مشکوٰۃ اکثر نسخوں میں اس موقع پر صرف باب لکھا ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس باب میں ان احادیث کو ذکر کیا گیا ہے جن کا تعلق گزشتہ ابواب سے ہے اور بعض نسخوں میں یہاں یہ عنوان قائم کیا گیا ہے باب فی سعۃ رحمۃ یعنی ۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جب میثاق کے دن مخلوقات کو پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا (یا یہ کہ جب مخلوقات کو پیدا کرنا شروع کیا) تو ایک کتاب لکھی (یعنی فرشتوں کو وہ کتاب لکھنے کا حکم دیا یا قلم کو لکھنے کا حکم فرمایا) وہ کتاب حق تعالیٰ کے پاس عرش کے اوپر ہے اس کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ بلاشبہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت لے گئی ہے ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میری رحمت میرے غضب پر غالب ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
جس کتاب میں حق تعالیٰ کی طرف سے یہ بشارت عظمی لکھی ہوئی ہے کہ اللہ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے اس کتاب کی عظمت و بزرگ قدری کا کوئی اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کتاب کی اس عظیم و بزرگ قدری کے پیش نظر حق تعالیٰ نے اس کو اپنے پاس عرش کے اوپر رکھا ہے۔
رحمت خداوندی کی سبقت اور اس کے غالب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، اس کی بخشش و کرم اور اس کی نعمتوں کی نشانیاں اور اس کے مظاہرے غالب ہیں کہ وہ تمام مخلوقات کو گھیرے ہوئے ہیں اور بے انتہا ہیں اس کے مقابلہ میں اس کے غضب کی نشانیاں اور اس کے مظاہر کم ہیں جیسا کہ خود حق تعالیٰ کا ارشد ہے۔ آیت (وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا۔ اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔ نیز فرمایا۔ آیت (عذابی اصیب بہ من اشاء ورحمتی وسعت کل شیئ)۔ عذاب تو میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں مگر میری رحمت ہر چیز پر پھیلی ہوئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی رحمت کا دائرہ اور اس کی نعمتوں کا سلسلہ اتنا وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ کائنات کا کوئی فرد اس سے باہر نہیں ہے اور اس دنیاوی زندگی کا ایک ایک لمحہ کسی نہ کسی شکل میں رحمت خداوندی ہی کا مرہون منت ہوتا ہے لیکن اس کے مقابلہ میں بندوں کی طرف سے خدائے رحیم و کریم کی نعمتوں اور رحمتوں کے شکر کی ادائیگی میں جتنی کوتاہی اور قصور ہوتا ہے اس کی بھی کوئی حد اور انتہا نہیں ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت (ولو یؤاخذ اللہ الناس بظلمہم ماترک علی ظہرہا من دابۃ)۔ اور اگر اللہ تعالیٰ ان کے ظلم کے سبب ان سے مواخذہ کرنے لگے تو اس کے نتیجہ میں ایک بھی جاندار روئے زمین پر نہ چھوڑے۔ چنانچہ یہ بھی حق تعالیٰ کی رحمت کا ہی ظہور ہے کہ بندوں کی تمام کوتاہیوں اور خطاؤں کے باوجود اس دنیا میں ان کو باقی رکھتا ہے اور ان کو روزی دیتا ہے ان پر اپنی نعمتوں کی بارش کرتا ہے اور اس دنیا میں ان کو عذاب و مواخذہ میں مبتلا نہیں کرتا یہ تو اس دنیا کا معاملہ ہے کہ یہاں حق تعالیٰ کی رحمت کا ظہور کس کس طرح اور کن کن صورتوں میں سامنے آتا ہے لیکن آخرت میں رحمت کا ظہور تو اس دنیا کے ظہور سے کہیں زیادہ ہو گا جیسا کہ اگلی حدیث سے معلوم ہو گا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے پاس سو رحمتیں ہیں اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک رحمت تو جنات، انسان چوپایوں اور زہریلے جانوروں میں اتاری ہے چنانچہ اسی ایک رحمت کے سبب وہ آپس میں میل ملاپ رکھتے ہیں اور اسی کے سبب وہ آپس میں رحم کرتے ہیں اور اسی کے سبب وحشی جانور اپنے بچوں سے الفت رکھتا ہے اور ننانوے رحمتیں اللہ تعالیٰ نے رکھ چھوڑی ہیں جن کے ذریعہ قیامت کے دن اپنے مومن بندوں پر رحم کرے گا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم نے ایک روایت حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے اس کے مانند نقل کی ہے اس کے آخر میں یہ الفاظ بھی ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا پس جب قیامت کا دن ہو گا تو اللہ تعالیٰ ان ننانوے رحمتوں کو اس رحمت کے ساتھ جو دنیا میں اتاری گئی ہے پورا فرما دے گا۔
تشریح
مسلم کی اس دوسری روایت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ قیامت کے دن وہ ایک رحمت بھی بندوں کے شامل حال رہے گی جو دنیا میں اتاری گئی ہے اس طرح ایک رحمت تو یہ دنیا والی اور ننانوے رحمتیں وہ جو قیامت کے دن کے لئے حق تعالیٰ نے مخصوص کر رکھی ہیں یہ سب مل کر پوری سو ہو جائیں گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اگر مومن یہ جان لے کہ خدا کے ہاں کس قدر عذاب ہے تو پھر کوئی شخص اس کی جنت کی امید بھی نہ رکھے (یعنی عذاب کی فراوانی اسے جنت سے مایوس کر دے) اور اگر کافر یہ جان لے کہ اللہ کی رحمت کس قدر ہے تو پھر کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اس حدیث کا منشاء درحقیقت اللہ کی رحمت اور اس کے عذاب کی کثرت کو ظاہر کرنا ہے تاکہ مومن تو اس کی رحمت پہ اعتماد کر کے نہ بیٹھ جائے اور اس کے عذاب سے بالکل بے خوف و نڈر نہ ہو جائے اور کافر اس کی رحمت سے ناامیدی نہ اختیار کر لے اور توبہ کرنا نہ چھوڑے۔
اور حاصل اس حدیث کا یہ ہے کہ بندہ کو چاہئے کہ وہ بین الخوف والرجاء (خوف اور امید کے درمیان) رہے یعنی اللہ کی رحمت پر امید بھی رکھے اور اس کے عذاب سے بھی ڈرتا رہے، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا اگر قیامت کے دن یہ اعلان کیا جائے گا کہ ایک شخص جنت میں داخل ہو گا تو میں امید رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہوں اور اسی طرح اگر یہ اعلان کیا جائے کہ ایک شخص دوزخ میں داخل کیا جائے تو میں گمان رکھوں گا کہ وہ شخص میں ہی ہوں۔
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت تم میں سے ہر شخص کے جوتے کے تسمے کے برابر اس کے قریب ہے اور دوزخ بھی اسی طرح ہے۔ (بخاری)
تشریح
حاصل یہ کہ انسان اور جنت و دوزخ کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں ہے لہٰذا ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کو اچھے کام اور نیک اعمال سے آراستہ کرے وہ جنت کا امیدوار رہے نیز برے کاموں سے اجتناب کرے اور دوزخ سے ڈرتا رہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایک شخص تھا جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی اور ایک روایت میں یہ ہے کہ اس نے اپنے نفس پر زیادتی کی تھی یعنی بہت ہی زیادہ گناہ کئے تھے جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب وہ یعنی خود مر جائے تو اس کو یعنی مجھے جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دینا اور آدھی راکھ دریا میں بہا دینا کیونکہ قسم خدا کی اگر اللہ نے اس سے مواخذہ کر لیا اور حساب میں سختی کی تو وہ اس کو ایسا عذاب دے گا کہ آج تک عالم کے لوگوں میں سے کسی کو نہ دیا ہو گا، چنانچہ جب وہ شخص مر گیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت کے مطابق عمل کیا کہ اس کو جلا کر آدھی راکھ تو جنگل میں اڑا دی اور آدھی کو دریا میں بہا دیا اللہ تعالیٰ نے دریا کو اس کی راکھ جمع کر نے کا حکم دیا اور اس نے وہ راکھ جو اس کے اندر تھی جمع کی اور جنگل کو حکم دیا اور اس نے بھی جو راکھ اس کے اندر تھی جمع کی جب دریا اور جنگل نے اس کے اجزاء جمع کر لئے تو اس شخص کو ان اجزاء سے استوار کر کے حق تعالیٰ کے سامنے پیش کیا گیا۔ حق تعالیٰ نے پوچھا کہ تو نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ پروردگار ! تیرے خوف سے ! تو حقیقت و حال کو خوب جانتا ہے اللہ نے یہ سن کر اسے بخش دیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
وہ شخص یہ سمجھا تھا کہ عذاب صرف اسی کو ہوتا ہے جو دفن کیا جاتا ہے چنانچہ اپنی بد عمل زندگی اور گناہوں کی زیادتی کو دیکھتے ہوئے اس نے انتہائی خوف و ڈر کی وجہ سے یہ وصیت کر دی کہ مجھے جلا کر میری راکھ کو بکھیر کر اڑا دینا،اللہ تعالیٰ بڑا ہی نکتہ نواز ہے۔ اس کو بس یہی بات پسند آ گئی اس لئے اس نے بخش دیا۔
لئن قدر اللہ کے ایک معنی تو وہی ہیں جو ترجمہ میں بیان کئے گئے یعنی اگر اللہ تعالیٰ نے اس سے مواخذہ کر لیا اور حساب میں سختی کی۔ اس صورت میں کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اس شخص کی مراد اس کے لفظی معنی ہی تھے یعنی اگر اللہ تعالیٰ مجھ پر قادر ہو گیا۔ تو پھر یہ اشکال پیدا ہو گا کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی قدرت میں شک و شبہ کا اظہار کیا جو ظاہر ہے کہ بالکل کفر ہے۔
اس اشکال کے علماء نے کئی جواب دئیے ہیں ان ہی میں سے ایک جواب یہ ہے کہ زمانہ فترت کی بات ہے اس وقت چونکہ کوئی نبی نہیں تھا اور ایسے میں صرف توحید پر ایمان و اعتقاد ہی نجات کے لئے کافی تھا۔ اس لئے اس قسم کے شک و شبہ کے اظہار سے نہ کفر لازم آتا ہے اور نہ اس سے ابدی نجات پر کوئی اثر پڑتا تھا۔
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اس شخص نے یہ بات دہشت و خوف کے غلبہ کی بنا پر کہہ دی اور ایسی صورت میں انسان مجنون اور مغلوب العقل کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ماخوذ قرار نہیں دیا جا سکتا جیسا کہ گزشتہ باب ہی کی ایک حدیث میں اس شخص کے بارے میں نقل کیا گیا ہے جسے اپنی گمشدہ سواری مل گئی اور خوشی و مسرت کے غلبہ اور زیادتی کی وجہ سے اس کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے تھے۔ انت عبدی وانا ربک۔ تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا رب ہوں۔
٭٭ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس کچھ قیدی آئے جن میں ایک عورت بھی تھی اور دودھ کی کثرت کی وجہ سے اس کی چھاتیاں بہہ رہی تھیں کیونکہ اس کا بچہ نہیں تھا جو اس کا دودھ پیتا وہ اپنا دودھ پلانے کی خاطر اسی بچہ کی تلاش میں ادھ ادھ دوڑتی تھی چنانچہ جب وہ قیدیوں میں سے کسی کے بچہ کو پا لیتی تو اپنے بچہ کی محبت میں اسے لے کر اپنے پیٹ سے لگاتی اسے دودھ پلانے لگتی یہ دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم سے فرمایا کہ کیا تمہارے خیال میں یہ عورت اپنے بچہ کو آگ میں ڈالے گی؟ (یعنی جب یہ غیر کے بچے کے ساتھ اتنی محبت کرتی ہے تو کیا اس بات کا خیال کیا جا سکتا ہے کہ یہ اپنے بچے کو آگ میں ڈال دے گی؟ تو ہم نے کہا ہرگز نہیں ڈالے گی۔ بشرطیکہ وہ ڈالنے پر قدرت رکھتی ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ عورت اپنے بچے پر جنتا رحم و پیار کرتی ہے اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں پر اس سے کہیں زیادہ تم سے پیار کرتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل اسے آگ سے نجات نہیں دے گا یعنی صرف عمل ہی نافع نہیں ہو گا بلکہ جب حق تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت بھی شامل حال ہو گی تب ہی عمل بھی فائدہ دے گا صحابہ نے عرض کیا کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی !(آپ کا عمل باوجود کامل ہونے کے نجات نہیں دلائے گا) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنی رحمت کے سایہ میں لے لے۔ لہٰذا تم لوگ اپنے اعمال کو تیر کی طرح راست ودرست کرو، عمل میں میانہ روی اختیار کرو (یعنی کسی عمل کو کمی و زیادتی کے ساتھ نہ کرو۔ دن کے ابتدائی حصہ میں عبادت کرو دن کے آخری حصہ میں عبادت کرو اور رات میں بھی کچھ عبادت کرو یعنی نماز تہجد پڑھو اور عبادت میں میانہ روی اختیار کرو میانہ روی اختیار کرو، اپنی منزل کو پا لو گے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم میں سے کسی کا عمل نہ اسے جنت میں داخل کرے گا اور نہ اسے دوزخ سے بچائے گا اور نہ مجھے میرا عمل جنت میں داخل کرے گا ہاں وہ جو اللہ کی رحمت کے ساتھ ہو۔ (مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری الفاظ ہیں ہاں جو اللہ کی رحمت کے ساتھ ہو۔ کا مطلب یہ ہے کہ جنت میں داخل ہونے اور دوزخ سے نجات کی سعادت کا باعث و عمل ہو گا جس کے ساتھ باری تعالیٰ کی رحمت بھی شامل ہو لہٰذا جنت میں داخل ہونا تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اور اس کی رحمت ہی کی بنا پر ہو گا البتہ جنت میں جو درجات ملیں گے وہ اعمال کے مطابق ملیں گے یعنی جس کا عمل جس درجہ کا ہو گا اسے وہی درجہ ملے گا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب کوئی بندہ اسلام قبول کرتا ہے اور اس کا اسلام اچھا ہوتا ہے (یعنی نفاق سے پاک صاف ہوتا ہے) کہ اس کا ظاہر و باطن یکساں ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے وہ تمام گناہ دور کر دیتا ہے جو اس نے قبول اسلام سے پہلے کئے تھے اور اس کے بعد اسے بدلہ ملتا ہے جس کا حساب یہ ہے کہ ایک نیکی کے بدلہ میں دس سے لے کر سات سو تک نیکیاں لکھی جاتی ہیں یعنی اسلام لانے کے بعد وہ بھی جو عمل کرتا ہے بلکہ سات سو سے بھی زیادہ اور برائی کا بدلہ اسی کے مانند ملتا ہے یعنی جتنی برائی کرتا ہے وہ اتنی ہی لکھی جاتی ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی درگزر کرتا ہے۔ (بخاری)
تشریح
یہ محض اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہے اور اس کے فضل و کرم کا اثر ہے کہ وہ ایک نیکی پر دس گنا سے سات سو گنا تک جزاء سے نوازا جاتا ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی مشقت ریاضت اور صدق و اخلاص کے موافق اس سے بھی زیادہ جزاء سے بہرہ مند فرماتا ہے۔ مگر بدی کی سزا اس بدی کے بقدر دیتا ہے چنانچہ جو جتنی برائی کرتا ہے اسے صرف اتنی ہی سزا ملتی ہے بلکہ جس کو چاہتا ہے اس کی اس برائی کو معاف کر دیتا ہے۔ اور اسے اتنی سزا سے بھی بچا لیتا ہے۔
٭٭ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے نیکیاں اور برائیاں لکھی یعنی فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ لوح محفوظ میں نیکیوں اور برائیوں کے بارے میں یہ تفصیل لکھ دیں کہ جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ اس پر عمل نہ کر سکے (یعنی ارادہ کے باوجود وہ کسی عذر کی بناء پر اس نیکی کو کرنے پر قادر نہ ہو سکے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں اس ارادہ ہی کو ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جو شخص نیکی کا ارادہ کرے اور پھر اس نیکی کو کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ نیکیاں لکھ لیتا ہے یعنی اپنے بندوں میں سے جس کے لئے اللہ چاہتا ہے اپنے فضل و کرم سے بحسب اخلاص اور ادائیگی شرائط و آداب اس سے بھی زیادہ ثواب لکھتا ہے اور جو شخص کسی برائی کا ارادہ کرے اور پھر خدا کے خوف کی وجہ سے اس برائی میں بھی مبتلا نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے ہاں ایک پوری نیکی لکھ لیتا ہے اور جس شخص نے کسی برائی کا ارادہ کیا تو پھر اس برائی میں مبتلا بھی ہو گیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ایک ہی برائی لکھتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
نیکیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے ثواب ملتا ہے اور برائیوں سے مراد وہ اعمال ہیں جن کو کرنے سے عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔
جو شخص کسی نیکی کا ارادہ کرے اور وہ نیکی کسی وجہ سے نہ کر سکے تو اس کے لئے بھی ایک نیکی اس لئے لکھی جاتی ہے کہ کسی بھی عمل کا ثواب نیت پر موقوف ہے اور مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر اور افضل ہوتی ہے بلکہ یوں کہئے کہ اصل تو نیت ہی ہے عمل کا درجہ اس کے بعد ہے کیونکہ عمل کے بغیر صرف نیت پر تو ثواب دیا جاتا ہے مگر نیت کے بغیر صرف عمل پر ثواب نہیں دیا جاتا ہاں اتنا فرق ضرور ہوتا ہے کہ بغیر عمل کے نیت پر جو ثواب ملتا ہے وہ مضاعف نہیں ہوتا۔
نیکی پر ثواب کے مضاعف ہونے کی مقدار کو سات سو تک بیان کیا جاتا ہے اس کے بعد اللہ تعالیٰ ثواب میں کتنا اضافہ کرتا ہے اس کی آخر حد اور مقدار کسی کو معلوم نہیں ہے کیونکہ سات سو کے بعد مقدار کو اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی چیز کی طرف رغبت دلانے کے لئے اس کو معین کر کے ذکر کرنے کی بجائے مبہم ذکر کرنا زیادہ موثر ہوتا ہے اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ آیت (فلا تعلم نفس مااخفی لھم من قرۃ اعین)۔
٭٭ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو شخص برائیاں کرتا ہو اور پھر نیکیاں کرنے لگے اس کی حالت اس شخص کی سی ہے جس کے جسم پر تنگ زرہ ہو اور اس زرہ کے حلقوں نے اس کے جسم کو بھینچ رکھا ہو پھر وہ نیکی کرے اور اس کی زرہ کا ایک حلقہ کھل جائے پھر وہ دوسری نیکی کرے اور دوسرا حلقہ کھل جائے یہاں تک کہ اسی طرح اس کے حلقے کھلتے رہیں اور وہ ڈھیلی ہو کر زمین پر گر پڑے۔ (شرح السنہ)
تشریح
حدیث کا حاصل یہ ہے کہ برائی کرنے سے سینہ تنگ و تاریک ہو جاتا ہے اور برائی کرنے والا نہ صرف یہ کہ اپنے تمام امور میں ضمیر کی صحیح رہنمائی سے محروم ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں اس کی تمام فکری اور عملی راہوں پر یقین و اعتماد اور سکون و استقلال کے نور کی بجائے تحیر و گھبراہٹ اور اضطراب عدم استقلال کے تاریک سایہ ہوتے ہیں بلکہ وہ لوگوں کی نظروں میں بے وقعت اور کمتر ہو جاتا ہے اور تمام ہی نیکی پسند انسان اسے غصہ اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اس کے برعکس نیکی کرنے سے سینہ کشادہ اور فراخ ہوتا ہے اور نیکی کرنے والا اپنے ہر کام میں آسانی و سہولت اور یقین و اعتماد کے سکون آمیز اثرات محسوس کرتا ہے نیز یہ کہ وہ لوگوں کی نظر میں محبوب و پسندیدہ اور با وقعت رہتا ہے۔
حدیث بالا میں اسی بات کو تنگ زرہ سے مشابہت دی گئی ہے کہ تنگ زرہ پہننے سے جسم تنگی اور بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس کا زرہ کا بدن پر سے کھلنا فراخی اور خوش دلی کا باعث ہوتا ہے۔
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو منبر پر وعظ و نصیحت فرماتے ہوئے سنا چنانچہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ فرمایا (ولمن خاف مقام ربہ جنتان) یعنی اور جو شخص (قیامت کے دن حساب کے لئے) اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ میں (یہ سن کر از راہ تعجب) پوچھا کہ یا رسول اللہ! اس ڈرنے والے نے زنا ہی کیا ہو اور چاہے اس نے چوری ہی کی ہو۔ تب بھی اسے دو جنتیں ملیں گی؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر دوسری مرتبہ یہی فرمایا آیت (ولمن خاف مقام ربہ جنتان) میں نے پھر دوسری مرتبہ پوچھا کہ یا رسول اللہ! چاہے اس نے زنا ہی کیا ہو اور چاہے اس نے چوری ہی کی ہو ؟۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اگرچہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی ناک خاک آلودہ ہی کیوں نہ ہو۔ (احمد)
تشریح
اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔ دو جنتوں کے بارے میں بعض احادیث میں آیا ہے کہ ایک جنت تو ایسی ہے جس میں مکان، محل، برتن اور زیورات وغیرہ سب کے سب سونے کے ہیں اور ایک جنت ایسی ہے جس میں اسی طرح سب سامان چاندی کا ہے حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے چونکہ بشارت پر تعجب کیا اور انہیں یہ بات بعید سی معلوم ہوئی اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمایا کہ اگرچہ ابودرداء رضی اللہ عنہ کی ناک خاک آلود ہی کیوں نہ ہو۔ یعنی اگرچہ یہ بات ابو درداء کو کتنی ہی عجیب کیوں نہ معلوم ہو اور ابو درداء رضی اللہ عنہ اسے کتنا ہی بعید کیوں نہ سمجھیں مگر بات یوں ہی ہے جس طرح میں نے کہی ہے۔
حضرت عامر رامی رضی اللہ عنہ (تیر انداز) کہتے ہیں کہ ایک دن جب کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اچانک ایک شخص آیا جس کے جسم پر ایک کملی تھی اور اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی جس پر اس نے اپنی کملی لپیٹ رکھی تھی اس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و سلم میں درختوں کے ایک جھنڈ کے پاس سے گزر رہا تھا کہ میں نے اس جھنڈ میں سے پرندوں کے بچوں کی آوازیں سنیں، چنانچہ میں نے انہیں پکڑ لیا اور اپنی کملی میں رکھ لیا اتنے میں بچوں کی ماں آ گئی اور میرے سر پر پھرنے لگی میں نے اس کے سامنے بچوں کے اوپر سے کملی کھول دی تاکہ وہ انہیں دیکھ لے اور وہ اپنے بچوں کو دیکھتے ہی ان پر آ گری میں نے ماں اور بچوں کو اپنی چادر میں لپیٹ لیا اور اب وہ سب میرے پاس ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ان کو یہاں رکھو۔ میں نے ان کو وہاں رکھ دیا اور ان پر سے اپنی کملی ہٹا دی۔ ماں سب چیزوں کو چھوڑ کر بچوں سے چمٹ گئی ہم سب اپنے بچوں کے ساتھ اس ماں کی اس محبت کو نظر تعجب سے دیکھ ہی رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا تم لوگ اس پر تعجب کر رہے ہو کہ ان بچوں کی ماں اپنے بچوں پر کس قدر رحم دل واقع ہوئی ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے حق کے ساتھ بھیجا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچوں پر رحم کرتی ہے اور جاؤ ان بچوں کو وہیں لے جا کر رکھ دو جہاں سے تم نے ان کو پکڑا تھا اور ان کی ماں کو ان کے ساتھ ہی چھوڑ دو چنانچہ وہ ان سب کو لے گیا اور جہاں سے پکڑا تھا وہیں چھوڑ آیا۔ (ابوداؤد)
٭٭ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ کسی غزوہ میں چلے جا رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے اور ان سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم مسلمان ہیں ان میں ایک ایسی عورت بھی تھی جو اپنی ہانڈی کے نیچے آگ جلا رہی تھی یعنی کچھ پکا رہی تھی اس کے پاس اس کا بچہ بھی تھا چنانچہ جب آگ کی لپٹ اٹھتی تو وہ بچے کو ایک طرف ہٹا دیتی تاکہ آگ کی تپش سے اسے تکلیف نہ پہنچے پھر وہ عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کرنے لگی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے رسول ہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس عورت نے کہا کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرنے والا نہیں ہے جتنا کہ ایک ماں اپنے بچے پر رحم کرتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہاں اس عورت نے کہا ماں تو اپنے بچے کو آگ میں نہیں ڈالتی (تو پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دوزخ کی آگ میں کیوں ڈالتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سن کر) روتے ہوئے اپنا سر نیچے کر لیا پھر (تھوڑی دیر کے بعد) اپنا سر مبارک اس عورت کی طرف اٹھایا اور فرمایا اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ہمیشہ عذاب نہیں کرتا ہاں صرف ان لوگوں کو عذاب دیتا ہے جو سرکش ہیں اور ایسے سرکش جو اللہ تعالیٰ سے سرکشی کرتے ہیں (یعنی اس کے احکام نہیں مانتے) اور لا الہ الااللہ کہنے سے انکار کرتے ہیں۔ (ابن ماجہ)
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جو نیک بندہ طاعات کی ادائیگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو تلاش کرتا ہے اور پھر ہمیشہ اس کی تلاش میں رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میرا فلاں بندہ میری رضا و خوشنودی کی تلاش میں ہے لہٰذا آگاہ رہو اس پر میری رحمت کاملہ ہے، چنانچہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کہتے ہیں کہ فلاں شخص پر اللہ کی رحمت ہو، یہی بات عرش کو اٹھانے والے فرشتے بھی کہتے ہیں، پھر یہی بات وہ فرشتے کہتے ہیں جو ان سب کے گرد ہوتے ہیں یہاں تک کہ اس بات کو ساتوں آسمان کے فرشتے کہتے ہیں، چنانچہ پھر اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل فرمائی جاتی ہے۔ (احمد)
تشریح
اس شخص کے لئے زمین پر رحمت نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندہ کو اپنا دوست اور پسندیدہ بناتا ہے اور روئے زمین پر اس کے لئے قبولیت عام کی فضا پیدا فرما دیتا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا والے اس کو عزیز رکھتے ہیں اور ان کے قلوب میں اس کے لئے محبت و پیار اور عظمت و احترام کے پر خلوص جذبات پیدا ہو جاتے ہیں۔
یہ حدیث مفہوم و معنی کے اعتبار سے اس ارشاد گرامی کے مماثل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو دوست رکھتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام کو آگاہ فرماتا ہے کہ میں اپنے فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہوں تم بھی اسے دوست رکھو چنانچہ جبرائیل علیہ السلام اس بندہ کو دوست رکھتے ہیں اوور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فلاں بندہ کو دوست رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اس کو دوست رکھو پس آسمان والے اس کو دوست رکھتے ہیں پھر اس بندہ کے لئے روئے زمین پر قبولیت عام کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے پسند کرتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ کو اپنا دشمن رکھتا ہے اور پھر وہ آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو دشمن رکھتا ہے لہٰذا تم سب بھی اسے دشمن رکھو پس اسمان والے اس کو دشمن رکھتے ہیں پھر اس کے لئے روئے زمین پر عام دشمنی کی فضا پیدا کر دی جاتی ہے (جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے دشمن رکھتے ہیں)
اس ارشاد گرامی کو سامنے رکھئے تو واضح ہو جائے گا کہ اولیاء اللہ کی عام شہرت و قبولیت اور عوام کے قلوب میں ان کے لئے بے پناہ محبت و عقیدت کا واحد سبب یہ ہوتا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ ان کو دوست رکھتا ہے اور پھر روئے زمین پر ان کے لئے عام قبولیت و محبت کی فضا پیدا کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں تمام لوگ ان کو دوست و عزیز رکھتے ہیں۔ ہاں جو لوگ مکر و فریب کے راستوں سے اپنا مال و زر خرچ کرے عوام کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں وہ اس زمرہ سے خرج ہیں کیونکہ ایسے لوگوں کا اعتبار نہیں ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ عزوجل کے اس ارشاد پس ان میں سے بعض اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں۔ ان میں سے بعض میانہ رو ہیں اور ان میں سے بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں کی تفسیر کے ضمن میں فرمایا کہ یہ سب جنتی ہیں۔ (بیہقی)
تشریح
اس حدیث میں جس آیت کریمہ کی تفسیر کے ضمن میں مذکورہ بالا بشارت ارشاد فرمائی گئی ہے وہ پوری یہ ہے کہ آیت (ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِینَ اصْطَفَینَا مِنْ عِبَادِنَا ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ ۚ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ) 35۔ فاطر:32) (ترجمہ) پھر ہم نے کتاب و شریعت دی ان لوگوں کو کہ جنہیں ہم نے اپنے بندوں میں ایمان واسلام کے ذریعہ برگزیدہ کیا پس ان برگزیدہ لوگوں یعنی مسلمانوں میں سے بعض اپنے نفس کے حق میں ظالم ہیں (بایں طور کہ وہ ممنوع چیزوں کا ارتکاب کرتے ہیں اور اپنے آپ کو گناہوں میں مبتلا کرتے ہیں) اور ان میں سے بعض میانہ رو ہیں (بایں طور کہ نیکیاں بھی کرتے ہیں) اور ان میں سے بعض نیکیوں میں سبقت کرنے والے ہیں (بایں طور کہ وہ علم حاصل کرنے اور عمل کرنے میں بہت سعی اور جد و جہد کرتے ہیں اور اپنے علم و عمل کے ساتھ دوسروں کو بھی اپنے علم، تذکیر و نصیحت کے ذریعے رشد و ہدایت کے راستے پر لگاتے ہیں)
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ سبقت کرنے والے سے وہ شخص مراد ہے جس کی نیکیاں برائیوں پر غالب ہوں۔ یعنی نیکیاں، زیادہ کرتا ہو اور برائیوں میں کم مبتلا ہوتا ہو! میانہ رو وہ شخص ہے جس کی نیکیاں اور برائیاں برابر ہوں اور ظالم سے مراد وہ شخص ہے جس کی زندگی میں برائیاں نیکیوں پر غالب ہوں۔
پس حدیث بالا کا حاصل یہ ہے کہ ان تینوں اقسام کے لوگ برگزیدہ بندوں یعنی مومنین ہی میں سے ہیں اور یہ سب جنتی ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ ان کو جنت میں اپنے اپنے احوال و افعال کے اعتبار ہی سے درجات ملیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حق تعالیٰ کی رحمت کتنی وسیع اور عام ہے کہ جس طرح اس کے نیکو کار بندے اس کی رحمتوں سے نوازے جائیں گے اسی طرح کے گنہگار بندے بھی اسے کے سایہ رحمت میں ابدی سعادتوں سے ہمکنار ہوں گے۔