دیات ' جمع ہے دیت کی جس کے معنی ہیں مالی معاوضہ گویا دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جان کو ختم کرنے یا کسی شخص کے جسمانی اعضاء کو ناقص (مجروح) کرنے کے بدلہ میں دیا جاتا ہے ! عنوان میں جمع کا لفظ دیات دیت کی انواع (قسموں) کے اعتبار سے لایا گیا ہے اس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ دیت کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً ایک دیت تو وہ ہوتی ہے جو کسی کو جان سے مار ڈالنے کے بدلہ میں دی جاتی ہے اور ایک دیت وہ ہوتی ہے جو اعضاء کے نقصان کے بدلے میں دی جاتی ہے۔ پھر نوعیت وحیثیت کے اعتبار سے بھی دیت دو طرح کی ہوتی ہے ایک تو مغلظہ کہلاتی ہے اور دوسری کو مخففہ کہتے ہیں۔
دیت مغلظہ تو یہ ہے کہ چار طرح کی سو اونٹنیاں ہوں یعنی پچیس بنت مخاض (جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں لگی ہو) پچیس بنت لبون (جو دو سال میں لگی ہوں) پچیس حقہ (جو تین سال کی ہو کر چوتھے سال میں لگی ہوں) اور پچیس جذعہ (جو چار سال کی ہو کر پانچویں سال میں لگی ہوں) یہ تفصیل حضرت امام اعظم ابوحنیفہ اور حضرت ابو یوسف کے مسلک کے مطابق ہے، حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے نزدیک دیت مغلظہ یہ ہے کہ تین طرح کی اونٹنیاں ہوں یعنی تیس حقہ، تیس جذعہ، اور چالیس مثنہ (جو پانچ سال کی ہو کر چھٹے سال میں لگی ہوں) اور سب حاملہ ہوں۔ دیت مغلظہ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو قتل شبہ عمد کا مرتکب پایا گیا ہو۔
دیت مخففہ یہ ہے کہ اگر سونے کی قسم سے دیت دی جائے تو اس کی مقدار ایک ہزار دینار (اشرفی) ہے اور اگر چاندی کی قسم سے دی جائے تو دس ہزار درہم دیئے جائیں گے اور اگر اونٹ کی قسم سے دے تو پانچ طرح کے سو اونٹ دینے ہوں گے یعنی بیس ابن مخاض (وہ اونٹ جو ایک سال کی ہو کر دوسرے سال میں لگے ہوں) بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون، بیس جذعہ دیت مخففہ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو قتل خطاء یا قتل جاری مجریٰ خطا اور یا قتل تسبیب کا مرتکب پایا گیا ہو۔
حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا یہ اور یہ یعنی (آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سب سے چھوٹی انگلی اور انگوٹھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) چھنگلیا اور انگوٹھا (دیت کے اعتبار سے) دونوں برابر ہیں۔ (بخاری)
تشریح
اگر کوئی شخص کسی کے دونوں ہاتھ یا دونوں پاؤں کاٹ دے تو چونکہ اس نے ایک انسان کو اس کی منفعت ایک بہت بڑے ذریعہ سے محروم کر دیا اس لئے اس پر (بطور سزا) پوری دیت واجب ہو گی اس اعتبار سے ہر انگلی کانٹے پر پوری دیت (یعنی سو اونٹ) کا دسواں حصہ دینا واجب ہو گا، اسی کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ انگوٹھے اور چھنگلیا کی دیت برابر ہے اگرچہ انگوٹھے میں دو گانٹھ اور چھنگلیا میں تین گانٹھ ہوتی ہیں لیکن اصل میں منفعت میں دونوں انگلیوں کے مساوی ہونے کے اعتبار سے گانٹھ کی کمی زیادتی کا اعتبار نہیں ہو گا جس طرح کہ دائیں اور بائیں میں فرق نہیں ہوتا اور جب ہر انگلی میں پوری دیت کا دسواں حصہ واجب ہو گا تو انگلی کی ہر گانٹھ کی دیت میں اسی حساب کا اعتبار ہو گا کہ انگلی کی دیت میں دسویں حصہ کا تہائی دینا ہو گا اور انگوٹھے کی ہر ایک گانٹھ کی دیت میں دسویں حصہ کا آدھا دینا ہو گا کیونکہ انگوٹھے میں دو گانٹھ ہوتی ہیں اور انگلیوں میں تین تین گانٹھیں ہوتی ہیں۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے بنی لحیان کی ایک عورت کے اس بچہ کی دیت میں جو مر کر اس کے پیٹ سے گر پڑا تھا ((عاقلہ پر) غرہ واجب کیا تھا، اور غرہ سے مراد غلام یا لونڈی ہے، پھر جب وہ عورت (کہ جس کے عاقلہ پر غرہ واجب کیا تھا) مر گئی تو آپ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں اور خاوند کے لئے ہے اور اس کی دیت اس کے عصبہ پر ہے۔ (بخاری و مسلم)'
تشریح
واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا اتفاق سے وہ عورت حاملہ تھی اور پتھر اس کے پیٹ پر لگا، اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ جو بچہ اس کے پیٹ میں تھا اس پتھر کی چوٹ سے مر کر پیٹ سے باہر آ گیا چنانچہ اس کی دیت میں پتھر مارنے والے کے عاقلہ (یعنی اہل خاندان) پر ایک غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام واجب کیا گیا، اور اگر وہ بچہ زندہ پیدا ہو کر بعد میں مر جاتا یا اگر وہ بچہ زندہ پیدا ہوتا اور اس کے بعد وہ پتھر مارتی اور اس پتھر کی چوٹ سے وہ بچہ مر جاتا تو اس صورت میں پوری دیت واجب کی جاتی۔
غرہ اصل میں تو اس سفیدی کو کہتے ہیں جو گھوڑے کی پیشانی پر ہوتی ہے، پھر سفید رنگ کے غلام یا لونڈی کو بھی غرہ کہا جانے لگا لیکن یہاں مراد مطلق غلام یا لونڈی ہے، ویسے فقہا کے نزدیک غرہ سے دیت کا بیسواں حصہ یعنی پانچ سو درہم مراد ہے۔
اور اس کی دیت اس کے عصبہ پر ہے میں عصبہ سے مراد عاقلہ ہیں اس جملہ سے یہ واضح کرنا مراد ہے کہ اگرچہ اس کی دیت اس کے عاقلہ یعنی خاندان اور برادری والوں پر واجب ہو گی مگر وہ خاندان اور برادری والے پر واجب ہو گی مگر وہ خاندان اور برادری والے اس کی میراث کے وارث نہیں قرار پائیں گے کیونکہ کسی کی دیت کا ذمہ دار ہونے سے اس کی میراث کا حقدار ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کی میراث تو انہی لوگوں کو ملے گی جو اس کے شرعی وارث ہیں، اب رہی یہ بات کہ یہاں وارثوں میں صرف بیٹوں اور خاوند کی تخصیص کیوں کی گئی تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں جس عورت کا ذکر ہے اس کے ورثاء میں صرف یہی لوگ موجود ہوں گے اس لئے انہی کا ذکر کیا گیا ورنہ مقصود یہ ہے کہ میراث ہر اس وارث کو ملے گی جو موجود ہو جیسا کہ اگلی حدیث کے الفاظ (ورثھا ولدہا ومن معہم) سے واضح ہے۔
اور حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ (ایک دن) قبیلہ ہزیل کی دو عورتیں آپس میں لڑ پڑیں اور ان میں سے ایک نے دوسری عورت کے پتھر کھینچ مارا جس سے وہ عورت بھی مر گئی اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا۔ چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ مقتولہ کے اس بچہ کی دیت جو اس کے پیٹ میں مر گیا غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام ہے، اور حکم فرمایا کہ مقتولہ کے دیت، قاتلہ کے خاندان و برادری والوں پر ہے نیز آپ نے اس کی دیت کا وارث اس کے بیٹوں اور ان لوگوں کو بنایا جو بیٹوں کے ساتھ (وراثت میں شریک) تھے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دفعہ میں جو واقعہ گزرا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے اور اس حدیث میں جو واقعہ ذکر کیا گیا ہے وہ کسی اور عورت کا ہے۔ پہلی حدیث میں تو یہ ذکر تھا کہ پتھر مارنے سے عورت مر گئی تھی چنانچہ اس حدیث میں اس عورت کی وفات اور اس کی وفات کے بعد جو احکام نافذ ہونے تھے ان کا ذکر کرنا مقصود تھا اور اس حدیث میں اس عورت کا ذکر کیا گیا ہے جو پتھر کی چوٹ کھانے کی وجہ سے مر گئی تھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا تھا چنانچہ یہاں اس کا حکم بیان کیا گیا ہے۔
یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ پتھر کے ذریعہ کسی کو ہلاک کر دینا دیت کا موجب ہے نہ کہ قصاص کا، نیز یہ قتل عمد کی قسم سے نہیں ہے بلکہ شبہ عمد کی قسم سے ہے جیسا کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک ہے لیکن اس بارے میں یہ حدیث چونکہ دوسرے ائمہ کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے وہ حدیث میں مذکورہ پتھر کو چھوٹے پتھر پر محمول کرتے ہیں۔
٭٭ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کہتے ہیں کہ دو عورتیں جو آپس میں سوکنیں تھیں (ایک دن باہم لڑ پڑیں) چنانچہ ان میں سے ایک نے دوسری کو (جو حاملہ تھی) پتھر یا خیمے کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے اسکا حمل ساقط ہو گیا۔ لہٰذا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم دیا اور دیت کو آپ نے مارنے والی عورت پر واجب کیا۔ یہ ترمذی کی روایت ہے۔ اور مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ حضرت مغیرہ نے کہا ایک عورت اپنی سوکن کو جو حاملہ تھی، خیمہ کی چوب سے مارا جس کی وجہ سے وہ مر گئی (اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر گیا) مغیرہ کہتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ایک عورت لحیان کے خاندان سے تھی (جو قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ ہے) مغیرہ کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عاقلہ پر واجب کی اور پیٹ کے بچہ کی دیت میں غرہ یعنی ایک لونڈی یا ایک غلام دینے کا حکم فرمایا۔
تشریح
یہ حدیث بھی حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک کی دلیل ہے کیونکہ خیمے چوب سے عام طور انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے باوجود اس عورت کو قتل عمد کا مرتکب قرار دیا گیا بلکہ شبہ عمد کا مرتکب گردانا گیا۔ حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ یہاں پتھر اور چوب سے مراد چھوٹا پتھر اور چوب ہے جس سے عام طور کسی انسان کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا جاتا۔
حضرت عبداللہ ابن عمرو کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جاننا چاہئے کہ قتل خطاء جس سے مراد شبہ عمد ہے اور جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو، اس کی دیت سو اونٹ ہیں جن میں سے چالیس ایسی اونٹنیاں بھی ہونی چاہئیں جن کی پیٹ میں بچے ہوں (نسائی، ابن ماجہ، دارمی،)
ابو داؤد نے اس روایت کو ابن عمرو اور ابن عمر دونوں سے نقل کیا ہے، نیز شرح السنۃ میں یہ روایت ابن عمر سے بالفاظ مصابیح نقل کی گئی ہے۔
تشریح
یہ روایت بالفاظ مصابیح یوں ہے (الا ان فی قتل العمد الخطاء بالسوط والعصاء مائۃ من الابل مغلظۃ منہا اربعون خلقۃ فی بطونہا اولادہا) یعنی جاننا چاہئے کہ قتل عمد خطاء جو کوڑے اور لاٹھی کے ذریعہ واقع ہوا ہو اس کی دیت سو اونٹ دیت مغلظہ ہے جن میں چالیس اونٹنیاں ایسی بھی ہونی چاہئیں جن کے پیٹ میں بچے ہوں، گویا اس روایت میں قتل عمد خطا سے مراد قتل خطا شبہ عمد ہے جو اوپر کی روایت میں مذکور ہوا۔
اس بارے میں یہ ملحوظ رہنا چاہئے کہ ارتکاب میں یا عمد کا دخل ہوتا ہے یا شبہ عمد کا اور یا خطاء محض کا۔ قتل عمد سے تو یہ مراد ہوتا ہے کہ کسی شخص کی جان بوجھ کر کسی ایسی چیز (مثلاً ہتھیار یا دھار دار آلہ) سے ہلاک کیا جائے جو اعضاء جسم کو جدا کر دے، یا پھاڑ ڈالے، اور شبہ عمد کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ کسی شخص کو جان بوجھ کر کسی ایسی چیز سے ہلاک کیا جائے جو دھار دار اور ہتھیار کی قسم سے نہ ہو خواہ عام طور پر اس چیز سے انسان کو ہلاک کیا جا سکتا ہو، یا ہلاک نہ کیا جا سکتا ہو، اور قتل خطاء یہ ہے کہ کسی کو خطاء (یعنی بلا قصد قتل یا نشانہ کی خطاء سے) ہلاک کر دیا جائے۔ ان تینوں کا ذکر پچھلے صفحات (گذشتہ قسط) میں گزر چکا ہے اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق ہے۔ چنانچہ وہ اس حدیث میں مذکورہ لاٹھی کو مطلق معنی پر محمول کرتے ہیں کہ خواہ وہ ہلکی ہو یا بھاری،جب کہ دوسرے ائمہ چونکہ یہ کہتے ہیں کہ کسی ایسی بھاری چیز سے قتل کرنا جس سے عام طور پر انسان کو قتل کیا جا سکتا ہو قتل عمد کے حکم میں ہے اس لئے وہ لاٹھی کو ہلکی لاٹھی پر محمول کرتے ہیں یعنی ان کے نزدیک یہاں وہ ہلکی لاٹھی (چھڑی) مراد ہے جس سے عام طور پر انسان کو ہلاک نہ کیا جا سکتا ہو۔ بعض روایتوں میں دیت کے ساتھ مغلظہ کا لفظ بھی منقول ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مصابیح کی روایت میں بھی یہ لفظ موجود ہے، چنانچہ قتل شبہ عمد میں دیت کی تغلیظ حضرت ابن مسعود، حضرت امام ابو حنیفہ، حضرت ابو یوسف، اور حضرت امام احمد، کے نزدیک تو یہ ہے کہ چار طرح کے سو اونٹ واجب ہوں جن کی ابتداء باب میں گزر چکی ہے اور حضرت امام شافعی اور امام محمد کے نزدیک تغلیظ یہ ہے کہ تین طرح کے سو اونٹ واجب ہوں ان کی تفصیل بھی ابتداء باب میں گزر چکی ہے لیکن قتل خطاء میں بالاتفاق دیت مغلظہ واجب نہیں ہوتی بلکہ اس میں پانچ طرح کے سو اونٹ واجب ہوتے ہیں یعنی بیس ابن مخاض، بیس بنت مخاض، بیس بنت لبون بیس حقہ اور بیس جذعہ۔
دیت مغلظہ کی تفصیل کے سلسلہ میں یہ حدیث حضرت امام شافعی اور حضرت امام محمد کے مسلک کی دلیل ہے، لیکن حنیفہ کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ یہ حدیث اس حدیث کے معارض ہے جو حضرت ابن مسعود اور حضرت سائب ابن یزید سے مروی ہے لہٰذا ہم نے متعین پر عمل کیا ہے
اور حضرت ابوبکر ابن محمد ابن عمر و ابن حزم اپنے والد (حضرت محمد بن عمرو) سے اور وہ ابوبکر کے دادا (حضرت عمرو ابن حزم) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم اہل یمن کے پاس ایک ہدایت نامہ بھیجا جس میں لکھا ہوا تھا کہ جو شخص قصداً کسی مسلمان کو ناحق مار ڈالے (یعنی قتل عمد کا ارتکاب کرے) تو اس کے ہاتھوں کے فعل کا قصاص ہے (یعنی اس نے اپنے ہاتھوں کے فعل اور تقصیر کے ذریعہ جو قتل عمد کیا ہے اس کی سزا میں اس کو بھی قتل کر دیا جائے) الاّ یہ کہ مقتول کے ورثاء راضی ہو جائیں (یعنی اگر مقتول کے وارث قاتل کو معاف کر دیں یا اس سے خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تو اس کو قتل نہ کیا جائے) اس ہدایت نامہ میں یہ بھی تھا کہ (مقتول) عورت کے بدلے میں (قاتل) مرد کو قصاص میں قتل کیا جائے اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں (یعنی جس کے پاس اونٹ ہوں وہ خون بہا میں مذکورہ تفصیل کے مطابق سو اونٹ دے) اور جس کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار دے، اور ناک کی دیت (جب کہ وہ سب توڑے گئے ہوں) پوری دیت (یعنی ایک سو اونٹ کی تعداد ہے اور پیٹھ کی ہڈی توڑے جانے کی پوری دیت ہے اور عضو خاص کے کاٹے جانے کی بھی پوری دیت ہے اور دونوں آنکھوں کو پھوڑ دینے کی بھی پوری دیت ہے، اور ایک پیر کاٹنے پر آدھی دیت ہے اور سر کی جلد زخمی کرنے پر تہائی دیت ہے اور پیٹ میں زخم پہنچانے پر بھی تہائی دیت ہے اور اس طرح مجروح کرنے پر کہ ہڈی اپنی جگہ سے سرک گئی ہو پندرہ اونٹ دینے واجب ہیں، اور ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں میں سے ہر ایک انگلی (کاٹنے) پر دس اونٹ دینے واجب ہیں، اور ہر ہر دانت کا بدلہ پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (نسائی، دارمی) اور امام مالک کی روایت میں یہ الفاظ ہیے کہ ایک آنکھ (پھوڑنے کی دیت پانچ اونٹ ہیں اور ایک ہاتھ اور ایک پیر کی دیت پچاس پچاس اونٹ ہیں اور ایسا زخم پہنچانے کی دیت جس میں ہڈی نکل آئی یا ظاہر ہو گئی ہو پانچ اونٹ ہیں
تشریح
جان کا خون بہا سو اونٹ ہیں کا مطلب یہ ہے کہ اگر قتل عمد کے مرتکب کو مقتول کے وارث قصاص میں قتل نہ کرنا چاہیں بلکہ اس سے دیت یعنی خون بہا لینے پر راضی ہو جائیں تب دیت واجب ہو گی لیکن قتل شبہ عمد اور قتل خطاء کا مرتکب سرے سے قصاص کا سزاوار ہوتا ہی نہیں بلکہ اس پر صرف دیت واجب ہوتی ہے۔ دیت اونٹ کے ذریعہ بھی ادا کی جا سکتی ہے اور جن کے پاس سونا ہو وہ ایک ہزار دینار اور جن کے پاس چاندی ہو وہ دس ہزار درہم کے ذریعہ بھی دیت کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں قیاس پر اکتفا کرتے ہوئے چاندی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جس کا مطلب قطعاً نہیں کہ اگر اونٹ اور سونے کے علاوہ چاندی کے ذریعہ دیت دی جائے تو وہ مقبول و محسوب نہیں ہو گی بلکہ مراد یہ ہے کہ مقتول کے روثاء اور قاتل کے درمیان جس چیز پر اتفاق ہو جائے اسی کو بطور دیت لیا دیا جائے جس کے پاس اونٹ ہوں اور وہ اونٹ دینا چاہے اس سے اونٹ لے لئے جائیں اور جو زر نقد دینا چاہے اس سے زر نقد لے لیا جائے۔
اس سلسلہ میں جہاں تک فقہی مسئلہ کا تعلق ہے تو درہم اور دینار کے بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں کہ آیا دیت میں درہم و دینار قبول کئے جا سکتے ہیں یا نہیں ؟ چنانچہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ اور حضرت امام احمد کا قول یہ ہے کہ اگر دینے والے کے پاس اونٹ موجود ہوں لیکن وہ زر نقد کی صورت میں دیت ادا کرنا چاہتا ہو تو اس سے زر نقد لینا جائز ہے لیکن حضرت امام شافعی یہ فرماتے ہیں کہ اونٹوں کی موجودگی میں زر نقد دے کر اونٹوں سے عدول نہ کیا جائے ہاں اگر طرفین راضی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
اور دونوں آنکھوں کو پھوڑنے کی بھی پوری دیت ہے ملحوظ رہے کہ قطع اعضاء (اعضاء جسم کو کاٹنے یا نقصان پہنچانے کی دیت کے سلسلہ میں اصل ضابطہ یہ ہے کہ اگر اعضاء جسم کی جنس منفعت بالکل ختم کر دی جائے یا اس کی موزونیت اور خوبصورتی کو بالکل زائل کر دیا جائے جو جسم انسانی میں مقصود ہے تو ایسی صورت میں پوری دیت واجب ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک طرح کا جانی نقصان ہے جسے انسانی عظمت کی وجہ سے مکمل جانی کا درجہ دیا جاتا ہے، اس سے بڑھ کر اصل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ان مخصوص اعضاء کی کہ جن کی نقصان سے انسان کے جمال و کمال میں فرق آ جاتا ہے اور آدمی کی عظمت تخلیق مجروح ہوتی ہے،جیسے ناک، زبان اور آنکھیں وغیرہ ان کی پوری دیت دینے کا حکم فرمایا ہے، پھر اس اصل سے اور بہت سے فروعی مسائل کا استنباط کیا جاتا ہے۔ منقول ہے کہ حضرت عمر نے ایک ایسے شخص پر چار دیتیں واجب کی تھیں جس نے ایک شخص کو اگرچہ ایک ہی زخم پہنچایا تھا مگر اس ایک زخم کی وجہ سے اس کی عقل، اس کی سماعت، اس کی بصارت اور اس کی بول چال یعنی چاروں چیزیں زائل ہو گئی تھیں، نیز یہ مسئلہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی کی داڑھی مونڈ ڈالے اور پھر وہ اس کی وجہ سے مونڈنے والے پر دیت لازم ہو گی کیونکہ اس نے اپنی اس حرکت سے چہرہ انسانی کے جمال و موزونیت کو ختم کر دیا، اسی طرح سر کے بال کا بھی یہی مسئلہ ہے۔
٭٭ اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم فرمایا کہ ایسے زخموں کی دیت جس میں ہڈی ظاہر ہو جائے پانچ پانچ اونٹ ہیں اور دانتوں کی (یعنی ہر ہر دانت) کی دیت بھی پانچ پانچ اونٹ ہیں۔ (ابو داؤد، نسائی،دارمی) ترمذی اور ابن ماجہ نے (اس حدیث کا) پہلا جزو (یعنی جس میں زخموں کی دیت بیان کی گئی ہے) نقل کیا ہے۔
تشریح
اگر یہ سوال پیدا ہو کہ جب سب دانتوں کی پوری دیت سو اونٹ ہیں تو ایک دانت کی دیت پانچ اونٹ کیسے ہوئے کیونکہ سب دانتوں کی تعداد بتیس یا اٹھائیس ہوتی ہے اور اس اعتبار سے ایک دانت کی دیت تو کچھ زیادہ تین اونٹ ہونی چاہئے ؟ اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ شارع نے جتنے احکام نافذ کئے ہیں عقل ان سب کا ادراک و احاطہ کر لے بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں عقل کے دخل کا کام نہیں، چنانچہ یہ مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ جو حکم شارع کے بھی مطابق ہیں اور عقلی بھی ہیں جیسے آنکھوں کی دیت کا معاملہ ہے کہ دونوں آنکھوں کی دیت پوری ہے اور ایک آنکھ کی دیت آدھی ہے حاصل یہ کہ ہر حکم اور ہر مسئلہ کی بنیاد بس شارع کا حکم ہے جو بھی حکم دیا گیا ہے اس پر عمل کرنا ہی عقل کا سب سے بڑا تقاضہ ہونا چاہئے۔
اور حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں ہاتھوں اور دونوں پیروں کی سب انگلیوں کو مساوی قرار دیا ہے (یہاں تک کہ انگوٹھے اور چھنگلیا کو بھی ایک دوسرے کے برابر قرار دیا ہے، اگرچہ گانٹھوں کے اعتبار سے دونوں میں فرق ہے)۔ (ابو داؤد، ترمذی)
٭٭ اور حضرت عباس کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا (دیت کے اعتبار سے) تمام انگلیاں برابر ہیں اور تمام دانت برابر ہیں (اگرچہ بعض دانت بڑے ہیں اور بعض چھوٹے ہیں) اور آگے کے دانت اور داڑھیں برابر ہیں (اگرچہ داڑھیں آگے کے دانتوں سے بڑی ہیں مگر دیت دونوں کی برابر ہے) نیز آپ نے انگوٹھے اور چھنگلیا کی طرف سے اشارہ کر کے بتایا کہ) یہ اور یہ برابر ہیں۔ (ابو داؤد)
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد (حضرت شعیب) سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فتح مکہ کے سال ایک خطبہ دیا اور اس (میں حمد ثناء) کے بعد فرمایا کہ لوگو ! اسلام میں قسم اور عہد و پیمان کرنا جائز نہیں ہے لیکن وہ عہد و قسم جس کا رواج زمانہ جاہلیت میں تھا، اس کو اسلام مضبوطی سے قائم کرتا ہے (یاد رکھو) تمام مسلمان اپنے غیر (یعنی کفار) کے مقابلے پر (بھلائیوں کو پھیلانے اور آپس میں ایک دوسرے کے مددگار ہونے میں) ایک ہاتھ کی طرح ہیں ایک ادنی ترین مسلمان بھی تمام مسلمانوں کی طرف سے پناہ دے سکتا ہے، اور وہ مسلمان بھی حق رکھتا ہے جو سب مسلمانوں سے کہیں دور ہو اور مسلمانوں کا لشکر ان مسلمانوں کو بھی (مال غنیمت کا) حقدار بناتا ہے جو (لشکر کے ساتھ نہ گئے ہوں بلکہ) بیٹھے رہے ہوں، (خبردار) کوئی مسلمان کسی (حربی) کافر کے بدلے میں قتل نہ کیا جائے (امام شافعی کہتے ہیں کہ ذمی کافر کے بدلے میں بھی مسلمان کو قتل نہ کیا جائے) اور (ذمی کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے اور (زکوٰۃ وصول کرنے والے کارکن بطور خاص سن لیں کہ) زکوٰۃ کے مویشیوں کو نہ کھنچوا منگایا جائے اور (زکوٰۃ دینے والے بھی سن لیں کہ وہ) مویشیوں کو کہیں دور لے کر نہ چلیں جائیں، (زکوٰۃ وصول کرنے والے کو چاہئے کہ) زکوٰۃ ان کے گھروں پر ہی لی جائے۔ اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ عہد والے کی دیت، آزاد کی دیت کا نصف ہے ۔ (ابو داؤد)
تشریح
(لاحلف فی الاسلام) اصل میں حلف کے معنی ہیں عقد باندھنا زمانہ جاہلیت میں یہ رواج تھا کہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے عہد و پیمان باندھ لیا کرتے تھے کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے لڑائی جھگڑے کے موقع پر ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی، اور اگر کسی معاملہ میں ایک پر کوئی تاوان واجب ہو گا تو دوسرا تاوان کو ادا کرے گا۔چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ارشاد گرامی (لاحلف فی الاسلام) کے ذریعہ اس قسم کی عہد و پیمان سے منع کیا کہ یہ ایک خالص غیر منصفانہ اور غیر معقول رواج ہے جس کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن زمانہ جاہلیت ہی میں عہد و پیمان کی ایک یہ بھی صورت ہوتی ہے کہ لوگ آپس میں اس بات کا عہد کرتے تھے کہ وہ مظلوم کی مدد کریں گے، قرابتداروں سے حسن سلوک کریں اور انسانی حقوق کی حفاظت و تائید کریں گے۔ یہ عہد و پیمان چونکہ سماجی اور معاشرتی نقطہ نظر سے باہمی محبت و موانست اور انسانی بہبود و بھلائی کے لئے ایک بہترین صورت تھی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے (ما کان من حلف) الخ کے ذریعہ اس کو اسلام میں بھی جائز رکھا۔
(یرد سرایاہم علی قعیدہم) یہ دراصل پہلے جملہ (ویرد علیہم واقصاہم) کا بیان اور وضاحت ہے، اس عبارت کی تشریح کتاب القصاص کی دوسری فصل میں حضرت علی کی روایت کے تحت کی جا چکی ہے اسی طرح (لا یقتل مؤمن بکافر) کی وضاحت بھی اسی حدیث کے ضمن میں کی جا چکی ہے۔
کافر کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف ہے یہ حضرت امام مالک کے مسلک کی دلیل ہے، حضرت امام شافعی اور ایک قول کے مطابق حضرت امام احمد کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت، مسلم)ان کی دیت کا ثلث (یعنی تہائی) ہے، حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک یہ ہے کہ کافر کی دیت، مسلم)ان کی طرح پوری دیت ہے، ملحوظ رہے کہ یہ ساری بحث ذمی و کافر کے بارے میں ہے حربی کافر کی کوئی دیت نہیں ہے۔ ہدایہ کی ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ ہر ذمی کی جس سے اسلامی مملکت کا معاہدہ ہو، جب تک کہ وہ معاہدہ باقی رہے اس کی دیت ایک ہزار دینار ہیں۔ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد وضاحت کی گئی ہے کہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، اور حضرت عثمان، کا عمل بھی اسی حدیث کے مطابق رہا ہے لیکن جب حضرت امیر معاویہ کا زمانہ آیا تو اس کو نصف کر دیا گیا۔ہدایہ نے حضرت علی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ذمی اسی لئے جزیہ دیتے ہیں کہ ان کا خون ہمارے خون کی طرح اور ان کا مال ہمارے مال کی طرح محفوظ و مامون ہے گویا صاحب ہدایہ نے ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد یہ ثابت کیا ہے کہ اصل یہی ہے کہ ذمی کی دیت بھی مسلمان کی دیت کی طرح پوری ہو۔ چنانچہ انہوں نے یہ لکھا ہے کہ دوسرے صحابہ سے اس کے خلاف جو کچھ منقول ہے وہ ان مشہور و مستند ترین آثار و اقوال کے معارض نہیں ہو سکتا۔
(لا جلب ولا جنب) کے متعلق کتاب الزکوٰۃ میں بہت تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے، یہاں بھی اجمالی طور پر اتنا سمجھ لیجئے کہ جلب کے معنی یہ ہیں کہ زکوٰۃ وصول کرنے والا مویشیوں کی زکوٰۃ لینے کے لئے جائے تو وہ کسی ایسی جگہ مقام کرے جو مویشیوں کے مالکوں کے مکانات سے دور ہو اور ان کو حکم دے کہ اپنے اپنے جانور لے کر اس کے پاس حاضر ہوں۔ جنب کے معنی یہ ہیں کہ مویشیوں کے مالک اپنے اپنے مویشی لے کر زکوٰۃ وصول کرنے والے کی قیام گاہ سے دور چلے جائیں اور اس سے کہیں کہ وہ ان کے پاس پہنچ کر زکوٰۃ کے مویشی حاصل کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا کیونکہ پہلی صورت میں مویشیوں کے مالکوں کو تکلیف ہو گی اور دوسری صورت میں زکوٰۃ وصول کرنے والا تکلیف و مشقت میں مبتلا ہو گا۔
(لا یؤخذ صدقاتہم) الخ دراصل پہلے جملہ (لاجلب ولا جنب) کی توضیح و تاکید کے طور پر ہے۔
اور حضرت خشف ابن مالک، حضرت ابن مسعود سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے خطاء کی دیت یہ مقرر فرمائی کہ بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹ وہ ہوں جو دوسرے سال میں لگے ہوں، اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو تیسرے سال میں لگی ہوں اور بیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں سال میں لگی ہوں۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی)
اس حدیث کے بارے میں صحیح بات یہ ہے کہ حضرت ابن مسعود پر موقوف ہے یعنی ان کا اپنا قول ہے اور (اس کے راوی) خشف ایک غیر معروف راوی ہیں جو صرف اس حدیث کے ذریعہ پہنچانے جاتے ہیں (یعنی اس کے علاوہ اور کوئی روایت ان سے منقول ہی نہیں) بغوی نے شرح السنۃ میں یوں نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے اس شخص کی دیت میں کہ جو خیبر میں قتل کر دیا گیا تھا (اور جس کا تفصیلی واقعہ باب القسامت میں بیان ہو گا) زکوٰۃ میں آئے ہوئے اونٹوں میں سے سو اونٹ دیئے تھے اور زکوٰۃ کے ان اونٹوں میں کوئی اونٹ ایک سال کا نہیں تھا بلکہ دو دو سال کے تھے۔
تشریح
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قتل خطاء کی دیت میں جو سو اونٹ دیئے جائیں وہ پانچ طرح کے ہونے چاہئیں، چنانچہ اس بارے میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن ان کی تقسیم میں البتہ اختلاف ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے مسلک میں تو وہ سو اونٹ اس طرح کے دیئے جاتے ہیں جس طرح اس حدیث میں مذکور ہیں، لیکن امام شافعی کے مسلک میں اتنا سا فرق ہے کہ بیس ابن مخاض (پورے ایک سال کے بیس اونٹ) کی بجائے بیس ابن لبون (پورے دو سال کے بیس اونٹ) ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حدیث حضرت امام شافعی کے خلاف حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کی دلیل ہے چنانچہ شوافع کی طرف سے اس حدیث میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کا جواب ملا علی قاری نے بڑی عمدگی سے دیا ہے اہل علم ان کی کتاب مرقات میں دیکھ سکتے ہیں، ان کے جوابات کے خلاصہ کے طور پر یہ بات ملحوظ رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مذکورہ شخص کی جو دیت دی تھی وہ بطریق وجوب یا بطور حکم نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محض از راہ احسان دی تھی۔
آخر میں بغوی کی جو روایت نقل کی گئی ہے اس کا مقصود پہلی روایت کی تردید ہے جس میں ابن مخاض کا اثبات ہے اور بغوی کی روایت میں ابن لبون کا اثبات ہے اور گویا یہ حضرت امام شافعی کے مسلک کی دلیل ہے، ملاعلیٰ قاری اس کا جواب بھی بڑی عمدگی کے ساتھ لکھا ہے۔
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دیت (دیت کے سو اونٹوں) کی قیمت آٹھ سو دینار یا آٹھ ہزار درہم تھے، نیز اس زمانہ میں اہل کتاب (یعنی عیسائی اور یہودی) کی دیت مسلمان کی دیت کا نصف تھی۔ ان کے دادا کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق کے خلیفہ ہونے تک اسی کے مطابق عمل درآمد ہوتا رہا۔ چنانچہ عمر (خلیفہ ہونے کے بعد) خطبہ دینے کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اونٹ کی قیمت بڑھ گئی ہے راوی کا بیان ہے کہ (اس کے بعد) حضرت عمر نے جو دیت مقرر کی تھی اس کی تفصیل یہ ہے کہ سونا رکھنے والوں پر ایک ہزار دینار، چاندی رکھنے والوں پر بارہ ہزار درہم، گائے کے مالکوں پر دو سو گائیں، بکری کے مالکوں پر دو ہزار بکریاں اور کپڑے کے جوڑوں (کی تجارت کرنے) والوں پر دو سو جوڑے۔ راوی نے کہا کہ حضرت عمر نے ذمیوں کی دیت جوں کی توں رکھی تھی (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں ذمیوں کی دیت چار ہزار درہم تھی حضرت عمر نے اسی کو برقرار رکھا اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا جیسا کہ اور دیتوں میں اضافہ ہوا۔ (ابو داؤد)
تشریح
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے، چنانچہ دیت میں سونا اور چاندی کی جو مقدار بیان کی گئی ہے وہ اس زمانہ میں سو اونٹ کی قیمت کا حساب لگا کر بیان کی گئی تھی، اسی لئے قول جدید کے مطابق شافعی مسلک یہ ہے کہ اختلاف قیمت کے اعتبار سے ان دونوں کی مقدار میں فرق ہو سکتا ہے۔
ابن ملک کہتے ہیں کہ کپڑے کے جوڑے سے مراد ایک تہبند اور ایک چادر ہے۔
اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا الخ کے بارے میں طیبی کہتے ہیں کہ جب مسلمان کی دیت بارہ ہزار درہم مقرر ہوئی اور ذمی کی دیت وہی رہی جو پہلے تھی یعنی چار ہزار درہم تو اس اعتبار سے ایک ذمی کی دیت، ایک مسلمان کے دیت کا ثلث (تہائی) ہوئی۔
چنانچہ اس سے شوافع اور ان کے ہمنوا یہ استدلال کرتے ہیں کہ ذمی کی دیت، مسلم)ان کی دیت کا ثلث ہے جب کہ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کے مسلک میں ذمی کی وہی دیت ہے جو مسلمان کی ہے۔
شمنی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ (اس بارے میں جو فقہی مسئلہ ہے اور جس پر عمل ہے وہ یہ ہے کہ) سونے کی دیت ایک ہزار دینار، چاندی کی دیت دس ہزار درہم اور اونٹ کی دیت سو اونٹ ہیں لیکن امام شافعی کے نزدیک چاندی کی دیت بارہ ہزار درہم ہیں۔
اور حضرت ابن عباس نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارہ ہزار درہم کی دیت مقرر فرمائی۔ (ترمذی، ابو داؤد، نسائی، دارمی)
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم بستیوں والوں پر قتل خطاء کی دیت چار سو دینار یا اس کے مساوی قیمت (یعنی چاندی کے چار ہزار درہم) مقرر فرماتے اور یہ مقدار اونٹوں کی قیمت کے مطابق ہوتی تھی۔چنانچہ جب اونٹوں کی قیمت میں اضافہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دیت کی مقدار میں بھی اضافہ کرتے تھے اور جب اونٹوں کی قیمت میں کمی واقع ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم دیت کی مقدار میں کمی کر دیتے تھے، یہی وجہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانہ میں دیت کی مقدار چار سو دینار سے آٹھ سو دینار یا اس کی مساوی قیمت (چاندی کے آٹھ ہزار درہم) تک رہی۔ راوی کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے گائے والوں پر دو سو گائیں اور بکری والوں پر دو ہزار بکریاں (بطور دیت) مقرر فرمائی تھیں۔ نیز رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کا حق ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے اور قاتل (نے اگر اپنے مورث ہی کو قتل کیا ہے تو وہ) مورث کی وراثت سے محروم رہے گا (نہ اسے مقتول کی دیت میں سے کوئی حصہ ملے گا اور نہ وہ اس کے ترکے میں سے کسی چیز کا حقدار ہو گا)۔ (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
طیبی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث بھی اب اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دیت کی بنیاد اونٹ پر ہے یعنی دیت اصل میں تو اونٹ ہی کی صورت میں اور اس کی مذکورہ تعداد میں واجب ہو گی جیسا کہ قول جدید کے مطابق امام شافعی کا مسلک ہے۔
عورت کی دیت اس کے عصبات پر ہے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی عورت جنایت کی مرتکب ہوئی اور اس نے کسی کو مارا تو اس کی دیت اس کے عصبات یعنی اس کے مددگار اور خاندان والوں پر ہو گئی جیسا کہ مرد کے بارے میں حکم ہے گویا یہاں یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ اس بارے میں عورت غلام کے مانند نہیں ہو گی کہ جس طرح غلام کی دیت خود اس پر واجب ہوتی ہے اس کے عصبات پر واجب نہیں ہوتی۔ اس طرح عورت کی دیت خود اس پر واجب نہیں ہو گی بلکہ اس کے عصبات پر واجب ہو گی۔
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنی والدہ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت قتل عمد کی دیت کی طرح سخت ہے لیکن شبہ عمد کے مرتکب کو قتل نہ کیا جائے۔ (ابو داؤد)
تشریح
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کو بطریق شبہ عمد قتل کیا تو اس قصاص میں قتل نہیں کیا جائے! یہ بات اس شبہ کو دور کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے کہ حدیث کے پہلے جملہ کے مطابق قتل شبہ عمد کا مرتکب قتل عمد کے مرتکب کے مشابہ ہو تو چاہے کہ جس طرح قتل عمد کے مرتکب کو سزاء موت دی جاتی ہے اسی طرح شبہ عمد کا مرتکب بھی سزاء موت کا مستوجب ہو لہٰذا اس شبہ کو دور کر دیا گیا کہ اس مشابہت کا یہ مطلب قطعاً نہیں ہے کہ اس کو قصاص میں قتل بھی کیا جائے۔
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم نے ایسی آنکھ کے بارے میں کہ جو زخمی ہونے کے بعد اپنی جگہ باقی رہے لیکن روشنی محروم ہو جائے یہ حکم فرمایا کہ اس کی دیت (پوری دیت کا ثلث) (تہائی) ہے مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی آنکھ کو زخم پہنچایا گیا اور اس کی وجہ سے روشنی جاتی رہی مگر آنکھ اپنی جگہ سے باہر نہیں آئی اور اس کے چہرہ موزونیت و جمال میں کوئی خلل نہیں پڑا تو زخم پہنچانے والے پر تہائی دیت واجب ہو گی اور یہ پہلے گزر چکا ہے کہ دونوں آنکھ کے تلف ہو جانے کی صورت میں پوری دیت (کہ جس کی مقدار سو اونٹ ہے) واجب ہو گی اور اگر ایک آنکھ تلف ہو گی تو نصف دیت واجب ہو گی۔
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا صورت میں زخم خوردہ آنکھ کی دیت تہائی ہے اور بعض علماء کا مسلک بھی یہی ہے لیکن بعض علماء اس صورت میں عدل کی حکومت کو واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ زخم پہنچانے کی یہ وہ صورت ہے جس میں منفعت بالکلیہ زائل نہیں ہوئی لہٰذا اس کی دیت بھی اس شخص کی ہونی چاہئے جس کو مارا گیا ہو اور اس مار کی وجہ سے (نہ تو اس کا کوئی عضو تلف ہوا ہو اور نہ کوئی زخم پہنچا ہو) بلکہ اس کے بدن کا رنگ سیاہ ہو گیا ہو۔
حکومت دیت کے بارے میں ایک اصطلاحی لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ فرض کیجئے جو شخص زخمی ہوا ہے اگر وہ غلام ہوتا تو اس زخم کی وجہ سے اس کی قیمت میں سے کسی قدر کمی واقع ہو جاتی پس اسی قدر اس شخص کی دیت زخمی کرنے والے پر واجب ہو گی لہٰذا بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث حکومت پر محمول ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہاں تہائی دیت کا جو حکم فرمایا ہے وہ بطریق حکومت ہے نہ بطریق قاعدہ کلیہ۔
تورپشتی نے اس حدیث کے سلسلہ میں جو بحث کی ہے وہ اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس حدیث کی صحت میں کلام ہے۔
اور حضرت محمد ابن عمرو، حضرت ابو سلمہ سے اور وہ حضرت ابوہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (حاملہ کے) پیٹ کے بچہ کا خون بہا غرہ مقرر فرمایا اور غرہ سے مراد ایک لونڈی یا ایک گھوڑا یا ایک خچر ہے ابوداؤد نے اس روایت کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس روایت کو حماد ابن سلمہ اور خالد واسطی نے محمد ابن عمرو سے نقل کیا ہے لیکن ان دونوں میں سے کسی نے بھی لفظ فرس اور بغل (یعنی گھوڑا اور خچر) ذکر نہیں کیا ہے (لہذا اس روایت میں فرس اور بغل کا اضافہ شاذ ہے اور بایں اعتبار یہ حدیث ضعیف ہے (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ یوں تو غرہ نہایت نفیس چیز کو کہتے ہیں لیکن اس باب میں اس لفظ کا اطلاق انسان پر بایں طور اعتبار کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا ہے
بعض علماء کا قول ہے کہ اس حدیث میں غرہ کے مفہوم میں فرس اور بغل کو شامل کرنا راوی کا اپنا وہم ہے کیونکہ غرہ کا اطلاق صرف اس انسان پر ہوتا ہے جو کسی کا مملوک ہو یعنی غلام یا لونڈی۔
اور حضرت عمرو ابن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص اپنے طبیب ظاہر کرے درآنحالیکہ اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو (یعنی وہ فن طب میں کوئی مہارت نہ رکھتا ہو) اور پھر کوئی اس کے ہاتھ سے مر گیا تو وہ ضامن ہو گا۔ (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص علم طب سے کورا ہو اور اس کے قواعد و فن سے واقفیت نہ رکھتا ہو اس کے باوجود وہ کسی مریض کا علاج کرے اور علاج خواہ ہاتھ کے ذریعہ کرے جیسے فصد کھولے یا آپریشن وغیرہ کرے اور خواہ کرنے کے ذریعہ کرے تو اگر وہ مریض مر جائے گا تو متفقہ طور پر تمام علماء کے نزدیک وہ جعلی حکیم یا ڈاکٹر ضامن ہو گا۔ یعنی اس کی دیت اس کے عاقلہ پر واجب ہو گی مگر اس کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا کیونکہ بہرحال خود اس مریض کی اجازت اور اس کی رضامندی ہی سے اس نے علاج کیا ہو گا۔
اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ ایک لڑکے نے جو مفلس خاندان سے تعلق رکھتا تھا، ایک ایسے لڑکے کا کان کاٹ ڈالا جو ایک دولت مند خاندان سے تھا، چنانچہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا اس کے خاندان والے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم محتاج و مفلس ہیں (لہٰذا ہم پر دیت مقرر نہ کی جائے) رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (ان کی درخواست منظور کرتے ہوئے) ان پر کوئی چیز مقرر نہیں فرمائی۔ (ابو داؤد، نسائی)
تشریح
اگر کسی لڑکے سے کوئی جنایت (یعنی کسی کو نقصان یا تکلیف پہنچانے کا کوئی قصور) سرزد ہو جائے تو اختیار صحیح کے فقدان کی وجہ سے وہ جنابت خطائی کے حکم میں ہوتی ہے اور اس کا تاوان لڑکے کے عاقلہ (یعنی اس کے خاندان و برادری والوں پر واجب ہوتا ہے۔
اس لئے اگر کوئی لڑکا کسی شخص کو قتل کر دے تو اس کو قصاص میں قتل نہیں کیا جاتا۔ حدیث میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے اس میں قاعدہ کے اعتبار سے لڑکے کے عاقلہ پر تاوان واجب ہونا چاہئے تھا لیکن عاقلہ چونکہ غریب و مفلس تھے اور غریب و مفلس کسی تاوان کے متحمل نہیں ہو سکتے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کان کاٹنے والے لڑکے کے خاندان والوں پر کوئی دیت واجب نہیں فرمائی۔
حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جس لڑکے نے کان کاٹا تھا وہ آزاد تھا کیونکہ وہ غلام ہوتا تو اس کی جنایت و دیت خود اس کی ذات کے ساتھ متعلق کی جاتی اور اس کے مالکوں کا فقیر و مفلس ہونا اس کے وجوب کو اس کی ذات سے ختم نہ کرتا۔
حضرت علی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا قتل شبہ عمد کی دیت میں (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں بایں تفصیل تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو چوتھے برس میں لگی ہوں اور تینتیس اونٹنیاں وہ ہوں جو پانچویں برس میں لگی ہوں اور چو نتیس اونٹنیاں وہ جو چھٹے برس میں ہی ہوں آٹھ برس تک وہ جو نویں برس میں لگی ہوں اور سب حاملہ ہوں۔ ایک اور روایت میں حضرت علی سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا قتل خطاء کی دیت میں چار طرح کی (سو) اونٹنیاں دینی واجب ہیں، بایں تفصیل کہ پچیس وہ ہوں جو تین تین برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو چار چار برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو دو دو برس کی ہوں اور پچیس وہ ہوں جو ایک ایک برس کی ہوں۔ (ابو داؤد)
٭٭ اور حضرت مجاہد سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق نے قتل شبہ عمد کی دیت میں تیس اونٹنیاں تین تین برس کی اور تیس اونٹنیاں چار چار برس کی اور چالیس اونٹنیاں حاملہ جو پانچ برس کی ہوں دینے کا حکم فرمایا۔ (گویا یہ روایت حضرت امام شافعی کے مسلک کے موافق ہے)۔ (ابو داؤد)
اور حضرت سعید ابن مسیب کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے پیٹ کے بچہ کی دیت جو مارا جائے ایک غرہ یعنی ایک غلام یا ایک لونڈی مقرر فرمائی۔ جس شخص پر یہ دیت واجب کی گئی تھی اس نے عرض کیا کہ اس شخص کا تاوان کس طرح بھروں جس نے کوئی چیز پی اور نہ کھائی ہو اور نہ بولا نہ چلایا، اس قسم کا قتل تو ساقط کیا جاتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے (اس شخص کی یہ بات سن کر حاضرین سے) فرمایا کہ اس کے علاوہ اور کیا کہا جائے کہ یہ شخص کاہنوں کا بھائی ہے ۔ (امام مالک اور امام نسائی نے تو اس روایت کو بطریق ارسال (یعنی راوی صحابی کا ذکر کئے بغیر) نقل کیا ہے لیکن ابوداؤد نے حضرت سعید سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ سے بطریق اتصال نقل کیا ہے۔
تشریح
کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو غیب دانی کا دعوی کرتا ہے اور لوگوں کی غیب کی باتیں بتاتا ہے اور وہ لوگوں کو فریفتہ کرنے کے لئے اپنی جھوٹی اور غلط سلط باتوں کو مسجع اور مقفیٰ عبارتوں کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ حدیث میں مذکورہ شخص نے بھی چونکہ اپنے ایک غلط خیال کو بڑے مسجع اور مقفی الفاظ کے ذریعہ پیش کیا تھا اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مناسبت سے اس کو کاہنوں کا بھائی فرمایا ورنہ تو جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے مطلق مسجع و مقفیٰ عبارتیں بذات خود مذموم نہیں ہیں بلکہ انسان کے کلام کی فصاحت و بلاغت اور قابلیت کا پر تو ہوتی ہیں چنانچہ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا انداز بیان اور آپ کا کلام بڑی مسجع و مقفیٰ عبارتوں سے مزین ہوتا تھا۔ بطور خاص آپ سے جو دعائیں منقول ہیں ان کے الفاظ کی جامعیت مسجع و مقفیٰ عبارتوں کی بہترین مثال ہیں جیسے یہ دعا ہے (اللہم انی اعوذ بک من علم لا ینفع ومن قلب لا یخشع) الخ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس علم سے جو نافع نہ ہو اور اس قلب سے جو ترساں نہ ہو الخ حاصل یہ کہ وہ مسجع عبارت مذموم ہے جو بہ تکلف زبان و قلم سے ادا ہو اور جس کا مقصد باطل کو رواج دینا ہو جیسا کہ مذکورہ شخص نے کہا۔
شمنی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکورہ مسئلہ کے بارے میں فقہی مسلک یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی حاملہ کے پیٹ پر مارے اور اس کی وجہ سے اس کے پیٹ کا بچہ مردہ ہو کر باہر آ جائے تو اس کی دیت میں غرہ یعنی پانچ سو درہم مارنے والے کے عاقلہ پر واجب ہوں گے وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء نے غرہ سے مراد پانچ سو درہم لئے ہیں اور وہ اس لئے اکثر روایتوں میں غرہ کی توضیح یہی کی گئی ہے اور اگر حاملہ کے پیٹ مارنے کی وجہ سے زندہ بچہ باہر آ جائے اور پھر مر جائے تو اس صورت میں پوری دیت واجب ہو گئی۔