مشکوٰة شر یف

زبان کی حفاظت، غیبت اور برا کہنے کا بیان

زبان کی حفاظت، غیبت اور برا کہنے کا بیان

٭٭غیبت  کے معنی ہیں پیٹھ پیچھے بد گوئی کرنا، یعنی کسی شخص کی عدم موجودگی میں اس کے متعلق ایسی باتیں کرنا کہ جس کو اگر وہ سنے تو ناپسند کرے۔

 

 شتم  کے معنی ہیں گالی دینا یعنی کسی کو کوئی فحش بات کہنا بدزبانی کرنا برا بھلا کہنا اور کسی کو ایسے الفاظ کے ذریعہ یاد و مخاطب کرنا جو شریعت و اخلاق اور تہذیب و شائستگی کے خلاف ہوں۔

بہرحال اس باب میں وہ احادیث نقل کی جائیں گی جن سے یہ واضح ہو گا کہ زبان کو ایسے الفاظ و کلام سے بچانا چاہیے جن کو زبان پر لانا شرعی ، اخلاقی، اور معاشرتی طور پر ناروا ہے ، خصوصاً غیبت، گالم گلوچ، اور بدزبانی و بدکلامی، نیز ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہو گا کہ ان چیزوں میں شرعی طور پر کیا برائی ہے اور ان کا ارتکاب کرنے والا شریعت و اخلاق کی نظر میں کس کی نظر میں کس قدر ناپسندیدہ ہے۔

زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والے کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف سے جنت کی بشارت

حضرت سہل ابن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص مجھے اس بات کی ضمانت دے کہ وہ اپنی اس چیز کی حفاظت کرے گا،جواس کے دو کلوں کے درمیان ہے یعنی زبان اور دانت اور جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان ہے یعنی شرم گاہ تو میں اس کی جنت کی ضمانت لیتا ہوں۔ (بخاری)

 

تشریح

 

زبان کی حفاظت کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ اپنی زبان پر قابو حاصل کرے بایں طور کہ اس کو بے فائدہ الفاظ و کلام اور فحش گوئی و سخت کلامی سے محفوظ رکھے اور دانت کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حرام چیزوں کے کھانے پینے میں ملوث نہ کرے اس طرح شرمگاہ کی حفاظت کا مطلب یہ ہے کہ زنا جیسی برائی سے اجتناب کرے۔

حدیث کا حاصل یہ ہے کہ جو شخص مجھ سے اس بات کا عہد کرے اور عمل کے ذریعہ اس عہد کو پورا کرے گا وہ اپنی زبان کو فحش گوئی و بدکلامی سے محفوظ رکھے گا اپنے منہ کو حرام و نا جائز کھانے پینے سے بچانے اور اپنی شرم گاہ کو حرام کاری سے محفوظ رکھنے پر پوری طرح عامل و کار بند رہے گا تو اس کے تئیں اس بات کا ضامن بنتا ہوں کہ وہ شروع میں ہی نجات یافتہ لوگوں کے ساتھ جنت میں داخل کر دیا جائے گا۔ اور وہاں کے درجات عالیہ کا مستحق قرار پائے گا۔

واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی دراصل حق تعالیٰ کی طرف سے ضمانت ہے کہ جس طرح وہ محض اپنے فضل سے بندوں کے رزق کا ضامن ہوا ہے اسی طرح اس نے پاکیزہ زندگی اختیار کرنے اور اعمال صالحہ پر جزاء دینے اور اپنے انعامات سے نوازنے کا بھی قوی وعدہ کیا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس کے نائب ہیں اس کی طرف سے مذکورہ ضمانت لی ہے۔

زبان پر قابو رکھو

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب بندہ اپنی زبان سے کوئی ایسی بات نکالتا ہے جس میں حق تعالیٰ کی خوشنودی ہوتی ہے تو اگرچہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا لیکن اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے درجات بلند کر دیتا ہے یعنی اگرچہ وہ بندہ اپنی اس بات کی قدر و اہمیت سے واقف نہیں ہوتا اور اس کو ایک نہایت سہل اور معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر حق تعالیٰ کے نزدیک وہ بات بہت بلند پایہ اور بڑے مرتبہ کی ہوتی ہے اسی طرح جب بندہ کوئی ایسی بات زبان سے نکالتا ہے جو حق تعالیٰ کی ناخوشی کا ذریعہ بن جاتی ہے تو اگرچہ وہ بندہ اس بات کی اہمیت کو نہیں جانتا یعنی وہ اس بات کو بہت معمولی سمجھتا ہے اور اس کو زبان سے نکالنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا لیکن حقیقت میں وہ بات نتیجے کے اعتبار سے اتنی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ وہ بندہ اس کے سبب سے دوزخ میں گر پڑتا ہے۔ (بخاری) اور بخاری و مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ اس کے سبب سے دوزخ میں اتنی دور سے گرتا ہے جو مشرق و مغرب کے درمیانی فاصلہ سے بھی زیادہ ہے یعنی وہ جہاں سے دوزخ میں گرے گا وہ دوزخ جس جگہ جا کر گرے گا ان دونوں کے درمیان اتنا طویل فاصلہ ہے جتنا مشرق  و مغرب کے درمیان بھی نہیں ہے۔

 

زبان پر قابو رکھو

تشریح

 

اس ارشاد گرامی کا حاصل اس بات پر متنبہ کرتا ہے کہ زبان پر ہر وقت قابو رکھو اور اس کے معاملہ کو کم اہم نہ سمجھو نیز اس حقیقت کو کسی بھی لمحہ نظر انداز نہ کرو اگر زبان پر احتیاط کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی اور یہ چھوٹی سی چیز تمہارے قابو سے باہر ہو گئی تو پھر تمہاری خیر نہیں چنانچہ اس حقیقت کو فرمایا گیا کہ بسا اوقات بندہ اپنی زبان سے کوئی بات نکالتا ہے اور اس کو اپنے نزدیک بہت معمولی درجہ کی بات سمجھتا ہے مگر درحقیقت و نتیجہ کے اعتبار سے اس بات کی اہمیت ہوتی کیا ہے؟اس کو یوں سمجھ لو کہ اگر وہ بات حق ہوتی ہے اور خدا کی خوشنودی کا ذریعہ بنتی ہے تو وہی ذرا سی بات جنت میں اس کی بلندی کا سبب بن جاتی ہے اور اگر وہ بات کہیں ایسی ہوئی جو بری ہونے کی وجہ سے خدا کی ناراضگی کا سبب بن گئی ہو تو بندے کے نزدیک وہی معمولی بات اس کو دوزخ میں گرا دینے کا ذریعہ بن جائے گی۔

کسی مسلمان کے حق میں بد زبانی و سخت گوئی فسق ہے

اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کسی مسلمان کو برا کہنا فسق ہے اور کسی مسلمان کو مار ڈالنا کفر ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

کسی مسلمان کے حق میں بد زبانی و سخت گوئی فسق ہے

تشریح

 

مسلمان کے قتل کو کفر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی مسلمان اگر کسی مسلمان کو قتل کر دے تو وہ کافر ہو جاتا ہے بلکہ اس ارشاد کا مقصد اس بات کو نہایت سختی و شدت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ مسلمان کا ناحق خون بہانا انتہائی سنگین جرم ہے اور جو مسلمان اپنے بھائی مسلمان کو قتل کرتا ہے وہ اپنے اسلام کے کامل ہونے کی نفی کرتا ہے گویا یہاں کفر سے مراد کمال اسلام کی نفی ہے جیسا کہ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ المسلم من سلم المسلمون۔ یعنی کامل مسلمان وہی ہے جس سے مسلمان محفوظ و مامون رہے اور اگر کفر سے اس کے حقیقی معنی مراد ہوں تو اس صورت میں کہا جائے گا کہ وہ مسلمان یقیناً کافر ہو جائے گا جو کسی مسلمان کو اس لیے قتل کر دے کہ وہ مسلمان ہو اور اس کے اسلام کے سبب سے اس قتل کرنے کو حلال و مباح جانے کیوں کہ کسی مسلمان کو محض اس کے اسلام کی وجہ سے قتل کرنا اور اس قتل کو حلال و مباح جاننا بلاشبہ کفر ہے۔

کسی مسلمان کو برا نہ کہو

 اور حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہو گیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

کسی مسلمان کو برا نہ کہو

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ ایک شخص نے جو خود مسلمان ہے کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہا تو اس کی دوہی صورتیں ہوں گی ایک تو یہ کہ کہنے والے نے سچ کہا ہو ظاہر ہے کہ اس صورت میں کلمہ کفر کا مستحق وہی شخص ہو گا جس کو کافر کہا گیا ہے اور جو حقیقتاً کافر ہے دوسرے یہ کہ کہنے والے نے جھوٹ کہا ہے یعنی اس نے جس شخص کو کافر کہا ہے وہ حقیقت میں مسلمان ہے اور اس کی طرف کفر کی نسبت سراسر جھوٹ ہے اس صورت میں کہا جائے کہ کہنے والا خود کافر ہو گیا تو اس کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ اس نے ایمان کو کفر سمجھا اور دین اسلام کو باطل جانا۔ اس حدیث کے سلسلے میں امام نووی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جو کچھ لکھا ہے اس کا ما حصل یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو بعض علماء نے مشکلات میں شمار کیا ہے کیونکہ اس ارشاد گرامی کا جو بظاہر مفہوم ہے اس کو حقیقی مراد قرار نہیں دیا جا  سکتابایں وجہ کہ اہل حق کا مسلک یہ ہے کہ کوئی مسلمان خواہ کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ کرے جیسے قتل اور زنا وغیرہ اور خواہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہنے کا ہی مرتکب کیوں نہ ہو بشرطیکہ وہ دین اسلام کے باطل ہونے کا عقیدہ نہ رکھے تو اس کی طرف کفر کی نسبت نہ کی جائے جب کہ مذکورہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ثابت کرتا ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کافر کہے اور حقیقت میں کافر نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔چنانچہ اسی وجہ سے اس ارشاد گرامی کی مختلف تاویلیں کی جاتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس کا محمول وہ شخص ہے جو نہ صرف یہ کسی مسلمان کو کافر کہے بلکہ کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت کرنے کو حلال و جائز سمجھے اس صورت میں ، باء بھا، کے معنی یہ ہوں گے کہ کفر خود اس شخص کی طرف تکفیر کی معصیت لوٹتی ہے یعنی جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہے گا تو اس کا یہ کہنا اس مسلمان کو تو کوئی نقصان پہنچائے گا نہیں البتہ مسلمان کو کافر کہنے کے گناہ میں خود مبتلا ہو گا اور تیسرے یہ کہ اس ارشاد گرامی کا محمول خوارج ہیں جو مومنوں کو کافر کہتے ہیں لیکن تیسری تاویل بہت ضعیف ہے کیونکہ اس تاویل کا مطلب ہے کہ خوارج کو کافر قرار دیا جائے جب کہ اکثر علماء امت کے نزدیک زیادہ صحیح اور قابل قبول قول یہ ہے کہ خوارج فرقہ سے تعلق رکھنے والے لوگ گمراہ بیشک ہیں جیسا کہ اہل بدعت، مگر ان کو کافر نہیں کہنا چاہیے اگرچہ ملا علی قاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے وضاحت کی ہے کہ اس تاویل کو ان کے حق میں ضعیف نہیں کہا جائے گاجو نہ صرف اہل سنت والجماعت بلکہ اکثر اونچے درجہ کے صحابہ کرام تک کے بارے میں نعوذ باللہ کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں۔

کسی مسلمان کی طرف فسق کی نسبت نہ کرو

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ کوئی شخص کسی آدمی کو فاسق نہ کہے اور نہ اس پر کفر کی تہمت لگائے کیونکہ اگر وہ آدمی فسق یا کفر کا حامل نہیں ہے تو اس کا کہا ہوا اسی طرف لوٹ جائے گا۔ (بخاری)

 

کسی مسلمان کی طرف فسق کی نسبت نہ کرو

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ کسی مسلمان کو نہ تو فاسق کہو اور نہ اس کی طرف کفر کی نسبت کرو کیونکہ اگر کسی شخص نے کسی ایسے مسلمان کو فاسق کہا جو حقیقت میں فاسق نہیں ہے تو وہ کہنے والا خود فاسق ہو گا اسی طرح اگر کسی شخص نے کسی ایسے شخص کو کافر کہا جو حقیقت میں کافر نہیں ہے بلکہ مومن ہے تو وہ کہنے والا خود کافر ہو جائے گا جیسا کہ پچھلی حدیث کے ضمن میں بیان کیا گیا ہے۔

 

کسی شخص کو دشمن خدا نہ کہو

اور حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص کسی کو کافر کہہ کر پکارے یا کسی کو خدا کا دشمن کہے اور وہ واقعتاً ایسا نہ ہو تو اس کا کہا ہوا خود اس پر لوٹ پڑتا ہے یعنی کہنے والا خود کافر یا خدا کا دشمن ہو جاتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

آپس میں گالم گلوچ کا سارا گناہ ابتداء کرنے والے پر ہوتا ہے

اور حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کریں تو ان کی ساری گالم گلوچ کا گناہ اس شخص پر ہو گا جس نے پہلی کی ہے جب تک کہ مظلوم تجاوز نہ کرے۔ (مسلم)

 

آپس میں گالم گلوچ کا سارا گناہ ابتداء کرنے والے پر ہوتا ہے

تشریح

 

مطلب یہ ہے کہ اگر دو شخص آپس میں گالم گلوچ کرنے لگیں ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگے اور ایک دوسرے کے حق میں بدکلامی و سخت گوئی کریں تو اس ساری گالم گلوچ اور برا بھلا کہنے کا گناہ ان دونوں میں سے اس شخص پر ہو گا جس نے گالم گلوچ کی ابتداء کی ہو گی، یعنی اس کو اپنی گالم گلوچ کا گناہ تو ہو ہی گا دوسرے شخص کی گالم گلوچ کا گناہ بھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا کیونکہ اس نے گالم گلوچ کی ابتداء کر کے گویا دوسرے شخص پر ظلم کیا ہے اور اس اعتبار سے وہ ظالم کہلائے گا اور دوسرا شخص مظلوم لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ دوسرا شخص یعنی مظلوم جواب میں زیادتی نہ کرے ، اگر مظلوم حد سے تجاوز کر گیا بایں طور کہ اس کی گالم گلوچ ابتداء کرنے والے کی گالم گلوچ سے بڑھ گئی یا ابتداء کرنے والے نے جو ایذا پہنچائی تھی اس کے جواب میں دوسرے شخص نے اس سے بھی زیادہ پہنچائی تو اس صورت میں ابتداء کرنے والے کی بہ نسبت اس پر زیادہ گناہ ہو گا بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ دوسرا شخص بھی اس تعدی اور زیادتی کی وجہ سے گناہ گار ہو گا۔

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا صدیق کے لیے یہ جائز و مناسب نہیں ہے کہ بہت زیادہ لعنت کرنے والا ہو۔ (مسلم)

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

تشریح

 

 صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیاد سچا، بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ صدیق اس شخص کو کہتے ہیں جس کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہ ہو بلکہ پوری یکسانیت و مطابقت ہو، صوفیاء کے ہاں صدیقیت ایک مقام ہے جس کا درجہ مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت کریمہ،(فَاُولٰۗىِٕكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللّٰہ عَلَيْہمْ مِّنَ النَّبِيّٖنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّہدَاۗءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ۚ وَحَسُنَ اُولٰۗىِٕكَ رَفِيْقاً) 4۔ النساء:69)۔سے مفہوم ہوتا ہے۔ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص صدق و راستی کے وصف سے مزین ہو اور ایسے اونچے مقام پر پہنچ  چکا ہو جو مقام نبوت کے بعد سب سے اعلی ہے اور اس اعتبار سے اس کے مرتبہ کو مرتبہ نبوت سے سب سے قریبی نسبت حاصل ہے تو اس کی شان یہ نہیں ہونی چاہیے کہ وہ دوسروں پر لعنت کرتا رہے اور نہ مقام صدیقیت کا مقتضاء ہو سکتا ہے کیونکہ کسی کو لعنت کرنے کا مطلب یہ ہے ہک اس کو رحمت خداوندی اور بارگاہ الوہیت سے محروم قرار دے دیا جائے جب کہ تمام انبیاء کا مقصد ہی یہ رہا ہے کہ وہ مخلوق خدا کو رحمت خداوندی سے بہرہ یاب کریں اور جو بارگاہ الوہیت سے دور ہو چکے ہیں ان کو قریب تر لائیں اسی وجہ سے اہل سنت والجماعت کا پسندے دی شیوہ یہ ہے کہ لعن طعن کو ترک کیا جائے اور کسی بھی شخص کو لعنت نہ کی جائے اگرچہ وہ اس لعنت کا مستحق ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جو شخص اپنے قول و فعل کے ذریعہ خدا کے نزدیک خود ملعون قرار دیا جا چکا ہے اس پر لعنت کرنے کی ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے لہذا کسی شخص پر لعنت کر کے گویا اپنی زبان کو خواہ مخواہ آلودہ کرنا اس کی لعنت میں اپنا وقت صرف کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے اور یہ کہ اسے لعن و طعن کر کے گویا اپنی جماعت حقہ کے شیوہ و معمول کے برخلاف عمل کرنا ہے البتہ اس کافر پر لعنت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جس کے بارے میں مخبر صادق یا اپنا علم و یقین یہ ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرا ہے۔ واضح رہے کہ لعنت کی دو قسمیں ہیں ایک تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ شخص کو بھلائی سے بالکل محروم اور رحمت خداوندی سے کلیۃً دور قرار دینا نیز اس کو اللہ تعالیٰ کے فضل لامتناہی سے مطلق ناامید کر دینا ، ایسی لعنت صرف کافروں کے لیے مخصوص ہے دوسری قسم کی لعنت کا مطلوب یہ ہے کہ کسی ایسے شخص کو رضائے حق اور قرب خداوندی کے مقام سے دور و محروم قرار دیا جائے جو ترک اولیٰ و احواط کا مرتکب ہو چنانچہ بعض اعمال کے ترک کے سلسلے میں جو لعنت و ملامت منقول ہے اور جو بعض صحابہ کرام وغیرہ سے بھی نقل کی گئی ہے۔

لفظ لعان مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت زیادہ لعنت کرنے والا حدیث میں یہ لفظ صیغہ اس لیے استعمال کیا گیا ہے کہ عام طور پر یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی اونچے سے اونچے درجہ کا مومن بھی تھوڑی بہت لعنت کرنے سے اجتناب کرتا ہو، چنانچہ ابن ملک نے لکھا ہے کہ اس ارشاد گرامی میں اس لفظ کا بصیغہ مبالغہ ذکر ہونا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ لعنت کرنے کی جو برائی اس حدیث سے واضح ہوتی ہے کہ وہ اس شخص کے حق میں نہیں جس سے کبھی کبھار یعنی ایک مرتبہ یا دو مرتبہ لعنت کا صدور ہو جائے۔

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

 اور حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو لوگ بہت زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں وہ قیامت کے دن نہ گواہ بنائے جائیں گے اور نہ شفاعت کر سکیں گے۔ (مسلم)

 

کسی پر لعن طعن کرنا نامناسب ہے

تشریح

 

قیامت کے دن امت کے لوگ پچھلی امتوں پر گواہ کی حیثیت سے پیش کیے جائیں گے چنانچہ وہ یہ گواہی دیں گے کہ ان کے رسولوں اور پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ کے احکام ان تک پہنچائے تھے اور ان کو خدا کی طرف بلایا تھا مگر انہوں نے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کی بات نہیں مانی اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وکذالک جعلنکم امۃ وسطالتکونوا شھداء علی الناس اور اسی طرح ہم نے تمہیں برگزیدہ امت بنایا تاکہ تم اور لوگوں پر گواہ ہو۔ اسی گواہی کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن ایسے گواہ بننے کا اعزاز نہیں بخشا جائے گاجو دوسروں پر اتنی زیادہ لعنت کیا کرتے ہیں کہ لعنت کرنا گویا ان کی عادت بن جاتی ہے اسی طرح بہت زیادہ لعنت کرنے والے لوگ قیامت کے دن درجہ شفاعت سے بھی محروم کر دیے جائیں گے یعنی اگر وہ چاہیں گے کہ دوسرے لوگوں کی شفاعت کریں تو وہ بھی نہ کر سکیں گے۔

کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ لوگ ہلاک ہوئے یعنی جہنم کی آگ کے مستوجب ہو گئے تو اس طرح کہنے والا سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے۔ (مسلم)

 

کسی کی طرف اخروی ہلاکت کی نسبت نہ کرو

تشریح

 

اگر کوئی شخص کچھ لوگوں، کو ایسے عقائد و اعمال میں مبتلا دیکھے جو دین و شریعت کے خلاف ہوں تو ان کی اس حالت پر حسرت وافسوس کا ہونا اور غم خواری کے جذبات کا پیدا ہونا ایک فطری امر بھی ہے اور اخوت اسلامی کا تقاضا بھی اب اگر وہ شخص اسی حسرت وافسوس اور غم خواری کے جذبات کے تحت ان لوگوں کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک ہو گئے یعنی ان لوگوں نے ایسے عقائد و اعمال کو اختیار کر لیا ہے جو ان کو دوزخ کی آگ میں دھکیل کر رہیں گے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ اس شخص کا یہ کہنا دراصل ان لوگوں کے تئیں ہمدردی و غم خواری کا مظہر ہو گا اور اس کا مطلب یہی سمجھا جائے گا کہ وہ شخص ان لوگوں کے برے احوال سے دل شکستہ ہے اور اس کا قلبی جذبہ یہ ہے کہ کاش وہ لوگ اس حالت میں مبتلا ہو کر اخروی ہلاکت و تباہی کے راستہ کو اختیار نہ کرتے اور جب وہ اس راہ پر پڑ گئے ہیں تو اے کاش اب بھی ان کو ہدایت نصیب ہو جائے اور وہ ابدی ہلاکت و تباہی کے خوف سے راہ راست پر لگ جائیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان جذبات ہمدردی و غم خواری کے برعکس محض عیب جوئی حقارت اور ان لوگوں کو رحمت خداوندی سے مایوس کرنے کے لیے اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو یہ سخت براہو گا اور اس طرح کہنے والا شخص خود سب سے زیادہ ہلاکت و تباہی میں پڑے گا کیوں کہ اس کے ان الفاظ سے یہ سمجھا جائے گا کہ وہ اپنے نفس کی برائی اور اپنے اعمال کے غرور و تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے دوسرے لوگوں کو چشم حقارت سے دیکھتا ہے اور ان کو حق تعالیٰ کی رحمت سے ناامید کرتا ہے یہ مطلب اس صورت میں ہو گا کہ جب کہ لفظ اھلکم کاف کے پیش کے ساتھ یعنی بصیغہ تفضیل ہو اور اگر یہ لفظ کاف کے زیر کے ساتھ یعنی بصیغہ ماضی ہو جیسا کہ بعض روایتوں میں نقل کیا گیا ہے تو اس صورت میں ترجمہ یہ ہو گا کہ اس طرح کہنے والا انکو ہلاک و برباد کر دیتا ہے اور مطلب یہ ہو گا کہ جب کوئی شخص اپنے مشاہدہ کے مطابق بد عملیوں میں مبتلا لوگوں کے بارے میں اپنی زبان سے یہ الفاظ نکالتا ہے کہ وہ لوگ تو ہلاک و برباد ہو گئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ رحمت خداوندی سے مایوس ہو کر ترک طاعت و عبادت اور ارتکاب معصیت و گناہ میں اور زیادہ مشغول و منہمک ہو جاتے ہیں کیونکہ اس طرح کے الفاظ ان گناہ گاروں کو شکستہ دل ، ناامید، اور بے شوق بنا دیتے ہیں جو اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے گویا دنیا ہی میں خدا کے قہر و جلال میں گرفتار ہوئے ہیں اسی لیے شریعت کی تعلیم یہ ہے کہ جو لوگ بد عملیوں کی راہ اختیار کیے ہوئے ہوں اور معصیت کے اندھیروں نے جن کو گھیر رکھا ہو انہیں نہایت نرمی و ملائمت اور شفقت و محبت کے ساتھ تذکیر و نصیحت کی جانی چاہیے اور ان پر سختی و تشدد کرنا ان کے حق میں سخت برا بن جاتا ہے اور وہ ضد ہٹ دھرمی میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے راہ راست پر آنے کی بجائے اور زیادہ گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں لہذا جو شخص ان کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کرتا ہے اور انہیں ہلاکت و بربادی کی خبر دیتا ہے وہ گویا انہیں ہلاکت و بربادی میں ڈالنے کا خود موجب بنتا ہے اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا مذکورہ ارشاد گرامی اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ گناہ گاروں کو بھی مغفرت کی بشارت دینا چاہیے ان کے قلب و ذہن کو دین و ایمان پر پختہ کرنا چاہیے اور انہیں رحمت خداوندی کا امیدوار و طلبگار بنانا چاہیے۔

منہ دیکھی بات کرنے والوں کی مذمت

 اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا قیامت کے دن سب سے بدتر شخص وہ ہو گا جو فتنہ انگیزی کی خاطر دو منہ رکھتا ہے یعنی منافق کی خاصیت و صفت رکھتا ہے کہ وہ ایک جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے دوسری جماعت کے پاس آتا ہے تو کچھ کہتا ہے۔ (بخاری و مسلم)

 

منہ دیکھی بات کرنے والوں کی مذمت

تشریح

 

اس ارشاد گرامی میں ان لوگوں کے لیے سخت وعید ہے جو منافقوں کی طرح دو رویہ یعنی دو منہ والے ہوتے ہیں کہ ہر فریق کو خوش رکھنے کی خاطر کبھی صحیح اور حق بات نہیں کہتے بلکہ منہ دیکھی بات کرتے ہیں وہ جس جماعت اور جس فریق کے پاس اس کی مرضی اور خواہش کے مطابق اپنی زبان کھولتے ہیں زید کے پاس جاتے ہیں تو اس کی سی کہتے ہیں اور بکر کے پاس جاتے ہیں تو اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں۔

 

 

٭٭اور حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا (یعنی وہ نجات پائے ہوئے لوگوں کے ساتھ ابتداء میں جنت میں داخل نہ ہو گا) بخاری، و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں قتات کے بجائے نمام کا لفظ ہے۔

منہ دیکھی بات کرنے والوں کی مذمت

 

تشریح

 

قتات اور نمام کے ایک ہی معنی ہیں یعنی چغل خور اس شخص کو کہتے ہیں جو لگائی بجھائی کرتا ہے اور ادھر کی بات ادھر اور ادھر کی بات ادھر کر کے لوگوں کے درمیان فتنہ وفساد کے بیج بوتا ہے۔