مشکوٰة شر یف

دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان

رقاق کا بیان

رقاق  رقیق کی جمع ہے، جس کے معنی ہیں نرم، پتلا۔ یہاں سے کتاب کے جو ابو اب شروع ہو رہے ہیں ان کو کتاب الرقاق سے اس لئے موسوم کیا گیا ہے کہ ان ابو اب میں وہ احادیث منقول ہیں جو دل کو نرم کرتی ہیں، طبیعت میں رقت پیدا کرتی ہیں اور قوائے فکر و عمل کو اس طرح متاثر کرتی ہیں کہ دنیا سے زہد و بے اعتنائی آخرت سے رغبت پیدا ہو جاتی ہے۔

دو قابل قدر نعمتیں

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  دو نعمتیں ہیں کہ ان کے معاملہ میں بہت سے لوگ فریب اور ٹوٹا کھائے ہوئے ہیں (اور وہ دونوں نعمتیں)  تندرستی  اور  فراغت ہیں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مذکورہ نعمتوں میں سے ایک نعمت تو تندرستی ہے یعنی جسم و بدن کا امراض سے محفوظ رہنا، اور دوسری نعمت ہے اوقات کا غم روز گار کے مشاغل در مصروفیات اور تفکرات و تشویشات سے فارغ و خالی ہونا، چنانچہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو اپنی غفلت لاپرواہی کی بنا پر ان دونوں نعمتوں کی قدر نہیں کر رہے اور ان کے معاملہ میں اپنے نفس سے فریب کھا کر ان کو مفت میں ہاتھ سے جانے دیتے ہیں جیسا کہ کوئی شخص خرید و فروخت کے معاملہ میں کسی کے فریب اور دھوکہ کا شکار ہو کر اپنے مال و متاع کو مفت میں گنوا دیتا ہے اور نقصان برداشت کرتا ہے۔

 لہٰذا اس ارشاد گرامی میں ان لوگوں کے تئیں حسرت و افسوس کا اظہار ہے جو ان نعمتوں سے کماحقہ فائدہ نہیں اٹھاتے، بایں طور کہ نہ تو اپنی صحت و تندرستی کے زمانہ دین و دنیا کی بھلائی و فائدہ کے کام کرتے ہیں اور نہ فرصت کے اوقات کو غنیمت جان کر ان میں آخرت کے امور کی طرف متوجہ ہوتے ہیں، ہاں جب ان کی صحت و تندرستی خراب ہو جاتی ہے دنیا بھر کے فکرات لاحق ہو جاتے ہیں اور غم روزگار کی گردش ان کے اوقات کو مختلف قسم کی مشغولیتوں اور تشویشوں میں جکڑ لیتی ہے اس وقت ان کو ان نعمتوں کی قدر ہوتی ہے اور وہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے کیسے بیش قیمت مواقع گنوا دئیے اور اس قول النعمۃ اذا فقدت عرفت (کہ نعمت کی قدر اس وقت ہوتی ہے جب وہ جاتی رہتی ہے) کا مصداق بنتے ہیں۔

 ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے حدیث کی تشریح میں یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگ ان نعمتوں کی حقیقی قدر نہیں کرتے، بایں طور کہ وہ ان نعمتوں کے حاصل ہونے کے زمانہ میں ایسے کام نہیں کرتے جن کے آخرت میں وہ محتاج ہوں گے اور پھر وہاں نادم ہوں گے کہ ہم نے دنیا میں اپنی عمر کے بیش قیمت اوقات کو کس طرح ضائع کر دیا اور تندرستی و فراغت وقت کی جو نعمتیں ہمیں میسر تھیں ان کے جاتے رہنے سے پہلے ان کی قدر نہیں کی، حالانکہ اس وقت ان کی یہ ندامت ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ذالک یوم التغابن اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ آخرت میں اہل جنت اگر کسی بات پر حسرت و افسوس کریں گے تو ان لمحات پر کریں گے جو انہوں نے دنیا میں اس طرح گزار دئیے ہوں گے کہ ان میں انہوں نے اللہ کو یاد نہیں کیا ہو گا۔

دنیا اور آخرت کی مثال

حضرت مستورد بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔  خدا کی قسم! آخرت (کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں) کے مقابلے میں دنیا (کے زمانہ اور اس کی نعمتوں) کی مثال ایسی ہے جیسا کہ تم میں سے کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبوئے اور پھر دیکھے کہ وہ انگلی کیا چیز لے کر واپس آئی ہے۔  (مسلم)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی انگلی کو سمندر میں ڈبو کر باہر نکالے تو وہ دیکھے گا کہ اس کی انگلی سمندر میں سے محض تری یا صرف ایک آدھ قطرہ پانی کا لے کر واپس آئی ہے، پس سمجھنا چاہئے کہ آخرت کے زمانہ اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلہ میں دنیا کا زمانہ اور دنیا کی تمام نعمتیں اسی قدر قلیل و کمتر ہیں جس قدر کہ سمندر کے مقابلہ میں اس کی انگلی کو لگا ہوا پانی، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمثیل بھی محض لوگوں کو سمجھانے کے لئے ہے ورنہ متناہی کو غیر متناہی کے ساتھ کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی، پانی کا وہ ایک قطرہ جو دریا سے باہر آیا ہے اپنی کمتری و بے وقعتی کے باوجود سمندر سے کچھ نہ کچھ نسبت ضرور رکھتا ہے مگر دنیا، آخرت سے اس قدر بھی نسبت نہیں رکھتی۔

 ملا علی قاری رحمۃ اللہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو چاہئے کہ نہ تو نہایت جلد فنا ہو جانے والی دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں پر مغرور ہو اور نہ اس کی سختیوں اور پریشانیوں پر روئے پیٹے اور نہ شکوہ و شکایت کرے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تعلیم کے مطابق یہی کہے کہ : اللہم لا عیش الاّ عیش الاخرۃ،  اے اللہ! اصل زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے نیز اس حقیقت کو ہر لمحہ مد نظر رکھے کہ یہ دنیا، مزرعۃ الاخرۃ (آخرت کی کھیتی ہے) اور یہاں کی زندگانی بس ایک ساعت کی ہے لہٰذا اس ایک ساعت کو گنوانے کی بجائے طلب الٰہی میں مصروف رکھنا ہی سب سے بڑی دانشوری ہے۔

دنیا ایک بے حیثیت چیز ہے

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بکری کے ایک ایسے مردہ بچہ کے پاس سے گزرے جس کے کان بہت چھوٹے تھے یا کٹے ہوئے تھے اور یا اس کے کان تھے ہی نہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس کو دیکھ کر صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے) فرمایا کہ تم میں ایسا کوئی شخص ہے جو اس (مردہ بچہ) کو ایک درہم کے عوض لینا پسند کرے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ ہم تو اس کو کسی بھی چیز کے عوض لینا پسند نہیں کر سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  خدا کی قسم! یہ دنیا (اپنی تمام لذتوں اور آسائشوں کے ساتھ) خدا کے نزدیک اس سے کہیں زیادہ بے وقعت و کمتر ہے جیسا کہ تمہارے نظر میں یہ۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بکری کے اس مردہ بچہ کی مثال کے ذریعہ درحقیقت اس طرف متوجہ فرمایا کہ یہ دنیا ہر گز اس قابل نہیں ہے کہ انسان اس کی محبت و طلب میں آخرت کے نفع نقصان کو فراموش کر دے، بلکہ اصل چیز آخرت کی محبت و طلب ہے جہاں کی زندگی بھی لافانی ہے اور جس کی نعمتیں بھی لازوال ہیں، لہٰذا مقصود زندگی آخرت کی محبت و طلب ہونا چاہئے نہ کہ دنیا کی محبت و طلب، کیونکہ فرمایا گیا ہے۔

حب الدنیا راس کل خطیئۃ

 دنیا کی محبت و چاہت ہر گناہ کی جڑ ہے

ترک الدنیا راس کل عبادۃ

 دنیا سے بے اعتنائی، ہر عبادت کی بنیاد ہے

 اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی محبت میں گرفتار رہنے والا اپنے اعمال میں مخلص و پاکیزہ نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام کسی فاسد غرض و لالچ کی آمیزش رکھتا ہے خواہ وہ کوئی دینی اور مذہبی کام ہی کیوں نہ کرے، اس کے برخلاف جو شخص دنیا سے بے اعتنائی اختیار کیے ہوئے ہوتا ہے اس کے ہر عمل میں اخلاص و پاکیزگی اور آخرت ہی کا مفاد ہوتا ہے، خواہ وہ کسی دنیاوی کام ہی میں کیوں نہ مشغول ہو، اسی لئے کسی عارف نے کہا ہے کہ جس نے دنیا کو اپنی پسندیدہ اور محبوب چیز بنا لیا ہے اس کو تمام مشائخ اور مرشدین مل کر بھی راہ راست پر نہیں لگا سکتے اور جس نے دنیا سے بے اعتنائی کو اپنا شیوہ بنا لیا اس کو دنیا بھر کے مفسد و بدکار لوگ بھی گمراہ نہیں کر سکتے۔

دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے (مسلم)

 

تشریح

 

  قید خانہ کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح کوئی شخص قید خانہ میں بند ہو تو وہاں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتا ہے، اور طرح طرح کی مشقتیں جھیلتا ہے۔ اسی طرح مومن کے لئے یہ دنیا بھی گویا ایک قید خانہ ہے جہاں اس کو محنت و مشقت اور مصائب و شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، منکرات اور منہیات (ممنوع اور خلاف شرع امور) سے اپنے آپ کو بچانا پڑتا ہے۔ نفس کی آزادی اور بے راہ روی کو ختم کرنا پڑتا ہے اور طاعات و عبادات کی مشقتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ یا یہ کہ مومن اس دنیا کو ایک ایسی جگہ محسوس کرتا ہے جہاں تنگی و گھٹن ہوتی ہے اور جہاں بود و باش اختیار کرنے کو وہ پسند نہیں کرتا، چنانچہ وہ ہر وقت یہی خواہش رکھتا ہے کہ وہ اس تنگ و تاریک جہاں سے نکل جائے اور عالم ملکوت کی وسعتوں کو اپنی جولانگاہ بنائے۔ اور  دنیا کافر کے لئے جنت ہے کا مطلب یہ ہے کہ کافر چونکہ اپنا مقصد زندگی دنیا کا حصول سمجھتا ہے اس لئے وہ اپنی تمام تر سعی و کوشش اور اپنی تمام تر جدو جہد دنیا کی نعمتوں اور آسائشوں کو حاصل کرنے میں صرف کرتا ہے اور پھر وہ دنیا کی لذات شہوات میں اس طرح مشغول و منہمک ہو جاتا ہے کہ اس کے لئے یہ دنیا ایک عشرت کدہ بن جاتی ہے جہاں سے نکلنا اس کو گوارہ نہیں ہوتا۔

 بعض حضرات کہتے ہیں کہ حدیث کی مراد یہ ہے کہ مومن کو آخرت میں جو اجر و ثواب ملے گا اور اس کو وہاں کی جن نعمتوں اور راحتوں سے نوازا جائے گا ان کی بہ نسبت یہ دنیا اس کے حق میں گویا قید خانہ ہے اور کافر کو جس دردناک عذاب سے دوچار ہونا پڑے گا اس کے مقابلہ میں یہ دنیا اس کے حق میں گویا جنت ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ مومن اس دنیا میں خواہ کتنے ہی ناز و نعم کے ساتھ رہے اور اس کو یہاں کی کتنی ہی آسائشیں اور راحتیں حاصل ہوں مگر وہ سب ہیچ ہیں کیوں کہ اس کو آخرت میں جو نعمتیں ملنے والی ہیں اور وہاں کی جو راحتیں اور آسائشیں اس کو حاصل ہوں گی وہ اس دنیا کی نعمتوں اور راحتوں و آسائشوں سے کہیں زیادہ بہتر اور کہیں زیادہ اعلیٰ ہوں گی، اسی طرح کافر اس دنیا میں خواہ کتنی ہی مصیبتیں اور آفتیں جھیلے اور کتنے ہی شدائد کا سامنا کرے۔ مگر آخرت میں اس کا حال اس دنیا کے حال سے بھی بدتر ہو گا۔ منقول ہے کہ ایک یہودی نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر ان سے کہا کہ آپ کے نانا جان (رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) نے جو یہ فرمایا ہے کہ الدنیا سجن المومن وجنۃ الکافر تو ان کو یہ قول میرے اور آپ کے حال پر کس طرح صادق آتا ہے، کیونکہ تم تو گھوڑے پر سواری کرتے ہو، اور بڑی راحت و آسائش کے ساتھ زندگی گزارتے ہو، جب کہ میں بیماری میں مبتلا ہوں اور طرح کی تکالیف اور فقر و فاقہ میں گرفتار رہتا ہوں؟ چنانچہ حضرت امام رضی اللہ عنہ نے اس کو جو جواب دیا وہ وہی تھا جو اوپر نقل کیا گیا۔

کافر کے اچھے کام کا اجر اس کو اسی دنیا میں دے دیا جاتا ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اللہ تعالیٰ مومن کی نیکی کا اجر ضائع نہیں کرتا، کہ اس کی اس نیکی کے سبب اس کو دنیا میں بھلائیاں دی جاتی ہیں اور آخرت میں بھی اس کا اجرو ثواب دیا جائے گا۔ اور کافر خدا کی خوشنودی کے لئے جو اچھے کام کرتا ہے اس کو اس کے بدلہ میں اس دنیا میں کھلا پلا دیا جاتا ہے (یعنی وہ ان اچھے کاموں کی وجہ سے جس بھلائی کا مستحق ہوتا ہے وہ اس کو نعمتوں اور راحتوں کی صورت میں اس دنیا میں دے دی جاتی ہے) یہاں تک کہ جب وہ آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی نیکی نہیں ہو گی کہ جس کی وجہ سے اس کو وہاں اجرو ثواب دیا جائے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کے ذریعہ اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ آخرت کی بھلائی اور وہاں کے اجرو ثواب کا دارومدار دنیا میں محض اچھے کام کرنے پر نہیں ہے بلکہ ایمان و عقیدہ پر ہے چنانچہ وہ نیک کام جو خدا کی خوشنودی کے لئے کیے جاتے ہیں اور جن سے خدا یقیناً خوش ہوتا ہے، جب کوئی مومن کرتا ہے تو اس کو ان نیک کاموں کی وجہ سے دنیا میں بھی اچھا بدلہ ملتا ہے۔ بایں طور پر کہ اس کے کاروبار معیشت اور رزق میں وسعت و فراخی عطا کی جاتی ہے، اس کی زندگی کو چین و سکون اور خوش حالی و قلبی اطمینان کی دولت نصیب ہوتی ہے اور پھر اس کو ہر طرح کی آفات و بلیات اور ناپسندیدہ عناصر سے محفوظ و مامون رکھا جاتا ہے، اور پھر جب وہ اس دنیا کی زندگی کو پورا کر کے آخرت میں پہنچے گا تو اس کو وہاں بھی ان نیک کاموں کا پورا پورا اجر و ثواب ملے گا۔ اس کے برخلاف جب کافر اچھے اعمال کرتا ہے جس سے خدا خوش ہوتا ہو جیسے فقیر و محتاج کو کھانا کھلانا اور اس کی مدد کرنا، یتیم اور بیواؤں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرنا، اور اس طرح کے دوسرے فلاح و رفاہی کے کام تو اس کے ان اچھے کاموں کا پورا بدلہ اس کو دنیا ہی میں دے دیا جاتا ہے، جب کہ آخرت میں وہ ان اچھے کاموں کا کوئی اجرو ثواب پانے کا مستحق نہیں ہو گا۔

 رہی یہ بات کہ جس طرح مومن کو دنیا میں اپنے اچھے کاموں کا بدلہ اچھا ملتا ہے اسی طرح کیا اس کو دنیا میں برے کاموں کی سزا بھی ملتی ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہو گا کہ حق تعالیٰ اپنے جس بندہ کو آخرت کے عذاب و شدائد سے بچانا چاہتا ہے اس کو اس کی برائیوں کی سزا اس دنیا میں دے دیتا ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں منقول ہے کہ مومن کو اس کے برے کاموں کا بدلہ دنیا میں مختلف قسم کے مصائب و آلام اور تکالیف و پریشانیوں کی صورت میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ جب آخرت میں پہنچے گا تو اس کے نامہ اعمال میں ایسی کوئی برائی نہیں ہو گی جس پر وہ عذاب کا مستوجب قرار پائے۔ اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کو احمد اور ابن حبان نے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت کریمہ من یعمل سوء یجز بہ نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اگ ایسا ہے کہ بندہ سے جو بھی برائی صادر ہو گی اس کی وجہ سے اس کو آخرت میں ضرور سزا دی جائے گی اور ظاہر ہے کہ دنیا میں ہر بندے سے چھوٹی یا بڑی کوئی نہ کوئی برائی ضرور صادر ہوتی ہے) تو پھر نجات پانے والا کون شخص ہو گا؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  اللہ تمہیں بخشے، کیا تم غمگین نہیں ہوتے، کیا تم رنج و الم نہیں اٹھاتے، کیا تم بیمار نہیں ہوتے، اور کیا تمہیں کوئی آفت یا بلا نہیں پہنچتی؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (تو یاد رکھو) یہ چیز(یعنی تمہارا کسی تکلیف و مصیبت اور رنج و الم میں مبتلا ہونا) دراصل تمہارے حق میں اس برائی کی سزا اور بدلہ ہے جو تم سے صادر ہو جاتی ہے۔

جنت اور دوزخ کے پردے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  دوزخ کی آگ شہوتوں یعنی خواہشات لذات سے ڈھانکی گئی ہے، اور جنت سختیوں اور مشقتوں سے ڈھانکی گئی ہے اس روایت کو بخاری اور مسلم نے نقل کیا ہے لیکن مسلم کی روایت میں  حجبت (یعنی ڈھانکی گئی ہے کہ بجائے) حفت (یعنی گھیری گئی ہے) کا لفظ ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ وہ محنت و مشقت اور سختی و پریشانی پر جو طاعت و عبادت کی مداومت و پابندی اور نفسانی خواہشات و لذات سے اجتناب کی وجہ سے اٹھانا پڑتی ہے، گویا بہشت کا پردہ ہے، اور جو چیز پردے کے پیچھے ہوتی ہے اس تک پہنچنے کے لئے پہلے پردہ تک پہنچنا اور اس کو اٹھانا ضروری ہوتا ہے اس لئے اگر جنت تک پہنچنا چاہتے ہو تو پہلے اس کے پردے کو اٹھاؤ یعنی احکام خداوندی کی اتباع اور نفس کی خواہشات سے اجتناب کی محنت اور سختی برداشت کرو، جب ان باتوں کو اختیار کرو گے تب کہیں جنت تک رسائی ہو گی۔ اسی طرح نفس کی خواہشات و لذات گویا دوزخ کا پردہ ہیں۔ جو شخص اس پردہ کو ہٹائے گا یعنی نفس کی اتباع اور خواہش پرستی کا ارتکاب کرے گا وہ دوزخ تک پہنچ جائے گا۔

 واضح رہے کہ حدیث میں  شہوات کا جو لفظ استعمال فرمایا گیا ہے اس کا تعلق نفس کی ان خواہشات و لذات سے ہے جو حرام چیزوں جیسے شراب نوشی، زنا اور غیبت وغیرہ کا ارتکاب کراتی ہیں، ورنہ جہاں تک مباح خواہشات و لذات کا تعلق ہے وہ نہ تو دوزخ میں لے جانے کا باعث بنتی ہیں اور نہ جنت میں داخل ہونے سے روکتی ہیں، اگرچہ نفس کی مباح خواہشات و لذات کا اتباع بھی بندہ کو قرب اور ولایت کے مقام سے دور کر دیتا ہے۔

 حدیث کی مذکورہ بالا وضاحت سے یہ بات بھی صاف ہو جاتی ہے کہ ایک روایت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ العلم حجاب اللہ (یعنی علم اللہ تعالیٰ کا پردہ ہے) تو اس کے کیا معنی ہیں، چنانچہ اس جملہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ علم، گویا اللہ اور بندے کے درمیان پردہ ہے، جو شخص علم حاصل کرتا ہے وہ گویا اس پردہ کو اٹھا دیتا ہے اور جب وہ پردہ اٹھ جاتا ہے تو خدا کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے۔

مال و زر کا غلام بن جانے والے کی مذمت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ہلاک ہو وہ شخص جو دینار کا غلام ہو، درہم کا غلام ہو، اور چادر کا غلام ہو (یعنی اس شخص کے لئے آخرت میں ہلاکت و تباہی مقدر ہے جس نے مال و دولت کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنا لیا ہو، دنیاوی عیش و تمول کو معبود جبار کی رضا و خوشنودی پر ترجیح دیتا ہے اور طلب مال و حصول زر کی راہ میں ناجائز و حرام وسائل و ذرائع اختیار کرنے سے باز نہ رہتا ہو اور پھر جو کچھ کماتا ہو اس کو از راہ بخل جمع کر دیتا ہو کہ نہ اس مال کے حقوق کو ادا کرتا ہو نہ خدا کی راہ میں اور خدا کی خوشنودی کے لئے اس کو خرچ کرتا ہو، اور اس کے ساتھ ہی اپنی شان و شوکت اور بڑائی جتانے کے لئے لباس فاخرہ زیب تن کرتا ہو اور ناروا اطوار پر زیب و زینت میں مبتلا ہو اور ایسے شخص کی علامت یہ ہے کہ) جب اس کو (مال و دولت اور لباس فاخرہ) ملے تو خوش اور راضی ہو، اور اگر نہ ملے تو ناراض و ناخوش ہو (گویا اس کی طبیعت کا میلان ہمیشہ لوگوں کے مال و زر کی طرف رہتا ہو اور ہر وقت اس حرص میں مبتلا رہتا ہے کہ فلاں شخص سے فلاں چیز حاصل ہو جائے، چنانچہ اگر لوگ اس کی حرص و تمنا کو پورا کرتے ہیں تو وہ ان سے خوش رہتا ہے اور اگر ان کی طرف سے اس کی اس حرص و طمع کی تکمیل نہیں ہوتی تو ان سے ناخوش و ناراض ہو جاتا ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس دینے یا نہ دینے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہو، یعنی اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق اس کو مال و دولت اور سامان تعیش عطا کرتا ہے تو وہ اس سے خوش ہو جاتا ہے اور اگر اللہ تعالیٰ اس کی خواہش و حرص کو پورا نہیں کرتا تو وہ اللہ تعالیٰ کے تئیں اپنی ناراضگی ظاہر کرتا ہے) ایسے شخص کی اس مذموم خصلت کی وجہ سے گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکرر بددعا فرمائی کہ ہلاک ہو ایسا شخص اور ذلیل و سرنگوں ہو! اور (دیکھو) جب اس شخص کے پاؤں میں کانٹا لگ جائے تو کوئی اس کو نہ نکالے (گویا تہدید و تنبیہ کے طور پر ایسے شخص کے حق میں مسلمانوں کو آگاہ فرمایا گیا کہ اگر ایسی مذموم خصلت رکھنے والا شخص کسی آفت و پریشانی میں مبتلا ہو جائے تو کوئی اس کی مدد و اعانت نہ کرے۔ دنیا داروں اور حرص و طمع کے غلام لوگوں کی اس بدحالی کو ذکر کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے چاہا کہ ان کے مقابلہ پر ان طالبان دین اور زاہدان دنیا کا بھی ذکر فرمائیں جو آخرت کی فلاح حاصل کرنے اور دین کو سربلند کرنے کے لئے محنت و مشقت اور جہاد کے ذریعہ اللہ کی راہ میں مشغول رہتے ہیں، دنیا سے بے نیازی برتتے ہیں، ظاہری زینت و آرائش سے دور رہتے ہیں اور اہل دنیا کے طور طریقوں سے اپنے کو الگ رکھتے ہیں اور اس وجہ سے ظاہر پرستوں کی نظر میں نہایت کمتر و حقیر معلوم ہوتے ہیں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) سعادت و خوش بختی ہے اس بندے کے لئے جو خدا کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اپنے گھوڑے کی باگ پکڑے کھڑا ہے، اس کے سر کے بال پراگندہ اور قدم غبار آلود ہیں، اگر اس کو لشکر کی اگلی صفوں کے آگے نگہبانی پر مامور کیا جاتا ہے تو پوری طرح نگہبانی کرتا ہے (کہ کسی بھی وقت اپنی ذمہ داری کی انجام دہی سے نہ غافل رہتا ہے اور نہ سوتا ہے بلکہ ہر وقت پوری ہوشیاری و چستی کے ساتھ نگہبانی کرتا ہے) اور اگر اس کو لشکر کے پیچھے رکھا جاتا ہے تو لشکر کے پیچھے ہی رہتا ہے (یعنی وہ امیر لشکر اور مسلمانوں کی پوری تابعداری کرتا ہے کہ اس کو جس جگہ مامور کیا جاتا ہے وہیں اپنا فرض انجام دیتا ہے، اور اس سے جو کچھ کہا جاتا ہے اس پر پوری طرح عمل کرتا ہے، تکبر اور ضد و اصرار نہیں کرتا) اور (خدا کے نزدیک اپنے اس مرتبہ و سعادت کے باوجود اپنے معاشرہ میں اس قدر سادگی، جاہ و مال اور شان و شوکت سے اس قدر بے نیازی اور اس قدر انکساری کے ساتھ رہتا ہے کہ دنیا دار اس کو کوئی وقعت و اہمیت نہیں دیتے یہاں تک کہ) اگر وہ لوگوں کی محفلوں میں شریک ہونا چاہتا ہے تو اس کو شرکت کی اجازت نہیں دی جاتی، اور اگر کسی کی سفارش کرتا ہے تو اس کی سفارش قبول نہیں کی جاتی۔

 

تشریح

 

 دینار و درہم کا غلام اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ مال و دولت کے سلسلہ میں جو چیز مذموم ہے وہ اس مال و دولت کی محبت اور دنیا داری میں مبتلا ہونا ہے، چنانچہ یہ خصلت (یعنی مال و دولت اور دنیا کی محبت میں گرفتار ہونا) انسان کو مال کا بندہ بنا دیتی ہے کہ اس کی ہر سعی اور جدو جہد کا محور، اس کی ہر تمنا و خواہش کا مرکز اور اس کے ہر فعل و عمل کی بنیاد صرف مال و زر ہوتا ہے اس سے واضح ہوا کہ مال داری اور دولت مندی بذات خود کوئی مذموم چیز نہیں ہے، کسی شخص کے پاس خواہ کتنا ہی مال و زر ہو اور وہ کتنا بڑا دولت مند ہو، اگر وہ دولت کی محبت میں گرفتار نہیں ہے تو اس کو برا نہیں کہیں گے۔

حدیث میں مال و دولت کے تعلق سے  دینار اور درہم ہی کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ یہ دونوں چیزیں (جن کو سونا چاندی یا روپیہ پیسہ بھی کہا جا سکتا ہے) زر نقد ہیں کہ لین دین اور خرید و فروخت میں انہیں کا اعتبار ہوتا ہے اور ان کے ذریعہ ہی تمام جائز و ناجائز مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے، اسی طرح اسباب معیشت میں صرف چادر کا ذکر اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ اصل میں  خمیصہ اس خط دار چادر کو کہتے ہیں جو اس زمانہ میں لباس فاخرہ کا سب سے اعلیٰ مظہر سمجھی جاتی تھی اور اس کے استعمال سے عام طور پر تکبر و رعونت اور نمود و نمائش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، نیز لوگ اس چادر کو اس قدر پسند کرتے تھے کہ اس کو اپنے سے جدا کرنا بھی ان کو گوارہ نہیں ہوتا تھا، لہٰذا اس زمانہ کے دنیا دار اس چادر کی خواہش و طلب اور اس کی محبت میں اس قدر گرفتار ہوتے تھے کہ جیسے انہوں نے اس چادر کی غلامی اختیار کر لی ہو۔

 نقش اور انتقاش کے معنی ہیں پیر سے کانٹا نکالنا  لہٰذا واذا شیک فلا انتقش کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال و دولت اور روپیہ پیسہ کا غلام بن جائے کہ نہ تو وہ ناجائز اور حرام وسائل و ذرائع سے کمانا اور دولت جوڑنا ترک کرتا ہو اور نہ اپنے روپیہ پیسہ کو حقداروں پر اور خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہو تو مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ تعاون اور اس کی پشت پناہی سے گریز کریں۔ اور جب وہ کسی آفت میں پھنسے تو اس کی کوئی مدد نہ کریں، اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ پیر سے کانٹا نکالنا چونکہ مدد کرنے کا سب سے ادنی درجہ ہے لہٰذا اس سب سے ادنیٰ درجہ کی مدد سے بھی منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اگر اس کو کوئی اس سے بھی بڑا حادثہ پیش آ جائے اور اس سے بھی زیادہ سخت حالات سے دوچار ہو تو اس کی مدد نہ کرنا بطریق اولیٰ جائز بلکہ مطلوب ہو گا۔

 یہ بات بھی واضح کر دینا ضروری ہے کہ حدیث کے لفظ  تعس کا یہ ترجمہ کہ  ہلاک ہو وہ شخص الخ اس امر کو ظاہر کرتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد کی مراد ایسے شخص کے حق میں بد دعا کرنا ہے، چنانچہ مذکورہ ترجمہ کے پیش نظر اور شارحین کی اتباع کی بنا پر نقل کیا گیا ہے اور اگر یہ مراد لیا جائے تو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس لفظ کے ذریعہ اس شخص کے حق میں بد دعا نہیں فرمائی بلکہ اس بد ترین خصلت کی مذمت اور اس خصلت کو اختیار کرنے والوں کو دنیاوی اور اخروی ذلت و خواری اور ان کے برے انجام کو بطور خبر ظاہر فرمایا تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ ہلاک ہوا وہ شخص الخ اور یہ مراد بھی حدیث کے مغائر نہیں ہو گی۔

مالداری بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہے

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم اور ان کے ذریعہ عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے) فرمایا۔  اپنی وفات کے بعد تمہارے بارہ میں مجھے جن چیزوں کا خوف ہے (کہ تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے (ان میں سے ایک چیز دنیا کی تر و تازگی اور زینت بھی ہے (جو ملکی فتوحات و اقتدار کی صورت میں) تم کو حاصل ہو گی۔ یہ سن کر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم، کیا بھلائی اپنے ساتھ برائی بھی لائے گی؟ (یعنی ملکی فتوحات و اقتدار کی وجہ سے ہم مسلمانوں کو جو مال غنیمت اور ساز و سامان حاصل ہو گا وہ تو ہمارے حق میں خدا کی نعمت ہو گی اور ویسے بھی جائز وسائل و ذرائع سے حاصل ہونے والی دولت اور رزق وغیرہ کی وسعت و فراخی ایک اچھی چیز ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خدا کی عطا کی ہوئی نعمت اور ایک اچھی چیز ہمارے لئے برائی و فتنہ اور ترک طاعات کا سبب و ذریعہ بن جائے؟) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یہ سن کر) خاموش رہے (اور انتظار کرتے رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آئے تو جواب دیں) یہاں تک کہ ہم نے محسوس کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (تھوڑی دیر کے بعد) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چہرہ مبارک سے پسینہ پونچھا (جو نزول وحی کے وقت آتا تھا) اور پھر فرمایا کہ وہ شخص کہاں ہے جس نے سوال کیا تھا؟ گویا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سائل کے سوال کی تحسین فرمائی (کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جانتے تھے کہ اس شخص نے جو سوال کیا ہے اور اب اس کا جو جواب دیا جائے گا اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچے گا) اور اس کے بعد فرمایا  حقیقت یہ ہے کہ بھلائی اپنے ساتھ برائی نہی لاتی (یعنی جائز ذرائع سے مال و دولت کا حاصل ہونا اور رزق میں وسعت و فراخی اور خوشحالی کا نصیب ہونا بھلائیوں میں سے ایک بھلائی ہے اور اس کی وجہ سے کوئی برائی پیشن نہیں آتی، بلکہ اصل میں برائی کا پیش آنا ان عوارض کی وجہ سے ہوتا ہے جو دولت مندی اور خوشحالی کے وقت لاحق ہو جاتے ہیں جیسے بخل و اسراف اور حد اعتدال سے تجاوز کرنا اور اس کی مثال موسم بہار ہے جو زمین کے پیٹ سے گھاس وغیرہ اگاتا ہے وہ اپنی ذات کے اعتبار سے تو اچھا اور فائدہ مند ہوتا ہے، البتہ اس سے ضرور نقصان اس وقت پہنچتا ہے جب کوئی چوپایہ اس کو ضرورت سے زائد کھائے اور بسیار خوری کے سبب ضرور ہلاکت میں مبتلا ہو جائے، چنانچہ خود حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس مثال کو یوں بیان فرمایا کہ) موسم بہار میں جو سبزہ اگاتا ہے (وہ حقیقت میں تو بھلائی و فائدہ کی چیز ہوتا ہے کہ وہ اپنے ساتھ کوئی نقصان و برائی لے کر زمین کے پیٹ سے نہیں اگتا مگر) وہ جانور کو اسکا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے یا (اگر وہ مرتا نہیں تو) مرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے (یعنی جو جانور اس سبزہ کو کھانے میں حد سے تجاوز کر جاتا ہے وہ اس سبزہ کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنے فعل یعنی زیادہ کھانے کی وجہ سے ضرور ہلاکت میں مبتلا ہو جاتا ہے) یہ کہ کھانے والے جانور نے اس سبزہ کو اس طرح کھایا کہ (جب بسیار خوری کی وجہ سے) اس کی دونوں کوکھیں پھول گئیں تو وہ سورج کے سامنے بیٹھ گیا (جیسا کہ جانور کی عادت ہوتی ہے کہ بدہضمی کی وجہ سے اس کا پیٹ پھول جاتا ہے تو وہ دھوپ میں بیٹھ جاتا ہے اور اس کا پیٹ گرمی پاکر نرم ہو جاتا ہے اور اس میں جو کچھ ہوتا ہے باہر نکل جاتا ہے، اور پھر (جب) پتلا گوبر اور پیشاب کر کے (اس نے اپنا پیٹ ہلکا کر لیا تو) چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دنیا کا یہ مال و زر بڑا سرسبز، تر و تازہ اور نرم و دلکش ہے (کہ بظاہر آنکھوں کو بہت بھاتا ہے، طبیعت کو بہت اچھا لگتا ہے جس کی وجہ سے دل چاہتا ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ حاصل ہو) لہٰذا جو شخص دنیا کے مال و زر کو حق کے ساتھ(یعنی بوقت ضرورت اور جائز وسائل و ذرائع سے) حاصل کرے اور اس کو اس کے حق میں (یعنی اس کے اچھے مصارف میں کہ خواہ واجب ہو یا مستحب) خرچ کرے تو وہ مال و زر اس کے حق میں (دین کا) بہترین مددگار ثابت ہوتا ہے اور جو شخص اس مال و زر کو حق کے بغیر یعنی ناجائز طور پر حاصل کرے تو وہ اس شخص کی طرح ہوتا ہے جو کھاتا رہتا ہے اور شکم سیر نہیں ہوتا اور وہ مال و زر قیامت کے دن اس کے بارے میں (اس کے اسراف اور اس کی حرص و طمع کا) گواہ ہو گا۔  (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی جملوں کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے بارے میں مجھے خدشہ ہے کہ جب تم دنیا کے ملکوں اور شہروں کو فتح کر کے اپنے تسلط و اقتدار کا جھنڈا لہراؤ گے اور اس کے نتیجہ میں تمہیں مال و دولت کی فراوانی اور خوشحالی نصیب ہو گی تو یہ چیز تمہیں عبادت و طاعت اور نیک اعمال سے باز رکھنے کی کوشش کرے گی، نفع پہنچانے والے علوم (یعنی دینی علوم و فنون) سے لا پرواہ بنا دے گی اور عجب و تکبر، گھمنڈ و غرور، شان شوکت کا اظہار اور جاہ و مال سے محبت جیسی برائیاں تمہارے اندر پیدا ہو جائیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ تم آخرت کی زندگی کی فکر کرنے اور موت کے لئے تیاری کرنے کی بجائے دنیاوی امور میں پھنس کر رہ جاؤ گے۔

  پھر چراگاہ کی طرف چلا گیا اور سبزہ چرنے لگا  یعنی جب وہ جانور ضرورت سے زیادہ کھا لیتا ہے اور بدہضمی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اپنے طریقہ سے بدہضمی کا علاج کرتا ہے اور اپنے پیٹ کو صاف کر کے دوبارہ سبزہ چرنے لگتا ہے۔ یہ مثال اس شخص کی ہے جو انسانی خمیر میں شامل حرص و خواہشات کے غلبہ کی وجہ سے بعض وقت اعتدال کی راہ سے بھٹک کر حد سے تجاوز کر  جاتا ہے اور پھر ہلاکت کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اپنے طرز عمل سے جلد ہی رجوع کر لیتا ہے اور مستقل طور سے بے اعتدالی و گناہ کی راہ پر قائم نہیں رہتا بلکہ آفتاب ہدایت کی روشنی اس کو راہ راست کی طرف متوجہ کر دیتی ہے اور ندامت وتوبہ کے ذریعہ اپنے نفس کو بے اعتدالی اور گناہ کی غلاظت سے پاک کر کے گویا اپنا علاج کر لیتا ہے۔ اس کے برخلاف پہلی قسم کی کہ جس کو  وہ جانور کو اس کا پیٹ پھلا کر مار دیتا ہے کے ذریعہ بیان فرمایا، اس شخص کی حالت کی طرف اشارہ کرتی ہے جو نفس کی خواہشات کا غلام بن جاتا ہے، گناہ و معصیت پر قائم رہتا ہے اور اسی حالت میں مر جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کو توبہ و انابت اور رجوع و استغفار کی توفیق بھی نصیب نہیں ہو پاتی۔ ان دونوں قسموں پر غور کرنے سے ایک اور قسم سامنے آتی ہے جس کا تعلق اس شخص سے ہے جو سرے سے بے اعتدالی اور گناہ کی راہ اختیار نہیں کرتا اور نفس کی خواہشات اور ناروا تمناؤں کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ دنیا سے بے پرواہ ہوتا ہے اور اپنی تمام تر توجہ آخرت کے مفاد کی طرف مبذول رکھتا ہے، لہٰذا پہلی قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو اصطلاحی طور پر  ظالم سے موسوم کیا جاتا ہے، دوسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو  مقتصد یعنی میانہ رو کہا جاتا ہے اور تیسری قسم کے لوگ وہ ہیں جن کو  سابق یعنی بھلائیوں کو اختیار کرنے میں سبقت لے جانے والا کہا جاتا ہے۔ پس جو شخص  سابق ہوتا ہے وہ سرے سے اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ ہی نہیں کرتا، جو شخص مقتصد ہوتا ہے وہ اپنے ہاتھوں کو گناہ سے آلودہ تو کرتا ہے لیکن ان کو پھر دھو ڈالتا ہے اور جو شخص ظالم ہوتا ہے وہ ہاتھ آلودہ ہی اس دنیا سے چلا جاتا ہے۔

 مذکورہ مثال اور اس کی مطابقت کو بیان کرنے کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے  یہ مال و زر بڑا سرسبز تازہ اور نرم و دلکش ہے سے اس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ دنیا کے مال و زر، اس کے تئیں محبت اور اس کے مصارف کے تعلق سے انسانوں کے حالات و خیالات مختلف ہوتے ہیں کہ کچھ لوگ تو وہ ہوتے ہیں جو محض ضرورت و حاجت کے بقدر ہی مال و اسباب کے حصول پر اکتفا کرتے ہیں اور اس کے حصول کے لئے بھی جائز و درست وسائل و ذرائع اختیار کرتے ہیں، نیز ان کے پاس جو مال و اسباب اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو وہ اچھے مصارف میں خرچ کرتے ہیں۔ اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو مال و دولت ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کی حرص و طمع کسی بھی حد پر قناعت نہیں کرتی، وہ نہ صرف یہ کہ ضرورت و احتیاج سے زائد مال و زر حاصل کرنے کی سعی و کوشش کرتے ہیں اور اس کو جوڑنے میں لگے رہتے ہیں بلکہ اس کے حصول میں جائز و ناجائز کے درمیان کوئی تمیز نہیں کرتے، سخت سے سخت برائی کا ارتکاب کر کے اور حرام ذرائع کو اختیار کر کے دولت سمیٹتے رہتے ہیں، علاوہ ازیں ان کے پاس جو مال و دولت اور روپیہ پیسہ ہوتا ہے اس کو حقداروں پر اور ان مصارف میں خرچ نہیں کرتے جو خدا کی خوشنودی کا باعث ہوتے ہیں، اور مال و دولت کے تئیں ان کی یہ حرص و طمع ان کو اس شخص کی مانند بنا دیتی ہے جو کھاتا رہتا ہے مگر غلبہ حرص کی وجہ سے کبھی شکم سیر نہیں ہوتا یا ان کی حالت اس شخص کی سی ہو جاتی ہے جو استسقا کا مریض ہوتا ہے کہ کسی وقت بھی سیراب نہیں ہوتا اور جتنا پانی پیتا ہے اسی قدر پیاس بھڑکتی ہے اور پیٹ پھولتا جاتا ہے۔

ایک عارف کی نظر میں دنیا کی مثال: بڑے پایہ کے بزرگ اور عارف باللہ حضرت خواجہ عبیداللہ نقشبندی رحمۃ اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا  یہ دنیا سانپ کی مانند ہے، لہٰذا جو شخص اس کا منتر جانتا ہے اس کے لئے تو دنیا کو حاصل کرنا جائز ہے لیکن دوسروں کے لئے جائز نہیں جب لوگوں نے یہ سنا تو عرض کیا کہ حضرت! اس کا منتر کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا، اس بات کا علم ہونا کہ اس (ادنی کے مال و دولت) کو کہاں سے اور کس طرح حاصل کر رہا ہے، اور کہا خرچ کر رہا ہے

دنیا کی طرف راغب ہونا تباہی و بربادی کی طرف راغب ہونا ہے

حضرت عمرو بن عوف رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ خدا کی قسم مجھے تمہارے فقر و افلاس کا کوئی ڈر نہیں ہے (کیونکہ فقر و افلاس کی حالت میں دین کی سلامتی کا امکان غالب ہوتا ہے اور یہ چیز تمہارے حق میں زیادہ سود مند ہے) بلکہ میں اس سے ڈرتا ہوں کہ دنیا تم پر کشادہ کی جائے گی (اور تم مالداروں کا طور طریقہ اختیار کر کے مختلف قسم کی آفتوں اور بلاؤں کے ذریعہ ہلاکت و تباہی میں مبتلا ہو جاؤ گے) جیسا کہ ان لوگوں پر دنیا کشادہ کی گئی تھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں (اور وہ مال و دولت کی بے حد رغبت و محبت رکھنے کی وجہ سے فقرا اور مساکین پر رحم نہیں کھاتے تھے اور ان کی مدد و اعانت سے گریز کرتے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو تباہ و برباد کر دیا گیا) چنانچہ تم دنیا کی طرف رغبت کرو گے (یعنی دنیا کو اختیار کرو گے اور اس کی طرف نہایت رغبت رکھو گے کہ ایک دوسرے سے مال و دولت اور جاہ و حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑائی جھگڑا شروع کر دو گے) جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں نے اس کی طرف رغبت کی تھی اور پھر یہ دنیا تم کو اسی طرح تباہ و برباد کر دے گی جس طرح ان کو تباہ و برباد کر چکی ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 مال و دولت کی وہ فراخی و آسودگی جو دنیا کا گرویدہ بناتی ہے، حرص و طمع میں مبتلا کرتی ہے، جوڑنے سمیٹنے اور ذخیرہ اندوزی کا خوگر کرتی ہے چونکہ انسان کو اخلاقی و روحانی طور پر تباہ و برباد کر دیتی ہے اور اخروی ہلاکت کا مستوجب بنا دیتی ہے اس لئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کی دنیاوی خوشحال و آسودگی اور مالداری سے اپنے خوف کا اظہار فرمایا! یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس دنیاوی نفع و آسودگی اور خوشحالی کے تئیں خوف کا اظہار فرمایا جو باہمی مخالفت و نزاع، سماجی استحصال و لوٹ کھسوٹ اور محض دنیاوی اقتدار کے لئے جنگ و جدل اور قتل و قتال کے نتیجہ میں حاصل ہو۔

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں  فقر سے مراد ان تمام چیزوں سے تہی دست ہونا ہے جن کی ایک انسانی زندگی کو احتیاج ہوتی ہے اور جن پر ضروریات دین کی تکمیل اور بنیادی اسباب معیشت کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح غنا یعنی دنیاوی فراخی و آسودگی سے مراد دنیا کی چیزوں کا اس قدر حاصل ہونا ہے جو مقدار کفایت و ضرورت سے زائد ہوں جس کی وجہ سے انسان حق تعالیٰ کی عبادت و اطاعت سے غافل ہو جاتا ہے اور تمردو سرکشی اختیار کر لیتا ہے۔

رزق کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دعا

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دعا فرمائی اے اللہ! تو آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بقدر قوت، رزق عطا فرما  اور ایک روایت میں (قوت کے بجائے)  کفاف کا لفظ ہے (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 ملاعلیٰ قاری کے مطابق آل سے مراد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذریت (اولاد) اور اہل بیت ہیں یا امت کے وہ لوگ مراد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سچے تابعدار اور محبوب ہوں۔ اور حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ نے یہ لکھا ہے کہ  آل سے مراد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت کے تمام افراد اور متبعین مراد ہیں جیسا کہ لفظ  آل کے اصل معنی یہی مراد لئے جاتے ہیںَ اور اگر اہل و عیال ہی کو مرادلیا جائے تو بھی قیاس اور دلالت کو بنیاد بنا کر ان (اہل وعیال) کے علاوہ امت کے باقی افراد کو بھی اس دعا میں شامل قرار دیا جائے گا۔

  قوت کھانے پینے کی اس محدود مقدار کو کہتے ہیں جو زندگی کو باقی اور جسمانی توانائی کو برقرار رکھے، اور بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ کھانے پینے کی وہ محدود مقدار  قوت کہلاتی ہے جو جان کو بچائے اور بطور رزق کافی ہو  کفاف بنیادی ضروریات زندگی کی اس مقدار کو کہتے ہیں جو کسی کے سامنے دست سوال دراز کرنے سے محفوظ باز رکھے۔ نیز بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ  قوت اور کفاف کے ایک ہی معنی ہیں اور زیادہ صحیح بات بھی یہی ہے کہ دوسری روایت کا لفظ  کفاف دراصل پہلی روایت کے لفظ  قوت کی وضاحت ہے اور اس لفظ کے ذریعہ اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اسباب معیشت اور ضروریات زندگی کی کم سے کم مقدار پر اکتفا کرنا اولیٰ ہے، واضح رہے کہ حق تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس دعا کو اپنے ان بندوں کے حق میں قبول فرمایا جنہیں اس نے اپنا پیارا اور برگزیدہ بنانا چاہا۔

 اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ  کفاف یعنی خوراک کی بقدر کفایت مقدار، کوئی متعین اور آخری نہیں، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں اور اس فرق و اختلاف کا مدار اشخاص، زمانہ اور حالات کی عدم یکسانیت پر ہے، مثلاً ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو قلیل کھانے کی عادت رکھتا ہے بایں طور کہ وہ دو تین دن یا اس سے زائد بھوکا رہ سکتا ہے، ایک شخص ایسا ہوتا ہے جو دن بھر میں دو تین بار کھانے کی عادت رکھتا ہے، کوئی شخص کم یا زیادہ اہل و عیال رکھتا ہے اور کوئی شخص سرے سے عیالدار ہی نہیں ہوتا، اسی طرح بعض حالات اور بعض اوقات ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کھانے پینے کی تھوڑی سی مقدار بھی کافی ہو جاتی ہے جیسے قحط کا زمانہ، تنگدستی کی حالت اور ضعف و کمزوری یا مرض کا لاحق ہنا، اس کے برخلاف خوشحالی و آسودگی اور قوت و توانائی کی حالت میں کھانے پینے کی زیادہ خواہش ہوتی ہے غرضیکہ کفاف کی مقدار کو منضبط نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کا دارومدار وقت و حالات و ضروریات پر ہوتا ہے کہ جو شخص جس حیثیت کا اور جس حالت میں ہوتا ہے اس کے حق میں کفاف کی مقدار اسی کے مطابق ہوتی ہے۔ البتہ مستحسن اور مطلب یہ ہے کہ انسان کو اپنے کھانے پینے کی ضروریات کو بس اسی مقدار تک محدود رکھنا چاہئے جو زندگی کی بقا کے لئے ناگزیر اور جسمانی قوت توانائی کی برقراری کے لئے ضروری ہو کہ جس سے عبادات وطاعات پر قدرت خاص رہے اور معمولات زندگی فوت نہ ہوں۔

 اس حدیث میں گویا مسلمانوں کو اس امر پر متنبہ کرنا مقصود ہے کہ وہ حصول معاش کی جدوجہد کی ضروریات زندگی کی اس مقدار تک محدود رکھیں جو  کفاف کہلاتی ہے اور ضرورت سے زیادہ اسباب معیشت مہیا کرنے کی محنت و مشقت برداشت نہ کریں نیز حد اعتدال سے تجاوز کر کے اور حرص و ہوس میں مبتلا ہو کر اپنی روحانی و اخلاقی زندگی کو مضمحل نہ کریں۔

 علما نے لکھا ہے کہ  فقر اور غنا دونوں سے کفاف افضل ہے، اگرچہ بعض حالتوں میں غنا یعنی مال و دولت کی کثرت بھی ایک طرح کی فضیلت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کثرت کی وجہ سے حاصل ہونے والی خوشحالی و آسودگی کسی بھی صورت میں دینی گمراہی، اخروی نقصان و خسران اور دنیا کی محبت وچاہ کا موجب نہ بنے بلکہ خیر و بھلائی اور عبادات وطاعات کی راہ زیادہ سے زیادہ اختیار کرنے میں مددگار ہو۔

فلاح و نجات پانے والا شخص

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  وہ شخص فلاح و نجات کو پہنچ گیا جس نے اسلام قبول کیا (یا  اسلم سے مراد یہ ہے کہ اس نے قضا و قدر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کیا) اس کو (حلال و جائز ذرائع سے) بقدر کفاف رزق دیا گیا (یعنی اس کو بس اتنا رزق ملا جو اس کی ضروریات زندگی کے لئے کافی ہو گیا اور وہ غیراللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے کا ضرورتمند نہیں رہا) اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اس چیز پر کہ جو اس کو دی گئی ہے قناعت بخشی (اور اس کو تقدیر پر راضی اور مطمئن کیا ۔ (مسلم)

مال و دولت میں انسان کا اصل حصہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  بندہ کہتا رہتا ہے کہ میرا مال، میرا مال(یعنی جو شخص مالدار اور دولت مند ہوتا ہے وہ اپنے مال و دولت پر بہت فخر کرتا ہے اور دوسرے پر یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ میرے پاس مال و دولت ہے) اور حقیقت یہ ہے کہ اس کو اس مال و دولت میں سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے وہ فی الجملہ تین چیزیں ہیں (اور ان تین چیزوں میں سے بھی صرف ایک چیز ایسی ہے جو اس کے لئے حقیقی نفع بخش اور باقی رہنے والی ہے، جب کہ بقیہ دو چیزیں ایسی ہیں جن کا تعلق دنیا سے ہے اور جو فنا ہو جانے والی ہے) ایک تو وہ چیز جس کو اس نے کھا لیا اور ختم کر دیا، دوسری وہ چیز جس کو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ کر دیا یعنی اتار کر پھینک دیا، اور تیسری وہ چیز جس کو اس نے خدا کی راہ میں دیا اور (آخرت کے لئے) ذخیرہ کر لیا، ان تینوں کے سوا اور جو کچھ ہے (جیسے زمین، جائیداد، مویشی، نوکر چاکر، روپیہ پیسہ اور دیگر قیمتی چیزیں وہ) سب ایسی ہیں جن کو وہ لوگوں کے لئے چھوڑ کر (اس دنیا سے) چلا جانے والا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی میں اس حقیقت کو واضح فرمایا گیا ہے کہ انسان محنت و مشقت کر کے دنیا کماتا ہے، مال و دولت حاصل کرتا ہے اور زمین و جائیداد بناتا ہے، پھر اس مال و دولت اور زمین جائیداد پر فخر کرتا ہے، اپنے کو ایک بڑا آدمی ظاہر کرتا ہے اور لوگوں پر اپنی امارت و ثروت کا سکہ جمانے کی کوشش کرتا ہے لیکن وہ اس بات کو محسوس نہیں کرتا کہ اول تو اس مال و دولت اور زمین جائیداد کا وبال بہت سخت ہے اور اس کی جواب دہی نہایت مشکل ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے پاس جو کچھ مال و دولت اور زمین جائیداد ہے اس سے خود اس کی ذات کو بہت معمولی فائدہ پہنچتا ہے اور یہ چیزیں بہت کم عرصہ تک اس کا ساتھ دینے والی ہیں، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بڑے نفسیاتی طریقہ پر واضح فرمایا کہ مال و دولت میں انسان کا اصل حصہ اور اس کا فی الجملہ فائدہ بس اتنا ہوتا ہے کہ وہ کچھ چیزوں کو تو کھا پی کر ختم کر دیتا ہے۔ کچھ چیزوں کو پہن برت کر پرانا کر دیتا ہے اور اگر اسے توفیق ہوتی ہے تو کچھ چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے ان کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت بنا لیتا ہے، باقی تمام مال و اسباب، ساری زمین جائیداد اور سب روپیہ پیسہ وغیرہ دوسروں کے لئے چھوڑ کر دنیا سے چلا جاتا ہے۔

 مذکورہ بالا تینوں صورتوں میں سے آخری صورت (یعنی اپنے مال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا) بے شک ایسی چیز ہے جو انسان کو اس کے مال و دولت سے سب سے بیش قیمت اور ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والا نفع پہنچاتی ہے، اور اگر اس اصل نفع کے لئے مال و دولت کو حاصل کیا جائے اور اس کو جمع کیا جائے تو یہ یقیناً سمجھ میں آنے والی بات ہو گی ورنہ محض چند روزہ دنیاوی اور جزوی منافع کے لئے مال و دولت جمع کرنا اور اس کی وجہ سے اپنی بڑائی کا اظہار کرنا بے حقیقت بات ہو گی، چنانچہ اس ارشاد گرامی کے ان الفاظ او اعطی فاقتنی کے اس کو خدا کی خوشنودی کے لئے فقرا و غربا اور حاجتمندوں پر خرچ کرے تاکہ اس کا ثواب جمع ہوتا رہے اور پھر حاجت کے دن (روز حشر) کام آئے۔

مرنے کے بعد نہ اہل و عیال ساتھی ہوں گے اور نہ جاہ و مال

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میت کے ساتھ (قبر تک) تین چیزیں جاتی ہیں، ان میں سے دو چیزیں تو (اس کو اکیلا چھوڑ کر) واپس آ جاتی ہیں اور ایک چیز اس کے ساتھ رہ جاتی ہے، چنانچہ اس کے متعلقین (جیسے اولاد، عزیز و اقارب، دوست و احباب اور جان پہچان کے لوگ) اور اس کے اموال (جیسے نوکر چاکر، پلنگ، جانور، گاڑی وغیرہ اور اسی طرح کے اسباب) اور اس کے اعمال اس کے ساتھ جاتے ہیں۔ ان تینوں میں سے متعلقین اور مال تو (اس کو تنہا چھوڑ کر) واپس آ جاتے ہیں اور اس کے اعمال اس کے ساتھ رہتے ہیں۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

  اعمال سے مراد وہ ثواب و عذاب ہے جو ہر اچھے برے عمل پر مرتب ہوتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ انسان جب اس دنیا سے رخصت ہو کر آخرت کی پہلی منزل (قبر) میں پہنچتا ہے تو وہاں سے وہ مرحلہ شروع ہو جاتا ہے جہاں سے عزیز و اقارب، دوست، احباب، مال و دولت اور جاہ و حشم سب ساتھ چھوڑ دیتے ہیں اور صرف وہ اعمال اس کے ساتھ رہ جاتے ہیں جو اس نے دنیا میں کیے تھے۔ شاید اسی لئے کہا گیا ہے کہ القبر صندوق العمل یعنی قبر اعمال کا صندوق ہے۔

اپنے مال کو ذخیرہ آخرت بناؤ

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (صحابہ رضی اللہ عنہم کو مخاطب کر کے) فرمایا کہ  تم میں وہ کون شخص ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو کہ اس کا مال اور روپیہ پیسہ خود اس کے لئے نہ ہو بلکہ اس کے وارثوں کے لئے ہو؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ! ہم میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کے مال کو پسند کرتا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ (تو سنو) حقیقت میں اس کا مال وہ ہے جس کو اس نے (صدقہ و خیرات وغیرہ کے ثواب کی صورت میں) آگے بھیج دیا ہے اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جس کو وہ اپنے پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر لوگ واقعۃً اس بات کو زیادہ پسند کرتے ہیں کہ ان کے پاس جو مال و دولت ہے اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ انہی کو پہنچے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس مال و دولت کو یہاں دنیا میں جمع کرنے اور یہیں چھوڑ جانے کے بجائے آخرت میں کام آنے کے لئے آگے بھیجیں، جس کی صورت یہ ہے کہ اس کو صدقہ و خیرات اور نیک کاموں میں خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ ثواب کمائیں، لیکن عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ لوگ اپنے مال و دولت اور روپیہ پیسہ کو جوڑ جوڑ کر جمع کرتے ہیں، صدقہ و خیرات کرنے اور حقداروں کا حق دینے سے گریز کرتے اور بخل کرتے ہیں، اور اس طرح اس کو آگے بھیجنے کے بجائے ورثا کے لئے یہیں دنیا میں چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اپنے مال و دولت کو اپنے لئے زیادہ پسند نہیں کرتے بلکہ اپنے ورثا کے لئے زیادہ پسند کرتے ہیں تاہم واضح رہے کہ اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس شخص کے پاس جو کچھ مال و دولت اور اثاثہ ہو وہ ان سب کو خدا کی راہ میں خرچ کر دے اور اپنے ورثا کے لئے کچھ بھی چھوڑ کر نہ جائے، بلکہ اصل مقصد اس بات کی طرف راغب کرنا ہے کہ مال دار لوگ بخل و امساک کا طور طریقہ نہ اپنائیں اور فقرا و مساکین کی امداد و اعانت سے گریز نہ کریں بلکہ اپنے مال و دولت اور اپنے روپیہ پیسہ کا کچھ حصہ خدا کی راہ میں ضرور خرچ کریں، چنانچہ اپنے مال و دولت کے کچھ حصے کو صدقہ و خیرات کرنے اور فقرا و مساکین اور نیک کاموں کے لئے وصیت کرنے کے بعد کہ جس کی زیادہ سے زیادہ مقدار تہائی حصہ ہے، باقی کو ورثا کے لئے چھوڑنا افضل ہے، جیسا کہ حدیث میں آیا ہے کہ اپنے ورثا کو تونگر چھوڑ کر جانا اس سے بہتر ہے کہ اپنا سارا مال و زر خدا کی راہ میں خرچ کر کے دنیا سے رخصت ہو جائے اور اس کے ورثا اپنی ضروریات کے لئے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔

مالدار کے حق میں اس کا اصل مال وہی ہے جو اس کے کام آئے

حضرت مطرف رحمۃ اللہ (تابعی) اپنے والد ماجد (حضرت عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ) سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس وقت آپ الہکم التکاثر پڑھ رہے تھے (جس کے معنی یہ ہیں کہ اے لوگو! تم آپس میں اپنی ثروت و امارت پر فخر و ناز کرنے کے سبب آخرت کے خوف سے بے پرواہ ہو گئے ہو) چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (تکاثر یعنی آپس میں ثروت و امارت پر فخر کرنے کی وضاحت میں) فرمایا ابن آدم میرا مال، میرا مال کہتا ہے (یعنی جس کے پاس زیادہ مال ہوتا ہے وہ لوگوں پر جتاتا رہتا ہے کہ میں اتنا بڑا مالدار ہوں، میرے پاس اتنی زیادہ دولت ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (لوگوں کا اپنے مال و متاع پر فخر کرنا بالکل بے حقیقت بات ہے، واقعہ یہ ہے کہ) اے ابن آدم! تجھے تیرے مال سے جو کچھ حاصل ہوتا ہے اور تو جتنا فائدہ اٹھاتا ہے وہ بس اتنا ہے کہ تو کچھ چیزوں کو کھا لیتا ہے اور اس کو ختم کر دیتا ہے، کچھ چیزوں کو پہنتا ہے اور ان کو بوسیدہ کر دیتا ہے اور کچھ چیزوں کو خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا ہے اور اس کو آخرت کے لئے ذخیرہ بنا لیتا ہے۔ (مسلم)

حقیقی دولت، دل کا غنا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اصل تونگری و دولت مندی یہ نہیں ہے کہ اپنے پاس بہت زیادہ مال و متاع ہو بلکہ حقیقی تونگری و  دولتمندی جس چیز کا نام ہے وہ نفس یعنی دل کا تونگر و غنی ہونا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 دل کا غنی ہونا یہ ہے کہ جو کچھ حاصل ہو اس پر قناعت کرے، مال و دولت اور مالداروں سے بے نیازی و بے پروائی برتے اور بلند حوصلگی اور عالی ہمتی کا مالک ہو کہ نہ تو حرص و طمع میں مبتلا ہو اور نہ کسی کے آگے دست سوال دراز کرے، چنانچہ جو شخص ایسا ہو کہ اس کا دل مال و دولت حاصل کرنے اور جوڑنے توڑنے لگا رہے اور کثرت مال کی طلب و حرص میں مبتلا ہو تو وہ حقیقت میں فقیر و محتاج ہے، خواہ ظاہر میں کتنا ہی مالدار کیوں نہ ہو، اور جو شخص قوت کفاف پر قانع و راضی ہو اور زیادہ طلبی و حرص سے دور رہے۔ وہ اصل میں تونگر و غنی ہے اگرچہ ظاہر میں اس کے پاس کچھ بھی ہو۔ اسی حقیقت کو شیخ سعدی رحمۃ اللہ نے یوں بیان کیا ہے

تونگری بدل است نہ بمال

بزگی بعقل است نہ بسال

 بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ غنی النفس (یعنی نفس کے غنی ہونے) سے مراد یہ ہے کہ وہ علمی کمالات حاصل ہوں جن کے بغیر انسان کی روحانی اخلاقی زندگی نہ تو محفوظ رہتی ہے اور اس کو آسودگی و عظمت حاصل ہوتی ہے، گویا اصل خوش بختی و دولت اور تونگری کا مدار روحانی و عملی کمالات پر ہے نہ کہ مال و متاع کی کثرت پر، جیسا کہ کسی نے کہا ہے

تونگر نہ بمال است نزد اہل کمال

کہ مال تالب گوراست بعدازاں اعمال

اور بعض ارباب نے یوں کہا ہے

رضینا قسمۃ الجبار فینا

لنا علم وللجہال مال

حق تعالیٰ نے ہماری قسمت میں جو کچھ لکھ دیا ہے ہم اس پر راضی و مطمئن ہیں ہمارے لئے علم کی دولت ہے اور دشمنوں کے لئے دنیاوی مال ہے

فان المال یفنی عن قریب

وان العلم یبقی لایزال

بس اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیاوی مال بہت جلد فنا ہونے والا ہے۔ جب کہ علم کی دولت یقیناً ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔

 یہ بات معلوم ہی ہے کہ دنیاوی مال و متاع ان لوگوں کی میراث ہے جو خدا کے نزدیک سخت مبغوض اور مردود ہیں، جیسے فرعون، قارون اور تمام کفار و فجار وغیرہ، جب کہ انبیا، علما اور اولیا کی میراث علم و اخلاق کی دولت ہے، لہٰذا دنیا دار شخص ظاہری مال و متاع حاصل کر کے راضی و مطمئن ہوتا ہے اور دیندار شخص علم کی دولت پاکر خوش اور مطمئن ہوتا ہے۔

پانچ بہترین باتوں کی نصیحت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کون شخص ہے جو مجھ سے پانچ باتوں کو سیکھے اور پھر ان پر عمل کرے یا اس شخص کو سکھائے جو ان پر عمل کرنے والا ہو۔ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ سن کر میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) وہ شخص میں ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (یہ سن کر) میرا ہاتھ پکڑا اور وہ پانچ باتیں گنائیں، اور (اس طرح) بیان فرمایا۔ (١) تم ان چیزوں سے بچو، جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے اگر تم ان سے بچو گے تو تم لوگوں میں سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ ہو گے۔ (٢) تم اس چیز پر راضی و شاکر رہو جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہاری قسمت میں لکھ دیا ہے، اگر تم تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن رہو گے تو تمہارا شمار تونگر ترین لوگوں میں ہو گا، یعنی جب بندہ اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن ہو جاتا ہے اور طمع وحرص سے پاک ہو کر زیادہ طلبی کی احتیاج نہیں رکھتا تو وہ مستغنی اور بے نیاز ہو جاتا ہے تونگری کا اصل مفہوم بھی یہی ہے۔ (٣) تم اپنے ہمسایہ سے اچھا سلوک کرو (اگرچہ تمہارے ساتھ برا سلوک کرے) اگر تم ایسا کرو گے تو تم کامل مومن سمجھے جاؤ گے۔ (٤) تم زیادہ ہنسنے سے پرہیز کرو، کیونکہ زیادہ ہنسنا دل کو مردہ (اور خدا کی یاد سے غافل) بنا دیتا ہے (اگر تم زیادہ ہنسنے سے اجتناب کرو گے تو تمہارا دل روحانی بالیدگی و تر و تازگی اور نور سے بھرا رہے گا اور ذکر اللہ کے ذریعہ اس کو زندگی و طمانیت نصیب ہو گی) اس روایت کو احمد نے نقل کیا ہے اور (ترمذی نے) کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حدیث کے ابتدائی جملوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علم، بذات خود افضل اشرف ہے کہ کسی شخص کا محض علم کا حاصل ہونا اس کی فضیلت کی دلیل ہے، ہاں اگر اس علم پر عمل پیرا ہونے کی دولت بھی نصیب ہو جائے تو اس سے بڑی کوئی سعادت ہی نہیں کہ علم کا اصل مقصود حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اگر کوئی عالم اپنے علم پر خود تو عمل نہ کرے البتہ تعلیم و تلقین کے ذریعہ اس علم کی روشنی دوسرے تک پہنچائے اور سیدھی راہ دکھانے کا فریضہ انجام دے تو اس کو اس صورت میں بھی ثواب ملتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بے عمل عالم کا لوگوں کو نیکی و بھلائی کی تلقین کرنا اور برائی سے روکنا درست ہے۔

  محارم کے مفہوم میں ہر طرح کی ممنوع چیزوں کو اختیار کرنا اور جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ان کو ترک کرنا شامل ہے لہٰذا تم  محارم یعنی ان چیزوں سے بچو جن کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ممنوع اور حرام چیزوں سے اجتناب کرو بلکہ شریعت نے جن چیزوں کو اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ان کو ترک کرنے سے بھی اجتناب کرو۔

 محارم سے اجتناب کرنے والے کو سب سے زیادہ عبادت گزار بندہ اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ محارم سے اجتناب کرنا گویا ان فرائض سے عہدہ برآ ہونا ہے جو حق تعالیٰ نے عائد کیے تھے۔ اور ظاہر ہے کہ فرائض کو پورا کرنے سے افضل کوئی عبادت نہیں ہے، جب کہ عام لوگ فرائض کو ترک کرتے ہیں یا ان کی طرف کم توجہ دیتے ہیں اور کثرت نوافل میں مشغول رہتے ہیںَ اور اس طرح وہ گویا اصول اور بنیاد کو تو ضائع کرتے ہیں اور فروعات و فضائل کو اختیار کرتے ہیں، مثلاً بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص پر روزوں کی قضا واجب ہوتی ہے مگر وہ اس قضا کو ادا کرنے کی طرف سے تو غافل رہتا ہے میں البتہ حصول علم اور فضل عبادات میں مشغول رہنے کو ترجیح دیتا ہے، یا ایک شخص پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے یا لوگوں کے مالی حقوق اس کے ذمہ ہوتے ہیں مگر وہ زکوٰۃ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف تو کوئی توجہ نہیں دیتا البتہ فقرا و مساکین پر خرچ کرنا اور مساجد و مدارس کی تعمیر و اعانت یا اسی طرح کے دوسرے نافلہ امور میں پورے ذوق و شوق کے ساتھ اپنا مال خرچ کرتا ہے۔

 تقدیر الٰہی پر راضی و مطمئن ہونا اور اپنے مقسوم پر صابر و شاکر رہنا، بڑا اونچا مرتبہ ہے، جس شخص کو یہ مقام نصیب ہو جاتا ہے وہ حرص و طمع سے پاک رہتا ہے، زیادہ طلبی سے اپنا دامن چھپاتا ہے اور قلبی استغنا و تونگری کی وجہ سے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا گوارہ نہیں کرتا۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے مشہور بزرگ حضرت سید ابو الحسن شاذلی سے کیمیا کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ (کیمیا) دو باتوں میں پوشیدہ ہے۔ ایک تو یہ کہ تم مخلوق کو نظر سے گرا دو (یعنی غیراللہ کو حاجت روا اور مشکل کشا بنانے کے قابل نہ سمجھو اور اللہ کے سوا کسی اور سے اپنی حاجت کو وابستہ نہ کرو) او دوسرے یہ کہ اللہ تعالیٰ سے بھی یہ امید وابستہ نہ کرو کہ وہ تمہیں اس چیز کے علاوہ کچھ اور بھی دے جو اس نے تمہاری قسمت میں لکھ دی ہے۔

 حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا۔  اے انسان اس بات کو جان لے کہ جو چیز تیری قسمت میں لکھی جاچکی ہے وہ ہر حال میں تجھے ملے گی، خواہ تو طلب و سوال کی راہ اختیار کر یا اس راہ کو ترک کر دے، اور جو چیز تیری قسمت میں نہی لکھی ہے وہ تجھ کو کسی حالت میں نہیں ملے گی۔ خواہ تو اس کی طلب کی کتنی ہی حرص رکھے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کتنی ہی سعی و کوشش اور محنت و مشقت برداشت کرے، لہٰذا (تجھے جو کچھ مل جائے) اس پر شاکر و صابر رہ، ہر حالت میں جائز و حلال چیز کو حاصل کرنا ضروری سمجھ اور اپنے مقسوم پر راضی و مطمئن رہ تاکہ رب ذوالجلال تجھ سے راضی و خوش رہے۔

  تم جس چیز کو اپنے لئے پسند کرتے ہو کا مطلب یہ ہے کہ دین و دنیا کی بہتری و بھلائی کی جس چیز کو تم خاص طور پر اپنے لئے پسند کرتے ہو اس چیز کو دوسروں کے لئے بھی پسند کرو، یہاں تک کہ کافر کے لئے ایمان کو اور فاجر کے لئے توبہ و انابت کو پسند کرو۔

دنیاوی تفکرات اور غم روزگار کی پریشانیوں سے نجات حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابن آدم! میری عبادت کے لئے تو اپنے دل کو اچھی طرح مطمئن و فارغ کر لے، میں تیرے سینے کو استغنا سے بھر دوں گا (یعنی تیرے دل کو علوم و معارف کی دولت سے مالا مال کر دوں گا، (جس کے سبب تو غیراللہ سے بے نیاز و مستغنی ہو جائے گا) اور تیرے لئے فقر و افلاس کی راہ کو بند کر دوں گا۔ اگر تو نے ایسا نہ کیا (یعنی میں نے جو یہ حکم دیا ہے کہ دنیا سے بے پروائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت کی طرف متوجہ رہ، کہ یہ چیز دنیا و آخرت دونوں جگہ فائدہ پہنچاتی ہے، اگر تو نے اس حکم سے اعراض کی اور اپنے قوائے فکر و عمل کو میری عبادت میں مشغول رکھنے کے بجائے صرف دنیاوی امور اور اپنے نفس کی خواہشات کی تکمیل میں مشغول و منہمک رکھا) تو میں تیرے ہاتھوں اور دیگر قوائے عمل کو طرح طرح کے تفکرات اور مشاغل سے بھر دوں گا اور تیرے فقر و احتیاج کو دور نہیں کروں گا  (احمد وابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ فقر و افلاس اور تفکرات و آلام کے بادل محض اس طور سے نہیں پوچھتے کہ اپنے تمام اوقات کو طلب معاش اور حصول مال کی جدوجہد اور محنت و مشقت میں صرف کرے اور ہر لمحہ دنیاوی امور و مشاغل میں سرگرداں رہے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اس کی صورت میں تمام پریشانیاں اور سرگردانیاں اپنی جگہ باقی رہتی ہیں جب کہ عبادت خداوندی کے لئے اپنے قوائے فکر و عمل اور اوقات کو دنیاوی فکرات  مشاکل سے فارغ رکھنا کشائش حالات کا ضامن بھی ہے اور غیراللہ سے استغنا وبے نیازی کے حصول کا باعث بھی، اس بات بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ خدا کی طرف متوجہ ہونے کے بجائے ہر وقت غم روزگار کی الجھنوں کو اپنے اوپر مسلط رکھنے اور طلب زر کی راہ میں ناروا محنت و مشقت کی صعوبتوں اور تفکرات میں پھنس کر اپنے آپ کو تعب و غم میں مبتلا رکھنے کی وجہ سے اس مقدار سے زائد تو کچھ حاصل ہونے سے رہا، جو ازل سے قسمت میں لکھ دی گئی ہے البتہ الٹا اثر یہ ضرور ہو گا کہ عبادت خداوندی کو ترک کرنے کے سبب قلبی استغنا کی دولت سے بھی محروم ہو جائے گا۔

ورع کی اہمیت

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر کیا گیا جو کثرت کے ساتھ عبادت و طاعت میں مشغول رہتا ہے اور اس میں بہت زیادہ سعی و اہتمام کرتا ہے (اگرچہ وہ گناہوں سے بہت کم اجتناب کرتا ہے) اور ایک دوسرے شخص کے بارے میں ذکر کیا گیا جو پرہیز گاری کو اختیار کرتا ہے (چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ پہلا شخص افضل ہے یا دوسرا شخص؟) تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ (پرہیزگاری کے بغیر) کثرت عبادت و طاعت اور اس میں سعی و اہتمام کرنے کو پرہیز گاری کے برابر نہ ٹھہراؤ(اگرچہ اس پرہیز گاری کے ساتھ عبادت و طاعت کی اس قدر کثرت اور سعی اور اہتمام شامل نہ ہو۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 یعنی  الورع کے الفاظ اصل حدیث کا جزو نہیں ہیں بلکہ کسی راوی کا اپنا قول ہے جس نے ان الفاظ کے ذریعہ رعۃ کی وضاحت کی ہے کہ اس لفظ سے مراد ورع ہے۔ واضح رہے کہ ورع سے مراد تقویٰ ہے یعنی حرام چیزوں سے بچنا، اور جس کے مفہوم میں عبادات واجبہ کو ادا کرنا بھی شامل ہو سکتا ہے۔ حدیث کا حاصل یہ ہے کہ  جو شخص عبادت وطاعات تو زیادہ کرے لیکن گناہوں سے اجتناب کے معاملہ میں کمزور ہو وہ اس شخص سے افضل نہیں ہو سکتا جو پرہیز گاری کو اختیار کیے ہوئے ہو، اگرچہ اس کے ہاں عبادت و طاعت کی کثرت اور اس میں زیادہ سعی و اہتمام نہ ہو۔

پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو

حضرت عمر بن میمون اودی (تابعی رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔  پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو! یعنی پانچ حالتیں ایسی ہیں کہ جب وہ موجود ہوں تو ان کو ان پانچ حالتوں سے غنیمت سمجھو جو زمانہ آئندہ میں پیش آنے والی ہیں (١) بڑھاپے سے پہلے جوانی کو یعنی اپنے اس زمانہ کو غنیمت جانو اور اس سے پورا فائدہ اٹھاؤ جس میں تمہیں عبادت وطاعات کی انجام دہی اور خدا کے دین کو پھیلانے کی طاقت و ہمت میسر ہو۔ قبل اس کے کہ تمہارے جسمانی زوال کا زمانہ آ جائے اور تم عبادت و طاعت وغیرہ کی انجام دہی میں ضعف و کمزوری محسوس کرنے لگو (٢) بیماری سے پہلے صحت کو یعنی ایمان کے بعد جو چیز سب سے بڑی نعمت ہے وہ صحت و تندرستی ہے، لہٰذا اپنی صحت و تندرستی کے زمانہ میں اگرچہ وہ بڑھاپے کے دور ہی میں کیوں نہ ہو، یعنی دینی و دنیاوی بھلائی و بہتری کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو کر گزرو، (٣) فقر و افلاس سے پہلے تونگری و خوشحالی کو (یعنی تمہیں جو مال و دولت نصیب ہے قبل اس کے کہ وہ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے یا موت کا پنجہ تمہیں اس سے جدا کر دے تم اس کو عبادت مالیہ اور صدقات و خیرات میں خرچ کرو اور اس دولتمندی و خوشحالی کو ایک ایسا غنیمت موقع سمجھو جس میں تم اپنی اخروی فلاح و سعادت کے لئے بہت کچھ کر سکتے ہو۔ (٤) مشاغل و تفکرات میں مبتلا ہونے سے پہلے وقت کی فراغت و اطمینان کو۔ (٥) موت سے پہلے زندگی کو، اس روایت کو ترمذی نے بطریق ارسال نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  اغتنم کا لفظ  اغتنام سے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں غنیمت کا مال لینا۔، اور  غنیمت اصل میں تو اس مال کو کہتے ہیں جو مسلمانوں نے لڑ کر اور حملہ کر کے حربی کافروں سے حاصل کیا ہو، لیکن اس لفظ کا اطلاق اس چیز پر بھی ہوتا ہے جو کسی محنت و مشقت کے بغیر ہاتھ لگی ہو۔

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جوانی، صحت، دولت فراغت وقت اور زندگی ایسی چیزیں ہیں جو ہمیشہ ساتھ نہیں دیتیں۔ جوانی کے بعد بڑھاپے، صحت کے بعد بیماری، دولت کے بعد محتاجگی، فراغت وقت کے بعد تفکرات و مشاغل اور زندگی کے بعد موت کا پیش آنا لازمی امر ہے، لہٰذا جب تک یہ چیزیں پیش نہ آئیں موقع غنیمت جانو اور اس میں اپنی دنیاوی و اخروی بھلائی و بہتری کے لئے جو کچھ کر سکتے ہو اس سے غفلت اختیار نہ کرو۔

غنیمت کے موقعوں سے فائدہ نہ اٹھانا اپنے نقصان و خسران کا انتظار کرنا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  تم میں سے کوئی شخص تونگری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو گنہگار کرنے والی اور امر و نہی کی حدود سے متجاوز کرنے والی ہے یا فقر و افلاس کا انتظار کرتا رہتا ہے۔ جو طاعت حق کو بھلا دینے والا ہے (یعنی فقر و افلاس میں مبتلا ہونے والا شخص بھوک و برہنگی کے مصائب میں گرفتار ہو کر اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے چکر میں پھنس کر خدا کی عبادت و طاعت سے غافل ہو جاتا ہے، بیماری کا انتظار کرتا رہتا ہے جو (اپنی سختی و شدت کی وجہ سے) بدن کو (یا کمزور یا سستی کے سبب دینی زندگی کو) تباہ کر دینے والی ہے، یا سخت بڑھاپے کا  انتظار کرتا رہتا ہے جو بے عقل و بدحواس اور بے ہودہ گو بنا دیتا ہے، یا موت کا انتظار کرتا ہے جو ناگہاں  کام تمام کر دیتی ہے (کہ بعض وقت توبہ کرنے کا موقع بھی نہیں دیتی) یا دجال کا انتظار کیا جاتا ہے اور وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہو گا، یا وہ قیامت کا انتظار کرتا رہتا ہے جو حوادث، آفات میں سب سے زیادہ سخت و شدید ہے۔ (ترمذی، نسائی)

 

تشریح

 

 حدیث کا حاصل یہ ہے کہ انسان کو فرصت و فراغت اور کچھ کر لینے کا موقع نصیب ہوتا ہے وہ اس کو غنیمت نہیں جانتا اور اس طرح گویا وہ اس وقت کا منتظر رہتا ہے جب وہ موقع ہاتھ سے نکل جائے اور ایسی صورت حال پیش آ جائے جو اس کو ان بھلائیوں اور سعادتوں سے محروم کر دے جن سے وہ بس اسی گزرے ہوئے زمانہ میں بہرہ مند ہو سکتا ہے، مثلاً اگر کوئی شخص فقر و افلاس میں مبتلا ہوتا ہے تو چاہئے تو یہ کہ وہ اس حالت کو اپنے لئے غنیمت جانے اور یہ سمجھے کہ مال و دولت کی وجہ سے جو خرابیاں اور برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان سے خدا نے بچا رکھا ہے اور اس وقت یہ موقع نصیب ہوتا ہے کہ اپنی موجودہ حالت پر صبر و استقامت کی راہ اختیار کر کے خدا کا صابر بندہ بن جاؤں، لیکن اس کے بجائے وہ اپنی حالت فقر کا شاکی ہو کر مال و متاع کا طلبگار ہوتا ہے اس کا نفس اس کو تونگری و مالداری کے پیچھے کھینچے کھینچے پھرتا ہے اور وہ گویا اس مال و دولت کی خواہش رکھتا ہے جس کا نشہ سرکشی میں مبتلا اور راہ راست سے دور کر دیتا ہے، اسی طرح جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال و دولت سے نوازتا ہے وہ اپنی اس مالداری کی حالت میں ادائیگی شکر سے بے پروا ہوتا ہے اور اس مال و دولت کو بھلائیوں کے کاموں میں خرچ کرنے کے بجائے ادھر ادھر لٹا کر خدا کی اتنی بڑی نعمت کی بے قدری کرتا ہے اور اپنے اس طرز عمل سے گویا فقر و افلاس کی طرف جانا چاہتا ہے جو معاشی تفکرات و پریشانیوں میں مبتلا کر کے عبادات و طاعت سے غافل کر دیتا ہے۔ اسی پر حدیث کے دوسرے جملوں کے مطلب کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔

 واضح رہے کہ یہ الفاظ  انتظار کرتا رہتا ہے دراصل ان لوگوں کے حق میں تنبیہ و سرزنش کے طور پر ہیں جو دین کے کاموں میں غفلت و سستی اور عبادات وطاعات میں تقصیر ٍو کوتاہی کرتے ہیں، گویا ان کو متنبہ فرمایا گیا ہے کہ تم اپنے رب کی عبادت و اطاعت اور اپنے دین کی خدمت کی راہ آخر کب اختیار کرو گے؟ اگر تم نے دین کی خدمت اور اپنے رب کی عبادت و طاعت اس وقت نہیں کی جب تمہیں قلت مشاغل و فراغت وقت اور جسمانی طاقت و توانائی کی صورت میں اس کا بہترین موقع نصیب ہے تو پھر اس وقت کس طرح کر پاؤ گے جب یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے گا؟ اور کثرت مشاغل اور ضعف بدن و خرابی صحت کی وجہ سے تم اس پر پوری طرح قادر نہیں رہو گے؟ تو کیا تم فائدہ کا موقع چھوڑ کر ٹوٹے کے وقت کے منتظر ہو اور اپنے نقصان و خسران کی راہ دیکھ رہے ہو۔

دنیا کی مذمت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  یاد رکھو، دنیا ملعون ہے (یعنی دنیا کو بارگاہ خداوندی سے دھتکار دیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھتی ہے) اور جو چیز دنیا کے اندر ہے وہ بھی ملعون ہے (یعنی دنیا کی جو چیزیں ذکر اللہ سے غافل رکھتی ہیں ان کو بھی راندہ درگاہ قرار دے دیا گیا ہے) لہٰذا ذکر اللہ، خدا کی پسندیدہ چیزیں، عالم اور متعلم (وہ چیزیں ہیں جن کو بارگاہ رب العزت میں مقبول قرار دیا گیا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 اس ارشاد گرامی کا مقصد، دنیا سے بے رغبت کرنا اور یہ تعلیم دینا ہے کہ دنیا کی جن چیزوں کو خدا نے ناپسند کیا ہے جیسے تمام حرام و ناجائز امور، ان سے اجتناب کرو کہ مبادا ان چیزوں کو اختیار کرنے کی وجہ سے تم بھی راندہ درگاہ رب العزت قرار پا جاؤ گے، اور جو چیزیں خدا کے یہاں مقبول و پسندیدہ ہیں جیسے ذکر اللہ نیک کام اور تعلیم و تعلم وغیرہ ان کو اختیار کرو تاکہ تم بھی مقبول بارگاہ رب العزت قرار پاؤ خدا کی پسندیدہ چیزوں سے۔ عبادات وطاعات اور تمام وہ چیزیں مراد ہیں جو خدا کی خوشنودی کا باعث اور تقرب الی اللہ کا ذریعہ ہیں! یا ماوالاہ (جس کا ترجمہ خدا کی پسندیدہ چیزیں کیا گیا ہے) کے معنی یہ ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے قریب اور اس کے مشابہ ہو، جیسے انبیا واولیا اور صلحا کے حالات و فضائل کا ذکر اور اعمال صالحہ یا یہ معنی ہیں کہ وہ چیز جو ذکر اللہ کے تابع اور اس کے لوازم و مقتضیات میں سے ہے جیسے احکام خداوندی (اوامر و نواہی) کی اتباع و فرمانبرداری۔ لہٰذا ماوالاہ کے پہلے معنی (جو ترجمہ میں نقل کیے گئے ہیں) مراد لینے کی صورت میں لفظ والاہ کا مادہ اشتقاق ولی ہو گا جس کے معنی محبت اور دوستی کے ہیں، دوسرے معنی مراد لینے کی صورت میں یہ لفظ گویا ولی سے مشتق ہو گا جس کے معنی متابعت کے ہیں۔ لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ اس ساری وضاحت کا تعلق اس امر کو تسلیم کرنے سے ہے کہ  ذکر اللہ سے مراد اللہ تعالیٰ کے نام کا ورد ہے جیسا کہ عام طور پر ذکر اللہ کا یہی مفہوم سمجھا جاتا ہے اور اگر  ذکر اللہ سے مراد ہر وہ عمل خیر ہو جو اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی، اس کا تقرب حاصل کرنے اور اس کی عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اس معنی کے اعتبار سے تمام ہی عبادتیں اور طاعتیں ذکر اللہ کے مفہوم میں داخل ہوں گے، اور پھر لفظ ماوالاہ سے وہ چیز مراد ہوں گی جو ذکر اللہ کے اسباب و ذرائع ہونے کی وجہ سے اس کا باعث اور معین و مددگار ہوتی ہے یہاں تک کہ بقدر کفاف کھانا پینا اور ضروریات زندگی کی دیگر چیزوں کا شمار بھی انہی اسباب میں ہو گا۔ اس صورت میں کہا جائے گا کہ بعد میں عالم اور متعلم کا ذکر تخصیص کے طور پر ہے۔

دنیا کے بے وقعت ہونے کی دلیل

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  یہ دنیا اگر خدا کے نزدیک مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت رکھتی تو اللہ تعالیٰ اس میں سے کافر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہ پلاتا ۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس دنیا کی کچھ بھی وقعت ہوتی تو اس دنیا کی کوئی ادنی ترین چیز بھی کافر کو نصیب نہ ہوتی، کیونکہ کافر، دشمن خدا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز کچھ بھی قدر و وقعت رکھتی ہے دینے والا وہ چیز اپنے کسی دشمن کو ہر گز نہیں دیتا، لہٰذا دنیا کے بے وقعت اور نہایت حقیر ہونے ہی کا سبب ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دنیا کافروں کو دیتا ہے لیکن اپنے پیارے بندوں کو نہیں دیتا، جیسا کہ ایک حدیث میں اس طرف اشارہ فرمایا گیا ہے مارویت الدنیا عن احد الاّ کانت خیرۃ لہ، دنیا (کے مال و جاہ) کا مستحق وہی شخص ہوتا ہے جس کے لئے دنیا ہی بہتر ہوتی ہے۔

 نیز کفار و فجار جو دنیا میں زیادہ خوشحال و متمول نظر آتے ہیں تو اس کا سبب بھی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ دنیا بڑی ذلیل چیز ہے جس کو وہ اپنے دوستوں (نیک بندوں) کے لئے اچھا نہیں سمجھتا، بلکہ اس کو کوڑے کرکٹ کی طرح ان لوگوں (کفار و فجار) کے سامنے ڈال دیتا ہے جس سے اس کو نفرت ہے، چنانچہ اس آیت کریمہ میں اسی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔  لولا ان یکون الناس امۃ واحدۃ لجعلنا لمن یکفر بالرحمن لبیوتہم سقفا من فضۃ، اگر یہ بات (متوقع) نہ ہوتی کہ (قریب قریب) تمام لوگ ایک ہی طریقہ کے (یعنی کافر) ہو جائیں گے تو جو لوگ خدا کے ساتھ کفر کرتے ہیں ہم ان کے لئے ان کے گھروں کی چھتیں چاندی کی کر دیتے۔

 نیز قرآن کریم کی ان آیات (وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ لِّلْاَبْرَارِ) 3۔ آل عمران:198) اور (وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰى) 42۔ الشوری:36) سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے۔

کمانے میں اتنا منہمک نہ رہو کہ خدا سے غافل ہو جاؤ

حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ضیعہ کو اس طرح) اختیار نہ کرو کہ وہ دنیا کی طرف رغبت کا سبب بن جائے۔ (ترمذی، بیہقی)

 

تشریح

 

 ضیعۃ سے مراد دنیاوی اسباب و سامان اور کمانے کے ذرائع ہیں جیسے صنعت و تجارت، زراعت، زمین و جائیداد، اور باغ و گاؤں وغیرہ، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ حصول معاش اور کمانے کے جو ذرائع خواہ وہ مذکورہ چیزیں ہوں یا ان کے علاوہ کچھ اور ہوں، ان میں اس طرح کی مشغولیت اور انہماک اختیار کرنا ممنوع ہے جس سے انسان عبادت الٰہی اور آخرت کی طرف اچھی طرح متوجہ نہیں رہتا بلکہ زیادہ طلبی کی حرص میں مبتلا ہو کر ہر وقت دنیاوی دھندوں میں مشغول رہتا ہے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ حدیث میں مذکورہ حکم اس شخص کے حق میں ہے جو حصول معاش کے دنیاوی اسباب و وسائل میں گرفتار ہو اور مسبب حقیقی (اللہ تعالیٰ) کی طرف توجہ اور اس کی یاد سے بے پرواہ ہو اور حقوق اللہ وحقوق العباد کی ادائیگی سے باز رہے، اگر ایسا نہ ہو تو پھر حصول معاش کے جائز اسباب و ذرائع کو اختیار کرنے اور حلال دنیاوی دھندوں میں مشغول ہونے کی کوئی ممانعت نہیں ہے۔

 واضح رہے کہ قرآن کریم کی اس آیت (رِجَالٌ لَّا تُلْهِيْهِمْ تِجَارَةٌ وَّلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَاِقَامِ الصَّلٰوةِ وَاِيْتَاۗءِ الزَّكٰوةِ) 24۔ النور:37) کے جس طرح یہ معنی مراد لئے جا سکتے ہیں کہ قرآن نے ان الفاظ کے ذریعہ ان لوگوں کی تعریف و تحسین فرمائی ہے جو تجارت و بیع کی مشغولیت کو محض اس لئے اختیار نہیں کرتے کہ امور آخرت کی طرف ان کے متوجہ رہنے میں انہیں کوئی مانع پیش نہ آئے اسی طرح یہ معنی بھی مراد لئے جا سکتے ہیں کہ اس آیت میں دراصل ان لوگوں کی تعریف و تحسین فرمائی گئی ہے جو اپنی تجارت وغیرہ میں مشغول رہنے کے باوجود امور آخرت سے غافل نہیں ہوتے بلکہ اپنی دنیا کے ساتھ اپنی آخرت کے صلاح و فلاح کی طرف بھی متوجہ رہتے ہیں، اور حقیقت یہ ہے کہ مؤخر الذکر معنی ہی زیادہ موزوں معلوم ہوتے ہیں۔ جیسا کہ واقام الصلوۃ و ایتا الزکوٰۃ کے الفاظ کی مناسبت سے یہی مفہوم ہوتا ہے۔

دنیا کی محبت، آخرت کے نقصان کا سبب ہے

حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص اپنی دنیا کو دوست رکھتا ہے (اس قدر دوست رکھنا کہ خدا کی محبت پر غالب آ جائے) تو وہ اپنی آخرت کو نقصان پہنچاتا ہے (یعنی آخرت میں اپنے درجہ کو گھٹاتا ہے کیونکہ جب اس پر دنیا کی محبت غالب آ جاتی ہے تو اس کا ظاہر و باطن ہمہ وقت دنیاوی امور میں مشغول و منہمک رہتا ہے اور اس کی وجہ سے وہ امور آخرت اور طاعت الٰہی کے لئے فراغت و موقع سے محروم رہتا ہے) اور جو شخص اپنی آخرت کو درست رکھتا ہے وہ اپنی دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے (کیونکہ وہ ہمہ وقت امور آخرت میں مشغول و منہمک رہنے کی وجہ سے دنیاوی امور کی طرف متوجہ نہیں رہتا) پس(جب تم نے یہ جان لیا کہ دنیا اور آخرت کی دوستی ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی تو) تمہیں چاہئے کہ جو چیز فنا ہو جانے والی ہے یعنی دنیا، اس پر اس چیز کو ترجیح دو جو باقی رہنے والی ہے یعنی آخرت۔ (احمد، بیہقی)

مال و زر کا غلام بن جانے والے پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی لعنت

اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص دینار کا غلام اور درہم کا غلام بن جائے وہ ملعون ہے یا یہ معنی ہیں کہ جو شخص دینار کا غلام اور درہم کا غلام بن جائے اس پر لعنت ہو (ترمذی)

 

تشریح

 

  لعن کے معنی ہیں ہانک دینا، بھلائی سے محروم کر دینا اور اللہ کی رحمت سے دور کر دینا! حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مال و زر اور روپیہ پیسہ کی محبت میں اس طرح گرفتار ہو جائے کہ ان کی وجہ سے خدا کی عبادت و طاعت سے بعد اختیار کر لے تو وہ گویا مال و زر اور روپیہ پیسہ کا غلام ہے۔ اور ایسا شخص، تمام بھلائیوں سے محروم، رحمت خداوندی سے دور اور راندہ درگاہ رب العزت قرار دیا جاتا ہے۔

جاہ و مال کی حرص دین کے لئے نہایت نقصان دہ ہے

حضرت کعب بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  دو بھوکے بھیڑئیے جن کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے، اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا کہ انسان کی حرص، جو مال و جاہ کے تئیں ہو، اس کے دین کو نقصان پہنچاتی ہے۔ (ترمذی، دارمی)

 

تشریح

 

 دین کو گویا بکری کے ساتھ مشابہت دی گئی ہے، اور حرص کا مشابہ بھیڑئیے کو قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ اگر دو بھوکے بھیڑیوں کو بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیا جائے تو وہ بھی اس ریوڑ کو اس طرح تباہ نہیں کرتے جس طرح کہ ایک انسان کی حرص، اس کے دین کو خراب و تباہ کر دیتی ہے۔

 حدیث کی سند مشکوٰۃ کے نسخوں میں اس طرح منقول ہے جیسا کہ اوپر نقل کی گئی ہے یعنی عن کعب ابن مالک عن ابیہ جس کا مطلب یہ ہے کہ اس روایت کو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کیا ہے حالانکہ حقیقت میں یہ بات صحیح نہیں ہے اور بربنا سہو وخطا یہ سند اس طرح نقل ہوئی ہے کیونکہ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے والد کو اسلام کی سعادت نصیب ہی نہیں ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ ان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی حدیث کو نقل کرنا کوئی معنی ہی نہیں رکھتا، لہٰذا یہ سند صحیح طور پر یوں ہے عن ابن کعب ابن مالک عن ابیہ یعنی ابن کعب اپنے والد حضرت کعب ابن مالک سے روایت کرتے ہیں۔ چنانچہ جامع ترمذی میں یہ سند اسی طرح نقل کی گئی ہے اور مشکوٰۃ کے بعض نسخوں میں بھی اس طرح منقول ہے پس اس حدیث کے اصل راوی حضرت کعب ابن مالک رضی اللہ عنہ ہیں جو مشہور صحابی ہیں اور ان یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک ہیں جو غزوہ تبوک میں شریک ہونے سے باز رہے تھے اور جن کا قصہ بہت مشہور ہے۔

ضرورت سے زیادہ تعمیر پر روپیہ خرچ کرنا لاحاصل چیز ہے

حضرت خباب رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  مسلمان (اپنی معیشت کے مصارف میں) جو کچھ خرچ اخراجات کرتا ہے اس کو اس کا ثواب دیا جاتا ہے علاوہ اس خرچ کے جو اس مٹی میں کرتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ مکان وغیرہ کی تعمیر میں جو کچھ خرچ ہوتا ہے اس پر کوئی اجرو ثواب نہیں ملتا۔ لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ وہ تعمیر، و حاجت سے زائد ہو، ورنہ اپنی حاجت کے بقدر گھر بنانا، ضروریات زندگی میں شامل ہے اور اس کی تعمیر پر صرف کیا جانے والا روپیہ پیسہ ضائع نہیں ہو جاتا، اسی طرح ہی خیرو بھلائی کے مکانات جیسے مساجد و مدارس اور ان جیسی دوسری عمارتوں کا معاملہ بھی مذکورہ حکم سے مستثنیٰ ہے کہ ان کا بنانا مستحب و مستحسن ہے۔

ضرورت سے زیادہ تعمیر پر روپیہ خرچ کرنا لاحاصل چیز ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (ضروریات زندگی کے) تمام مصارف اللہ کی راہ میں (خرچ کرنے کے برابر) ہیں (یعنی انسان اپنی اور اپنے متعلقین کی ضروریات پر جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کو اس کا ثواب ملتا ہے بشرطیکہ تقرب الٰہی کی نیت سے خرچ کرے) البتہ (ضرورت و حاجت سے زائد) تعمیر پر خرچ کرنا کوئی نیکی اور ثواب نہیں رکھتا ۔ اس حدیث کو امام ترمذی رحمۃ اللہ نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 ضرورت سے زائد تعمیر پر خرچ کرنا اسراف ہے اور اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں کرتا، اس کے برخلاف دیگر ضرورت پر بہ نیت تقرب الٰہی جو کچھ خرچ کیا جاتا ہے۔ اس میں اسراف کا شائبہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ خرچ لوگوں کو کھلانے اور عطا و بخشش کی قسم سے ہوتا ہے۔ خواہ وہ مستحق ہوں یا غیر مستحق، اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں یعنی کھلانے اور عطا و بخشش سے خوش ہوتا ہے۔

بلا ضرورت عمارت بنانے پر وعید

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہی کہ ایک روز رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (کہیں جانے کے لئے) باہر نکلے۔ ہم صحابہ کی ایک جماعت بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھی، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے راستہ میں ایک بلند قبہ کو دیکھا تو تحقیر و نفرت کے لہجہ میں فرمایا کہ یہ قبہ کیا ہے؟ (یعنی یہ ناپسندیدہ عمارت کس نے بنائی ہے؟) صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہ قبہ فلاں شخص نے بنایا ہے جو ایک انصاری ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (یہ سن کر) خاموش رہے اور (کچھ فرمایا تو نہیں لیکن) اس بات کو (ناگواری اور غصہ کے طور پر) اپنے دل میں رکھا یہاں تک کہ جب اس قبہ کا مالک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آیا ور اس نے لوگوں کی موجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کی طرف سے منہ پھیر لیا (یعنی یا تو آپ نے اس کے سلام کا جواب ہی نہیں دیا یا جواب تو دیا لیکن اس سے منہ پھیر لیا تاکہ اسے تنبیہ ہو جائے اور دوسرے لوگوں کو بھی تنبیہ ہو جائے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایسا کئی مرتبہ کیا (کہ وہ شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کا جواب نہ دیتے اور اس سے منہ پھیر لیتے تھے) آخرکار اس شخص نے (ان) صحابہ رضی اللہ عنہم سے (کہ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خاص مصاحب اور ہم نشین تھے اس امر کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ بخدا، میں ایسا دیکھ رہا ہوں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ سے ناآشنا ہوں (یعنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر جس غضب و غصہ کے آثار دیکھ رہا ہوں وہ میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے اور مجھے اس کا سبب بھی معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیوں اتنا سخت ناراض ہیں؟) ان صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس کو بتایا کہ (ایک دن) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ادھر (تمہاری طرف) تشریف لے گئے تھے اور (جب وہاں) تمہارے قبہ کو دیکھا (تو ناراض ہو گئے تھے) اس شخص (نے یہ سنا تو فوراً) اپنے قبہ کی طرف گیا اور اس کو ڈھا دیا یہاں تک کہ زمین کے برابر کر دیا۔ (اس واقعہ کے بعد) ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر ادھر تشریف لے گئے اور قبہ کو وہاں نہیں دیکھا تو دریافت فرمایا کہ وہ قبہ کیا ہوا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ قبہ بنانے والے نے اپنے تئیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے التفاتی اور ناراضگی کا ہم سے شکوہ کیا تھا اور اس کا سبب دریافت کیا تو ہم نے اس کو صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا (کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم سے اس لئے ناراض ہیں کہ تم نے اس قبہ کی صورت میں ایک ناپسندیدہ تعمیر کرائی ہے) چنانچہ اس شخص نے اس قبہ کو ڈھا دیا ہے تب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اس عمار کی ناپسندیدگی اور اپنی ناراضگی کا سبب بیان کرنے کے لئے) فرمایا کہ یاد رکھو! یہ عمارت اپنے بنانے والے کے لئے آخرت میں وبال یعنی عذاب کا سبب بنے گی الاّ مالا الاّ مالا یعنی علاوہ اس چیز کے، کہ جس کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو۔ (ابو داؤد)

 

تشریح

 

  وبال کے اصل معنی بوجھ، سختی اور مکروہ کے ہیں، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو عمارت بنائی جاتی ہے وہ آخرت میں اپنے مالک کے لئے عذاب کا سبب بنتی ہے، لیکن واضح رہے کہ یہ حکم اس عمارت کے حق میں ہے جو ضرورت و حاجت سے زائد ہو، اظہار شان و شوکت اور محض عیش و عشرت کے لئے بنائی گئی ہو، ورنہ تو وہ عمارت جو اپنے اور اپنے متعلقین کی رہائشی ضروریات کے بقدر ہو یا جو عمارت خیرو بھلائی کے امور کے لئے ہو جیسے مساجد و مدارس اور خانقاہیں وغیرہ، وہ مذکورہ وعید سے مستثنیٰ ہیں، اسی طرح ہر وہ چیز کہ جو انسان کی جسمانی توانائی کو باقی رکھنے اور لباس و رہائش کے طور پر ضروریات زندگی کا درجہ رکھتی ہو، آخرت میں کسی وبال کا باعث نہیں بنے گی۔

 بیہقی نے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع یہ روایت نقل کی ہے کہ مسجد (اور خیر و بھلائی کے کام میں آنے والی دیگر عمارتوں کے علاوہ، ہر عمارت اپنے مالک پر قیامت کے دن وبال ہو گی، اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ ایسی عمارت کہ رہائشی ضروریات سے زائد اور اظہار شان شوکت کے لئے ہو، اسی طرح طبرانی نے حضرت واثلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ ہر عمارت وبال ہے علاوہ اس عمارت کے جو بس اس قدر ہو، اور یہ فرما کر اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کے ذریعہ اشارہ فرمایا (یعنی یہ اشارہ فرمایا کہ جو عمارت بہت مختصر اور محض رہائشی ضروریات کے بقدر ہو وہ وبال نہیں ہے) نیز ہر علم، قیامت کے دن وبال ہو گا، علاوہ اس علم کے جس پر عمل کیا جائے۔

کفایت و قناعت کی نصیحت

حضرت ابو ہاشم بن عتبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ دنیا کے تمام مال میں سے جو کچھ تمہارے لئے کافی ہے وہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہ تمہارے پاس ایک خادم ہو اور ایک سواری ہو جو خدا کی راہ میں کام (یعنی اگر تم دنیاوی چیزوں میں سے کچھ اپنے پاس رکھنا چاہتے ہو تو بس یہ دو چیزیں رکھ کہ سواری کے جانور کے ذریعہ جہاد، حج اور حصول علم کے لئے سفر کر سکو اور خادم اس سفر میں تمہاری خدمت کرے، دنیا کے اموال میں سے ان دو چیزوں سے زائد کچھ نہ رکھو بلکہ صرف کر ڈالو، حاصل یہ کہ اس ارشاد کا مقصود اس امر کی تلقین کرنا ہے کہ بقدر ضرورت مال و اسباب پر اکتفا و قناعت کی جائے اور ان میں سے بھی ان چیزوں کو اختیار کیا جائے جو راہ آخرت کا توشہ ہیں۔ (اس روایت کو احمد، ترمذی، نسائی، اور ابن ماجہ نے نقل کیا ہے)۔

 اور مصابیح کے بعض نسخوں میں حدیث کی سند عن ابی ہاشم ابن عتبد سے منقول ہے یعنی عتبۃ میں تا کی بجائے دال ہے اور یہ غلط ہے جو کسی راوی کے سہو کا نتیجہ ہے (گویا صحیح ہاشم ابن عتبۃ ہی ہے)۔

ضروریات زندگی کی مقدار کفایت اور اس پر انسان کا حق

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  ابن آدم ان چیزوں کے علاوہ اور کسی چیز پر اپنا حق نہیں رکھتا، ایک تو گھر کہ جس میں وہ رہائش اختیار کرے (یعنی ایسا گھر جو رہائشی ضروریات کے بقدر ہو کہ جو سردی گرمی سے محفوظ رکھ سکے) دوسرے کپڑا، کہ جس سے وہ اپنا ستر ڈھانکے، تیسرے بغیر سال کے خشک روٹی (کہ جس سے وہ اپنی بھوک دفع کر سکے) اور چوتھے پانی کہ جس سے وہ اپنی پیاس بجھا سکے۔ (ترمذی)

 

 

تشریح 

  حق سے مراد وہ چیز ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے واجب کی گئی ہے اور جس پر آخرت میں کوئی سوال و مواخذہ نہیں ہو گا، یعنی اللہ تعالیٰ نے دنیا کی جن چیزوں کو ضروریات زندگی کے طور پر بنایا ہے ان کو انسان اسی قدر حاصل کرنے اور اس سے بہرہ مند ہونے کا حقدار و مجاز ہے جس قدر کہ اس کی ضروریات کے لئے کافی ہو چنانچہ جو شخص ان چیزوں کو حلال وسائل ذرائع سے حاصل کرے گا اور بقدر ضرورت پر اکتفا و قناعت کرے گا اس سے آخرت میں ان چیزوں کے بارے میں کوئی سوال و مواخذہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ بقدر ضرورت مذکورہ چیزیں ان لوازمات میں سے ہیں جن کے بغیر نفس انسانی کے لئے کوئی چارہ نہیں ہے، ہاں ان کے علاوہ دنیا کی اور جو چیزیں ہیں یا انہی چیزوں کی ضرورت سے زائد جو مقداریں ہیں وہ سب لوازمات زندگی میں سے نہیں ہیں۔ بلکہ لذات نفس میں سے ہیں اور ان کے بارے میں آخرت میں یقیناً مواخذہ و مطالبہ کیا جائے گا۔

 جلف (جیم کے زیر اور لام کے جزم کے ساتھ) سے مراد ہے بغیر سالن کے خشک موٹی روٹی، ایک روایت میں یہ لفظ جلف (جیم کے زبر کے ساتھ) بھی منقول ہے جو جلفۃ کی جمع ہے اور جس کے معنی ہیں خشک روٹی کا ٹکڑا، کہ جس کے ذریعہ بھوک کو دفع کیا جائے۔

خدا اور لوگوں کی نظر میں محبوب بننے کا طریقہ

سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے (بارگاہ رسالت میں) حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ کو کوئی ایسا عمل بتا دیجئے کہ میں جب اس کو اختیار کروں تو اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت رکھے اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  دنیا سے زہد اختیار کرو (یعنی دنیا کی محبت میں گرفتار نہ  ہو، اس کی فضولیات سے اعراض کرو اور امور آخرت کی طرف متوجہ رہو) اگر تم ایسا کرو گے تو گویا تم اس چیز سے نفرت کرنے والے ہوں گے جس سے اللہ تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور اس کی وجہ سے) اللہ تعالی تم سے محبت رکھے گا اور اس چیز کی طرف رغبت نہ کرو جو لوگوں کے پاس ہے (یعنی جاہ و دولت) لوگ تم سے محبت کریں گے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 کسی چیز کی طرف خواہش و میلان نہ رکھنے کو  زہد کہتے ہیں اور کامل و صادق زہد یہ ہے کہ دنیا کی لذات میسر ہونے کے باوجود ان سے بے رغبتی اختیار کی جائے، چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس شخص کے بارے میں  زہد تصور ہی نہیں ہو سکتا جو نہ مال و دولت رکھتا ہو اور نہ جاہ و حشم کا مالک ہو، بلکہ حقیقت کے اعتبار سے  زاہد وہی شخص ہے جو مال و دولت اور جاہ و حشم کا مالک ہونے کے باوجود ان کی لذات سے دور رہے، منقول ہے کہ ایک مرتبہ کسی شخص نے حضرت ابن مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو  یا زاہد کہہ کر مخاطب کیا تو انہوں نے فرمایا کہ زاہد تو بس حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ تھے جن کے دامن میں دنیا کھنچی آتی تھی مگر اس کے باوجود وہ دنیاوی لذات سے ترک تعلق رکھتے تھے اور ہمارے پاس کیا رکھا ہے کہ ہم زہد اختیار کریں گے، حاصل یہ کہ اصل میں  زہد یہ ہے کہ لوازمات دنیا میں کھانے پینے اور پہننے کی فراوانی کے باوجود بقدر ضرورت پر قناعت کی جائے اور فضولیات کو ترک کیا جائے۔

دنیا کے عیش و آرام سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بے رغبتی

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بورئیے پر سوئے اور سو کر اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے جسم مبارک پر بورئیے کے نشان پڑے ہوئے تھے (یہ دیکھ کر) حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اگر آپ ہمیں اجازت دیں تو ہم آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے لئے نرم بستر بچھا دیں اور اچھے کپڑوں کا انتظام کر دیں (تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سخت بورئیے پر لیٹنے سے بے آرامی محسوس نہ کریں) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (عزیز) مجھ کو اس دنیا (کے عیش و  آرام) سے اور اس دنیا کو مجھ سے کیا سروکار؟ میری اور دنیا کی مثال تو بس ایسی ہے جیسے کوئی سوار کسی درخت کے نیچے سایہ کی تلاش میں آئے اور وہاں کچھ دیر تک سایہ سے فائدہ اٹھا نے کے لئے) اپنی سواری ہی پر کھڑا رہے اور پھر اس درخت کو وہیں چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف چل دے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مالی وللدنیا میں حرف ما، نفی کے لئے ہے اور اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو مجھے اس دنیا کے ساتھ کچھ الفت ہے اور نہ اس دنیا کو میرے ساتھ کوئی محبت و الفت ہے کہ میں اس دنیا کے تئیں کوئی رغبت و چاہت رکھوں، اس کا عیش و آرام چاہوں اور اس کی بے آرامی سے بچنے کے لئے اس کی آرام دہ چیزوں جیسے نرم و گدیلے بستر اور نفیس و اعلیٰ کپڑوں وغیرہ کا مالک بنوں۔ ویسے اس حرف ما کو استفہامیہ بھی مراد لیا جا سکتا ہے (جیسا کہ ترجمہ میں اسی کو ملحوظ رکھا گیا ہے) اور اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ مجھ کو اس دنیا سے کون سی الفت، محبت ہے یا اس دنیا کی طرف میری رغبت و میلان سے یا میری طرف اس دنیا کی رغبت و الفت سے مجھے کون سی نفع بخش چیز حاصل ہو گی؟ کیونکہ میں تو آخرت کا طلبگار ہوں اور دنیا اس آخرت کی سوکن اور ضد ہے۔

 درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے کے ضمن میں خاص طور پر سوار ہی کا ذکر کرنا اس درخت کے نیچے اس کے ٹھہرنے کی مدت کے قلیل ہونے اور جلد ہی وہاں سے رخصت ہو جانے کی بنا پر ہے، یعنی یہ بات سب جانتے ہیں کہ کسی درخت کے سایہ سے فائدہ اٹھانے والا اگر کوئی سوار مسافر ہو، اور وہ اپنی سواری سے اترے بغیر اس درخت کے نیچے کھڑا ہے تو وہ وہاں زیادہ دیر تک نہیں ٹھہر سکتا۔ بلکہ بہت قلیل عرصہ کے لئے اس سایہ میں کھڑا رہ کر آگے چل دیتا ہے۔ نیز سوار کی مثال بیان کرنے سے اس طرف بھی اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح کسی مسافر کی منزل مقصود جب دور ہوتی ہے تو وہ دوران سفر کسی راحت و آرام کی زیادہ پرواہ کیے بغیر زیادہ سے زیادہ راستہ طے کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یہاں وہاں زیادہ ٹھہر کر اپنا وقت برباد نہیں کرتا اسی طرح ہم بھی اس دنیا میں ایک مسافر کی طرح ہیں کہ ہماری منزل مقصود یعنی آخرت بہت دور ہے اور اس کا راستہ کٹھنائیوں سے بھرا ہوا ہے لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی راہ آخرت کو زیادہ سے زیادہ طے کرنے کی سعی و اہتمام کریں اور کسی بھی ایسی چیز کی طرف ملتفت اور مائل نہ ہوں جو منزل مقصود کی طرف ہمارے سفر میں رکاوٹ بن سکے۔

 

 

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  میرے رب نے میرے سامنے اس امر کو ظاہر کیا کہ وہ میرے لئے مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنا دے، لیکن میں نے عرض کیا کہ میرے پروردگار، مجھ کو اس چیز کی قطعاً خواہش نہیں ہے میں تو بس یہ چاہتا ہوں کہ ایک روز پیٹ بھر کر کھاؤں اور ایک روز بھوکا رہوں کہ جب میں بھوکا رہوں تو تیرے حضور گڑگڑاؤں، اپنی عاجزی بیان کروں اور تجھے یاد کروں اور جب میں شکم سیر ہوں تو تیری حمد و تعریف کروں اور تیر شکر ادا کروں۔ (احمد، ترمذی

 

تشریح

 

 آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے لئے اللہ تعالیٰ کی مذکورہ پیش کش یا تو حسی و ظاہری طور پر تھی یا معنوی یعنی باطنی طور پر اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس بارے میں مجھ سے مشورہ فرمایا اور مجھے اختیار دیا کہ چاہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا میں وسعت و فراخی اور یہاں کے مال و زر کی فراوانی کو پسند کریں اور چاہے دنیا سے بے رغبتی اختیار کر کے توشہ آخرت کی فکر میں لگے رہیے اور وہاں کے حساب و عذاب سے نجات کی راہ اختیار کر لیجئے۔، لہٰذا میں نے دنیا کو ٹھکرا دیا اور آخرت کو پسند کر لیا۔

  بطحا اور  ابطح اس کشادہ نالہ کو کہتے ہیں جس سے پانی گزرتا ہے اور جس میں ریب اور سنگریزے جمع ہو جاتے ہیں۔ مکہ کے سنگریزوں کو سونا بنانے سے مراد یہ تھی کہ مکہ کے اطراف میں جو نالے اور پانی کے نکاس کے راستے ہیں ان سب کو سونے سے بھر دیا جائے یا یہ کہ ان نالوں میں جو سنگریزے ہیں ان کو سونے میں تبدیل کر دیا جائے، اور یہ دوسری مراد زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ ایک دوسری حدیث میں یوں فرمایا گیا ہے کہ (اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چاہیں تو اللہ تعالیٰ) مکہ کے پہاڑوں کو سونے میں تبدیل کر دے۔ حدیث کے آخری جملوں کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے دنیاوی وسعت و فراخی اور خوشحالی کی پیش کش کے باوجود میں نے دنیا کے مال و زر کو ٹھکرا دیا اور فقر کو اختیار کر لیا کہ اگر ایک روز شکم سیر رہوں تو دوسرے روز بھوکا رہو اور اس طرح صبر اور شکر دونوں کی فضیلت پاؤں۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا امت کو تعلیم و تلقین فرمائی کہ اگرچہ دولتمندی بھی خدا کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس کی آفات بھی بہت ہیں اور انسان دولتمندی کی حالت میں زیادہ گمراہ ہوتا ہے لہٰذا فقر و قناعت کو اختیار کرنا زیادہ موزوں ہے اس لئے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ غنا یعنی دولتمندی کے مقابلہ میں فقر افضل ہے۔

قابل رشک زندگی

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  میرے نزدیک(یعنی میرے دین و مذہب کے اعتبار سے) میرے دوستوں (تمام مومنین) میں نہایت قابل رشک (یعنی اموال کے اعتبار سے سب سے اچھا اور مال و دولت کے اعتبار سے سب سے افضل) وہ مومن جو سبکسار ہے، نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے اور اپنے رب کی سب ہی عبادتیں خوبی کے ساتھ کرتا ہے (اور جس طرح ظاہر میں عبادت کرتا ہے اسی طرح) مخفی طور پر (خلوت میں بھی) طاعت الٰہی میں مشغول رہتا ہے، لوگوں میں گمنام ہے کہ اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ نہیں کیا جاتا (یعنی اپنے علم و عمل کے سبب لوگوں میں مشہور و معروف نہیں ہے بلکہ نہایت بے نفسی کے ساتھ گوشہ گمنامی میں رہ کر علم و عمل کے ذریعہ دین و ملت کی خدمت کرتا ہے) نیز اس کی روزی (یعنی ضروریات زندگی کا خرچ) بقدر کفایت ہے اور اسی پر صابر و قانع ہے۔ یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کے ذریعہ چٹکی بجائی اور فرمایا، اس کی موت بس یوں (چٹکی بجاتے) اپنا کام جلد پورا کر لیتی ہے اور اس کی موت پر رونے والی عورتیں بھی کم ہوتی ہیں اور اس کا ترکہ بھی بہت مختصر (یعنی نہ ہونے کے برابر) ہوتا ہے۔ (احمد، ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

  حاذ کے معنی سواری کی پشت کے ہیں اور قاموس کے مطابق خفیف الحاذ کا مطلب قلیل المال والعیال خفیف الحاذ کا اطلاق اس شخص پر ہوتا ہے جو زیادہ اہل و عیال کو بوجھ اور مال و دولت کی گرانباری نہ رکھتا ہو۔ صراح میں یہ لکھا ہے کہ  خفیف الحاذ کے معنی ہلکی پیٹھ کے ہیں یعنی وہ شخص جو زیادہ اہل و عیال اور مال و دولت کے جھمیلوں سے فارغ ہو بہرحال دونوں ہی صورتوں میں ایسا شخص چونکہ دنیاوی تفکرات مشغولیات سے عاری ہوتا ہے اور فراغ قلب و وقت رکھتا ہے اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت و طاعت اور دین و ملت کی خدمت میں اچھی طرح مشغول رہتا ہے اور از قسم علائق کوئی چیز اس کی راہ عبادت و خدمت میں رکاوٹ نہیں بنتی۔

  نماز سے بہت زیادہ بہرہ مند ہوتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ وہ حضور قلب اور مناجات مع اللہ کے ساتھ نماز بہت زیادہ پڑھتا ہے اور اپنا زیادہ تر وقت عبادت خداوندی میں صرف کرتا ہے کیونکہ اہل و عیال اور دنیاوی جھمیلوں سے بہت کم تعلق رکھنے اور قلت مشغولیت کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ نماز و عبادت ہی کی طرف متوجہ رہتا ہے، بلکہ نماز و عبادت میں اس کو حضور قلب بھی بہت زیادہ حاصل ہوتا ہے چنانچہ حقیقی درویش اور خدا رسیدہ لوگ دنیاوی علائق و تعلقات سے کنارہ کشی اس لئے اختیار کرتے ہیں تاکہ نماز و عبادت خداوندی میں زیادہ سے زیادہ حضور قلب حاصل کر سکیں۔

  لوگوں میں گمنام ہے میں اس طرف اشارہ ہے کہ وہ عبادت و ریاضت کے لئے لوگوں کے درمیان بود و باش ترک نہیں کرتا بلکہ ان کے درمیان رہ کر ہی عبادت و ریاضت اور دین و علم کی خدمت میں خاموشی کے ساتھ مشغول رہتا ہے اور اپنے آپ کو عام شہرت سے بچائے رکھتا ہے گویا اس جملہ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ اپنے کو عام شہرت سے بچانے کے لئے لوگوں کے درمیان سے چلا جاتا ہے اور سب سے کنارہ کشی اختیار کر لیتا ہے کیونکہ عام لوگوں کے درمیان بود و  باش ترک کر دینا اور کنارہ کشی اختیار کر لینا بجائے خود موجب شہرت ہے، نیز اس جملہ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ  لوگوں سے مراد عوام الناس ہیں، چنانچہ خواص یعنی اولیا و صلحا کے درمیان اس کا متعارف ہونا کہ جن کا وہ ہمنشین رہتا ہے، اس کے مذکورہ مرتبہ کے منافی نہیں ہے۔ یہ بات بعد کے جملہ ولا یشا الیہ الخ سے بھی مفہوم ہوتی ہے۔

 لقد بیہ، کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ آپ نے اپنے انگوٹھے کے پورے کو اپنی بیچ کی انگلی کے پورے پر مارہ جس سے نکلی ہوئی آواز کو سنا گیا۔ اور حاصل یہ کہ جس طرح عام طور پر لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ کسی بات پر اظہار حیرت و تعجب کے لئے یا کسی کام کی مدت کو کم سے کم بیان کرنے کے لئے چٹکی بجا کر کہتے ہیں کہ فلاں کا بس یوں چٹکی بجاتے ہو گیا اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھی مذکورہ مومن کا حال بیان فرمایا کہ وہ دنیا میں اپنی مذکورہ حالت و کیفیت کے ساتھ زندہ رہتا ہے کہ موت اس کے تشنہ جسم و جان کو چند دن کے بعد ختم کر دیتی ہے اور وہ فتنہ و آشوب سے بھرے ہوئے اس عالم سے بہت جلد انتقال کر جاتا ہے اور یہاں کی آفات سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات پا جاتا ہے۔ یا یہ مراد ہے کہ ایسا مومن چونکہ اس دنیا سے بہت کم تعلق رکھتا ہے اور شوق آخرت اس پر غالب ہوتا ہے اس لئے وقت موعود آنے پر وہ نہایت آسانی اور سکون کے ساتھ بہت جلد اپنی جان، آفرین کے سپرد کر دیتا ہے۔

دنیا کی اصل نعمتیں

حضرت عبیداللہ ابن محصن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  تم میں سے جو شخص اس حال میں صبح کرے کہ وہ اپنی جان کی طرف سے بے خوف ہو (ظاہری طور پر بھی اور باطنی طور پر بھی اس کا بدن درست و با عافیت ہو اور اس کے پاس (حلال ذریعہ سے حاصل کیا ہوا) ایک دن کی بقدر ضرورت خوراک کا سامان ہو تو گویا اس کے لئے تو کم دنیا (کی نعمتیں) جمع کر دی گئی ہیں۔ (اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے)۔

 

تشریح

 

  وہ اپنی جان کی طرف سے بے خوف ہو کا مطلب یہ ہے کہ اس کو اپنے کسی دشمن کی طرف سے کسی نقصان و ضرر کا خدشہ نہ ہو یا یہ کہ برے کاموں سے بچنے اور اپنی لغزشوں پر خدا سے توبہ کر لینے کی وجہ سے ان آفات سے بے خوف ہو، جو عذاب الٰہی کے طور پر نازل ہوتی ہیں۔ واضح رہے کہ لفظ  سرب سین کے زیر اور را کے جزم کے ساتھ (یعنی سرب) زیادہ مشہور ہے۔ جو نفس، راستہ، حال اور دل، ان سب کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اگر یہاں حدیث میں اس لفظ سے ان سب چیزوں کو مراد لیا جائے تو یہ بھی منشا حدیث کے مناسب ہو گا، اس صورت میں مطلب یہ ہو گا کہ جو شخص اس حال میں صبح کو اٹھے کہ اس کو مذکورہ چیزوں کے بارے میں کسی نقصان و ضرر کا کوئی خوف و خدشہ نہ الخ اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ لفظ سین اور را دونوں کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی خانہ زیر زمین کے ہیں یعنی وہ بل و سوراخ جو وحشی جانوروں، جیسے چوہے وغیرہ کا مسکن ہوتے ہیں، اگر اس قول کو صحیح مان لیا جائے، یہ معنی بھی منشا حدیث کے منافی نہیں ہوتے۔ اس صورت میں مطلب یہ ہوا کہ جو شخص اس حال میں صبح کو اٹھے کہ اس کے گھر کے بلوں اور سوراخوں میں رہنے والے چوہوں اور لومڑیوں وغیرہ کی طرف سے کہ جو آفات زمانہ میں سے ہیں اس کو کسی نقصان و ضرر کا کوئی خوف و خدشہ نہ ہو الخ۔

کھانا زیادہ سے زیادہ کتنا کھایا جائے

حضرت مقدام ابن معدیکرب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا  انسان (اگر اپنے پیٹ کو حد سے زیادہ بھر لے تو اس) نے پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہی بھرا (کیونکہ پیٹ کو زیادہ بھرنے سے جو برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ان کا کوئی شمار نہیں، ابن آدم کے لئے بس چند لقمے کافی ہیں جو اس کی پشت کی ہڈی کو سیدھا اور کھڑا رکھیں تاکہ وہ اطاعت الٰہی کی بجا آوری اور بقدر ضرورت اپنی معاشی جدوجہد کو جاری رکھنے پر قادر رہ سکے، ہاں اگر ضروری ہو یعنی کوئی پیٹ بھرنا ہی چاہتا ہو اور کھانے کی کم سے کم مقدار کفایت پر قناعت نہ کر سکتا ہو تو اس کو چاہئے کہ پیٹ کے تین حصے کرے ایک حصہ کھانے کے لئے ہو ایک حصہ پانی کے لئے ہو اور ایک حصہ سانس کی آمدورفت کے لئے خالی چھوڑ دے تاکہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا نہ ہو جائے (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 جیسا کہ طیبی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ واجب تو یہ ہے کہ کھانے کے معاملہ میں اس حد سے تجاوز نہ کیا جائے جو پیٹھ کو قائم رکھنے یعنی جسمانی توانائی کو برقرار رکھنے کے لئے کافی ہو اور یہ بھی اس لئے تاکہ خدا کے احکام بجا لانے کی طاقت و قدرت حاصل رہے، ہاں اگر کوئی شخص اس حد کفایت پر قناعت نہ کر سکے اور وہ اس حد سے تجاوز کرے یعنی زیادہ مقدار میں کھانے کی خواہش رکھے تو وہ بھی بس اسی قدر زیادہ کھائے جو پیٹ کے تین حصوں میں سے ایک حصے کو بھر دے، باقی دو حصوں میں سے ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ خالی رہنا چاہئے اپنی خوراک کی مقدار میں اس آخری حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے۔

 واضح رہے کہ اس حدیث میں پہلے تو پیٹ کو ان معمولی برتنوں کی طرح ایک برتن قرار دیا گیا ہے جو گھر کی ضروریات میں کام آتے ہیں اور اس طرح یہ اشارہ فرمایا گیا کہ پیٹ ایک بے حیثیت چیز ہے، پھر یہ واضح فرمایا کہ برتنوں میں بھی (یہ پیٹ) گویا سب سے برا برتن ہے کیونکہ عام طور پر تمام برتن انہی کاموں میں استعمال کیے جاتے ہیں جن کے لئے ان کو بنایا گیا ہے، اس طرح پیٹ کا اصل موضوع یہ ہے کہ اس میں خوراک کی بس اتنی مقدار ڈالی جائے جو جسمانی توانائی کو باقی رکھنے کے لئے ضروری ہو اور اگر اس کو ضرورت سے زیادہ بھرا جائے تو نہ صرف اس کے مقصد سے تجاوز ہو گا بلکہ اس کی وجہ سے ایسی برائیاں اور خرابیاں پیدا ہوں گی جو دین و دنیا دونوں کو نقصان پہنچائیں گی اس اعتبار سے پیٹ گویا سب سے برا برتن ہوا۔

بھوک کے دس فوائد:  بھوک بظاہر بڑا بھیانک لفظ ہے اور آج کی دنیا کا نہایت سنگین مسئلہ ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ اگر بھوک کا تعلق  قوت لایموت تک کے فقدان سے ہو اور کوئی انسان نان جویں کی اس مقدار سے بھی محروم رہے جس کا بقا زندگی کے لئے پیٹ میں پہنچنا ضروری ہے تو واقعۃً وہ  بھوک انسان کے لئے پیغام اجل سے کم نہیں، لیکن اگر  بھوک سے مراد کم کھانا، یا  وقتاً فوقتاً فاقہ ہو، تو وہ بھوک بھی ہماری اس دنیا کے نقطہ نظر سے چاہے کتنا ہی سنگین مسئلہ ہو مگر حقیقت میں اس بھوک کے جو فوائد ہیں علامہ طیی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور روحانی نقطہ نظر سے ہیں ان کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ بعض حضرات نے ان فوائد کو بڑی جامعیت کے ساتھ بیان کیا ہے، چنانچہ ایک اونچے درجہ کے اسلامی محقق اور عارف باللہ حضرت شیخ ابو حامد رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ بھوک میں دس فوائد پوشیدہ ہیں۔ اول یہ کہ قلب اور بصارت کی صفائی حاصل ہوتی ہے کیونکہ پیٹ کا بھرا ہوا ہو ہونا طبیعت کو سست و کند، قلب کو بوجھل اور دماغ پر  ابخرات کو غلبہ کر دیتا ہے، دوسرے یہ کہ قلب میں رقت و نرمی اور پاکیزگی آتی ہے اور اس کی وجہ سے دل یاد الٰہی کی طرف متوجہ ہوتا ہے، تیسرے یہ کہ طبیعت و مزاج میں انکسار پیدا ہوتا ہے اور اس تکبر و حرص اور عشرت پسندی کا خاتمہ ہوتا ہے جو طغیان و سرکش کا مبدا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انسان کا نفس، جس قدر انکسار پسند بھوک کی حالت میں ہوتا ہے کہ اس قدر انکسار اور کسی چیز سے پیدا نہیں ہوتا۔ چوتھے یہ کہ عذاب الٰہی آفات و بلا قدرت اور اہل بلا فراموش نہیں ہوتے، چنانچہ جو لوگ ہر وقت اپنا پیٹ بھرا رکھتے ہیں وہ نہ تو بھوک کی اذیت کو محسوس کر سکتے ہیں اور نہ بھوکوں کو یاد کر سکتے ہیں۔ پانچویں یہ کہ نیند کا غلبہ کم ہوتا ہے اور بیداری کی کیفیت طاری رہتی ہے، کیونکہ جو شخص پیٹ کو کھانے سے بھر لیتا ہے وہ پانی بھی بہت پیتا ہے، زیادہ پانی پینا، نیند کی زیادتی کا سبب ہوتا ہے اور نیند کی زیادتی نہ صرف یہ کہ عبادت و طاعت، جیسے تہجد وغیرہ کو فوت کرتی ہے، طبیعت کو مکدر اور دل کو سخت بناتی ہے بلکہ زیادہ سونا، گویا عمر کو ضائع کرنا ہے، اور ظاہر ہے کہ عمر، بہت اعلیٰ جوہر ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس لئے عطا نہیں کیا ہے کہ اس کو بیکار گنوایا جائے بلکہ اس کو انسان کے حق میں راس المال بنایا ہے تاکہ وہ اس کے ذریعہ اپنے دینی و دنیاوی معاملات کی صلاح و فلاح کے امور انجام دے۔ علاوہ ازیں نیند ایک طرح کی موت ہے۔ لہٰذا اپنے اوپر نیند کو غالب رکھنا گویا عمر کو چھوٹی کرنا۔ چھٹے یہ کہ عبادت و طاعت کی پابندی و ہمیشگی حاصل ہوتی ہے کیونکہ جو شخص زیادہ کھاتا ہے اس کے اوقات کا زیادہ حصہ کھانے پینے کی مشغولیت میں صرف ہوتا ہے مثلاً اس کو کچھ وقت تو بازار سے سودا سلف لانے اور اشیا خوراک کی فراہمی میں لگانا پڑتا ہے، کچھ وقت کھانے کی تیاری میں صرف ہوتا ہے، کھانا کھاتے وقت بھی کافی وقت دینا پڑتا ہے اور پھر کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے اور کھانے کے بعد منہ کی صفائی اور خلال کرنے اور بار بار پانی کے لئے پانی کی جگہ آنے جانے جیسے کاموں میں بھی کافی وقت صرف ہوتا ہے، غرضیکہ بہت ہی وقت کا خرچ ہے اور اگر ان اوقات کو کھانے پینے کی مشغولیات سے بچا کر عبادت و طاعت اور ذکر و مناجات میں لگائے تو کہیں زیادہ فائدہ حاصل کرے۔ مشہور عالم اور بزرگ حضرت علامہ تستری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے حضرت علی جرجانی رحمۃ اللہ کو ستو پھانکتے دیکھا تو عرض کیا کہ حضرت ایسی کون سی وجہ پیش آ گئی جو آپ ستو پھانک رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ بھئی کیا پوچھتے ہو، میں نے ایک دن حساب لگایا تو معلوم ہوا کہ ایک چپاتی کھانے کے دوران اتنا وقت صرف ہوتا ہے جتنا کہ ستر تسبیحات پڑھنے میں (میں نے سوچا کہ اس طرح تو روٹیاں کھانے میں بہت وقت لگتا ہے اور اس وقت کو بچا کر دوسرے مفید کاموں میں صرف کیا جا سکتا ہے) لہٰذا میں نے روٹیاں کھانے چھوڑ دیں اور چالیس برس سے ایک چپاتی بھی نہیں کھائی ہے بلکہ بھوک کی شدت کم کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً ستو پھانک لیا کرتا ہوں۔ ساتویں یہ کہ کم کھانے کی وجہ سے بدن کی صحت و تندرستی بحال رہتی ہے اور امراض کا دفعیہ ہوتا ہے کیونکہ اکثر امراض کا سبب کھانے کی زیادتی اور کھانے پینے میں بے اعتدالی ہوتی ہے، پھر زیادہ کھانے کی وجہ سے امراض صرف پیدا نہیں ہوتے بلکہ وہ عبادت سے باز رکھتے ہیں اور تشویش و فکر میں مبتلا کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وقت کا بڑا حصہ، حکیم ڈاکٹر کے پاس آنے جانے، علاج معالجہ کرنے، اور دوا وغیرہ کی فراہمی میں صرف ہوتا ہے اور سب چیز جو محنت مشقت اور پریشانی برداشت کرنا پڑتی ہے وہ اس کے علاوہ ہوتی ہے لہٰذا انسان اگر کم کھانے اور وقتاً فوقتاً فاقہ کرتا رہے تو ان پریشانیوں سے نجات مل جائے۔ آٹھویں یہ کہ حصل معاش کی جدوجہد اور روزی کمانے کی محنت مشقت زیادہ نہیں کرنا پڑتی، کیونکہ جو شخص کم کھانے کی عادت ڈال لیتا ہے اس کے لئے تھوڑی سی محنت مشقت سے حاصل کیا ہوا تھوڑا سا مال و اسباب بھی کافی ہو جاتا ہے، نویں یہ کہ ایثار و احسان اور صدقہ و خیرات کے داعیہ کو پورا کرنے پر آسانی سے قدرت حاصل ہوتی ہے، یعنی کم کھانے کی صورت میں جو کھانا اپنی خوراک سے بچ جاتا ہے اس کو غریب و مسکین اور فقیر و محتاج کو بطور صدقہ دینا زیادہ مشکل نہیں ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ صدقہ و خیرات کرنے والا شخص قیامت کے دن اپنے اس صدقہ و خیرات کے سایہ میں رحمت خداوندی سے بہرہ مند ہو گا، نیز یہ حقیقت بھی سامنے آنی چاہئے کہ انسان جو کچھ خود کھاتا پیتا ہے اس کو تو وہ گویا بیت الخلا میں جا کر جمع کر دیتا ہے اور جو کچھ فقیر و محتاج پر صدقہ و خیرات کرتا ہے اس کو اپنے لئے ذخیرہ آخرت کر دیتا ہے کہ وہ وہاں سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت جزا پائے گا۔ اور دسواں یہ کہ جو بھوک کے مذکورہ بالا فائدوں میں سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ان خواہشات و جذبات کی بیخ کنی ہوتی ہے جو انسان کو ہر طرح کے گناہ پر ابھارتے ہیں اور نفس امارہ پر غلبہ و قابو حاصل ہو جاتا ہے، کیونکہ کم کھانا ہر طرح کی نفسانی خواہش کو مارتا ہے اور شہوانی خواہشات کو مضمحل کر دیتا ہے اور یہ بات کسی دلیل کی محتاج نہیں کہ دین و دنیا کی تمام سعادتیں اور بھلائیاں اس امر میں پوشیدہ ہیں کہ انسان اپنے نفس کا مالک اور اس پر قابو یافتہ ہو اور ہر طرح کی شقاوت و بدبختی اس میں پوشیدہ ہے کہ انسان اپنے نفس کا غلام بن جائے اور خود پر اس کو قابو دے دے۔

لمبی ڈکار لینے کی ممانعت

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو ڈکارتے سنا تو اس سے فرمایا کہ اپنی ڈکار کو روکو (یعنی اتنا زیادہ نہ کھایا کرو کہ لمبی لمبی ڈکاریں آنے لگیں) اس لئے کہ قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بڑا بھوکا وہ ہو گا جو دنیا میں ان میں سب سے بڑے پیٹ والا ہو گا۔ یعنی جو شخص اس دنیا میں بہت زیادہ کھانے والا ہو گا اس کو قیامت کے دن بھی بہت زیادہ بھوک لگے گی۔ جس کی وجہ سے وہ نہایت پریشانی میں مبتلا ہو گا۔ (بغوی نے بھی اسی طرح کی روایت نقل کی ہے

 

تشریح

 

 حدیث میں صحابی رضی اللہ عنہ کے ڈکارنے کا ذکر ہے ان کا نام وہب ابن عبداللہ تھا اور ان کا شمار چھوٹی عمر والے ان صحابہ رضی اللہ عنہم میں ہوتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں بالغ نہیں ہوئے تھے، خود ان کا بیان ہے کہ ایک دن میں نے گوشت کا ثرید کھایا، اور ڈکاریں لیتا ہوا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟ اپنی ڈکاروں کو روکو۔ اور اس کے بعد وہی الفاظ ارشاد فرمائے وجہ اوپر نقل کیے گئے ہیں مذکورہ ارشاد میں ڈکار لینے کی جو ممانعت فرمائی گئی ہے اس کا مقصد، جیسا کہ حدیث کے آخری جزو سے واضح ہوتا ہے، اتنا زیادہ کھانے سے منع کرنا ہے جس سے پیٹ ضرورت سے زیادہ بھر جائے۔ اور جو لمبی لمبی ڈکاریں لینے کا باعث بنتا ہے۔ منقول ہے کہ حضرت وہب بن عبداللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مذکورہ ممانعت کے بعد تا زندگی کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا۔ اگر رات میں کھا لیتے تو دن میں نہیں کھاتے اور جب دن میں کھا لیتے تو رات میں نہیں کھاتے۔

مال و دولت ایک فتنہ ہے

حضرت کعب ابن عیاض رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (حق تعالیٰ کی طرف سے) ہر امت کے لئے (کوئی نہ کوئی) فتنہ و آزمائش ہے (جس میں اس امت کے لوگوں کو مبتلا کر کے ان کو آزمایا جاتا ہے) چنانچہ میری امت کے لئے جو چیز فتنہ آزمائش ہے وہ مال و دولت ہے یعنی اللہ تعالیٰ میری امت کے لوگوں کو مال و دولت دے کر یہ آزمانا چاہتا ہے کہ وہ راہ مستقیم اور حد اعتدال پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔ (ترمذی)

جو مالدار صدقہ و خیرات کے ذریعہ آخرت کے لئے کچھ نہیں کرتے ان کے بارے میں وعید

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن ابن آدم کو اس طرح حقارت و ذلت کے ساتھ) پیش کیا جائے گا گویا کہ وہ بکری کا بچہ ہے، پھر اس کو اللہ تعالیٰ کے روبرو کھڑا کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ (فرشتہ کی وساطت سے یا خود براہ راست زبان قال یا زبان حال سے) اس سے فرمائے گا کہ میں نے (دنیا میں) تجھ کو زندگانی، عمل و دانش، صحت و تندرستی اور امن و عافیت جیسی نعمت عطا کی تھی (مال و دولت، حشم و خدم اور جاہ و عزت جیسی چیزوں کا مالک) بنایا تھا اور (اس سے بڑی) نعمت (یہ) عطا کی تھی (کہ اپنی کتاب نازل کی، اپنا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھیجا اور ہدایت و راستی کا نور پھیلایا) پس تو نے کیا کام کیا؟ یعنی کیا تو نے ان چیزوں کے حقوق ادا کیے اور ان سب نعمتوں کا شکر گزار رہا؟۔ ابن آدم عرض کرے گا، میرے پروردگار! میں نے تو بس یہ کیا کہ تجارت اور کاروبار کے ذریعہ مال و دولت جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور مرتے وقت اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ میری زندگی کے دنوں میں پہلے میرے پاس تھا، اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو آپ کی راہ میں خرچ کروں اور اس کا ثواب لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ یہ تو ممکن نہیں کہ تمہیں دنیا میں دوبارہ بھیجا جائے اور تم جو مال و دولت دنیا میں چھوڑ کر چلے آئے تھے وہ بھی اب تمہارے لئے کار گر نہیں ہے، ہاں اگر تم نے (اس مال و دولت میں سے کچھ حصہ بھی صدقہ و خیرات کیا ہو اور ثواب کی صورت میں) اس کو آگے یہاں آخرت میں بھیجا ہو تو مجھے اس کو دکھلاؤ۔ لیکن اس نے چونکہ اس مال و دولت سے کچھ بھی حصہ آخرت کے کاموں میں خرچ نہیں کیا ہو گا اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد پر نہایت شرمندہ و خجل ہو گا اور جیسا کہ مجرموں کی عادت ہے کہ جب اپنے جرم میں پکڑے جاتے ہیں اور اپنی صفائی میں کوئی معقول عذر بیان نہیں کر سکتے تو بار بار ایک ہی بات کو جو پہلے کہہ چکے ہوتے ہیں، دہراتے رہتے ہیں، وہ ابن آدم بھی ایک تو اس وجہ سے اور دوسرے اپنی اس بات کا جواب نہ پانے کی وجہ سے دوبارہ وہ عرض کرے گا کہ میں تو بس مال و دولت کو جمع کرنے اور اس کو بڑھانے میں لگا رہا اور اس کو دنیا میں اس سے زیادہ چھوڑ کر آیا جتنا کہ پہلے تھا اور اب آپ مجھے دنیا میں دوبارہ بھیج دیجئے تاکہ میں اس تمام مال و دولت کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔

اس طرح یہ ظاہر ہو جائے گا کہ اس کو دنیا میں جو مذکورہ چیزیں دی گئی تھیں ان میں سے اس نے کوئی بھی بھلائی آگے (آخرت میں) نہیں بھیجی ہے لہٰذا اس کو دوزخ میں پہنچائے جانے کا حکم دیا جائے گا۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور اس کی اسناد کو ضعیف قرار دیا ہے (اگرچہ معنی کے لحاظ سے یہ بالکل صحیح ہے

 

تشریح

 

 طیبی رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث میں ابن آدم کی جس حالت کو ذکر کیا گیا ہے کہ جس بندہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مذکورہ چیزیں اور نعمتیں حاصل ہوں اور وہ ان کے ذریعہ آخرت کی بھلائی حاصل کرنے سے غافل رہے تو اس کی مثال اس غلام کی سی ہے جس کو اس کا آقا بہت سا مال و اسباب اس مقصد کے لئے دے کہ وہ اس کے ذریعہ تجارت کر کے زیادہ سے زیادہ نفع کمائے مگر وہ غلام اپنے آقا کی مرضی اور اس کے حکم سے سرتابی کر کے اس سارے مال و اسباب کو لٹا کر تلف و ضائع کر دے یا ایسے کاروبار اور تجارت میں پھنسا دے جس کا حکم اس کو نہیں دیا گیا تھا تو ظاہر ہے کہ وہ غلام نہ صرف نا اہل سمجھا جائے گا بلکہ مستوجب سرزنش بھی قرار پائے گا، ٹھیک اسی طرح وہ بندہ بھی نہایت ٹوٹے میں رہے گا اور مستوجب عذاب قرار دیا جائے گا۔

 ابو حامد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کہا ہے کہ یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ اگرچہ ہر بھلائی، ہر لذت اور ہر سعادت یہاں تک کہ ہر مطلوب، کو  نعمت کہا جاتا ہے لیکن حقیق نعمت بس  اخروی سعادت ہے اس کے علاوہ، کسی بھی چیز کو  'سعادت کہنا غلط ہے، بلکہ کسی دنیاوی چیز پر مجازاً بھی  سعادت کا اطلاق کرنا یعنی اس کو  دنیوی سعادت کہنا بھی صحیح نہیں ہے، ہاں جو دنیاوی چیزیں  اخروی سعادت کے حصول کا سبب و ذریعہ ہوں اور اس کی راہ میں کسی ایک واسطہ کئی واسطوں کے ساتھ معاون و مدد گار ہوں تو ان چیزوں کو  نعمت  کہنا صحیح ہو سکتا ہے اور یہ بھی اس وجہ سے کہ وہ چیز  حقیقی نعمت تک پہنچا سکتی ہیں۔

ٹھنڈا پانی اور تندرستی، خدا کی بڑی نعمت ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے نعمتوں کے بارے میں جو سوال کیا جائے گا وہ یہ ہو گا کہ  کیا ہم نے تیرے بدن کو تندرستی عطا کی تھی اور تجھ کو ٹھنڈے پانی سے سیراب نہیں کیا تھا ۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 یوں تو ہر وہ چیز خدا کی نعمت ہے جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑی نعمت تندرستی اور پانی ہے، اسی لئے قیامت کے دن سب سے پہلے انہی دونوں نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔

 ایک بڑے بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اپنے مرید سے فرمایا  پانی ٹھنڈا کر کے پیا کرو کیونکہ ٹھنڈا پانی، خدا کا شکر، دل کی گہرائیوں سے ادا کراتا ہے۔ نیز حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ کے بارے میں خوب یاد ہے کہ وہ جب بھی ٹھنڈا پانی پیتے بے خود ہو جاتے، اور جب تھوڑی دیر تک اسی عالم بے خودی میں رہنے کے بعد اپنی حالت پر واپس آتے، تو فرماتے سبحان اللہ! یہ ٹھنڈا پانی بھی کیا چیز ہے اور خدا نے اس کو کتنا بہترین جوہر بنایا ہے؟ اور اسی طرح کے عالم ذوق و توحید سے متعلق کلمات ارشاد فرماتے! حاصل یہ کہ پانی بذات خود تو بہت بڑی نعمت ہے ہی، لیکن ٹھنڈا پانی جو کیف و لذات اور جو فوائد اپنے اندر رکھتا ہے ان کی وجہ سے اس نعمت کا درجہ کہیں زیادہ بڑھ جاتا ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ قدرت نے پانی کو چیز تو ایسی عزیز اور اہم بنایا کہ زندگی کا مدار ہی اس پر ہے لیکن عام اتنا کیا کہ اس کی کوئی قیمت نہیں۔ اس موقع پر ایک بڑی دلچسپ حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک بادشاہ کسی طرح بھٹک کر کہیں اور جنگل میں پہنچ گیا، وہاں اس کو پیاس لگی مگر آس پاس کہیں پانی کا نام و نشان تک نہیں تھا، پیاس کے ساتھ اس کا اضطراب بڑھتا رہا یہاں تک کہ مرنے کے بالکل قریب پہنچ گیا تو اچانک اس کے سامنے ایک عارف یا کوئی فرشتہ نمودار ہوا اور بولا کہ اگر میں تمہیں پانی پلا دوں تو تم مجھے کیا دو گے؟بادشاہ نے فوراً جواب دیا کہ اپنا آدھا ملک! اس غیبی انسان نے اس کو پانی پلا دیا، اور اس کے بعد اس کا پیشاب رک گیا۔ اس نے لاکھ چاہا کہ کسی طرح پیشاب کر لے، مگر نامراد رہا۔ اور سخت پریشانی میں مبتلا ہو گیا آخر کار پھر وہی غیبی انسان نمودار ہوا اور کہا کہ اگر میں تمہارے اس مرض کا علاج کر دوں اور تمہارا پیشاب کھل جائے تو مجھے کیا انعام دو گے؟ بادشاہ نے کہا کہ  باقی آدھا ملک بھی تمہیں ہی دے دوں گا۔ اس نے علاج کیا اور بادشاہ کا پیشاب کھل گیا۔ تب اسی غیبی انسان نے کہا کہ  بادشاہ سلامت! آپ اپنا ملک خود سنبھالئے، مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، لیکن اپنی سلطنت اور اپنے ملک کی حیثیت دیکھ لیجئے (کہ ذرا سے پانی اور پیشاب کے لئے آپ نے تمام ملک و سلطنت کو قربان کرنے کا فیصلہ کر لیا، لہٰذا اتنی بے حیثیت چیز اور اس کی ظاہری چمک دمک پر کبھی گھمنڈ نہ کیجئے گا 

 آخر میں ایک بات یہ ملحوظ رہے کہ مذکورہ بالا حدیث میں تندرستی اور پانی دونوں نعمتوں کو ایک ساتھ ذکر کرنے میں گویا اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ یہ دونوں اتنی عظیم الشان اور اہم نعمتیں ہیں کہ تمام ملک و سلطنت ایک طرف اور یہ دونوں نعمتیں ایک طرف۔

وہ پانچ نعمتیں جن کے بارے میں قیامت کے دن جوابدہی کرنی پڑے گی

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  قیامت کے دن انسان کے پاؤں سرکنے نہیں پائیں گے اور اس کو بارگاہ رب ذوالجلال میں اس وقت تک کھڑا رکھیں گے جب تک اس سے پانچوں باتوں کا جواب نہیں لے لیا جائے گا، چنانچہ اس سے پوچھا جائے گا کہ اس نے اپنی عمر کس کام میں صرف کی، (بالخصوص یہ کہ) اس نے اپنی جوانی کو کس کام میں بوسیدہ کیا (یعنی جوانی گویا نیا لباس ہے جو رفتہ رفتہ پرانا ہوتا ہے) اس نے مال کو کہاں خرچ کیا (یعنی اپنے مال اور روپیہ پیسہ کو اچھے کاموں میں صرف کیا یا برے کاموں میں گنوایا) اور یہ کہ اس نے جو علم حاصل کیا تھا اس کے موافق عمل کیا یا نہیں؟ ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دن انہوں نے حضرت عویمر سے فرمایا کہ عویمر (خیال کرو) قیامت کے دن تمہاری کیا کیفیت ہو گی جب تم سے سوال کیا جائے گا کہ آیا تم عالم تھے یا جاہل؟ اگر تم یہ جواب دو گے کہ میں عالم تھا تو پھر تم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے جو کچھ علم حاصل کیا اس کے موافق کیا عمل کیا؟ اور اگر تم نے یہ جواب دیا کہ میں تو جاہل تھا، تو پوچھا جائے گا کہ تمہارے لئے جاہل رہنے کی کیا وجہ تھی اور تم نے علم کیوں نہیں حاصل کیا؟

برتری محض تقویٰ سے حاصل ہو سکتی ہے، رنگ ونسل سے نہیں

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا۔ (ابو ذر!) تم نہ تو سرخ رنگ والے سے بہتر ہو اور نہ سیاہ رنگ والے سے الاّ یہ کہ تم ان دونوں میں سے کسی سے تقویٰ کے اعتبار سے افضل ہو (احمد)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ انسانی فضیلت و برتری، ظاہری شکل و صورت اور رنگ و نسل پر موقوف نہیں ہے بلکہ اس کا مدار دینی اخلاقی کردار کی عظمت اور تقویٰ پر ہے! واضح رہے کہ حدیث میں صرف دو رنگوں سرخ اور سیاہ کا ذکر اس بنا پر کیا گیا ہے کہ زیادہ تر لوگ انہی دو رنگ کے ہوتے ہیں اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ ان دونوں رنگوں والوں سے مراد آقا اور غلام ہیں چنانچہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ آقا گورے رنگ کا ہوتا ہے اور غلام کالے رنگ کا۔

 طیبی رحمۃ اللہ نے حدیث کی وضاحت میں کہا ہے کہ یہاں سرخ سے مراد اہل عجم اور سیاہ رنگ سے مراد اہل عرب ہیں۔ چنانچہ (اس زمانہ میں) اہل عرب، عجم والوں یعنی غیر عرب لوگوں کو احمر (سرخ) کہا کرتے تھے کیونکہ ان کے رنگ پر سرخی اور سفیدی غالب ہوتی تھی، اور اہل عرب کو  اسود (سیاہ) کہا جاتا تھا کیونکہ ان کی رنگت پختہ ہوتی تھی اور اس پر سیاہی اور سبزی کا غلبہ ہوتا تھا۔

 نیز حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ حدیث کے معنی یہ ہیں کہ حقیقی فضیلت و برتری کا تعلق تقویٰ اور عمل صالح سے ہے اور تقویٰ و عمل صالح کے بغیر کسی بھی وصف و خصوصیت کی طرف نسبت کوئی فضیلت نہیں رکھتی جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم (یعنی اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ با عزت وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے) یہ بات ملحوظ رہے کہ  تقویٰ اپنے مراتب و درجات کے اعتبار سے کئی اقسام پر مشتمل ہے، سب سے ادنیٰ قسم یا سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر حالت میں شرک جلی سے اجتناب کیا جائے۔ اوسط درجہ یہ ہے کہ ہر قسم کے گناہ ہر طرح کی برائی ہر طرح کے لہو و لعب اور شرک خفی سے اجتناب کیا جائے۔ اور سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ ہر لمحہ خدا کے ساتھ تعلق و حضور رکھا جائے اور دل میں ماسویٰ اللہ کا خیال بھی نہ آنے دیا جائے۔

دنیا سے زہد و بے رغبتی کی فضیلت

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  جس بندہ نے دنیا میں (زائد از ضرورت و حاجت، دنیاوی مال و جاہ سے) زہد یعنی بے رغبتی اختیار کی، اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں حکمت یعنی معرفت و یقین کی دولت پیدا کی، اس کی زبان کو اس(حکمت) کے ساتھ گویا کیا اور اس کو دنیا کے عیوب (جیسے کثرت غم و رنج، قلت غنا خست شرکا، سرعت فنا اور ذکر الٰہی سے دل کی غفلت وغیرہ کو یقین کی آنکھوں سے) دیکھنے والا کیا، نیز اس دنیا کی بیماری (یعنی دنیاوی محبت کی علت و سبب) اور (علم و عمل، صبر و قناعت اور دنیا سے اجتناب و بے رغبتی اختیار کرنے اور تقدیر الٰہی پر راضی رہنے کی توفیق بخش کر) اس بیماری کا علاج بھی اس کو دکھایا اور (اس کے دنیا سے اعراض کرنے اور عقبی کی طرف متوجہ رہنے کے سبب) حق تعالیٰ نے اس کو دنیا (کی آفات و بلیات) سے سلامتی کے ساتھ دار السلام میں پہنچا دیا ۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

  دار السلام سے مراد  جنت ہے اور اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ بکمال تمام حقیقی سلامتی بس دار آخرت اور جنت ہی میں حاصل ہو گی۔ منقول ہے کہ ایک عارف درویش سے لوگوں نے پوچھا کہ کہئے، آپ کا کیا حال ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ خدا نے چاہا تو سلامتی ہے بشرطیکہ جنت میں پہنچ جاؤں۔

صلاح و فلاح کا انحصار خلوص ایمان پر ہے

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  وہ شخص فلاح یاب ہوا جس کے دل کو اللہ تعالیٰ نے (نفاق کی آمیزش سے پاک کر کے) ایمان کے لئے خالص و مخصوص کر دیا، (یعنی اس کو ایمان خالص عطا کیا) اس کے دل کو (بغض و حسد اور تمام برے کاموں و برے احوال، جیسے دنیا کی محبت اور مولیٰ اور عقبی سے بے پروائی وغیرہ سے) محفوظ و سالم رکھا! اس کی زبان کو راست گو بنایا، اس کے نفس کو (اللہ کے ذکر اور اس کے محبت کے ذریعہ مطمئن کیا (اور اس کو حق کا مطیع بنایا) اس کی خلقت و طبیعت کو (کجی و باطل کی طرف مائل اور افراط و تفرط میں مبتلا ہونے سے بچا کر) مستقیم اور سیدھا رکھا، اس کے کانوں کو (حق بات کا) سننے والا بنایا، اور اس کی آنکھوں کو (وحدانیت کے دلائل و مشاہدات اور پروردگار کے نظام قدرت و صنعت کا) دیکھنے والا بنایا، بس کان تو  قیف ہیں اور آنکھ اس چیز کو قائم اور ثابت رکھنے والی ہے جس کو دل محفوظ کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ شخص فلاح یاب ہوا جس کے دل کو خدا نے یا خود اس شخص نے اپنے دل کو (حق بات اور برحق چیزوں کا) محافظ بنایا۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

  قمع کے معنی قیف کے ہیں اور قیف ٹونٹی دار یا نلکی دار ظرف کی صورت میں اس آلہ کو کہتے ہیں جس کو بوتلوں وغیرہ کے منہ پر رکھ کر ان میں کوئی رقیق چیز جیسے تیل وغیرہ بھرتے ہیں۔  پس کان توقیف ہیں کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح قیف کے ذریعہ کوئی رقیق چیز بوتلوں وغیرہ میں ڈالی جاتی ہے اسی طرح کان وہ ذریعہ ہے جو حق بات کو انسان کے قلب و دماغ میں اتارتا ہے بایں طور کہ کان اس بات کو سنتا ہے اور قلب و دماغ اس کو قبول کرتے ہیں۔

  اور آنکھ اس چیز کو قائم اور ثابت رکھنے والی ہے الخ۔ اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جن چیزوں کو آنکھیں دیکھتی ہیں دل ان کا ظرف ہوتا ہے یا وہ چیزیں دل کو اپنا ظرف بناتی ہیں کہ وہ آنکھوں کے ذریعہ دل میں داخل ہوتی ہے! گویا جس طرح کان، حق بات کو دل تک پہنچاتا ہے اس طرح نظر آنے والے حقائق آنکھوں کی راہ سے دل میں داخل ہوتے ہیں اور اس کے اندر قائم و ثابت رہتے ہیں! حدیث کے آخری جزء میں گویا ان دونوں چیزوں کا نتیجہ بیان فرمایا گیا ہے کہ جس شخص نے حق بات کو سن کر اور برحق چیزوں کو دیکھ کر انہیں اپنے دل میں اتار لیا اور ان کی محافظت کی یعنی بہر صورت حق پر عامل رہا تو وہ فلاح یاب قرار پائے گا۔

کفار و فجار کو دنیاوی مال و دولت کا ملنا گویا انہیں بتدریج عذاب تک پہنچانا ہے

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اس کے گناہ و معصیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اس کی محبوب ترین چیزیں (یعنی دنیاوی مال و دولت اور جاہ و حشمت وغیرہ) دیتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ (یعنی اس کو اس کی محبوب ترین چیزیں دینا) استدراج ہے۔

 اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے استشہاد کے طور پر یہ آیت تلاوت فرمائی: (فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ ابو ابَ كُلِّ شَيْءٍ  ۭ حَتّٰى اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ) 6۔ الانعام:44) جب کافر اس نصیحت کو بھول گئے جو انہیں کی گئی تھی (یعنی اللہ تعالیٰ کا عہد، یا یہ کہ جب انہوں نے حق تعالیٰ کی نافرمانی کی) تو ہم نے ان پر (دنیا کی نعمتوں کی) ہر چیز کے دروازے کھول دئیے یہاں تک کہ جب وہ ان چیزوں پر خوش ہوئے جو انہیں دی گئی تھیں (یعنی جاہ و مال صحت و خوشحالی اور درازیِ عمر اور دیگر نعمتیں) تو ہم نے ان کو (اپنے عذاب میں) پکڑ لیا اور وہ نہایت حیران و ششدر رہ گئے (رواہ احمد)

 

تشریح

 

 لغت میں  استدراج کے معنی ہیں درجہ بدرجہ سے جانا! جیسے کسی کو اوپر پہنچانے کے لئے زینہ کی ایک پیڑی پر چڑھا جائے پھر دوسری پیڑی پر چڑھا جائے اور پھر تیسری پیڑی پر، اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک ایک پیڑی پر چڑھاتے ہوئے اس کو آخرت لے جایا جائے! اور بندہ کے حق میں اللہ تعالیٰ کا استدراج یہ ہے کہ جب کوئی انسان گناہ و معصیت میں مبتلا ہو تو اس کو دنیا کی خوش کن نعمت عطا کرے یا اس کی کوئی بات یا خواہش پوری کر دے اور پھر اس کو اس کے حال پر چھوڑ دے تاکہ وہ انسان یہ گمان کرے کہ یہ میرے حق میں پروردگار کی طرف سے لطف و کرم ہے، چنانچہ اپنی کھال میں مست رہے کہ نہ تو اپنی بد عملیوں سے توبہ کرنے کی طرف متوجہ ہو اور نہ اپنے گناہ پر استغفار کرے اور پھر ایک دم عذاب خداوندی میں پکڑا جائے پس یہ گویا حق تعالیٰ کی طرف سے اس بندہ کو بتدریج عذاب کی طرف لے جانا ہے جیسا کہ کسی کو درجہ بدرجہ چڑھا کر اوپر لے جایا جائے اور پھر اچانک اس کو وہاں سے نیچے پھینک دیا جائے۔

 حاصل یہ کہ جس گناہ گار یا کافر کو دنیا کی ترقی یا بھلائی حاصل ہو جائے اس سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ حق تعالیٰ اس کو نواز رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس کی تمام تر دنیاوی ترقی و کامیابی دراصل اس کو بتدریج اس مرحلہ تک پہنچانا ہے جہاں اچانک عذاب خداوندی اس کو تباہ و برباد کر دے گا۔، خواہ وہ مرحلہ کتنے ہی طویل عرصہ کے بعد آئے۔

اہل زہد کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ قلیل مقدار میں بھی اپنے پاس دنیاوی مال رکھیں

حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی اور ایک دینار کی صورت میں اپنا ترکہ چھوڑا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (جب اس دینار کو دیکھا تو) فرمایا کہ  یہ دینار (اس شخص کی پیشانی، پشت اور پہلو پر) ایک داغ ہے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر (کچھ دنوں بعد) صفہ والوں میں سے ایک اور شخص نے وفات پائی اور اس نے اپنے ترکہ میں دو دینار چھوڑے، رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (ان دیناروں کو دیکھ کر فرمایا۔ یہ دو دینار دو داغ ہیں۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

  صفہ والے ان غریب اور گھر بار نہ رکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہ کی جماعت کو کہتے ہیں جو مستقل طور پر صفہ مسجد میں رہا کرتی تھی اور صفہ مسجد دراصل مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے متصل ایک مسقف (چھت دار) جگہ تھی اور بالکل شروع میں، جب کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس تھا یہی جگہ  مسجد کے طور پر استعمال ہوتی تھی، لیکن جب کچھ عرصہ بعد کعبۃ اللہ کو قبلہ قرار دیا گیا تو اس جگہ کو اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا اور اس کے برابر میں  مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  بنائی گئی! صحابہ رضی اللہ عنہم کی جو مقدس جماعت صفہ میں رہتی تھی وہ ستر اسی نفر پر مشتمل تھی۔ یہ تعداد مختلف اوقات میں کم و زیادہ بھی ہوتی رہتی تھی، ان صحابہ رضی اللہ عنہم کا چونکہ نہ کوئی مکان تھا نہ ان کے پاس کچھ مال و اسباب تھا اور نہ کوئی کاروبار زندگی اور اہل و عیال رکھتے تھے اس لئے وہ کامل زہد اختیار کیے ہوئے تھے، اور خدا کی ذات پر توکل و اعتماد کے سہارے اس جگہ پڑے رہتے تھے اور ہمہ وقت ذکر و شغل، ریاضت و مجاہدہ اور تلاوت قرآن مجید میں مشغول اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث پاک کو یاد و محفوظ کرنے میں منہمک رہ کر ہمہ وقت انوار و برکات حاصل کرتے رہتے تھے، ان حضرت کو اضیاف اللہ (اللہ کے مہمان) کہا جاتا ہے! جو صحابہ رضی اللہ عنہم استطاعت رکھتے تھے وہ ان کی خدمت کیا کرتے تھے، ان کی ضروریات زندگی کی فراہمی میں حتی الامکان سعی کرتے تھے، کچھ کو ان کی جگہ پر نہایت عزت و احترام کے ساتھ کھانے پینے کا سامان پہنچاتے، کچھ کو بطور مہمان اپنے گھر لے جاتے اور وہاں ان کی میزبانی کے فرائض انجام دیتے اور ان میں سے کتنے ہی حضرات ایسے تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خصوصی عنایات وتوجہ سے بہرہ مند ہوتے تھے اور سرکار رسالت پناہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آستانہ پاک سے کھانا کھاتے تھے اور اسی وجہ سے کبھی کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایسے معجزات کے صادر ہونے کا باعث بھی بنتے تھے جس سے تھوڑا سامان خوراک حیرت انگیز طور پر سب کے لئے کافی ہو جاتا تھا، مثال کے طور پر، کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ دودھ کا صرف ایک پیالہ، جو ایک شخص کی بھی غذائی ضرورت کے لئے کافی ہو جانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اعجاز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل ان سب حضرات کو شکم سیر کر دیتا تھا! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم خداوندی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان حضرات کے درمیان تشریف رکھا کریں، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان حضرات کو وقتاً فوقتاً اپنے حضور شرف یابی سے نوازتے رہتے تھے اور کسی وقت بھی انہیں اپنی بیچارگی اور لاچاری کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان سے فرمایا کرتے تھے کہ (تم لوگ اپنے کو تنہا اور بے کس مت سمجھو) میں تم میں ہی سے ہوں۔ نیز ان کو یہ بشارت دیتے کہ آخرت میں تم میرے ساتھ رہو گے اور میرے ہمراہ جنت میں جاؤ گے! مشہور صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھی انہی (صفہ والے) صحابہ میں سے تھے، رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔

 واضح رہے کہ صوفیا کی جماعت کو (زہد و توکل اور دنیا سے ترک تعلق) اہل صفہ کے ساتھ مشابہت و مناسبت حاصل ہے اور اگرچہ لفظ  صوفیہ کو  صفہ سے مشتق قرار دینا اور یہ کہنا کہ مسلک زہد و توکل اختیار کرنے والے کو  صوفی کہنا لفظ  صفہ کی بنیاد پر ہے، ایک غیر حقیقی بات ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ معنوی طور پر صوفیا کی نسبت اہل صفہ کی طرف کی جا سکتی ہے۔

 اب اصل حدیث کی طرف آئیے! اہل صفہ میں سے وفات پانے والے حضرات کا اپنے پیچھے دینار چھوڑ جانا اور اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا وعید بیان فرمانا اس بنیاد پر تھا کہ اگرچہ حاجت و ضرورت کے تحت ایک دینار یا دو دینار جیسا معمولی سا دنیاوی مال بچا کر رکھنا اور جمع کرنا شرعی طور پر گناہ کا موجب نہیں ہے اور نہ یہ کوئی ایسی بات ہے جس کو غیر مناسب قرار دیا جا سکے بلکہ اگر کوئی شخص ادائے حقوق (مثلاً زکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی) کے بعد پورا خزانہ بھی جمع کر لے اور دنیا بھر کا مال و اسباب اپنے پاس رکھے تو اس کو خلاف شرع نہی کہیں گے الاّ یہ کہ کوئی شخص اس طرح مال و زر کا انبار لگائے اور جمع کرے کہ نہ تو اس کی زکوٰۃ ادا کرے اور نہ دوسرے مال حقوق کی ادائیگی کا لحاظ رکھے تو بے شک یہ ممنوع ہو گا، لیکن اس حقیقت کے باوجود اس سے انکار نہی کیا جا سکتا کہ اہل زہد اور تارکان دنیا جو سب کچھ چھوڑ کر، سب سے آنکھیں بند کر کے اور اہل فقر کی محبت کر کے باب توکل و فقر پر بیٹھتے ہیں ان کی شان جداگانہ ہے، ان کے پاس ضرورت سے زائد دنیاوی مال و اسباب کی حقیر سے حقیر مقدار کا بھی ہونا غیر موزوں ہے۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذکورہ ارشاد گویا فقر و تجرد کے اس وعدے کے خلاف سخت تنبیہ و سرزنش کے طور پر ہے جو حقیقت حال سے مطابقت نہ رکھے۔ اور غالباً اسی وجہ سے راوی نے ان دونوں حضرات کے ذکر میں یہ نہیں کہا کہ  اصحاب میں سے ایک شخص نے وفات پائی۔ بلکہ یہ کہا کہ  اصحاب صفہ میں سے ایک شخص نے وفات پائی گویا انہوں نے ان دونوں صحابیوں کی طرف صفہ کی نسبت خاص طور پر کی تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ اگر کوئی دوسرا صحابی رضی اللہ عنہ اپنے ترکہ میں ایک یا دو دینار چھوڑ کر وفات پاتا تو یہ کوئی اہم بات نہیں تھی لیکن یہ ان اصحاب صفہ میں سے دو شخصوں کا ذکر ہے جن کی شخصیات کا امتیاز ہی زہد و فقر تھا، لہٰذا ان اصحاب صفہ کی صحبت و معیت میں رہنا اور خود کو ان کی امتیازی خصوصیت (یعنی زہد و فقر اور توکل) کا حامل قرار دینا، مطلق درہم و دینار جمع کرنے کے منافی ہے۔

 ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے اس حدیث کی وضاحت میں ایک دوسرے رخ سے بحث کی ہے، ان کے منقولات کا مفہوم یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں جو یہ وعید بیان فرمائی وہ اس امر کے پیش نظر تھی کہ وہ دونوں صحابہ رضی اللہ عنہم دراصل ان خستہ حال و مسکین لوگوں (یعنی اصحاب صفہ) میں سے تھے جن کے فقر وفاقہ کی وجہ سے ان پر دوسرے لوگ اپنا مال خیرات کرتے تھے اور اللہ واسطے ان کو کھلاتے پلاتے تھے، اس طرح وہ دونوں حضرات یا تو ازروئے مال یا ازروئے حال بمنزلہ سائلین کے تھے اور جیسا کہ معلوم ہے، کسی بھی شخص کے لئے یہ قطعاً حلال نہیں ہے کہ اگر اس کے پاس ایک دن کا بھی بقدر کفاف کھانے پینے کا سامان ہو تو وہ دست سوال دراز کرے، لہٰذا وہ دنوں حضرات اپنے پاس دینار ہونے کے باوجود ان چیزوں میں سے جو کچھ کھاتے پیتے تھے جو دوسرے لوگ صدقہ و خیرات کے طور پر ان کے پاس لاتے تھے، وہ گویا ان کے حق میں حرام تھا۔ اسی طرح یہ مسئلہ بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ جو شخص اپنے آپ کو فقرا و مساکین کی صورت میں ظاہر کرے، مثلاً پھٹے پرانے کپڑے پہنے اور خستہ حالی کے ساتھ رہے یا صوفیا یا مشائخ کی وضع قطع اختیار کرے اور اس کے پاس از قسم نقد یا مثل نقود (یعنی سونا، چاندی، درہم و دینار یا نوٹ اور روپیہ پیسہ وغیرہ) کچھ ہو اور اس کے باوجود لوگوں کے ہاتھ میں سے وہ چیز لے لے اور قبول کر لے جو کسی کو صدقہ و خیرات کے طور پر دینے کے لئے ہو اور پھر وہ اس چیز کو کھائے پئے یا اپنے مصرف میں لائے تو وہ چیز اس کے حق میں حرام ہو گی۔ اسی طرح وہ شخص اپنے آپ کو عالم یا صالح یا شریف ظاہر کرے اور حقیقت کے اعتبار سے وہ ایسا نہ ہو اور لوگ اس کو اس کے علم یا شرافت کی وجہ سے کچھ دیں تو ان کی دی ہوئی وہ چیزاس کے حق میں حرام ہو گی۔

 منقول ہے کہ مشہور بزرگ حضرت شیخ ابو اسحٰق گاذروئی نے ایک فقرا کو ایک ایسے کھانے پر دیکھا جو مستحقین کے لئے تیار کیا گیا تھا، تو انہوں نے ان فقرا سے فرمایا، تم لوگ حرام کھارہے ہو؟ ان سب فقرا نے یہ سن کر کھانے سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، اس کے بعد حضرت شیخ رحمۃ اللہ نے فرمایا، دیکھو یہ کھانا صرف ایسے لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس از قسم دنیاوی مال کچھ بھی نہ ہو، لہٰذا تم سے جو شخص ایسا ہو وہ تو اس کھانے کو کھائے، اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ کھائے، چنانچہ اس کھانے کو کچھ نے کھایا اور کچھ وہاں سے ہٹ گئے۔ (یہ دیکھ کر) حضرت شیخ رحمۃ اللہ نے فرمایا۔ سبحان اللہ کھانا تو ایک ہی ہے لیکن کچھ لوگوں کے لئے حلال ہے اور کچھ لوگوں کے لئے حرام۔ اس سے واضح ہوا کہ وہ اوقاف کہ جو محض فقرا کے لئے ہیں ان کی آمدنی اور ان کے وسائل کو کسی بھی ایسے شخص کا اپنے مصرف میں لانا مطلقاً حلال نہی ہے جو شرعی طور پر غنی ہو۔ چنانچہ ان مکانات اور کمروں میں جو فقرا ومساکین کے لئے وقف ہیں ایسے لوگوں کا مفت رہائش اختیار کرنا حرام ہے جو فقیر ومسکین نہ ہو جیسا کہ علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ نے صراحت کی ہے کہ غنی پر حرام ہے کہ وہ خانقاہوں کے وقف حجروں میں مفت رہائش اختیار کرے۔ لہٰذا اس قول کو قابل اعتبار نہیں سمجھنا چاہئے جس کا حاصل یہ ہے کہ حرمین شریفین کے اوقاف فقیر وغنی ہر ایک کے لئے ہیں کیونکہ اگر اس بات کو صحیح بھی مان لیا جائے کہ واقعۃً وقف کرنے والوں نے ان اوقاف کو عام رکھا تھا تو بھی ان اوقاف سے غنی کو فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہو گا۔ اور اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک غنی کے حق میں کسی چیز کو وقف کرنا صحیح نہیں ہے جب کہ وہ غیر محصور ہو۔

دنیاوی مال و اسباب جمع کرنے سے گریز کرو

حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن اپنے ماموں حضرت ابو ہاشم بن عتہ رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی عیادت کو گئے تو حضرت ابو ہاشم ان کو دیکھ کر رونے لگے، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ ماموں جان آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا بیماری کی شدت نے آپ کو قلق و اضطراب میں مبتلا کر دیا ہے یا دنیا کی حرص و تمنا نے؟ انہوں نے فرمایا عزیز من! تم نے جو کچھ کہا ہے ایسا ہر گز نہی ہے، بلکہ قلق و اضطراب کا باعث یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم کو ایک وصیت کی تھی اور میں اس پر عمل کرنے سے قاصر رہا ہوں! معاویہ نے پوچھا کہ وہ وصیت کیا تھی؟ انہوں نے کہا، میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارے لئے دنیا کے مال میں سے بس اس قدر جمع کرنا کافی ہے کہ تمہارے پاس ایک خادم ہو اور خدا کی راہ میں لڑنے کے لئے ایک سواری ہو۔ اور میرا خیال ہے کہ میں نے ان دونوں چیزوں سے کہیں زیادہ مال و اسباب اپنے پاس رکھا ہے۔ (احمد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 لفظ  ارانی مفہوم کے اعتبار سے اظن کے معنی میں ہے یعنی میں گمان کرتا ہوں، اور بعض نسخوں میں یہ لفظ ہمزہ کے زبر کے ساتھ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ میں دیکھتا ہوں یا میں جانتا ہوں۔

آخرت کی دشوار گزار راہ سے آسانی کے ساتھ گزرنا چاہتے ہو تو مال و دولت جمع نہ کرو

حضرت ام دردا رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن میں نے اپنے شوہر حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کو کیا ہو گیا ہے کہ آپ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یا صحابہ رضی اللہ عنہم سے) مال و اسباب اور منصب نہیں مانگتے جیسا کہ فلاں فلاں لوگ مانگتے ہیں؟ حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا کہ میں کسی سے مال و دولت کی خواہش کرنے اور اس کو جمع کرنے سے اس لئے گریز کرتا ہوں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے (یاد رکھو) تمہارے سامنے ایک دشوار گزار گھاٹی ہے اس سے وہ لوگ آسانی اور سہولت کے ساتھ نہیں گزر سکتے جو گرانبار ہیں۔ چنانچہ میں یہ پسند کرتا ہوں کہ مال و دولت طلب کرنے سے گریز کر کے اور کم سے کم دنیاوی مال و اسباب پر صبر و قناعت کر کے ہلکار ہوں تاکہ اس گھاٹی سے آسانی و سہولت کے ساتھ گزر سکوں۔

 

تشریح

 

  دشوار گزار گھاٹی سے مراد موت، قبر، حشر اور ان کے سلسلہ میں پیش آنے والی ہولناکیاں اور شدائد ہیں۔ اور  گرانبار سے مراد وہ لوگ ہیں جو مال و دولت، منصب و جاہ اور دنیاوی ترفع و خوشحالی کا بوجھ اپنے کاندھوں پر رکھتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہے کہ مومن کی دنیاوی زندگی اور اس کی ابدی قرار گاہ (جنت) کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ ایک دشوار گزار گھاٹی سے گزرنے کے بعد ہی طے ہوتا ہے کہ اور ظاہر ہے کہ جس شخص کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی دشوار گزار گھاٹی سے گزرنا ہوتا ہے وہ اپنے ساتھ کوئی بوجھ نہیں رکھتا اور زیادہ سے زیادہ ہلکا رہ کر ہی آسانی کے ساتھ اس گھاٹی سے گزر سکتا ہے۔ لہٰذا اگر تم اپنی آخری منزل یعنی جنت تک آسانی کے ساتھ پہنچنا چاہتے ہو تو خود کو دنیا کے مال و اسباب اور جاہ و حشم کی گرانباری سے ہلکا رکھو تاکہ تمہارے اور جنت کے درمیان جو دشوار گزار گھاٹی ہے اس کو طے کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے، اور اسی لئے کہا گیا ہے فازالمخفون وہلک المثقلون یعنی سب سر لوگ کامیاب ہوئے اور گرانبار لوگ ہلاکت میں پڑ گئے۔

دنیا داری سے اجتناب کرو

حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن، مجلس نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں موجود صحابہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا کوئی شخص پانی پر اس طرح چل سکتا ہے کہ اس کے پاؤں تر نہ ہوں؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایسا تو ممکن نہیں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ یہی حال دنیا دار کا ہے کہ وہ گناہوں سے محفوظ و سلامت نہیں رہتا۔ (ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے

 

تشریح

 

 جس شخص پر دنیا کی محبت غالب ہو، وہ تو کسی حالت میں بھی دنیا داری کے ساتھ گناہوں سے محفوظ نہیں رہ سکتا اور جس شخص پر گو دنیا کی محبت غالب نہ ہو لیکن اس کا بھی مال و دولت اور دنیاوی امور میں مبتلا ہونا اس کے دامن کو عام طور پر گناہوں سے آلودہ ہونے سے محفوظ نہیں رکھتا۔

 اس ارشاد گرامی کا حاصل دولتمندوں اور مالداروں کو سخت خوف دلانا اور زہد دنیا کی طرف راغب کرنا ہے نیز اس امر کو بھی واضح کرنا مقصود ہے کہ ہر حالت میں آخرت کے نفع و نقصان کو دنیا کے نفع و نقصان پر ترجیح دینا چاہئے دنیاوی مال و دولت کے حامل و طلب گار کے لئے یہی احساس کافی ہونا چاہئے کہ آخرت کا نقصان و خسران فقر کی بہ نسبت مالداری میں زیادہ پوشیدہ ہے اور فقر کی یہی فضیلت کیا کم ہے کہ فقرا (جنہوں نے اپنے فقر و افلاس پر صبر و قناعت اختیار کیا ہو گا) جنت میں مالداروں سے پانچ سو سال پہلے داخل ہوں گے۔

 

 

 حضرت جبیر بن نفیر (تابعی) رحمۃ اللہ بطریق ارسال روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مجھ پر یہ وحی نازل نہیں ہوئی ہے کہ میں مال و دولت جمع کروں اور تاجر بنوں بلکہ مجھ پر یہ وحی نازل ہوئی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے پروردگار کی حمد و تعریف کے ساتھ اس کی پاکی بیان کیجئے، اور سجدہ کرنے والوں (یعنی نمازیوں) میں سے بنیں۔ نیز اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہیے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دنیاوی زندگی کا آخری وقت آ جائے۔ اس حدیث کو بغوی نے شرح السنہ میں اور ابو نعیم نے کتاب حلیہ میں ابو مسلم سے نقل کیا ہے۔

امور خیر کی نیت سے دنیا حاصل کرنے کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جو شخص کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ذلت سے بچنے، اپنے اہل و عیال کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے اور اپنے ہمسایہ کے ساتھ احسان کرنے کی خاطر جائز وسائل و ذرائع سے دنیا (کے مال و اسباب) کو حاصل کرے، وہ قیامت کے دن اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ (کمال نور اور نہایت مسرت و سرور کی وجہ سے) چودھویں رات کے چاند کی مانند (روشن و منور) ہو گا۔ اور جو شخص مال و دولت میں اضافہ کرنے (اپنی امارت و دولت مندی کے ذریعہ غربا و فقرا پر) فخر کرنے اور (محض اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے کے لئے صدقہ و خیرات اور داد و دہش کی صورت میں) نام و نمود کے لئے (حرام وسائل و ذرائع تو الگ رہے) جائز وسائل و ذرائع سے (بھی) دنیا (کے مال و اسباب) کو حاصل کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہو گا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں ابو نعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 سوچنے اور عبرت حاصل کرنے کی بات ہے کہ جب زیادہ مال و دولت جمع کرنے کی حرص، ایک دوسرے پر اظہار فخر اور نام و نمود کے لئے دنیا کمانے اور سامان دنیا حاصل کرنے میں حلال ذرائع اختیار کرنے والے کا یہ حشر ہو گا تو ان لوگوں کا کتنا برا انجام ہو گا جو مذکورہ بالا غیر شرعی مقاصد کے لئے حرام وسائل و ذرائع سے مال و دولت حاصل کرتے ہیں؟ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حدیث میں حرام مال کمانے والوں کا ذکر شاید اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں فرمایا کہ یہ کام کسی مسلمان کا تو ہرگز نہیں ہو سکتا کہ اول تو وہ مذکورہ مفاسد کی خاطر دنیا کمائے اور پھر وسائل و ذرائع بھی حرام و ناجائز اختیار کرے یا ایسے لوگوں کا ذکر اس لئے نہیں فرمایا کہ ان کا انجام بد حدیث کے انداز بیان اور طرز مضمون سے خود بخود واضح ہو جاتا ہے۔

خیر و شر کے خزانے اور ان کی کنجی

حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  یہ خیر (یعنی مال و دولت کے انبار) خزانے ہیں اور ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں (یعنی خدا اپنے جن نیک اور مخیر بندوں کو مال و دولت سے نوازتا ہے وہ گویا ان خدائی خزانوں کی کنجیاں ہوتے ہیں کہ ان کے مالی عطیات اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ فقیر و مفلس اور ضرورتمند بندگان خدا فائدہ اٹھاتے ہیں) پس (دنیوی کامیابی اور ترقی اور اخروی فلاح و سعادت کی) بشارت ہو اس بندہ کو کہ جس کو خدا نے خیر (یعنی نیکیوں و بھلائیوں اور مالی بخشش و عطا) کے دروازے کھلنے اور برائی (یعنی بخل و خست اور ضرورتمندوں سے بے پروائی کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے اور دین و دنیا کی ہلاکت و تباہی ہے اس بندہ کے لئے جس کو خدا نے برائی کے دروازے کھلنے اور خیر کے دروازے بند ہونے کا سبب و ذریعہ بنایا ہے یعنی جو مالدار اپنی دولت کو بڑھانے کے چکر میں رہتا ہے اور ضرورتمند بندگان خدا کی خبر گیری اور امور خیر میں خرچ کرنے کی اہمیت سے بے پرواہ رہ کر گویا بخل و خست میں مبتلا ہوتا ہے اس کے لئے تباہی ہی تباہی ہے۔ (ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 مذکورہ بالا ترجمہ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی  اشعۃ اللہمعات ماخوذ ہے، جہاں تک ملا علی قاری رحمۃ اللہ کا تعلق ہے تو انہوں نے حدیث کی وضاحت اس طور پر کی ہے کہ ہذا الخیر میں خیر جنس خیر (یعنی ہر طرح کی بھلائی) مراد ہے، خزائن سے مراد خیر کی انواع کثیر ہیں یعنی وہ بھلائیاں مختلف انواع رکھتی ہیں اور ان کو خدا کے بندوں کے درمیان اس طرح مخزون و مرکوز کیا گیا ہے جیسے خزانوں کو پوشیدہ رکھا جاتا ہے لتلک الخزائن مفاتیح (ان خزانوں کے لئے کنجیاں ہیں) میں کنجیوں سے مراد خدا کے ان نیک بندوں کے ہاتھ قوائے عمل ہیں جو اس روئے زمین پر امور کائنات میں تصرف و تسلط کے لئے خدا کے وکیل و نائب کی حیثیت رکھتے ہیں مفتاح ا للخیر خیر کی کنجی سے مراد، ان بندوں کا ان بھلائیوں اور نیکیوں کو اختیار کرنا اور پھیلانا ہے، خواہ وہ علم و عمل کو اختیار کرنے کی شکل میں ہو۔ اور مفتاح ا للشر شر کی کنجی سے مراد خیر و بھلائی کے راستہ کو مسدود کرنا اور بدی و برائی کے راستہ کو کھولنا ہے اور اس برائی کے راستہ کا کھلنا خواہ کفر و شرک و تکبر و سرکشی اور بد عملی و فتنہ انگیزی کو اختیار کرنے کے ذریعہ ہو یا بخل و خست اور اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ بدسلوکی اختیار کرنے کی صورت میں ہو۔

 امام راغب رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ  خیٰر اس چیز کو کہتے ہیں جس کی طرف ہر انسان رغبت رکھتا ہے جیسے علم و عقل اور احسان و مہربانی وغیرہ اور اسی طرح ہر وہ چیز جو نفع پہنچاتی ہے، اور جو چیز خیر کی ضد اور اس کے برعکس ہوتی ہے اس کو شر کہتے ہیں۔ نیز خیر و شر اگرچہ ایک دوسرے کی ضد اور مخالف ہیں مگر کبھی کبھی ان دونوں میں اتحاد ذاتی اور فرق اعتباری بھی ہوتا ہے یعنی ایک ہی چیز دو اعتبار سے خیر اور شر دونوں کی حامل بن سکتی ہے کہ ایک شخص کے حق تو وہ خیر و بھلائی کا ذریعہ ہو اور دوسرے شخص کے حق میں وہی چیز شر اور برائی کا سبب بن جائے جیسے مال ہی کی مثال لے لیجئے وہ ایک شخص مثلاً عمر کے حق میں تو خیر کا ذریعہ ہوتا ہے جب کہ عمر نے اس کو جائز طور پر حاصل کیا ہو اور جائز مصارف میں اس کو خرچ کیا اور وہی مال ایک دوسرے شخص مثلاً زید کے حق میں شر کا سبب بن سکتا ہے جب کہ زید اس مال پر ناجائز طور سے تصرف و قبضہ کرے۔

 اسی طرح  علم کی مثال بھی ہے کہ ایک ہی وقت میں بعض لوگوں کی نسب سے خدا اور بندہ کے درمیان حجاب بن جاتا ہے، اور ان لوگوں پر عزاب خداوندی کا سبب ہوتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں پھنس جائیں اور وہی علم دوسرے لوگوں کے حق میں خدا کی معرفت و قربت اور ایمان و یقین کا ذریعہ بنتا ہے جب کہ وہ لوگ اس علم سے ہدایت و راستی حاصل کریں اور اس کے صحیح تقاضوں پر عمل کریں! اسی پر اور عبادات کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے بعض عبادتیں، عجب و غرور کی باعث ہوتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا ریا و نمائش اور نام و نمود کا راستہ اختیار کرے اور بعض عبادتیں ایمانی و روحانی کیف و سرور اور نورانیت اور ذوق عبودیت کا باعث بنتی ہیں جب کہ ان کو اختیار کرنے والا اخلاص و للہیت کے جذبہ سے سرشار ہو! دنیاوی چیزوں مثلاً گھوڑے آلات حرب اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کے بارے میں بھی یہ بات ہے کہ کبھی تو یہ چیزیں دشمنان خدا کے ساتھ جہاد کرنے کا ذریعہ بنتی ہیں اور اس طرح سے بندہ کو جنت میں لے جانے کا وسیلہ ہوتی ہے اور کبھی یہی چیزیں فتنہ و فساد پھیلانے یہاں تک کہ خدا کے نہایت نیک و برگزیدہ بندوں (جیسے انبیا و اولیا) کے قتل و خونریزی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور ان کی وجہ سے انسان دوزخ کے اسفل ترین درجہ میں پہنچ جاتا ہے۔

ضرورت سے زیادہ عمارت بنانے کے بارے میں وعید

حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب کسی بندہ کے مال و دولت میں برکت عطا نہیں ہوتی (یعنی اس کو اپنا مال اور روپیہ پیسہ بھلائی کے امور اور عقبی کو سنوارنے والی چیزوں میں خرچ کرنے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی) تو وہ اس مال کو پانی اور مٹی میں ملا دیتا ہے یعنی اپنی دولت ضرورت سے زائد عمارتیں بنانے اور ان کی زینت و آرائش میں خرچ کرتا ہے

 

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (لوگو) تم عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو، کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا (دین یا) اس عمارت کی خرابی کی بنیاد اور جڑ ہے ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا۔

 

تشریح

 

 مذکورہ ارشاد گرامی سے یہ مفہوم اخذ کیا جاتا ہے کہ اگر عمارتوں میں حلال مال لگایا جائے تو اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی اور بعض حضرات نے  عمارتوں میں حرام مال لگانے سے پرہیز کرو کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ ان حرام چیزوں کو اختیار کرنے سے اجتناب کرو جو عمارتیں بنانے کے سلسلہ میں پیش آتی ہیں! گویا اس اعتبار سے  چیز وہی ضرورت سے زائد عمارت کا بنانا ہے۔

  فی البنیان میں لفظ فی کے وہی معنی ہیں جو مثلاً اس جملہ کے ہیں کہ، اس زنجیر میں دو سیر لوہا ہے، ظاہر ہے کہ اس جملہ سے یہ مراد نہیں لیا جاتا کہ وہ زنجیر خالص دو سیر لوہا ہے۔

  خرابی سے مراد دین کی خرابی اور آخرت کا نقصان ہے تاہم یہ احتمال بھی ہے کہ خود عمارت کی خرابی مراد ہو یعنی عمارت کا بنانا، گویا اس کی خرابی و تباہی کی بنیاد رکھنا ہے کہ بہر صورت جو عمارت بنے گی وہ انجام کار تباہ و برباد ہو گی جیسا کہ کہا جاتا ہے لدو للموت وابنوا للخراب یعنی پیدا کرو مرنے کے لئے اور عمارت بناؤ خراب ہونے کے لئے۔

 بعض شارحین نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث کا یہ مطلب بھی مراد لیا جا سکتا ہے کہ عمارتوں میں حرام امور اور گناہوں کے ارتکاب سے اجتناب کرو، یعنی عمارتیں اس لئے نہ بناؤ کہ ان میں فسق و فجور کے لئے اٹھنا بیٹھنا رکھو۔ اوباش لوگوں کے ساتھ مجلس بازی کرو اور ان کو ناجائز کاموں کا اڈہ بناؤ کیونکہ جس عمارت میں فسق و فجور کی گرم بازاری رہتی ہے اور اوباش لوگوں کی مجلسیں جمتی ہیں وہ آخرکار تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔

 ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے اس جملہ  کیونکہ عمارتوں میں حرام مال لگانا الخ کے دونوں احتمال بیان کیے ہیں ایک تو یہ کہ یہ حدیث اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ (ضرورت سے زائد) تعمیر میں حلال مال لگانا جائز ہے اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ حدیث مذکور جواز پر دلالت نہیں کرتی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ یہ دوسرا احتمال باب کے ساتھ زیادہ مناسبت رکھتا ہے۔

مال و دولت جمع کرنا بے عقلی ہے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  دنیا اس شخص کا گھر ہے جس کے لئے (آخرت میں) مال نہیں ہے، نیز مال و دولت وہی جمع کرتا ہے جس کو عقل نہیں ہوتی۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا چونکہ فانی ہے اس لئے اس میں ٹھہرنا اور شادمانی کی زندگی اختیار کرنا ممکن نہیں ہے، لہٰذا جس شخص نے دنیا کو اپنا گھر سمجھا اور اس کے آرام و آسائش کو اصل شادمانی حیات جانا وہ ایسا شخص ہے کہ گویا اس کے لئے کوئی اور گھر نہیں ہے! اسی طرح  اور مال اس شخص کا ہے کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو دنیا کا مال و اسباب حاصل ہو اور وہ اس کے مقصود اصلی یعنی بھلائیوں کے کام اور خدا کی رضا و خوشنودی کے امور میں خرچ نہ کرے، بلکہ دنیاوی لذات کے حصول اور نفسانی خواہشات کی تکمیل میں خرچ کرے۔ اس کا وہ مال گویا مالیت کے حکم سے خارج ہے کیونکہ اس نے اپنے مال کے اصل مقصد سے انحراف کر کے اور اس کو غیر مقصد مصارف میں خرچ کر کے ضائع کر دیا۔ لہٰذا وہ اس شخص کی طرح ہوا جس کے پاس مال نہ ہو۔

 مشکوٰۃ کے بعض حواشی میں یہ لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ دنیا کے گھر اور دنیا کے مال چونکہ بہت جلد فنا کے گھاٹ اتر جانے والی چیز ہے اور ان کی کوئی حیثیت و وقعت نہیں ہے اس لئے ان کو  گھر  اور  مال کہنا ہی نہیں چاہئے، یہ مراد بھی حقیقت کے اعتبار سے پہلی وضاحت ہی سے ماخوذ ہے۔

 حدیث کی ایک مراد یہ بھی بیان کی جا سکتی ہے کہ جس شخص نے دنیا کے گھر کو اپنا اصلی گھر قرار دیا اور اس پر مطمئن ہو گیا، یا جس نے اس گمان کے ساتھ دنیوی مال و دولت کو جمع کیا کہ میرے پاس جو کچھ ہے وہ سب باقی رہنے والا اور ہمیشہ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔ آیت(ان الذین لا یرجون لقائنا ورضوا بالحیوۃ الدنیا واطمانوا بھا)۔ اور ایک جگہ یوں فرمایا ہے۔ آیت(یحسب ان مالہ اخلدہ)۔ تو وہ شخص آخرت میں گھر پانے اور وہاں کے غنا (یعنی نعمتوں) سے نوازے جانے کا مستحق نہیں ہو گا۔

  مال و دولت وہی شخص جمع کرتا ہے الخ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محض اس لئے مال و دولت جمع کرتا ہے کہ اس کو دنیا عزیز ہوتی ہے یا وہ اس مال و دولت کو ہمیشہ باقی رکھنے کی نیت رکھتا ہے اور یا محض دنیاوی لذات اور دنیاوی فائدوں کا حصول اس کے پیش نظر ہوتا ہے تو اس شخص کو عقل و دانش کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 ملا علی قاری نے لکھا ہے کہ حدیث کا اجمالی مفہوم یہ ہے کہ  یہ دنیا اس قابل نہیں ہے کہ اس کو  گھر  سمجھا جائے ہاں جو شخص آخرت میں ملنے والے اپنے گھر سے محروم رہنا چاہتا ہے وہی اس دنیا کو اس قابل سمجھ سکتا ہے اسی طرح اس دنیا کی دولت کو وہی شخص  دولت سمجھ سکتا ہے جو آخرت کی دولت سے محروم رہنا چاہتا ہے، اور حاصل یہ کہ اس ارشاد گرامی کا مقصد گویا یہ احساس دلانا ہے کہ جن لوگوں کے لئے آخرت میں دار القرار (قرار گاہ) اور وہاں کی بے بہا دولت مقدر ہے ان کی نظر میں یہ دنیا اتنی حقیر اور اس قدر بے وقعت ہے کہ اس کے  گھر اور اس کے  مال و دولت کو  گھر  اور  دولت کہا ہی نہیں جا سکتا۔

شراب تمام برائیوں کی جڑ ہے

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک خطبہ کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا۔ یاد رکھو شراب پینا، گناہوں کو جمع کرنا ہے یعنی شراب چونکہ تمام برائیوں کی جڑ ہے اس لئے شراب پینے سے طرح طرح کے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور عورتیں شیطان کے جال ہیں اور دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  عورتوں کو موخر کرو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو موخر کیا ہے، یعنی قرآن مجید میں جہاں بھی عورتوں کا ذکر آیا ہے مر دوں کے بعد آیا ہے، اسی طرح گواہی، جماعت اور فضیلت مرتبہ میں ان کو مر دوں کے بعد رکھا گیا ہے، لہٰذا تم بھی ان چیزوں میں ان کو مقدم نہ کرو اور مر دوں پر فضیلت نہ دو رزین نے یہ پوری روایت نقل کی ہے اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ سے بطریق ارسال روایت کا صرف یہ حصہ نقل کیا ہے کہ حب الدنیا راس کل خطیئۃ۔

 

تشریح

 

 طبرانی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بطریق مرفوع نقل کیا ہے کہ الخمر الفواحش واکبر الکبائر من شربھا وقع علی امہ وخالتہ وعمتہ۔ (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا) شراب بے حیائیوں کی جڑ ہے اور بڑے گناہوں میں سے ایک بہت بڑا گناہ ہے، جس شخص نے شراب نوشی کی اس نے (گویا) اپنی ماں، اپنی خالہ اور اپنی پھوپھی کے ساتھ ہم بستری کی۔  کہتے ہیں کہ ایک شخص کو بت کے سامنے سجدہ ریز ہونے کے لئے کہا گیا تو اس نے انکار کر دیا، پھر اس سے ایک آدمی کو قتل کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے اس کام سے بھی انکار کر دیا، پھر اس کو ایک عورت کے ساتھ زنا کرنے کے لئے کہا گیا تو اس نے اس سے بھی انکار کر دیا اور پھر جب اس سے شراب پینے کے لئے کہا گیا تو اس نے شراب پی لی پس اس شخص نے گویا شراب ہی نہیں پی، بلکہ اس نے ساری برائیوں کا ارتکاب کیا جن کی طرف اس کو بلایا گیا تھا، اور اس نے انکار کر دیا تھا۔

  دنیا کی محبت ہر گناہ کا سر ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا کی محبت ہی ہے جو انسان کو طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا کرتی ہے اور وہ اس محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر ممنوعات اور گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس جملہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ ترک دنیا، ہر عبادت کا سر ہے، یعنی جو شخص دنیاوی لذات اور نفسانی خواہشات سے بے تعلق ہو جاتا ہے، وہ بس عبادت و اطاعت میں مشغول رہتا ہے اور ہر وقت خدا کی رضا و خوشنودی کو سامنے رکھتا ہے، چنانچہ بعض حضرات نے کہا ہے کہ جس شخص نے دنیا کی محبت کو اختیار کر لیا اس کو تمام مرشدین و مصلحین بھی راہ راست پر نہیں لا سکتے اور جس شخص نے ترک دنیا کو پسند کر لیا اس کو تمام دنیا کے مفسد و گمراہ لوگ بھی راہ راست سے بھٹکا نہیں سکتے۔

 طیبی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ حدیث کے تینوں جملے نہایت جامع ہیں، یعنی ان کے دائرے میں اکثر گناہ آ جاتے ہیں کیونکہ ان تینوں چیزوں (یعنی شراب، عورت اور دنیا کی محبت) میں سے ہر ایک علیحدہ علیحدہ بہت سارے گناہوں کی جڑ ہے۔

دو خوفناک چیزوں کا ذکر

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  اپنی امت کے بارے میں جن دو چیزوں سے بہت زیادہ ڈرتا ہوں، ان میں سے ایک تو خواہش نفس ہے، دوسرے (تاخیر عمل اور نیکیوں سے غفلت کے ذریعہ) درازی عمر کی آرزو ہے، پس نفس کی خواہش (جو حق کے مخالف اور باطل کے موافق ہوتی ہے) حق کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے سے روکتی ہے اور جہا تک درازی عمر کی آرزو کا تعلق ہے تو وہ آخرت کو بھلا دیتی ہے اور (یاد رکھو) یہ دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے اور آخرت کوچ کر کے آنے والی ہے (یعنی یہ دنیا لمحہ بہ لمحہ گزرتی چلی جا رہی ہے اور آخرت لمحہ بہ لمحہ تمہاری طرف چلی آ رہی ہے) نیز ان دونوں (یعنی دنیا اور آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں (یعنی کچھ لوگ تو وہ ہیں جو دنیا کے تابع و محکوم اور اس کی دوستی و چاہت رکھنے والے ہیں گویا وہ دنیا کے بیٹے ہیں اور کچھ لوگ وہی جو آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے دوست و طلب گار ہیں گویا وہ آخرت کے بیٹے ہیں) لہٰذا اگر تم سے یہ ہو سکے کہ تم دنیا کے بیٹے نہ بنو تو ایسا ضرور کرو کہ (یعنی ایسے کام کرو اور ایسے راستے پر چلو کہ دنیا کا داؤ تم پر نہ چل سکے اور تم اس کی اتباع و فرمانبرداری اور اس کی محبت و چاہت کے دائرے سے نکل کر آخرت کے تابع و محکوم اور اس کے طلبگار بن جاؤ) کیونکہ تم آج دنیا میں ہو جو دار العمل (عمل کرنے کی جگہ) ہے جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا (پس اس موقع کو غنیمت جانو اور اجل آنے سے پہلے عمل کر لو) جب کہ تم کل آخرت کے گھر میں جاؤ گے تو وہاں عمل کر نے کا کوئی موقع نہیں ملے گا (بلکہ وہاں صرف محاسبہ ہو گا)۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

  دنیا کوچ کر کے چلی جانے والی ہے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دنیا اپنے تمام سر و سامان کے ساتھ اس طرح فنا کی طرف جا رہی ہے کہ اس میں رہنے والوں کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا جس طرح کشتی کے اندر بیٹھا ہوا شخص کشتی کو چلتے ہوئے محسوس نہیں کرتا۔ حدیث کا یہ جملہ اور مابعد کا جملہ دراصل دنیا کے نہایت جلد گزرنے اور فنا ہو جانے کے مفہوم کو واضح کرتا ہے کیونکہ اگر آخرت اپنی جگہ قائم ہوتی اور صرف دنیا اپنا سفر جاری رکھتے ہوئے اس کی طرف چلتی تو بھی یہ پوری گزر ہی جاتی اور اپنی عمر تمام کر لیتی اگرچہ اس کے سفر کو کچھ وقفہ اور مل جاتا مگر جب صورت حال یہ ہے کہ ادھر سے تو آخرت چلی آ رہی ہے اور ادھر سے دنیا اس کی طرف کو چلی جا رہی ہے تو گویا وہ نقطہ کہ جہاں دنیا کا اختتام اور آخرت کی ابتدا ہونے والی ہے درمیان راہ میں ہی واقع ہو جائے گا اور مسافت بہت جلد ختم ہو جائے گی۔

  جہاں عمل کا حساب نہیں لیا جاتا  یہ بات ظاہر کے اعتبار سے اور فاسق و فاجر کی نسبت سے فرمائی گئی ہے ورنہ تو ایک روایت میں فرمایا گیا ہے کہ حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا۔ اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تم سے حساب لیا جائے۔

دنیا عمل کی جگہ ہے

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا  یہ دنیا ادھر سے کوچ کر کے منہ پھیرے ہوئے چلی جا رہی ہے، اور آخرت ادھر سے کوچ کر کے ہماری طرف منہ کیے آ رہی ہے (یعنی دنیا کا ہماری طرف سے منہ پھیر کر اپنی فنا کی طرف بڑھنا اور آخرت کا اپنی بقا کے ساتھ ہماری طرف متوجہ ہونا ظاہر ہو رہا ہے) اور ان دونوں (دنیا و آخرت) میں سے ہر ایک کے بیٹے ہیں، پس تم (نیک عمل اختیار کر کے اور آخرت کی طرف متوجہ ہو کر) آخرت کے بیٹے بنوا اور آخرت سے بے پروا اور دنیا کی طرف راغب و متوجہ ہو کر دنیا کے بیٹوں میں سے نہ ہو، یاد رکھو! آج کا دن عمل کرنے کا ہے، حساب کا دن نہیں ہے (یعنی یہ دنیا دارالعمل ہے دارالحساب نہیں، یہاں بس زیادہ سے زیادہ نیک عمل کیے جاؤ) اور کل (قیامت) کا دن، حساب کا دن ہو گا، عمل کرنے کا نہیں اس روایت کو امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  ترجمۃ الباب سے مراد جامع بخاری کے ایک باب کا عنوان ہے، یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ نے اس روایت کو اپنی کتاب کے ایک باب کے عنوان میں بغیر اسناد کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بطریق موقوف نقل کیا ہے، لیکن اس سے پہلے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس روایت کی اصل مرفوع ہے، یعنی یہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کا ارشاد ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو مضمون نقل کیا ہے وہ وہی ہے جو حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت میں منقول ہے۔

دنیا غیر پائیدار متاع ہے

حضرت عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ میں ارشاد فرمایا اور اس خطبہ میں فرمایا۔ لوگو! خبر دار رہو! دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے، اس میں سے نیک بھی کھاتا ہے اور بد بھی (یعنی اللہ تعالیٰ اس دنیا میں ہر شخص کو رزق دیتا ہے خواہ وہ مومن ہو یا کافر اور خواہ مطیع ہو یا فاسق جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ آیت(وما من دابۃ فی الارض الاّ علی اللہ رزقھا) خبردار رہو! آخرت واقعی مدت ہے جو سچی یعنی متحقق و ثابت ہے اور اس آخرت میں، ہر قسم کی قدرت رکھنے والا بادشاہ (یعنی اللہ تعالیٰ) فیصلہ صادر فرمائے گا یعنی وہ ثواب و عذاب کے ذریعہ نیک ذریعہ نیک و بد اور مومن و کفر کے درمیان فرق ظاہر کر دے گا خبردار رہو! تمام بھلائیاں اور خوبیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ جنت میں ہیں، خبردار رہو! تمام برائیاں اور خرابیاں اپنے انواع و اقسام کے ساتھ دوزخ میں ہیں، خبردار رہو! پس تم نیک عمل کرو درآنحالیکہ تم پر خدا کے حساب و عذاب کا خوف طاری ہو (یا یہ کہ نیک عمل کرو اور سارے میں خدا سے ڈرتے رہو، کہ تمہارے وہ نیک عمل قبول ہوتے ہیں یا نہیں اور اس بات کو یاد رکھو کہ اپنے اعمال کے ساتھ خدا کے سامنے پیش ہونا ہے پس جو شخص ذرہ برابر بھی نیک کام کرتا ہے وہ آخرت میں یا دنیا میں اس کی جزا پائے گا اور جو شخص ذرہ برابر بھی برا کام کرتا ہے وہ اس کی سزا پائے گا ۔ (شافعی)

 

تشریح

 

 انکم معرضون علی اعمالکم کا ترجمہ اگر یہ کیا جائے کہ تم اپنے اعمال کے سامنے کیے جاؤ گے۔ تو اس عبارت کے الٹے معنی مراد ہوں گے کہ قیامت کے دن تمہارے اعمال تمہارے سامنے حاضر کئے جائیں گے۔ ایک ترجمہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم بارگاہ رب العزت میں اپنے اعمال کے مطابق پیش کیے جاؤ گے۔ لیکن زیادہ صحیح اور زیادہ واضح معنی کہ جو اوپر ترجمہ میں نقل کیے گئے ہیں یہی ہیں کہ تم اپنے اعمال کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور اپنے ان اعمال کے مطابق جزا یا سزا پاؤ گے جیسا کہ جب کوئی لشکر میدان جنگ سے واپس آتا ہے تو وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کی کاروائی کے ساتھ اپنے امیر کے سامنے پیش ہوتا ہے اور وہ امیر اس لشکر کے ہر فرد کے امور مفوضہ کی انجام دہی کو دیکھتا ہے اور اس کے مطابق ہر سپاہی کو انعام و سزا دیتا ہے۔

 

 

حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ لوگو ! بلاشبہ یہ دنیا ایک ناپائیدار متاع ہے جس میں نیک و بد (یعنی مومن و کافر) دونوں کھاتے ہیں اور بلاشبہ آخرت ایک سچا اور یقینی طور پر پورا ہونے والا وعدہ ہے اس (آخرت) میں ہر طرح کی قدرت رکھنے والا اور عدل و انصاف کرنے والا بادشاہ (اپنے حلم و فیصلہ کے ذریعہ) حق کو ثابت رکھے گا اور باطل کو مٹا دے گا (یعنی ثواب و عذاب کے ذریعہ اہل حق اور اہل باطل کو ایک دوسرے سے متمیز اور جدا کر دے گا) تم آخرت کے بیٹے بنو اور دنیا کے بیٹوں میں اپنا شمار نہ کراؤ، کیونکہ ہر ماں کا بیٹا اسی (ماں) کے تابع ہوتا ہے

 

تشریح

 

 حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم دنیا کے بیٹے بنو گے یعنی دنیا کی طلب گاری و محبت میں منہمک و مستغرق رہو گے تو دوزخ میں جاؤ گے کیونکہ باطل دنیا کا ٹھکانا دوزخ ہے اور اگر تم آخرت کے بیٹے بنو گے یعنی طلب آخرت اور اخروی امور کی انجام دہی میں منہمک و مستغرق رہو گے تو جنت میں جاؤ گے کیونکہ آخرت حقہ کی جگہ جنت ہے۔ یہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ کے منقولات کا مفہوم ہے، اور حضرت شیخ عبدالحق نے حدیث کے اختتام پر یہ لکھا ہے کہ پس جو شخص آخرت کا بیٹا ہو گا وہ آخرت کی اتباع کرے گا اور اس کے مطابق عمل کرے گا اور جو شخص دنیا کا بیٹا ہو گا وہ دنیا کی پیروی کرے گا اور اسی کے لئے کام کرے گا۔

تھوڑا مال بہتر ہوتا ہے

حضرت ابو دردا رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا  جب بھی آفتاب طلوع ہوتا ہے اس کے دونوں طرف دو فرشتے ہوتے ہیں جو منادی کرتے ہیں اور جن و انس کے علاوہ اور ساری مخلوق کو سناتے ہیں (یعنی ان کی منادی کو جنات اور انس نہیں سنتے، باقی ساری مخلوق سنتی ہے اور وہ منادی یہ ہوتی ہے) کہ لوگو! اپنے پروردگار کی طرف آؤ(یعنی اپنے پروردگار کے احکام کی اتباع کرو یا یہ معنی ہیں کہ ہر طرف سے بے تعلقی اختیار کر کے اپنے رب کی طرف رجوع کرو،جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت(وتبتل الیہ تبتیلا)، اور اس بات کو جان لو کہ جو مال قلیل ہو اور (دینی معاملات کے تکمیل یا زاد عقبی کے طور پر) کفایت کرے وہ اس مال سے کہیں زیادہ بہتر ہے جو زیادہ ہو اور عبادت خداوندی سے باز اور اطمینان سکون کی زندگی سے محروم رکھے۔ ان دونوں روایتوں کو ابو نعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 فرشتوں کی مذکورہ بالا منادی کا جنات و انسان کو نہ سنایا جانا شاید اس امر کی بنا پر ہے کہ وہ فریضہ کو غیب کی باتوں پر ایمان لانے اور عمل کرنے کے لئے جن و انس پر عائد کیا گیا ہے اس طرح سے بے اثر نہ ہو جائے، ہاں اس موقع پر یہ اشکال ضرور پیدا ہو سکتا ہے کہ یہ منادی اور اس کا مضمون اصل میں تو انسان ہی کو متنبہ کرنے کے لئے ہے اور جب انسان اس کو سن ہی نہیں سکتا تو وہ متنبہ کیسے ہو گا؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اس آگاہی کا انحصار محض اپنے کان سے سننے ہی پر نہیں ہے بلکہ اس پر ہے کہ وہ آگاہی سے باخبر اور مطلع ہو جائے سو یہ بات مخبر صادق رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خبر دے دینے اور اس آگاہی کے مضمون کو بیان کر دینے سے حاصل ہو جاتی ہے، لہٰذا مذکورہ بالا مضمون جب اس حدیث کے ذریعہ انسان تک پہنچ گیا تو وہ اس سے حقیقتاً باخبر اور مطلع ہو گیا! رہی یہ بات کہ اس تنبیہ میں صرف انسان ہی کو مخاطب کیوں بنایا گیا، جنات کو بھی خطاب کیوں نہیں کیا گیا؟ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں میں جو نوع، زیادہ مال و دولت کی نہایت حریص اور عقبی سے نہایت غافل ہے وہ نوع انسان ہی ہے، یہ صرف انسان ہے جو دنیا کے پیچھے اپنے خالق تک کو بھول جاتا ہے اور دنیا کا مال و متاع اس کو ذکر رب اور عبادت الٰہی کی طرف متوجہ ہونے سے باز رکھتا ہے لہٰذا انسان کو خاص طور پر مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ عقبی کے انجام کی طرف تمہاری یہ غفلت و لاپرواہی اور ذکر اللہ سے تمہارے اس اعراض کا سلسلہ کہاں تک جاری رہے گا؟ اپنی اخروی تباہی کے اس راستہ کو چھوڑ دو، اور آؤ، عبادت رب اور ذکر الٰہی کے ذریعہ اس راہ راست کو اپنا لو جو تمہیں آخرت کے حسن انجام تک لے جائے گی۔

دنیاوی مال متاع کے تئیں انسان کی حرص

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت منقول ہے جس کو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچاتے (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں جس کو حدیث مرفوع کہتے ہیں) کہ انہوں نے کہا (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رشاد گرامی ہے کہ) جب کوئی شخص مرتا ہے تو فرشتے تو یہ کہتے ہیں کہ اس شخص نے آخرت کے لئے (اعمال خیر کی صورت میں) کیا بھیجا ہے اور لوگ یعنی مرنے والے کے ورثا اور دیگر متعلقین وغیرہ) یہ پوچھتے ہیں کہ اس نے اپنے ترکہ میں کیا چھوڑا ہے؟ (گویا فرشتوں کی نظر تو اعمال پر ہوتی ہے اور لوگوں کی نظر دنیاوی مال و متاع پر لگی رہتی ہے) اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

آخرت قریب ہے

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ مشہور حکیم لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا، میرے بیٹے! جس بات (یعنی مر دوں کا دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جانا، حساب اور ثواب و عذاب وغیرہ) کا لوگوں سے وعدہ کیا کیا تھا، اس کی مدت (از آدم تا ایں دم) ان پر دراز ہو گئی حالانکہ لوگ آخرت کی طرف تیزی سے چلے جا رہے ہیں۔ اور میرے بیٹے! جس وقت تم پیدا ہوئے تھے اسی وقت سے تمہاری پیٹھ دنیا کی طرف اور تمہارا رخ آخرت کی طرف ہے (یعنی تم اپنی پیدائش کے دن سے گویا دنیا کو پیچھے چھوڑتے چلے آ رہے ہو اور آخرت کی طرف بڑھتے جا رہے ہو) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ جس گھر اور مقام کی طرف تم جا رہے ہو وہ تم سے اس گھر اور مقام کی بہ نسبت زیادہ قریب ہے جس کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو (رزین)

 

تشریح

 

  اس کی مدت ان پر دراز ہو گئی کا مطلب یہ ہے کہ قیامت آنے، امور آخرت اور اس جہان کی زندگی کے بارے میں جو خبر دی گئی ہے اور اس کا جو وعدہ کیا گیا ہے اس پر چونکہ ایک طویل مدت گزر گئی ہے اس لئے لوگ یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وعدے کے پورے ہونے میں دیر ہو گئی ہے حالانکہ دیر کچھ نہیں ہوئی ہے بلکہ دنیا کا سفر جاری ہے اور لوگ ہر ساعت بلکہ ہر لمحہ اس یوم موعود اور آخرت کی طرف بڑھ رہے ہیں جس کی خبر ان کو دی گئی ہے جیسا کہ کشتیوں کا کارواں اپنی منزل کی طرف بڑھتا رہتا ہے اور بھری ہوئی کشتیوں میں بیٹھے ہوئے اہل کارواں راستہ گزرنے کا احساس نہیں کرتے! اسی بات کو اس جملہ،  اور جس وقت تم پیدا ہوئے تھے الخ کے ذریعہ بیان کیا گیا۔ اس جملہ میں اگرچہ خاص طور پر بیٹے سے خطاب کیا گیا ہے لیکن حقیقت میں اس سے مراد عام خطاب ہے کہ اس بات کا روئے سخن ہر انسان کی طرف ہے۔

 روایت کے آخری جملہ سے اس بات کو ثابت کیا گیا ہے کہ جب کوئی شخص کسی جگہ کو چھوڑ کر نکلتا ہے تو اس کا ہر قدم اس جگہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور جس جگہ کی طرف اس کا رخ ہوتا ہے اس سے قریب تر ہوتا رہتا ہے، لہٰذا جو بھی انسان اس دنیا میں اتا ہے وہ اپنی پیدائش کے دن سے آخرت کی طرف اپنا سفر شروع کر دیتا ہے اور دنیا کو پیچھے چھوڑتا چلا جاتا ہے۔ اس طرح گویا وہ ہر دن اور ہر لمحہ ایک ایسی مسافت کے درمیان ہے جس کو قطع کرتا رہتا ہے اور اس کے قریب ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک دن ایسا آئے گا جب وہ مسافت پوری ہو جائے گی اور وہ جس جانب رواں دواں ہے وہ وہاں پہنچ جائے گا! واضح رہے کہ حکیم لقمان کی اس نصیحت کا مقصد اس غفلت کا پردہ چاک کرنا ہے جس نے امور آخرت کی طرف سے بے پرواہ بنا رکھا ہے۔

بہتر انسان کون ہے؟

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کہ کون آدمی بہتر ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  ہر وہ شخص جو مخموم دل اور زبان کا سچا ہو یہ سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ زبان کے سچے کو تم ہم جانتے ہیں (کہ زبان کا سچا اس شخص کو کہتے ہیں جو کبھی جھوٹ نہ بولے) لیکن  مخموم دل سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مخموم دل وہ شخص ہے جس کا دل پاک و صاف ہو، پرہیزگار ہو، اس میں کوئی گناہ نہ ہو، اس نے کوئی ظلم نہ کیا ہو، حد سے تجاوز نہ کیا ہو، اور اس میں کدورت و کینہ اور حسد کا مادہ نہ ہو (ابن ماجہ، بیہقی)

 

 

تشریح

 

لفظ مخموم اصل میں خمسے مشتق ہے، جس کے معنی ہیں جھاڑو دینا کوڑے کرکٹ اور گندگی سے زمین و کنویں کو صاف کرنا۔پس مخموم دل سے مراد وہ شخص ہے جس کا دل غیر اللہ کے غبار سے صاف ستھرا ہو اور برے اخلاق و احوال اور فاسد افکار و خیالات سے پاک ہو جو کو سلیم القلب کہا جاتا ہے اور جس کی تعریف اللہ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے آیت(الا من اتی اللہ بقلب سلیم)اسی مراد کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے لفظ نقی اور تقی کے ذریع واضح فرمایا چنانچہ نقی کے معنی ہیں وہ شخص جس کا دل اور باطن غیر اللہ کی محبت سے پاک و صاف ہو اور نقی کے معنی ہیں فاسد و بیہودہ افکار و خیالات لغو عقائد اور برے اعمال و خیال سے بچنے والا۔

صحابہ رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو مخموم القلب کے معنی دریافت کیے تو اس کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت دریافت کرنے والے صحابہ  رضی اللہ عنہم کے ذہن میں لفظ مخموم کے لغوی معنی محفوظ نہیں ہوں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کبھی کبھی ایسے نادر الفاظ ارشاد فرماتے تھے کہ صحابہ  رضی اللہ عنہم عربی زبان پر پوری دستگاہ رکھنے اور فصاحت بلاغت کے رموز سے آشنا ہونے کے باوجود ان کا فہم ان الفاظ کے معنی تک نہیں پہنچاتا تھا چنانچہ وہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسے الفاظ کے بارے میں دریافت کر لیا کرتے تھے۔یا یہ کہ صحابہ  رضی اللہ عنہم لفظ مخموم کے معنی تو جانتے تھے لیکن قلب کی طرف اس لفظ کی اضافت اور اس کی مراد و معنی کا تعین ان کے فہم سے باہر تھا چنانچہ انہوں نے دریافت کیا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی وضاحت فرما دی۔یہ احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے۔

وہ چار باتیں جو دنیا کے نفع نقصان سے بے پرواہ بنا دیتی ہیں

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ لوگو! چار چیزیں ایسی ہیں کہ اگر وہ تم میں پائی جائیں تو دنیا کے فوت ہونے نہ ہونے کا تمہیں کوئی غم نہیں ہونا چاہئے، ایک تو امانت کی حفاظت کرنا (یعنی حقوق کی حفاظت و ادائیگی کرنا اور ان کے حقوق کا تعلق خواہ پروردگار سے ہو یا بندوں سے اور یا اپنے نفس سے) دوسرے سچی بات کہنا، تیسرے اخلاق کا اچھا ہونا اور چوتھے کھانے میں احتیاط و پرہیزگاری اختیار کرنا (یعنی حرام و ناجائز کھانے سے پرہیز کرنا اور زیادہ کھانے سے اجتناب کر کے بقدر حاجت و ضرورت پر اکتفا کرنا۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی زندگی ان چار چیزوں سے معمور ہو گئی تو گویا اس نے اخروی نعمتوں کی جڑ پکڑ لی، اس کے نفس نے روحانی عروج و کمال کا درجہ پا لیا، اس کا قلب و باطن منور ہو گیا اور ثواب آخرت اور بہشت کی لازوال نعمتوں کا ذریعہ اس کو حاصل ہو گیا، لہٰذا اس صورت میں اگر وہ دنیا بھر کی نعمتوں اور تمام مادی خواہشات و لذات سے محروم ہو جائے تو اس کو کوئی افسوس و غم نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک طرح سے اس کو اس محرومی پر مطمئن ہونا چاہئے کہ اگر دنیاوی نعمتیں اور لذتیں حاصل ہوتیں تو ان کی وجہ سے دینی معمولات اور عبادات و طاعات میں جمعیت خاطری اور حضور قلب، خلل و وحشت کا شکار ہوتے اور روحانی لطافت و نورانیت کا جمال مادی کثافت و ظلمت سے غبار آلود ہو جاتا۔

راست گفتاری و نیک کرداری کی اہمیت

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ مجھ تک یہ روایت پہنچی ہے کہ جب لقمان حکیم سے یہ پوچھا گیا ہے کہ جس مرتبہ (یعنی فضیلت کے جس مقام) پر ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں اس تک آپ کو کسی چیز نے پہنچایا ہے؟ لقمان حکیم نے فرمایا۔  سچ بولنے نے (کہ میں نے سچائی کا دامن، کبھی نہیں چھوڑا، خواہ میں نے خود کوئی بات کہی ہو یا کسی کی کوئی بات نقل کی ہو ہمیشہ سچ بولنے پر عامل رہا) ادائیگی امانت نے (یعنی خواہ کوئی مالی معاملہ رہا ہو یا فعلی، میں نے ہمیشہ دیانت داری کو ملحوظ رکھا ہے) اور جو چیزیں میرے لئے بے فائدہ اور غیر ضروری ہیں ان کو ترک کر دینے سے۔ (موطا)

 

تشریح

 

 اس روایت سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اصل حکمت و دانائی، راست گفتاری و نیک کرداری ہے۔ چنانچہ انسانی زندگی کے یہی وہ دو اعلیٰ جوہر ہیں جن کو اختیار کر کے لقمان حکیم اپنے عظیم مرتبہ تک پہنچ گئے۔

 

لقمان حکیم کون تھے ؟

لقمان حکیم، جن کی حکمت و دانائی آج بھی ضرب المثل ہے اور جن کا نام عقل و دانش کے اس پیکر کے طور پر لیا جاتا ہے جس سے دنیا کے بڑے بڑے حکما بڑے بڑے مفتیین اور بڑے بڑے فلاسفر فیضان حاصل کرتے ہیں، دراصل مشہور پیغمبر حضرت ایوب علیہ السلام کے بھانجے تھے اور بعض حضرات نے ان کو حضرت ایوب علیہ السلام کا خالہ زاد بھائی کہا ہے، علما اسلام کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ خود پیغمبر تھے یا نہیں ؟ تاہم یہ بات متفقہ طور پر مسلم ہے کہ وہ ایک عظیم حکیم و فلاسفر تھے اور ولایت کے درجہ پر فائز تھے، نیز منقول ہے کہ انہوں نے تقریباً ایک ہزار پیغمبروں کی خدمت میں حاضر باشی اختیار کی تھی اور ان سب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا تھا، غالباً ان کی اس بے مثال حکمت و دانائی کا ایک بڑا راز یہ بھی ہے کہ ان کو اتنے زیادہ پیغمبروں سے فیضان حاصل کرنے کا موقع نصیب ہوا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت منقول ہے کہ لقمان، نہ تو پیغمبر تھے اور نہ کوئی بادشاہ بلکہ وہ ایک سیاہ فام غلام تھے اور بکریاں چرایا کرتے تھے، حق تعالیٰ نے ان کو مقبول بارگاہ رب العزت بنایا، انہیں حکمت و دانائی، جوان مردی اور عقل دانش سے نوازا، اور اپنی کتاب قرآن کریم میں ان کا ذکر فرمایا۔

قیامت کے دن بندوں کے حق میں نیک اعمال کی شفاعت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  (قیامت کے دن) اعمال (خداوند برتر و بزرگ کے حضور) آئیں گے۔ پس (سب سے پہلے) نماز پیش ہو گی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں نماز ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بے شک تو بھلائی ہے۔ پھر صدقہ یعنی زکوٰۃ پیش ہو گی اور عرض کرے گی کہ اے پروردگار! میں صدقہ ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا بے شک تو بھلائی ہے۔ اور پھر روزہ پیش ہو گا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار میں روزہ ہوں اسی طرح یکے بعد دیگرے دوسرے اعمال جیسے حج جہاد اور طلب علم وغیرہ پیش ہوں گے اور ہر ایک عمل مذکورہ بالا الفاظ میں اپنا تعارف پیش کرے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو خیر پر ہے (گویا ہر نیک عمل اپنے تعارف کے ذریعہ بندوں کے حق میں جو شفاعت کرے گا اس کی قبولیت کو حق تعالیٰ موقوف رکھے گا اور ہر ایک کی درخواست کو نہایت ملائمت و نرمی اور مہربانی کے ساتھ ملتوی رکھے گا) پھر (سب سے آخر میں) اسلام پیش ہو گا اور عرض کرے گا کہ اے پروردگار تیرا نام سلام ہے کہ تیری ذات تمام عیوب و آفات اور ہر طرح نقص سے سالم و پاک ہے، اور تو تمام بندوں کو ہر طرح کے خوف اور تمام سختیوں اور مصیبتوں سے سلامتی بخشنے والا ہے اور میں اسلام ہوں (کہ تیرے حضور عجز و نیاز کرنے والا اور تیرے احکام کا مطیع و فرمانبردار ہوں، نیز میرے بارے میں تو نے خود فرمایا ہے کہ آیت(ان الدین عنداللہ الاسلام) پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ بے شک تو بھلائی پر ہے، آج کے دن میں تیرے ہی سبب مواخذہ کروں گا اور تیرے ہی وسیلہ سے عطا کروں گا (یعنی آج جزا و سزا کے دن میں تجھے ہی اصل اور طاعت معصیت کے فیصلوں کا مدار قرار دیتا ہوں کہ جس نے تجھے اختیار نہیں کیا اور تیرے راستے پر نہیں چلا اس سے مواخذہ کروں گا اور اس کو عذاب میں مبتلا کروں گا اور جس نے تجھے اختیار کیا اور تیرے راستہ پر گامزن رہا اس کو جزا و ثواب دوں گا، لہٰذا تو جو کچھ چاہتا ہے ہمارے سامنے عرض کر، ہم تیری ہر سفارش و شفاعت قبول کریں گے) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے آیت(ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وہو فی الاخرۃ من الخسرین)۔ یعنی جو شخص اسلام کے سوا کسی دین کو اختیار کرے گا اس سے وہ دین ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں ٹوٹے میں رہنے والوں میں سے ہے۔

 

تشریح

 

 تجیء الاعمال کا مطب یہ کہ قیامت کے دن نیک اعمال بحضور رب ذوالجلال پیش ہوں گے اور دنیا میں جن لوگوں نے ان اعمال کو اختیار کیا ہو گا ان کے حق میں گواہی دیں گے اور ان کی شفاعت کریں گے، نیز جن لوگوں نے ان اعمال کو ترک کیا ہو گا ان کے خلاف احتجاج و شکایت کریں گے۔ رہی یہ بات کہ ان اعمال کے پیش ہونے کی کیا صورت ہو گی تو وہ ایک قوی احتمال یہ ہے کہ وہ اعمال اچھی صورتوں میں مشکل ہو کر پیش ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو نہایت پاکیزہ اور خوشنما صورتیں عطا فرمائے گا جیسا کہ بعض احادیث و آثار سے مفہوم ہوتا ہے اور یا یہ کہ حق تعالیٰ کی یہ قدرت پوری طرح ثابت ہے کہ وہ اعراض کو بالذات پیش کر دے اور ان کو قوت گویائی عطا فرمائے۔

 حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ نے حدیث کی وضاحت میں یہ لکھا ہے کہ نماز کا یہ تعارف پیش کرنا کہ  میں نماز ہوں دراصل اس مفہوم کا حامل ہے کہ اے پروردگار! مجھ کو تیری بارگاہ میں جو عظمت و مرتبہ حاصل ہے کہ تو نے مجھے اپنے دین کا ستون فرمایا ہے اور اپنے نزدیک مقام عزت و قرب سے نوازا ہے اس پر اعتماد کرتے ہوئے اور بامید قبولیت تیری درگاہ لطف و کرم بندوں کے حق میں شفاعت کرنے حاضر ہوئی ہوں اور چونکہ تو نے یہ فرمایا ہے آیت(ان الصلوۃ تنہی عن الفحشا والمنکر) اس لئے جس طرح میں دنیا میں لوگوں کو فسق و فجور سے دور رکھنے والی تھی اسی طرح آج کے دن امید وار ہوں کہ لوگوں کو تیرے عذاب سے دور رکھوں اور تیرے غضب سے بچاؤں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نماز سے فرمائے گا کہ بے شک تو بھلائی اور صلاح و فلاح کی حامل ہے۔گویا اللہ تعالیٰ نماز کی شفاعت کو قبول نہیں فرمائے گا بلکہ اس کی درخواست شفاعت کو موقوف ملتوی رکھے گا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ اس توقف و التوا کو نہایت بلیغ و پاکیزہ انداز اور حسن کلام کے ذریعہ ظاہر کرے گا اور اس ارشاد کا مفہوم درحقیقت یہ ہو گا کہ اے نماز! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے تجھ کو بہت بڑے مرتبہ کا حامل قرار دیا ہے اور تجھ میں جو فضل و شرف رکھا ہے وہ ایک حقیقت ہے اور بجائے خود ہے، لیکن جہاں تک شفاعت کا تعلق ہے تو یہ ایک دوسرا مرتبہ ہے جو تجھے حاصل نہیں ہے بلکہ یہ صفت و مرتبہ اس کو دیا گیا ہے جو تیری اور تیری ہم مثل عبادتوں کی بنیاد و مبنی ہے اور تمام اچھی صفات کا مجموعہ یعنی دین اسلام۔

 اس موقع پر ایک لطیف نکتہ سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ مقام شفاعت پر کھڑا ہونا (یعنی قیامت کے دن بارگاہ رب العزت میں بندوں کے حق میں شفاعت کرنا) صرف اس ذات کو سزا وار ہے جو جامع کمالات ہے جیسا کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات پاک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے تمام اسما صفات الٰہی کے مظہر ہیں، چنانچہ شفاعت کا حق صرف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ذات کو حاصل ہو گا، آپ کے علاوہ کوئی اور پیغمبر شفاعت کا دروازہ کھلوانے پر قادر نہیں ہو گا اسی طرح اعمال میں بھی صرف وہی عمل شفاعت کرنے کا مجاز ہو گا جو تمام صفات و کمالا کا جامع ہے یعنی اسلام، جیسا کہ حدیث کے آخری جز سے واضح ہوتا ہے۔

 صدقہ کا یہ تعارف پیش کرنا کہ  میں صدقہ ہوں اس مفہوم کا حامل ہو گا کہ پروردگار! میں اپنی عزت و فضیلت کا سہارا لے کر تیری بارگاہ میں شفاعت کرنے حاضر ہوا ہوں جس سے تو نے اپنے لطف و کرم کے طفیل مجھے نوازا ہے اور میرے حق میں فرمایا ہے کہ الصدقۃ تطفی غضب الرب اسی طرح روزہ کے اس تعارف کا کہ  میں روزہ ہوں یہ مفہوم ہو گا کہ پروردگار! میں وہ عبادت یعنی روزہ ہوں جو اس مخصوص صفت و حیثیت کا حامل ہے کہ تو نے اس کی وہ خاص جزا رکھی ہے جس کو تیرے علاوہ اور کوئی نہیں جانتا اور جس شخص نے اس کو اختیار کیا اور اس کے پورے حقوق کی رعایت ملحوظ رکھی اس کو تو نے بخشنے اور جنت میں داخل کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، لہٰذا میں اپنے اس فضیلت و خصوصیت کی بنا پر بامید قبولیت تیری بارگاہ میں درخواست شفاعت لے کر حاضر ہوا ہوں۔

  اسلام اپنے تعارف کے سلسلے میں جو اسلوب و انداز اختیار کرے گا وہ مذکورہ بالا دیگر اعمال کے اسلوب تعارف سے مختلف ہو گا، چنانچہ اس کو چونکہ باب شفاعت و ا کرانے میں بہت دخل ہو گا اس لئے وہ اپنے تعارف اور اپنی درخواست کی ابتدا حق تعالیٰ شانہ کی حمد و تعریف اور اس کے تئیں اظہار تعظیم سے کرے گا جیسا کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مقام شفاعت پر کھڑے ہوں گے تو پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و تعریف اور تعظیم و ثنا بیان کریں گے اس کے بعد درخواست پیش کریں گے، لہٰذا اسلام حق تعالیٰ کے حضور پر یش ہو کر اس کو اس کے اسم مبارک سلام کے ذریعہ صدا دے گا اور اپنے آپ کو ایک مطیع و فرمانبردار ذات ظاہر کرے گا اور اس کے بعد درخواست شفاعت پیش کرے گا۔

 ایک یہ احتمال بھی ہے کہ حدیث میں  اسلام سے مراد دین اسلام نہ ہو بلکہ صفت رضا تسلیم اور ترک اختیار مراد ہو جو خدا کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کے اعلیٰ مراتب میں سے ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حق میں اسلام کا ذکر اسی مفہوم میں کیا گیا ہے کہ فرمایا۔ آیت(اذ قال لہ ربہ اسلم قال اسلمت لرب العالمین) (یعنی جب ابراہیم علیہ السلام سے اس کے رب نے فرمایا کہ تابعداری اختیار کرو تو انہوں نے کہا کہ میں رب العالمین کا تابعدار ہوا

دنیا کی طرف مائل کرنے والی چیزوں کو چھوڑ دو

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہمارے ہاں (دروازے پر، یا بطور دیوار گیری) جو پردہ تھا اس پر پرندوں کی تصویریں بنی ہوتی تھیں چنانچہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عائشہ! اس پردہ کو بدل ڈالو، کیونکہ جب میں اس کو دیکھتا ہوں تو دنیا یاد آ جاتی ہے۔

 

تشریح

 

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس پردے کو بدلنے کا حکم جس انداز سے دیا اور اس کی جو علت بیان فرمائی اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس سے پردے پر جو تصویریں تھیں وہ نمایاں نہیں تھیں بلکہ ان کے خطوط و نقوش اس قدر چھوٹے اور غیر واضح تھے کہ ان پر حقیقی معنی میں  تصویر  کا اطلاق نہیں ہوتا تھا، یا یہ کہ تصویر دار پردہ کا یہ واقعہ اس زمانہ کا ہے جب کہ تصویر کی حرمت نازل و نافذ نہیں ہوئی تھی۔

 اس حدیث میں اس طرف اشارہ ہے کہ ان اسباب و اشیا کو دیکھنا کہ جس کے ذریعہ دولتمند لوگ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کرتے ہیںَ فقرا کے قلب کی حلاوت و طمانیت پر اثر انداز ہوتا ہے، لہٰذا عیش و عشرت کی چیزوں اور دنیا کی طرف مائل کرنے والی اشیا کو نہ صرف یہ کہ اختیار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان کی طرف نظر بھی نہیں اٹھانی چاہئے۔

چند انمول نصائح

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر کیا کہ (یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) مجھ کو کوئی ایسی نصیحت فرمائیے مختصر اور جامع ہو! حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اس شخص کی طرح نماز پڑھو جو اللہ کے سوا ہر چیز یعنی مخلوق اور اپنے نفس کو رخصت کرنے اور چھوڑنے والا ہے (حاصل یہ کہ جب نماز پڑھو تو دنیا بھر سے اپنی توجہ اور اپنا خیال پھیر کر کامل اخلاص اور پوری توجہ کے ساتھ رب العالمین کی طرف متوجہ رہو) نیز اپنی زبان سے ایسی کوئی بات نہ نکالو جس کے سبب تمہیں کل (قیامت کے دن، اللہ کے حضور) عذر خواہی کرنی پڑے (یا یہ کہ عذر خواہی کا مفہوم، عموم پر محمول ہے یعنی کوئی ایسی بات زبان سے نہ نکال جس کے سبب تمہیں اپنے دوستوں، رفقا و متعلقین اور تمام مسلمانوں کے سامنے پشیمان ہونا پڑے اور معذرت کرنے کی ضرورت پیش آئے) اور اس چیز سے ناامید ہو جانے کا پختہ ارادہ کر لو جو لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، (یعنی خدا نے تمہاری قسمت میں جتنا لکھ دیا ہے اور تمہیں جو کچھ دے دیا ہے اسی پر قناعت و کفایت کرو اور لوگوں کے مال و متاع سے اپنی امید وابستہ نہ کرو۔

 

تشریح

 

  رخصت کرنے کے ایک معنی تو وہ ہیں جو اوپر ترجمہ میں بیان کیے گئے ہیں اور ممکن ہے کہ  رخصت کرنے سے مراد حیات کو رخصت کرنا ہو، یعنی تم اس طرح نماز پڑھو کہ گویا وہ تمہاری آخری نماز ہے اور وہ وقت تمہاری زندگی کا آخری وقت ہے! چنانچہ مشائخ کی وصیتوں اور نصائح میں یہ زریں ہدایت منقول ہے کہ طالب کو چاہئے کہ وہ اپنی ہر نماز میں یہ تصور کرے کہ بس یہ آخری نماز ہے! جب وہ اس تصور کے ساتھ نماز پڑھے گا تو یقیناً اس نماز کو کامل اخلاص، پورے ذوق و شوق، حضور قلب اور تعدیل ارکان کے ساتھ ادا کرے گا۔

 حدیث کے آخری الفاظ میں اس طرف اشارہ ہے کہ دوسروں کے مال و متاع اور دولت پر نظر رکھنا اور ان سے امیدیں وابستہ کرنا قلبی فقر و افلاس کی علامت ہے، چنانچہ قلب کا غنی ہونا اس پر منحصر ہے کہ لوگوں کے پاس جو کچھ مال و متاع اور دولت ہے اس سے اپنی امید منقطع کر لی جائے۔

پرہیز گاری کی فضیلت

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انہیں قاضی یا عامل بنا کر یمن روانہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم الوداع کہنے کے لئے کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے اور اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کو تلقین و نصیحت کرتے رہے، نیز اس وقت معاذ رضی اللہ عنہ تو اپنی سواری پر سوار تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کی سواری کے ساتھ ساتھ پیدل چل رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نصائح و ہدایت سے فارغ ہوئے تو فرمایا۔ معاذ میری عمر کے اس سال کے بعد شاید تم مجھ سے ملاقات نہیں کر سکو گے، اور ممکن ہے کہ تم جب یمن سے واپس لوٹو گے تو مجھ سے ملاقات کرنے کے بجائے میری اس مسجد اور میری قبر سے گزرو۔ معاذ رضی اللہ عنہ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جدائی کے غم میں رونے لگے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف سے منہ پھیر کر مدینہ کی جانب اپنا رخ کر لیا، پھر فرمایا  میرے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو پرہیز گار ہیں خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں (یعنی خواہ وہ کسی رنگ و نسل، کسی ملک و قوم اور کسی طبقہ و مرتبہ کے ہوں) ان چاروں روایتوں کو امام احمد رحمۃ اللہ نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 لفظ  ما قبل گویا لفظ  التفت کی وضاحت ہے، نیز معاذ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منہ پھیرنے کی وجہ شاید یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کو روتا ہوا دیکھیں کیونکہ اس صورت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا دل بھی بھر آتا اور بعید نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی رونے لگتے جس سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قلب مبارک پر غم کا احساس شدید تر ہو جاتا، نیز اس طرح آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس حقیقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ میری اس بات سے تمہارا غمگین ہونا اور رونا بالکل بجا، لیکن میرا اس دنیا کو چھوڑنا اور آخرت کا سفر اختیار کرنا ایک یقینی بات ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے مذکورہ فعل کے ذریعہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو ڈھارس دی اور ان کو حادثہ فاجعہ کو قبول کرنے کے لئے تیار کیا اور دوسری طرف اپنے اشارہ کے ذریعہ ان کو آگاہ فرمایا کہ تم اس وقت مجھے اور مدینہ سے جدا ہو رہے ہو لیکن بعد میں تم مدینہ کو دیکھ کر لو گے البتہ مجھے دیکھنا تمہیں نصیب نہیں ہو گا۔، پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ انبیا اور اتقیا کے درمیان حقیقی رفاقت و قرب کا کیف بس اسی جہاں میں حاصل ہو گا جو دارالبقا ہے وہاں جو شخص جس کا رفیق و ساتھی بن جائے گا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے لہٰذا جو شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کو میری ہمیشہ کی رفاقت کا شرف مل جائے اور آخرت کی دائمی زندگی میں اس کو وہ مرتبہ نصیب ہو کہ جس کی وجہ سے اس کو میری شفاعت و قرب حاصل ہو تو اس کو چاہئے کہ تقویٰ و پرہیزگاری اختیار کرے، کیونکہ یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر کوئی شخص میری قربت حاصل کر سکتا ہے۔

  خواہ وہ کوئی ہوں اور کہیں ہوں جیسا کہ اوپر ترجمہ میں بھی وضاحت کی گئی ہے اس جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص میرا پسندیدہ میرا نزدیک اور میرا عزیز بننا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ متقی بنے، قطع نظر اس بات کے کہ وہ کس قبیلہ و قوم کا ہے، کس رنگ و نسل کا ہے اور کس ملک میں سکونت پذیر ہے، ایک شخص مکہ اور مدینہ میں میرا ہم شہر اور میرے قبیلہ و خاندان کا ہونے کے باوجود میرے قریب نہیں ہو سکتا جب کہ وہ پرہیز گاری اختیار کیے ہوئے نہ ہو، اور ایک شخص مجھ سے بہت دور سکونت پذیر ہونے اور مجھ سے کوئی نسلی و قرابتی تعلق نہ رکھنے کے باوجود کہ وہ بصرہ میں ہو یا کوفہ میں، یمن میں ہو یا کسی اور دور دراز کے ملک میں، میرے بہت قریب و نزدیک ہو سکتا ہے جب کہ وہ پرہیز گاری پر عامل ہو اس کو مثال کے طور پر یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک تو حضرت اویس قرنی رحمۃ اللہ تھے کہ ان کو کبھی بھی حضور کی زیارت تک نصیب نہیں ہوئی اور یمن میں سکونت پذیر رہے مگر چونکہ وہ تقویٰ اور پرہیز گاری کے درجہ کمال پر پہنچے ہوئے تھے اس لئے انہوں نے کتنا عظیم مرتبہ پایا اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور رہنے کے باوجود بارگاہ رسالت میں کس قدر قربت و نزدیکی کے حامل ہوئے، اس کے برخلاف ایک وہ لوگ تھے جن کا شمار مکہ اور مدینہ کے معزز ترین اور اشرف لوگوں میں ہوتا تھا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے شہر میں رہتے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی کے قبیلہ و خاندان کے تھے مگر چونکہ ترک تقویٰ اختیار کئے ہوئے تھے اس لئے بارگاہ رسالت میں مقام قرب سے محروم رہے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف ایذا پہنچانے کے سبب نہایت شقی اور بد بخت قرار پائے۔ پس حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو تسلی دی کہ ہماری ظاہری جدائی کا غم نہ کھاؤ بلکہ تقویٰ کو اختیار کیے رہو اگر تم متقی رہے تو گو ظاہری اعتبار سے تم ہم سے جدا رہو گے مگر معنوی طور پر ہمارے ساتھ ہی رہو گے۔

 طیبی کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مذکورہ ارشاد حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اپنی رحلت کی پیشگی اطلاع دینے کے بعد گویا ان کے حق میں تسلی کے طور پر تھا اور ان کو اس طرف متوجہ کرنا مقصود تھا کہ جب تم اپنے فرائض منصبی کو پورا کر کے یمن سے مدینہ واپس آؤ اور مجھے اس دنیا میں موجود نہ پاؤ تو اس وقت یہاں ان لوگوں کی اقتدا و اتباع کرنا جو اپنے تقویٰ و طہارت اور کمال دینداری کے سبب مجھ سے سب سے زیادہ نزدیک اور قریب ہیں، پھر طیبی کہتے ہیں کہ اس ارشاد میں جن لوگوں کی اقتدا اور و اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ان سے گویا بطور کنایہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی مراد تھی جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد خلیفہ اول قرار پانا تھا، اس بات کی تائید حضرت جبیر ابن مطعم رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کا تعلق اسی طرح کے ایک واقعہ سے ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت کی طرف اشارہ فرمایا تھا، چنانچہ اس روایت میں منقول ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی مسئلہ میں گفتگو کی۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ تم کسی اور وقت آنا تو میں تفصیل کے ساتھ تمہیں سمجھا دوں گا اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اگر میں کسی ایسی وقت آئی کہ (خدا نخواستہ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا میں موجود نہ ہوئے تو میں کیا کروں گی؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر تم ایسے وقت آئیں کہ میں اس دنیا میں نہیں رہا تو پھر تم ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس چلی جانا۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طرف صریحاً اشارہ فرمایا کہ میرے بعد ابو بکر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوں گے اور اس وقت مسلمانوں کے مقتدا وہی ہوں گے۔

 بہرحال اس حدیث کا مقصد اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ اپنے تمام دینی و دنیاوی معاملات اور تمام ملکی و شرعی امر میں ہمہ وقت احتیاط و تقویٰ کو ملحوظ رکھنا چاہئے، نیز اس میں تمام امت کے لئے یہ تسلی بھی پوشیدہ ہے کہ جن لوگوں کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا زمانہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت و صحبت کا شرف حاصل نہیں ہوا ہے خواہ وہ کتنے ہی زمانہ کے بعد پیدا ہوں گے اگر وہ تقویٰ اختیار کریں گے تو انہیں بارگاہ رسالت میں تقرب حاصل ہو گا، اللہم ارزقنا ہذہ النعمۃ۔

شرح صدر کی علامت

حضرت

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آیت پڑھی (فَمَنْ يُّرِدِ اللّٰهُ اَنْ يَّهدِيَهٗ يَشْرَحْ صَدْرَهٗ لِلْاِسْلَامِ) 6۔ الانعام:125) یعنی اللہ تعالیٰ جس شخص کو ہدایت بخشنا چاہتا ہے (یعنی خاص ہدایت کہ جو اس کو مرتبہ اختصاص تک پہنچا دے تو اس کا سینہ اسلام کے لئے کشادہ کر دیتا ہے بایں طور کہ اس کو شرائع اسلام اخلاص کے ساتھ قبول کرنے کی توفیق عطا فرماتا ہے پھر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گویا آیت کی تفسیر میں فرمایا جب ہدایت کا نور سینہ میں داخل ہوتا ہے تو سینہ فراخ اور کشادہ ہو جاتا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کیا اس حالت و کیفیت کی کوئی علامت ہے جس سے اس کو پہچانا جا سکے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس کی نشانی ہے، دارالغرور (دنیا سے) دور ہونا، آخرت کی طرف کہ جو ہمیشہ ہمیشہ باقی رہنے والا جہان ہے، رجوع کرنا اور پوری طرح متوجہ رہنا اور مرنے سے پہلے مرنے کے لئے تیاری کرنا۔

 

تشریح

 

  شرح صدر یعنی سینہ کا کھل جانا وہ نعمت ہے جو ہدایت و رستی اور تمام دینی و دنیاوی امور میں بہتری و بھلائی کا ذریعہ ہے، یہ کیسے معلوم ہو کہ فلاں شخص شرح صدر کی حالت کو پہنچ گیا ہے؟ اس کو پہچاننے کے لئے تین علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں، ایک تو دار الغرور (دنیا) سے بعد یعنی زہد و قناعت اختیار کرنا کہ یہ جگہ مکر و فریب سے بھری ہوئی ہے اور شیطان اس کے ذریعہ لوگوں کو فریب دیتا ہے دوسرے دنیا کی طرف سے بے پرواہ ہو کر آخرت کی طرف ہمیشہ متوجہ رہنا اور ہر صورت میں اسی کی بہتری و بھلائی کو ملحوظ رکھنا اور تیسرے یہ کہ موت آنے سے پہلے موت کے لئے تیاری کر لینا یعنی توبہ و انابت کے ذریعہ اپنی لغزشوں اور گناہوں سے اظہار بیزاری کرنا، عبادات اور اچھے کاموں میں سبقت کرنا اور اپنے اوقات کو طاعات الٰہی میں مشغول رکھنا، جس شخص میں یہ تینوں با تین پائی جائیں تو جان لینا چاہئے کہ اس نے گویا تمام شرائع اسلام کو پورے یقین و اخلاص کے ساتھ قبول کر لیا ہے اور وہ اس مقام تک پہنچ گیا ہے جہاں احکام خداوندی کی بجا آوری مزاج و طبعیت پر گراں گزرنے کے بجائے روحانی و جسمانی کیف و سرور اور لذت بہم پہنچاتی ہے۔ واضح رہے کہ شرح صدر یعنی سینہ کی کشادگی سے مراد قلب میں قبول حق کی استعداد و صلاحیت کا پیدا ہو جانا ہے اور قلب مومن جو نور ہدایت سے پر ہو، وہ بذات خود بڑے عظیم رتبہ کا حامل ہے یہاں تک کہ اس کو  عرش رب سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن یعنی نہ تو میری زمین میری گنجائش رکھتی ہے اور نہ میرا آسمان لیکن میرے مومن بندے کا قلب میری گنجائش رکھتا ہے۔

 دنیا کو دارالغرور یعنی دھوکے گھر، کہا گیا ہے کیونکہ بلا شبہ یہ دنیا مکر و فریب میں مبتلا کرنے اور دھوکا دینے والی ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی عہد شکن نہیں ہے، لوگ اس کی محبت میں مبتلا ہو کر کیا کچھ نہیں کرتے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کیسے کیسے پاپڑ نہیں بیلتے، لیکن آخر کار یہ کسی کی نہیں ہوتی اور ہر ایک کو دغا دیتی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں آگاہ فرمایا گیا ہے کہ آیت(ولا یغرنکم الحیوۃ الدنیا) یعنی دنیا کی زندگی تمہیں دھوکے میں مبتلا نہ کر دے۔ جہاں تک اس دنیا کی حقیقت و ماہیت کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی شبہ کر سکتا ہے کہ یہ دنیا خرابی و فساد اور رنج و محن کا گھر ہے اگرچہ اس کی ظاہری حالت ایک نعمت کی طرح معلوم ہوتی ہے اور اس کی مثال سراب کی سی ہے کہ دھوپ میں چمکنے والے ریگستانی ریت کو پانی سمجھ کر پیاسا اس کی طرف لپکتا ہے مگر جب قریب پہنچتا ہے تو اس کو حقیقت نظر آتی ہے اور سمجھتا ہے کہ میں دھوکہ میں مبتلا ہو گیا، بالکل اسی طرح بادشاہ و امرا دولتمند اور دنیا دار لوگ دنیا کی ظاہری چمک دمک کے دھوکے میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور جب حقیقت سامنے آتی ہے تو آنکھیں کھلتی ہیں مگر وقت گزر چکا ہوتا ہے اور حسرت و خسران کے سوا ان کے ہاتھ اور کچھ نہیں لگتا۔

  موت آنے سے پہلے سے حیات مستعار کا وہ عرصہ مراد ہے جس میں انسان کچھ کر لینے کی صلاحیت و قوت رکھتا ہے یعنی صحت تندرستی کا زمانہ اور آخر درجہ میں وہ زمانہ بھی مراد ہو سکتا ہے جب موت کے مقدمات ظاہر ہوں گے اور زندگی کے خاتمہ کے ظاہری اسباب پیدا ہو جائیں اور وہ مرض و بیماری کا زمانہ ہے لیکن عمر کا وہ حصہ کہ جو انسان کو بالکل بیکار و ناکارہ بنا کر رکھ دیتا ہے یعنی بہت بڑھاپا کہ اس زمانہ میں نہ علم و معرفت حاصل کرنے کی طاقت رہتی ہے اور نہ عمل کرنے پر قدرت ہوتی ہے، اس وقت بے فائدہ حسرت و ندامت کے سوا اور کچھ نہیں ملتا، لہٰذا دانائی اسی میں ہے کہ اس زمانہ سے پہلے سفر آخرت کے لئے زاد راہ تیار کر لیا جائے۔

حکمت و دانائی کس کو عطا ہوتی ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو خلاد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا  جب تم کسی بندے کو دیکھو کہ اس کو (دنیا سے) بے رغبتی اور (لغو و بیہودہ کلام سے اجتناب اور) کم گوئی عطا کی گئی ہے تو اس کی قربت و صحبت اختیار کرو کیونکہ اس کو حکمت و دانائی کی دولت دی گئی ہے۔ ان دونوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے (اور پہلی حدیث بہت سے طرق سے ثابت ہے۔

 

تشریح

 

 بعض روایتوں میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا گیا کہ زیادہ دانا مومن کون ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ مومن جو موت کو بہت یاد کرتا ہو اور موت کے بعد کی زندگی (یعنی آخرت) کے لئے بہت تیاری کرتا ہو۔

 مذکورہ بالا حدیث میں لفظ  حکمت نقل کیا گیا ہے اس سے مراد نیک کرداری اور راست گفتاری ہے۔ اور جس بندے کو اللہ تعالیٰ حکمت عطا فرماتا ہے اس کی بڑی فضیلت منقول ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے آیت(ومن یوتی الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا) یعنی جس شخص کو حکمت عطا کی گئی، گویا اس کو بہت زیادہ خیر و بھلائی دی گئی۔

 بہرحال حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص دنیا سے بے اعتنائی اور بے رغبتی اختیار کیے ہوئے ہو اور کم گوئی کی صفت سے متصف ہو وہ ایک ایسا مخلص و کامل عالم ہے جس کو خدا نے نیک کرداری اور راست گفتاری کی دولت سے نواز دیا ہے اور وہ یقیناً مرشد و مقتدا بننے کا اہل ہے کہ وہ بندگان خدا کی تربیت و اصلاح اور رشد و ہدایت کی ذمہ داری کو پوری طرح انجام دے سکتا ہو، لہٰذا ہر ایک شخص پر واجب ہے کہ اس کی اطاعت و خدمت کرے، اسی کی صحبت و ہمنشینی اختیار کرے اور اس کے ساتھ ہمکلامی رکھے، بعض عارفین نے بہت خوب کہا ہے کہ اللہ کی صحبت اختیار کرو۔ اگر تم اس پر قادر نہ ہو سکو تو اس شخص کی صحبت و ہم نشینی اختیار کرو جو خدا کے ساتھ صحبت رکھتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ وہ شخص وہی ہو سکتا ہے کہ جس میں کردار و احوال اور اقوال و افعال کے صحیح اور قابل اعتماد ہونے کی وہ علامت پائی جائے جو انشراح صدر کی علامت کے طور پر پچھلی حدیث میں بیان کی جا چکی ہے اور اس کی وہ حیثیت و شخصیت اس طرح ظاہر و ثابت ہو جائے کہ اس کی صحبت تمام دینی و دنیاوی معاملات پر بھلائی و بہتری کی صورت میں اثر انداز ہوتی ہو، وہ اپنے رفقا اور معتقدین کو دنیاوی لذات سے کنارہ کش، تحصیل مال و جاہ سے بے رغبت اور مقدار حاجت و ضرورت سے زیادہ کی طلب و خواہش سے بے پرواہ بنا کر زاد عقبی کی طرف پہنچاتا ہو۔ ایسا شخص نہ صرف عالم و عارف کہلاتا ہے بلکہ انبیا کا حقیقی وارث و خلیفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے عارف باللہ کی زیارت و خدمت اور اس کی صحبت و ہم نشینی کی نعمت عظمی سے سرفراز فرمائے (آمین ثم آمین