مشکوٰة شر یف

خوش طبعی کا بیان

خوش طبعی کا بیان

مزاح، میم کے زیر کے ساتھ مصدر ہے جس کے معنی خوش طبعی کرنا ہنسنا مذاق کرنا اور میم کے پیش کے ساتھ یعنی مزاح اسم مصدر ہے جس کے معنی مطالبہ یعنی خوش طبعی و ظرافت کے ہیں۔عربی میں لفظ مزاح کا اطلاق اس خوش طبعی اور ہنسی مذاق پر ہوتا ہے کہ جس میں کسی کی دل شکنی اور ایذاء رسانی کا پہلو نہ ہو اس کے برخلاف جس خوش طبعی اور ہنسی مذاق کا تعلق دل شکنی اور ایذاء رسانی سے ہو اس کو سخریہ کہتے ہیں۔

ایک حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ لاتمار اخاک ولاتمازحہ، یعنی اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا فساد نہ کرو اور نہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق کرو تو علماء لکھتے ہیں کہ وہ مزاح و ظرافت ممنوع ہے جس میں حد سے تجاوز کیا جائے اور اس کو عادت بنا لیا جائے کیونکہ ہر وقت مزاح و ظرافت میں مبتلا رہنا اور اس میں حد سے تجاوز کرنا بہت زیادہ ہنسنے اور قہقہ لگانے کا باعث ہوتا ہے قلب و ذہن کو قساوت اور بے حسی میں مبتلا کر دیتا ہے ذکر الہی سے غافل کر دیتا ہے مہمات دین میں غور و فکر اور پیش قدمی سے باز رکھتا ہے اور اکثر اوقات اس کا انجام ایذا رسانی اور آپس میں بغض و عناد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے علاوہ ازیں یہ بھی حقیقت ہے جو شخص ہر وقت ہنسی مذاق کرتا رہتا ہے اس کی شخص بری طرح متاثر ہوتی ہے اور مجروح ہوتی ہے اس کا کوئی دبدبہ قائم نہیں رہتا اور نہ اس کو عظمت اور اس کا وقار باقی رہتا ہے اس کے برعکس جو مزاح و ظرافت حد کے اندر اور کبھی کھبار کی جائے وہ نہ صرف مباح ہے بلکہ صحت مزاج اور و نور نشاط اور سلامت طبع کی علامت بھی ہے چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بھی مزاح و ظرافت کو اختیار فرماتے تھے جس سے آپ کا مقصد مخاطب کے دل بستگی و خوش وقتی اور آپس میں محبت و موانست کے جذبات کو مستحکم کرنا ہوتا تھا اور یہ چیز سنت مستحبہ ہے اور اگر اس موقع پر یہ اشکال واقع ہو کہ یہ بات کہ وہی مزاح و ظرافت مباح جو کبھی کبھی ہو اس روایت کے مخالفت ہے کہ یعنی میں نے رسول اللہ سے زیادہ مزاح کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا تو اس کا جواب مختصر یہ ہو گا کہ زیادہ مزاح و ظرافت کرنے کی ممانعت اس وجہ سے ہے کہ اس سے نفس پر قابو نہیں رہتا اور ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر کوئی شخص ایسا نہیں جو اپنے نفس کو قابو میں رکھ سکے لہذا یہ چیز زیادہ مزاح کرنا ان امور میں سے ہے جو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے ساتھ مخصوص ہیں دوسروں کے لیے ان سے اجتناب ہی اولی ہے اس کی تائید ترمذی کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو آگے آئے گی صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہمارے ساتھ مزاح فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا میں مزاح میں سچ کہتا ہون حاصل یہ کہ مزاح کرنے کی ممانعت کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سوا دوسرے لوگوں سے ہے ہاں اگر کوئی شخص حد پر قائم رہے اور نفس پر قابو رکھے اور راہ اعتدال سے منحرف نہ ہونے پر قادر ہو وہ بھی اس ممانعت سے مستثنیٰ ہو گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش طبعی

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہم سے اختلاط و خوش طبعی فرمایا کرتے تھے یہاں تک کہ میرے چھوٹے بھائی سے از راہ مذاق فرماتے ابوعمیر! نغیر کہاں گیا؟حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میرے اس چھوٹے بھائی کے پاس ایک نغیر تھا جس سے وہ کھیلا کرتا تھا اور جو مر گیا تھا۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اپنے چھوٹے بھائی کا ذکر کیا ہے ان کا نام کبشہ تھا اور وہ ان کے اخیافی یعنی ماں شریک بھائی تھے ان کے باپ کا نام ابوطلحہ زید ابن سہیل انصاری تھا۔ نغیر تصغیر ہے نغر کی جو ایک چھوٹے پرندے کا نام ہے اور چھوٹی چڑیا کی طرح ہوتا ہے اور اس کی چونچ سرخ ہوتی ہے بعض حضرات نے یہ کہا کہ کہ وہ پرندہ چڑیا کی طرح سرخ سر والا ہوتا ہے نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ اہل مدینہ اس پرندے کو بلبل کہتے تھے ہو سکتا ہے کہ یہ وہی پرندہ ہو جس کو ہمارے ہاں لال کہتے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی کبشہ اس پرندے کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آتے تھے جیسا کہ چھوٹے بچوں کو جب کوئی چڑیا وغیرہ مل جاتی ہے تو اس کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں اور اس کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں پھر ایک دن اچانک وہ پرندہ مر گیا اس کے بعد جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوتے تو آپ ان کو از راہ مذاق چھیڑتے اور پوچھتے کہ اے ابوعمیر تمہارا نغیر کہاں گیا؟گویا ان کو مخاطب کرتے وقت ظرافت کے ساتھ تفنن کلام کا اسلوب بھی اختیار فرماتے یعنی نغیر کی مناسبت سے اور اس لفظ کے قافیہ کے طور پر ان کو ابوعمیر کی کنیت کے ذریعہ مخاطب فرماتے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کو چڑیا وغیرہ سے دل بہلانا اور ان کے ساتھ کھیل کود کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس کو تکلیف و ایذاء نہ پہنچائیں نیز اس سے معلوم ہوا کہ کسی چھوٹے اور کمسن بچے کی کنیت مقرر کرنا جائز ہے اور یہ جھوٹ میں داخل نہیں ہے نیک فالی ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ہنسی مذاق بھی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتا تھا

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ ہم سے خوش طبعی فرماتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہاں لیکن اس خوش طبعی میں بھی میں سچی بات کہتا ہوں۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام کو زیادہ ہنسی مذاق کرنے سے منع فرمایا تو اس کے بعد انہوں نے مذکورہ سوال کیا، چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو جواب دیا کہ ہنسی مذاق کی ممانعت اس بناء پر ہے کہ اس میں عام طور پر جھوٹی باتوں اور غیر شرعی کاموں کا ارتکاب ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ تم میں سے کوئی شخص بھی اس پر قادر نہیں ہے کہ اس کا ہنسی مذاق جھوٹ اور لایعنی باتوں سے کلیۃً پاک ہو کیونکہ تم کو معصوم نہیں بنایا گیا لیکن حق تعالی نے مجھ کو معصوم بنایا ہے اور مجھے اس بات پر قادر کیا ہے کہ میرے کسی بھی ہنسی مذاق کی بات میں جھوٹ کی آمیزش ہو وہ ناجائز ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کبھی بھی ایسا مزاح نہیں فرماتے تھے جس میں جھوٹ اور لچر بات کا شائبہ بھی پایا جاتا ہو اور اگر ہنسی مذاق کی کوئی بات حقیقت کے اعتبار سے جھوٹ پر مبنی نہ ہو تو وہ جائز ہے لیکن اس کے باوجود ہنسی مذاق اور ظرافت کو عادت نہ بنا لینا چاہیے کیونکہ اس کی وجہ سے دبدبہ اور وقار ختم ہو جاتا ہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ظرافت کا ایک واقعہ

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن ایک شخص نے رسول اللہ سے سواری کا ایک جانور مانگا تو آپ نے فرمایا کہ میں تمہاری سواری کے لیے اونٹنی کا بچہ دوں گا اس شخص نے حیرت سے کہا یا رسول اللہ میں اونٹنی کا بچہ کیا کروں گا؟رسول اللہ نے فرمایا اونٹ کو اونٹنی ہی تو جنتی ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس شخص نے سمجھا تھا کہ اونٹنی کے بچہ سے مراد وہ چھوٹا بچہ ہے جو سواری کے قابل نہیں ہوتا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ سواری کے قابل جو اونٹ ہوتا ہے وہ بچہ تو اونٹنی کا ہی ہوتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی طلب پر مذکورہ ارشاد بطور خوش طبعی فرمایا اور پھر اس کی حیرت پر جو جواب دیا اس کے ذریعہ نہ صرف حقیقت مفہوم کو ادا کیا بلکہ اس کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اگر تم تھوڑی سے عقل لیتے اور میری بات کی گہرائی تک پہنچنے کی کوشش کرتے تو اس حیرت میں نہ پڑتے اور حقیقی مفہوم کو خود سمجھ لیتے لہذا اس ارشاد میں نرمی ظرافت ہی نہیں بلکہ اس امر کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے یہ سننے والے چاہیے کہ وہ اس بات میں غور و تامل کرے جو اس سے کہی گئی ہے اور بغیر سوچے سمجھے سوال جواب نہ کرے بلکہ پہلے اس بات کو سمجھنے کی کوشش کرے اور غور و فکر کر کے بعد آگے بڑھے۔

تعریف پر مشتمل خوش طبعی

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کریم نے ان سے فرمایا اے دو کانوں والے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو دو کانوں والے کے ذریعہ جو مخاطب فرمایا تو اس میں خوش طبعی و ظرافت بھی تھی اور ان کے تئیں اس تعریف و توصیف کا اظہار بھی مقصود تھا کہ تم نہایت فہیم و ذکی ہو اور تم سے جو بات کہی جاتی ہے اس کو تم خوب اچھی طرح سنتے ہو۔

ایک بڑھیا کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خوش طبعی

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ایک دن ایک بوڑھی عورت نے جب آپ سے یہ درخواست کی کہ میرے لئے جنت میں جانے کی دعا فرمائیں تو اس سے آپ نے فرمایا کہ بڑھیا جنت میں داخل نہیں ہوں گی وہ عورت قرآن پڑھی ہوئی تھی آپ نے اس سے فرمایا کہ تم نے قرآن میں یہ نہیں پڑھا ہے کہ  آیت (انا انشانھن انشاء فجعلناھن ابکارا)۔ یعنی ہم جنت کی عورتوں کو پیدا کریں گے جیسا کہ پیدا کیا جاتا ہے پس ہم ان کو کنواری بنا دیں گے اس اعتبار سے یہ خوش طبعی مبنی بر حقیقت تھی اور آپ کا یہ فرمانا درست ہوا کہ یہ بوڑھی عورت جنت میں نہیں جائے گی کیونکہ واقعتاً کوئی عورت اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گی اور اس روایت کو رزین نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے اور بغوی نے اپنی دوسری کتاب شرح السنہ میں ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے جو مصابیح میں مذکور ہیں۔

 

تشریح

 

مصابیح اس روایت کو جن الفاظ کے ساتھ نقل کیا گیا ہے وہ یوں ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس عورت سے فرمایا کہ بوڑھی عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی یہ سن کروہ عورت واپس ہوئی اور روتی ہوئی چلی گئی آپ نے فرمایا کہ اس عورت کو جا کر بتلا دو عورتیں اپنے بڑھاپے کے ساتھ جنت میں داخل نہیں ہوں گی کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے کہ  آیت (انا انشانھن انشاء فجعلناھن ابکارا)۔

خوش طبعی کا ایک واقعہ

اور حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ شہر سے باہر رہنے والا ایک شخص جس کا نام زاہر بن حرام تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے لیے بطور ہدیہ شہر کے باہر سے کچھ لایا کرتا تھا (یعنی ایسی چیزیں جو شہر سے باہر جنگل میں پیدا ہوتی ہیں جیسے ساگ، سبزی، لکڑی اور پھول پھل وغیرہ) اور جب وہ مدینہ سے باہر اپنی جائے سکونت کو جانے لگتا تو رسول اللہ اس کے ساتھ کچھ شہر کا سامان کر دیا کرتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بارے میں فرماتے تھے کہ زاہر ہمارے باہر کا گماشتہ ہے کہ وہ ہمارے لیے باہر کی چیزیں لاتا ہے اور ہم اس کے شہر کے گماشتہ ہیں کہ ہم اس کو شہر کی چیزیں دیتے ہیں نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم زاہر سے بہت محبت و تعلق رکھتے تھے ویسے وہ ایک بدصورت شخص تھا ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم بازار میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ وہ اپنا سودا سلف بیچ رہا ہے آپ نے پیچھے سے اس کی اس طرح کولی بھر لی کہ وہ آپ کو دیکھ نہیں سکتا تھا (یعنی آپ نے اس کی بے خبری میں اس کے پیچھے بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اس کی دونوں بغلوں کے نیچے سے نکال کر اس کی آنکھیں چھپا لیں تاکہ وہ پہچان نہ سکے) زاہر نے کہا مجھے چھوڑ دو یہ شخص کون ہے پھر اس نے کوشش کر کے کن انکھیوں سے دیکھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو پہچان لیا پھر وہ آپ کو پہچاننے کے بعد اپنی پیٹھ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سینہ مبارک سے چمٹانے کی پوری کوشش کرنے لگا تاکہ زیادہ سے زیادہ برکت حاصل کرے ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آواز لگانی شروع کر دی کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو خریدے اس نے عرض کیا یا رسول اللہ خدا کی قسم آپ مجھ کو ناکارہ پائیں گے (یعنی بالکل سستا اور بے کار مال) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کریم نے فرمایا لیکن تم خدا کے نزدیک ناکارہ نہیں ہو۔ (شرح السنہ

 

تشریح

 

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زاہر کو از راہ مذاق غلام سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت کے اعتبار سے یہ کوئی جھوٹ بات نہیں تھی کیوں کہ وہ اللہ کا غلام بہر حال تھے ہی۔ کسی چیز کو بطور فروخت کرنے کے لیے بطور استفہام یہ کہنا کہ کون شخص ہے جو اس کو خریدتا ہے مفہوم کے اعتبار سے کبھی تو اس چیز کی پیش قیمت حیثیت کو ظاہر کرنے کے لیے مقابلہ آرائی پر اطلاق کیا جاتا ہے اور کبھی اس کا اطلاق استدلال پر آتا ہے لہذا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اس ارشاد کون شخص ہے جو اس غلام کا خریدار ہے مطلب یہ تھا کہ اس بازار میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس غلام کی قدر و قیمت اور اس کی حیثیت کا مقابلہ کرے؟ یعنی یہاں کوئی چیز اس کی حیثیت کا مقابلہ نہیں کر سکتی یا یہ کہ ایسا کوئی شخص ہے جو اس غلام کی قیمت لگا دے اور ایسی کوئی چیز مجھے دے سکے جس کے بدلے میں اس کو یہ غلام دے سکوں یعنی یہاں کوئی مال اس کا بدل نہیں ہو سکتا اور کوئی چیز اس کی قیمت نہیں بن سکتی، نیز یہ بھی ممکن ہے آپ کا یہ ارشاد تجریف کے قبیل سے ہو جس سے گویا آپ کا مطلب یہ تھا کہ کون شخص ہے جو اس غلام کو حاصل کرے یعنی کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اس غلام کو حاصل کرنے اور اس کو اپنے پاس رکھنے کا اہل ہو۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحابہ رضی اللہ عنہ سے بے تکلفی

اور حضرت عوف ابن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دوران ایک دن میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ چمڑے کے خیمے میں تشریف فرما تھے میں نے آپ کو سلام کیا آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ اندر آ جاؤ میں نے مزاح کے طور پر عرض کیا یا رسول اللہ میں سب کا سب اندر آ جاؤں یعنی سارے جسم کو اندر لے آؤں؟ آپ نے فرمایا ہاں سب بدن کو اندر لے آؤ چنانچہ میں خیمہ کے اندر داخل ہو گیا حضرت عثمان ابن ابوعاتکہ (جو اس حدیث کے ایک راوی ہیں) کہتے ہیں کہ حضرت عوف رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہ کیا میں سب کا سب اندر آ جاؤں اس مناسبت سے کہی تھی کہ خیمہ چھوٹا تھا۔ (ابوداؤد)

 

تشریح

 

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اپنے صحابہ کے ساتھ اس طرح محبت و شفقت کا تعلق رکھتے تھے کہ صحابہ آپ کے ساتھ بے تکلف ہو جاتے تھے اور اس بے تکلفی کے موقع پر آپ سے ظریفانہ بات بھی کر لیتے تھے۔

 

 

 اور حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لیے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ سے گھر آنے کی اجازت طلب کی جبھی انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی آواز کو سنا جو ذرا زور سے بول رہی تھی پھر جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھ پکڑا اور طمانچہ مارنے کا ارادہ کیا اور کہا کہ خبردار آئندہ میں تمہیں رسول اللہ کی آواز سے اونچی آواز میں بولتے ہوئے نہ دیکھوں ادھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مارنے سے) روکنا شروع کیا اور پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غصہ کی حالت میں باہر نکل کر چلے گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے چلے جانے کے بعد فرمایا تم نے دیکھا میں نے تمہیں اس آدمی یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کس طرح بچا لیا؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے خفگی کی بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے شرمندگی کی وجہ سے کئی دن تک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں نہیں آئے پھر ایک دن انہوں نے دروازے پر حاضر ہو کر اندر آنے کی اجازت مانگی اور اندر آئے تو دیکھا کہ دونوں (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) صلح کی حالت میں ہیں انہوں نے دونوں کو مخاطب کر کے کہا تم دونوں مجھ کو اپنی صلح میں شریک کر لو جس طرح تم نے مجھ کو اپنی لڑائی میں شریک کیا تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا بے شک ہم نے ایسا ہی کیا بے شک ہم نے ایسا ہی کیا یعنی تمہیں اپنی صلح میں شریک کر لیا۔ (گویا آپ نے اپنی بات کو موکدہ کرنے کے لیے یہ جملہ دو مرتبہ دہرایا) ابوداؤد۔

 

تشریح

 

بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا وہ جملہ بطور مزاح تھا جو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تھا کہ دیکھا میں نے تمہیں اس شخص کے ہاتھ سے کس طرح نجات دلائی گویا آپ نے تمہارے باپ کہنے کی بجائے اس شخص کہہ کر بقصد مزاح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حق میں اجنبی قرار دیا۔

ایسا مذاق نہ کرو جس سے ایذاء پہنچے

اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا تم اپنے مسلمان بھائی سے جھگڑا نہ کرو، نہ اس سے ایسا مذاق کرو جس سے اس کو تکلیف پہنچے اور نہ ایسا وعدہ کرو جس کو پورا نہ کر سکو۔ (حضرت شیخ عبدالحق نے لاتعدہ موعدا فتخلفہ کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ تم وعدہ نہ کرو جیسا کہ وعدہ کیا جاتا ہے تاکہ تم وعدہ خلافی نہ کرو یعنی اگر وعدہ کرو تو اس کو پورا کرو یا پھر سرے سے وعدہ ہی نہ کرو اور وعدہ کا راستہ ہی بند کر دو تاکہ وعدہ خلافی کے وبال میں پڑنے کا تمہیں خوف ہی نہ رہے، اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔