وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى : وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ /غافر: 60/.
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان «ادعوني أستجب لكم إن الذين يستكبرون عن عبادتي سيدخلون جهنم داخرين» بلاشبہ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کرتے ہیں وہ بہت جلد دوزخ میں ذلت کے ساتھ ہوں گے ۔ اس حدیث کا بیان کہ ہر نبی کی ایک دعا ضرورہی قبول ہوتی ہے ۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُو بِهَا، وَأُرِيدُ أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي فِي الْآخِرَةِ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر نبی کو ایک دعا حاصل ہوتی ہے (جو قبول کی جاتی ہے) اور میں چاہتا ہوں کہ میں اپنی دعا کو آخرت میں اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھوں۔
وَقَالَ لِي خَلِيفَةُ ، قَالَ مُعْتَمِرٌ ، سَمِعْتُ أَبِي ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كُلُّ نَبِيٍّ سَأَلَ سُؤْلًا، أَوْ قَالَ: لِكُلِّ نَبِيٍّ دَعْوَةٌ قَدْ دَعَا بِهَا، فَاسْتُجِيبَ فَجَعَلْتُ دَعْوَتِي شَفَاعَةً لِأُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
اور معتمر نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے سنا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی نے کچھ چیزیں مانگیں یا فرمایا کہ ہر نبی کو ایک دعا دی گئی جس چیز کی اس نے دعا مانگی پھر اسے قبول کیا گیا لیکن میں نے اپنی دعا قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لیے محفوظ رکھی ہوئی ہے۔
وَقَوْلِهِ تَعَالَى: اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا 10 يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا 11 وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا 12 سورة نوح آية 10-12 وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ سورة آل عمران آية 135"
اور اللہ تعالیٰ نے (سورۃ نوح میں) فرمایا «استغفروا ربكم إنه كان غفارا * يرسل السماء عليكم مدرارا * ويمددكم بأموال وبنين ويجعل لكم جنات ويجعل لكم أنهارا» اپنے رب سے بخشش مانگو وہ بڑا بخشنے والا ہے تم ایسا کرو گے تو وہ آسمان کے دہانے کھول دے گا اور مال اور بیٹوں سے تم کو سرفراز کرے گا اور باغ عطا فرمائے گا اور نہریں عنایت کرے گا۔ اور (سورۃ آل عمران میں)فرمایا «والذين إذا فعلوا فاحشة أو ظلموا أنفسهم ذكروا الله فاستغفروا لذنوبهم ومن يغفر الذنوب إلا الله ولم يصروا على ما فعلوا وهم يعلمون» بہشت ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جن سے کوئی بےحیائی کا کام ہو جاتا ہے یا کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو اللہ پاک کو یاد کر کے اپنے گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں اور اللہ کے سوا کون ہے جو گناہوں کو بخشے اور وہ اپنے برے کاموں پر جان بوجھ کر ہٹ دھرمی نہیں کرتے ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ الْعَدَوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي شَدَّادُ بْنُ أَوْسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَيِّدُ الِاسْتِغْفَارِ أَنْ تَقُولَ: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، قَالَ: وَمَنْ قَالَهَا مِنَ النَّهَارِ مُوقِنًا بِهَا فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ قَبْلَ أَنْ يُمْسِيَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ قَالَهَا مِنَ اللَّيْلِ وَهُوَ مُوقِنٌ بِهَا فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يُصْبِحَ، فَهُوَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین بن ذکوان معلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا ان سے بشیر بن کعب عدوی نے کہا کہ مجھ سے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سیدالاستغفار (مغفرت مانگنے کے سب کلمات کا سردار) یہ ہے یوں کہے «اللهم أنت ربي، لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أعوذ بك من شر ما صنعت، أبوء لك بنعمتك على وأبوء بذنبي، اغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت".» اے اللہ! تو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہوں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کئے ہوئے عہد اور وعدہ پر قائم ہوں۔ ان بری حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ مانگتا ہوں مجھ پر نعمتیں تیری ہیں اس کا اقرار کرتا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن اس کا انتقال ہو گیا شام ہونے سے پہلے، تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہونے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "وَاللَّهِ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ فِي الْيَوْمِ أَكْثَرَ مِنْ سَبْعِينَ مَرَّةً".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے کہا کہ مجھے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ اللہ سے استغفار اور اس سے توبہ کرتا ہوں۔
قَالَ قَتَادَةُ: تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا الصَّادِقَةُ النَّاصِحَةُ"
قتادہ نے کہا کہ «توبوا إلى الله توبة نصوحا» (سورۃ التحریم میں)، «نصوح» سے سچی اور اخلاص کے ساتھ توبہ کرنا مراد ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، حَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، حَدِيثَيْنِ أَحَدُهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ عَنْ نَفْسِهِ، قَالَ: "إِنَّ الْمُؤْمِنَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَأَنَّهُ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ يَخَافُ أَنْ يَقَعَ عَلَيْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ يَرَى ذُنُوبَهُ كَذُبَابٍ مَرَّ عَلَى أَنْفِهِ"، فَقَال: بِهِ هَكَذَا، قَالَ أَبُو شِهَابٍ: بِيَدِهِ فَوْقَ أَنْفِهِ، ثُمَّ قَالَ: "لَلَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ رَجُلٍ نَزَلَ مَنْزِلًا وَبِهِ مَهْلَكَةٌ وَمَعَهُ رَاحِلَتُهُ، عَلَيْهَا طَعَامُهُ وَشَرَابُهُ فَوَضَعَ رَأْسَهُ فَنَامَ نَوْمَةً، فَاسْتَيْقَظَ وَقَدْ ذَهَبَتْ رَاحِلَتُهُ حَتَّى إِذَا اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْحَرُّ وَالْعَطَشُ أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: أَرْجِعُ إِلَى مَكَانِي فَرَجَعَ فَنَامَ نَوْمَةً، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا رَاحِلَتُهُ عِنْدَهُ"، تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ ، وَجَرِيرٌ ، عَنِالْأَعْمَشِ ، وَقَالَ أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ ، سَمِعْتُ الْحَارِثَ ، وَقَالَ شُعْبَةُ : وَأَبُو مُسْلِمٍ اسْمُهُ عُبَيْدُ اللَّهِ كُوفِيٌّ قَائِدُ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ ، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ : حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، وَعَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ سُوَيْدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ .
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوشہاب نے، ان سے اعمش نے، ان سے عمارہ بن عمیر نے، ان سے حارث بن سوید اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے دو احادیث (بیان کیں) ایک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور دوسری خود اپنی طرف سے کہا کہ مومن اپنے گناہوں کو ایسا محسوس کرتا ہے جیسے وہ کسی پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں وہ اس کے اوپر نہ گر جائے اور بدکار اپنے گناہوں کو مکھی کی طرح ہلکا سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک کے پاس سے گزری اور اس نے اپنے ہاتھ سے یوں اس طرف اشارہ کیا۔ ابوشہاب نے ناک پر اپنے ہاتھ کے اشارہ سے اس کی کیفیت بتائی پھر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے کسی پرخطر جگہ پڑاؤ کیا ہو اس کے ساتھ اس کی سواری بھی ہو اور اس پر کھانے پینے کی چیزیں موجود ہوں۔ وہ سر رکھ کر سو گیا ہو اور جب بیدار ہوا ہو تو اس کی سواری غائب رہی ہو۔ آخر بھوک و پیاس یا جو کچھ اللہ نے چاہا اسے سخت لگ جائے وہ اپنے دل میں سوچے کہ مجھے اب گھر واپس چلا جانا چاہئے اور جب وہ واپس ہوا اور پھر سو گیا لیکن اس نیند سے جو سر اٹھایا تو اس کی سواری وہاں کھانا پینا لیے ہوئے سامنے کھڑی ہے تو خیال کرو اس کو کس قدر خوشی ہو گی۔ ابوشہاب کے ساتھ اس حدیث کو ابوعوانہ اور جریر نے بھی اعمش سے روایت کیا، اور شعبہ اور ابومسلم (عبیداللہ بن سعید) نے اس کو اعمش سے روایت کیا، انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے اور ابومعاویہ نے یوں کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے عمارہ سے انہوں نے اسود بن یزید سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔ اور ہم سے اعمش نے بیان کیا انہوں نے ابراہیم تیمی سے، انہوں نے حارث بن سوید سے، انہوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا حَبَّانُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا هُدْبَةُ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ سَقَطَ عَلَى بَعِيرِهِ وَقَدْ أَضَلَّهُ فِي أَرْضِ فَلَاةٍ".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو حبان بن ہلال نے خبر دی، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے ہدبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام نے بیان کیا، کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے تم میں سے اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کا اونٹ مایوسی کے بعد اچانک اسے مل گیا ہو حالانکہ وہ ایک چٹیل میدان میں گم ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، فَإِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ اضْطَجَعَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ، حَتَّى يَجِيءَ الْمُؤَذِّنُ فَيُؤْذِنَهُ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں (تہجد کی) گیارہ رکعات پڑھتے تھے پھر جب فجر طلوع ہو جاتی تو دو ہلکی رکعات (سنت فجر) پڑھتے۔ اس کے بعد آپ دائیں پہلو لیٹ جاتے آخر مؤذن آتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیتا تو آپ فجر کی نماز پڑھاتے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَنْصُورًا ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَتَيْتَ مَضْجَعَكَ فَتَوَضَّأْ وَضُوءَكَ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ اضْطَجِعْ عَلَى شِقِّكَ الْأَيْمَنِ وَقُلِ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَهْبَةً وَرَغْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ فَاجْعَلْهُنَّ آخِرَ مَا تَقُولُ"، فَقُلْتُ: أَسْتَذْكِرُهُنَّ وَبِرَسُولِكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، قَالَ: لَا وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے منصور سے سنا، ان سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تو سونے لگے تو نماز کے وضو کی طرح وضو کر پھر دائیں کروٹ لیٹ جا اور یہ دعا پڑھ «اللهم أسلمت نفسي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رهبة ورغبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت.» اے اللہ! میں نے اپنے آپ کو تیری اطاعت میں دے دیا۔ اپنا سب کچھ تیرے سپرد کر دیا۔ اپنے معاملات تیرے حوالے کر دئیے۔ خوف کی وجہ سے اور تیری (رحمت و ثواب کی) امید میں کوئی پناہ گاہ کوئی مخلص تیرے سوا نہیں میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی ہے اور تیرے نبی پر جن کو تو نے بھیجا ہے۔ اس کے بعد اگر تم مر گئے تو فطرت (دین اسلام پر مرو گے پس ان کلمات کو (رات کی) سب سے آخری بات بناؤ جنہیں تم اپنی زبان سے ادا کرو (براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا) میں نے عرض کی «وبرسولك الذي أرسلت.» کہنے میں کیا وجہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں «وبنبيك الذي أرسلت» کہو۔
حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ قَالَ: بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا، وَإِذَا قَامَ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ".
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو یہ کہتے «باسمك أموت وأحيا» تیرے ہی نام کے ساتھ میں مردہ اور زندہ رہتا ہوں اور جب بیدار ہوتے تو کہتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور» اسی اللہ کے لیے تمام تعریفیں ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا۔ اس کے بعد کہ اس نے موت طاری کر دی تھی اور اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ قرآن شریف میں جو لفظ «ننشرها» ہے اس کا بھی یہی معنی ہے کہ ہم اس کو نکال کر اٹھاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ سَمِعَ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا. ح وحَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصَى رَجُلًا، فَقَالَ: "إِذَا أَرَدْتَ مَضْجَعَكَ، فَقُلْ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْجَا وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، فَإِنْ مُتَّ مُتَّ عَلَى الْفِطْرَةِ".
ہم سے سعید بن ربیع اور محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، ان دونوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو حکم دیا (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا کہ ہم سے آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا ان سے ابواسحاق ہمدانی نے بیان کیا، اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو وصیت کی اور فرمایا کہ جب بستر پر جانے لگو تو یہ دعا پڑھا کرو «اللهم أسلمت نفسي إليك، وفوضت أمري إليك، ووجهت وجهي إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي أنزلت، وبنبيك الذي أرسلت.» اے اللہ! میں نے اپنی جان تیرے سپرد کی اور اپنا معاملہ تجھے سونپا اور اپنے آپ کو تیری طرف متوجہ کیا اور تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رغبت ہے تیرے خوف کی وجہ سے، تجھ سے تیرے سوا کوئی جائے پناہ نہیں، میں تیری کتاب پر ایمان لایا جو تو نے نازل کی اور تیرے نبی پر جنہیں تو نے بھیجا۔ پھر اگر وہ مرا تو فطرت (اسلام) پر مرے گا۔
حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ رِبْعِيٍّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ وَضَعَ يَدَهُ تَحْتَ خَدِّهِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا، وَإِذَا اسْتَيْقَظَ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں بستر پر لیٹتے تو اپنا ہاتھ اپنے رخسار کے نیچے رکھتے اور یہ کہتے «اللهم باسمك أموت وأحيا» اے اللہ! تیرے نام کے ساتھ مرتا ہوں اور زندہ ہوتا ہوں۔ اور جب آپ بیدار ہوتے تو کہتے«الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور".» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں زندہ کیا اس کے بعد کہ ہمیں موت (مراد نیند ہے) دے دی تھی اور تیری ہی طرف جانا ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْعَلَاءُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوَى إِلَى فِرَاشِهِ نَامَ عَلَى شِقِّهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ، وَوَجَّهْتُ وَجْهِي إِلَيْكَ، وَفَوَّضْتُ أَمْرِي إِلَيْكَ، وَأَلْجَأْتُ ظَهْرِي إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ، لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ، آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَبِنَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ قَالَهُنَّ ثُمَّ مَاتَ تَحْتَ لَيْلَتِهِ، مَاتَ عَلَى الْفِطْرَةِ اسْتَرْهَبُوهُمْ مِنَ الرَّهْبَةِ مَلَكُوتٌ مُلْكٌ مَثَلُ رَهَبُوتٌ خَيْرٌ مِنْ رَحَمُوتٍ تَقُولُ تَرْهَبُ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَرْحَمَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے علاء بن مسیب نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا اور ان سے براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے بستر پر لیٹتے تو دائیں پہلو پر لیٹتے اور پھر کہتے «اللهم أسلمت نفسي إليك، ووجهت وجهي إليك، وفوضت أمري إليك، وألجأت ظهري إليك، رغبة ورهبة إليك، لا ملجأ ولا منجا منك إلا إليك، آمنت بكتابك الذي أنزلت، ونبيك الذي أرسلت.» اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے یہ دعا پڑھی اور پھر اس رات اگر اس کی وفات ہو گئی تو اس کی وفات فطرت پر ہو گی۔ قرآن مجید میں جو «سترهبوهم» کا لفظ آیا ہے یہ بھی «رهبت» سے نکالا ہے ( «رهبت» کے معنی ڈر کے ہیں) «ملكوت» کا معنی ملک یعنی سلطنت جیسے کہتے ہیں کہ «رهبوت» ، «رحموت» سے بہتر ہے یعنی ڈرانا رحم کرنے سے بہتر ہے۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ مَيْمُونَةَ فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى حَاجَتَهُ، فَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ فَأَتَى الْقِرْبَةَ، فَأَطْلَقَ شِنَاقَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءًا بَيْنَ وُضُوءَيْنِ لَمْ يُكْثِرْ وَقَدْ أَبْلَغَ فَصَلَّى، فَقُمْتُ فَتَمَطَّيْتُ كَرَاهِيَةَ أَنْ يَرَى أَنِّي كُنْتُ أَتَّقِيهِ فَتَوَضَّأْتُ، فَقَامَ يُصَلِّي، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ، فَأَخَذَ بِأُذُنِي فَأَدَارَنِي عَنْ يَمِينِهِ فَتَتَامَّتْ صَلَاتُهُ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، وَكَانَ إِذَا نَامَ نَفَخَ فَآذَنَهُ بِلَالٌ بِالصَّلَاةِ، فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، وَكَانَ يَقُولُ فِي دُعَائِهِ: "اللَّهُمَّ اجْعَلْ فِي قَلْبِي نُورًا، وَفِي بَصَرِي نُورًا، وَفِي سَمْعِي نُورًا، وَعَنْ يَمِينِي نُورًا، وَعَنْ يَسَارِي نُورًا، وَفَوْقِي نُورًا، وَتَحْتِي نُورًا، وَأَمَامِي نُورًا، وَخَلْفِي نُورًا، وَاجْعَلْ لِي نُورًا"، قَالَ كُرَيْبٌ: وَسَبْعٌ فِي التَّابُوتِ، فَلَقِيتُ رَجُلًا مِنْ وَلَدِ الْعَبَّاسِ، فَحَدَّثَنِي بِهِنَّ فَذَكَرَ: عَصَبِي، وَلَحْمِي، وَدَمِي، وَشَعَرِي، وَبَشَرِي، وَذَكَرَ خَصْلَتَيْنِ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن ابن مہدی نے، ان سے سفیان ثوری نے، ان سے سلمہ بن کہیل نے، ان سے کریب نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ میں میمونہ (رضی اللہ عنہا) کے یہاں ایک رات سویا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور آپ نے اپنی حوائج ضرورت پوری کرنے کے بعد اپنا چہرہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ دھوئے اور پھر سو گئے اس کے بعد آپ کھڑے ہو گئے اور مشکیزہ کے پاس گئے اور آپ نے اس کا منہ کھولا پھر درمیانہ وضو کیا (نہ مبالغہ کے ساتھ نہ معمولی اور ہلکے قسم کا، تین تین مرتبہ سے) کم دھویا۔ البتہ پانی ہر جگہ پہنچا دیا۔ پھر آپ نے نماز پڑھی۔ میں بھی کھڑا ہوا اور آپ کے پیچھے ہی رہا کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سمجھیں کہ میں آپ کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے بھی وضو کر لیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا کان پکڑ کر دائیں طرف کر دیا، میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (کی اقتداء میں) تیرہ رکعت نماز مکمل کی۔ اس کے بعد آپ سو گئے اور آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سوتے تھے تو آپ کی سانس میں آواز پیدا ہونے لگتی تھی۔ اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ نے آپ کو نماز کی اطلاع دی چنانچہ آپ نے (نیا وضو) کئے بغیر نماز پڑھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں یہ کہتے تھے «اللهم اجعل في قلبي نورا، وفي بصري نورا، وفي سمعي نورا، وعن يميني نورا، وعن يساري نورا، وفوقي نورا، وتحتي نورا، وأمامي نورا، وخلفي نورا، واجعل لي نورا» اے اللہ! میرے دل میں نور پیدا کر، میری نظر میں نور پیدا کر، میرے کان میں نور پیدا کر، میرے دائیں طرف نور پیدا کر، میرے بائیں طرف نور پیدا کر، میرے اوپر نور پیدا کر، میرے نیچے نور پیدا کر میرے آگے نور پیدا کر، میرے پیچھے نور پیدا کر اور مجھے نور عطا فرما۔ کریب (راوی حدیث) نے بیان کیا کہ میرے پاس مزید سات لفظ محفوظ ہیں۔ پھر میں نے عباس رضی اللہ عنہما کے ایک صاحب زادے سے ملاقات کی تو انہوں نے مجھ سے ان کے متعلق بیان کیا کہ«عصبي ولحمي ودمي وشعري وبشري، وذكر خصلتين.» میرے پٹھے، میرا گوشت، میرا خون، میرے بال اور میرا چمڑا ان سب میں نور بھر دے۔ اور دو چیزوں کا اور بھی ذکر کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ يَتَهَجَّدُ قَالَ: "اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ قَيِّمُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ فِيهِنَّ وَلَكَ الْحَمْدُ، أَنْتَ الْحَقُّ، وَوَعْدُكَ حَقٌّ، وَقَوْلُكَ حَقٌّ، وَلِقَاؤُكَ حَقٌّ، وَالْجَنَّةُ حَقٌّ، وَالنَّارُ حَقٌّ، وَالسَّاعَةُ حَقٌّ، وَالنَّبِيُّونَ حَقٌّ، وَمُحَمَّدٌ حَقٌّ، اللَّهُمَّ لَكَ أَسْلَمْتُ، وَعَلَيْكَ تَوَكَّلْتُ، وَبِكَ آمَنْتُ، وَإِلَيْكَ أَنَبْتُ، وَبِكَ خَاصَمْتُ، وَإِلَيْكَ حَاكَمْتُ، فَاغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَوْ لَا إِلَهَ غَيْرُكَ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا میں نے سلیمان بن ابی مسلم سے سنا، انہوں نے طاؤس سے روایت کیا اور انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات میں تہجد کے لیے کھڑے ہوتے تو یہ دعا کرتے «اللهم لك الحمد، أنت نور السموات والأرض ومن فيهن، ولك الحمد أنت قيم السموات والأرض ومن فيهن، ولك الحمد، أنت الحق ووعدك حق، وقولك حق، ولقاؤك حق، والجنة حق، والنار حق، والساعة حق، والنبيون حق، ومحمد حق، اللهم لك أسلمت وعليك توكلت وبك آمنت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، وإليك حاكمت، فاغفر لي ما قدمت وما أخرت، وما أسررت، وما أعلنت، أنت المقدم وأنت المؤخر لا إله إلا أنت» اے اللہ! تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان و زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا نور ہے، تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں تو آسمان اور زمین اور ان میں موجود تمام چیزوں کا قائم رکھنے والا ہے اور تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، تو حق ہے، تیرا وعدہ حق ہے، تیرا قول حق ہے، تجھ سے ملنا حق ہے، جنت حق ہے، دوزخ حق ہے، قیامت حق ہے، انبیاء حق ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں۔ اے اللہ! تیرے سپرد کیا، تجھ پر بھروسہ کیا، تجھ پر ایمان لایا، تیری طرف رجوع کیا، دشمنوں کا معاملہ تیرے سپرد کیا، فیصلہ تیرے سپرد کیا، پس میری اگلی پچھلی خطائیں معاف کر۔ وہ بھی جو میں نے چھپ کر کی ہیں اور وہ بھی جو کھل کر کی ہیں تو ہی سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے، صرف تو ہی معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ عَلِيٍّ : أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهِمَا السَّلَام شَكَتْ مَا تَلْقَى فِي يَدِهَا مِنَ الرَّحَى، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ خَادِمًا فَلَمْ تَجِدْهُ، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ، فَلَمَّا جَاءَ أَخْبَرَتْهُ قَالَ: فَجَاءَنَا وَقَدْ أَخَذْنَا مَضَاجِعَنَا فَذَهَبْتُ أَقُومُ، فَقَالَ: مَكَانَكِ، فَجَلَسَ بَيْنَنَا حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ قَدَمَيْهِ عَلَى صَدْرِي، فَقَالَ: "أَلَا أَدُلُّكُمَا عَلَى مَا هُوَ خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ ؟ إِذَا أَوَيْتُمَا إِلَى فِرَاشِكُمَا أَوْ أَخَذْتُمَا مَضَاجِعَكُمَا، فَكَبِّرَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَسَبِّحَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، وَاحْمَدَا ثَلَاثًا وَثَلَاثِينَ، فَهَذَا خَيْرٌ لَكُمَا مِنْ خَادِمٍ"، وعَنْشُعْبَةَ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، قَالَ: التَّسْبِيحُ أَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے حکم بن عیینہ نے، ان سے ابن ابی لیلیٰ ٰ نے، ان سے علی رضی اللہ عنہ نے کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چکی پیسنے کی تکلیف کی وجہ سے کہ ان کے مبارک ہاتھ کو صدمہ پہنچتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خادم مانگنے کے لیے حاضر ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں موجود نہیں تھے۔ اس لیے انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کیا۔ جب آپ تشریف لائے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے اس کا ذکر کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں تشریف لائے ہم اس وقت تک اپنے بستروں پر لیٹ چکے تھے میں کھڑا ہونے لگا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں تم دونوں کو وہ چیز نہ بتا دوں جو تمہارے لیے خادم سے بھی بہتر ہو۔ جب تم اپنے بستر پر جانے لگو تو تینتیس (33) مرتبہ «الله اكبر» کہو، تینتیس (33) مرتبہ «سبحان الله» کہو اور تینتیس (33) مرتبہ«الحمد الله» کہو، یہ تمہارے لیے خادم سے بہتر ہے اور شعبہ سے روایت ہے ان سے خالد نے، ان سے ابن سیرین نے بیان کیا کہ سبحان اللہ چونتیس (34) مرتبہ کہو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا"أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ نَفَثَ فِي يَدَيْهِ، وَقَرَأَ بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَمَسَحَ بِهِمَا جَسَدَهُ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عروہ نے خبر دی اور انہیں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹتے تو اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور معوذات پڑھتے اور دونوں ہاتھ اپنے جسم پر پھیرتے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَوَى أَحَدُكُمْ إِلَى فِرَاشِهِ فَلْيَنْفُضْ فِرَاشَهُ بِدَاخِلَةِ إِزَارِهِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي مَا خَلَفَهُ عَلَيْهِ، ثُمَّ يَقُولُ: بِاسْمِكَ رَبِّ وَضَعْتُ جَنْبِي وَبِكَ أَرْفَعُهُ، إِنْ أَمْسَكْتَ نَفْسِي فَارْحَمْهَا، وَإِنْ أَرْسَلْتَهَا فَاحْفَظْهَا بِمَا تَحْفَظُ بِهِ عِبَادَكَ الصَّالِحِينَ"، تَابَعَهُ أَبُو ضَمْرَةَ ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، وَقَالَيَحْيَى ، وَبِشْرٌ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَوَاهُ مَالِكٌ ، وَابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا ہم سے زہیر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے بیان کیا، ان سے ان کے باپ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص بستر پر لیٹے تو پہلے اپنا بستر اپنے ازار کے کنارے سے جھاڑ لے کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کی بےخبری میں کیا چیز اس پر آ گئی ہے پھر یہ دعا پڑھے «باسمك رب وضعت جنبي، وبك أرفعه، إن أمسكت نفسي فارحمها، وإن أرسلتها فاحفظها بما تحفظ به الصالحين".» میرے پالنے والے! تیرے نام سے میں نے اپنا پہلو رکھا ہے اور تیرے ہی نام سے اٹھاؤں گا اگر تو نے میری جان کو روک لیا تو اس پر رحم کرنا اور اگر چھوڑ دیا (زندگی باقی رکھی) تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو صالحین کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کی روایت ابوضمرہ اور اسماعیل بن زکریا نے عبیداللہ کے حوالے سے کی اور یحییٰ اور بشر نے بیان کیا، ان سے عبیداللہ نے، ان سے سعید نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اور اس کی روایت امام مالک اور ابن عجلان نے کی ہے۔ ان سے سعید نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْأَغَرِّ ، وَأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَتَنَزَّلُ رَبُّنَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُلَّ لَيْلَةٍ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا حِينَ يَبْقَى ثُلُثُ اللَّيْلِ الْآخِرُ يَقُولُ: "مَنْ يَدْعُونِي فَأَسْتَجِيبَ لَهُ، مَنْ يَسْأَلُنِي فَأُعْطِيَهُ، مَنْ يَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابوعبداللہ الاغر اور ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے، اس وقت جب رات کا آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے اور فرماتا ہے کون ہے جو مجھ سے دعا کرتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون ہے جو مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اسے دوں، کون ہے جو مجھ سے بخشش طلب کرتا ہے کہ میں اس کی بخشش کروں۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ الْخَلَاءَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ".
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بیت الخلاء جاتے تو یہ دعا پڑھتے «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» اے اللہ! میں خبیث جنوں اور جنیوں کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «سَيِّدُ الاِسْتِغْفَارِ اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ، وَأَبُوءُ لَكَ بِذَنْبِي، فَاغْفِرْ لِي، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ. إِذَا قَالَ حِينَ يُمْسِي فَمَاتَ دَخَلَ الْجَنَّةَ- أَوْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ- وَإِذَا قَالَ حِينَ يُصْبِحُ فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ». مِثْلَهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، کہا ہم سے حسین نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن بریدہ نے بیان کیا، ان سے بشیر بن کعب نے اور ان سے شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے عمدہ استغفار یہ ہے «اللهم أنت ربي لا إله إلا أنت، خلقتني وأنا عبدك، وأنا على عهدك ووعدك ما استطعت، أبوء لك بنعمتك، وأبوء لك بذنبي، فاغفر لي، فإنه لا يغفر الذنوب إلا أنت، أعوذ بك من شر ما صنعت.» اے اللہ! تو میرا پالنے والا ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں اور میں تیرے عہد پر قائم ہوں اور تیرے وعدہ پر۔ جہاں تک مجھ سے ممکن ہے۔ تیری نعمت کا طالب ہو کر تیری پناہ میں آتا ہوں اور اپنے گناہوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں، پس تو میری مغفرت فرما کیونکہ تیرے سوا گناہ اور کوئی نہیں معاف کرتا۔ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اپنے برے کاموں سے۔ اگر کسی نے رات ہوتے ہی یہ کہہ لیا اور اسی رات اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنت میں جائے گا۔ یا (فرمایا کہ) وہ اہل جنت میں ہو گا اور اگر یہ دعا صبح کے وقت پڑھی اور اسی دن اس کی وفات ہو گئی تو بھی ایسا ہی ہو گا۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَنَامَ، قَالَ: بِاسْمِكَ اللَّهُمَّ أَمُوتُ وَأَحْيَا، وَإِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، ان سے ربعی بن حراش نے اور ان سے حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تو کہتے «باسمك اللهم أموت وأحيا» تیرے نام کے ساتھ، اے اللہ! میں مرتا اور تیرے ہی نام سے جیتا ہوں۔ اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا، وإليه النشور» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو لوٹنا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الحُرِّ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"إِذَا أَخَذَ مَضْجَعَهُ مِنَ اللَّيْلِ، قَالَ: اللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا، فَإِذَا اسْتَيْقَظَ، قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ".
ہم سے عبداللہ نے بیان کیا، ان سے ابوحمزہ محمد بن میمون نے، ان سے منصور بن معمر نے، ان سے ربعی بن حراش نے، ان سے خرشہ بن الحر نے اور ان سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اپنی خواب گاہ پر جاتے تو کہتے «اللهم باسمك أموت وأحيا» اے اللہ! میں تیرے ہی نام سے مرتا ہوں اور تیرے ہی نام سے زندہ ہوتا ہوں۔ اور جب بیدار ہوتے تو فرماتے «الحمد لله الذي أحيانا بعد ما أماتنا وإليه النشور".» تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت کے بعد زندگی بخشی اور اسی کی طرف ہم کو جانا ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلِّمْنِي دُعَاءً أَدْعُو بِهِ فِي صَلَاتِي، قَالَ: "قُلْ: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْمًا كَثِيرًا وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِنْ عِنْدِكَ، وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ"، وَقَالَ عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ ، إِنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو لیث بن سعد نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے ابوالخیر مرثد بن عبداللہ نے، ان سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما نے اور ان سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ مجھے ایسی دعا سکھا دیجئیے جسے میں اپنی نماز میں پڑھا کروں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کہا کر «اللهم إني ظلمت نفسي ظلما كثيرا، ولا يغفر الذنوب إلا أنت، فاغفر لي مغفرة من عندك، وارحمني، إنك أنت الغفور الرحيم» اے اللہ! میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے اور گناہوں کو تیرے سوا کوئی معاف نہیں کرتا پس میری مغفرت کر، ایسی مغفرت جو تیرے پاس سے ہو اور مجھ پر رحم کر بلاشبہ تو بڑا مغفرت کرنے ولا، بڑا رحم کرنے والا ہے۔ اور عمرو بن حارث نے بھی اس حدیث کو یزید سے، انہوں نے ابوالخیر سے، انہوں نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے سنا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا آخر تک۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ سُعَيْرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ : "وَلَا تَجْهَرْ بِصَلَاتِكَ، وَلَا تُخَافِتْ بِهَا"، أُنْزِلَتْ فِي الدُّعَاءِ.
ہم سے علی نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک بن سعیر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ «ولا تجهر بصلاتك ولا تخافت بها» دعا کے بارے میں نازل ہوئی (کہ نہ بہت زور زور سے اور نہ بالکل آہستہ آہستہ) بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرو۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، فَقَالَ لَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: "إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا قَعَدَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ إِلَى قَوْلِهِ: الصَّالِحِينَ، فَإِذَا قَالَهَا أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ لِلَّهِ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ صَالِحٍ أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ مِنَ الثَّنَاءِ مَا شَاءَ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے منصور بن معتمر نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نماز میں یہ کہا کرتے تھے کہ اللہ پر سلام ہو، فلاں پر سلام ہو۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک دن فرمایا کہ اللہ خود سلام ہے اس لیے جب تم نماز میں بیٹھو تو یہ پڑھا کرو «التحيات لله» ارشاد «الصالحين.» تک اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو آسمان و زمین میں موجود اللہ تبارک و تعالیٰ کے ہر صالح بندہ کو (یہ سلام) پہنچے گا۔ «أشهد أن لا إله إلا الله، وأشهد أن محمدا عبده ورسوله.» اس کے بعد ثنا میں اختیار ہے جو دعا چاہو پڑھو۔
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا وَرْقَاءُ ، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ذَهَبَ أَهْلُ الدُّثُورِ بِالدَّرَجَاتِ وَالنَّعِيمِ الْمُقِيمِ، قَالَ: "كَيْفَ ذَاكَ ؟"قَالُوا: صَلَّوْا كَمَا صَلَّيْنَا، وَجَاهَدُوا كَمَا جَاهَدْنَا، وَأَنْفَقُوا مِنْ فُضُولِ أَمْوَالِهِمْ وَلَيْسَتْ لَنَا أَمْوَالٌ، قَالَ: "أَفَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَمْرٍ تُدْرِكُونَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَتَسْبِقُونَ مَنْ جَاءَ بَعْدَكُمْ، وَلَا يَأْتِي أَحَدٌ بِمِثْلِ مَا جِئْتُمْ بِهِ، إِلَّا مَنْ جَاءَ بِمِثْلِهِ، تُسَبِّحُونَ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ عَشْرًا، وَتَحْمَدُونَ عَشْرًا، وَتُكَبِّرُونَ عَشْرًا"، تَابَعَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ سُمَيٍّ ، وَرَوَاهُ ابْنُ عَجْلَانَ ، عَنْ سُمَيٍّ ، وَرَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ ، وَرَوَاهُ جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، وَرَوَاهُ سُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم کو زید بن ہارون نے خبر دی، کہا ہم کو ورقاء نے خبر دی، انہیں سمی نے، انہیں ابوصالح ذکوان نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مالدار لوگ بلند درجات اور ہمیشہ رہنے والی جنت کی نعمتوں کو حاصل کر لے گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ کیسے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جس طرح ہم نماز پڑھتے ہیں وہ بھی پڑھتے ہیں اور جس طرح ہم جہاد کرتے ہیں وہ بھی جہاد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ وہ اپنا زائد مال بھی (اللہ کے راستہ میں) خرچ کرتے ہیں اور ہمارے پاس مال نہیں ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسا عمل نہ بتلاؤں جس سے تم اپنے آگے کے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ اور اپنے پیچھے آنے والوں سے آگے نکل جاؤ اور کوئی شخص اتنا ثواب نہ حاصل کر سکے جتنا تم نے کیا ہو، سوا اس صورت کے جب کہ وہ بھی وہی عمل کرے جو تم کرو گے (اور وہ عمل یہ ہے) کہ ہر نماز کے بعد دس مرتبہ«سبحان الله» پڑھا کرو، دس مرتبہ «الحمد الله» پڑھا کرو اور دس مرتبہ «الله اكبر» پڑھا کرو۔ اس کی روایت عبیداللہ بن عمر نے سمی اور رجاء بن حیوہ سے کی اور اس کی روایت جریر نے عبدالعزیز بن رفیع سے کی، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابودرداء رضی اللہ عنہ نے۔ اور اس کی روایت سہیل نے اپنے والد سے کی، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْمُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ الْمُغِيرَةُ : إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ فِي دُبُرِ كُلِّ صَلَاةٍ: "إِذَا سَلَّمَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، اللَّهُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا أَعْطَيْتَ، وَلَا مُعْطِيَ لِمَا مَنَعْتَ، وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ"، وَقَالَ شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُسَيَّبَ .
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے منصور بن معتمر نے، ان سے مسیب بن رافع نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مولا وراد نے بیان کیا کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کو لکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز کے بعد جب سلام پھیرتے تو یہ کہا کرتے تھے «لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك، وله الحمد، وهو على كل شىء قدير، اللهم لا مانع لما أعطيت، ولا معطي لما منعت، ولا ينفع ذا الجد منك الجد".» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، ملک اسی کے لیے ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ تو نے دیا ہے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جو کچھ تو نے روک دیا اسے کوئی دینے والا نہیں اور کسی مالدار اور نصیبہ ور (کو تیری بارگاہ میں) اس کا مال نفع نہیں پہنچا سکتا۔ اور شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے بیان کیا کہ میں نے مسیب رضی اللہ عنہ سے سنا۔
وَمَنْ خَصَّ أَخَاهُ بِالدُّعَاءِ دُونَ نَفْسِهِ وَقَالَ أَبُو مُوسَى: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ ذَنْبَهُ.
اور ان کے لیے دعا کیجئے۔ اور جس نے اپنے آپ کو چھوڑ کر اپنے بھائی کے لیے دعا کی اس کی فضیلت کا بیان۔ اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! عبیدہ ابوعامر کی مغفرت کر، اے اللہ! عبداللہ بن قیس کے گناہ معاف کر۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، قَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَيَا عَامِرُ، لَوْ أَسْمَعْتَنَا مِنْ هُنَيْهَاتِكَ، فَنَزَلَ يَحْدُو بِهِمْ يُذَكِّرُ تَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَذَكَرَ شِعْرًا غَيْرَ هَذَا وَلَكِنِّي لَمْ أَحْفَظْهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ هَذَا السَّائِقُ"، قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: "يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، وَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلَا مَتَّعْتَنَا بِهِ، فَلَمَّا صَافَّ الْقَوْمَ قَاتَلُوهُمْ، فَأُصِيبَ عَامِرٌ بِقَائِمَةِ سَيْفِ نَفْسِهِ فَمَاتَ، فَلَمَّا أَمْسَوْا أَوْقَدُوا نَارًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا هَذِهِ النَّارُ عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقِدُونَ ؟"، قَالُوا: عَلَى حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، فَقَالَ: "أَهْرِيقُوا مَا فِيهَا وَكَسِّرُوهَا"، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا نُهَرِيقُ مَا فِيهَا وَنَغْسِلُهَا قَالَ: "أَوْ ذَاكَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے مسلم کے مولیٰ یزید بن ابی عبیدہ نے اور ان سے سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خیبر گئے (راستہ میں) مسلمانوں میں سے کسی شخص نے کہا عامر! اپنی حدی سناؤ۔ وہ حدی پڑھنے لگے اور کہنے لگے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے اس کے علاوہ دوسرے اشعار بھی انہوں نے پڑھے مجھے وہ یاد نہیں ہیں۔ (اونٹ حدی سن کر تیز چلنے لگے تو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سواریوں کو کون ہنکا رہا ہے، لوگوں نے کہا کہ عامر بن اکوع ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر رحم کرے۔ مسلمانوں میں سے ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کاش ابھی آپ ان سے ہمیں اور فائدہ اٹھانے دیتے۔ پھر جب صف بندی ہوئی تو مسلمانوں نے کافروں سے جنگ کی اور عامر رضی اللہ عنہ کی تلوار چھوٹی تھی جو خود ان کے پاؤں پر لگ گئی اور ان کی موت ہو گئی۔ شام ہوئی تو لوگوں نے جگہ جگہ آگ جلائی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ آگ کیسی ہے، اسے کیوں جلایا گیا ہے؟ صحابہ نے کہا کہ پالتو گدھوں (کا گوشت پکانے) کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کچھ ہانڈیوں میں گوشت ہے اسے پھینک دو اور ہانڈیوں کو توڑ دو۔ ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اجازت ہو تو ایسا کیوں نہ کر لیں کہ ہانڈیوں میں جو کچھ ہے اسے پھینک دیں اور ہانڈیوں کو دھو لیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا یہی کر لو۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرٍو هُوَ ابْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا أَتَاهُ رَجُلٌ بِصَدَقَةٍ قَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ، فَأَتَاهُ أَبِي، فَقَالَ: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے، کہا میں نے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اگر کوئی شخص صدقہ لاتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے اللہ! فلاں کی آل اولاد پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ میرے والد صدقہ لائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! ابی اوفی کی آل اولاد پر رحمتیں نازل فرما۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ جَرِيرًا ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ"، وَهُوَ نُصُبٌ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ يُسَمَّى: الْكَعْبَةَ الْيَمَانِيَةَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ لَا أَثْبُتُ عَلَى الْخَيْلِ، فَصَكَّ فِي صَدْرِي، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ ثَبِّتْهُ، وَاجْعَلْهُ هَادِيًا مَهْدِيًّا"، قَالَ: فَخَرَجْتُ فِي خَمْسِينَ فَارِسًا مِنْ أَحْمَسَ مِنْ قَوْمِي، وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: فَانْطَلَقْتُ فِي عُصْبَةٍ مِنْ قَوْمِي فَأَتَيْتُهَا فَأَحْرَقْتُهَا، ثُمَّ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى تَرَكْتُهَا مِثْلَ الْجَمَلِ الْأَجْرَبِ، فَدَعَا لِأَحْمَسَ، وَخَيْلِهَا.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس نے کہ میں نے جریر بن عبداللہ بجلی سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی ایسا مرد مجاہد ہے جو مجھ کو ذی الخلصہ بت سے آرام پہنچائے وہ ایک بت تھا جس کو جاہلیت میں لوگ پوجا کرتے تھے اور اس کو کعبہ کہا کرتے تھے۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! اس خدمت کے لیے میں تیار ہوں لیکن میں گھوڑے پر ٹھیک جم کر بیٹھ نہیں سکتا ہوں آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مبارک پھیر کر دعا فرمائی کہ اے اللہ! اسے ثابت قدمی عطا فرما اور اس کو ہدایت کرنے والا اور نور ہدایت پانے والا بنا۔ جریر نے کہا کہ پھر میں اپنی قوم احمس کے پچاس آدمی لے کر نکلا اور ابی سفیان نے یوں نقل کیا کہ میں اپنی قوم کی ایک جماعت لے کر نکلا اور میں وہاں گیا اور اسے جلا دیا پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں آپ کے پاس نہیں آیا جب تک میں نے اسے جلے ہوئے خارش زدہ اونٹ کی طرح سیاہ نہ کر دیا۔ پس آپ نے قبیلہ احمس اور اس کے گھوڑوں کے لیے دعا فرمائی۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَسٌ خَادِمُكَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ".
ہم سے سعید بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ انس آپ کا خادم ہے اس کے حق میں دعا فرمائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی «اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له فيما أعطيته» یا اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے، اس میں اسے برکت عطا فرمائیو۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقْرَأُ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: "رَحِمَهُ اللَّهُ لَقَدْ أَذْكَرَنِي كَذَا وَكَذَا آيَةً أَسْقَطْتُهَا فِي سُورَةِ كَذَا وَكَذَا".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدہ بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو مسجد میں قرآن پڑھتے سنا تو فرمایا اللہ اس پر رحم فرمائے اس نے مجھے فلاں فلاں آیتیں یاد دلا دیں جو میں فلاں فلاں سورتوں سے بھول گیا تھا۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَسَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقَالَ رَجُلٌ: إِنَّ هَذِهِ لَقِسْمَةٌ مَا أُرِيدَ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، فَأَخْبَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، وَقَالَ: "يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى لَقَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ هَذَا فَصَبَرَ".
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے، کہا مجھ کو سلیمان بن مہران نے خبر دی، انہیں ابووائل نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز تقسیم فرمائی تو ایک شخص بولا کہ یہ ایسی تقسیم ہے کہ اس سے اللہ کی رضا مقصود نہیں ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر دی تو آپ اس پر غصہ ہوئے اور میں نے خفگی کے آثار آپ کے چہرہ مبارک پر دیکھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ موسیٰ علیہ السلام پر رحم فرمائے، انہیں اس سے بھی زیادہ تکلیف دی گئی لیکن انہوں نے صبر کیا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ أَبُو حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا هَارُونُ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا الزُّبَيْرُ بْنُ الْخِرِّيتِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: "حَدِّثْ النَّاسَ كُلَّ جُمُعَةٍ مَرَّةً، فَإِنْ أَبَيْتَ فَمَرَّتَيْنِ، فَإِنْ أَكْثَرْتَ فَثَلَاثَ مِرَارٍ، وَلَا تُمِلَّ النَّاسَ هَذَا الْقُرْآنَ، وَلَا أُلْفِيَنَّكَ تَأْتِي الْقَوْمَ وَهُمْ فِي حَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِهِمْ فَتَقُصُّ عَلَيْهِمْ، فَتَقْطَعُ عَلَيْهِمْ حَدِيثَهُمْ فَتُمِلُّهُمْ، وَلَكِنْ أَنْصِتْ فَإِذَا أَمَرُوكَ، فَحَدِّثْهُمْ وَهُمْ يَشْتَهُونَهُ، فَانْظُرِ السَّجْعَ مِنَ الدُّعَاءِ فَاجْتَنِبْهُ، فَإِنِّي عَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابَهُ لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ"، يَعْنِي لَا يَفْعَلُونَ إِلَّا ذَلِكَ الِاجْتِنَابَ.
ہم سے یحییٰ بن محمد بن سکن نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حبان بن ہلال ابوحبیب نے بیان کیا، کہا ہم سے ہارون مقری نے بیان، کہا ہم سے زبیر بن خریت نے بیان کیا، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ لوگوں کو وعظ ہفتہ میں صرف ایک دن جمعہ کو کیا کر، اگر تم اس پر تیار نہ ہو تو دو مرتبہ اگر تم زیادہ ہی کرنا چاہتے ہو تو پس تین دن اور لوگوں کو اس قرآن سے اکتا نہ دینا، ایسا نہ ہو کہ تم کچھ لوگوں کے پاس پہنچو، وہ اپنی باتوں میں مصروف ہوں اور تم پہنچتے ہی ان سے اپنی بات (بشکل وعظ) بیان کرنے لگو اور ان کی آپس کی گفتگو کو کاٹ دو کہ اس طرح وہ اکتا جائیں، بلکہ (ایسے مقام پر) تمہیں خاموش رہنا چاہئے۔ جب وہ تم سے کہیں تو پھر تم انہیں اپنی باتیں سناؤ۔ اس طرح کہ وہ بھی اس تقریر کے خواہشمند ہوں اور دعا میں قافیہ بندی سے پرہیز کرتے رہنا، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو دیکھا ہے کہ وہ ہمیشہ ایسا ہی کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ، وَلَا يَقُولَنَّ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي، فَإِنَّهُ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبدالعزیز بن صہیب نے خبر دی، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی دعا کرے تو اللہ سے قطعی طور پر مانگے اور یہ نہ کہے کہ اے اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے عطا فرما کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمُ اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي إِنْ شِئْتَ، اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي إِنْ شِئْتَ لِيَعْزِمْ الْمَسْأَلَةَ، فَإِنَّهُ لَا مُكْرِهَ لَهُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس طرح نہ کہے کہ یا اللہ! اگر تو چاہے تو مجھے معاف کر دے، میری مغفرت کر دے۔ بلکہ یقین کے ساتھ دعا کرے کیونکہ اللہ پر کوئی زبردستی کرنے والا نہیں ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ يَقُولُ: دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، انہیں عبدالرحمٰن بن ازہر کے غلام ابوعبید نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک کہ وہ جلدی نہ کرے کہ کہنے لگے کہ میں نے دعا کی تھی اور میری دعا قبول نہیں ہوئی۔
وَقَالَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: رَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَيْهِ وَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَبْرَأُ إِلَيْكَ مِمَّا صَنَعَ خَالِدٌ.
اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اپنے ہاتھ اٹھائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بغلوں کی سفیدی دیکھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! خالد نے جو کچھ کیا ہے میں اس سے بیزار ہوں۔
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ الْأُوَيْسِيُّ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَشَرِيكٍ، سَمِعَا أَنَسًا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى رَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ.
ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے کہا مجھ سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن سعید اور شریک بن ابی نمر نے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ اتنے اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَسْقِيَنَا، فَتَغَيَّمَتِ السَّمَاءُ وَمُطِرْنَا حَتَّى مَا كَادَ الرَّجُلُ يَصِلُ إِلَى مَنْزِلِهِ، فَلَمْ تَزَلْ تُمْطَرُ إِلَى الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ، فَقَامَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ غَيْرُهُ، فَقَالَ: ادْعُ اللَّهَ أَنْ يَصْرِفَهُ عَنَّا فَقَدْ غَرِقْنَا، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا، فَجَعَلَ السَّحَابُ يَتَقَطَّعُ حَوْلَ الْمَدِينَةِ، وَلَا يُمْطِرُ أَهْلَ الْمَدِينَةِ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہا کہ یا رسول اللہ! اللہ سے دعا فرما دیجئیے کہ ہمارے لیے بارش برسائے (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی) اور آسمان پر بادل چھا گیا اور بارش برسنے لگی، یہ حال ہو گیا کہ ہمارے لیے گھر تک پہنچنا مشکل تھا۔ یہ بارش اگلے جمعہ تک ہوتی رہی پھر وہی صحابی یا کوئی دوسرے صحابی اس دوسرے جمعہ کو کھڑے ہوئے اور کہا کہ اللہ سے دعا فرمائیے کہ اب بارش بند کر دے ہم تو ڈوب گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے چاروں طرف بستیوں کو سیراب کر اور ہم پر بارش بند کر دے۔ چنانچہ بادل ٹکڑے ہو کر مدینہ کے چاروں طرف بستیوں میں چلا گیا اور مدینہ والوں پر بارش رک گئی۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ: "خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى هَذَا الْمُصَلَّى يَسْتَسْقِي، فَدَعَا وَاسْتَسْقَى، ثُمَّ اسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ وَقَلَبَ رِدَاءَهُ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عمرو بن یحییٰ نے بیان کیا، ان سے عبادہ بن تمیم نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس عیدگاہ میں استسقاء کی دعا کے لیے نکلے اور بارش کی دعا کی، پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنی چادر کو پلٹا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْأَسْوَدِ ، حَدَّثَنَا حَرَمِيٌّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتْ أُمِّي: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَادِمُكَ أَنَسٌ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ".
ہم سے عبداللہ بن ابی الاسود نے بیان کیا، کہا ہم سے حرمی بن عمارہ نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ میری والدہ (ام سلیم رضی اللہ عنہ) نے کہا: یا رسول اللہ! انس رضی اللہ عنہ آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرما دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! اس کے مال و اولاد کو زیادہ کر اور جو کچھ تو نے اسے دیا ہے اس میں برکت عطا فرما۔
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُو عِنْدَ الْكَرْبِ، يَقُولُ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پریشانی کے وقت یہ دعا کرتے تھے «لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب السموات والأرض، رب العرش العظيم» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو بہت عظمت والا ہے اور برد بار ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمین کا رب اور بڑے بھاری عرش کا رب ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامِ بْنِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ عِنْدَ الْكَرْبِ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ الْعَظِيمُ الْحَلِيمُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ رَبُّ السَّمَوَاتِ وَرَبُّ الْأَرْضِ، وَرَبُّ الْعَرْشِ الْكَرِيمِ"، وَقَالَ وَهْبٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، مِثْلَهُ.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ہشام بن ابی عبداللہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، ان سے ابوالعالیہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حالت پریشانی میں یہ دعا کیا کرتے تھے «لا إله إلا الله العظيم الحليم، لا إله إلا الله رب العرش العظيم، لا إله إلا الله رب السموات، ورب الأرض، ورب العرش الكريم» اللہ صاحب عظمت اور بردبار کے سوا کوئی معبود نہیں، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو عرش عظیم کا رب ہے، اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں جو آسمانوں اور زمینوں کا رب ہے اور عرش عظیم کا رب ہے۔ اور وہب نے بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اس طرح بیان کیا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي سُمَيٌّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ، وَدَرَكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ"، قَالَ سُفْيَانُ: الْحَدِيثُ ثَلَاثٌ زِدْتُ أَنَا وَاحِدَةً، لَا أَدْرِي أَيَّتُهُنَّ هِيَ.
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کی سختی، تباہی تک پہنچ جانے، قضاء و قدر کی برائی اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگتے تھے اور سفیان نے کہا کہ حدیث میں تین صفات کا بیان تھا۔ ایک میں نے بھلا دی تھی اور مجھے یاد نہیں کہ وہ ایک کون سی صفت ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَعُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ في رجال من أهل العلم، أن عائشة رضي الله عنها، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَهُوَ صَحِيحٌ: "لَنْ يُقْبَضَ نَبِيٌّ قَطُّ حَتَّى يَرَى مَقْعَدَهُ مِنَ الْجَنَّةِ ثُمَّ يُخَيَّرُ"، فَلَمَّا نَزَلَ بِهِ وَرَأْسُهُ عَلَى فَخِذِي، غُشِيَ عَلَيْهِ سَاعَةً، ثُمَّ أَفَاقَ فَأَشْخَصَ بَصَرَهُ إِلَى السَّقْفِ، ثُمَّ قَالَ: "اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى"، قُلْتُ: إِذًا لَا يَخْتَارُنَا، وَعَلِمْتُ أَنَّهُ الْحَدِيثُ الَّذِي كَانَ يُحَدِّثُنَا وَهُوَ صَحِيحٌ، قَالَتْ: فَكَانَتْ تِلْكَ آخِرَ كَلِمَةٍ تَكَلَّمَ بِهَا: اللَّهُمَّ الرَّفِيقَ الْأَعْلَى.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث بن سعد نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عقیل نے، ان سے ابن شہاب نے، انہیں سعید بن مسیب اور عروہ بن زبیر نے بہت سے علم والوں کے سامنے خبر دی کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیمار نہیں تھے تو فرمایا کرتے تھے کہ جب بھی کسی نبی کی روح قبض کی جاتی تو پہلے جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا دیا جاتا ہے، اس کے بعد اسے اختیار دیا جاتا ہے (کہ چاہیں دنیا میں رہیں یا جنت میں چلیں) چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وقت آپ پر تھوڑی دیر کے لیے غشی طاری ہوئی۔ پھر جب آپ کو اس سے کچھ ہوش ہوا تو چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگے، پھر فرمایا «اللهم الرفيق الأعلى» اے اللہ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔ میں نے سمجھ لیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب ہمیں اختیار نہیں کر سکتے، میں سمجھ گئی کہ جو بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحت کے زمانے میں بیان فرمایا کرتے تھے، یہ وہی بات ہے۔ بیان کیا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلمہ تھا جو آپ نے زبان سے ادا فرمایا کہا «اللهم الرفيق الأعلى» اے اللہ! رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ قَيْسٍ ، قَالَ: أَتَيْتُ خَبَّابًا وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعًا، قَالَ: "لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لَدَعَوْتُ بِهِ"،
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے سات داغ (کسی بیماری کے علاج کے لیے) لگوائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں ضرور اس کی دعا کرتا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ ، قَالَ: أَتَيْتُ خَبَّابًا وَقَدِ اكْتَوَى سَبْعًا فِي بَطْنِهِ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: "لَوْلَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَانَا أَنْ نَدْعُوَ بِالْمَوْتِ لَدَعَوْتُ بِهِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے قیس بن ابی حازم نے بیان کیا، کہا کہ میں خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے اپنے پیٹ پر سات داغ لگوا رکھے تھے، میں نے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی ضرور دعا کر لیتا۔
حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِّيًا لِلْمَوْتِ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو اسماعیل بن علیہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے بتایا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص کسی تکلیف کی وجہ سے جو اسے ہونے لگی ہو، موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر موت کی تمنا ضروری ہی ہو جائے تو یہ کہے کہ اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے مجھے زندہ رکھیو اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو مجھے اٹھا لیجیو۔
وَقَالَ أَبُو مُوسَى: وُلِدَ لِي غُلَامٌ وَدَعَا لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبَرَكَةِ.
اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میرے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے برکت کی دعا فرمائی۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ ، عَنِ الْجَعْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ ، يَقُولُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَكَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوئِهِ، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى خَاتَمِهِ بَيْنَ كَتِفَيْهِ مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے حاتم بن اسماعیل نے بیان کیا، ان سے جعد بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا کہ میں نے سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میری خالہ مجھے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا یہ بھانجا بیمار ہے۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعا کی۔ پھر آپ نے وضو کیا اور میں نے آپ کے وضو کا پانی پیا۔ اس کے بعد میں آپ کی پشت کی طرف کھڑا ہو گیا اور میں نے مہر نبوت دیکھی جو دونوں شانوں کے درمیان میں تھی جیسے چھپر کھٹ کی گھنڈی ہوتی ہے یا حجلہ کا انڈہ۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي عُقَيْلٍ ، أَنَّهُ كَانَ يَخْرُجُ بِهِ جَدُّهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هِشَامٍ مِنَ السُّوقِ، أَوْ إِلَى السُّوقِ، فَيَشْتَرِي الطَّعَامَ، فَيَلْقَاهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ ، وَابْنُ عُمَرَ ، فَيَقُولَانِ: أَشْرِكْنَا فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ دَعَا لَكَ بِالْبَرَكَةِ، فَيُشْرِكُهُمْ فَرُبَّمَا أَصَابَ الرَّاحِلَةَ كَمَا هِيَ، فَيَبْعَثُ بِهَا إِلَى الْمَنْزِلِ".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا ہم سے سعید بن ابی ایوب نے بیان کیا، ان سے ابوعقیل (زہرہ بن معبد) نے کہ انہیں ان کے دادا عبداللہ بن ہشام رضی اللہ عنہ ساتھ لے کر بازار سے نکلتے یا بازار جاتے اور کھانے کی کوئی چیز خریدتے، پھر اگر عبداللہ بن زبیر یا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ان سے ملاقات ہو جاتی تو وہ کہتے کہ ہمیں بھی اس میں شریک کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے لیے برکت کی دعا فرمائی تھی۔ بعض دفعہ تو ایک اونٹ کے بوجھ کا پورا غلہ نفع میں آ جاتا اور وہ اسے گھر بھیج دیتے تھے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِيمَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ ، "وَهُوَ الَّذِي مج رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ وَهُوَ غُلَامٌ مِنْ بِئْرِهِمْ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں محمود بن ربیع رضی اللہ عنہ نے خبر دی یہ محمود وہ بزرگ ہیں جن کے منہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت وہ بچے تھے، انہیں کے کنوئیں سے پانی لے کر کلی کر لی تھی۔
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُؤْتَى بِالصِّبْيَانِ فَيَدْعُو لَهُمْ، فَأُتِيَ بِصَبِيٍّ، فَبَالَ عَلَى ثَوْبِهِ، فَدَعَا بِمَاءٍ فَأَتْبَعَهُ إِيَّاهُ، وَلَمْ يَغْسِلْهُ".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچوں کو لایا جاتا تو آپ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک بچہ لایا گیا اور اس نے آپ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور پیشاب کی جگہ پر اسے ڈالا کپڑے کو دھویا نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ ثَعْلَبَةَ بْنِ صُعَيْرٍ "وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ مَسَحَ عَنْهُ أَنَّهُ رَأَى سَعْدَ بْنَ أَبِي وَقَّاصٍ يُوتِرُ بِرَكْعَةٍ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہیں زہری نے، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ثعلبہ بن صعیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھ یا منہ پر ہاتھ پھیرا تھا۔ انہوں نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو ایک رکعت وتر نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى ، قَالَ: لَقِيَنِي كَعْبُ بْنُ عُجْرَةَ ، فَقَالَ: أَلَا أُهْدِي لَكَ هَدِيَّةً ؟ إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "فَقُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، کہا ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے سنا، کہا کہ کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور کہا کہ میں تمہیں ایک تحفہ نہ دوں؟ (یعنی ایک عمدہ حدیث نہ سناؤں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم لوگوں میں تشریف لائے تو ہم نے کہا: یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ ہم آپ کو سلام کس طرح کریں، لیکن آپ پر درود ہم کس طرح بھیجیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہو «اللهم صل على محمد، وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد، اللهم بارك على محمد، وعلى آل محمد، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد» اے اللہ! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اپنی رحمت نازل کر اور آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر، جیسا کہ تو نے ابراہیم پر رحمت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔ اے اللہ! محمد پر اور آل محمد پر برکت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی، بلاشبہ تو تعریف کیا ہوا اور پاک ہے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حَمْزَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ ، وَالدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا السَّلَامُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي ؟ قَالَ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ عَبْدِكَ وَرَسُولِكَ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَآلِ إِبْرَاهِيمَ".
ہم سے ابراہیم بن حمزہ زبیری نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن ابی حازم اور دراوردی نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ بن اسامہ نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن خباب نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کو سلام اس طرح کیا جاتا ہے، لیکن آپ پر درود کس طرح بھیجا جاتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہو «اللهم صل على محمد عبدك ورسولك، كما صليت على إبراهيم، وبارك على محمد وعلى آل محمد، كما باركت على إبراهيم وآل إبراهيم» اے اللہ! اپنی رحمت نازل کر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر جو تیرے بندے ہیں اور تیرے رسول ہیں جس طرح تو نے رحمت نازل کی ابراہیم پر اور برکت بھیج محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر اور ان کی آل پر جس طرح برکت بھیجی تو نے ابراہم پر اور آل ابراہیم پر۔
وَقَوْلُ اللَّهِ تَعَالَى: وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ سورة التوبة آية 103.
اور اللہ تعالیٰ ٰ نے (سورۃ التوبہ میں) اپنے پیغمبر سے یوں فرمایا «وصل عليهم إن صلاتك سكن لهم» یعنی ان پر درود بھیج کیونکہ تیرے درود (دعا) سے ان کو تسلی ہوتی ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: كَانَ إِذَا أَتَى رَجُلٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَتِهِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَيْهِ"، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے یبان کیا، ان سے عمرو بن مرہ نے اور ان سے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی شخص اپنی زکوٰۃ لے کر آتا تو آپ فرماتے «اللهم صل عليه"» اے اللہ! اس پر اپنی رحمت نازل فرما۔ میرے والد بھی اپنی زکوٰۃ لے کر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم صل على آل أبي أوفى"» اے اللہ! آل ابی اوفی پر اپنی رحمت نازل فرما۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو حُمَيْدٍ السَّاعِدِيُّ ، أَنَّهُمْ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ ؟ قَالَ: "قُولُوا: اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ، وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَأَزْوَاجِهِ، وَذُرِّيَّتِهِ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے، ان سے عبداللہ بن ابی بکر نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عمرو بن سلیم زرقی نے بیان کیا کہ ہم کو ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم آپ پر کس طرح درود بھیجیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس طرح کہو «اللهم صل على محمد وأزواجه وذريته، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد وأزواجه وذريته، كما باركت على آل إبراهيم، إنك حميد مجيد» اے اللہ! محمد اور آپ کی ازواج اور آپ کی اولاد پر اپنی رحمت نازل کر جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر رحمت نازل کی اور محمد اور ان کی ازواج اور ان کی اولاد پر برکت نازل کر، جیسا کہ تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکت نازل کی۔ بلاشبہ تو تعریف کیا گیا شان و عظمت والا ہے۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "اللَّهُمَّ فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ سَبَبْتُهُ، فَاجْعَلْ ذَلِكَ لَهُ قُرْبَةً إِلَيْكَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے خبر دی، انہیں ابن شہاب نے، کہا کہ مجھ کو سعید بن مسیب نے خبر دی اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میں نے جس مومن کو بھی برا بھلا کہا ہو تو اس کے لیے اسے قیامت کے دن اپنی قربت کا ذریعہ بنا دے۔
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَحْفَوْهُ الْمَسْأَلَةَ، فَغَضِبَ فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، فَقَالَ: "لَا تَسْأَلُونِي الْيَوْمَ عَنْ شَيْءٍ إِلَّا بَيَّنْتُهُ لَكُمْ"، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ يَمِينًا وَشِمَالًا، فَإِذَا كُلُّ رَجُلٍ لَافٌّ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ يَبْكِي، فَإِذَا رَجُلٌ كَانَ إِذَا لَاحَى الرِّجَالَ يُدْعَى لِغَيْرِ أَبِيهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَبِي ؟ قَالَ: حُذَافَةُ، ثُمَّ أَنْشَأَ عُمَرُ، فَقَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَسُولًا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الْفِتَنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا رَأَيْتُ فِي الْخَيْرِ وَالشَّرِّ كَالْيَوْمِ قَطُّ، إِنَّهُ صُوِّرَتْ لِي الْجَنَّةُ وَالنَّارُ حَتَّى رَأَيْتُهُمَا وَرَاءَ الْحَائِطِ"، وَكَانَ قَتَادَةُ يَذْكُرُ عِنْدَ هَذَا الْحَدِيثِ هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ سورة المائدة آية 101.
ہم سے حفص بن عمر حوضی نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہصحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کئے اور جب بہت زیادہ کئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگواری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ممبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ آج تم مجھ سے جو بات پوچھو گے میں بتاؤں گا۔ اس وقت میں نے دائیں بائیں دیکھا تو تمام صحابہ سر اپنے کپڑوں میں لپیٹے ہوئے رو رہے تھے، ایک صاحب جن کا اگر کسی سے جھگڑا ہوتا تو انہیں ان کے باپ کے سوا کسی اور کی طرف (طعنہ کے طور پر) منسوب کیا جاتا تھا۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! میرے باپ کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حذافہ۔ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ اٹھے اور عرض کیا ہم اللہ سے راضی ہیں کہ ہمارا رب ہے، اسلام سے کہ وہ دین ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ وہ سچے رسول ہیں، ہم فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آج کی طرح خیر و شر کے معاملہ میں میں نے کوئی دن نہیں دیکھا، میرے سامنے جنت اور دوزخ کی تصویر لائی گئی اور میں نے انہیں دیوار کے اوپر دیکھا۔ قتادہ اس حدیث کو بیان کرتے وقت (سورۃ المائدہ کی) اس آیت کا ذکر کیا کرتے تھے «يا أيها الذين آمنوا لا تسألوا عن أشياء إن تبد لكم تسؤكم» اے ایمان والو! ایسی چیزوں کے متعلق نہ سوال کرو کہ اگر تمہارے سامنے ان کا جواب ظاہر ہو جائے تو تم کو برا لگے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو مَوْلَى الْمُطَّلِبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حَنْطَبٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَبِي طَلْحَةَ: "الْتَمِسْ لَنَا غُلَامًا مِنْ غِلْمَانِكُمْ يَخْدُمُنِي"، فَخَرَجَ بِي أَبُو طَلْحَةَ يُرْدِفُنِي وَرَاءَهُ، فَكُنْتُ أَخْدُمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كُلَّمَا نَزَلَ، فَكُنْتُ أَسْمَعُهُ يُكْثِرُ أَنْ يَقُولَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْبُخْلِ، وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ"، فَلَمْ أَزَلْ أَخْدُمُهُ حَتَّى أَقْبَلْنَا مِنْ خَيْبَرَ، وَأَقْبَلَ بِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ قَدْ حَازَهَا، فَكُنْتُ أَرَاهُ يُحَوِّي وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ أَوْ كِسَاءٍ، ثُمَّ يُرْدِفُهَا وَرَاءَهُ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالصَّهْبَاءِ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ، ثُمَّ أَرْسَلَنِي فَدَعَوْتُ رِجَالًا، فَأَكَلُوا وَكَانَ ذَلِكَ بِنَاءَهُ بِهَا، ثُمَّ أَقْبَلَ حَتَّى إِذَا بَدَا لَهُ أُحُدٌ قَالَ: "هَذَا جُبَيْلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ، فَلَمَّا أَشْرَفَ عَلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أُحَرِّمُ مَا بَيْنَ جَبَلَيْهَا، مِثْلَ مَا حَرَّمَ بِهِ إِبْرَاهِيمُ مَكَّةَ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو، مطلب بن عبداللہ بن حنطب کے غلام نے بیان کیا، انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطلحہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اپنے یہاں کے لڑکوں میں سے کوئی بچہ تلاش کرو جو میرا کام کر دیا کرے۔ چنانچہ ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مجھے اپنی سواری پر پیچھے بیٹھا کر لے گئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی گھر ہوتے تو میں آپ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ میں نے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا اکثر پڑھا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن، والعجز والكسل، والبخل والجبن، وضلع الدين، وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی و کمزوری سے اور بخل سے اور بزدلی سے اور قرض کے بوجھ سے اور انسانوں کے غلبہ سے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرتا رہا۔ پھر ہم خیبر سے واپس آئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کے ساتھ واپس ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے منتخب کیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے عبا یا چادر سے پردہ کیا اور انہیں اپنی سواری پر اپنے پیچھے بٹھایا۔ جب ہم مقام صہبا پہنچے تو آپ نے ایک چرمی دستر خوان پر کچھ مالیدہ تیار کرا کے رکھوایا پھر مجھے بھیجا اور میں کچھ صحابہ کو بلا لایا اور سب نے اسے کھایا، یہ آپ کی دعوت ولیمہ تھی۔ اس کے بعد آپ آگے بڑھے اور احد پہاڑ دکھائی دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ آپ جب مدینہ منورہ پہنچے تو فرمایا اے اللہ! میں اس شہر کے دونوں پہاڑوں کے درمیانی علاقہ کو اس طرح حرمت والا قرار دیتا ہوں جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرمت والا قرار دیا تھا۔ اے اللہ! یہاں والوں کے مد میں اور ان کے صاع میں برکت عطا فرما۔
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أُمَّ خَالِدٍ بِنْتَ خَالِدٍ ، قَالَ: وَلَمْ أَسْمَعْ أَحَدًا سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَهَا، قَالَتْ: "سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
ہم سے عبداللہ بن زبیر حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ام خالد بنت خالد بن سعید رضی اللہ عنہما سے سنا (موسیٰ نے) بیان کیا کہ میں نے کسی سے نہیں سنا کہ ان کی بیان کی ہوئی حدیث سے مختلف کسی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگتے تھے۔
حَدَّثَنَا آدَمُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ مُصْعَبٍ ، كَانَ سَعْدٌ يَأْمُرُ بِخَمْسٍ وَيَذْكُرُهُنّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ كَانَ يَأْمُرُ بِهِنَّ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا يَعْنِي فِتْنَةَ الدَّجَّالِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص نے کہ سعد رضی اللہ عنہ پانچ باتوں کا حکم دیتے تھے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے ذکر کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے پناہ مانگنے کا حکم کرتے تھے کہ «اللهم إني أعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا يعني فتنة الدجال وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ بدترین بڑھاپا مجھ پر آ جائے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں دنیا کے فتنہ سے، اس سے مراد دجال کا فتنہ ہے اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: دَخَلَتْ عَلَيَّ عَجُوزَانِ مِنْ عُجُزِ يَهُودِ الْمَدِينَةِ، فَقَالَتَا لِي: إِنَّ أَهْلَ الْقُبُورِ يُعَذَّبُونَ فِي قُبُورِهِمْ، فَكَذَّبْتُهُمَا وَلَمْ أُنْعِمْ أَنْ أُصَدِّقَهُمَا، فَخَرَجَتَا وَدَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ عَجُوزَيْنِ وَذَكَرْتُ لَهُ، فَقَالَ: "صَدَقَتَا إِنَّهُمْ يُعَذَّبُونَ عَذَابًا تَسْمَعُهُ الْبَهَائِمُ كُلُّهَا"، فَمَا رَأَيْتُهُ بَعْدُ فِي صَلَاةٍ، إِلَّا تَعَوَّذَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ.
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے ابووائل نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ مدینہ کے یہودیوں کی دو بوڑھی عورتیں میرے پاس آئیں اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ قبر والوں کو ان کی قبر میں عذاب ہو گا۔ لیکن میں نے انہیں جھٹلایا اور ان کی (بات کی) تصدیق نہیں کر سکی۔ پھر وہ دونوں عورتیں چلی گئیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! دو بوڑھی عورتیں تھیں، پھر میں آپ سے واقعہ کا ذکر کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہوں نے صحیح کہا، قبر والوں کو عذاب ہو گا اور ان کے عذاب کو تمام چوپائے سنیں گے۔ پھر میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر نماز میں قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگنے لگے تھے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَالْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے اپنے والد سے سنا، بیان کیا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من العجز والكسل، والجبن والهرم، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة المحيا والممات» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے اور بہت زیادہ بڑھاپے سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں زندگی اور موت کی آزمائشوں سے۔
حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْمَأْثَمِ، وَالْمَغْرَمِ، وَمِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَمِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ عَنِّي خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا، كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ".
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وہیب نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم، والمأثم والمغرم، ومن فتنة القبر وعذاب القبر، ومن فتنة النار وعذاب النار، ومن شر فتنة الغنى، وأعوذ بك من فتنة الفقر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل عني خطاياى بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا، كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، بہت زیادہ بڑھاپے سے، گناہ سے، قرض سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور دوزخ کی آزمائش سے اور دوزخ کے عذاب سے اور مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں محتاجی کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔ اے اللہ! مجھ سے میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے اس طرح پاک و صاف کر دے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے پاک صاف کر دیا اور مجھ میں اور میرے گناہوں میں اتنی دوری کر دے جتنی مشرق اور مغرب میں دوری ہے۔
حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَا سليمان ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي عَمْرٍو ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَمِّ، وَالْحَزَنِ، وَالْعَجْزِ، وَالْكَسَلِ، وَالْجُبْنِ، وَالْبُخْلِ، وَضَلَعِ الدَّيْنِ، وَغَلَبَةِ الرِّجَالِ".
ہم سے خالد بن مخلد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن ابی عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا، کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الهم والحزن، والعجز والكسل، والجبن والبخل، وضلع الدين، وغلبة الرجال» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں غم و الم سے، عاجزی سے، سستی سے، بزدلی سے، بخل، قرض چڑھ جانے اور لوگوں کے غلبہ سے۔
الْبُخْلُ وَالْبَخَلُ وَاحِدٌ، مِثْلُ الْحُزْنِ وَالْحَزَنِ.
«بخل» (باء کے ضمہ اور خاء کے سکون) اور «بخل» (باء کے نصب اور خاء کے نصب کے ساتھ) ایک ہی ہیں جیسے «حزن» اور «حزن» ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنِي غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْسَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، كَانَ يَأْمُرُ بِهَؤُلَاءِ الْخَمْسِ وَيُحَدِّثُهُنَّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے غندر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد نے بیان کیا اور ان سے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہ وہ ان پانچ باتوں سے پناہ مانگنے کا حکم دیتے تھے اور انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالہ سے بیان کرتے تھے کہ «اللهم إني أعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا، وأعوذ بك من عذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس سے کہ ناکارہ عمر میں پہنچا دیا جاؤں، میں تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور میں تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے۔
أَرَاذِلُنَا أَسْقَاطُنَا.
(سورۃ ہود میں جو لفظ) «أراذلنا» آیا ہے اس سے «سقاطنا» یعنی کمینے، پاپی لوگ مراد ہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "يَتَعَوَّذُ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْهَرَمِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ".
ہم سے اس حدیث کو ابومعمر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز بن صہیب نے بیان کیا اور ان سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگتے تھے اور کہتے تھے کہ «اللهم إني أعوذ بك من الكسل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك من الهرم، وأعوذ بك من البخل» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں ناکارہ بڑھاپے سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ حَبِّبْ إِلَيْنَا الْمَدِينَةَ، كَمَا حَبَّبْتَ إِلَيْنَا مَكَّةَ، أَوْ أَشَدَّ وَانْقُلْ حُمَّاهَا إِلَى الْجُحْفَةِ، اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي مُدِّنَا وَصَاعِنَا".
ہم سے محمد بن یوسف فریابی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم حبب إلينا المدينة، كما حببت إلينا مكة أو أشد، وانقل حماها إلى الجحفة، اللهم بارك لنا في مدنا وصاعنا» اے اللہ! ہمارے دل میں مدینہ کی ایسی ہی محبت پیدا کر دے جیسی تو نے مکہ کی محبت ہمارے دل میں پیدا کی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ اور اس کے بخار کو جحفہ میں منتقل کر دے، اے اللہ! ہمارے لیے ہمارے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّ أَبَاهُ ، قَالَ: عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ مِنْ شَكْوَى أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَ بِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي، قَالَ: "لَا"، قُلْتُ: فَبِشَطْرِهِ، قَالَ: "الثُّلُثُ كَثِيرٌ إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا أُجِرْتَ حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ"، قُلْتُ: أَأُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي، قَالَ: "إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ دَرَجَةً وَرِفْعَةً وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ، وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ، وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ"، لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، قَالَ: سَعْدٌ رَثَى لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں عامر بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے موقع پر میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میری اس بیماری نے مجھے موت سے قریب کر دیا تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ خود مشاہدہ فرما رہے ہیں کہ بیماری نے مجھے کہاں پہنچا دیا ہے اور میرے پاس مال و دولت ہے اور سوا ایک لڑکی کے اس کا اور کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنی دولت کا دو تہائی صدقہ کر دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آدھی کا کر دوں؟ فرمایا کہ ایک تہائی بہت ہے اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں اور یقین رکھو کہ تم جو کچھ بھی خرچ کرو گے اور اس سے مقصود اللہ کی خوشنودی ہوئی تمہیں تو اس پر ثواب ملے گا، یہاں تک کہ اگر تم اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ رکھو (تو اس پر بھی ثواب ملے گا) میں نے عرض کیا میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے چھوڑ دیا جاؤں گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تم پیچھے چھوڑ دئیے جاؤ اور پھر کوئی عمل کرو جس سے مقصود اللہ کی رضا ہو تو تمہارا مرتبہ بلند ہو گا اور امید ہے کہ تم ابھی زندہ رہو گے اور کچھ قومیں تم سے فائدہ اٹھائیں گی اور کچھ نقصان اٹھائیں گی۔ اے اللہ! میرے صحابہ کی ہجرت کو کامیاب فرما اور انہیں الٹے پاؤں واپس نہ کر، البتہ افسوس سعد بن خولہ کا ہے۔ سعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر افسوس کا اظہار اس وجہ سے کیا تھا کہ ان کا انتقال مکہ معظمہ میں ہو گیا تھا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: تَعَوَّذُوا بِكَلِمَاتٍ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ بِهِنَّ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ أُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ".
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم کو حسین بن علی جعفی نے خبر دی، انہیں زائدہ بن قدامہ نے، انہیں عبدالملک بن عمیر نے، انہیں مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ان کلمات کے ذریعہ اللہ کی پناہ مانگو جن کے ذریعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من أن أرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا، وعذاب القبر» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بزدلی سے، تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے، اس سے کہ ناکارہ عمر کو پہنچوں، تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْهَرَمِ، وَالْمَغْرَمِ، وَالْمَأْثَمِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ خَطَايَايَ بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا يُنَقَّى الثَّوْبُ الْأَبْيَضُ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ".
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے وکیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے بیان کیا اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا کیا کرتے تھے کہا «اللهم إني أعوذ بك من الكسل والهرم والمغرم والمأثم، اللهم إني أعوذ بك من عذاب النار وفتنة النار وعذاب القبر، وشر فتنة الغنى، وشر فتنة الفقر، ومن شر فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل خطاياى بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا، كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياى كما باعدت بين المشرق والمغرب» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، ناکارہ عمر سے، بڑھاپے سے، قرض سے اور گناہ سے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے عذاب سے، دوزخ کی آزمائش سے، قبر کے عذاب سے، مالداری کی بری آزمائش سے، محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ! میرے گناہوں کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے پاک کر دے، جس طرح سفید کپڑا میل سے صاف کر دیا جاتا ہے اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان اتنا فاصلہ کر دے جتنا فاصلہ مشرق و مغرب میں ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ ، حَدَّثَنَا سَلَّامُ بْنُ أَبِي مُطِيعٍ ، عَنْ هِشَامٍa>، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ خَالَتِهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَتَعَوَّذُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَمِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سلام بن ابی مطیع نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، ان سے ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے ان کی خالہ (ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پناہ مانگا کرتے تھے کہا «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار ومن عذاب النار، وأعوذ بك من فتنة القبر، وأعوذ بك من عذاب القبر، وأعوذ بك من فتنة الغنى، وأعوذ بك من فتنة الفقر، وأعوذ بك من فتنة المسيح الدجال» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کی آزمائش سے، دوزخ کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں قبر کے عذاب سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مالداری کی آزمائش سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں مسیح دجال کی آزمائش سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ النَّارِ، وَعَذَابِ النَّارِ، وَفِتْنَةِ الْقَبْرِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْغِنَى، وَشَرِّ فِتْنَةِ الْفَقْرِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ فِتْنَةِ الْمَسِيحِ الدَّجَّالِ، اللَّهُمَّ اغْسِلْ قَلْبِي بِمَاءِ الثَّلْجِ وَالْبَرَدِ، وَنَقِّ قَلْبِي مِنَ الْخَطَايَا كَمَا نَقَّيْتَ الثَّوْبَ الْأَبْيَضَ مِنَ الدَّنَسِ، وَبَاعِدْ بَيْنِي وَبَيْنَ خَطَايَايَ كَمَا بَاعَدْتَ بَيْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ، اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْكَسَلِ، وَالْمَأْثَمِ، وَالْمَغْرَمِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو ابومعاویہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو ہشام بن عروہ نے خبر دی، انہیں ان کے والد عروہ بن زبیر نے اور ان سے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من فتنة النار وعذاب النار، وفتنة القبر وعذاب القبر، وشر فتنة الغنى وشر فتنة الفقر، اللهم إني أعوذ بك من شر فتنة المسيح الدجال، اللهم اغسل قلبي بماء الثلج والبرد، ونق قلبي من الخطايا كما نقيت الثوب الأبيض من الدنس، وباعد بيني وبين خطاياي، كما باعدت بين المشرق والمغرب، اللهم إني أعوذ بك من الكسل، والمأثم والمغرم» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں دوزخ کے فتنہ سے اور دوزخ کے عذاب سے اور قبر کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے اور مالداری کی بری آزمائش سے اور محتاجی کی بری آزمائش سے اور مسیح دجال کی بری آزمائش سے۔ اے اللہ! میرے دل کو برف اور اولے کے پانی سے دھو دے اور میرے دل کو خطاؤں سے صاف کر دے جیسا کہ سفید کپڑے کو میل سے صاف کرتا ہے اور میرے اور میری خطاؤں کے درمیان اتنی دوری کر دے جتنی دوری مشرق و مغرب میں ہے۔ اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سستی سے، گناہ سے اور قرض سے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ"، وعَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، مِثْلَهُ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! انس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہے اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی «اللهم أكثر ماله، وولده، وبارك له فيما أعطيته» اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو اسے دے اس میں برکت عطا فرما۔ اور ہشام بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سنا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ ، أَنَّهَا قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَسٌ خَادِمُكَ ادْعُ اللَّهَ لَهُ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ"، وعَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ ، سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ ، مِثْلَهُ.
مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر (محمد بن جعفر) نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قتادہ سے سنا، ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انہوں نے کہا: یا رسول اللہ! انس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خادم ہے اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی «اللهم أكثر ماله، وولده، وبارك له فيما أعطيته» اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو اسے دے اس میں برکت عطا فرما۔ اور ہشام بن زید سے روایت ہے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اسی طرح سنا۔
حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: أَنَسٌ خَادِمُكَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ".
ہم سے ابوزید سعید بن ربیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے کہا میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرمائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له فيما أعطيته» اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو دے اس میں برکت عطا فرما۔
حَدَّثَنَا أَبُو زَيْدٍ سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَتَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: أَنَسٌ خَادِمُكَ، قَالَ: "اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ وَوَلَدَهُ، وَبَارِكْ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتَهُ".
ہم سے ابوزید سعید بن ربیع نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے، انہوں نے کہا میں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! انس آپ کا خادم ہے اس کے لیے دعا فرمائیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا «اللهم أكثر ماله وولده، وبارك له فيما أعطيته» اے اللہ! اس کے مال و اولاد میں زیادتی کر اور جو کچھ تو دے اس میں برکت عطا فرما۔
حَدَّثَنَا مُطَرِّفُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ أَبُو مُصْعَبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الْمَوَالِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرٍرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَالسُّورَةِ مِنَ الْقُرْآنِ: "إِذَا هَمَّ بِالْأَمْرِ فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاقْدُرْهُ لِي، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ".
ہم سے ابومصعب مطرف بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرحمٰن بن ابی الموال نے بیان کیا، ان سے محمد بن منکدر نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام معاملات میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے، قرآن کی سورت کی طرح (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) جب تم میں سے کوئی شخص کسی (مباح) کام کا ارادہ کرے (ابھی پکا عزم نہ ہوا ہو) تو دو رکعات (نفل) پڑھے اس کے بعد یوں دعا کرے کہ اے اللہ! میں بھلائی مانگتا ہوں (استخارہ) تیری بھلائی سے، تو علم والا ہے، مجھے علم نہیں اور تو تمام پوشیدہ باتوں کو جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے بہتر ہے، میرے دین کے اعتبار سے، میری معاش اور میرے انجام کار کے اعتبار سے یا دعا میں یہ الفاظ کہے «في عاجل أمري وآجله» تو اسے میرے لیے مقدر کر دے اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے میرے دین کے لیے، میری زندگی کے لیے اور میرے انجام کار کے لیے یا یہ الفاظ فرمائے«في عاجل أمري وآجله» تو اسے مجھ سے پھیر دے اور مجھے اس سے پھیر دے اور میرے لیے بھلائی مقدر کر دے جہاں کہیں بھی وہ ہو اور پھر مجھے اس سے مطمئن کر دے (یہ دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا بیان کر دینا چاہئے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: "دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ بِهِ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِعُبَيْدٍ أَبِي عَامِرٍ، وَرَأَيْتُ بَيَاضَ إِبْطَيْهِ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَوْقَ كَثِيرٍ مِنْ خَلْقِكَ مِنَ النَّاسِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے اسامہ نے بیان کیا، ان سے برید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی مانگا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی اے اللہ! عبید ابوعامر کی مغفرت فرما۔ میں نے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بغل کی سفیدی دیکھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اے اللہ! قیامت کے دن اسے اپنی بہت سی انسانی مخلوق سے بلند مرتبہ عطا فرمائیو۔
قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ عَاقِبَةً وَعُقْبَى وَعُقْبَةً وَاحِدٌ وَهِيَ الْآخِرَةُ
امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا قرآن میں جو «خير عقباء» آیا ہے تو «عاقبة» اور «عقب» کے ایک ہی معنی ہیں جن سے آخرت مراد ہے۔
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَكُنَّا إِذَا عَلَوْنَا كَبَّرْنَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّهَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ، فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا، وَلَكِنْ تَدْعُونَ سَمِيعًا بَصِيرًا"، ثُمَّ أَتَى عَلَيَّ وَأَنَا أَقُولُ فِي نَفْسِي لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ، قُلْ: "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، فَإِنَّهَا كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ"، أَوْ قَالَ: "أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ هِيَ كَنْزٌ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ، لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ابوایوب سختیانی نے بیان کیا، ان سے ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے جب ہم کسی بلند جگہ پر چڑھتے تو تکبیر کہتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگو! اپنے اوپر رحم کرو، تم کسی بہرے غائب رب کو نہیں پکارتے ہو تم تو اس ذات کو پکارتے ہو جو بہت زیادہ سننے والا، بہت زیادہ دیکھنے والا ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں اس وقت زیر لب کہہ رہا تھا «لا حول ولا قوة إلا بالله» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن قیس کہو «لا حول ولا قوة إلا بالله» کیونکہ یہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا میں تمہیں ایک ایسا کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ہے۔
فِيهِ حَدِيثُ جَابِرٍ رَضِى اللهُ عَنْهُ.
اس باب میں جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے۔
فِيهِ يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ".
اس میں ایک حدیث یحییٰ بن اسحاق سے مروی ہے جو انہوں نے انس سے روایت کی ہے۔
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَفَلَ مِنْ غَزْوٍ، أَوْ حَجٍّ، أَوْ عُمْرَةٍ، يُكَبِّرُ عَلَى كُلِّ شَرَفٍ مِنَ الْأَرْضِ ثَلَاثَ تَكْبِيرَاتٍ، ثُمَّ يَقُولُ: "لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، آيِبُونَ تَائِبُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صَدَقَ اللَّهُ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے نافع نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ یا حج یا عمرہ سے واپس ہوتے تو زمین سے ہر بلند چیز پر چڑھتے وقت تین تکبیریں کہا کرتے تھے۔ پھر دعا کرتے «لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد، وهو على كل شيء قدير. آيبون تائبون عابدون، لربنا حامدون. صدق الله وعده. ونصر عبده، وهزم الأحزاب وحده» اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اس کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ لوٹتے ہیں ہم توبہ کرتے ہوئے اپنے رب کی عبادت کرتے ہوئے اور حمد بیان کرتے ہوئے۔ اللہ نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندہ کی مدد کی اور تنہا تمام لشکر کو شکست دی۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ أَثَرَ صُفْرَةٍ، فَقَالَ: "مَهْيَمْ أَوْ مَهْ"، قَالَ: قَالَ: تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً عَلَى وَزْنِ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: "بَارَكَ اللَّهُ لَكَ، أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حماد بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زردی کا اثر دیکھا تو فرمایا یہ کیا ہے؟ کہا کہ میں نے ایک عورت سے ایک گٹھلی کے برابر سونے پر شادی کی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے، ولیمہ کر، چاہے ایک بکری کا ہی ہو۔
حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: هَلَكَ أَبِي وَتَرَكَ سَبْعَ، أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَزَوَّجْتَ يَا جَابِرُ"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: "بِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا"، قُلْتُ: ثَيِّبًا، قَالَ: "هَلَّا جَارِيَةً تُلَاعِبُهَا وَتُلَاعِبُكَ، أَوْ تُضَاحِكُهَا وَتُضَاحِكُكَ"، قُلْتُ: هَلَكَ أَبِي، فَتَرَكَ سَبْعَ أَوْ تِسْعَ بَنَاتٍ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَجِيئَهُنَّ بِمِثْلِهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ امْرَأَةً تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، قَالَ: "فَبَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ"، لَمْ يَقُلْ ابْنُ عُيَيْنَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرٍو: بَارَكَ اللَّهُ عَلَيْكَ.
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے عمرو نے اور ان سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہمیرے والد شہید ہوئے تو انہوں نے سات یا نو لڑکیاں چھوڑی تھیں (راوی کو تعداد میں شبہ تھا) پھر میں نے ایک عورت سے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ جابر کیا تم نے شادی کر لی ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ فرمایا کنواری سے یا بیوہ سے؟ میں نے کہا بیاہی سے۔ فرمایا، کسی لڑکی (کنواری) سے کیوں نہ کی۔ تم اس کے ساتھ کھیلتے اور وہ تمہارے ساتھ کھیلتی یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ) تم اسے ہنساتے اور وہ تمہیں ہنساتی۔ میں نے عرض کی، میرے والد (عبداللہ) شہید ہوئے اور سات یا نو لڑکیاں چھوڑی ہیں۔ اس لیے میں نے پسند نہیں کیا کہ میں ان کے پاس انہی جیسی لڑکی لاؤں۔ چنانچہ میں نے ایسی عورت سے شادی کی جو ان کی نگرانی کر سکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے۔ ابن عیینہ اور محمد بن مسلمہ نے عمرو سے روایت میں اللہ تمہیں برکت عطا فرمائے کے الفاظ نہیں کہے۔
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ أَنَّ أَحَدَهُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ أَهْلَهُ، قَالَ: بِاسْمِ اللَّهِ اللَّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ، وَجَنِّبْ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا، فَإِنَّهُ إِنْ يُقَدَّرْ بَيْنَهُمَا وَلَدٌ فِي ذَلِكَ لَمْ يَضُرَّهُ شَيْطَانٌ أَبَدًا".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے سالم نے، ان سے کریب نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس آنے کا ارادہ کرے تو یہ دعا پڑھے «باسم الله، اللهم جنبنا الشيطان، وجنب الشيطان ما رزقتنا» اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو کچھ تو ہمیں عطا فرمائے اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ تو اگر اس صحبت سے کوئی اولاد مقدر میں ہو گی تو شیطان اسے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: "كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، اللَّهُمَّ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً، وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً، وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، ان سے عبدالعزیز نے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اکثر یہ دعا ہوا کرتی تھی «اللهم ربنا آتنا في الدنيا حسنة، وفي الآخرة حسنة، وقنا عذاب النار ".» اے اللہ! ہمیں دنیا میں بھلائی ( «حسنة») عطا کر اور آخرت میں بھلائی عطا کر اور ہمیں دوزخ سے بچا۔
حَدَّثَنَا فَرْوَةُ بْنُ أَبِي الْمَغْرَاءِ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا هَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ كَمَا تُعَلَّمُ الْكِتَابَةُ،: "اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنَ الْجُبْنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُرَدَّ إِلَى أَرْذَلِ الْعُمُرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ فِتْنَةِ الدُّنْيَا، وَعَذَابِ الْقَبْرِ".
ہم سے فروہ بن ابی المغراء نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبیدہ بن حمید نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، ان سے مصعب بن سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ کلمات اس طرح سکھاتے تھے جیسے لکھنا سکھاتے تھے «اللهم إني أعوذ بك من البخل، وأعوذ بك من الجبن، وأعوذ بك أن نرد إلى أرذل العمر، وأعوذ بك من فتنة الدنيا، وعذاب القبر".» اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخل سے اور تیری پناہ مانگتا ہوں دنیا کی آزمائش سے اور قبر کے عذاب سے۔
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُنْذِرٍ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طُبَّ حَتَّى إِنَّهُ لَيُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ صَنَعَ الشَّيْءَ وَمَا صَنَعَهُ، وَإِنَّهُ دَعَا رَبَّهُ، ثُمَّ قَالَ: "أَشَعَرْتِ أَنَّ اللَّهَ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ ؟ قَالَ: مَطْبُوبٌ، قَالَ: مَنْ طَبَّهُ ؟ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ: قَالَ فِي مَاذَا ؟ قَالَ: فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ ؟ قَالَ: فِي ذَرْوَانَ وَذَرْوَانُ بِئْرٌ فِي بَنِي زُرَيْقٍ، قَالَتْ: فَأَتَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى عَائِشَةَ، فَقَالَ: "وَاللَّهِ لَكَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ، وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ"، قَالَتْ: فَأَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْبَرَهَا عَنِ الْبِئْرِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَهَلَّا أَخْرَجْتَهُ، قَالَ: "أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ شَرًّا"، زَادَ عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَعَا وَدَعَا، وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
ہم سے ابراہیم بن المنذر نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے بیان کیا، ان سے ہشام نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا اور کیفیت یہ ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھنے لگے کہ فلاں کام آپ نے کر لیا ہے حالانکہ وہ کام آپ نے نہیں کیا تھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے دعا کی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے، اللہ نے مجھے وہ وہ بات بتا دی ہے جو میں نے اس سے پوچھی تھی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: یا رسول اللہ! وہ خواب کیا ہے؟ فرمایا میرے پاس دو مرد آئے اور ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا پاؤں کے پاس۔ پھر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا، ان صاحب کی بیماری کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا، ان پر جادو ہوا ہے۔ پہلے نے پوچھا کس نے جادو کیا ہے؟ جواب دیا کہ لبید بن اعصم نے۔ پوچھا وہ جادو کس چیز میں ہے؟ جواب دیا کہ کنگھی پر کھجور کے خوشہ میں۔ پوچھا وہ ہے کہاں؟ کہا کہ ذروان میں اور ذروان بنی زریق کا ایک کنواں ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلماس کنویں پر تشریف لے گئے اور جب عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس دوبارہ واپس آئے تو فرمایا واللہ! اس کا پانی مہدی سے نچوڑے ہوئے پانی کی طرح تھا اور وہاں کے کھجور کے درخت شیطان کے سر کی طرح تھے۔ بیان کیا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور انہیں کنویں کے متعلق بتایا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر آپ نے اسے نکالا کیوں نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے شفاء دے دی اور میں نے یہ پسند نہیں کیا کہ لوگوں میں ایک بری چیز پھیلاؤں۔ عیسیٰ بن یونس اور لیث نے ہشام سے اضافہ کیا کہ ان سے ان کے والد نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا گیا تو آپ برابر دعا کرتے رہے اور پھر پوری حدیث کو بیان کیا۔
وَقَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلٍ، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: دَعَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ: اللَّهُمَّ الْعَنْ فُلَانًا وَفُلَانًا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَيْءٌ سورة آل عمران آية 128.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! میری مدد کر ایسے قحط کے ذریعہ جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا اور آپ نے بددعا کی اے اللہ! ابوجہل کو پکڑ لے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں یہ دعا کی کہ اے للہ! فلاں، فلاں کو اپنی رحمت سے دور کر دے یہاں تک کہ قرآن کی آیت «ليس لك من الأمر شىء» نازل ہوئی۔
حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَامٍ ، أَخْبَرَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي خَالِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْأَحْزَابِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمْ الْأَحْزَابَ، اهْزِمْهُمْ وَزَلْزِلْهُمْ".
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا ہم کو وکیع نے خبر دی، انہیں ابن ابی خالد نے، کہا میں نے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہما سے سنا، کہا کہرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کے لیے بددعا کی «اللهم منزل الكتاب، سريع الحساب، اهزم الأحزاب، اهزمهم وزلزلهم» اے اللہ! کتاب کے نازل کرنے والے! حساب جلدی لینے والے! احزاب کو (مشرکین کی جماعتوں کو، غزوہ احزاب میں) شکست دے، انہیں شکست دیدے اور انہیں جھنجوڑ دے۔
حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ فَضَالَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَالَ: "سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِنْ صَلَاةِ الْعِشَاءِ قَنَتَ اللَّهُمَّ أَنْجِ عَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْوَلِيدَ بْنَ الْوَلِيدِ، اللَّهُمَّ أَنْجِ سَلَمَةَ بْنَ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ أَنْجِ الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ، اللَّهُمَّ اشْدُدْ وَطْأَتَكَ عَلَى مُضَرَ، اللَّهُمَّ اجْعَلْهَا عَلَيْهِمْ سِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ".
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، ان سے ہشام نے بیان کیا، ان سے یحییٰ نے، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا، اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب عشاء کی آخر رکعت میں (رکوع سے اٹھتے ہوئے) «سمع الله لمن حمده» کہتے تھے تو دعائے قنوت پڑھتے تھے «اللهم أنج عياش بن أبي ربيعة، اللهم أنج الوليد بن الوليد، اللهم أنج سلمة بن هشام، اللهم أنج المستضعفين من المؤمنين، اللهم اشدد وطأتك على مضر، اللهم اجعلها سنين كسني يوسف» اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے، اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے، اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے، اے اللہ! کمزور ناتواں مومنوں کو نجات دے، اے اللہ! اے اللہ! قبیلہ مضر پر اپنی پکڑ کو سخت کر دے، اے اللہ! وہاں ایسا قحط پیدا کر دے جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا تھا۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: "بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً يُقَالُ لَهُمْ: الْقُرَّاءُ، فَأُصِيبُوا فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ عَلَى شَيْءٍ مَا وَجَدَ عَلَيْهِمْ، فَقَنَتَ شَهْرًا فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ، وَيَقُولُ: "إِنَّ عُصَيَّةَ عَصَوْا اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
ہم سے حسن بن ربیع نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوالاحوص نے بیان کیا، ان سے عاصم نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم بھیجی، جس میں شریک لوگوں کو قراء (یعنی قرآن مجید کے قاری) کہا جاتا تھا۔ ان سب کو شہید کر دیا گیا۔ میں نے نہیں دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی چیز کا اتنا غم ہوا ہو جتنا آپ کو ان کی شہادت کا غم ہوا تھا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینے تک فجر کی نماز میں ان کے لیے بددعا کی، آپ کہتے کہ عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ الْيَهُودُ يُسَلِّمُونَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُونَ: السَّامُ عَلَيْكَ، فَفَطِنَتْ عَائِشَةُ إِلَى قَوْلِهِمْ، فَقَالَتْ: عَلَيْكُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ كُلِّهِ"، فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا يَقُولُونَ ؟، قَالَ: "أَوَلَمْ تَسْمَعِي أَنِّي أَرُدُّ ذَلِكِ عَلَيْهِمْ فَأَقُولُ وَعَلَيْكُمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ بن زبیر نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرتے تو کہتے «السام عليك.» آپ کو موت آئے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا ان کا مقصد سمجھ گئیں اور جواب دیا کہ «عليكم السام واللعنة.» تمہیں موت آئے اور تم پر لعنت ہو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہرو عائشہ! اللہ تمام امور میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے نبی! کیا آپ نے نہیں سنا یہ لوگ کیا کہتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے نہیں سنا کہ میں انہیں کس طرح جواب دیتا ہوں۔ میں کہتا ہوں «وعليكم» ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ ، حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْخَنْدَقِ، فَقَالَ: "مَلَأَ اللَّهُ قُبُورَهُمْ وَبُيُوتَهُمْ نَارًا كَمَا شَغَلُونَا عَنْ صَلَاةِ الْوُسْطَى، حَتَّى غَابَتِ الشَّمْسُ"، وَهِيَ صَلَاةُ الْعَصْرِ.
ہم سے محمد بن مثنی ٰ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے انصاری نے بیان کیا، ان سے ہشام بن حسان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے بیان کیا، ان سے عبیدہ نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ غزوہ خندق کے موقع پر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ ان کی قبروں اور ان کے گھروں کو آگ سے بھر دے۔ انہوں نے ہمیں «صلاة الوسطى» (عصر کی نماز) نہیں پڑھنے دی جب تک کہ سورج غروب ہو گیا اور یہ عصر کی نماز تھی۔
حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَدِمَ الطُّفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ دَوْسًا قَدْ عَصَتْ وَأَبَتْ، فَادْعُ اللَّهَ عَلَيْهَا، فَظَنَّ النَّاسُ أَنَّهُ يَدْعُو عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ".
ہم سے علی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے کہا، ان سے ابوالزناد نے، ان سے اعرج نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ طفیل بن عمرو رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! قبیلہ دوس نے نافرمانی اور سرکشی کی ہے، آپ ان کے لیے بددعا کیجئے۔ لوگوں نے سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے بددعا ہی کریں گے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی کہ اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور انہیں (میرے پاس) بھیج دے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ صَبَّاحٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْأَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو بِهَذَا الدُّعَاءِ: "رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي كُلِّهِ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطَايَايَ، وَعَمْدِي، وَجَهْلِي، وَهَزْلِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ، وَمَا أَخَّرْتُ، وَمَا أَسْرَرْتُ، وَمَا أَعْلَنْتُ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ"، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَحَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن صباح نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابن ابی موسیٰ نے، ان سے ان کے والد نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کرتے تھے «رب اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري كله، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي خطاياى وعمدي وجهلي وهزلي، وكل ذلك عندي، اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت، أنت المقدم، وأنت المؤخر، وأنت على كل شىء قدير» میرے رب! میری خطا، میری نادانی اور تمام معاملات میں میرے حد سے تجاوز کرنے میں میری مغفرت فرما اور وہ گناہ بھی جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت کر، میری خطاؤں میں، میرے بالا ارادہ اور بلا ارادہ کاموں میں اور میرے ہنسی مزاح کے کاموں میں اور یہ سب میری ہی طرف سے ہیں۔ اے اللہ! میری مغفرت کر ان کاموں میں جو میں کر چکا ہوں اور انہیں جو کروں گا اور جنہیں میں نے چھپایا اور جنہیں میں نے ظاہر کیا ہے، تو سب سے پہلے ہے اور تو ہی سب سے بعد میں ہے اور تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ اور عبیداللہ بن معاذ(جو امام بخاری رحمہ اللہ کے شیخ ہیں) نے بیان کیا کہ ہم سے میرے والد نے بیان کیا کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے، ان سے ابوبردہ بن ابی موسیٰ نے اور ان سے ان کے والد نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مُوسَى ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ يَدْعُو: "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي، وَجَهْلِي، وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِي، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي هَزْلِي، وَجِدِّي، وَخَطَايَايَ، وَعَمْدِي، وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبیداللہ بن عبدالمجید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسرائیل نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، ان سے ابوبکر بن ابی موسیٰ اور ابوبردہ نے میرا خیال ہے کہ ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے «اللهم اغفرلي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري، وما أنت أعلم به مني، اللهم اغفر لي هزلي وجدي وخطاى وعمدي، وكل ذلك عندي".» اے اللہ! میری مغفرت فرما میری خطاؤں میں، میری نادانی میں اور میری کسی معاملہ میں زیادتی میں، ان باتوں میں جن کا تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ اے اللہ! میری مغفرت کر میرے ہنسی مزاح اور سنجیدگی میں اور میرے ارادہ میں اور یہ سب کچھ میری ہی طرف سے ہیں۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ أَبُو الْقَاسِمِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ سَاعَةٌ لَا يُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي يَسْأَلُ اللَّهَ خَيْرًا، إِلَّا أَعْطَاهُ"، وَقَالَ بِيَدِهِ، قُلْنَا: يُقَلِّلُهَا يُزَهِّدُهَا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن ابراہیم نے، انہیں ایوب نے خبر دی، انہیں محمد نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے جس میں اگر کوئی مسلمان اس حال میں پا لے کہ وہ کھڑا نماز پڑھ رہا ہو تو جو بھلائی بھی وہ مانگے گا اللہ عنایت فرمائے گا اور آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا اور ہم نے اس سے یہ سمجھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گھڑی کے مختصر ہونے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الْيَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: السَّامُ عَلَيْكَ، قَالَ: "وَعَلَيْكُمْ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، وَلَعَنَكُمُ اللَّهُ، وَغَضِبَ عَلَيْكُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَهْلًا يَا عَائِشَةُ، عَلَيْكِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاكِ وَالْعُنْفَ، أَوِ الْفُحْشَ"، قَالَتْ: أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا ؟ قَالَ: "أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ فَيُسْتَجَابُ لِي فِيهِمْ، وَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِيَّ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوہاب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ایوب نے بیان کیا، ان سے ابن ابی ملیکہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ یہود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا «السام عليك.»نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا «وعليكم".» لیکن عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا «السام عليكم، ولعنكم الله وغضب عليكم.» نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ٹھہر، عائشہ! نرم خوئی اختیار کر اور سختی اور بدکلامی سے ہمیشہ پرہیز کر۔ انہوں نے کہا: کیا آپ نے نہیں سنا کہ یہودی کیا کہہ رہے تھے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے نہیں سنا کہ میں نے انہیں کیا جواب دیا، میں نے ان کی بات انہیں پر لوٹا دی اور میری ان کے بدلے میں دعا قبول کی گئی اور ان کی میرے بارے میں قبول نہیں کی گئی۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ الزُّهْرِيُّ : حَدَّثَنَاهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "إِذَا أَمَّنَ الْقَارِئُ فَأَمِّنُوا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تُؤَمِّنُ فَمَنْ وَافَقَ تَأْمِينُهُ تَأْمِينَ الْمَلَائِكَةِ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا کہ زہری نے بیان کیا کہ ہم سے سعید بن مسیب نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب پڑھنے والا آمین کہے تو تم بھی آمین کہو کیونکہ اس وقت ملائکہ بھی آمین کہتے ہیں اور جس کی آمین ملائکہ کی آمین کے ساتھ ہوتی ہے اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ، لَهُ لَهُ الْمُلْكُ، وَلَهُ الْحَمْدُ، وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، كَانَتْ لَهُ عَدْلَ عَشْرِ رِقَابٍ، وَكُتِبَ لَهُ مِائَةُ حَسَنَةٍ، وَمُحِيَتْ عَنْهُ مِائَةُ سَيِّئَةٍ، وَكَانَتْ لَهُ حِرْزًا مِنَ الشَّيْطَانِ يَوْمَهُ ذَلِكَ حَتَّى يُمْسِيَ، وَلَمْ يَأْتِ أَحَدٌ بِأَفْضَلَ مِمَّا جَاءَ إِلَّا رَجُلٌ عَمِلَ أَكْثَرَ مِنْهُ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے یہ کلمہ کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تعریفیں ہیں اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔ دن میں سو دفعہ پڑھا اسے دس غلاموں کو آزاد کرنے کا ثواب ملے گا اور اس کے لیے سو نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور اس کی سو برائیاں مٹا دی جائیں گی اور اس دن وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہے گا شام تک کے لیے اور کوئی شخص اس دن اس سے بہتر کام کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا، سوا اس کے جو اس سے زیادہ کرے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْعَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، قَالَ: "مَنْ قَالَ: عَشْرًا كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ"، قَالَ عُمَرُ بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، وَحَدَّثَنَاعَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ رَبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ ، مِثْلَهُ، فَقُلْتُ لِلرَّبِيعِ: مِمَّنْ سَمِعْتَهُ ؟ فَقَالَ: مِنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، فَأَتَيْتُ عَمْرَو بْنَ مَيْمُونٍ، فَقُلْتُ: مِمَّنْ سَمِعْتَهُ ؟ فَقَالَ: مِن ابْنِ أَبِي لَيْلَى ، فَأَتَيْتُ ابْنَ أَبِي لَيْلَى، فَقُلْتُ: مِمَّنْ سَمِعْتَهُ ؟ فَقَالَ مِن أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ يُحَدِّثَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، . وَقَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَوْلَهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، . وَقَالَ مُوسَى ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، . وَقَالَ إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنِ الرَّبِيعِ قَوْلَهُ. وَقَالَ آدَمُ ، حَدَّثَنَاشُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَيْسَرَةَ ، سَمِعْتُ هِلَالَ بْنَ يَسَافٍ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ خُثَيْمٍ ، وَعَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنِابْنِ مَسْعُودٍ قَوْلَهُ. وَقَالَ الْأَعْمَشُ ، وَحُصَيْنٌ ، عَنْ هِلَالٍ ، عَنِ الرَّبِيعِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَوْلَهُ. وَرَوَاهُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْحَضْرَمِيُّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كَانَ كَمَنْ أَعْتَقَ رَقَبَةً مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلِ"، قَالَ: أَبُو عَبْد اللَّهِ: الصَّحِيحُ قَوْلُ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عَمْرٍو.
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن عمرو نے، کہا کہ ہم سے عمر بن ابی زائد نے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے، ان سے عمرو بن میمون نے بیان کیا کہ جس نے یہ کلمہ دس مرتبہ پڑھ لیا وہ ایسا ہو گا جیسے اس نے ایک عربی غلام آزاد کیا۔ اسی سند سے عمر بن ابی زائدہ نے بیان کیا کہ ہم سے عبداللہ بن ابی السفر نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع بن خثیم نے یہی مضمون تو میں نے ربیع بن خثیم سے پوچھا کہ تم نے کس سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ عمرو بن میمون اودی سے۔ پھر میں عمرو بن میمون کے پاس آیا اور ان سے دریافت کیا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابن ابی لیلیٰ سے۔ (پھر میں)ابن ابی لیلیٰ کے پاس آیا اور پوچھا کہ تم نے یہ حدیث کس سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے، وہ یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے اور ابراہیم بن یوسف نے بیان کیا، ان سے ان کے والد یوسف بن اسحاق نے، ان سے ابواسحاق سبیعی نے، انہوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن میمون اودی نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی حدیث نقل کی۔ اور موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا کہ ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے داؤد بن ابی ہند نے،، ان سے عامر شعبی نے، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے ابوایوب رضی اللہ عنہ نے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور اسماعیل بن ابی خالد نے بیان کیا، ان سے شعبی نے، ان سے ربیع نے موقوفاً ان کا قول نقل کیا۔ اور آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالملک بن میسرہ نے بیان کیا، کہا میں نے ہلال بن یساف سے سنا، ان سے ربیع بن خثیم اور عمرو بن میمون دونوں نے اور ان سے ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے۔ اور اعمش اور حصین دونوں نے ہلال سے بیان کیا، ان سے ربیع بن خثیم نے اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، یہی حدیث روایت کی۔ اور ابو محمد حضرمی نے ابوایوب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً اسی حدیث کو روایت کیا۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ سُمَيٍّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ فِي يَوْمٍ مِائَةَ مَرَّةٍ، حُطَّتْ خَطَايَاهُ، وَإِنْ كَانَتْ مِثْلَ زَبَدِ الْبَحْرِ".
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، ان سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے سمی نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے «سبحان الله وبحمده.» دن میں سو مرتبہ کہا، اس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں، خواہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ: سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ".
ہم سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابن فضیل نے بیان کیا، ان سے عمارہ نے، ان سے ابوزرعہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دو کلمے جو زبان پر ہلکے ہیں ترازو میں بہت بھاری اور رحمان کو عزیز ہیں «سبحان الله العظيم، سبحان الله وبحمده» ۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ، مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ".
ہم سے محمد بن علاء نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے یزید بن عبداللہ نے، ان سے ابوبردہ نے اور ان سے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کی مثال جو اپنے رب کو یاد کرتا ہے اور اس کی مثال جو اپنے رب کو یاد نہیں کرتا زندہ اور مردہ جیسی ہے۔
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً يَطُوفُونَ فِي الطُّرُقِ يَلْتَمِسُونَ أَهْلَ الذِّكْرِ، فَإِذَا وَجَدُوا قَوْمًا يَذْكُرُونَ اللَّهَ تَنَادَوْا: هَلُمُّوا إِلَى حَاجَتِكُمْ، قَالَ: فَيَحُفُّونَهُمْ بِأَجْنِحَتِهِمْ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ: فَيَسْأَلُهُمْ رَبُّهُمْ وَهُوَ أَعْلَمُ مِنْهُمْ مَا يَقُولُ عِبَادِي ؟ قَالُوا: يَقُولُونَ يُسَبِّحُونَكَ، وَيُكَبِّرُونَكَ، وَيَحْمَدُونَكَ، وَيُمَجِّدُونَكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: هَلْ رَأَوْنِي ؟ قَالَ: فَيَقُولُونَ: لَا وَاللَّهِ مَا رَأَوْكَ، قَالَ: فَيَقُولُ: وَكَيْفَ لَوْ رَأَوْنِي ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْكَ كَانُوا أَشَدَّ لَكَ عِبَادَةً، وَأَشَدَّ لَكَ تَمْجِيدًا، وَتَحْمِيدًا، وَأَكْثَرَ لَكَ تَسْبِيحًا، قَالَ: يَقُولُ: فَمَا يَسْأَلُونِي ؟ قَالَ: يَسْأَلُونَكَ الْجَنَّةَ، قَالَ: يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لَا، وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا، قَالَ: يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لَوْ أَنَّهُمْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ عَلَيْهَا حِرْصًا، وَأَشَدَّ لَهَا طَلَبًا، وَأَعْظَمَ فِيهَا رَغْبَةً، قَالَ: فَمِمَّ يَتَعَوَّذُونَ ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: مِنَ النَّارِ، قَالَ: يَقُولُ: وَهَلْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لَا، وَاللَّهِ يَا رَبِّ مَا رَأَوْهَا، قَالَ: يَقُولُ: فَكَيْفَ لَوْ رَأَوْهَا ؟ قَالَ: يَقُولُونَ: لَوْ رَأَوْهَا كَانُوا أَشَدَّ مِنْهَا فِرَارًا، وَأَشَدَّ لَهَا مَخَافَةً، قَالَ: فَيَقُولُ: فَأُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ غَفَرْتُ لَهُمْ، قَالَ: يَقُولُ: مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ: فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ لِحَاجَةٍ، قَالَ: هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ"، رَوَاهُ شُعْبَةُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَرَوَاهُسُهَيْلٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر بن عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے ابوصالح نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں جو راستوں میں پھرتے رہتے ہیں اور اللہ کی یاد کرنے والوں کو تلاش کرتے رہتے ہیں۔ پھر جہاں وہ کچھ ایسے لوگوں کو پا لیتے ہیں کہ جو اللہ کا ذکر کرتے ہوتے ہیں تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں کہ آؤ ہمارا مطلب حاصل ہو گیا۔ پھر وہ پہلے آسمان تک اپنے پروں سے ان پر امنڈتے رہتے ہیں۔ پھر ختم پر اپنے رب کی طرف چلے جاتے ہیں۔ پھر ان کا رب ان سے پوچھتا ہے .... حالانکہ وہ اپنے بندوں کے متعلق خوب جانتا ہے .... کہ میرے بندے کیا کہتے تھے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ وہ تیری تسبیح پڑھتے تھے، تیری کبریائی بیان کرتے تھے، تیری حمد کرتے تھے اور تیری بڑائی کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟ کہا کہ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ! انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر ان کا اس وقت کیا حال ہوتا جب وہ مجھے دیکھے ہوئے ہوتے؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر وہ تیرا دیدار کر لیتے تو تیری عبادت اور بھی بہت زیادہ کرتے، تیری بڑائی سب سے زیادہ بیان کرتے، تیری تسبیح سب سے زیادہ کرتے۔ پھر اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے، پھر وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ فرشتے کہتے ہیں کہ وہ جنت مانگتے ہیں۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ اے رب! انہوں نے تیری جنت نہیں دیکھی۔ بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ دریافت کرتا ہے ان کا اس وقت کیا عالم ہوتا اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا؟ فرشتے جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے جنت کو دیکھا ہوتا تو وہ اس سے اور بھی زیادہ خواہشمند ہوتے، سب سے بڑھ کر اس کے طلب گار ہوتے۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کہ وہ کس چیز سے پناہ مانگتے ہیں؟ فرشتے جواب دیتے ہیں، دوزخ سے۔ اللہ تعالیٰ پوچھتا ہے کیا انہوں نے جہنم دیکھا ہے؟ وہ جواب دیتے ہیں نہیں، واللہ، انہوں نے جہنم کو دیکھا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، پھر اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو ان کا کیا حال ہوتا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسے دیکھا ہوتا تو اس سے بچنے میں وہ سب سے آگے ہوتے اور سب سے زیادہ اس سے خوف کھاتے۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے ان کی مغفرت کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس پر ان میں سے ایک فرشتے نے کہا کہ ان میں فلاں بھی تھا جو ان ذاکرین میں سے نہیں تھا، بلکہ وہ کسی ضرورت سے آ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ یہ(ذاکرین) وہ لوگ ہیں جن کی مجلس میں بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں رہتا۔ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا لیکن اس کو مرفوع نہیں کیا۔ اور سہیل نے بھی اس کو اپنے والدین ابوصالح سے روایت کیا، انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُقَاتِلٍ أَبُو الْحَسَنِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، قَالَ: أَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَقَبَةٍ، أَوْ قَالَ فِي ثَنِيَّةٍ قَالَ: فَلَمَّا عَلَا عَلَيْهَا رَجُلٌ نَادَى، فَرَفَعَ صَوْتَهُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاللَّهُ أَكْبَرُ، قَالَ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى بَغْلَتِهِ، قَالَ: "فَإِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلَا غَائِبًا"، ثُمَّ قَالَ: "يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَلِمَةٍ مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَ: "لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ".
ہم سے ابوالحسن محمد بن مقاتل نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عبداللہ بن مبارک نے خبر دی، انہوں نے کہا ہم کو سلیمان بن طرخان تیمی نے خبر دی، انہیں ابوعثمان نہدی نے اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھاٹی یا درے پر چڑھنے لگے۔ بیان کیا کہ جب ایک اور صحابی بھی اس پر چڑھ گئے تو انہوں نے بلند آواز سے «لا إله إلا الله والله أكبر.» کہا۔ راوی نے بیان کیا کہ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگ کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکارتے۔ پھر فرمایا، ابوموسیٰ یا تو یوں (فرمایا) اے عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں ایک کلمہ نہ بتا دوں جو جنت کے خزانوں میں سے ہے۔ میں نے عرض کیا، ضرور ارشاد فرمائیں، فرمایا کہ «لا حول ولا قوة إلا بالله» ۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ مِنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، رِوَايَةً قَالَ: "لِلَّهِ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ اسْمًا، مِائَةٌ إِلَّا وَاحِدًا لَا يَحْفَظُهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَهُوَ وَتْرٌ يُحِبُّ الْوَتْرَ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ حدیث ابوالزناد سے یاد کی، ان سے اعرج نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایتاً بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں، ایک کم سو، جو شخص بھی انہیں یاد کر لے گا جنت میں جائے گا۔ اللہ طاق ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔
حدثنا عمر بن حفص ، حدثنا أبي ، حدثنا الأعمش ، حدثني شقيق ، قال: كنا ننتظر عبد الله إذ جاء يزيد بن معاوية، فقلنا: ألا تجلس ؟ قال: لا، ولكن أدخل فاخرج إليكم صاحبكم، وإلا جئت أنا فجلست، فخرجعبد الله ، وهو آخذ بيده، فقام علينا، فقال: أما إني أخبر بمكانكم، ولكنه"يمنعني من الخروج إليكم أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يتخولنا بالموعظة في الأيام كراهية السامة علينا".
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے شقیق نے بیان کیا، کہا کہ ہم عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتظار کر رہے تھے کہ یزید بن معاویہ آئے۔ ہم نے کہا، تشریف رکھئے لیکن انہوں نے جواب دیا کہ نہیں، میں اندر جاؤں گا اور تمہارے ساتھ (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ) کو باہر لاؤں گا۔ اگر وہ نہ آئے تو میں ہی تنہا آ جاؤں گا اور تمہارے ساتھ بیٹھوں گا۔ پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے اور وہ یزید بن معاویہ کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے پھر ہمارے سامنے کھڑے ہوئے کہنے لگے میں جان گیا تھا کہ تم یہاں موجود ہو۔ پس میں جو نکلا تو اس وجہ سے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ مقررہ دنوں میں ہم کو وعظ فرمایا کرتے تھے، (فاصلہ دے کر) آپ کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ کہیں ہم اکتا نہ جائیں۔