حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ عَلِيِّ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "كَانَ قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرُ وَكَانَ النَّضِيرُ أَشْرَفَ مِنْ قُرَيْظَةَ فَكَانَ إِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْظَةَ رَجُلًا مِنَ النَّضِيرِ قُتِلَ بِهِ وَإِذَا قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ فُودِيَ بِمِائَةِ وَسْقٍ مِنْ تَمْرٍ، فَلَمَّا بُعِثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتَلَ رَجُلٌ مِنَ النَّضِيرِ رَجُلًا مِنْ قُرَيْظَةَ، فَقَالُوا: ادْفَعُوهُ إِلَيْنَا نَقْتُلُهُ، فَقَالُوا: بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَوْهُ، فَنَزَلَتْ: وَإِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَهُمْ بِالْقِسْطِ سورة المائدة آية 42، وَالْقِسْطُ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ، ثُمَّ نَزَلَتْ: أَفَحُكْمَ الْجَاهِلِيَّةِ يَبْغُونَ سورة المائدة آية 50"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قُرَيْظَةُ، وَالنَّضِيرُ جَمِيعًا مِنْ وَلَدِ هَارُونَ النَّبِيِّ عَلَيْهِ السَّلَام.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قریظہ اور نضیر دو (یہودی) قبیلے تھے، نضیر قریظہ سے زیادہ باعزت تھے، جب قریظہ کا کوئی آدمی نضیر کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو اسے اس کے بدلے قتل کر دیا جاتا، اور جب نضیر کا کوئی آدمی قریظہ کے کسی آدمی کو قتل کر دیتا تو سو وسق کھجور فدیہ دے کر اسے چھڑا لیا جاتا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی تو نضیر کے ایک آدمی نے قریظہ کے ایک آدمی کو قتل کر دیا، تو انہوں نے مطالبہ کیا کہ اسے ہمارے حوالے کرو، ہم اسے قتل کریں گے، نضیر نے کہا: ہمارے اور تمہارے درمیان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فیصلہ کریں گے، چنانچہ وہ لوگ آپ کے پاس آئے تو آیت «وإن حكمت فاحكم بينهم بالقسط» "اگر تم ان کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو" اتری، اور انصاف کی بات یہ تھی کہ جان کے بدلے جان لی جائے، پھر آیت «أفحكم الجاهلية يبغون» "کیا یہ لوگ جاہلیت کے فیصلہ کو پسند کرتے ہیں؟" نازل ہوئی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: قریظہ اور نضیر دونوں ہارون علیہ السلام کی اولاد ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۴(۴۷۳۶)، (تحفة الأشراف: ۶۱۰۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ إِيَادٍ، حَدَّثَنَا إِيَادٌ، عَنْ أَبِي رِمْثَةَ، قَالَ: "انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي: ابْنُكَ هَذَا ؟ قَالَ: إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ، قَالَ: حَقًّا، قَالَ: أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَاحِكًا مِنْ ثَبْتِ شَبَهِي فِي أَبِي وَمِنْ حَلِفِ أَبِي عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ، وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164".
ابورمثہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا، آپ نے میرے والد سے پوچھا: "یہ تمہارا بیٹا ہے؟" میرے والد نے کہا: ہاں رب کعبہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سچ مچ؟" انہوں نے کہا: میں اس کی گواہی دیتا ہوں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے، کیونکہ میں اپنے والد کے مشابہ تھا، اور میرے والد نے قسم کھائی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! نہ یہ تمہارے جرم میں پکڑا جائے گا، اور نہ تم اس کے جرم میں" اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «ولا تزر وازرة وزر أخرى» "کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہ اٹھائے گی" (الانعام: ۱۶۴، الاسراء: ۱۵، الفاطر: ۱۸) ۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۴۲۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۳۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ، فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، وَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو (اپنے کسی رشتہ دار کے) قتل ہونے، یا زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی ہو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہو گا: یا تو قصاص لے لے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے، اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو، اور جس نے ان (اختیارات) میں زیادتی کی تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۳ (۲۶۲۳)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۵۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۴/۳۱)، سنن الدارمی/الدیات ۱ (۲۳۹۶) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُفِعَ إِلَيْهِ شَيْءٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ (پہلے) آپ اس میں معاف کر دینے کا حکم دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۳ (۴۷۸۷، ۴۷۸۸)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۳۵ (۲۶۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۱۳، ۲۵۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْوَلِيِّ: أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قتل کر دیا گیا تو یہ مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیا، آپ نے اس (قاتل) کو مقتول کے وارث کے حوالے کر دیا، قاتل کہنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث سے فرمایا: "سنو! اگر یہ سچا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا، تو تم جہنم میں جاؤ گے" یہ سن کر اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، اس کے دونوں ہاتھ ایک تسمے سے بندھے ہوئے تھے، وہ اپنا تسمہ گھسیٹتا ہوا نکلا، تو اس کا نام ذوالنسعۃ یعنی تسمہ والا پڑ گیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۳ (۱۴۰۷)، سنن النسائی/القسامة ۳ (۴۷۲۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۳۴ (۲۶۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۵۰۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: "كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جِيءَ بِرَجُلٍ قَاتِلٍ فِي عُنُقِهِ النِّسْعَةُ، قَالَ: فَدَعَا وَلِيَّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ: أَتَعْفُو ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَقْتُلُ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ: أَتَعْفُو ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَقْتُلُ ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِهِ، قَالَ: فَعَفَا عَنْهُ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ النِّسْعَةَ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: "کیا تم معاف کرو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو کیا دیت لو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو کیا تم قتل کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اچھا لے جاؤ اسے" چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "کیا تم اسے معاف کرو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم دیت لو گے؟" اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم قتل کرو گے؟" اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لے جاؤ" چوتھی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! اگر تم اسے معاف کر دو گے تو یہ اپنا اور مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر پر اٹھائے گا" یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا۔ وائل کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھا وہ اپنے گلے میں پڑا تسمہ گھسیٹ رہا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۱۰ (۱۶۸۰)، سنن النسائی/القسامة ۳ (۴۷۲۸)، القضاء ۲۵ (۵۴۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۹)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الدیات ۸ (۲۴۰۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۹)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَبَشِيٍّ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا قَتَلَ ابْنَ أَخِي، قَالَ: كَيْفَ قَتَلْتَهُ ؟ قَالَ: ضَرَبْتُ رَأْسَهُ بِالْفَأْسِ وَلَمْ أُرِدْ قَتْلَهُ، قَالَ: هَلْ لَكَ مَالٌ تُؤَدِّي دِيَتَهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَرْسَلْتُكَ تَسْأَلُ النَّاسَ تَجْمَعُ دِيَتَهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَوَالِيكَ يُعْطُونَكَ دِيَتَهُ ؟ قَالَ: لَا، قَالَ لِلرَّجُلِ: خُذْهُ، فَخَرَجَ بِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ إِنْ قَتَلَهُ كَانَ مِثْلَهُ، فَبَلَغَ بِهِ الرَّجُلُ حَيْثُ يَسْمَعُ قَوْلَهُ، فَقَالَ: هُوَ ذَا فَمُرْ فِيهِ مَا شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْهُ، وَقَالَ مَرَّةً: دَعْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِ صَاحِبِهِ وَإِثْمِهِ فَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، قَالَ: فَأَرْسَلَهُ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک حبشی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے، آپ نے اس سے پوچھا: "تم نے اسے کیسے قتل کر دیا؟" وہ بولا: میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور وہ مر گیا، میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا، آپ نے پوچھا: "کیا تمہارے پاس مال ہے کہ تم اس کی دیت ادا کر سکو" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "بتاؤ اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم لوگوں سے مانگ کر اس کی دیت اکٹھی کر سکتے ہو؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے مالکان اس کی دیت ادا کر دیں گے؟" اس نے کہا: نہیں، تب آپ نے اس شخص (مقتول کے وارث) سے فرمایا:"اسے لے جاؤ" جب وہ اسے قتل کرنے کے لیے لے کر چلا تو آپ نے فرمایا: "اگر یہ اس کو قتل کر دے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا" وہ آپ کی بات سن رہا تھا جب اس کے کان میں یہ بات پہنچی تو اس نے کہا: وہ یہ ہے، آپ جو چاہیں اس کے سلسلے میں حکم فرمائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے چھوڑ دو، وہ اپنا اور تمہارے بھتیجے کا گناہ لے کر لوٹے گا اور جہنمیوں میں سے ہو گا" چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۴۹۹)، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ: "كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي ؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں: ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے" تو اللہ کی قسم! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے؟ ۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان اور ابوبکر رضی اللہ عنہما نے تو جاہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ۱ (۲۱۵۸)، سنن النسائی/المحاربة ۶ (۴۰۲۴)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۱ (۲۵۳۳)، (تحفة الأشراف: ۹۷۸۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۶۱، ۶۲، ۶۵، ۷۰)، دی/ الحدود ۲ (۲۳۴۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضُّمَرِيَّ. ح وأَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ، وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُ، يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُوسَى، وَجَدِّهِ، وَكَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ وَهْبٍ: أَنْ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَشْجَعَ فِي الْإِسْلَامِ وَذَلِكَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الْأَشْجَعِيِّ لِأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ وَتَكَلَّمَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لِأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى أُدْخِلَ عَلَى نِسَائِهِ مِنَ الْحَرْبِ وَالْحُزْنِ مَا أَدْخَلَ عَلَى نِسَائِي، قَالَ: ثُمَّ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، إِلَى أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِكَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرِقَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ مَثَلًا إِلَّا غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا اسْنُنِ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ وَذَلِكَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ، فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّى تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَكَ وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ بِسِلَاحِكَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ ! اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ بِصَوْتٍ عَالٍ، زَادَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّى دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ"، قَالَ ابْنُ إِسْحَاق: فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: الْغِيَرُ الدِّيَةُ.
زبیر بن عوام اور ان والد عوام رضی اللہ عنہما (یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے) سے روایت ہے کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کر دیا، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ عطفان سے تھا، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں، اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟" عیینہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج و غم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچایا ہے، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟" عیینہ نے پھر اسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے مکیتل کہا جاتا تھا، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لیے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو، اور پچاس مدینے لوٹ کر دینا"۔ اور یہ واقعہ ایک سفر کے دوران پیش آیا تھا، محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ بیٹھا، اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے، اب میں توبہ کرتا ہوں، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ آواز بلند فرمایا: "کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے، اے اللہ! محلم کو نہ بخشنا" ابوسلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کر محلم کھڑا ہوا، وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں: محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ «غير» کے معنی دیت کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۴ (۲۶۲۵)، (تحفة الأشراف: ۳۸۲۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۵/۱۱۲، ۶/۱۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدُ بْنُ مُسَرْهَدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا شُرَيْحٍ الْكَعْبِيَّ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَا إِنَّكُمْ يَا مَعْشَرَ خُزَاعَةَ قَتَلْتُمْ هَذَا الْقَتِيلَ مِنْ هُذَيْلٍ وَإِنِّي عَاقِلُهُ، فَمَنْ قُتِلَ لَهُ بَعْدَ مَقَالَتِي هَذِهِ قَتِيلٌ فَأَهْلُهُ بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ: أَنْ يَأْخُذُوا الْعَقْلَ، أَوْ يَقْتُلُوا".
ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو خزاعہ کے لوگو! تم نے ہذیل کے اس شخص کو قتل کیا ہے، اور میں اس کی دیت دلاؤں گا، میری اس گفتگو کے بعد کوئی قتل کیا گیا تو مقتول کے لوگوں کو دو باتوں کا اختیار ہو گا یا وہ دیت لے لیں یا قتل کر ڈالیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۳ (۱۴۰۶)، (تحفة الأشراف: ۱۲۰۵۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۴/۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدٍ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، حَدَّثَنِي يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِيأَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا حَرْبُ بْنُ شَدَّادٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا أَبُو هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا فُتِحَتْ مَكَّةُ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "مَنْ قُتِلَ لَهُ قَتِيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُودَى، أَوْ يُقَادَ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ يُقَالُ لَهُ أَبُو شَاةٍ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبْ لِي، قَالَ الْعَبَّاسُ: اكْتُبُوا لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اكْتُبُوا لِأَبِي شَاةٍ"، وَهَذَا لَفْظُ حَدِيثِ أَحْمَدَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: اكْتُبُوا لِي يَعْنِي خُطْبَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب مکہ فتح ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا: "جس کا کوئی قتل کیا گیا تو اسے اختیار ہے یا تو دیت لے لے، یا قصاص میں قتل کرے" یہ سن کر یمن کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے ابوشاہ کہا جاتا تھا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے یہ لکھ دیجئیے (عباس بن ولید کی روایت «اکتب لی» کے بجائے «اکتبوا لی» یہ صیغۂ جمع ہے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابو شاہ کے لیے لکھ دو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «اکتبوا لی» سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۲۰۱۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۳۸۳، ۱۵۳۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ، وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا دُفِعَ إِلَى أَوْلِيَاءِ الْمَقْتُولِ، فَإِنْ شَاءُوا قَتَلُوهُ وَإِنْ شَاءُوا أَخَذُوا الدِّيَةَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی کافر کے بدلے مومن کو قتل نہیں کیا جائے گا، اور جو کسی مومن کو دانستہ طور پر قتل کرے گا، وہ مقتول کے وارثین کے حوالے کر دیا جائے گا، وہ چاہیں تو اسے قتل کریں اور چاہیں تو دیت لے لیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/ القسامة ۲۷ (۴۸۰۵)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۳۰)، ویأتی برقم (۴۵۴۱)، (تحفة الأشراف: ۸۷۰۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مَطَرٌ الْوَرَّاقُ، وَأَحْسَبُهُ عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا أُعْفِيَ مَنْ قَتَلَ بَعْدَ أَخْذِهِ الدِّيَةَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں اسے ہرگز نہیں معاف کروں گا ۱؎ جو دیت لینے کے بعد بھی (قاتل کو) قتل کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۲۲۲۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۳/۳۶۳) (ضعیف)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس سے قصاص لے کر رہوں گا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: "أَنّ امْرَأَةً يَهُودِيَّةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِشَاةٍ مَسْمُومَةٍ فَأَكَلَ مِنْهَا، فَجِيءَ بِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهَا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَتْ: أَرَدْتُ لِأَقْتُلَكَ، فَقَالَ: مَا كَانَ اللَّهُ لِيُسَلِّطَكِ عَلَى ذَلِكَ، أَوْ قَالَ: عَلَيَّ، فَقَالُوا أَلَا نَقْتُلُهَا ؟ قَالَ: لَا، فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود بکری لے کر آئی، آپ نے اس میں سے کچھ کھا لیا، تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ نے اس سلسلے میں اس سے پوچھا، تو اس نے کہا: میرا ارادہ آپ کو مار ڈالنے کا تھا، آپ نے فرمایا: "اللہ تجھے کبھی مجھ پر مسلط نہیں کرے گا" صحابہ نے عرض کیا: کیا ہم اسے قتل نہ کر دیں، آپ نے فرمایا: "نہیں" چنانچہ میں اس کا اثر برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مسوڑھوں میں دیکھا کرتا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الھبة ۲۸ (۲۶۱۷)، صحیح مسلم/السلام ۱۸ (۲۱۹۰)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۲۸۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ. ح وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَاعَبَّادٌ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، وأَبِي سَلَمَةَ قَالَ هَارُونُ: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: "أَنَّ امْرَأَةً مِنْ الْيَهُودِ أَهْدَتْ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَاةً مَسْمُومَةً، قَالَ: فَمَا عَرَضَ لَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذِهِ أُخْتُ مَرْحَبٍ الْيَهُودِيَّةُ الَّتِي سَمَّتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک زہر آلود بکری بھیجی، لیکن آپ نے اس عورت سے کوئی تعرض نہیں کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مرحب کی ایک یہودی بہن تھی جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۱۴۰، ۱۳۱۲۲، ۱۵۱۴۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجزیة ۷ (۳۱۶۹)، المغازي ۴۱ (۴۲۴۹)، الطب ۵۵ (۵۷۷۷) (صحیح) ( سفیان بن حسین کی زہری سے روایت میں ضعف ہے، لیکن اصل حدیث صحیح ہے اور صحیح بخاری میں ہے)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: كَانَ جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ يُحَدِّثُ: "أَنَّ يَهُودِيَّةً مِنْ أَهْلِ خَيْبَرَ سَمَّتْ شَاةً مَصْلِيَّةً ثُمَّ أَهْدَتْهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الذِّرَاعَ فَأَكَلَ مِنْهَا وَأَكَلَ رَهْطٌ مِنْ أَصْحَابِهِ مَعَهُ، ثُمَّ قَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ، وَأَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ فَدَعَاهَا، فَقَالَ لَهَا: أَسَمَمْتِ هَذِهِ الشَّاةَ، قَالَتِ الْيَهُودِيَّةُ: مَنْ أَخْبَرَكَ ؟ قَالَ: أَخْبَرَتْنِي هَذِهِ فِي يَدِي لِلذِّرَاعِ، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَمَا أَرَدْتِ إِلَى ذَلِكَ ؟ قَالَتْ: قُلْتُ إِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَنْ يَضُرَّهُ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ نَبِيًّا اسْتَرَحْنَا مِنْهُ، فَعَفَا عَنْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَمْ يُعَاقِبْهَا، وَتُوُفِّيَ بَعْضُ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ أَكَلُوا مِنَ الشَّاةِ، وَاحْتَجَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كَاهِلِهِ مِنْ أَجْلِ الَّذِي أَكَلَ مِنَ الشَّاةِ، حَجَمَهُ أَبُو هِنْدٍ بِالْقَرْنِ وَالشَّفْرَةِ، وَهُوَ مَوْلًى لِبَنِي بَيَاضَةَ مِنْ الْأَنْصَارِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے تھے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا، پھر اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفہ میں بھیجا، آپ نے دست کا گوشت لے کر اس میں سے کچھ کھایا، آپ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی کھایا، پھر ان سے آپ نے فرمایا: "اپنے ہاتھ روک لو" اور آپ نے اس یہودیہ کو بلا بھیجا، اور اس سے سوال کیا: "کیا تم نے اس بکری میں زہر ملایا تھا؟" یہودیہ بولی: آپ کو کس نے بتایا؟ آپ نے فرمایا: "دست کے اسی گوشت نے مجھے بتایا جو میرے ہاتھ میں ہے" وہ بولی: ہاں (میں نے ملایا تھا)، آپ نے پوچھا: "اس سے تیرا کیا ارادہ تھا؟" وہ بولی: میں نے سوچا: اگر نبی ہوں گے تو زہر نقصان نہیں پہنچائے گا، اور اگر نہیں ہوں گے تو ہم کو ان سے نجات مل جائے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے معاف کر دیا، کوئی سزا نہیں دی، اور آپ کے بعض صحابہ جنہوں نے بکری کا گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری کے گوشت کھانے کی وجہ سے اپنے شانوں کے درمیان پچھنے لگوائے، جسے ابوہند نے آپ کو سینگ اور چھری سے لگایا، ابوہند انصار کے قبیلہ بنی بیاضہ کے غلام تھے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۰۰۶)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/المقدمة ۱۱ (۶۹) (ضعیف)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً، نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، قَالَ: فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ: مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ؟ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُتِلَتْ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَمْرَ الْحِجَامَةِ.
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی، پھر راوی نے ویسے ہی بیان کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے، ابوسلمہ کہتے ہیں: پھر بشر بن براء بن معرور انصاری فوت ہو گئے، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا بھیجا اور فرمایا: "تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟" پھر راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلسلہ میں حکم دیا: تو وہ قتل کر دی گئی، اور انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۴۵۰۹)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۲) (حسن صحیح) (ابوسلمہ نے اس حدیث میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا ہے، لیکن اس سے پہلے اور بعد کی حدیثوں میں صراحت ہے ملاحظہ ہو نمبر: ۴۵۰۹ اور ۴۵۱۲)
وضاحت: ۱؎ : اس سے پہلی والی حدیث میں معاف کر دیئے جانے کا ذکر ہے، جبکہ اس حدیث میں قتل کئے جانے کا ذکر ہے، قاضی عیاض فرماتے ہیں کہ روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ شروع میں جب زہر کھلانے کا علم ہوا، اور کہا گیا کہ اسے قتل کر دیا جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن جب اس زہر کی وجہ سے بشر بن البراء بن معرور انتقال کرگئے تب آپ نے اس یہودیہ کو ان کے ورثہ کے حوالے کر دیا، پھر وہ بطور قصاص قتل کی گئی۔ (عون المعبود ۱۲؍ ۱۴۹)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ"، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ فِي مَوْضِعٍ آخَرَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، زَادَ: فَأَهْدَتْ لَهُ يَهُودِيَّةٌ بِخَيْبَرَ شَاةً مَصْلِيَّةً سَمَّتْهَا، فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا وَأَكَلَ الْقَوْمُ، فَقَالَ: ارْفَعُوا أَيْدِيَكُمْ فَإِنَّهَا أَخْبَرَتْنِي أَنَّهَا مَسْمُومَةٌ، فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ الْأَنْصَارِيُّ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ: مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ؟ قَالَتْ: إِنْ كُنْتَ نَبِيًّا لَمْ يَضُرَّكَ الَّذِي صَنَعْتُ وَإِنْ كُنْتَ مَلِكًا أَرَحْتُ النَّاسَ مِنْكَ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُتِلَتْ، ثُمَّ قَالَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ: مَا زِلْتُ أَجِدُ مِنَ الْأَكْلَةِ الَّتِي أَكَلْتُ بِخَيْبَرَ، فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے، اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، نیز اسی سند سے ایک اور مقام پر ابوہریرہ کے ذکر کے بغیر صرف ابوسلمہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ قبول فرماتے تھے اور صدقہ نہیں کھاتے تھے، اس میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ کو خیبر کی ایک یہودی عورت نے ایک بھنی ہوئی بکری تحفہ میں بھیجی جس میں اس نے زہر ملا رکھا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے کھایا اور لوگوں نے بھی کھایا، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: "اپنے ہاتھ روک لو، اس (گوشت) نے مجھے بتایا ہے کہ وہ زہر آلود ہے" چنانچہ بشر بن براء بن معرور انصاری مر گئے، تو آپ نے اس یہودی عورت کو بلا کر فرمایا: "ایسا کرنے پر تجھے کس چیز نے آمادہ کیا؟" وہ بولی: اگر آپ نبی ہیں تو جو میں نے کیا ہے وہ آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو میں نے لوگوں کو آپ سے نجات دلا دی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تو وہ قتل کر دی گئی، پھر آپ نے اپنی اس تکلیف کے بارے میں فرمایا: جس میں آپ نے وفات پائی کہ میں برابر خیبر کے اس کھانے کے اثر کو محسوس کرتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت آ گیا کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۲۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۳۵۹) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا مَخْلَدُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنَّ أُمَّ مُبَشِّرٍ، قَالَتْ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ الَّذِي مَاتَ فِيهِ"مَا يُتَّهَمُ بِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ فَإِنِّي لَا أَتَّهِمُ بِابْنِي شَيْئًا إِلَّا الشَّاةَ الْمَسْمُومَةَ الَّتِي أَكَلَ مَعَكَ بِخَيْبَرَ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَأَنَا لَا أَتَّهِمُ بِنَفْسِي إِلَّا ذَلِكَ، فَهَذَا أَوَانُ قَطَعَتْ أَبْهَرِي"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُبَّمَا حَدَّثَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِهَذَا الْحَدِيثِ مُرْسَلًا، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرُبَّمَا حَدَّثَ بِهِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، وَذَكَرَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: أَنَّ مَعْمَرًا كَانَ يُحَدِّثُهُمْ بِالْحَدِيثِ مَرَّةً مُرْسَلًا فَيَكْتُبُونَهُ وَيُحَدِّثُهُمْ مَرَّةً بِهِ فَيُسْنِدُهُ فَيَكْتُبُونَهُ وَكُلٌّ صَحِيحٌ عِنْدَنَا، قَالَ عَبْدُ الرَّزَّاقِ: فَلَمَّا قَدِمَ ابْنُ الْمُبَارَكِ عَلَى مَعْمَرٍ، أَسْنَدَ لَهُ مَعْمَرٌ أَحَادِيثَ كَانَ يُوقِفُهَا.
کعب بن مالک روایت کرتے ہیں کہ ام مبشر رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مرض میں جس میں آپ نے وفات پائی کہا: اللہ کے رسول! آپ کا شک کس چیز پر ہے؟ میرے بیٹے کے سلسلہ میں میرا شک تو اس زہر آلود بکری پر ہے جو اس نے آپ کے ساتھ خیبر میں کھائی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے سلسلہ میں بھی میرا شک اسی پر ہے، اور اب یہ وقت آ چکا ہے کہ اس نے میری شہ رگ کاٹ دی ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبدالرزاق نے کبھی اس حدیث کو معمر سے، معمر نے زہری سے، زہری نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے اور کبھی معمر نے اسے زہری سے اور، زہری نے عبدالرحمٰن بن کعب بن مالک کے واسطہ سے بیان کیا ہے۔ اور عبدالرزاق نے ذکر کیا ہے کہ معمر اس حدیث کو ان سے کبھی مرسلاً روایت کرتے تو وہ اسے لکھ لیتے اور کبھی مسنداً روایت کرتے تو بھی وہ اسے بھی لکھ لیتے، اور ہمارے نزدیک دونوں صحیح ہے۔ عبدالرزاق کہتے ہیں: جب ابن مبارک معمر کے پاس آئے تو معمر نے وہ تمام حدیثیں جنہیں وہ موقوفاً روایت کرتے تھے ان سے متصلًا روایت کیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۳۹، ۱۹۸۱۵، ۱۸۳۵۸، ۱۸۳۷۵)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۶/۱۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا رَبَاحٌ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أُمِّهِ أُمِّ مُبَشِّرٍ، قَالَ أَبُو سَعِيدِ بْنُ الْأَعْرَابِيِّ: كَذَا قَالَ: عَنْ أُمِّهِ، وَالصَّوَابُ عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ، دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ مَخْلَدِ بْنِ خَالِدٍ، نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، قَالَ: فَمَاتَ بِشْرُ بْنُ الْبَرَاءِ بْنِ مَعْرُورٍ، فَأَرْسَلَ إِلَى الْيَهُودِيَّةِ، فَقَالَ: مَا حَمَلَكِ عَلَى الَّذِي صَنَعْتِ ؟، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ جَابِرٍ، فَأَمَرَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُتِلَتْ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْحِجَامَةَ.
ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں پھر راوی نے مخلد بن خالد کی حدیث کا مفہوم اسی طرح ذکر کیا جیسے جابر کی روایت میں ہے، اس میں ہے کہ بشر بن براء بن معرور مر گئے، تو آپ نے یہودی عورت کو بلا بھیجا اور پوچھا: "یہ تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟" پھر راوی نے وہی باتیں ذکر کیں جو جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور وہ قتل کر دی گئی لیکن انہوں نے پچھنا لگوانے کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۱۳۹، ۱۸۳۵۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ. ح وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْسَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ قَتَلَ عَبْدَهُ قَتَلْنَاهُ، وَمَنْ جَدَعَ عَبْدَهُ جَدَعْنَاهُ".
سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اسے قتل کریں گے، اور جو اس کے اعضاء کاٹے گا ہم اس کے اعضاء کاٹیں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۸ (۱۴۱۴)، سنن النسائی/القسامة ۶ (۴۷۴۰)، ۷ (۴۷۴۳)، ۱۲ (۴۷۵۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۳ (۲۶۶۳)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۵/۱۰، ۱۱، ۱۲، ۱۸)، دی/ الدیات ۷ (۲۴۰۳) (ضعیف) (سند میں قتادہ اور حسن بصری مدلس ہیں ، اور روایت عنعنہ سے ہے، نیز حسن بصری نے عقیقہ کی حدیث کے علاوہ سمرہ سے دوسری احادیث نہیں سنی ہے)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ خَصَى عَبْدَهُ خَصَيْنَاهُ، ثُمَّ ذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ شُعْبَةَ، وَحَمَّادٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، عَنْ هِشَامٍ، مِثْلَ حَدِيثِ مُعَاذٍ.
اس سند سے بھی قتادہ سے بھی اسی کے مثل حدیث مروی ہے اس میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو اپنے غلام کو خصی کرے گا ہم اسے خصی کریں گے" اس کے بعد راوی نے اسی طرح ذکر کیا جیسے شعبہ اور حماد کی حدیث میں ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوداؤد طیالسی نے ہشام سے معاذ کی حدیث کی طرح نقل کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۶) (ضعیف)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، بِإِسْنَادِ شُعْبَةَ مِثْلَهُ، زَادَ: ثُمَّ إِنَّ الْحَسَنَ نَسِيَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَكَانَ يَقُولُ: لَا يُقْتَلُ حُرٌّ بِعَبْدٍ.
اس سند سے بھی قتادہ سے شعبہ کی سند والی روایت کے مثل مروی ہے اس میں اضافہ ہے کہ پھر حسن (راوی حدیث) اس حدیث کو بھول گئے چنانچہ وہ کہتے تھے: آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: وانظر حدیث رقم : (۴۵۱۵)، (تحفة الأشراف: ۴۵۸۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "لَا يُقَادُ الْحُرُّ بِالْعَبْدِ".
حسن بصری کہتے ہیں آزاد غلام کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۵۱۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۵۳۶) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ تَسْنِيمٍ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ، أَخْبَرَنَا سَوَّارٌ أَبُو حَمْزَةَ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "جَاءَ رَجُلٌ مُسْتَصْرِخٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: جَارِيَةٌ لَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: وَيْحَكَ مَا لَكَ ؟ قَالَ: شَرًّا أَبْصَرَ لِسَيِّدِهِ جَارِيَةً لَهُ فَغَارَ فَجَبَّ مَذَاكِيرَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيَّ بِالرَّجُلِ، فَطُلِبَ فَلَمْ يُقْدَرْ عَلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اذْهَبْ فَأَنْتَ حُرٌّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى مَنْ نُصْرَتِي ؟ قَالَ: عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، أَوْ قَالَ: كُلِّ مُسْلِمٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي عُتَقَ كَانَ اسْمُهُ رَوْحُ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: الَّذِي جَبَّهُ زِنْبَاعٌ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا زِنْبَاعٌ أَبُو رَوْحٍ كَانَ مَوْلَى الْعَبْدِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص چیختا چلاتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! اس کی ایک لونڈی تھی، آپ نے فرمایا: "ستیاناس ہو تمہارا، بتاؤ کیا ہوا؟" اس نے کہا: برا ہوا، میرے آقا کی ایک لونڈی تھی اسے میں نے دیکھ لیا، تو اسے غیرت آئی، اس نے میرا ذکر کٹوا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس شخص کو میرے پاس لاؤ" تو اسے بلایا گیا، مگر کوئی اسے نہ لا سکا تب آپ نے (اس غلام سے) فرمایا: "جاؤ تم آزاد ہو" اس نے کہا: اللہ کے رسول! میری مدد کون کرے گا؟ آپ نے فرمایا: "ہر مومن پر" یا کہا: "ہر مسلمان پر تیری مدد لازم ہے"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جو آزاد ہوا اس کا نام روح بن دینار تھا، اور جس نے ذکر کاٹا تھا وہ زنباع تھا، یہ زنباع ابوروح ہیں جو غلام کے آقا تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۹ (۲۶۸۰)، (تحفة الأشراف: ۸۷۱۶، ۴۵۸۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۲، ۲۲۵) (حسن)
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْبَشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، وَرَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ: "أَنَّ مُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ، وَعَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ انْطَلَقَا قِبَلَ خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ، فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ فَاتَّهَمُوا الْيَهُودَ، فَجَاءَ أَخُوهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، وَابْنَا عَمِّهِ حُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فِي أَمْرِ أَخِيهِ وَهُوَ أَصْغَرُهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْكُبْرَ الْكُبْرَ، أَوْ قَالَ: لِيَبْدَإِ الْأَكْبَرُ، فَتَكَلَّمَا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يُقْسِمُ خَمْسُونَ مِنْكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ فَيُدْفَعُ بِرُمَّتِهِ، قَالُوا: أَمْرٌ لَمْ نَشْهَدْهُ كَيْفَ نَحْلِفُ ؟ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْمٌ كُفَّارٌ، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ، قَالَ سَهْلٌ: دَخَلْتُ مِرْبَدًا لَهُمْ يَوْمًا فَرَكَضَتْنِي نَاقَةٌ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ رَكْضَةً بِرِجْلِهَا"، قَالَ حَمَّادٌ هَذَا أَوْ نَحْوَهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ وَمَالِكٌ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ فِيهِ أَتَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ أَوْ قَاتِلِكُمْ، وَلَمْ يَذْكُرْ بِشْرٌ دَمًا، وقَالَ عَبْدَةُ: عَنْ يَحْيَى، كَمَا قَالَ حَمَّادٌ، وَرَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ يَحْيَى، فَبَدَأَ بِقَوْلِهِ: تُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ بِخَمْسِينَ يَمِينًا يَحْلِفُونَ، وَلَمْ يَذْكُرِ الِاسْتِحْقَاقَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا وَهْمٌ مِنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
سہل بن ابی حثمہ اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ محیصہ بن مسعود اور عبداللہ بن سہل دونوں خیبر کی طرف چلے اور کھجور کے درختوں میں (چلتے چلتے) دونوں ایک دوسرے سے علیحدہ ہو گئے، پھر عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے، تو ان لوگوں نے یہودیوں پر تہمت لگائی، ان کے بھائی عبدالرحمٰن بن سہل اور ان کے چچازاد بھائی حویصہ اور محیصہ اکٹھا ہوئے اور وہ سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، عبدالرحمٰن بن سہل جو ان میں سب سے چھوٹے تھے اپنے بھائی کے معاملے میں بولنے چلے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کا لحاظ کرو" (اور انہیں گفتگو کا موقع دو) یا یوں فرمایا: "بڑے کو پہلے بولنے دو" چنانچہ ان دونوں (حویصہ اور محیصہ) نے اپنے عزیز کے سلسلے میں گفتگو کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے پچاس آدمی یہودیوں کے کسی آدمی پر قسم کھائیں تو اسے رسی سے باندھ کر تمہارے حوالے کر دیا جائے" ان لوگوں نے کہا: یہ ایسا معاملہ ہے جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے، پھر ہم کیسے قسم کھا لیں؟ آپ نے فرمایا: "پھر یہود اپنے پچاس آدمیوں کی قسم کے ذریعہ خود کو تم سے بچا لیں گے" وہ بولے: اللہ کے رسول! یہ کافر لوگ ہیں (ان کی قسموں کا کیا اعتبار؟) چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنی طرف سے دیت دے دی، سہل کہتے ہیں: ایک دن میں ان کے شتر خانے میں گیا، تو ان اونٹوں میں سے ایک اونٹنی نے مجھے لات مار دی، حماد نے یہی کہا یا اس جیسی کوئی بات کہی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے بشر بن مفضل اور مالک نے یحییٰ بن سعید سے روایت کیا ہے اس میں ہے: "کیا تم پچاس قسمیں کھا کر اپنے ساتھی کے خون، یا اپنے قاتل کے مستحق ہوتے ہو؟" البتہ بشر نے لفظ دم یعنی خون کا ذکر نہیں کیا ہے، اور عبدہ نے یحییٰ سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے حماد نے کی ہے، اور اسے ابن عیینہ نے یحییٰ سے روایت کیا ہے، تو انہوں نے ابتداء «تبرئكم يهود بخمسين يمينا يحلفون» سے کی ہے اور استحقاق کا ذکر انہوں نے نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن عیینہ کا وہم ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الصلح ۷ (۲۷۰۲)، الجزیة ۱۲ (۳۱۷۳)، الأدب ۸۹ (۶۱۴۳)، الدیات ۲۲ (۶۸۹۸)، الأحکام ۳۸ (۷۱۹۲)، صحیح مسلم/القسامة ۱ (۱۶۶۹)، سنن الترمذی/الدیات ۲۳ (۱۴۴۲)، سنن النسائی/القسامة ۲ (۴۷۱۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۸ (۲۶۷۷)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۴، ۱۵۵۳۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القسامة ۱ (۱)، مسند احمد ( ۴/۲، ۳)، سنن الدارمی/الدیات ۲ (۲۳۹۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : قسامہ یہ ہے کہ جب مقتول کی نعش کسی بستی یا محلہ میں ملے اور اس کا قاتل معلوم نہ ہو تو مقتول کے ورثہ کا جس پر گمان ہو اس پر پچاس قسمیں کھائیں کہ اس نے قتل کیا ہے اگر مقتول کے ورثہ قسم کھانے سے انکار کریں تو اہل محلہ میں سے جنہیں وہ اختیار کریں ان سے قسم لی جائے گی، اگر قسم کھا لیں تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں ، اور قسم نہ کھانے کی صورت میں وہ دیت دیں، اور اگر نہ مقتول کے ولی قسم کھائیں، اور نہ ہی بستی یا محلہ والے تو سرکاری خزانہ سے اس مقتول کی دیت ادا کی جائے گی، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کیا۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي لَيْلَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، هُوَ وَرِجَالٌ مِنْ كُبَرَاءِ قَوْمِهِ: "أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ، وَمُحَيِّصَةَ خَرَجَا إِلَى خَيْبَرَ مِنْ جَهْدٍ أَصَابَهُمْ، فَأُتِيَ مُحَيِّصَةُ فَأُخْبِرَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ قَدْ قُتِلَ وَطُرِحَ فِي فَقِيرٍ أَوْ عَيْنٍ، فَأَتَى يَهُودَ، فَقَالَ: أَنْتُمْ وَاللَّهِ قَتَلْتُمُوهُ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَأَقْبَلَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَذَكَرَ لَهُمْ ذَلِكَ، ثُمَّ أَقْبَلَ هُوَ وَأَخُوهُ حُوَيِّصَةُ وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْهُ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ، فَذَهَبَ مُحَيِّصَةُ لِيَتَكَلَّمَ وَهُوَ الَّذِي كَانَ بِخَيْبَرَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَبِّرْ كَبِّرْ، يُرِيدُ السِّنَّ، فَتَكَلَّمَ حُوَيِّصَةُ ثُمَّ تَكَلَّمَ مُحَيِّصَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِمَّا أَنْ يَدُوا صَاحِبَكُمْ وَإِمَّا أَنْ يُؤْذَنُوا بِحَرْبٍ، فَكَتَبَ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِكَ، فَكَتَبُوا إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَتَلْنَاهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحُوَيِّصَةَ وَمُحَيِّصَةَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَتَحْلِفُونَ وَتَسْتَحِقُّونَ دَمَ صَاحِبِكُمْ ؟ قَالُوا: لَا، قَالَ: فَتَحْلِفُ لَكُمْ يَهُودُ، قَالُوا: لَيْسُوا مُسْلِمِينَ، فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ، فَبَعَثَ إِلَيْهِمْ مِائَةَ نَاقَةٍ حَتَّى أُدْخِلَتْ عَلَيْهِمُ الدَّارَ، قَالَ سَهْلٌ: لَقَدْ رَكَضَتْنِي مِنْهَا نَاقَةٌ حَمْرَاءُ".
سہل بن ابی حثمہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے قبیلہ کے کچھ بڑوں سے روایت ہے کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ رضی اللہ عنہما کسی پریشانی کی وجہ سے جس سے وہ دو چار ہوئے خیبر کی طرف نکلے پھر کسی نے آ کر محیصہ کو خبر دی کہ عبداللہ بن سہل مار ڈالے گئے اور انہیں کسی کنویں یا چشمے میں ڈال دیا گیا، وہ (محیصہ) یہود کے پاس آئے اور کہنے لگے: قسم اللہ کی! تم نے ہی انہیں قتل کیا ہے، وہ بولے: اللہ کی قسم ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، پھر وہ اپنی قوم کے پاس آئے اور ان سے اس کا ذکر کیا، پھر وہ، ان کے بڑے بھائی حویصہ اور عبدالرحمٰن بن سہل تینوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) آئے، محیصہ نے واقعہ بیان کرنا شروع کیا کیونکہ وہی خیبر میں ساتھ تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بڑوں کو بڑائی دو" آپ کی مراد عمر میں بڑائی سے تھی چنانچہ حویصہ نے گفتگو کی، پھر محیصہ نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یا تو یہ لوگ تمہارے آدمی کی دیت دیں، یا لڑائی کے لیے تیار ہو جائیں" پھر آپ نے اس سلسلے میں انہیں خط لکھا تو انہوں نے اس کا جواب لکھا کہ اللہ کی قسم! ہم نے انہیں قتل نہیں کیا ہے، تو آپ نے حویصہ، محیصہ اور عبدالرحمٰن سے پوچھا: "کیا تم قسم کھاؤ گے کہ اپنے بھائی کے خون کا مستحق بن سکو؟" انہوں نے کہا: نہیں، اس پر آپ نے فرمایا: "تو پھر یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے" اس پر وہ کہنے لگے: وہ تو مسلمان نہیں ہیں، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے پاس سے ان کی دیت ادا کر دی، اور سو اونٹ بھیج دیے گئے یہاں تک کہ وہ ان کے مکان میں داخل کر دیے گئے، سہل کہتے ہیں: انہیں میں سے ایک سرخ اونٹنی نے مجھے لات ماری ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۳۶، ۴۶۴۴، ۱۵۵۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، وَكَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا. ح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ، عَنْأَبِي عَمْرٍو، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَّهُ قَتَلَ بِالْقَسَامَةِ رَجُلًا مِنْ بَنِي نَصْرِ بْنِ مَالِكٍ بِبَحْرَةِ الرُّغَاءِ عَلَى شَطِّ لِيَّةِ الْبَحْرَةِ، قَالَ: الْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ مِنْهُمْ"، وَهَذَا لَفْظُ مَحْمُودٍ بِبَحْرَةٍ، أَقَامَهُ مَحْمُودٌ وَحْدَهُ عَلَى شَطِّ لِيَّةَ.
عمرو بن شعیب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے قسامہ سے بنی نصر بن مالک کے ایک آدمی کو بحرۃالرغاء ۱؎میں لیۃالبحرہ ۲؎ کے کنارے پر قتل کیا، راوی کہتے ہیں: قاتل اور مقتول دونوں بنی نصر کے تھے، «ببحرة الرغاء على شطر لية البحر»کے یہ الفاظ محمود کے ہیں اور محمود اس حدیث کے سلسلہ میں سب سے زیادہ درست آدمی ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۹۱۷۳) (ضعیف) (اس سند میں عمرو بن شعیب نے رسول اللہ صلی+اللہ+علیہ+وسلم سے روایت کی ہے، عموماً وہ اپنے والد اور ان کے والد عبداللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں، اس لئے سند میں اعضال ہیں یعنی مسلسل دو راوی ایک جگہ سے ساقط ہیں)
وضاحت: ۱؎ : ایک جگہ کا نام ہے۔ ۲؎ : ایک وادی کا نام ہے۔
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الصَّبَّاحِ الزَّعْفَرَانِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُبَيْدٍ الطَّائِيُّ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ يَسَارٍ، زَعَمَ أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهُ سَهْلُ بْنُ أَبِي حَثْمَةَ أَخْبَرَهُ: أَنَّ نَفَرًا مِنْ قَوْمِهِ انْطَلَقُوا إِلَى خَيْبَرَ فَتَفَرَّقُوا فِيهَا، فَوَجَدُوا أَحَدَهُمْ قَتِيلًا، فَقَالُوا لِلَّذِينَ وَجَدُوهُ عِنْدَهُمْ: قَتَلْتُمْ صَاحِبَنَا، فَقَالُوا: مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، فَانْطَلَقْنَا إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَ لَهُمْ: "تَأْتُونِي بِالْبَيِّنَةِ عَلَى مَنْ قَتَلَ هَذَا، قَالُوا: مَا لَنَا بَيِّنَةٌ، قَالَ: فَيَحْلِفُونَ لَكُمْ، قَالُوا: لَا نَرْضَى بِأَيْمَانِ الْيَهُودِ، فَكَرِهَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُبْطِلَ دَمَهُ، فَوَدَاهُ مِائَةً مِنْ إِبِلِ الصَّدَقَةِ".
بشیر بن یسار سے روایت ہے کہ سہل بن ابی حثمہ نامی ایک انصاری ان سے بیان کیا کہ ان کی قوم کے چند آدمی خیبر گئے، وہاں پہنچ کر وہ جدا ہو گئے، پھر اپنے میں سے ایک شخص کو مقتول پایا تو جن کے پاس اسے پایا ان سے ان لوگوں نے کہا: تم لوگوں نے ہی ہمارے ساتھی کو قتل کیا ہے، وہ کہنے لگے: ہم نے قتل نہیں کیا ہے اور نہ ہی ہمیں قاتل کا پتا ہے چنانچہ ہم لوگ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، تو آپ نے ان سے فرمایا: "تم اس پر گواہ لے کر آؤ کہ کس نے اسے مارا ہے؟" انہوں نے کہا: ہمارے پاس گواہ نہیں ہے، اس پر آپ نے فرمایا: "پھر وہ یعنی یہود تمہارے لیے قسم کھائیں گے" وہ کہنے لگے: ہم یہودیوں کی قسموں پر راضی نہیں ہوں گے، پھر آپ کو یہ بات اچھی نہیں لگی کہ اس کا خون ضائع ہو جائے چنانچہ آپ نے اس کی دیت زکوٰۃ کے اونٹوں میں سے سو اونٹ خود دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۴۵۲۰)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۴، ۱۵۵۳۶، ۱۵۵۹۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ رَاشِدٍ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ التَّيْمِيِّ، حَدَّثَنَا عَبَايَةُ بْنُ رِفَاعَةَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: أَصْبَحَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ مَقْتُولًا بِخَيْبَرَ، فَانْطَلَقَ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: "لَكُمْ شَاهِدَانِ يَشْهَدَانِ عَلَى قَتْلِ صَاحِبِكُمْ ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ ثَمَّ أَحَدٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ وَإِنَّمَا هُمْ يَهُودُ وَقَدْ يَجْتَرِئُونَ عَلَى أَعْظَمَ مِنْ هَذَا، قَالَ: فَاخْتَارُوا مِنْهُمْ خَمْسِينَ فَاسْتَحْلَفُوهُمْ، فَأَبَوْا، فَوَدَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ".
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انصار کا ایک آدمی خیبر میں قتل کر دیا گیا، تو اس کے وارثین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ سے اس کا ذکر کیا، آپ نے پوچھا: "کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے ساتھی کے مقتول ہو جانے کی گواہی دیں؟" انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہاں پر تو مسلمانوں میں سے کوئی نہیں تھا، وہ تو سب کے سب یہودی ہیں اور وہ اس سے بڑے جرم کی بھی جرات کر لیتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو ان میں پچاس افراد منتخب کر کے ان سے قسم لے لو" لیکن وہ اس پر راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے اپنے پاس سے اس کی دیت ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۳۵۶۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ يَحْيَى الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، قَالَ: إِنَّ سَهْلًا وَاللَّهِ أَوْهَمَ الْحَدِيثَ، "إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَتَبَ إِلَى يَهُودَ أَنَّهُ قَدْ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ قَتِيلٌ فَدُوهُ، فَكَتَبُوا يَحْلِفُونَ بِاللَّهِ خَمْسِينَ يَمِينًا مَا قَتَلْنَاهُ وَلَا عَلِمْنَا قَاتِلًا، قَالَ: فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ مِائَةِ نَاقَةٍ".
عبدالرحمٰن بن بجید کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم، سہل کو اس حدیث میں وہم ہو گیا ہے، واقعہ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو لکھا کہ تمہارے بیچ ایک مقتول ملا ہے تو تم اس کی دیت ادا کرو، تو انہوں نے جواب میں لکھا: ہم اللہ کی پچاس قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے اسے قتل نہیں کیا، اور نہ ہمیں اس کے قاتل کا پتا ہے، وہ کہتے ہیں: اس پر اس کی دیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے سو اونٹ (خود) ادا کی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۵۲۰)، (تحفة الأشراف: ۹۶۸۶) (منکر)
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رِجَالٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، "أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِلْيَهُودِ وَبَدَأَ بِهِمْ: يَحْلِفُ مِنْكُمْ خَمْسُونَ رَجُلًا، فَأَبَوْا، فَقَالَ لِلْأَنْصَارِ: اسْتَحِقُّوا، قَالُوا: نَحْلِفُ عَلَى الْغَيْبِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَعَلَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةً عَلَى يَهُودَ لِأَنَّهُ وُجِدَ بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ".
انصار کے کچھ لوگوں سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے یہود سے کہا: "تم میں سے پچاس لوگ قسم کھائیں" تو انہوں نے انکار کیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار سے کہا: "تم اپنا حق ثابت کرو" انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ہم ایسی بات پر قسم کھائیں جسے ہم نے دیکھا نہیں ہے؟ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دیت یہود سے دلوائی اس لیے کہ وہ انہیں کے درمیان پایا گیا تھا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۸۸، ۱۵۶۹۱) (شاذ)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: "أَنّ جَارِيَةً وُجِدَتْ قَدْ رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا ؟ أَفُلَانٌ أَفُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا، اس سے پوچھا گیا: کس نے تیرے ساتھ یہ کیا ہے؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر اس یہودی کو پکڑا گیا، تو اس نے اعتراف کیا، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر بھی پتھر سے کچل دیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الوصایا ۵ (۲۷۴۶)، والطلاق ۲۴ (تعلیقاً)، الدیات ۴ (۶۸۷۶)، ۵ (۶۸۷۷)، ۱۲ (۶۸۸۴)، صحیح مسلم/القسامة ۳ (۱۶۷۲)، سنن الترمذی/الدیات ۶ (۱۳۹۴)، سنن النسائی/المحاربة ۷ (۴۰۴۹)، القسامة ۸ (۴۷۴۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۴ (۲۶۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۱)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۳/۱۶۳، ۱۸۳، ۲۰۳، ۲۶۷)، سنن الدارمی/الدیات ۴ (۲۴۰۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ: "أَنّ يَهُودِيًّا قَتَلَ جَارِيَةً مِنَ الْأَنْصَارِ عَلَى حُلِيٍّ لَهَا ثُمَّ أَلْقَاهَا فِي قَلِيبٍ وَرَضَخَ رَأْسَهَا بِالْحِجَارَةِ، فَأُخِذَ فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرَ بِهِ أَنْ يُرْجَمَ حَتَّى يَمُوتَ، فَرُجِمَ حَتَّى مَاتَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ أَيُّوبَ نَحْوَهُ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے انصار کی ایک لونڈی کو اس کے زیور کی وجہ سے قتل کر دیا، پھر اسے ایک کنوئیں میں ڈال کر اس کا سر پتھر سے کچل دیا، تو اسے پکڑ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا تو آپ نے اس کے متعلق حکم دیا کہ اسے رجم کر دیا جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے تو اسے رجم کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن جریج نے ایوب سے اسی طرح روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ الحدود ۳ (۱۶۷۲)، سنن النسائی/ المحاربة ۷ (۴۰۴۹)، (تحفة الأشراف: ۹۵۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۳/۱۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ جَدِّهِ أَنَسٍ: "أَنّ جَارِيَةً كَانَ عَلَيْهَا أَوْضَاحٌ لَهَا فَرَضَخَ رَأْسَهَا يَهُودِيٌّ بِحَجَرٍ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِهَا رَمَقٌ، فَقَالَ لَهَا: مَنْ قَتَلَكِ فُلَانٌ قَتَلَكِ ؟ فَقَالَتْ: لَا بِرَأْسِهَا، قَالَ: مَنْ قَتَلَكِ فُلَانٌ قَتَلَكِ ؟ قَالَتْ: لَا بِرَأْسِهَا، قَالَ: فُلَانٌ قَتَلَكِ ؟ قَالَتْ: نَعَمْ بِرَأْسِهَا، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُتِلَ بَيْنَ حَجَرَيْنِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک لونڈی اپنے زیور پہنے ہوئی تھی اس کے سر کو ایک یہودی نے پتھر سے کچل دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، ابھی اس میں جان باقی تھی، آپ نے اس سے پوچھا: "تجھے کس نے قتل کیا ہے؟ فلاں نے تجھے قتل کیا ہے؟" اس نے اپنے سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: "تجھے کس نے قتل کیا؟ فلاں نے قتل کیا ہے؟" اس نے پھر سر کے اشارے سے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پوچھا: "کیا فلاں نے کیا ہے؟" اس نے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا، تو اسے دو پتھروں کے درمیان (کچل کر) مار ڈالا گیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۵۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۶۳۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ قَيْسِ بْنِ عُبَادٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَالْأَشْتَرُ إِلَى عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام، فَقُلْنَا: هَلْ عَهِدَ إِلَيْكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَمْ يَعْهَدْهُ إِلَى النَّاسِ عَامَّةً ؟ قَالَ: لَا إِلَّا مَا فِي كِتَابِي هَذَا، قَالَ مُسَدَّدٌ: قَالَ: فَأَخْرَجَ كِتَابًا، وَقَالَ أَحْمَدُ: كِتَابًا مِنْ قِرَابِ سَيْفِهِ، فَإِذَا فِيهِ: "الْمُؤْمِنُونَ تَكَافَأُ دِمَاؤُهُمْ وَهُمْ يَدٌ عَلَى مَنْ سِوَاهُمْ وَيَسْعَى بِذِمَّتِهِمْ أَدْنَاهُمْ أَلَا لَا يُقْتَلُ مُؤْمِنٌ بِكَافِرٍ وَلَا ذُو عَهْدٍ فِي عَهْدِهِ، مَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا فَعَلَى نَفْسِهِ وَمَنْ أَحْدَثَ حَدَثًا أَوْ آوَى مُحْدِثًا فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ"، قَالَ مُسَدَّدٌ: عَنْ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، فَأَخْرَجَ كِتَابًا.
قیس بن عباد سے کہتے ہیں کہ میں اور اشتر دونوں علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ہم نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کوئی خاص بات بتائی ہے جو عام لوگوں کو نہ بتائی ہو؟ وہ بولے: نہیں، سوائے اس چیز کے جو میری اس کتاب میں ہے۔ مسدد کہتے ہیں: پھر انہوں نے ایک کتاب نکالی، احمد کے الفاظ یوں ہیں اپنی تلوار کے غلاف سے ایک کتاب (نکالی) اس میں یہ لکھا تھا: سب مسلمانوں کا خون برابر ہے اور وہ غیروں کے مقابل (باہمی نصرت و معاونت میں) گویا ایک ہاتھ ہیں، اور ان میں کا ایک ادنی بھی ان کے امان کا پاس و لحاظ رکھے گا ۱؎، آگاہ رہو! کہ کوئی مومن کسی کافر کے بدلے قتل نہیں کیا جائے گا، اور نہ ہی کوئی ذمی معاہد جب تک وہ معاہد ہے قتل کیا جائے گا، اور جو شخص کوئی نئی بات نکالے گا تو اس کی ذمے داری اسی کے اوپر ہو گی، اور جو نئی بات نکالے گا، یا نئی بات نکالنے والے کسی شخص (بدعتی) کو پناہ دے گا تو اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے۔ مسدد کہتے ہیں: ابن ابی عروبہ سے منقول ہے کہ انہوں نے ایک کتاب نکالی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۵ (۴۷۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۲۵۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۱۲۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کوئی ادنیٰ مسلمان بھی کسی کافر کو پناہ دے دے تو کوئی مسلمان اسے توڑ نہیں سکتا۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ عَلِيٍّ، زَادَ فِيهِ: وَيُجِيرُ عَلَيْهِمْ أَقْصَاهُمْ وَيَرُدُّ مُشِدُّهُمْ عَلَى مُضْعِفِهِمْ وَمُتَسَرِّيهِمْ عَلَى قَاعِدِهِمْ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: … پھر راوی نے علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کی طرح ذکر کیا البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ ان کا ادنی شخص بھی امان دے سکتا ہے اور مال غنیمت میں عمدہ جانور اور کمزور جانور والے دونوں برابر ہیں، جو لشکر سے باہر نکلے اور لڑے اور وہ جو لشکر میں بیٹھا رے دونوں برابر ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وقد مضی بتمامہ ۲۷۵۱، (تحفة الأشراف: ۸۸۱۵)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۳۱ (۲۶۸۵) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ نَجْدَةَ الْحَوْطِيُّ المعنى واحد، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْسُهَيْلٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ: "يَا رَسُولَ اللَّهِ الرَّجُلُ يَجِدُ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ سَعْدٌ: بَلَى وَالَّذِي أَكْرَمَكَ بِالْحَقِّ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اسْمَعُوا إِلَى مَا يَقُولُ سَيِّدُكُمْ"، قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ: إِلَى مَا يَقُولُ سَعْدٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں" سعد نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ عزت دی (میں تو اسے قتل کر دوں گا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سنو! جو تمہارے سردار کہہ رہے ہیں" (عبدالوہاب کے الفاظ ہیں، (سنو) جو سعد کہہ رہے ہیں) ۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/اللعان ۱ (۱۴۹۸)، سنن ابن ماجہ/الحدود ۳۴ (۲۶۰۵)، (تحفة الأشراف: ۱۲۶۹۹)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ۱۹ (۱۷)، الحدود ۱(۷)، مسند احمد (۲/۴۶۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَرَأَيْتَ لَوْ وَجَدْتُ مَعَ امْرَأَتِي رَجُلًا أُمْهِلُهُ حَتَّى آتِيَ بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ ؟ قَالَ: نَعَمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: بتائیے اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پاؤں تو کیا چار گواہ لانے تک اسے مہلت دوں؟ آپ نے فرمایا: "ہاں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۲۷۳۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ دَاوُدَ بْنِ سُفْيَانَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ"أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَبَا جَهْمِ بْنَ حُذَيْفَةَ مُصَدِّقًا، فَلَاجَّهُ رَجُلٌ فِي صَدَقَتِهِ فَضَرَبَهُ أَبُو جَهْمٍ فَشَجَّهُ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: الْقَوَدَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَلَمْ يَرْضَوْا، فَقَالَ: لَكُمْ كَذَا وَكَذَا، فَرَضُوا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنِّي خَاطِبٌ الْعَشِيَّةَ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ هَؤُلَاءِ اللَّيْثِيِّينَ أَتَوْنِي يُرِيدُونَ الْقَوَدَ، فَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ كَذَا وَكَذَا فَرَضُوا، أَرَضِيتُمْ ؟ قَالُوا: لَا، فَهَمَّ الْمُهَاجِرُونَ بِهِمْ، فَأَمَرَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَكُفُّوا عَنْهُمْ فَكَفُّوا، ثُمَّ دَعَاهُمْ فَزَادَهُمْ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، فَقَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: إِنِّي خَاطِبٌ عَلَى النَّاسِ وَمُخْبِرُهُمْ بِرِضَاكُمْ، قَالُوا: نَعَمْ، فَخَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَرَضِيتُمْ، قَالُوا: نَعَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہم بن حذیفہ کو زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا، ایک شخص نے اپنی زکاۃ کے سلسلہ میں ان سے جھگڑا کر لیا، ابوجہم نے اسے مارا تو اس کا سر زخمی ہو گیا، تو لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: اللہ کے رسول! قصاص دلوائیے، اس پر آپ نے ان سے فرمایا: "تم اتنا اور اتنا لے لو" لیکن وہ لوگ راضی نہیں ہوئے، تو آپ نے فرمایا: "اچھا اتنا اور اتنا لے لو" وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو آپ نے فرمایا: "اچھا اتنا اور اتنا لے لو" اس پر وہ رضامند ہو گئے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آج شام کو میں لوگوں کے سامنے خطبہ دوں گا اور انہیں تمہاری رضا مندی کی خبر دوں گا" لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، اور فرمایا: "قبیلہ لیث کے یہ لوگ قصاص کے ارادے سے میرے پاس آئے ہیں تو میں نے ان کو اتنا اور اتنا مال پیش کیا اس پر یہ راضی ہو گئے ہیں (پھر آپ نے انہیں مخاطب کر کے پوچھا:)بتاؤ کیا تم لوگ راضی ہو؟" انہوں نے کہا: نہیں، تو مہاجرین ان پر جھپٹے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان سے باز رہنے کا حکم دیا، چنانچہ وہ رک گئے، پھر آپ نے انہیں بلایا، اور کچھ اضافہ کیا پھر پوچھا: "کیا اب تم راضی ہو؟" انہوں نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: "میں لوگوں کو خطاب کروں گا، اور انہیں تمہاری رضا مندی کے بارے میں بتاؤں گا" لوگوں نے کہا: ٹھیک ہے، چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب کیا، اور پوچھا: "کیا تم راضی ہو؟" وہ بولے: ہاں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۰ (۴۷۸۲)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۳ (۲۶۳۸)، (تحفة الأشراف: ۶۶۳۶)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۶/۲۳۲) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ: "أَنّ جَارِيَةً وُجِدَتْ قَدْ رُضَّ رَأْسُهَا بَيْنَ حَجَرَيْنِ، فَقِيلَ لَهَا: مَنْ فَعَلَ بِكِ هَذَا ؟ أَفُلَانٌ أَفُلَانٌ حَتَّى سُمِّيَ الْيَهُودِيُّ فَأَوْمَتْ بِرَأْسِهَا، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَضَّ رَأْسُهُ بِالْحِجَارَةِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک لڑکی ملی جس کا سر دو پتھروں کے درمیان کچل دیا گیا تھا، اس سے پوچھا گیا: تمہارے ساتھ یہ کس نے کیا؟ کیا فلاں نے؟ کیا فلاں نے؟ یہاں تک کہ ایک یہودی کا نام لیا گیا، تو اس نے اپنے سر کے اشارہ سے کہا: ہاں، چنانچہ اس یہودی کو پکڑا گیا، اس نے اقبال جرم کر لیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس کا سر پتھر سے کچل دیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۵۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۳۹۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ عَمْرٍو يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عُبَيْدَةَ بْنِ مُسَافِعٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْسِمُ قَسْمًا أَقْبَلَ رَجُلٌ فَأَكَبَّ عَلَيْهِ، فَطَعَنَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعُرْجُونٍ كَانَ مَعَهُ فَجُرِحَ بِوَجْهِهِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَ فَاسْتَقِدْ فَقَالَ بَلْ عَفَوْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ تقسیم کر رہے تھے کہ اسی دوران ایک شخص آیا اور آپ کے اوپر جھک گیا تو اس کے چہرے پر خراش آ گئی تو آپ نے ایک لکڑی جو آپ کے پاس تھی اسے چبھو دی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: "آؤ قصاص لے لو ۱؎" وہ بولا: اللہ کے رسول! میں نے معاف کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۱۶ (۴۷۷۷)، (تحفة الأشراف: ۴۱۴۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۳/۲۸) (ضعیف)
وضاحت: ۱؎ : سبحان اللہ ! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر عادل تھے کہ جو تکلیف کسی کو غلطی سے پہنچ جاتی اس سے بھی قصاص لینے کو کہتے اور اپنی عظمت کا خیال نہ کرتے۔
حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو إِسْحَاق الْفَزَارِيُّ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ، قَالَ: خَطَبَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ: إِنِّي لَمْ أَبْعَثْ عُمَّالِي لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ أُقِصُّهُ مِنْهُ، قَالَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ: لَوْ أَنَّ رَجُلًا أَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ أَتُقِصُّهُ مِنْهُ ؟ قَالَ: إِي وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ أُقِصُّهُ، وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقَصَّ مِنْ نَفْسِهِ".
ابوفراس کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ہم سے خطاب کیا اور کہا: "میں نے اپنے گورنر اس لیے نہیں بھیجے کہ وہ تمہاری کھالوں پہ ماریں، اور نہ اس لیے کہ وہ تمہارے مال لیں، لہٰذا اگر کسی کے ساتھ ایسا سلوک ہو تو وہ اسے مجھ تک پہنچائے، میں اس سے اسے قصاص دلواؤں گا" عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر کوئی شخص اپنی رعیت کو تادیباً سزا دے تو اس پر بھی آپ اس سے قصاص لیں گے، وہ بولے: "ہاں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! میں اس سے قصاص لوں گا" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اپنی ذات سے قصاص دلایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۱۹ (۴۷۸۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۶۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۱/۴۱) (ضعیف)
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ حِصْنًا، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَلَمَةَ، يُخْبِرُ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: "عَلَى الْمُقْتَتِلِينَ أَنْ يَنْحَجِزُوا الْأَوَّلَ فَالْأَوَّلَ وَإِنْ كَانَتِ امْرَأَةً"، قَالَ أَبُو دَاوُد: بَلَغَنِي أَنَّ عَفْوَ النِّسَاءِ فِي الْقَتْلِ جَائِزٌ إِذَا كَانَتْ إِحْدَى الْأَوْلِيَاءِ، وَبَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، فِي قَوْلِهِ: يَنْحَجِزُوا يَكُفُّوا عَنِ الْقَوَدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لڑنے والوں پر لازم ہے کہ وہ قصاص لینے سے باز رہیں، پہلے جو سب سے قریبی ہے وہ معاف کرے، پھر اس کے بعد والے خواہ وہ عورت ہی ہو"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ عورتوں کا قتل کے سلسلے میں قصاص معاف کر دینا جائز ہے جب وہ مقتول کے اولیاء میں سے ہوں، اور مجھے ابو عبید کے واسطے سے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ کے قول «ينحجزوا» کے معنی قصاص سے باز رہنے کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۵ (۴۷۹۲)، (تحفة الأشراف: ۱۷۷۰۶) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهَذَا حَدِيثُهُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: مَنْ قُتِلَ ؟ وَقَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قُتِلَ فِي عِمِّيَّا فِي رَمْيٍ يَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحِجَارَةٍ أَوْ بِالسِّيَاطِ أَوْ ضَرْبٍ بِعَصًا فَهُوَ خَطَأٌ وَعَقْلُهُ عَقْلُ الْخَطَإِ، وَمَنْ قُتِلَ عَمْدًا فَهُوَ قَوَدٌ، قَالَ ابْنُ عُبَيْدٍ: قَوَدُ يَدٍ ثُمَّ اتَّفَقَا، وَمَنْ حَالَ دُونَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَغَضَبُهُ لَا يُقْبَلُ مِنْهُ صَرْفٌ وَلَا عَدْلٌ"، وَحَدِيثُ سُفْيَانَ أَتَمُّ.
طاؤس کہتے ہیں کہ جو مارا جائے، اور ابن عبید کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کوئی کسی لڑائی یا دنگے میں جو لوگوں میں چھڑ گئی ہو غیر معروف پتھر، کوڑے، یا لاٹھی سے مارا جائے ۱؎ تو وہ قتل خطا ہے، اور اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی، اور جو قصداً مارا جائے تو اس میں قصاص ہے" (البتہ ابن عبید کی روایت میں ہے کہ) اس میں ہاتھ کا قصاص ہے، ۲؎ (پھر دونوں کی روایت ایک ہے کہ) جو کوئی اس کے بیچ بچاؤ میں پڑے ۳؎ تو اس پر اللہ کی لعنت، اور اس کا غضب ہو، اس کی نہ توبہ قبول ہو گی اور نہ فدیہ، یا اس کے فرض قبول ہوں گے نہ نفل اور سفیان کی حدیث زیادہ کامل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۶ (۴۷۹۳)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۸ (۲۶۳۵)، ویأتی ہذا الحدیث برقم (۴۵۹۱)، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۹ ۱۸۸۲۸) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی اس کے قاتل کا پتہ نہ چل سکے۔ ۲؎ : یعنی جان کا قصاص ہے جان کی تعبیر ہاتھ سے کی گئی ہے۔ ۳؎ : یعنی قصاص نہ لینے دے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي غَالِبٍ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ سُفْيَانَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آگے راوی نے سفیان کی حدیث کے ہم معنی حدیث ذکر کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۷۳۹، ۱۸۸۲۸) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ. ح وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى أَنَّ مَنْ قُتِلَ خَطَأً فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ: ثَلَاثُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذَكَرٍ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا: "جو غلطی سے مارا گیا تو اس کی دیت سو اونٹ ہے تیس بنت مخاض ۱؎ تیس بنت لبون ۲؎ تیس حقے ۳؎ اور دس نر اونٹ جو دو برس کے ہو چکے ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/االدیات ۱ (۱۳۸۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۴ (۲۶۲۶)، (تحفة الأشراف: ۸۷۰۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۸۳، ۱۸۴، ۱۸۵، ۱۸۶، ۲۱۷، ۲۲۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : ایسی اونٹنی جو ایک برس کی ہو چکی ہو۔ ۲؎ : ایسی اونٹنی جو دو برس کی ہو چکی ہو۔ ۳؎ : ایسی اونٹنی جو تین برس کی ہو چکی ہو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُثْمَانَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "كَانَتْ قِيمَةُ الدِّيَةِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَمَانَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ ثَمَانِيَةَ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَدِيَةُ أَهْلِ الْكِتَابِ يَوْمَئِذٍ النِّصْفُ مِنْ دِيَةِ الْمُسْلِمِينَ، قَالَ: فَكَانَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى اسْتُخْلِفَ عُمَرُ رَحِمَهُ اللَّهُ فَقَامَ خَطِيبًا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ الْإِبِلَ قَدْ غَلَتْ، قَالَ: فَفَرَضَهَا عُمَرُ عَلَى أَهْلِ الذَّهَبِ أَلْفَ دِينَارٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْوَرِقِ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا، وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَيْ حُلَّةٍ، قَالَ: وَتَرَكَ دِيَةَ أَهْلِ الذِّمَّةِ لَمْ يَرْفَعْهَا فِيمَا رَفَعَ مِنَ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دیت کی قیمت ۱؎ آٹھ سو دینار، یا آٹھ ہزار درہم تھی، اور اہل کتاب کی دیت اس وقت مسلمانوں کی دیت کی آدھی تھی، پھر اسی طرح حکم چلتا رہا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا، اور فرمایا: سنو، اونٹوں کی قیمت بڑھ گئی ہے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے سونے والوں پر ایک ہزار دینار، اور چاندی والوں پر بارہ ہزار (درہم) دیت ٹھہرائی، اور گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑوں کی دیت مقرر کی، اور ذمیوں کی دیت چھوڑ دی، ان کی دیت میں (مسلمانوں کی دیت کی طرح) اضافہ نہیں کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی دیت کے اونٹوں کی قیمت۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِي الدِّيَةِ عَلَى أَهْلِ الْإِبِلِ مِائَةً مِنَ الْإِبِلِ، وَعَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الشَّاءِ أَلْفَيْ شَاةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْحُلَلِ مِائَتَيْ حُلَّةٍ، وَعَلَى أَهْلِ الْقَمْحِ شَيْئًا لَمْ يَحْفَظْهُ مُحَمَّدٌ".
عطا بن ابی رباح سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیت کے سلسلے میں فیصلہ فرمایا کہ اونٹ والوں پر سو اونٹ، گائے بیل والوں پر دو سو گائیں، بکری والوں پر دو ہزار بکریاں، اور کپڑے والوں پر دو سو جوڑے کپڑے، اور گیہوں والوں پر بھی کچھ مقرر کیا جو محمد (محمد بن اسحاق) کو یاد نہیں رہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۴۸۲) (ضعیف)
قَالَ أَبُو دَاوُد: قَرَأْتُ عَلَى سَعِيدِ بْنِ يَعْقُوبَ الطَّالْقَانِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، قَالَ: ذَكَرَعَطَاءٌ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ مُوسَى، وَقَالَ: وَعَلَى أَهْلِ الطَّعَامِ شَيْئًا لَا أَحْفَظُهُ.
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا پھر راوی نے ایسے ہی ذکر کیا جیسے موسیٰ کی روایت میں ہے البتہ اس میں اس طرح ہے کہ طَعام والوں پر کچھ مقرر کیا جو کہ مجھ کو یاد نہیں رہا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۲۴۸۲) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ خِشْفِ بْنِ مَالِكٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فِي دِيَةِ الْخَطَإِ عِشْرُونَ حِقَّةً، وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، وَعِشْرُونَ بِنْتَ مَخَاضٍ، وَعِشْرُونَ بِنْتَ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ بَنِي مَخَاضٍ ذُكُرٍ، وَهُوَ قَوْلُ عَبْدِ اللَّهِ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قتل خطا کی دیت میں بیس حقے، بیس جزعے، بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون اور بیس ابن مخاض ہیں" اور یہی عبداللہ بن مسعود کا قول ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۱ (۱۳۸۶)، سنن النسائی/القسامة ۲۸ (۴۸۰۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۳۱)، (تحفة الأشراف: ۹۱۹۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۸۴، ۴۵۰)، دی/ الدیات ۱۳ (۲۴۱۲) (ضعیف) (سند میں حجاج بن ارطاة مدلس اور کثیر الخطاء راوی ہیں اور خشف طائی مجہول)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْأَنْبَارِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: "أَنّ رَجُلًا مِنْ بَنِي عَدِيٍّ قُتِلَ، فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَتَهُ اثْنَيْ عَشَرَ أَلْفًا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرِو، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ بنی عدی کے ایک شخص کو قتل کر دیا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت بارہ ہزار ٹھہرائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن عیینہ نے عمرو سے، عمرو نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور اس میں انہوں نے ابن عباس کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۲ (۱۳۸۸)، سنن النسائی/القسامة ۲۹ (۴۸۰۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۲۹)، (تحفة الأشراف: ۶۱۶۵)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الدیات ۱۱ (۲۴۰۸) (ضعیف) امام ابو داود نے واضح فرما دیا ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے )
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، "أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ بِمَكَّةَ فَكَبَّرَ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ صَدَقَ وَعْدَهُ وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، إِلَى هَاهُنَا حَفِظْتُهُ، عَنْ مُسَدَّدٍ، ثُمَّ اتَّفَقَا، أَلَا إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ تُذْكَرُ وَتُدْعَى مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تَحْتَ قَدَمَيَّ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِ أَوْلَادِهَا"، وَحَدِيثُ مُسَدَّدٍ أَتَمُّ.
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسدد کی روایت کے مطابق) فتح مکہ کے دن مکہ میں خطبہ دیا، آپ نے تین بار اللہ اکبر کہا، پھر فرمایا: «لا إله إلا الله وحده صدق وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» "اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ تنہا ہے، اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا، اپنے بندے کی مدد کی، اور تنہا لشکروں کو شکست دی" (یہاں تک کہ حدیث مجھ سے صرف مسدد نے بیان کی ہے صرف انہیں کے واسطہ سے میں نے اسے یاد کیا ہے اور اس کے بعد سے اخیر حدیث تک سلیمان اور مسدد دونوں نے مجھ سے بیان کیا ہے آگے یوں ہے) سنو! وہ تمام فضیلتیں جو جاہلیت میں بیان کی جاتی تھیں اور خون یا مال کے جتنے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے پاؤں تلے ہیں (یعنی لغو اور باطل ہیں) سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی خدمت کے (یہ اب بھی ان کے ہی سپرد رہے گی جن کے سپر د پہلے تھی" پھر فرمایا: "سنو! قتل خطا یعنی قتل شبہ عمد کوڑے یا لاٹھی سے ہونے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں" (اور مسدد والی روایت زیادہ کامل ہے) ۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۷ (۴۷۹۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۵ (۲۶۲۸)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۹) (حسن)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ ، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۹)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ أَوْ فَتْحِ مَكَّةَ عَلَى دَرَجَةِ الْبَيْتِ أَوْ الْكَعْبَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَذَا رَوَاهُ ابْنُ عُيَيْنَةَ أَيْضًا، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، رَوَاهُ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، مِثْلَ حَدِيثِ خَالِدٍ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ يَعْقُوبَ السَّدُوسِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَوْلُ زَيْدٍ، وَأَبِي مُوسَى، مِثْلُ حَدِيثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَحَدِيثِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی مفہوم کی حدیث روایت کرتے ہیں اس میں ہے: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے دن یا فتح مکہ کے دن بیت اللہ یا کعبہ کی سیڑھی پر خطبہ دیا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابن عیینہ نے بھی اسی طرح علی بن زید سے، علی بن زید نے قاسم بن ربیعہ سے، قاسم نے ابن عمر سے اور ابن عمر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، اور اسے ایوب سختیانی نے قاسم بن ربیعہ سے، قاسم نے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے خالد کی حدیث کے مثل روایت کی ہے۔ نیز اسے حماد بن سلمہ نے علی بن زید سے، علی بن زید نے یعقوب سدوسی سے، سدوسی نے عبداللہ بن عمرو سے، اور عبداللہ بن عمرو نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اور زید اور ابوموسیٰ کا قول نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مثل ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/ الدیات ۵ (۲۶۲۸)، وانظر حدیث رقم : (۴۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۷۳۷۲) (ضعیف)(علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)
حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: "قَضَى عُمَرُ فِي شِبْهِ الْعَمْدِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً، وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً، وَأَرْبَعِينَ خَلِفَةً، مَا بَيْنَ ثَنِيَّةٍ إِلَى بَازِلِ عَامِهَا".
مجاہد کہتے ہیں عمر نے قتل شبہ عمد میں تیس حقہ، تیس جزعہ، چالیس گابھن اونٹنیوں (جو چھ برس سے نو برس تک کی ہوں) کی دیت کا فیصلہ کیا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: "فِي شِبْهِ الْعَمْدِ أَثْلَاثٌ: ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثٌ وَثَلَاثُون جَذَعَةً، وَأَرْبَعٌ وَثَلَاثُونَ ثَنِيَّةً، إِلَى بَازِلِ عَامِهَا وَكُلُّهَا خَلِفَةٌ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں شبہ عمد کی دیت میں تین قسم کے اونٹ ہوں گے، تینتیس حقہ، تینتیس جذعہ اور چونتیس ایسی اونٹنیاں جو چھ برس سے لے کر نو برس تک کی ہوں اور سب گابھن ہوں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ " فِي شِبْهِ الْعَمْدِ: خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حِقَّةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ " .
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں شبہ عمد کی دیت پچیس حقہ، پچیس جزعہ، پچیس بنت لبون، اور پچیس بنت مخاض ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
حدثنا هَنَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، وَالْأَسْوَدِ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ"فِي شِبْهِ الْعَمْدِ: خَمْسٌ وَعِشْرُونَ حِقَّةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ جَذَعَةً، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ، وَخَمْسٌ وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ".
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں قتل خطا کی دیت میں چار قسم کے اونٹ ہوں گے: پچیس حقہ، پچیس جزعہ، پچیس بنت لبون، اور پچیس بنت مخاض۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ، عَنْ أَبِي عِيَاضٍ، عَنْعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ"في الْمُغَلَّظَةِ: أَرْبَعُونَ جَذَعَةً خَلِفَةً، وَثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ، وَفِي الْخَطَإِ: ثَلَاثُونَ حِقَّةً، وَثَلَاثُونَ بَنَاتِ لَبُونٍ، وَعِشْرُونَ بَنُو لَبُونٍ ذُكُورٍ، وَعِشْرُونَ بَنَاتِ مَخَاضٍ".
عثمان بن عفان اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ دیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں چالیس گابھن جزعہ، تیس حقہ اور تیس بنت لبون ہیں، اور دیت خطا میں تیس حقہ، تیس بنت لبون، بیس ابن لبون، اور بیس بنت مخاض ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ فِي الدِّيَةِ الْمُغَلَّظَةِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ سَوَاءً.
زید بن ثابت سے دیت مغلظہ یعنی شبہ عمد میں مروی ہے پھر راوی نے ہو بہو اسی کے مثل ذکر کیا جیسے اوپر گزرا۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد)
قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ وَعَنْ غَيْرُ وَاحِدٍ إِذَا دَخَلَتِ النَّاقَةُ فِي السَّنَةِ الرَّابِعَةِ فَهُوَ حِقٌّ وَالْأُنْثَى حِقَّةٌ، لِأَنَّهُ يَسْتَحِقُّ أَنْ يُحْمَلَ عَلَيْهِ وَيُرْكَبَ، فَإِذَا دَخَلَ فِي الْخَامِسَةِ فَهُوَ جَذَعٌ وَجَذَعَةٌ، فَإِذَا دَخَلَ فِي السَّادِسَةِ وَأَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ وَثَنِيَّةٌ، فَإِذَا دَخَلَ فِي السَّابِعَةِ فَهُوَ رَبَاعٌ وَرَبَاعِيَةٌ، فَإِذَا دَخَلَ فِي الثَّامِنَةِ وَأَلْقَى السِّنَّ الَّذِي بَعْدَ الرَّبَاعِيَةِ فَهُوَ سَدِيسٌ وَسَدَسٌ، فَإِذَا دَخَلَ فِي التَّاسِعَةِ وَفَطَرَ نَابُهُ وَطَلَعَ فَهُوَ بَازِلٌ، فَإِذَا دَخَلَ فِي الْعَاشِرَةِ فَهُوَ مُخْلِفٌ ثُمَّ لَيْسَ لَهُ اسْمٌ، وَلَكِنْ يُقَالُ بَازِلُ عَامٍ وَبَازِلُ عَامَيْنِ وَمُخْلِفُ عَامٍ وَمُخْلِفُ عَامَيْنِ إِلَى مَا زَادَ، وَقَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: ابْنَةُ مَخَاضٍ لِسَنَةٍ، وَبْنِتُ لَبُونٍ لِسَنَتَيْنِ، وَحِقَّةٌ لِثَلَاثٍ، وَجَذَعَةٌ لِأَرْبَعٍ، وَثَنِيٌّ لَخَمْسٍ، وَرَبَاعٌ لِسِتٍّ، وَسَدِيسٌ لِسَبْعٍ، وَبَازِلٌ لِثَمَانٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ أَبُو حَاتِمٍ، وَالْأَصْمَعِيُّ: وَالْجُذُوعَةُ وَقْتٌ وَلَيْسَ بِسِنٍّ، قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: قَالَ بَعْضُهُمْ: فَإِذَا أَلْقَى رَبَاعِيَتَهُ فَهُوَ رَبَاعٌ، وَإِذَا أَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ، وَقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: إِذَا لَقِحَتْ فَهِيَ خَلِفَةٌ، فَلَا تَزَالُ خَلِفَةً إِلَى عَشَرَةِ أَشْهُرٍ، فَإِذَا بَلَغَتْ عَشَرَةَ أَشْهُرٍ فَهِيَ عُشَرَاءُ، قَالَ أَبُو حَاتِمٍ: إِذَا أَلْقَى ثَنِيَّتَهُ فَهُوَ ثَنِيٌّ، وَإِذَا أَلْقَى رَبَاعِيَتَهُ فَهُوَ رَبَاعٌ.
ابوداؤد کہتے ہیں ابو عبید اور دوسرے بہت سے لوگوں نے کہا: اونٹ جب چوتھے سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «حق» اور مادہ کو«حقة» کہتے ہیں، اس لیے کہ اب وہ اس لائق ہو جاتا ہے کہ اس پر بار لادا جائے، اور سواری کی جائے اور جب وہ پانچویں سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «جذع» اور مادہ کو «جذعة» کہتے ہیں، اور جب چھٹے سال میں داخل ہو جائے، اور سامنے کے دانت نکال دے تو نر کو «ثني» اور مادہ کو «ثنية» کہتے ہیں، اور جب ساتویں سال میں داخل ہو جائے تو نر کو «رباع» اور مادہ کو «رباعية» کہتے ہیں، اور جب آٹھویں سال میں داخل ہو جائے، اور وہ دانت نکال دے جو «رباعية» کے بعد ہے تو نر کو «سديس» اور مادہ کو «سدس» کہتے ہیں: اور جب نویں سال میں داخل ہو جائے اور اس کی کچلیاں نکل آئیں تو اسے «بازل» کہتے ہیں، اور جب دسویں سال میں داخل ہو جائے تو وہ «مخلف» ہے، اس کے بعد اس کا کوئی نام نہیں ہوتا، البتہ یوں کہا جاتا ہے ایک سال کا ب «بازل» ، دو سال کا «بازل» ایک سال کا «مخلف» ، دو سال کا «مخلف» اسی طرح جتنا بڑھتا جائے۔ نضر بن شمیل کہتے ہیں: ایک سال کی «بنت مخاض» ہے، دو سال کی «بنت لبون» ، تین سال کی «حقة» ، چار سال کی «جذعة» پانچ سال کا «ثني» چھ سال کا «رباع» ، سات سال کا «سديس» ، آٹھ سال کا «بازل» ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابوحاتم اور اصمعی نے کہا: «جذوعة» ایک وقت ہے ناکہ کسی مخصوص سن کا نام۔ ابوحاتم کہتے ہیں: جب اونٹ اپنے «رباعیہ» ڈال دے تو وہ «رباع» اور جب «ثنیہ» ڈال دے تو «ثني» ہے۔ ابو عبید کہتے ہیں: جب وہ حاملہ ہو جائے تو اسے «خلفہ» کہتے ہیں اور وہ دس ماہ تک «خلفة» کہلاتا ہے، جب دس ماہ کا ہو جائے تو اسے «عشراء» کہتے ہیں۔ ابوحاتم نے کہا: جب وہ «ثنیہ» ڈال دے تو «ثني» ہے اور «رباعیہ» ڈال دے تو «رباع» ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْحُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ عَشْرٌ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ".
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انگلیاں سب برابر ہیں، ان کی دیت دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۸ (۴۸۴۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۴)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۳۹۷، ۳۹۸، ۴۰۴)، دی/ الدیات ۱۵ (۲۴۱۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ غَالِبٍ التَّمَّارِ، عَنْ مَسْرُوقِ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ الْأَشْعَرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ، قُلْتُ: عَشْرٌ عَشْرٌ، قَالَ: نَعَمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْغَالِبٍ، قَالَ: سَمِعْتُ مَسْرُوقَ بْنَ أَوْسٍ،وَرَوَاهُ إِسْمَاعِيل، قَالَ: حَدَّثَنِي غَالِبٌ التَّمَّارُ، بِإِسْنَادِ أَبِي الْوَلِيدِ، وَرَوَاهُ حَنْظَلَةُ بْنُ أَبِي صَفِيَّةَ، عَنْ غَالِبٍ، بِإِسْنَادِ إِسْمَاعِيل.
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انگلیاں تمام برابر ہیں" میں نے عرض کیا، کیا ہر انگلی کی دیت دس دس اونٹ ہے؟ آپ نے فرمایا: "ہاں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي. ح وحَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، كُلُّهُمْ عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ يَعْنِي الْإِبْهَامَ وَالْخِنْصَرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ اور یہ برابر ہیں" یعنی انگوٹھا اور چھنگلی (کانی انگلی)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الدیات ۲۰ (۶۸۹۵)، سنن الترمذی/الدیات ۴ (۱۳۹۲)، سنن النسائی/القسامة ۳۸ (۴۸۵۱)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۲)، (تحفة الأشراف: ۶۱۸۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۱/۳۳۹)، سنن الدارمی/الدیات ۱۵ (۲۴۱۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبَّاسٌ الْعَنْبَرِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْأَصَابِعُ سَوَاءٌ وَالْأَسْنَانُ سَوَاءٌ الثَّنِيَّةُ وَالضِّرْسُ سَوَاءٌ، هَذِهِ وَهَذِهِ سَوَاءٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ،عَنْ شُعْبَةَ، بِمَعْنَى عَبْدِ الصَّمَدِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: حَدَّثَنَاه الدَّارِمِيُّ، عَنْالنَّضْرِ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انگلیاں سب برابر ہیں، دانت سب برابر ہیں، سامنے کے دانت ہوں، یا ڈاڑھ کے سب برابر ہیں، یہ بھی برابر اور وہ بھی برابر"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۷ (۲۶۵۰)، (تحفة الأشراف: ۶۱۹۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ بَزِيعٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْأَسْنَانُ سَوَاءٌ وَالْأَصَابِعُ سَوَاءٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دانت سب برابر ہیں اور انگلیاں سب برابر ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الدیات ۴ (۱۳۹۱)، (تحفة الأشراف: ۶۲۴۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۲۸۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ أَبَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو تُمَيْلَةَ، عَنْ حُسَيْنٍ الْمُعَلِّمِ، عَنْ يَزِيدَ النَّحْوِيِّ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصَابِعَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ سَوَاءً".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں ہاتھ اور دونوں پیر کی انگلیوں کو برابر قرار دیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۶۲۴۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا هُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فِي خُطْبَتِهِ وَهُوَ مُسْنِدٌ ظَهْرَهُ إِلَى الْكَعْبَةِ فِي الْأَصَابِعِ: عَشْرٌ عَشْرٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خطبے میں جبکہ آپ اپنی پیٹھ کعبہ سے ٹیکے ہوئے تھے فرمایا: "انگلیوں میں دس دس اونٹ ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۸ (۴۸۵۴)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۴)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۸ (۲۶۵۳)، مسند احمد (۲/۲۰۷) (حسن صحیح)
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ أَبُو خَيْثَمَةَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "فِي الْأَسْنَانِ: خَمْسٌ خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دانتوں میں پانچ پانچ (اونٹ) ہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۸ (۴۸۵۴)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۹ (۲۳۵۴)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۵) (حسن صحیح)
قَالَ أَبُو دَاوُد: وَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ شَيْبَانَ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنْهُ، فَحَدَّثَنَاهُ أَبُو بَكْرٍ صَاحِبٌ لَنَا ثِقَةٌ، قَالَ: حَدَّثَنَاشَيْبَانُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَوِّمُ دِيَةَ الْخَطَإِ عَلَى أَهْلِ الْقُرَى أَرْبَعَ مِائَةِ دِينَارٍ أَوْ عَدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ وَيُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا غَلَتْ رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، وَإِذَا هَاجَتْ رُخْصًا نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، وَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، وَعَدْلُهَا مِنَ الْوَرِقِ ثَمَانِيَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى أَهْلِ الْبَقَرِ مِائَتَيْ بَقَرَةٍ، وَمَنْ كَانَ دِيَةُ عَقْلِهِ فِي الشَّاءِ فَأَلْفَيْ شَاةٍ، قَالَ: وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْعَقْلَ مِيرَاثٌ بَيْنَ وَرَثَةِ الْقَتِيلِ عَلَى قَرَابَتِهِمْ فَمَا فَضَلَ فَلِلْعَصَبَةِ، قَالَ: وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَإِنْ جُدِعَتْ ثَنْدُوَتُهُ فَنِصْفُ الْعَقْلِ خَمْسُونَ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ عَدْلُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوْ مِائَةُ بَقَرَةٍ أَوْ أَلْفُ شَاةٍ، وَفِي الْيَدِ إِذَا قُطِعَتْ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الرِّجْلِ نِصْفُ الْعَقْلِ، وَفِي الْمَأْمُومَةِ ثُلُثُ الْعَقْلِ ثَلَاثٌ وَثَلَاثُونَ مِنَ الْإِبِلِ وَثُلُثٌ أَوْ قِيمَتُهَا مِنَ الذَّهَبِ أَوِ الْوَرِقِ أَوِ الْبَقَرِ أَوِ الشَّاءِ وَالْجَائِفَةُ مِثْلُ ذَلِكَ، وَفِي الْأَصَابِعِ فِي كُلِّ أُصْبُعٍ عَشْرٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَفِي الْأَسْنَانِ فِي كُلِّ سِنٍّ خَمْسٌ مِنَ الْإِبِلِ، وَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ عَقْلَ الْمَرْأَةِ بَيْنَ عَصَبَتِهَا مَنْ كَانُوا لَا يَرِثُونَ مِنْهَا شَيْئًا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهُمْ، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَيْسَ لِلْقَاتِلِ شَيْءٌ وَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ وَارِثٌ فَوَارِثُهُ أَقْرَبُ النَّاسِ إِلَيْهِ وَلَا يَرِثُ الْقَاتِلُ شَيْئًا"، قَالَ مُحَمَّدٌ: هَذَا كُلُّهُ حَدَّثَنِي بِهِ سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ هَرَبَ إِلَى الْبَصْرَةِ مِنَ الْقَتْلِ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گاؤں والوں پر قتل خطا کی دیت کی قیمت چار سو دینار، یا اس کے برابر چاندی سے لگایا کرتے تھے، اور اس کی قیمت اونٹوں کی قیمتوں پر لگاتے، جب وہ مہنگے ہو جاتے تو آپ اس کی قیمت میں بھی اضافہ کر دیتے، اور جب وہ سستے ہوتے تو آپ اس کی قیمت بھی گھٹا دیتے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ قیمت چار سو دینار سے لے کر آٹھ سو دینار تک پہنچی، اور اسی کے برابر چاندی سے (دیت کی قیمت) آٹھ ہزار درہم پہنچی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گائے بیل والوں پر (دیت میں) دو سو گایوں کا فیصلہ کیا، اور بکری والوں پر دو ہزار بکریوں کا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "دیت کا مال مقتول کے وارثین کے درمیان ان کی قرابت کے مطابق تقسیم ہو گا، اب اگر اس سے کچھ بچ رہے تو وہ عصبہ کا ہے"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے سلسلے میں فیصلہ کیا کہ اگر وہ کاٹ دی جائے تو پوری دیت لازم ہو گی۔ اور اگر اس کا بانسہ (دونوں نتھنوں کے بیچ کی ہڈی) کاٹا گیا ہو تو آدھی دیت لازم ہو گی، یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا یا چاندی، یا سو گائیں، یا ایک ہزار بکریاں۔ اور ہاتھ جب کاٹا گیا ہو تو اس میں آدھی لازم ہو گی، پیر میں بھی آدھی دیت ہو گی۔ اور مامومہ ۱؎ میں ایک تہائی دیت ہو گی، تینتیس اونٹ اور ایک اونٹ کا تہائی یا اس کی قیمت کے برابر سونا، چاندی، گائے یا بکری اور جائفہ ۲؎ میں بھی یہی دیت ہے۔ اور انگلیوں میں ہر انگلی میں دس اونٹ اور دانتوں میں ہر دانت میں پانچ اونٹ کی دیت ہو گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا:"عورت کی جنایت کی دیت اس کے عصبات میں تقسیم ہو گی (یعنی عورت اگر کوئی جنایت کرے تو اس کے عصبات کو دینا پڑے گا) یعنی ان لوگوں کو جو ذوی الفروض سے بچا ہوا مال لے لیتے ہیں (جیسے بیٹا، چچا، باپ، بھائی وغیرہ) اور اگر وہ قتل کر دی گئی ہو تو اس کی دیت اس کے وارثوں میں تقسیم ہو گی (نہ کہ عصبات میں) اور وہی اپنے قاتل کو قتل کریں گے (اگر قصاص لینا ہو)"۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قاتل کے لیے کچھ بھی نہیں، اور اگر اس کا کوئی وارث نہ ہو تو اس کا وارث سب سے قریبی رشتے دار ہو گا لیکن قاتل کسی چیز کا وارث نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۲۷ (۴۸۰۵)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۶ (۲۶۳۰)، (تحفة الأشراف: ۸۷۱۰)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۲/۱۸۳، ۲۱۷، ۲۲۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : «مامومہ» : سر کے ایسے زخم کو کہتے ہیں جو دماغ تک پہنچ جائے۔ ۲؎ : «جائفہ» : وہ زخم ہے جو سر، پیٹ یا پیٹھ کے اندر تک پہنچ جائے اور اگر وہ زخم دوسری طرف بھی پار کر جائے تو اس میں دو تہائی دیت دینی ہو گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ بِلَالٍ الْعَامِلِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ رَاشِدٍ، عَنْسُلَيْمَانَ يَعْنِي ابْنَ مُوسَى،عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظٌ مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ"، قَالَ: وَزَادَنَا خَلِيلٌ: عَنِ ابْنِ رَاشِدٍ: وَذَلِكَ أَنْ يَنْزُوَ الشَّيْطَانُ بَيْنَ النَّاسِ فَتَكُونُ دِمَاءٌ فِي عِمِّيَّا فِي غَيْرِ ضَغِينَةٍ وَلَا حَمْلِ سِلَاحٍ.
عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "شبہ عمد کی دیت عمد کی دیت کی طرح سخت ہے، البتہ اس کے قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا"۔ خلیل کی محمد بن راشد سے روایت میں یہ اضافہ ہے "یہ (قتل شبہ عمد) لوگوں کے درمیان ایک شیطانی فساد ہے کہ بلا کسی کینے اور بغیر ہتھیار اٹھائے خون ہو جاتا ہے اور قاتل کا پتا نہیں چلتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر ماقبلہ، (تحفة الأشراف: ۸۷۱۳) (حسن)
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ خَالِدَ بْنَ الْحَارِثِ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: أَخْبَرَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْمُعَلِّمَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ،عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فِي الْمَوَاضِحِ: خَمْسٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " «مواضح» ۱؎ میں دیت پانچ اونٹ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم (۳۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۰، ۸۶۸۳) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎ : «مواضح» ایسے زخم کو کہتے ہیں جس سے ہڈی دکھائی دینے لگے۔
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا مَرْوَانُ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ الْحَارِثِ، حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْعَيْنِ الْقَائِمَةِ السَّادَّةِ لِمَكَانِهَا بِثُلُثِ الدِّيَةِ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی آنکھ میں جو اپنی جگہ باقی رہے لیکن بینائی جاتی رہے، تہائی دیت کا فیصلہ فرمایا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۶ (۴۸۴۴)، (تحفة الأشراف: ۸۷۷۰) (حسن) (یہ سند حسن کے مرتبہ تک پہنچنے کے لائق ہے)
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ نَضْلَةَ، عَنِ الْمُغِيَرةِ بْنِ شُعْبَةَ: "أَنَّ امْرَأَتَيْنِ كَانَتَا تَحْتَ رَجُلٍ مِنْ هُذَيْلٍ فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِعَمُودٍ فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَحَدُ الرَّجُلَيْنِ: كَيْفَ نَدِي مَنْ لَا صَاحَ وَلَا أَكَلَ وَلَا شَرِبَ وَلَا اسْتَهَلَّ ؟ فَقَالَ: أَسَجْعٌ كَسَجْعِ الْأَعْرَابِ، فَقَضَى فِيهِ بِغُرَّةٍ وَجَعَلَهُ عَلَى عَاقِلَةِ الْمَرْأَةِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کر دیا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا، نہ کھایا، نہ پیا، اور نہ ہی چلایا، (اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو؟" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غرہ(لونڈی یا غلام) کی دیت کا فیصلہ کیا، اور اسے عورت کے عاقلہ (وارثین) کے ذمہ ٹھہرایا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/القسامة ۱ (۱۶۸۲)، سنن الترمذی/الدیات ۱۵ (۱۴۱۱)، سنن النسائی/القسامة ۳۳ (۴۸۲۵)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۷ (۲۶۳۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۱۰)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الدیات ۲۵ (۶۹۰۵-۶۹۰۸)، الاعتصام ۱۳ (۷۳۱۷)، مسند احمد ( ۴ /۲۲۴، ۲۴۵، ۲۴۶، ۲۴۹)، سنن الدارمی/الدیات ۲۰ (۲۴۲۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ،حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، وَزَادَ: فَجَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَصَبَةِ الْقَاتِلَةِ، وَغُرَّةً لِمَا فِي بَطْنِهَا، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ الْحَكَمُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ الْمُغِيرَةِ.
اس سند سے منصور سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول عورت کی دیت قاتل عورت کے عصبات پر ٹھہرائی، اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک غرہ (غلام یا لونڈی) ٹھہرایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسی طرح حکم نے مجاہد سے مجاہد نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۱۰) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَهَارُونُ بْنُ عَبَّادٍ الْأَزْدِيُّ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنِالْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ: "أَنّ عُمَرَ اسْتَشَارَ النَّاسَ فِي إِمْلَاصِ الْمَرْأَةِ، فَقَالَ الْمُغِيرَةُ بْنُ شُعْبَةَ: شَهِدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى فِيهَا بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، فَقَالَ: ائْتِنِي بِمَنْ يَشْهَدُ مَعَكَ، فَأَتَاهُ بِمُحَمَّدِ بْنِ مَسْلَمَةَ، زَادَ هَارُونُ: فَشَهِدَ لَهُ يَعْنِي ضَرْبَ الرَّجُلِ بَطْنَ امْرَأَتِهِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: بَلَغَنِي عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ، إِنَّمَا سُمِّيَ إِمْلَاصًا لِأَنَّ الْمَرْأَةَ تُزْلِقُهُ قَبْلَ وَقْتِ الْوِلَادَةِ، وَكَذَلِكَ كُلُّ مَا زَلَقَ مِنَ الْيَدِ وَغَيْرِهِ فَقَدْ مَلِصَ.
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کے املاص کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے، تو عمر نے کہا: میرے پاس اپنے ساتھ اس شخص کو لاؤ جو اس کی گواہی دے، تو وہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو لے کر ان کے پاس آئے۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے تو انہوں نے اس کی گواہی دی یعنی اس بات کی کہ کوئی آدمی عورت کے پیٹ میں مارے جو اسقاط حمل کا سبب بن جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے معلوم ہوا اسقاط حمل کو املاص اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازلاق یعنی پھسلانے کے ہیں گویا عورت ولادت سے قبل ہی مار کی وجہ سے حمل کو پھسلا دیتی ہے اسی طرح ہاتھ یا کسی اور چیز سے جو چیز پھسل کر گر جائے تو اس کی تعبیر «مَلِصَ» سے کی جاتی ہے یعنی وہ پھسل گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/ القسامة ۲ (۱۶۸۹)، سنن ابن ماجہ/ الدیات ۱۱ (۲۶۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۲۳۳، ۱۱۵۲۹)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۵۳) (صحیح) (ہارون کی زیادتی صحیح نہیں ہے)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُمَرَ بِمَعْنَاهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُحَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَحَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عُمَرَ، قَالَ.
عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید اور حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، عروہ نے اپنے باپ زبیر سے روایت کیا ہے کہ عمر نے کہا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الدیات ۲۵ (۶۹۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۱۵۱۱) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَسْعُودٍ الْمِصِّيصِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَطَاوُسًا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ عُمَرَ: "أَنَّهُ سَأَلَ عَنْ قَضِيَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، فَقَامَ إِلَيِه حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ، فَقَالَ: كُنْتُ بَيْنَ امْرَأَتَيْنِ فَضَرَبَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِمِسْطَحٍ فَقَتَلَتْهَا وَجَنِينَهَا، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنِينِهَا بِغُرَّةٍ وَأَنْ تُقْتَلَ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: الْمِسْطَحُ هُوَ الصَّوْبَجُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وقَالَ أَبُو عُبَيْدٍ: الْمِسْطَحُ عُودٌ مِنْ أَعْوَادِ الْخِبَاءِ.
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو حمل بن مالک بن نابغہ کھڑے ہوئے، اور بولے: میں دونوں عورتوں کے بیچ میں تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مارا تو وہ مر گئی اور اس کا جنین بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنین کے سلسلے میں ایک غلام یا لونڈی کی دیت کا، اور قاتلہ کو قتل کر دیئے جانے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل نے کہا: «مسطح» چوپ یعنی (روٹی پکانے کی لکڑی) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابو عبید نے کہا:«مسطح» خیمہ کی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۳ (۴۷۲۰)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۱ (۲۶۴۱)، (تحفة الأشراف: ۳۴۴۴)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۶۴، ۴/ ۷۹)، سنن الدارمی/الدیات ۲۱ (۲۴۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو،عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: قَامَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الْمِنْبَرِ، فَذَكَرَ مَعْنَاهُ، لَمْ يَذْكُرْ وَأَنْ تُقْتَلَ، زَادَ: بِغُرَّةٍ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ: اللَّهُ أَكْبَرُ لَوْ لَمْ أَسْمَعْ بِهَذَا لَقَضَيْنَا بِغَيْرِ هَذَا.
طاؤس کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے، آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی البتہ اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ قتل کی جائے، اور انہوں نے «بغرة عبد أو أمة» کا اضافہ کیا ہے، راوی کہتے ہیں: اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اکبر! اگر ہم یہ حکم نہ سنے ہوتے تو اس کے خلاف فیصلہ دیتے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۳۴۴۴) (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ التَّمَّارُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ طَلْحَةَ حَدَّثَهُمْ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْعِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِي قِصَّةِ حَمَلِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَأَسْقَطَتْ غُلَامًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ مَيِّتًا وَمَاتَتِ الْمَرْأَةُ فَقَضَى عَلَى الْعَاقِلَةِ الدِّيَةَ، فَقَالَ عَمُّهَا: إِنَّهَا قَدْ أَسْقَطَتْ يَا نَبِيَّ اللَّهِ غُلَامًا قَدْ نَبَتَ شَعْرُهُ، فَقَالَ أَبُو الْقَاتِلَةِ: إِنَّهُ كَاذِبٌ إِنَّهُ وَاللَّهِ مَا اسْتَهَلَّ وَلَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ فَمِثْلُهُ يُطَلُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسَجْعَ الْجَاهِلِيَّةِ وَكَهَانَتَهَا ! أَدِّ فِي الصَّبِيِّ غُرَّةً، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: كَانَ اسْمُ إِحْدَاهُمَا مُلَيْكَةَ وَالْأُخْرَى أُمَّ غُطَيْفٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حمل بن مالک کے قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں تو اس نے بچہ کو جسے بال اگے ہوئے تھے ساقط کر دیا، وہ مرا ہوا تھا اور عورت بھی مر گئی، تو آپ نے وارثوں پر دیت کا فیصلہ کیا، اس پر اس کے چچا نے کہا: اللہ کے نبی! اس نے تو ایک ایسا بچہ ساقط کیا ہے جس کے بال اگ آئے تھے، تو قاتل عورت کے باپ نے کہا: یہ جھوٹا ہے، اللہ کی قسم! نہ تو وہ چیخا، نہ پیا، اور نہ کھایا، اس جیسے کا خون تو معاف (رائیگاں) قرار دے دیا جاتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا جاہلیت جیسی مسجع عبارت بولتے ہو جیسے کاہن بولتے ہیں، بچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی کی دینی ہو گی"۔ ابن عباس کہتے ہیں: ان میں سے ایک کا نام ملیکہ اور دوسری کا ام غطیف تھا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : ۴۵۶۸، (تحفة الأشراف: ۳۴۴۴) (ضعیف)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ، حَدَّثَنَا مُجَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَاالشَّعْبِيُّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ: "أَنَّ امْرَأَتَيْنِ مِنْ هُذَيْلٍ قَتَلَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى وَلِكُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُمَا زَوْجٌ وَوَلَدٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ الْمَقْتُولَةِ عَلَى عَاقِلَةِ الْقَاتِلَةِ وَبَرَّأَ زَوْجَهَا وَوَلَدَهَا، قَالَ: فَقَالَ: عَاقِلَةُ الْمَقْتُولَةِ مِيرَاثُهَا لَنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، مِيرَاثُهَا لِزَوْجِهَا وَوَلَدِهَا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا، اور اولاد بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا، مقتولہ کے عصبات نے کہا: کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہو گی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۵ (۲۶۴۸)، (تحفة الأشراف: ۲۳۴۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَابْنُ السَّرْحِ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "اقْتَتَلَتِ امْرَأَتَانِ مِنْ هُذَيْلٍ فَرَمَتْ إِحْدَاهُمَا الْأُخْرَى بِحَجَرٍ فَقَتَلَتْهَا، فَاخْتَصَمُوا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دِيَةَ جَنِينِهَا غُرَّةَ عَبْدٍ أَوْ وَلِيدَةٍ وَقَضَى بِدِيَةِ الْمَرْأَةِ عَلَى عَاقِلَتِهَا وَوَرَّثَهَا وَلَدَهَا وَمَنْ مَعَهُمْ، فَقَالَ حَمَلُ بْنُ مَالِكِ بْنِ النَّابِغَةِ الْهُذَلِيُّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَيْفَ أُغْرَمُ دِيَةَ مَنْ لَا شَرِبَ وَلَا أَكَلَ لَا نَطَقَ وَلَا اسْتَهَلَّ فَمِثْلُ ذَلِكَ يُطَلُّ ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّمَا هَذَا مِنْ إِخْوَانِ الْكُهَّانِ مِنْ أَجْلِ سَجْعِهِ الَّذِي سَجَعَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں جھگڑا ہوا، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا تو اسے قتل ہی کر ڈالا، تو لوگ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا: "جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے، اور عورت کی دیت کا فیصلہ کیا کہ یہ اس کے عصبہ پر ہو گی" اور اس دیت کا وارث مقتولہ کی اولاد کو اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو قرار دیا۔ حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی جان کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا، اور نہ چیخا، ایسے کا خون تو لغو قرار دے دیا جاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے" آپ نے یہ بات اس کی اس «سجع» تعبیر کی وجہ سے کہی جو اس نے کی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الطب ۴۶ (۵۷۵۸)، الفرائض ۱۱ (۵۷۵۹)، الدیات ۲۵ (۶۹۰۹)، ۲۶ (۶۹۱۰)، صحیح مسلم/القسامة ۱۱(۱۶۸۱)، سنن النسائی/القسامة ۳۳ (۴۸۲۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۲۰، ۱۵۳۰۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۵ (۱۴۱۰)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۱ (۲۶۳۹)، موطا امام مالک/العقول ۷ (۵)، مسند احمد ( ۲/۲۳۶، ۲۷۴، ۴۳۸، ۴۹۸، ۵۳۵، ۵۳۹)، دی/الدیات ۲۱ (۲۴۲۷) (صحیح)
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيَّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذِهِ الْقِصَّةِ قَالَ: ثُمَّ إِنَّ الْمَرْأَةَ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا بِالْغُرَّةِ تُوُفِّيَتْ، فَقَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنَّ مِيرَاثَهَا لِبَنِيهَا وَأَنَّ الْعَقْلَ عَلَى عَصَبَتِهَا.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں پھر وہ عورت، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی یا غلام کا فیصلہ کیا تھا، مر گئی، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں کی ہے، اور دیت قاتلہ کے عصبہ پر ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ الفرائض (۶۷۴۰)، الدیات ۲۵ (۶۹۰۹)، صحیح مسلم/ الحدود ۱۱ (۱۶۸۱)، سنن الترمذی/ الدیات ۱۵ (۱۴۱۰)، الفرائض ۱۹ (۲۱۱۱)، سنن النسائی/ القسامة ۳۳ (۴۸۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۲۵)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العقول ۷ (۵) (صحیح)
حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ: "أَنّ امْرَأَةً خَذَفَتِ امْرَأَةً فَأَسْقَطَتْ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَعَلَ فِي وَلَدِهَا خَمْسَ مِائَةِ شَاةٍ وَنَهَى يَوْمَئِذٍ عَنِ الْخَذْفِ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: كَذَا الْحَدِيثُ خَمْسَ مِائَةِ شَاةٍ وَالصَّوَابُ مِائَةُ شَاةٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَكَذَا قَالَ عَبَّاسٌ، وَهُوَ وَهْمٌ.
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مارا تو اس کا حمل گر گیا، یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے اس بچہ کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، اور لوگوں کو پتھر مارنے سے اسی دن سے منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت اسی طرح ہے "پانچ سو بکریوں کی" لیکن صحیح "سو بکریاں" ہے، اسی طرح عباس نے کہا ہے حالانکہ یہ وہم ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۳ (۴۸۱۷)، (تحفة الأشراف: ۲۰۰۶) (ضعیف) وضاحت : الحکم علی حدیث النسائی: ''صحیح الإسناد'' (۴۸۱۷)
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى الرَّازِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى، عَنْ مُحَمَّدٍ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنِينِ بِغُرَّةِ عَبْدٍ أَوْ أَمَةٍ أَوْ فَرَسٍ أَوْ بَغْلٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، وَخَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، لَمْ يَذْكُرَا أَوْ فَرَسٍ أَوْ بَغْلٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچے میں ایک غلام یا ایک لونڈی یا ایک گھوڑے یا ایک خچر کی دیت کا فیصلہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو حماد بن سلمہ اور خالد بن عبداللہ نے محمد بن عمرو سے روایت کیا ہے البتہ ان دونوں نے «أو فرس أو بغل» کا ذکر نہیں کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم : (۴۵۷۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۰۷۸)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۴۳۸، ۴۹۸) (شاذ)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سِنَانٍ الْعَوَقِيُّ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، وَجَابِرٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "الْغُرَّةُ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ رَبِيعَةُ: الْغُرَّةُ خَمْسُونَ دِينَارًا.
شعبی کہتے ہیں کہ غرہ (غلام یا لونڈی) کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ربیعہ نے کہا: غرہ (غلام یا لونڈی) پچاس دینار کا ہوتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۸۴۰۳) (ضعیف الإسناد)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ الصَّوَّافُ، جَمِيعًا عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: "قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي دِيَةِ الْمُكَاتَبِ يُقْتَلُ يُودَى مَا أَدَّى مِنْ مُكَاتَبَتِهِ دِيَةَ الْحُرِّ وَمَا بَقِيَ دِيَةَ الْمَمْلُوكِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکاتب غلام جسے قتل کر دیا جائے کی دیت میں فیصلہ فرمایا کہ قتل کے وقت جس قدر وہ بدل کتابت ادا کر چکا ہے اتنے حصہ کی دیت آزاد کی دیت کے مثل ہو گی اور جس قدر ادائیگی باقی ہے اتنے حصے کی دیت غلام کی دیت کے مثل ہو گی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۲ (۴۸۱۲، ۴۸۱۳)، (تحفة الأشراف: ۶۲۴۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد ( ۱/۲۲۲، ۲۲۶، ۲۶۰، ۲۹۲، ۳۶۳) (صحیح)
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا أَصَابَ الْمُكَاتَبُ حَدًّا أَوْ وَرِثَ مِيرَاثًا يَرِثُ عَلَى قَدْرِ مَا عَتَقَ مِنْهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُوُهَيْبٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَرْسَلَهُ حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، وَإِسْمَاعِيل، عَنْأَيُّوبَ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَعَلَهُ إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ قَوْلَ عِكْرِمَةَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب مکاتب کوئی حد کا کام کرے یا ترکے کا وارث ہو تو جس قدر آزاد ہوا ہے وہ اسی قدر وارث ہو گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے وہیب نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے، عکرمہ نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ اور حماد بن زید اور اسماعیل نے ایوب سے، ایوب نے عکرمہ سے اور عکرمہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرسلاً روایت کیا ہے۔ اور اسماعیل بن علیہ نے اسے عکرمہ کا قول قرار دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/ البیوع ۳۵ (۱۲۵۹)، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: ۵۹۹۳)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۱/۳۶۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ مَوْهَبٍ الرَّمْلِيُّ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "دِيَةُ الْمُعَاهِدِ نِصْفُ دِيَةِ الْحُرِّ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ اللَّيْثِيُّ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ مِثْلَهُ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ذمی معاہد کی دیت آزاد کی دیت کی آدھی ہے ۱؎"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسامہ بن زید لیثی اور عبدالرحمٰن بن حارث نے بھی عمرو بن شعیب سے اسی کی مثل روایت کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۸۷۸۷)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدیات ۱۷ (۱۴۱۳)، سنن النسائی/القسامة ۳۱ (۴۸۱۰)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۳ (۲۶۴۴)، مسند احمد ( ۲/۱۸۳، ۲۱۷، ۲۲۴) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جو کافر دارالاسلام میں معاہدہ کی رو سے رہتا ہے اس کی دیت مسلمان کی دیت کی آدھی ہے۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَعْلَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: "قَاتَلَ أَجِيرٌ لِي رَجُلًا فَعَضَّ يَدَهُ فَانْتَزَعَهَا فَنَدَرَتْ ثَنِيَّتُهُ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَهْدَرَهَا، وَقَالَ: أَتُرِيدُ أَنْ يَضَعَ يَدَهُ فِي فِيكَ تَقْضِمُهَا كَالْفَحْلِ ؟ قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَهْدَرَهَا، وَقَالَ: بَعِدَتْ سِنُّهُ".
یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے ایک مزدور نے ایک شخص سے جھگڑا کیا اور اس کے ہاتھ کو منہ میں کر کے دانت سے دبایا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا دانت باہر نکل آیا، پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اسے لغو کر دیا، اور فرمایا: "کیا چاہتے ہو کہ وہ اپنا ہاتھ تمہارے منہ میں دیدے، اور تم اسے سانڈ کی طرح چبا ڈالو" ابن ابی ملیکہ نے اپنے دادا سے نقل کیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے لغو قرار دیا اور کہا: (اللہ کرے) اس کا دانت نہ رہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/جزاء الصید ۱۹ (۱۸۴۷)، الإجارة ۵ (۲۲۶۵)، الجھاد ۱۲۰ (۲۹۷۳)، المغازي ۷۸ (۴۴۱۷)، الدیات ۱۸ (۶۸۹۳)، صحیح مسلم/الحدود ۴ (۱۶۷۳)، سنن النسائی/القسامة ۱۵ (۴۷۷۴، ۴۷۷۵، ۴۷۷۶)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۰ (۲۶۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۸۳۷، ۶۶۲۲)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۴/۲۲۲، ۲۲۳، ۲۲۴) (صحیح)
حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ، وَعَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ أُمَيَّةَ بِهَذَا، زَادَ: ثُمّ قَالَ يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَاضِّ: إِنْ شِئْتَ أَنْ تُمَكِّنَهُ مِنْ يَدِكَ فَيَعَضُّهَا ثُمَّ تَنْزِعُهَا مِنْ فِيهِ وَأَبْطَلَ دِيَةَ أَسْنَانِهِ.
اس سند سے بھی یعلیٰ بن امیہ سے یہی حدیث مروی ہے البتہ اتنا اضافہ ہے "پھر آپ نے (یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) دانت کاٹنے والے سے فرمایا: "اگر تم چاہو تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم بھی اپنا ہاتھ اس کے منہ میں دے دو وہ اسے کاٹے پھر تم اسے اس کے منہ سے کھینچ لو" اور اس کے دانتوں کی دیت باطل قرار دے دی۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: ۱۱۸۴۶) (صحیح الإسناد)
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ، أَنَّ الْوَلِيدَ بْنَ مُسْلِمٍ أَخْبَرَهُمْ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْعَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ تَطَبَّبَ وَلَا يُعْلَمُ مِنْهُ طِبٌّ فَهُوَ ضَامِنٌ"، قَالَ نَصْرٌ: قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا لَمْ يَرْوِهِ إِلَّا الْوَلِيدُ، لَا نَدْرِي هُوَ صَحِيحٌ أَمْ لَا ؟.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو طب نہ جانتا ہو اور علاج کرے تو وہ(مریض کا) ضامن ہو گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ولید کے علاوہ کسی اور نے روایت نہیں کیا، ہمیں نہیں معلوم یہ صحیح ہے یا نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۳۴ (۴۸۳۴)، سنن ابن ماجہ/الطب ۱۶ (۳۴۶۶)، (تحفة الأشراف: ۸۷۴۶) (حسن)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، حَدَّثَنِي بَعْضُ الْوَفْد الَّذِينَ قُدِمُوا عَلَى أَبِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَيُّمَا طَبِيبٍ تَطَبَّبَ عَلَى قَوْمٍ لَا يُعْرَفُ لَهُ تَطَبُّبٌ قَبْلَ ذَلِكَ فَأَعْنَتَ فَهُوَ ضَامِنٌ"، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: أَمَا إِنَّهُ لَيْسَ بِالنَّعْتِ، إِنَّمَا هُوَ قَطْعُ الْعُرُوقِ وَالْبَطُّ وَالْكَيُّ.
عبدالعزیزبن عمر بن عبدالعزیز کہتے ہیں میرے والد کے پاس آنے والوں میں سے ایک شخص نے مجھ سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو کسی قوم میں طبیب بن بیٹھے، حالانکہ اس سے پہلے اس کی طب دانی معروف نہ ہو اور مریض کا مرض بگڑ جائے اور اس کو نقصان لاحق ہو جائے تو وہ اس کا ضامن ہو گا"۔ عبدالعزیز کہتے ہیں: «اعنت نعت» سے نہیں (بلکہ «عنت» سے ہے جس کے معنی) رگ کاٹنے، زخم چیرنے یا داغنے کے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۳۱) (حسن)
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خَالِدٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ أَوْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُسَدَّدٌ: "خَطَبَ يَوْمَ الْفَتْحِ، ثُمَّ اتَّفَقَا، فَقَالَ: أَلَا إِنَّ كُلَّ مَأْثُرَةٍ كَانَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ مِنْ دَمٍ أَوْ مَالٍ تُذْكَرُ وَتُدْعَى تَحْتَ قَدَمَيَّ، إِلَّا مَا كَانَ مِنْ سِقَايَةِ الْحَاجِّ وَسِدَانَةِ الْبَيْتِ، ثُمَّ قَالَ: أَلَا إِنَّ دِيَةَ الْخَطَإِ شِبْهِ الْعَمْدِ مَا كَانَ بِالسَّوْطِ وَالْعَصَا مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ مِنْهَا أَرْبَعُونَ فِي بُطُونِهَا أَوْلَادُهَا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا آپ نے فرمایا: "سنو! جاہلیت کے خون یا مال کی جتنی فضیلتیں بھی تھیں جن کا ذکر کیا جاتا تھا یا جن کے دعوے کئے جاتے تھے وہ سب میرے قدموں تلے ہیں، سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور بیت اللہ کی دیکھ ریکھ کے" پھر فرمایا: "سنو! قتل خطا جو کوڑے یا لاٹھی سے ہوا ہو شبہ عمد ہے، اس کی دیت سو اونٹ ہے، جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی ہوں گی جن کے پیٹ میں بچے ہوں گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎ : یہ اس سے پہلے حدیث نمبر (۴۵۴۷) کے تحت بھی گزر چکا ہے۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ خَالِدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ مَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی خالد سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۸۸۸۹)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ: "أَنّ غُلَامًا لِأُنَاسٍ فُقَرَاءَ قَطَعَ أُذُنَ غُلَامٍ لِأُنَاسٍ أَغْنِيَاءَ، فَأَتَى أَهْلُهُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أُنَاسٌ فُقَرَاءُ، فَلَمْ يَجْعَلْ عَلَيْهِ شَيْئًا".
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ فقیر لوگوں کے ایک غلام نے کچھ مالدار لوگوں کے ایک غلام کا کان کاٹ لیا، تو جس غلام نے کان کاٹا تھا اس کے مالکان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! ہم فقیر لوگ ہیں، تو آپ نے ان پر کوئی دیت نہیں ٹھہرائی۔
تخریج دارالدعوہ: سنن النسائی/القسامة ۱۵، ۱۶ (۴۷۵۵)، سنن الدارمی/الدیات ۳ (۲۳۹۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۶۳) (صحیح)
قَالَ أَبُو دَاوُد: حُدِّثْتُ عَنْ سَعِيدِ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ قَتَلَ فِي عِمِّيَّا أَوْ رِمِّيًّا يَكُونُ بَيْنَهُمْ بِحَجَرٍ أَوْ بِسَوْطٍ فَعَقْلُهُ عَقْلُ خَطَإٍ، وَمَنْ قَتَلَ عَمْدًا فَقَوَدُ يَدَيْهِ فَمَنْ حَالَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اندھا دھند مارا جائے یا کسی دنگے فساد میں جو ان میں چھڑ گیا ہو، یا کسی پتھر یا کوڑے سے مارا جائے تو اس کی دیت قتل خطا کی دیت ہو گی، اور جو جان بوجھ کر عمداً کسی کو قتل کرے تو وہ موجب قصاص ہے، اب اگر کوئی ان دونوں کے بیچ میں پڑ کر (قاتل کو بچانا چاہے) تو اس پر اللہ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۴۵۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۸۸۲۸، ۵۷۳۹) (صحیح)
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الرِّجْلُ جُبَارٌ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الدَّابَّةُ تَضْرِبُ بِرِجْلِهَا وَهُوَ رَاكِبٌ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(جانور کا) پاؤں باطل و رائیگاں ہے اس کی کوئی دیت نہیں ہو گی"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور پیر سے مار دے جب کہ وہ اس پہ سوار ہو تو اس کی کوئی دیت نہیں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۰) (ضعیف)
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، سَمِعَا أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: الْعَجْمَاءُ الْمُنْفَلِتَةُ الَّتِي لَا يَكُونُ مَعَهَا أَحَدٌ، وَتَكُونُ بِالنَّهَارِ لَا تَكُونُ بِاللَّيْلِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جانور کسی کو زخمی کر دے تو اس میں ہرجانہ نہیں ہے، کان میں ہلاک ہونے والے کا ہرجانہ نہیں ہے اور کنواں میں ہلاک ہو جانے والے کا ہرجانہ نہیں ہے ۱؎ اور رکاز میں پانچواں حصہ دینا ہو گا"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جانور سے مراد وہ جانور ہے جو چھڑا کر بھاگ گیا ہو اور اس کے ساتھ کوئی نہ ہو اور دن ہو، رات نہ ہو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم : (۳۰۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۸، ۱۵۱۴۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی جانور کسی کو زخمی کر دے یا کان اور کنویں میں گر کر کوئی ہلاک ہو جائے تو ان کے مالکوں پر اس کی دیت نہ ہو گی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُتَوَكِّلِ الْعَسْقَلَانِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ. ح وحَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُسَافِرٍ التِّنِّيسِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ الصَّنْعَانِيُّ، كِلَاهُمَا عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "النَّارُ جُبَارٌ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آگ باطل ہے ۱؎"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۱۴۷۹۶، ۱۴۶۹۹)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الدیات ۲۷ (۲۶۷۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : یعنی کسی نے اپنی زمین پر آگ جلائی اور وہ وہاں سے اڑ کر کسی کے گھر یا سامان میں لگ گئی تو جلا نے والے پر کوئی تاوان نہ ہو گا۔
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: "كَسَرَتِ الرُّبَيِّعُ أُخْتُ أَنَسِ بْنِ النَّضْرِ ثَنِيَّةَ امْرَأَةٍ، فَأَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَضَى بِكِتَابِ اللَّهِ الْقِصَاصَ، فَقَالَ أَنَسُ بْنُ النَّضْرِ: وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا تُكْسَرُ ثَنِيَّتُهَا الْيَوْمَ، قَالَ: يَا أَنَسُ كِتَابُ اللَّهِ الْقِصَاصُ، فَرَضُوا بِأَرْشٍ أَخَذُوهُ، فَعَجِبَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنَّ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ مَنْ لَوْ أَقْسَمَ عَلَى اللَّهِ لَأَبَرَّهُ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، قِيلَ لَهُ: كَيْفَ يُقْتَصُّ مِنَ السِّنِّ ؟ قَالَ: تُبْرَدُ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انس بن نضر رضی اللہ عنہ کی بہن ربیع نے ایک عورت کا سامنے کا دانت توڑ دیا، تو وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، آپ نے اللہ کی کتاب کے مطابق قصاص کا فیصلہ کیا، تو انس بن نضر نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! اس کا دانت تو آج نہیں توڑا جائے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے انس! کتاب اللہ میں قصاص کا حکم ہے" پھر وہ لوگ دیت پر راضی ہو گئے جسے انہوں نے لے لیا، اس پر اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تعجب ہوا اور آپ نے فرمایا: "اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم کھا لیں تو وہ ان کی قسم پوری کر دیتا ہے ۱؎"۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد بن حنبل کو کہتے سنا ان سے پوچھا گیا تھا کہ دانت کا قصاص کیسے لیا جائے؟ تو انہوں نے کہا: وہ ریتی سے رگڑا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: ۷۷۷)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصلح ۸ (۲۷۰۳)، تفسیر سورة البقرة ۲۳ (۴۴۹۹)، المائدة ۶ (۴۶۱۱)، الدیات ۱۹ (۶۸۹۴)، صحیح مسلم/القسامة ۵ (۱۶۷۵)، سنن النسائی/القسامة ۱۲ (۴۷۵۹)، سنن ابن ماجہ/الدیات ۱۶ (۲۶۴۹)، مسند احمد ( ۳/۱۲۸ ، ۱۶۷، ۲۸۴) (صحیح)
وضاحت: ۱؎ : انس بن نضر رضی اللہ عنہ نے غصے میں اللہ کے بھروسے پر قسم کھا لی تھی کہ میری بہن کا دانت نہیں توڑا جائے گا، چنانچہ اللہ نے ان کے لئے ایسا ہی سامان قانونی طور پر کر دیا۔