خیار، لفظ، اختیار، سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں دو چیزوں میں سے کسی ایک اچھی چیز کا انتخاب کرنا چنانچہ کسی تجارتی معاملے کو فسخ کر دینے یا اس کو باقی رکھنے کا وہ اختیار جو خریدار اور تاجر کو حاصل ہوتا ہے اصطلاح فقہ میں خیار کہلاتا ہے تجارتی معاملات میں اس اختیار کی کئی قسمیں ہیں جن کے تفصیلی احکام اور فقہی اختلاف فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں تاہم اس موقع پر ان قسموں کے نام اور تعریفات ذکر کر دینا ضروری ہے۔
جو تجارتی معاملے طے ہو جانے کے بعد تاجر یا خریدار یا دونوں کو اس معاملے کے ختم کر دینے یا باقی رکھنے کا حق دیا جانا خیار شرط کہلاتا ہے مثلاً تاجر نے ایک چیز فروخت کی جسے خریدار نے خرید لی مگر اس خرید و فروخت کے بعد تاجر نے یا خریدار نے یہ کہا کہ باوجود بیع ہو جانے کے مجھ کو ایک روز یا دو روز یا تین روز تک یہ اختیار حاصل ہو گا کہ خواہ اس بیع کو باقی رکھا جائے خواہ ختم کر دیا جائے۔ خرید و فروخت میں یہ صورت جائز ہے اور اس کا حکم یہ ہے کہ اگر مدت اختیار میں بیع کو فسخ کیا جائے تو وہ فسخ ہو جائے گی اور اگر اس مدت کے ختم ہونے تک بیع کو برقرار رکھا یا سکوت کیا تو بعد ختم مدت بیع پختہ ہو جائے گی یہ بات ذہن میں رہے کہ خیار شرط کی مدت حضرت امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہے۔
بیع ہو جانے کے بعد خریدی ہوئی چیز میں کوئی عیب معلوم ہونے کے بعد اس چیز کو رکھ لینے یا واپس کر دینے کا جو اختیار خریدار کو حاصل ہوتا ہے اسے خیار عیب کہتے ہیں مثلاً تاجر نے ایک چیز بیچی جسے خریدار نے خرید لی اب اس بیع کے بعد اگر خریدار واپس کر کے اپنی دی ہوئی قیمت لوٹا لے البتہ اگر بیچنے والے نے اس چیز کو بیچنے کے وقت خریدار سے یہ کہہ دیا تھا کہ اس چیز میں جو عیب ہو میں اس کا ذمہ دار نہیں ہوں خواہ تم اس وقت اسے خریدو یا نہ خریدو اور اس کے باوجود بھی خریدار رضا مند ہو گیا تھا تو خواہ کچھ ہی عیب اس میں نکلے خریدار کو واپسی کا اختیار حاصل نہیں ہو گا۔
بے دیکھی ہوئی چیز کو خرید نے کے بعد اس چیز کو رکھ لینے یا واپس کر دینے کا جو اختیار خریدار کو حاصل ہوتا ہے اسے خیار رؤیت کہتے ہیں مثلاً کسی خریدار نے بغیر دیکھے کوئی چیز خریدی تو یہ بیع جائز ہو جائے گی لیکن خریدار کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اس چیز کو جس وقت دیکھے چاہے تو اسے رکھ لے اور چاہے تو بیچنے والے کو واپس کر دے۔
ان اقسام کے علاوہ اس باب میں خیار کی ایک اور قسم ذکر ہو گی جسے خیار مجلس کہتے ہیں اس کی صورت یہ ہے کہ کسی ایک مجلس میں تاجر و خریدار کے درمیان خریدو فروخت کا کوئی معاملہ طے ہو جانے کے بعد اس مجلس کے ختم ہونے تک تاجر اور خریدار دونوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی اس معاملہ کو ختم کر سکتا ہے مجلس ختم ہونے کے بعد یہ اختیار کسی کو بھی حاصل نہیں رہتا لیکن خیار کی اس قسم میں اختلاف ہے چنانچہ حضرت امام شافعی اور بعض دوسرے علماء اس خیار کے قائل ہیں جبکہ حضرت امام ابوحنیفہ اور دوسرے علماء اس کے قائل نہیں ہیں یہ حضرات کہتے ہیں کہ جب بیع کا ایجاب و قبول ہو گیا یعنی معاملہ تکمیل پا گیا تو اب کسی کو بھی اس معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہے گا اور یہ کہ معاملہ کے وقت خیار کی شرط طے پا گئی ہو جسے خیار شرط کہتے ہیں اور جس کی مدت زیادہ سے زیادہ تین دن تک ہے تین دن کے بعد خیار شرط کی صورت بھی ختم ہو جاتی ہے۔
حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیچنے والا خریدنے والا دونوں میں سے ہر ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ پر اس بات کا اختیار رکھتا ہے کہ چاہے تو وہ خرید و فروخت کے معاملے کو باقی رکھے اور چاہے تو ختم کر دے جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یعنی جس مجلس میں وہ معاملہ طے پایا ہو گا جب وہ ختم ہو جائے گی بایں طور کہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں گے تو ان میں سے کسی کو بھی یہ اختیار حاصل نہیں رہے گا ہاں بیع خیار اس سے مستثنی ہے یعنی بیع میں خریدار نے اس اختیار کی شرط طے کر لی ہو گی کہ اگر میں چاہوں تو اس خریدی ہوئی چیز کو رکھوں گا اور اگر نہ چاہوں گا تو واپس کر دوں گا اس بیع میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کے بعد بھی اختیار باقی رہتا ہے (بخاری مسلم)
اور مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جب بیچنے والا اور خریدنے والا خرید و فروخت کا کوئی معاملہ کریں تو ان میں سے ہر ایک کو معاملے کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل ہو گا جب تک کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا یہ کہ ان کی خرید و فروخت کا معاملہ بشرط خیار ہو چنانچہ اگر وہ خیار شرط کے ساتھ کوئی تجارتی معاملہ کریں گے تو اس صورت میں (جدائی کے بعد بھی) اختیار کا حق حاصل رہے گا۔
ترمذی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں جب تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں انہیں اختیار حاصل ہے الا یہ کہ وہ اپنے تجارتی معاملے میں خیار کی شرط طے کریں (یعنی اگر وہ اپنا تجارتی معاملہ مذکورہ بالا خیار شرط کے ساتھ طے کریں گے تو انہیں جدائی کے بعد بھی اختیار حاصل رہے گا۔ لیکن بخاری و مسلم کی ایک روایت میں ترمذی کی اس روایت کے آخری الفاظ (اویختار (الا یہ کہ وہ خیار کی شرط طے کریں) کی بجائے یہ الفاظ ہیں کہ الا یہ کہ ان دونوں میں سے ایک اپنے دوسرے صاحب معاملہ سے یہ کہہ دے کہ اختیار کی شرط طے کر لو (اور وہ دوسرا کہہ دے کہ مجھے یہ منظور ہے)
تشریح
اس حدیث سے بظاہر خیار مجلس کا جواز ثابت ہوتا ہے لیکن جو حضرات خیار مجلس کے قائل نہیں ہیں جیسے اما ابوحنیفہ وہ یہ کہتے ہیں کہ حدیث میں ایک دوسرے سے جدا ہونے کا مطلب مجلس کا ختم ہو جانا نہیں ہے بلکہ جدا ہونے سے مراد دونوں کی اس تجارتی معاملے کی گفتگو کا پایہ تکمیل کو پہنچ کر منقطع ہو جانا ہے یعنی جب تک کہ وہ دونوں اس معاملے سے متعلق گفتگو کر رہے ہوں اور ایجاب و قبول پورا نہیں ہوا ہو اس وقت تک ان میں سے ہر ایک کو یہ اختیار ہو گا کہ وہ چاہے تو زیر گفتگو معاملہ کو فسخ کر دے چاہے اسے باقی رکھے لیکن جب ایجاب و قبول پورا ہو جائے گا یعنی بیچنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز تمہیں فروخت کر دی اور خریدنے والا یہ کہہ دے کہ میں نے یہ چیز خرید لی تو اب اس کے بعد ان میں سے کسی کو بھی اس معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار نہیں رہے گا ان حضرات نے جدا ہونے کے یہ معنی مراد لینے کے سلسلے میں اس آیت کریمہ سے استدلال کیا ہے
آیت (وَاِنْ یتَفَرَّقَا یغْنِ اللّٰهُ كُلّاً مِّنْ سَعَتِهٖ) 4۔ النساء:130)
اگر وہ دونوں جدا ہو جائیں گے تو اللہ اپنے فضل سے ان میں سے ہر ایک کو بے پرواہ کر دے گا
چنانچہ اس آیت میں جدا ہونے کا مطلب مجلس سے جدا ہونا نہیں ہے بلکہ خاوند و بیوی کے درمیان طلاق کے ذریعے جدائی مراد ہے۔
٭٭ اور حضرت حکیم ابن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے ولا دونوں کو اپنے تجارتی معاملہ کو باقی رکھنے یا فسخ کر دینے کا اختیار حاصل رہتا ہے لیکن یہ اختیار اس وقت تک حاصل رہتا ہے جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں اور یاد رکھو جب بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں (فروخت کی جانے والی چیز اور اس کی تعریف میں سچ بولتے ہیں اور اس چیز و قیمت میں جو عیب و نقصان ہوتا ہے اس کو ظاہر کر دیتے ہیں تا کہ کسی دھوکہ اور فریب کا دخل نہ رہے تو ان کے تجارتی معاملے میں برکت عطاء کی جاتی ہے اور جب وہ عیب چھپاتے ہیں اور جھوٹ بولتے ہیں تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ختم کر دی جاتی ہے۔
حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں اسی وقت تک بیع کو باقی رکھنے یا اس کو فسخ کر دینے کا اختیار رکھتے ہیں جب تک کہ وہ جدا نہ ہوں الا یہ کہ ان کی بیع بشرط خیار ہو تو اس میں جدائی کے بعد بھی اختیار باقی رہتا ہے اور ان دونوں میں سے کسی کے لئے از روئے تقویٰ یہ جائز نہیں ہے کہ وہ معاملہ کرتے ہی اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہو اس خوف سے کہ مبادا دوسرا فریق معاملے کو فسخ کرنے کا اختیار مانگ لے (یعنی جب تک کسی معاملے میں دونوں فریق پوری طرح مطمئن نہ ہو جائیں ایجاب و قبول میں ان میں سے کوئی محض اس لئے جلد بازی نہ کرے کہ مبادا فریق ثانی معاملے کو فسخ کر دے یا معاملہ طے کرتے ہی ان میں سے کوئی محض اس وجہ سے نہ بھاگ کھڑا ہو کہ کہیں دوسرا فریق بیع کو فسخ کرنے کے اختیار کی شرط نہ چاہنے لگے (ابوداؤد نسائی)
٭٭ حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا بیچنے ولا اور خرید نے والا دونوں آپس کی رضا مندی کے بغیر جدا نہ ہوں (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ دونوں صاحب معاملہ کوئی تجارتی معاملہ طے کرنے کے بعد اس وقت تک ایک دوسرے سے الگ نہ ہوں جب تک کہ قیمت کی ادائیگی اور خرید کردہ چیز کی حوالگی دونوں میں برضا و رغبت طے نہ پا جائے یا عمل میں نہ آ جائے کیونکہ اس کے بغیر ایک دوسرے کو نقصان و تکلیف پہنچنے کا احتمال رہے گا جو شریعت میں ممنوع ہے یا پھر اس سے مراد یہ ہے کہ جب معاملہ طے ہو جائے اور دونوں صاحب معاملہ میں سے کوئی ایک وہاں سے اٹھ کھڑے ہونے کا ارادہ کرے تو وہ دوسرے فریق سے پہلے یہ پوچھ لے کہ اب تمہیں کوئی اشکال و اعتراض تو نہیں ہے اور کیا اس معاملے پر تم راضی ہو اس کے بعد اگر وہ دوسرا فریق معاملے کو فسخ کرنا چاہے تو وہ بھی معاملے کو فسخ کر دے اور اگر وہ معاملے کی برقراری پر رضا مند ہو تو پھر تکمیل کے بعد اس سے الگ ہو اس صورت میں یہ حدیث معنی کے اعتبار سے پہلی حدیث کے موافق ہو گی نیز یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے کیونکہ اس بات پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ایک دوسرے کی اجازت کے بغیر جدا ہونا حلال ہے۔