احتکار کا معنی لغوی طور پر معنی ہیں گراں فروشی کی نیت سے غلہ کی ذخیرہ اندوزی۔ اور شریعت کی اصطلاح میں احتکار کا مفہوم ہے ہر ایسی چیز کو مہنگا بیچنے کے لئے روک رکھنا جو انسان یا حیوان کی غذائی ضرورت میں کام آتی ہو۔ مثلاً گراں بازاری کے زمانے میں جب کہ مخلوق خدا کو غلہ وغیرہ کی زیادہ ضرورت ہو کوئی شخص غلہ خرید کر اس نیت سے اپنے پاس روک رکھے کہ جب اور زیادہ گرانی ہو گی تو اسے بیچوں گا یہ احتکار کہلاتا ہے۔
شرعی نقطہ نظر سے احتکار حرام ہے اس قابل نفریں فعل میں مبتلا ہونے والا شخص شریعت کی نظر میں انتہائی نا پسندیدہ ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص اپنی زمین سے پیدا شدہ غلہ کی ذخیرہ اندوزی کرے یا ارزانی کے زمانہ میں غلہ خرید کر رکھ چھوڑے اور پھر اسے گرانی کے وقت بیچے تو یہ حرام نہیں ہے اسی طرح اشیاء کو روک رکھنا جو غذائی ضروریات میں استعمال نہ ہوتی ہوں حرام نہیں ہے۔
ہدایہ میں یہ وضاحت کی گئی ہے کہ انسانوں اور جانوروں کی غذائی چیزوں کا احتکار مکروہ ہے بشرطیکہ یہ احتکار ایسے شہر میں ہو جہاں اس کی وجہ سے شہر والوں کو تکلیف و نقصان نہ پہنچے یعنی اگر کوئی چھوٹا شہر ہو تو وہاں احتکار کی وجہ سے چونکہ غلہ کی قلت پیدا ہو جائے گی جس کی بنا پر غلہ کی گرانی بڑھ جائے گی اور لوگوں کو نقصان پہنچے گا اس لئے ایسے شہر میں احتکار ممنوع ہو گا ہاں اگر بڑا شہر ہو اور وہاں کسی کے احتکار کی وجہ سے اہل شہر کو نقصان نہ پہنچ سکتا ہو تو پھر ایسے شہر میں احتکار ممنوع نہ ہو گا۔ اسی طرح ہدایہ میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص زمین کے غلہ کا احتکار کرے یا کسی اور شہر سے غلہ خرید کر لائے اور اس کو احتکار کرے تو ایسے شخص کو شرعی طور پر احتکار کرنے والا نہیں کہیں گے۔
حضرت معمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جو شخص احتکار کرے وہ گنہگار ہے۔ اور حضرت عمر کی روایت (کانت اموال بنی النضیر) کو ہم انشاءاللہ باب الفئ میں نقل کریں گے
حضرت عمر کہتے ہیں کہ نبی کریم نے فرمایا تاجر کو رزق دیا جاتا ہے اور احتکار کرنے والا ملعون ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو شخص کہیں باہر سے شہر میں غلہ وغیرہ لاتا ہے کہ اسے موجودہ اور رائج نرخ پر فروخت کرے اور گراں فروشی کی نیت سے اس کی ذخیرہ اندوزی نہ کرے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق دیا جاتا ہے یعنی اسے بغیر گناہ کے فائدہ حاصل ہوتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا کی جاتی ہے اس کے خلاف مخلوق خدا کی پریشانیوں اور غذائی قلت سے فائدہ اٹھا کر غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اور خیر و بھلائی سے دور رہتا ہے جب تک کہ وہ اس لعنت میں مبتلا رہتا ہے اس کو برکت حاصل نہیں ہوتی۔
اور حضرت انس کہتے ہیں ایک مرتبہ رسول اللہ کے زمانہ میں غلہ کا نرخ مہنگا ہو گیا تو صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ہمارے لئے نرخ مقرر فرما دیجئے یعنی تاجروں کو حکم دے دیجئے کہ وہ اس نرخ سے غلہ فروخت کیا کریں۔ نبی کریم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہی نرخ مقرر کرنے والا اللہ ہی تں گی پیدا کرنے والا اللہ ہی فراخی دینے والا اور اللہ ہی رزق دینے والا ہے۔ میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ مجھ پر تم میں سے کسی کے خون اور مال کا کوئی مطالبہ نہ ہو۔
تشریح
اللہ ہی نرخ مقرر کرنے والا ہے کا مطلب یہ ہے کہ گرانی اور ارزانی اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے نرخ جسکا ظاہری سبب بنتا ہے چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جو کبھی تو نرخوں میں کمی اور ارزانی کے ذریعے لوگوں کے رزق میں وسعت و فراخی پیدا کرتا ہے اسی کو بعض لوگ نرخ آسمانی سے تعبیر کرتے ہیں لہذا جب گراں بازاری کا دور ہو اور نرخوں میں اضافے ہو جائیں تو اللہ کی طرف رجوع کیا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے اپنے عقائد و اعمال میں درستی اور اصلاحی کر کے خدا کی رضا و خوشنودی کا سامان کیا جائے تاکہ وہ اپنے بندوں سے خوش ہو اور ان پر ارزانی وسعت رزق کی رحمت نازل فرمائے۔
حدیث کے آخری جزء میں اس بات کا امیدوار اور خواہشمند ہوں سے دراصل اس طرف اشارہ مقصود ہے کہ سرکار و حکومت کی طرف سے نرخ مقرر کیا جانا ممنوع ہے کیونکہ اس طرح لوگوں کے معاملات میں بیجا دخل اندازی ہوتی ہے اور ان کے مال میں انکی اجازت کے بغیر تصرف کرنا لازم آتا ہے جو ظلم کی ایک صورت ہے پھر نرخ مقرر کرنے کا ایک برا نتیجہ یہ بھی برآمد ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے بسا اوقات لوگ کاروبار بند کر دیتے ہیں اور تجارتی زندگی میں اضمحلال پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے قحط وقت تک نوبت آ جاتی ہے انجام کار جو چیز مخلوق خدا کی بھلائی کے لئے اختیار کی جاتی ہے وہی ان کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
لہذا آپ کے ارشاد کا مطلب یہ ہے کہ نرخ مقرر کر کے لوگوں کو تکلیف و پریشانی میں مبتلا نہ کیا جائے اور تاجروں پر کوئی نرخ لازم نہ کیا جائے بلکہ اس کی بجائے تاجروں کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی و انصاف اور خیر خواہی کا معاملہ کریں اور ان کے ضمیر و احساس کو اس طرح بیدار کیا جائے کہ دراز جو نرخوں میں کمی کر کے لوگوں کی پریشانی و مصیبت دور کریں۔
حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے سنا رسول کریم یہ فرماتے تھے کہ جو شخص غلہ روک کر گراں نرخ پر مسلمانوں کے ہاتھ فروخت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جذام و افلاس میں مبتلا کر دیتا ہے۔
تشریح
اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص مخلوق خدا اور خاص طور پر مسلمانوں کو تکلیف و نقصان میں ڈالتا ہے اللہ تعالیٰ اسے جسمانی و مالی بلاؤں میں مبتلا کرتا ہے اور جو شخص انہیں نفع و فائدہ پہنچاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے جسم و مال میں خیر و برکت عطا فرماتا ہے۔
٭٭ اور حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے چالیس دن تک گرانی کے خیال سے غلہ روک رکھا گویا وہ خدا سے بیزار ہوا اور خدا اس سے بیزار ہوا۔
تشریح
وہ خدا سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کا وہ عہد توڑ ڈالا جو اس نے احکام شریعت کی بجا آوری اور مخلوق خدا کے ساتھ ہمدردی و شفقت کے سلسلے میں باندھا ہے۔
اسی طرح اور خدا اس سے بیزار ہوا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس نے اس بدترین عمل کے ذریعہ مخلوق خدا کی پریشانی و تکلیف کا سامان کیا تو خدا نے اس پر سے اپنی حفاظت اٹھا لی اور اس کو اپنا نظر کرم و عنایت سے دور کر دیا۔
٭٭ اور حضرت معاذ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا غلہ وغیرہ کی ناجائز ذخیرہ اندوزی کرنے والا بندہ برا ہے اگر اللہ تعالیٰ نرخوں میں ارزانی کرتا ہے تو وہ سنجیدہ ہوتا ہے اور اگر نرخوں کو گراں کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے۔
٭٭ اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جس شخص نے گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو چالیس روز تک روکے رکھا اور پھر اسے خدا کی راہ میں خیرات کر دیا تو وہ اس کے لئے کفارہ نہیں ہو گا۔
تشریح
یہ گویا اس شخص کے لئے وعید و سزا ہے جو چالیس دن تک گراں فروشی کی نیت سے غلہ کو روکے رکھے کہ نہ تو اسے بازار میں لا کر بیچے اور نہ اس کے ذریعہ مخلوق خدا کی غذائی ضروریات کو پورا کرے اور جو شخص اس سے کم مدت کے لئے احتکار کرے اس کے لئے بھی سزا ہے مگر اس سے کم درجہ کی۔