حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ روی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (شعبان کی تیرہویں تاریخ کو رمضان کی نیت سے) روزہ نہ رکھو یہاں تک کہ چاند دیکھ لو، اسی طرح روزہ اس وقت ختم نہ کرو جب تک کہ عید کا چاند نہ دیکھ لو لہٰذا (تیسویں شب یعنی انتیسویں تاریخ کو) اگر (گرد و غبار اور ابر وغیرہ یا کسی اور سبب سے) چاند نظر نہ آئے تو اس کا اعتبار کرو (یعنی اس مہینے کو تیس دن کا سمجھ لو) ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مہینہ کبھی تیس رات کا بھی ہوتا ہے اس لیے جب تک چاند نہ دیکھ لو (رمضان کی نیت سے) روزہ نہ رکھو اور اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ ہو اور چاند نظر نہ آئے تو تیس دن پورے کرو (یعنی تیس دن کا مہینہ سمجھو)۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ جب تک چاند نہ دیکھ لو یا معتبر شہادت اور معتبر ذرائع سے جب تک رویت ہلال ثابت نہ ہو جائے نہ تو روزہ رکھو اور روزہ ختم کر کے عید مناؤ۔
مہینہ کبھی انتیس رات کا بھی ہوتا ہے، سے دراصل اس بات کی ترغیب دلانا مقصود ہے کہ تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کیا جائے، چنانچہ علماء لکھتے ہیں کہ شعبان کی انتیسویں تارخ کو لوگوں پر واجب کفایہ ہے کہ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کریں۔
٭٭ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ چاند دیکھنے کے بعد روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار یعنی عید کرو، لہٰذا انتیسویں تاریخ کو اگر ابر وغیرہ ہو جائے اور رویت ہلال ثابت نہ ہو تو شعبان کے مہینے کو تیس دن کا قرار دو (اسی طرح رمضان کے مہینے کا بھی اعتبار کرو) بخاری و مسلم)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہم اہل عرب امی قوم ہیں کہ حساب کتاب نہیں جانتے مہینہ اتنا اور اتنا اور اتنا ہوتا ہے (لفظ اتنا تین مرتبہ کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں دو مرتبہ بند کیں اور پھر کھول دیں) اور تیسری مرتبہ میں ہاتھوں کی انگلیاں بند کر کے پھر نو انگلیاں تو کھول دیں اور انگوٹھا بند کئے رکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینے میں ایک کم تیس دن ہوتے ہیں یعنی انتیس کا مہینہ ہوتا ہے اور پھر فرمایا مہینہ اتنا اور اتنا (اور اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تیس کا عدد بتانے لیے پہلے کی طرح تیس مرتبہ میں انگوٹھا بند نہیں رکھا) یعنی پورے تیس دن کا ہوتا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مطلب یہ تھا کہ کبھی تو مہینہ انتیس دن کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دن کا ہوتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
اہل عرب کو امی اس لیے فرمایا گیا کہ وہ جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے تھے ویسے ہی رہتے تھے پڑھتے لکھتے نہیں تھے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ اکثر کے اعتبار سے فرمایا ہے کیونکہ اگرچہ عرب میں تعلیم عام نہیں تھی اور اکثریت بے پڑھے لکھے لوگوں کی تھی مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ لوگ علم کے زیور سے آراستہ ہوتے ہی تھے یا اس جملے سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مراد یہ تھی کہ اہل عرب حساب کتاب اچھی طرح نہیں جانتے۔
بہرحال حدیث کے معنی یہ ہیں کہ نجوم کے قواعد پر عمل کرنا ہمارا شیوہ اور طریقہ نہیں ہے اور نہ نجوم کے قواعد و حساب سے جیسا کہ جنتری وغیر میں لکھا ہوتا ہے چاند کا ثبوت معتبر ہو سکتا ہے بلکہ اس بارے میں ہمارا علم صرف رویت ہلال سے متعلق ہے کہ اگر چاند دیکھا جائے گا یا چاند کی رویت شرعی قواعد و ضوابط کے تحت ثابت ہو جائے گی تو روزہ شروع ہو گا یا اس کا اختتام ہو گا اسی بات کے آخر میں وضاحت کی گئی کہ کسی مہینے میں چاند انتیس تاریخ کو ہوتا ہے اور کسی مہینے میں تیس تاریخ کو۔
روایت کی آخری عبارت کے دونوں جملے یعنی تمام الثلثین اور یعنی مرۃ تسعا الخ راوی کے الفاظ ہیں پہلے جملہ سے تو راوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آخری اشارے کو بیان کیا ہے اور دوسرے جملے کے ذریعے دونوں چیزوں کی وضاحت کر دی ہے۔
حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ عید کے دونوں مہینے یعنی رمضان اور ذی الحجہ ناقص نہیں ہوتے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
رمضان کو عید اس اعتبار سے فرمایا گیا ہے کہ یہ عید کے قریب ہوتا ہے بہرحال حدیث کا مطلب یا تو یہ ہے کہ ایک سال میں رمضان اور ذی الحجہ دونوں مہینے ناقص یعنی انتیس انتیس دن کے نہیں ہوتے یا اس کے معنی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ مبارک میں یہ دونوں مہینے ناقص نہیں ہوئے ہوں گے۔
یا پھر اس ارشاد کا مطلب یہ ہو گا کہ یہ دونوں مہینے حکم اور ثواب کے اعتبار سے ناقص نہیں ہوتے اگرچہ ان میں سے ایک انتیس دن کا اور دوسرا تیس دن کا ہو یا دونوں ہی انتیس انتیس دن کے ہوں مگر ثواب پورے تیس دن کا ہی ملتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے کوئی شخص رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ نہ رکھے ہاں جو شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو وہ اس دن روزہ رکھ سکتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
حدیث کے آخری جز کا مطلب یہ ہے کہ یہ ممانعت اس شخص کے حق میں نہیں ہے جو ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو مثلاً کوئی شخص پیر یا جمعرات کے دن نفل روزہ رکھنے کا عادی ہو اور اتفاق سے شعبان کے انتیس یا تیس تاریخ اسی دن ہو جائے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا ممنوع نہیں ہے ہاں جو شخص ان دنوں میں روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ نہ رکھے؟ تاہم اتنی بات ملحوظ رہے کہ یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے۔
علماء فرماتے ہیں کہ رمضان سے ایک دن یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت اس لیے ہے تاکہ نفل اور فرض دونوں روزوں کا اختلاط نہ ہو جائے اور اہل کتاب کے ساتھ مشابہت نہ ہو کیونکہ وہ فرض روزوں کے ساتھ دوسرے روزے بھی ملا لیتے تھے۔ مظہر کا قول ہے کہ شعبان کے آخری ایام میں رمضان سے صرف ایک دن یا دو دن قبل روزہ رکھنا مکروہ ہے۔ مولانا اسحٰق رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں جس روزے سے منع کیا جا رہا ہے وہ یوم الشک کا روزہ نہیں بلکہ مطلقاً شعبان کے آخری ایام میں رمضان سے ایک دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے البتہ جو شخص ان ایام میں روزہ رکھنے کا عادی ہو وہ اس ممانعت سے مستثنی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب شعبان کا آدھا مہینہ گزر جائے تو روزے نہ رکھو (ابو داؤد)، ترمذی ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ شعبان کے آخری نصف مہینے میں قضا یا کسی واجب روزہ کے علاوہ اور روزے نہ رکھے جائیں مگر یہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے اور اس کا تعلق امت کی آسانی و شفقت سے ہے یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کے بالکل قریبی ایام میں روزے رکھنے سے اس لیے منع فرمایا ہے تاکہ ان روزوں کی وجہ سے لوگوں کو ضعف و ناتوانی لاحق نہ ہو جائے کہ جس کی وجہ سے رمضان کے روزے دشوار اور بھاری ہو جائیں۔
قاضی کا قول ہے کہ اس ممانعت کا تعلق اس شخص سے ہے کہ جس کو پے در پے متواتر روزے کی طاقت میسر نہ ہو لہٰذا اس کے لیے ان دنوں میں روزے نہ رکھنا ہی مستحب ہے جیسا کہ ان لوگوں کو جو قوت برداشت نہ رکھتے ہوں عرفہ کے دن روزہ نہ رکھنا مستحب ہے تاکہ وہ روزہ کی غیر متحمل مشقت سے بچ کر اس دن ذکر و دعا میں مشغول رہیں ہاں جن لوگوں کے اندر قوت برداشت ہو ان کے لیے شعبان کے آخری نصف مہنے میں روزے رکھنے ممنوع نہیں ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان میں پورے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ رمضان کے لیے شعبان کا مہینہ شمار کرو۔ (ترمذی)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ ماہ شعبان کے دنوں کو گنتے رہو اور انہیں یاد رکھو تاکہ رمضان کی آمد کا علم رہے۔
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صرف دو مہینوں یعنی شعبان اور رمضان میں متواتر روزے رکھتے تھے دیکھا ہے۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ)
تشریح
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس طرح رمضان کے پورے مہینے میں روزے رکھا کرتے تھے۔ ایسے ہی شعبان کے پورے مہینے میں بھی روزے سے رہتے تھے اس حدیث کی مفصل وضاحت انشاء اللہ باب صیام التطوع میں مذکور ہو گی۔
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ جس شخص نے یوم الشک کو روزہ رکھا اس نے ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نافرمانی کی۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ کی وجہ سے چاند نہیں دیکھا گیا مگر ایک شخص نے چاند دیکھنے کی شہادت دی اور اس کی شہادت قبول نہیں کی گئی اسی طرح دو فاسق لوگوں نے چاند دیکھنے کی گواہی دی اور ان کی گواہی قبول نہیں کی گئی اس کی صبح کو جو دن ہو گا یعنی تیس تاریخ کو یوم الشک (شک کا دن) کہلائے گا کیونکہ اس دن کے بارے میں یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع ہو گیا ہو اور یہ بھی احتمال ہوتا ہے کہ رمضان شروع نہ ہوا ہو لہٰذا اس غیر یقینی صورت کی وجہ سے اسے شک کا دن کہا جاتا ہے ہاں اگر انتیس تاریخ کو ابر وغیرہ نہ ہو اور کوئی بھی شخص چاند نہ دیکھے تو تیس تاریخ کو یوم الشک نہ کہیں گے۔
اس حدیث میں اسی دن کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ یوم الشک کو رمضان یا کسی واجب کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ ہے البتہ اس دن نفل روزہ رکھنے کے بارے میں کچھ تفصیل ہے، چنانچہ اگر کوئی شخص شعبان کی پہلی ہی تاریخ سے نفل روزہ رکھتا چلا آ رہا ہو یا تیس تاریخ اتفاق سے اس دن ہو جائے کہ جس میں کوئی شخص روزہ رکھنے کا عادی ہو جس کی وضاحت پہلے کی جا چکی ہے تو اس کے لیے اس دن روزہ رکھنا افضل ہو گا۔
اسی طرح یوم الشک کو روزہ رکھنا اس شخص کے لیے بھی افضل ہے جو شعبان کے آخری تین دنوں میں روزے رکھتا ہو اور اگر یہ صورتیں نہ ہوں تو پھر یوم الشک کا مسئلہ یہ ہے کہ خواص تو اس دن نفل کی نیت کے ساتھ روزہ رکھ لیں اور عوام دوپہر تک کچھ کھائے پئے بغیر انتظار کریں اگر چاند کی کوئی قابل قبول شہادت نہ آئے تو دوپہر کے بعد افطار کر لیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کا یہ معمول نقل کیا جاتا ہے کہ یہ حضرات شعبان کی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرتے اگر چاند دیکھ لیتے یا معتبر شہادت کے ذریعے رویت ہلال کا ثبوت ہو جاتا تو اگلے روز روزہ رکھتے ورنہ بصورت دیگر ابر و غبار وغیرہ سے مطلع صاف ہونے کی صورت میں روزہ نہ رکھتے ہاں اگر مطلع صاف نہ ہوتا تو روزہ رکھ لیتے تھے اور علماء فرماتے ہیں کہ اس صورت میں ان کا یہ روزہ نفل ہوتا تھا۔
خواص سے مراد وہ لوگ ہیں جو شک کے دن کے روزے کی نیت کرنا جانتے ہوں اور جو لوگ اس دن کے روزے کی نیت کرنا نہ جانتے ہوں انہیں عوام کہا جاتا ہے چنانچہ اس دن روزہ کی نیت یہ ہے کہ جو شخص اس دن کہ جس میں رمضان کے بارے میں شک واقع ہو رہا ہے روزہ رکھنے کا عادی نہ ہو وہ یہ نیت کرے کہ میں آج کے دن نفل روزے کی نیت کرتا ہوں اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ اگر آج رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان کا بھی ہے اس طرح نیت کرنی مکروہ ہے۔ کہ اگر کل رمضان کا دن ہو تو یہ روزہ رمضان میں محسوب ہو اور اگر رمضان کا دن نہ ہو تو نفل یا کسی اور واجب میں محسوب ہو۔ تاہم اگر کسی نے اس طرح کر لیا اور اس دن رمضان کا ہونا ثابت ہو گیا تو وہ روزہ رمضان ہی میں محسوب ہو گا۔ اس کے برخلاف اگر کوئی شخص اس نیت کے ساتھ روزہ رکھے کہ اگر آج رمضان کا دن ہو گا تو میرا بھی روزہ ہو گا اور اگر رمضان کا دن نہیں ہو گا تو میرا روزہ بھی نہیں ہو گا۔ تو اس طرح نہ نفل کا روزہ ہو گا اور نہ رمضان کا ہو گا چاہے اس دن رمضان کا ہونا ہی ثابت کیوں نہ ہو جائے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے فرمایا کہ تم کیا اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ ہاں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ کے پیغمبر ہیں؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بلال لوگوں میں اعلان کر دو کہ کل روزہ رکھیں۔ (ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، دارمی)
تشریح
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو شخص مستور الحال ہو یعنی اس کا فاسق ہونا معلوم نہ ہو تو رمضان کے چاند کے بارے میں اس کی شہادت معتبر اور قابل قبول ہو گی نیز یہ کہ رمضان کے چاند کی گواہی دیتے ہوئے لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے۔
نیز اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ ہلال رمضان شریف شہادت میں صرف ایک شخص کی گواہی قبول کی جا سکتی ہے چنانچہ حنفی مسلک میں صحیح مسئلہ یہی ہے کہ ہلال رمضان کی رویت ایک عادل یا مستور الحال شخص کی شہادت سے ثابت ہو جاتی ہے نیز یہ کہ ہلال رمضان کی شہادت میں لفظ شہادت کا استعمال شرط نہیں ہے مگر ایک شخص کی گواہی اسی صورت میں معتبر ہو گی جب کہ مطلع ابر و غبار آلود ہو اگر عید کی چاند رات کو ابر و غبار ہو تو پھر دو مرد یا ایک مرد اور دو عادل و آزاد عورتوں کی شہادت ہی معتبر ہو گی نیز یہ کہ اس موقع پر لفظ شہادت کا استعمال بھی شرط ہو گا پھر موقع و محل کے پیش نظر شہادت کی صورت بھی بدلتی رہتی ہے۔ مطلع صاف ہو تو جماعت کثیرہ کی شہادت ضروری ہو گی۔
٭٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ایک مرتبہ چاند دیکھنے کے لیے لوگ جمع ہوئے چنانچہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بتایا کہ میں نے چاند دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ رکھ لیا اور دوسرے لوگوں کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا (ابوداؤد، نسائی)
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شعبان کے دنوں کو اس قدر احتیاط سے شمار کرتے تھے کہ اور کسی مہینے پر اتنی توجہ مبذول نہیں فرماتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کا چاند دیکھ کر روزہ رکھتے، اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہوتا اور چاند کی رویت ثابت نہ ہوتی تو تیس دن پورے کرنے کے بعد روزہ شروع کرتے تھے۔ (ابو داؤد)
تشریح
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا معمول تھا کہ شعبان کے مہینے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خاص توجہ رہتی تھی اور اس کے دنوں کو بڑی احتیاط اور محافظت کے ساتھ شمار کرتے رہتے تھے تاکہ رمضان کے چاند کے بارے میں کوئی خربطہ پیدا نہ ہو، شعبان کے علاوہ اور کسی مہینے پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس قدر توجہ مبذول نہیں ہوتی تھی کیونکہ کسی دوسرے مہینے سے کوئی شرع امر متعلق نہیں تھا البتہ حج کا مہینہ ایسا ہوتا تھا جس سے ایک شرع فریضہ متعلق تھا سو وہ نادر ہے کہ نہ تو اس کا تعلق ہر شخص سے اور نہ ہر سال فرض ہے۔
حضرت ابوالبختری کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عمرہ کرنے کی غرض سے اپنے شہر کوفہ سے نکلے جب ہم لوگ بطن نخلہ میں جو مکہ اور طائف کے درمیان ایک مقام ہے ٹھہرے تو چاند دیکھنے کے لیے ایک جگہ جمع ہوئے چاند دیکھنے کے بعد بعض لوگوں نے کہا کہ یہ چاند تیسری شب کا ہے اور دوسرے بعض لوگوں نے کہا کہ دوسری شب کا ہے اس کے بعد جب ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ہماری ملاقات ہوئی تو ہم نے اس سے لوگوں کا بیان عرض کیا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے چاند کس رات دیکھا تھا؟ ہم نے کہا کہ ایسی اور ایسی رات (یعنی مثلاً پیر یا منگل کی رات) میں دیکھا تھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رمضان کی مدت کو چاند دیکھنے پر موقوف کیا ہے (یعنی جب چاند دیکھا جائے گا تو رمضان کی ابتداء ہو گی) لہٰذا چاند اسی رات کا ہے کہ جس رات میں تم نے اسے دیکھا ہے۔ ابوالبختری ہی کی ایک روایت یوں ہے کہ ہم نے ذات عرق میں کہ جو مذکورہ بالا بطن نخلہ کے قریب ایک مقام ہے چاند دیکھا، چنانچہ ہم نے ایک شخص کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ پوچھنے کے لیے بھیجا کہ یہ چاند کس رات کا ہے؟ کیونکہ ہمارے درمیان مذکورہ بالا اختلاف پیدا ہو گیا تھا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے شعبان کی مدت کو رمضان کا چاند دیکھنے کے وقت تک دراز کیا ہے۔ لہٰذا اگر انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہو تو گنتی پوری کرو۔ (یعنی شعبان کے تیس دن پورے کرو) اور اس کے بعد روزہ رکھو۔ (مسلم)
تشریح
حاصل یہ ہے کہ رمضان کا مدار چاند دیکھنے پر ہے چاند کے بڑا ہونے کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ منقول ہے کہ چاند رات میں چاند کا بڑا ہونا قرب قیامت کی علامت ہے۔ یہاں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ وہ اگرچہ بظاہر مختلف معلوم ہوتی ہیں مگر درحقیقت اس احتمال کے پیش نظر ان میں کوئی منافات نہیں ہے کہ ان لوگوں نے ذات عرق میں جمع ہو کر چاند دیکھا ہو پھر ان میں اختلاف پیدا ہونے کی صورت میں ایک آدمی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا گیا ہو۔ انہوں نے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد نقل فرما دیا پھر جب سب لوگ بطن نخلہ میں پہنچے تو اس بارے میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بالمشافہ سوال کیا چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ارشاد گرامی کی روشنی میں مذکورہ بالا جواب دیا، چاند دیکھنے کے بارے میں کچھ مسائل ذہن نشین کر لیجئے۔
اگر شعبان کی تیس تاریخ کو دن میں زوال سے پہلے یا زوال کے بعد چاند نظر آئے تو وہ شب آئندہ کا چاند سمجھا جائے گا لہٰذا اس دن نہ رمضان کی ابتداء کا حکم دیا جائے گا۔ اور نہ اس دن روزہ رکھنے کے لیے کہا جائے گا اسی طرح اگر رمضان کی تیس تاریخ کو چاند نظر آئے تو نہ اس دن روزہ افطار کیا جائے گا اور نہ اس دن کو یوم عید قرار دیا جائے گا۔ شعبان کی تیسویں شب یعنی انتیس تاریخ کو چاند تلاش کرنا واجب علی الکفایہ ہے۔ اگر کسی ایک جگہ چاند کی رویت ثابت ہو جائے تو تمام جگہوں کے لوگوں کو اگلے روز روزہ رکھنا واجب ہو گا اس سلسلے میں اختلاف مطالع کا اعتبار نہ ہو گا۔ مثلاً اگر دہلی میں جمعہ کی شب میں چاند کی رویت ہو جائے اور دوسرے شہروں میں ہفتہ کی شب میں چاند دیکھا جائے تو ہفتہ کی شب میں چاند دیکھنے کا اعتبار نہیں ہو گا بلکہ تمام شہروں میں دہلی کی رویت معتبر ہو گی اور سب جگہ جمعہ کے روز سے روزہ رکھنا لازم ہو گا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ کی ظاہری روایت یہی ہے اور حنفیہ کے جمہور علماء کا اسی پر اعتماد و فتویٰ ہے جب کہ امام شافع اور امام احمد کے مسلک میں اختلاف مطالع کا اعتبار ہے ان حضرات کے ہاں ایک شہر والوں کا چاند دیکھنا دوسرے شہر والوں کے لیے کافی نہیں ہے۔
جس شخص نے رمضان کا چاند دیکھا ہو اور اس کی شہادت و خبر کسی وجہ سے قابل قبول نہ ہو تو خود اس کو اپنی رویت کے مطابق روزہ رکھنا چاہیے اگر وہ خود بھی روزہ نہیں رکھے گا تو اس پر قضا لازم آئے گی۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا سحری کھاؤ کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے لیے سحر کے وقت کچھ نہ کچھ کھا لینا چاہئے چنانچہ ایک روایت میں یہ منقول ہے کہ سحری کھاؤ چاہے وہ ایک گھونٹ پانی ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو، یہ حکم وجوب کے طور پر نہیں ہے بلکہ بطور استحباب ہے۔ سحر رات کے آخری حصے کو کہتے ہیں سحور سین کے زبر کے ساتھ اسم ہے یعنی سحور طعام سحر کو کہتے ہیں اور سین کے پیش کے ساتھ مصدر ہے جس کے معنی ہیں سحر کے وقت کھانا یہاں اس روایت میں یہ لفظ سحور اسم نقل کیا گیا ہے چنانچہ محدثین کے نزدیک روایت محفوظ میں یہ لفظ یوں ہی ہے البتہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ بہتر اور مناسب سحور مصدر ہی ہے کیونکہ حدیث کے مفہوم کے پیش نظر برکت کا تعلق فعل یعنی سحر کے وقت کھانے سے ہے نہ کہ اس کا تعلق اسم یعنی طعام سے ہے۔
برکت سے مراد یہ ہے کہ سحری کھانا چونکہ در اصل سنت نبوی پر عمل کرنا ہے اس لیے اس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اجر عظیم حاصل ہوتا ہے بلکہ روزہ رکھنے کی قوت بھی آتی ہے۔
حضرت عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ ہمارے روزے اور اہل کتاب (یعنی یہود و نصاری) کے روزے کے درمیان فرق سحری کھانا ہے۔ (مسلم)
تشریح
اہل کتاب کے ہاں رات میں سو رہنے کے بعد کھانا حرام تھا اسی طرح مسلمانوں کے ہاں بھی ابتداء اسلام میں یہی حکم تھا مگر بعد میں مباح ہو گیا لہٰذا سحری کھانے سے اہل کتاب کی مخالفت لازم آتی ہے جو اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کا ایک ذریعہ ہے۔
حضرت سہل رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جب تک لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے بھلائی کے ساتھ رہیں گے۔ (بخاری مسلم)
تشریح
افطار میں جلدی کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب کے غروب ہو جانے کے بعد ا فطار میں دیر نہ لگائی جائے، شہروں میں غروب آفتاب کی علامت یہ ہے کہ مشرق کی جانب سیاہی بلند ہو جائے یعنی جہاں سے صبح صادق شروع ہوتی ہے وہاں تک پہنچ جائے تو آسمان کے بیچوں بیچ سیا ہی کا پہنچنا شرط نہیں ہے۔
غروب آفتاب کے بعد افطار میں جلدی کرنے سے اہل کتاب کی مخالفت بھی ہوتی ہے کیونکہ وہ افطار میں اس وقت تک تاخیر کرتے ہیں جب کہ ستارے خوب اچھی طرح نہیں نکل آتے مسلمانوں میں اہل بدعت یعنی روافض کے یہاں بھی اسی پر عمل ہے لہٰذا ان کی مخالفت بھی ہو جاتی ہے۔
صحیح احادیث کے بموجب مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے افطار کرنا سنت ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جب ادھر سے رات آئے (یعنی مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہو) اور ادھر (مغرب) دن جائے اور سورج (پورا) ڈوب جائے تو سمجھو کہ روزہ دار نے افطار کیا۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
وغربت الشمس (اور سورج ڈوب جائے) دراصل اپنے ما قبل کے جملوں کی تاکید کے طور پر استعمال فرمایا گیا حدیث کے آخری جملے کا مطلب یہ ہے کہ جب افطار کا وقت ہو گیا تو گویا روزہ دار نے افطار کر لیا چاہے اس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس جملے کا معنی یہ ہے کہ روزہ دار افطار کے وقت میں داخل ہو گیا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس جملے کے معنی مراد ہوں کہ جب مذکورہ وقت آ جائے تو روزہ کو افطار کر لینا چاہئے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے کون شخص میری طرح ہے، میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)
تشریح
روزہ پر روزہ، کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لیے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات و طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ اس مسئلہ میں علماء کے ہاں اختلاف ہے کہ آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ اور لوگوں کے لیے روزہ پر روزہ رکھنا جائز ہے یا حرام اور مکروہ ؟ چنانچہ بعض حضرات تو اس شخص کے لیے جواز کے قائل ہیں جو اس پر قادر ہو، یہ حضرات کہتے ہیں کہ اس صورت میں حدیث بالا میں مذکورہ ممانعت صرف رحمت و شفقت کے طور پر ہے ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو وصال یعنی روزہ پر روزہ رکھنے سے ان پر رحمت و شفقت کے پیش نظر منع فرمایا ہے۔ نیز بعض صحابہ مثلاً حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ وغیرہ اور بعض تابعین مثلاً حضرت عبداللہ بن معمر، عامر بن عبداللہ بن زبیر اور حضرت ابراہیم تیمی رحمہما اللہ کے بارے میں منقول ہے کہ یہ حضرات روزہ پر روزہ رکھتے تھے۔ اکثر علماء کہتے ہیں کہ یہ جائز نہیں ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ اور حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ نے اسے مکروہ کہا ہے اگرچہ اس بات میں اختلاف ہے کہ آیا مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی ؟ زیادہ صحیح قول یہی ہے کہ مکروہ تحریمی ہے جمہور علماء کا کہنا یہ ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے اس بنا پر اہل سلوک کہ جو ریاضت و مجاہدہ اور نفس کشی کا زیادہ شوق اور ذوق رکھتے ہیں ایک چلو پانی سے ہر روزہ کا افطار کر لیا کرتے تھے تاکہ روزہ پر روزہ رکھنے کا اطلاق نہ ہو سکے۔
یطعمنی ربی ویسقینی کی مراد کے بارے میں کئی اقوال ہیں مختار اور زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ اس سے ظاہری کھلانا پلانا مراد نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غذائے جسمانی سے قطعاً مستغنی تھے اور جب دنیاوی طور پر محبت مجازی اور مسرت حسی میں اس کا تجربہ ہے تو محبت حقیقی اور مسرت معنوی کا کیا کہنا کہ اس کی وجہ سے علائق دنیا سے جتنا بھی استغنا ہو کم ہے۔
حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا راویہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص روزے کی نیت فجر سے پہلے نہ کرے تو اس کا روزہ کامل نہیں ہوتا۔ (ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، دارمی، اور امام ابوداؤد فرماتے ہیں معمر، زبیدی ابن عیینہ اور یونس ایلی ان تمام نے اس روایت کو زہری سے نقل کیا ہے اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا پر موقوف کیا ہے یعنی اس حدیث کو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا قول کہا ہے۔
تشریح
اس حدیث سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر روزہ کی نیت رات ہی سے نہ کی جائے تو روزہ درست نہیں ہوتا خواہ روزہ فرض ہو یا واجب ہو یا نفل۔ لیکن اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں چنانچہ حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا تو یہی مسلک ہے کہ روزہ میں نیت رات ہی سے کرنی شرط ہے خواہ روزہ کسی نوعیت کا ہو، حضرت امام شافعی اور حضرت امام احمد کا بھی یہی قول ہے لیکن نفل کے معاملے میں ان دونوں کے یہاں اتنا فرق ہے کہ اگر روزہ نفل ہو تو امام احمد کے ہاں زوال سے پہلے بھی نیت کی جا سکتی ہے اور امام شافعی کے نزدیک آفتاب غروب ہونے سے پہلے تک بھی نیت کر لینی جائز ہے۔ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ رمضان نفل اور نذر معین کے روزہ میں آدھے دن شرعی یعنی زوال آفتاب سے پہلے پہلے نیت کر لینی جائز ہے لیکن قضاء کفارہ اور نذر مطلق میں حنفیہ کے یہاں بھی رات ہی سے نیت کرنی شرط ہے ان تمام حضرات کی دلیلیں فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اگر تم میں سے کوئی شخص (فجر کی) اذان سنے اور اس کے ہاتھوں میں برتن ہو (کہ جس سے وہ پینے یا کچھ کھانے کا ارادہ رکھتا ہو تو) برتن رکھ نہ دے بلکہ اپنی ضرورت پوری کر لے۔ (ابو داؤد)
تشریح
مطلب یہ ہے کہ اگر سحر کے وقت کوئی شخص کھانا پینا چاہتا ہو مگر فجر کی اذان شروع ہو گئی تو وہ محض اذان کی آواز سن کر اپنا کھانا نہ چھوڑ دے لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ حکم اس صورت کے لیے ہے جب کہ یہ یقین یا گمان غالب ہو کہ صبح نہیں ہوئی اور سحر کا وقت باقی ہے اور اگر اس بات کا یقین یا گمان غالب ہو کہ صبح ہو گئی ہے اور سحر کا وقت باقی نہیں رہا ہے تو پھر کھانا پینا نہ چھوڑ دینا چاہئے ابن مالک فرماتے ہیں کہ اگر طلوع صبح کا علم نہ ہو تو کھانا پینا موقوف نہ کرے اور اگر یہ معلوم ہو کہ صبح طلوع ہو گئی ہے یا طلوع صبح کا شک بھی ہو تو کھانا پینا چھوڑ دے۔
بعض حضرات فرماتے ہیں کہ حدیث میں مذکور اذان سے مراد مغرب کی اذان ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرچہ اذان سن کر کھانا پینا چھوڑ دینا مسنون ہے مگر افطار کے وقت اگر کوئی شخص مغرب کی اذان سنے اور وہ کچھ پی رہا ہو تو اس صورت میں پینا نہ چھوڑے بلکہ پہلے پی لے پھر نماز کے لیے جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میرے بندوں میں سب سے زیادہ پیارا وہ بندہ ہے جو وقت ہو جانے پر افطار میں جلدی کرے۔ (ترمذی)
تشریح
جلد افطار کرنے والے کو خدا کی نظر میں سب سے زیادہ پسندیدہ ہونے کی فضیلت اس لیے حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعے نہ صرف یہ کہ سنت کی اتباع کرنا بلکہ اہل کتاب اور روافض کی مخالفت بھی کرتا ہے۔
حضرت سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ تم میں سے جو شخص روزہ افطار کرے تو اسے چاہئے کہ وہ کھجور سے افطار کرے کیونکہ کھجور باعث برکت ہے اور اگر کوئی شخص کھجور نہ پائے تو پانی سے افطار کرے کیونکہ پانی پاک کرنے والا ہے اس روایت کو احمد و ترمذی و ابن ماجہ و دارمی نے نقل کیا ہے مگر لفط فانہ برکۃ ترمذی کے علاوہ کسی اور نے ذکر نہیں کیا ہے۔
تشریح
کھجور اور پانی سے افطار کرنے کا حکم استحباب کے طور پر ہے اور کھجور سے افطار کرنے میں بظاہر حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس وقت معدہ خالی ہوتا ہے اور کھانے کی خواہش پوری طرح ہوتی تو اس صورت میں جو چیز کھائی جاتی ہے اسے معدہ اچھی طرح قبول کرتا ہے لہٰذا ایسی حالت میں جب شیرینی معدہ میں پہنچتی ہے تو بدن کو بہت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ شیرینی کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اس کی وجہ سے قوائے جسمانی میں قوت جلدی سرایت کرتی ہے خصوصاً قوت باصرہ کو شیرینی سے بہت فائدہ پہنچتا ہے اور چونکہ عرب میں شیرینی اکثر کھجور ہی کی ہوتی ہے اور اہل عرب کے مزاج اس سے بہت زیادہ مانوس ہیں اس لیے کھجور سے افطار کرنے کے لیے فرمایا گیا کھجور نہ پانے کی صورت میں پانی سے افطار کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کیونکہ یہ ظاہر و باطنی طہارت و پاکیزگی کے لیے فال نیک ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز مغرب سے پہلے چند تازہ کھجوروں سے افطار فرمایا کرتے تھے اگر تازہ کھجوریں نہ ہوتیں تو خشک کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے اور اگر خشک کھجوریں بھی نہ ہوتیں تو چند یعنی تین چلو پانی پی لیتے (ترمذی، ابو داؤد، اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن غریب ہے۔
تشریح
ایک روایت میں جو ابویعلیٰ سے منقول ہے یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین کھجوروں سے یا کسی ایسی چیز سے جو آگ کی پکی ہوئی نہ ہوتی تھی۔ روزہ کھولنا پسند فرماتے تھے۔
بعض لوگوں نے جو یہ کہا ہے کہ مکہ مکرمہ میں مقیم لوگوں کے لیے یہ مسنون ہے کہ وہ کھجوروں سے پہلے آب زمزم پی کر روزہ افطار کریں یا ان دونوں کو ملا کر ان سے روزہ افطار کریں تو یہ بالکل غلط بلکہ اتباع سنت نبوی کے بھی خلاف ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فتح مکہ کے سال مکہ مکرمہ میں بہت دنوں تک مقیم رہے مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایسا کوئی عمل منقول نہیں ہے۔
حضرت زید بن خالد رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ جو شخص روزہ دار کو افطار کراتا ہے یا کسی غازی کا سامان درست کرتا ہے تو اس کو اسی کے ثواب جیسا ثواب ملتا ہے اس روایت کو بیہقی نے شعب الایمان میں نقل کیا ہے نیز محی السنۃ نے بھی اسے شرح السنہ میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
تشریح
مطلب یہ ہے کہ روزہ دار کو اس کے روزے کی وجہ سے اور غازی کو اس کے جہاد کا جیسا ثواب ملتا ہے ویسا ہی ثواب کسی کو روزہ افطار کرانے والے اور کسی مجاہد کا سامان جہاد درست کرنے والے کو بھی ملتا ہے۔ کیونکہ وہ اپنے اس عمل کے ذریعے ایک نیک کام میں مدد گار ہوتا ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم افطار کرتے تو یہ فرماتے۔ پیاس چلی گئی رگیں تر ہو گئیں اور اللہ نے چاہا تو ثواب ثابت ہو گیا۔ (ابو داؤد)
تشریح
اس ارشاد گرامی میں امت کے لیے عبادات کی ترغیب ہے کہ عبادات میں مشقت تو بہت تھوڑی ہے کیونکہ وہ ختم ہو جاتی ہے مگر اجر و ثواب زیادہ ہے اس لیے کہ وہ باقی و ثابت رہنے والا ہے۔
حضرت معاذ بن زہرہ (تابعی) کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب افطار کرتے تو یہ فرماتے۔ اے اللہ میں نے تیرے ہی لیے روزہ رکھا اور اب تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔ (اس روایت کو ابوداؤد نے بطریق ارسال نقل کیا ہے)
تشریح
ابن ملک کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا افطار کے بعد پڑھا کرتے تھے اس دعا میں ولک صمت کے بعد یہ الفاظ و بک آمنت و علیک توکلت عام طور سے پڑھے جاتے ہیں یہ الفاظ اگرچہ حدیث سے ثابت نہیں ہیں مگر معنی کے اعتبار سے صحیح ہیں ابن ماجہ نے روایت کیا ہے کہ روزہ دار افطار کے وقت جو دعا مانگتا ہے وہ رد نہیں کی جاتی بلکہ قبول ہوتی ہے افطار کے وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ پڑھنا بھی منقول ہے یا واسع الفضل اغفرلی نیز یہ بھی منقول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بھی پڑھا کرتے تھے۔ الحمدللہ الذی اعاننی فصمت و رزقنی فافطرت۔ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے میری مدد کی کہ میں نے روزہ رکھا اور مجھے رزق عطا فرمایا کہ میں نے افطار کیا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا۔ دین اسلام ہمیشہ غالب رہے گا جب تک کہ لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصاریٰ افطار میں دیر کرتے ہیں۔ (ابو داؤد، ابن ماجہ)
تشریح
جیسا کہ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ یہود و نصاریٰ افطار میں اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ ستارے گنجان یعنی پوری طرح نکل آتے ہیں اور اس زمانہ میں روافض بھی ان کی پیروی کرتے ہیں لہٰذا وقت ہو جانے پر جلدی افطار کرنے میں اہل باطل کی مخالفت ہوتی ہے اور دین کا غلبہ اور دین کی شوکت ظاہر ہوتی ہے یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ دین کے دشمنوں کی مخالفت دین کی مضبوطی اور غلبہ کا باعث ہے اور ان کی موافقت دین کے نقصان کا ذریعہ ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے آیت (یا ایہا الذی امنوا لاتتخذوا الیہود و النصاریٰ اولیاء بعضہم اولیاء بعض ومن یتولہم منکم فانہ منہم)۔ اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست مت بناؤ ان میں سے بعض بعض لوگوں کے دوست ہیں تم میں سے جو شخص ان سے دوستی کرے گا وہ ان ہی میں سے ہو گا۔
حضرت ابو عطیہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا اے ام المومنین! آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں دو اشخاص ہیں ان میں سے ایک صاحب تو جلدی افطار کرتے ہیں اور جلدی نماز پڑھتے ہیں دوسرے صاحب دیر کر کے افطار کرتے ہیں دیر کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ جلدی افطار کرنے والے اور نماز پڑھنے والے کون صاحب ہیں؟ ہم نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا یہی معمول تھا اور دوسرے صاحب جو افطار میں اور نماز میں دیر کرتے تھے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ تھے۔ (مسلم)
تشریح
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بڑے اونچے درجے کے عالم اور فقیہ تھے اس لیے انہوں نے سنت کے مطابق عمل کیا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بھی بڑے جلیل القدر صحابی تھے۔ ان کا عمل بیان جواز کی خاطر تھا یا انہیں کوئی عذر لاحق ہو گا یہ بھی احتمال ہے کہ وہ ایسا کبھی کبھی (کسی مصلحت و مجبوری کی خاطر) کرتے ہوں گے۔