مشکوٰة شر یف

دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان

خدا کی طاعت و عبادت کے لئے مال اور عمر سے محبت رکھنے کا بیان

استحباب کے معنی ہیں، اچھا جاننا، پسند کرنا،  مال کے معنی ہیں خواستہ، یعنی وہ چیز جس کی چاہ و خواہش رکھی جائے، اس کی جمع  اموال ہے اور  مال اصل میں  میل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں مائل ہونا، راغب ہونا، چنانچہ دھن دولت، اسباب و سامان اور جائداد وغیرہ کو مال اسی لئے کہا جاتا ہے کہ انسان ان چیزوں کی طرف طبعی طور پر رغبت و میلان رکھتا ہے۔  عمر کے معنی ہیں زندگی، زندہ رہنے کی مدت۔

 اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی طاعت و عبادت کی خاطر، دین کی خدمت کے لئے اور اخروی فلاح و بہبود کے امور انجام دینے کی غرض سے مال و دولت کی خواہش و طلب اور درازی عمر کی آرزو رکھنا جائز ہے۔

خدا کا پسندیدہ بندہ کون ہے؟

حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا، یقیناً اللہ تعالیٰ اس بندے کو بہت پسند کرتا ہے جو متقی و غنی اور گوشہ نشین ہو۔ (مسلم) اور حضرت ابن عمر کی روایت لاحسد الاّ فی اثنین فضائل قرآن کے باب میں نقل کی جا چکی ہے۔

 

تشریح

 

  متقی اس شخص کو کہتے ہیں جو ممنوع چیزوں سے اجتناب کرے یا یہاں  متقی سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے مال و زر کو بڑے کاموں اور عیش و تفریح میں خرچ نہ کرے۔ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ متقی سے مراد وہ شخص ہے جو حرام اور مشتبہ امور سے کلیۃ اجتناب کرے اور ان چیزوں سے بھی احتیاط و پرہیز کرے جن کا تعلق خواہشات نفس اور مباحات سے ہے۔ اور  غنی سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو۔ لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ  غنی سے مراد وہ شخص ہے جو مالدار و دولتمند ہو یا دل کا غنی ہو! لیکن اس حدیث کا یہاں اس باب میں نقل کرنا اس بات کو زیادہ ثابت کرتا ہے کہ  غنی سے مراد وہی شخص ہے جو مال و دولت رکھتا ہو، اور یہ بات دل کے غنی ہونے کے منافی نہیں ہے کیونکہ غنا کے باب میں وہی شخص اصل اور کامل ترین ہے جو ظاہری مال و دولت کے ساتھ دل کا غنا بھی رکھتا ہو اور جس کے ذریعہ ہاتھ کے غنا کا وہ تقاضا بھی پورا ہوتا ہے جو دنیا و آخرت میں مراتب و درجات کی بلندی کا باعث بنتا ہے اس صورت میں یہ بات بجا طور پر کہی جا سکتی ہے کہ یہاں غنی سے مراد اصل میں شکر گزار مالدار ہے! چنانچہ بعض حضرات نے اس حدیث سے یہی استدلال کیا ہے کہ شکر گزار مالدار، صبر اختیار کرنے والے فقیر و مفلس سے افضل ہے۔ اگرچہ یہ قول(کہ شاکر غنی، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) اس قول کے خلاف ہے جس کو زیادہ صحیح اور قابل اعتماد قرار دیا گیا ہے (اور وہ یہ کہ صابر فقیر، شاکر غنی، صابر فقیر سے افضل ہوتا ہے) چنانچہ اس بارے میں تفصیلی بحث پیچھے گزر چکی ہے۔

  خفی سے مراد یا تو گوشہ نشین ہے، یعنی وہ شخص جو سب سے ترک تعلق کے ذریعہ یکسوئی اور تنہائی اختیار کر کے اپنے رب کی عبادت میں مشغول رہے، یا یہ کہ پوشیدہ طور پر خیر و بھلائی کرنے والا مراد ہے، یعنی وہ شخص کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی و خوشنودی کے لئے نیک کاموں اور اپنے مال کو خرچ کرنے میں اس طرح راز داری اختیار کرے کہ کسی کو اس کا علم نہ ہو، اس صورت میں خفی کا اطلاق مفلس و نادار شخص پر بھی ہو سکتا ہے اور یہ دوسری مراد زیادہ واضح ہے ویسے یہ لفظ حائے مہملہ کے ساتھ یعنی  حفی بھی روایت کیا گیا ہے جس سے مراد وہ شخص ہوتا ہے جو حق کے معاملہ میں نرمی و مہربانی اور احسان کرے، لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ لفظ  خفی ہے جس کی وضاحت پہلے کی گئی! واضح رہے کہ یہ حدیث ان لوگوں کی بھی دلیل ہے جو یہ کہتے ہوئے کنارہ کشی اختیار کرنا، ان کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن رکھنے سے افضل ہے، لیکن جو حضرات، لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن کو ترک تعلق اور کنارہ کشی سے افضل قرار دیتے ہیں۔ انہوں یہ تاویل کی ہے کہ گوشہ نشینی کا افضل اور پسندیدہ ہونا اس صورت کے ساتھ خاص ہے جب کہ فتنوں کا زور ہو اور لوگوں کے ساتھ میل جول اور ان کے درمیان رہن سہن اختیار کرنے سے دین و آخرت کے معاملات پر برا اثر پڑتا ہو اور ایمان و عمل میں رخنہ اندازی ہوتی ہو۔

درازی عمر کی فضیلت حسن عمل پر منحصر ہے

حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے پوچھا، کہ یا رسول اللہ! کون سا آدمی بہتر ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور عمل اچھے ہوں۔ پھر اس شخص نے پوچھا اور کون سا آدمی برا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ وہ شخص جس کی عمر زیادہ ہو اور برے عمل ہوں۔ (احمد، ترمذی، دارمی)

 

تشریح

 

 حدیث کے ظاہری اسلوب سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ حکم اغلب کے اعتبار سے ہے یعنی اچھے یا برے عمل زیادہ ہوں گے تو وہ شخص یا برا قرار پائے گا اور اگر اچھے اور برے عمل دونوں برابر ہوں گے تو پھر وہ ایک وجہ سے تو اچھا کہلائے گا اور ایک وجہ سے برا، اگرچہ اس بات کا ثابت ہونا نادر ہے۔

اچھے اعمال کے ساتھ زیادتی عمر کی فضیلت

حضرت عبید بن ابی خالد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو شخصوں کے درمیان بھائی چارہ کرا دیا تھا (یعنی ان دونوں کو جو صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے تھے، بھائی بھائی بنا دیا تھا) ان میں سے ایک شخص خدا کی راہ میں مارا گیا (یعنی جہاد میں شہید ہو گیا) اور اس کی شہادت کے ایک ہفتہ یا قریب ایک ہفتہ کے بعد دوسرا شخص بھی صاحب فراش ہو کر فوت ہو گیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی اور جب وہ نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے مرحوم کی جو نماز جنازہ پڑھی ہے اس میں تم نے کیا پڑھا ہے اور کیا کہا ہے (یعنی تم نے نماز جنازہ میں مرحوم کے لئے کیا دعا کی ہے؟) صحابہ نے عرض کیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی ہے کہ اس کے گناہ بخش دے، اس پر رحمت نازل کرے اور اس کو اس کے (شہید ہو جانے والے) ساتھی کے پاس جنت کے اعلیٰ درجہ میں پہنچا دے جیسا کہ وہ دونوں اس دنیا میں اتفاق و اتحاد کے ساتھ اور یکجا رہتے تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر فرمایا۔ تو پھر اس کی وہ نماز کہاں گئی جو اس نے اپنے ساتھی کی نماز کے بعد کے دنوں میں پڑھی تھی، اور اس کے ان اعمال کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے ساتھی کے اعمال کے بعد (کے دنوں میں) کئے تھے۔ یا یہ فرمایا کہ اس کے ان روزوں کا ثواب کہاں گیا جو اس نے اپنے اس ساتھی کے روزوں کے بعد کے دنوں میں رکھے تھے؟ (یعنی تم نے مرحوم کے حق میں جو یہ دعا کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اس کے اس بھائی و ساتھی کے پاس جنت میں پہنچائے جو شہید ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے گمان میں اس شخص کا درجہ و مرتبہ اپنے اس شہید بھائی کے درجہ و مرتبہ سے کم ہے۔ اگر تم ایسا سمجھتے ہو تو پھر بتاؤ کہ اس مرحوم کی وہ نمازیں و روزے اور وہ دوسرے اچھے اعمال اور ان کا اجر و ثواب کہاں جائے گا جو اس نے اپنے بھائی کے انتقال کے بعد کے دنوں میں کئے ہیں، بلاشبہ جنت کے اندر اور قرب الٰہی میں دو شخصوں کے درمیان جو فاصلہ ہے وہ اس فاصلہ سے بھی زیادہ ہے جو زمین و آسمان کے درمیان ہے۔ (ابوداؤد، نسائی)

 

تشریح

 

 حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص اپنے ساتھی کی شہادت کے بعد جتنے زائد دنوں تک زندہ رہا اور ان دنوں میں اس نے جو عبادات و اعمال صالحہ کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اپنے شہید بھائی و ساتھی کے مرتبہ سے بھی بلند ہو گیا ہے۔ اس موقعہ پر بجا طور پر یہ اشکال پیدا ہو سکتا ہے کہ بعد میں وفات پانے والا مذکورہ شخص محض ان عبادات و اعمال کی وجہ سے کہ جو اس نے ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے، اس شخص پر فضیلت کیسے پا سکتا ہے جو اس سے پہلے میدان جنگ میں شہید ہو گیا تھا اور جب کہ اس نے خدا کی راہ میں اور دین حق کی سربلندی کی خاطر شہادت کا درجہ پایا اور جام شہادت بھی اس نے اس زمانہ میں نوش کیا جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس دنیا میں تشریف فرما تھے، اسلام اپنے ابتدائی زمانہ کے نہایت پر آشوب حالات سے گزر رہا تھا، اور دین کے مددگاروں کی کمی تھی۔

 اس کا جواب یہ ہے کہ اس دوسرے شخص کو پہلے شخص (شہید) کے مقابلہ زیادہ افضل قرار دینا محض اس کے ان اعمال کی وجہ سے نہیں ہے جو اس نے اس ایک ہفتہ کے دوران کئے تھے بلکہ اصل بات یہ تھی کہ وہ شخص بھی اسلامی لشکر ہی کا ایک فرد تھا اور خدا کی راہ میں مرابط کے فرائض انجام دیا کرتا تھا نیز میدان جنگ میں شہید ہونے کی صادق نیت رکھتا تھا، لہٰذا اس نیت کا یہ پھل اس کو ملا کہ اس کو گویا شہادت کا درجہ دیا گیا جس کی وجہ سے وہ اپنے ساتھی کا ہم مرتبہ ہو گیا اور پھر اس نے اس ساتھی کی شہادت کے بعد کے دنوں میں جو نیک اعمال کئے ان کی وجہ سے اس کا مرتبہ اور زیادہ بڑھ گیا۔

وہ چار آدمی جن کے حق میں دنیا بھلی یا بری ہے

حضرت ابو کبشہ انماری رحمۃ اللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔  تین باتیں ہیں جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا سکتا ہوں، اور میں تم سے ایک بات کہتا ہوں (یعنی تمہارے سامنے اپنی ایک حدیث بیان کرتا ہوں تم اس کو یاد رکھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا پس وہ تین باتیں جن کی حقانیت و صداقت پر میں قسم کھا سکتا ہوں، یہ ہیں کہ بندہ کا مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے (صدقہ و خیرات) کی وجہ سے کم نہیں ہوتا (یعنی کسی بندہ کا اپنے مال کو خدا کی رضا و خوشنودی کے لئے خرچ کرنا بظاہر تو اپنے مال کو کم کرنا اور گھٹانا ہے مگر حقیقت کے اعتبار سے اس کو کوئی نقصان اور گھاٹا نہیں ہوتا کیونکہ اس کا صدقہ و خیرات کرنا دنیاوی طور پر بھی اس کے مال و اسباب میں خیر و برکت کا موجب ہے اور آخرت میں بھی حصول ثواب کا ذریعہ ہے اور ظاہر ہے کہ یہ چیز کثرت و زیادتی کے حکم میں ہو گی نہ کہ نقصان کے حکم میں۔

 جس بندہ پر ظلم کیا جائے اور اس کا مال ناحق لے لیا جائے اور وہ بندہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت کو بڑھاتا ہے (یعنی اس کے ساتھ ظلم و زیادتی کا ہونا اگرچہ ظاہری طور پر اس کی ذلت کے مترادف ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس ظلم و زیادتی پر صبر کرنے کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس بندہ کی عزت و مرتبہ بڑھ جاتا ہے جیسا کہ جو شخص ظلم کرتا ہے اس کے ظلم کی وجہ سے اللہ کے نزدیک اس کی ذلت بڑھ جاتی ہے، یا یہ مطلب کہ  طلم و زیادتی کا شکار ہونے والا بندہ اگرچہ وقتی طور پر ذلت و کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے مگر انجام کار اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی اس کی عزت و مرتبہ کو بڑھا دیتا ہے جیسا کہ ظالم اگرچہ وقتی طور پر سربلند ہو جاتا ہے مگر آخرکار اپنے ظلم کی وجہ سے نہایت ذلت و رسوائی سے دوچار ہوتا ہے اور دنیا والوں کی نظر میں بری طرح گر جاتا ہے اگرچہ وہ کتنی ہی طویل مدت کے بعد اس انجام بد کو کیوں نہ پہنچے، چنانچہ اکثر یہی ہوتا ہے کہ قدرت کی کرشمہ سازی صورت حال کو اس طرح بدل دیتی ہے کہ ظالم ایک نہ ایک دن اپنی سربلندی کھو دیتا ہے اور کبھی زور آور ہونے کی وجہ سے جس شخص پر ظلم و زیادتی کیا کرتا تھا اپنے انجام کو پہنچ کر اسی مظلوم کو زیر دست اور اس کے سامنے ذلیل و سرنگوں ہو جاتا ہے۔

 اور جس بندہ نے اپنے نفس پر سوال کا دروازہ کھولا (یعنی ضرورت و حاجت کی وجہ سے نہیں بلکہ مال و دولت جمع کرنے اور خواہشات نفس کی تکمیل کے لئے لوگوں سے مانگنا شروع کر دے) اللہ تعالیٰ اس کے لئے فقر و افلاس کا دروازہ کھول دیتا ہے (یعنی اس کو طرح طرح کے احتیاج و افلاس میں مبتلا کر دیتا ہے یا اس کے پاس جو کچھ ہوتا ہے اس کو بھی ختم کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ نہایت خرابی میں پڑ جاتا ہے) اور رہی اس حدیث کی بات جس کو میں نے تمہیں سنانے کے لئے کہا تھا تو اب میں اس کو بیان کرتا ہوں (دھیان سے سنو اور) اس کو یاد رکھو، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دنیا بس چار آدمیوں کے لئے ہے (یعنی یہ دنیا اپنے مال و دولت کے احوال اور اپنی بھلائی برائی کے اعتبار سے چار طرح کے آدمیوں میں منحصر ہے) ایک تو وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مال و زر بھی عطا کیا اور علم کی دولت سے بھی نوازا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے مال کو مصارف خیر میں خرچ کرنے کا طریقہ جانتا ہے اور اس کے اثرات و کیفیات سے بھی باخبر ہے) پس وہ بندہ اپنے مال و دولت کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے (یعنی اس کو حرام و ناجائز اور ناپسندیدہ حق امور میں خرچ نہیں کرتا) اس کے ذریعہ اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک اور احسان کرتا ہے اور اس مال و زر میں سے اس کے حق میں مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے خرچ کرتا ہے (یعنی مال و دولت کے تئیں اللہ تعالیٰ نے جو حقوق متعین کئے وہ ان کو احکام خداوندی کی تکمیل کے لئے ادا کرتا ہے، مثلاً زکوٰۃ نکالتا ہے، صدقہ و خیرات کرتا ہے، مالی کفارات ادا کرتا ہے اور ضیافت ایمانداری میں خرچ کرتا ہے چنانچہ اس بندہ کا بہت بڑا اور کامل ترین مرتبہ ہے (یعنی وہ بندہ دنیا میں اچھے خصائل و احوال سے متصف قرار دیا جاتا ہے یا آخرت میں اعلیٰ مراتب کا مستحق قرار پاتا ہے)۔

 دوسرا وہ بندہ جس کو اللہ تعالیٰ نے علم تو عطا کیا کہ جس کے ذریعہ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ مال کو کسی کام میں صرف کرنا خدا کی رضا و خوشنودی اور ہر طرح کے اجر و ثواب کا باعث ہے اور کس کام میں خرچ کرنا خدا کی ناراضگی اور ہر طرح کے خسران عذاب کا سبب ہے) لیکن اس کو مال عنایت نہیں فرمایا پس وہ بندہ (اپنے علم کے سبب سچی نیت رکھتا ہے اور حصول مال و دولت کی خواہش و آرزو رکھتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں اس کے تئیں اچھے عمل کرتا جیسا کہ وہ فلاں شخص اپنے مال و زر کے بارے میں خدا سے ڈرتا ہے (یعنی جس طرح فلاں شخص کو خدا نے علم صادق کے ساتھ مال و دولت سے بھی سرفراز کیا ہے اور وہ اس مال کو خدا کی رضا و خوشنودی کی خاطر اچھے کاموں میں خرچ کر کے، (یعنی ادائیگی زکوٰۃ، اقربا کے ساتھ حسن سلوک اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ دنیا و آخرت کی سرخروئی حاصل کر رہا ہے، اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ مجھے بھی اس علم کے ساتھ مال و دولت بھی عطا فرماتا تو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے مال و زر کو خدا کی رہ میں خرچ کرنے کی سعادت حاصل کرتا) چنانچہ دونوں شخصوں کا ثواب برابر ہے (یعنی اگر پہلا شخص مالدار ہونے کی وجہ سے خدا کی راہ میں واقعتاً اپنا مال خرچ کرتا ہے اور یہ دوسرا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے خدا کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتا لیکن سچی نیت رکھنے کے سبب وہی اجر و ثواب پاتا ہے جو پہلے شخص کو ملتا ہے) تیسرا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہے لیکن علم نہیں دیا (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ خدا سے ڈرے اور اپنے مال کو حقوق کی ادائیگی میں خرچ کرے) پس وہ بندہ بے علم ہونے کی وجہ سے اپنے مال کے بارے میں بہک جاتا ہے (بایں طور کہ اول تو لالچ و حرص اور دنیا کی محبت کی وجہ سے بخل کرتا ہے کہ کسی بھی اچھے کام اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا روادار نہیں ہوتا اور اگر کسی فلاحی، رفاہی کام یا کسی کی مدد و اعانت میں کچھ خرچ بھی کرتا ہے تو مقصد محض نام ونمود اور اپنی بڑائی و ثروت کا اظہار ہوتا ہے) وہ (اپنی بے عملی کے سبب) اس مال و دولت کے بارے میں اپنے رب سے نہیں ڈرتا ہے (یعنی آمدنی کے ایسے وسائل و ذرائع سے اجتناب و احتیاط نہیں کرتا جو حرام و ناجائز اور مشتبہ ہوتے ہیں اور نہ ایسے امور میں اپنا مال خرچ کرنے سے گریز کرتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہیں) اور علم و تربیت کی کمی، نیز جذبہ ترحم و ہمدردی کے فقدان اور حرص و بخل کی کثرت کی وجہ سے اپنے قرابت داروں اور عزیزوں کے ساتھ مالی احسان و سلوک نہیں کرتا ہے اور نہ ان حقوق کی تعمیل کرتا ہے جو اس کے مال و دولت سے متعلق ہیں (یعنی نہ تو زکوٰۃ اور دوسرے صدقات واجبہ کے ذریعہ خدا کا حق ادا کرتا ہے اور نہ بندوں کے حقوق مطالبات کی ادائیگی کی پرواہ کرتا ہے، چنانچہ یہ بندہ بد ترین مرتبہ کا ہے۔

 اور چوتھا بندہ وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے نہ تو مال عطا کیا ہے اور نہ علم دیا ہے (ایسا علم کہ جس کے ذریعہ وہ خیر وشر کے درمیان تمیز کر سکے اور یہ پہچان کر سکے کہ میرے حق میں کون سی چیز بہتر ہے اور کون سی چیز بری) پس وہ بندہ کہتا ہے کہ اگر میرے پاس مال اور روپیہ پیسہ ہوتا تو میں بھی اس کو فلاں شخص کی طرح (برے کاموں میں) خرچ کرتا، چنانچہ یہ بندہ اپنی نیت کے سبب مغضوب ہے (یا یہ ترجمہ بھی ہو سکتا ہے کہ پس یہ بندہ بری نیت رکھنے والا ہے) اور اس کا گناہ اس تیسرے شخص کے گناہ کے برابر ہے یعنی وہ تیسرا شخص اگرچہ اپنا مال برے کاموں میں خرچ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوتا ہے اور یہ چوتھا شخص مالدار نہ ہونے کی وجہ سے برے کاموں میں خرچ کرنے کا مرتکب نہیں ہوتا لیکن چونکہ برے کاموں میں خرچ کرنے کی نیت رکھتا ہے اس سبب سے اس کو بھی وہی گناہ ملتا ہے جو برے کاموں میں واقعتاً خرچ کرنے والے کو ملتا ہے۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔

 

تشریح

 

 یہاں  نیت کو  عزم کے معنی پر محمول کرنا چاہئے کیونکہ انسان گناہ کی محض خواہش و نیت پر نہیں بلکہ عزم پر ماخوذ ہوتا ہے اور اصطلاح طور پر  عزم اس کو کہتے ہیں کہ انسان کے دل میں کسی گناہ کے کرنے کا خیال و ارادہ پیدا ہو اور وہ اس خیال و ارادہ کو پورا کرنے میں اپنی طرف سے کوئی کسر نہ چھوڑے لیکن خارجی طور پر کوئی ایسا مانع حائل ہو جس کی وجہ سے وہ اس گناہ کے کرنے اور اس تک پہنچنے پر قادر نہ ہو، کہ اگر وہ مانع باقی نہ رہے اور اس کو قدرت حاصل ہو جائے تو وہ بلا توقف اس گناہ کو کر ڈالے، مثلاً اگر کوئی شخص زنا کرنا چاہے اور وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل میں اس حد تک سعی و کوشش کرے گا کہ اگر کوئی خارجی چیز اس کی راہ میں رکاوٹ پیدا نہ کرے تو وہ بے جھجک اور بلا توقف زنا میں مبتلا ہو جائے تو اس کی اس خواہش و ارادہ کا اتنا پختہ (با سعی ہونا  عزم کہلائے گا اور وہ اس عزم پر ماخوذ ہو گا اور اس کو خدا کی نظر میں گنہگار قرار دیا جائے گا کیونکہ  عزم اگرچہ واقعۃً زنا نہیں ہے لیکن جس طرح زنا ایک گناہ ہے اسی طرح زنا کا عزم بھی ایک مستقل گناہ ہے۔ اس موقع پر زیادہ مناسب یہ ہے کہ اس سلسلہ کی پوری بحث کو مختصر طور پر بیان کر دیا جائے، چنانچہ جاننا چاہئے کہ اول تو وسوسہ شیطان ہے، یعنی بغیر کسی کسب و ارادہ کے دل میں کسی گناہ کا خیال خود بخود آ جائے اور گزر جائے، جمے نہیں، اس کو  ہاجس کہا جاتا ہے اور ہاجس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ لیکن اگر وہ خیال دل میں بیٹھ جائے اور طبیعت کے اندر جولانی و گردش کرنے لگے تو اس کو خاطر کہتے ہیں، خاطر بھی اس امت کے حق میں مرفوع اور قابل معافی قرار دیا گیا ہے، اس پر کوئی مواخذہ نہیں اور یہ اس امت کے خصائص میں سے ہے۔ اس کے بعد  ہم کا نمبر آتا ہے۔  ہم یہ ہے کہ گناہ کا وہ خیال دل میں اس طرح بیٹھ جائے کہ اس گناہ کے قصد و ارادہ اور نیت کی صورت اختیار کر لے، حسنات (نیکیوں) میں تو  ہم کا اعتبار کیا جاتا ہے کہ کسی نیکی کی محض نیت اور اس کا قصد و ارادہ، پوری نیکی کے مترادف قرار دیا جاتا ہے لیکن سیئات (گناہوں) کے معاملہ میں محض نیت اور ارادہ کا اعتبار نہیں ہوتا۔ اس کے بعد  عزم ہے جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے اور جیسا کہ بیان کیا گیا ہے یہ عزم قابل مواخذہ ہے۔

 حدیث کے اس جملہ ویعمل اللہ فیہ بحقہ میں فیہ کی ضمیر حضرت شیخ عبدالحق رحمۃ اللہ نے تو مال کی طرف لوٹائی ہے (جیسا کہ ترجمہ سے واضح ہے) لیکن ملا علی قاری رحمۃ اللہ نے فیہ کی ضمیر، مال کے بجائے، علم کی طرف لوٹائی ہے، اس صورت میں جملہ کا مطلب یہ ہو گا کہ  اور وہ شخص اس علم کے تعلق سے اور اس کے حق کے مطابق اللہ تعالیٰ کے لئے کام کرتا ہے بایں طور کہ اس علم پر عمل کر کے اور حقوق اللہ و حقوق العباد ادا کر کے اس علم کا حق ادا کرتا ہے، تاہم ملا علی قاری نے ابن مالک کی طرف منسوب کر کے یہ قول بھی لکھا ہے کہ فیہ کی ضمیر مال کی طرف راجع ہے۔ چنانچہ حضرت شیخ عبدالحق نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، نیز حضرت شیخ نے لفظ یتخبط کے یہ معنی لکھے ہیں وہ شخص کہ جس کو صرف مال عطا ہوتا ہے علم حاصل نہیں ہوتا اپنی بے علمی اور بد عقلی کی وجہ سے اپنے مال و دولت کے معاملہ کوئی صحیح راہ اختیار نہیں کر پاتا، اور اچھے اور برے مصارف کے درمیان تمیز نہ کر پانے کی وجہ سے اس کو ادھر ادھر خرچ کرتا رہتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا مال زیادہ تر ان کاموں میں خرچ ہوتا ہے جو غیر شرعی اور ناپسندیدہ حق ہوتے ہیں۔ چنانچہ مابعد کے الفاظ لایتقی فیہ ربہ سے یہی بات واضح ہوتی ہے۔ لیکن ملا علی قاری نے اس جملہ کے یہ معنی لکھے ہیں کہ  وہ شخص مال و دولت کے حصول میں سخت بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے کہ وہ ہر وقت بس پیسہ کمانے اور دولت جمع کرنے کے چکر میں رہتا ہے اس کا اٹھنا بیٹھنا چلنا پھرنا اور ہر حرکت و سکون کا واحد محور حصول زر ہوتا ہے، علاوہ ازیں وہ اس مال و دولت کے تئیں طرح طرح کے احوال میں مبتلا ہوتا ہے کہ کبھی تو اس کو ادھر ادھر بے دریغ خرچ کرتا ہے اور کبھی اس طرح بخل و خست کرتا ہے کہ بنیادی ضروریات اور ادائیگی حقوق میں خرچ کرنے کا بھی روادار نہیں ہوتا۔

نیکی کی توفیق اور حسن خاتمہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ جب بندہ کی بھلائی (یعنی اس کے حسن انجام) کا ارادہ فرماتا ہے تو اس سے بھلائی کے کام کراتا ہے۔ پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ! اس سے بھلائی کے کام اللہ تعالیٰ کس طرح کرتا ہے؟ فرمایا، موت سے پہلے اس کو نیک کام کی توفیق عطا فرما دیتا ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ جس بندہ پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہو جاتا ہے اس کو موت سے پہلے توبہ و انابت اور طاعت عبادت کی توفیق خداوندی عطا ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حسن انجام اور خاتمہ بخیر کی سعادت پا لیتا ہے۔

 یہ حدیث گویا زندہ رہنے کی فضیلت و اہمیت کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ زندگی ہی ہے جس میں انسان آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ کما سکتا ہے۔

دانا شخص وہی ہے جو خواہشات نفس کو احکام الٰہی کے تابع کر دے

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔  عقلمند و بہادر شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو (اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ، تقدیر و قضا اور اس کی رضا و خوشنودی کے تئیں) جھکا دے اور فرمان الٰہی کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس اجر و ثواب کے لئے اچھے عمل کرے جو موت کے بعد پائے گا۔ نیز احمق و نادان اور بزدل شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے تابع بنا دے (یعنی نفس جن حرام و مشتبہ چیزوں اور دنیاوی لذات و مرغوبات کا خواہشمند ہو، ان کو اختیار کر کے گویا اپنے آپ کو خواہش نفس کا اسیر بنا دے اور گناہوں میں مبتلا ہونے، فرمان حق کے خلاف چلنے، عمل خیر اور توبہ و استغفار کی راہ اختیار نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس بات کا متمنی اور آرزو مند ہو کہ وہ اس سے راضی ہو، اس کو بخش دے اور اس کو جنت میں داخل کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

 

تشریح

 

 نووی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ نے اور دیگر علما محدثین نے وضاحت کی ہے من دان نفسہ دراصل حاسبھا کے مفہوم میں ہے یعنی عقلمند و بہادر وہ شخص ہے جو اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے قول و فعل اور اپنی حالت کا خود حساب کرے، پس اگر وہ دیکھے کہ اس کے اعمال و احوال اور کردار و گفتار پر نیکیوں کا غلبہ ہے تو خدا کا شکر ادا کرے اور اگر اس کو برائیوں کا غلبہ معلوم ہو تو توبہ و انابت کے ذریعہ اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہو، برائیوں کا ازالہ کرے اور پچھلی زندگی میں جو عبادات و اعمال صالحہ فوت ہو گئے ہیں ان کا تدارک کرے قبل اس کے کہ آخرت کے سخت عذاب و مواخذہ میں گرفتار کیا جائے۔ چنانچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا یعنی اپنے نفس کا احتساب کرو قبل اس کے کہ آخرت میں تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت(وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ) 59۔ الحشر:18) یعنی نفس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل آخرت کے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔

 حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دانا مومن وہ ہے جو اپنے اندر اتنی طاقت و مضبوطی رکھے کہ اس کا نفس اپنی خواہشات کے فریب میں مبتلا نہ کر سکے، اور نادان مومن وہ ہے جو اس درجہ کمزور ناتواں ہو کہ اس کا نفس اس کو اپنی خواہشات کا اسیر بنا لے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گناہ و معصیت کی راہ کو ترک نہ کرنا، توبہ و استغفار اور عمل خیر کے ذریعہ اپنی زندگی کو پاکیزہ نہ بنانا اور خدا و رسول کی مرضی کے خلاف چلنا اور پھر امید یہ (رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا اور دین و دنیا کی فلاح و کامیابی سے نوازے گا نیز زبان سے یہ کہتے رہنا کہ میرا رب تو بڑا رحیم و کریم ہے، وہ مجھے بخش ہی دے گا اور جنت میں پہنچا دے گا دراصل نفس کا ایک ایسا فریب ہے جس کے ذریعہ شیطان گمراہی سے نکلنے نہیں دینا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت(ماغرک بربک الکریم)۔ اور فرمایا آیت(نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم) ایک موقع پر یوں واضح فرمایا کہ آیت(ۭاِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ) 7۔ الاعراف:56) اور فرمایا آیت(اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۙ اُولٰۗىِٕكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 2۔ البقرۃ:218)۔ ان آیتوں کا حاصل یہی ہے کہ عمل تو نہ کرنا، برائی کے راستہ کو تو نہ چھوڑنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا لا حاصل ہے۔ سیدھا راستہ بس یہی ہے کہ برائی کے راستہ کو چھوڑ دیا جائے، اعتقادی و عملی زندگی کو دینی و اخروی پاکیزگی و سلامتی کے سانچے میں ڈھال دیا جائے اور ہر عمل خیر کی راہ میں کوئی تقصیر ٍو کوتاہی نہ کی جائے، اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار بھی رہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے تو اس صورت میں رحمت خداوندی کا استحقاق نصیب ہو سکتا ہے۔

 حضرت شیخ ابن عباد شاذلی رحمۃ اللہ نے لکھا ہے کہ عارف باللہ علما نے وضاحت کی ہے کہ خدا کی رحمت کے تئیں وہ جھوٹی امید کہ جس پر ناروا اعتماد کر کے انسان عمل و عبادت کی راہ ترک کر دے اور وہ امید اس کو گناہ و معصیت کی زندگی کا بیباک راہرو بنا دے، حقیقت میں امید نہیں ہے بلکہ نفس کا فریب آرزو اور شیطان کا دھوکا ہے۔

 حضرت معروف کرخی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔  عمل کے بغیر جنت کی طلب گناہوں میں سے ایک گناہ ہے (خدا ترسی و پاکیزگی عمل کا  ذریعہ و تعلق اختیار کئے بغیر شفاعت کی امید فریب کی ایک قسم ہے اور اس ذات کی رحمت کا امیدوار ہونا کہ جس کی اطاعت فرمانبرداری نہ کرے بڑی جہالت و حماقت ہے۔

 حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ نے فرمایا۔ خدا کے بندو۔ ان باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں سے دور رہو جو حماقت کی وادی ہے اور جس میں لوگ گرے ہوئے ہیں خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو محض اس کی آرزوؤں کے سہارے نہ دنیا میں کامیابی و کامرانی سے نوازا ہے اور نہ آخرت کی خیر و فلاح کا مستحق گردانا ہے۔

 حضرت عمرو بن منصور رحمۃ اللہ نے اپنے متعلقین میں سے ایک شخص کو لکھا تھا۔ نادان! تم اپنی عمر کی درازی کے آرزو مند ہو، اور اللہ تعالی سے اس بات کے امید وار ہو کہ وہ تمہارے بد عملیوں کے باوجود تمہیں اپنی رحمت سے نوازے؟ ہوش میں آؤ، یہ کیا ٹھنڈا لوہا کوٹنے کی سعی میں مصروف ہو۔

خدا ترس لوگوں کے لئے دولت بری چیز نہیں

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ میں سے ایک شخص کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ کر ہمارے درمیان تشریف فرما ہو گئے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر مبارک پر غسل کے پانی کی تری تھی، ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بہت خوش دل و شادماں دیکھ رہے ہیں (جس کے آثار چہرہ اقدس پر نمایاں ہیں) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں۔ راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اہل مجلس دولتمندی کے ذکر میں مشغول ہو گئے یعنی آپس میں یہ گفتگو کرنے لگے کہ مالداری دولتمندی اچھی چیز ہے یا بری چیز! رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری یہ گفتگو سن کر فرمایا۔ اس شخص کا دولت مند ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور جسم کی صحت مندی، خدا سے ڈرنے والے یعنی متقی و پرہیز گار شخص کے لئے دولت مندی سے زیادہ بہتر ہے (اگرچہ وہ صحت مندی فقر و افلاس کے ساتھ کیوں نہ ہو) نیز شادمانی و خوش دلی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے (جس پر اللہ تعالیٰ کا شکر کا ادا کرنا واجب ہے اور اس کے بارے میں قیامت کے دن بندہ سے سوال ہو گا، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا گیا ہےآیت(ثُمَّ لَتُسَْٔلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ) 102۔ التکاثر: 8)(احمد)

مال و دولت مومن کی ڈھال ہے

حضرت سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اگلے زمانہ میں مال کو برا سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس زمانہ کے لوگوں میں زہد و قناعت بہت زیادہ تھی، علاوہ ازیں اس وقت کے بادشاہوں اور حاکموں کی طرف سے اپنی رعایا کی بنیادی ضرورتوں کی فراہمی کا خاص انتظام ہوتا تھا اور لوگ بلا کسی سعی و کوشش کے اور بغیر کسی الجھن و پریشانی کے گھر بیٹھے قوت لایموت حاصل کر لیتے تھے، نیز اس سلسلے میں ان بادشاہوں اور حاکموں کے کسی تعامل و رویہ سے اپنے تئیں کوئی ذلت و خواری بھی محسوس نہیں کرتے تھے اس لئے روپیہ پیسہ کمانے اور مال و دولت حاصل کرنے کو برا سمجھا جاتا تھا، لیکن جہاں تک اس زمانہ کا تعلق ہے تو اب مال و دولت مسلمانوں کی ڈھال ہے (کیونکہ آج کل کے لوگوں میں زہد و قناعت کے جذبات مضمحل ہو گئے ہیں اور ضروریات زندگی کی احتیاج کا بہت زیادہ غلبہ ہو گیا ہے۔ علاوہ ازیں اب سلاطین و امرا اور حکومتوں کی طرف سے لوگوں کی کفالت کا کوئی نظم بھی باقی نہیں رہا ہے نتیجہ کے طور پر اگر کوئی شخص کسب و محنت کر کے مال حاصل نہ کرے تو اس کو اپنی ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے ان لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے جو مالی و اخلاقی و مدد اعانت سے زیادہ ذلیل و خوار کرتے ہیں پس اس صورت میں حلال مال مومن کے لئے بہت بڑی ڈھال ہے جس کے ذریعہ وہ نہ صرف حرام و مشتبہ معاملات میں پڑنے سے بچتا ہے بلکہ دنیا دار امرا اور ظالموں کی مصاحبت و حاشیہ نشینی کی ذلت و خواری سے بھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتا ہے۔ حضرت سفیان نے یہ بھی فرمایا کہ اگر ہم لوگوں کے پاس یہ درہم و دینار اور روپیہ پیسہ نہ ہوتا تو یہ آج کل کے سلاطین و امرا ہمیں ذلیل و پامال کر ڈالتے، نیز انہوں نے فرمایا۔ کسی شخص کے پاس اگر تھوڑا بہت بھی مال ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کی اصلاح کرے یعنی اس تھوڑے سے مال کو یوں ہی ضائع نہ ہونے دے بلکہ تدبیر و  ہنرمندی کے ساتھ اس کو کسی تجارت وغیرہ میں لگا کر بڑھانے کی سعی کرے یا یہ کہ اس کو بہت کفایت و قناعت کے ساتھ خرچ کرے تاکہ جلدی ختم نہ ہو جائے کیونکہ ہمارا یہ زمانہ ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی محتاج و مفلس ہوتا تو دنیا حاصل کرنے کی خاطر اپنے دین کو اپنے ہاتھ سے گنوانے والا سب سے پہلے شخص وہی ہو گا۔ حضرت سفیان رضی اللہ عنہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ حلال مال، اسراف کا روادار نہیں ہوتا۔ (شرح السنہ)

 

تشریح

 

 حضرت سفیان رحمۃ اللہ کے آخری قول کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص محنت و مشقت برداشت کر کے اور جائز وسائل و ذرائع سے جو کچھ کماتا ہے وہ بڑا پاکیزہ مال ہوتا ہے، لہٰذا اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس حلال وپاکیزہ مال کو فضول خرچیوں میں ضائع نہ کرے بلکہ کفایت شعاری اور احتیاط کے ساتھ خرچ کرے، اور تھوڑا بہت پس انداز کرنے کی کوشش بھی کرے اور اس کی حفاظت کرے تاکہ وہ کسی فوری ضرورت کے وقت کسی کا محتاج نہ رہے اور قلبی اطمینان و استغنا کی وجہ سے اپنے دین کی سلامتی حاصل رہے۔ یا اس قول کے یہ معنی ہیں کہ محنت و مشقت اور جائز وسائل و ذرائع سے کمایا ہوا مال اتنا زیادہ نہیں ہوتا کہ اس کو فضول خرچیوں میں ضائع کیا جا سکے۔ بلکہ وہ بہت تھوڑا اور مختصر ہوتا ہے کہ جائز ضروریات زندگی کو بھی مشکل ہی سے پورا کر پاتا ہے۔

ساٹھ سال کی عمر، بڑی عمر ہے

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اعلان کرنے والا (فرشتہ) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ اعلان کرے گا کہ ساٹھ سال کی عمر والے لوگ کہاں (یعنی دنیا میں جن لوگوں نے ساٹھ سال کی عمر پائی، وہ اپنی عمر کا حساب دینے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں اور یہ عمر، وہ عمر ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے۔ کیا ہم نے تم کو ایسی عمر نہیں دی جس میں نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت حاصل کرے حالانکہ تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  ’ڈرانے والا‘ سے مراد یا تو اللہ تعالیٰ کے احکام و ہدایات یعنی قرآن مجید اور اس کے رسول ہیں، یا پھر اس سے مراد بڑھاپا اور موت ہیں، حاصل یہ کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے اتنی طویل عمر عطا کی ہو اور آخرت کی طرف متوجہ ہونے کے اتنے زیادہ مواقع نصیب کئے ہوں وہ شخص اگر عقل و دانش سے کام لے کر اپنی آخرت کی بھلائی و کامیابی کے لئے کچھ نہ کر سکے اور عمر کا اتنا طویل عرصہ یوں ہی گنوا کر اس دنیا سے چلا جائے تو اس سے زیادہ احمق و نادان اور اس سے زیادہ بد نصیب اور کون ہو سکتا ہے۔ لہٰذا ایسے شخص کو قیامت کے دن سخت جواب دہی کا سامنا کرنا پڑے گا اور وہاں کوئی اور عذر خواہی اس کے کام نہیں آئے گی۔

حسن عمل کے ساتھ عمر کی زیادتی درجات کے بلندی کا باعث ہے

حضرت عبداللہ بن شداد کہتے ہیں، بنی عذرہ کے قبیلہ کے کچھ لوگ کہ جن کی تعداد تین تھی، نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا (اور پھر وہ لوگ حصول دین کی خاطر اور خدا کی راہ میں ریاضت و مجاہدہ کی نیت سے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ٹھہر گئے، ان کی مالی حالت چونکہ بہت خستہ تھی اور وہ ضروریات زندگی کی کفالت خود کرنے پر قادر نہیں تھے لہٰذا) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کون ہے جو ان لوگوں کی خبر گیری کے سلسلے میں مجھے بے فکر کر دے؟ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا کہ کیا تم میں سے کوئی شخص ایسا ہے جو ان لوگوں کی ضروریات زندگی کی کفالت اور ان کی خبر گیری و دلداری کی ذمہ داری برداشت کر سکے، تاکہ مجھے ان کا خبر گیراں بننے کی ضرورت نہ رہے اور میں ان کی طرف سے بے فکر ہو جاؤں) حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں اس ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں چنانچہ وہ تینوں حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے لگے (کچھ دنوں کے بعد) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی طرح ایک لشکر بھیجا تو اس لشکر کے ساتھ ان تینوں میں سے بھی ایک شخص گیا اور میدان جنگ میں دشمنوں سے لڑتا ہوا شہید ہو گیا، اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک اور لشکر بھیجا اس کے ساتھ دوسرا شخص گیا اور وہ بھی دشمنوں سے لڑتے ہوا شہید ہو گیا، اور پھر تیسرا شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہو گیا اور یہ شص اگرچہ میدان جنگ میں شہید ہونے کا موقع نہیں پا سکا لیکن مرابط ضرور تھا، اور میدان جنگ میں دشمنوں کے ساتھ جہاد کرنے کی نیت بھی رکھتا تھا، راوی کہتے ہیں کہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان تینوں میں سے دو کی شہادت اور ایک کی قدرتی موت کے بعد ایک دن خواب میں میں نے دیکھا کہ تینوں جنت میں ہیں نیز میں نے دیکھا کہ جو شخص اپنے بستر پر اللہ کو پیارا ہوا تھا وہ تو سب سے آگے ہے اور جو شخص دوسرے لشکر کے ساتھ جا کر شہید ہوا تھا، سب سے آخر میں ہے، چنانچہ ان تینوں کو اس طرح ایک دوسرے کے آگے پیچھے دیکھ کر میرے دل میں خلجان پیدا ہو گیا کہ قاعدہ کے مطابق تو سب سے آگے اور نمایاں اس شخص کے ہونا چاہئے تھا جو پہلے خدا کی راہ میں شہید ہوا تھا یا یہ کہ دونوں شہید ایک ساتھ برابر ہوتے کیونکہ دونوں شہید ہونے کی حیثیت سے یکساں مرتبہ کے مستحق تھے اور جو شخص اپنے بستر پر فوت ہوا تھا اس کو سب سے آخر میں ہونا چاہئے تھا، لیکن میں نے ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا وہ میرے لئے بڑی تعجب انگیز اور شک و شبہ میں مبتلا کرنے والی تھی چنانچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اپنے اس خواب کا ذکر کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وہ خواب اور اس پر میرا رد عمل سن کر فرمایا تو پھر اس میں تمہارے شک و شبہ اور انکار کی باعث کون سی چیز ہے؟ تم نے اپنے خواب میں ان تینوں کو جس ترتیب کے ساتھ دیکھا ہے وہ بالکل موزوں ہے کیونکہ اللہ کے نزدیک اس مسلمان سے زیادہ افضل کوئی نہیں ہے جس نے اسلام کی حالت میں زیادہ عمر پائی اور اس کی وجہ سے اس کو خدا کی تسبیح و تکبیر اور تہلیل اور دیگر تمام مالی و بدنی عبادتوں کا زیادہ موقع ملا۔

 

تشریح

 

 ظاہر ہے کہ جس شخص نے بعد میں شہادت پائی اس کی عمر پہلے شہید ہونے والے کی عمر سے زائد ٹھہری، اور جب اس کی عمر زیادہ ہوئی تو اس کے اچھے عمل بھی زیادہ ہوئے، لہٰذا پہلے شہید ہونے والے شخص سے اس کا افضل وبرتر ہونا کسی شک و شبہ کا محل نہیں ہو سکتا، رہی اس شخص کی بات جو اپنے دونوں ساتھیوں کے بعدا پنے بستر پر فوت ہوا تو اس کی عمر گویا ان دونوں سے زائد ہوئی اور اسی اعتبار سے اس کے عمل بھی ان دونوں کے عمل سے زیادہ ہوئے اس لئے وہ اپنے دونوں ساتھیوں سے کہ جو اگرچہ میدان جنگ میں شہید ہوئے تھے زیادہ افضل قرار پایا، لیکن اس کے بارے میں وہی توجیہ مد نظر رہنی چاہئے جو دوسری فصل میں حضرت عبید بن خالد کی روایت کی تشریح میں بیان کی جا چکی ہے جس کی طرف یہاں بھی ترجمہ کے دوران بین القوسین اشارہ کر دیا گیا ہے کہ وہ شخص گو شہادت نہیں پا سکا تھا مگر مرابط ہونے اور جہاد کرنے کی صادق نیت رکھنے کی وجہ سے شہید ہی کے مرتبہ کا حامل قرار دیا گیا۔

عبادت گزار زندگی کی اہمیت

حضرت محمد بن ابو عمیرہ رضی اللہ عنہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہیں، فرماتے ہیں کہ  اگر کوئی بندہ اپنی پیدائش کے وقت سے، بڑھاپے میں مرنے تک اپنی پوری اور طویل زندگی کے دوران صرف خدا کی طاعت و عبادت میں سرنگوں رہے تو وہ بھی اس قیامت کے دن عمل کا ثواب دیکھ کر اپنی اس تمام طاعت و عبادت کو بہت کم جانے گا اور یہ آرزو کرے گا کہ کاش اس کو دنیا میں پھر بھیج دیا جائے تاکہ اس کا اجر و ثواب زیادہ ہو جائے۔ (ان دونوں روایتوں کو امام احمد نے نقل کیا ہے)۔

 

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ عمر کا طویل ہونا خدا کی بہت بڑی نعمت ہے بشرطیکہ اس لمبی عمر کو یوں ہی ضائع نہ کر دیا جائے بلکہ اس کو خدا کی اطاعت و عبادت، دین کی خدمت اور اچھے کاموں میں صرف کیا جائے۔ لہٰذا عمر جس قدر زیادہ ہو گی اس قدر اعمال صالحہ بھی زیادہ ہوں گے اور اعمال صالحہ جتنے زیادہ ہوں گے اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب بھی حاصل ہو گا جو قیامت کے دن سب سے بڑا سرمایہ ہو گا۔

 چنانچہ عبادت گزار زندگی کی اسی اہمیت کو ظاہر کرنے کے لئے یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص اس دنیا میں پیدا ہوتے ہی، یا یہ کہ بالغ ہوتے ہی خدا کی طاعت و عبادت میں مصروف ہو جائے اور بڑھاپے کی عمر میں پہنچ کر وفات پانے کے وقت تک بس سجدہ و نماز ہی میں منہ کے بل پڑا رہے اور اس کی زندگی کا کوئی بھی لمحہ دنیاوی کام میں صرف نہ ہو تو وہ شخص بھی قیامت کے دن طاعت و عبادت اور اعمال صالحہ کے اجر و ثواب کی فضیلت و اہمیت دیکھ کر اپنی اس طویل عمر کی تمام طاعات و عبادات کو بہت کم جانے گا اور یہی آرزو کرے گا کہ کاش! مجھے طاعت و عبادت اور اچھے اعمال کرنے کا ارادہ اور موقع مل جائے اور مجھے دنیا میں واپس کر دیا جائے تاکہ میں وہاں زیادہ سے زیادہ عمل کر سکوں اور زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب لے کر یہاں آؤں۔