حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبِي سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ، فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ، وَصُفِّدَتِ الشَّيَاطِينُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب رمضان آتا ہے تو کھل جاتے ہیں دروازے جنت کے اور بند ہو جاتے ہیں دروازے دوزخ کے اور زنجیروں میں کس دئیے جاتے ہیں شیاطین۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا كَانَ رَمَضَانُ، فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَةِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رمضان ہوتا ہے تو رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں اور شیاطین زنجیرون میں باندھے جاتے ہیں۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَالْحُلْوَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي نَافِعُ بْنُ أَبِي أَنَسٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ " بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ رَمَضَانَ، فَقَالَ: " لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْا الْهِلَالَ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ، فَاقْدِرُوا لَهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا رمضان کا اور فرمایا: ”نہ روزہ رکھو اور نہ افطار کرو جب تک کہ چاند دیکھ لو۔ پھر اگر بدلی ہو جائے تو تیس دن پورے کرو۔“ (یعنی خواہ شعبان کے خواہ رمضان کے)۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ رَمَضَانَ، فَضَرَبَ بِيَدَيْهِ، فَقَالَ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، ثُمَّ عَقَدَ إِبْهَامَهُ فِي الثَّالِثَةِ، فَصُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ثَلَاثِينَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر کیا رمضان کا اور اشارہ کیا اپنے دونوں ہاتھوں سے (یعنی دس انگلیوں سے) اور فرمایا: ”مہینہ ایسا ہے، ایسا ہے، ایسا ہے اور بند کر لیا انگوٹھے کو تیسری بار (یعنی انتیس دن کا ہوتا ہے) اور فرمایا: روزہ رکھو چاند دیکھ کر اور افطار کرو چاند دیکھ کر پھر اگر تم پر بدلی ہو تو گن لو پورے تیس دن۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا ثَلَاثِينَ "، نَحْوَ حَدِيثِ أَبِي أُسَامَةَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَمَضَانَ، فَقَالَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، وَقَالَ: فَاقْدِرُوا لَهُ "، وَلَمْ يَقُلْ ثَلَاثِينَ.
عبیداللہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا ذکر کیا اور فرمایا:”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ایسا، ایسا، ایسا اور فرمایا: ”اندازہ کرو اس کا۔“ اور تیس کا لفظ نہیں فرمایا۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَلَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ " .
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے، تم روزہ رکھو چاند دیکھ کر اور افطار کرو چاند دیکھ کر، پس اگر بادل ہوں تو تیس دن پورے کر لو۔“
وحَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَلْقَمَةَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَإِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس میں یہ ذکر نہیں کہ مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً، لَا تَصُومُوا حَتَّى تَرَوْهُ، وَلَا تُفْطِرُوا حَتَّى تَرَوْهُ، إِلَّا أَنْ يُغَمَّ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَاقْدِرُوا لَهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس میں «تِسْعٌ وَعِشْرُونَ» کے ساتھ «لَيْلَةً» کا لفظ بھی ہے۔
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إسحاق ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا وَقَبَضَ إِبْهَامَهُ فِي الثَّالِثَةِ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے:”مہینہ ایسا، ایسا، ایسا ہوتا ہے اور انگوٹھے کو کم کر دیا تیسری بار میں (یعنی انتیس کا بھی ہوتا ہے)۔
وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، حَدَّثَنَا حَسَنٌ الْأَشْيَبُ حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ فرماتے تھے: ”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔“
وحَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُوسَى بْنِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عنهما، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، عَشْرًا وَعَشْرًا وَتِسْعًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ ایسا ہے، ایسا ہے، ایسا ہے یعنی دس اور دس اور نو دن کا۔“
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَبَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهْرُ كَذَا وَكَذَا وَكَذَا، وَصَفَّقَ بِيَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ بِكُلِّ أَصَابِعِهِمَا، وَنَقَصَ فِي الصَّفْقَةِ الثَّالِثَةِ إِبْهَامَ الْيُمْنَى أَوِ الْيُسْرَى ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ ایسا، ایسا، ایسا ہے۔“ اور اپنے دونوں ہاتھ مارے دو بار اور سب انگلیاں کھلی رکھیں اور تیسری بار انگوٹھا دایاں یا بایاں کم کر دیا (یعنی بند کر دیا اشارہ ہوا انتیس کا)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُقْبَةَ وَهُوَ ابْنُ حُرَيْثٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الشَّهْرُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ "، وَطَبَّقَ شُعْبَةُ يَدَيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، وَكَسَرَ الْإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ، قَالَ عُقْبَةُ: وَأَحْسِبُهُ قَالَ الشَّهْرُ ثَلَاثُونَ وَطَبَّقَ كَفَّيْهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مہینہ انتیس کا ہوتا ہے۔“ اور شعبہ نے دونوں ہاتھ اپنے ملا کر اشارہ کیا اور تیسری بار میں انگوٹھے کو موڑ لیا۔ عقبہ نے کہا: اور میں گمان کرتا ہوں کہ انہوں نے کہا کہ مہینہ تیس کا ہوتا ہے۔ اور دونوں ہتھیلیوں کو تین بار ملایا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّا أُمَّةٌ أُمِّيَّةٌ، لَا نَكْتُبُ وَلَا نَحْسُبُ الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، وَعَقَدَ الْإِبْهَامَ فِي الثَّالِثَةِ، وَالشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا يَعْنِي تَمَامَ ثَلَاثِينَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ہم لوگ امی ہیں، نہ لکھتے ہیں، نہ حساب کرتے ہیں، مہینہ تو ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔“ اور تیسری بار میں انگوٹھا بند کر لیا اور فرمایا ”مہینہ ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے، ایسا ہوتا ہے۔ یعنی تیس دن پورے ہوتے ہیں۔“
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ قَيْسٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ لِلشَّهْرِ الثَّانِي ثَلَاثِينَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ لیکن اس حدیث میں دوسری دفعہ تیس کی گنتی پوری نہیں۔
حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، رَجُلًا يَقُولُ: اللَّيْلَةَ لَيْلَةُ النِّصْفِ، فَقَالَ لَهُ: مَا يُدْرِيكَ أَنَّ اللَّيْلَةَ النِّصْفُ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ الْعَشْرِ مَرَّتَيْنِ، وَهَكَذَا فِي الثَّالِثَةِ وَأَشَارَ بِأَصَابِعِهِ كُلِّهَا، وَحَبَسَ أَوْ خَنَسَ إِبْهَامَهُ ".
سعد بن عبیدہ نے کہا کہ سنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ایک آدمی کو کہ کہتا تھا کہ آج کی رات آدھا مہینہ ہو گیا تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نے کیا جانا کہ آج کی رات آدھا مہینہ ہوا۔ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے ”مہینہ ایسا ہوتا ہے۔“ اور اشارہ کیا اپنی انگلیوں سے دو بار اور ایسا ہی تیسری بار کیا اور سب انگلیوں سے اشارہ کیا اور بند کر لیا یا جھکا لیا اپنے انگوٹھے کو۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ غُمَّ عَلَيْكُمْ فَصُومُوا ثَلَاثِينَ يَوْمًا ".
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور جب تم اس کو دیکھو تب ہی افطار بھی کرو، پھر اگر بدلی ہو جائے تو تیس روزے پورے رکھ لو۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلَّامٍ الْجُمَحِيُّ ، حَدَّثَنَا الرَّبِيعُ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ زِيَادٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعَدَدَ ".
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ رکھو چاند دیکھ کر اور افطار کرو چاند دیکھ کر اور اگر بدلی ہو جائے تو گنتی پوری کر دو۔“(یعنی تیس کی)۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ غُمِّيَ عَلَيْكُمُ الشَّهْرُ، فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَصُومُوا، وَإِذَا رَأَيْتُمُوهُ فَأَفْطِرُوا، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَعُدُّوا ثَلَاثِينَ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُبَارَكٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَدَّمُوا رَمَضَانَ بِصَوْمِ يَوْمٍ وَلَا يَوْمَيْنِ، إِلَّا رَجُلٌ كَانَ يَصُومُ صَوْمًا فَلْيَصُمْهُ "،
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان سے پیشگی ایک دو روزہ مت رکھو مگر وہ شخص جو ہمیشہ ایک دن میں روزہ رکھا کرتا تھا ور وہی دن آ گیا تو خیر وہ رکھے اپنے مقرر دن میں۔“ (مثلاً جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھتا تھا اور انتیس اور تیس تاریخ میں شعبان کے وہی دن آ گئے تو وہ رکھ لے)۔
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ الْحَرِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَاأَيُّوبُ . ح وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، كُلُّهُمْ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْسَمَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى أَزْوَاجِهِ شَهْرًا، قَالَ الزُّهْرِيُّ: فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: لَمَّا مَضَتْ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ لَيْلَةً أَعُدُّهُنَّ، دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: بَدَأَ بِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّكَ أَقْسَمْتَ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا وَإِنَّكَ دَخَلْتَ مِنْ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ أَعُدُّهُنَّ، فَقَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ ".
زہری رحمہ اللہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قسم کھائی تھی کہ اپنی بیبیوں کے پاس نہ آئیں گے ایک ماہ تک۔ زہری نے کہا: پھر خبر دی مجھ کو عروہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی کہ انہوں نے فرمایا: جب انتیس روز گزرے اور میں شمار کرتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پہلے میرے پاس تشریف لائے (اور یہ فخریہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ارشاد فرمایا اور اس میں کمال محبت رسول اللہ کی ان کے ساتھ ثابت ہوئی) پھر میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ نے تو قسم کھائی تھی کہ ہمارے پاس نہ آئیں گے مہینہ بھر تک اور آپ انتیسویں ہی دن تشریف لائے اور میں دن شمار کر رہی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس کا بھی تو ہوتا ہے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَزَلَ نِسَاءَهُ شَهْرًا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا فِي تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقُلْنَا: إِنَّمَا الْيَوْمُ تِسْعٌ وَعِشْرُونَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا الشَّهْرُ، وَصَفَّقَ بِيَدَيْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، وَحَبَسَ إِصْبَعًا وَاحِدَةً فِي الْآخِرَةِ ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنارہ کیا اپنی بیبیوں سے ایک ماہ کا، پھر نکلے ہماری طرف انتیسویں دن سو ہم نے عرض کی کہ آج تو انتیسواں دن ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ اتنا بھی ہوتا ہے۔“ اور دونوں ہاتھ ملائے تین بار اور بند کر لی ایک انگلی پچھلی بار میں (یعنی انتیس کا اشارہ فرمایا)۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، وَحَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِرِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: اعْتَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِسَاءَهُ شَهْرًا، فَخَرَجَ إِلَيْنَا صَبَاحَ تِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا أَصْبَحْنَا لِتِسْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعًا وَعِشْرِينَ، ثُمَّ طَبَّقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدَيْهِ ثَلَاثًا، مَرَّتَيْنِ بِأَصَابِعِ يَدَيْهِ كُلِّهَا وَالثَّالِثَةَ بِتِسْعٍ مِنْهَا ".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کنارہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عورتوں سے ایک ماہ کا اور نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انتیسویں کی صبح کو۔ سو بعض لوگوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! آج تو ہماری انتیسویں دن کی صبح ہے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مہینہ انتیس کا بھی ہوتا ہے۔“ پھر ملائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو ہاتھ تین بار، دو بار تو سب انگلیوں کے ساتھ اور تیسری بار نو انگلیوں سے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ : أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، أَنَّ عِكْرِمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَلَفَ أَنْ لَا يَدْخُلَ عَلَى بَعْضِ أَهْلِهِ شَهْرًا، فَلَمَّا مَضَى تِسْعَةٌ وَعِشْرُونَ يَوْمًا غَدَا عَلَيْهِمْ أَوْ رَاحَ، فَقِيلَ لَهُ: حَلَفْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَنْ لَا تَدْخُلَ عَلَيْنَا شَهْرًا، قَالَ: " إِنَّ الشَّهْرَ يَكُونُ تِسْعَةً وَعِشْرِينَ يَوْمًا "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ يَعْنِي أَبَا عَاصِمٍ جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
ابن جریج سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ عَلَى الْأُخْرَى، فَقَالَ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا، ثُمَّ نَقَصَ فِي الثَّالِثَةِ إِصْبَعًا ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر اور فرمایا: ” کہ مہینہ اس طرح اور اس طرح ہوتا ہے۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسری مرتبہ ایک انگلی کم کر لی۔
وحَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الشَّهْرُ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا، عَشْرًا وَعَشْرًا وَتِسْعًا مَرَّةً "،
محمد بن سعد اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ”مہینہ اس طرح اور اس طرح اور اس طرح سے ہوتا ہے۔“ دس اور دس اور نو مرتبہ۔
وحَدَّثَنِيهِمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قُهْزَاذَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ ، وَسَلَمَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ ، أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي خَالِدٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمَعْنَى حَدِيثِهِمَا.
مذکورہ بالا حدیث معناً اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ وَهُوَ ابْنُ جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ ، عَنْ كُرَيْبٍ ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ بِنْتَ الْحَارِثِ بَعَثَتْهُ إِلَى مُعَاوِيَةَ بِالشَّامِ، قَالَ: فَقَدِمْتُ الشَّامَ فَقَضَيْتُ حَاجَتَهَا، وَاسْتُهِلَّ عَلَيَّ رَمَضَانُ وَأَنَا بِالشَّامِ، فَرَأَيْتُ الْهِلَالَ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ، ثُمَّ قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَسَأَلَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ثُمَّ ذَكَرَ الْهِلَالَ، فَقَالَ: " مَتَى رَأَيْتُمُ الْهِلَالَ؟ "، فَقُلْتُ: " رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ "، فَقَالَ: " أَنْتَ رَأَيْتَهُ؟ "، فَقُلْتُ: " نَعَمْ وَرَآهُ النَّاسُ، وَصَامُوا وَصَامَ مُعَاوِيَةُ "، فَقَالَ: " لَكِنَّا رَأَيْنَاهُ لَيْلَةَ السَّبْتِ فَلَا نَزَالُ نَصُومُ حَتَّى نُكْمِلَ ثَلَاثِينَ أَوْ نَرَاهُ "، فَقُلْتُ: " أَوَ لَا تَكْتَفِي بِرُؤْيَةِ مُعَاوِيَةَ وَصِيَامِهِ "، فَقَالَ: " لَا هَكَذَا أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، وَشَكَّ يَحْيَى بْنُ يَحْيَى فِي نَكْتَفِي أَوْ تَكْتَفِي.
کریب کو سیدہ ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف بھیجا شام میں، انہوں نے کہا کہ میں گیا شام کو اور ان کا کام نکال دیا اور میں نے چاند دیکھا رمضان کا شام میں جمعہ کی شب کو (یعنی پنج شنبہ کی شام کو) پھر مدینہ آیا آخر ماہ میں اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پوچھا مجھ سے اور ذکر کیا چاند کا کہ تم نے کب دیکھا؟ میں نے کہا: جمعہ کی شب کو۔ انہوں نے کہا: تم نے خود دیکھا؟ میں نے کہا: ہاں اور لوگوں نے بھی دیکھا اور روزہ رکھا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور لوگوں نے تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کہ ہم نے تو ہفتہ کی شب کو دیکھا اور ہم پورے تیس روزے رکھیں گے یا چاند دیکھ لیں گے تو میں نے کہا: آپ کافی نہیں جانتے دیکھنا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کا اور ان کا روزہ رکھنا؟ آپ نے فرمایا نہیں ایسا ہی حکم کیا ہے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور یحییٰ بن یحییٰ کو شک ہے کہ «نَكْتَفِى» کہا یا «تَكْتَفِى» ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: خَرَجْنَا لِلْعُمْرَةِ فَلَمَّا نَزَلْنَا بِبَطْنِ نَخْلَةَ، قَالَ: تَرَاءَيْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ، قَالَ: فَلَقِينَا ابْنَ عَبَّاسٍ ، فَقُلْنَا: إِنَّا رَأَيْنَا الْهِلَالَ، فَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ ثَلَاثٍ، وَقَالَ بَعْضُ الْقَوْمِ: هُوَ ابْنُ لَيْلَتَيْنِ، فَقَالَ: أَيَّ لَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ؟، قَالَ: فَقُلْنَا: لَيْلَةَ كَذَا وَكَذَا، فَقَالَ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ مَدَّهُ لِلرُّؤْيَةِ، فَهُوَ لِلَيْلَةٍ رَأَيْتُمُوهُ ".
ابوالبختری نے کہا کہ ہم عمرہ کو نکلے اور جب بطن نخلہ پہنچے (ایک مقام کا نام ہے) تو سب نے چاند دیکھنا شروع کیا اور بعض نے دیکھ کر کہا کہ یہ تین رات کا چاند ہے (یعنی بڑا ہونے کے سبب سے) اور بعض نے کہا: دو رات کا ہے پھر ملے ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور ان سے ذکر کیا کہ ہم نے چاند دیکھا اور کسی نے کہا: تین رات کا ہے اور کسی نے کہا: دو رات کا ہے تب انہوں نے پوچھا کہ تم نے کون سی رات میں دیکھا؟ تو ہم نے کہا: فلاں فلاں رات میں۔ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”االلہ تعالٰی نے اس کو بڑھا دیا دیکھنے کے لیے اور وہ اسی رات کا تھا جس رات تم نے دیکھا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: أَهْلَلْنَا رَمَضَانَ وَنَحْنُ بِذَاتِ عِرْقٍ، فَأَرْسَلْنَا رَجُلًا إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَسْأَلُهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَمَدَّهُ لِرُؤْيَتِهِ، فَإِنْ أُغْمِيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا الْعِدَّةَ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے لمبا کر دیا ہے اس کو اس کے دیکھنے کے سبب سے۔ پس اگر بادل ہوں تو تم گنتی کو پورا کرو۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ، رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ ".
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو ماہ عیدوں کے ناقص نہیں ہوتے ایک رمضان شریف، دوسرا ذی الحجہ۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، عَنْ إسحاق بْنِ سُوَيْدٍ ، وَخَالِدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " شَهْرَا عِيدٍ لَا يَنْقُصَانِ "، فِي حَدِيثِ خَالِدٍ: " شَهْرَا عِيدٍ رَمَضَانُ وَذُو الْحِجَّةِ ".
ترجمہ وہی جو اوپر گزرا ہے اور خالد کی روایت میں ہے کہ ”عید کے دو ماہ رمضان اور ذوالحجہ ہیں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، قَالَ لَهُ عَدِيُّ بْنُ حَاتِمٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجْعَلُ تَحْتَ وِسَادَتِي عِقَالَيْنِ: عِقَالًا أَبْيَضَ وَعِقَالًا أَسْوَدَ، أَعْرِفُ اللَّيْلَ مِنَ النَّهَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ وِسَادَتَكَ لَعَرِيضٌ، إِنَّمَا هُوَ سَوَادُ اللَّيْلِ، وَبَيَاضُ النَّهَارِ ".
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب یہ آیت اتری «َ(حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» (البقرۃ: ۱۸۷) یعنی ”کھاتے پیتے رہو جب تک کہ ظاہر ہو جائے سفید دھاگہ کالے دھاگے سے صبح کے۔“ تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنے تکیہ کے نیچے دو رسیاں رکھتا ہوں ایک سفید ایک کالی اسی سے میں پہچان لیتا ہوں رات کو دن سے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تمہارا تکیہ تو بہت چوڑا ہے (مزاح کی راہ سے فرمایا کہ اتنا چوڑا ہے کہ صبح اسی کے نیچے سے ہوتی ہے) اس آیت میں تو سیاہی رات کی اور سفیدی دن کی مراد ہے۔“
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا فُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَازِمٍ ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187، قَالَ: كَانَ الرَّجُلُ يَأْخُذُ خَيْطًا أَبْيَضَ وَخَيْطًا أَسْوَدَ، فَيَأْكُلُ حَتَّى يَسْتَبِينَهُمَا، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187 فَبَيَّنَ ذَلِكَ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت اتری: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ» الخ تو تھے آدمی پکڑتے دو دھاگے سفید اور سیاہ پھر کھاتے صبح کے روشن ہونے تک، یہاں تک اتاری اللہ تعالیٰ نے «مِنَ الْفَجْرِ» پھر وہ(التباس) ظاہر ہو گیا۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إسحاق ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو غَسَّانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ سورة البقرة آية 187، قَالَ: فَكَانَ الرَّجُلُ إِذَا أَرَادَ الصَّوْمَ، رَبَطَ أَحَدُهُمْ فِي رِجْلَيْهِ الْخَيْطَ الْأَسْوَدَ وَالْخَيْطَ الْأَبْيَضَ، فَلَا يَزَالُ يَأْكُلُ وَيَشْرَبُ، حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُ رِئْيُهُمَا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ بَعْدَ ذَلِكَ مِنَ الْفَجْرِ سورة البقرة آية 187، فَعَلِمُوا أَنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت اتری «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ» تو آدمی جب روزہ رکھنے کا ارادہ کرتا تو دو دھاگے اپنے پیر میں باندھ لیتا ایک سفید دوسرا سیاہ اور کھاتا پیتا رہتا یہاں تک کہ اس کو دیکھنے میں کالے اور سفید کا فرق معلوم ہونے لگتا تب اللہ پاک نے اس کے بعد «مِنَ الْفَجْرِ» کا لفظ اتارا تب لوگوں کو معلوم ہوا کہ دھاگوں سے مراد رات اور دن ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حَتَّى تَسْمَعُوا تَأْذِينَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ بلال رات کو اذان دیتے ہیں (تاکہ تہجد پڑھنے والے کھانے کو جائیں اور سحری سے فارغ ہو جائیں) سو تم کھاتے پیتے رہا کرو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سنو۔“ (اور وہ نابینا تھے جب لوگ کہتے کہ صبح ہوئی صبح ہوئی تب اذان دیتے)۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے۔
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُؤَذِّنَانِ: بِلَالٌ وَابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ الْأَعْمَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ بِلَالًا يُؤَذِّنُ بِلَيْلٍ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا، حَتَّى يُؤَذِّنَ ابْنُ أُمِّ مَكْتُومٍ "، قَالَ: وَلَمْ يَكُنْ بَيْنَهُمَا، إِلَّا أَنْ يَنْزِلَ هَذَا وَيَرْقَى هَذَا،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مؤذن تھے۔ بلال اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہما نابینا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال رات کو اذان دیتا ہے سو تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ اذان دیں ابن مکتوم۔“ اور کہا راوی نے کہ دونوں کی اذان کے درمیان کچھ دیر بیچ میں نہ ہوتی تھی اتنا ہی خیال تھا کہ یہ اترے وہ چڑھے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق ، أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ كُلُّهُمْ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِالْإِسْنَادَيْنِ كِلَيْهِمَا نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَمْنَعَنَّ أَحَدًا مِنْكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، أَوَ قَالَ: نِدَاءُ بِلَالٍ مِنْ سُحُورِهِ، فَإِنَّهُ يُؤَذِّنُ، أَوَ قَالَ: يُنَادِي بِلَيْلٍ لِيَرْجِعَ قَائِمَكُمْ وَيُوقِظَ نَائِمَكُمْ، وَقَالَ: لَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَصَوَّبَ يَدَهُ وَرَفَعَهَا، حَتَّى يَقُولَ هَكَذَا وَفَرَّجَ بَيْنَ إِصْبَعَيْهِ "،
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی باز نہ رہے تم میں سے اپنے سحر کے کھانے سے بلال کی اذان سن کر اس لیے کہ وہ اذان دیتے ہیں رات کو کہ پھر جائے جو نماز پر کھڑا ہے تم میں سے اور جاگ جائے سونے والا۔“ اور فرمایا: ”صبح وہ نہیں ہے جو ایسی ہو اور بلند کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہاتھ کو (یعنی جو روشنی نیزہ کی طرح اوپر کو بلند ہوتی ہے وہ صبح صادق نہیں ہے)جب تک کہ ایسی نہ ہو۔“ اور کھول دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلیوں کو (یعنی جب تک کناروں میں فلک پر منتشر نہ ہو وہ صبح صادق نہیں)۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ يَعْنِي الْأَحْمَرَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الْفَجْرَ لَيْسَ الَّذِي يَقُولُ هَكَذَا وَجَمَعَ أَصَابِعَهُ، ثُمَّ نَكَسَهَا إِلَى الْأَرْضِ، وَلَكِنْ الَّذِي يَقُولُ هَكَذَا، وَوَضَعَ الْمُسَبِّحَةَ عَلَى الْمُسَبِّحَةِ وَمَدَّ يَدَيْهِ "،
سلیمان تیمی سے اس اسناد سے مروی ہے وہی روایت جو اوپر گزری مگر اس میں ایسا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فجر وہ نہیں ہے جو ایسی ہو۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب انگلیوں کو جمع کیا اور ان کو زمین کی طرف جھکایا (یعنی جو روشنی اوپر سے نیچے کو آئے وہ صبح صادق نہیں ہے) بلکہ صبح صادق وہ ہے جو ایسی ہے۔“اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کلمہ کی انگلی پر انگلی رکھی اور دونوں ہاتھوں کو پھیلایا(یعنی اشارہ کیا کہ آسمان کے کناروں میں پھیلے)۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، وَالْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، كلاهما، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَانْتَهَى حَدِيثُ الْمُعْتَمِرِ عِنْدَ قَوْلِهِ " يُنَبِّهُ نَائِمَكُمْ وَيَرْجِعُ قَائِمَكُمْ "، وقَالَ إسحاق: قَالَ جَرِيرٌ فِي حَدِيثِهِ: " وَلَيْسَ أَنْ يَقُولَ هَكَذَا وَلَكِنْ يَقُولُ هَكَذَا يَعْنِي: الْفَجْرَ، هُوَ الْمُعْتَرِضُ وَلَيْسَ بِالْمُسْتَطِيلِ ".
سلیمان تیمی سے اس اسناد سے وہی روایت مروی ہوئی اور تمام ہوئی روایت معتمر کی یہیں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اذان بلال کی اس لیے ہے کہ جگا دے تمہارے سوئے ہوئے کو اور لوٹے تمہارا تہجد پڑھنے والا۔“ اور اسحاق نے کہا کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے کہا اپنی حدیث میں ”اور صبح وہ نہیں جو ایسی ہے (یعنی اونچی)لیکن وہ ہے جو ایسی ہو۔“ (یعنی پھیلی ہوئی)۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيِّ ، حَدَّثَنِي وَالِدِي ، أَنَّهُ سَمِعَ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَغُرَّنَّ أَحَدَكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ مِنَ السَّحُورِ، وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ حَتَّى يَسْتَطِيرَ ".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیٹے جندب کے، کہتے تھے کہ میں نے سنا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”کوئی بلال کی اذان سے دھوکا کھا کر سحر کھانے سے باز نہ رہے اور نہ یہ سفیدی (جو نیزے کی طرح بلند ہے کہ صبح ہے بلکہ صبح وہ ہے)جو پھیلی ہو۔“
وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَوَادَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَغُرَّنَّكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ لِعَمُودِ، الصُّبْحِ حَتَّى يَسْتَطِيرَ هَكَذَا ".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دھوکا نہ دے تم کو اذان بلال کی اور یہ سفیدی صبح کا ستون جب تک کہ وہ اس طرح چوڑی نہ ہو جائے۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَوَادَةَ الْقُشَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَغُرَّنَّكُمْ مِنْ سَحُورِكُمْ أَذَانُ بِلَالٍ، وَلَا بَيَاضُ الْأُفُقِ الْمُسْتَطِيلُ هَكَذَا، حَتَّى يَسْتَطِيرَ هَكَذَا "، وَحَكَاهُ حَمَّادٌ بِيَدَيْهِ، قَالَ: يَعْنِي مُعْتَرِضًا.
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس روایت میں یہ ہے کہ حماد نے اپنے دونوں ہاتھوں کے ساتھ اس کی حالت کی طرف اشارہ کیا اور کہا: یعنی پھیلی ہوئی۔
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَوَادَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ يَخْطُبُ يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَغُرَّنَّكُمْ نِدَاءُ بِلَالٍ، وَلَا هَذَا الْبَيَاضُ، حَتَّى يَبْدُوَ الْفَجْرُ، أَوَ قَالَ: حَتَّى يَنْفَجِرَ الْفَجْرُ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا لیکن اس روایت میں ہے کہ جب فجر شروع ہو یا جب فجر پھوٹے۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنِي سَوَادَةُ بْنُ حَنْظَلَةَ الْقُشَيْرِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ سَمُرَةَ بْنَ جُنْدُبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَ هَذَا.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، وَعَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کھاؤ، سحری میں برکت ہے۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ "،
سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزہ میں سحری کے لقمہ کا فرق ہے۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جَمِيعًا، عَنْ وَكِيعٍ . ح وحَدَّثَنِيهِ أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ كِلَاهُمَا، عَنْ مُوسَى بْنِ عُلَيٍّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قُمْنَا إِلَى الصَّلَاةِ "، قُلْتُ: " كَمْ كَانَ قَدْرُ مَا بَيْنَهُمَا؟ " قَالَ: " خَمْسِينَ آيَةً "،
سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا: سحری کھائی ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پھر کھڑے ہوئے نماز صبح کو میں نے کہا: دونوں کے بیچ میں کتنی دیر ہوئی۔ انہوں نے کہا: پچاس آیت کے موافق۔
وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ عَامِرٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے قتادہ سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ "،
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہمیشہ لوگ خیر پر رہیں گے جب تک افطار جلد کریں گے۔“
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ . ح وحَدَّثَنِيزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ ، فَقُلْنَا: " يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ "، قَالَتْ: " أَيُّهُمَا الَّذِي يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟ "، قَالَ: " قُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ مَسْعُودٍ "، قَالَتْ: " كَذَلِكَ كَانَ يَصْنَعُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، زَادَ أَبُو كُرَيْبٍ: " وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى ".
ابوعطیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں اور مسروق ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ ام المؤمنین! دو شخص اصحاب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تو اول وقت افطار کرتے ہیں اور اول ہی وقت نماز پڑھتے ہیں دوسرے افطار اور نماز میں دیر کرتے ہیں تو آپ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: وہ کون ہیں جو اول وقت افطار کرتے ہیں اور اول ہی وقت نماز پڑھتے ہیں تو ہم نے کہا: وہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ زیادہ کیا ابوکریب نے اپنی روایت میں کہ دوسرے سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ ہیں۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، فَقَالَ لَهَا مَسْرُوقٌ: رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كِلَاهُمَا لَا يَأْلُو عَنِ الْخَيْرِ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْمَغْرِبَ وَالْإِفْطَارَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْمَغْرِبَ وَالْإِفْطَارَ "، فَقَالَتْ: " مَنْ يُعَجِّلُ الْمَغْرِبَ وَالْإِفْطَارَ؟ " قَالَ: " عَبْدُ اللَّهِ "، فَقَالَتْ: " هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ".
مضمون وہی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ اس میں افطار اور مغرب کی تاخیر و تعجیل مذکور ہوئی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، واتفقوا في اللفظ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: حَدَّثَنَا أَبِي ، وقَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ جَمِيعًا، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ، وَغَابَتِ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ "، لَمْ يَذْكُرْ ابْنُ نُمَيْرٍ فَقَدْ.
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب رات آئی اور دن گیا اور سورج ڈوبا پس روزہ دار نے افطار کیا۔“ اور ابن نمیر کی روایت میں «فقد» کا لفظ نہیں ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي إسحاق الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَلَمَّا غَابَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: " يَا فُلَانُ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ عَلَيْكَ نَهَارًا، قَالَ: " انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، قَالَ: فَنَزَلَ فَجَدَحَ فَأَتَاهُ بِهِ، فَشَرِبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ قَالَ بِيَدِهِ: " إِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ مِنْ هَا هُنَا، وَجَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ ".
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں، رمضان کی مہینے میں، پھر جب آفتاب ڈوبا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے فلانے! اترو اور ہمارے لئے ستو گھولو۔“ انہوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ابھی آپ پر دن ہے (یعنی ان صحابی رضی اللہ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ جب غروب کے بعد جو سرخی ہے وہ جاتی ہے دن جاتا ہے حالانکہ یہ غلط ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ”اتر (یعنی اونٹ پر سے) اور ہمارے لئے ستو گھولو۔“ پھر وہ اترے اور ستو گھولے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پئیے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا: ”جب سورج ڈوب جائے اس طرف کو (یعنی مغرب میں) اور آ جائے رات اس طرف سے (یعنی مشرق سے) پس روزہ کھل چکا صائم کا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَعَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَلَمَّا غَابَتِ الشَّمْسُ، قَالَ لِرَجُلٍ: " انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ أَمْسَيْتَ، قَالَ: " انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا "، قَالَ: إِنَّ عَلَيْنَا نَهَارًا، فَنَزَلَ فَجَدَحَ لَهُ، فَشَرِبَ ثُمَّ قَالَ: " إِذَا رَأَيْتُمُ اللَّيْلَ قَدْ أَقْبَلَ مِنْ هَا هُنَا، وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ، فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ "،
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہے مگر اتنا فرق ہے کہ انہوں نے عرض کی کہ اگر آپ شام ہونے دیں تو خوب ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر میں فرمایا: ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے کہ ”جب رات کو دیکھو کہ ادھر آئی تو افطار کر چکا صائم۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ الشَّيْبَانِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: سِرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلَمَّا غَرَبَتِ الشَّمْسُ، قَالَ: " يَا فُلَانُ انْزِلْ فَاجْدَحْ لَنَا " مِثْلَ حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ، وَعَبَّادِ بْنِ الْعَوَّامِ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ . ح وحَدَّثَنَا إسحاق ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، كِلَاهُمَا، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى . ح وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ ابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ، وَعَبَّادٍ، وَعَبْدِ الْوَاحِدِ، وَلَيْسَ فِي حَدِيثِ أَحَدٍ مِنْهُمْ: فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَلَا قَوْلُهُ: وَجَاءَ اللَّيْلُ مِنْ هَا هُنَا، إِلَّا فِي رِوَايَةِ هُشَيْمٍ وَحْدَهُ.
شیبانی نے سیدنا ابن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے وہی روایت بیان کی جیسے ابن مسہر اور عباد اور عبدالواحد کی روایتیں اوپر مذکور ہوئیں اور ان میں سے کسی میں یہ نہیں ہے کہ وہ مہینہ رمضان کا تھا (یعنی اس سند میں یہ مذکور نہیں) اور نہ یہ قول ہے کہ جب آئی رات اس طرف سے مگر یہ صرف ہشیم کی روایت میں مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنِ الْوِصَالِ، قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا وصال سے۔ (یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے کہ جس کے بیچ میں افطار نہ ہو) تو لوگوں نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ میں تمہاری طرح نہیں ہوں مجھے تو کھلایا جاتا ہے اور پلایا جاتا ہے۔“ (یعنی پروردگار کی طرف سے)۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاصَلَ فِي رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ النَّاسُ فَنَهَاهُمْ، قِيلَ لَهُ: أَنْتَ تُوَاصِلُ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى "،
مضمون وہی ہے فقط اتنا فرق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں وصال کیا اور لوگوں نے بھی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع فرمایا۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَقُلْ فِي رَمَضَانَ.
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وہی مضمون مروی ہوا مگر اس میں رمضان کا ذکر نہیں ہے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ: فَإِنَّكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تُوَاصِلُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَيُّكُمْ مِثْلِي إِنِّي أَبِيتُ، يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي "، فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنِ الْوِصَالِ وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا، ثُمَّ يَوْمًا ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ: " لَوْ تَأَخَّرَ الْهِلَالُ لَزِدْتُكُمْ "، كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ حِينَ أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے تب ایک شخص نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! آپ تو وصال کر لیتے ہیں تو فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”تم میں سے کون ہے میرے برابر میں تو رات کو رہتا ہوں کہ کھلاتا ہے مجھے پروردگار میرا اور پلاتا ہے۔“ پھر لوگ باز نہ رہے (یہ کمال محبت اور اطاعت تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی اور انہوں نے اس نہی کو براہ شفقت سمجھا) وصال سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ وصال کیا ایک روز پھر دوسرے روز پھر چاند دیکھا گیا اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اگر چاند نہ ہوتا تو میں زیادہ وصال کرتا۔“ اور یہ فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زجر و توبیخ کی راہ سے تھا جب وہ باز نہ رہے وصال سے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإسحاق ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ "، قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّكُمْ لَسْتُمْ فِي ذَلِكَ مِثْلِي، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي، فَاكْلَفُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”دور رہو وصال سے۔“ تو کسی نے عرض کی کہ آپ تو وصال کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”تم میرے برابر نہیں ہو میں تو رات کاٹتا ہوں اس لطف میں کہ کھلاتا ہے مجھ کو پروردگار میرا اور پلاتا ہے اور تم اتنے ہی افعال بجا لاؤ جس کی طاقت تم رکھتے ہو۔“
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَاكْلَفُوا مَا لَكُمْ بِهِ طَاقَةٌ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اتنی تکلیف اٹھاؤ جتنی تم کو طاقت ہو۔“
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ نَهَى عَنِ الْوِصَالِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا وصال سے اور باقی وہی مضمون ہے جو عمارہ نے ابوزرعہ سے روایت کیا۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ فَجِئْتُ، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، وَجَاءَ رَجُلٌ آخَرُ فَقَامَ أَيْضًا، حَتَّى كُنَّا رَهْطًا، فَلَمَّا حَسَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّا خَلْفَهُ، جَعَلَ يَتَجَوَّزُ فِي الصَّلَاةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَحْلَهُ فَصَلَّى صَلَاةً لَا يُصَلِّيهَا عِنْدَنَا، قَالَ: قُلْنَا لَهُ حِينَ أَصْبَحْنَا: أَفَطَنْتَ لَنَا اللَّيْلَةَ؟، قَالَ: فَقَالَ: " نَعَمْ ذَاكَ الَّذِي حَمَلَنِي عَلَى الَّذِي صَنَعْتُ "، قَالَ: فَأَخَذَ يُوَاصِلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَذَاكَ فِي آخِرِ الشَّهْرِ، فَأَخَذَ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِهِ يُوَاصِلُونَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا بَالُ رِجَالٍ يُوَاصِلُونَ، إِنَّكُمْ لَسْتُمْ مِثْلِي، أَمَا وَاللَّهِ لَوْ تَمَادَّ لِي الشَّهْرُ، لَوَاصَلْتُ وِصَالا يَدَعُ الْمُتَعَمِّقُونَ تَعَمُّقَهُمْ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں نماز پڑھتے تھے (یعنی رات کو) سو میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر کھڑا ہو گیا اور دوسرا شخص آیا وہ بھی کھڑا ہو گیا یہاں تک کہ ایک جماعت جمع ہو گئی (یعنی دس سے کم) پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری سن گن پائی تو نماز ہلکی پڑھنے لگے(سبحان اللہ کیا شفقت تھی امت پر)، پھر اپنے گھر تشریف لے گئے اور ایسی نماز پڑھی(یعنی بہت لمبی) کہ ہمارے ساتھ نہ پڑھتے تھے، پھر ہم نے صبح کو ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا خبر ہو گئی تھی رات کو ہماری اقتداء کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اسی سبب سے تو میں نے کیا جو کچھ کیا۔“ (یعنی نماز ہلکی کی) پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم وصال کرنے لگے اور وہ دن آخر ماہ کے تھے تو اور لوگ بھی وصال کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہے لوگوں کا کہ وصال کرتے ہیں، تم میری مثل نہیں ہو، اللہ کی قسم! اگر مہینہ زیادہ ہوتا تو میں ایسا وصال کرتا کہ زیادتی کرنے والے اپنی زیادتی چھوڑ دیتے۔“
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ التَّيْمِيُّ ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: وَاصَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَوَّلِ شَهْرِ رَمَضَانَ، فَوَاصَلَ نَاسٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَبَلَغَهُ ذَلِكَ، فَقَالَ: " لَوْ مُدَّ لَنَا الشَّهْرُ، لَوَاصَلْنَا وِصَالا يَدَعُ الْمُتَعَمِّقُونَ تَعَمُّقَهُمْ، إِنَّكُمْ لَسْتُمْ مِثْلِي، أَوَ قَالَ: إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَظَلُّ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: وصال کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخر رمضان میں اور لوگوں نے بھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر مہینہ لمبا ہوتا تو میں ایسا وصال کرتا کہ حد سے بڑھنے والے اپنی زیادتی چھوڑ دیتے (یعنی ہار جاتے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم سب آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے ہارے ہوئے ہیں) تم تو میرے برابر نہیں ہو یا فرمایا: میں تمہاری مثل نہیں ہوں (سچ ہے چہ نسبت خاک رابہ عالم پاک) میں اس طرح رہتا ہوں کہ مجھے میرا رب کھلاتا ہے اور پلاتا ہے۔“
وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ جميعا، عَنْ عَبْدَةَ ، قَالَ إسحاق: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: نَهَاهُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْوِصَالِ رَحْمَةً لَهُمْ، فَقَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ، قَالَ: " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا لوگوں کو وصال سے، رحمت کی نظر سے اور عرض کی لوگوں نے کہ آپ تو وصال فرماتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہاری طرح کا نہیں ہوں، مجھے تو کھلاتا ہے رب میرا اور پلاتا ہے (یہاں پر مؤلف رحمہ اللہ نے بیاض چھوڑ دی ہے)۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ إِحْدَى نِسَائِهِ وَهُوَ صَائِمٌ "، ثُمَّ تَضْحَكُ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ایک بی بی صاحبہ رضی اللہ عنہا کا بوسہ لیتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے تھے بی بی صاحبہ یہ فرماتی تھیں اور ہنستی تھیں۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ أَسَمِعْتَ أَبَاكَ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ؟ " فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: " نَعَمْ ".
سفیان نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن، قاسم کے بیٹے سے پوچھا کہ کیا تم نے اپنے باپ سے سنا ہے کہ وہ بیان کرتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا بوسہ لیتے تھے روزے میں؟ تو وہ تھوڑی دیر چپ رہے پھر کہا کہ ہاں۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ الْقَاسِمِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُنِي وَهُوَ صَائِمٌ، وَأَيُّكُمْ يَمْلِكُ إِرْبَهُ كَمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْلِكُ إِرْبَهُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے میرا اور وہ روزے سے ہوتے تھے اور کون اپنی شہوت ایسی روک سکتا ہے جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم روکتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، وَعَلْقَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا. ح وحَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ ، حَدَّثَنَايَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَلَكِنَّهُ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے اور وہ روزے سے تھے اور اپنی حاجت کو خوب قابو میں رکھنے والے تھے۔
حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ، وَكَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مباشرت(یعنی بوس و کنار) کرتے تھے اور وہ روزہ دار ہوتے تھے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا، وَمَسْرُوقٌ إلى عائشة رضي الله عنها، فقلنا لها: " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ؟ "، قَالَتْ: " نَعَمْ وَلَكِنَّهُ كَانَ أَمْلَكَكُمْ لِإِرْبِهِ، أَوْ مِنْ أَمْلَكِكُمْ لِإِرْبِهِ "، شَكَّ أَبُو عَاصِمٍ،
اسود نے کہا: میں اور مسروق سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے میں مباشرت کرتے تھے انھوں نے فرمایا کہ ہاں مگر وہ بہت اپنی حاجت کو روکنے والے تھے۔
وحَدَّثَنِيهِ يَعْقُوبُ الدَّوْرَقِيُّ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ الْأَسْوَدِ ، وَمَسْرُوقٍ ، أَنَّهُمَا دَخَلَا عَلَى أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ لِيَسْأَلَانَهَا، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ "،
عروہ سے روایت ہے کہ خبر دی ان کو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بوسہ لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بِشْرٍ الْحَرِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ عِلَاقَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُقَبِّلُ فِي شَهْرِ الصَّوْمِ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بوسہ لیتے تھے، روزوں کے مہینے میں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ النَّهْشَلِيُّ ، حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عِلَاقَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُقَبِّلُ فِي رَمَضَانَ وَهُوَ صَائِمٌ ".
ترجمہ وہی ہے لیکن اس میں رمضان المبارک کا بھی ذکر ہے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ "،
سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ جَرِيرٍ ، كِلَاهُمَا، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُسْلِمٍ ، عَنْ شُتَيْرِ بْنِ شَكَلٍ ، عَنْ حَفْصَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، أَنَّهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُقَبِّلُ الصَّائِمُ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَلْ هَذِهِ لِأُمِّ سَلَمَةَ "، فَأَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ ذَلِكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لَأَتْقَاكُمْ لِلَّهِ، وَأَخْشَاكُمْ لَهُ ".
سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا صائم بوسہ لے؟ تو آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ام سلمہ سے پوچھو۔“ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ ہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی بوسہ لیتے ہیں۔ تب سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے تو آپ کے اگلے پچھلے گناہ سب معاف کر دئیے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آگاہ ہو میں تم سب میں سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور خوف کرنے والا ہوں۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بْنُ هَمَّامٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُصُّ يَقُولُ فِي قَصَصِهِ " مَنْ أَدْرَكَهُ الْفَجْرُ جُنُبًا فَلَا يَصُمْ "، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ لِأَبِيهِ، فَأَنْكَرَ ذَلِكَ، فَانْطَلَقَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَانْطَلَقْتُ مَعَهُ، حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ ، وَأُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَسَأَلَهُمَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَنْ ذَلِكَ، قَالَ: فَكِلْتَاهُمَا قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ ثُمَّ يَصُومُ "، قَالَ فَانْطَلَقْنَا حَتَّى دَخَلْنَا عَلَى مَرْوَانَ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ مَرْوَانُ: " عَزَمْتُ عَلَيْكَ إِلَّا مَا ذَهَبْتَ إِلَى أَبِي هُرَيْرَةَ، فَرَدَدْتَ عَلَيْهِ مَا يَقُولُ "، قَالَ: فَجِئْنَا أَبَا هُرَيْرَةَ، وَأَبُو بَكْرٍ حَاضِرُ ذَلِكَ كُلِّهِ، قَالَ: فَذَكَرَ لَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " أَهُمَا قَالَتَاهُ لَكَ؟ " قَالَ: " نَعَمْ " قَالَ: " هُمَا أَعْلَمُ "، ثُمَّ رَدَّ أَبُو هُرَيْرَةَ مَا كَانَ يَقُولُ فِي ذَلِكَ إِلَى الْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: " سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ الْفَضْلِ، وَلَمْ أَسْمَعْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، قَالَ: فَرَجَعَ أَبُو هُرَيْرَةَ عَمَّا كَانَ يَقُولُ فِي ذَلِكَ، قُلْتُ لِعَبْدِ الْمَلِكِ: " أَقَالَتَا فِي رَمَضَانَ؟ " قَالَ: " كَذَلِكَ كَانَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ، ثُمَّ يَصُومُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی روایتوں میں کہتے تھے کہ جس کو فجر ہو جائے حالت جنابت میں وہ روزہ نہ رکھے۔ سو میں نے (یہ مقولہ ہے ابوبکر بن عبدالرحمٰن کا)عبدالرحمٰن سے کہا: جو میرے باپ تھے انہوں نے اس کا انکار کیا اور ہم دونوں (یعنی ابوبکر اور عبدالرحمٰن) سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن کے پاس گئے اور عبدالرحمٰن نے ان سے پوچھا: تو دونوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں صبح ہو جاتی تھی اور پھر روزہ رکھتے تھے اور جنابت بغیر احتلام کے ہوتی تھی (اس لیے کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا یعنی صحبت سے بیبیوں کے جنابت ہوتی ہے) کہا ابوبکر نے پھر ہم گئے مروان کے پاس اور عبدالرحمٰن نے ان سے ذکر کیا۔ سو مروان نے کہا: میں تم کو قسم کو دیتا ہوں کہ تم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی بات کا جواب دے دو پھر ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابوبکر ان سب باتوں میں حاضر تھا اور ذکر کیا عبدالرحمٰن نے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دونوں بیبیوں نے فرمایا تم سے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ اور لوگوں سے زیادہ جانتی ہیں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس قول کی نسبت فضل بن عباس کی طرف کی اور کہا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے یہ بات فضل سے سنی تھی تو اس کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ غرض سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس بات سے رجوع کیا جو وہ اس مسئلہ میں کہا کرتے تھے پھر میں نے (یہ مقولہ ہے ابن جریج کا) عبدالملک سے کہا کہ کیا ان دونوں بیبیوں نے رمضان کے روزے کو کہا؟ انہوں نے کہا کہ ایسا فرمایا بیبیوں نے کہ صبح ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں بغیر احتلام کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أن عائشة زوج النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُدْرِكُهُ الْفَجْرُ فِي رَمَضَانَ، وَهُوَ جُنُبٌ مِنْ غَيْرِ حُلُمٍ، فَيَغْتَسِلُ وَيَصُومُ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح ہو جاتی تھی رمضان میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے تھے بغیر احتلام کے(یعنی صحبت سے جنبی ہوتے تھے نہ کہ احتلام سے کہ اس سے انبیاء علیہم السلام پاک ہیں) پھر غسل فرماتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔
حَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ الْحِمْيَرِيِّ ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ مَرْوَانَ أَرْسَلَهُ إِلَى أُمِّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا يَسْأَلُ عَنِ الرَّجُلِ يُصْبِحُ جُنُبًا أَيَصُومُ؟، فَقَالَتْ " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ، لَا مِنْ حُلُمٍ، ثُمَّ لَا يُفْطِرُ وَلَا يَقْضِي ".
سیدنا عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ مروان نے ان کو بھیجا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کہ پوچھیں کہ جو شخص صبح کرے جنابت میں آیا وہ روزہ رکھے یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت میں صبح کرتے تھے جماع کے سبب سے نہ کہ احتلام سے اور پھر نہ افطار کرتے تھے اور نہ قضا کرتے تھے (یعنی روزہ کو صحیح جانتے تھے۔)
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ رَبِّهِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، وَأُمِّ سَلَمَةَ زَوْجَيِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُمَا قَالَتَا: " إِنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ جِمَاعٍ، غَيْرِ احْتِلَامٍ فِي رَمَضَانَ، ثُمَّ يَصُومُ ".
سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکو صبح ہو جاتی تھی بغیر احتلام کے رمضان میں اور پھر وہ روزہ رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ ، وَابْنُ حُجْرٍ ، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَهُوَ ابْنُ مَعْمَرِ بْنِ حَزْمٍ الْأَنْصَارِيُّ أَبُو طُوَالَةَ ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ مَوْلَى عَائِشَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَفْتِيهِ، وَهِيَ تَسْمَعُ مِنْ وَرَاءِ الْبَابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ تُدْرِكُنِي الصَّلَاةُ وَأَنَا جُنُبٌ أَفَأَصُومُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَأَنَا تُدْرِكُنِي الصَّلَاةُ وَأَنَا جُنُبٌ فَأَصُومُ، فَقَالَ: لَسْتَ مِثْلَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَقَالَ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَخْشَاكُمْ لِلَّهِ، وَأَعْلَمَكُمْ بِمَا أَتَّقِي ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دروازے کی اوٹ سے سنتی تھیں۔ غرض اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مجھے نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں کیا میں روزہ رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بھی نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، پھر میں روزہ رکھتا ہوں۔“ اس نے عرض کی کہ آپ اور ہم برابر نہیں ہیں اے اللہ کے رسول! اس لیے کہ اللہ پاک نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اللہ کی! میں امید رکھتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ ہوں جاننے والا ان چیزوں کا جن سے بچنا ضروری ہے۔“ (غرض اس سائل کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ یہ حکم مجھ کو، تم کو، سب کو برابر ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ کسی حالت میں تکلیف شرعی سے اور لوازم عبدیت سے باہر نہیں ہو سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے کہ ”میں امید رکھتا ہوں۔“ یہ کمال عبدیت ہے ورنہ واقع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ ایسا ہی ہے کہ سارے جہاں سے اعلم واتفیٰ ہیں)۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ ، أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا عَنِ الرَّجُلِ يُصْبِحُ جُنُبًا أَيَصُومُ؟، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصْبِحُ جُنُبًا، مِنْ غَيْرِ احْتِلَامٍ ثُمَّ يَصُومُ ".
سلیمان سے روایت ہے انہوں نے پوچھا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہ جو شخص صبح کرے جنابت میں وہ روزہ رکھے تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمصبح کرتے تھے جنابت میں بغیر احتلام کے اور پھر روزہ رکھتے تھے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ "، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: " هَلْ تَجِدُ مَا تُعْتِقُ رَقَبَةً؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ، " فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ "، فَقَالَ: " تَصَدَّقْ بِهَذَا "، قَالَ: أَفْقَرَ مِنَّا فَمَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، " فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ایک شخص آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا کہ میں ہلاک ہو گیا، یارسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”کس نے ہلاک کیا تجھ کو۔ اس نے عرض کی کہ میں اپنی بیوی پر جا پڑا رمضان میں (یعنی جماع کر بیٹھا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مہینے کے روزے برابر رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھلا سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں، پھر وہ بیٹھا رہا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ٹوکرا کھجور کا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جا اس کو صدقہ دے دے مسکینوں کو۔“ اس نے کہا کہ مجھ سے بڑھ کر کوئی مسکین ہے؟ مدینہ کے دونوں کنکریلی کالے پتھروں والی زمینوں کے بیچ میں کہ ان مین کوئی گھر والا مجھ سے بڑھ کر محتاج نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں کھل گئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے اس کو اور کھلا اپنے گھر والوں کو۔“
حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَ رِوَايَةِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَالَ: بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَهُوَ الزِّنْبِيلُ، وَلَمْ يَذْكُرْ: فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ.
محمد بن مسلم زہری نے اسی اسناد سے یہی حدیث روایت کی جیسے ابن عیینہ نے روایت کی اور کہا: اس میں ایک عرق (یعنی ٹوکرا) اور وہ ہی زنبیل ہے اور اس میں نبی مکرمصلی اللہ علیہ وسلم کی ہنسی کا ذکر نہیں۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَجُلًا وَقَعَ بِامْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ، فَاسْتَفْتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً؟، قَالَ: لَا، قَالَ: وَهَلْ تَسْتَطِيعُ صِيَامَ شَهْرَيْنِ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: فَأَطْعِمْ سِتِّينَ مِسْكِينًا "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص جماع کر بیٹھا رمضان میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو ایک غلام یا لونڈی آزاد کر سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ " أَنَّ رَجُلًا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَةٍ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ حَدَّثَهُ: " أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ رَجُلًا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ أَنْ يُعْتِقَ رَقَبَةً، أَوْ يَصُومَ شَهْرَيْنِ، أَوْ يُطْعِمَ سِتِّينَ مِسْكِينًا "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم کیا ایک شخص کو کہ اس نے روزہ توڑ ڈالا تھا رمضان میں کہ آزاد کرے ایک بردہ یا روزے رکھے دو ماہ یا کھلائے ساٹھ مسکینوں کو۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
زہری سے اس سند کے ساتھ ابن عیینہ کی حدیث کی طرح مروی ہے۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: احْتَرَقْتُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِمَ؟ "، قَالَ: وَطِئْتُ امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ نَهَارًا، قَالَ: " تَصَدَّقْ تَصَدَّقْ "، قَالَ مَا عِنْدِي شَيْءٌ، " فَأَمَرَهُ أَنْ يَجْلِسَ "، فَجَاءَهُ عَرَقَانِ فِيهِمَا طَعَامٌ، " فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَتَصَدَّقَ بِهِ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک شخص آیا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا کہ میں جل گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کیوں؟“ اس نے عرض کی کہ میں نے جماع کیا رمضان شریف میں اپنی عورت سے دن کو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دے، صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ میرے پاس تو کچھ موجود نہیں ہے، اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو گونیاں آئیں کھانے کو (یعنی غلہ یا کھجور کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے یہ صدقہ کر دے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْقَاسِمِ ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْر حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: " أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَلَيْسَ فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ: " تَصَدَّقْ تَصَدَّقْ "، وَلَا قَوْلُهُ: " نَهَارًا ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس حدیث کو ذکر کیا اخیر تک جیسے اوپر گزری مگر اس کے اول میں ”صدقہ دے، صدقہ دے۔“ نہیں ہے اور نہ دن کا لفظ ہے۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْتَرَقْتُ احْتَرَقْتُ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا شَأْنُهُ؟، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِي، قَالَ: تَصَدَّقْ، فَقَالَ وَاللَّهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَالِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَيْرَنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَكُلُوهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص آیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں رمضان میں اور عرض کی یا رسول اللہ! میں جل گیا، میں جل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا حال ہے اس کا۔“ اس نے عرض کی کہ میں نے اپنی بی بی سے صحبت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ قسم اللہ کی! اے نبی اللہ کے! میرے پاس کچھ نہیں ہے اور نہ میں کچھ دے سکتا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ۔“ وہ بیٹھ گیا اور وہ اسی حال میں تھا کہ ایک آدمی آیا اور ایک گدھے کو ہانکتا ہوا لایا کہ اس پر کچھ غلہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”وہ جلنے ولا کہاں ہے جو ابھی یہاں تھا؟“ اور وہ کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لے اس کو صدقہ دے۔“ اس نے عرض کی کہ کیا میرے سوا اس کا مستحق کوئی اور ہے؟ اللہ کی قسم! ہم لوگ بھوکے ہیں اور ہمارے پاس کچھ نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لو اسے کھاؤ۔“
حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ أَخْبَرَهُ: " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ الْكَدِيدَ، ثُمَّ أَفْطَرَ " ، قَالَ: وَكَانَ صَحَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَّبِعُونَ الْأَحْدَثَ فَالْأَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنکلے جس سال مکہ فتح ہوا رمضان میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا یہاں تک کہ جب کدید میں پہنچے (نام مقام کا ہے کہ وہاں ایک نہر ہے اور مدینہ سے سات منزل ہے اور وہاں سے مکہ دو منزل رہتا ہے۔ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ کدید ایک نہر ہے بیالیس میل مکہ سے) تو افطار کیا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عادت تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نئی سے نئی بات جو ہوتی اس کا اتباع کرتے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، قَالَ يَحْيَى: قَالَ سُفْيَانُ: لَا أَدْرِي مِنْ قَوْلِ مَنْ هُوَ يَعْنِي، وَكَانَ يُؤْخَذُ بِالْآخِرِ مِنْ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
زہری سے اس اسناد سے مثل اسی کے مروی یحییٰ نے کہا کہ سفیان نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ یہ قول کس کا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخر قول لیا جاتا ہے یعنی اول قول منسوخ ہوتا ہے۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ وَكَانَ الْفِطْرُ آخر الأمرين وإنما يؤخذ من أمر رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْآخِرِ فَالْآخِرِ، قَالَ الزُّهْرِيُّ: " فَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ لِثَلَاثَ عَشْرَةَ لَيْلَةً خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ "،
زہری نے اس اسناد سے کہا کہ روزہ نہ رکھنا اور افطار کرنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اخیر کی بات ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات پر ہی عمل ضروری ہے اور زہری نے کہا کہ صبح کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیرہویں رمضان کی مکہ میں۔
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانُوا يَتَّبِعُونَ الْأَحْدَثَ فَالْأَحْدَثَ مِنْ أَمْرِهِ، وَيَرَوْنَهُ النَّاسِخَ الْمُحْكَمَ.
زہری سے اس اسناد سے مروی ہے کہ انہوں نے مثل حدیث لیث کے روایت کی ہے اور ابن شہاب نے کہا کہ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نئی نئی بات اختیار کرتے تھے اور نئی بات کو ناسخ اور محکم جانتے (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا اور پھر افطار کیا اور افطار کو ناسخ جانتے ہیں اور روزہ رکھنے کو منسوخ)۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " سَافَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ عُسْفَانَ، ثُمَّ دَعَا بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ فَشَرِبَهُ نَهَارًا لِيَرَاهُ النَّاسُ، ثُمَّ أَفْطَرَ حَتَّى دَخَلَ مَكَّةَ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: فَصَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَفْطَرَ، فَمَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سفر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں اور روزہ رکھا یہاں تک کہ عسفان میں پہنچے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ایک پیالہ منگایا کہ اس میں کوئی پینے کی چیز تھی اور اس کو پیا دن کو تاکہ سب لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھیں۔ پھر افطار کرتے رہے یہاں تک کہ مکہ میں پہنچے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا سو جس کی جی چاہے روزہ رکھے جس کا جی چاہے افطار کرے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ الْكَرِيمِ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " لَا تَعِبْ عَلَى مَنْ صَامَ وَلَا عَلَى مَنْ أَفْطَرَ، قَدْ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ وَأَفْطَرَ ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم برا نہیں کہتے اس کو جو روزہ رکھے۔(یعنی سفر میں) اور نہ اس کو جو افطار کرے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر میں روزہ بھی رکھا اور افطار بھی کیا۔
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَامَ الْفَتْحِ إِلَى مَكَّةَ فِي رَمَضَانَ، فَصَامَ حَتَّى بَلَغَ كُرَاعَ الْغَمِيمِ فَصَامَ النَّاسُ، ثُمَّ دَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ فَرَفَعَهُ حَتَّى نَظَرَ النَّاسُ إِلَيْهِ، ثُمَّ شَرِبَ فَقِيلَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ: إِنَّ بَعْضَ النَّاسِ قَدْ صَامَ، فَقَالَ: " أُولَئِكَ الْعُصَاةُ أُولَئِكَ الْعُصَاةُ "،
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے جس سال مکہ فتح ہوا۔ رمضان میں مکہ کی طرف اور روزہ رکھا یہاں تک کہ جب کراع غمیم تک پہنچے (کراع غمیم مقام کا نام ہے کہ مدینہ سے سات منزل یا زیادہ ہے) اور لوگوں نے روزہ رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا ایک پیالہ منگوایا اس کو بلند کیا یہاں تک کہ لوگوں نے ان کی طرف دیکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا اور لوگوں نے اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ بعض لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی نافرمان ہیں، وہی نافرمان ہیں۔“
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ جَعْفَرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ النَّاسَ قَدْ شَقَّ عَلَيْهِمُ الصِّيَامُ وَإِنَّمَا يَنْظُرُونَ فِيمَا فَعَلْتَ، " فَدَعَا بِقَدَحٍ مِنْ مَاءٍ بَعْدَ الْعَصْرِ ".
جعفر نے اس اسناد سے یہی روایت کی اور اس میں اتنی بات زیادہ کی کہ لوگوں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی۔ لوگوں پر روزہ شاق ہے اور وہ منتظر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ پانی کا منگایا بعد عصر کے۔ آگے وہی مضمون ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ جَمِيعًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَرَأَى رَجُلًا قَدِ اجْتَمَعَ النَّاسُ عَلَيْهِ، وَقَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا لَهُ؟ "، قَالُوا: رَجُلٌ صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ مِنَ الْبِرِّ أَنْ تَصُومُوا فِي السَّفَرِ "،
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے کہ ایک شخص پر لوگوں کی بھیڑ دیکھیی اور وہ اس پر سایہ کئیے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اس کو کیا ہوا؟۔“ لوگوں نے عرض کی کہ ایک روزہ دار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا خوب نہیں۔“
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا بِمِثْلِهِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَزَادَ قَالَ شُعْبَةُ: وَكَانَ يَبْلُغُنِي عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، أَنَّهُ كَانَ يَزِيدُ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، وَفِي هَذَا الْإِسْنَادِ أَنَّهُ قَالَ: " عَلَيْكُمْ بِرُخْصَةِ اللَّهِ الَّذِي رَخَّصَ لَكُمْ "، قَالَ: فَلَمَّا سَأَلْتُهُ لَمْ يَحْفَظْهُ.
شعبہ سے اسی اسناد سے مانند اسی کے مروی ہے اور زیادہ کہا شعبہ نے کہ مجھے خبر لگی ہے یحییٰ بن ابی کثیر سے کہ وہ زیادہ کرتے تھے اس حدیث میں اور اس اسناد میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی رخصت قبول کرو جو تمہارے لیے دی ہے۔“اور کہا راوی نے پھر جب میں نے ان سے پوچھا تو انہیں یاد نہیں رہا۔
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتَّ عَشْرَةَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَمِنَّا مَنْ صَامَ، وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ، فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جہاد کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے ساتھ سولہویں رمضان کو تو ہم میں سے کوئی روزے سے تھا اور کوئی افطار کیے تھا اور روزہ دار افطار کرنے والے پر عیب نہ کرتا تھا اور نہ افطار کرنے والا روزہ دار پر۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ الْمُقَدَّمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ التَّيْمِيِّ . ح وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وَقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، وَقَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى : حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ نُوحٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ يَعْنِي ابْنَ عَامِرٍ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ قَتَادَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ هَمَّامٍ، غَيْرَ أَنَّ فِي حَدِيثِ التَّيْمِيِّ، وَعُمَرَ بْنِ عَامِرٍ، وَهِشَامٍ " لِثَمَانَ عَشْرَةَ خَلَتْ "، وَفِي حَدِيثِ سَعِيدٍ " فِي ثِنْتَيْ عَشْرَةَ "، وَشُعْبَةَ: " لِسَبْعَ عَشْرَةَ أَوْ تِسْعَ عَشْرَةَ ".
قتادہ سے اس اسناد سے مانند روایت ہمام کے مروی ہے مگر تیمی اور عمر بن عامر اور ہشام کی روایت میں اٹھارہویں تاریخ اور سعید کی روایت میں بارہویں اور شعبہ کی روایت میں سترویں یا انیسویں مذکور ہے۔
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُفَضَّلٍ عَنْ أَبِي مَسْلَمَةَ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كُنَّا نُسَافِرُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَمَا يُعَابُ عَلَى الصَّائِمِ صَوْمُهُ، وَلَا عَلَى الْمُفْطِرِ إِفْطَارُهُ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم سفر کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان المبارک میں تو نہ روزہ دار کے روزے پر کوئی عیب لگاتا نہ«مفطر» کے افطار پر۔
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، فَلَا يَجِدُ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ "، يَرَوْنَ أَنَّ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَإِنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ، وَيَرَوْنَ أَنَّ مَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ، فَإِنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم جہاد کرتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں اور کوئی ہم سے روزہ دار ہوتا اور کوئی صاحب افطار اور نہ«صائم» «مفطر» پر غصہ کرتا اور نہ «مفطر» «صائم» پر اور جانتے تھے کہ جس میں قوت ہو وہ روزہ رکھے یہ بھی خوب ہے اور جس میں ضعف ہو وہ افطار کرے یہ بھی خوب ہے۔
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، وَسَهْلُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَسُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ كُلُّهُمْ، عَنْ مَرْوَانَ ، قَالَ سَعِيدٌ: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ عَاصِمٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نَضْرَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، وَجَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رضي الله عنهم، قَالَا: " سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَصُومُ الصَّائِمُ وَيُفْطِرُ الْمُفْطِرُ، فَلَا يَعِيبُ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ ".
سیدنا ابوسعید خدری اور سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما دونوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا اور روزہ رکھنے والا روزہ رکھتا تھا اور افطار کرنے والا افطار اور کوئی کسی پر عیب نہ کرتا تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صَوْمِ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: " سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي رَمَضَانَ فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ ".
حمید نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا روزہ رمضان کا سفر میں تو کہا انہوں نے کہ سفر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں تو نہ برا کہا «صائم» نے «مفطر» کو نہ «مفطر» نے «صائم» کو۔
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ: خَرَجْتُ فَصُمْتُ، فَقَالُوا لِي: أَعِدْ، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنَّ أَنَسًا أَخْبَرَنِي: " أَنَّ أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا يُسَافِرُونَ، فَلَا يَعِيبُ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ "، فَلَقِيتُ ابْنَ أَبِي مُلَيْكَةَ فَأَخْبَرَنِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، بِمِثْلِهِ.
حمید نے کہا: نکلا میں سفر میں اور میں نے روزہ رکھا تو لوگوں نے کہا: تم دوبارہ روزہ رکھو (یعنی سفر کا روزہ صحیح نہیں ہوا) تو میں نے کہا: سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی ہے کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر کرتے تھے اور صائم مفطر پر طعنہ نہ کرتا تھا نہ مفطر صائم پر اور پھر ملا میں ابن ابی ملیکہ سے اور خبر دی مجھے انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مثل اس کی۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فِي يَوْمٍ حَارٍّ أَكْثَرُنَا ظِلًّا صَاحِبُ الْكِسَاءِ، وَمِنَّا مَنْ يَتَّقِي الشَّمْسَ بِيَدِهِ، قَالَ: فَسَقَطَ الصُّوَّامُ وَقَامَ الْمُفْطِرُونَ، فَضَرَبُوا الْأَبْنِيَةِ وَسَقَوْا الرِّكَابَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں سو کوئی ہم میں صائم تھا کوئی مفطر اور ایک منزل میں اترے گرمی کے دنوں میں اور سب سے زیادہ سائے میں وہ تھا جس کے پاس چادر تھی اور کتنے تو ایسے تھے کہ ہاتھ ہی سے دھوپ روکے ہوئے تھے اور روزہ دار جتنے تھے سب منزل پر جا کر پڑ رہے اور افطار والوں نے کھڑے ہو کر خیمے لگائے اور اونٹوں کو پانی پلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”افطار کرنے والے آج بہت سا ثواب لے گئے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَصَامَ بَعْضٌ وَأَفْطَرَ بَعْضٌ، فَتَحَزَّمَ الْمُفْطِرُونَ وَعَمِلُوا، وَضَعُفَ الصُّوَّامُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ، قَالَ: فَقَالَ فِي ذَلِكَ: " ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے بعض صحابہ صائم تھے بعض مفطر پھر کمر خدمت چست باندھی مفطروں نے اور محنت کی اور ضعیف ہو گئے صائم لوگ بعض کاموں سے اس وقت فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے کہا کہ ”آج مفطر لوگ ثواب کما لے گئے۔“
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَزَعَةُ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَكْثُورٌ عَلَيْهِ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ، قُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْأَلُكَ عَمَّا يَسْأَلُكَ هَؤُلَاءِ عَنْهُ، سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ وَنَحْنُ صِيَامٌ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ "، فَكَانَتْ رُخْصَةً فَمِنَّا مَنْ صَامَ وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ، ثُمَّ نَزَلْنَا مَنْزِلًا آخَرَ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ مُصَبِّحُو عَدُوِّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ، فَأَفْطِرُوا "، وَكَانَتْ عَزْمَةً فَأَفْطَرْنَا، ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا نَصُومُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ.
قزعہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان پر لوگوں کا ہجوم تھا پھر جب بھیڑ چھٹ گئی تو میں نے کہا: میں آپ سے وہ نہیں پوچھتا جو یہ لوگ پوچھتے تھے اور میں نے ان سے سفر میں روزے کا پوچھا انہوں نے فرمایا: سفر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کو اور ہم روزہ دار تھے پھر ایک منزل میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اب دشمن سے قریب ہو گئے اور افطار میں تمہاری قوت بہت زیادہ ہو گی۔“ پس رخصت ہوئی افطار کی۔ تب بعض ہم میں سے روزہ دار تھے اور بعض مفطر۔ پھر ہم آگے کی منزل میں اترے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم صبح کو اپنے غنیم سے ملنے والے ہو تو افطار تمہاری قوت بڑھا دے گا سو تم سب افطار کرو۔“ اور یہ فرمانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم قطعی تھا پھر ہم سب لوگوں نے افطار کیا پھر اس کے (یعنی بعد فراغ مقابلہ غنیم) ہم نے اپنے لشکر کو دیکھا کہ ہم روزہ رکھتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَ حَمْزَةُ بْنُ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ؟، فَقَالَ: " إِنْ شِئْتَ فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ فَأَفْطِرْ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ حمزہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا روزے کو سفر میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہے روزہ رکھ چاہے افطار کر۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ، أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟، قَالَ: " صُمْ إِنْ شِئْتَ، وَأَفْطِرْ إِنْ شِئْتَ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے پوچھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ میں بہت درپے روزہ رکھتا ہوں تو کیا سفر میں بھی روزے رکھا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چاہو رکھو چاہے نہ رکھو۔“
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، مِثْلَ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ: إِنِّي رَجُلٌ أَسْرُدُ الصَّوْمَ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ بْنُ سُلَيْمَانَ كِلَاهُمَا، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَنَّ حَمْزَةَ، قَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أَصُومُ أَفَأَصُومُ فِي السَّفَرِ؟.
ہشام سے اس سند کے ساتھ روایت ہے کہ کہا سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں ایک روزے دار آدمی ہوں تو کیا میں سفر میں بھی روزہ رکھوں؟
وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَهَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، قَالَ هَارُونُ حَدَّثَنَا، قَالَ أَبُو الطَّاهِرِ: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِي مُرَاوِحٍ ، عَنْ حَمْزَةَ بْنِ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَجِدُ بِي قُوَّةً عَلَى الصِّيَامِ فِي السَّفَرِ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هِيَ رُخْصَةٌ مِنَ اللَّهِ، فَمَنْ أَخَذَ بِهَا فَحَسَنٌ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَصُومَ، فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ "، قَالَ هَارُونُ فِي حَدِيثِهِ: " هِيَ رُخْصَةٌ "، وَلَمْ يَذْكُرْ مِنَ اللَّهِ.
سیدنا حمزہ اسلمی رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میں اپنے میں قوت پاتا ہوں روزہ کی سفر میں، تو میں اگر روزہ رکھوں تو کیا کچھ گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رخصت ہے اللہ کی طرف سے سو جس نے اس کو لیا خوب کیا اور جس نے چاہا روزہ رکھنا تو اس پر گناہ نہیں۔“ اور ہارون نے اپنی روایت میں اللہ کی طرف سے ذکر نہیں کیا۔
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، حَتَّى إِنْ كَانَ أَحَدُنَا لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ، وَمَا فِينَا صَائِمٌ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ ".
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے کہا: نکلے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں سخت گرمی میں یہاں تک کہ کوئی ہم میں سے اپنا ہاتھ سر پر رکھے ہوئے تھا گرمی کی سختی سے اور کوئی ہم میں سے روزہ دار نہ تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے۔
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ الْقَعْنَبِيُّ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَيَّانَ الدِّمَشْقِيِّ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، قَالَتْ: قَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ : " لَقَدْ رَأَيْتُنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ، حَتَّى إِنَّ الرَّجُلَ لَيَضَعُ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ مِنْ شِدَّةِ الْحَرِّ، وَمَا مِنَّا أَحَدٌ صَائِمٌ إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ رَوَاحَةَ " .
سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سخت گرمیوں کے دنوں میں دیکھا بعض سفروں میں کہ لوگ سخت گرمی کی وجہ سے اپنے ہاتھوں کو اپنے سروں پر رکھ لیتے ہیں اور ہم میں سے سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے کوئی بھی روزہ دار نہیں تھا۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ ، عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ : " أَنَّ نَاسًا تَمَارَوْا عِنْدَهَا يَوْمَ عَرَفَةَ فِي صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: هُوَ صَائِمٌ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَيْسَ بِصَائِمٍ، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ بِقَدَحِ لَبَنٍ وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ بِعَرَفَةَ، فَشَرِبَهُ "،
سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا حارث کی بیٹی کہتی ہیں کہ ان کے پاس چند لوگوں نے تکرار کی عرفہ کے دن (عرفات میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے میں کسی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہیں۔ کسی نے کہا: نہیں تب انہوں نے ایک دودھ کا پیالہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں اپنے اونٹ پر وقوف کیے ہوئے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ " وَهُوَ وَاقِفٌ عَلَى بَعِيرِهِ "، وَقَالَ: عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى أُمِّ الْفَضْلِ،
ابوالنضر سے اس اسناد سے بھی روایت مروی ہے مگر اس میں یہ ذکر نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اونٹ پر وقوف کیے ہوئے تھے اور سند میں یہ ہے کہ روایت ہے عمیر سے جو مولیٰ ہیں سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا کے۔
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ سَالِمٍ أَبِي النَّضْرِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ، وَقَالَ: عَنْ عُمَيْرٍ مَوْلَى أُمِّ الْفَضْلِ.
سالم ابی النضر سے ان اسناد کے ساتھ ابن عیینہ کی حدیث کی مانند روایت کرتے ہیں اور کہا کہ اس عمیر سے جو ام الفضل کے مولیٰ ہیں۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عُمَيْرًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ الْفَضْلِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: " شَكَّ نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صِيَامِ يَوْمِ عَرَفَةَ، وَنَحْنُ بِهَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلْتُ إِلَيْهِ بِقَعْبٍ فِيهِ لَبَنٌ وَهُوَ بِعَرَفَةَ، فَشَرِبَهُ ".
عمیر، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مولیٰ سے روایت ہے انہوں نے سیدہ ام الفضل رضی اللہ عنہا سے سنا لوگوں نے شک کیا اصحاب رسول میں سے دن عرفہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے میں، تب انہوں نے ایک پیالہ دودھ کا بھیج دیا اور آپصلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ، عَنْ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: " إِنَّ النَّاسَ شَكُّوا فِي صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ مَيْمُونَةُ بِحِلَابِ اللَّبَنِ وَهُوَ وَاقِفٌ فِي الْمَوْقِفِ، فَشَرِبَ مِنْهُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهِ ".
ام المؤمنین سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بی بی نے فرمایا کہ لوگوں نے شک کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے میں عرفہ کے دن (میدان عرفات میں) سو بھیجا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے ایک لوٹا دودھ کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقوف کیے ہوئے تھے موقف میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا اور سب لوگ دیکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: كَانَتْ قُرَيْشٌ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، فَلَمَّا هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ صَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، فَلَمَّا فُرِضَ شَهْرُ رَمَضَانَ، قَالَ: " مَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ "،
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: قریش عاشورے کے دن روزہ رکھتے تھے ایام جاہلیت میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کو ہجرت کی روزہ رکھا اور اس دن روزے کا حکم فرمایا پھر جب رمضان فرض ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہے اب عاشورے کو روزہ رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي أَوَّلِ الْحَدِيثِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، وَقَالَ فِي آخِرِ الْحَدِيثِ: وَتَرَكَ عَاشُورَاءَ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ، وَلَمْ يَجْعَلْهُ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَرِوَايَةِ جَرِيرٍ.
ہشام نے اس اسناد سے یہی روایت کی اور اول حدیث میں یہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عاشورے کا روزہ رکھتے تھے اور آخر میں یہ کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے عاشورے کا روزہ چھوڑ دیا۔ پھر جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے اور اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول نہیں ٹھہرایا جیسے جریر کی روایت میں تھا۔
حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: " أَنَّ يَوْمَ عَاشُورَاءَ كَانَ يُصَامُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، مَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: عاشورے کا روزہ جاہلیت میں رکھا جاتا تھا پھر جب اسلام آیا تو اب چاہے کوئی رکھے چاہے چھوڑ دے۔
حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُ بِصِيَامِهِ قَبْلَ أَنْ يُفْرَضَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ، كَانَ مَنْ شَاءَ صَامَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے تھے اس کے روزے کا (یعنی عاشورے کا) جب رمضان فرض نہیں ہوا تھا پھر جب رمضان فرض ہوا تو یہ حکم ہوا کہ جس کا جی چاہے وہ عاشورے کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ جميعا، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ ابْنُ رُمْحٍ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، أَنَّ عِرَاكًا أَخْبَرَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ أَخْبَرَتْهُ: أَنَّ قُرَيْشًا كَانَتْ تَصُومُ عَاشُورَاءَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، ثُمَّ أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصِيَامِهِ، حَتَّى فُرِضَ رَمَضَانُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ شَاءَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ شَاءَ فَلْيُفْطِرْهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ قریش عاشورے کو روزہ رکھتے تھے جاہلیت میں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حکم فرمایا اس کے روزے کا یہاں تک کہ جب رمضان فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو چاہے اس میں روزہ رکھے جو چاہے افطار کرے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ نَافِعٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّ أَهْلَ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَأَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَهُ وَالْمُسْلِمُونَ قَبْلَ أَنْ يُفْتَرَضَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا افْتُرِضَ رَمَضَانُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ عَاشُورَاءَ يَوْمٌ مِنْ أَيَّامِ اللَّهِ، فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اہل جاہلیت عاشورے کو روزہ رکھتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی رکھا اور مسلمان بھی رمضان فرض ہونے سے پہلے رکھتے تھے پھر جب رمضان فرض ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”عاشورہ اللہ تعالیٰ کے دنوں میں سے ایک دن ہے جو چاہے اس میں روزہ رکھے جو چاہے چھوڑ دے۔“
وحَدَّثَنَاه مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ الْقَطَّانُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ كِلَاهُمَا، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بِمِثْلِهِ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ رُمْحٍ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَوْمًا يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ كَرِهَ فَلْيَدَعْهُ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا عاشورے کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس دن میں اہل جاہلیت روزہ رکھتے تھے سو جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی نہ چاہے وہ چھوڑ دے۔“
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنِ الْوَلِيدِ يَعْنِي ابْنَ كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ: " إِنَّ هَذَا يَوْمٌ كَانَ يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ، فَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَصُومَهُ فَلْيَصُمْهُ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يَتْرُكَهُ فَلْيَتْرُكْهُ "، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لَا يَصُومُهُ إِلَّا أَنْ يُوَافِقَ صِيَامَهُ،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ سنا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”عاشورے کا دن ایسا ہے کہ اس میں اہل جاہلیت روزہ رکھتے تھے سو جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے چھوڑ دے اور عبداللہ روزہ نہیں رکھتے تھے مگر جبکہ موافق پڑ جائے ان دونوں کے جس میں ان کی عادت تھی روزہ رکھنے کی۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو مَالِكٍ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْأَخْنَسِ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَوْمُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَذَكَرَ مِثْلَ حَدِيثِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ سَوَاءً.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے وہی روایت برابر مذکور ہوئی جو اوپر آ چکی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ذکر ہوا عاشورے کا۔
وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ النَّوْفَلِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ الْعَسْقَلَانِيُّ ، حَدَّثَنَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ كَانَ يَصُومُهُ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ فَمَنْ شَاءَ صَامَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَهُ ".
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ جَمِيعًا، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: دَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ يَا أَبَا مُحَمَّدٍ ادْنُ إِلَى الْغَدَاءِ، فَقَالَ: أَوَلَيْسَ الْيَوْمُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ؟، قَالَ: وَهَلْ تَدْرِي مَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ؟، قَالَ: وَمَا هُوَ؟، قَالَ: " إِنَّمَا هُوَ يَوْمٌ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَلَمَّا نَزَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ تُرِكَ "، وقَالَ أَبُو كُرَيْبٍ: " تَرَكَهُ "،
عبدالرحمٰن بن یزید نے کہا: اشعث بن قیس، عبداللہ کے پاس آئے اور وہ ناشتہ کرتے تھے صبح کو تو کہا انہوں نے کہ اے ابومحمد! آؤ ناشتہ کرو تو انہوں نے کہا کہ آج عاشورے کا دن نہیں ہے؟ تو عبداللہ نے کہا کہ تم جانتے ہو عاشورے کا دن کیسا ہے؟ تو اشعث نے کہا: وہ کیسا دن ہے؟ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ رکھتے قبل رمضان فرض ہونے کے پھر جب رمضان کی فرضیت اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ چھوڑ دیا اور ابوکریب کی روایت میں ہے کہ اس کو چھوڑ دیا۔
وحَدَّثَنَازُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَا: " فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تَرَكَهُ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ سُفْيَانَ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنِي زُبَيْدٌ الْيَامِيُّ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَكَنٍ ، أَنَّ الْأَشْعَثَ بْنَ قَيْسٍ دَخَلَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَهُوَ يَأْكُلُ، فَقَالَ: " يَا أَبَا مُحَمَّدٍ ادْنُ فَكُلْ "، قَالَ: إِنِّي صَائِمٌ، قَالَ: " كُنَّا نَصُومُهُ ثُمَّ تُرِكَ ".
قیس نے کہا: اشعث آئے عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس اور وہ کھانا کھا رہے تھے عاشورے کے دن۔ انہوں نے کہا: اے ابو محمد! آؤ ناشتہ کرو تو انہوں نے کہا: میں روزے سے ہوں۔ انہوں نے کہا: ہم روزہ رکھتے تھے اس میں پھر چھوڑ دیا گیا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: دَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ عَلَى ابْنِ مَسْعُودٍ وَهُوَ يَأْكُلُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ إِنَّ الْيَوْمَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " قَدْ كَانَ يُصَامُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ تُرِكَ، فَإِنْ كُنْتَ مُفْطِرًا فَاطْعَمْ ".
علقمہ نے کہا کہ اشعث، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور وہ عاشوراء کے دن کھانا کھا رہے تھے تو انہوں نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمٰن! آج عاشورے کا دن ہے۔ انہوں نے کہا: اس کا روزہ رکھا جاتا تھا قبل رمضان کے، پھر جب رمضان فرض ہوا وہ چھوڑ دیا گیا تو اگر تم روزے سے نہ ہو تو کھاؤ۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي ثَوْرٍ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِصِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، وَيَحُثُّنَا عَلَيْهِ، وَيَتَعَاهَدُنَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا فُرِضَ رَمَضَانُ، لَمْ يَأْمُرْنَا، وَلَمْ يَنْهَنَا، وَلَمْ يَتَعَاهَدْنَا عِنْدَهُ ".
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حکم فرماتے تھے عاشورے کے روزے کا اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس کا خیال رکھتے تھے وہ ہمارے لیے پھر رمضان فرض ہوا، نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (عاشورے کے روزے) کا حکم فرمایا اور نہ اس سے منع کیا نہ اس کا خیال رکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے ہمارے لیے۔
حَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ خَطِيبًا بِالْمَدِينَةِ يَعْنِي فِي قَدْمَةٍ قَدِمَهَا خَطَبَهُمْ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: أَيْنَ عُلَمَاؤُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِهَذَا الْيَوْمِ: " هَذَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ، وَلَمْ يَكْتُبْ اللَّهُ عَلَيْكُمْ صِيَامَهُ، وَأَنَا صَائِمٌ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ أَحَبَّ أَنْ يُفْطِرَ فَلْيُفْطِرْ "،
حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا: سنا میں نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے کہ انہوں نے خطبہ پڑھا مدینہ میں اپنی ایک آمد میں جب مدینہ آئے تھے اور دن عاشورے کے خطبہ میں کہا کہ تمہارے علما کہاں ہیں؟ اے اہل مدینہ! میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ اس دن کو فرماتے تھے: ”یہ عاشورے کا دن ہے، اللہ نے اس کا روزہ تم پر فرض نہیں کیا اور میں روزے سے ہوں پھر جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے افطار کرے۔“
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ،
ابن شہاب سے مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مِثْلِ هَذَا الْيَوْمِ: " إِنِّي صَائِمٌ فَمَنْ شَاءَ أَنْ يَصُومَ فَلْيَصُمْ "، وَلَمْ يَذْكُرْ بَاقِي حَدِيثِ مَالِكٍ وَيُونُسَ.
زہری سے اسی اسناد سے مروی ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”آج کے دن کے لیے میں روزے سے ہوں پھر جو چاہے روزہ رکھے۔“ اور باقی حدیث مالک اور یونس کی انہوں نے بیان نہیں کی۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدَ الْيَهُودَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَسُئِلُوا عَنْ ذَلِكَ، فَقَالُوا: هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي أَظْهَرَ اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَبَنِي إِسْرَائِيلَ عَلَى فِرْعَوْنَ، فَنَحْنُ نَصُومُهُ تَعْظِيمًا لَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَحْنُ أَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَأَمَرَ بِصَوْمِهِ "،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممدینہ میں تشریف لائے تو یہود کو دیکھا کہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں اور لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیوں روزہ رکھتے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ وہ دن ہے کہ اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ دیا، اس لیے آج ہم روزہ دار ہیں اس کی تعظیم کے لیے (یعنی اللہ پاک کی) تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم تم سے زیادہ دوست ہیں اور قریب ہیں موسیٰ علیہ السلام کے۔“ پھر حکم دیا آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے روزے کا۔
وحَدَّثَنَاه ابْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ جَمِيعًا، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: فَسَأَلَهُمْ عَنْ ذَلِكَ.
ابوبشر سے اسی اسناد سے وہی روایت مروی ہے مگر اس میں یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہود سے سبب اس روزے کا۔
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَوَجَدَ الْيَهُودَ صِيَامًا يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا هَذَا الْيَوْمُ الَّذِي تَصُومُونَهُ؟ "، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، أَنْجَى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى وَقَوْمَهُ، وَغَرَّقَ فِرْعَوْنَ وَقَوْمَهُ فَصَامَهُ مُوسَى شُكْرًا، فَنَحْنُ نَصُومُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَنَحْنُ أَحَقُّ وَأَوْلَى بِمُوسَى مِنْكُمْ، فَصَامَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ "،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا، لیکن اس میں اتنا اضافہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دن فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تو موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکرانہ کا روزہ رکھا اور ہم بھی شکرانہ کا روزہ رکھتے ہیں۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَيُّوبَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ، عَنِ ابْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، لَمْ يُسَمِّهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ أَبِي عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ يَوْمًا تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ، وَتَتَّخِذُهُ عِيدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صُومُوهُ أَنْتُمْ "
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا عاشورے کے دن کی تعظیم یہود کرتے تھے اور اس کو عید ٹھراتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس دن روزہ رکھو۔“
وحَدَّثَنَاه أَحْمَدُ بْنُ الْمُنْذِرِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو الْعُمَيْسِ ، أَخْبَرَنِي قَيْسٌ ، فَذَكَرَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ. (حديث موقوف) وَزَادَ: قَالَ وَزَادَ: قَالَ أَبُو أُسَامَةَ ، فَحَدَّثَنِي صَدَقَةُ بْنُ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ أَهْلُ خَيْبَرَ يَصُومُونَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، يَتَّخِذُونَهُ عِيدًا، وَيُلْبِسُونَ نِسَاءَهُمْ فِيهِ حُلِيَّهُمْ وَشَارَتَهُمْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَصُومُوهُ أَنْتُمْ ".
قیس سے اس اسناد سے مروی ہے کہ اس میں یہ مضمون زائد ہے کہ ابواسامہ نے کہا: روایت کی مجھ سے صدقہ بن ابوعمران نے قیس بن مسلم سے، انہوں نے طارق سے، انہوں نے ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے کہا ابوموسیٰ نے خیبر کے یہود روزہ رکھتے تھے عاشورے کے دن اور اس دن عید ٹھہراتے تھے اور اپنی عورتوں کو زیور پہناتے تھے اور ان کو سنوارتے تھے اور سنگارتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”تم لوگ بھی روزہ رکھو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جَمِيعًا، عَنْ سُفْيَانَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ؟، فَقَالَ " مَا عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَامَ يَوْمًا، يَطْلُبُ فَضْلَهُ عَلَى الْأَيَّامِ إِلَّا هَذَا الْيَوْمَ، وَلَا شَهْرًا إِلَّا هَذَا الشَّهْرَ "، يَعْنِي: رَمَضَانَ،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا گیا عاشورے کا تو انہوں نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہو کسی دن کا اور دنوں میں سے اسی دن کی بزرگی ڈھونڈنے کو سوا اس دن کے اور کسی ماہ کا سوا ماہ رمضان کے (یعنی دونوں میں عاشورے اور مہینوں میں رمضان کو بزرگ جانتے ہیں)۔
وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي يَزِيدَ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ ، عَنْ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ فِي زَمْزَمَ، فَقُلْتُ لَهُ أَخْبِرْنِي عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " إِذَا رَأَيْتَ هِلَالَ الْمُحَرَّمِ فَاعْدُدْ، وَأَصْبِحْ يَوْمَ التَّاسِعِ صَائِمًا، قُلْتُ: هَكَذَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُهُ، قَالَ: نَعَمْ،
حکم بن اعرج نے کہا: میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے اپنی چادر پر زمزم کے کنارے سو میں نے کہا: خبر دیجئیے مجھ کو عاشورے کے روزے سے۔ انہوں نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو محرم کا تو تاریخیں گنتے رہو۔ پھر نویں تاریخ ہو اس دن روزہ رکھو۔ میں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَمْرٍو ، حَدَّثَنِي الْحَكَمُ بْنُ الْأَعْرَجِ ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَهُوَ مُتَوَسِّدٌ رِدَاءَهُ عِنْدَ زَمْزَمَ، عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ حَاجِبِ بْنِ عُمَرَ.
حکم بن اعرج نے کہا: پوچھا میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے زمزم کے پاس عاشورے کے روزے کو پھر بیان کی روایت مثل روایت حاجب بن عمر کی۔
وحَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل بْنُ أُمَيَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا غَطَفَانَ بْنَ طَرِيفٍ الْمُرِّيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: حِينَ صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ يَوْمٌ تُعَظِّمُهُ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا كَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ "، قَالَ: فَلَمْ يَأْتِ الْعَامُ الْمُقْبِلُ، حَتَّى تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جب روزہ رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن کا اور حکم کیا اس کے روزے کا تو لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! یہ دن تو ایسا ہے کہ اس کی تعظیم کرتے ہیں یہود و نصاریٰ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اگلا سال آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھیں گے۔“ آخر اگلا سال نہ آنے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ عَبَّاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ ، لَعَلَّهُ قَالَ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَئِنْ بَقِيتُ إِلَى قَابِلٍ، لَأَصُومَنَّ التَّاسِعَ "، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ عَاشُورَاءَ.
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے”اگر میں باقی رہا سال آئندہ تک تو روزہ رکھوں گا میں نویں تاریخ کو۔“ اور ابوبکر کی روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے کہا: مراد اس سے یومِ عاشوراء ہے۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيل ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي النَّاسِ مَنْ كَانَ لَمْ يَصُمْ فَلْيَصُمْ، وَمَنْ كَانَ أَكَلَ فَلْيُتِمَّ صِيَامَهُ إِلَى اللَّيْلِ ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلم قبیلہ سے ایک آدمی کو روانہ کیا عاشورے کے دن اور حکم کیا کہ لوگوں کو پکار دے کہ ”جس نے روزہ نہ رکھا ہو وہ رکھ لے اور جو کھا چکا ہو اور اپنا امساک پورا کرے رات تک۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ بْنِ لَاحِقٍ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ ، عَنِ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ بْنِ عَفْرَاءَ ، قَالَتْ: " أَرْسَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ، إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ الَّتِي حَوْلَ الْمَدِينَةِ، مَنْ كَانَ أَصْبَحَ صَائِمًا فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، وَمَنْ كَانَ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ، فَكُنَّا بَعْدَ ذَلِكَ نَصُومُهُ، وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا الصِّغَارَ مِنْهُمْ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، وَنَذْهَبُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَنَجْعَلُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ، أَعْطَيْنَاهَا إِيَّاهُ عِنْدَ الْإِفْطَارِ "،
سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا معوذ کی بیٹی سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کی صبح کو حکم بھیجا انصار کے گاؤں میں مدینہ کے گرد کہ جس نے روزہ رکھا وہ اپنا روزہ پورا کرے اور جس نے صبح سے افطار کیا ہو وہ باقی دن پورا کرے (یعنی اب کچھ نہ کھائے) پھر اس کے بعد ہم روزہ رکھا کرتے تھے اور اپنے چھوٹے لڑکوں کو بھی روزہ رکھواتے تھے، اگر اللہ چاہتا تھا اور مسجد کو جاتے تھے اور لڑکوں کے لیے گڑیاں بناتے تھے اُون کی پھر جب کوئی رونے لگتا تھا تو اس کو وہی کھیلنے کو دے دیتے تھے یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا تھا۔
وحَدَّثَنَاه يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مَعْشَرٍ الْعَطَّارُ ، عَنْ خَالِدِ بْنِ ذَكْوَانَ ، قَالَ: سَأَلْتُ الرُّبَيِّعَ بِنْتَ مُعَوِّذٍ عَنْ صَوْمِ عَاشُورَاءَ، قَالَتْ: " بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُسُلَهُ فِي قُرَى الْأَنْصَارِ "، فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ بِشْرٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " وَنَصْنَعُ لَهُمُ اللُّعْبَةَ مِنَ الْعِهْنِ، فَنَذْهَبُ بِهِ مَعَنَا، فَإِذَا سَأَلُونَا الطَّعَامَ، أَعْطَيْنَاهُمُ اللُّعْبَةَ تُلْهِيهِمْ، حَتَّى يُتِمُّوا صَوْمَهُمْ ".
خالد بن ذکوان نے پوچھا ربیع، بنت معوذ بن عفراء سے عاشورے کے روزے کو تو انہوں نے کہا: کہلا بھیجا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے گاؤں میں اور ذکر کی حدیث مانند بشر کی مگر اس میں اتنا کہا کہ بنا دیتے تھے ہم لڑکوں کے لیے کھلونا اون سے یعنی پشم سے اور ان کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے پھر جب وہ کھانا مانگتے تو ہم وہی کھانا ان کو دے دیتے تھے اور وہ ان کو غافل کر دیتا تھا یہاں تک کہ وہ اپنا روزہ پورا کر لیتے تھے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدٍ مَوْلَى ابْنِ أَزْهَرَ، أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ الْعِيدَ مَعَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَجَاءَ فَصَلَّى، ثُمَّ انْصَرَفَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " إِنَّ هَذَيْنِ يَوْمَانِ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِهِمَا: يَوْمُ فِطْرِكُمْ مِنْ صِيَامِكُمْ، وَالْآخَرُ يَوْمٌ تَأْكُلُونَ فِيهِ مِنْ نُسُكِكُمْ ".
ابوعبیدہ مولیٰ ابن ازہر نے کہا کہ حاضر ہوا میں عید میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور نماز پڑھی پھر فارغ ہوئے اور خطبہ پڑھا لوگوں پر اور فرمایا: یہ دونوں دن ایسے ہیں کہ منع کیا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں روزہ رکھنے سے اور یہ دن آج کا تمہارے افطار کا ہے بعد رمضان کے اور دوسرا دن ایسا ہے کہ تم اس میں اپنی قربانیوں کا گوشت کھاتے ہو۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ: يَوْمِ الْأَضْحَى، وَيَوْمِ الْفِطْرِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا دو دن کے روزوں سے ایک عیدالبقر اور دوسری عیدالفطر میں۔
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ وَهُوَ ابْنُ عُمَيْرٍ ، عَنْ قَزَعَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ مِنْهُ حَدِيثًا فَأَعْجَبَنِي، فَقُلْتُ لَهُ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَقُولُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَمْ أَسْمَعْ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: " لَا يَصْلُحُ الصِّيَامُ فِي يَوْمَيْنِ: يَوْمِ الْأَضْحَى، وَيَوْمِ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ ".
قزعہ نے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے ان سے ایک حدیث کو کہ مجھے بہت پسند آئی اور میں نے کہا ان سے کہ کیا تم نے سنا ہے اس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے؟ تو انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر ایسی بات کہوں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی اور جو میں نے نہیں سنی،کہا انہوں نے کہ سنا میں نے ان کو کہ فرماتے تھے: ”روزہ درست نہیں، ان دو دن میں ایک عیدالضحیٰ میں اور دوسرے عیدالفطر میں رمضان کی۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ الْمُخْتَارِ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ صِيَامِ يَوْمَيْنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ النَّحْرِ ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا دو دن کے روزوں سے عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ ابْنِ عَوْنٍ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، فَقَالَ: إِنِّي نَذَرْتُ أَنْ أَصُومَ يَوْمًا، فَوَافَقَ يَوْمَ أَضْحَى أَوْ فِطْرٍ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: " أَمَرَ اللَّهُ تَعَالَى بِوَفَاءِ النَّذْرِ، وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ "..
زیاد بن جبیر نے کہا: ایک شخص آیا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس اور کہا: میں نے نذر کی ہے کہ ایک دن روزہ رکھوں اور وہ دن موافق ہوا عیدالضحیٰ یا عیدالفطر کے تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ پاک نذر پورا کرنے کا حکم فرماتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کے روزہ رکھنے سے منع فرماتے ہیں۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمَيْنِ: يَوْمِ الْفِطْرِ، وَيَوْمِ الْأَضْحَى ".
سیده عائشہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ منع فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدالفطر اور عیدالضحیٰ کے روزے سے۔
وحَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ نُبَيْشَةَ الْهُذَلِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيَّامُ التَّشْرِيقِ أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ "،
سیدنا نبیشہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایام تشریق کھانے پینے کے دن ہیں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ خَالِدٍ الْحَذَّاءِ ، حَدَّثَنِي أَبُو قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ ، عَنْ نُبَيْشَةَ ، قَالَ خَالِدٌ: فَلَقِيتُ أَبَا الْمَلِيحِ فَسَأَلْتُهُ فَحَدَّثَنِي بِهِ فَذَكَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ حَدِيثِ هُشَيْمٍ، وَزَادَ فِيهِ: " وَذِكْرٍ لِلَّهِ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ”اللہ تعالیٰ کے ذکر کے دن ہیں۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنِ ابْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " بَعَثَهُ وَأَوْسَ بْنَ الْحَدَثَانِ أَيَّامَ التَّشْرِيقِ، فَنَادَى أَنَّهُ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَأَيَّامُ مِنًى أَيَّامُ أَكْلٍ وَشُرْبٍ "،
سیدنا مالک رضی اللہ عنہ کو اور اوس رضی اللہ عنہ بن حدثان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں بھیجا کہ پکار دیں۔ ”جنت میں کوئی نہ جائے گا سوائے مؤمن کے اور منیٰ کے دن کھانے پینے کے ہیں۔“
وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَنَادَيَا ".
ابراہیم سے یہی مضمون مروی ہوا مگر اس میں یہ ہے کہ ان دونوں نے پکارا۔
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ ، سَأَلْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، وَهُوَ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ أَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صِيَامِ يَوْمِ الْجُمُعَةِ؟، فَقَالَ: " نَعَمْ وَرَبِّ هَذَا الْبَيْتِ "،
محمد بن عباد بن جعفر نے کہا: پوچھا میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے اور وہ طواف کرتے تھے بیت اللہ کا کہ منع فرمایا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمعہ کے روزے سے؟ انہوں نے کہا: ہاں قسم ہے اس گھر کے رب کی۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جُبَيْرِ بْنِ شَيْبَةَ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادِ بْنِ جَعْفَرٍ ، أَنَّهُ سَأَلَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، بِمِثْلِهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَصُمْ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، إِلَّا أَنْ يَصُومَ قَبْلَهُ، أَوْ يَصُومَ بَعْدَهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا، فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”کوئی روزہ نہ رکھے اکیلے جمعہ کا۔ مگر آگے اس کے بھی رکھے یا اس کے پیچھے بھی۔“
وحَدَّثَنِي أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ يَعْنِي الْجُعْفِيَّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی خاص نہ کرے جمعہ کی رات کو سب راتوں میں جاگنے اور نماز کے ساتھ اور نہ خاص کرے اس کے دن کو سب دنوں میں روزے کے ساتھ مگر یہ کہ روزہ رکھتا ہو وہ ہمیشہ اور اس میں جمعہ آ جائے۔“
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ يَعْنِي ابْنَ مُضَرَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ سورة البقرة آية 184 كَانَ مَنْ أَرَادَ أَنْ يُفْطِرَ وَيَفْتَدِيَ، حَتَّى نَزَلَتِ الْآيَةُ الَّتِي بَعْدَهَا فَنَسَخَتْهَا ".
سیدنا سلمہ بن الاکوع رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت اتری «وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ» (۲:البقرة:۱۸۴) یعنی ”جن لوگوں کو طاقت ہے روزے کی۔ وہ فدیہ دیں ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا۔“ تو جو چاہتا تھا افطار کرتا تھا رمضان میں اور فدیہ دے دیتا تھا اور یہی حکم رہا یہاں تک کہ اس کے بعد والی آیت اتری اور اس نے آیت کو منسوخ کر دیا یعنی اب روزہ ضروری رکھنا ہوا طاقت والے کو اور فدیہ دینا درست نہیں۔
حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ قَالَ: " كُنَّا فِي رَمَضَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ شَاءَ صَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَفْطَرَ فَافْتَدَى بِطَعَامِ مِسْكِينٍ، حَتَّى أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ سورة البقرة آية 185 ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمکے زمانہ مبارک میں یہ عادت رکھتے تھے کہ جس نے چاہا روزہ رکھا اور جس نے چاہا افطار کیا اور فدیہ دیا ایک مسکین کو کھانا کھلایا۔ یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری «فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ» (۲-البقرة:۱۸۵)۔
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، تَقُولُ: " كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ، فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَهُ إِلَّا فِي شَعْبَانَ الشُّغْلُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
ابوسلمہ نے کہا: سنا میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرماتی تھیں کہ مجھ پر جو رمضان کے روزے قضا ہوتے تھے تو میں ان کو قضا نہ کر سکتی تھی مگر شعبان میں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ میں مشغول ہوتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (اور فرصت نہ پاتی تھی)۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " وَذَلِكَ لِمَكَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "،
یحییٰ سے بھی یہی روایت مذکور ہوئی اس سند سے مگر اس میں یہ ہے کہ یہ تاخیر قضائے رمضان کی شعبان تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے سبب سے ہے۔
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: فَظَنَنْتُ أَنَّ ذَلِكَ لِمَكَانِهَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَحْيَى يَقُولُهُ،
یحییٰ سے اس اسناد سے یہی مروی ہو اور اس میں یحییٰ نے کہا کہ میں گمان کرتا ہوں کہ یہ تاخیر ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کے سبب سے ہوتی ہو گی۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ كِلَاهُمَا، عَنْ يَحْيَى : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَلَمْ يَذْكُرَا فِي الْحَدِيثِ " الشُّغْلُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
یحییٰ سے بھی یہی روایت مروی ہوئی مگر اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور مشغولیت کا ذکر نہیں۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عُمَرَ الْمَكِّيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ الدَّرَاوَرْدِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنْ كَانَتْ إِحْدَانَا لَتُفْطِرُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَا تَقْدِرُ عَلَى أَنْ تَقْضِيَهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَأْتِيَ شَعْبَانُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ہم سے ایک ایسی تھی کہ افطار کرتی تھی رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں اور قضا نہ کر سکتی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہاں تک کہ شعبان آ جاتا تھا۔
وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، وَأَحْمَدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ، صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جو مر جائے اور اس پر روزے ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے۔“
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَقَالَ: " أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَيْهَا دَيْنٌ أَكُنْتِ تَقْضِينَهُ؟ "، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: " فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ بِالْقَضَاءِ ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور اس نے عرض کی: میری ماں مر گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ بھلا دیکھ تو اگر اس کا کچھ قرض ہوتا تو تو ادا کرتی؟۔“ اس نے عرض کی کہ ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ تعالیٰ کا قرض سب سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے۔“
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ عُمَرَ الْوَكِيعِيُّ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ مُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ أَفَأَقْضِيهِ عَنْهَا؟، فَقَالَ: " لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكَ دَيْنٌ أَكُنْتَ قَاضِيَهُ عَنْهَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَدَيْنُ اللَّهِ أَحَقُّ أَنْ يُقْضَى "، قَالَ سُلَيْمَانُ : فَقَالَ الْحَكَمُ ، وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ جَمِيعًا: وَنَحْنُ جُلُوسٌ حِينَ حَدَّثَ مُسْلِمٌ بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَا: سَمِعْنَا مُجَاهِدًا يَذْكُرُ هَذَا، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ .
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میری ماں مر گئی ہے اور اس پر ایک ماہ کے روزے ہیں۔ کیا میں اس کی قضا رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تمہاری ماں پر قرض ہوتا تو تم ادا کرتے یا نہیں؟ -“ اس نے کہا: ہاں ادا کرتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اللہ کا قرض تو ضرور ادا کرنا چاہیے۔“ اور سلیمان نے کہا کہ حکم اور سلمہ بن کہیل دونوں نے کہا کہ ہم بیٹھے ہوئۓ تھے جب یہ حدیث بیان کی مسلم نے تو ان دونوں نے کہا: سنا ہم نے مجاہد سے کہ بیان کرتے تھے یہی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ ، وَالْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ ، وَمُسْلِمٍ الْبَطِينِ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، وَمُجَاهِدٍ ، وَعَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِهَذَا الْحَدِيثِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، وعبد بن حميد جميعا، عَنْ زَكَرِيَّاءَ بْنِ عَدِيٍّ، قَالَ عَبد: حَدَّثَنِي زَكَرِيَّاءُ بْنُ عَدِيٍّ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ ، حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ عُتَيْبَةَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَعَلَيْهَا صَوْمُ نَذْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، قَالَ: " أَرَأَيْتِ لَوْ كَانَ عَلَى أُمِّكِ دَيْنٌ فَقَضَيْتِيهِ، أَكَانَ يُؤَدِّي ذَلِكِ عَنْهَا؟ "، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: " فَصُومِي عَنْ أُمِّكِ ".
سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اور عرض کی: یارسول اللہ! میری ماں مر گئی اور اس پر نذر کا روزہ تھا کیا میں اس کی طرف سے روزہ رکھوں؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی قرض والی بات بیان فرمائی جو اوپر گزری۔
وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ السَّعْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ أَبُو الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا جَالِسٌ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ أَتَتْهُ امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بِجَارِيَةٍ، وَإِنَّهَا مَاتَتْ، قَالَ: فَقَالَ: " وَجَبَ أَجْرُكِ وَرَدَّهَا عَلَيْكِ الْمِيرَاثُ "، قَالَتْ " يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟، قَالَ: " صُومِي عَنْهَا "، قَالَتْ: إِنَّهَا لَمْ تَحُجَّ قَطُّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟، قَالَ: " حُجِّي عَنْهَا "،
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ، اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: ہم بیٹھے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہ ایک عورت آئی اور اس نے عرض کی کہ میں نے ایک لونڈی خیرات میں دی تھی اپنی ماں کو اور میری ماں مر گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا ثواب ہو گیا اور پھر وہ لونڈی تیرے پاس آ گئی بسبب میراث کے“۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! میری ماں پر ایک ماہ کے روزے تھے کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں روزے رکھو اس کی طرف سے“۔ اس نے عرض کی کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی طرف سے حج بھی کرو۔“
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ مُسْهِرٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: صَوْمُ شَهْرَيْنِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں دو ماہ کے روزوں کا ذکر ہے۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنِ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَذَكَرَ بِمِثْلِهِ، وَقَالَ: صَوْمُ شَهْرٍ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں ایک ماہ کے روزوں کا ذکر ہے۔
وحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ سُفْيَانَ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: صَوْمُ شَهْرَيْنِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں بھی دو ماہ کے روزوں کا ذکر ہے
وحَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَطَاءٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَتَتِ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمِثْلِ حَدِيثِهِمْ، وَقَالَ: صَوْمُ شَهْرٍ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے اور اس میں ایک ماہ کے روزوں کا ذکر ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وقَالَ زُهَيْرٌ: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِذَا دُعِيَ أَحَدُكُمْ إِلَى طَعَامٍ وَهُوَ صَائِمٌ، فَلْيَقُلْ إِنِّي صَائِمٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب کسی کو بلائیں کھانے کو اور وہ روزے سے ہو تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔“
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ رِوَايَةً، قَالَ: " إِذَا أَصْبَحَ أَحَدُكُمْ يَوْمًا صَائِمًا، فَلَا يَرْفُثْ وَلَا يَجْهَلْ، فَإِنِ امْرُؤٌ شَاتَمَهُ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي صَائِمٌ إِنِّي صَائِمٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ”جو شخص روزے سے ہو وہ فحش نہ بکے اور جہالت نہ کرے اور اگر کوئی اس کو برا کہے یا لڑے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔“
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى التُّجِيبِيُّ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ، إِلَّا الصِّيَامَ هُوَ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلْفَةُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: کہ ہر عمل آدمی کا اس کے لیے ہے۔ مگر روزہ کہ وہ خاص میرے واسطے ہے اور میں اس کا بدلہ دیتا ہوں اور قسم ہے اس اللہ کی کہ جان محمد کی اس ہاتھ میں ہے کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ اچھی ہے۔“
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ وَهُوَ الْحِزَامِيُّ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الصِّيَامُ جُنَّةٌ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ سپر ہے۔“
وحَدَّثَنِي وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَطَاءٌ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ الزَّيَّاتِ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ صَوْمِ أَحَدِكُمْ، فَلَا يَرْفُثْ يَوْمَئِذٍ وَلَا يَسْخَبْ، فَإِنْ سَابَّهُ أَحَدٌ أَوْ قَاتَلَهُ، فَلْيَقُلْ: إِنِّي امْرُؤٌ صَائِمٌ "، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ، أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ، وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ بِفِطْرِهِ، وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ.
ابوصالح زیات سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ”فرماتا ہے اللہ تعالیٰ یوں تو ہر عمل بنی آدم کا اس کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ سپر ہے پھر جب کسی کو روزہ ہو تو اس دن گالیاں نہ بکے اور آواز بلند نہ کرے پھر اگر کوئی اسے گالی دے یا لڑنے کو آۓ تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ محمد کی جان اس کے ہاتھ میں ہے، بے شک بو صائم کے منہ کی اللہ تعالیٰ کے آگے زیادہ پسندیدہ ہے قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے اور صائم کو دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک تو خوش ہوتا ہے وہ اپنے افطار سے، دوسرے خوش ہو گا وہ جب ملے گا اپنے پروردگار سے، اپنے روزے کے سبب سے۔“
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي، لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ: فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ، وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ، وَلَخُلُوفُ فِيهِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ”ہر عمل آدمی کا دونا ہوتا ہے۔ اس طرح کہ ایک نیکی دس تک ہو جاتی ہے یہاں تک کہ سات سو تک بڑھتی ہے اور اللہ عزوجل نے فرمایا ہے کہ مگر روزہ سو وہ خاص میرے لیے ہے اور میں خود اس کا بدلہ دیتا ہوں اس لیے کہ بندہ میرا اپنی خواہشیں اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں ایک خوشی اس کے افطار کے وقت، دوسری خوشی ملاقات پروردگار کے وقت اور البتہ بو روزہ دار کے منہ کی اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے بوئے مشک سے۔“
وحَدَّثَنَا وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِي سِنَانٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، وَأَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقُولُ: " إِنَّ الصَّوْمَ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ، إِنَّ لِلصَّائِمِ فَرْحَتَيْنِ: إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ، وَإِذَا لَقِيَ اللَّهَ فَرِحَ "، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللَّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ،
سیدنا ابوہریرہ اور سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کا بدلہ دوں گا اور روزہ دار کو دو خوشیاں ہیں اول جب افطار کرتا ہے خوش ہوتا ہے، دوسرے جب ملاقات کرتا ہے اللہ عزوجل سے جب خوش ہوتا ہے اور قسم ہے اس پروردگار کی کہ جان محمد کی اس کے ہاتھ میں ہے کہ بو روزہ دار کے منہ کی االلہ تعالٰی کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ ہے۔“
وَحَدَّثَنِيهِ إِسْحَاق بْنُ عُمَرَ بْنِ سَلِيطٍ الْهُذَلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا ضِرَارُ بْنُ مُرَّةَ وَهُوَ أَبُو سِنَانٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، قَالَ: وَقَالَ: " إِذَا لَقِيَ اللَّهَ فَجَزَاهُ فَرِحَ ".
ضرار سے یہی روایت مروی ہوئی اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب ملاقات کرے گا اللہ پاک سے اور اللہ تعالیٰ اس کو بدلہ دے گا تو وہ خوش ہو گا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ وَهُوَ الْقَطَوَانِيُّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ ، حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا، يُقَالُ لَهُ: الرَّيَّانُ، يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، لَا يَدْخُلُ مَعَهُمْ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، يُقَالُ: أَيْنَ الصَّائِمُونَ؟ فَيَدْخُلُونَ مِنْهُ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ أُغْلِقَ، فَلَمْ يَدْخُلْ مِنْهُ أَحَدٌ ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے اسے ریان کہتے ہیں (یعنی سیراب کرنے والا) اس میں سے جائیں گے روزہ دار قیامت کے دن اور کوئی ان کے سوا اس میں سے نہ جانے پائے گا اور پکارا جائے گا کہ روزے دار کہاں ہیں؟ پھر وہ سب اس میں داخل ہو جائیں گے پھر جب ان میں کا اخیر آدمی بھی داخل ہو جائے گا وہ بند ہو جائے گا پھر کوئی اس میں نہ جائے گا۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ أَبِي عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ عَبْدٍ يَصُومُ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، إِلَّا بَاعَدَ اللَّهُ بِذَلِكَ الْيَوْمِ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا "،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کوئی شخص ایسا نہیں جو ایک دن روزہ رکھے اللہ کی راہ میں (یعنی جہاد میں) مگر دور کر دیتا ہے اللہ پاک اس دن کی برکت سے اس کے منہ کو ستر برس کی راہ دوزخ سے۔“
وحَدَّثَنَاه قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ الْعَبْدِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، وَسُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، أَنَّهُمَا سَمِعَا النُّعْمَانَ بْنَ أَبِي عَيَّاشٍ الزُّرَقِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ بَاعَدَ اللَّهُ وَجْهَهُ عَنِ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے: ”جو روزہ رکھے ایک دن اللہ کی راہ میں، دور کرتا ہے اللہ اس کے منہ کو ستر برس کی راہ تک دوزخ سے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، حَدَّثَنَا طَلْحَةُ بْنُ يَحْيَى بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ: " يَا عَائِشَةُ، هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ؟ "، قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا عِنْدَنَا شَيْءٌ، قَالَ: " فَإِنِّي صَائِمٌ "، قَالَتْ: فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ، أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، قَالَتْ: فَلَمَّا رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُهْدِيَتْ لَنَا هَدِيَّةٌ أَوْ جَاءَنَا زَوْرٌ، وَقَدْ خَبَأْتُ لَكَ شَيْئًا، قَالَ: " مَا هُوَ؟ "، قُلْتُ: حَيْسٌ، قَالَ: " هَاتِيهِ "، فَجِئْتُ بِهِ، " فَأَكَلَ "، ثُمَّ قَالَ: " قَدْ كُنْتُ أَصْبَحْتُ صَائِمًا "، قَالَ طَلْحَةُ فَحَدَّثْتُ مُجَاهِدًا بِهَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: ذَاكَ بِمَنْزِلَةِ الرَّجُلِ يُخْرِجُ الصَّدَقَةَ مِنْ مَالِهِ فَإِنْ شَاءَ أَمْضَاهَا، وَإِنْ شَاءَ أَمْسَكَهَا.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، مجھ سے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عائشہ! تمہارے پاس کچھ کھانا ہے؟“ تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کچھ نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں روزے سے ہوں۔“ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے گئے اور ہمارے پاس کچھ حصہ آیا ہدیہ کے طور یا آگئے ہمارے پاس کچھ مہمان (کہ ان میں بڑا حصہ اس ہدیہ کا خرچ ہو گیا اور کچھ تھوڑا سا میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے چھپا رکھا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا ہے؟“ میں نے کہا: حیس ہے(حیس وہ کھانا ہے کہ کھجور اور گھی اور اقط یعنی سوکھا دہی ملا کر بناتے ہیں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”لاؤ۔“ پھر میں لائی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھایا پھر فرمایا: ”میں روزے سے تھا صبح کو۔“ کہا طلحہ نے میں نے یہ حدیث مجاہد سے بیان کی تو انہوں نے کہا: یہ ایسی بات ہے (یعنی نفل روزہ کھول ڈالنا) جیسے کوئی صدقہ نکالے اپنے مال سے تو اس کو اختیار ہے چاہے دے دے چاہے پھر رکھ لے۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عَمَّتِهِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَقَالَ: " هَلْ عِنْدَكُمْ شَيْءٌ "، فَقُلْنَا: لَا، قَالَ: " فَإِنِّي إِذَنْ صَائِمٌ "، ثُمَّ أَتَانَا يَوْمًا آخَرَ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُهْدِيَ لَنَا حَيْسٌ، فَقَالَ: " أَرِينِيهِ فَلَقَدْ أَصْبَحْتُ صَائِمًا، فَأَكَلَ ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور فرمایا: ”تمہارے پاس کچھ ہے؟“ ہم نے کہا: کچھ نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا ”میں تو روزے سے ہوں۔“پھر آئے ہمارے پاس دوسرے دن پھر میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! حیس ہمارے پاس آیا ہے ہدیہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”مجھے دکھاؤ اور میں صبح سے روزے سے تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھایا۔
وحَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هِشَامٍ الْقُرْدُوسِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَسِيَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بھول کر کھا لے یا پی لے اور وہ روزہ دار ہو تو اپنا روزہ پورا کر لے اس لئے کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے کھلا پلا دیا۔“
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا مَعْلُومًا سِوَى رَمَضَانَ؟ قَالَتْ: " وَاللَّهِ إِنْ صَامَ شَهْرًا مَعْلُومًا سِوَى رَمَضَانَ، حَتَّى مَضَى لِوَجْهِهِ، وَلَا أَفْطَرَهُ حَتَّى يُصِيبَ مِنْهُ ".
عبداللہ بن شقیق نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے رمضان المبارک کے سوا تو انہوں نے فرمایا: کہ اللہ کی قسم! کسی ماہ کے پورے روزے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں رکھے سوائے رمضان کے یہاں تک کہ دنیا سے تشریف لے گئے اور نہ کسی پورے مہینہ پر افطار کیا تھا یہاں تک کہ کوئی دن اس سے روزہ نہ رکھا ہو۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ شَهْرًا كُلَّهُ؟، قَالَتْ: " مَا عَلِمْتُهُ صَامَ شَهْرًا كُلَّهُ إِلَّا رَمَضَانَ، وَلَا أَفْطَرَهُ كُلَّهُ، حَتَّى يَصُومَ مِنْهُ، حَتَّى مَضَى لِسَبِيلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ".
عبداللہ بن شقیق نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے کسی ماہ کے پورے دونوں کے؟ تو انہوں نے فرمایا: میں نہیں جانتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوا رمضان کے کسی ماہ کے پورے روزے رکھے ہوں اور نہ کوئی ماہ پورا افطار کیا جب تک کہ ایک دو روزے نہ رکھے ہوں اس میں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گلزار دنیا سے تشریف لے گئے (سلام ہو اللہ تعالیٰ کا اور رحمت ان پر)۔
وحَدَّثَنِي أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ عَنْ أَيُّوبَ ، وَهِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ حَمَّادٌ: وَأَظُنُّ أَيُّوبَ قَدْ سَمِعَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صَوْمِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ قَدْ أَفْطَرَ، قَالَتْ: وَمَا رَأَيْتُهُ صَامَ شَهْرًا كَامِلًا مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ رَمَضَانَ "،
عبداللہ بن شقیق نے کہا کہ میں نے پوچھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کو، تو آپ نے فرمایا: روزہ رکھتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلمیہاں تک کہ ہم کہتے تھے آپ نے خوب روزے رکھے، خوب روزے رکھے اور افطار کرتے تھے ایسا کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت دن افطار کیا، بہت دن افطار کیا اور فرمایا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی نہیں دیکھا کہ پورے ماہ روزہ رکھا ہو کبھی جب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے مگر رمضان کا روزہ۔
وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: بِمِثْلِهِ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْإِسْنَادِ هِشَامًا، وَلَا مُحَمَّدًا.
عبداللہ بن شیقیق سے وہی مضمون مروی ہوا اور اس سند میں ہشام اور محمد کا ذکر نہیں راویوں میں سے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: لَا يَصُومُ، وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَكْمَلَ صِيَامَ شَهْرٍ قَطُّ، إِلَّا رَمَضَانَ، وَمَا رَأَيْتُهُ فِي شَهْرٍ أَكْثَرَ مِنْهُ صِيَامًا، فِي شَعْبَانَ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب افطار نہ کریں گے اور افطار یہاں تک کرتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ اب روزہ نہ رکھیں گے اور میں نے پورے مہینے روزے رکھتے ہوئے ان کو کبھی نہیں دیکھا سوائے رمضان کے اور کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ روزے رکھتے نہ دیکھا۔
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنِ ابْنِ أَبِي لَبِيدٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: " كَانَ يَصُومُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ: قَدْ أَفْطَرَ، وَلَمْ أَرَهُ صَائِمًا مِنْ شَهْرٍ قَطُّ أَكْثَرَ مِنْ صِيَامِهِ مِنْ شَعْبَانَ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ كُلَّهُ، كَانَ يَصُومُ شَعْبَانَ إِلَّا قَلِيلًا ".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے پوچھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کیونکر رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: اتنے روزے رکھتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت روزے رکھے اور اتنا افطار کرتے تھے کہ ہم کہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت افطار کیا اور میں نے ان کو جتنا شعبان میں روزے رکھتے دیکھا اتنا اور کسی ماہ میں نہیں دیکھا گویا آپصلی اللہ علیہ وسلم پورے شعبان روزے رکھتے تھے۔ پورے شعبان روزے رکھتے سوائے چند روز کے۔
حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشَّهْرِ مِنَ السَّنَةِ أَكْثَرَ صِيَامًا مِنْهُ فِي شَعْبَانَ، وَكَانَ يَقُولُ: خُذُوا مِنَ الْأَعْمَالِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَنْ يَمَلَّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَكَانَ يَقُولُ: أَحَبُّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ، مَا دَاوَمَ عَلَيْهِ صَاحِبُهُ، وَإِنْ قَلَّ ".
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ماہ میں سال بھر کے شعبان سے زیادہ روزے نہ رکھتے تھے اور فرماتے تھے: ”اتنی ہی عبادت کرو جتنی تم میں طاقت ہے کہ اللہ پاک ثواب دینے سے نہیں تھکے گا اور تم عبادت کرتے کرتے تھک جاؤ گے اور فرماتے تھے: ”سب سے زیادہ پیارا کام اللہ پاک کے نزدیک وہ کام ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچہ تھوڑا ہی ہو۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " مَا صَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهْرًا كَامِلًا قَطُّ غَيْرَ رَمَضَانَ، وَكَانَ يَصُومُ إِذَا صَامَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا وَاللَّهِ لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ إِذَا أَفْطَرَ حَتَّى يَقُولَ الْقَائِلُ: لَا وَاللَّهِ لَا يَصُومُ "،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی پورے مہینے کے روزے نہیں رکھے سوا رمضان کے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک تھی کہ روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ کہنے والا کہتا کہ اللہ کی قسم! اب افطار نہ کریں گے اور افطار کرتے کہ کہنے والا کہتا کہ اللہ کی قسم اب روزہ نہ رکھیں گے۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ ، عَنْ غُنْدَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " شَهْرًا مُتَتَابِعًا مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ ".
شعبہ نے ابوبشر سے بھی روایت کی اس اسناد سے اور اس میں یہ ہے کہ پے در پے کسی ماہ روزے نہیں رکھے جب سے مدینہ تشریف لاۓ باقی مضمون وہی ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ . ح وحَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ حَكِيمٍ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْرٍ عَنْ صَوْمِ رَجَبٍ، وَنَحْنُ يَوْمَئِذٍ فِي رَجَبٍ، فَقَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: " كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ، حَتَّى نَقُولَ لَا يُفْطِرُ، وَيُفْطِرُ حَتَّى نَقُولَ لَا يَصُومُ "،
عثمان حکیم انصاری کے بیٹے سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا رجب کے روزوں سے؟ اور یہ سوال ماہ رجب میں کیا تو سیدنا سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے: اب افطار نہ کریں گے اور افطار کرتے تھے یہاں تک کہ ہم کہتے تھے: اب روزہ نہ رکھیں گے۔
وحَدَّثَنِيهِ عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ . ح وَحَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ كِلَاهُمَا، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ ، فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِهِ.
عثمان بن حکیم سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ. ح وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كَانَ يَصُومُ حَتَّى يُقَالَ قَدْ صَامَ قَدْ صَامَ، وَيُفْطِرُ حَتَّى يُقَالَ قَدْ أَفْطَرَ قَدْ أَفْطَرَ ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہاں تک روزہ رکھتے کہ لوگ کہتے تھے: کہ خوب روزے رکھے، اور یہاں تک افطار کرتے تھے کہ لوگ کہتے تھے: خوب افطار کیا، خوب افطار کیا۔
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ يُحَدِّثُ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّعَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: أُخْبِرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ يَقُولُ: لَأَقُومَنَّ اللَّيْلَ وَلَأَصُومَنَّ النَّهَارَ مَا عِشْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " آنْتَ الَّذِي تَقُولُ ذَلِكَ؟ "، فَقُلْتُ لَهُ: قَدْ قُلْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِنَّكَ لَا تَسْتَطِيعُ ذَلِكَ فَصُمْ وَأَفْطِرْ وَنَمْ وَقُمْ وَصُمْ مِنَ الشَّهْرِ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ الْحَسَنَةَ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا وَذَلِكَ مِثْلُ صِيَامِ الدَّهْرِ "، قَالَ قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمَيْنِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " صُمْ يَوْمًا وَأَفْطِرْ يَوْمًا وَذَلِكَ صِيَامُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام وَهُوَ أَعْدَلُ الصِّيَامِ "، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍ وَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَأَنْ أَكُونَ قَبِلْتُ الثَّلَاثَةَ الْأَيَّامَ الَّتِي قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَهْلِي وَمَالِي ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ میں کہتا ہوں کہ میں ساری رات جاگا کروں گا اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھا کروں گا جب تک زندہ رہوں گا۔ (سبحان اللہ! کیا شوق تھا عبادت کا اور جوانی میں یہ شوق یہ تاثیر تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و خدمت کی) پس فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”تم نے ایسا کہا۔“ میں نے عرض کی: ہاں یا رسول اللہ! میں نے ایسا ہی کہا ہے۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اس کی طاقت نہیں رکھ سکتے اس لیے تم روزے بھی رکھو اور افطار بھی کرو اور رات کو نماز بھی پڑھو اور سوئے بھی رہو اور ہر ماہ تین روزے رکھ لیا کرو اس لیے کہ ہر نیکی دس گنا لکھی جاتی ہے تو یہ گویا ہمیشہ کے روزے ہوئے۔“ (اس لیے کہ تین دہائے تیس ہو گئے) تب میں نے عرض کی: کہ میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”اچھا ایک دن روزہ رکھو اور دو دن افطار کرو۔“ پھر میں نے عرض کی: کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں یا رسول اللہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو اور یہ روزہ ہے سیدنا داؤد علیہ السلام کا۔“(یعنی ان کی عادت یہی تھی اور یہ سب روزوں سے عمدہ ہے اور معتدل) میں نے پھر عرض کی: کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان روزوں سے افضل کوئی روزہ نہیں ہے۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: کہ اگر میں یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ تین روزے ہر ماہ میں رکھ لیا کرو قبول کر لیتا تو یہ مجھے اپنے گھر بار مال و متاع سے بھی زیادہ پیارا معلوم ہوتا (اور یہ فرمانا ان کا ایام پیری میں تھا کہ جب ضعف محسوس ہوا)۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ابْنُ الرُّومِيُّ ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ حَتَّى نَأْتِيَ أَبَا سَلَمَةَ ، فَأَرْسَلْنَا إِلَيْهِ رَسُولًا فَخَرَجَ عَلَيْنَا، وَإِذَا عِنْدَ بَابِ دَارِهِ مَسْجِدٌ، قَالَ: فَكُنَّا فِي الْمَسْجِدِ حَتَّى خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: إِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَدْخُلُوا وَإِنْ تَشَاءُوا أَنْ تَقْعُدُوا هَا هُنَا، قَالَ: فَقُلْنَا: لَا بَلْ نَقْعُدُ هَا هُنَا، فَحَدِّثْنَا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: كُنْتُ أَصُومُ الدَّهْرَ وَأَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ، قَالَ: فَإِمَّا ذُكِرْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ، فَقَالَ لِي: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ "، فَقُلْتُ: بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَلَمْ أُرِدْ بِذَلِكَ إِلَّا الْخَيْرَ، قَالَ: " فَإِنَّ بِحَسْبِكَ أَنْ تَصُومَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ "، قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ كَانَ أَعْبَدَ النَّاسِ "، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، وَمَا صَوْمُ دَاوُدَ؟، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا "، قَالَ: " وَاقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عِشْرِينَ "، قَالَ " قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ: إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَلِكَ؟، قَالَ " فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، قَالَ: فَشَدَّدْتُ فَشُدِّدَ عَلَيَّ، قَالَ: وَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكَ لَا تَدْرِي لَعَلَّكَ يَطُولُ بِكَ عُمْرٌ "، قَالَ فَصِرْتُ إِلَى الَّذِي، قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَلَمَّا كَبِرْتُ وَدِدْتُ أَنِّي كُنْتُ قَبِلْتُ رُخْصَةَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
یحییٰ سے روایت ہے کہ میں اور عبداللہ بن یزید دونوں ابوسلمہ کے پاس گئے اور ایک آدمی ان کے پاس بھیجا اور وہ گھر سے نکلے اور ان کے دروازہ پر ایک مسجد تھی کہ جب وہ نکلے تو ہم سب مسجد میں تھے اور انہوں نے کہا: چاہو گھر چلو، چاہو یہاں بیٹھو ہم نے کہا: یہیں بیٹھیں گے اور آپ ہم سے حدیثیں بیان فرمائیے انہوں نے کہا: روایت کی مجھ سے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں ہمیشہ روزے رکھتا تھا اور ہر شب قرآن پڑھتا تھا (یعنی ساری رات) اور کہا: یا تو میرا ذکر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو بلا بھیجا غرض میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم کو کیا خبر نہیں لگی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات قرآن پڑھتے ہو۔“ میں نے کہا: ہاں یا رسول اللہ! اور میں اسے بھلائی چاہتا ہوں (یعنی ریا و سمعہ مقصود نہیں) تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو اتنا کافی ہے کہ ہر ماہ میں تین دن روزے رکھ لیا کرو۔“میں نے عرض کیا اے نبی اللہ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہاری بی بی کا حق ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے جسم کا بھی حق ہے تم پر تو اس لیے تم داؤد علیہ السلام کا روزہ اختیار کرو جو نبی تھے اللہ تعالیٰ کے اور سب لوگوں سے زیادہ اللہ کی عبادت کرنے والے تھے۔“انہوں نے کہا: میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! داؤد علیہ السلام کا روزہ کیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن ہر ماہ میں ایک بار ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیس روز میں ختم کیا کرو۔“ میں نے عرض کیا کہ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”دس روز میں ختم کرو۔“ میں نے عرض کی اے نبی اللہ تعالیٰ کے! میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات روز میں ختم کیا کرو اور اس سے زیادہ نہ پڑھو (اس لیے کہ اس سے کم میں تدبر اور تفکر قرآن ممکن نہیں)اس لیے کہ تمہاری بی بی کا حق بھی ہے تم پر اور تمہارے ملاقاتیوں کا حق ہے تم پر اور تمہارے بدن کا حق ہے تم پر۔“ کہا: پس میں نے تشدد کیا سو میرے اوپر تشدد ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم نہیں جانتے شاہد تمہار ی عمر دراز ہو۔“(تو اتنا بار تم پر گراں ہو گا اور امور دین میں خلل آئے گا سبحان اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت اور انجام بینی تھی اور آخر وہی ہوا) کہا عبداللہ نے پھر میں اسی حال کو پہنچا جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سے ذکر کیا تھا اور جب میں بوڑھا ہوا تو آرزو کی میں نے کہ کاش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رخصت قبول کر لیتا۔
وَحَدَّثَنِيهِ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَزَادَ فِيهِ بَعْدَ قَوْلِهِ " مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنَّ لَكَ بِكُلِّ حَسَنَةٍ عَشْرَ أَمْثَالِهَا فَذَلِكَ الدَّهْرُ كُلُّهُ "، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ، قُلْتُ: وَمَا صَوْمُ نَبِيِّ اللَّهِ دَاوُدَ؟، قَالَ: " نِصْفُ الدَّهْرِ "، وَلَمْ يَذْكُرْ فِي الْحَدِيثِ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ شَيْئًا وَلَمْ يَقُلْ: " وَإِنَّ لِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا "، وَلَكِنْ قَالَ: " وَإِنَّ لِوَلَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا ".
یحییٰ سے اس اسناد سے بھی روایت مروی ہوئی اور اس میں تین دن کے روزوں کے بعد یہ بات زیادہ ہے کہ ”ہر نیکی دس گنا ہوتی ہے اور یہ ثواب میں ہمیشہ کا روزہ ہے۔“ اور حدیث میں یہ بھی ہے کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے عرض کی کہ داؤد علیہ السلام اللہ کے نبی کا روزہ کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب دنوں کا آدھا۔“ (یعنی وہی ایک دن روزہ ایک دن افطار) اور اس روایت میں قرأت قرآن مجید کا مطلق ذکر نہیں اور ملاقاتیوں کا حق بھی مذکور نہیں اور یہ ہے کہ ”تمہارے بچے کا تم پر حق ہے۔“
حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، عَنْ شَيْبَانَ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مَوْلَى بَنِي زُهْرَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: وَأَحْسَبُنِي قَدْ سَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَأْ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ "، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ: " فَاقْرَأْهُ فِي عِشْرِينَ لَيْلَةً "، قَالَ: قُلْتُ: إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً، قَالَ " فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعٍ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَلِكَ ".
ابوسلمہ نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قرآن ختم کرو ہر ماہ میں ایک بار۔“ میں نے کہا: مجھ میں اور قوت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ختم کرو بیس دن میں۔“ میں نے کہا اور قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ختم کرو سات دن میں اور اس سے زیادہ قرأت نہ کرو۔“
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنِ الْأَوْزَاعِيِّ قِرَاءَةً، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنِ ابْنِ الْحَكَمِ بْنِ ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ لَا تَكُنْ بِمِثْلِ فُلَانٍ كَانَ يَقُومُ اللَّيْلَ فَتَرَكَ قِيَامَ اللَّيْلِ ".
ابوسلمہ راوی ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ! ایسا نہ ہو کہ تم فلاں شخص کے مثل ہو جاؤ کہ وہ شخص رات کو اٹھا کرتا تھا پھر اس نے اٹھنا چھوڑ دیا۔“ (یعنی بہت جاگنے سے کہیں دب نہ جاؤ)۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً يَزْعُمُ، أَنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: بَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنِّي أَصُومُ أَسْرُدُ وَأُصَلِّي اللَّيْلَ فَإِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ وَإِمَّا لَقِيتُهُ، فَقَالَ: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَصُومُ وَلَا تُفْطِرُ، وَتُصَلِّي اللَّيْلَ فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنَّ لِعَيْنِكَ حَظًّا، وَلِنَفْسِكَ حَظًّا، وَلِأَهْلِكَ حَظًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ، وَصُمْ مِنْ كُلِّ عَشْرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَلَكَ أَجْرُ تِسْعَةٍ "، قَالَ: إِنِّي أَجِدُنِي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ، قَالَ: " فَصُمْ صِيَامَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَكَيْفَ كَانَ دَاوُدُ يَصُومُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟، قَالَ: " كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى "، قَالَ: مَنْ لِي بِهَذِهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟، قَالَ: " عَطَاءٌ "، فَلَا أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ صِيَامَ الْأَبَدِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ "،
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچی کہ میں برابر روزے رکھے جا رہا ہوں اور ساری رات نماز پڑھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو میرے پاس بھیجا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے خبر لگی ہے کہ تم برابر روزے رکھتے ہو اور بیچ میں افطار نہیں کرتے اور ساری رات نماز پڑھتے ہو تو ایسا مت کرو کہ اس لیے کہ تمہاری آنکھوں کا بھی کچھ حصہ ہے اور تمہاری ذات کا بھی حصہ ہے اور تمہاری بی بی کا بھی، سو تم روزہ رکھو اور افطار بھی کرو اور نماز بھی پڑھو، سوئے بھی رہو اور ہر دہے میں ایک روز روزہ رکھ لیا کرو کہ تم کو اس سے نو دن کا بھی ثواب ملے گا۔“ تو میں نے عرض کیا کہ میں اپنے میں اس سے زیادہ قوت پاتا ہوں اے بنی اللہ تعالیٰ کے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خیر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھو۔“ میں نے کہا: ان کا روزہ کیا تھا؟ اے نبی اللہ تعالیٰ کے! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے اور جب دشمن کے مقابل ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے۔“(یعنی جہاد سے) تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ دشمن سے نہ بھاگنا مجھے کہاں نصیب ہو سکتا ہے اے نبی اللہ تعالیٰ کے! (یعنی یہ بڑی قوت و شجاعت کی بات ہے) عطاء نے کہا: جو راوی حدیث ہیں کہ پھر میں نہیں جانتا کہ ہمیشہ روزوں کا ذکر کیوں آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ ”جس نے ہمیشہ روزے رکھے اس نے روزہ ہی نہیں رکھا (یعنی مطلق ثواب نہ پایا) جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے روزہ ہی نہیں رکھا۔“
وحَدَّثَنِيهِ مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: إِنَّ أَبَا الْعَبَّاسِ الشَّاعِرَ أَخْبَرَهُ، قَالَ مُسْلِم: أَبُو الْعَبَّاسِ السَّائِبُ بْنُ فَرُّوخَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ ثِقَةٌ عَدْلٌ.
مسلم رحمۃاللہ علیہ مؤلف کتاب فرماتے ہیں کہ روایت کی مجھ سے محمد بن حاتم نے، ان سے محمد بن بکر نے، ان سے ابن جریج نے اس اسناد سے اور کہا کہ ابوالعباس شاعر نے ان کو خبر دی۔ مسلم رحمۃاللہ علیہ نے فرمایا: کہ ابوالعباس سائب بن فروخ اہل مکہ سے ہیں اور ثقہ اور عادل ہیں ہیں۔ (مترجم کہتا ہے: ابوالعباس اوپر کے راوی تھے اس لیے مسلم رحمۃاللہ علیہ نے ان کی توثیق فرمائی)۔
وحَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ حَبِيبٍ ، سَمِعَ أَبَا الْعَبَّاسِ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، إِنَّكَ لَتَصُومُ الدَّهْرَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، وَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ، وَنَهَكَتْ لَا صَامَ مَنْ صَامَ الْأَبَدَ، صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ صَوْمُ الشَّهْرِ كُلِّهِ "، قُلْتُ فَإِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا، وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى "،
حبیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ابوالعباس سے اور انہوں نے سنا سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ! تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو اور ساری رات جاگتے ہو اور تم جب ایسا کرو گے تو آنکھیں بھر بھرا آئیں گی اور ضعیف ہو جائیں گی اور جس نے ہمیشہ روزہ رکھا اس نے تو روزہ ہی نہیں رکھا اور ہر ماہ تین دن روزہ رکھنا گویا پورے ماہ کا روزہ رکھنا ہے۔“ (یعنی ثواب کی راہ سے) تو میں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا صوم داؤدی رکھا کرو اور وہ یہ ہے کہ داؤد علیہ السلام ایک دن روزہ رکھتے تھے، ایک دن افطار کرتے تھے اور پھر بھی جب دشمن کے آگے ہوتے تو کبھی نہ بھاگتے۔“ (یعنی اتنی قوت پر بھی ہمیشہ روزہ نہ رکھتے تھے جیسے تم نے اختیار کیا ہے)۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ بِشْرٍ ، عَنْمِسْعَرٍ ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ : بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ: " وَنَفِهَتِ النَّفْسُ ".
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔ لیکن اس میں «وَنَھِکَتْ» کے بجائے«وَنَفِهَتِ النَّفْسُ» ہے۔ یعنی کمزور پڑ جانا۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَقُومُ اللَّيْلَ وَتَصُومُ النَّهَارَ "، قُلْتُ: إِنِّي أَفْعَلُ ذَلِكَ، قَالَ: " فَإِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ عَيْنَاكَ، وَنَفِهَتْ نَفْسُكَ، لِعَيْنِكَ حَقٌّ، وَلِنَفْسِكَ حَقٌّ، وَلِأَهْلِكَ حَقٌّ، قُمْ وَنَمْ وَصُمْ وَأَفْطِرْ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مجھے خبر نہیں لگی کہ تم رات بھر جاگتے ہو اور ہمیشہ دن کو روزہ رکھتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ ہاں میں ایسا کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ایسا کرو گے تو تمہاری آنکھیں بھر بھرا آئیں گی اور جان تھک جائے گی اور تمہاری آنکھ اور جان کا بھی آخر تم پر کچھ حق ہے اور تمہارے گھر والوں کا بھی، سو تم جاگو بھی، سوؤ بھی، روزہ بھی رکھو اور افطار بھی کرو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَوْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ أَحَبَّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، وَأَحَبَّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ، كَانَ يَنَامُ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَيَقُومُ ثُلُثَهُ، وَيَنَامُ سُدُسَهُ، وَكَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ”سب قسم کے روزوں سے زیادہ پیارا روزہ اللہ تعالیٰ کو داؤد علیہ السلام کا ہے اور سب سے پیاری نماز اللہ کو داؤد علیہ السلام کی نماز ہے (یعنی رات کی) کہ وہ سوتے تھے آدھی رات تک اور جاگتے تھے تہائی حصہ اور پھر سو جاتے تھے، یعنی تہجد پڑھ کر، چھٹے حصہ میں رات کے اور ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔“
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ أَوْسٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَحَبُّ الصِّيَامِ إِلَى اللَّهِ صِيَامُ دَاوُدَ، كَانَ يَصُومُ نِصْفَ الدَّهْرِ، وَأَحَبُّ الصَّلَاةِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ صَلَاةُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَرْقُدُ شَطْرَ اللَّيْلِ، ثُمَّ يَقُومُ ثُمَّ يَرْقُدُ آخِرَهُ، يَقُومُ ثُلُثَ اللَّيْلِ بَعْدَ شَطْرِهِ "، قَالَ: قُلْتُ لِعَمْرِو بْنِ دِينَارٍ: أَعَمْرُو بْنُ أَوْسٍ كَانَ يَقُولُ يَقُومُ ثُلُثَ اللَّيْلِ بَعْدَ شَطْرِهِ؟، قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ میں پیارا روزہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے کہ وہ آدھے زمانہ میں روزہ رکھتے تھے اور سب میں پیاری نماز ان کی نماز ہے کہ وہ آدھی رات تک پہلے سو جاتے تھے اور پھر اٹھتے تھے اور اخیر میں پھر سو جاتے تھے اور آدھی رات کے بعد جو اٹھتے تو ثلث شب تک نماز پڑھتے۔“ ابن جریج راوی نے کہا کہ میں پوچھا عمر بن دینار سے، یہ ان کے شیخ ہیں اس روایت میں کہ کیا عمرو بن اوس نے یہ کہا کہ ”پھر جاگتے تھے اور نماز پڑھتے تھے تہائی رات تک آدھی رات کے بعد؟“ تو انہوں نے کہا: کہ ہاں۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ خَالِدٍ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو الْمَلِيحِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَعَ أَبِيكَ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو فَحَدَّثَنَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذُكِرَ لَهُ صَوْمِي فَدَخَلَ عَلَيَّ، فَأَلْقَيْتُ لَهُ وِسَادَةً مِنْ أَدَمٍ حَشْوُهَا لِيفٌ، فَجَلَسَ عَلَى الْأَرْضِ وَصَارَتِ الْوِسَادَةُ بَيْنِي وَبَيْنَهُ، فَقَالَ لِي: " أَمَا يَكْفِيكَ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةُ أَيَّامٍ؟ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " خَمْسًا ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " سَبْعًا ". قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " تِسْعًا "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " أَحَدَ عَشَرَ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا صَوْمَ فَوْقَ صَوْمِ دَاوُدَ، شَطْرُ الدَّهْرِ، صِيَامُ يَوْمٍ وَإِفْطَارُ يَوْمٍ ".
ابوقلابہ نے کہا: مجھے خبر دی ابوالملیلح نے کہ میں داخل ہوا تمہارے باپ کے ساتھ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس اور انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے میرے روزون کا ذکر ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تکیہ ڈالا کہ وہ چمڑے کا تھا۔ اس میں کھجور کا کھوجرا بھرا ہوا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور وہ تکیہ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ میں ہو گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم کو تین روزے ہر ماہ میں کافی نہیں؟۔“ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ!(یعنی میں ان سے زیادہ قوی ہوں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ سہی۔ ”میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! (یعنی میں ان سے زیادہ قوی ہوں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سات۔“ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نو۔“میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گیارہ۔“ میں نے عرض کی: یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”داؤد علیہ السلام کے روزے کے برابر کوئی روزہ نہیں کہ وہ آدھے ایام روزہ رکھتے تھے اس طرح کہ ایک دن روزہ ہوتا ایک دن افطار ہوتا۔“
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ زِيَادِ بْنِ فَيَّاضٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عِيَاضٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ: " صُمْ يَوْمًا وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ يَوْمَيْنِ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ أَرْبَعَةَ أَيَّامٍ وَلَكَ أَجْرُ مَا بَقِيَ "، قَالَ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " صُمْ أَفْضَلَ الصِّيَامِ عِنْدَ اللَّهِ، صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”ایک دن روزہ رکھو اور تم کو دوسرے دنوں کا بھی ثواب ہے۔“ تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس سے زیادہ طاقتور ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”دو دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا بھی ثواب ہے۔“ انہوں نے پھر کہا: میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا ثواب ہے۔“ اور انہوں نے کہا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چار دن روزہ رکھو اور تم کو باقی دنوں کا بھی ثواب ہے۔“ انہوں نے عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”سب روزوں سے افضل روزہ رکھو اور وہ اللہ کے نزدیک صوم داؤد علیہ السلام ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ جميعا، عَنِ ابْنِ مَهْدِيٍّ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، حَدَّثَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مِينَاءَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو : قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو، بَلَغَنِي أَنَّكَ تَصُومُ النَّهَارَ، وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَلَا تَفْعَلْ فَإِنَّ لِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَلِعَيْنِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، وَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَظًّا، صُمْ وَأَفْطِرْ، صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَذَلِكَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ بِي قُوَّةً، قَالَ: " فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، صُمْ يَوْمًا، وَأَفْطِرْ يَوْمًا "، فَكَانَ يَقُولُ: يَا لَيْتَنِي أَخَذْتُ بِالرُّخْصَةِ.
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے خبر پہنچی ہے کہ تم ہمیشہ روزے رکھتے ہو دن کو اور ساری رات جاگتے ہو۔ سو ایسا نہ کرو اس لیے کہ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے اور تمہاری آنکھ کا بھی حصہ ہے اور تمہاری بیوی کا تم پر حصہ ہے تم روزہ رکھو اور افطار کرو اور روزہ رکھو تین دن ہر ماہ میں، سو یہی ہمیشہ کا روزہ ہے۔“ (یعنی ثواب کی رو سے) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے قوت اس سے زیادہ ہے تو فرمایا: ”روزہ رکھو تم داؤد علیہ السلام کا ایک دن روزہ رکھو اور ایک دن افطار کرو۔“ تو عبداللہ رضی اللہ عنہ آخر عمر میں کہتے تھے کہ کاش میں رخصت قبول کرتا تو خوب ہوتا۔
حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، عَنْ يَزِيدَ الرِّشْكِ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي مُعَاذَةُ الْعَدَوِيَّةُ ، أَنَّهَا سَأَلَتْ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصُومُ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ؟ "، قَالَتْ: " نَعَمْ "، فَقُلْتُ لَهَا: " مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ كَانَ يَصُومُ "، قَالَتْ: " لَمْ يَكُنْ يُبَالِي مِنْ أَيِّ أَيَّامِ الشَّهْرِ يَصُومُ ".
معاذہ عدویہ نے پوچھا ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ماہ میں تین روزے رکھتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہاں، پھر پوچھا کن دنوں میں؟ انہوں نے فرمایا: کچھ پرواہ نہ کرتے تھے کسی دن بھی روزہ رکھ لیتے تھے۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ وَهُوَ ابْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَهُ أَوَ قَالَ لِرَجُلٍ وَهُوَ يَسْمَعُ: " يَا فُلَانُ أَصُمْتَ مِنْ سُرَّةِ هَذَا الشَّهْرِ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اور کسی سے فرمایا اور یہ سنتے تھے غرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”اے فلاں! تم نے اس ماہ کے بیچ میں روزے رکھے؟۔“ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر جب تم افطار کرو تو دو روز اور روزہ رکھو۔“
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جَمِيعًا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ : رَجُلٌ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: كَيْفَ تَصُومُ؟، " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ غَضَبَهُ، قَالَ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا، وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا، وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا، نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ، وَغَضَبِ رَسُولِهِ فَجَعَلَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُرَدِّدُ هَذَا الْكَلَامَ حَتَّى سَكَنَ غَضَبُهُ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الدَّهْرَ كُلَّهُ؟، قَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ "، أَوَ قَالَ: " لَمْ يَصُمْ وَلَمْ يُفْطِرْ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمَيْنِ، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " وَيُطِيقُ ذَلِكَ أَحَدٌ "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا؟، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: كَيْفَ مَنْ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمَيْنِ؟، قَالَ: " وَدِدْتُ أَنِّي طُوِّقْتُ ذَلِكَ "، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلَى رَمَضَانَ، فَهَذَا صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهِ، صِيَامُ يَوْمِ عَرَفَةَ أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ، وَالسَّنَةَ الَّتِي بَعْدَهُ، وَصِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللَّهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور عرض کیا کہ آپ کیونکر رکھتے ہیں روزہ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہو گئے (یعنی اس لیے کہ یہ سوال بے موقع تھا۔ اس کو لازم تھا کہ یوں پوچھتا کہ میں روزہ کیونکر رکھوں) پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ دیکھا تو عرض کرنے لگے: «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ نَبِيًّا نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ غَضَبِ اللَّهِ وَغَضَبِ رَسُولِهِہم» ”راضی ہوئے اللہ تعالیٰ کے معبود ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر اور پناہ مانگتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کے غصہ سے۔“ غرض سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بار بار ان کلمات کو کہتے تھے یہاں تک کہ غصہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھم گیا پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! جو ہمیشہ روزہ رکھے وہ کیسا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا اور نہ افطار کیا۔“ پھر کہا جو دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے وہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسی طاقت کس کو ہے۔ یعنی اگر طاقت ہو تو خوب ہے پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے ایک دن افطار کرے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ روزہ ہے داؤد علیہ السلام کا، پھر کہا: جو ایک دن روزہ رکھے اور دو دن افطار کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: ”میں آرزو رکھتا ہوں کہ مجھے اتنی طاقت ہو۔“ یعنی یہ خوب ہے اگر طاقت ہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین روزے ہر ماہ میں اور رمضان کے روزے ایک رمضان کے بعد دوسرے رمضان تک یہ ہمیشہ کا روزہ ہے یعنی ثواب میں اور عرفہ کے دن کا روزہ ایسا ہے کہ میں امیدوار ہوں اللہ پاک سے کہ ایک سال اگلے اور ایک سال پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جائے اور عاشورے کے روزہ سے امید رکھتا ہوں ایک سال اگلے کا کفارہ ہو جائے۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ واللفظ لابن المثنى، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ غَيْلَانَ بْنِ جَرِيرٍ ، سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيَّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُئِلَ عَنْ صَوْمِهِ، قَالَ: " فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالْإِسْلَامِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولًا وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، فَقَالَ: " لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ، أَوْ مَا صَامَ وَمَا أَفْطَرَ "، قَالَ: فَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمَيْنِ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمَيْنِ، قَالَ: " لَيْتَ أَنَّ اللَّهَ قَوَّانَا لِذَلِكَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمٍ وَإِفْطَارِ يَوْمٍ، قَالَ: " ذَاكَ صَوْمُ أَخِي دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ "، قَالَ: فَقَالَ: " صَوْمُ ثَلَاثَةٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ صَوْمُ الدَّهْرِ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ وَالْبَاقِيَةَ "، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، فَقَالَ: " يُكَفِّرُ السَّنَةَ الْمَاضِيَةَ "، وَفِي هَذَا الْحَدِيثِ مِنْ رِوَايَةِ شُعْبَةَ، قَالَ: وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ وَالْخَمِيسِ، فَسَكَتْنَا عَنْ ذِكْرِ الْخَمِيسِ لَمَّا نُرَاهُ وَهْمًا،
سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے وہی مضمون مروی ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمسے کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روزوں کو پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلمغصہ ہوئے پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہی عرض کیا جو اوپر مذکور ہوا «رَضِينَا بِاللَّهِ رَبًّا وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا وَبِمُحَمَّدٍ رَسُولاً وَبِبَيْعَتِنَا بَيْعَةً» اور اس میں اتنا زیادہ ہے کہ”راضی ہوئے ہم اپنی بیعت سے کہ وہی بیعت ہے“ اور سوال ہوا صیام الدہر کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا نہ افطار کیا۔“ پھر سوال ہوا دو دن روزے اور ایک روز افطار سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی طاقت کسے ہے۔“پھر سوال ہوا ایک دن روزہ اور دو دن افطار سے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کاش! اللہ تعالیٰ ہم کو ایسی قوت دے۔“ اور سوال ہوا ایک دن افطار ایک روزہ سے، تو فرمایا: ”یہ میرے بھائی داؤد علیہ السلام کا روزہ ہے۔“ اور سوال ہوا دوشنبہ کے روزہ کا فرمایا: ”میں اسی دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن نبی ہوا ہوں۔“ یا فرمایا: ”اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے۔“ اور فرمایا: ”رمضان کے روزے اور ہر ماہ تین روزے یہ وحی اتری ہے۔“ اور فرمایا: ”رمضان کے روزے اور ہر ماہ تین روزے یہ صوم الدہر ہے۔“ اور عرفہ کے روزہ کو پوچھا: تو فرمایا: ”ایک سال گزرا ہوا ایک سال آگے آنے والے کا کفارہ ہے۔“ اور عاشورے کے روزے کو پوچھا: تو فرمایا: ”ایک سال گزرے ہوئے کا کفارہ ہے۔“ مسلم نے فرمایا: اسی حدیث میں شعبہ کی روایت میں ہے کہ پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوشنبہ اور پنج شنبہ کے روزے کو تو ہم نے پنج شنبہ کا ذکر نہیں کیا اس لیے کہ اس میں وہم ہے۔
وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي . ح وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا شَبَابَةُ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ كُلُّهُمْ عَنْشُعْبَةَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنِي أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بِمِثْلِ حَدِيثِ شُعْبَةَ، غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ فِيهِ الِاثْنَيْنِ، وَلَمْ يَذْكُرِ الْخَمِيسَ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے لیکن اس میں سوموار کا ذکر ہے جمعرات ذکر نہیں ہے۔
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، عَنْ غَيْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَعْبَدٍ الزِّمَّانِيِّ ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ "، فَقَالَ: " فِيهِ وُلِدْتُ، وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ ".
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا دوشنبہ کے روزہ کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اس دن پیدا ہوا ہوں اور اسی دن مجھ پر وحی اتری ہے۔“
حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ مُطَرِّفٍ وَلَمْ أَفْهَمْ مُطَرِّفًا مِنْ هَدَّابٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ أَوْ لِآخَرَ: " أَصُمْتَ مِنْ سُرَرِ شَعْبَانَ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ ".
سیدنا عمران حصین رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم نے شعبان کے اول میں کچھ روزے رکھے؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم افطار کے دن تمام کر لو تو دو دن روزے رکھو۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي الْعَلَاءِ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ: " هَلْ صُمْتَ مِنْ سُرَرِ هَذَا الشَّهْرِ شَيْئًا؟ "، قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَإِذَا أَفْطَرْتَ مِنْ رَمَضَانَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ مَكَانَهُ ".
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا: ”تم نے اس مہنیے کے آخر میں روزے رکھے؟“ (یعنی شعبان میں) اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم رمضان کے روزوں سے فارغ ہو تو دو روزے رکھ لو اس کے عوض میں۔“
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ ابْنِ أَخِي مُطَرِّفِ بْنِ الشِّخِّيرِ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفًا يُحَدِّثُ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ: " هَلْ صُمْتَ مِنْ سُرَرِ هَذَا الشَّهْرِ شَيْئًا؟ "، يَعْنِي شَعْبَانَ، قَالَ: لَا، قَالَ: فَقَالَ لَهُ: " إِذَا أَفْطَرْتَ رَمَضَانَ، فَصُمْ يَوْمًا أَوْ يَوْمَيْنِ "، شُعْبَةُ الَّذِي شَكَّ فِيهِ، قَالَ: وَأَظُنُّهُ قَالَ يَوْمَيْنِ،
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا ہے مگر اس روایت میں شک ہے کہ ایک دن یا دو دن۔ شعبہ کہتے ہیں کہ مجھے گمان ہے کہ دو دن کہا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ ، وَيَحْيَى اللُّؤْلُئِيُّ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا النَّضْرُ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَانِئِ ابْنِ أَخِي مُطَرِّفٍ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ، بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنِي قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيِّ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللَّهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الْفَرِيضَةِ صَلَاةُ اللَّيْلِ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ”افضل سب روزوں میں رمضان کے بعد محرم کے روزے ہیں جو اللہ کا مہینہ ہے اور بعد نماز فرض کے تہجد کی نماز ہے۔“
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَرْفَعُهُ، قَالَ: سُئِلَ أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ، وَأَيُّ الصِّيَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟، فَقَالَ " أَفْضَلُ الصَّلَاةِ بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ الصَّلَاةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، وَأَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ صِيَامُ شَهْرِ اللَّهِ الْمُحَرَّمِ "،
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے پوچھا کہ بعد فرض نماز کے کون سی نماز افضل ہے اور ماہ رمضان کے بعد کون سے روزے افضل ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز، رات کی (تہجد) اور روزے محرم کے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ فِي ذِكْرِ الصِّيَامِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ جميعا، عَنْ إِسْمَاعِيل، قَالَ ابْنُ أَيُّوبَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنِي سَعْدُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ ثَابِتِ بْنِ الْحَارِثِ الْخَزْرَجِيِّ ، 25 عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّرَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى الله قَالَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ وَأَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوّالٍ. كَانَ كَصِيَامِ الدّهْرِ ".
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو روزے رکھے رمضان کے اور اس کے ساتھ لگائے چھ روزے شوال کے تو اس کو ہمیشہ کے روزوں کا ثواب ہو گا۔“
وحدّثنا ابْنُ نُمَيْرٍ. حَدّثَنَا أَبِي. حَدّثَنَا سَعْدُ بْنُ سَعِيدٍ أَخُ وَيَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عُمَرُ بْنُ ثَابِتٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيُّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: بِمِثْلِهِ،
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَاه أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ ثَابِتٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بِمِثْلِهِ.
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رِجَالًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُرُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْمَنَامِ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَى رُؤْيَاكُمْ قَدْ تَوَاطَأَتْ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ مُتَحَرِّيَهَا، فَلْيَتَحَرَّهَا فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ چند اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دکھلایا شب قدر ہفتہ آخر میں (یعنی رمضان کے) اور رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارا خواب میں دیکھتا ہوں کہ موافق و مطابق ہوا آخررمضان کی سات تاریخوں کے پھر جو اس شب کا تلاش کرنے والا ہو وہ ان ہی تاریخوں میں تلاش کرے۔
وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي السَّبْعِ الْأَوَاخِرِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تلاش کرو شب قدر سات راتوں میں آخر کی۔“
وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: رَأَى رَجُلٌ أَنَّ لَيْلَةَ الْقَدْرِ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَرَى رُؤْيَاكُمْ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَاطْلُبُوهَا فِي الْوِتْرِ مِنْهَا ".
سالم نے اپنے باپ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک شخص نے شب قدر کو ستائیسویں شب کو دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں دیکھتا ہوں کہ خواب تمہارا اخیر دہے میں واقع ہوا ہے تو اس کی طاق راتوں میں آخر دہے کی تلاش کرو۔“
وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّ أَبَاهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِلَيْلَةِ الْقَدْرِ: " إِنَّ نَاسًا مِنْكُمْ قَدْ أُرُوا أَنَّهَا فِي السَّبْعِ الْأُوَلِ، وَأُرِيَ نَاسٌ مِنْكُمْ أَنَّهَا فِي السَّبْعِ الْغَوَابِرِ، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْغَوَابِرِ ".
سالم نے اپنے باپ سے سنا کہ انہوں نے کہا: سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ فرماتے تھے: ”چند لوگوں نے تم میں سے شب قدر کو سات تاریخوں میں اول کی دیکھا ہے یعنی خواب میں اور چند لوگوں نے سات تاریخوں میں آخر کی دیکھا ہے۔ سو تم آخر کی دس تاریخوں میں تلاش کرو۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عُقْبَةَ وَهُوَ ابْنُ حُرَيْثٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ يَعْنِي لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَإِنْ ضَعُفَ أَحَدُكُمْ أَوْ عَجَزَ، فَلَا يُغْلَبَنَّ عَلَى السَّبْعِ الْبَوَاقِي ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھونڈھو شب قدر کو آخر کے دہے میں پھر اگر کوئی بودا پن کرے یا عاجز ہو جائے۔ تو سات راتوں میں آخر کی سستی نہ کرے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ جَبَلَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يُحَدِّثُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ كَانَ مُلْتَمِسَهَا، فَلْيَلْتَمِسْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ ".
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے”لیلتہ القدر کے ڈھونڈھنے والے کو آخر کی دس تاریخوں میں ڈھونڈھناچاہیے۔“
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ جَبَلَةَ ، وَمُحَارِبٍ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَحَيَّنُوا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، أَوَ قَالَ: فِي التِّسْعِ الْأَوَاخِرِ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھونڈھو شب قدر کو آخر دہے میں یا فرمایا: آخر ہفتہ میں۔“
حَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أَيْقَظَنِي بَعْضُ أَهْلِي فَنُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْغَوَابِرِ "، وقَالَ حَرْمَلَةُ: فَنَسِيتُهَا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے خواب میں شب قدر دکھائی دی پھر کسی میرے گھر والے نے جگا دیا سو میں اس کو بھلا دیا گیا، پس تم ڈھونڈو اس کو آخر کے دہے میں۔“اور حرملہ کی روایت میں ہے کہ ”میں اس کو بھول گیا۔“
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بَكْرٌ وَهُوَ ابْنُ مُضَرَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُجَاوِرُ فِي الْعَشْرِ الَّتِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ، فَإِذَا كَانَ مِنْ حِينِ تَمْضِي عِشْرُونَ لَيْلَةً، وَيَسْتَقْبِلُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، يَرْجِعُ إِلَى مَسْكَنِهِ، وَرَجَعَ مَنْ كَانَ يُجَاوِرُ مَعَهُ، ثُمَّ إِنَّهُ أَقَامَ فِي شَهْرٍ جَاوَرَ فِيهِ تِلْكَ اللَّيْلَةَ الَّتِي كَانَ يَرْجِعُ فِيهَا، فَخَطَبَ النَّاسَ فَأَمَرَهُمْ بِمَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي كُنْتُ أُجَاوِرُ هَذِهِ الْعَشْرَ، ثُمَّ بَدَا لِي أَنْ أُجَاوِرَ هَذِهِ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعِي فَلْيَبِتْ فِي مُعْتَكَفِهِ، وَقَدْ رَأَيْتُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ فَأُنْسِيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي كُلِّ وِتْرٍ، وَقَدْ رَأَيْتُنِي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ "، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ الْخُدْرِيُّ: مُطِرْنَا لَيْلَةَ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ فِي مُصَلَّى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ وَقَدِ انْصَرَفَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَوَجْهُهُ مُبْتَلٌّ طِينًا وَمَاءً،
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف کرتے تھے۔ مہینے کے بیچ کے دہے میں (یعنی رمضان کے) پھر جب بیس راتیں گزر جاتی تھیں رمضان کی اور اکیسویں آنے کو ہوتی تھی تو اپنے گھر لوٹ آتے تھے۔ اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ معتکف ہوتے تھے وہ بھی لوٹ آتے تھے پھر ایک ماہ میں اسی طرح اعتکاف کیا اور جس رات میں گھر آنے کو تھے خطبہ پڑھا اور لوگوں کو حکم کیا جو منظور الہٰی تھا پھر فرمایا: ”میں اس عشرہ میں اعتکاف کرتا تھا پھر مجھے مناسب معلوم ہوا کہ میں اس عشرہ اخیر میں بھی اعتکاف کروں سو جو میرے ساتھ اعتکاف کرنے والا ہو وہ رات کو اپنے معتکف ہی میں رہے (اور گھر نہ جائے) اور میں نے خواب میں اس شب قدر کو دیکھا مگر بھلا دیا گیا سو اسے اخر کی دس راتوں میں ڈھونڈھو ہر طاق رات میں اور میں اپنے کو خواب میں دیکھتا ہوں کہ سجدہ کر رہا ہوں پانی اور کیچڑ میں۔“(یعنی اس رات کے آخر میں ایسا ہو گا یہ بات خواب کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد رہی) پھر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اکیسویں شب کہ ہم پر مینہ برسا اور مسجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلیٰ پر ٹپکی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز سے سلام پھیرا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک چہرے میں کیچڑ اور پانی بھرا ہوا تھا۔
وحَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي الدَّرَاوَرْدِيَّ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُجَاوِرُ فِي رَمَضَانَ الْعَشْرَ الَّتِي فِي وَسَطِ الشَّهْرِ "، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " فَلْيَثْبُتْ فِي مُعْتَكَفِهِ "، وَقَالَ: " وَجَبِينُهُ مُمْتَلِئًا طِينًا وَمَاءً ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اس سند سے وہی روایت مروی ہوئی مگر اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمارے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ ثابت رہے اپنے معتکف میں۔“ اور آخر میں کہا کہ پیشانی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کیچڑ اور پانی بھرا ہوا تھا۔
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، حَدَّثَنَا عُمَارَةُ بْنُ غَزِيَّةَ الْأَنْصَارِيُّ ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ مِنْ رَمَضَانَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ فِي قُبَّةٍ تُرْكِيَّةٍ عَلَى سُدَّتِهَا حَصِيرٌ، قَالَ: فَأَخَذَ الْحَصِيرَ بِيَدِهِ فَنَحَّاهَا فِي نَاحِيَةِ الْقُبَّةِ، ثُمَّ أَطْلَعَ رَأْسَهُ فَكَلَّمَ النَّاسَ فَدَنَوْا مِنْهُ، فَقَالَ: " إِنِّي اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوَّلَ أَلْتَمِسُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ اعْتَكَفْتُ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ، ثُمَّ أُتِيتُ فَقِيلَ لِي: إِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَمَنْ أَحَبَّ مِنْكُمْ أَنْ يَعْتَكِفَ فَلْيَعْتَكِفْ "، فَاعْتَكَفَ النَّاسُ مَعَهُ، قَالَ: " وَإِنِّي أُرْبِئْتُهَا لَيْلَةَ وِتْرٍ، وَإِنِّي أَسْجُدُ صَبِيحَتَهَا فِي طِينٍ وَمَاءٍ "، فَأَصْبَحَ مِنْ لَيْلَةِ إِحْدَى وَعِشْرِينَ، وَقَدْ قَامَ إِلَى الصُّبْحِ فَمَطَرَتِ السَّمَاءُ فَوَكَفَ الْمَسْجِدُ، فَأَبْصَرْتُ الطِّينَ وَالْمَاءَ، فَخَرَجَ حِينَ فَرَغَ مِنْ صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَجَبِينُهُ وَرَوْثَةُ أَنْفِهِ فِيهِمَا الطِّينُ وَالْمَاءُ، وَإِذَا هِيَ لَيْلَةُ إِحْدَى وَعِشْرِينَ مِنَ الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف فرمایا عشرہ اول میں رمضان کے پھر اعتکاف فرمایا عشرہ اوسط میں ایک ترکی قبہ میں(اس سے کفار کی چیزون کا استعمال روا ہوا) کہ اس کے دروزے پر ایک حصیر لٹکا ہوا تھا (پردہ کے لیے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ حصیر اپنے ہاتھ سے ہٹایا اور ایک کونے میں قبہ کے کر دیا پھر اپنا سر نکالا اور لوگوں سے باتیں کیں اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک آ گئے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عشرہ اول کا اعتکاف کرتا ہوں اور اس رات کو ڈھونڈھتا تھا پھر میں نے عشرہ اوسط کا اعتکاف کیا پھر میرے پاس کوئی آیا (یعنی فرشتہ) اور مجھ سے کہا گیا کہ وہ عشرہ اخیر میں ہے پھر جو چاہے تم میں سے وہ پھر اعتکاف کرے۔“ یعنی عشرہ اخیر میں بھی معتکف رہے پھر لوگ معتکف رہے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ”مجھے دکھایا گیا کہ وہ طاق راتوں میں ہے اور میں اس کی صبح کو پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اکیسویں شب کی صبح ہوئی اور اس رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نماز پڑھتے رہے اور رات کو مینہ برسا اور مسجد ٹپکی اور میں نے دیکھا مٹی اور پانی کو پھر جب صبح کی نماز پڑھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کے بانسے پر مٹی اور پانی کا نشان تھا اور وہ رات اکیسویں تھی اور عشرہ اخیر کی رات تھی۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَأَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، وَكَانَ لِي صَدِيقًا، فَقُلْتُ: أَلَا تَخْرُجُ بِنَا إِلَى النَّخْلِ، فَخَرَجَ وَعَلَيْهِ خَمِيصَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ: سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ؟، فَقَالَ: نَعَمْ، اعْتَكَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْوُسْطَى مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجْنَا صَبِيحَةَ عِشْرِينَ، فَخَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ وَإِنِّي نَسِيتُهَا أَوْ أُنْسِيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ كُلِّ وِتْرٍ، وَإِنِّي أُرِيتُ أَنِّي أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلْيَرْجِعْ "، قَالَ: فَرَجَعْنَا وَمَا نَرَى فِي السَّمَاءِ قَزَعَةً، قَالَ: وَجَاءَتْ سَحَابَةٌ فَمُطِرْنَا حَتَّى سَالَ سَقْفُ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ مِنْ جَرِيدِ النَّخْلِ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْجُدُ فِي الْمَاءِ وَالطِّينِ، قَالَ: حَتَّى رَأَيْتُ أَثَرَ الطِّينِ فِي جَبْهَتِهِ،
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم نے آپس میں ذکر کیا شب قدر کا تو میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور وہ میرے دوست تھے اور میں نے ان سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ کھجور کے باغ میں نہیں چلتے تو وہ ایک چادر اوڑھے ہوئے نکلے اور میں نے کہا کہ آپ نے کچھ سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمسے کہ ذکر کرتے ہوں شب قدر کا؟ انہوں نے کہا کہ ہاں میں نے اعتکاف کیا رسول اللہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیچ کے عشرہ میں رمضان کے اور ہم بیسویں کی صبح کو نکلے (یعنی اعتکاف سے) پھر خطبہ پڑھا ہم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور فرمایا: ”مجھے دکھائی دی شب قدر اور میں بھول گیا اسے۔“ یا فرمایا: ”بھلا دیا گیا سو تم اس کو اخیر کی دس تاریخوں میں طاق راتوں میں ڈھونڈو۔“ اور فرمایا: ”میں اپنے آپ کو دیکھتاہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔ پھر جس نے اعتکاف کیا ہو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تو وہ پھر جائے۔“ یعنی اپنے معتکف میں اور ہم لوگ پھر معتکف میں آ گئے اور ہم آسمان میں کوئی بدلی کا ٹکڑا تک نہیں دیکھتے تھے کہ اتنے میں ابر آیا اور ہم پر مینہ برسا یہاں تک کہ مسجد کی چھت بہنے لگی اور کھجور کی ڈالیوں سے پٹی ہوئی تھی اور نماز صبح کی تکبیر ہوئی اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ سجدہ کرتے ہیں پانی اور کیچڑ میں (یعنی جو خواب میں دیکھا تھا وہ صحیح ہوا) یہاں تک کہ دیکھا میں نے اثر کیچڑ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی میں۔
وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ كِلَاهُمَا، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ، وَفِي حَدِيثِهِمَا " رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ انْصَرَفَ، وَعَلَى جَبْهَتِهِ وَأَرْنَبَتِهِ أَثَرُ الطِّينِ ".
یحییٰ بن ابوکثیر سے اس اسناد سے یہی روایت مروی ہوئی اور اس میں یہ ہے کہ دیکھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب لوٹے یعنی صبح کی نماز سے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک کی نوک پر کیچڑ کا اثر تھا۔
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، يَلْتَمِسُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ قَبْلَ أَنْ تُبَانَ لَهُ، فَلَمَّا انْقَضَيْنَ أَمَرَ بِالْبِنَاءِ فَقُوِّضَ، ثُمَّ أُبِينَتْ لَهُ أَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَأَمَرَ بِالْبِنَاءِ فَأُعِيدَ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَى النَّاسِ، فَقَالَ: " يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّهَا كَانَتْ أُبِينَتْ لِي لَيْلَةُ الْقَدْرِ، وَإِنِّي خَرَجْتُ لِأُخْبِرَكُمْ بِهَا، فَجَاءَ رَجُلَانِ يَحْتَقَّانِ مَعَهُمَا الشَّيْطَانُ فَنُسِّيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، الْتَمِسُوهَا فِي التَّاسِعَةِ وَالسَّابِعَةِ وَالْخَامِسَةِ "، قَالَ: قُلْتُ يَا أَبَا سَعِيدٍ: إِنَّكُمْ أَعْلَمُ بِالْعَدَدِ مِنَّا، قَالَ: أَجَلْ، نَحْنُ أَحَقُّ بِذَلِكَ مِنْكُمْ، قَالَ: قُلْتُ: مَا التَّاسِعَةُ وَالسَّابِعَةُ وَالْخَامِسَةُ، قَالَ: إِذَا مَضَتْ وَاحِدَةٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا ثِنْتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَهِيَ التَّاسِعَةُ، فَإِذَا مَضَتْ ثَلَاثٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا السَّابِعَةُ، فَإِذَا مَضَى خَمْسٌ وَعِشْرُونَ فَالَّتِي تَلِيهَا الْخَامِسَةُ، وَقَالَ ابْنُ خَلَّادٍ: مَكَانَ يَحْتَقَّانِ يَخْتَصِمَانِ.
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اعتکاف کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچ کے عشرہ میں رمضان کے، ڈھونڈتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کو قبل اس کے کہ ظاہر ہو شب قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پھر جب عشرہ اوسط کی راتیں گزر گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کھول ڈالنے کا حکم فرمایا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ وہ اخیر عشرہ میں ہے اور حکم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیمہ کا کہ پھر لگایا گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ”اے لوگو! مجھے شب قدر معلوم ہوئی تھی اور میں نکلا تھا کہ تم خبر دوں پھر دو شخص آپس میں جھگرتے ہوئے آئے اور ان کے ساتھ شیطان بھی تھا پھر میں بھول گیا تو اس کو تلاش کرو تم عشرہ اخیر میں رمضان کے اور ڈھونڈو اس کو نویں اور ساتویں اور پانچویں راتوں میں۔“ راوی نے کہا کہ میں نے ابوسعید سے کہا کہ تم گنتی زیادہ جانتے ہو ہم لوگوں سے تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں بہ نسبت تمہارے، پھر میں نے پوچھا: نویں، ساتویں، پانچویں سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے فرمایا: جب اکیسویں گزر جائے تو اس کے بعد جو آئے بائیسویں وہی بائیسویں رات مراد ہے نویں سے اور جب تئیسویں گزر جائے تو اس کے بعد جو رات آئے یعنی چوبیسویں وہی ساتویں سے مراد ہے اور جب پچیسویں گزر جائے تو اس کے بعد جو رات آئے یعنی چھبیسویں وہی مراد ہے پانچویں سے اور خلاد نے «يَحْتَقَّانِ» کی جگہ «يَخْتَصِمَانِ» کہا۔
وحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَهْلِ بْنِ إِسْحَاق بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْأَشْعَثِ بْنِ قَيْسٍ الْكِنْدِيُّ ، وَعَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو ضَمْرَةَ ، حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ عُثْمَانَ ، وَقَالَ ابْنُ خَشْرَمٍ: عَنِ الضَّحَّاكِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُنَيْسٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، ثُمَّ أُنْسِيتُهَا، وَأَرَانِي صُبْحَهَا أَسْجُدُ فِي مَاءٍ وَطِينٍ "، قَالَ: فَمُطِرْنَا لَيْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ، فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانْصَرَفَ، وَإِنَّ أَثَرَ الْمَاءِ وَالطِّينِ عَلَى جَبْهَتِهِ وَأَنْفِهِ، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُنَيْسٍ يَقُولُ: ثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ.
سیدنا عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”کہ مجھے دکھائی گئی شب قدر پھر میں بھول گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی صبح کو میں پانی اور کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔“ اور راوی نے کہا کہ مینہ برسا ہمارے اوپر تیئسویں شب کو اور نماز پڑھی ہمارے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور جب پھرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ کر (یعنی صبح کی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر اثر پانی اور کیچڑ کا تھا اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ تیئسویں رات کو شب قدر کہا کرتے تھے۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَوَكِيعٌ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: " الْتَمِسُوا "، وَقَالَ وَكِيعٌ: " تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ ".
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ڈھونڈو شب قدر کو عشرہ اخیر میں رمضان کے۔“
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ كِلَاهُمَا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ ابْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَبْدَةَ ، وَعَاصِمِ بْنِ أَبِي النَّجُودِ ، سمعا زر بن حبيش ، يَقُولُ: سَأَلْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَخَاكَ ابْنَ مَسْعُودٍ، يَقُولُ: مَنْ يَقُمْ الْحَوْلَ يُصِبْ لَيْلَةَ الْقَدْرِ، فَقَالَ: " رَحِمَهُ اللَّهُ أَرَادَ أَنْ لَا يَتَّكِلَ النَّاسُ أَمَا إِنَّهُ قَدْ عَلِمَ أَنَّهَا فِي رَمَضَانَ، وَأَنَّهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، وَأَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ، ثُمَّ حَلَفَ لَا يَسْتَثْنِي أَنَّهَا لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ "، فَقُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ تَقُولُ ذَلِكَ يَا أَبَا الْمُنْذِرِ؟، قَالَ: " بِالْعَلَامَةِ أَوْ بِالْآيَةِ الَّتِي أَخْبَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا تَطْلُعُ يَوْمَئِذٍ لَا شُعَاعَ لَهَا ".
زر بن حبیش کہتے تھے کہ میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ تمہارے بھائی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو کہتے ہیں جو سال بھر برابر جاگے وہ شب قدر پائے تو انہوں نے کہا: اللہ رحمت کرے ان پر اس کہنے سے ان کی غرض یہ تھی کہ لوگ ایک ہی رات پر بھروسہ نہ کر رہیں (بلکہ ہمیشہ عبادت میں مشغول رہیں) اور وہ خوب جانتے تھے کہ وہ رمضان میں ہے اور وہ عشرہ اخیر میں ہے وہ ستائیسویں شب ہے پھر وہ اس پر قسم کھاتے تھے اور ان شاء اللہ بھی نہ کہتے تھے (یعنی ایسا اپنی قسم پر یقین تھا) اور کہتے تھے کہ وہ ستائیسویں شب ہے تو میں نے ان سے کہا کہ تم اے ابومنذر! کیوں یہ دعویٰ کرتے ہو؟ انہوں کہا کہ ایک نشانی یا علامت کی وجہ سے جس کی خبر دی ہے ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور وہ یہ ہے کہ”اس کی صبح کو آفتاب جو نکلتا ہے تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔“ (مگر یہ علامت بعد زوال شب کے ظاہر ہوتی ہے)۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَةَ بْنَ أَبِي لُبَابَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ أُبَيٌّ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُهَا "، قَالَ شُعْبَةُ: " وَأَكْبَرُ عِلْمِي هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقِيَامِهَا، هِيَ لَيْلَةُ سَبْعٍ وَعِشْرِينَ "، وَإِنَّمَا شَكَّ شُعْبَةُ فِي هَذَا الْحَرْفِ، هِيَ اللَّيْلَةُ الَّتِي أَمَرَنَا بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " وَحَدَّثَنِي بِهَا صَاحِبٌ لِي عَنْهُ ".
زر بن حبیش نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: شب قدر کے باب میں کہ قسم ہے اللہ کی! میں اسے خوب جانتا ہوں۔ شعبہ نے کہا کہ اکثر روایتیں مجھے ایسی پہنچی ہیں کہ وہ وہی رات تھی جس میں حکم فرمایا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاگنے کا اور وہ ستائیسویں شب ہے اور شک کیا شعبہ نے اس بیان میں کہ حکم کیا ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جاگنے کا اس شب میں اور کہا کہ یہ عبارت مجھ سے ایک میرے رفیق نے بیان کی عبدہ سے جو ان کے شیخ ہیں۔
وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ الْفَزَارِيُّ ، عَنْ يَزِيدَ وَهُوَ ابْنُ كَيْسَانَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا لَيْلَةَ الْقَدْرِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " أَيُّكُمْ يَذْكُرُ حِينَ طَلَعَ الْقَمَرُ، وَهُوَ مِثْلُ شِقِّ جَفْنَةٍ ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک بار ذکر کیا ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے شب قدر کا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کون تم میں سے یاد رکھتا ہے شب قدر اس رات میں ہے کہ طلوع ہوتا ہے چاند اور وہ ایسا ہوتا ہے جیسے ایک ٹکڑا طشت کا۔