مشکوٰة شر یف

رونے اور ڈرنے کا بیان

رونے اور ڈرنے کا بیان

ریا کی تعریف

 

 ریا رویت سے مشتق ہے اور صراح میں لکھا ہے کہ ریا کے معنی ہیں اپنے آپ کو لوگوں کی نظر میں اچھا بنا کر پیش کرنا۔ اور عین العلم میں لکھا ہے کہ ریا کا مطلب یہ ہے اپنی عبادت و نیکی کا سکہ جمانا اور اس کے ذریعہ لوگوں کی نظر میں اپنی قدر و منزلت چاہنا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ریا کا تعلق خاص طور پر ان چیزوں کے ساتھ ہوتا ہے جو عبادت و نیکی کے ظاہری عمل کہلاتے ہیں اور جو چیزیں کہ از قسم عبادت نہ ہوں جیسے کثرت مال و متاع، علم و ذہانت کی فراوانی، اشعار وغیرہ کا یاد رکھنا اور نشانہ بازی کی مہارت وغیرہ تو ان میں دکھاوے کے لئے کئے جانے والے کام کو ریا نہیں کہا جاتا بلکہ وہ افتخار و تکبر (ناز و گھمنڈ) کی ایک قسم کہلاتا ہے اسی طرح نیکی و عبادت کے ظاہری اعمال میں بھی اگر کوئی کام اس صورت میں لوگوں کو دکھانے کے لئے کیا جائے جب کہ اس کا مقصد عزت و جاہ کی طلب نہ ہو، جیسا کہ بعض مشائخ اپنے مریدوں کو تلقین و تعلیم، لوگوں کے دلوں کو نیک اعمال کی طرف مائل کرنے اور ان کو اتباع و پیروی کی طرف راغب کرنے کے لئے بعض اعمال اس طرح کرتے ہیں کہ لوگ ان کو دیکھیں تو یہ بھی حقیقت کے اعتبار سے ریا نہیں کہلائے گا اگرچہ ظاہر میں ان کا وہ عمل ریا کاری معلوم ہو اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ ریا الصدیقین خیر من اخلاص المریدین یعنی اونچے درجہ کے مشائخ اور بزرگوں کا ریا مریدین کے اخلاص یعنی عدم ریا کاری سے بہتر ہے۔

 یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ریا اصل میں اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی ذات میں واقعۃً کوئی صفت و کمال ہو اور وہ اپنے اس واقعی وصف و کمال پر لوگوں کے سامنے نمایاں کرے اور یہ خواہش رکھے کہ لوگ اس کے اس وصف و کمال کو جانیں تاکہ ان کی نظر میں قدر و منزلت اور عزت و وقعت حاصل ہو۔ پس جو شخص کسی ایسے وصف و کمال کو اپنی طرف منسوب کر کے لوگوں پر ظاہر کرے کہ جو واقعۃً اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو ریا نہیں بلکہ خالص کذب اور منافقت کہا جائے گا اسی پر قیاس کر کے یہ کہا گیا ہے کہ غیب اس چیز کا نام ہے کہ کسی شخص کی پیٹھ پیچھے اس کا وہ عیب بیان کیا جائے تو واقعتاً اس کی ذات میں موجود ہو، اور اگر اس کی طرف منسوب کر کے کوئی ایسا عیب بیان کیا جائے جو حقیقت کے اعتبار سے اس کی ذات میں نہیں ہے تو اس کو افترا اور بہتان کہیں گے۔

 

ریا کی قسمیں

ریا کی مختلف اقسام اور صورتیں ہیں اور ان اقسام میں سب سے زیادہ بری اور نہایت قابل نفریں وہ قسم ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کا قصد اور حصول ثواب کا ارادہ قطعاً نہ ہو بلکہ واحد مقصد لوگوں کو دکھانا اور ان کی نظر میں قدر و منزلت حاصل کرنا، جیسا کہ خالص ریا کار بلکہ دھوکا باز لوگوں کا شیوہ ہوتا ہے کہ جب وہ لوگوں کے درمیان ہوتے ہیں تو نماز پڑھتے ہیں اور مختلف قسم کے اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں، لیکن جب تنہا ہوتے ہیں تو نہ نماز سے سروکار رکھتے ہیں اور نہ اوراد وظائف سے بلکہ ان بدنصیبوں کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ نماز میں بغیر پاکی اور وضو کے ہی کھڑے ہو جاتے ہیں ریا کاری کی یہ قسم ارذل ترین اور اللہ تعالیٰ کے سخت غضب وقہر کے نازل ہونے کا باعث ہے اور اس صورت میں کیا جانے والا کوئی بھی عمل قطعی باطل ہوتا ہے، بلکہ بعض حضرات نے تو یہاں تک کہا ہے اگر وہ عمل فرض ہو تو اس کا کرنا فرض کے ادا ہو جانے کے حکم میں نہیں ہو گا بلکہ اس کی قضا واجب ہو گی دوسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کرنے میں دونوں چیزیں ہوں یعنی ارادہ ثواب بھی اور ریا کاری بھی (دکھانے کی نیت)) لیکن ریا کا پہلو غالب ہو اور ارادہ ثواب کا پہلو ضعیف ہو، بایں حیثیت کہ اگر اس عمل کو کرنے والا تنہائی میں ہوتا تو اس عمل کو نہ کرتا، اور اس کا قصد اس عمل کے صدور کا باعث نہ ہوتا اور اگر بالفرض اس عمل کا ثواب کوئی نہ ہوتا تو بھی محض ریا کاری کا جذبہ ہی اس عمل کو اختیار کرنے کا باعث بن جاتا، اس قسم کا بھی وہی حکم ہے جو پہلی قسم کا ہے۔ تیسری قسم وہ صورت ہے جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں دونوں چیزیں یعنی ریا کاری کا جذبہ اور حصول ثواب کا ارادہ برابر ہوں، بایں حیثیت کہ اگر بالفرض وہ عمل ان دونوں چیزوں میں سے بھی ایک چیز سے خالی ہوتا تو اس کو اختیار کرنے کا کوئی داعیہ پیدا نہ ہوتا بلکہ اس عمل کی طرف رغبت اسی صورت میں ہوتی جب کہ دونوں چیزیں ایک ساتھ پائی جاتی۔ اس قسم کے بارے میں بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں نفع، نقصان، دونوں برابر ہوں، لیکن احادیث و آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قسم بھی مذموم، اور اس صورت میں کیا جانے والا عمل بھی ناقابل قبول ہوتا ہے، اور چوتھی قسم وہ صورت ہے کہ جس میں کسی نیک عمل کو اختیار کرنے میں، ثواب کی نیت اور اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ارادہ، راجح اور غالب ہو، اور بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قسم نہ تو محض باطل ہے اور نہ اس میں کوئی نقصان ہے، یا زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے۔ کہ اس صورت میں اختیار کیا جانے والا عمل نیت و ارادہ کے اعتبار سے ثواب اور عتاب دونوں کا یکساں طور پر باعث ہوتا ہے کہ ارادہ و نیت میں جس قدر اخلاص یا عدم اخلاص ہو گا اسی کے مطابق ثواب یا عتاب ہو گا، نیز اس صورت میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ قصد عمل میں ریا کاری کی جو آمیزش ہے (جو اگرچہ ثواب کے ارادہ و نیت سے کمتر اور ضعیف ہے) وہ کب پیدا ہوئی ہے؟ اگر ریا کاری کی آمیزش ابتدا عمل میں ہوئی ہے تو یہ صورت زیادہ بری کہلائے گی، اور اگر عمل کے درمیان پیدا ہوئی ہے تو یہ صورت پہلی صورت سے کم برائی کی حامل ہو گی، اور اگر یہ عمل کرنے کے بعد آئی ہے تو یہ صورت دوسرے صورت سے بھی کم تر قرار دی جائے گی اور اس کی وجہ سے اختیار کیا جانے والا عمل باطل نہیں کہلائے گا۔

 علاوہ ازیں ایک فرق یہ بھی ملحوظ رکھا جائے گا کہ ریا کاری کا وہ جذبہ اگر پختہ قصد و عزم کی صورت میں نمودار ہوا ہے تو اس میں زیادہ برائی ہو گی اور اگر محض ایک خیال کی صورت میں پیدا ہو اور اس خیال ہی کی حد تک محدود رہا، آگے کچھ نہ ہوا تو یہ صورت حال یقیناً زیادہ نقصان دہ نہیں کہلائے گی۔

 بہرحال حقیقت یہ ہے کہ  ریا  ایک ایسا جذبہ ہے جس سے پوری طرح خلاصی نہایت دشوار ہے اور ہر حالت میں حقیقی اخلاص کا پایا جانا بہت مشکل، اسی لئے علما نے یہاں تک لکھا ہے کہ کسی کے منہ سے اپنی تعریف سن کر خوش ہونا ریا کے پائے جانے کی علامت ہے، اسی طرح تنہائی میں کوئی عمل کرتے وقت بھی دل میں ریا کا خیال آ جائے تو وہ بھی ریا ہی کہلائے گا۔ خدا اس سے اپنی پناہ میں رکھے اور بہر صورت اخلاص عطا فرمائے کہ اس کی مدد و توفیق کے بغیر اس دولت کا ملنا ممکن ہی نہیں ہے۔

 علما نے ایک خاص صورت و حالت اور بیان کی ہے اور وہ یہ کہ اگر کوئی شخص کوئی نیک کام کرے اور کسی عبادت و طاعت میں مصروف ہو اور لوگ اس کو وہ نیک کام اور عبادت و طاعت کرتا ہوا دیکھ لیں تو اس کو چاہئے کہ اس وقت اپنے اندر اس وقت اس بات پر خوشی و مسرت کے جذبات پیدا کرے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور لطف و عنایت سے نیک عمل کی توفیق عطا فرمائی اور لوگوں کی نظر با عزت بنانے کا یہ سبب پیدا فرمایا کہ گناہوں اور عیوب کی تو پردہ پوشی فرمائی اور نیک اعمال و اخلاق کو آشکارا فرمایا اور ان جذبات مسرت کے ساتھ یہ نیت و قصد رکھے کہ اگر میرے نیک عمل کے اظہار سے دین وطاعات کا چرچہ ہوتا ہے تو لوگ دین کی طرف راغب ہوں گے اور ان کے اندر بھی نیک اعمال کو اختیار کرنے کا داعیہ پیدا ہو گا۔ یہ چیز نہ صرف یہ کہ  ریا  کے حکم میں داخل نہیں ہو گی، بلکہ اس کو محمود و مستحسن بھی کہا جائے گا جیسا کہ اس سلسلے میں وارد احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔

 واضح رہے کہ یہ مسئلہ بہت دقیق و پیچیدہ ہے اور اپنے اندر بہت تفصیل و مباحث رکھتا ہے، اگر اس کی تحقیق زیادہ وضاحت کے ساتھ جاننی ہو تو اہل اللہ اور عارفین کی کتابوں اور ان کے اقوال و ملفوظات سے راہنمائی حاصل کرنی چاہئے، خصوصاً مشہور کتاب احیا العلوم اس سلسلے میں زیادہ بہتر رہبری کر سکتی ہے۔

 

سمعہ کا مطلب

 سمعۃ (سین کے پیش اور میم کے جزم کے ساتھ) کے معنی ہیں وہ کام جو لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا جائے عام طور پر اس لفظ کا استعمال ریا کے ساتھ ہوتا ہے، جیسے کہا جاتا ہے فلاں شخص نے یہ کام ریا و سمعہ یعنی دکھانے سنانے کے لئے کیا۔ گویا ریا کا تعلق تو حاسہ بصر (دکھانے) کے ساتھ ہوتا ہے اور سمعہ کا تعلق حاسہ سمع(سنانے) کے ساتھ۔

خدا صورت اور مال کو نہیں دیکھتا، دل کو دیکھتا ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مال و متاع کو نہیں دیکھتا (یعنی اس کی نظر رحمت و عنایت میں تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کا کوئی اعتبار نہیں ہے، کیونکہ اس کے نزدیک نہ تو اچھی یا بری صورت کی کوئی حیثیت ہے اور نہ مال و متاع کی کمی یا بیشی کی کوئی اہمیت ہے) بلکہ وہ تمہارے دلوں کو اور تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے (یعنی اس کے ہاں تو بس اس چیز کو دیکھا جاتا ہے کہ تمہارے دل میں یقین و صدق، اور اخلاص وغیرہ، یا نفاق اور ریا و سمعہ وغیرہ، اسی طرح اس کے نزدیک اچھے اور برے اعمال کا اعتبار جس کے مطابق وہ تمہیں جزا و سزا دیتا ہے۔ (مسلم

غیر مخلصانہ عمل کی کوئی اہمیت نہیں

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں شرک کے تئیں تمام شرکا سے نہایت زیادہ بے نیاز ہوں، یعنی دنیا کا دستور ہے کہ لوگ اپنے معاملات اور کاروبار میں ایک دوسرے کے اشتراک و تعاون کے محتاج ہوتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے شریک بنتے ہیں، نیز وہ اس شرکت و تعاون پر راضی و مطمئن بھی ہوتے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے درمیان اس درجہ کی مفاہمت ہوتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک شریک متعلقہ معاملات و کاروبار میں اپنا پورا عمل دخل رکھتا ہے، لیکن میرا معاملہ بالکل جداگانہ ہے کہ میں علی الاطلاق خالق و حاکم ہوں، اپنے احکام و فیصلے اور اپنے نظام قدرت میں نہ تو مجھے کسی کے تعاون و اشتراک کی حاجت و ضرورت ہے اور نہ مجھے یہ گوارا ہے کہ میرے بندے کسی کو میرا شریک قرار دیں، اور میرے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل میں میرے علاوہ کسی اور کو مد نظر رکھیں۔ یہاں تک کہ میرے نزدیک ان کے صرف اسی عمل کا اعتبار ہے جو وہ خالص طور پر میرے لئے کریں۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا ذکر شرکا کے ضمن میں کرنا یعنی خدا اپنے کو ایک شریک کے ذریعہ تعبیر کرنا محض ان بندوں کے اعتبار سے ہے جو اپنے جہل اور اپنی نادانی کی وجہ سے اس کی ذات و صفات اور اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتے اور اس طرح وہ خدا کو بھی ایک  شریک کا درجہ دیتے ہیں نعوذ باللہ اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے اس بات سے اپنی بے نیازی اور ناخوشی کا اعلان فرمایا کہ کسی کو اس کا شریک قرار دیا جائے، چنانچہ ارشاد ہوا کہ جو شخص میری طاعت و عبادت کے طور پر کوئی ایسا عمل کرے کہ جس میں وہ میرے ساتھ کسی دوسرے کو بھی شریک کرے تو میں اس شخص کو شرک کے ساتھ ٹھکرا دیتا ہوں۔ اور ایک روایت میں ترکتہ  وشرکہ کے بجائے یہ الفاظ ہیں فانا منہ بری ہو للذی عملہ یعنی جو شخص میری عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرتا ہے تو میں اس سے اپنی بے نیازی و بیزاری ظاہر کرتا ہوں، وہ شخص یا اس کا وہ عمل اسی کے لئے ہے جس کے لئے اس نے وہ عمل کیا ہے۔ (مسلم)

 

تشریح

 

 اس حدیث کا ظاہری مفہوم اس بات کو واضح کرتا ہے کہ خالص ریا کاری کے جذبہ سے کیا جانے والا عمل تو باطل ہو ہی جاتا ہے لیکن اس عمل کا بھی کوئی فوت ہو جاتا ہے جس میں ریا کی آمیزش اور اس کا دخل ہو جائے۔ لیکن علما نے کہا ہے کہ یہ حکم اس عمل کے بارے میں ہو گا جو ریا کی ان دو قسموں سے تعلق رکھے کہ یا تو اس عمل کو اختیار کرنے میں سرے سے ثواب کی نیت ہی نہ ہو یا ثواب کی نیت تو ہو مگر ریا کا قصد اس نیت پر غالب ہو اور یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس حدیث کا اصل مقصد خدا کے لئے کئے جانے والے کسی بھی عمل کو ریا کی آمیزش اور اس کے دخل سے پاک رکھنے کو بڑی اہمیت کے ساتھ بیان کرنا اور اس کے امر سے لاپرواہی اختیار کرنے والوں کو زیادہ سے زیادہ تنبیہ و سرزنش کرنا ہے۔

دکھانے سنانے کے لئے عمل کرنے والوں کے بارے میں وعید

حضرت جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص لوگوں کو سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کا حال لوگوں کو سنائے گا ذلیل و رسوا کرے گا نیز جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لئے کوئی عمل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو ریا کاری کی سزا دے گا یعنی قیامت کے دن اس سے کہے گا کہ اپنا اجر و ثواب اسی سے مانگو جس کے لئے تم نے وہ عمل کیا تھا۔ (بخاری و مسلم)

 

تشریح

 

 بعض حضرات نے کہا ہے کہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص کوئی نیک کام محض شہرت و ناموری اور حصول عزت وج اہ کے لئے کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس دنیا میں اس کے ان عیوب اور برے کاموں کو اپنی مخلوق کے سامنے ظاہر کر دے گا جن کو وہ چھپاتا ہے، اور لوگوں کی نظر میں اس کو ذلیل و رسوا کر دے گا، یا یہ کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی فاسد نیت اور بری غرض کو دنیا والوں پر آشکار کر دیتا ہے اور قیامت کے دن بھی اپنی مخلوق پر کھول دے گا کہ یہ شخص مخلص نہیں تھا، ریا کار تھا۔ اور بعض علما نے یہ مراد بیان کی ہے کہ جو شخص اپنا کوئی عمل لوگوں کو سنائے گا یا وہ عمل لوگوں کو دکھائے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے اس نیک عمل کا ثواب صرف اس کو سان اور دکھا دے گا، دے گا نہیں تاکہ وہ حسرت و افسوس زدہ رہے، یا یہ مراد ہے کہ جو شخص اپنا کوئی نیک عمل لوگوں کو سنائے گا، یا وہ عمل لوگوں کو دکھائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی نیت کے مطابق اس کا وہ عمل لوگوں کو سنا اور دکھا دے گا، اور گویا اس کے اس عمل کا یہی اجر و ثواب ہو گا جو اس کو اسی دنیا میں مل جائے اور آخرت کے اجر و ثواب سے قطعاً محروم رہے گا۔

کسی عمل خیر کی وجہ سے خود بخود مشہور ہو جانا ریا نہیں ہے

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ مجھے اس شخص کے بارے میں بتائیے جو کوئی نیک کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے لوگ اس کی تعریف ٍو توصیف کرتے ہیں۔ اور ایک روایت میں لوگ اس کی تعریف ٍو توصیف کرتے ہیں کے بعد یہ بھی ہے، کہ اور وہ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں (ایسے شخص کا کیا حکم ہے اس کا اجر و ثواب کالعدم ہو جاتا ہے یا نہیں؟) حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سوال سن کر فرمایا کہ لوگوں کا اس شخص کی تعریف ٍو توصیف کرنا اور اس کو محبوب رکھنا درحقیقت اس کے حق میں مومن کے ذریعہ جلد ملنے والی بشارت ہے۔ (مسلم

 

تشریح

 

  جلد ملنے والی بشارت کا مطلب یہ ہے کہ ایک سعادت و بشارت تو وہ ہے جو باقی ہے اور آخرت میں ملے گی اور ایک سعادت و بشارت یہ ہے کہ جو جلد ہی یعنی اسی دنیا میں مل گئی ہے۔ حاصل یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے اس عمل خیر کا اصل ثواب آخرت میں پانے سے پہلے ایک اور اجر و ثواب اسی دنیا میں یہ پا لیا کہ لوگوں نے اس کی تعریف ٍو توصیف کی اور اس کو اپنا محبوب قلب و نظر بنا لیا اور اس کے حق میں لوگوں کو یہ معاملہ گویا اس بات کی بشارت ہے کہ اس کا وہ عمل خیر مقبول ہو گیا اور وہ آخرت میں اجر و ثواب پائے گا۔

 بہرحال حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس ارشاد کے ذریعہ یہ واضح فرمایا کہ اس شخص کا وہ عمل خیر کہ جس کی وجہ سے وہ دنیا والوں کی نظر میں قابل احترام اور محبوب بنا ہے  ریا نہیں کہلائے گا کیونکہ اس کو اس عزت و احترام اور محبت کے حاصل ہونے میں اس کے اپنے قصد و ارادہ کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس عمل خیر کو اختیار کرنے میں اس کی نیت اور اس کا قصد و ارادہ، اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی اور ثواب آخرت کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا، یہ تو محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے اس شخص کو اس دنیا میں بھی مذکورہ سعادت کی صورت میں اجر و ثواب عطا فرما دیا۔

شرک و ریا کے بارے میں ایک وعید

حضرت ابو سعید بن فضالہ رضی اللہ عنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہ جس کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، لوگوں کو حساب اور جزا و سزا کے لئے جمع فرمائے گا، تو ایک اعلان کرنے والا فرشتہ یہ اعلان کرے گا کہ جس شخص نے اپنے اس عمل میں کہ جس کو اس نے خدا کے لئے کیا تھا، خدا کے سوا کسی اور کو شریک کیا ہو یعنی جس شخص نے دنیا میں ریا کے طور پر کوئی نیک عمل کیا ہو تو اس کو چاہئے کہ وہ اپنے اس عمل کا ثواب اسی غیر اللہ سے طلب کرے جس کو اس نے شریک کیا تھا کیونکہ خدا تعالی شرک کے تئیں، تمام شریکوں سے نہایت زیادہ بے نیاز ہے۔ (احمد)

 

تشریح

 

 طیبی کہتے ہیں لیوم میں حرف لام  جمع سے متعلق ہے جس کے معنی ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کو اس دن کے لئے جمع کرے گا کہ جس کا پیش آنا یقینی امر ہے اور اس دن کے آنے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اور یہ جمع کرنا اس کے لئے ہو گا کہ ہر ایک کو چیز کے مطابق جزا و سزا دے جس کو اس نے دنیاوی زندگی میں اختیار کیا۔ اس اعتبار سے یوم القیامۃ مابعد کے الفاظ کی تمہید کے طور پر ہے تاہم اس کو  جمع کا ظرف بھی قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس کی تائید اس روایت کے مطابق الفاظ سے ہوتی ہے جو استیعاب میں نقل کی گئی ہے کہ اذا کان یوم القیامۃ یجمع اللہ الاولین والاخرین لیوم لاریب فیہ الخ۔ اس صورت میں  لیوم کے لفظ کو ایسا مظہر کیا جائے گا جو مضمر کی جگہ واقع ہوا ہو اور جو اس مفہوم کو ظاہر کرتا ہے کہ جمع اللہ الخلق یوم القیامۃ لیجزیہم فیہ یعنی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مخلوق کو جمع فرمائے گا تاکہ اس دن سب کو جزا و سزا دے۔

ریا کاری کی مذمت

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ جو شخص اپنے عمل کو لوگوں کے درمیان شہرت دے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے اس  ریا کارانہ عمل کو اپنی مخلوق کے کانوں تک پہنچا دے گا۔ (یعنی جو شخص کوئی نیک کام کر کے لوگوں کو یہ سنائے گا کہ اس نے یہ کام کیا ہے، اور اس کے ذریعہ اس کا مقصد شہرت و عزت حاصل کرنا ہو گا اللہ تعالیٰ اس کی اس ریا کاری کو ظاہر کر دے گا اور لوگوں کے کانوں تک یہ بات پہنچا دے گا کہ یہ شخص ریا کار اور غیر مخلص ہے نیز (قیامت کے دن) اس کو رسوا کرے گا اور (دنیا و آخرت میں) ذلت و خواری سے دو چار کرے گا۔ اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

نیت کے اخلاص و عدم اخلاص کا اثر

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص کی نیت محض آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے دل کو غنی اور اس کی پریشانیوں کو جمع کر کے اطمینان خاطر بخشتا ہے نیز اس کے پاس دنیا آتی ہے لیکن اس کی نظر میں اس دنیا کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ یعنی کسی بھی علمی یا عملی کار خیر کو اختیار کرنے کے سلسلے میں جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، محض رضائے مولیٰ اور ثواب آخرت کی طلب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو قدر کفایت پر قانع و صابر بتا کر اور زیادہ طلبی کی محنت و مشقت کے کشت و رنج سے بچا کر قلبی غنا عطا کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ اس بات سے بے نیاز اور مستغنی ہو جاتا ہے کہ ریا کاری کے ذریعہ لوگوں سے مال و جاہ اور عزت و منفعت حاصل کر کے آخرت کا نقصان و خسران مول لے۔ نیز اللہ تعالیٰ حصول معاش اور ضروریات زندگی کی تکمیل کے سلسلے میں ان کی پریشانیوں، الجھنوں اور ذہنی انتشار و تفکرات کو سمیٹ کر خاطر جمعی میں تبدیل کر دیتا ہے، بایں طور کہ اس کو ایسی جگہوں اور ایسے ذرائع سے اسباب معیشت مہیا فرما دیتا ہے جن کے بارے میں اس کو معلوم بھی نہیں ہوتا، اور اس کے معاملات کو اس طرح استوار فرما دیتا ہے کہ اس کا وہم وگمان بھی اس کو نہیں ہوتا، اور پھر ان تمام چیزوں کا مجموعی اثر یہ ہے ہوتا ہے کہ اس شخص کی نظر میں دنیا اور دنیا بھر کی نعمتیں اور لذتیں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں، وہ دنیا سے دامن بچاتا ہے اور دنیا اس کے قدموں میں کھنچی چلی آتی ہے، اس کی ضروریات زندگی اور معیشت کے وہ اسباب جو اس کے لئے مقدر ہیں، بغیر کسی محنت و مشقت کے بغیر کسی سعی و کوشش کے، اور بغیر کسی ذلت و خواری کے اس کو حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ اور جس شخص کی نیت اور اصل مقصد، دنیا کی طلب ہو یعنی جس شخص پر دنیا اس حد تک سوار ہو جائے کہ وہ اعمال خیر کو بھی محض دنیا کے حصول کا واسطہ بنانا شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ اس کا فقر و احتیاج، اس کی آنکھوں کے سامنے پیش کر دیتا ہے (یعنی اللہ تعالیٰ اس کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ذلت و خواری میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ اپنے فقر و افلاس اور محتاجگی کو نظر آنے والی چیز کی طرح اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا ہے۔ اور اس کو ہر معاملہ میں پراگندہ خاطر اور ذہنی انتشار و تفکرات  کا شکار بنا دیتا ہے نیز دنیا بھی اس کو صرف اسی قدر ملتی ہے جتنا کہ خدا نے اس کے لئے مقدر کر دیا ہے (ترمذی) نیز احمد اور دارمی نے اس روایت کو ابان سے اور انہوں نے زید بن ثابت سے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ اعمال کے نتائج و آثار ہونے کا مدار نیت پر ہے، جس شخص کے پیش نظر صرف آخرت کا مفاد ہوتا ہے اور جو اپنے اعمال کے تئیں مخلص و صادق ہوتا ہے، وہ آخرت کی سعادتوں اور نعمتوں کا مستحق تو ہو ہی جاتا ہے، اس دنیا میں بھی اس کو اپنے تمام معاملات زندگی م یں اطمینان و عافیت اور خاطر جمعی کی دولت حاصل رہتی ہے، نیز اس کو اس کا رزق نہایت آسانی اور آسودگی کے ساتھ پہنچتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص محض دنیا کی طلب و چاہ رکھتا ہے اور اپنے اعمال کو وسیلہ آخرت بنانے کے بجائے دنیاوی مال و زر اور دنیاوی نعمتوں کا وسیلہ و ذریعہ بناتا ہے اس کو آخرت میں تو اس کی سزا بھگتنی ہو گی، اس دنیا میں بھی اس پر اس برائی کا یہ وبال پڑتا ہے کہ وہ خاطر جمع اور اطمینان و سکون کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے، ہر وقت طرح طرح کی پریشانیوں اور مختلف تفکرات کی وجہ سے حیران و سرگرداں رہتا ہے، نیز اس کو وہ رزق تو ضرور ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہے مگر اس کے حصول کے لئے بھی اس کو نہایت محنت و مشقت اور پریشانی و کشت برداشت کرنا پڑتی ہے۔

اخروی مقاصد کے لئے اپنے کسی نیک عمل کی شہرت پر خوش ہونا ریا نہیں ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اپنے گھر میں مصلیٰ پر نماز پڑھ رہا تھا کہ اس وقت اچانک ایک شخص میرے پاس آیا، مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ اس نے مجھے نماز پڑھنے کی حالت میں دیکھا ہے تو کیا اس وقت میرا خوش ہونا ریا میں شمار ہوا یا نہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ابو ہریرہ ! تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو، تم دو ثواب کے مستحق ہوئے ایک تو پوشیدہ کا، اور دوسرا ظاہر ہونے کا۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

 

تشریح

 

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جو اس بات سے خوش ہوئے کہ اس شخص نے ان کو نماز کی حالت میں دیکھا، تو اس کا سبب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ پاکیزہ جذبہ تھا کہ مجھے نماز پڑھتا ہوا دیکھ کر اس میں بھی اس وقت کی نماز کے تعلق سے میری اتباع کا داعیہ پیدا ہو گا اور یہ شخص بھی اسی طرح نماز پڑھے گا جس طرح میں پڑھ رہا ہوں، یا ان کی خوشی کا سبب یہ تھا کہ ان کی حالت نماز گویا ایک شخص کے سامنے نیکی کے راستہ کے اظہار و اعلان کا باعث بنی اور اس شخص کو اس وقت کی نماز کی طرف راغب کرنے کا ذریعہ بنی، اور جیسا کہ فرمایا گیا ہے۔ من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہا واجر من عمل بہا انہی بجا طور پر یہ خوش کن توقع ہوئی کہ جب یہ شخص نماز پڑھ لے گا تو اس کی نماز کا مجھے بھی ثواب ملے گا۔ لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ اس موقع پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا خوش ہونا اس طبعی خواہش کی تکمیل کے تئیں تھا جو شریعت کی نظر میں بھی پسندیدہ ہے یعنی ہر انسان کی طبعی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جب اس کو کوئی دیکھے تو وہ اچھی حالت میں ہو کوئی بھی شخص یہ پسند نہیں کرتا کہ وہ بری حالت میں دیکھا جائے اور ظاہر ہے کہ اس طبعی خواہش کی بنیاد ریا و سمعہ پر نہیں ہوتی بلکہ قلب سلیم کے تقاضہ اور پاکیزگی خیال پر ہوتی ہے پس یہ بات اس ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عین مطابق ہے کہ من سرتہ حسنتہ وسائتہ سیئتہ فہو مومن نیز حق تعالیٰ کا ارشاد ہے آیت(قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا ہو خیر ممایجمعون)۔ لہٰذا مومن کی شان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ نیک اعمال و احوال کی توفیق حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے جس طرح کہ غیر مومن بہت زیادہ دنیاوی مال و زر حاصل ہونے پر خوش ہوتا ہے ایک بات یہ بھی کہی جا سکتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا خوش ہونا اس احساس شکر کے طور پر تھا کہ اس شخص کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان عبادت و توفیق کے ساتھ متعارف ہوا اور ایک نمازی کے طور پر جانا پہچانا گیا، ان لوگوں کے زمرہ میں شمار ہونے کا موقع نصیب ہوا، جو نماز جیسی اہم عبادت اور اسلام کے سب سے بڑے رکن کو قائم کرتے ہیں اور ایک مسلمان اس بات کا گواہ بنا۔ یہ قول حدیث کے الفاظ اجر السر واجر العلانیۃ کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے۔

ریا کار دین داروں کے بارے میں وعید

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ (میں تمہیں بتاتا ہوں) کہ اخیر زمانہ میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو دین کے نام پر دنیا کے طلب گار ہوں گے (یعنی دینی و اخروی اعمال کے ذریعہ دنیا کمائیں گے از راہ تملق و چاپلوسی اور اظہار تواضع لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے دنبوں کی کھال کا لباس پہنیں گے (تاکہ لوگ انہیں عابد و زاہد، دنیاوی نعمتوں سے بے پرواہ اور آخرت کے طلبگار سمجھ کر ان کے مرید و معتقد ہوں) ان کی زبانیں تو شکر سے زیادہ شیریں ہوں گی لیکن ان کے دل بھیڑیوں کے دل کی طرح ہوں گے (یعنی ان کی باتیں تو بڑی خوشگوار من پسند اور نرمی و ملائمت سے بھر پور ہوں گی اور ان کی تقریر و گفتگو سن کر لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ ہمارے بڑے ہمدرد و بہی خواہ اور غم خوار دوست ہیں اور ان کے دل میں دین و ملت کا بہت درد ہے، لیکن حقیقت یہ ہو گی کہ اپنے ذاتی اغراض و منافع کے لئے دوستی و دشمنی کرنے اور اہل تقویٰ اور دین و ملت کے حقیقی خدمت گاروں کو نقصان و تکلیف پہنچانے، اور دیگر بہیمانہ و حیوانی خصلتوں میں ان کے دل بھیڑیے کے دل کی طرح سخت اور شقی ہوں گے) اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے  لئے فرماتا ہے۔ کیا یہ لوگ میری طرف سے مہلت دئیے جانے اور میرے ڈھیل دینے کے سبب سے مغرور ہو گئے ہیں، اور فریب میں مبتلا ہیں (یعنی کیا یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ میں ان کا معین و مددگار ہوں اور اس دنیا میں جو کامرانیاں اور کامیابیاں نصیب ہیں وہ ان پر میری رحمت کے نازل ہونے کی بنا پر ہیں؟ کیا ان کو معلوم نہیں کہ ہم اس قسم کے لوگوں کو اسی طرح ڈھیل دیا کرتے ہیں یا اس جگہ  اغترا  سے مراد اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنا اور اپنے افعال بد سے توبہ نہ کرنا ہے اس صورت میں  یخترون کے معنی یہ ہوں گے کہ یہ لوگ میرے غضب اور میرے عذاب سے نہیں ڈرتے، اور کیا ان میں اتنی جرات ہو گی ہے کہ اعمال صالح کے ذریعہ اور دین کے نام پر لوگوں کو دھوکا دے کر گویا میری مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقیناً ان لوگوں پر انہیں میں سے فتنہ وبلا مسلط کر دوں گا (یعنی انہیں لوگوں میں سے ایسے امرا و حکام اور ایسے افراد و گروہ متعین کر دوں گا جو ان کو آفات و مصائب اور طرح طرح کے نقصان و ضرر میں مبتلا کر دیں گے۔ اور وہ آفات مصائب بڑے سے بڑے دانشور عقلمند شخص کو بھی ان آفات مصائب کو دور کرنے، ان پر آشوب حالات سے گلو خلاصی پانے اور ان کے سلسلے میں کسی مناسب و موزوں اقدام و کاروائی کرنے سے  عاجز و حیران کر دیں گے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

یختلون (خا کے جزم اور تا کے زیر کے ساتھ) کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ ان اعمال کے ذریعہ کہ جو آخرت کے لئے کئے جاتے ہیں، دنیا حاصل کریں گے۔ یا یہ کہ وہ لوگ دین کے بدلہ میں دنیا کمائیں گے، اور دینی و اخروی مفاد و مصالح پر دنیاوی اور مادی مفاد و منافع کو ترجیح دیں گے۔ اور زیادہ صحیح معنی یہ ہوں گے کہ وہ لوگ دین کا لبادہ اوڑھ کر دنیا والوں کو دھوکا دیں گے، بایں طور کہ وہ دنیا کمانے کی خاطر اپنی ظاہری وضع قطع اور اپنے ظاہری اعمال و اخلاق کا ایسا دلفریب مظاہرہ کریں گے کہ دنیا والے ان کو سچا عابد زاہد اور دین و ملت کا مخلص بہی خواہ سمجھ کر ان کے ساتھ عقیدت و محبت رکھیں گے اور سادہ لوح مسلمان ان کے مرید و معتقد بن کر ان کی مراد پوری کریں گے۔ مثلاً وہ نماز، روزہ اور دیگر عبادات کے پابند نظر آئیں گے، اور اوراد وظائف ذکر و شغل کی محفلیں سجائیں گے، اپنے اردگرد زہد و تقویٰ کی دیواریں کھڑی کئے نظر آئیں گے، موٹے جھوٹے کپڑوں کا لباس پہنیں گے۔ دینداروں کی سی شکل و صورت بنائیں گے ان کی تحریر و تقریر، دین و آخرت کی تلقین و  تعلیم موعظت و نصیحت کی باتوں، ملت کی بھی خواہی مسلمانوں کے مفاد اور باہمی ہمدردی و غمگساری سے پر نظر آئے گی، لیکن یہ تمام چیزیں صدق و اخلاص سے خالی ریا و سمعہ کے طور پر ہوں گی، جن کا واحد مقصد مسلمانوں کو بے وقوف بنا کر دنیا سمیٹنا، اور صرف ذاتی منافع حاصل کرنا ہو گا۔

 پس ایسے لوگوں کی اس ریا کارانہ زندگی کے خلاف یہ خدائی تنبیہ بیان فرمائی گئی کہ انہیں اس گھمنڈ میں ہرگز نہ رہنا چاہئے کہ ان کی یہ دھوکا کی ٹٹی ہمیشہ ہمیشہ رہے گی اور وہ اپنی اس ریا کارانہ زندگی کی سزا اسی دنیا میں نہیں بھگتیں گے۔ خدا قسم کھا کر کہتا ہے کہ میں ان لوگوں کو ضرور مزا چکھاؤں گا، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ میرا غضب و  قہر ان پر یقیناً نازل ہو گا، میں ان پر ایسے امرا و حکام مسلط کر دوں گا اور انہیں میں سے کچھ ایسے لوگ اور گروہ کھڑے کر دوں گا، جو ان کی ناؤ کو آفات و مصائب، ذلت و خواری، اور تباہی و بربادی کے بھنور میں ڈال دیں گے ان کی ریا کارانہ زندگی کا پردہ چاک کریں گے اور ان کو ایسے ایسے فتنوں میں مبتلا کریں کہ وہ نجات کا کوئی راستہ نہیں پائیں گے، وہ اپنی اس خود ساختہ شان و شوکت، عزت و عظمت اور جاہ و منصب کو بچانے کے لئے جس قدر ہاتھ پاؤں ماریں گے اسی قدر ذلت و رسوائی اور تباہی و بربادی کے حلقے ان کے گرد تنگ ہوتے جائیں گے، اور بڑے بڑے دانشور، عقلمند لوگ بھی ان آفات و مصائب سے گلو خلاصی کا کوئی ذریعہ نہیں نکال پائیں گے۔

 

 

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایک ایسی مخلوق پیدا کی ہے جس کی زبان شکر سے زیادہ شیریں ہے، اور جس کے دل ایلوے سے زیادہ تلخ ہیں، پس میں اپنی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں یقیناً ان پر ایسی بلائیں نازل کروں گا جو بڑے سے بڑے دانشور عقلمند شخص کو بھی حیران و عاجز بنا دیں گے، تو کیا وہ لوگ مجھے دھوکہ دیتے ہیں، یا مجھ پر جرات و دلیری دکھاتے ہیں؟ ترمذی نے اس روایتوں کو نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

میانہ روی کی فضیلت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ہر چیز کے لئے حرص و زیادتی ہے اور پھر حرض و زیادتی کے لئے سستی و سبکی ہے۔ پس اگر عمل کرنے والے نے میانہ روی سے کام لیا اور اعتدال کے قریب رہا اور اس نے افراط و تفریط سے اجتناب کیا تو اس کے بارے میں امید رکھو کہ وہ اپنی مراد پا لے گا اور اگر اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا گیا (یعنی اس نے طاعت و عبادت اور اوراد وظائف کی مشغولیت اور دنیاوی نعمتوں و لذتوں میں اجتناب میں اس لئے مبالغہ و کثرت کو اختیار کیا کہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور ہو، اور پھر وہ لوگوں میں عابد و زاہد مشہور بھی ہو گیا) تو تم اس کو عابد و زاہد اور صالح شمار نہ کرو کیونکہ درحقیقت وہ ریا کاروں میں سے ہے۔ (ترمذی)

 

تشریح

 

شرۃ کے معنی ہیں نشاط رغبت اور حرص میں مبتلا ہونا یہاں حدیث میں اس لفظ سے مراد کسی چیز میں افراط اور کسی کام میں حد سے زیادہ انہماک ہے اور  فترۃ کے معنی ہیں سستی و کمزوری اور کمی۔ مطلب یہ ہے کہ جو عابد ابتدا طاعت و عبادت اوراد وظائف وغیرہ میں حد سے زیادہ مشغول و منہمک رہتا ہے وہ بعد میں سست و کمزور ہو جاتا ہے اور اس کی طاعت و عبادت وغیرہ کم ہو جاتی ہے۔ اس بات کو اصولی انداز میں زیادہ وضاحت کے ساتھ یوں بیان کیا جا سکتا ہے کہ کوئی انسان جب کسی چیز کو اختیار کرنا چاہتا ہے اور کوئی کام کرتا ہے تو شروع میں بہت زیادہ استغراق انہماک دکھاتا ہے اور اس قدر ذوق و شوق بلکہ حرص و لالچ میں مبتلا ہوتا ہے کہ اپنی بساط سے بڑھ کر محنت و مشقت اور اپنی طاقت و ہمت سے زیادہ مشغولیت اختیار کرتا ہے اور پھر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں جلد ہی سست و کمزور پڑ جاتا ہے اور اپنے مقصد کی راہ میں تھکن و بے دلی کا شکار ہو جاتا ہے۔ پس اگر کوئی عابد و زاہد اپنے اعمال و اشغال میں میانہ روی اختیار کرے اور افراط و تفریط کی راہ سے بچ کر اعتدال کی راہ پر کہ جس کو صراط مستقیم کہا جاتا ہے گامزن رہے تو اس کے بارے میں بجا طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ہو جو کامل طور پر مراد پانے والے ہیں۔ لیکن اگر وہ افراط کی راہ پر چلا اور اس نے عبادت و طاعت اور دینی اعمال و اشغال میں اس حد تک غور کیا اور اپنی بے دینی زندگی کو اس طرح نمایاں کیا کہ وہ عابد و زاہد مشہور ہو گیا اور لوگ اس کی عبادت گزاری اور زہد و تقوی کی طرف اشارہ کرنے لگے تو اس کی طرف کوئی التفات نہیں کرنا چاہئے، اور اس کو نیک و صالح نہ سمجھنا چاہئے۔

 واضح رہے کہ لفظ فارجوہ (اس کے بارے میں امید رکھو) اور لفظ ولاتعدوا اس کو عابد و زاہد شمار نہ کرو کے ذریعہ ان دونوں قسم کے لوگوں کی عافیت کی طرف ایک مبہم اشارہ مقصود ہے کیونکہ کسی شخص کے اخروی انجام کا حقیقی علم بس اللہ تعالیٰ ہی کو ہو سکتا ہے اس کے بارے میں کوئی انسان آخری فیصلہ نہیں کر سکتا لہٰذا مذکورہ الفاظ کے ذریعہ یہ حدیث صرف یہ بتانا چاہتی ہے کہ جو شخص میانہ روی کا راستہ اختیار کرتا ہے صحیح عمل کرتا ہے اور راہ راست سے بھٹکتا نہیں تو بظاہر اس کے بارے میں یہ امید رکھنی چاہئے کہ اس کی عاقبت سدھر گئی اور وہ نجات پا جائے گا اور اگر وہ ایسا نہیں کرے گا بلکہ افراط و تفریط کی راہ پر چل کر دنیاوی عزت و جاہ کا طلبگار ہوتا ہے اور گندم نما جو فروشی کا شیوہ اپنا کر فتنہ و فساد کے بیج بوتا ہے تو ظاہر میں اس کو فلاح یاب نہ سمجو اور اس کا شمار مخلص دینداروں میں نہ کرو۔ رہی عاقبت کی بات تو وہاں کا انجام دونوں صورتوں میں غیر واضح ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ خاتمہ کس حالت میں ہو اور آخرت میں کیا معاملہ ہو گا

حکم مستوری ومستی ہمہ برخاتمہ است کس ندانست کہ آخر بچہ حالت گزرد

 اگرچہ عاقبت کے بارے میں بھی امید یہی رکھنی چاہئے کہ رحمت باری نے جس جس شخص کو اطاعت و عبادت کی توفیق بخشی ہے اور راہ مستقیم پر گامزن کیا ہے اس کی عاقبت ضرور سنورے گی اور اس کا خاتمہ یقیناً ایمان و اخلاص پر ہو گا اس کی رحمت کاملہ کا ستور یہی ہے کہ نیکوکاروں کو بری راہ پر کم ہی لگایا جا سکتا ہے جب کہ اکثر یہی ہوتا کہ بدکاروں کو بالآخر نیکی کی طرف کھینچ لیا جاتا ہے۔

شہرت یافتہ زندگی پر خطر ہے

حضرت انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ انسان کی برائی کے لئے اتنا کافی ہے کہ دین یا دنیا کے اعتبار سے اس کی طرف انگلیوں سے اشارہ کیا جائے۔ الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ ہی محفوظ رکھے۔ (بیہقی)

 

تشریح

 

دنیاوی اعتبار سے مشہور و معروف ہونا تو ظاہر ہے کہ آفتوں اور فتنوں میں مبتلا ہو جانے اور ایمانی امن و  سلامتی کی راہ سے دور جا پڑنے کا سبب ہے ہی، لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی کے اعتبار سے مشہور و معروف ہوتا ہے تو وہ بھی خطرہ سے خالی نہیں، کیونکہ اس صورت میں اس کے ریا کار ہونے کا گمان کیا جا سکتا ہے، اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس شہرت کی وجہ سے اپنی قیادت و پیشوائی کی طلب و جاہ میں مبتلا ہو جائے یہ تمنا کرنے لگے کہ لوگ اس کو اپنا مقتدا اور اپنی عقیدت و احترام کا مرکز بنا لیں اور اس طرح وہ شیطان کے بہکانے اور نفس امارہ کے اکسانے کی وجہ سے ان نفسانی خواہشات کی اتباع میں مبتلا ہو سکتا ہے جو ایسے موقعوں کی تاک میں رہتی ہیں۔ چنانچہ ایسے بندگان خدا کم ہی ہوتے ہیں جنہیں عوامی شہرت و ناموری حاصل ہوئی اور وہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہو جانے والی برائیوں سے محفوظ و مامون رہے، ہاں وہ بندگان خدا خاص کر جنہیں اللہ تعالیٰ اپنا مقرب و محبوب بنا لیتا ہے اور وہ صدیقیت کے مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں وہ تمام عالم کی شہرت و ناموری رکھنے کے باوجود اس کی برائیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ اس بلند ترین مرتبہ پر فائز ہی اس وقت ہوتے ہیں جب کہ ان کے ظاہر و باطن سے تمام برائیاں مٹ چکی ہوتی ہیں اور ان کا نفس پوری طرح پاکیزہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ مشائخ کرام کہتے ہیں کہ آخر مایخرج من راس الصدیقین حب الجاہ۔ لہٰذا انسان کی بھلائی و بہتری اسی میں ہے اور ایمان و کردار کی سلامتی و حفاظت اسی صورت میں زیادہ ممکن ہے جب کہ وہ گوشہ نشینی و گمنامی اور یکسوئی کی زندگی کو شہرت کی زندگی پر ترجیح دے۔

  الاّ یہ کہ کسی کو اللہ تعالی ہی محفوظ رکھے حدیث کے اس جملہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ شہرت و ناموری کا نقصان دہ اور برائی کا باعث ہونا اس شخص کے حق میں ہے جس کے ظاہر و باطن پر جاہ و اقتدار اور شہرت و ناموری کی طلب و خواہش کا سکہ رواں ہو، ورنہ تو بندگان خدا اس طلب و خواہش سے محفوظ و مامون اور اپنے ظاہر و باطن کے اعتبار سے مخلص پاکباز ہوتے ہیں وہ اس بات سے مستثنیٰ ہیں، کیونکہ عوامی مقبولیت و شہرت اور جاہ و اقتدار بذات خود کوئی بری چیز نہیں ہیں بلکہ خدا کی وہ نعمت ہیں جو وہ اپنے پاک نفس بندوں کو عطا فرماتا ہے جو ان چیزوں کے اہل و مستحق ہوتے ہیں اور جن کے حق میں وہ چیزیں فتنہ و برائی کا باعث بننے کی بجائے بلندی درجات کا باعث بنتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اپنے بندگان خاص کی نسبت سے یہ فرمایا ہے کہ آیت(واجعلنا للمتقین اماما)

 منقول ہے کہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ کی بے پناہ عوامی شہرت و مقبولیت دیکھ کر ایک شخص نے ان سے کہا کہ آپ تو لوگوں میں اس قدر مشہور و نمایاں ہو گئے ہیں۔ جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تو یہ فرمایا ہے کہ بحسب امری من الشر الخ۔ حضرت حسن بصری نے جواب دیا کہ ارشاد گرامی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق اس شخص سے ہے جو دین کے اعتبار سے بدعتی اور دنیا کے اعتبار سے فاسق ہو (یعنی جو شخص دنیا میں مالداری و ثروت رکھتا ہے اور اس مالداری و ثروت کی وجہ سے مشہور معروف ہو، لیکن فسق و فجور میں مبتلا نہ ہو اور دین کے اعتبار سے کتاب و سنت کی اتباع و پیروی کرتا ہو تو وہ شخص اس حکم میں داخل نہیں ہے۔ جو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد گرامی سے واضح ہوتا ہے۔

سمعہ کی مذمت

حضرت ابو تمیمہ تابعی رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کی مجلس میں اس وقت حاضر ہوا کہ جب مشہور اور جلیل القدر صحابی حضرت جندب رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن سفیان بجلی حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں کو ریاضت و مجاہدہ کی راہ مستقیم اختیار کرنے یا کثرت کے ساتھ عبادت کرنے یا طاعت میں میانہ روی اختیار کرنے اور یا سمعہ و ریا اور حصول شہرت کی طلب و خواہش سے احتراز و اجتناب کرنے کی نصیحت فرما رہے تھے۔ پھر حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے ان سے کہا کہ کیا آپ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ سنا ہے؟ (یعنی اگر آپ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی کوئی حدیث سنی ہے تو اس کو ہمارے سامنے بیان فرمائیے اور ہمیں ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہرہ مند ہونے کا موقع دیجئے۔

 حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ۔ جو شخص سنائے گا (یعنی لوگوں کے سنانے اور شہرت حاصل کرنے کے لئے جو کوئی نیک کام کرے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو رسوا کرے گا۔ اور جو شخص مشقت میں ڈالے گا (یعنی اپنی ہمت و طاقت سے بڑھ کر کوئی کام کرنے کی صورت میں اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرے گا یا کسی دوسرے شخص مثلاً اپنے خادم یا نوکر چاکر وغیرہ کو کسی ایسے کام پر مامور کر کے، کہ جو اس کی ہمت و طاقت سے باہر ہو، ناقابل برداشت محنت و مشقت کی اذیت میں مبتلا کرے گا)۔تو اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کے دن مشقت میں ڈالے گا۔ یہ سن کر انہوں نے (یعنی صحابہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یا حضرت صفوان اور ان کے ساتھیوں نے حضرت جندب سے کہا) کہ ہمیں کچھ اور نصیحت فرمائیے تو (حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یا حضرت جندب نے) فرمایا۔ انسان کی جو چیز سب سے پہلے گندی اور خراب ہوتی ہے وہ اس کا پیٹ ہے (یعنی جو چیز انسان کو سب سے پہلے زیادہ برائی میں مبتلا کرتی ہے سب سے پہلے دوزخ کی آگ کا مستوجب بناتی ہے اور آخرت میں سب سے پہلے دوزخ میں جانے اور عذاب بھگتنے کا باعث بنے گی وہ اس کا پیت ہے پس جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس چیز کے علاوہ اور کچھ اپنے پیٹ میں نہ پہنچائے جو حلال و جائز ہے تو بے شک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے اور جو شخص اس کی قدرت رکھتا ہو کہ اس کے اور جنت کے درمیان ناحق بہایا جانے والا ایک چلو خون حائل ہو تو بے شک اس کو ایسا ہی کرنا چاہئے کہ کسی کا ایک چلو بھی ناحق خون بہانے سے احتراز کرے۔ (بخاری)

 

تشریح

 

حدیث کے آخری جزو کا مطلب یہ ہے کہ ناحق خونریزی ایک ایسی چیز ہے کہ جس کا زیادہ ہونا تو کجا اگر ایک چلو کے بقدر بھی ہو تو جنت میں جانے سے روکنے والی ہے پس یہ بات عقل دانائی سے بعید تر ہے، یکہ ایسے برے اور قابل نفرین فعل کا ارتکاب کیا جائے جو انسانیت کے منافی نہیں ہے بلکہ جنت میں داخل ہونے جیسی عظیم و اہم سعادت سے محروم رکھنے والا بھی ہے۔

 بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ  حضرت صفوان سے مراد صفوان بن سلیم زہری ہیں جو مدینہ کے ایک نہایت جلیل القدر تابعی تھے اور جن کی شخصیت، علم و معرفت، کردار و عمل، زہد و تقوی اور عبادت و ریاضت کا ایک مثالی نمونہ تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے چالیس برس تک اپنا پہلو زمین سے نہیں لگایا اور عبادت گزاری کا یہ عالم تھا کہ سجدوں کی کثرت سے ان کی پیشانی میں سوراخ ہو گیا تھا، ان کے حالات میں یہ لکھا ہے کہ وہ امرا و سلاطین کا کوئی بھی انعام و اکرام قبول نہیں کرتے تھے۔ غرضیکہ ان کے بہت زیادہ فضائل و مناقب بیان کئے جاتے ہیں۔

ریا کاری شرک کے مترادف ہے

امیرالمومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مسجد شریف (یعنی مسجد نبوی) میں تشریف لے گئے تو انہوں نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی قبر مبارک کے پاس بیٹھ کر روتا ہوا پایا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کیوں رو رہے ہو؟ (کیا حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جدائی رلا رہی ہے یا کسی آفت و مصیبت کے پیش آ جانے کی وجہ سے رو رہے ہو اور یا ان کے علاوہ کسی اور سبب نے تمہیں رونے پر مجبور کر دیا ہے؟) حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔ مجھے ایک بات کی یاد نے رلا دیا ہے جس کو میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا تھا میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تھوڑا ریا بھی شرک ہے۔ (نیز آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ بھی فرمایا کہ) جس شخص نے خدا کے دوست سے دشمنی اختیار کی (یعنی اولیا اللہ کو اپنے کسی قول و فعل کے ساتھ ناحق تکلیف پہنچائی یا ان کو غصہ دلایا) تو اس نے گویا خدا سے مقابلہ کیا اور اس کے ساتھ جنگ کی اور ظاہر ہے کہ جس شخص نے خدا کے ساتھ مقابلہ آرائی کی اس کی تباہی و بربادی اور ذلت و رسوائی میں کوئی شبہ نہیں یقیناً اللہ تعالیٰ نیکوکاروں، پرہیزگاروں اور مخفی حال لوگوں کو دوست رکھتا ہے۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی ظاہری حالت تو اتنی خستہ اور عام نگاہوں میں اس قدر ناقابل توجہ ہوتی ہے کہ جب وہ نظروں سے غائب ہوں تو ان کو پوچھا نہ جائے، اور جب موجود ہوں تو انہی کسی دعوت و مجلس میں بلایا نہ جائے۔ اور اگر وہ بلائے بھی جائیں تو پاس نہ بٹھائے جائیں۔ لیکن باطنی و روحانی طور پر ان کا مقام بہت بلند ہوتا ہے چنانچہ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں جن کے نور سے راہ راست پائی جاتی ہے اور یہ لوگ ہر تاریک زمین سے نکل کر آتے ہیں (اس روایت کو ابن ماجہ نے اور شعب الایمان میں بیہقی نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

  تھوڑا ریا بھی شرک ہے کا مطلب یہ ہے کہ ریا کاری اگر معمولی درجہ کی بھی ہو تو وہ بھی ایک بڑا شرک ہے۔ یا یہ کہ تھوڑا ریا شرک کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ اور یہ چیز انسانی جبلت میں اس طرح پوشیدہ طور پر گھر کئے ہوئے کہ اچھے اچھے لوگ اور مضبوط و پختہ ایمان والے بھی اپنے اعمال میں اس کی دخل اندازی کو پہچان نہیں پاتے اور کم ہی لوگ اس سے محفوظ رہتے ہیں، لہٰذا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے رونے کا ایک سبب تو اسی چیز کو بتایا کہ مجھ پر یہ خوف طاری ہے کہ کہیں غیر معلوم طور سے میرے اعمال پر بھی اس برائی کا سایہ نہ ہو، دوسرا سبب انہوں نے اولیا اللہ کی ایذا رسانی بتایا، یعنی انہوں نے گویا یہ بیان کیا کہ اکثر اولیا اللہ اپنی اصل حیثیت اور حقیقت کے اعتبار سے عام نگاہوں سے پوشیدہ رہتے ہیں، اور اپنی ظاہری حالت میں وہ ایک بہت معمولی درجہ کے مسلمان نظر آتے ہیں، ان کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ وہ کس بلند مقام پر فائز ہیں، اور خدا کی نظر میں ان کی کتنی بڑی حیثیت ہے، جیسا کہ ایک حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اولیائی تحت قبائی لایعرفہم غیرہم اور ظاہر ہے کہ کوئی انسان اس بات سے خالی نہیں کہ وہ کسی مسلمان بھائی کے ساتھ کبھی بھی کوئی ایسی بد زبانی نہ کرے جو گناہ کا باعث ہوتی ہے، لہٰذا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ میں اس خوف سے رو رہا ہوں کہ مبادا میں نے کسی مسلمان بھائی کے ساتھ قولاً یا فعلاً کوئی ایسا رویہ اختیار کیا ہو جو اس کے لئے اذیت کا باعث بن گیا ہو اور اس کی وجہ سے میں نے خدا کی ناراضگی مول لے لی ہو، گویا یہاں ومن عادی اللہ ولیا کے یہی معنی مراد لئے گئے ہیں۔

  نیکو کاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیکی کرتے ہیں اور نیکی کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنا اور اس کی مخلوق کے ساتھ اچھا سلوک اور احسان کرنا۔ چنانچہ اسی لئے بعض عارفین نے یہ کہا ہے کہ دین کا مدار احکام خداوندی کو اعتقاد اور عملاً سب سے اہم اور قابل احترام جاننے اور مخلوق خداوندی کے ساتھ شفقت و محبت سے پیش آنے پر ہے۔

  پرہیز گاروں سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہر طرح کے شرک سے بچتے ہیں خواہ وہ شرک جلی ہو یا خفی شرک ہو، اور ہر اس چیز سے اجتناب و پرہیز کرتے ہیں جس کو خدا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ممنوع و حرام قرار دیا ہے، یا جو شریعت کی نظر میں نہایت ناپسندیدہ اور نہایت نامناسب ہے۔

  مخفی لوگوں  سے خدا کے وہ پاک نفس بندے مراد ہیں جو ظاہری وجہ، وضع قطع اور رہن سہن کے اعتبار سے نہایت خستہ حالت میں رہتے ہیں اور معاشرہ کے لوگ دنیا دار ان کو بہت کمزور و حقیر جانتے ہیں مگر اپنے کردار و اخلاق باطنی احوال اور روحانی عظمت کے اعتبار سے نہایت بلند و بالا درجہ پر فائز ہوتے ہیں یا وہ اہل اللہ مراد ہیں جو دنیا داروں کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں اور ان کے درمیان رہن سہن نہیں رکھتے۔

  ان اللہ الخ سے یہ جملہ استیناف ہے اور اس کے ذریعہ گویا  ولی کی حقیقت بیان کرنا مقصود ہے چنانچہ پہلے تو نیکی، پرہیزگاری اور اخفائے حال کی صفات کے ذریعہ اولیا اللہ کی حقیقت بیان کی گئی اور پھر دنیا والوں کے تعلق سے ان اولیا اللہ کے تین احوال بیان کئے گئے کہ جب وہ کہیں باہر چلے جاتے ہیں اور سفر میں ہوتے ہیں تو کسی تقریب و مجلس آرائی کے وقت ان کی تلاش و جستجو نہیں ہوتی اور ان کا کوئی انتظار نہیں کیا جاتا، جب وہ موجود ہوتے ہیں تو ان کو اس مجلس و تقریب میں بلایا نہیں جاتا، اور اگر وہ اس تقریب و مجلس میں جاتے ہیں تو ان کو اہل مجلس نہ صرف یہ کہ کوئی اہمیت و وقعت نہیں دیتے بلکہ اپنے قریب بیٹھنے بھی نہیں دیتے اور انہیں پیچھے کہیں دور بٹھلا دیتے ہیں۔ یہ گویا اس روایت کی تفصیل ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ رب اشعث اغبر لایعبا بہ لواقسم علی اللہ لابرہ۔ یعنی بعض ایسے لوگ بھی ہیں بظاہر پراگندہ بال و غبار آلودہ خستہ حال ہوتے ہیں اور ان کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی لیکن خدا کے نزدیک وہ اتنا بلند مرتبہ رکھتے ہیں کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ پر اعتماد کر کے قسم کھا لیں تو یقیناً اللہ تعالیٰ ان کی قسم کو سچا اور پورا کرے۔

  ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں یعنی وہ پاک نفس لوگ راہ ہدایت کے مشعل بردار ہیں کہ وہ رہبری و پیشوائی کی اہلیت رکھتے ہیں اور ان کی اتباع کرنا راہ ہدایت پانے کی ضمانت ہے، پس وہ اس بات کے پوری طرح مستحق ہیں کہ ان کا لحاظ رکھا جائے اور وہ اس لائق ہیں کہ ان سے راہ ہدایت و راستی کی روشنی حاصل کی جائے۔

  ہر تاریک زمین سے نکل کر آتے ہیں کے ذریعہ ان لوگوں کی مفلسانہ طرز زندگی، ان کے مکانات کی تیرگی و تاریکی اور خراب حالت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یعنی وہ لوگ اتنے مفلس و تہی دست ہوتے ہیں کہ اپنے گھر میں چراغ جلانے اور اپنے مکانات کو معمولی درجہ کا بھی قابل آسائش بنانے کے لئے اپنے پاس کچھ نہیں رکھتے۔

 اس حدیث میں یہ تنبیہ پوشیدہ ہے کہ اگر کسی عالم و صالح اور متقی شخص کی ظاہری حالت خراب و خستہ ہو تو ان کی ظاہری خستہ حالی اور ان کے لباس وغیرہ کی کہنگی و بوسیدگی سے دھوکہ نہ کھانا چاہئے اور ان کی تعظیم و توقیر اور ان کے ادب و احترام کو ترک کر دینے کی غلطی نہ کرنی چاہئے کیونکہ کسی کے ظاہر کو دیکھ کر کوئی کیا اندازہ کر سکتا ہے کہ اس کا باطن درست ہے یا نہیں

خاکسار ان جہاں را بحقارت منگر

توچہ دانی کہ دریں گرد سوارے باشد

 نیز یہ حدیث بھی اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ محض فقر و افلاس، اور دنیاوی بے حیثیتی، کوئی فضیلت نہیں ہے جب تک کہ تقویٰ و پرہیز گاری اور باطن کی نورانیت حاصل نہ ہو۔

 آخر میں ایک بات یہ بھی بتا دینی ضروری ہے کہ  ولی اصل میں اس شخص کو کہتے ہیں جو متقی و پرہیز گار ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت(ان اولیاۂ الاّ المتقون) (یعنی اللہ تعالیٰ کے ولی وہی لوگ ہیں جو متقی و پرہیز گار ہوں) نیز شرع عقائد نسفی میں لکھا ہے کہ  ولی وہ شخص ہے جو اپنی بساط بھر اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی صفات کا عرفان رکھتا ہو، طاعات و عبادات کا پابند ہو، گناہوں سے اجتناب کرتا ہو اور نفسانی لذات و خواہشات میں منہمک رہنے سے اعراض کرتا ہو۔

صدق و اخلاص کی علامت

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ بندہ جب کھلے طور پر سب کے سامنے نماز پڑھتا ہے اور خوبی کے ساتھ پڑھتا ہے (یعنی نماز کی تمام شرائط و واجبات سنن اور مستحبات کو ملحوظ رکھ کر پڑھتا ہے اور اسی طرح دیگر عبادات وطاعات بھی پورے آداب و شرائط کے ساتھ ادا کرتا ہے) اور جب پوشیدہ طور پر (یعنی تنہائی میں) پڑھتا ہے تو اس وقت بھی اسی خوبی کے ساتھ پڑھتا ہے جس خوبی کے ساتھ کہ سب کے سامنے پڑھتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا یہ بندہ صدق و راستی کا حامل ہے کہ اس کی طاعت و عبادت ریا کاری سے پاک ہے۔ (ابن ماجہ)

ریا کار لوگوں کے بارے میں پیشگوئی

حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ آخر زمانہ میں ایسی قومیں اور جماعتیں بھی پیدا ہوں گی جو ظاہر میں تو درست ثابت ہوں گی مگر باطن میں دشمنی کریں گے۔

 عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ! ایسا کیونکر اور کس سبب سے ہو گا ؟ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ایسا اس وجہ سے ہو گا کہ ان میں سے بعض بعض سے غرض و لالچ رکھیں گے اور بعض بعض سے خوف زدہ ہوں گے۔

 

تشریح

 
مطلب یہ ہے کہ آخر زمانہ میں مسلمانوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہو گی جو اپنی دنیاوی اغراض اور ذاتی مفاد کی تکمیل کے لئے منافقت اور ریا کاری اختیار کریں گے اور صدق و اخلاص سے محروم رہیں گے نہ ان کی دوستی کا بھروسہ ہو گا، اور نہ ان کی دشمنی کا جس شخص و طبقہ سے ان کی کوئی غرض وابستہ ہو گی اس کی طرف رغبت و التفات رکھیں گے اور اس کے حق میں دوستی کا اظہار کریں گے۔ اگر کسی غرض و مفاد کا واسطہ درمیان میں نہیں ہو گا تو بیگانہ بن جائیں، بلکہ غرض و مفاد حاصل نہ ہونے کی صورت میں دشمنی و عداوت پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔

 اس سے واضح ہوا کہ شریعت کا جو یہ حکم ہے کہ مسلمان کی دوستی و دشمنی صرف اللہ تعالی کی خوشنودی کے لئے ہونی چاہئے تو مذکورہ لوگ اس مرتبہ سے گزرے ہوئے ہوں گے، کیونکہ ان کی دوستی و دشمنی کا تعلق اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے بجائے ذاتی اغراض فاسدہ اور مذموم مقاصد سے ہو گا چنانچہ جب وہ اپنے اغراض اور اپنے مفاد کے تحت کسی فرد یا جماعت کی طرف رغبت و التفات رکھیں گے تو اس کے تئیں دوستی و الفت ظاہر کریں گے اور جب کسی وجہ سے کسی فرد یا جماعت کو ناپسند کریں گے تو ان کے خلاف بغض و عداوت ظاہر کریں گے۔

 پس نہ تو لوگوں کے تئیں ان کی دوستی کا اعتبار ہو گا اور نہ ان کی عداوت کا، کیونکہ ان کی دوستی اور عداوت دونوں کی بنیاد، صدق و اخلاص، اور پاکیزہ اغراض و مقاصد کے بجائے، ذاتی اغراض و خواہشات، اور نفع نقصان پر ہو گی۔

دکھلاوے کا نماز روزہ شرک ہے

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے، جس شخص نے دکھلانے کے لئے نماز پڑھی، اس نے شرک کیا، جس شخص نے دکھلانے کو روزہ رکھا اس نے شرک کیا، اور جس شخص نے دکھلانے کو صدقہ خیرات کیا اس نے شرک کیا۔ دونوں روایتوں کو احمد نے نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 حاصل یہ کہ ریا کاری کے تحت جو بھی نیک کام کیا جائے گا وہ شرک کے مترادف ہو گا اگرچہ اس کو شرک خفی کہا جائے گا، کیونکہ شرک جلی کا اطلاق علی الاعلان اور آشکارا طور پر بت پرستی کرنے پر ہوتا ہے رہی یہ بات کہ ریا کاری کو شرک خفی کس اعتبار سے کہا گیا ہے تو جاننا چاہئے کہ ریا کار جو نیک کام کرتا ہے، وہ صدق و اخلاص کے ساتھ اللہ کے لئے نہیں کرتا بلکہ غیراللہ کے لئے کرتا ہے اور جب اس نے کوئی نیک کام غیر اللہ کے لئے کیا تو گویا وہ بت پرستی کی، اگرچہ وہ کھلی ہوئی بت پرستی نہیں ہے البتہ پوشیدہ طور پر بت پرستی کے مترادف ضرور ہے جیسا کہ کہا گیا ہے۔ کل ماصدک عن اللہ فہوصنمک۔

 ملاعلیٰ قاری کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ ریا کا دخل روزہ میں بھی ہو سکتا ہے اس اعتبار سے یہ حدیث گویا ان حضرات کے خلاف ایک دلیل ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ریا کا تعلق روزہ سے نہیں ہو سکتا، اور اس کا سبب یہ بیان کرتے ہیں کہ روزے کا مدار نیت پر ہے چنانچہ جس شخص کی نیت صحیح نہ ہو اس کے کھانے پینے سے رکنے کا کوئی اعتبار نہیں، اور ظاہر ہے کہ نیت میں ریا کاری یعنی دکھلاوے کا عمل دخل کیا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ حقیقی معنی میں ریا، یعنی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص کسی نیک کام اور کسی عبادت کا اس لئے قصد و ارادہ کرتا ہے کہ اللہ کی رضا و خوشنودی حاصل کرے مگر اس کے ساتھ ہی اس کی نیت میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ اس نیک کام اور عبادت کے ذریعہ اس کو شہرت حاصل ہو جائے۔ یا فلاں غرض پوری ہو جائے جس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی سے نہیں ہوتا اور یہ الگ بات ہے کہ دونوں مقصد برابر ہوں یا ان میں سے ایک غالب ہو جیسا کہ ابتدائے باب میں تفصیل گزر چکی ہے پس معلوم ہوا کہ روزے میں بھی ریا کا عمل دخل ہو سکتا ہے۔

 

 

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک موقع پر وہ رونے لگے پوچھا گیا کہ رونے کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اس بات نے رلایا ہے کہ جو میں نے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی تھی۔ اس وقت مجھے وہ بات یاد آ گئی تو میں رونے پر مجبور ہو گیا، اور وہ بات یہ ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے۔ میں اپنی امت پر شرک (یعنی شرک خفی) اور چھپی خواہشات سے خوف کھاتا ہوں۔

 حضرت شداد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! کیا آپ کی امت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد شرک میں مبتلا ہو جائے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہاں ! یاد رکھو، میری امت کے لوگ سورج کو نہیں پوجیں گے، چاند کو نہیں پوجیں گے، پتھر کو نہیں پوجیں گے اور کھلم کھلا بت پرستی نہیں کریں گے (یعنی وہ شرک جلی میں تو نہیں مبتلا ہوں گے) لیکن لوگوں کو دکھلانے کے لئے نیک کام کریں گے۔ (اور یہ شرک خفی ہے جس میں وہ مبتلا ہوں گے (اور چھپی خواہش یہ کہ تم میں سے کوئی شخص روزہ کی حالت میں صبح کرے اور پھر اس پر نفسانی خواہشات میں سے کسی خواہش کا غلبہ ہو جائے جیسے کھانے کی خواہش غالب ہو جائے یا جنسی خواہش جاگ اٹھے اور وہ اس خواہش کے غلبہ کی وجہ سے کھانا کھا کر یا ہم بستری کر کے اپنا روزہ توڑ ڈالے جب کہ شرعی طور پر قابل اعتبار کسی ضرورت و حالت کے پیش آنے کے بغیر روزہ توڑنا حرام ہے۔ (احمد، بیہقی)

 

تشریح

 

 مذکورہ خواہش کو  چھپی خواہش اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ وہ روزہ کی نیت کے وقت گویا اس کے باطن میں پوشیدہ تھی، یعنی جب اس شخص نے روزہ کی نیت کی تھی اسی وقت اس نے اپنے نفس میں یہ خواہش چھپا رکھی تھی کہ اگر کوئی نفسانی تقاضا آیا تو روزہ توڑ دوں گا۔

 واضح رہے کہ طیبی نے تو خواہش سے مراد کھانے وغیرہ کو قرار دیا ہے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا، لیکن زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ چھپی ہوئی خواہش سے مراد نفسانی خواہشات میں خاص طور پر وہ نادر الوجود خواہش ہے۔ جو ہر وقت پیدا نہ ہوتی ہو بلکہ کسی خاص موقع پر اور کسی خاص وقت پیدا ہو جاتی ہو، اور جب وہ خواہش سر ابھارتی ہو تو اس وقت اس کو پورا کرنے کا داعیہ طبعی طور پر اس طرح غالب آ جاتا ہو کہ اس کی راہ میں کسی شرعی حکم کی مخالفت کا خوف بھی رکاوٹ نہ بناتا ہو، جیسا کہ روزہ کی مثال بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔ ولا تبطولا اعمالکم۔ لیکن اس خواہش کی تکمیل کے لئے روزہ توڑنے والا یہ لحاظ نہ رکھے کہ میرے اس فعل کی وجہ سے خدا کے حکم کی صریح نافرمانی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ از قسم عبادت و طاعت جو کام شروع کیا جاتا ہے وہ لازم ہو جاتا ہے اور اس کا پورا کرنا شرعاً واجب ہوتا ہے۔

ریا کاری دجال کے فتنہ سے زیادہ خطرناک ہے

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن ہم لوگ آپ میں مسیح دجال کے فتنوں اور اس کے ابتلا کا ذکر کر رہے تھے۔ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آ کر ہمارے درمیان تشریف فرما ہو گئے اور پھر ہماری بات چیت سن کر فرمانے لگے کہ کیا میں تمہیں اس چیز کے بارے میں نہ بتلاؤں جو میرے نزدیک یعنی میری شریعت اور میرے طریق میں تمہارے حق میں مسیح دجال کے فتنہ سے بھی زیادہ خوفناک ہے اور اس اعتبار سے اس کا لحاظ رکھنا اور اس سے اجتناب کرنا تمہارے لئے نہایت ضروری ہے ہم نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! اس چیز کے بارے میں ہمیں ضرور بتائیے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ چیز شرک خفی ہے اور شرک خفی اس چیز کو کہتے ہیں کہ مثلاً ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور نماز پڑھتا ہے اور اس نماز کے تمام ارکان یا بعض ارکان میں کیفیت یا کمیت کے اعتبار سے غلو اور زیادتی کرتا ہے، محض اس لئے کہ کوئی شخص اس کو نماز پڑھتے دیکھ رہا ہے۔ (ابن ماجہ

 

تشریح

 

 ریا کاری کی برائی کو دجال کے فتنہ سے زیادہ خوفناک اور پر خطر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ دجال کے جھوٹے ہونے اور اس کی فتنہ انگیزیوں کو ظاہر کرنے کی نشانیاں اور علامتیں بہت ہیں اور بالکل کھلی ہوئی ہیں، جو صاحب صدق و ایمان کی اس سے محفوظ رکھنے کے لئے کافی ہوں گی۔

 جب کہ ریا کاری کا معاملہ نہایت پوشیدہ ہے اور جس کی برائی و فتنہ انگیزی میں ہر عمل میں ہر وقت اور ہر طرح سے معلوم نہیں ہو سکتی اور یہی وجہ ہے کہ اچھے اچھے لوگ بھی اس کے جال میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

ریا کاری شرک اصغر ہے

حضرت محمود بن لبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ مسلمانو! بہت زیادہ خوفناک چیز کہ جس سے میں تمہیں ڈراتا ہوں، شرک اصغر چھوٹے درجہ کا شرک ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے یہ سن کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! اور وہ شرک اصغر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ریا۔ اور بیہقی نے شعب الایمان میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس دن کہ جب وہ بندوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ یعنی قیامت کے دن ریا کاروں سے فرمائے گا کہ تم ان لوگوں کے پاس جاؤ جن کو دکھلانے کے لئے تم عمل کرتے تھے اور دیکھو کہ تمہیں ان کے پاس جزا یا بھلائی ملتی ہے؟

اخلاص عمل کا اثر

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر کوئی شخص کسی ایسے بڑے پتھر کے اندر بھی کوئی نیک کام کرے کہ جس میں نہ تو کوئی دروازہ ہو، اور نہ کوئی روشن دان، تو اس کا وہ عمل لوگوں میں مشہور ہو جائے گا خواہ وہ عمل کسی طرح کا ہو۔

 

تشریح

 

  صخرۃ اصل میں تو بڑے پتھر کو کہتے ہیں لیکن یہاں اس لفظ سے مراد غار ہے۔ اور ہو سکتا ہے کہ اس لفظ سے اس کے اصل معنی یعنی بڑا پتھر ہی مراد ہو، اس صورت میں کہا جائے گا کہ مذکورہ مفہوم میں اس لفظ کا استعمال بطور مبالغہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ کوئی شخص پتھر کے اندر بھی گھس کر کوئی نیک کام کرے کہ جس میں نہ کوئی دروازہ ہوتا ہے اور نہ کوئی روشن دان، اور اس طرح اس پتھر کے اندر نہ تو داخل ہو کر اور نہ باہر سے جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے کہ اندر کون شخص کیا کام کر رہا ہے تو اس صورت میں بھی وہ شخص اپنے اس نیک کام کے ساتھ لوگوں میں بہت مشہور ہو جاتا ہے۔

 کوہ یا کوۃ اس سوراخ کو کہتے ہیں جو دیوار و چھت میں ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے اس لفظ کی یہ تفصیل بیان کی ہے کہ اگر وہ سوراخ آر پار ہو تو اس کو کوۃ(یعنی کاف کے پیش کے ساتھ) کہا جاتا ہے اور اگر آر پار نہ ہو تو کوۃ (کاف کے زبر کے ساتھ) کہلائے گا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر یہ لفظ حرف تا کے ساتھ یعنی کوۃ ہو تو اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو چھوٹا اور تنگ ہو، اور اگر حرف تا کے بغیر ہو یعنی  کو ہو تو اس صورت میں اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو بڑا اور کشادہ ہو اس روایت میں یہ لفظ چونکہ حرف تا کے ساتھ ہے اس لئے یہاں اس کے معنی اس سوراخ کے ہوں گے جو چھوٹا اور آر پار ہو اور حدیث کے مفہوم کے اعتبار سے یہی معنی مناسب بھی ہیں۔

 بہرحال، حدیث کا حاصل یہ ہے کہ اچھے کام خواہ کتنے ہی پوشیدہ طور پر اور کیسی ہی تنہائی میں کیوں نہ کئے جائیں، اور اس بات کی کتنی ہی کوشش کیوں نہ کی جائے کہ وہ اچھے کام لوگوں کے علم میں نہ آئیں مگر پھر بھی وہ لوگوں پر عیاں ہو جاتے ہیں پس اللہ تعالیٰ کی مصلحت اگر خود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ نیک بندوں کے نیک عمل جو صدق و اخلاص کے ساتھ صادر ہوتے ہیں، لوگوں پر آشکارا ہوں، تاکہ ایک دوسرے کو اسی طرح نیک راہ اختیار کرنے کی ترغیب حاصل ہو تو پھر اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنے نیک عمل کو ظاہر کرنے کے لئے ریاکاری کی حد تک پہنچ جائے اور اس کی قبولیت و ثواب سے خواہ مخواہ محروم رہے۔

 یا حدیث کے یہ معنی ہیں کہ مخلص بندہ کو چاہئے کہ وہ اپنے اچھے کاموں کو چھپائے اور اخلاص حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ احتیاط و سعی کرے کیونکہ بندوں کے نیک عمل ایسی جگہوں سے بھی ظاہر ہو جاتے ہیں جہاں سے ظاہر ہو جانے کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی، اور جن کے آشکارا ہونے میں اس کے قصد و اختیار کو دخل بھی نہیں ہوتا۔

اللہ تعالیٰ ہر پوشیدہ اچھی یا بری عادت کو آشکارا کر دیتا ہے

حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جس شخص کے اندر کوئی اچھی یا بری عادت و خصلت چھپی ہوئی ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس عادت و  خصلت کو نمایا کرنے والے کوئی ایسی چیز پیدا کر دیتا ہے جس کے ذریعہ وہ شخص اس عادت و خصلت کے ساتھ شناخت کر لیا جاتا ہے۔

نفاق کی برائی نہایت خوفناک ہے

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ میں اس امت (یعنی امت محمدیہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کے بارے میں جس چیز سے ڈرتا ہوں وہ ہر منافق (یعنی ریا کار یا فاسق) کا شر ہے جو باتیں تو علم و حکم اور موعظت و نصیحت کی کرتا ہے، لیکن کام ظلم و زیادتی اور نا راستی کے کرتا ہے۔ ان تینوں روایتوں کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے۔

 

تشریح

 

 یہ ان لوگوں کی خصلت بتائی گئی ہے جو لوگوں کو دکھانے کے لئے باتیں تو بڑی اچھی اچھی کرتے ہیں مگر خود ان باتوں پر عمل کرتے نہیں اور اسی چیز کو نفاق کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے حق میں ایسے ہی لوگوں کے وجود اور اس کی بری خصلت سے ڈرتا ہوں کہ مبادا اس قسم کے لوگ میری امت میں پیدا ہو جائیں گے اور بری خصلت اس امت محمدیہ کے درمیان راہ پا کر مسلمانوں کو فتنہ و فساد اور آلام و مصائب میں مبتلا کر دے۔

حسن نیت کی اہمیت

حضرت مہاجر بن حبیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں عقلمند و دانشور کی ہر بات کو قبول نہیں کرتا (یعنی میرا دستور یہ نہیں ہے کہ عالم و فاضل اور عقلمند و دانا شخص جو بات بھی کہے اس کو قبول کر لوں) بلکہ میں اس کے قصد و ارادہ کو اور اس کی محبت و نیت کو قبول کرتا ہوں (یعنی یہ دیکھتا ہوں کہ اس نے جو بات کہی ہے وہ کس قصد و ارادہ اور کس نیت کے ساتھ کہی ہے) پس اگر اس کی نیت و محبت میری طاعت و فرمانبرداری کے تئیں ہوتی ہے تو میں اس کی خاموشی کو بھی اپنی حمد و ثنا اور اس کے حلم و وقار کے مترادف قرار دیتا ہوں اگرچہ وہ کوئی بات نہ کہے۔ (دارمی)

 

تشریح

 

 مطلب یہ ہے کہ خدا کے نزدیک محض گفتار کے غازی کی کوئی اہمیت نہیں ہے، وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ بات کہنے والا دانش و حکمت سے قطع نظر اپنی نیت میں کتنا مخلص ہے۔ اگر وہ خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کی نیت اور اپنے دل میں خدا کے احکام کی محبت و عظمت رکھتا ہے تو اس کی خاموشی بھی علم و وقار کا مایہ افتخار اور خدا کے نزدیک مستحسن و محمود قرار پاتی ہے کہ اگر وہ زبان سے کچھ نہ کہے تو بھی وہ ایسا ہی سمجھا جاتا ہے۔ جیسا کہ خدا کی حمد و ثنا میں رطب اللسان ہے۔ اور اگر اس کی نیت خدا کی اطاعت اور فرمانبرداری کی نہ ہو، اور اس کے دل میں احکام خداوندی کی عظمت و محبت کا فقدان ہو تو اس کی ہر بات لغو اور ناقابل اعتنا قرار پاتی ہے اگرچہ اس کے الفاظ و معنی علم و حکمت سے کتنے ہی پر کیوں نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سمجھا جا سکتا کہ وہ ریا کاری میں مبتلا ہے اور جو بھی بات کہہ رہا ہے، اس کا مقصد لوگوں کو دکھانا سنانا، اور اس کے ذریعہ شہرت و ناموری حاصل کرنا ہے۔