مشکوٰة شر یف

خواب کا بیان

خواب کا بیان

خواب  کے معنی ہیں وہ بات جو انسان نیند میں دیکھے  محققین  کہتے ہیں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو محض خیال کہ دن بھر انسان کے دماغ اور ذہن پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں، وہ خواب میں مشکل ہو کر نمودار ہو جاتی ہیں ، دوسری طرح کا خواب وہ ہے جو شیطانی اثرات کا عکاس ہوتا ہے جیسا کہ عام طور پر ڈراؤنے خواب نظر آیا کرتے ہیں، اور تیسری طرح کا خواب وہ ہے جو منجانب اللہ بشارت اور بہتری کو ظاہر کرتا ہے ، خواب کی یہی تیسری قسم  رویاء صالحہ  کہلاتی ہے اور اس کی حقیقت علماء اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سونے والے کے دل میں علوم معرفت اور ادراکات و احسان کا نور پیدا کر دیتا ہے ، جیسا کہ وہ جاگنے والے کے دل کو علوم و معرفت اور ادراکات و احساسات کی روشنی سے منور کرتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ بلا شک و شبہ اس پر قادر ہے ، کیونکہ نہ تو بیداری قلب انسانی میں نور بصیرت کے پیدا ہونے کا ذریعہ ہے اور نہ نیند اس سے مانع۔

واضح رہے کہ سونے والا اپنے خواب میں جن باتوں کا ادراک و احساس کرتا ہے اور جن چیزوں کو اس کا نور بصیرت دیکھتا ہے وہ دراصل وقوع پذیر ہونے والی چیزوں کی علامت و اشارہ ہوتا ہے اور یہی علامت و اشارہ تعبیر کی بنیاد بنتا ہے۔ کبھی یہ علامت و اشارہ اتنا غیر واضح ہوتا ہے کہ اس کو عارفین و معبرین ہی سمجھ پاتے ہیں اور کبھی اتنا واضح ہوتا ہے کہ عام انسانی ذہن بھی اس کی مراد پا لیتا ہے۔ جیسا کہ بادل کو دیکھ کر بارش کے وجود کی طرف ذہن خود بخود چلا جاتا ہے۔

مسلمان کا اچھا خواب حق ہے

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا نبوت کے آثار میں سے اب کچھ باقی نہیں رہا ہے علاوہ مبشرات کے صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھے خواب۔ (بخاری)

 اور امام مالک نے اس روایت میں جس کو انہوں نے حضرت عطاء بن یسار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں (وہ اچھے خواب) جن کو مسلمان آدمی (اپنے لئے) دیکھتا ہے یا اس کے بارے میں کوئی اور شخص دیکھے۔

 

تشریح

 

 مبشرات  (میم کے پیش اور باء کے زبر کے ساتھ) بشارت سے مشتق ہے جس کے معنی خوش خبری کے ہیں اعرابی میں لفظ  بشارت  کا استعمال عام طور پر خیر کے سیاق میں ہوتا ہے لیکن کبھی شر کے ساتھ بھی اس کو استعمال کر لیا جاتا ہے اسی طرح رویا کا اطلاق عام طور پر اچھے خواب پر ہوتا ہے اور برے خواب کو حلم کہتے ہیں لیکن یہ فرق و تخصیص شرعی نقطہ نظر سے ہے ویسے لغت کے اعتبار سے رؤیا مطلق خواب کو کہتے ہیں، چنانچہ یہاں حدیث میں بھی لفظ رؤیا مطلق خواب کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ رؤیاء سے اچھا خواب مراد ہے تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ  صالحہ  کا ذکر محض لفظ رؤیا کی وضاحت و تشریح کے لئے ہے یا یہ کہ  صالحہ  اصل میں صادقہ کے معنی میں ہے کہ رؤیا صالحہ سے مراد وہ اچھا خواب ہے جو سچا یعنی واقع کے مطابق ہو۔ پہلے معنی میں یعنی لفظ صالحہ کو رؤیا کی وضاحت و تشریح قرار دینا زیادہ صحیح اور مبشرات کے معنی کے موافق ہے کیونکہ اچھے خواب کا مطلب اچھی خبر ہے اور بشارت بھی کلیۃً یا عام طور پر دل و دماغ کو خوش کرنے والی ہی ہوتی ہے اگرچہ طیبی کے قول کے مطابق بشارت میں صدق کا بھی اعتبار ہونا ہے لیکن حدیث کا سیاق اس کا متقاضی ہے کہ دوسرے معنی صالحہ (بمعنی صادقہ) مراد لیا جائے کیونکہ حدیث میں خواب کو نبوت کا ایک جز کہا گیا ہے اور نبوت میں سچی خبر کا اعتبار ہے خواہ وہ خوش کرنے والی ہو یا ڈرانے والی ہو ، اس صورت میں کہا جائے گا کہ لفظ مبشرات کا استعمال از راہ تغلیب یا یہ کہ  مبشرات  اپنے مطلق معنی یعنی  مخبرات  پر محمول ہے۔

اچھے خواب کی فضیلت

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

ظاہر یہ ہے کہ یہاں رویاء صالحہ سے مراد صادقہ ہے یعنی وہ اچھا خواب جو سچا بھی ہو اس موقع پر ایک اشکال واقع ہوتا ہے اور وہ یہ کہ کسی چیز کا کوئی جزو حصہ اس چیز سے جدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ جب نبوت باقی نہیں رہی ہے تو نبوت کا جزو حصہ یعنی رویاء صالحہ کیوں کر باقی رہے گا؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے معنی یہ ہیں کہ رویاء صالحہ علم نبوت کے اجزاء اور حصوں میں سے ایک جز و حصہ ہے اور ظاہر ہے کہ علم نبوت باقی ہے اگرچہ نبوت باقی نہیں ہے گویا حدیث میں مذکورہ الفاظ کے ذریعہ رویاء صالحہ کی فضیلت و منقبت بیان فرمائی گئی ہے کہ اچھا خواب حقیقت میں نبوت کا پر تو ہے اگرچہ اس کو دیکھنے والا غیر نبی ہو جیسا کہ ایک ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے نیک راہ دردش حلم گرانباری اور میانہ روی نبوت میں سے ہے چھیالیس کے عدد کی تخصیص کے بارے میں اگرچہ علماء نے مختلف باتیں لکھی ہیں لیکن زیادہ صیح بات یہ ہے کہ نہ صرف اس کا بلکہ دوسری متعدد چیزوں جیسے نماز کی رکعات اور تسبیحات وغیرہ کے بارے میں اعداد مشروع و مذکور ہیں ان کی علت و حقیقت کا علم شارع السلام علیہ کو ہی ہے ایک اور رایت میں چھیالیس کے بجائے چھبیس ایک روایت میں چھہتر اور ایک روایت میں چوبیس کا عدد مذکور ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کسی بھی روایت میں کسی خاص عدد سے تحدید مراد نہیں ہے محض تکثیر مراد ہے 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنے کا ذکر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے درحقیقت مجھ کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری و مسلم)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس نے گویا عالم بیداری میں میرا دیدار کیا ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہو گا کہ اس شخص پر وہ احکام عائد ہوں جو واقعۃً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار و صحبت کی صورت میں ہوتے ہیں۔ یعنی نہ تو ایسے شخص کو صحابی کہا جائے گا اور نہ اس چیز پر عمل کرنا اس کے لئے ضروری ہو گا جس کو اس نے اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہو گا، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ حدیث اپنے زمانہ کے لوگوں کے لئے فرمائی میرے زمانہ میں جو شخص مجھ کو خواب میں دیکھے گا اس کو اللہ تعالیٰ ہجرت کی توفیق عطا فرمائے گا۔تاکہ وہ مجھ سے آ کر ملے۔ یا یہ مراد ہے کہ آخرت میں میرا دیدار کرے گا۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ یہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم بمعنی اخبار کے ہے ، مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا اس کو خبر دے دو کہ اس کا خواب حقیقی اور سچا ہے اضغاث احلام میں سے نہیں ہے کیونکہ شیطان میری صورت اختیار نہیں کر سکتا۔ یعنی اس کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی کے خواب میں آئے اور اس کے خیال میں یہ بات ڈالے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہوں اور اس طرح وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم پر یہ جھوٹ لگائے۔

بعض محققین نے لکھا ہے کہ شیطان حق تعالیٰ کی ذات کے بارے میں جھوٹ دکھا سکتا ہے ، یعنی دیکھنے والے کو اس خیال و وسوسہ میں مبتلا کر سکتا ہے کہ یہ حق تعالیٰ کی صورت ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صورت ہرگز نہیں بن سکتا۔ اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر جھوٹ لگا سکتا ہے ، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہدایت و راستی کے مظہر ہیں۔ جب کہ شیطان لعین ضلالت و گمراہی کا مظہر ہے اور ہدایت و ضلالت کے درمیان پانی اور آگ کی نسبت ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، اس کے برخلاف حق تعالیٰ کی ذات الٰہی صفات ہدایت و اضلال اور صفات متضادہ کی جامع ہے علاوہ ازیں صفت الوہیت ایسی صفت ہے جس کا مخلوقات میں سے کسی کا دعوی کرنا صریح البطلان ہے اور محل اشتباہ نہیں ہے ، جب کہ وصف نبوت اس درجہ کی صفت نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی شخص الوہیت کا دعوی کرے تو اس سے خرق عادات صادر ہو سکتا جب کہ اگر کوئی شخص نبوت کا دعوی کرے تو اس سے معجزہ کا ظاہر ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنے کا ذکر

٭٭او رحضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ جس نے اپنے خواب میں مجھ کو دیکھا اس نے حق دیکھا یعنی اس کا خواب سچا ہے کہ اس نے مجھ کو ہی دیکھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 واضح رہے کہ اس مضمون کی احادیث، جو متعدد طرق و اسانید سے اور مختلف الفاظ میں منقول ہیں اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اس نے حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کو دیکھا اس بارے میں دروغ خیال اور شیطانی اثرات کا قطعاً دخل نہیں ہوتا، چنانچہ علماء نے اس چیز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائل میں شمار کیا ہے اور اس کو اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ و سلم قرار دیا ہے البتہ علماء کے ہاں اس بات میں اختلاف ہے کہ ان احادیث کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کس صورت و حلیہ میں دیکھنے سے ہے چنانچہ بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ ان احادیث کا تعلق اس شخص سے ہے جو اپنے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم متصف تھے ، پھر بعض حضرات نے اس بارے میں توسع کیا ہے اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اس صورت و شکل میں دیکھے جو پوری عمر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے متعلق رہی ہے۔ یعنی خواہ جوانی کی صورت و شکل میں دیکھے خواہ کہولت اور خواہ آخری عمر کی صورت میں دیکھے۔ اور بعض حضرات نے اس دائرے کو محدود کیا اور کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اس شکل و صورت میں دیکھنے کا اعتبار ہے جو بالوں کو بھی دیکھنے کا اعتبار کیا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سر مبارک اور لحیہ مبارک میں تھے اور جو تعداد میں بیس تک بھی نہیں پہنچے تھے ،

منقول ہے کہ حضرت محمد بن سیرین جو تعبیر خواب کے فن میں امام تھے کے پاس جب کوئی شخص آ کر بیان کرتا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا ہے تو وہ کہتے تھے کہ بتاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو کس شکل و صورت اور کس حلیہ میں دیکھا ہے اگر وہ شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا حلیہ بیان نہ کرتا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مخصوص تھا تو ابن سیرین اس سے کہتے کہ بھاگ جاؤ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں نہیں دیکھا ہے۔

اس بارے میں حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ جس شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھا اس نے بہر صورت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا خواہ اس نے مخصوص صورت و حلیہ میں دیکھا ہو جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں منقول ہے یا کسی اور شکل و شباہت میں دیکھا ہو کیونکہ شکل و شباہت کا مختلف ہونا ذات کے مختلف کے ہونے کو ضروری قرار نہیں دیتا، علاوہ ازیں یہ نکتہ بھی ملحوظ رہنا چاہئے کہ شکل و شباہت میں اختلاف و تفاوت کا تعلق خواب دیکھنے والے کے ایمان کے کمال و نقصان سے بھی ہو سکتا ہے یعنی جس شخص نے خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اچھی صورت و شکل میں دیکھا یہ اس کے ایمان کامل اور عقیدے کے صالح ہونے کی علامت قرار پائے گا اور جس شخص نے اس کے بہر خلاف دیکھا، یہ اس کے ایمان کی کمزوری اور عقیدے کے فساد کی علامت قرار پائے گا اسی طرح ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بوڑھا دیکھا ایک شخص نے جوان دیکھا ایک شخص نے رضامند دیکھا ایک شخص نے خفگی کے عالم میں دیکھا ایک شخص نے روتے ہوئے دیکھا ایک شخص نے شاد و خوش دیکھا اور ایک شخص نے ناخوش دیکھا تو یہ ساری حالتیں خواب دیکھنے والے کے ایمانی احوال کے فرق و تفاوت پر مبنی ہوں گی کہ جو شخص جس درجہ کے ایمان کا حامل ہو گا وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اسی درجہ کی مثالی صورت میں دیکھا گا اس اعتبار سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنا گویا اپنے احوال ایمانی کو پہچاننے کا ایک معیار ہے لہٰذا یہ ایک چیز سالکین طریقت کے لئے یہ ایک مفید ضابطہ کی حیثیت رکھتی ہے کہ وہ اس کے ذریعہ اپنے باطن کی حالت کو پہچان کر اس کی اصلاح کریں اسی پر قیاس کرتے ہوئے بعض علماء نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو شخص خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے کوئی ارشاد سنے تو اس کا حدیث و سنت سے تقابل کرے اگر وہ ارشاد حدیث و سنت کے موافق ہو تو وہ یقیناً حق ہے اور اگر موافق نہ ہو، جانے کہ یہ میرے ذہن اور سامع کا خلل ہے لہٰذا خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کریمہ کو اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد کو سننا حق ہے اگر صورت مبارک اور ارشادات مقدسہ میں کوئی تفاوت و مخالفت نظر آئے تو سمجھنا چاہئے کہ یہ خواب دیکھنے والے کے نقص و کوتاہی کے اعتبار سے ہے حضرت شیخ متقی سے منقول ہے کہ ایک فقیر نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کو شراب کے لئے فرما رہے ہیں، اس خواب کی وجہ سے اس کے ذہن میں سخت خلجان پیدا ہو اس نے اس خلجان کو دور کرنے کے لئے علماء سے رجوع کیا اور ان سے پوچھا کہ اس خواب کی حقیقت کیا ہے کہ ہر عالم نے اس کی مختلف تعبیر و تاویل بیان کی اسی دوران یہ مسئلہ حدیث کے ایک عالم حضرت شیخ ابن عراۃ کے سامنے آیا جو عالم با عمل اور نہایت متبع سنت تھے انہوں نے فرمایا کہ اصل بات یوں نہیں ہے جس طرح اس نے سنی ہے بلکہ اس کا ذہن و سامعہ، خلل اور انتشار کا شکار ہوا ہے۔ حقیقت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یوں فرمایا تھا کہ لاتشرب الخمر شراب ہرگز نہ پینا مگر اس نے اس جملہ کو یوں سنا اشرب الخمر (شراب پیؤ)

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو خواب میں دیکھنے کا ذکر

٭٭اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے مجھ کو خواب میں دیکھا وہ جلد ہی مجھ کو بیداری کے عالم میں دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔ (بخاری و مسلم)۔

 

تشریح

 

 اس حدیث کا تعلق آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ سے ہے کہ جو شخص خواب میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ یہ توفیق عطا فرما دیتا ہے کہ وہ عالم بیداری میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتا۔ اور اسلام قبول کرتا۔ یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ مجھ کو خواب میں دیکھنے والا شخص آخرت میں عالم بیداری میں مجھ کو دیکھے گا۔

اچھا خواب اور برا خواب

اور حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے ہے لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جس سے وہ خوش ہو تو چاہئے کہ خواب کو صرف اس شخص کے سامنے بیان کرے جس کو وہ دوست و ہمدرد سمجھتا ہے (جیسے علماء و صلحاء اور اقرباء نیز وہ اس خواب پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور اس کی حمد و تعریف کرے جیسا کہ بخاری و مسلم کی ایک اور روایت میں منقول ہے) اور جب ایسا خواب دیکھے جس کو وہ پسند نہیں کرتا تو چاہئے کہ اس خواب کی برائی اور شیطان کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اور شیطان کو دور کرنے کے قصد سے تین مرتبہ تھتکار دے نیز اس خواب کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے (خواہ دوست ہو یا دشمن) اس لئے وہ خواب اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ (بخاری ، و مسلم)

 

تشریح

 

 برا خواب شیطان کی طرف سے ہے  کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اچھے اور برے دونوں طرح کے خواب کو پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے اور دیکھنے والا اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے دیکھتا ہے ، لیکن برا خواب شیطانی اثرات کا عطاس ہوتا ہے اور چونکہ اس خواب سے انسان کو پریشانی ہوتی ہے اس لئے اس پر شیطان کو بہت خوشی ہوتی ہے ، حاصل یہ کہ اچھا خواب تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندہ کو بشارت ہوتی ہے تاکہ وہ بندہ خوش ہو اور اس کا وہ خواب اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کے حسن سلوک اور امید آوری کا باعث اور شکر خداوندی کے اضافہ کا موجب بنے جب کہ غمگین اور پریشان کرنے والا جھوٹا خواب شیطانی اثرات کے تحت ہوتا ہے جس سے شیطان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمان کو غمگین و پریشان کر کے ایسی واہ پر ڈال دے جس سے وہ بدگمانی اور ناامیدی اور تقرب الہٰی و تلاش حق کی راہ میں سست روی کا شکار ہو جائے۔

وہ خواب اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا  کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صدقہ و خیرات کو مال کی حفاظت و برکت اور دفع بلیات کا سبب بنایا ہے اسی طرح اس نے مذکورہ چیزوں یعنی اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگنے ، تین دفع تھتکارنے اور کسی کے سامنے بیان نہ کرنے کو برے خواب کے مضر اثرات سے سلامتی کا سبب قرار دیا ہے۔

برا خواب دیکھے تو کیا کرے

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جب تم میں سے کوئی شخص ایسا خواب دیکھے جس کو وہ ناپسند کرتا ہو تو اس کو چاہئے کہ بائیں طرف تین بار تھتکار دے اور تین بار شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے اور اپنی کروٹ کو تبدیل کر دے جس پر وہ خواب دیکھنے کے وقت سویا ہوا تھا۔ (مسلم)

 

تشریح

 

  یہاں تھتکارنے کے لئے لفظ  بصق  استعمال کیا گیا ہے جب کہ پچھلی حدیث میں لفظ  تفل  مذکور  ہے ، مفہوم و مطلب کے اعتبار سے تو دونوں لفظ بظاہر یکساں ہیں لیکن دونوں میں ایک ہلکا سا فرق یہ ہے کہ تفل کے معنی ہیں منہ سے تھوک نکالنا جب کہ  بصق  کا مفہوم ہے منہ کے اندر سے (تھوک) نکالنا اس طرح کہ کچھ حلق سے بھی نکلے منہ سے نکلے ہوئے تھوک کو  بصاق  کہتے ہیں اور  بزاق بھی کہا جاتا ہے اس سے واضح ہوا کہ تھتکارنے کے سلسلے میں پہلا درجہ  بصق ہے اس کے بعد  تفل ہے  تفل کے بعد  نفث ہے جس کے معنی ہیں لبوں کے تھوک کے ساتھ پھونکنا اور اس کے بعد  نفخ  ہے جو محض پھونک مارنے کو کہتے ہیں۔ مسلم کی ایک روایت ہے میں فلیبصق کے بجائے فلینفث کا لفظ منقول ہے نیز اس حدیث میں بائیں طرف تھتکارنے کا حکم دیا گیا ہے جب کہ پچھلی حدیث میں مطلق تھتکارنے کا حکم ہے اسی طرح اسی حدیث میں کروٹ تبدیل کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ خواب کے اثرات و کیفیات میں تغیر و تبدیلی کے لئے یہ چیزیں یعنی کروٹ پھیر لینا بہت تاثیر رکھتی ہے۔

چند خوابوں کی تعبیر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  جس وقت کہ زمانہ قریب ہو گا تو مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا اور مؤمن کا خواب نبوت کا چھیالیس اجزاء میں سے ایک جزو ہے اور جو چیز نبوت کے اجزاء میں ہو وہ جھوٹی نہیں ہوا کرتی۔ حضرت محمد بن سیرین جو (ایک جلیل القدر تابعی اور فن تعبیر خواب کے امام ہیں) فرماتے ہیں کہ اور میں (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے منقول احادیث کی روشنی میں یہ کہتا ہوں کہ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں ایک تو نفس کا خیال، دوسرے شیطان کا ڈرانا اور تیسرے خدا کی طرف سے بشارت پس جو شخص کوئی برا خواب  (ڈراؤنا) دیکھے تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے اور (یہ کرے کہ خواب دیکھنے کے بعد) اٹھے اور (نفل) نماز پڑھ لے تاکہ نماز کی برکت و نورانیت کے سبب اس کے دل کو اطمینان نصیب ہو اور خواب کی برائی کا جو وہم و وسوسہ دل میں پیدا ہو گیا ہے وہ جاتا رہے گا) نیز ابن سیرین فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے چنانچہ کہا جاتا ہے (یعنی تعبیر خواب کے ماہر علماء کہتے ہیں) کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے یہ پوری روایت (جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد اور ابن سیرین کے قول پر مشتمل ہے) بخاری و مسلم نے نقل کی ہے لیکن روایت کے آخری جزو کے بارے میں دونوں کو تردد ہے چنانچہ امام بخاری کہتے ہیں کہ اس حدیث کو یعنی پوری روایت کو یا صرف اسی جزو کو کہ جس میں قید کا ذکر ہے قتادہ ، یونس ، ہشیم ، اور ابو ہلال نے محمد بن سیرین سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے (ابتدائی جزو بطریق مرفوع اور آخری جزو بطریق موقوف) نقل کیا ہے اور یونس نے کہا ہے کہ میرا گمان ہے کہ یہ حدیث کا وہ جزو جس میں ابن سیرین نے قید کا ذکر کیا ہے یعنی یہ الفاظ یعجبہم القید والقید ثبات فی الدین) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے (گویا بخاری کے اس قول کا مطلب یہ ہوا کہ ابن سیرین نے نقل کرنے والے ایک راوی یونس کے مطابق روایت کا وہ جزو کہ جس میں طوق کا ذکر ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے ، البتہ وہ جزو کہ جس میں قید کا ذکر ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا ابن سیرین کا اپنا قول نہیں ہے بلکہ حدیث مرفوع یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے محمد بن سیرین نے نقل کیا ہے) اور امام مسلم نے جو (ابن سیرین سے روایت نقل کر کے) یہ کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم کہ وہ (جزء کہ جس میں قید کے الفاظ ہیں) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث کے الفاظ ہیں یا ابن سیرین کا اپنا قول ہے ، مسلم کی ایک اور روایت میں اسی طرح کے الفاظ ہیں نیز مسلم نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا محمد بن سیرین نے حدیث میں ادراج کیا ہے۔ بایں طور کہ انہوں نے کہا میں طوق کو دیکھنا اچھا سمجھتا ہوں ........الخ (گویا مسلم کے قول کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کا پورا آخری جزو، جو طوق اور قید کے ذکر پر مشتمل ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد نہیں ہے ، بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ یا محمد بن سیرین کا اپنا قول ہے نیز بخاری و مسلم کے ان اقوال کی روشنی میں قال و کان یکرہ کی ضمیروں کی حقیقت حال بھی منکشف ہو جاتی ہے کہ ان ضمیروں کو کس کی طرف راجع ہونا چاہئے !

 

تشریح

 

جس وقت کہ زمانہ قریب ہو گا کے تین معنی بیان کئے جاتے ہیں ایک تو یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد قرب قیامت کا آخری زمانہ ہے جیسا کہ ایک اور حدیث میں صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ آخر زمانہ میں قیامت کے قریب مؤمن کا خواب جھوٹا نہیں ہو گا دوسرے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد موت کے زمانہ سے قریب ہونا ہے یعنی جس مؤمن کی موت کا زمانہ قریب ہوتا ہے اس کا خواب جھوٹا نہیں ہوتا یہ معنی حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے بعض مشائخ سے نقل کئے ہیں تیسرے یہ کہ اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں دن رات برابر ہوتے ہیں چنانچہ جس زمانہ میں دن رات برابر ہوتے ہیں ان میں انسانی مزاج اعتدال پر ہوتا ہے اور ذہن و فکر کی صلاحیتیں صحت و سلامت روی کے ساتھ کام کرتی ہیں ایسے دنوں میں دیکھا جانے والا خواب ذہنی و جسمانی خلل و انتشار سے محفوظ اور زیادہ سچا ہوتا ہے چوتھے یہ کہ زمانہ قریب ہونے سے مراد وہ زمانہ ہے جب سال مہینہ کی طرح مہینہ ہفتہ کی طرح ہفتہ دن کی اور دن ساعت کی طرح گزرنے لگے علماء نے لکھا ہے کہ ایسا زمانہ حضرت امام مہدی کے دور میں آئے گا کیونکہ اس وقت حضرت امام مہدی کے عدل و انصاف اور رعایا پروری کی وجہ سے سب ہی لوگ آسودگی و مسرت اور بے فکری کے دن گزاریں گے اور ظاہر ہے کہ آسودگی وبے فکری کے دن بڑی سرعت کے ساتھ گزرتے معلوم ہوتے ہین خواہ وہ کتنا ہی طویل زمانہ کیوں نہ ہو اس کے برعکس عسرت و تنگی اور محنت مشقت کے دن اتنے بھاری معلوم ہوتے ہیں کہ خواہ وہ کتنا ہی مختصر عرصہ کیوں نہ ہو ایک ایک دن پہاڑ کی طرح گزرتا ہے ، لہٰذا حضرت مہدی کے زمانہ میں بھی خواب صحیح و درست ہوں گے کیوں کہ وہ راستی کا زمانہ ہو گا ، ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص جتنا زیادہ راست باز ہو گا اس کا خواب اتنا ہی سچا ہو گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشاد گرامی سے چونکہ مطلق خواب سچا ہونا اور اس کی توصیف و فضیلت واضح ہوتی تھی تو اس لئے خواب کی قسمیں بیان کرنے کے لئے حضرت محمد بن سیرین کا ایک قول نقل کیا گیا جس میں اس طرف اشارہ ہے کہ خواب کی ہر قسم نہ تو سچی ہوتی ہے اور نہ قابل تعبیر و لائق اعتبار، بلکہ خواب کی صرف وہی قسم تعبیر و لائق اعتبار ہوتی ہے جس کو حق تعالیٰ کی طرف سے بشارت اور آئندہ پیش آنے والے واقعات و حادثات کی خبر و علامت قرار دیا جاتا ہے۔

ابن سیرین نے خواب کی جو تین قسمیں بیان کی ہیں ان میں پہلی قسم نفس کا خیال ہے ، یعنی انسان دن بھر جن امور میں مشغول رہتا ہے اور اس کے دل و دماغ پر جو باتیں چھائی رہتی ہیں وہی رات میں بصورت خواب مشکل ہو کر نظر آتی ہیں مثلاً ایک شخص اپنے پیشہ و روزگار میں مصروف رہتا ہے اور اس کا ذہن و خیال انہیں باتوں کی فکر اور ادھیڑ پن میں لگا رہتا ہے جو اس کے پیشہ و روزگار سے متعلق ہیں تو خواب میں اس کو وہی چیزیں نظر آتی ہیں، یا ایک شخص اپنے محبوب کے خیال میں مگن رہتا ہے اور اس کے ذہن پر ہر وقت اسی محبوب کا سایہ رہتا ہے تو اس کے خواب کی دنیا پر بھی وہی محبوب چھایا رہتا ہے غرضکہ عالم بیداری میں جس شخص کے ذہن و خیال پر جو چیز زیادہ چھائی رہتی ہے وہی اس کو خواب میں نظر آئے گی لہٰذا اس طرح کے خواب کا کوئی اعتبار نہیں۔

دوسری قسم ڈراؤنا خواب ہے ، یہ خواب اصل میں شیطانی اثرات کا پر تو ہوتا ہے ، شیطان چونکہ ازل سے بنی آدم کا دشمن ہے اور جس طرح وہ عالم بیداری میں انسان کو گمراہ کرنے اور پریشان کرنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح نیند کی حالت میں بھی وہ انسان کو چین نہیں لینے دیتا ، چنانچہ وہ انسان کو خواب میں پریشان کرنے اور ڈرانے کے لئے طرح طرح کے حربے استعمال کرتا ہے کبھی تو وہ کسی ڈراؤنی شکل و صورت میں نظر آتا ہے جیسے وہ دیکھتا ہے کہ میرا سر قلم ہو گیا وغیرہ وغیرہ اسی طرح خواب میں احتلام کا ہونا کہ موجب غسل ہوتا ہے اور بسا اوقات اس کی وجہ سے نماز فوت یا قضا ہو جاتی ہے اسی شیطانی اثرات کا کرشمہ ہوتا ہے پہلی قسم کی طرح یہ قسم بھی بے اعتبار اور ناقابل تعبیر ہوتی ہے۔

خواب کی تیسری قسم وہ ہے کہ جس میں منجانب اللہ بشارت کہا گیا ہے کہ حق تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے خواب میں بشارت دیتا ہے اور اس کے قلب کے آئینہ میں بطور اشارات و علامات ان چیزوں کو مشکل کر کے دکھاتا ہے جو آئندہ وقوع پذیر ہونے والی ہوتی ہے۔ یا جن کا تعلق مؤمن کی روحانی و قلبی بالیدگی و طمانیت سے ہوتا ہے وہ بندہ خوش ہو اور طلب حق میں تر و تازگی محسوس کرے ، نیز حق تعالیٰ سے حسن اعتقاد اور امید آوری رکھے خواب کی یہی وہ قسم ہے جو لائق اعتبار اور قابل تعبیر ہے اور جس کی فضیلت و تعریف احادیث میں بیان کی گئی ہے۔

تو اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرے  کا مطلب یہ ہے کہ جب اس طرح کا خواب بے اعتبار ہے اور اس کی کوئی تعبیر نہیں تو اس کو کسی کے سامنے بیان کرنا عبث ولا حاصل ہے علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی ہے کہ جب اس قسم کے خواب کو کسی کے سامنے بیان کرے گا اور سننے والا خواب کی ظاہری حالت کے پیش نظر اس کی خراب تعبیر دے گا۔تو اس کی وجہ سے فاسد وہم میں مبتلا ہونا اور بدشگونی لینا لازم آئے گا نیز دل و دماغ مختلف قسم کے اندیشوں اور وسوسوں سے پریشان ہو جائیں گے ، مزید برآں خواب کے وقوع پذیر ہونے میں خواب کو ایک خاص تاثیر حاصل ہے کہ خواب کو سننے والا جو تعبیر دیتا ہے اللہ تعالیٰ سے ویسا ہی وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

 قال وکان یکرہ الغل الخ  میں لفظ قال اور کان کی ضمیروں کے بارے میں شارحین حدیث نے کئی احتمال لکھے ہیں۔ ایک تو یہ کہ قال کی ضمیر محمد بن سیرین کی طرف سے راجع ہو جیسا کہ ما قبل کی عبارت قال محمد بن سیرین سے بظاہر یہی مفہوم ہوتا ہے اور اس بنا پر کان یکرہ کی ضمیریں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف راجع ہوں، اس صورت میں مذکورہ جملہ کے معنی وہی ہوں گے جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی حضرت محمد بن سیرین نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے کیونکہ گلے میں طوق کا ڈالا جانا دوزخیوں کی صفت ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے اذالاغلال فی اعناقہم دوسرا احتمال یہ ہے کہ  قال  کی ضمیر تو ابن سیرین کی طرف راجع ہو اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ ابن سیرین نے کہا ہے ، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اس بات کو اچھا نہیں سمجھتے تھے کہ کوئی شخص خواب میں یہ دیکھے کہ اس کے گلے میں طوق ڈالا گیا ہے اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اس بات کو اچھا نہ سمجھنا یا تو اس پر تھا کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اسی طرح سنا ہو گا یا اپنے ان کے اجتہاد کی بنا پر تھا۔ اور تیسرا احتمال یہ ہے کہ قال کی ضمیر تو اس راوی کی طرف راجع ہو جس نے اس حدیث کو حضرت ابن سیرین سے نقل کیا ہے اور کان یکرہ کی ضمیریں حضرت ابن سیرین کی طرف راجع ہوں اس صورت میں یہ معنی ہوں گے کہ راوی نے کہا کہ حضرت ابن سیرین خواب میں طوق کو دیکھنا اچھا نہیں سمجھتے تھے ، ! بظاہر یہ تیسرا احتمال ایک طرح کی ترجیح رکھتا ہے کیوں کہ حضرت ابن سیرین تعبیر خواب کے فن کے امام سمجھے جاتے ہیں اور ان سے اس طرح کے بہت سے اقوال منقول ہیں۔

اور قید کو دیکھنا پسند فرماتے تھے یعنی کوئی شخص خواب میں دیکھتا کہ اس کے پیروں میں بیڑیاں ڈال کر اس کو قیدی بنا لیا گیا ہے تو اس خواب کو اچھا سمجھتے تھے ، بخاری نے اس جملہ میں جمع کا صیغہ یعنی لفظ یعجبہم نقل کیا ہے ، لہٰذا ضمیروں کے سلسلے میں اوپر نقل کئے گئے احتمالات میں سے پہلے احتمال کی بنا پر یعجبہم کی ضمیر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کی طرف راجع ہو گی دوسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ان کے تابعین کی طرف اور تیسرے احتمال کی بنا پر حضرت ابن سیرین اور ان کے زمانہ کے تعبیر دینے والے علماء کی طرف راجع ہو گی۔خواب میں اپنے کو قیدی دیکھنا اس لئے اچھا ہے کہ دراصل برے امور ، گناہوں اور کمزوری و گمراہی سے باز رہنے اور دینی احکامات و طاعت پر ثابت قدم رہنے کی علامت ہے جیسا کہ روایت میں فرمایا گیا ہے۔ ویقال القید ثبات فی الدین (کہا جاتا ہے کہ قید کا مطلب دین پر ثابت قدم رہنا ہے) لیکن واضح رہے کہ یہ تعبیر اہل دین و طاعت کی نسبت سے ہے یعنی جو شخص دینی زندگی کا حامل اور عبادات و طاعات پر عامل ہو گا اور وہ خواب میں اپنے کو قیدی دیکھے گا تو اس کے لئے تو مذکورہ تعبیر ہو گی اسی لئے تعبیر خواب کے ماہرین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی بیمار یا قیدی، یا مسافر اور یا کوئی مصیبت زدہ شخص خواب میں دیکھے کہ میرے پیروں میں قید کی بیڑیاں پڑی ہوئی ہیں تو اس حق میں خواب کی یہ تعبیر ہو گی کہ وہ اپنے حال پر قائم رہے گا اسی طرح ایک ہی خواب کو دو مختلف حالت کے آدمی دیکھیں تو اس کی تعبیر ان کے حق میں ان کی حالت کے مطابق الگ الگ ہو گی، مثلاً اگر کوئی تاجر یہ خواب دیکھے کہ وہ اپنا سامان لے کر کشتی پر بیٹھا ہوا ہے اور ہوا کشتی کے موافق چل رہی ہے تو اس کے حق میں خواب نقصان و ضرر سے سلامتی اور تجارت میں نفع کی علامت قرار پائے گا اور اگر یہی خواب کوئی سالک طریقت دیکھے تو اس کے حق میں یہ خواب شریعت کی اتباع اور مرتبہ حقیقت کو پہنچنے کی علامت قرار پائے گا۔

ڈراؤنا خواب شیطانی اثر ہے اس کو کسی کے سامنے بیان نہ کرو

اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میرا سر کاٹ ڈالا گیا ہے ، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم یہ خواب سن کر ہنس دئیے اور فرمایا کہ جب تم میں سے کسی شخص کے خواب میں اس کے ساتھ شیطان تماشہ کرے تو وہ اس خواب کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دیہاتی سے فرمایا کہ تمہارا یہ خواب اضغاث احلام میں سے ہے اور اس قسم سے ہے جس میں انسان کے ساتھ شیطان تماشہ کرتا ہے تاکہ اس کو پریشان و رنجور کرے ایسے خواب کو چھپانا چاہئے نہ کہ لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے۔

یحییٰ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو بذریعہ وحی یہ معلوم ہو گیا ہو گا کہ یہ خواب اضغاث احلام میں سے ہے اور شیطانی اثرات کا عکاس ہے ورنہ اہل تعبیر کے نزدیک اس خواب کی تعبیر زوال نعمت، قوم برادری سے مفارقت اور اس جیسی دوسری چیزوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خواب

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا میں نے ایک رات کو ان چیزوں میں کہ جن میں سونے والا دیکھتا ہے (یعنی خواب میں) دیکھا کہ گویا میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم عقبہ بن رافع رضی اللہ عنہ کے گھر بیٹھے ہوئے ہیں اور میرے سامنے تازہ کھجوریں لائی گئیں جن کو رطب ابن طاب کہا جاتا ہے ، چنانچہ میں نے اس خواب کی یہ تعبیر لی کہ ہمارے لئے دنیا رفعت و سربلندی ہے۔ اور آخرت میں نیک عاقبت یعنی اچھی جزا کا انعام ہے اور یہ ہمارا دین اچھا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 مذکورہ تعبیر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گویا ناموں کے الفاظ کو بنیاد بنایا بایں طور کہ رفعت کی تعبیر تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رافع سے لی ...... عاقبت کی تعبیر سے لی اور  طاب یعنی اچھا ہے  رطب ابن طاب سے لیا ، چنانچہ یہ عادت شریفہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ناموں کے الفاظ کے ذریعہ بطریق تفاؤل و تاویل حصول مقصد کا مفہوم حاصل کرتے تھے۔ اور یہ بات محض تعبیر خواب کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ عالم بیداری اور روز مرہ کی زندگی میں بھی ان کے ذریعہ نیک فال لیتے تھے۔ جیسا کہ منقول ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ روانہ ہوئے تو راستہ میں ایک شخص بریدہ اسلمی کو چند سواروں کے ساتھ دیکھا جس کو قریش مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو پکڑ کر مکہ واپس لانے پر معمور کیا تھا اور اس کے بطور انعام سو اونٹ مقرر کئے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کو دیکھ کر پوچھا کہ تم کون ہو اور تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ بریدہ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنا (تو لفظ بریدہ سے نیک فال لیتے ہوئے) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا قد برد امرنا یعنی ہمارا معاملہ ٹھنڈا ہو گیا کہ (دشمن کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا)

ہجرت سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب

اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ہجرت سے پہلے مکہ میں ایک دن میں نے خواب دیکھا کہ میں مکہ ہجرت کر کے ایک ایسی زمین کی طرف جا رہا ہوں جس میں کھجوروں کے درخت ہیں، چنانچہ اس خواب کی تعبیر میں میرا یہ خیال ہوا کہ وہ شہر جہاں میں ہجرت کر کے جاؤں گا یمامہ ہو گا یا ہجر، لیکن حقیقت میں وہ مدینہ نکلا جس کا قدیم نام یثرب ہے میں نے اپنے اس خواب میں یہ بھی دیکھا تھا کہ میں نے اپنی تلوار کو ہلایا اور وہ اوپر سے ٹوٹ گئی ، چنانچہ ٹوٹنے کی تعبیر جنگ احد کے ان پریشانیوں اور مصائب کی صورت میں ظاہر ہوئی جس سے مسلمانوں کو دو چار ہونا پڑا کہ ابتداء میں مسلمانوں کو بظاہر شکست سے دوچار ہونا پڑا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دندان مبارک شہید ہوئے ، کتنے ہی مسلمان شہید ہوئے اور کتنے زخمی ہو گئے پھر میں نے خواب ہی میں تلوار کو دوسری مرتبہ ہلایا تو تلوار نہ صرف درست ہو گئی بلکہ پہلے سے بھی بہتر ہو گئی چنانچہ تلوار درست ہونے کی تعبیر جنگ احد ہی کے موقع پر یا فتح مکہ اور یا صلح حدیبیہ کے وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی جانے والی فتح اور مسلمانوں کی اجتماعیت کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ (بخاری ، و مسلم)

 

تشریح

 

 جزیرہ نمائے عرب (نجد و حجاز) کا وہ علاقہ ہے جو جبل طویق کے جنوب مشرق میں پھیلا ہوا ہے اور اب نجد کے علاقے میں شامل ہے یمامہ کہا جاتا ہے یہ بڑا سرسبز و شاداب علاقہ تھا اور اس میں کھجور کی بڑی پیداوار تھی موجود زمانہ میں  یمامہ  ایک چھوٹی سی بستی کی صورت میں سعودی عرب کے دارالسلطنت ریاض اور الالم کے درمیان پایا جاتا ہے ہجر بھی یمامہ سے متصل مشرق میں ایک بستی تھی یہاں بھی کھجور بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔

زمانہ جاہلیت میں  مدینہ  کا نام یثرب تھا، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے ہجرت فرما کر یہاں تشریف لائے تو اس کا نام مدینہ ، طابہ ، اور طیبہ رکھا گیا ، لیکن زیادہ مشہور مدینہ ہی ہوا ! آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شہر مقدس کو یثرب کہنے سے منع فرمایا دیا تھا ، کیونکہ یثرب اصل میں ثرب بالتحریک سے مشتق ہے جس کے معنی فتنہ و فساد کے ہیں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس حدیث میں یا بعض دوسری احادیث میں اس شہر کے لئے اس کا قدیم نام یثرب کیوں استعمال فرمایا تو اس کی وجہ تو یہ ہے کہ یہ احادیث مذکورہ ممانعت سے پہلے کی ہیں یا یہ ممانعت چونکہ نہی تنزیہی کے طور پر ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم بیان جواز کی خاطر کبھی کبھی قدیم نام کو بھی استعمال فرما لیتے تھے اور یا یہ کہ ابتداء ہجرت میں چونکہ عام طور پر لوگ اس نئے نام یثرب کا بھی ذکر فرما دیا اور یہی آخری احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے نیز قرآن کریم میں جو فرما یا گیا ہے کہ آیت (یا اہل یثرب لامقام لکم) الخ یہ تو یہ منافقین کی زبانی فرمایا گیا ہے اس لئے اس کے بارے میں کوئی اشکال نہیں ہونا چاہئے۔

ایک خواب کی تعبیر

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (ایک دن) میں سو رہا تھا کہ (خواب) میں زمین کے خزانے میرے سامنے لائے گئے پھر میرے ہاتھ پر سونے کے دو کڑے رکھے گئے جو مجھ پر گراں گزرے (یعنی مردوں کے لئے سونا حرام ہونے کی وجہ سے ان کڑوں کا میرے ہاتھوں میں ہونا مجھ کو ناگوار ہوا) اس کے بعد مجھ پر وحی آئی (یعنی خواب ہی میں بطور الہام میرے دل میں اللہ نے یہ بات ڈالی) کہ ان کڑوں پر پھونک مارو چنانچہ میں نے پھونک ماری تو وہ کڑے اڑے گئے میں نے ان دونوں کڑوں سے ان دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لی (باعتبار مسکن علاقہ کے) جن کے درمیان میں ہوں ، یعنی ایک تو یمامہ والا ،  اور دوسرا صنعاء والا۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں جس کو (ترمذی نے نقل کیا ہے) یوں ہے کہ (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں جھوٹوں کی وضاحت اس طرح فرمائی) کہ ان میں سے ایک کو تو مسیلمہ کہا جاتا ہے جو یمامہ کا رہنے والا ہے اور دوسرا عنسی ہے جو صنعاء کا رہنے والا ہے مصنف مشکوۃ کہتے ہیں کہ مجھے یہ روایت بخاری و مسلم میں نہیں ملی ہے اور اس کو صاحب جامع الاصول نے ترمذی سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 زمین کے خزانے  یعنی زمین کے خزانے کی کنجیاں میرے سامنے لائی گئیں۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حقیقت میں خزانے ہی لائے گئے تھے خزانوں کے ذریعہ گویا یہ بشارت دی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لوگ اس روئے زمین پر اپنا تسلط قائم کریں گے اور دنیا کے خزانوں کے مالک قرار پائیں گے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت چار دانگ عالم میں پھیل جائے گی۔

 صنعاء  یمن کے ایک مشہور کا نام ہے اس کے سردار کا نام اسود عنسی تھا جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ حیات میں نبوت کا دعوی کیا تھا جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم مرض وفات میں صاحب فراش تھے تو حضرت فیروز دیلمی نے اسود عنسی کو قتل کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا فاز فیروز یعنی فیروز فائز المرام ہوئے ، اسود عنسی کی طرح یمامہ کے رہنے والے مسیلمہ کذاب نے بھی نبوت کا دعوی کیا تھا اس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں حضرت وحشی نے قتل کیا تھا یہ وہی وحشی ہیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے سے قبل غزوہ احد میں امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔

کڑوں سے دونوں جھوٹوں کے بارے میں تعبیر لینے کی وجہ علماء نے یہ لکھی ہے کہ کڑے اصل میں ہتھکڑی کی مشابہت رکھتے ہیں جس کو ہاتھوں میں ڈال کر قیدی بنایا جاتا ہے۔ اور ہتھکڑی ہاتھوں کو اس طرح باندھ دیتی ہے کہ وہ ہاتھ نہ کسی چیز کو پکڑ سکتے ہیں نہ کوئی کام کر سکتے ہیں اور نہ حرکت و تصرف کی قدرت رکھتے ہیں ، چنانچہ وہ دونوں کذاب کہ جو نبوت کا دعوی کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلہ پر آئے تھے قیدیوں کے مشابہ ہوئے جن کے ہاتھ کی کڑی کڑوں کی صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک میں تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دنوں ہاتھوں کو ہتھکڑی میں ڈال کر پکڑ رکھا ہے اور چھوڑتے نہیں تاکہ وہ اپنی حرکت و عمل سے باز رہیں اور کوئی کام نہ کر سکیں۔ رہی یہ بات کہ اس تعبیر کے پیش نظر سونے ہی کے کڑے کیوں دکھائے گئے لوہے کے کڑے کیوں نہ دکھائے گئے جو ان کے زیادہ مناسب حال تھے تو اس میں بھی دراصل ایک نکتہ ہے اور وہ یہ کہ سونے کے کڑے دکھا کر اشارہ کیا گیا کہ دونوں جھوٹے دنیاوی عزت و جاہ کے لالچ اور زیب و زینت کے انہماک میں کس قدر مبتلا ہیں اور یہ کہ ان کا مردود و مجرم ہونا کس قدر واضح اور ان کی نوعیت کتنی سنگین ہے 

ایک خواب کی تعبیر

٭٭اور حضرت ام العلاء انصاریہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ عثمان بن مظعون کے لئے پانی کا ایک چشمہ جاری ہے جب میں نے یہ خواب نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ ان کے عمل کا ثواب ہے جو ان کے لئے جاری رکھا گیا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 حضرت عثمان ابن مظعون رضی اللہ عنہ ایک جلیل القدر اور قدیم الاسلام صحابی ہیں ، مہاجرین میں بڑی فضیلت کے حامل تھے ، میدان کار زار میں جان باز مجاہد کی حیثیت رکھتے تھے ان کے ایک بڑی فضیلت یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مرابط یعنی میدان کار زار میں اسلامی لشکر و سرحد کا پاسبان مقرر کیا تھا۔شریعت میں مرابط کے بہت فضائل منقول ہیں ان میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ مرابط جب انتقال کر جاتا ہے تو اس کا عمل صالح قیامت تک بڑھتا رہتا ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ خواب کی یہ تعبیر بیان فرمائی کہ وہ چشمہ دراصل ان کا عمل صالح ہے اور جس طرح وہ چشمہ جاری ہے اسی طرح ان کے عمل صالح کا ثواب برابر جاری ہے جو قیامت تک ان کی طرف پہنچتا رہے گا۔

عالم برزخ کی سیر سے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ایک خواب

اور حضرت سمرہ ابن جندب کہتے ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صبح کی) نماز سے فارغ ہوتے تواپنا چہرہ اقدس ہماری طرف متوجہ کرتے اور پوچھتے کہ آج کی رات تم میں سے کسی نے خواب دیکھا ہے؟ حضرت سمرہ کہتے ہیں کہ اگر ہم سے کسی نے خواب دیکھا ہوتا تو وہ اس کو بیان کرتا اور آپ اس کی وہ تعبیر فرما دیتے جو اللہ تعالیٰ الہام فرماتا۔چنانچہ اپنے اپنے معمول کے مطابق ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہم سے وہی سوال کیا اور فرما یا کہ کیا تم میں سے کسی شخص نے خواب دیکھا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ نہیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لیکن میں آج کی رات خواب دیکھا ہے (اور وہ یہ) کہ دو شخص میرے پاس آئے اور میرے دونوں ہاتھوں کو پکڑ کر مجھے مقدس سرزمین ، ملک شام کی طرف لے چلے ، پس ایک جگہ پہنچ کر میں کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص میرے پاس آئے بیٹھا ہوا ہے اور ایک شخص اپنے ہاتھ میں لوہے کا آنکڑا لئے کھڑا ہے ، اور وہ پھر اس آنکڑے کو بیٹھے ہوئے شخص کے کلے میں ڈالتا ہے اور اس کو چیرتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی گدی تک چیرتا چلا جاتا ہے ، پھر وہ دوسرے کلے کے ساتھ اس طرح کرتا ہے (یعنی اس کو بھی گدی تک چیر دیتا ہے) جب وہ کلہ اپنی اصلی حالت پر آ جاتا ہے تو پھر پہلے کی طرح وہی عمل کرتا ہے (یعنی وہ کلے کو چیرتا ہے اور جب وہ کلہ درست ہو جاتا ہے تو پھر چیرتا ہے غرضیکہ بار بار یہی عمل کرتا ہے اور یہ عمل جاری رہتا ہے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم یہ فرماتے ہیں کہ میں نے (یہ مت پوچھئے کہ کیا ہو رہا ہے بلکہ آگے چلئے ابھی بہت عجائبات دیکھنے ہیں اس کی تعبیر معلوم ہو جائے گی) چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی جگہ آئے جہاں ایک شخص چت پڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس سرکے پاس اتنا بڑا پتھر لئے کھڑا تھا جس سے ہاتھ بھر جائے اور اس سے چت پڑے شخص کے سر کو کچلتا تھا ، چنانچہ جب وہ پتھر کو (کھینچ کر) اس کے سر پر مارتا ہے تو پتھر سرکو کچل کر لڑھکتا ہوا دور چلا جاتا (پھر وہ دوبارہ مارنے کی غرض سے) اس پتھر کو اٹھانے کے لئے جاتا اور جب لوٹ کر آتا تو اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اس شخص کا سر درست ہو جاتا اور پھر وہ اس پر پتھر مارتا اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری تھا کہ اس کا سر درست ہوتا رہتا اور وہ اس پر پتھر مارتا رہتا میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے؟ ان دونوں نے جواب دیا کہ چلے چلئے۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسے گڑھے پر پہنچے جو تنور کی مانند تھا ۃکہ اس کے اوپر کا حصہ تنگ تھا اور نیچے کا حصہ کشادہ تھا اور اس کے اندر آگ بھڑک رہی تھی جس آگ اوپر کی طرف بھڑکتی تو کچھ لوگ جو آگ کے اندر تھے (شعلوں کے ساتھ) او پر آ جاتے یہاں تک کہ اس گڑھے سے نکلنے کے قریب ہو جاتے اور جب شعلہ کا زور گھٹ جاتا تو وہ سب پھر اندر چلے جاتے میں نے دیکھا کہ اس آگ میں کئی مرد تھے اور کئی عورتیں تھیں اور سب ننگے تھے میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہورہا ہے تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک کہ ایک ایسی نہر پر پہنچے جو (پانی کے بجائے) خون سے بھری ہوئی تھی ، نہر کے بیچ میں ایک شخص کھڑا ہوا تھا اور ایک شخص اس کے کنارے پر تھا جس کے آگے پتھر رکھے ہوئے تھے جب وہ شخص جو نہر کے بیچ میں تھا (آگے کنارے پر) آیا اور چاہا کہ باہر نکل آئے تو اس شخص نے جو کنارے پر تھا اس کے منہ پر پتھر پھینک کر مارا جس سے وہ اپنی جگہ لوٹ گیا اور پھر اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا کہ نہر کے اندر کا آدمی جب باہر نکلنے کا ارادہ کرتا تھا تو کنارے والا آدمی اس کے منہ پر پتھر مارتا اور اس کو اسی جگہ واپس کر دیتا ہے میں نے (یہ دیکھ کر) پوچھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ تو ان دونوں نے کہا کہ چلے چلئے۔چنانچہ ہم آگے چلے یہاں تک ایک سرسبز شاداب باغ کے پاس پہنچے اس باغ میں ایک بڑا درخت تھا اور اس کی جڑ پر ایک بوڑھا اور کچھ لڑکے (بیٹھے) تھے پھر کیا دیکھتا ہوں کہ اس درخت کے پاس ایک اور شخص بھی ہے جس کے آگے آگ جل رہی ہے وہ اس کو جلا بھڑکا رہا تھا ، پھر وہ دونوں آدمی مجھ کو لے کر درخت پر چڑھے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو درخت کے بالکل درمیان تھا (اور یہ گھر اتنا اچھا تھا ، کہ) میں نے کبھی بھی اس سے اچھا کوئی گھر نہیں دیکھا اس گھر میں کتنے ہی جوان بوڑھے ، مرد تھے ، کتنی ہی عورتیں اور کتنے اور کتنے ہی بچے تھے ، اس کے بعد وہ دونوں مجھ کو اس گھر سے نکال کر درخت کے اور اوپر لے گئے اور مجھ کو ایک ایسے گھر میں داخل کیا جو پہلے گھر سے بھی بہت اچھا اور افضل تھا اس میں بھی بوڑھے اور جوان آدمی موجود تھے اب میں نے ان دونوں آدمیوں سے کہا کہ آج کی رات تم نے مجھ کو خوب گھمایا پھر ایا لیکن میں نے جو کچھ دیکھا ہے اس کی حقیقت سے تو مجھ کو آگاہ کرو؟ ان دونوں نے کہا کہ اچھا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بتاتے ہیں (پھر انہوں نے بیان کرنا شروع کیا کہ) جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا کہ اس کے کلے چیرے جا رہے تھے وہ ایسا شخص ہے جو جھوٹا ہے ،جھوٹ بولتا ہے اور اس کی جھوٹی باتیں نقل وبیان کی جاتی ہیں ، جو دنیا میں چاروں طرف پھیلتی ہیں ، جن سے لوگ گمراہ ہوتے ہیں چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا کہ اس کا سر کچلا جا رہا تھا وہ ایسا شخص ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن سکھایا تھا یعنی اس کو قرآنی علوم سیکھنے کی توفیق عطا فرمائی تھی لیکن وہ شخص اس (قرآن سے) بے نیاز ہو کر رات میں سوتا رہا اور دن میں قرآن کے مطابق عمل نہیں کیا ، چنانچہ اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جا رہا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دیکھا اور اس کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا اور جن لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تنور میں دیکھا ہے وہ زناکار ہیں اور جس شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نہر میں دیکھا وہ سود خور ہے (ان سب کو بھی اپنے کئے کی سزا مل رہی ہے اور قیامت تک یوں ہی ملتی رہے گی) اور جس بوڑھے شخص کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے درخت کی جڑ کے پاس بیٹھے ہوئے دیکھا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے پاس جو بچے ہیں وہ آدمیوں کی اولاد ہیں اور جو شخص درخت سے کچھ فاصلہ پر آگ جلا رہا ہے وہ دوزخ کا دروغہ ہے اور درخت کے اوپر پہلا گھر جس میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) داخل ہوئے تھے وہ (جنت میں عام) مؤمنوں کا مکان ہے اور یہ گھر (جو پہلے گھر سے اوپر واقع ہے) شہداء کا مکان ہے میں جبرائیل (علیہ السلام) ہوں اور یہ جو میرے ساتھ ہیں میکائیل (علیہ السلام) ہیں اور ذرا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اوپر سر اٹھائیے (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) فرماتے ہیں کہ) میں نے اپنا سر اوپر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے اوپر (نہایت بلندی میں) ابر کی مانند کوئی چیز ہے۔ اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ تہ در تہ سفید ابر کی مانند کوئی چیز ہے ان دونوں نے کہا کہ یہ ابر کی مانند جو چیز آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) دیکھ رہے ہیں دراصل جنت میں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا مکان ہے۔ میں نے کہا کہ تو پھر تم لوگ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں اپنے مکان میں چلا جاؤں ان دونوں نے کہا کہ ابھی تو آپ کی عمر باقی ہے جس کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پورا نہیں کیا ہے جب آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی عمر کو پورا کر لیں گے تو اپنے مکان میں چلے جائیں گے۔ (بخاری)

اور حضرت عبداللہ ابن عمر کی وہ روایت جو مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب دیکھنے سے متعلق ہے وہ حرم مدینہ کے باب میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

 رات میں سوتا رہا  یعنی اس شخص نے نہ تو ، رات میں قرآن کریم کی تلاوت کی اور نہ دن میں اس پر عمل کیا !یا تو قرآن پر عمل کرنے کا تعلق دن اور رات دونوں سے ہے اور رات میں اس کی تلاوت بھی اس پر عمل ہی کرنا ہے ، لیکن چونکہ عبادت گزار بندے عام طور پر قرآن کریم کی تلاوت رات ہی کو کرتے ہیں اس لئے اس کو رات کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔ اور چوں کہ زندگی کی زیادہ تر حرکت و عمل کا تعلق دن سے ہوتا ہے اور اس اعتبار سے قرآنی احکام یعنی اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے کا تعلق زیادہ تر دن ہی سے ہوتا ہے اس لئے قرآن پر عمل کرنے کو ان کے ساتھ مخصوص کیا گیا۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم نعمت عطا فرمائی کہ اس کو قرآن کا علم دیا لیکن اس نے اس نعمت کی قدر نہ کی بایں طور کہ رات کے وقت اس کی تلاوت سے غافل ہو کر سو رہا اور یہ جیز بسا اوقات قرآن کو بھول جانے کا سبب بنتی ہے۔ نیز اس نے قرآن کے اوامر نواہی پر عمل بھی نہیں کیا باوجودیکہ قرآن نازل ہونے کا اصل مقصد یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل کرتا ہے وہ گویا ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرتا ہے اگرچہ وہ حقیقت میں تلاوت نہ کرے اور جو ہمیشہ تلاوت کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس نے گویا قرآن کی کبھی تلاوت نہیں کی۔

یحیی کہتے کہ  سوتا رہا  کا مطلب یہ ہے کہ اس نے قرآن کریم سے اعراض کیا اور بے نیازی اختیار کی لہذا جو شخص تلاوت کے بغیر اس طرح سوئے کہ اس میں اس کے اعراض کرنے اور بے نیازی برتنے کو قطعاً دخل نہ ہو بلکہ محض غفلت و کوتاہی یا کسی مجبوری کا دخل ہو تو ایسا شخص مذکورہ وعید سے مستثنی ہو گا۔

 اور یہ گھر شہداء کا مکان ہے  کے بارے میں علماء نے لکھا ہے کہ  شہداء  سے مراد مؤمنین خاص ہیں جیسے انبیاء علیہ السلام اولیاء ، اور علماء کیوں کہ منقول ہے کہ علماء کی سیاہی شہداء کے خونوں پر غالب ہو گی۔

امام نووی فرماتے ہیں کہ اس ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ ہدایت واضح ہوتی ہے کہ امام کے لئے یہ مستحب ہے کہ نماز فجر میں اسلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں سے متوجہ ہو یہ بھی مستحب ہے کہ وہ امام مقتدیوں سے خواب دریافت کرے اور یہ بھی مستحب ہے کہ تعبیر بیان کرنے والا خواب کی تعبیر دن کے ابتدائی حصے میں بیان کر دے تاکہ معاش روز گار میں مشغولیت کی وجہ سے ذہن منتشر نہ ہو اور دل جمی کے ساتھ تعبیر دے سکے۔

اپنا برا خواب کسی مرد دانا یا دوست کے علاوہ اور کسی کے سامنے بیان نہ کرو

حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ مؤمن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے اور خواب کو جب تک بیان نہ کیا جائے وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے تو وہ واقع ہو جاتا ہے راوی کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا دانا اور دوست کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو۔ (ترمذی) 

 

اپنا برا خواب کسی مرد دانا یا دوست کے علاوہ اور کسی کے سامنے بیان نہ کرو

اور ابوداؤد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا خواب کی تعبیر جب تک بیان نہیں کی جاتی وہ پرندہ کے پاؤں پر ہوتا ہے اور جب تک اس کی تعبیر بیان کر دی جاتی ہے تو وہ تعبیر واقع ہو جاتی ہے اور میرا خیال ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ بھی فرمایا اور دوست و عقلمند کے علاوہ کسی اور کے سامنے خواب کو بیان نہ کرو۔ 

 

اپنا برا خواب کسی مرد دانا یا دوست کے علاوہ اور کسی کے سامنے بیان نہ کرو

 تشریح

 

 علی رجل طائر (وہ پرندہ کے پاؤں پر ہے) دراصل عربی کا ایک محاورہ ہے جو اہل عرب کسی ایسے معاملہ اور کسی ایسی چیز کے بارے میں استعمال کرتے ہیں جن کو قرار و ثبات نہ ہو ، مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح پرندہ عام طور پر کسی ایک جگہ ٹھہرا نہیں رہتا ، بلکہ اڑتا اور حرکت کرتا رہتا ہے اور جو چیز اس کے پیروں پر ہوتی ہے وہ بھی کسی ایک جگہ قرار نہیں پاتی بلکہ ادنی سی حرکت سے گر پڑتی ہے اسی طرح یہ معاملہ اور یہ چیز بہی کسی ایک جگہ پر قائم و ثابت نہیں رہتی لہذا فرمایا گیا کہ خواب کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کہ جب تک اس کو کسی کے سامنے بیان نہیں کیا جاتا اور اس کو اپنے دل میں پوشیدہ رکھا جاتا ہے اس وقت تک وہ کوئی اعتبار نہیں رکھتا اور واقع نہیں ہوتا ، لیکن جب اس کو کسی کے سامنے بیان کر دیا جاتا ہے اور جوں ہی اس کی تعبیر دی جاتی ہے وہ اسی تعبیر کے مطابق واقع ہو جاتا ہے ، لہذا کسی کے سامنے اپنا خواب بیان نہ کرنا چاہئے لیکن واضح رہے کہ یہ حکم برے خواب کے بارے میں ہے کہ جس کے واقع ہونے سے انسان ڈرتا ہے اور نقصان و ضرر کا واہمہ رکھتا ہے جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی وضاحت بھی کی گئی ہے۔

مرد دانا اور دوست کے سامنے خواب بیان کرنے کو اس لئے فرمایا گیا ہے کہ عقلمند و دانا اپنی عقل و حکمت کی بنا پر خواب کی اچھی ہی تعبیر دے گا اسی طرح جو شخص دوست و ہمدرد ہو گا وہ بھی خواب کو بھلائی پر ہی محمول کرے گا اور اچھی تعبیر دے گا جب کہ بیوقوف تو اپنی نادانی کی بنا پر اور دشمن اپنے بغض و عناد کے تحت خراب تعبیر دے گا۔

اس موقع پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب تمام ہی چیزوں کا وقوع پذیر ہونا قضا و قدر سے متعلق ہے تو خواب کا شرمندہ تعبیر نہ ہونا اس خواب کو ظاہر نہ کرنے پر کس طرح موقوف ہو سکتا ہے اور خواب کے وقوع پذیر ہونے میں تعبیر کا مؤثر ہونا کیونکر ہے؟ اس کا مختصر سا جواب یہ ہے کہ یہ چیز بھی قضاء و قدر کے مطابق ہے جیسا کہ دعا اور صد قہ و خیرات اور دوسرے اسباب و ذرائع کا مسئلہ ہے۔

ورقہ ابن نوفل کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خواب

اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں پوچھا گیا (کہ وہ مؤمن تھے یا نہیں؟) اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا کہ وہ ورقہ بن نوفل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو خواب میں ورقہ بن نوفل کو اس حالت میں دکھلایا گیا ہے کہ اس پر سفید کپڑے تھے اور وہ دوزخی ہوتے تو ان کے جسم پر اور طرح کے کپڑے ہوتے۔ (الترمذی)

 

تشریح

 

 ورقہ ابن نوفل ابن اسد ابن عبد العزی۔ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے چچا زاد بھائی تھے انہوں نے زمانہ جاہلیت میں عیسائی مذہب کی تعلیم حاصل کر کے اس میں کافی ورک پیدا کیا تھا اور انجیل کو عربی زبان میں منتقل کیا تھا ان کے بارے میں ثابت ہے کہ بت پرستی سے سخت بیزار تھے اور اپنے طریقے پر اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا کرتے تھے ، کافی معمر تھے اور عمر کے آخری حصے میں بینائی سے بالکل محروم ہو گئے تھے ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو نبوت سے سرفراز فرمایا گیا۔ اور پہلے پہل آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر وحی نازل ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو لے کر ان کے پاس گئیں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت کی تصدیق کی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو بشارت دی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم وہی نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و سلم ہیں جن کا تذکرہ آسمانی کتب میں کیا گیا ہے یہ واقعہ بہت مشہور ہے اور سیرت و تاریخ کی ہر کتاب میں موجود ہے۔

مشہور کتاب اسد الغابہ کے مصنف نے ورقہ ابن نوفل کا تذکرہ صحابہ کے زمرے میں کیا ہے اور ان کے اسلام کے بارے میں علماء کے جو اختلافی اقوال ہیں ان کو ذکر کرتے ہوئے مذکورہ بالا حدیث کو بعینہ نقل کیا ہے ! حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی حیات میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں نہیں تھیں اس لئے انہوں نے اس روایت کو صحابہ سے بطریق سماع نقل کیا ہو گا۔

 اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا الخ  یعنی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ورقہ ابن نوفل کے بارے میں سوال کیا گیا تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جواب دینے سے پہلے اپنے چچا زاد بھائی کی حالت کو بیان کیا لیکن اسلوب کلام ایسا اختیار کیا کہ ورقہ ابن نوفل کی حقیقت بھی واضح ہو جائے اور مرتبہ نبوت کا ادب بھی ملحوظ رہے چنانچہ انہوں نے کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے تھے یعنی انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ جس فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے دیکھا ہے وہ اللہ کی طرف سے انبیاء کے پاس وحی لانے والا ہی فرشتہ ہے جو آپ پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر بھی نازل ہوتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم خدا کے پیغمبر ہیں اور اگر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ظہور و غلبہ کے وقت زندہ رہا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی مدد کروں گا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو طاقت پہنچاؤں گا۔ گویا ایک طرف تو اس بات سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے ایمان کو ثابت کرنا چاہا اور دوسری طرف انہوں نے یہ بھی کہا کہ لیکن وہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی نبوت ظاہر ہونے سے پہلے مر گئے تھے اس سے انہوں نے ان کے ایمان کے بارے میں شک کو بھی ظاہر کر دیا اور پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و سلم کے ذریعہ یہ ثابت کر دیا کہ وہ مؤمن تھے لہٰذا یہ حدیث ورقہ ابن نوفل کے ایمان پر دلالت کرتی ہے اور ظاہر بھی ہے کہ جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کی تو پھر ان کے ایمان کے سلسلہ میں اختلاف کی کیا گنجائش ہو سکتی ہے۔ہاں اگر ان کا تصدیق کرنا نبوت سے پہلے ہوتا تو بے شک اختلاف کی گنجائش تھی۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کرنے سے متعلق ایک خواب

اور حضرت خزیمہ بن ثابت اپنے چچا حضرت ابوخزیمہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے اس حالت میں جس میں سونے والا دیکھتا ہے یعنی خواب میں دیکھا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کیا ہے ، پھر انہوں نے یہ خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم (وہ خواب سن کر) ابوخزیمہ کی خاطر لیٹ گئے (تاکہ وہ پیشانی اقدس پر سجدہ کر لیں) اور فرمایا کہ اپنے خواب کو سچا کرو یعنی اپنے خواب کے مطابق عمل کرو ، چنانچہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی پیشانی پر سجدہ کر لیا۔ (شرح السنۃ) اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت کان میزانا نزل من السماء کو مناقب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے باب نقل کیا جائے گا۔

 

تشریح

 

 یہ حدیث اس بات پر اگر کسی شخص نے یہ خواب دیکھا کہ روزہ رکھا ہے ، یا نماز پڑھی ہے ، یا صدقہ یا خیرات کیا ہے اور کسی بزرگ کی زیارت کی زیارت کی ہے وغیرہ وغیرہ تو اس خواب کے مطابق عالم بیداری میں نماز پڑھنا یا روزہ رکھنا یا صدقہ خیرات کرنا ، یا اس بزرگ کی زیارت کر لینا مستحب ہے۔

عالم برزخ کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خواب کے کچھ اور حصے

حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ سے اکثر یہ پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے؟ چنانچہ اللہ تعالیٰ جس کو خواب دکھانا چاہتا اور وہ خواب دیکھتا تو وہ اپنا خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے بیان کر دیتا ، ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے سامنے بیان کیا کہ آج رات (میں نے خواب دیکھا کہ) دو شخص میرے پاس آئے اور انہوں نے مجھ کو اٹھا کر کہا ہمارے ساتھ چلئے چنانچہ میں ان کے ساتھ چل پڑا۔ اس کے بعد حدیث کے راوی سمرہ نے وہی طویل حدیث بیان کی جو (اس خواب سے متعلق) پہلی فصل میں گزر چکی ہے لیکن اس حدیث میں پہلی فصل والی حدیث سے کچھ زیادہ باتیں ہیں اور وہ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پس ہم ایک باغ میں پہنچے جہاں (درختوں کی کثرت اور ان میں سرسبزی و شادابی کی بہتات کی وجہ سے) اندھیرا پھیلا ہوا تھا باغ میں ہر طرف بہار ہی بہار تھی اور ہمہ اقسام کے شگوفے کھلے ہوئے تھے ، پھر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ باغ کے بیچوں بیچ ایک شخص کھڑے ہوئے ہیں وہ بہت لمبے تھے کہ ان کا بھی مجھے نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ ان کی لمبائی آسمان سے باتیں کر رہی تھی پھر مجھے یہ بھی نظر آیا کہ ان کے گرد بہت سے لڑکے تھے جن کو میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا میں نے ان دونوں سے پوچھا کہ یہ لمبا شخص کون ہے اور یہ لڑکے کون ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے میری بات کا جواب دینے کے بجائے مجھ سے کہا کہ چلے چلئے چنانچہ ہم آگے چلے اور ایک بہت بڑے باغ کے پاس پہنچے جس سے بڑا اور جس سے اچھا کوئی اور باغ میں نے نہیں دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ وہاں پہنچ کر ان دونوں نے مجھ سے کہا کہ باغ کے اندر چلئے یا اس کے درختوں پر چڑھئے چنانچہ ہم چڑھے اور ایک ایسے شہر کے قریب پہنچے جو سونے اور چاندی کی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے پھر ہم اس شہر کے دروازے پر آئے اور اس کو کھلوایا اور جب وہ دروازہ ہمارے لئے کھول دیا گیا تو ہم اندر داخل ہوئے اور اس شہر میں ہم ایسے کتنے ہی لوگوں سے ملے جن میں سے ہر ایک کے بدن کا آدھا حصہ اس سے بھی بہتر تھا جس کو تم دیکھتے ہو اور آدھا حصہ اس سے بھی بدتر تھا اور آدھا حصہ انتہائی حسین و تندرست تھا اور آدھا حصہ انتہائی بھدا و خراب تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ان دونوں نے (جو مجھ کو اپنے ساتھ لے گئے تھے) ان سب نے کہا کہ جاؤ اس نہر میں غوطہ لگاؤ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں (کہ جب ان دونوں نے یہ بات کہی تو) میں کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں عرضاً ایک نہر بہ رہی ہے جس کا پانی خالص دودھ کی طرح سفید ہے ، چنانچہ وہ لوگ نہر کے پاس گئے اور اس میں کود گئے ، پھر جب وہ (غوطہ لگا کر) ہمارے پاس واپس آئے تو ان کے جسم کی خرابی و برائی دور ہو چکی تھی۔

اور ان کا پورا جسم بہترین شکل و صورت میں تبدیل ہو گیا تھا اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حدیث کے ان زیادہ الفاظ کی وضاحت میں فرمایا کہ وہ لمبے شخص جو باغ میں تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے اور ان کے گرد جو لڑکے تھے۔ وہ ایسے بچے تھے جو فطرت پر مر جاتے ہیں یعنی جو بچے چھوٹی عمر میں نابالغ مر جاتے ہیں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس رہتے ہیں راوی یہ کہتے ہیں کہ بعض صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ! اور مشرکوں کے لڑکے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا مشرکوں کے نابالغ لڑکے بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کے پاس رہتے ہیں اور وہ لوگ جن کا آدھا جسم اچھا اور آدھا جسم برا تھا وہ ایسے لوگ تھے جن کے اعمال ملے جلے تھے کہ انہوں نے کچھ اچھے عمل کئے اور کچھ برے عمل ، پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو معاف فرما دیا۔ (بخاری)

جھوٹا خواب نہ بناؤ

اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بڑے بہتانوں میں سے ایک بڑا بہتان یہ بھی ہے کہ کوئی شخص اپنی آنکھوں سے وہ چیز دکھلائے جو حقیقت میں آنکھوں نے نہیں دیکھی ہے۔ (بخاری)

 

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ آنکھوں پر یہ جھوٹ باندھا جائے کہ انہوں نے دیکھا ہے حالانکہ حقیقت میں انہوں نے کچھ نہیں دیکھا، گویا مقصود جھوٹا خواب بنانے کی مذمت ظاہر کرنا ہے اور اس کو بڑا بہتان اس لئے فرمایا گیا ہے کہ خواب ایک طرح سے وحی کے قائم مقام ہے اور اس کا تعلق حق تعالیٰ سے ہے پس جھوٹا خواب بنانا گویا حق تعالیٰ بہتان باندھنا ہے۔ ایک حدیث میں منقول ہے کہ اللہ تعالیٰ خواب دکھانے کے لئے فرشتے کو بھیجتا ہے۔

کس وقت کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے

اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا پچھلے پہر کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے۔ (ترمذی ، دارمی ،)

 

تشریح

 

 پچھلا پہر عام طور پر دل و دماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے اس وقت نہ صرف یہ کہ خاطر جمعی حاصل رہتی ہے بلکہ وہ نزول ملائکہ، سعادت اور قبولیت دعا کا بھی وقت ہے۔ اس لئے اس وقت جو خواب دیکھا جاتا ہے وہ زیادہ سچا ہوتا ہے۔