خلع خ کے پیش کے ساتھ خلع خ کے زبر کے ساتھ) اسم ہے خلع کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کو نکالنا اور عام طور پر یہ لفظ بدن سے کسی پہنی ہوئی چیز مثلاً کپڑے اور موزے وغیرہ اتارنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن شرعی اصطلاح میں اس لفظ کے معنی ہیں ملکیت نکاح کو مال کے عوض میں لفظ خلع کے ساتھ زائل کرنا یا ملکیت نکاح ختم کرنے کے لئے لفظ خلع کے ساتھ اپنی عورت سے مال لینا اس شرعی اصطلاح کی توضیح یہ ہے کہ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہو جائے اور دونوں میں کسی طرح نباہ نہ ہو سکے اور مرد طلاق بھی نہ دیتا ہو تو عورت کو جائز ہے کہ کچھ مال دے کر اپنا مہر دے کر نجات حاصل کر لے مثلاً اپنے مرد سے کہے کہ اتنا روپیہ لے کر خلع کر دو یعنی میری جان چھوڑ دو یا یوں کہے کہ جو مہر تمہارے ذمہ ہے اس کے عوض میری جان چھوڑ دو اس کے جواب میں مرد کہے کہ میں نے چھوڑ دی تو اس سے عورت پر ایک طلاق بائن پڑھ جائے گی اور دونوں میں جدائی ہو جائے گی۔
مظہر نے لکھا ہے کہ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ اگر مرد عورت سے کہے کہ میں نے اتنے مال کے عوض تم سے خلع کیا اور بیوی کہے کہ میں نے قبول کیا اور پھر میاں بیوی کے درمیان جدائی واقع ہو جائے تو آیا یہ طلاق ہے یا فسخ ہے، چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام مالک کا مسلک یہ ہے کہ یہ طلاق بائن ہے حضرت امام شافعی کا زیادہ صحیح قول بھی یہی ہے لیکن حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ یہ فسخ ہے اور حضرت امام شافعی کا بھی ایک قول یہی ہے
اگر میاں بیوی کے باہمی اختلاف کی بنیاد شوہر کی زیادتی و سرکشی ہو اور شوہر کی اس زیادتی و سرکشی کی وجہ سے بیوی خلع چاہتی ہو تو اس صورت میں شوہر کے لیے یہ مکروہ ہے کہ وہ خلع کے معاوضہ کے طور پر کوئی چیز مثلاً روپیہ وغیرہ لے اور اگر میاں بیوی کے باہمی اختلاف کی بنیاد بیوی کی نافرمانی و سرکشی ہو یعنی بیوی کی نافرمانی و بد اطواری کی وجہ سے خلع کی نوبت آئی ہو تو اس صورت میں شوہر کے لیے یہ مکروہ ہے کہ وہ اس خلع کے عوض میں اس قدر رقم لے کہ اس نے عورت کے مہر میں جو رقم دی ہے اس سے بھی زیادہ ہو۔
حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ ثابت ابن قیس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ثابت ابن قیس پر مجھے غصہ نہیں آتا اور نہ میں ان کی عادات اور ان کے دین میں کوئی عیب لگاتی ہوں لیکن میں اسلام میں کفر یعنی کفران نعمت یا گناہ کو پسند نہیں کر سکتی، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم ثابت ابن قیس کا باغ جو انہوں نے تمہیں مہر میں دیا ہے) ان کو واپس کر سکتی ہو؟ ثابت کی بیوی نے کہا کہ ہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر ثابت سے فرمایا کہ تم اپنا باغ لے لو اور اس کو ایک طلاق دے دو (بخاری)
تشریح
ثابت ابن قیس کی بیوی کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ میں اپنے شوہر سے اس لئے جدائی اختیار کرنا نہیں چاہتی کہ وہ بد اخلاق ہیں یا ان کی عادات مجھے پسند نہیں ہیں یا یہ کہ ان کے دین میں کچھ نقصان ہے بلکہ صورت حال یہ ہے کہ مجھے ان سے محبت نہیں ہے اور وہ طبعی طور پر مجھے ناپسند ہیں لیکن بہرحال وہ میرے شوہر ہیں اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان کے تئیں میری طرف سے کوئی ایسی حرکت نہ ہو جائے جو اسلامی حکم کے خلاف ہو مثلاً مجھ سے کوئی نافرمانی ہو جائے یا ان کی مرضی کے خلاف کوئی فعل سرزد ہو جائے تو ایسی صورت میں گویا کفران نعمت یا گناہ ہو گا جو مجھے گوارہ نہیں ہے اس لئے میں کیوں نہ ان سے جدائی اختیار کر لوں۔
کہا جاتا ہے کہ ثابت ابن قیس بہت بد صورت تھے اور ٹھگنے (پست) قد تھے اور ان کی بیوی کا نام حبیبہ یا جمیلہ تھا جو بہت خوبصورت اور حسین تھیں اسی لئے ان دونوں کا جوڑا بہت ناموزوں تھا اور ان کی بیوی ان کو پسند نہیں کرتی تھیں چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی عرض کے مطابق حضرت ثابت کو مصلحۃً یہ حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی کو ایک طلاق دے دیں اس سے معلوم ہوا کہ طلاق دینے والے کے حق میں یہ اولی افضل ہے کہ وہ ایک طلاق دے تا کہ اگر رجوع کرنا منظور ہو تو رجوع کر لے نیز اس سے یہ بات بھی ثابت ہوئی کہ خلع طلاق ہے فسخ نہیں ہے چنانچہ صاحب ہدایہ نے اس سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ایک حدیث بھی نقل کی ہے کہ الخلع تطلیقۃ بائنۃ یعنی خلع طلاق بائن ہے۔
اور حضرت عبد اللہ ابن عمر کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضرت عمر نے اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اس گناہ کا تدارک کرنے کے لئے) عبداللہ کو چاہئے کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے یعنی مثلاً یوں کہے کہ میں نے اس کو اپنے نکاح میں واپس لے لیا) اور پھر اس کو اپنے پاس رکھے یہاں تکہ کہ وہ پاک ہو جائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہو جائے اور پھر جب وہ حائضہ ہو اور اس کے بعد پاک ہو جائے اور طلاق دینا ضروری ہو تو پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے قبل اس کے کہ اس سے جماع کرے، پس یہی وہ عدت ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے۔ ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت عمر سے فرمایا کہ عبداللہ کو حکم دو کہ وہ اس عورت سے رجوع کرے اور پھر اس کو پاکی کی حالت میں بشرطیکہ وہ حاملہ نہ ہو اور حیض آتا ہو یا حمل کی حالت میں طلاق دے (بخاری و مسلم)
تشریح
فتغیظ فیہ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس واقعہ سے بہت غصہ ہوئے) یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حالت حیض میں طلاق دینا حرام ہے کیونکہ اگر یہ حرام نہ ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس واقعہ پر غصہ نہ ہوتے۔ اور حالت حیض میں طلاق دینا حرام اس لئے ہے کہ ہو سکتا ہے کہ طلاق دینے والے نے حالت حیض میں محض کراہت طبع کے سبب طلاق دی ہو اور وہ مصلحت اس کے طلاق دینے کیوجہ سے نہ ہو جس کی بناء پر طلاق دینا حرام ہو۔ مگر کوئی شخص اگر حالت حیض میں طلاق دے دے تو طلاق پڑھ جائے گی یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبداللہ کو رجوع کرنے کا حکم دیا اور یہ بالکل ظاہر بات ہے کہ رجوع کرنا طلاق کے بعد ہی ہوتا ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں دوسرے طہر (یعنی دوسرے حیض کے بعد پاکی کی حالت) تک طلاق کو مؤخر کرنے میں کیا مصلحت ہے؟ سیدھی بات تو یہ ہے کہ حکم یہ ہوتا کہ جس حیض میں طلاق دی گئی ہے اور پھر رجوع کیا گیا ہے اسی حیض کے گزرنے کے بعد پاکی کی حالت میں طلاق دی جائے لیکن اس کے برعکس اس کو دوسرے طہر تک مؤخر کیا گیا ہے، چنانچہ اس کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ اس کی کئی وجہیں ہیں اول تو یہ کہ رجوع کرنا صرف طلاق کی غرض سے نہ ہو لہذا طلاق دینے کو ایک ایسی مدت تک کے لئے مؤخر کر دینا چاہئے جس میں ایک طرف تو طلاق دینا حلال اور دوسری طرف طلاق کے فیصلہ پر نظر ثانی کا موقع بھی مل جائے اور شاید کوئی ایسی راہ نکل آئے کہ طلاق دینے کی نوبت ہی نہ آئے اور ظاہر ہے کہ ان دونوں مصلحتوں کی رعایت دوسرے طہر ہی میں ہو سکتی ہے۔
دوم یہ کہ اتنی مدت تک کے لئے طلاق دینے کو مؤخر کرنا دراصل طلاق دینے والے کے اس فعل بد یعنی حالت حیض میں طلاق دینے کی سزا ہے سوم یہ کہ جس حیض کی حالت میں طلاق دی گئی ہے وہ اور اس کے بعد کا طہر یعنی پاکی کی حالت دونوں گویا ایک ہی چیز کے حکم میں ہیں لہذا اگر پہلے طہر میں دی گئی تو گویا حیض ہی کی حالت میں دی لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ ان تینوں وجہوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دوسرے طہر تک طلاق سے باز رہنا واجب نہیں ہے بلکہ اولی ہے۔
طلاق کی قسمیں: یہ بات جاننی چاہئے کہ وقت و محل کے اعتبار سے نفس طلاق کی تین قسمیں ہیں
١) احسن ٢) حسن۔ حسن کو سنی بھی کہتے ہیں ٣) بدعی
طلاق احسن کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو اور پھر اس کو اسی حالت میں چھوڑے یعنی پھر نہ تو اس کو اور طلاق دے اور نہ اس سے جماع کرے) یہاں تک کہ اس کی عدت پوری ہو جائے طلاق کی یہ پہلی قسم سب سے بہتر ہے۔
طلاق حسن: کی صورت یہ ہے کہ ایک طلاق حسن رجعی ایسے طہر پاکی کی حالت میں دی جائے جس میں جماع نہ کیا ہو بشرطیکہ عورت مدخول بہا ہو اور اگر عورت غیر مدخول بہا ہو تو اس کے لئے ایک طلاق حسن ہے نیز اس کو حیض کی حالت میں بھی طلاق دی جا سکتی ہے اور آئسہ صغیرہ اور حاملہ عورتوں کے لئے طلاق حسن یہ ہے کہ ان کو تین مہینہ تک ہر مہینہ میں ایک طلاق دی جائے نیز ان عورتوں کو جماع کے بعد بھی طلاق دینا جائز ہے طلاق کی یہ دوسری قسم بھی بہتر ہے۔
طلاق بدعی: کی صورت یہ ہے کہ مدخول بہا کو ایک ہی طہر میں یا ایک ہی دفعہ میں تین طلاقیں دے دے یا ایسی دو طلاقیں دے جس میں رجعت کی گنجائش نہ ہو یا اس کو اس طہر میں طلاق دے جس میں جماع کر چکا ہو اس طرح اگر کسی شخص نے حیض کی حالت میں طلاق دی تو یہ بھی طلاق بدعی کے حکم میں ہے اور اگر وہ عورت کہ جس کو حیض کی حالت میں طلاق دی ہے مدخول بہا ہو تو صحیح تر روایت کے مطابق اس سے رجوع کرنا واجب ہے جب کہ بعض علماء نے رجوع کرنے کو مستحب کہا ہے، پھر جب وہ پاک ہو جائے اور اس کے بعد دوسرا حیض آئے اور پھر اس سے بھی پاک ہو جائے تب اگر طلاق دینا ضروری ہو تو اس دوسرے طہر میں طلاق دی جائے طلاق کی یہ تیسری قسم شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ ہے گو طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر طلاق دینے والا گنہگار ہوتا ہے۔
وقوع کے اعتبار سے طلاق کی دو قسمیں ہیں: رجعی۔ بائن:
طلاق رجعی کی صورت یہ ہے کہ طلاق دینے والا ایک بار یا دو صریح الفاظ میں یوں کہے کہ انت طالق یا طلقتک یا اردو میں یہ کہے تجھ پر طلاق ہے یا میں نے تجھے طلاق دی اس طرح طلاق دینے سے طلاق دینے والا ایام عدت میں بغیر نکاح کے رجوع کر سکتا ہے یعنی اگر وہ یوں کہے کہ میں نے تجھ سے رجوع کیا یا اس کو ہاتھ لگائے یا مساس کرے اور یا اس سے جماع کرے تو اس سے رجوع ہو جاتا ہے جدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوتی۔
طلاق بائن: کی صورت یہ ہے کہ طلاق کے صریح الفاظ کی بجائے ایسے الفاظ کے ذریعہ طلاق دی جائے جو اگرچہ صراحۃ طلاق کے لئے استعمال نہ ہوتے ہوں مگر کنایۃ وہ طلاق کا مفہوم بھی ادا کرتے ہوں علاوہ ان تین الفاظ کنایات کے جن کو فقہاء نے صریح طلاقوں کے لئے تسلیم کیا ہے طلاق بائن کا حکم یہ ہے کہ عورت نکاح سے نکل جاتی ہے تجدید نکاح کے بغیر اس عورت کو بیوی بنا کر رکھنا حرام ہے۔
حکم اور نتیجہ کے اعتبار سے بھی طلاق
کی دو قسمیں ہیں مغلظہ مخففہ:
طلاق مغلظہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی تین طلاقیں دی جائیں مثلاً یوں کہے کہ میں نے طلاق دی یا الگ الگ تین طلاقیں دی جائیں مثلاً یوں کہے کہ میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی میں نے طلاق دی) اس طلاق کے بعد طلاق دینے والا اس عورت کو دوبارہ اپنے نکاح میں بغیر حلالہ نہیں لا سکتا حلالہ کی صورت یہ ہے کہ وہ عورت عدت گزارنے کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے اور دوسرا مرد اس سے جماع کر کے اس کو طلاق دے دے اور پھر جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو پہلا شوہر اس سے نکاح کر لے۔
طلاق مخففہ کی صورت یہ ہے کہ یکبارگی یا الگ الگ دو طلاقیں دے یا ایک طلاق دے پھر اگر یہ دو طلاقیں یا ایک طلاق الفاظ صریح کے ساتھ ہو تو عدت کے اندر رجوع کر سکتا ہے تجدید نکاح کی ضرورت نہیں اور اگر الفاظ کنایہ کے ساتھ ہو تو تجدید نکاح کے بعد اس کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے حلالہ کی ضرورت نہیں۔
ہر عاقل و بالغ کی دی ہوئی طلاق واقع ہو جاتی ہے خواہ وہ آزاد ہو یا غلام اور خواہ وہ اپنی خوشی سے طلاق دے یا کسی کے جبر و اکراہ سے دے یا نشہ کی حالت میں دے۔
اسی طرح اگر عاقل و بالغ شوہر گونگا ہو اور وہ اشارہ معہودہ کے ذریعہ طلاق دے تو اس کی طلاق بھی واقع ہو جاتی ہے اور لڑکے اور دیوانے کی دی ہوئی طلاق واقع نہیں ہو گی اسی طرح اگر سویا ہوا شخص طلاق دے اور بیدار ہونے کے بعد کہے کہ میں نے تجھے سوتے میں طلاق دی ہے تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہو گی اگر کسی مالک نے اپنے غلام کی بیوی کو طلاق دی تو اس کی طلاق دی تو اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہو گی۔
طلاق میں اصلی اعتبار عورت کا ہے چنانچہ آزاد عورت کے لئے تین طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی غلام کے نکاح میں ہو اسی طرح لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں اگرچہ وہ کسی آزاد مرد کے نکاح میں ہو۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں اختیار دے دیا تھا کہ اگر تم دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کی طلبگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دے کر چھوڑ دوں اور اگر تم خدا، خدا کے رسول اور دار آخرت کی طلبگار ہو تو پھر جان لو کہ تمہارے لئے خدا کے ہاں بے شمار اجر عظیم ثواب ہے) چنانچہ ہم نے دنیا اور دنیا کی زینت و آسائش کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کو اختیار کر لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس اختیار کو ہمارے لئے طلاق کی اقسام میں کوئی قسم جیسے ایک ایک طلاق یا دو طلاقی یا رجعی یا بائن) کچھ بھی اختیار نہیں کیا (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی سے یوں کہے کہ اپنے نفس کو اختیار کر لو یا مجھے اختیار کر لو اور پھر بیوی خاوند کو اختیار کر لے تو اس سے کسی طرح کی طلاق واقع نہیں ہوتی چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے۔ لیکن اگر بیوی اپنے نفس کو اختیار کر لے تو اس صورت میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کے نزدیک طلاق رجعی حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک طلاق بائن اور حضرت امام مالک کے نزدیک تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔
منقول ہے کہ صحابہ میں سے امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہ اس بات کے قائل تھے کہ بیوی کو شوہر کے محض اختیار دے دینے ہی سے طلاق رجعی واقع ہو جاتی ہے خواہ وہ اپنے شوہر ہی کو کیوں نہ اختیار کر لے۔
اور حضرت زید ابن ثابت اس بات کے قائل تھے کہ طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ نے ان دونوں ہی کے اقوال کی تردید میں یہ حدیث بیان کر کے گویا یہ واضح کر دیا کہ شوہر کے محض اختیار دینے سے کوئی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ کسی چیز کو حرام کر لینے پر کفارہ دے اور اس سلسلہ میں تمہارے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی ہی بہتر ہے (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے اوپر کسی چیز خواہ وہ اپنی ہو یا کسی دوسری چیز کو حرام کر لے تو اس پر قسم کا کفارہ لازم آتا ہے اور وہ چیز حرام نہیں ہوتی حضرت ابن عباس اسی کے قائل تھے اور حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے کہ اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لے اگرچہ وہ چیز بذات خود حرام کیوں نہ ہو یا کسی دوسرے کی ملکیت کیوں نہ ہو مثلاً یوں کہے کہ مجھ پر شراب حرام ہے یا فلاں کا مال مجھ پر حرام ہے تو یہ بمنزلہ قسم ہے بشرطیکہ اگر اس نے کسی حرام چیز کے بارے میں یہ کہا کہ یہ چیز مجھ پر حرام ہے اور اس سے اس کا مقصد اس چیز کے حرام ہونے کی خبر دینا نہ ہو لہذا جب وہ اس چیز کو کہ جسے اس نے اپنے اوپر حرام کیا ہے کھائے یا استعمال کرے گا تو وہ گویا حانث یعنی قسم توڑنے والا ہو گا اور اس پر وہی کفارہ لازم ہو گا جو قسم توڑنے پر لازم ہوتا ہے ہاں اگر اس نے اس چیز کو صدقہ کر دیا یا کسی کو ہبہ کر دیا تو پھر حانث نہیں ہو گا ا ور اس پر کوئی کفارہ لازم نہیں آئے گا۔
چنانچہ حضرت ابن عباس نے اپنی اس بات کی تائید میں یہ آیت (وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ) 33۔ الاحزاب:21) پڑھی اور اس طرف اشارہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے شہد کو اپنے اوپر حرام کیا تو اس آیت (یٰٓاَیهَا النَّبِی لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ) 66۔ التحریم:1) کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو کفارہ دینے کا حکم دیا گیا (جس کا تفصیلی ذکر اگلی روایت میں آئے گا) لہذا تم پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی لازم ہے کہ اگر تم نے کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کر لیا اور پھر اس چیز کو استعمال کر کے حانث ہو گئے تو کفارہ ادا کرو۔
اگر کوئی شخص یوں کہے کہ تمام حلال مال مجھ پر حرام ہے یا خدا کی حلال کی ہوئی تمام چیزیں مجھ پر حرام ہیں تو ایسے قول کے بارے میں فتوی یہی ہے کہ اس طرح کہنے سے اس کی بیوی پر طلاق پڑھ جائے گی اگرچہ اس نے طلاق کی نیت نہ کی ہو اور اگر اپنی بیوی سے یہ کہے کہ تم مجھ پر حرام ہو تو یہ ایلاء ہو جائے گا بشرطیکہ اس نے واقع حرام کرنے کی نیت کی ہو یا کچھ بھی نیت کی ہو اور اگر اس نے یہ کہتے وقت ظہار کی نیت کی ہو گی تو ظہار ہو جائے گا۔ ہاں اگر اس نے یہ کہتے وقت کہ تم مجھ پر حرام ہو جھوٹ کی نیت کی ہو تو بھی یہ کہنا ہدر (لغو) ہو گا یعنی اس کہنے سے عند اللہ تو کچھ نہیں ہو گا لیکن یہ معاملہ اگر حاکم کے ہاں پہنچا تو حاکم ایلاء کا حکم نافذ کر دے گا اور اگر یہ کہتے وقت اس نے طلاق کی نیت کی تو طلاق بائن پڑھ جائے گی اور اگر تین طلاق کی نیت کی تو تین طلاقیں پڑ جائیں گی۔ اور فتوی اسی پر ہے کہ اگر طلاق کی نیت نہ بھی کرے تو تو بھی طلاق بائن پڑھ جائے گی۔
٭٭ اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنی ایک بیوی حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے اور وہاں شہد پیا کرتے تھے چنانچہ ایک دین میں نے اور حفصہ نے آپس میں یہ طے کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم ہم میں سے جس کے پاس تشریف لائیں تو وہ یہ کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے منہ مبارک سے مغافیر کی بو آتی ہے کیا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مغافیر کھایا ہے ؟ چنانچہ جب ان دونوں میں سے ایک یعنی حضرت عائشہ یا حضرت حفصہ کے پاس تشریف لائے تو اس نے یہی کہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں میں نے زینب بنت جحش کے ہاں شہد پیا ہے اب میں کبھی شہد نہیں پیوں گا۔ میں نے قسم کھا لی ہے لیکن تم کسی کو یہ نہ بتانا تا کہ اس بات سے زینب کی دل شکنی نہ ہو کہ اب میں ان کے ہاں شہد نہیں پیوں گا اور اس سے یعنی شہد کو اپنے اوپر حرام کر لینے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد اپنی بیویوں کو خوش کرنا تھا چنانچہ اس پر یہ آیت نازل ہوئی آیت (یٰٓاَیهَا النَّبِی لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكَ ۚ تَبْتَغِی مَرْضَاتَ اَزْوَاجِكَ) 66۔ التحریم:1) (یعنی اے نبی صلی اللہ علیہ و سلم ! آپ محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کی خاطر اپنے اوپر اس چیز کو کیوں حرام کرتے ہو جس کو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے حلال کر دیا ہے۔
تشریح
حضرت زینب بنت جحش کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے، یہ ان کی نوبت باری کے دن کا ذکر نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب اپنی ازواج مطہرات کے ہاں گشت کے لئے نکلتے اور حضرت زینب کے گھر تشریف لاتے تو اس وقت ان کے پاس ٹھہر جایا کرتے تھے۔
مغافیر ایک درخت کے پھل کا نام ہے جو گوند کے مشابہ ہوتا ہے اس کی بو خراب ہوتی ہے اور ایک گونہ شہد کی بو کی مشابہت رکھتی ہے۔
اس روایت کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو شہد بہت مرغوب تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم گشت کے وقت حضرت زینب کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو شہد پلایا کرتی تھیں اس کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زینب کے ہاں کچھ زیادہ دیر ٹھہر جایا کرتے تھے یہ بات حضرت عائشہ کو ناگوار گزری اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک اور بیوی حضرت حفصہ سے کہ جو حضرت عائشہ کے بہت قریب تھیں اور اکثر معاملات میں ان سے اتفاق کرتی تھیں مذکورہ بالا بات کہنے کا مشورہ کیا تا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حضرت زینب کے ہاں ٹھہرنا اور ان کے گھر میں شہد پینا چھوڑ دیں چنانچہ ایسا ہی ہوا جیسا کہ ذکر کیا گیا لیکن حق تعالیٰ کے ہاں اس بات کو پسند نہیں کیا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ایک حلال چیز کو محض اپنی بیویوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اوپر حرام کر لیں چنانچہ مذکورہ بالا آیت نازل ہوئی۔
حضرت ثوبان کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو عورت اپنے خاوند سے بلا ضرورت طلاق مانگے اس پر جنت کی بو حرام ہو گی یعنی جب میدان حشر میں خدا کے نیک اور پیارے بندوں کو جنت کی خوشبو پہنچے گی تو یہ عورت اس خوشبو سے محروم رہے گی (احمد ترمذی ابو داؤد)
اور حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مباح چیزوں میں سے خدا کے نزدیک مبغوض ترین چیز یعنی سب سے بری) چیز طلاق ہے (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگرچہ طلاق حلال و مباح ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض و مکروہ ہے چنانچہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جو اگرچہ مباح ہیں مگر مکروہ ناپسندیدہ سمجھی جاتی ہیں مثلاً فرض نماز بلا عذر گھر میں پڑھنا اسی طرح غصب کی ہوئی زمین پر نماز پڑھنا اگرچہ مباح ہے کہ فرض ادا ہوتا ہے لیکن مکروہ ہے۔
اور حضرت علی نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نکاح سے پہلے طلاق نہیں ہوتی مالک ہونے سے پہلے غلام کو آزاد نہیں کیا جا سکتا اور پے درپے کے روزے یعنی رات کو افطار کئے بغیر مسلسل و پہیم روزے رکھے چلے جانا) جائز نہیں ہے (یہ صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے تھا اور صرف آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے لئے جائز تھا) بالغ ہونے کے بعد کوئی یتیم نہیں رہتا یعنی جس کے ماں باپ نہ ہوں اور وہ بالغ ہو جائے تو اسے یتیم نہیں کہیں گے) دودھ پینے کی مدت کے بعد دودھ پینا رضاعت میں شامل نہیں (یعنی دودھ پینے کی مدت دو سال یا ڈھائی سال ہے اور دودھ پینے کے سبب جو حرمت نکاح ہوتی ہے وہ اس مدت کے بعد دودھ پینے سے ثابت نہیں ہوتی) اور دن بھر چپ رہنا جائز نہیں ہے (یا یہ کہ اس کا کوئی ثواب نہیں ہے) شرح السنۃ۔
تشریح
اس روایت میں چند اصولی باتوں کو ذکر کیا گیا ہے چنانچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے ہی طلاق دے تو وہ طلاق واقع نہیں ہو گی کیونکہ طلاق دراصل نکاح کا جزء ہے کہ اگر نکاح کا وجود پایا جائے گا تو اس پر طلاق کا اثر بھی مرتب ہو گا اور جب سرے سے نکاح ہی نہیں ہو گا تو طلا ق کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہو گی۔
اسی طرح فرمایا گیا کہ غلام جب تک اپنی ملکیت میں نہ آ جائے اس کو آزاد کرنے کے کوئی معنی نہیں ہوں گے، اگر کوئی شخص کسی ایسے غلام کو آزاد کر دے جس کا وہ ابھی تک مالک نہیں بنا ہے تو وہ غلام آزاد نہیں ہو گا اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی اور امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص نکاح سے پہلے طلاق کی اضافت سبب ملک کی طرف کرے تو درست ہے مثلاً زید کسی اجنبی عورت سے یوں کہے کہ اگر میں تم سے نکاح کروں تو تم پر طلاق ہے یا یہ کہے کہ میں جس عورت سے بھ] نکاح کروں اس پر طلاق ہے تو اس صورت میں اگر زید اس عورت سے نکاح کرے گا تو نکاح کے وقت اس پر طلاق پڑ جائے گی۔
اسی طرح اگر کوئی شخص آزادی کی اضافت ملک کی طرف کرے مثلاً یوں کہے کہ اگر میں اس غلام کا مالک بنوں تو یہ آزاد ہے یا یہ کہے کہ میں جس غلام کا مالک بنوں وہ آزاد ہے تو اس صورت میں وہ غلام اس شخص کی ملکیت میں آتے ہی آزاد ہو جائے گا۔
لہذا یہ حدیث حنفیہ کے نزدیک نفی تنجیز پر محمو ل ہے یعنی اس حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طلاق کا کبھی بھی کوئی اثر مرتب نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس لمحہ اس نے طلاق دی ہے اس لمحہ طلاق نہیں یقیناً اس طرح اس حدیث سے طلاق کی تعلیق کی نفی نہیں ہوتی۔
ایک بات یہ فرمائی گئی ہے کہ دن بھر چپ رہنا ناجائز یا لاحاصل ہے اس ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ پچھلی امتوں میں چپ رہنا عبادت کے زمرہ میں آتا تھا۔ اور دن بھر چپ رہنا تقرب الی اللہ کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے وضاحت فرمائی کہ ہماری امت میں یہ درست نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے کچھ ثواب حاصل نہیں ہوتا ہاں اپنی زبان کو لایعنی کلام اور بری باتوں میں مشغولیت کے بجائے یقیناً یہ زیادہ بہتر ہے کہ اپنی زبان کو ہر وقت خاموش رکھا جائے۔
٭٭ اور حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد حضرت شعیب سے اور حضرت شعیب اپنے دادا حضرت عبد اللہ ابن عمرو سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابن آدم کی نذر اس چیز میں صحیح نہیں ہوتی جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز یعنی لونڈی و غلام کو آزاد کرنا بھی صحیح نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے نیز اس چیز عورت کو طلاق دینا بھی درست نہیں جس کا وہ مالک نہیں ہے (ترمذی ابو داؤد)
اور ابو داؤ د نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ اس چیز کو فروخت کرنا بھی صحیح نہیں جس کی فروختگی کامعاملہ کرنے کا وہ اصالۃ یا وکالۃ یا دلایۃ مالک نہیں ہے۔
تشریح
نذر صحیح ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ میں اللہ کی خوشنود ی کے لئے اس غلام کو آزاد کرنے کی نذر مانتا ہوں اور حالانکہ یہ نذر ماننے کے وقت وہ غلام اس کی ملکیت میں نہیں تھا تو یہ صحیح نذر نہیں ہو گی اور اگر اس کے بعد وہ اس غلام کا مالک ہو گیا تو وہ غلام آزاد نہیں ہو گا۔ طلاق اور آزاد کرنے کے سلسلے میں اوپر کی حدیث کی تشریح میں وضاحت کی جا چکی ہے۔
اور حضرت رکانہ ابن عبد یزید کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمۃ کو طلاق بت دی اور پھر اس کا ذکر رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیا اور کہا کہ خدا کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ کیا واقعی خدا کی قسم تم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی؟رکانہ نے کہا کہ ہاں خدا کی قسم میں نے ایک طلاق کی نیت کی تھی چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا پھر رکانہ نے اس عورت کو دوسری طلاق حضرت عمر کے عہد خلافت میں اور تیسری طلاق حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں دی اس روایت کو ابو داؤد ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے لیکن ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے اپنی روایت میں دوسری اور تیسری طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
طلاق بت، کا مطلب یہ ہے کہ حضرت رکانہ نے ان الفاظ میں طلاق دی انت طالق البتۃ یعنی تجھ پر طلاق البتۃ ہے) لفظ البتۃ بت کا اسم مرہ ہے جسکے معنی ہیں کاٹنا قطع کرنا لہذا طلاق بتہ کا مفہوم یہ ہوا کہ ایسی طلاق جو نکاح کا تعلق بالکل باقی نہیں رہنے دیتی اور عورت کو نکاح سے قطعی طور پر نکال دیتی ہے۔
ان کی عورت کو ان کی طرف لوٹا دیا کا مطلب حضرت امام شافعی کے نزدیک تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے رکانہ کو رجوع کر لینے کا حکم دیا اور گویا رکانہ نے رجوع کر لینے کے اس حکم کی بناء پر ان الفاظ راجعتہا الی نکاحی میں نے اس کو اپنے نکاح میں لوٹا لیا) کے ذریعہ اس عورت کو اپنے نکاح میں واپس کر لیا۔
حضرت امام شافعی نے یہ مطلب اس لئے مراد لئے ہیں کہ ان کے نزدیک طلاق بتہ ایک طلاق رجعی ہے ہاں اگر اس کے ذریعہ دو یا تین طلاقوں کی نیت کی گئی ہو تو پھر نیت کے مطابق ہی دو یا تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں۔ اور حضرت امام اعظم ابو حنفیہ کے نزدیک چونکہ اس لفظ کے ساتھ طلاق دینے سے ایک طلاق بائن پڑتی ہے خواہ ایک طلاق کی نیت کی ہو یا دو طلاق کی یا اور کچھ بھی نیت نہ کی گئی ہو اس لئے ان کے نزدیک اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت کو جدید نکاح کے ذریعہ رکانہ کی طرف لوٹا دیا۔
اور حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین چیزیں ایسی ہیں جن کا قصد کرنا بھی قصد ہے اور ہنسی مذاق میں منہ سے نکالنا بھی قصد ہے نکاح طلاق رجعت (ابو داؤد)
تشریح
جد کے معنی ہیں کسی کام میں سعی و کوشش کرنا لیکن یہاں اس کے یہ معنی مراد ہیں کہ جو لفظ جس معنی کے لئے وضع کیا گیا ہو اس کو زبان سے ادا کرتے وقت وہی معنی مراد لیے جائیں مثلاً لفظ نکحت میں نے نکاح کیا زبان سے جب ادا کیا جائے تو اس کے معنی یعنی نکاح کرنا ہی مراد لیا جائے یا جب لفظ طلقت میں نے طلاق دی زبان سے ادا کیا جائے تو اس کے معنی یعنی طلاق دینا ہی مراد لیا جائے اور لفظ ھزل کے معنی یہ ہیں کہ کوئی لفظ زبان سے ادا کیا جائے مگر اس کے معنی مراد نہ ہوں۔
لہذا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ تین چیزیں ایسی ہیں جو زبان سے ادا ہوتے ہی وقوع پذیر ہو جاتی ہیں خواہ انکے معنی مراد ہوں یا مراد نہ ہوں۔ چنانچہ اگر دو اجنبی مرد و عورت کے درمیان ہنسی ہنسی میں دو گواہوں کے سامنے ایجاب و قبول ہو جائے تو بھی نکاح ہو جاتا ہے اور وہ دونوں میاں بیوی بن جاتے ہیں یا اگر کوئی ہنسی مذاق میں طلاق دے دے تو بھی طلاق پڑھ جائے گی اسی طرح طلاق رجعی کے بعد ہنسی ہنسی میں رجوع کرنے سے بھی رجعت ثابت ہو جاتی ہے ان تین چیزوں کے علاوہ اور چیزیں مثلاً بیع وشراء وغیرہ اس طرح ہنسی مذاق میں وقوع پذیر نہیں ہوتیں۔
اور حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اکراہ کی حالت میں نہ تو طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ آزادی (ابوداؤد) اور بیان کیا جاتا ہے کہ اغلاق کے معنی اکراہ کے ہیں۔
تشریح
اکراہ کے معنی ہیں زبردستی کرنا لہذا حدیث کا یہ مطلب ہوا کہ اگر کوئی کسی سے زبردستی طلاق دلوا دے یا اس کا غلام آزاد کرا دے تو نہ طلاق پڑے گی اور نہ وہ غلام آزاد ہو گا۔
گویا یہ حدیث حضرت امام شافعی حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ ان تینوں ائمہ کے نزدیک دونوں چیزیں زبردستی کی حالت میں واقع نہیں ہوتیں جب کہ امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ واقع ہو جاتی ہیں انہوں نے اس کو ہزل پر قیاس کیا ہے جس کا بیان اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے ویسے حضرت امام اعظم نے اپنے مسلک کی دلیل میں جو کچھ پیش کیا ہے وہ فقہ کی کتابوں میں مذکور ہے۔
اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق زبردستی کی حالت میں بھی جن چیزوں کا حکم ثابت ہو جاتا ہے وہ گیارہ ہیں (نکاح طلاق رجعت ایلاء فئی یعنی ایلاء سے رجوع کرنا ظہار عتاق عفو قصاص یعنی قصاص کو معاف کر دینا قسم نذر قبولیت اسلام
اور حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر بے عقل اور مغلوب العقل کی طلاق واقع نہیں ہوتی امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے اور اس کے ایک راوی عطاء بن عجلان روایت حدیث میں ضعیف شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کے حافظہ میں حدیث محفوظ نہیں رہتی تھی۔
تشریح
امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک اس حدیث کے مطابق ہے کیونکہ ان کے نزدیک کبھی دیوانے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔ یہاں حدیث میں معتوہ سے دیوانہ مراد ہے یعنی وہ شخص جو کبھی تو مسلوب العقل رہتا ہو اور کبھی اس کی عقل ٹھکانے رہتی ہو قاموس میں لکھا ہے کہ عتہ جو معتوہ کا مصدر ہے کے معنی ہیں کم عقل ہونا مدہوش ہونا اور صراح میں لکھا ہے کہ معتوہ الٹے ہوئے ڈول اور بے عقل شخص کو بھی کہتے ہیں چنانچہ فقہ کی کتابوں میں اس کے یہی معنی بیان کئے گئے ہیں اس اعتبار سے حدیث کا یہ جملہ المغلوب علی عقلہ گویا لفظ معتوہ کا عطف تفسیری ہے یعنی اس جملہ میں معتوہ کی وضاحت مقصود ہے اسی لئے بعض روایات میں المغلوب بغیر واؤ کے ہے۔
اس تفصیل سے یہ ثابت ہوا کہ جب معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی تو مجنون مطلق یعنی پاگل شخص کہ جو سرے سے عقل وشعور رکھتا ہی نہیں اس کی طلاق بطریق اولی واقع نہیں ہو گی چنانچہ زین العرب نے کہا ہے کہ یوں تو معتوہ ناقص العقل اور مغلوب العقل کو کہتے ہیں لیکن مجنون سویا ہوا شخص مدہوش اور ایسا مریض کہ جس کی عقل اس کے مرض کی وجہ سے جاتی رہے وہ بھی اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہیں یعنی ان سب کی بھی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
لفظ معتوہ کے بارے میں علامہ ابن ہمام نے بعض علماء کا یہ قول نقل کیا ہے کہ معتوہ اس شخص کو کہتے ہیں جو ناقص العقل وکم سمجھ اور پریشان کلام ہو یعنی بے عقلی اور نا سمجھی کی باتیں کرتا ہو اور فاسد التدبیر یعنی بے عقلی اور بے سمجھی کے کام کرتا ہو لیکن نہ تو مارتا پھرتا ہو اور نہ گالیاں بکتا پھرتا ہو بخلاف مجنوں کے کہ لوگوں کو مارتا اور گالیاں بکتا پھرتا ہے۔
امام ترمذی کے قول کے مطابق اس حدیث کا راوی اگرچہ ضعیف ہے لیکن اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے جو حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منقول ہے کہ کل طلاق جائز الا طلاق المعتوہ یعنی ہر طلاق واقع ہو جاتی ہے مگر معتوہ کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تین شخص مرفوع القلم ہیں یعنی ان تین شخصوں کے اعمال نامہ اعمال میں نہیں لکھے جاتے کیونکہ ان کے کسی قول و فعل کا کوئی اعتبار نہیں اور وہ مواخذہ سے بری ہیں ایک تو سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ بیدار نہ ہو دوسرا لڑکا جب تک وہ بالغ نہ ہو تیسرا بے عقل شخص جب تک کہ اس کی عقل درست نہ ہو جائے (ترمذی) اور دارمی نے اس روایت کو حضرت عائشہ سے اور ابن ماجہ نے حضرت عائشہ سے اور حضرت علی سے نقل کیا ہے۔
اور حضرت عائشہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لونڈی کے لئے دو طلاقیں ہیں اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہیں۔ (ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جس طرح آزاد عورت کی عدت تین حیض ہیں اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت تین مہینہ ہے اسی طرح لونڈی کی عدت دو حیض ہیں اور اگر اسے حیض نہ آتا ہو تو اس کی عدت کی مدت ڈیڑھ مہینہ ہو گی۔
اس طرح یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ طلاق اور عدت میں عورت کا اعتبار ہے نہ کہ مرد کا لہذا اگر عورت آزاد ہو گی تو اس کی طلاقیں تین ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت تین حیض ہوں گی چاہے وہ کسی غلام ہی کے نکاح میں کیوں نہ ہو اور اگر عورت لونڈی ہو گی تو اس کی طلاقیں دو ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہوں گے خواہ اس کا خاوند کوئی آزاد شخص ہی کیوں نہ ہو چنانچہ حنفیہ کا مسلک بھی یہی ہے لیکن حضرت امام شافعی کے نزدیک طلاق اور عدت میں مرد کا اعتبار ہے اگر مرد آزاد ہو گا تو اس کی بیوی کی طلاقیں تین ہوں گی اور اس کی عدت تین حیض ہوں گے اگرچہ اس کی بیوی لونڈی ہو اور اگر مرد غلام ہو گا تو اس کی بیوی کی طلاقیں دو ہوں گی اور اس کی عدت کی مدت دو حیض ہوں گے خواہ اس کی بیوی آزاد عورت ہی کیوں نہ ہو۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عدت کی مدت کا تعلق حیض سے ہے نہ کہ طہر سے جیسا کہ حنفیہ کا مسلک ہے گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہوئی کہ عدت کی مدت کے سلسلہ میں قرآن کریم میں جو ثلاثۃ قروء فرمایا گیا ہے تو اس سے تین حیض مراد ہیں تین طہر مراد نہیں ہیں۔
اور حضرت ابو ہریرہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اپنے خاوند کی نافرمانی کرنے والی اور اپنے خاوند سے خلع چاہنے والی عورتیں منافق ہیں (نسائی)
تشریح
مطلب یہ کہ جو عورتیں بلا سبب اپنے شوہروں سے طلاق مانگتی ہیں یا ان سے خلع چاہتی ہیں وہ منافق ہیں منافق کا مطلب یہ ہے کہ وہ ظاہر میں تو احکام اسلام کی مطیع و فرمانبردار ہیں مگر باطنی طور پر گنہگار و عاصی ہیں۔
اور حضرت نافع صفیہ بنت ابو عبید کی ایک آزاد کی ہوئی لونڈی سے روایت کرتے ہیں کہ صفیہ نے اپنی ہر اس چیز کے عوض جو ان کے پاس موجود تھی اپنے خاوند حضرت عبداللہ ابن عمر سے خلع کیا اور عبداللہ نے اس سے انکار نہیں کیا (مالک)
تشریح
حضرت عبداللہ ابن عمر نے اس لئے انکار نہیں کیا کہ خلع بہرحال جائز تھا اگرچہ اس طرح یعنی عورت کے تمام مال کے عوض خلع کرنا مکروہ ہے۔
اور حضرت محمود ابن لبید کہتے ہیں کہ جب رسول کریم کو اس شخص کے بارے میں بتایا گیا جس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دی تھیں تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم غضبناک ہو کر کھڑے ہو گئے اور فرمایا کیا اللہ عزوجل کی کتاب کے ساتھ کھیلا جاتا ہے (یعنی حکم خداوندی کے ساتھ استہزاء کیا جاتا ہے) درآنحالیکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں یہ سن کر مجلس نبوی میں موجود صحابہ میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟(نسائی)
تشریح
اللہ عزوجل کی کتاب سے قرآن کریم کی یہ آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ ۠ فَاِمْسَاكٌۢ بِمَعْرُوْفٍ) 2۔ البقرۃ:229) مراد ہے
اس آیت میں یہاں یہ حکم بیان کیا گیا ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں نہ دینی چاہئیں بلکہ متفرق طور پر دینی چاہئیں وہیں (وَلَا تَتَّخِذُوْٓا ایٰٰتِ اللّٰهِ ھُزُواً) 2۔ البقرۃ:231) کے ذریعہ یہ تنبیہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کو لہو لعب کی طرح بے وقعت مت سمجھو چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی آیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ متفرق طور پر طلاق دینے کی بجائے ایک ساتھ تینوں طلاقیں دینا حق تعالیٰ کے حکم و منشاء کی خلاف ورزی ہے اور یہ خلاف ورزی گویا حق تعالیٰ کے احکام کے ساتھ استہزاء ہے۔ کیونکہ جس شخص نے حق تعالیٰ کے حکم کے خلاف کیا اس نے درحقیقت اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ اس کی نظر میں حکم خداوندی کی کوئی وقعت نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کرنا اور کرنا دونوں برابر ہیں۔
حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا بدعت و حرام ہے۔ اور اس حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کسی شخص کے اس فعل پر غضب ناک ہوتے تھے جو گناہ و معصیت کا باعث ہوتا تھا حضرت امام شافعی کے نزدیک تین طلاق ایک ساتھ دینا حرام نہیں ہے بلکہ خلاف اولی ہے۔
علماء لکھتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ نہ دینے میں فائدہ یہ ہے کہ ایک طلاق کے بعد شاید اللہ تعالیٰ خاوند کے دل کو اس کی بیوی کی طرف مائل کر دے اور اس کے فیصلہ میں کوئی ایسی خوشگوار تبدیلی آ جائے کہ وہ رجوع کر لے اور ان دونوں کے درمیان مستقل جدائی کی نوبت نہ آئے۔
علماء کے اس بارے میں مختلف اقوال ہیں کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے یوں کہے کہ انت طالق ثلاثا (یعنی تجھ پر تین طلاق ہیں) تو آیا اس کی بیوی پر ایک طلاق پڑے گی یا تین طلاق واقع ہوں گی چنانچہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام احمد اور جمہور علماء یہ فرماتے ہیں کہ تین طلاقیں پڑیں گی جب کہ طاؤس اور بعض اہل ظاہریہ کہتے ہیں کہ ایک طلاق پڑ گئ۔
ایک صحابی کا یہ کہنا کہ میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں؟ اس بناء پر تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کو کتاب اللہ کے ساتھ استہزاء کرنے والا کہا تھا جو کفر ہے اور اگر کوئی مسلمان کفر کی حد میں داخل ہو جائے تو اس کی سزا قتل ہے حالانکہ ان صحابی نے یہ نہیں جانا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کے بارے میں جو الفاظ ارشاد فرمائے ہیں وہ زجر و توبیخ پر مبنی ہیں ان کے حقیقی معنی مراد نہیں ہیں۔
اور حضرت مالک راوی ہیں کہ ان تک یہ حدیث پہنچی کہ ایک شخص نے حضرت عبداللہ ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟ یعنی کیا میری بیوی پر طلاق پڑھ گئی ہے یا نہیں) حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ وہ عورت تین طلاقوں کے ذریعہ تم سے جدا ہو گئی اور جو ستانوے طلاقیں باقی بچیں ان کے ذریعہ تم نے گویا اللہ تعالیٰ کی آیتوں کا مذاق اڑایا (مؤطا)
تشریح
اوپر کی حدیث میں جس آیت (اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ تا وَلَا تَتَّخِذُوْٓا ایٰتِ اللّٰهِ ھُزُواً) 2۔ البقرۃ:231-229) کا ذکر کیا گیا ہے حضرت ابن عباس نے اس آیت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ تم نے اس طرح طلاق دے کر گویا حکم خداوندی کی خلاف ورزی کی ہے۔
اور حضرت معاذ ابن جبل کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے فرمایا کہ معاذ ! اللہ تعالیٰ روئے زمین پر جتنی مستحب چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ چیز غلام و لونڈی کو آزاد کرنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے روئے زمین پر جتنی حلال چیزیں پیدا کی ہیں ان میں سے اس کے نزدیک سب سے زیادہ بری چیز طلاق دینا ہے (دارقطنی)
تشریح
غلام و لونڈی کو آزاد کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اس لئے کہ اس کی وجہ سے ایک انسان کو اس کا پیدائشی اور فطری حق ملتا ہے اس کو ایک ایسی مخلوق کی غلامی سے نجات حاصل ہو جاتی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اسی کے مرتبہ کے برابر ہے اور وہ اپنے پروردگار کی عبادت اور اطاعت کے لئے فارغ ہو جاتا ہے نیز اس کا مالک جس نے اسے آزاد کیا ہے اپنے اس ایثار و فراخ حوصلگی کی وجہ سے دوزخ کی آگ سے پروانہ نجات حاصل کرتا ہے۔
بری طلاق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ طلاق بہت بری ہے جو کسی حاجت و ضرورت کے بغیر محض اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے دی گئی ہو چنانچہ علامہ ابن ہمام فرماتے ہیں کہ بعض حالات میں طلاق دینا مستحب بھی ہے مثلاً اگر عورت نماز نہ پڑھتی ہو اور بدکار ہو تو اسے طلاق دینا ہی بہتر ہے۔
فتاوی قاضی خان میں لکھا ہے کہ اگر کسی کی بیوی نماز نہ پڑھتی ہو تو اسی لائق ہے کہ اسے طلاق دے دی جائے اگرچہ اس شخص کے پاس اتنا مال نہ ہو کہ وہ اس کا مہر ادا کر سکے۔
ابوحفص بخاری کا یہ قول منقول ہے کہ اگر کوئی بندہ اس حال میں خدا سے ملاقات کرے یعنی اس کا انتقال ہو جائے کہ اس کی گردن پر اس کی بیوی کا مہر ہو تو وہ میرے نزدیک اس سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ وہ ایک ایسی بیوی سے صحبت کرے جو نماز نہ پڑھتی ہو۔
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نکاح کرنا عبادت کے لئے گوشہ نشینی اختیار کرنے سے افضل ہے۔