہ سے وقتی طور پر کاروبار میں وسعت ہوتی ہے بایں طور کہ لوگ قسم پر اعتبار کر کے زیادہ خریداری کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن انجام رزیدہ قسمیں کاروبار میں خیر و برکت کو ختم کر دیتی ہیں کیونکہ جس شخص کو زیادہ قسمیں کھانے کی عادت ہو گی اس سے جھوٹی قسموں کا بھی صدور ہونے لگے گا جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ایک تو باطنی طور پر اس کی تجارت سے خیر و برکت کی روح نکل جائے گی دوسرے اس کا اعتبار آہستہ آہستہ اٹھنے لگے گا اور لوگ اس سے لین دین کرنے میں تامل کرنے لگیں گے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے تھے کہ قسم شروع میں تو مال و اسباب میں منفعت کا سبب بنتی ہے لیکن انجام کار برکت کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہے۔
تشریح
قسم سے مراد قسم کی کثرت و زیادتی بھی ہو سکتی ہے اور جھوٹی قسم بھی مراد لی جا سکتی ہے حاصل یہ کہ اگر کوئی شخص زیادہ قسمیں کھاتا ہے اگرچہ وہ قسمیں سچی ہوتی ہوں یا جھوٹی قسم کھاتا ہے تو اس کی وجہ سے شروع میں اور وقتی طور پر اس کے مال و اسباب میں وسعت و زیادتی ہو جاتی ہے کہ لوگ اس کی قسم پر اعتبار کر کے اس سے لین دین کثرت سے کرتے ہیں لیکن آخر کار یہی چیز اس کے مال و اسادب میں برکت ختم ہو جانے کا سبب بن جاتی ہے بایں طور کہ یا تو اس کا مال و اسباب تلف ہو جاتا ہے یا وہ ایسی جگہ خرچ ہو جاتا ہے جس کا کوئی فائدہ نہ تو اسے دنیا میں حاصل ہوتا ہے اور نہ اخروی طور پر اسے کچھ اجر و ثواب ملتا ہے۔
حضرت ابوذر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین شخص ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ تو ان سے مہربانی و عنایت کا کلام کرے گا نہ بنظر رحمت و عنایت ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان تینوں کے لئے درد ناک عذاب ہے ابوذر نے پوچھا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خیر و بھلائی سے محروم اور اس ٹوٹے میں رہنے والے وہ کون شخص ہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ایک تو پائنچے لٹکانے والا دوسرا کسی کو کوئی چیز دے کر احسان جتانے والا اور تیسرا جھوٹی قسمیں کھا کر اپنی تجارت بڑھانے والا (مسلم)
تشریح
پائنچے لٹکانے والے سے مراد وہ شخص ہے جو از راہ تکبر ٹخنوں سے نیچا پاجامہ پہنتا ہے چنانچہ اس میں وہ شخص بھی داخل ہے جو ٹخنوں سے نیچا کرتہ پہنے۔
احسان جتانے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے ساتھ کوئی اچھا سلوک کر کے مثلاً کسی کو کوئی چیز دے کر یا کسی کے ساتھ ہمدردی کا کوئی معاملہ کر کے اسے زبان پر لایا جائے چنانچہ جو شخص کسی کے ساتھ ہمدردی و اعانت کا کوئی معاملہ کر کے پھر اس پر احسان جتاتا ہے تو وہ ثواب سے محروم رہتا ہے۔
جھوٹی قسمیں کھا کر تجارت بڑھانے والے سے مراد وہ تاجر ہے جو زیادہ نفع حاصل کرنے کے لیے یا اپنا مال تجارت بڑھانے کے لئے جھوٹی قسمیں کھائے مثلاً اس نے کوئی چیز نوے روپے میں خریدی ہو مگر اپنے خریدار سے اس کی زیادہ قیمت وصول کرنے کے لئے یا اس کی مالیت بڑھانے کے لیے جھوٹی قسم کھا کر کہے کہ خدا کی قسم میں نے یہ چیز سو روپے میں خریدی ہے۔
حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قول و فعل میں نہایت سچائی اور نہایت دیانتداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا شخص نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا (ترمذی دارمی دارقطنی اور ابن ماجہ نے یہ روایت حضرت ابن عمر سے نقل کی ہے نیز ترمذی نے فرمایا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
کاروباری سے مراد وہ شخص ہے جو تجارتی کاروبار اور اجارہ داری کرتا ہو اور یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ سب سے بہتر کاروبار کپڑے کی تجارت ہے اس کے بعد عطاری ہے۔
ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کا مطلب یہ ہے کہ جو کاروباری شخص سچائی دیانت داری اور امانت کے اوصاف سے متصف ہو گا گویا اس کی زندگی تمام صفات کمالیہ سے مزین ہو گی جس کا تنیجہ یہ ہو گا کہ وہ یا تو میدان حشر میں نبیوں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا کہ جس طرح وہاں کی ہولناکیوں کے وقت یہ تینوں طبقے رحمت الہی کے سایہ میں ہوں گے اسی طرح وہ شخص بھی رحمت خداوندی کی خاص پناہ میں ہو گا یا یہ کہ اسے جنت میں ان کی رفاقت کا شرف حاصل ہو گا چنانچہ اسے انبیاء کی رفاقت تو ان کی اطاعت و فرمانبرداری کی وجہ سے حاصل ہو گی صدیقوں کا ساتھ ان کی صفت خاص یعنی صدق کی موافقت کی وجہ سے ہو گا اور شہیدوں کی رفاقت کی سعادت اسے اس لئے نصیب ہو گی کہ شہداء اس شخص کے وصف صدق و امانت کی شہادت دیں گے۔
قیس بن غرزہ (جو سوداگری کرتے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں ہم لوگوں کو یعنی سودا گروں کو سماسرہ کہا جاتا تھا۔ چنانچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا گزر ہماری طرف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے طبقے کا ایک ایسا نام عطا کیا جو ہمارے پہلے نام سے کہیں بہتر ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے طبقہ تجار تجارت میں اکثر بے فائدہ باتیں اور بہت زیادہ قسم یا کبھی کبھی جھوٹی قسم کھانے کی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں اس لئے تم تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو (ابوداؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ)
تشریح
سماسرہ دراصل لفظ سمسار کے جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں دلال یا کسی چیز کا مالک و منتظم چنانچہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار کرنے والے کو سمسار ہی کہتے ہیں پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان لوگوں کو اس سے بہتر نام یعنی تجارت و لفظ تاجر کی جمع کا صیغہ ہے عطاء کیا اس نام کے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خرید و فروخت کے کاروبار کو مدحیہ طور پر لفظ تجارت کے ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ایک آیت کی عبارت کا یہ ٹکڑا ہے (هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلیٰ تِجَارَةٍ تُنْجِیكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیمٍ) 61۔ الصف:10) (کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے) یا ایک اور آیت میں ہے (تجارۃ عن عراض) (سوداگری آپس کی رضا مندی سے) یا ایک آیت کے یہ الفاظ تجارۃ (لن تبور) (تجارت کرو ہلاکت میں نہ پڑو)
فشوبوہ بالصدقۃ(تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی زندگی میں عام طور پر بے فائدہ باتیں اور جھوٹی سچی قسموں کا صدور ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں ہی چیزیں پروردگار کے غضب و غصہ کا باعث ہیں اس لئے تم ان دونوں چیزوں کے کفارہ کے طور پر اپنا کچھ مال صدقہ و خیرات کرتے رہا کرو کیونکہ صدقہ و خیرات اللہ تعالیٰ کے غضب و غصہ کو دور کرتا ہے۔
حضرت عبید ابن رفاعہ تابعی اپنے والد محترم حضرت رفاعہ ابن رافع انصاری صحابی سے اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن تاجر لوگوں کا حشر فاجروں (یعنی دروغ گو اور نافرمان لوگوں) کے ساتھ ہو گا ہاں وہ تاجر اس سے مستثنی ہونگے) جنہوں نے پرہیزگاری اختیار کی (یعنی خیانت اور فریب دہی وغیرہ میں مبتلا نہ ہوئے) اور نیکی کی (یعنی اپنے تجارتی معاملات میں لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا یا یہ کہ عبادت خداوندی کرتے رہے) اور سچ پر قائم رہے (ترمذی ابن ماجہ دارمی) اور بیہقی نے شعب الایمان میں اس روایت کو حضرت براء سے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔