دعا کے معنیٰ ہیں کہ اعلیٰ ذات سے ادنیٰ چیزوں میں سے کچھ بطریق عاجزی طلب کرنا امام نووی فرماتے ہیں کہ ہر زمانہ میں اور ہر جگہ کے علماء اس بات پر متفق رہے ہیں کہ دعا مانگنا مستحب ہے ان کی دلیل قرآن و حدیث کے ظاہری اور واضح مفہوم کے علاوہ انبیاء علیہم السلام کا فعل بھی ہے کیونکہ تمام انبیاء کرام دعا مانگا کرتے تھے۔
لیکن بعض زہاد اور اہل معارف یہ بھی کہنا ہے کہ ترک دعا (یعنی دعا نہ مانگنا) افضل ہے کیونکہ اس طرح رضا مولیٰ اور اپنی قسمت پر اور تقدیر کے ساتھ راضی ہونے کا مکمل اظہار ہوتا ہے۔ مولانا شاہ محمد اسحٰق صاحب نے ان زہاد و اہل معارف کے اس قول کے بارے میں کہا ہے کہ یہ قول اس خاص کیفیت پر محمول ہے جو بعض وقت بعض مردان حق پر طاری ہوتی ہے اور جس میں رضا بقضاء ہی غالب ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ پیش آیا کہ جب انہیں آگ میں ڈالا گیا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان سے کہا کہ آپ دعا کیجئے اور اپنے پروردگار سے اپنی نجات سلامتی کے لئے درخواست کیجئے تو انہوں نے فرمایا کہ حق تعالیٰ جل شانہ میرا حال جانتا ہے مجھے کوئی درخواست کرنے اور دعا مانگنے کی ضرورت نہیں ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہر ایک نبی کے لئے ایک دعا ہے جو قبول کی جاتی ہے چنانچہ ہر نبی نے اپنی دعا کے بارے میں جلدی کی لیکن میں نے اپنی دعا اپنی امت کی شفاعت کی خاطر قیامت کے دن تک کے لئے محفوظ رکھی ہے پس میری یہ دعا اگر خدا نے چاہا تو میری امت کے ہر اس شخص کو فائدہ پہنچائے گی۔ جو اس حال میں مرا ہو کہ اس نے خدا کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا ہو۔ (مسلم) اور بخاری نے اس روایت کو اس سے کم نقل کیا ہے۔
تشریح
ہر نبی کے لئے ایک دعا ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو حکم فرمایا تھا کہ اپنے مخالفین کی تباہی کے لیے بد دعا کرو لہٰذا وہ بد دعا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ اسے منظور فرماتا تھا چنانچہ اسی دعا کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو دعا مانگنے کا جو حق دیا تھا اور پھر اس کی قبولیت کا یقین بھی عطا فرمایا تھا تو ہر نبی نے اپنے اس حق کے استعمال میں بہت جلدی کی جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی امت کی ہلاکت و تباہی کے لئے بد دعا کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی پوری امت طوفان میں غرق کر دی گئی۔ یا اسی طرح حضرت صالح علیہ السلام نے بھی اپنی امت کی تباہی کے لئے بد دعا کی اور امت ان کی حضرت جبرائیل علیہ السلام کی ایک آواز کے ذریعہ ہلاکت کی وادیوں میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے چھپ گئی لیکن میں نے اپنی دعا کو محفوظ رکھا یعنی اپنے مخالفین کی ایذاء پر صبر کیا اور ان کے لئے بد دعا نہ کی۔ کیونکہ میں رحمۃ اللعلمین ہوں میری شان یہ نہیں ہے کہ میں بد دعا کروں اور لوگوں کے لئے تباہی وبربادی کا سامان فراہم کروں میں نے اپنے اس حق کو جو مجھے بھی ملا تھا قیامت تک کے لئے اٹھا رکھا ہے۔ قیامت کے دن میں اس دنیا میں بد دعا کے بجائے ہر اس امتی کے حق میں شفاعت کروں گا جو ایمان کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا ہو اگرچہ وہ گنہگار ہی کیوں نہ رہا ہو۔
اس موقع پر اتنی بات اور جان لیجئے کہ شفاعت کئی قسم کی ہو گی بعض لوگ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت کے نتیجہ میں دوزخ میں داخل ہی نہیں ہوں گے بعض دوزخ سے جلدی نکل آئیں گے بعض جنت میں جلدی داخل ہوں گے اور بعض کے جنت میں درجے بلند ہوں گے۔ اللہم ارزقنا شفاعۃ نبینا علیہ الف الف صلوۃ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار ! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہو گی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
لفظ فانما انا بشر تمہید ہے عذر کی کہ میں بھی ایک انسان ہوں کبھی کبھی بتقاضائے بشریت کسی پر خفا بھی ہو جاتا ہوں۔
لفظ فای المومنین، اس چیز کی تفصیل اور بیان ہے جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد اللہم اتخذت الخ کے ذریعہ بارگاہ حق جل شانہ میں درخواست پیش کی بہر کیف آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس دعا کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن کو مجھ سے کوئی بھی ایذاء پہنچ جائے تو اس ایذاء کو اس کے حق میں رحمت وغیرہ کا سبب بنا دے۔
منقول ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسی چیز کی طلب میں بہت مبالغہ سے کام لیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دامن پکڑ کر کھڑی ہو گئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے اس طرز عمل پر فرمایا کہ : قطع اللہ یدک۔ اللہ تعالیٰ تیرا ہاتھ کاٹے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ بات بہت محسوس ہوئی۔ وہ فوراً آپ کا دامن چھوڑ کر ہٹ گئیں اور اپنے حجرہ میں آخر بہت ہی رنجیدہ ملول اور غصہ میں بھر کر بیٹھ گئیں۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ کیفیت دیکھی تو اس وقت آپ نے ان کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا۔ اللہم انی اتخذت عندک عہدا الخ۔
لہٰذا علماء لکھتے ہیں کہ جو شخص کسی کے لئے بد دعا کر بیٹھے تو اس کے لئے مسنون یہ ہے کہ وہ اس بد دعا کے بدلہ میں مذکورہ بالا دعا بھی ضرور کرے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے۔ اے اللہ مجھے بخش دے اگر تو چاہے تو مجھ پر رحم کر اگر تو چاہے تو مجھے رزق عطا فرما اگر تو چاہے۔ بلکہ چاہئے یہ کہ وہ عزم بالجزم اور یقین و اعتماد کے ساتھ دعا مانگے (شک و شبہ کا کلمہ مثلاً اگر تو چاہے وغیرہ کا استعمال نہ کرے) کیونکہ اللہ تعالیٰ تو خود وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے اس پر کوئی زور زبردستی کرنے والا نہیں۔ (بخاری)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے جو کچھ مانگو جزم و یقین کے ساتھ مانگو یعنی یہی کہو کہ اے اللہ ہمارا فلاں مطلب پورا کر، جو چاہتا ہے وہی کرتا ہے اس لئے یہ نہ کہو۔ کہ اگر تو چاہے تو ہمارا فلاں مطلب پورا کر دے۔ کیونکہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا میں شک پیدا کرنا ہے حالانکہ قبولیت دعا میں یقین ہونا چاہئے کیونکہ اس نے قبولیت کا وعدہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کا خلاف نہیں کیا کرتا اور پھر یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ذات چونکہ بے پروا اور مستغنی ہے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے میں اس پر کسی کا کوئی زور نہیں ہے بلکہ وہ وہی کرتا ہے جو چاہتا ہے اس لئے اپنی دعا کے ساتھ یہ کہنا کہ اگر تو چاہے بالکل بے فائدہ اور لا حاصل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو اس طرح نہ کہے کہ اے خدا مجھے بخش دے اگر تو چاہے۔ بلکہ بلا کسی شک کے جزم و یقین کے ساتھ اور پوری رغبت کے ساتھ دعا مانگے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جو چیز عطا کرتا ہے۔ وہ اس کے لئے مشکل نہیں ہوتی۔ (مسلم)
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندے کی دعا شرائط قبولیت کے بعد قبول کی جاتی ہے جب تک وہ گناہ کی یا ناتہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا اور جب تک کہ جلدی نہیں کرتا۔ عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا دعا مانگنے والا بار بار کہنے لگے کہ میں نے دعا مانگی یعنی اکثر میں نے دعا مانگی لیکن میں نے اسے قبول ہوتے نہیں دیکھا۔ اور پھر وہ تھک کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنی ہی چھوڑ دے۔ (مسلم)
تشریح
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قبولیت دعا کے لئے جہاں جزم و یقین اور خدا کی ذات پر پورا بھروسہ شرط ہے وہیں یہ بات بھی ضروری ہے کہ دعا ان ہی چیزوں کے لئے مانگی جائے جو عادتاً مانگی جاتی ہوں اور مباح ہوں، لہٰذا یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ مومن کی دعا اسی وقت قبول ہوتی ہے جب کہ وہ نہ گناہ کی کوئی چیز طلب کرے اور نہ ناتہ توڑنے کی دعا کرے اور نہ جلد بازی سے کام لے۔
گناہ کی چیز مانگنے کا مطلب یہ کہ کوئی شخص یہ دعا مانگنے لگے کہ اے اللہ! مجھے فلاں شخص کو (جو مسلمان ہے) قتل کر دینے کی طاقت عطا فرما، یا یہ کہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے شراب یا کوئی حرام و غیر حلال چیز عطا کر یا یہ کہے کہ اے اللہ فلاں شخص کو بخش دے درآنحالیکہ اس بارے میں یقین ہے کہ وہ کافر مرا ہے۔ ، ظاہر ہے اس قسم کی دعا مانگنا اور پھر ان کی قبولیت کی توقع ہی رکھنا دیدہ دلیری ہی کہا جا سکتا ہے اس طرح محال اور غیر ممکن الوقوع چیزوں کی دعا مانگنا اور ان کی قبولیت کی امید رکھنا بھی انتہائی حماقت اور بے وقوفی کی بات ہے مثلاً کوئی عقل کا اندھا یہ دعا مانگے کہ اے اللہ! تو مجھے دنیا ہی میں حالت بیداری میں اپنا دیدار عطا فرما۔ ناتہ توڑنے کی دعا، کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بد باطن شخص یہ دعا مانگنے لگے کہ اے اللہ! مجھ میں اور میرے باپ میں جدائی اور تفریق کر دے۔ یہ حدیث کا مفہوم کے مطابق مومن کی ایسی غیر ایمانی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بات بندہ مومن کی شان کے لائق نہیں ہے کہ اگر قبولیت دعا میں تاخیر محسوس ہو تو تھک کر بیٹھ جائے اور دعا مانگنا ہی چھوڑ دے۔ کیونکہ دعا بھی عبادت ہے اور عبادت سے اس طرح اکتاہٹ یا دل گرفتگی مومن کے لئے کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے۔ پھر یہ کہ قبولیت دعا میں تاخیر یا تو اس لئے ہوتی ہے کہ اس کا وقت نہیں آتا کیونکہ ازل ہی میں ہر چیز کے وقوع اور تکمیل کا ایک وقت مقرر ہے جب تک وہ وقت نہیں آتا وہ چیز بھی وقوع پذیر نہیں ہوتی یا یہ دعا مانگنے والا جو دعا مانگتا ہے اس کی تقدیر میں اس کی دعا کا اس دنیا میں قبول ہونا لکھا نہیں ہوتا اس صورت میں اسے اس کے بدلہ میں آخرت کا ثواب عطا کیا جاتا ہے یا پھر قبولیت میں تاخیر اس لئے ہوتی ہے کہ دعا مانگنے میں پوری عاجزی و انکساری، سچی لگن اور تڑپ اور کمال عبودیت کا اظہار کرتا رہے کیونکہ دعا میں ان چیزوں کو اختیار کرنے والے کو اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو مسلم بندہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے غائبانہ دعا کرتا ہے تو وہ قبول کی جاتی ہے۔ دعا کرنے والے کے سر کے قریب ایک فرشتہ متعین کر دیا جاتا ہے جب وہ اپنے مسلمان بھائی کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو وہ متعین شدہ فرشتہ کہتا ہے کہ اے اللہ اس کی دعا قبول کر اور (یہ بھی کہتا ہے کہ) تیرے لئے بھی ایسا ہی ہو۔ (مسلم)
تشریح
یہاں تو بطور خاص اس دعا کی قبولیت کی بشارت دی گئی ہے جو اپنے مسلمان بھائی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں زبان سے نکلے لیکن ایسے ہی اگر کوئی کسی مسلمان کے لئے اس کے سامنے اپنے دل میں چپکے سے دعا کرے تو وہ دعا بھی اس بشارت کے تحت آتی ہے کیونکہ جس طرح غائبانہ دعا میں خلوص کار فرما ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں دعا قبول ہوتی ہے اسی طرح اس کی موجودگی میں اپنے دل میں یا چپکے سے دعا کرتے وقت بھی پوری طرح خلوص ہی کی کار فرمائی ہوتی ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ دعا قبول کرنے والے کے ساتھ جو فرشتہ متعین کیا جاتا ہے کہ وہ دعا کے وقت بارگاہ حق شانہ میں یہ سفارش پیش کرتا ہے کہ الٰہی اس شخص کی دعا اس کے بھائی کے حق میں قبول فرما اور پھر وہ دعا کرنے والے کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ جس طرح اس دعا کے نتیجہ میں تیرا بھائی خیر و بھلائی کو پہنچے گا۔ اسی طرح خدا کرے کہ تجھے بھی خیر و بھلائی حاصل ہو۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اپنے لئے بد دعا نہ کرو اپنی اولاد کے لئے بد دعا نہ کرو اور نہ اپنے مال غلام لونڈیوں جانوروں اور دوسرے مال و اسباب کے لئے بد دعا کرو تاکہ تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ ساعت حاصل نہ ہو جائے جس میں خدا ہر سوال پورا کرتا ہے اور پھر تمہاری بد دعا قبول ہو جائے گی۔ (مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اوقات ایسے ہوتے ہیں جس میں حق تعالیٰ کی بارگاہ میں ہر دعا کو شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے اس لئے کہیں ایسا نہ ہو کہ تم جس وقت اپنے لئے یا اپنی اولاد یا اپنے مال کے لئے بد دعا کر رہے ہو وہی وقت قبولیت دعا کا ہو اور پھر تمہاری بد دعا قبول ہو جائے جس کے نتیجے میں نقصان و خسران بھی ہو اور پشیمانی بھی ہو لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ جو نادان کسی مصیبت و تکلیف یا غصہ کے وقت اپنے لئے یا اپنی اولاد کے لئے اپنے اموال کے لئے بد دعا کرتے ہیں وہ مناسب نہیں ہے۔
وذکر حدیث ابن عباس اتق دعوۃ المظلوم فی کتاب الزکوٰۃ
اور ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث مظلوم کی دعا سے ڈرو الخ کتاب الزکوٰۃ میں نقل کی جا چکی ہے۔
حضرت نعمان بن بشری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دعا ہی عبادت ہے۔ اور پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ آیت پڑھی۔ اور تمہارے پروردگار نے کہہ دیا ہے کہ مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بطور مبالغہ فرمایا کہ۔ دعا ہی عبادت ہے۔ کیونکہ دعا وہ عبادت ہے جس میں بندہ حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اللہ کی ذات کے علاوہ ہر ایک ذات سے استغنا برتتا ہے اللہ کی ذات کے علاوہ اور کسی سے نہ ڈرتا ہے نہ امید رکھتا ہے اور پھر یہ کہ دعا میں اخلاص ہوتا ہے خدا کی حمد و شکر گزاری ہوتی ہے خدا سے سوال کیا جاتا ہے خدا کی وحدانیت کو ظاہر کیا جاتا ہے اپنے مقصد اور مطلب کے حصول کے لئے خدا ہی کی طرف توجہ اور رغبت ہوتی ہے خدا کی مناجات کی جاتی ہے خدا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل و کمتر و عاجز کر کے کمال عبودیت کا اظہار کیا جاتا ہے اور خدا سے فریاد کی جاتی ہے اور اس سے مدد مانگی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ارشاد کی توثیق کے سلسلہ میں بطور دلیل قرآن کریم کی آیت اس لئے پڑھی کہ اس سے معلوم ہو جائے کہ دعا مامور بہ ہے یعنی دعا کرنے کا حکم دیا گیا اور اس حکم کی تعمیل یعنی دعا مانگنے پر ثواب دیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز اس درجہ کی ہوتی ہے اسے ہی عبادت کہتے ہیں کہ اس آیت کا آخری حصہ بھی دلالت کرتا ہے کہ دعا عبادت ہے چنانچہ آگے فرمایا گیا ہے۔ آیت (ۭ اِنَّ الَّذِینَ یسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِی سَیدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِینَ) 40۔ غافر:60)۔ جو لوگ میری عبادت یعنی دعا کے سلسلہ میں تکبر کرتے ہیں وہ عنقریب ذلیل و خوار ہو کر دوزخ میں داخل ہوں گے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دعا عبادت کا مغز ہے۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ دعا عبادت کا خلاصہ ہے اور اس کا مقصود باالذات ہے کیونکہ عبادت کی حقیقت اور اس کا خلاصہ عاجزی اور اپنے آپ کو ذلیل و کمتر سمجھنا ہے اور یہی چیز دعا میں حاصل ہوتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ بلند مرتبہ کوئی چیز نہیں ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، اور امام ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
دعا سے زیادہ بلند مرتبہ کوئی چیز نہیں ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اذکار و عبادات میں کوئی چیز دعا کے برابر نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کا یہ ارشاد قرآن کریم کی اس آیت۔ (اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ) 49۔ الحجرات:13)۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں بہت زیادہ بلند مرتبہ وہی شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ (کے منافی نہیں ہے)
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تقدیر کو دعا کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بدلتی اور عمر کو نیکی کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں بڑھاتی۔ (ترمذی)
تشریح
تقدیر سے مراد ہے ایسی ناپسندیدہ چیز کا پیش آنا جس سے انسان ڈرتا ہے، لہٰذا حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ جب بندہ کو دعا کرنے کی توفیق ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے ایسی چیز کو دور کرتا ہے۔
خوب سمجھ لیجئے کہ تقدیر کی دو قسمیں ہیں ایک تو مبرم اور دوسری معلق تقدیر مبرم تو حق تعالیٰ کا اٹل فیصلہ ہوتا ہے جو چیز پیش آنے والی ہوتی ہے اس میں کچھ بھی تغیر و تبدل ممکن نہیں ہے مگر تقدیر معلق میں بعض اسباب کی بنا پر تغیر و تبدل بھی ہوتا ہے۔ لہٰذا یہاں حدیث میں جس تقدیر کے بارے میں کہا ہے کہ وہ دعا سے بدل جاتی ہے وہ تقدیر معلق ہی ہے یہاں تقدیر مبرم مراد نہیں ہے۔
حدیث سے جو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نیکی سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کے بارے میں بھی سمجھ لیجئے کہ یہاں بھی عمر کی کمی و زیادتی تقدیر معلق کے اعتبار سے ہے یعنی تقدیر میں لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں شخص اگر نیکی کرے گا تو اتنی عمر ہو گی اور اگر نیکی نہ کرے گا تو اتنی عمر ہو گی۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ لوح محفوظ میں اس طرح لکھا جاتا ہے کہ مثلاً اگر فلاں شخص حج کرے گا یا جہاد کرے گا تو اس کی عمر چالیس سال کی ہو گی اور اگر حج و جہاد دونوں کرے گا تو اس کی عمر ساٹھ سال کی ہو گی لہٰذا اگر اس شخص نے حج بھی کیا اور جہاد بھی کیا تو اس کی عمر ساٹھ سال کی ہو گی اس طرح اس کی عمر بڑھ گئی اور اگر اس نے صرف جہاد ہی کیا یا صرف حج ہی کیا تو اس کی عمر چالیس سال کی ہو گی اس طرح اس کی عمر انتہاء عمر سے کہ وہ ساٹھ سال تھی کم ہوئی۔
بعض حضرات نے حدیث کے اس جملہ کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ جس شخص نے نیکی کی اس کی عمر ضائع نہیں ہوئی پس گویا اس کی عمر زیادہ ہوئی اس اعتبار سے یہاں فرمایا گیا ہے کہ نیکی انسان کی عمر میں اضافہ کر دیتی ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بلاشبہ دعا اس چیز کے لئے بھی نافع ہے جو پیش آ چکی ہے اور اس چیز کے لئے بھی نافع ہے جو پیش نہیں آئی ہے لہٰذا اے اللہ کے بندو! دعا کو اپنے لئے ضروری سمجھو۔ (ترمذی) اس روایت کو احمد نے معاذ بن جبل سے نقل کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
جو چیز پیش آ چکی ہے اس کے لئے دعا کے نافع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جو مصیبت و بلا نازل ہو چکی ہے اگر وہ معلق ہوتی ہے تو دعا کرنے سے دفع ہو جاتی ہے اور انسان سکون و اطمینان پا لیتا ہے اور اگر وہ مبرم ہوتی ہے تو بھی دعا کا نفع ظاہر ہوتا ہے بایں طور کہ اللہ تعالیٰ اسے صبر کی طاقت عطا فرما دیتا ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ اس مصیبت و بلا کا تحمل اس کے لئے آسان ہو جاتا ہے اور وہ اس پر راضی بھی ہو جاتا ہے بلکہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ وہ مصیبت و بلا میں مبتلا نہ ہو۔ کیونکہ صبر کی دولت حاصل ہو جانے کے بعد اس کا جذبہ اطاعت اتنا قوی ہو جاتا ہے اور مضبوط ہو جاتا ہے کہ وہ اس مصیبت و بلا میں بھی اسی طرح لذت و کیفیت محسوس کرتا ہے جیسا کہ خالص دنیا دار قسم کے لوگ نعمتوں اور راحتوں میں لذت وکیف پاتے ہیں۔
جو چیز پیش نہیں آتی اس کے لئے دعا بایں طور نافع ہوتی ہے کہ اس کو نازل ہونے سے روک دیتی ہے بشرطیکہ اس کا تعلق بھی تقدیر معلق سے ہو۔
٭٭ حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو بھی شخص دعا مانگتا ہے تو اللہ تعالیٰ یا تو اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جو وہ مانگتا ہے بشرطیکہ اس چیز کا دینا ازل میں اس کے مقدر میں لکھا جا چکا ہو یا اس کے عوض میں اس سے برائی کو روک دیتا ہے یعنی اس چیز کا اگر دینا اس کے مقدر میں لکھا نہیں ہوتا تو اس کے عوض میں اللہ تعالیٰ اس کے مانگنے کے بقدر اس سے مصیبت وبلا کو دور کر دیتا ہے جب تک وہ گناہ کی کوئی چیز یا ناتہ توڑنے کی دعا نہیں مانگتا۔ (ترمذی)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل مانگا جائے اور عبادت (یعنی دعا) کی سب سے بہتر چیز کشادگی کا انتظار کرنا ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
کشادگی کا انتظار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دعا مانگنے والا غیر اللہ سے شکوہ و شکایت اور مایوسی کا اظہار کئے بغیر اس بات کا امیدوار رہے کہ وہ جس بلاء و غم کے دور ہونے کی دعا مانگ رہا ہے وہ انشاء اللہ ضرور دور ہو گا قبولیت دعا میں بظاہر چاہے کتنی ہی تاخیر ہو مگر وہ امید و آس کا دامن ہرگز نہ چھوڑے اور کسی بھی مرحلہ پر خدا کی ذات اور اس کے فضل سے ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہو۔ گویا یہ اشارہ ہے صبر کی طرف کہ صبر کی طاقت نہ صرف یہ کہ انسان کی قوت ارادی میں زبردست اضافہ کا سبب بنتی ہے بلکہ اللہ کی ذات پر مکمل اعتماد و یقین اور بھروسہ کی اسپرٹ پید اکرتی ہے اور ویسے بھی اس میں کوئی شک نہیں کہ صبر کی جزاء اور اس کا انعام بے حد و بے حساب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوتا ہے کیونکہ ترک دعا اللہ سے تکبر اور استغناء کی علامت ہے۔ (ترمذی)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جس شخص کے لئے دعا کا دروازہ کھولا گیا یعنی جس شخص کو پورے آداب و شرائط کے ساتھ بہت دعا مانگنے کی توفیق عطا کی گئی تو سمجھو کہ اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے کیونکہ اس کی دعا کے نتیجے میں کبھی تو اس کی مانگی ہوئی چیز ملتی ہے اور کبھی مانگی ہوئی چیز کے بدلہ میں اس سے شر و برائی کو دور کر دیا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ سے کوئی چیز نہیں مانگی جاتی۔ یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اور محبوب بات یہ ہے کہ اس سے عافیت مانگی جائے۔ (ترمذی)
تشریح
حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو بہت پسند کرتا ہے اس کے برابر اور کسی چیز کے مانگنے کو پسند نہیں کرتا۔
عافیت کے معنی ہیں دنیا و آخرت کی تمام ظاہری و باطنی غیر پسندیدہ چیزوں تمام آفات و مصائب تمام بیماریوں اور تمام بلاؤں سے سلامتی و حفاظت۔ لہٰذا عافیت، دنیا و آخرت کی تمام بھلائیوں پر حاوی ہے جس نے عافیت مانگی اس نے گویا دنیا وآخرت کی تمام ہی بھلائیاں مانگ لیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ عافیت مانگنے کو پسند کرتا ہے۔ (نسال اللہ العافیۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے لئے یہ بات پسندیدگی اور خوشی کا باعث ہو کہ تنگی اور سختی کے وقت اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے تو اسے چاہئے کہ وہ وسعت فراخی کے زمانہ میں بہت دعا کرتا رہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا قبولیت دعا کا یقین رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مانگو۔ یاد رکھو! اللہ تعالیٰ غافل اور کھیلنے والے دل کی دعا قبول نہیں کرتا یعنی اس شخص کی دعا قبول نہیں ہوتی جس کا دل دعا مانگتے وقت اللہ تعالیٰ سے غافل اور غیراللہ میں مشغول ہو امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔
تشریح
حدیث کے پہلے جز کا مطلب یہ ہے کہ دعا کے وقت تمہیں ایسی حالت میں ہونا چاہئے جس کے سبب تم قبولیت دعا کے مستحق قرار پاؤ مثلاً اچھے کام میں مشغولیت اور برے کاموں سے اجتناب ہو دعا کی جو شرائط ہیں ان کی رعایت ہو رہی ہو مثلاً توجہ الی اللہ، حضور قلب اور اخلاص حاصل ہو۔ آخری بات یہ کہ تمہارے قلب پر قبولیت کا یقین و اعتماد، عدم قبولیت کی مایوسی پر غالب ہو۔ یا پھر مراد یہ ہے کہ دعا کے وقت تمہیں یہ کامل اعتماد حاصل ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وسیع و لامحدود فضل کی بناء پر تمہیں مایوس اور ناامید نہیں کرے گا اور تمہاری دعا ضرور قبول ہو گی۔
حضرت مالک بن یسار رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس وقت تم اللہ تعالیٰ سے دعا مانگو اس سے اپنے ہاتھوں کے اندرونی رخ کے ذریعے مانگو اس سے اپنے ہاتھوں کے اوپر کے رخ کے ذریعہ نہ مانگو۔ ایک اور روایت میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے ہاتھوں کے اندرونی رخ کے ذریعہ مانگو اور جب تم دعا سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے ہاتھوں کو اپنے منہ پر پھیر لو تاکہ وہ برکت جو ہاتھوں پر اترتی ہے منہ کو بھی پہنچ جائے۔ (ابوداؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ دعا مانگتے وقت جب ہاتھوں کو اٹھاؤ تو ان کو اس طرح رکھو کہ ہاتھوں کے اندر کا رخ یعنی ہتھیلیاں منہ کے سامنے رہیں جیسا کہ دعا کے وقت کا معمول ہے ہاتھوں کو الٹ کر دعا نہ مانگو حالت استسقاء اس حکم سے مستثنی ہے کیونکہ اس وقت ہاتھوں کو الٹ کر ہی دعا مانگنا منقول ہے چنانچہ اسے باب الاستسقاء میں بیان کیا جا چکا ہے۔
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تمہارا پروردگار بہت حیا مند ہے یعنی وہ حاجت مندوں کا سا معاملہ کرتا ہے وہ بغیر مانگے دینے والا ہے اور وہ اپنے بندہ سے حیا کرتا ہے کہ اسے خالی ہاتھ واپس کرے جب کہ اس کا بندہ اس کی طرف (دعا کے لئے) اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتا ہے۔ (ترمذی، ابوداؤد، بیہقی)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دعا میں اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تو انہیں اس وقت تک نہ رکھتے جب تک کہ اپنے منہ پر نہ پھیر لیتے۔ (ترمذی)
تشریح
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا اور پھر دعا کے بعد انہیں اپنے منہ پر پھیر لینا سنت ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دعاؤں کو پسند فرماتے تھے جو جامع ہیں اور ان دعاؤں کو چھوڑ دیتے تھے جو جامع نہیں ہیں۔ (ابوداؤد)
تشریح
جامع دعا اس کو کہتے ہیں جس میں الفاظ تو کم ہوں مگر وہ دنیاوی اور اخروی امور کے بہت زیادہ معنی و مقصد پر حاوی ہو جیسے یہ دعائیں ہیں۔ دعا (ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الآخرۃ حسنۃ وقنا عذاب النار)۔ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔ دعا (اللہم انی اسألک العفو والعافیۃ فی الدین والدنیا والآخرۃ)۔ اے اللہ ! میں تجھ سے دین میں دنیا میں اور آخرت میں عفو عافیت مانگتا ہوں۔
اسی قسم کی اور بھی بہت سی جامع دعائیں ہیں جو احادیث میں منقول ہوئی ہیں۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسی دعاؤں کو ترک کئے ہوئے تھے جو جامع نہیں ہیں بلکہ کسی خاص مطلب و مقصد ہی کے بارے میں ہیں مثلاً یہ دعا۔ ارزقنی زوجۃ حسنۃ(اے اللہ) مجھے اچھی بیوی عطا فرما) لیکن اتنی بات ملحوظ رہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اکثر عادت کے اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر اور بہت زیادہ وہی دعائیں مانگتے تھے جو جامع ہیں ورنہ تو کبھی کبھی کسی خاص مطلب کے لئے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دعا مانگنا ثابت ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بہت جلد قبول ہونے والی وہ دعا ہے جو غائب غائب کے لئے کرے۔ (ترمذی، ابوداؤد)
تشریح
جو شخص کسی کے لئے اس کی عدم موجودگی میں یعنی غائبانہ دعا کرتا ہے تو وہ دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے کیونکہ ایسی دعائیں کسی کو دکھانے سنانے کا تو کوئی سوال ہی پید انہیں ہوتا بلکہ خلوص ہی خلوص ہوتا ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کر لینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہو گی۔ (ابوداؤد، امام ترمذی نے اس روایت کو لفظ ولا تنسنا پر ختم کر دیا ہے)
تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد فرمودہ وہ کلمہ جس کے بدلہ میں پوری دنیا حاصل کرنا بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لئے باعث خوشی نہ ہوتا کیا تھا؟ اس بارے میں دو احتمال ہیں ہو سکتا ہے کہ اس کلمہ سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی ارشاد ہو سکتا ہے جو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ان کی عمرہ کے لئے روانگی کے وقت فرمایا یعنی دعا میں شریک کرنا اور دعا کے وقت نہ بھولنا۔ لیکن یہ احتمال بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس موقع پر کوئی اور بات ارشاد فرمائی ہو گی۔ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک تمام دنیا سے بھی زیادہ قیمتی اور گرانمایہ تھی او اس بات کو یہاں حدیث میں نقل نہیں کیا گیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دعا کے لئے جو درخواست کی اس سے نہ صرف یہ کہ ذات نبوت کی طرف سے مرتبہ عبودیت اور مقام بندگی میں اپنے عجز اور اپنی مسکینی کا اظہار ہے بلکہ اس طرح امت کے لوگوں کو اس بات کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے کہ خدا کے نیک اور عابد بندوں اور اچھے لوگوں سے دعاء خیر کی جائے چاہے وہ مرتبہ کے لحاظ سے اپنے سے کم تر ہی کیوں نہ ہو نیز اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس لطیف انداز میں گویا امت کو اس بات سے بھی آگاہ کر دیا کہ اپنی دعا کو صرف اپنی ذات ہی کے لئے مخصوص نہ کیا جائے بلکہ اپنی دعاؤں اور خاص طور پر ان دعاؤں میں جو مقام قبولیت پر مانگی جائیں اپنے عزیز واقرباء اور اپنے دوستوں کو بھی شامل کیا جائے۔
اور آخر میں ایک بات یہ بھی کہ اس حدیث سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عظمت وبزرگی کا اظہار ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے دعا کی درخواست کر کے گویا ان کی عظمت و بزرگی اور ان کی فضیلت کی تصدیق کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تین شخص ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی۔ (١) روزہ دار جب افطار کرتا ہے (یعنی روزہ دار جب افطار کرتے وقت دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے کیونکہ وہ عبادت کی ادائیگی کے بعد ہوتی ہے اور یہ کہ اس وقت عاجزی اور مسکینی کا پیکر ہوتا ہے (٢) لوگوں کا سردار حاکم جو عدل و انصاف کرے (کیونکہ حدیث میں منقول ہے ایک ساعت کا عدل ساٹھ برس کی عبادت سے بہتر ہے اس لئے اس فضیلت و شرف کی وجہ سے عادل سردار و حاکم کی دعا قبول ہوتی ہے۔ (٣) مظلوم کی دعا جب مظلوم دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو بادلوں کے اوپر اٹھاتا ہے اور اس دعا کے لئے آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور پروردگار فرماتا ہے کہ قسم ہے مجھے اپنی عزت کی میں تیری مدد ضرور کروں گا اگرچہ وہ کچھ مدت بعد ہی ہو (یعنی تیرا حق ضائع نہیں کروں گا) اور تیری دعا کو رد نہیں کروں گا اگر مدت دراز گزر جائے۔ (ترمذی)
تشریح
مظلوم کی دعا کو بادلوں کے اوپر اٹھانا اور اس کے لئے آسمانوں کے دروازوں کا کھلنا دراصل کنایہ ہے اس بات سے کہ مظلوم کی دعا اوپر پہنچتی ہے اور جلد قبول ہوتی ہے۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں تین دعائیں قبول کی جاتی ہیں ان کی قبولیت میں کوئی شک نہیں ایک تو باپ کی دعا، دوسری مسافر کی دعا اور تیسری مظلوم کی دعا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ)
تشریح
باپ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کے حق میں خواہ دعا کرے یا بددعا دونوں جلد قبول ہو جاتی ہیں اور جب باپ کی دعا قبول ہوتی ہے تو ماں کی دعا بطریق اولیٰ قبول ہوتی ہے اگرچہ یہاں حدیث میں ماں کی دعا کے بارے میں ذکر نہیں کیا گیا ہے لیکن بات یہی ہے کیونکہ ماں اپنی اولاد کے حق میں باپ کی بہ نسبت زیادہ شفیق ہوتی ہے۔
مسافر کی دعا کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ کہ مسافر کی دعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اس کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کی بددعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اسے تکلیف و ایذاء پہنچاتا ہے اور اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے، یا پھر یہ کہ مسافر کی دعا مطلقاً قبول ہوتی ہے خواہ وہ اپنے لئے کرے یا دوسرے کے لئے۔
مظلوم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مظلوم کی مدد کرتا ہے یا اس کو تسلی و تسکین دلاتا ہے اور مظلوم اس کے حق میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے اسی طرح جو شخص مظلوم پر ظلم کرتا ہے یا جو شخص ظالم کی حمایت و تائید کر کے مظلوم کی ذہنی، روحانی اور جسمانی تکلیف و مصیبت میں اضافہ کرتا ہے اور مظلوم اس شخص کے حق میں بد دعا کرتا ہے تو اس کی بد دعا قبول ہوتی ہے۔ اسی طرح جو شخص ظالم کی حمایت و تائید کر کے مظلوم کی ذہنی روحانی اور جسمانی تکلیف و مصیبت میں اضافہ کرتا ہے اور مظلوم اس کے حق میں بد دعا کرتا ہے تو اس کی بد دعا قبول ہوتی ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے ہر شخص کو چاہئے کہ اوہ اپنی تمام حاجتیں اپنے پروردگار سے مانگے یہاں تک کہ اگر اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اسے بھی خدا سے مانگو۔ ترمذی نے ایک اور روایت میں جو ثابت بنانی سے بطریق ارسال نقل کی ہے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں کہ یہاں تک کہ نمک بھی اس سے مانگے اور اگر جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی اس سے مانگے۔ (ترمذی)
تشریح
مصنف مشکوٰۃ کو چاہئے تھا کہ وہ زاد فی روایۃ کے بجائے یوں کہتے کہ رواہ الترمذی و زادی فی روایۃ دوسری روایت میں یہ جملہ حتی یسألہ شسعہ الخ اگر اس کے جوتے کا تسمہ ٹوٹ جائے تو اسے بھی خدا ہی سے مانگے مکرر ذکر کیا گیا ہے اور وہ اس لئے کہ یہ مکرر ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرے کہ خدا سے مانگنے میں کسی بھی مرحلہ پر سائل کے لئے کوئی رکاوٹ اور کسی بھی قسم کی کوئی محرومی نہیں ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے وہ جو کچھ بھی مانگتے ہیں خدا ان کو عطا کرتا ہے لہٰذا بندوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر حاجت خواہ وہ کتنی ہی ادنیٰ سے ادنیٰ کیوں نہ ہو خدا ہی کے سامنے پیش کریں اسی سے اپنی ہر مراد مانگیں اسی کی اور صرف اسی کی ذات پر اعتماد کریں۔
ابوعلی دقاق فرماتے ہیں کہ یہ بات معرفت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اپنی ہر حاجت خواہ وہ بڑی سے بڑی ہو یا چھوٹی سے چھوٹی ہو اللہ تعالیٰ سے مانگی جائے اس موقع پر انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بڑی عمدہ مثال پیش کی ہے کہ ایک طرف تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے دیدار کے مشتاق ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور میں یہ سب سے بڑی اور سب سے عظیم الشان درخواست پیش کی کہ۔ رب ارنی انظر الیک۔ اے میرے رب !مجھے دکھا کہ میں تیری طرف(یعنی تجھے) دیکھوں۔ دوسری طرف جب وہ نان جویں کے محتاج ہوئے تو پروردگار ہی سے عرض کیا۔ آیت (رب انی لما انزلت الی من خیر فقیر)۔ میرے پروردگار! تو نے میری طرف از قسم مال و رزق جو کچھ اتارے میں اس کے لئے محتاج ہوں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
٭٭ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی دونوں انگلیوں یعنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کے سرے اپنے مونڈھوں کے برابر لے جاتے اور پھر دعا مانگتے۔
تشریح
اس حدیث میں دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھانے کی جو مقدار بیان کی گئی ہے ہاتھوں کو اٹھانے کا یہی اوسط درجہ ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا کے وقت اکثر اپنے ہاتھوں کو اتنا ہی اٹھاتے تھے جہاں تک اس سے پہلی حدیث کا تعلق ہے کہ جس سے ہاتھوں کو زیادہ اوپر اٹھانا معلوم ہوتا ہے تو یہ صورت بعض اوقات پر محمول ہے یعنی جب دعا میں بہت ہی زیادہ استغراق، مبالغہ اور محویت منظور ہوتی تھی مثلاً استسقاء یا سخت آفات پر مصائب کے وقت تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس موقع پر اپنے ہاتھوں کو اتنا اٹھاتے تھے کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگتی تھی۔
سائب بن یزید رضی اللہ عنہ اپنے والد مکرم سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب دعا مانگتے اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تو اپنے منہ پر دونوں ہاتھوں کو پھیرتے۔ (مذکورہ بالا تینوں حدیثیں بیہقی نے دعوات کبیر میں نقل کی ہیں)
تشریح
علامہ طیبی کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دعا کے بعد ہاتھوں کو منہ پر اسی وقت پھیرتے جب کہ دعا کے وقت ہاتھوں کو اٹھاتے اگر دعا کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھوں کو نہ اٹھاتے تو انہیں منہ پر پھیرتے بھی نہیں تھے لہٰذا نماز کی حالت میں، طواف میں، سونے کے وقت، کھانے کے بعد اور اسی طرح دیگر مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو دعائیں اور دعاؤں کے وقت ہاتھوں کو نہ اٹھانا منقول ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان مواقع پر ہاتھوں کو منہ پر پھیرتے بھی نہیں تھے۔
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا سوال (دعا) کرنے کا ادب طریقہ یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنے مونڈھوں کے برابر یا ان کے قریب تک اٹھا۔ استغفار کا ادب یہ ہے کہ تم اپنی انگلی کے ذریعہ اشارہ کرو اور دعا میں انتہائی عجز و مبالغہ اختیار کرنا یہ ہے کہ تم اپنے دونوں ہاتھوں کو اکٹھے دراز کرو یعنی اتنے اٹھاؤ کہ بغلوں کی سفیدی نظر آنے لگے۔ (ابوداؤد)
ایک روایت میں یوں ہے کہ انہوں نے کہا دعا میں انتہائی عاجزی کا اظہار اس طرح ہے اور یہ کہہ کر انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور ان کی پشت کو اپنے منہ کے قریب کیا (یعنی جس طرح کہ استغفار کے وقت ہاتھوں کو اٹھایا جانا منقول ہے) (ابوداؤد)
تشریح
ایک انگلی کے ذریعہ اشارہ کرو میں انگلی سے مراد سبابہ ہے کہ جسے شہادت کی انگلی کہتے ہیں اور مقصود اس سے سبّ ہے یعنی نفس امارہ اور شیطان ملعون کو ملامت کرنا اور ان کی برائیوں سے پناہ مانگنا اس موقع پر ایک کی قید اس لئے لگائی گئی ہے کہ دونوں انگلیوں سے اشارہ کرنا مکروہ ہے چنانچہ منقول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو دو انگلیوں سے اشارہ کرتے ہوئے دیکھا تو اس سے فرمایا کہ ایک انگلی سے اشارہ کرو، ایک انگلی سے اشارہ کرو۔
حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے دعا میں انتہائی عجز کے اظہار کا طریقہ عمل کے ذریعہ بتایا چنانچہ انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو اتنا زیادہ اٹھایا کہ بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگی اور ہاتھ سر کے برابر پہنچ گئے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ کہا کرتے تھے کہ تمہارا اپنے ہاتھوں کو بہت زیادہ اٹھانا بدعت ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر اس سے زیادہ یعنی سینہ سے زیادہ اوپر نہیں اٹھاتے تھے۔ (احمد)
تشریح
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ہاتھوں کو زیادہ اٹھانے کو بدعت اس لئے کہا کہ وہ لوگ اپنے ہاتھوں کو اکثر اوقات بہت ہی زیادہ اٹھانے لگے تھے اور حالات و مواقع میں کوئی فرق نہیں کرتے تھے حالانکہ انہیں چاہئے تھا کہ وہ ایک مقصد کے لئے تو ہاتھوں کو سینہ تک اٹھاتے اور مونڈھوں تک دوسرے مقصد کے لئے اسی طرح اور مقصد کے لئے مونڈھوں سے اوپر اٹھاتے۔
اس بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں سمجھئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ اُٹھانے کی مقدار کا فرق حالات و مواقع کے اختلاف پر مبنی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر تو اپنے ہاتھ سینے تک اٹھاتے تھے بعض مواقع پر مونڈھوں تک اٹھاتے اور کسی خاص موقع پر مونڈھوں سے اوپر بھی اٹھاتے تھے لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے جو لوگوں کو یہ تنبیہ کی وہ مواقع اور حالات کے اختلاف کو مد نظر نہیں رکھتے تھے بلکہ ہر موقع اور دعا کے وقت اپنے ہاتھوں کو بہت ہی زیادہ اوپر اٹھانے لگے تھے اس لئے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے اس طرز عمل سے بیزاری کا اظہار کیا اور اسے سنت کے خلاف قرار دیا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی کا ذکر کرتے اور پھر اس کے لئے دعا کرتے (یعنی اس کے لئے دعا کرنے کا ارادہ کرتے) تو پہلے اپنے لئے دعا کرنا شروع کرتے اس کے بعد اس شخص کے لئے دعا کرتے امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب صحیح ہے۔
تشریح
اس حدیث میں امت کے لیے تعلیم ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کے لئے دعا کرے تو اپنے لئے دعا کرے پھر اس شخص کے لئے کرے مثلاً اس طرح دعا کرے۔ دعا (اللہم اغفرلی ولفلان)۔ اے اللہ میری اور فلاں شخص کی مغفرت فرما۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو بھی مسلمان کوئی دعا مانگتا ہے ایسی دعا کہ اس میں نہ تو گناہ کی کسی چیز کی طلب ہو اور نہ ناطہ توڑنے کی تو اللہ تعالیٰ اسے اس دعا کے نتیجے میں تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور دیتا ہے یا تو یہ کہ جلدی ہی اس کا مطلوب عطا فرما دے یا یہ کہ اس کے لئے اس دعا کو ذخیرہ آخرت بنا دے کہ دنیا میں اس کا مطلوب حاصل نہ ہونے کی صورت میں اس کے عوض آخرت میں اجر عطا کرتے یا یہ کہ اسے اس کی دعا کے بقدر برائی سے بچائے۔ صحابہ نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم تو اب بہت زیادہ دعائیں مانگیں گے کیونکہ ہمیں دعا کے بڑے فائدے معلوم ہو گئے آپ نے فرمایا۔ اللہ کا فضل بہت زیادہ ہے۔ (احمد)
تشریح
اللہ تعالیٰ کا فضل بہت زیادہ ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تمہاری دعا کے نتیجہ میں تمہیں جو کچھ عطا فرماتا ہے اس کے مقابلہ میں وہ کہیں زیادہ ہے جو وہ تمہیں مانگے بغیر محض اپنے بے پایاں فضل اور وسیع کرم سے دیتا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پانچ دعائیں ہیں جنہیں شرف قبولیت سے نوازا جاتا ہے۔ (١) مظلوم کی دعا یہاں تک کہ وہ ظالم سے اپنے ہاتھ سے یا اپنی زبان کے ذریعہ بدلہ لے لے۔ (٢) حاجی کی دعا یہاں تک کہ وہ اپنے شہر اور اپنے اہل وعیال کے پاس واپس آ جائے یا حج سے فارغ ہو جائے (٣) جہاد کرنے والے کی دعا یا طلب علم و عمل میں سعی و کوشش سے فارغ ہو کر بیٹھ جائے (٤) مریض کی دعا یہاں تک کہ وہ اچھا ہو جائے یا مر جائے (٥) ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعا۔ پھر اس کے بعد آپ نے فرمایا ان دعاؤں میں سب جلدی قبول ہونے والی ایک بھائی کی اپنے بھائی کے لئے غائبانہ دعا ہے۔