أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ الْمَوْصِلِيُّ، عَنِ الْمُعَافَى، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ الْمَكِّيِّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمُعَاذٍ حِينَ بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ: "إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَإِذَا جِئْتَهُمْ فَادْعُهُمْ إِلَى أَنْ يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ يَعْنِي أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ فَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ، فَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ بِذَلِكَ، فَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجتے وقت فرمایا: "تم اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے پاس جا رہے ہو، تو جب تم ان کے پاس پہنچو تو انہیں اس بات کی دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر دن و رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں، پھر اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر (زکاۃ) فرض کی ہے، جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے محتاجوں میں بانٹ دیا جائے گا، اگر وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو پھر مظلوم کی بد دعا سے بچو" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱ (۱۳۹۵)، ۴۱ (۱۴۵۸)، ۶۳ (۱۴۹۶)، المظالم ۱۰ (۲۴۴۸)، المغازی ۶۰ (۴۳۴۷)، والتوحید ۱ (۷۳۷۲)، صحیح مسلم/الإیمان ۷ (۱۹)، سنن ابی داود/الزکاة ۴ (۱۵۸۴)، سنن الترمذی/الزکاة ۶ (۶۲۵)، البر ۶۸ (۲۰۱۴)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۱ (۱۷۸۳)، (تحفة الأشراف: ۶۵۱۱)، مسند احمد ۱/۲۳۳، سنن الدارمی/الزکاة ۱ (۱۶۵۵)، ۹ (۶۷۱)، ویأتی عند المؤلف فی باب ۴۶ برقم۲۵۲۳ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس طرح کہ زکاۃ کی وصولی میں ظلم و زیادتی نہ کرو، اور نہ ہی اس کی تقسیم میں، مثلاً کسی سے اس کا بہت اچھا مال لے لو یا کسی کو ضرورت سے زیادہ دے دو اور کسی کو کچھ نہ دو کہ وہ تم سے دکھی ہو کر تمہارے حق میں بد دعا کرے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِهِنَّ لِأَصَابِعِ يَدَيْهِ أَنْ لَا آتِيَكَ وَلَا آتِيَ دِينَكَ، وَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَيْئًا، إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَحْيِ اللَّهِ بِمَا بَعَثَكَ رَبُّكَ إِلَيْنَا ؟ قَالَ: "بِالْإِسْلَامِ"، قُلْتُ: وَمَا آيَاتُ الْإِسْلَامِ ؟ قَالَ: "أَنْ تَقُولَ: أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَى اللَّهِ وَتَخَلَّيْتُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں آپ کے پاس نہیں آیا یہاں تک کہ میں نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے زیادہ بار یہ قسم کھائی کہ نہ میں آپ کے قریب اور نہ آپ کے دین کے قریب آؤں گا۔ اور اب میں ایک ایسا آدمی ہوں کہ کوئی چیز سمجھتا ہی نہیں ہوں سوائے اس چیز کے جسے اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دی ہے، اور میں اللہ کی وحی کی قسم دے کر آپ سے پوچھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے کیا چیز دے کر آپ کو ہمارے پاس بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اسلام کے ساتھ"، میں نے پوچھا: اسلام کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا: "یہ ہیں کہ تم کہو کہ میں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیا، اور شرک اور اس کی تمام آلائشوں سے کٹ کر صرف اللہ کی عبادت کے لیے یکسو ہو گیا، اور نماز قائم کرو، اور زکاۃ دو"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۸۸)، مسند احمد ۵/۴، ۵، ویأتي عند المؤلف، بأرقام: ۲۵۶۷، ۲۵۶۹، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الحدود ۲ (۲۵۳۶) (حسن الإسناد)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ مُسَاوِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ سَلَّامٍ، عَنْ أَخِيهِ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍأَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غُنْمٍ، أَنَّ أَبَا مَالِكٍ الْأَشْعَرِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلَأُ الْمِيزَانَ، وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ يَمْلَأُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ".
ابو مالک اشعری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کامل وضو کرنا آدھا ایمان ہے، الحمدللہ ترازو کو بھر دیتا ہے۔ اور سبحان اللہ اور اللہ اکبر آسمانوں اور زمین کو (ثواب) سے بھر دیتے ہیں۔ اور نماز نور ہے، اور زکاۃ دلیل ہے، اور صبر روشنی ہے، اور قرآن حجت (دلیل) ہے تیرے حق میں بھی، اور تیرے خلاف بھی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الطھارة۵ (۲۸۰)، (تحفة الأشراف: ۲۱۶۳)، مسند احمد ۵/۳۴۲، ۳۴۳، سنن الدارمی/الطہارة۲ (۶۷۹)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطھارة۱ (۲۲۳)، سنن الترمذی/الدعوات۸۶ (۳۵۱۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا خَالِدٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْنُعَيْمٍ الْمُجْمِرِ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي صُهَيْبٌ، أَنَّهُ سَمِعَ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَمِنْ أَبِي سَعِيدٍ، يَقُولَانِ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَقَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ"ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَكَبَّ فَأَكَبَّ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَبْكِي، لَا نَدْرِي عَلَى مَاذَا حَلَفَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ فِي وَجْهِهِ الْبُشْرَى، فَكَانَتْ أَحَبَّ إِلَيْنَا مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، ثُمَّ قَالَ: "مَا مِنْ عَبْدٍ يُصَلِّي الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، وَيَصُومُ رَمَضَانَ، وَيُخْرِجُ الزَّكَاةَ، وَيَجْتَنِبُ الْكَبَائِرَ السَّبْعَ، إِلَّا فُتِّحَتْ لَهُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ، فَقِيلَ لَهُ: ادْخُلْ بِسَلَامٍ".
ابوہریرہ اور ابوسعید رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک دن خطبہ دیا۔ آپ نے تین بار فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے"، پھر آپ نے سر جھکا لیا تو ہم سے ہر شخص سر جھکا کر رونے لگا، ہم نہیں جان سکے آپ نے کس بات پر قسم کھائی ہے، پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا، آپ کے چہرے پر بشارت تھی جو ہمیں سرخ اونٹ پانے کی خوشی سے زیادہ محبوب تھی، پھر آپ نے فرمایا: "جو بندہ بھی پانچوں وقت کی نماز پڑھے، روزے رمضان رکھے، اور زکاۃ ادا کرے، اور ساتوں کبائر ۱؎ سے بچے تو اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، اور اس سے کہا جائے گا: سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جاؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۴۰۷۹، ۱۳۵۰۹)، مسند احمد ۳/۷۹ (ضعیف) (اس کے راوی صہیب عتواری لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: ساتوں کبائر یہ ہیں::(۱ ) شراب پینا :(۲ ) جادو کرنا :(۳ ) ناحق خون بہانا :(۴ ) سود کھانا :(۵ ) یتیم کا مال کھانا :(۶ ) جہاد سے بھاگنا :(۷ ) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "مَنْ أَنْفَقَ زَوْجَيْنِ مِنْ شَيْءٍ مِنَ الْأَشْيَاءِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، دُعِيَ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ، يَا عَبْدَ اللَّهِ هَذَا خَيْرٌ لَكَ، وَلِلْجَنَّةِ أَبْوَابٌ، فَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّلَاةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّلَاةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجِهَادِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الْجِهَادِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصَّدَقَةِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الصَّدَقَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الصِّيَامِ، دُعِيَ مِنْ بَابِ الرَّيَّانِ"، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَلْ عَلَى مَنْ يُدْعَى مِنْ تِلْكَ الْأَبْوَابِ مِنْ ضَرُورَةٍ، فَهَلْ يُدْعَى مِنْهَا كُلِّهَا أَحَدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "نَعَمْ، وَإِنِّي أَرْجُو أَنْ تَكُونَ مِنْهُمْ"، يَعْنِي: أَبَا بَكْرٍ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جو شخص اللہ کی راہ میں چیزوں میں سے کسی چیز کے جوڑے دے تو وہ جنت کے دروازے سے یہ کہتے ہوئے بلایا جائے گا کہ اللہ کے بندے! آ جا یہ دروازہ تیرے لیے بہتر ہے، تو جو شخص اہل صلاۃ میں سے ہو گا وہ صلاۃ کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص مجاہدین میں سے ہو گا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو اہل صدقہ (و زکاۃ) میں سے ہوں گے تو وہ صدقہ (زکاۃ) کے دروازے سے بلایا جائے گا، اور جو روزے رکھنے والوں میں سے ہو گا وہ باب الریان (ریان کے دروازہ) سے بلایا جائے گا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: جو کوئی ان دروازوں میں سے کسی ایک دروازے سے بلا لیا جائے اسے مزید کسی اور دروازے سے بلائے جانے کی ضرورت نہیں، لیکن اللہ کے رسول! کیا کوئی ایسا بھی ہے جو ان تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: "ہاں، اور مجھے امید ہے کہ تم انہیں میں سے ہو گے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۲۴۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ فِي حَدِيثِهِ، عَنْ أَبِي مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: جِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي مُقْبِلًا، قَالَ: "هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ"، فَقُلْتُ: مَا لِي لَعَلِّي أُنْزِلَ فِيَّ شَيْءٌ ؟ قُلْتُ: مَنْ هُمْ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، قَالَ: "الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا حَتَّى بَيْنَ يَدَيْهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَا يَمُوتُ رَجُلٌ فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ، وَأَسْمَنَهُ تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، أُعِيدَتْ أُولَاهَا حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے، جب آپ نے ہمیں آتے دیکھا تو فرمایا: "وہ بہت خسارے والے لوگ ہیں، رب کعبہ کی قسم"! میں نے (اپنے جی میں) کہا: کیا بات ہے؟ شاید میرے بارے میں کوئی آیت نازل ہوئی ہے، میں نے عرض کیا: کون لوگ ہیں میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں؟ آپ نے فرمایا: "بہت مال والے، مگر جو اس طرح کرے، اس طرح کرے" یہاں تک کہ آپ اپنے سامنے، اپنے دائیں، اور اپنے بائیں دونوں ہاتھ سے اشارہ کیا، پھر آپ نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے جو شخص کوئی اونٹ یا بیل چھوڑ کر مرے گا جس کی اس نے زکاۃ نہ دی ہو گی تو وہ (اونٹ یا بیل) (دنیا میں) جیسا کچھ وہ تھا قیامت کے دن اس سے بڑا اور موٹا تازہ ہو کر اس کے سامنے آئے گا، اور اسے اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں سے مارے گا، جب آخری جانور روند اور مار چکے گا تو پھر ان کا پہلا لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۴۳ (۱۴۶۰)، الأیمان والنذور۳ (۶۶۳۸)، صحیح مسلم/الزکاة۹ (۹۹۰)، سنن الترمذی/الزکاة۱ (۶۱۷)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲ (۱۷۸۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۸۱)، مسند احمد ۵/۱۵۲، ۱۵۸، ۱۶۹، سنن الدارمی/الزکاة ۳ (۱۶۵۹)، ویأتي عند المؤلف فی باب۱۱برقم: ۲۴۵۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ جَامِعِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ رَجُلٍ لَهُ مَالٌ لَا يُؤَدِّي حَقَّ مَالِهِ، إِلَّا جُعِلَ لَهُ طَوْقًا فِي عُنُقِهِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ وَهُوَ يَتْبَعُهُ"، ثُمَّ قَرَأَ مِصْدَاقَهُ مِنْ كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ سورة آل عمران آية 180".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کے پاس مال ہو اور وہ اپنے مال کا حق ادا نہ کرے (یعنی زکاۃ نہ دے)تو وہ مال ایک گنجے زہریلے سانپ کی شکل میں اس کی گردن کا ہار بنا دیا جائے گا، وہ اس سے بھاگے گا، اور وہ (سانپ) اس کے ساتھ ہو گا"، پھر اس کی تصدیق کے لیے آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی «ولا تحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله هو خيرا لهم بل هو شر لهم سيطوقون ما بخلوا به يوم القيامة» "تم یہ مت سمجھو کہ جو لوگ اس مال میں جو اللہ نے انہیں دیا ہے بخیلی کرتے ہیں ان کے حق میں بہتر ہے، یہ بہت برا ہے ان کے لیے۔ عنقریب جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہو گا وہ قیامت کے دن ان کے گلے کا ہار بنا دیا جائے گا" (آل عمران: ۱۸)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/تفسیر آل عمران (۳۰۱۲)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۲ (۱۷۸۴)، مسند احمد ۱/۳۷۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْأَبِي عَمْرٍو الْغُدَانِيِّ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "أَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ إِبِلٌ، لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! مَا نَجْدَتُهَا وَرِسْلُهَا ؟ قَالَ: "فِي عُسْرِهَا وَيُسْرِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، إِذَا جَاءَتْ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ بَقَرٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَغَذَّ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ وَآشَرَهُ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا، وَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ، وَأَيُّمَا رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا يُعْطِي حَقَّهَا فِي نَجْدَتِهَا وَرِسْلِهَا، فَإِنَّهَا تَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَغَذِّ مَا كَانَتْ وَأَكْثَرِهِ وَأَسْمَنِهِ وَآشَرِهِ ثُمَّ يُبْطَحُ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ فَتَطَؤُهُ كُلُّ ذَاتِ ظِلْفٍ بِظِلْفِهَا وَتَنْطَحُهُ كُلُّ ذَاتِ قَرْنٍ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا عَقْصَاءُ وَلَا عَضْبَاءُ، إِذَا جَاوَزَتْهُ أُخْرَاهَا أُعِيدَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ فَيَرَى سَبِيلَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ جس شخص کے پاس اونٹ ہوں اور وہ ان کی تنگی اور خوشحالی میں ان کا حق ادا نہ کرے (لوگوں نے) عرض کیا: اللہ کے رسول! «نجدتها ورسلها» سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: تنگی اور آسانی ۱؎ تو وہ اونٹ جیسے کچھ تھے قیامت کے دن اس سے زیادہ چست، فربہ اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے۔ اور یہ ایک کشادہ اور ہموار چٹیل میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، جب آخری اونٹ روند چکے گا تو پھر پہلا اونٹ روندنے کے لیے لوٹایا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، اور یہ سلسلہ برابر اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک لوگوں کے درمیان فیصلہ نہ کر دیا جائے گا، اور وہ اپنا راستہ دیکھ نہ لے گا، جن کے پاس گائے بیل ہوں اور وہ ان کا حق ادا نہ کرے یعنی ان کی زکاۃ نہ دے، ان کی تنگی اور ان کی کشادگی کے زمانہ میں، تو وہ گائے بیل قیامت کے دن پہلے سے زیادہ مستی و نشاط میں موٹے تازے اور تیز رفتار ہو کر آئیں گے، اور اسے ایک کشادہ میدان میں اوندھا لٹا دیا جائے گا اور ہر سینگ والا اسے سینگوں سے مارے گا، اور ہر کھر والا اپنی کھروں سے اسے روندے گا، جب آخری جانور روند چکے گا، تو پھر پہلا پھر لوٹا دیا جائے گا، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے، اور جس شخص کے پاس بکریاں ہوں اور وہ ان کی تنگی اور آسانی میں ان کا حق ادا نہ کرے تو قیامت کے دن وہ بکریاں اس سے زیادہ چست فربہ اور موٹی تازی ہو کر آئیں گی جتنی وہ (دنیا میں) تھیں، پھر وہ ایک کشادہ ہموار میدان میں منہ کے بل لٹا دیا جائے، تو ہر کھر والی اسے اپنے کھر سے روندیں گی، اور ہر سینگ والی اسے اپنی سینگ سے مارے گی، ان میں کوئی مڑی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی سینگ کی نہ ہو گی، جب آخری بکری مار چکے گی تو پھر پہلی بکری لوٹا دی جائے گی، ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہو گی، یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے، اور وہ اپنا راستہ دیکھ لے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۳۲ (۱۶۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۵۴۵۳)، مسند احمد ۲/۳۸۳، ۴۸۹، ۴۹۰ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ نہ تنگی و پریشانی کے زمانے میں زکاۃ دے کہ دینے سے اونٹ کم ہو جائیں گے، اور محتاجی و تنگی مزید بڑھ جائے گی، اور نہ خوش حالی و فارغ البالی کے دنوں میں زکاۃ دے یہ سوچ کر کہ ایسے موٹے تازے جانور کی زکاۃ کون دے ؟
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ مَسْعُودٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتُخْلِفَ أَبُو بَكْرٍ بَعْدَهُ، وَكَفَرَ مَنْ كَفَرَ مِنَ الْعَرَبِ، قَالَ عُمَرُ لِأَبِي بَكْرٍ: كَيْفَ تُقَاتِلُ النَّاسَ ؟ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ، حَتَّى يَقُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، فَمَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، عَصَمَ مِنِّي مَالَهُ وَنَفْسَهُ إِلَّا بِحَقِّهِ وَحِسَابُهُ عَلَى اللَّهِ ؟"، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ، فَإِنَّ الزَّكَاةَ حَقُّ الْمَالِ وَاللَّهِ لَوْ مَنَعُونِي عِقَالًا كَانُوا يُؤَدُّونَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَقَاتَلْتُهُمْ عَلَى مَنْعِهِ، قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُ اللَّهَ شَرَحَ صَدْرَ أَبِي بَكْرٍ لِلْقِتَالِ، فَعَرَفْتُ أَنَّهُ الْحَقُّ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی اور آپ کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنائے گئے، اور عربوں میں سے جنہیں کافر مرتد ہونا تھا کافر ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ لوگوں سے کیسے لڑیں گے؟ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں یہاں تک کہ یہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں، تو جس نے لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیا، اس نے مجھ سے اپنے مال اور اپنی جان کو سوائے اسلام کے حق ۱؎ کے مجھے سے محفوظ کر لیا۔ اور اس کا حساب اللہ کے سپرد ہے" ۲؎ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اس شخص سے ضرور لڑوں گا جو نماز اور زکاۃ میں فرق کرے گا (یعنی نماز تو پڑھے اور زکاۃ دینے سے منع کرے) کیونکہ زکاۃ مال کا حق ہے، قسم اللہ کی، اگر یہ اونٹ باندھنے کی رسی بھی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ادا کیا کرتے تھے مجھ سے روکیں گے، تو میں ان سے ان کے روکنے پر لڑوں گا، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ کی قسم! زیادہ دیر نہیں ہوئی مگر مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قتال کے سلسلے میں شرح صدر عطا کر دیا ہے، اور میں نے جان لیا کہ یہ (یعنی ابوبکر رضی اللہ عنہ کی رائے) حق ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۱ (۱۳۹۹)، ۴۰ (۱۴۵۷)، المرتدین۳ (۶۹۲۴)، الاعتصام۲ (۷۲۸۴)، صحیح مسلم/الإیمان۸ (۲۰)، سنن ابی داود/الزکاة۱ (۱۵۵۶)، سنن الترمذی/الإیمان۱ (۲۶۰۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۶۶)، مسند احمد ۱/۱۹، ۴۷، ۲/۴۲۳، ویأتی عند المؤلف فی الجھاد ۱، (بأرقام: ۳۹۷۵، ۳۹۷۶، ۳۹۷۸، ۳۹۸۰)، وفی المحاربة۱ (بأرقام: ۳۹۷۴- ۳۹۷۶، ۳۹۷۸)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن ۱ (۳۹۲۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: "سوائے اسلام کے حق کے" کا مطلب یہ ہے کہ اگر قبول اسلام کے بعد کسی نے ایسا جرم کیا جو قابل حد ہے تو وہ حد اس پر ضرور نافذ ہو گی، مثلاً چوری کی تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا، زنا کیا تو غیر شادی شدہ کو سو کوڑوں کی سزا یا رجم کی سزا، کسی کو ناحق قتل کیا تو قصاص میں قتل کی، سزا دی جائے گی۔ ۲؎: " اور ان کا حساب اللہ کے سپرد ہے " کا مطلب ہے اگر وہ قبول اسلام میں مخلص نہیں ہوں گے بلکہ منافقانہ طور پر اسلام کا اظہار کریں گے، یا قابل جرم کام کا ارتکاب کریں گے لیکن اسلامی عدالت اور افسران مجاز کے علم میں نہیں آ سکا، تو ان کا حساب اللہ کے سپرد ہو گا یعنی آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کا فیصلہ فرمائے گا۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا، مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ أَبَى فَإِنَّا آخِذُوهَا وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةٌ مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا، لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: "چرائے جانے والے ہر چالیس اونٹ میں ایک بنت لبون ۱؎ ہے، اونٹوں کو (زکاۃ سے بچنے کے لیے) ان کے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کیا جائے۔ جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا تو اسے اس کا ثواب ملے گا، اور جو شخص زکاۃ دینے سے انکار کرے گا تو ہم زکاۃ بھی لیں گے اور بطور سزا اس کے آدھے اونٹ بھی لے لیں گے، یہ ہمارے رب کی سزاؤں میں سے ایک سزا ہے۔ اس میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے لیے کوئی چیز جائز نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۴ (۱۵۷۵)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۸۴)، مسند احمد ۵/۲، ۴، سنن الدارمی/الزکاة۳۶ (۱۷۱۹)، ویأتی عند المؤلف فی باب۷ (برقم۲۴۵۱) (حسن)
وضاحت: ۱؎: اونٹ کا وہ بچہ جو اپنی عمر کے دو سال پورے کر چکا ہو، اور تیسرے سال میں داخل ہو چکا ہو۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى. ح وَأَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ سُفْيَانَ، وَشُعْبَةَ، وَمَالِكٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۴ (۱۴۰۴)، ۳۲ (۱۴۴۷)، صحیح مسلم/الزکاة۱ (۹۷۹)، سنن ابی داود/الزکاة ۱ (۱۵۵۸)، سنن الترمذی/الزکاة ۷ (۶۲۷)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۶ (۱۷۹۳)، (تحفة الأشراف: ۴۴۰۲)، موطا امام مالک/الزکاة۱ (۱)، مسند احمد ۳/۶، ۴۴، ۴۵، ۵۹، ۶۰، ۷۳، ۸۶، ۷۴، ۷۹، سنن الدارمی/الزکاة۱۱ (۱۶۷۳، ۱۶۷۴)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۲۴۷۵، ۲۴۷۷، ۲۴۷۸، ۲۴۸۶، ۲۴۸۷، ۲۴۸۹ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے اور پانچ وسق تقریباً ساڑھے سات کوئنٹل بنتا ہے۔ ۲؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم کا ہوا، اور دو سو درہم موجودہ وزن کے اعتبار سے ۸۵ گرام بنتا ہے۔
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُظَفَّرُ بْنُ مُدْرِكٍ أَبُو كَامِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: أَخَذْتُ هَذَا الْكِتَابَ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَ لَهُمْ: "إِنَّ هَذِهِ فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِ، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَ ذَلِكَ فَلَا يُعْطِ، فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَأَرْبَعِينَ، فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ، فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ، فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمَا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ، وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ مِنَ الْإِبِلِ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، فَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةٌ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةَ دِرْهَمٍ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں (عاملین صدقہ کو) یہ لکھا کہ یہ صدقہ کے وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں، جن کا اللہ عزوجل نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ نہ دے: پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے، اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پینتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے، اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو چھیالیس سے ساٹھ اونٹ تک میں تین برس کی اونٹنی (یعنی جو ان اونٹنی جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو) ہے، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اکسٹھ سے پچہتر اونٹوں تک میں چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو چھہتر سے نوے اونٹوں تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس اونٹوں تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کے کودانے کے قابل ہو گئی ہوں۔ اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی ایک اونٹنی۔ اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے، اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو (یعنی زکاۃ کے لائق اونٹ نہ ہو، اس سے بڑا یا چھوٹا ہو) مثلاً جس شخص پر چار برس کی اونٹنی لازم ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو، تین برس کی اونٹنی ہو۔ تو تین برس کی اونٹنی ہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور وہ ساتھ میں دو بکریاں بھی دے۔ اگر اسے بکریاں دینے میں آسانی و سہولت ہو، اور اگر دو بکریاں نہ دے سکتا ہو تو بیس درہم دے۔ اور جس شخص کو تین برس کی اونٹنی دینی پڑ رہی ہو، اور اس کے پاس تین برس کی اونٹنی نہ ہو، چار برس کی اونٹنی ہو تو چار برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی۔ اور عامل صدقہ (یعنی زکاۃ وصول کرنے والا) اسے بیس درہم واپس کرے گا۔ یا اسے بکریاں دینے میں آسانی ہو تو دو بکریاں دے۔ اور جس کو تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور تین برس کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور وہ اس کے ساتھ دو بکریاں اور دے، اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کو دو برس کی اونٹنی دینی ہو اور وہ اس کے پاس نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو وہ اس سے قبول کر لی جائے، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو سال کی اونٹنی زکاۃ میں دینی ہو، اور دو سال کی اونٹنی اس کے پاس نہ ہو ایک سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے، اور اس کے ساتھ وہ دو بکریاں دے اگر یہ اس کے لیے آسان ہو، یا بیس درہم دے، اور جس کے اوپر ایک برس کی اونٹنی دینی لازم ہو، اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) اونٹ ہو، تو دو برس کا اونٹ قبول کر لیا جائے۔ (اس کے ساتھ کچھ مزید لینا دینا نہیں ہو گا) اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرائی جانے والی بکریاں جب چالیس ہوں تو ان میں ایک سو بیس بکریوں تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر ایک سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں کوئی بوڑھا، کانا اور عیب دار جانور نہیں لیا جائے گا، اور نہ بکریوں کا نر جانور لیا جائے گا مگر یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کوئی ضرورت و مصلحت سے مجھے تو لے سکتا ہے، زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مالوں کو یکجا نہیں کیا جا سکتا ۱؎ اور نہ یکجا مال کو جدا جدا ۲؎ اور جب آدمی کی چرائی جانے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تودے سکتا ہے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے، اور اگر ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کوئی زکاۃ نہیں۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۳۳ (۱۴۴۸)، ۳۷ (۱۴۵۳)، ۳۸ (۱۴۵۴)، الشرکة ۲ (۲۴۸۷)، فرض الخمس۵ (۳۱۰۶)، الحیل ۳ (۶۹۵۵)، سنن ابی داود/الزکاة۴ (۱۵۶۷)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۰ (۱۸۰۰)، (تحفة الأشراف: ۶۵۸۲)، مسند احمد ۱/۱۱-۱۲ ویأتی عند المؤلف برقم۲۴۵۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ حکم جانوروں کے مالکوں اور زکاۃ کے محصلین دونوں کے لیے ہے، اس کی تفسیر یہ ہے: مثلاً تین آدمیوں کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، تو اس صورت میں ہر ایک پر ایک ایک بکری واجب ہے، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان تینوں نے اپنی اپنی بکریوں کو یکجا کر دیا کہ ایک ہی بکری دینی پڑے، ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر تین متفرق لوگوں کے پاس انتالیس انتالیس بکریاں ہوں تو ان پر الگ الگ کوئی زکاۃ نہیں، تو عامل ان کو زکاۃ لینے کے لیے یکجا نہ کر دے کہ ایک بکری زکاۃ میں لے لے۔ ۲؎: اس کی تفسیر یہ ہے کہ مثلاً دو ساجھی دار ہیں ہر ایک کی ایک سو ایک، ایک سو ایک، بکریاں ہیں، تو کل ملا کر دو سو دو بکریاں ہوئیں، ان میں تین بکریاں لازم آتی ہیں، جب زکاۃ لینے والا آیا تو ان دونوں نے اپنی اپنی بکریاں الگ الگ کر لیں تاکہ ایک ہی ایک بکری لازم آئے ایسا کرنے سے منع کیا گیا ہے، نیز اسی طرح اگر تین ساجھے داروں کے پاس ساجھا میں ایک سو بیس کی بکریاں ہوں تو اس مجموعہ پر صرف ایک بکری واجب ہو گی، تو عامل زکاۃ لینے کے لیے ان بکریوں کو تین الگ الگ حصوں میں نہ کر دے کہ تین بکریاں لے لے۔
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ مِمَّا ذَكَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَأْتِي الْإِبِلُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا هِيَ لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا تَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا، وَتَأْتِي الْغَنَمُ عَلَى رَبِّهَا عَلَى خَيْرِ مَا كَانَتْ، إِذَا لَمْ يُعْطِ فِيهَا حَقَّهَا، تَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا وَتَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، قَالَ: وَمِنْ حَقِّهَا أَنْ تُحْلَبَ عَلَى الْمَاءِ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِبَعِيرٍ يَحْمِلُهُ عَلَى رَقَبَتِهِ لَهُ رُغَاءٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ أَلَا لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِشَاةٍ يَحْمِلُهَا عَلَى رَقَبَتِهِ لَهَا يُعَارٌ، فَيَقُولُ: يَا مُحَمَّدُ، فَأَقُولُ: لَا أَمْلِكُ لَكَ شَيْئًا قَدْ بَلَّغْتُ، قَالَ: وَيَكُونُ كَنْزُ أَحَدِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَفِرُّ مِنْهُ صَاحِبُهُ، وَيَطْلُبُهُ أَنَا كَنْزُكَ فَلَا يَزَالُ حَتَّى يُلْقِمَهُ أُصْبُعَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اونٹ اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا اس سے بہتر حالت میں آئیں گے جس میں وہ (دنیا میں) تھے، وہ اسے اپنے کھروں سے روندیں گے، اور بکریاں اپنے مالک کے پاس جب اس نے ان میں ان کا حق نہ دیا ہو گا، اس سے بہتر حالت میں آئیں گی جس حالت میں وہ (دنیا میں) تھیں۔ وہ اسے اپنی کھروں سے روندیں گی، اور اپنی سینگوں سے ماریں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کا حق یہ بھی ہے کہ انہیں اسی جگہ دوہا جائے جہاں انہیں پانی پلانے کا نظم ہو ۱؎، سن لو، قیامت کے دن تم میں کا کوئی اپنے اونٹ کو اپنی گردن پر لادے ہوئے نہ لائے وہ بلبلا رہا ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (بچائیے مجھ کو اس عذاب سے) کہ میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے بتا چکا تھا، سن لو! قیامت کے دن کوئی اپنی گردن پر بکری کو لادے ہوئے نہ آئے کہ وہ ممیا رہی ہو، پھر وہ کہے: اے محمد! (مجھے اس عذاب سے بچائیے) کہ اس وقت میں کہوں: میں تیرے لیے کچھ نہیں کر سکتا، میں تو تجھے پہلے ہی بتا چکا ہوں"۔ آپ نے فرمایا: "تم میں سے کسی کا خزانہ ۲؎ قیامت کے دن گنجا سانپ بن کر سامنے آئے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا برابر پیچھا کرتا رہے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں یہاں تک کہ وہ اس کی انگلی کو اپنے منہ میں داخل کر لے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۳ (۱۴۰۲)، الجھاد۱۸۹ (۲۳۷۸)، تفسیربراء ة۶ (۳۰۷۳)، الحیل۳ (۶۹۵۸)، (تحفة الأشراف: ۱۳۷۳۶)، مسند احمد (۲/۳۱۶، ۳۷۹، ۴۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی: بکریوں کو گھاٹوں پر دوہا جائے تاکہ وہاں موجود مساکین کو بھی اس میں سے کچھ دیا جائے، نہ کہ بند گھروں میں مساکین سے بچنے کے لیے دوہا جائے۔ ۲؎: جس کی وہ زکاۃ نہیں ادا کرتا تھا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعْتَمِرٌ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "فِي كُلِّ إِبِلٍ سَائِمَةٍ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، لَا تُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا لَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا، وَشَطْرَ إِبِلِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا لَا يَحِلُّ لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا شَيْءٌ".
بہز بن حکیم کے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ہر چرنے والے چالیس اونٹوں میں دو برس کی اونٹنی ہے۔ اونٹ اپنے حساب (ریوڑ) سے جدا نہ کئے جائیں، جو ثواب کی امید رکھ کر انہیں دے گا تو اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو دینے سے انکار کرے گا تو ہم اس سے اسے لے کر رہیں گے، مزید اس کے آدھے اونٹ اور لے لیں گے، یہ ہمارے رب کے تاکیدی حکموں میں سے ایک حکم ہے، محمد کے آل کے لیے اس میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُفَضَّلٌ وَهُوَ ابْنُ مُهَلْهَلٍ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَهُ إِلَى الْيَمَنِ وَأَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ، وَمِنَ الْبَقَرِ مِنْ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار (جزیہ) لیں یا اتنی قیمت کی یمنی چادریں، اور ہر تیس گائے بیل میں ایک برس کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے اور بیل میں دو برس کی ایک گائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۴ (۱۵۷۷-۱۶۶۳)، سنن الترمذی/الزکاة۵ (۶۲۳)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۲ (۱۸۰۳)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۶۳)، مسند احمد (۵/۲۳۰، ۲۳۳، ۲۴۷)، سنن الدارمی/الزکاة۵ (۱۶۳۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْلَى وَهُوَ ابْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَا: قَالَ مُعَاذٌ: "بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً ثَنِيَّةً، وَمِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن بھیجا، تو مجھے حکم دیا کہ ہر چالیس گائے میں دو برس کی ایک گائے، اور ہر تیس میں ایک سال کا ایک بچھوا لوں۔ اور ہر بالغ سے (بطور جزیہ) ایک دینار لوں، یا ایک دینار کے مساوی قیمت کی یمنی چادر۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، "أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ مِنَ الْبَقَرِ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، َمِنْ كُلِّ حَالِمٍ دِينَارًا أَوْ عِدْلَهُ مَعَافِرَ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا تو انہیں حکم دیا کہ ہر تیس گائے بیل میں ایک سال کا بچھوا یا بچھیا لیں، اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی بچھیا۔ اور ہر بالغ سے (جزیہ میں) ایک دینار یا ایک دینار کی قیمت کی یمنی چادر۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۵۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي وَائِلِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: "أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَنِي إِلَى الْيَمَنِ، أَنْ لَا آخُذَ مِنَ الْبَقَرِ شَيْئًا حَتَّى تَبْلُغَ ثَلَاثِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ ثَلَاثِينَ فَفِيهَا عِجْلٌ تَابِعٌ جَذَعٌ أَوْ جَذَعَةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعِينَ فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا بَقَرَةٌ مُسِنَّةٌ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس وقت مجھے یمن بھیجا تو حکم دیا کہ میں گائے، بیل سے جب تک وہ تیس کی تعداد کو نہ پہنچ جائیں کچھ نہ لوں، اور جب تیس ہو جائیں تو ان میں گائے کا ایک سال کا بچہ چاہے نر ہو یا مادہ یہاں تک کہ وہ چالیس کو پہنچ جائیں، اور جب چالیس ہو جائیں تو ان میں دو سال کی ایک بچھیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۴ (۱۵۷۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۱۲)، مسند احمد (۵/۲۳۳، ۲۴۷، سنن الدارمی/الزکاة ۵ (۱۶۶۴) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا وَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنِ ابْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا وُقِفَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَطَؤُهُ ذَاتُ الْأَظْلَافِ بِأَظْلَافِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقُرُونِ بِقُرُونِهَا، لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ"، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَمَاذَا حَقُّهَا ؟ قَالَ: "إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا صَاحِبِ مَالٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهُ، إِلَّا يُخَيَّلُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ يَفِرُّ مِنْهُ صَاحِبُهُ وَهُوَ يَتَّبِعُهُ، يَقُولُ لَهُ هَذَا كَنْزُكَ الَّذِي كُنْتَ تَبْخَلُ بِهِ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَا بُدَّ لَهُ مِنْهُ أَدْخَلَ يَدَهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ يَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو بھی اونٹ، گائے اور بکری والا ان کا حق ادا نہیں کرے گا، (یعنی زکاۃ نہیں ادا کرے گا) تو اسے قیامت کے دن ایک کشادہ ہموار میدان میں کھڑا کیا جائے گا، کھر والے جانور اپنے کھروں سے اسے روندیں گے، اور سینگ والے اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے۔ اس دن ان میں کوئی ایسا نہ ہو گا جس کے سینگ ہی نہ ہو اور نہ ہی کسی کی سینگ ٹوٹی ہوئی ہو گی"، ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ان کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان پر نر کودوانا، ان کے ڈول کو منگنی دینا اور اللہ کی راہ میں ان پر بوجھ اور سواری لادنا، اور جو صاحب مال اپنے مال کا حق ادا نہ کرے گا وہ مال قیامت کے دن ایک گنجے (زہریلے) سانپ کی شکل میں اسے دکھائی پڑے گا، اس کا مالک اس سے بھاگے گا، اور وہ اس کا پیچھا کرے گا، اور اس سے کہے گا: یہ تو تیرا وہ خزانہ ہے جس کے ساتھ تو بخل کرتا تھا، جب وہ دیکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو (لاچار ہو کر) اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا، اور وہ اس کو اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ چباتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۶ (۹۸۸)، (تحفة الأشراف: ۲۷۸۸)، مسند احمد (۳/۳۲۱)، سنن الدارمی/الزکاة۳ (۱۶۵۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ فَضَالَةَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ النَّسَائِيُّ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُرَيْحُ بْنُ النُّعْمَانِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَتَبَ لَهُ: "أَنَّ هَذِهِ فَرَائِضُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ، الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ بِهَا رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ، فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فِي خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَثَلَاثِينَ، فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَأَرْبَعِينَ، فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ، فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسَةٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتَّةً وَسَبْعِينَ، فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ، فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ الْحِقَّةُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا جَذَعَةٌ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ، وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَّدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ بِنْتُ لَبُونٍ، وَعِنْدَهُ بِنْتُ مَخَاضٍ، فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ، وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي صَدَقَةِ الْغَنَمِ فِي سَائِمَتِهَا إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَّدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَإِذَا كَانَتْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ نَاقِصَةً مِنْ أَرْبَعِينَ شَاةً وَاحِدَةً، فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً، فَلَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں یہ لکھ کر دیا کہ صدقہ (زکاۃ) کے یہ وہ فرائض ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر فرض ٹھہرائے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو حکم دیا ہے، تو جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے تو وہ اسے دے، اور جس سے اس سے زیادہ مانگا جائے تو وہ اسے نہ دے۔ پچیس اونٹوں سے کم میں ہر پانچ اونٹ میں ایک بکری ہے۔ اور جب پچیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں پنتیس اونٹوں تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا اونٹ (نر) ہے۔ اور جب چھتیس اونٹ ہو جائیں تو چھتیس سے پینتالیس تک دو برس کی اونٹنی ہے۔ اور جب چھیالیس اونٹ ہو جائیں تو اس میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے، جو نر کودانے کے لائق ہو گئی ہو، اور جب اکسٹھ اونٹ ہو جائیں تو اس میں پچہتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اور جب چھہتر اونٹ ہو جائیں تو اس میں نوے تک میں دو دو برس کی دو اونٹنیاں ہیں، اور جب اکیانوے ہو جائیں تو ایک سو بیس تک میں تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو نر کودانے کے قابل ہو گئی ہوں، اور جب ایک سو بیس سے زیادہ ہو گئی ہوں تو ہر چالیس میں دو برس کی ایک اونٹنی ہے، اور ہر پچاس میں تین برس کی ایک اونٹنی ہے۔ اگر اونٹوں کی عمروں میں اختلاف ہو ۱؎ (مثلاً) جس شخص پر چار برس کی اونٹنی کی زکاۃ ہو اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی نہ ہو تین برس کی اونٹنی ہو تو اس سے تین برس کی اونٹنی ہی قبول کر لی جائے گی، اور وہ اس کے ساتھ میں دو بکریاں بھی دیدے۔ اگر وہ اسے میسر ہوں ورنہ بیس درہم دے۔ اور جسے زکاۃ میں تین برس کی اونٹنی دینی ہو۔ اور اس کے پاس چار برس کی اونٹنی ہو تو اس سے وہی قبول کر لی جائے گی، اور عامل صدقہ اسے بیس درہم دے یا دو بکریاں واپس دیدے، اور جسے تین برس کی اونٹنی دینی ہو اور یہ اس کے پاس نہ ہو اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور اس کے ساتھ دو بکریاں دے اگر میسر ہوں یا بیس درہم دے، اور جسے زکاۃ میں دو سال کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس صرف تین سال کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے گی اور عامل زکاۃ اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس دے، اور جسے دو برس کی اونٹنی دینی ہو، اور اس کے پاس دو برس کی اونٹنی نہ ہو صرف ایک برس کی اونٹنی ہو تو وہی اس سے قبول کر لی جائے اور دو بکریاں دے اگر بکریاں اسے میسر ہوں بیس درہم دے۔ اور جسے ایک برس کی اونٹنی دینی ہو اور اس کے پاس ایک برس کی اونٹنی نہ ہو۔ دو برس کا (نر) کا اونٹ ہو، تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے۔ اس کے ساتھ کوئی اور چیز لی نہ جائے، اور جس کے پاس صرف چار اونٹ ہوں تو ان میں زکاۃ نہیں ہے الا یہ کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، اور جنگل میں چرنے والی بکریوں میں جب چالیس ہوں تو ایک سو بیس تک میں ایک بکری زکاۃ ہے، اور ایک سو بیس سے جو ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو بکریوں تک میں دو بکریاں ہیں۔ اور دو سو سے ایک بکری بھی بڑھ جائے تو دو سو سے تین سو تک میں تین بکریاں ہیں، اور جب تین سو سے بھی بڑھ جائیں تو پھر ہر سو میں ایک بکری زکاۃ ہے۔ زکاۃ میں بوڑھے کانے اور عیب دار جانور نہیں لیے جائیں گے، اور نہ نر جانور لیا جائے گا الا یہ کہ صدقہ وصول کرنے والا کسی ضرورت و مصلحت سے لینا چاہے۔ زکاۃ کے ڈر سے دو جدا مال یکجا نہ کئے جائیں، اور نہ یکجا مال کو جدا جدا کیا جائے۔ اور جب آدمی کی جنگل میں چرنے والی بکریاں چالیس سے ایک بھی کم ہوں تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے، ہاں ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے، چاندی میں چالیسواں حصہ زکاۃ ہے اور اگر مال ایک سو نوے درہم ہی ہو تو ان میں کوئی زکاۃ نہیں ہے۔ ہاں مالک اپنی خوشی سے کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنِ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْظَمَ مَا كَانَتْ، وَأَسْمَنَهُ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا، وَتَطَؤُهُ بِأَخْفَافِهَا كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا أَعَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اونٹ گائے اور بکریاں رکھتا ہو اور ان کی زکاۃ نہ دے تو وہ دنیا میں جیسے تھے اس سے بڑے اور موٹے تازے ہو کر آئیں گے، اور وہ اسے اپنی سینگوں سے ماریں گے، اور اپنی کھروں سے روندیں گے، جب آخری جانور مار چکے گا تو پھر پہلا جانور لوٹا دیا جائے گا، اور یہ سلسلہ جاری رہے گا یہاں تک کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۲ (صحیح)
أخبرنا هناد بن السري عن هشيم عن هلال بن خباب عن ميسرة أبي صالح عن سويد بن غفلة قال: أتانا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فأتيته فجلست إليه فسمعته يقول إن في عهدي أن لا نأخذ راضع لبن ولا نجمع بين متفرق ولا نفرق بين مجتمع فأتاه رجل بناقة كوماء فقال خذها فأبى.
سوید بن غفلہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل (زکاۃ) ہمارے پاس آیا، میں آ کر اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ میرے عہد و قرار میں یہ بات شامل ہے کہ ہم دودھ پلانے والے جانور نہ لیں۔ اور نہ الگ الگ مال کو یکجا کریں، اور نہ یکجا مال کو الگ الگ کریں۔ پھر ان کے پاس ایک آدمی اونچی کوہان کی ایک اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: اسے لے لو، تو اس نے انکار کیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۴ (۱۵۷۹)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۱ (۱۸۰۱)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۹۳)، مسند احمد (۴/۳۱۵)، سنن الدارمی/الزکاة ۸ (۱۶۷۰) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ محصل زکاۃ کو بہترین مال لینے سے منع کیا گیا ہے، اسے درمیانی مال میں سے لینا چاہیئے۔
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الزَّرْقَاءِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ سَاعِيًا فَأَتَى رَجُلًا فَآتَاهُ فَصِيلًا مَخْلُولًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَعَثْنَا مُصَدِّقَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ، وَإِنَّ فُلَانًا أَعْطَاهُ فَصِيلًا مَخْلُولًا اللَّهُمَّ لَا تُبَارِكْ فِيهِ، وَلَا فِي إِبِلِهِ"، فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ، فَجَاءَ بِنَاقَةٍ حَسْنَاءَ فَقَالَ: أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "اللَّهُمَّ بَارِكْ فِيهِ وَفِي إِبِلِهِ".
وائل بن حجر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو زکاۃ کی وصولی پر بھیجا، وہ ایک شخص کے پاس آیا، اس نے اسے اونٹ کا ایک دبلا بچہ دیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے محصل زکاۃ (صدقہ وصول کرنے والے) کو بھیجا، فلاں شخص نے اسے ایک دبلا کمزور، دودھ چھوڑا ہوا بچہ دیا۔ اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت نہ دے"، یہ بات اس آدمی کو معلوم ہوئی تو وہ ایک اچھی اونٹنی لے کر آیا، اور کہنے لگا: میں اللہ عزوجل سے توبہ کرتا ہوں اور اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی اطاعت کا اظہار کرتا ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے اللہ! تو اس میں اور اس کے اونٹوں میں برکت فرما"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۷۸۵) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُعَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَتَاهُ قَوْمٌ بِصَدَقَتِهِمْ، قَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ فُلَانٍ"، فَأَتَاهُ أَبِي بِصَدَقَتِهِ، فَقَالَ: "اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى آلِ أَبِي أَوْفَى".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی قوم اپنا صدقہ لے کر آتی تو آپ فرماتے: "اے اللہ! فلاں کے آل(اولاد) پر رحمت بھیج" (چنانچہ) جب میرے والد اپنا صدقہ لے کر آپ کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا: "اے اللہ! آل ابی اوفی پر رحمت بھیج"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۶۴ (۱۴۹۷)، المغازی۳۵ (۴۱۶۶)، الدعوات۱۹ (۶۳۳۲)، ۳۳ (۶۳۵۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۵۴ (۱۰۷۸)، سنن ابی داود/الزکاة۶ (۱۵۹۰)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۸ (۱۷۹۶)، (تحفة الأشراف: ۵۱۷۶)، مسند احمد (۴/۳۵۳، ۳۵۴، ۳۵۵- ۳۸۱، ۳۸۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هِلَالٍ، قَالَ: قَالَ جَرِيرٌ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَاسٌ مِنَ الْأَعْرَابِ فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! يَأْتِينَا نَاسٌ مِنْ مُصَدِّقِيكَ يَظْلِمُونَ قَالَ: "أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ"، قَالُوا: وَإِنْ ظَلَمَ، قَالَ: "أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ"، ثُمَّ قَالُوا: وَإِنْ ظَلَمَ، قَالَ: "أَرْضُوا مُصَدِّقِيكُمْ"، قَالَ جَرِيرٌ: فَمَا صَدَرَ عَنِّي مُصَدِّقٌ مُنْذُ سَمِعْتُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا وَهُوَ رَاضٍ.
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ دیہات کے لوگ آئے، اور انہوں آپ سے عرض کیا: آپ کے بھیجے ہوئے کچھ محصل زکاۃ ہمارے پاس آتے ہیں جو ہم پر ظلم کرتے ہیں، تو آپ نے فرمایا: "اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی و مطمئن کرو"، انہوں نے عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں۔ آپ نے فرمایا: "اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو"، انہوں نے پھر عرض کیا: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ آپ نے فرمایا: "اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کرو"۔ جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی اسی وقت سے کوئی محصل زکاۃ میرے پاس سے راضی ہوئے بغیر نہیں گیا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۷ (۹۸۹)، سنن ابی داود/الزکاة۶ (۵۸۹)، (تحفة الأشراف: ۳۲۱۸)، مسند احمد (۴/۳۶۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ هُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا دَاوُدُ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: قَالَ جَرِيرٌ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَتَاكُمُ الْمُصَّدِّقُ فَلْيَصْدُرْ وَهُوَ عَنْكُمْ رَاضٍ".
جریر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب صدقہ وصول کرنے والا تمہارے پاس آئے تو وہ اس حال میں لوٹے کہ وہ تم سے راضی ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۵۵ (۹۸۹)، سنن الترمذی/الزکاة۲۰ (۶۴۸)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۱ (۱۸۰۲)، (تحفة الأشراف: ۳۲۱۵)، مسند احمد (۴/۳۶۰، ۳۶۱، ۳۶۲، ۳۶۴، ۳۶۵)، سنن الدارمی/الزکاة ۳۲ (۱۷۱۲، ۱۷۱۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ ثَفِنَةَ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ ابْنُ عَلْقَمَةَ أَبِي عَلَى عِرَافَةِ قَوْمِهِ وَأَمَرَهُ أَنْ يُصَدِّقَهُمْ، فَبَعَثَنِي أَبِي إِلَى طَائِفَةٍ مِنْهُمْ لِآتِيَهُ بِصَدَقَتِهِمْ، فَخَرَجْتُ حَتَّى أَتَيْتُ عَلَى شَيْخٍ كَبِيرٍ يُقَالُ لَهُ: سَعْرٌ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي بَعَثَنِي إِلَيْكَ لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ، قَالَ ابْنَ أَخِي: وَأَيُّ نَحْوٍ تَأْخُذُونَ ؟ قُلْتُ: نَخْتَارُ حَتَّى إِنَّا لَنَشْبُرُ ضُرُوعَ الْغَنَمِ، قَالَ ابْنَ أَخِي: فَإِنِّي أُحَدِّثُكَ أَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَنَمٍ لِي، فَجَاءَنِي رَجُلَانِ عَلَى بَعِيرٍ، فَقَالَا: إِنَّا رَسُولَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكَ، لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا عَلَيَّ فِيهَا ؟ قَالَا: شَاةٌ، فَأَعْمِدُ إِلَى شَاةٍ قَدْ عَرَفْتُ مَكَانَهَا مُمْتَلِئَةٍ مَحْضًا وَشَحْمًا فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَ: هَذِهِ الشَّافِعُ وَالشَّافِعُ الْحَائِلُ، وَقَدْ"نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَأْخُذَ شَافِعًا، قَالَ: فَأَعْمِدُ إِلَى عَنَاقٍ مُعْتَاطٍ، وَالْمُعْتَاطُ الَّتِي لَمْ تَلِدْ وَلَدًا وَقَدْ حَانَ وِلَادُهَا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا فَقَالَا: نَاوِلْنَاهَا فَرَفَعْتُهَا إِلَيْهِمَا فَجَعَلَاهَا مَعَهُمَا عَلَى بَعِيرِهِمَا ثُمَّ انْطَلَقَا".
مسلم بن ثفنہ کہتے ہیں کہ ابن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کی عرافت (نگرانی) پر مقرر کیا، اور انہیں اس بات کا حکم بھی دیا کہ وہ ان سے زکاۃ وصول کر کے لائیں۔ تو میرے والد نے مجھے ان کے کچھ لوگوں کے پاس بھیجا کہ میں ان سے زکاۃ لے کر آ جاؤں۔ تو میں (گھر سے) نکلا یہاں تک کہ ایک بوڑھے بزرگ کے پاس پہنچا انہیں «سعر» کہا جاتا تھا۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میرے والد نے مجھے آپ کے پاس آپ کی بکریوں کی زکاۃ لانے کے لیے بھیجا ہے۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! تم کس طرح کی زکاۃ لیتے ہو؟ میں نے کہا: ہم چنتے اور چھانٹتے ہیں یہاں تک کہ ہم بکریوں کے تھنوں کو ناپتے و ٹٹولتے ہیں (یعنی عمدہ مال ڈھونڈ کر لیتے ہیں)۔ انہوں نے کہا: بھتیجے! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں۔ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں انہیں گھاٹیوں میں سے کسی ایک گھاٹی میں اپنی بکریوں کے ساتھ تھا، میرے پاس ایک اونٹ پر سوار دو شخص آئے، اور انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرستادہ ہیں۔ ہم آپ کے پاس آئے ہیں کہ آپ ہمیں اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کریں۔ میں نے پوچھا: میرے اوپر ان بکریوں میں کتنی زکاۃ ہے؟ تو ان دونوں نے کہا: ایک بکری، میں نے دودھ اور چربی سے بھری ایک ایک موٹی تازی بکری کا قصد کیا جس کی جگہ مجھے معلوم تھی۔ میں اسے (ریوڑ میں سے) نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا: «شافع» ہے :(«شافع» گابھن بکری کو کہتے ہیں) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں گابھن جانور لینے سے روکا ہے۔ پھر میں نے ایک اور بکری لا کر پیش کرنے کا ارادہ کیا جو اس سے کمتر تھی جس نے ابھی کوئی بچہ نہیں جنا تھا لیکن حمل کے قابل ہو گئی تھی۔ میں نے اسے (گلّے سے) نکال کر ان دونوں کو پیش کیا، انہوں نے کہا: ہاں یہ ہمیں قبول ہے۔ پھر ہم نے اسے اٹھا کر انہیں پکڑا دیا۔ انہوں نے اسے اپنے ساتھ اونٹ پر لاد لیا، پھر لے کر چلے گئے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۴ (۱۵۸۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۷۹)، مسند احمد (۳/۴۱۴، ۴۱۵) (ضعیف) (اس کے راوی ’’مسلم بن ثفنہ، یا شعبہ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُسْلِمُ بْنُ ثَفِنَةَ، أَنَّ ابْنَ عَلْقَمَةَ اسْتَعْمَلَ أَبَاهُ عَلَى صَدَقَةِ قَوْمِهِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ.
مسلم بن ثفنہ کا بیان ہے کہ ابن علقمہ نے ان کے والد کو اپنی قوم سے زکاۃ وصول کرنے کے کام پر لگایا، اور پوری حدیث بیان کی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (ضعیف) (دیکھئے پچھلی روایت پر کلام)
أَخْبَرَنِي عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُعَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ، قَالَ: وَقَالَ عُمَرُ: أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ، فَقِيلَ: مَنَعَ ابْنُ جَمِيلٍ، وَخَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا يَنْقِمُ ابْنُ جَمِيلٍ إِلَّا أَنَّهُ كَانَ فَقِيرًا فَأَغْنَاهُ اللَّهُ، وَأَمَّا خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ فَإِنَّكُمْ تَظْلِمُونَ خَالِدًا قَدِ احْتَبَسَ أَدْرَاعَهُ وَأَعْتُدَهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَأَمَّا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ عَمُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَهِيَ عَلَيْهِ صَدَقَةٌ وَمِثْلُهَا مَعَهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم کیا۔ تو آپ سے کہا گیا: ابن جمیل، خالد بن ولید، اور عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہم) نے (زکاۃ) نہیں دی ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ابن جمیل زکاۃ کا انکار اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ محتاج تھا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مالدار بنا دیا۔ اور رہے خالد بن ولید تو تم لوگ خالد پر زیادتی کر رہے ہو، انہوں نے اپنی زرہیں اور اسباب اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہیں، اور رہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس بن عبدالمطلب، تو یہ زکاۃ تو ان پر ہے ہی۔ مزید اتنا اور بھی دیں گے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۰۶۷۰، ۱۳۹۱۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: مسلم کی روایت کے الفاظ ہیں «فَھِیَ عَلَیَّ» اس کا مفہوم یہ ہے کہ رہے عباس رضی الله عنہ تو ان کی زکاۃ میرے ذمہ ہے اور اسی کے مثل اور، یعنی میں ان سے دو سال کی زکاۃ پہلے ہی لے چکا ہوں اس لیے اس کی ادائیگی میں کروں گا۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَفْصٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: "أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةٍ مِثْلَهُ سَوَاءً.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کا حکم دیا، آگے کی اوپر والی روایت کے مثل مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، انظرما قبلہ، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة۴۹ (۱۴۶۸)، صحیح مسلم/الزکاة۳ (۹۸۳)، سنن ابی داود/الزکاة۲۱ (۱۶۲۳)، مسند احمد ۲/۳۲۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، وَمَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مَيْسَرَةَ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ هِلَالٍ الثَّقَفِيِّ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: كِدْتُ أُقْتَلُ بَعْدَكَ فِي عَنَاقٍ أَوْ شَاةٍ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَالَ: "لَوْلَا أَنَّهَا تُعْطَى فُقَرَاءَ الْمُهَاجِرِينَ مَا أَخَذْتُهَا".
عبداللہ بن ہلال ثقفی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: (لوگ اتنے جھگڑالو اور نادہند ہو گئے ہیں کہ)قریب ہے کہ میں آپ کے بعد زکاۃ کی بکری کے ایک بچے یا ایک بکری کے لیے قتل کر دیا جاؤں گا، تو آپ نے فرمایا: "اگر وہ فقراء مہاجرین کو نہ دی جاتی ہوتی تو اسے میں نہ لیتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۷۱) (ضعیف) (یہ روایت مرسل ہے، عبداللہ بن ہلال ثقفی تابعی ہیں)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، وَسُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْسُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فَرَسِهِ صَدَقَةٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۴۵ (۱۴۶۳)، ۴۶ (۱۴۶۴)، صحیح مسلم/الزکاة۲ (۹۸۲)، سنن ابی داود/الزکاة۱۰ (۱۵۹۴)، سنن الترمذی/الزکاة ۸ (۶۲۸)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۱۵ (۱۸۱۲)، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۵۳)، موطا امام مالک/الزکاة۲۳ (۳۷)، مسند احمد (۲/۲۴۲، ۲۴۹، ۲۵۴، ۲۷۹، ۴۱۰، ۴۲۰، ۴۳۲، ۴۵۴، ۴۶۹، ۴۷۰، ۴۷۷، وانظر ما بعدہ-۲۴۷۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ الْمَرْوَزِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ الْوَضَّاحِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ وَهُوَ ابْنُ أُمَيَّةَ، عَنْمَكْحُولٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا زَكَاةَ عَلَى الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فَرَسِهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر اس کے غلام اور گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ بْنُ مُوسَى، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر اس کے غلام میں اور اس کے گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ خُثَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْمَرْءِ فِي فَرَسِهِ وَلَا فِي مَمْلُوكِهِ صَدَقَةٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی پر اس کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ فِي عَبْدِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ صَدَقَةٌ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر اس کے غلام اور اس کے گھوڑے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ خُثَيْمِ بْنِ عِرَاكِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ عَلَى الْمُسْلِمِ صَدَقَةٌ فِي غُلَامِهِ وَلَا فِي فَرَسِهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان پر اس کے غلام میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے گھوڑے میں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۶۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، عَنْ حَمَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور پانچ وسق غلے سے کم میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ اوقیہ دو سو درہم ہوا، جو موجودہ وزن کے حساب سے پانچ سو پنچانوے گرام بنتا ہے۔ ۲؎: ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے، اس طرح پانچ وسق تین سو صاع کے برابر ہوا جو موجودہ وزن کے حساب سے چھ سو ترپن کیلو گرام بنتا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ الْقَاسِمِ، عَنْ مَالِكٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ الْمَازِنِيّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسُقٍ مِنَ التَّمْرِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۴۲ (۱۴۵۹)، ۵۶ (۱۴۸۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۰۶)، موطا امام مالک/الزکاة ۱ (۱)، مسند احمد (۳/۶۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، وَعَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا صَدَقَةَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوْسَاقٍ مِنَ التَّمْرِ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "پانچ وسق سے کم کھجور میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے۔ اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ الطُّوسِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِيمُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حِبَّانَ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ وكانا ثقة، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ بْنِ أَبِي حَسَنٍ، وَعَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ وَكَانَا ثِقَةً، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ مِنَ الْوَرِقِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ".
ابوسعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ نہیں ہے، اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْعَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، فَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ مِنْ كُلِّ مِائَتَيْنِ خَمْسَةً".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کر دی ہے، تو تم اپنے مالوں کی زکاۃ ہر دو سو میں سے پانچ یعنی چالیسواں حصہ دو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۵ (۱۵۷۴)، سنن الترمذی/الزکاة۴ (۶۳۰)، (تحفة الأشراف: ۱۰۱۳۶)، مسند احمد (۱/۹۲، ۱۱۳)، سنن الدارمی/الزکاة۷ (۱۶۶۹)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة۴ (۱۷۹۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ مِائَتَيْنِ زَكَاةٌ".
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے گھوڑے اور غلام کی زکاۃ معاف کر دی ہے، اور دو سو درہم سے کم میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ حُسَيْنٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ امْرَأَةً مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِنْتٌ لَهَا، فِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ غَلِيظَتَانِ مِنْ ذَهَبٍ، فَقَالَ: "أَتُؤَدِّينَ زَكَاةَ هَذَا ؟"قَالَتْ: لَا، قَالَ: "أَيَسُرُّكِ أَنْ يُسَوِّرَكِ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ سِوَارَيْنِ مِنْ نَارٍ ؟"، قَالَ: فَخَلَعَتْهُمَا فَأَلْقَتْهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: هُمَا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ یمن کی رہنے والی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی، اس کے ساتھ اس کی ایک بیٹی تھی جس کے ہاتھ میں سونے کے دو موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ نے فرمایا: "کیا تم اس کی زکاۃ دیتی ہو؟" اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: "کیا تجھے اچھا لگے گا کہ اللہ عزوجل ان کے بدلے قیامت کے دن تمہیں آگ کے دو کنگن پہنائے؟" یہ سن کر اس عورت نے دونوں کنگن (بچی کے ہاتھ سے) نکال لیے۔ اور انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ڈال دیا، اور کہا: یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۳ (۱۵۶۳)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۲)، مسند احمد (۲/۱۷۸، ۲۰۴، ۲۰۸)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة۱۲ (۶۳۷) (حسن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ حُسَيْنًا، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا بِنْتٌ لَهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي يَدِ ابْنَتِهَا مَسَكَتَانِ، نَحْوَهُ مُرْسَلٌ، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: خَالِدٌ أَثْبَتُ مِنَ الْمُعْتَمِرِ.
عمرو بن شعیب کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس کے ساتھ اس کی ایک بچی تھی اور اس کی بچی کے ہاتھ میں دو کنگن تھے، آگے اسی طرح کی روایت ہے جیسے اوپر گزری ہے۔ اور یہ روایت مرسل ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: خالد معتمر سے زیادہ ثقہ راوی ہیں (اس لیے ان کی متصل روایت معتمر کی مرسل سے زیادہ صحیح ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (حسن) (اس سند میں دو راوی ساقط ہیں، مگرسابقہ سند متصل ہے)
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الَّذِي لَا يُؤَدِّي زَكَاةَ مَالِهِ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ مَالُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ أقْرَعَ لَهُ زَبِيَبَتَانِ، قَالَ: فَيَلْتَزِمُهُ أَوْ يُطَوِّقُهُ، قَالَ: يَقُولُ: أَنَا كَنْزُكَ، أَنَا كَنْزُكَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنے مال کی زکاۃ نہیں دیتا ہے، اسے قیامت کے دن اس کا مال ایسے خوفناک سانپ کی صورت میں نظر آئے گا جو گنجا ہو گا، اس کی آنکھوں پر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ اس سے چمٹ جائے گا، یا اس کے گلے کا ہار بن جائے گا، اور کہے گا: میں تیرا خزانہ ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۷۲۱۱)، مسند احمد (۲/۹۸، ۱۳۷، ۱۵۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْفَضْلُ بْنُ سَهْلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى الْأَشْيَبُ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَنْ آتَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ، يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَقُولُ: أَنَا مَالُكَ، أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ: وَلا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ سورة آل عمران آية 180".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس شخص کو اللہ تعالیٰ مال دے اور وہ اس مال کی زکاۃ ادا نہ کرے، تو قیامت کے دن اس کا مال گنجا سانپ بن جائے گا، اس کی آنکھ کے اوپر دو سیاہ نقطے ہوں گے، وہ قیامت کے دن اس کے دونوں کلّے پکڑے گا، اور اس سے کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں"۔ پھر آپ نے آیت کریمہ کی تلاوت کی: «ولا يحسبن الذين يبخلون بما آتاهم اللہ من فضله» "اللہ تعالیٰ نے جنہیں مال دیا ہے وہ بخیلی کر کے یہ نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے بلکہ وہی مال قیامت کے دن ان کے گلے کا طوق ہو گا" (آل عمران: ۱۸۰)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۳ (۱۴۰۳)، تفسیر آل عمران۱۴ (۴۵۶۵)، براء ة۶ (۴۶۵۹)، الحیل۳ (۶۹۵۷)، (تحفة الأشراف: ۱۲۸۲۰)، مسند احمد (۲/۳۵۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسَاقٍ مِنْ حَبٍّ أَوْ تَمْرٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ وسق سے کم غلے یا کھجور میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا يَحِلُّ فِي الْبُرِّ وَالتَّمْرِ زَكَاةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلَا يَحِلُّ فِي الْوَرِقِ زَكَاةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوَاقٍ، وَلَا يَحِلُّ فِي إِبِلٍ زَكَاةٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَ ذَوْدٍ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "گیہوں اور کھجور میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ وسق کو پہنچ جائے، اسی طرح چاندی میں زکاۃ نہیں یہاں تک کہ وہ پانچ اوقیہ کو پہنچ جائے۔ اور اونٹ میں زکاۃ نہیں ہے یہاں تک کہ وہ پانچ کی تعداد کو پہنچ جائیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ أُمَيَّةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ فِي حَبٍّ وَلَا تَمْرٍ صَدَقَةٌ حَتَّى تَبْلُغَ خَمْسَةَ أَوْسُقٍ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسٍ ذَوْدٍ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غلہ میں زکاۃ نہیں ہے اور نہ کھجور میں یہاں تک کہ یہ پانچ وسق ہو جائیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِدْرِيسُ الْأَوْدِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکاۃ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۱ (۱۵۵۹)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۳ (۱۸۳۲)، (تحفة الأشراف: ۴۰۴۲)، مسند احمد (۳/۵۹، ۸۳، ۹۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسِ أَوَاقٍ صَدَقَةٌ، وَلَا فِيمَا دُونَ خَمْسِ ذَوْدٍ صَدَقَةٌ، وَلَيْسَ فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ صَدَقَةٌ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانچ اوقیہ سے کم (چاندی) میں زکاۃ نہیں، اور نہ پانچ اونٹ سے کم میں زکاۃ ہے، اور نہ پانچ وسق سے کم غلہ میں زکاۃ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۴۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدِ بْنِ الْهَيْثَمِ أَبُو جَعْفَرٍ الْأَيْلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ بَعْلًا الْعُشْرُ، وَمَا سُقِيَ بِالسَّوَانِي، وَالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے نہر اور چشمے سینچیں یا جس زمین میں تری رہتی ہو ۱؎ اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے۔ اور جو اونٹوں سے سینچا جائے یا ڈول سے اس میں بیسواں حصہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۵۵ (۱۴۸۳)، سنن ابی داود/الزکاة۱۱ (۱۵۹۶)، سنن الترمذی/الزکاة۴۴ (۶۴۰)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۷ (۱۸۱۷)، (تحفة الأشراف: ۶۹۷۷) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی اسے سینچنے کی ضرورت نہ پڑتی ہو۔
أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، وَأَحْمَدُ بْنُ عَمْرٍو، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ، قراءة عليه وأنا أسمع، عَنِابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "فِيمَا سَقَتِ السَّمَاءُ، وَالْأَنْهَارُ، وَالْعُيُونُ الْعُشْرُ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالسَّانِيَةِ نِصْفُ الْعُشْرِ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو پیداوار آسمان کی بارش اور نہروں کے پانی سے ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ ہے، اور جو پیداوار جانوروں کے ذریعہ سینچائی کر کے ہو اس میں بیسواں حصہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۱ (۹۸۱)، سنن ابی داود/الزکاة۱۱ (۱۵۹۷)، مسند احمد ۳/۳۴۱، ۳۵۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ وَهُوَ ابْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ، قَالَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، "فَأَمَرَنِي أَنْ آخُذَ مِمَّا سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرَ، وَفِيمَا سُقِيَ بِالدَّوَالِي نِصْفَ الْعُشْرِ".
معاذ بن جبل رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تو مجھے حکم دیا کہ جسے آسمان کے پانی نے سینچا ہو اس میں دسواں حصہ زکاۃ لوں، اور جو پیداوار ڈولوں کے پانی سے (سینچائی کر کے) ہو اس میں بیسواں حصہ زکاۃ لوں۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۱۳)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۷ (۱۸۱۸)، مسند احمد ۵/۲۳۳ (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ خُبَيْبَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَسْعُودِ بْنِ نِيَارٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: أَتَانَا وَنَحْنُ فِي السُّوقِ، فَقَالَ: قال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا خَرَصْتُمْ فَخُذُوا وَدَعُوا الثُّلُثَ، فَإِنْ لَمْ تَأْخُذُوا أَوْ تَدَعُوا الثُّلُثَ شَكَّ شُعْبَةُ فَدَعُوا الرُّبُعَ".
سہل بن ابی حثمہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم درختوں پر پھلوں کا تخمینہ لگاؤ تو جو تخمینہ لگاؤ اسے لو، اور اس میں سے ایک تہائی چھوڑ دو ۱؎ اور اگر تم نہ لے سکو یا تہائی نہ چھوڑ سکو (شعبہ کو شک ہو گیا ہے) تو تم چوتھائی چھوڑ دو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۴ (۱۶۰۵)، سنن الترمذی/الزکاة۱۷ (۶۴۳)، (تحفة الأشراف: ۴۶۴۷)، مسند احمد (۳/۴۴۸، ۴/۲) (ضعیف) (اس کے راوی ’’عبدالرحمان بن مسعود‘‘ لین الحدیث ہیں)
وضاحت: ۱؎: یعنی اس کی زکاۃ نہ لو تاکہ اسے دوستوں اور ہمسایوں پر خرچ کرنے میں کوئی تنگی محسوس نہ ہو۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْجَلِيلِ بْنُ حُمَيْدٍ الْيَحْصَبِيُّ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ بْنُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ فِي الْآيَةِ الَّتِي قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَلا تَيَمَّمُوا الْخَبِيثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ سورة البقرة آية 267، قَالَ: هُوَ الْجُعْرُورُ وَلَوْنُ حُبَيْقٍ، "فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُؤْخَذَ فِي الصَّدَقَةِ الرُّذَالَةُ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں کہ ابوامامہ بن سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ نے اللہ عز و جل کے فرمان: «ولا تيمموا الخبيث منه تنفقون» "اللہ کی راہ میں برا مال خرچ کرنے کا قصد نہ کرو" (البقرہ: ۲۶۷) کے متعلق مجھ سے بیان کیا کہ «خبيث» سے مراد «جعرور» اور «لون حبیق» ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ میں خراب مال لینے سے منع فرما دیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۳۹، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۶ (۱۶۰۷) نحوہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: «جعرور» اور «لون حبیق» دونوں کھجور کی گھٹیا قسموں کے نام ہیں۔
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ أَبِي عَرِيبٍ، عَنْكَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ الْخَضْرَمِيِّ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبِيَدِهِ عَصًا، وَقَدْ عَلَّقَ رَجُلٌ قِنْوَ حَشَفٍ، فَجَعَلَ يَطْعَنُ فِي ذَلِكَ الْقِنْوِ، فَقَالَ: "لَوْ شَاءَ رَبُّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ تَصَدَّقَ بِأَطْيَبَ مِنْ هَذَا، إِنَّ رَبَّ هَذِهِ الصَّدَقَةِ يَأْكُلُ حَشَفًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
عوف بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی (مسجد میں پہنچے) وہاں ایک شخص نے سوکھی خراب کھجور کا ایک گچھا لٹکا رکھا تھا ۱؎ آپ اس گچھے میں (لاٹھی سے) کوچتے جاتے تھے، اور فرماتے جاتے تھے: "یہ صدقہ دینے والا اگر چاہتا تو اس سے اچھی کھجوریں دے سکتا تھا، یہ صدقہ دینے والا قیامت میں اسی طرح کی سوکھی خراب کھجوریں کھائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۶ (۱۶۰۸)، سنن ابن ماجہ/الزکاة۱۹ (۱۸۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۰۹۱۴)، مسند احمد (۶/۲۳، ۲۸) (حسن)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ دستور تھا کہ لوگ مسجد نبوی میں محتاجوں اور ضرورت مندوں کے کھانے کے لیے کھجوریں لٹکا دیا کرتے تھے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَخْنَسِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: "مَا كَانَ فِي طَرِيقٍ مَأْتِيٍّ أَوْ فِي قَرْيَةٍ عَامِرَةٍ، فَعَرِّفْهَا سَنَةً فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا وَإِلَّا فَلَكَ، وَمَا لَمْ يَكُنْ فِي طَرِيقٍ مَأْتِيٍّ وَلَا فِي قَرْيَةٍ عَامِرَةٍ فَفِيهِ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے راستہ میں پڑی ہوئی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "جو چیز چالو راستے میں ملے یا آباد بستی میں، تو سال بھر اسے پہنچواتے رہو، اگر اس کا مالک آ جائے (اور پہچان بتائے) تو اسے دے دو، ورنہ وہ تمہاری ہے، اور جو کسی چالو راستے یا کسی آباد بستی کے علاوہ میں ملے تو اس میں اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے" (یعنی: زکاۃ نکال کر خود استعمال کر لے)۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/اللقطة۱۲ (۱۷۱۰)، (تحفة الأشراف: ۸۷۵۵) (حسن)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وأَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، وأَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْعَجْمَاءُ جُرْحُهَا جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنوئیں میں گر کر کوئی مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے، کان میں کوئی دب کر مر جائے تو وہ بھی رائیگاں ہے ۱؎ اور جاہلیت کے دفینے میں پانچواں حصہ ہے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، سنن ابی داود/الخراج۴۰ (۳۰۸۵)، سنن الترمذی/الأحکام۳۷ (۱۳۷۷)، سنن ابن ماجہ/الدیات۲۷ (۲۶۷۳)، (تحفة الأشراف: ۱۳۱۲۸، ۱۳۳۱۰)، موطا امام مالک/الزکاة۴ (۹)، العقول ۱۸ (۱۲)، مسند احمد ۲/۲۲۸، ۲۲۹، ۲۵۴، ۲۷۴، ۲۸۵، ۳۱۹، ۳۸۲، ۳۸۶، ۴۰۶، ۴۱۱، ۴۱۴، ۴۵۴، ۴۵۶، ۴۶۷، ۴۷۵، ۴۸۲، ۴۹۲، ۴۹۵، ۴۹۹، ۵۰۱، ۵۰۷، سنن الدارمی/الزکاة۳۰ (۱۷۱۰) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة۶۶ (۱۴۹۹)، المساقاة۳ (۲۳۵۵)، الدیات۲۸ (۶۹۱۲)، ۲۹ (۶۹۱۳) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی ان چیزوں کے مالکوں سے دیت نہیں لی جائے گی۔ ۲؎: اور باقی چار حصے پانے والے کے ہیں۔
أَخْبَرَنَا يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِهِ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل مروی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۵۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "جُرْحُ الْعَجْمَاءِ جُبَارٌ، وَالْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے، کنویں میں گر کر مر جانا رائیگاں ہے، اور کان میں دب کر مر جانا رائیگاں ہے، اور جاہلیت کے دفینہ میں پانچواں حصہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۶ (۱۴۹۹)، صحیح مسلم/الحدود ۱۱ (۱۷۱۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۲۳۶)، موطا امام مالک/الزکاة ۴ (۹)، العقول ۱۸ (۱۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَنْبَأَنَا مَنْصُورٌ، وَهِشَامٌ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْبِئْرُ جُبَارٌ، وَالْعَجْمَاءُ جُبَارٌ، وَالْمَعْدِنُ جُبَارٌ، وَفِي الرِّكَازِ الْخُمْسُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کنویں میں گر کر مر جانا لغو و رائیگاں ہے۔ جانور کا زخمی کرنا رائیگاں ہے۔ کان میں دب کر مر جانا رائیگاں ہے، اور جاہلیت کے دفینوں میں پانچواں حصہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۴۵۰۶، ۱۴۵۵۰)، مسند احمد (۲/۴۹۹) (صحیح)
أَخْبَرَنِي الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي شُعَيْبٍ، عَنْ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: جَاءَ هِلَالٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِعُشُورِ نَحْلٍ لَهُ وَسَأَلَهُ أَنْ يَحْمِيَ لَهُ وَادِيًا، يُقَالُ لَهُ سَلَبَةُ، فَحَمَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ الْوَادِيَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَلَمَّا وَلِيَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ كَتَبَ سُفْيَانُ بْنُ وَهْبٍ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ يَسْأَلُهُ فَكَتَبَ عُمَرُ: "إِنْ أَدَّى إِلَيِّكَ مَا كَانَ يُؤَدِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عُشْرِ نَحْلِهِ، فَاحْمِ لَهُ سَلَبَةَ ذَلِكَ، وَإِلَّا فَإِنَّمَا هُوَ ذُبَاب غَيْثٍ يَأْكُلُهُ مَنْ شَاءَ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہلال رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے شہد کا دسواں حصہ لے کر آئے، اور آپ سے درخواست کی کہ آپ اس وادی کو جسے سلبہ کہا جاتا ہے ان کے لیے خاص کر دیں (اس پر کسی اور کا دعویٰ نہ رہے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مذکورہ وادی ان کے لیے مخصوص فرما دی۔ پھر جب عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو سفیان بن وھب نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو لکھا، وہ ان سے پوچھ رہے تھے (کہ یہ وادی ہلال رضی اللہ عنہ کے پاس رہنے دی جائے یا نہیں) تو عمر رضی اللہ عنہ نے جواب لکھا: اگر وہ اپنے شہد کا دسواں حصہ جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے تھے ہمیں دیتے ہیں تو "سلبہ" کو انہیں کے پاس رہنے دیں، ورنہ وہ برسات کی مکھیاں ہیں (پھول و پودوں کا رس چوس کر شہد بناتی ہیں) جو چاہے اسے کھائے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۲ (۱۶۰۰)، (تحفة الأشراف: ۸۷۶۷) (حسن)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ مُوسَى، عَنْ عَبْدِ الْوَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ رَمَضَانَ عَلَى الْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، فَعَدَلَ النَّاسُ بِهِ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد، غلام، مرد اور عورت ہر ایک پر رمضان کی زکاۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کی ہے، پھر اس کے برابر لوگوں نے نصف صاع گیہوں کو قرار دے لیا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۷۰ (۱۵۰۴)، ۷۱ (۱۵۰۷)، ۷۴ (۱۵۰۹)، ۷۷ (۱۵۱۱)، ۷۸ (۱۵۱۲)، صحیح مسلم/الزکاة ۴ (۹۸۴)، سنن ابی داود/الزکاة۱۹ (۱۶۱۵)، سنن الترمذی/الزکاة ۳۵ (۶۷۵)، (تحفة الأشراف: ۵۱۰)، موطا امام مالک/الزکاة۲۸ (۵۲)، مسند احمد ۲/۵، ۵۵، ۶۳، ۶۶، ۱۰۲، ۱۱۴، ۱۳۷، سنن الدارمی/الزکاة۲۷ (۱۶۶۸)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اس وقت :(عہد معاویہ رضی الله عنہ میں ) نصف صاع گیہوں قیمت میں جو کے ایک صاع کے برابر ہو گیا تھا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى وَالْحُرِّ، وَالْمَمْلُوكِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، قَالَ: فَعَدَلَ النَّاسُ إِلَى نِصْفِ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ہر مرد و عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو فرض کیا ہے، پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں کو اس کے برابر ٹھہرا لیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ رَمَضَانَ عَلَى كُلِّ صَغِيرٍ، وَكَبِيرٍ حُرٍّ، وَعَبْدٍ ذَكَرٍ، وَأُنْثَى، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ہر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام اور مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جَو مقرر کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۸۳۲۱)، والحدیث أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۷۰ (۱۵۰۴)، صحیح مسلم/الزکاة ۴ (۹۸۴)، سنن ابی داود/الزکاة ۱۹ (۱۶۱۱)، سنن الترمذی/ الزکاة ۳۵ (۶۷۶)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۶)، (تحفة الأشراف: ۸۳۲۱، موطا امام مالک/الزکاة ۲۸ (۵۲)، مسند احمد (۲/۶۳)، سنن الدارمی/الزکاة ۲۷ (۱۷۰۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِيمَالِكٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَضَ زَكَاةَ الْفِطْرِ مِنْ رَمَضَانَ عَلَى النَّاسِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى كُلِّ حُرٍّ، أَوْ عَبْدٍ ذَكَرٍ، أَوْ أُنْثَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا صدقہ فطر مسلمان لوگوں پر ہر آزاد، غلام مرد اور عورت پر ایک صاع کھجور، یا ایک صاع جو فرض ٹھہرایا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ السَّكَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَهْضَمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، عَلَى الْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ فطر مسلمانوں میں سے ہر آزاد، غلام مرد، عورت چھوٹے اور بڑے پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض کیا ہے، اور حکم دیا ہے کہ اسے لوگوں کے (عید کی) نماز کے لیے (گھر سے) نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۷۰ (۱۵۰۳)، سنن ابی داود/الزکاة ۱۹ (۱۶۱۲)، (تحفة الأشراف: ۸۲۴۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو، ہر چھوٹے، بڑے، مرد، عورت، آزاد اور غلام پر فرض کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۸۰۸۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ عُتَيْبَةَ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، قَالَ: "كُنَّا نَصُومُ عَاشُورَاءَ، وَنُؤَدِّي زَكَاةَ الْفِطْرِ، فَلَمَّا نَزَلَ رَمَضَانُ وَنَزَلَتِ الزَّكَاةُ، لَمْ نُؤْمَرْ بِهِ، وَلَمْ نُنْهَ عَنْهُ وَكُنَّا نَفْعَلُهُ".
قیس بن سعد بن عبادہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، اور عید الفطر کا صدقہ ادا کرتے تھے، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، اور زکاۃ کی (فرضیت) اتری، تو نہ ہمیں ان کا حکم دیا گیا نہ ہی ان کے کرنے سے روکا گیا، اور ہم (جیسے کرتے تھے) اسے کرتے رہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۹۳) (شاذ) (اس کے راوی ’’ عمرو بن شرحبیل ‘‘ لین الحدیث ہیں، نیز یہ حدیث ’’فرض رسول صلی الله علیہ وسلم صدقة الفطر (رقم ۲۵۰۲) کی مخالف ہے جو صحیحین کی حدیث ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنِ الْقَاسِمِ بْنِ مُخَيْمِرَةَ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ الْهَمْدَانِيِّ، عَنْ قَيْسِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: "أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ قَبْلَ أَنْ تَنْزِلَ الزَّكَاةُ، فَلَمَّا نَزَلَتِ الزَّكَاةُ لَمْ يَأْمُرْنَا، وَلَمْ يَنْهَنَا وَنَحْنُ نَفْعَلُهُ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو عَمَّارٍ اسْمُهُ عَرِيبُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَعَمْرُو بْنُ شُرَحْبِيلَ يُكْنَى أَبَا مَيْسَرَةَ، وَسَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ خَالَفَ الْحَكَمَ فِي إِسْنَادِهِ وَالْحَكَمُ أَثْبَتُ مِنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ.
قیس بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں زکاۃ کی فرضیت اترنے سے پہلے صدقہ فطر کا حکم دیا تھا، پھر جب زکاۃ کی فرضیت اتری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نہ کرنے کا حکم دیا اور نہ ہی روکا، اور ہم اسے کرتے رہے۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: ابوعمار کا نام عریب بن حمید ہے۔ اور عمرو بن شرحبیل کی کنیت ابومیسرہ ہے، اور سلمہ بن کہیل نے اپنی سند میں حکم کی مخالفت کی ہے اور حکم سلمہ بن کہیل سے زیادہ ثقہ راوی ہیں ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۹۸)، مسند احمد (۲/۴۲۱، ۶/۶) (شاذ)
وضاحت: ۱؎: یعنی: سند میں "عمرو بن شرحبيل" ہونا بمقابلہ "أبي عمار الهمداني" اثبت ہے، حالانکہ اصل راوی " عمرو بن شرحبیل بن سعید بن سعد بن عبادہ " ہونا زیادہ قرین قیاس ہے، کیونکہ حدیث " قیس بن سعد بن عبادہ" سے مروی ہے، اور یہ عمرو "لین الحدیث" ہیں، اور اگر یہ حدیث "عمرو بن شرحبیل ابو میسرۃ" ہی سے مروی ہو تب بھی یہ صحیحین کی حدیث "فرض صدقۃ الفطر" کے مخالف ہے، اس لیے شاذ ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍوَهُوَ أَمِيرُ الْبَصْرَةِ فِي آخِرِ الشَّهْرِ: "أَخْرِجُوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ، فَنَظَرَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، قُومُوا فَعَلِّمُوا إِخْوَانَكُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ أَنَّ هَذِهِ الزَّكَاةَ فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى كُلِّ ذَكَرٍ، وَأُنْثَى حُرٍّ، وَمَمْلُوكٍ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ تَمْرٍ أَوْ نِصْفَ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ، فَقَامُوا"، خَالَفَهُ هِشَامٌ فَقَالَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ.
حسن بصری کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے رمضان کے مہینے کے آخر میں کہا (جب وہ بصرہ کے امیر تھے): تم اپنے روزوں کی زکاۃ نکالو، تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے تو انہوں نے پوچھا: مدینہ والوں میں سے یہاں کون کون ہے (جو بھی ہو) اٹھ جاؤ، اور اپنے بھائیوں کو بتاؤ، کیونکہ یہ لوگ نہیں جانتے کہ اس زکاۃ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مرد، عورت، آزاد اور غلام پر ایک صاع جو یا کھجور، یا آدھا صاع گی ہوں فرض کیا ہے، تو لوگ اٹھے (اور انہوں نے لوگوں کو بتایا)۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: ہشام نے حمید کی مخالفت کی ہے، انہوں نے «عن محمد بن سيرين» کہا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۵۸۱ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس رضی الله عنہما سے سماع نہیں ہے)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ مَخْلَدٍ، عَنْ هِشَامٍ، عَنِ ابْنِ سِيرِينَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: ذَكَرَ فِي صَدَقَةِ الْفِطْرِ، قَالَ: "صَاعًا مِنْ بُرٍّ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرِ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ سُلْتٍ".
ابن سیرین کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے صدقہ فطر کا ذکر کیا۔ تو کہا: گیہوں سے ایک صاع، یا کھجور سے ایک صاع، یا جو سے ایک صاع، یا سلت (جَو کی ایک قسم ہے) سے ایک صاع ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۴۳۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ يَخْطُبُ عَلَى مِنْبَرِكُمْ يَعْنِي: مِنْبَرَ الْبَصْرَةِ يَقُولُ: "صَدَقَةُ الْفِطْرِ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَثْبَتُ الثَّلَاثَةِ 10.
ابورجاء کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو تمہارے منبر سے یعنی بصرہ کے منبر سے خطبہ دیتے ہوئے سنا، وہ کہہ رہے تھے: صدقہ فطر گی ہوں سے ایک صاع ہے۔ ابوعبدالرحمٰن (نسائی) کہتے ہیں: یہ یعنی ایوب تینوں میں زیادہ ثقہ ہیں (یعنی: حسن بصری اور ابن سیرین سے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۶۳۲۱) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحْرِزُ بْنُ الْوَضَّاحِ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ وَهُوَ ابْنُ أُمَيَّةَ، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَاب، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر جَو یا کھجور یا پنیر سے ایک صاع فرض کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۷۲ (۱۵۰۵)، ۷۳ (۱۵۰۶)، ۷۵ (۱۵۰۸)، ۷۶ (۱۵۱۰)، صحیح مسلم/الزکاة ۴ (۹۸۵)، سنن ابی داود/الزکاة ۱۹ (۱۶۱۷، ۱۶۱۸)، سنن الترمذی/الزکاة ۳۵ (۶۷۳)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۹)، (تحفة الأشراف: ۴۲۶۹)، موطا امام مالک/الزکاة ۲۸ (۵۳)، مسند احمد ۳/۲۳، ۷۳، ۹۸، سنن الدارمی/الزکاة۲۷ (۱۷۰۴، ۱۷۰۵، ۱۷۰۶)، ویأتی عند المؤلف بعد ھذا (بأرقام۲۵۱۴-۲۵۱۶، ۲۵۱۹، ۲۵۲۰) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَرْحٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: "كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہمارے درمیان موجود تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے ایک صاع، یا جو سے، یا کھجور سے، یا کشمش سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ وَكِيعٍ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، قَالَ: "كُنَّا نُخْرِجُ صَدَقَةَ الْفِطْرِ إِذْ كَانَ فِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، فَلَمْ نَزَلْ كَذَلِكَ، حَتَّى قَدِمَ مُعَاوِيَةُ مِنَ الشَّامِ وَكَانَ فِيمَا عَلَّمَ النَّاسَ أَنَّهُ قَالَ: مَا أَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ إِلَّا تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ هَذَا، قَالَ: فَأَخَذَ النَّاسُ بِذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہم میں تھے تو ہم صدقہ فطر گی ہوں سے، کھجور سے، یا جو سے، یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے، اور ہم برابر اسی طرح نکالتے رہے۔ یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ شام سے آئے، اور انہوں نے جو باتیں لوگوں کو بتائیں ان میں ایک بات یہ بھی تھی کہ شامی گی ہوں کے دو مد (مدینہ کے) ایک صاع کے برابر ہیں، تو لوگوں نے اسی کو اختیار کر لیا۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۱۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ عِيَاضَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يُخْبِرُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "لَمْ نُخْرِجْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِلَّا صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ دَقِيقٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ سُلْتٍ"، ثُمَّ شَكَّ سُفْيَانُ فَقَالَ: دَقِيقٍ أَوْ سُلْتٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر کھجور سے، یا جو سے، یا کشمش سے، یا آٹا یا پنیر سے، یا بے چھلکے والی جو سے ایک صاع ہی نکالا ہے۔ سفیان کو شک ہوا تو انہوں نے «من دقیق أوسلت» شک کے ساتھ روایت کی ہے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۱۳ (حسن صحیح) (آٹے کا ذکر صحیح نہیں ہے)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ خَطَبَ بِالْبَصْرَةِ فَقَالَ: أَدُّوا زَكَاةَ صَوْمِكُمْ فَجَعَلَ النَّاسُ يَنْظُرُ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: مَنْ هَاهُنَا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ قُومُوا إِلَى إِخْوَانِكُمْ فَعَلِّمُوهُمْ، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ عَلَى الصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ، وَالْحُرِّ، وَالْعَبْدِ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى نِصْفَ صَاعِ بُرٍّ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ شَعِيرٍ"، قَالَ الْحَسَنُ: فَقَالَ عَلِيٌّ: أَمَّا إِذَا أَوْسَعَ اللَّهُ فَأَوْسِعُوا أَعْطُوا صَاعًا مِنْ بُرٍّ أَوْ غَيْرِهِ.
حسن (حسن بصریٰ) سے روایت ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بصرہ میں خطبہ دیا، تو انہوں نے کہا: تم لوگ اپنے روزوں کی زکاۃ دو (یعنی صدقہ فطر نکالو) تو لوگ ایک دوسرے کو تکنے لگے۔ تو انہوں نے کہا: یہاں اہل مدینہ میں سے کون کون ہیں؟ تم لوگ اٹھو، اور اپنے بھائیوں کے پاس جاؤ، انہیں بتاؤ، کیونکہ وہ لوگ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر چھوٹے، بڑے، آزاد اور غلام، مذکر اور مونث پر آدھا صاع گی ہوں، یا ایک صاع کھجور، یا جو فرض کیا ہے۔ حسن کہتے ہیں: علی رضی اللہ عنہ نے کہا: رہی بات جب اللہ نے تمہیں وسعت و فراخی دے رکھی ہو تو تم بھی وسعت و فراخی کا مظاہرہ کرو۔ گیہوں وغیرہ (نصف صاع کے بجائے) ایک صاع دو۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۵۸۱ (ضعیف الإسناد) (حسن بصری کا ابن عباس سے سماع نہیں ہے)
أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ، عَنْ زَائِدَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي رَوَّادٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: "كَانَ النَّاسُ يُخْرِجُونَ عَنْ صَدَقَةِ الْفِطْرِ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ تَمْرٍ، أَوْ سُلْتٍ، أَوْ زَبِيبٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگ صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا سُلت (بے چھلکے کا جو) یا کشمش نکالتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۹ (۱۶۱۴)، (تحفة الأشراف: ۷۷۶۰) (صحیح الإسناد)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيَاضٌ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: "كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ تَمْرٍ، أَوْ زَبِيبٍ، أَوْ أَقِطٍ"، فَلَمْ نَزَلْ كَذَلِكَ حَتَّى كَانَ فِي عَهْدِ مُعَاوِيَةَ، قَالَ: مَا أَرَى مُدَّيْنِ مِنْ سَمْرَاءِ الشَّامِ، إِلَّا تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ فطر ایک صاع جَو یا کھجور یا انگور یا پنیر نکالتے تھے۔ اور ہم برابر ایسا ہی کرتے چلے آ رہے تھے یہاں تک کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ آیا۔ تو انہوں نے کہا: میں سمجھتا ہوں کہ شامی گیہوں کے دو مد (یعنی نصف صاع) جو کے ایک صاع کے برابر ہیں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۱۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ، أَنَّ عِيَاضَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، قَالَ: "كُنَّا نُخْرِجُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ، أَقِطٍ لَا نُخْرِجُ غَيْرَهُ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں (صدقہ فطر) کھجور یا جو یا پنیر سے ایک صاع نکالتے تھے۔ اس کے علاوہ کچھ نہ نکالتے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۱۳ (حسن)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ زُرَارَةَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْقَاسِمُ وَهُوَ ابْنُ مَالِكٍ، عَنِ الْجُعَيْدِ، سَمِعْتُ السَّائِبَ بْنَ يَزِيدَ، قَالَ: "كَانَ الصَّاعُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُدًّا، وَثُلُثًا بِمُدِّكُمُ الْيَوْمَ، وَقَدْ زِيدَ فِيهِ"، قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وحَدَّثَنِيهِ زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ.
سائب بن یزید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک صاع تمہارے آج کے مد سے ایک مد اور ایک تہائی مد اور کچھ زائد کا تھا۔ اور ابوعبدالرحمٰن فرماتے ہیں: اس حدیث کو مجھ سے زیاد بن ایوب نے بیان کیا ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الکفارات ۵ (۶۷۱۲)، والاعتصام ۱۶ (۷۳۳۰)، (تحفة الأشراف: ۳۷۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کے نزدیک ایک صاع پانچ رطل اور تہائی رطل کا ہوتا ہے، اور امام ابوحنیفہ اور صاحبین کے نزدیک ایک صاع آٹھ رطل کا ہوتا ہے، لیکن جب امام ابویوسف کا امام مالک سے مناظرہ ہوا اور امام مالک نے انہیں اہل مدینہ کے وہ صاع دکھلائے جو موروثی طور سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے چلے آ رہے تھے تو انہوں نے جمہور کے قول کی طرف رجوع کر لیا۔ اور موجودہ وزن سے ایک صاع لگ بھگ ڈھائی کیلو کا ہوتا ہے مدینہ کے بازاروں میں جو صاع اس وقت بنتا ہے، یا مشائخ سے بالسند جو صاع متوارث ہے اس میں گی ہوں ڈھائی کیلو ہی آتا ہے۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ حَنْظَلَةَ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْمِكْيَالُ مِكْيَالُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالْوَزْنُ وَزْنُ أَهْلِ مَكَّةَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پیمانہ اہل مدینہ کا پیمانہ ہے اور وزن اہل مکہ کا وزن ہے" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۸ (۳۳۴۰)، (تحفة الأشراف: ۷۱۰۲)، ویأتی عند المؤلف برقم ۴۵۹۸ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: اس سے مراد سونا اور چاندی وزن کرنے کے بانٹ ہیں کیونکہ ان کا وزن دراہم سے کیا جاتا تھا اور اس وقت مختلف شہروں کے دراہم مختلف وزن کے ہوتے تھے اس لیے کہا گیا کہ زکاۃ کے سلسلہ میں اہل مکہ کے دراہم کا اعتبار ہو گا، اور ایک قول یہ ہے کہ چوں کہ اہل مدینہ کاشتکار تھے اس لیے وہ پیمائش اور ناپ کے احوال کے زیادہ جانکار تھے اور مکہ والے عام طور سے تاجر تھے اس لیے وہ تول کے احوال کے زیادہ واقف کار تھے اس لیے ایسا کہا گیا ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْدَانَ بْنِ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا مُوسَى. ح وَأَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُوسَى، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، "أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِصَدَقَةِ الْفِطْرِ، أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ"، قَالَ ابْنُ بَزِيعٍ: بِزَكَاةِ الْفِطْرِ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ صدقہ فطر نماز کے لیے لوگوں کے نکلنے سے پہلے ادا کر دیا جائے (ابن بزیع کی روایت میں «بصدقة الفطر» کے بجائے «بزكاة الفطر» ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۷۰ (۱۵۰۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۵ (۹۸۶)، سنن ابی داود/الزکاة ۱۸ (۱۶۱۰)، سنن الترمذی/الزکاة ۳۶ (۶۷۷)، (تحفة الأشراف: ۸۴۵۲)، مسند احمد (۲/۱۵، ۱۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ: "إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمَا أَهْلَ كِتَابٍ فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدِ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ، فَتُوضَعُ فِي فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ، فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ، وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ حِجَابٌ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو فرمایا: "تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں، تم انہیں اس بات کی گواہی کی دعوت دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی حقیقی معبود نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ اگر وہ تمہاری یہ بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ (وقت کی) نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ عزوجل نے ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی، اور ان کے محتاجوں میں تقسیم کر دی جائے گی، اگر وہ تمہاری یہ بات (بھی) مان لیں تو ان کے اچھے و عمدہ مال لینے سے بچو، اور مظلوم کی بد دعا سے بچو کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۳۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عِمْرَانُ بْنُ بَكَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو الزِّنَادِ، مِمَّا حَدَّثَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ، مِمَّا ذَكَرَ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يُحَدِّثُ بِهِ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: "قَالَ رَجُلٌ: لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ سَارِقٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى سَارِقٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى سَارِقٍ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ زَانِيَةٍ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ، تُصُدِّقَ اللَّيْلَةَ عَلَى زَانِيَةٍ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ، لَأَتَصَدَّقَنَّ بِصَدَقَةٍ، فَخَرَجَ بِصَدَقَتِهِ فَوَضَعَهَا فِي يَدِ غَنِيٍّ، فَأَصْبَحُوا يَتَحَدَّثُونَ تُصُدِّقَ عَلَى غَنِيٍّ، قَالَ: اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ عَلَى زَانِيَةٍ وَعَلَى سَارِقٍ وَعَلَى غَنِيٍّ، فَأُتِيَ فَقِيلَ لَهُ: أَمَّا صَدَقَتُكَ فَقَدْ تُقُبِّلَتْ، أَمَّا الزَّانِيَةُ فَلَعَلَّهَا أَنْ تَسْتَعِفَّ بِهِ مِنْ زِنَاهَا، وَلَعَلَّ السَّارِقَ أَنْ يَسْتَعِفَّ بِهِ عَنْ سَرِقَتِهِ، وَلَعَلَّ الْغَنِيَّ أَنْ يَعْتَبِرَ فَيُنْفِقَ مِمَّا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک شخص نے کہا: میں ضرور صدقہ دوں گا، تو وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے ایک چور کے ہاتھ میں رکھ دیا، صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک چور کو صدقہ دیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے چور کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی ۱؎، میں اور بھی صدقہ دوں گا چنانچہ (دوسرے دن بھی) وہ اپنا صدقہ لے کر نکلا اور اس نے اسے لے جا کر ایک زانیہ عورت کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ آج رات ایک زانیہ کو صدقہ دیا گیا ہے۔ تو اس نے پھر کہا: اللہ تیرا شکر ہے زانیہ کے ہاتھ میں چلے جانے پر بھی، میں پھر صدقہ دوں گا، چنانچہ (تیسرے دن) پھر وہ صدقہ کا مال لے کر نکلا، اور ایک مالدار شخص کو تھما آیا، پھر صبح کو لوگ باتیں کرنے لگے کہ ایک مالدار شخص کو صدقہ کیا گیا ہے، اس نے کہا: اللہ تیرا شکر ہے، زانیہ، چور اور مالدار کو دے دینے پر بھی۔ تو خواب میں اس کے پاس آ کر کہا گیا: رہا تیرا صدقہ تو وہ قبول کر لیا گیا ہے، رہی زانیہ تو (صدقہ پا کر) شاید وہ زناکاری سے باز آ جائے اور رہا چور تو صدقہ پا کر شاید وہ اپنی چوری سے باز آ جائے، اور رہا مالدار آدمی (تو صدقہ پا کر) شاید وہ اس سے سبق سیکھے اور اللہ عزوجل نے اسے جو دولت دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرنے لگے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۴ (۱۴۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۷۳۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزکاة ۲۴ (۱۰۲۲)، مسند احمد ۲/۳۲۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ الذَّارِعُ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: وَأَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ وَهُوَ ابْنُ الْمُفَضَّلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ وَاللَّفْظُ لِبِشْرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَقْبَلُ صَلَاةً بِغَيْرِ طُهُورٍ، وَلَا صَدَقَةً مِنْ غُلُولٍ".
ابوالملیح کے والد اسامہ بن عمیر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "اللہ عزوجل بغیر پاکی کے کوئی نماز قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی حرام مال سے کوئی صدقہ قبول کرتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر رقم ۱۳۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا الطَّيِّبَ، إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ عَزَّ وَجَلَّ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً، فَتَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص بھی اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے (اور اللہ پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے) تو رحمن عزوجل اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے گو وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ رحمن کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا اونٹنی کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۸ (۱۴۱۰)، التوحید ۲۳ (۷۴۳۰) تعلیقا، صحیح مسلم/الزکاة ۱۹ (۱۰۱۴)، سنن الترمذی/الزکاة ۲۸ (۶۶۱)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۸ (۱۸۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۷۹)، موطا امام مالک/الصدقة۱ (۱) (مرسلاً)، مسند احمد ۲/۲۶۸، ۳۳۱، ۳۸۱، ۴۱۸، ۴۱۹، ۴۳۱، ۴۷۱، ۵۳۸، ۵۴۱، سنن الدارمی/الزکاة۳۵ (۱۷۱۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ عَلِيٍّ الْأَزْدِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُبْشِيٍّ الْخَثْعَمِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "إِيمَانٌ لَا شَكَّ فِيهِ، وَجِهَادٌ لَا غُلُولَ فِيهِ، وَحَجَّةٌ مَبْرُورَةٌ"، قِيلَ: فَأَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "طُولُ الْقُنُوتِ"، قِيلَ: فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "جُهْدُ الْمُقِلِّ"، قِيلَ: فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "مَنْ هَجَرَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ"، قِيلَ: فَأَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "مَنْ جَاهَدَ الْمُشْرِكِينَ بِمَالِهِ وَنَفْسِهِ"، قِيلَ: فَأَيُّ الْقَتْلِ أَشْرَفُ ؟ قَالَ: "مَنْ أُهَرِيقَ دَمُهُ وَعُقِرَ جَوَادُهُ".
عبداللہ بن حبشی خثعمی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: کون سے کام افضل ہیں؟ آپ نے فرمایا: "ایسا ایمان جس میں شبہ نہ ہو، جہاد جس میں خیانت نہ ہو، اور حج مبرور"، پوچھا گیا: کون سی نماز افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "لمبے قیام والی نماز"، پوچھا گیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ صدقہ جو کم مال والا اپنی محنت کی کمائی سے دے"، پوچھا گیا: کون سی ہجرت افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "ایسی ہجرت جو اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو چھوڑ دے"، پوچھا گیا: کون سا جہاد افضل ہے، آپ نے فرمایا: "اس شخص کا جہاد جو مشرکین سے اپنی جان و مال کے ساتھ جہاد کرے"، پوچھا گیا: کون سا قتل افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: "جس میں آدمی کا خون بہا دیا گیا ہو، اور اس کا گھوڑا ہلاک کر دیا گیا ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصلاة ۳۱۴ (۱۳۲۵)، ۳۴۷ (۱۴۴۹)، مسند احمد ۳/۴۱۲، سنن الدارمی/الصلاة ۱۳۵ (۱۴۳۱)، ویأتی عند المؤلف برقم۴۹۸۹ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، وَالْقَعْقَاعُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ"، قَالُوا: وَكَيْفَ ؟ قَالَ: "كَانَ لِرَجُلٍ دِرْهَمَانِ تَصَدَّقَ بِأَحَدِهِمَا، وَانْطَلَقَ رَجُلٌ إِلَى عُرْضِ مَالِهِ فَأَخَذَ مِنْهُ مِائَةَ أَلْفِ دِرْهَمٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک درہم ایک لاکھ درہم سے بڑھ گیا"، لوگوں نے (حیرت سے) پوچھا: یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: "ایک شخص کے پاس دو درہم تھے، ان دو میں سے اس نے ایک صدقہ کر دیا، اور دوسرا شخص اپنی دولت (کے انبار کے) ایک گوشے کی طرف گیا اور اس (ڈھیر) میں سے ایک لاکھ درہم لیا، اور اسے صدقہ کر دیا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۵۷)، مسند احمد (۲/۳۷۹) (حسن)
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ ثواب میں دینے والے کی حالت کا لحاظ کیا جاتا ہے نہ کہ دیئے گئے مال کا، اللہ کے نزدیک قدر و قیمت کے اعتبار ایک لاکھ درہم اس غریب کے ایک درہم کے برابر نہیں ہے جس کے پاس صرف دو ہی درہم تھے، اور ان دو میں سے بھی ایک اس نے اللہ کی راہ میں دے دیا۔
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "سَبَقَ دِرْهَمٌ مِائَةَ أَلْفٍ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَكَيْفَ ؟ قَالَ: "رَجُلٌ لَهُ دِرْهَمَانِ فَأَخَذَ أَحَدَهُمَا فَتَصَدَّقَ بِهِ، وَرَجُلٌ لَهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَأَخَذَ مِنْ عُرْضِ مَالِهِ مِائَةَ أَلْفٍ فَتَصَدَّقَ بِهَا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک درہم ایک لاکھ درہم سے آگے نکل گیا"، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ کیسے؟ آپ نے فرمایا: "ایک شخص کے پاس دو درہم ہیں، اس نے ان دونوں میں سے ایک لیا اور اسے صدقہ کر دیا۔ دوسرا وہ آدمی ہے جس کے پاس بہت زیادہ مال ہے، اس نے اپنے مال (خزانے) کے ایک کنارے سے ایک لاکھ درہم نکالے، اور انہیں صدقہ میں دیدے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۲۳۲۸) (حسن)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"يَأْمُرُنَا بِالصَّدَقَةِ، فَمَا يَجِدُ أَحَدُنَا شَيْئًا يَتَصَدَّقُ بِهِ حَتَّى يَنْطَلِقَ إِلَى السُّوقِ، فَيَحْمِلَ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَجِيءَ بِالْمُدِّ، فَيُعْطِيَهُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنِّي لَأَعْرِفُ الْيَوْمَ رَجُلًا لَهُ مِائَةُ أَلْفٍ، مَا كَانَ لَهُ يَوْمَئِذٍ دِرْهَمٌ".
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں صدقہ کرنے کا حکم فرماتے تھے، اور ہم میں بعض ایسے ہوتے تھے جن کے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ نہ ہوتا تھا، یہاں تک کہ وہ بازار جاتا اور اپنی پیٹھ پر بوجھ ڈھوتا، اور ایک مد لے کر آتا اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دیتا۔ میں آج ایک ایسے شخص کو جانتا ہوں جس کے پاس ایک لاکھ درہم ہے، اور اس وقت اس کے پاس ایک درہم بھی نہ تھا۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۰ (۱۴۱۵)، الإجارة ۱۳ (۲۲۷۳)، تفسیر التوبة ۱۱ (۴۶۶۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۱ (۱۰۱۸)، سنن ابن ماجہ/الزھد ۱۲ (۴۱۵۵)، (تحفة الأشراف: ۹۹۹۱)، مسند احمد (۵/۲۷۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا"أَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّدَقَةِ، فَتَصَدَّقَ أَبُو عَقِيلٍ بِنِصْفِ صَاعٍ، وَجَاءَ إِنْسَانٌ بِشَيْءٍ أَكْثَرَ مِنْهُ، فَقَالَ الْمُنَافِقُونَ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَغَنِيٌّ عَنْ صَدَقَةِ هَذَا، وَمَا فَعَلَ هَذَا الْآخَرُ إِلَّا رِيَاءً"، فَنَزَلَتْ الَّذِينَ يَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِينَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الصَّدَقَاتِ وَالَّذِينَ لا يَجِدُونَ إِلا جُهْدَهُمْ سورة التوبة آية 79.
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کا حکم دیا تو ابوعقیل رضی اللہ عنہ نے آدھا صاع صدقہ دیا، اور ایک اور شخص اس سے زیادہ لے کر آیا، تو منافقین اس (پہلے شخص) کے صدقہ کے بارے میں کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ ایسے صدقے سے بے نیاز ہے، اور اس دوسرے نے محض دکھاوے کے لیے دیا ہے، تو (اس موقع پر) آیت کریمہ: «الذين يلمزون المطوعين من المؤمنين في الصدقات والذين لا يجدون إلا جهدهم» "جو لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مومنین پر اور ان لوگوں پر جو صرف اپنی محنت و مزدوری سے حاصل کر کے صدقہ دیتے ہیں طعن زنی کرتے ہیں" (التوبہ: ۷۹) نازل ہوئی۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدٌ، وَعُرْوَةُ، سَمِعَا حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، يَقُولُ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا پھر آپ نے دیا، پھر مانگا، تو فرمایا: "یہ مال سرسبز و شیریں چیز ہے، جو شخص اسے فیاضی نفس کے ساتھ لے گا تو اس میں برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہ ملے گی، اور اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہے مگر آسودہ نہیں ہوتا (یعنی مانگنے والے کا پیٹ نہیں بھرتا)۔ اوپر والا ہاتھ، نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۴۷۲)، والوصایا ۹ (۲۷۵۰)، الخمس۱۹ (۳۱۴۳)، الرقاق ۱۱ (۶۴۴۱)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۲ (۱۰۳۵)، سنن الترمذی/صفة القیامة ۲۹ (۲۴۶۳)، (تحفة الأشراف: ۳۴۲۶)، مسند احمد (۳/۴۰۲، ۴۳۴)، سنن الدارمی/الزکاة۲۲ (۱۶۹۳)، ویأتی عند المؤلف بأرقام: ۲۶۰۳، ۲۶۰۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ عِيسَى، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زِيَادِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ، عَنْ طَارِقٍ الْمُحَارِبِيِّ، قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَائِمٌ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ النَّاسَ وَهُوَ يَقُولُ: "يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ مُخْتَصَرٌ".
طارق محاربی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم مدینہ آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے ہیں آپ فرما رہے ہیں: دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہے، اور پہلے انہیں دو جن کی کفالت و نگہداشت کی ذمہ داری تم پر ہو: پہلے اپنی ماں کو، پھر اپنے باپ کو، پھر اپنی بہن کو، پھر اپنے بھائی کو، پھر اپنے قریبی کو، پھر اس کے بعد کے قریبی کو۔ یہ حدیث ایک لمبی حدیث کا اختصار ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۴۹۸۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَهُوَ يَذْكُرُ الصَّدَقَةَ وَالتَّعَفُّفَ عَنِ الْمَسْأَلَةِ: "الْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا الْمُنْفِقَةُ، وَالْيَدُ السُّفْلَى السَّائِلَةُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اس وقت آپ صدقہ و خیرات اور مانگنے سے بچنے کا ذکر کر رہے تھے): اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے، اور اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہاتھ ہے، اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہاتھ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۸ (۱۴۲۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۲ (۱۰۳۳)، سنن ابی داود/الزکاة ۲۸ (۱۶۴۸)، (تحفة الأشراف: ۸۳۳۷)، موطا امام مالک/الصدقة ۲ (۸)، مسند احمد (۲/۹۷)، سنن الدارمی/الزکاة۲۲ (۱۶۹۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَكْرٌ، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہتر صدقہ وہ ہے جو مالداری کی برقراری اور دل کی بے نیازی کے ساتھ ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے۔ اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی کفالت و نگرانی تمہارے ذمہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۴۴)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۸ (۱۴۲۶)، النفقات ۲ (۵۳۵۵)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۵ (۱۰۴۲) (بحذف وزیادة)، سنن الترمذی/الزکاة ۳۸ (۶۸۰) (مثل مسلم)، مسند احمد (۲/۲۳۰، ۲۴۳، ۲۷۸، ۲۸۸، ۳۱۹، ۳۶۲، ۳۹۴، ۴۳۴، ۴۷۵، ۴۷۶، ۴۸۰، ۵۰۱، ۵۲۴) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: ایسا نہ ہو کہ سارا مال صدقہ کر دے اور خود محتاج ہو جائے۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَصَدَّقُوا"، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! عِنْدِي دِينَارٌ، قَالَ: "تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى نَفْسِكَ"، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: "تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى زَوْجَتِكَ"، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: "تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى وَلَدِكَ"، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: "تَصَدَّقْ بِهِ عَلَى خَادِمِكَ"، قَالَ: عِنْدِي آخَرُ، قَالَ: "أَنْتَ أَبْصَرُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ دو"، ایک آدمی نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے پاس ایک دینار ہے، آپ نے فرمایا: "اسے اپنی ذات پر صدقہ کرو" ۱؎ اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: "اپنی بیوی پر صدقہ کرو"، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: "اسے اپنے بیٹے پر صدقہ کرو"، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور بھی ہے۔ آپ نے فرمایا: "اپنے خادم پر صدقہ کر دو"، اس نے کہا: میرے پاس ایک اور ہے۔ آپ نے فرمایا: آپ بہتر سمجھنے والے ہیں (جیسی ضرورت سمجھو ویسا کرو")۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۴۵ (۱۶۹۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۰۴۱)، مسند احمد (۲/ ۲۵۱، ۴۷۱) (حسن صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی خود اپنی ضروریات میں صدقہ کرو۔
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنَّ رَجُلًا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: "صَلِّ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ جَاءَ الْجُمُعَةَ الثَّانِيَةَ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: "صَلِّ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ جَاءَ الْجُمُعَةَ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ: "صَلِّ رَكْعَتَيْنِ"، ثُمَّ قَالَ: "تَصَدَّقُوا"فَتَصَدَّقُوا، فَأَعْطَاهُ ثَوْبَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: "تَصَدَّقُوا"فَطَرَحَ أَحَدَ ثَوْبَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَلَمْ تَرَوْا إِلَى هَذَا أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ بِهَيْئَةٍ بَذَّةٍ، فَرَجَوْتُ أَنْ تَفْطِنُوا لَهُ فَتَتَصَدَّقُوا عَلَيْهِ، فَلَمْ تَفْعَلُوا، فَقُلْتُ تَصَدَّقُوا فَتَصَدَّقْتُمْ، فَأَعْطَيْتُهُ ثَوْبَيْنِ، ثُمَّ قُلْتُ: تَصَدَّقُوا فَطَرَحَ أَحَدَ ثَوْبَيْهِ، خُذْ ثَوْبَكَ وَانْتَهَرَهُ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص جمعہ کے دن مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: "تم دو رکعتیں پڑھو"، پھر وہ شخص دوسرے جمعہ کو بھی آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے، تو آپ نے فرمایا: "تم دو رکعتیں پڑھو"، پھر وہ تیسرے جمعہ کو (بھی) آیا، آپ نے فرمایا: "دو رکعتیں پڑھو"، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: "صدقہ دو"، تو لوگوں نے صدقہ دیا، تو آپ نے اس شخص کو دو کپڑے دئیے، پھر آپ نے پھر فرمایا: "لوگو صدقہ دو"، تو اس شخص نے اپنے ان دونوں کپڑوں میں سے ایک کو آپ کے سامنے ڈال دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگوں نے اس شخص کو نہیں دیکھا؟ یہ خستہ حالت میں مسجد میں آیا، میں نے امید کی کہ تم لوگ اسے دیکھ کر اس کی خستہ حالی کو تاڑ لو گے اور اسے صدقہ دو گے، لیکن تم لوگوں نے ایسا نہیں کیا، تو مجھ ہی کو کہنا پڑا کہ تم صدقہ دو، تو تم لوگوں نے صدقہ دیا تو میں نے اسے دو کپڑے دئیے، پھر لوگوں سے کہا: "صدقہ دو"، تو اس نے ان کپڑوں میں سے (جو ہم نے اسے دیے تھے) ایک (ہمارے آگے) ڈال دیا، (ارے بیوقوف) تم اپنا کپڑا لے لو، آپ نے اسے ڈانٹا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۳۹ (۱۶۷۵)، سنن الترمذی/ الصلاة ۲۵۰ (۵۱۱)، (تحفة الأشراف: ۴۲۷۴) (حسن الإسناد)
وضاحت: ۱؎: یہ ڈانٹ ازراہ شفقت تھی، مطلب یہ تھا کہ میں تو تمہارے لیے انتظام میں لگا ہوا ہوں، تمہیں صدقہ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَيْرًا مَوْلَى آبِي اللَّحْمِ، قَالَ: أَمَرَنِي مَوْلَايَ أَنْ أُقَدِّدَ لَحْمًا فَجَاءَ مِسْكِينٌ فَأَطْعَمْتُهُ مِنْهُ، فَعَلِمَ بِذَلِكَ مَوْلَايَ فَضَرَبَنِي، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَاهُ فَقَالَ: "لِمَ ضَرَبْتَهُ ؟"فَقَالَ: يُطْعِمُ طَعَامِي بِغَيْرِ أَنْ آمُرَهُ، وَقَالَ: مَرَّةً أُخْرَى بِغَيْرِ أَمْرِي، قَالَ: "الْأَجْرُ بَيْنَكُمَا".
عمیر مولی آبی اللحم کہتے ہیں کہ میرے مالک نے مجھے گوشت بھوننے کا حکم دیا، اتنے میں ایک مسکین آیا، میں نے اس میں سے تھوڑا سا اسے کھلا دیا، میرے مالک کو اس بات کی خبر ہو گئی تو اس نے مجھے مارا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے اسے بلوایا اور پوچھا: تم نے اسے کیوں مارا ہے؟ اس نے کہا: یہ میرا کھانا(دوسروں کو) بغیر اس کے کہ میں اسے حکم دوں کھلا دیتا ہے۔ اور دوسری بار راوی نے کہا: بغیر میرے حکم کے کھلا دیتا ہے، تو آپ نے فرمایا: "اس کا ثواب تم دونوں ہی کو ملے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة ۲۶ (۱۰۲۵)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۶۶ (۲۲۹۷)، (تحفة الأشراف: ۱۰۸۹۹) (صحیح)
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِييُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ"، قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَجِدْهَا، قَالَ: "يَعْتَمِلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ"، قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ، قَالَ: "يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ"، قِيلَ: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ، قَالَ: "يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ"، قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ، قَالَ: "يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہر مسلمان پر صدقہ ہے"، عرض کیا گیا: اگر کسی کو ایسی چیز نہ ہو جسے صدقہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: "اپنے ہاتھوں سے کام کرے اور اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے، اور صدقہ کرے"، کہا گیا: اگر ایسا بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: "محتاج و پریشان حال کی مدد کرے"، کہا گیا: اگر ایسا بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: "بھلائی اور نیک باتوں کا حکم کرے"، کہا گیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: "برائیوں سے باز رہے"، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۳۰ (۱۴۴۵)، الأدب۳۳ (۶۰۲۲)، صحیح مسلم/الزکاة۱۶ (۱۰۰۸)، (تحفة الأشراف: ۹۰۸۷)، مسند احمد (۴/۳۹۵، ۴۱۱)، سنن الدارمی/الرقاق ۳۴ (۲۷۵۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا كَانَ لَهَا أَجْرٌ، وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا يَنْقُصُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ أَجْرِ صَاحِبِهِ شَيْئًا، لِلزَّوْجِ بِمَا كَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب عورت اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دے تو اسے ثواب ملے گا، اور اس کے شوہر کو بھی۔ اور خازن کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا، اور ان میں سے کوئی دوسرے کا ثواب کم نہ کرے گا، شوہر کو اس کے کمانے کی وجہ سے ثواب ملے گا، اور بیوی کو اس کے خرچ کرنے کی وجہ سے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة ۳۴ (۶۷۱)، (تحفة الأشراف: ۱۶۱۵۴)، مسند احمد (۶/۹۹) وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة۱۷، ۲۵، ۲۶ (۱۴۲۵، ۱۴۳۷، ۱۴۳۹-۱۴۴۱)، والبیوع۱۲ (۲۰۶۵)، صحیح مسلم/الزکاة۲۵ (۱۰۲۴)، سنن ابن ماجہ/التجارات۶۵ (۲۲۹۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، أَنَّأَبَاهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: لَمَّا فَتَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَكَّةَ قَامَ خَطِيبًا فَقَالَ فِي خُطْبَتِهِ: "لَا يَجُوزُ لِامْرَأَةٍ عَطِيَّةٌ إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا"، مُخْتَصَرٌ.
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کر لیا، تو تقریر کے لیے کھڑے ہوئے، آپ نے (منجملہ اور باتوں کے) اپنی تقریر میں فرمایا: "کسی عورت کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر عطیہ دینا جائز نہیں"، یہ حدیث مختصر ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/البیوع ۸۶ (۳۵۴۷)، (تحفة الأشراف: ۸۶۸۳)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الھبات ۷ (۲۳۸۸)، ویأتی عند المؤلف ۳۷۸۸) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ أَزْوَاجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اجْتَمَعْنَ عِنْدَهُ، فَقُلْنَ: أَيَّتُنَا بِكَ أَسْرَعُ لُحُوقَا ؟ فَقَالَ: "أَطْوَلُكُنَّ يَدًا"، فَأَخَذْنَ قَصَبَةً، فَجَعَلْنَ يَذْرَعْنَهَا، فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَسْرَعَهُنَّ بِهِ لُحُوقًا، فَكَانَتْ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا، فَكَانَ ذَلِكَ مِنْ كَثْرَةِ الصَّدَقَةِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محترم بیویاں (ازواج مطہرات) آپ کے پاس اکٹھا ہوئیں، اور پوچھنے لگیں کہ ہم میں کون آپ سے پہلے ملے گی؟ آپ نے فرمایا: "تم میں سب سے لمبے ہاتھ والی"، ازواج مطہرات ایک بانس کی کھپچی لے کر ایک دوسرے کا ہاتھ ناپنے لگیں، تو وہ ام المؤمنین سودہ رضی اللہ عنہا تھیں جو سب سے پہلے آپ سے ملیں، وہی سب میں لمبے ہاتھ والی تھیں، یہ ان کے بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرنے کی وجہ سے تھا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۱۱ (۱۴۲۰)، (تحفة الأشراف: ۱۷۶۱۹)، مسند احمد (۶/۱۲۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آپ کی بیویوں میں سب سے پہلے انہیں کا انتقال ہوا، وہ لمبے ہاتھ والی اس معنی میں تھیں کہ وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات کرتی تھیں، بعض روایتوں میں سودہ کے بجائے زینب کا نام آیا ہے اور یہی زیادہ صحیح ہے۔
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ ؟ قَالَ: "أَنْ تَصَدَّقَ وَأَنْتَ صَحِيحٌ شَحِيحٌ تَأْمُلُ الْعَيْشَ، وَتَخْشَى الْفَقْرَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کون سا صدقہ افضل ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہارا اس وقت کا صدقہ دینا افضل ہے جب تم تندرست ہو اور تمہیں دولت کی حرص ہو اور تم عیش و راحت کی آرزو رکھتے ہو اور محتاجی سے ڈرتے ہو۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۱۱ (۱۴۱۹)، والوصایا۷ (۲۷۴۸)، صحیح مسلم/الزکاة۳۱ (۱۰۳۲)، سنن ابی داود/الوصایا۳ (۲۸۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۴۹۰۰)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الوصایا ۴ (۲۷۰۶)، مسند احمد ۲/۲۳۱، ۲۵۰، ۴۱۵، ۴۴۷، ویأتی عند المؤلف في الوصایا۱ (برقم۳۶۴۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُوسَى بْنَ طَلْحَةَ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ حَدَّثَهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْضَلُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو (یعنی مالداری باقی رکھتے ہوئے ہو)، اور اوپر والا ہاتھ (دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (لینے والا ہاتھ) سے بہتر ہے، اور پہلے صدقہ انہیں دو جن کی تم کفالت کرتے ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۳۲ (۱۰۳۴)، (تحفة الأشراف: ۳۴۳۵)، صحیح البخاری/الزکاة۱۸ (۱۴۲۷)، مسند احمد ۳/۴۰۲، ۴۰۳، ۴۳۴، سنن الدارمی/الزکاة۲۲ (۱۶۹۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خَيْرُ الصَّدَقَةِ مَا كَانَ عَنْ ظَهْرِ غِنًى، وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "بہترین صدقہ وہ ہے جو مالداری کی پشت سے ہو ۱؎، اور ان سے شروع کرو جن کی کفالت تمہارے ذمہ ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۱۸ (۱۲۲۶)، (تحفة الأشراف: ۱۳۳۴)، مسند احمد (۲/۴۰۲) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی آدمی صدقہ دے کر محتاج نہ ہو جائے، بلکہ اس کی مالداری برقرار رہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ يَزِيدَ الْأَنْصَارِيَّ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا أَنْفَقَ الرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ وَهُوَ يَحْتَسِبُهَا، كَانَتْ لَهُ صَدَقَةً".
ابومسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب آدمی اپنی بیوی پر خرچ کرے اور اس سے ثواب کی امید رکھتا ہو تو یہ اس کے لیے صدقہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الإیمان۴۲ (۵۵)، المغازی۱۲ (۴۰۰۶)، النفقات۱ (۵۳۵۱)، صحیح مسلم/الزکاة۱۴ (۱۰۰۲)، سنن الترمذی/البر ۴۲ (۱۹۶۵)، (تحفة الأشراف: ۹۹۹۶)، مسند احمد ۴/۱۲۰، ۱۲۲، و۵/۲۷۳، سنن الدارمی/الاستئذان۳۵ (۲۷۰۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: أَعْتَقَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي عُذْرَةَ عَبْدًا لَهُ عَنْ دُبُرٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "أَلَكَ مَالٌ غَيْرُهُ ؟"قَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنِّي ؟"فَاشْتَرَاهُ نُعَيْمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْعَدَوِيُّ بِثَمَانِ مِائَةِ دِرْهَمٍ، فَجَاءَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: "ابْدَأْ بِنَفْسِكَ فَتَصَدَّقْ عَلَيْهَا، فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ فَلِأَهْلِكَ، فَإِنْ فَضَلَ شَيْءٌ عَنْ أَهْلِكَ، فَلِذِي قَرَابَتِكَ فَإِنْ فَضَلَ عَنْ ذِي قَرَابَتِكَ شَيْءٌ، فَهَكَذَا وَهَكَذَا يَقُولُ بَيْنَ يَدَيْكَ وَعَنْ يَمِينِكَ وَعَنْ شِمَالِكَ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ بنی عذرہ کے ایک شخص نے اپنے غلام کو مدبر کر دیا ۱؎، یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے اس شخص سے پوچھا: "کیا تمہارے پاس اس غلام کے علاوہ بھی کوئی مال ہے؟" اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے مجھ سے کون خرید رہا ہے؟" تو نعیم بن عبداللہ عدوی نے اسے آٹھ سو درہم میں خرید لیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان درہموں کو لے کر آئے اور انہیں اس کے حوالہ کر دیا، اور فرمایا: "پہلے خود سے شروع کرو اسے اپنے اوپر صدقہ کرو اگر کچھ بچ رہے تو تمہاری بیوی کے لیے ہے، اور اگر تمہاری بیوی سے بھی بچ رہے تو تمہارے قرابت داروں کے لیے ہے، اور اگر تمہارے قرابت داروں سے بھی بچ رہے تو اس طرح اور اس طرح کرو، اور آپ اپنے سامنے اور اپنے دائیں اور بائیں اشارہ کر رہے تھے" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۱۳ (۹۹۷)، والأیمان ۱۳ (۹۹۷)، (تحفة الأشراف: ۲۹۲۲)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/البیوع۵۹ (۲۱۴۱)، ۱۱۰ (۲۲۳)، والاستقراض ۱۶ (۲۴۰۳)، والخصومات۳ (۲۴۱۵)، والعتق ۹ (۲۵۳۴)، وکفارات الأیمان۷ (۶۷۱۶)، والإکراہ۴ (۶۹۴۷)، والأحکام۳۲ (۷۱۸۶) (مختصراً)، سنن ابی داود/العتق۹ (۳۹۵۷)، سنن ابن ماجہ/العتق۱ (۲۵۱۳) (مختصراً)، مسند احمد (۳/۳۰۵، ۳۶۸، ۳۶۹، ۳۷۰، ۳۷۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ کہہ دیا ہو کہ تم میرے مرنے کے بعد آزاد ہو۔ ۲؎: مطلب یہ ہے کہ اپنے پاس پڑوس کے محتاجوں اور غریبوں کو دے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنَاه أَبُو الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مَثَلَ الْمُنْفِقِ الْمُتَصَدِّقِ وَالْبَخِيلِ، كَمَثَلِ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُبَّتَانِ أَوْ جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ مِنْ لَدُنْ ثُدِيِّهِمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَإِذَا أَرَادَ الْمُنْفِقُ أَنْ يُنْفِقَ اتَّسَعَتْ عَلَيْهِ الدِّرْعُ أَوْ مَرَّتْ، حَتَّى تُجِنَّ بَنَانَهُ وَتَعْفُوَ أَثَرَهُ، وَإِذَا أَرَادَ الْبَخِيلُ أَنْ يُنْفِقَ قَلَصَتْ وَلَزِمَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ مَوْضِعَهَا، حَتَّى إِذَا أَخَذَتْهُ بِتَرْقُوَتِهِ أَوْ بِرَقَبَتِهِ"، يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَشْهَدُ أَنَّهُ رَأَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوَسِّعُهَا فَلَا تَتَّسِعُ، قَالَ طَاوُسٌ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يُشِيرُ بِيَدِهِ وَهُوَ يُوَسِّعُهَا وَلَا تَتَوَسَّعُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ کرنے والے فیاض اور بخیل کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جن پر لوہے کے دو کرتے یا دو ڈھال ان دونوں کی چھاتیوں سے لے کر ان کی ہنسلی کی ہڈیوں تک ہوں، جب فیاض خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے بدن پر کشادہ ہو جاتی ہے، پھیل کر اس کی انگلیوں کے پوروں کو ڈھانپ لیتی ہے، اور اس کے نشان قدم کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل خرچ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ سکڑ جاتی ہے اور اس کی کڑیاں اپنی جگ ہوں پر چمٹ جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ اس کی ہنسلی یا اس کی گردن پکڑ لیتی ہے"۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اسے کشادہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔ طاؤس کہتے ہیں: میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ آپ اپنے ہاتھ سے کشادہ کرنے کے لیے اشارہ کر رہے تھے، اور وہ کشادہ نہیں ہو رہی تھی۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/ اللباس۹ (۵۷۹۷)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۳ (۱۰۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۱۷، ۱۳۶۸۴)، مسند احمد ۲/۲۵۶، ۳۸۹، ۵۲۳ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَفَّانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْأَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "مَثَلُ الْبَخِيلِ وَالْمُتَصَدِّقِ، مَثَلُ رَجُلَيْنِ عَلَيْهِمَا جُنَّتَانِ مِنْ حَدِيدٍ، قَدِ اضْطَرَّتْ أَيْدِيَهُمَا إِلَى تَرَاقِيهِمَا، فَكُلَّمَا هَمَّ الْمُتَصَدِّقُ بِصَدَقَةٍ اتَّسَعَتْ عَلَيْهِ، حَتَّى تُعَفِّيَ أَثَرَهُ، وَكُلَّمَا هَمَّ الْبَخِيلُ بِصَدَقَةٍ، تَقَبَّضَتْ كُلُّ حَلْقَةٍ إِلَى صَاحِبَتِهَا، وَتَقَلَّصَتْ عَلَيْهِ وَانْضَمَّتْ يَدَاهُ إِلَى تَرَاقِيهِ"، وَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "فَيَجْتَهِدُ أَنْ يُوَسِّعَهَا فَلَا تَتَّسِعُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بخیل اور صدقہ دینے والے (سخی) کی مثال ان دو شخصوں کی ہے جن پر لوہے کی زرہیں ہوں، اور ان کے ہاتھ ان کی ہنسلیوں کے ساتھ چمٹا دیئے گئے ہوں، تو جب جب صدقہ کرنے والا صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زرہ اس کے لیے وسیع و کشادہ ہو جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اتنی بڑی ہو جاتی ہے کہ چلتے وقت اس کے پیر کے نشانات کو مٹا دیتی ہے، اور جب بخیل صدقہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہر کڑی دوسرے کے ساتھ پیوست ہو جاتی اور سکڑ جاتی ہے، اور اس کے ہاتھ اس کی ہنسلی سے مل جاتے ہیں" میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: "وہ(بخیل) کوشش کرتا ہے کہ اسے کشادہ کرے لیکن وہ کشادہ نہیں ہوتی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۲۸ (۱۴۴۳)، الجہاد ۸۹ (۲۹۱۷)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۳ (۱۰۲۱)، (تحفة الأشراف: ۱۳۵۲۰)، مسند احمد (۲/۳۸۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنِ ابْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْأُمَيَّةَ بْنِ هِنْدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، قَالَ: كُنَّا يَوْمًا فِي الْمَسْجِدِ جُلُوسًا وَنَفَرٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ، وَالْأَنْصَارِ، فَأَرْسَلْنَا رَجُلًا إِلَى عَائِشَةَ لِيَسْتَأْذِنَ فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، قَالَتْ: دَخَلَ عَلَيَّ سَائِلٌ مَرَّةً وَعِنْدِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَمَرْتُ لَهُ بِشَيْءٍ، ثُمَّ دَعَوْتُ بِهِ فَنَظَرْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَمَا تُرِيدِينَ أَنْ لَا يَدْخُلَ بَيْتَكِ شَيْءٌ، وَلَا يَخْرُجَ إِلَّا بِعِلْمِكِ"، قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: "مَهْلًا يَا عَائِشَةُ لَا تُحْصِي، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكِ".
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ ایک دن مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ہمارے ساتھ کچھ مہاجرین و انصار بھی تھے، ہم نے ایک شخص کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ملاقات کی اجازت حاصل کرنے کے لیے بھیجا، (انہوں نے اجازت دے دی، ہم ان کے پاس پہنچی تو انہوں نے کہا: ایک بار میرے پاس ایک مانگنے والا آیا اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف فرما تھے، میں نے (خادمہ کو) اسے کچھ دینے کا حکم دیا، پھر میں نے اسے بلایا اسے دیکھنے لگی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا آپ چاہتی ہیں کہ بغیر آپ کے علم میں آئے تمہارے گھر میں کچھ نہ آئے اور تمہارے گھر سے کچھ نہ جائے؟" میں نے کہا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: "عائشہ! ٹھہر جاؤ، گن کر نہ دو کہ اللہ عزوجل بھی تمہیں بھی گن کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۲۳) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة۴۶ (۱۷۰۰)، مسند احمد ۶/۷۱، ۱۰۸ (حسن)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ عَبْدَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ فَاطِمَةَ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا: "لَا تُحْصِي، فَيُحْصِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "گن کر نہ دو کہ اللہ عزوجل بھی تمہیں گن کر دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۲۱ (۱۴۳۳)، الھبة ۱۵ (۲۵۹۰)، صحیح مسلم/الزکاة۲۸ (۱۰۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۴۸)، مسند احمد (۶/۳۴۴، ۳۴۵، ۳۴۶، ۳۵۲، ۳۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ حَجَّاجٍ، قَالَ: قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، أَنَّهَا جَاءَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! لَيْسَ لِي شَيْءٌ، إِلَّا مَا أَدْخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ، فَهَلْ عَلَيَّ جُنَاحٌ فِي أَنْ أَرْضَخَ مِمَّا يُدْخِلُ عَلَيَّ ؟ فَقَالَ: "ارْضَخِي مَا اسْتَطَعْتِ، وَلَا تُوكِي فَيُوكِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْكِ".
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور کہنے لگیں: اللہ کے نبی! میرے پاس تو کچھ ہوتا نہیں ہے سوائے اس کے کہ جو زبیر (میرے شوہر) مجھے (کھانے یا خرچ کرنے کے لیے) دے دیتے ہیں، تو کیا اس دیے ہوئے میں سے میں کچھ (فقراء و مساکین کو) دے دوں تو مجھ پر گناہ ہو گا؟ آپ نے فرمایا: "تم جو کچھ دے سکو دو، اور روکو نہیں کہ اللہ عزوجل بھی تم سے روک لے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۲۲ (۱۴۳۴)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۸ (۱۰۲۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۷۱۴)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة ۴۶ (۱۶۹۹)، سنن الترمذی/البر ۴۰ (۱۹۶۱)، مسند احمد (۶/۳۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْمُحِلِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ".
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آگ سے بچو، اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا اللہ کی راہ میں دے کر سہی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۹ (۱۴۱۳) مطولا، المناقب ۲۵ (۳۵۹۵) مطولا، (تحفة الأشراف: ۹۸۷۴)، مسند احمد (۴/۲۵۶) (صحیح)
أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَنَّ عَمْرَو بْنَ مُرَّةَ حَدَّثَهُمْ، عَنْ خَيْثَمَةَ، عَنْعَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّارَ فَأَشَاحَ بِوَجْهِهِ، وَتَعَوَّذَ مِنْهَا ذَكَرَ شُعْبَةُ: أَنَّهُ فَعَلَهُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، ثُمَّ قَالَ: "اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ التَّمْرَةِ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ".
عدی بن حاتم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہنم کا ذکر کیا، اور نفرت سے اپنا منہ پھیر لیا، اور اس سے پناہ مانگی۔ شعبہ نے ذکر کیا کہ آپ نے تین دفعہ ایسا کیا، پھر فرمایا: "آگ سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی اللہ کی راہ میں دے کر سہی۔ اور اگر اسے نہ پاس کو تو بھلی بات کے ذریعہ معذرت کر کے سہی"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأدب ۳۴ (۶۰۲۳)، الرقاق ۵۱ (۶۵۶۳)، صحیح مسلم/الزکاة ۲۰ (۱۰۱۶)، (تحفة الأشراف: ۹۸۵۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ بْنُ جَمِيلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: وَذَكَرَ عَوْنَ بْنَ أَبِي جُحَيْفَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْمُنْذِرَ بْنَ جَرِيرٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدْرِ النَّهَارِ، فَجَاءَ قَوْمٌ عُرَاةً حُفَاةً مُتَقَلِّدِي السُّيُوفِ، عَامَّتُهُمْ مِنْ مُضَرَ بَلْ كُلُّهُمْ مِنْ مُضَرَ، فَتَغَيَّرَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا رَأَى بِهِمْ مِنَ الْفَاقَةِ، فَدَخَلَ ثُمَّ خَرَجَ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ فَصَلَّى، ثُمَّ خَطَبَ فَقَالَ: "يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا سورة النساء آية 1، وَ اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ سورة الحشر آية 18، تَصَدَّقَ رَجُلٌ مِنْ دِينَارِهِ مِنْ دِرْهَمِهِ مِنْ ثَوْبِهِ مِنْ صَاعِ بُرِّهِ مِنْ صَاعِ تَمْرِهِ حَتَّى قَالَ: وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) فَجَاءَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ بِصُرَّةٍ كَادَتْ كَفُّهُ تَعْجِزُ عَنْهَا بَلْ قَدْ عَجَزَتْ، ثُمَّ تَتَابَعَ النَّاسُ حَتَّى رَأَيْتُ كَوْمَيْنِ مِنْ طَعَامٍ وَثِيَابٍ، حَتَّى رَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَهَلَّلُ كَأَنَّهُ مُذْهَبَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا، وَأَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَيْئًا، وَمَنْ سَنَّ فِي الْإِسْلَامِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعَلَيْهِ وِزْرُهَا، وَوِزْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنْ غَيْرِ أَنْ يَنْقُصَ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَيْئًا".
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم دن کے ابتدائی حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، کچھ لوگ ننگے بدن، ننگے پیر، تلواریں لٹکائے ہوئے آئے، زیادہ تر لوگ قبیلہ مضر کے تھے، بلکہ سبھی مضر ہی کے تھے۔ ان کی فاقہ مستی دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا، آپ اندر گئے، پھر نکلے، تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے اذان دی، پھر اقامت کہی، آپ نے نماز پڑھائی، پھر آپ نے خطبہ دیا، تو فرمایا: "لوگو! ڈرو، تم اپنے رب سے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا۔ اور انہیں دونوں (میاں بیوی) سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیئے۔ اور اس اللہ سے ڈرو جس کے واسطے سے تم سب ایک دوسرے سے مانگتے ہو۔ قرابت داریوں کا خیال رکھو کہ وہ ٹوٹنے نہ پائیں، بیشک اللہ تمہارا نگہبان ہے، اور اللہ سے ڈرو، اور تم میں سے ہر شخص یہ (دھیان رکھے اور) دیکھتا رہے کہ آنے والے کل کے لیے اس نے کیا آگے بھیجا ہے، آدمی کو چاہیئے کہ اپنے دینار میں سے، اپنے درہم میں سے، اپنے کپڑے میں سے، اپنے گیہوں کے صاع میں سے، اپنے کھجور کے صاع میں سے صدقہ کرے"، یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: "اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی سہی"، چنانچہ انصار کا ایک شخص (روپیوں سے بھری) ایک تھیلی لے کر آیا جو اس کی ہتھیلی سے سنبھل نہیں رہی تھی بلکہ سنبھلی ہی نہیں۔ پھر تو لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ کھانے اور کپڑے کے دو ڈھیر اکٹھے ہو گئے۔ اور میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور کھل اٹھا ہے گویا وہ سونے کا پانی دیا ہوا چاندی ہے (اس موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اسلام میں کوئی اچھا طریقہ جاری کرے گا، اس کے لیے دہرا اجر ہو گا: ایک اس کے جاری کرنے کا، دوسرا جو اس پر عمل کریں گے ان کا اجر، بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی کی جائے۔ اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ جاری کیا، تو اسے اس کے جاری کرنے کا گناہ ملے گا اور جو اس اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کوئی کمی کی جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۲۰ (۱۰۱۷)، العلم۶ (۱۰۱۷)، سنن الترمذی/العلم۱۵ (۲۶۷۵)، سنن ابن ماجہ/المقدمة۱۴ (۲۰۳) مختصراً، (تحفة الأشراف: ۳۲۳۲)، مسند احمد ۴/۳۵۷، ۳۵۸، ۳۵۹، ۳۶۲، ۳۶۱، ۳۶۲، سنن الدارمی/المقدمة۴۴ (۵۲۹) (مثل الترمذی) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ حَارِثَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "تَصَدَّقُوا فَإِنَّهُ سَيَأْتِي عَلَيْكُمْ زَمَانٌ يَمْشِي الرَّجُلُ بِصَدَقَتِهِ، فَيَقُولُ: الَّذِي يُعْطَاهَا لَوْ جِئْتَ بِهَا بِالْأَمْسِ قَبِلْتُهَا فَأَمَّا الْيَوْمَ فَلَا".
حارثہ بن وہب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ صدقہ کرو کیونکہ تم پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر دینے چلے گا تو جس شخص کو وہ دینے جائے گا وہ شخص کہے گا: اگر تم کل لے کر آئے ہوتے تو میں لے لیتا، لیکن آج تو آج نہیں لوں گا ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۹ (۱۴۱۱)، ۱۶ (۱۴۲۴)، الفتن۲۵ (۷۱۲۰)، صحیح مسلم/الزکاة۱۸ (۱۰۱۱)، (تحفة الأشراف: ۳۲۸۶)، مسند احمد (۴/۳۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ آج میں مالدار ہو گیا ہوں۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بُرْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اشْفَعُوا تُشَفَّعُوا وَيَقْضِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِ مَا شَاءَ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفارش کرو تمہاری سفارش قبول کی جائے گی، اللہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو چاہے فیصلہ فرمائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۲۱ (۱۴۳۲)، والأدب ۳۶ (۶۰۲۷)، ۳۷ (۶۰۲۸)، التوحید ۳۱ (۷۴۷۶)، صحیح مسلم/البر ۴۴ (۲۶۲۷)، سنن ابی داود/الأدب ۱۲۶ (۵۱۳۲)، سنن الترمذی/العلم ۱۴ (۲۶۷۲)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۶)، مسند احمد (۴/۴۰۰، ۴۰۹، ۴۱۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الرَّجُلَ لَيَسْأَلُنِي الشَّيْءَ فَأَمْنَعُهُ، حَتَّى تَشْفَعُوا فِيهِ فَتُؤْجَرُوا"، وَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "اشْفَعُوا تُؤْجَرُوا".
معاویہ بن ابی سفیان رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی کوئی چیز مجھ سے مانگتا ہے تو میں نہیں دیتا، تاکہ تم اس سلسلہ میں سفارش کرو، اور سفارش کرنے کا اجر پاؤ"، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سفارش کرو تمہیں سفارش کا اجر (ثواب) دیا جائے گا"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الأدب۱۲۶ (۵۱۳۲) (تحفة الأشراف: ۱۱۴۴۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ التَّيْمِيُّ، عَنِ ابْنِ جَابِرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنَ الْغَيْرَةِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمِنْهَا مَا يَبْغُضُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمِنَ الْخُيَلَاءِ مَا يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمِنْهَا مَا يَبْغُضُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالْغَيْرَةُ فِي الرِّيبَةِ، وَأَمَّا الْغَيْرَةُ الَّتِي يَبْغُضُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، فَالْغَيْرَةُ فِي غَيْرِ رِيبَةٍ وَالِاخْتِيَالُ الَّذِي يُحِبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، اخْتِيَالُ الرَّجُلِ بِنَفْسِهِ عِنْدَ الْقِتَالِ وَعِنْدَ الصَّدَقَةِ، وَالِاخْتِيَالُ الَّذِي يَبْغُضُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، الْخُيَلَاءُ فِي الْبَاطِلِ".
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک غیرت وہ ہے جسے اللہ ناپسند کرتا ہے،(ایسے ہی) ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے، اور ایک فخر وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ ناپسند کرتا ہے، تو جس غیرت کو اللہ پسند کرتا ہے وہ تہمت کی جگہ کی غیرت ہے، اور وہ غیرت ۱؎ جو اللہ عزوجل کو ناپسند ہے تو وہ غیر تہمت کی جگہ کی غیرت ہے ۲؎ رہا فخر جو اللہ کو پسند ہے تو وہ آدمی کا لڑائی کے وقت یا صدقہ دیتے وقت اپنی ذات پر فخر ہے ۳؎ اور وہ فخر جو اللہ کو ناپسند ہے وہ یہ ہے کہ آدمی لغو اور بیہودہ کاموں پر فخر کرے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الجہاد۱۱۴ (۲۶۵۹)، (تحفة الأشراف: ۳۱۷۴)، مسند احمد (۵/۴۴۵، ۴۴۶)، سنن الدارمی/النکاح۳۷ (۲۲۷۲) (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسی جگہوں میں جانے سے غیرت آئے جہاں بدنامی کا ڈر ہو جیسے غیر محرم کے ساتھ خلوت میں رہنے کی غیرت یا شراب خانہ میں جانے سے غیرت وغیرہ۔ ۲؎: یعنی ایسی جگہ میں غیرت کرے جہاں تہمت اور بدنامی کا خوف نہ ہو۔ ۳؎: اس لیے کہ اس سے دوسروں میں جہاد کرنے اور صدقہ و خیرات کرنے کا شوق پیدا ہو گا۔
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْجَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُوا وَتَصَدَّقُوا، وَالْبَسُوا فِي غَيْرِ إِسْرَافٍ وَلَا مَخِيلَةٍ".
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کھاؤ، صدقہ کرو، اور پہنو، لیکن اسراف (فضول خرچی) اور غرور (گھمنڈ و تکبر) سے بچو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/اللباس۲۳ (۳۶۰۵)، (تحفة الأشراف: ۸۷۷۳)، مسند احمد (۲/۱۸۱، ۱۸۲) (حسن)
أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْهَيْثَمِ بْنِ عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ بُرَيْدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ جَدِّهِ، عَنْ أَبِي مُوسَى، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ كَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) وَقَالَ: "الْخَازِنُ الْأَمِينُ الَّذِي يُعْطِي مَا أُمِرَ بِهِ طَيِّبًا بِهَا نَفْسُهُ أَحَدُ الْمُتَصَدِّقَيْنِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مومن، مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے"، نیز فرمایا: "امانت دار خازن جو خوش دلی سے وہ چیز دے جس کا اسے حکم دیا گیا ہو تو وہ بھی صدقہ دینے والوں میں سے ایک ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۲۵ (۱۴۳۸)، الاجارة۱ (۲۲۶۰)، الوکالة۱۶ (۲۳۱۹) (فی جمیع المواضع مقتصراعلی قولہ: الخازن۔۔۔)، صحیح مسلم/الزکاة۲۶ (۱۰۲۳)، سنن ابی داود/الزکاة۴۳ (۱۶۸۴)، (تحفة الأشراف: ۹۰۳۸)، مسند احمد (۴/۴۰۴)، ۴۰۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ بَحِيرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْجَاهِرُ بِالْقُرْآنِ كَالْجَاهِرِ بِالصَّدَقَةِ، وَالْمُسِرُّ بِالْقُرْآنِ كَالْمُسِرِّ بِالصَّدَقَةِ".
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بلند آواز سے قرآن پڑھنے والا اعلانیہ صدقہ کرنے والے کی طرح ہے، اور دھیرے سے قرآن پڑھنے والا چھپا کر صدقہ دینے والے کی طرح ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۶۴ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ، وَالدَّيُّوثُ، وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ: الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ، وَالْمُدْمِنُ عَلَى الْخَمْرِ، وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین طرح کے لوگ ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ دیکھے گا، ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسری وہ عورت جو مردوں کی مشابہت اختیار کرے، تیسرا دیوث (بے غیرت) اور تین شخص ایسے ہیں جو جنت میں نہ جائیں گے۔ ایک ماں باپ کا نافرمان، دوسرا عادی شرابی، اور تیسرا دے کر احسان جتانے والا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد به المؤلف، (تحفة الأشراف: 6767) حم۲/۶۹، ۱۲۸، ۱۳۴ (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْمُدْرِكِ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ، عَنْخَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو ذَرٍّ: خَابُوا وَخَسِرُوا، خَابُوا وَخَسِرُوا، قَالَ: الْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ، وَالْمَنَّانُ عَطَاءَهُ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین شخص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا، اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا"، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت پڑھی۔ تو ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ لوگ نامراد ہوئے، گھاٹے میں رہے، آپ نے فرمایا: "(وہ تین یہ ہیں) اپنا تہبند ٹخنے کے نیچے لٹکانے والا، جھوٹی قسمیں کھا کھا کر اپنے سامان کو رواج دینے والا، اپنے دیے ہوئے کا احسان جتانے والا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الإیمان ۴۶ (۱۰۶)، سنن ابی داود/اللباس ۲۷ (۴۰۸۷)، سنن الترمذی/البیوع ۵ (۱۲۱۱)، سنن ابن ماجہ/التجارات ۳۰ (۲۲۰۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۹۰۹)، مسند احمد (۴/۱۴۸، ۱۵۸، ۱۶۲، ۱۶۸، ۱۷۸)، سنن الدارمی/البیوع۶۳ (۲۶۴۷)، ویأتی عند المؤلف فی البیوع ۵ (برقم: ۴۴۶۳، ۴۴۶۴) وفی الزینة ۱۰۴ (برقم۵۳۳۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُلَيْمَانَ وَهُوَ الْأَعْمَشُ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ مُسْهِرٍ، عَنْ خَرَشَةَ بْنِ الْحُرِّ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: الْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین شخص ایسے ہیں جن سے قیامت کے دن اللہ عزوجل نہ بات کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ انہیں پاک و صاف کرے گا، اور انہیں درد ناک عذاب ہو گا: اپنے دئیے ہوئے کا احسان جتانے والا، اپنے تہبند کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا، اپنے سامان کو جھوٹی قسمیں کھا کر رواج دینے والا"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وَأَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ بُجَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَدِّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "رُدُّوا السَّائِلَ وَلَوْ بِظِلْفٍ"، فِي حَدِيثِ هَارُونَ مُحْرَقٍ.
ابن بجید انصاری اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مانگنے والے کو کچھ دے کر لوٹایا کرو اگرچہ کھر ہی سہی"۔ ہارون کی روایت میں «محرق» (جلی ہوئی) کا اضافہ ہے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۳۳ (۱۶۶۷)، سنن الترمذی/الزکاة۲۹ (۱۶۶۵)، (تحفة الأشراف: ۱۸۳۰۵)، موطا امام مالک/صفة النبی۵ (۸)، مسند احمد ۴/۷۰، ۵/۳۸۱، ۶/۳۸۲، ۳۸۳، ۴۳۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا يَأْتِي رَجُلٌ مَوْلَاهُ يَسْأَلُهُ مِنْ فَضْلٍ عِنْدَهُ، فَيَمْنَعُهُ إِيَّاهُ إِلَّا دُعِيَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعٌ أَقْرَعُ يَتَلَمَّظُ فَضْلَهُ الَّذِي مَنَعَ".
بہز بن حکیم اپنے دادا معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: "آدمی اپنے مالک کے پاس اس کی ضرورت سے زائد و فاضل چیز مانگنے آئے، اور وہ اسے نہ دے تو اس کے لیے قیامت کے دن ایک گنجا (زہریلا) سانپ بلایا جائے گا، جو اس کے فاضل مال کو جسے اس نے دینے سے انکار کر دیا تھا چاٹتا پھرے گا" ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۳۸ (حسن)
وضاحت: ۱؎: وہ فاضل و زائد مال اس کے کچھ کام نہ آئے گا الٹا اس کے لیے وبال بن جائے گا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنِ اسْتَعَاذَ بِاللَّهِ فَأَعِيذُوهُ، وَمَنْ سَأَلَكُمْ بِاللَّهِ فَأَعْطُوهُ، وَمَنِ اسْتَجَارَ بِاللَّهِ فَأَجِيرُوهُ، وَمَنْ آتَى إِلَيْكُمْ مَعْرُوفًا فَكَافِئُوهُ، فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا فَادْعُوا لَهُ، حَتَّى تَعْلَمُوا أَنْ قَدْ كَافَأْتُمُوهُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے اسے پناہ دو، اور جو شخص تم سے اللہ تعالیٰ کے نام پر سوال کرے اسے دو، اور جو شخص اللہ کے نام پر تم سے امان چاہے تو امان دو، اور جو شخص تمہارے ساتھ کوئی بھلائی کرے تو تم اسے اس کا بدلہ دو، اور اگر تم بدلہ نہ دے سکو تو اس کے لیے دعا کرو یہاں تک کہ تم جان لو کہ تم نے اس کا بدلہ چکا دیا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۳۸ (۱۶۷۲) الأدب۱۱۷ (۵۱۰۹)، (تحفة الأشراف: ۷۳۹۱)، مسند احمد ۲/۶۸، ۹۵، ۹۹، ۱۲۷ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ بَهْزَ بْنَ حَكِيمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ ! مَا أَتَيْتُكَ حَتَّى حَلَفْتُ أَكْثَرَ مِنْ عَدَدِهِنَّ لِأَصَابِعِ يَدَيْهِ أَلَّا، آتِيَكَ وَلَا آتِيَ دِينَكَ، وَإِنِّي كُنْتُ امْرَأً لَا أَعْقِلُ شَيْئًا إِلَّا مَا عَلَّمَنِي اللَّهُ وَرَسُولُهُ، وَإِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَجْهِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بِمَا بَعَثَكَ رَبُّكَ إِلَيْنَا ؟ قَالَ: "بِالْإِسْلَامِ"، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا آيَاتُ الْإِسْلَامِ ؟ قَالَ: "أَنْ تَقُولَ: أَسْلَمْتُ وَجْهِي إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَتَخَلَّيْتُ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ كُلُّ مُسْلِمٍ عَلَى مُسْلِمٍ مُحَرَّمٌ أَخَوَانِ نَصِيرَانِ، لَا يَقْبَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ مُشْرِكٍ بَعْدَمَا أَسْلَمَ عَمَلًا، أَوْ يُفَارِقَ الْمُشْرِكِينَ إِلَى الْمُسْلِمِينَ".
معاویہ بن حیدہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے نبی! میں اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کی تعداد سے بھی زیادہ بار یہ قسم کھانے کے بعد کہ میں نہ آپ کے پاس آؤں گا اور نہ آپ کا دین قبول کروں گا۔ آپ کے پاس آیا ہوں، میں ایک بے عقل اور ناسمجھ انسان ہوں (اب بھی کچھ نہیں سمجھتا) سوائے اس کے جو اللہ اور اس کے رسول نے مجھے سکھا دیا ہے۔ میں اللہ کی ذات کا حوالہ دے کر آپ سے پوچھتا ہوں: اللہ نے آپ کو ہمارے پاس کیا چیزیں دے کر بھیجا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اسلام دے کر"، میں نے عرض کیا: "اسلام کی نشانیاں کیا ہیں؟" تو آپ نے فرمایا: "یہ ہے کہ تم کہو: میں نے اپنی ذات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا اور اپنے آپ کو کفر و شرک کی آلائشوں سے پاک کر لیا ہے، اور تم نماز قائم کرو، زکاۃ دو۔ ہر مسلمان دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۱؎۔ ہر ایک دوسرے کا بھائی و مددگار ہے، اللہ تعالیٰ مشرک کا کوئی عمل اس کے بعد کہ وہ اسلام لے آیا ہو قبول نہیں کرتا، یا وہ مشرکین کو چھوڑ کر مسلمانوں سے آ ملے ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۴۳۸ (حسن)
وضاحت: ۱؎: یعنی ہر مسلمان کی جان، مال عزت و آبرو دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دار الشرک سے دار السلام کی طرف ہجرت واجب ہے۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ خَالِدٍ الْقَارِظِيِّ، عَنْإِسْمَاعِيلَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِخَيْرِ النَّاسِ مَنْزِلًا"، قُلْنَا: بَلَى، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "رَجُلٌ آخِذٌ بِرَأْسِ فَرَسِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، حَتَّى يَمُوتَ أَوْ يُقْتَلَ، وَأُخْبِرُكُمْ بِالَّذِي يَلِيهِ"، قُلْنَا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ فِي شِعْبٍ يُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَيُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَيَعْتَزِلُ شُرُورَ النَّاسِ، وَأُخْبِرُكُمْ بِشَرِّ النَّاسِ"، قُلْنَا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: "الَّذِي يُسْأَلُ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يُعْطِي بِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمہیں لوگوں میں مرتبہ کے اعتبار سے بہترین شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے عرض کیا: کیوں نہیں، ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "وہ شخص ہے جو اللہ کی راہ میں اپنے گھوڑے کا سر تھامے رہے یہاں تک کہ اسے موت آ جائے، یا وہ قتل کر دیا جائے، اور میں تمہیں اس شخص کے بارے میں بتاؤں جو مرتبہ میں اس سے قریب تر ہے"۔ ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! بتائیے، آپ نے فرمایا: "یہ وہ شخص ہے جو لوگوں سے کٹ کر کسی وادی میں (گوشہ نشین ہو جائے) نماز قائم کرے، زکاۃ دے اور لوگوں کے شر سے الگ تھلگ رہے، اور میں تمہیں لوگوں میں برے شخص کے بارے میں بتاؤں؟"، ہم نے عرض کیا: جی ہاں، اللہ کے رسول! ضرور بتائیے، آپ نے فرمایا: "وہ شخص ہے جس سے اللہ کے نام پر مانگا جائے اور وہ نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/فضائل الجھاد ۱۸ (۱۶۵۲)، (تحفة الأشراف: ۵۹۸۰)، مسند احمد (۱/۲۳۷، ۳۱۹، ۳۲۲)، سنن الدارمی/الجھاد ۶ (۲۴۴۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا يُحَدِّثُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ، رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَثَلَاثَةٌ يَبْغُضُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، أَمَّا الَّذِينَ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَرَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ، فَتَخَلَّفَهُ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا، لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ، حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ، فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَهُزِمُوا، فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يَفْتَحَ اللَّهُ لَهُ، وَالثَّلَاثَةُ الَّذِينَ يَبْغُضُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الشَّيْخُ الزَّانِي، وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ، وَالْغَنِيُّ الظَّلُومُ".
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے، اور تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل بغض رکھتا ہے، رہے وہ جن سے اللہ محبت کرتا ہے تو وہ یہ ہیں: ایک شخص کچھ لوگوں کے پاس گیا، اور اس نے ان سے اللہ کے نام پر کچھ مانگا، اور مانگنے میں ان کے اور اپنے درمیان کسی قرابت کا واسطہ نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے اسے نہیں دیا۔ تو ایک شخص ان لوگوں کے پیچھے سے مانگنے والے کے پاس آیا۔ اور اسے چپکے سے دیا، اس کے اس عطیہ کو صرف اللہ عزوجل جانتا ہو اور وہ جسے اس نے دیا ہے۔ اور کچھ لوگ رات میں چلے اور جب نیند انہیں اس جیسی اور چیزوں کے مقابل میں بہت بھلی لگنے لگی، تو ایک جگہ اترے اور اپنا سر رکھ کر سو گئے، لیکن ایک شخص اٹھا، اور میرے سامنے گڑگڑانے لگا اور میری آیتیں پڑھنے لگا۔ اور ایک وہ شخص ہے جو ایک فوجی دستہ میں تھا، دشمن سے مڈبھیڑ ہوئی، لوگ شکست کھا کر بھاگنے لگے مگر وہ سینہ تانے ڈٹا رہا یہاں تک کہ وہ مارا گیا، یا اللہ تعالیٰ نے اسے فتح مند کیا۔ اور تین شخص جن سے اللہ تعالیٰ بغض رکھتا ہے یہ ہیں: ایک بوڑھا زنا کار، دوسرا گھمنڈی فقیر، اور تیسرا ظالم مالدار"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۱۶۱۶ (ضعیف) (اس کے راوی ’’ زید بن ظبیان ‘‘ لین الحدیث ہیں)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا إِسْمَاعِيلُ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ التَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ وَاللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، إِنَّ الْمِسْكِينَ الْمُتَعَفِّفُ اقْرَءُوا إِنْ شِئْتُمْ: لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک کھجور یا دو کھجور ایک لقمہ یا دو لقمے (در در) گھماتے اور (گھر گھر) چکر لگواتے ہیں۔ بلکہ مسکین سوال سے بچنے والا ہے ۱؎ اگر تم چاہو تو پڑھو «لا يسألون الناس إلحافا» "وہ لوگوں سے گڑگڑا کر نہیں مانگتے"(البقرہ: ۲۷۳)۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۳ (۱۴۷۹)، تفسیر البقرة ۴۸ (۴۵۳۹)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۴ (۱۰۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۴۲۲۱)، مسند احمد (۲/۳۹۵) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: جو ضرورت مند ہوتے ہوئے بھی نہیں مانگتا۔
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ الْمِسْكِينُ بِهَذَا الطَّوَّافِ، الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ"، قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ ؟، قَالَ: "الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ، وَلَا يُفْطَنُ لَهُ فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ، وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلَ النَّاسَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسکین وہ نہیں ہے جو اس طرح لوگوں کے پاس چکر لگائے کہ ایک لقمہ دو لقمے یا ایک کھجور دو کھجوریں اسے در در پھرائیں"، لوگوں نے پوچھا: پھر مسکین کون ہے؟ فرمایا: "مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال و دولت نہ ہو کہ وہ اپنی ضرورت کی تکمیل کے لیے دوسروں کا محتاج نہ رہے، اور وہ محسوس بھی نہ ہو سکے کہ وہ مسکین ہے کہ اسے ضرورت مند سمجھ کر صدقہ دیا جائے۔ اور نہ ہی وہ لوگوں کے سامنے مانگنے کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑا ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۳ (۱۴۷۹)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۲۹)، موطا امام مالک/صفة النبي ۵ (۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ الْأُكْلَةُ وَالْأُكْلَتَانِ، وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ"، قَالُوا: فَمَا الْمِسْكِينُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى، وَلَا يَعْلَمُ النَّاسُ حَاجَتَهُ، فَيُتَصَدَّقَ عَلَيْهِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک لقمے دو لقمے اور ایک کھجور، دو کھجور در در پھرائیں"۔ لوگوں نے کہا: پھر مسکین کون ہے؟ اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: "مسکین وہ ہے: جو مالدار نہ ہو، اور لوگ اس کی محتاجی و حاجت مندی کو جان بھی نہ سکیں کہ اسے صدقہ دیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۲۳ (۱۶۳۲)، (تحفة الأشراف: ۱۵۲۷۷)، مسند احمد (۲/۲۶۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بُجَيْدٍ، عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ بُجَيْدٍ وَكَانَتْ مِمَّنْ بَايَعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ الْمِسْكِينَ لَيَقُومُ عَلَى بَابِي، فَمَا أَجِدُ لَهُ شَيْئًا أُعْطِيهِ إِيَّاهُ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ لَمْ تَجِدِي شَيْئًا تُعْطِينَهُ إِيَّاهُ إِلَّا ظِلْفًا مُحْرَقًا، فَادْفَعِيهِ إِلَيْهِ".
ام بجید رضی الله عنہا (جو ان عورتوں میں سے ہیں جن ہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: (کبھی ایسا ہوتا ہے) کہ مسکین میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے، اور میں اسے دینے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں پاتی؟ آپ نے فرمایا: "اگر تم اسے دینے کے لیے صرف جلی ہوئی کھر ہی پاؤ تو اسے وہی دے دو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۶۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنِ ابْنِ عَجْلَانَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: الشَّيْخُ الزَّانِي، وَالْعَائِلُ الْمَزْهُوُّ، وَالْإِمَامُ الْكَذَّابُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تین طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ عزوجل قیامت کے دن بات نہیں کرے گا: بوڑھا زنا کار، گھمنڈی فقیر، جھوٹا امام"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۴۱۴۵)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان ۴۶ (۱۰۷)، مسند احمد (۲/۴۳۳، ۴۸۰) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَارِمٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "أَرْبَعَةٌ يَبْغُضُهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: الْبَيَّاعُ الْحَلَّافُ، وَالْفَقِيرُ الْمُخْتَالُ، وَالشَّيْخُ الزَّانِي، وَالْإِمَامُ الْجَائِرُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چار طرح کے لوگ ہیں جن سے اللہ بغض رکھتا ہے: قسمیں کھا کھا کر بیچنے والا، گھمنڈی فقیر، بوڑھا زنا کار، ظالم امام (حاکم)"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۹۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ الدِّيلِيِّ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "السَّاعِي عَلَى الْأَرْمَلَةِ وَالْمِسْكِينِ، كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیوہ عورت اور مسکین پر خرچ کرنے کے لیے محنت کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مانند ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/النفقات۱ (۵۳۵۳)، الأدب۲۵ (۶۰۰۶)، ۲۶ (۶۰۰۷)، صحیح مسلم/الزھد۲ (۲۹۸۲)، سنن الترمذی/البر۴۴ (۱۹۶۹)، سنن ابن ماجہ/التجارات۱ (۲۱۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۱۴)، مسند احمد (۲/۳۶۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي نُعْمٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: بَعَثَ عَلِيٌّ وَهُوَ بِالْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ بِتُرْبَتِهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَسَمَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ: الْأَقْرَعِ بْنِ حَابِسٍ الْحَنْظَلِيِّ، وَعُيَيْنَةَ بْنِ بَدْرٍ الْفَزَارِيِّ، وَعَلْقَمَةَ بْنِ عُلَاثَةَ الْعَامِرِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي كِلَابٍ، وَزَيْدٍ الطَّائِيِّ، ثُمَّ أَحَدِ بَنِي نَبْهَانَ، فَغَضِبَتْ قُرَيْشٌ وَقَالَ: مَرَّةً أُخْرَى صَنَادِيدُ قُرَيْشٍ، فَقَالُوا: تُعْطِي صَنَادِيدَ نَجْدٍ وَتَدَعُنَا، قَالَ: "إِنَّمَا فَعَلْتُ ذَلِكَ لِأَتَأَلَّفَهُمْ"، فَجَاءَ رَجُلٌ كَثُّ اللِّحْيَةِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، نَاتِئُ الْجَبِينِ مَحْلُوقُ الرَّأْسِ، فَقَالَ: اتَّقِ اللَّهَ يَا مُحَمَّدُ، قَالَ: "فَمَنْ يُطِيعُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ إِنْ عَصَيْتُهُ، أَيَأْمَنُنِي عَلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَلَا تَأْمَنُونِي"، ثُمَّ أَدْبَرَ الرَّجُلُ فَاسْتَأْذَنَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ فِي قَتْلِهِ يَرَوْنَ أَنَّهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، يَقْتُلُونَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ، وَيَدَعُونَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَئِنْ أَدْرَكْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مٹی ملا ہوا غیر صاف شدہ سونے کا ایک ڈلا بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے چار افراد: اقرع بن حابس حنظلی، عیینہ بن بدر فرازی، اور علقمہ بن علاثہ جو عامری تھے پھر وہ بنی کلاب کے ایک فرد بن گئے، اور زید جو طائی تھے پھر بنی نبہان میں سے ہو گئے، کے درمیان تقسیم کر دیا۔ (یہ دیکھ کر) قریش کے لوگ غصہ ہو گئے۔ راوی نے دوسری بار کہا: قریش کے سرکردہ لوگ غصہ ہو گئے، اور کہنے لگے کہ آپ نجد کے سرداروں کو دیتے ہیں اور ہم کو چھوڑ دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: "میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ ان کی تالیف قلب کروں (یعنی انہیں رجھا سکوں)"، اتنے میں گھنی داڑھی والا، ابھرے گالوں والا دھنسی آنکھوں والا، ابھری پیشانی والا، منڈے سر والا ایک شخص آیا اور کہنے لگا: محمد اللہ سے ڈرو، آپ نے فرمایا: "اگر میں ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگوں گا تو پھر اللہ عزوجل کی تابعداری کون کرے گا؟ وہ مجھے سارے زمین والوں میں اپنا امین (معتمد) سمجھتا ہے، اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے"، پھر وہ شخص پیٹھ پھیر کر چلا تو حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کے قتل کی اجازت طلب کی (لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا ۱؎، اہل اسلام کو قتل کریں گے، اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ اسلام سے ایسے ہی نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے جسم کو چھیدتا ہوا نکل جاتا ہے۔ اگر میں نے انہیں پایا، تو میں انہیں قوم عاد کی طرح قتل کر دوں گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الأنبیاء ۶ (۳۳۴۴)، والمغازی ۶۱ (۴۳۵۱)، وتفسیرالتوبة۱۰ (۴۶۶۷)، التوحید ۲۳ (۷۴۳۲)، ۵۷ (۷۵۶۲) صحیح مسلم/الزکاة ۴۷ (۱۰۶۳)، سنن ابی داود/السنة۳۱ (۴۷۶۴)، (تحفة الأشراف: ۴۱۳۲)، مسند احمد ۳/۶۸، ۷۲، ۷۳، ویأتی عند المؤلف فی تحریم الدم ۲۶ (برقم۴۱۰۶) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یہ خارجی لوگ ہیں جن کا ظہور علی رضی الله عنہ کی خلافت میں ہوا۔
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ. ح وَأَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ هَارُونَ، عَنْ كِنَانَةَ بْنِ نُعَيْمٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلْتُهُ فِيهَا فَقَالَ: "إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ، رَجُلٍ تَحَمَّلَ بِحَمَالَةٍ بَيْنَ قَوْمٍ فَسَأَلَ فِيهَا حَتَّى يُؤَدِّيَهَا ثُمَّ يُمْسِكَ".
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ سے اس سلسلہ میں سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: "مانگنا صرف تین لوگوں کے لیے جائز ہے، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جس نے قوم کے کسی شخص کے قرض کی ضمانت لے لی ہو (پھر وہ ادا نہ کر سکے)، تو وہ دوسرے سے مانگے یہاں تک کہ اسے ادا کر دے، پھر رک جائے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۳۶ (۱۰۴۴)، سنن ابی داود/الزکاة ۲۶ (۱۶۴۰)، (تحفة الأشراف: ۱۱۰۶۸)، مسند احمد (۳/۴۷۷، و۵/۶۰)، سنن الدارمی/الزکاة۳۷ (۱۶۸۵)، ویأتی عند المؤلف برقم۲۵۹۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ النَّضْرِ بْنِ مُسَاوِرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ، عَنْقَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا فَقَالَ: "أَقِمْ يَا قَبِيصَةُ، حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ فَنَأْمُرَ لَكَ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا قَبِيصَةُ ! إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً، فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ، فَاجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكَ، وَرَجُلٍ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ، حَتَّى يَشْهَدَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ قَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ، حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ أَوْ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَى هَذَا مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتٌ، يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا".
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک قرض اپنے ذمہ لے لیا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (ادائیگی کے لیے روپے) مانگنے آیا، تو آپ نے فرمایا: "اے قبیصہ رکے رہو۔ (کہیں سے) صدقہ آ لینے دو، تو ہم تمہیں اس میں سے دلوا دیں گے"، وہ کہتے ہیں ـ: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے قبیصہ! صدقہ تین طرح کے لوگوں کے سوا کسی کے لیے جائز نہیں ہے: وہ شخص جو کسی کا بوجھ خود اٹھا لے ۱؎ تو اس کے لیے مانگنا درست ہے، یہاں تک کہ اس سے اس کی ضرورت پوری ہو جائے، اور (دوسرا) وہ شخص جو کسی ناگہانی آفت کا شکار ہو جائے، اور وہ اس کا مال تباہ کر دے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ وہ اسے پا لے، پھر رک جائے، (تیسرا) وہ شخص جو فاقہ کا شکار ہو گیا ہو یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین سمجھ دار افراد گواہی دیں کہ ہاں واقعی فلاں شخص فاقہ کا مارا ہوا ہے، تو اس کے لیے مانگنا جائز ہے یہاں تک کہ اس کے گزارہ کا انتظام ہو جائے، ان کے علاوہ مانگنے کی جو بھی صورت ہے حرام ہے، اے قبیصہ! اور جو کوئی مانگ کر کھاتا ہے حرام کھاتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی کسی کا قرض وغیرہ اپنے ذمہ لے لے۔
أَخْبَرَنِي زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي هِشَامٌ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي هِلَالٌ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَجَلَسْنَا حَوْلَهُ فَقَالَ: "إِنَّمَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِي مَا يُفْتَحُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةٍ، وَذَكَرَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَوَ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، فَسَكَتَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: مَا شَأْنُكَ تُكَلِّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا يُكَلِّمُكَ ؟ قَالَ: وَرَأَيْنَا أَنَّهُ يُنْزَلُ عَلَيْهِ فَأَفَاقَ يَمْسَحُ الرُّحَضَاءَ وَقَالَ: "أَشَاهِدٌ السَّائِلُ إِنَّهُ لَا يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ، وَإِنَّ مِمَّا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ إِلَّا آكِلَةُ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلْتَ عَيْنَ الشَّمْسِ، فَثَلَطَتْ، ثُمَّ بَالَتْ، ثُمَّ رَتَعَتْ، وَإِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، وَنِعْمَ صَاحِبُ الْمُسْلِمِ هُوَ إِنْ أَعْطَى مِنْهُ الْيَتِيمَ وَالْمِسْكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ، وَإِنَّ الَّذِي يَأْخُذُهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَيَكُونُ عَلَيْهِ شَهِيدًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھے، آپ نے فرمایا: "اپنے بعد میں تمہارے متعلق دنیا کی رونق و شادابی جس کی تمہارے اوپر بہتات کر دی جائے گی سے ڈر رہا ہوں"، پھر آپ نے دنیا اور اس کی زینت کا ذکر کیا۔ تو ایک شخص کہنے لگا: کیا خیر شر لے کر آئے گا؟ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے۔ تو اس سے کہا گیا: تیرا کیا معاملہ ہے کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کرتا ہے، اور وہ تجھ سے بات نہیں کرتے؟ اس وقت ہم نے دیکھا کہ آپ پر وحی اتاری جا رہی تھی۔ پھر وحی موقوف ہوئی تو آپ پسینہ پوچھنے لگے، اور فرمایا: "کیا پوچھنے والا موجود ہے؟ بیشک خیر شر نہیں لاتا ہے، مگر خیر اس سبزہ کی طرح ہے جسے موسم ربیع (بہار) اگاتا ہے، (جانور کو بدہضمی سے) مار ڈالتا ہے، یا مرنے کے قریب کر دیتا ہے مگر اس گھاس کو کھانے والے کو (نقصان نہیں پہنچاتا) جو کھائے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کوکھیں بھر جائیں تو وہ دھوپ میں جا کر سورج کا سامنا کرے، اور پائخانہ پیشاب کرے، پھر (جب بھوک محسوس کرے تو) پھر چرے (اس طرح) یقیناً یہ مال بھی ایک سرسبز و شیریں چیز ہے۔ وہ مسلمان کا کیا ہی بہترین ساتھی ہے اگر وہ اس سے یتیموں، مسکینوں اور مسافروں کو دے، اور جو شخص ناحق مال حاصل کرتا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن آسودہ نہیں ہوتا، اور یہ قیامت کے دن اس کے خلاف گواہ ہو گا" ۲؎۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الجمعة ۲۸ (۹۲۱) (مختصراً)، الزکاة ۴۷ (۱۴۶۵)، الجھاد ۳۷ (۲۸۴۲)، الرقاق ۷ (۶۴۲۷)، صحیح مسلم/الزکاة ۴۱ (۱۰۵۲)، (تحفة الأشراف: ۴۱۶۶)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الفتن۱۸ (۳۹۹۵)، مسند احمد (۳/۷، ۲۱، ۹۱) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: یعنی میرے بعد جو فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گا اور جو مال و دولت اس سے تمہیں حاصل ہو گی، اس سے مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں تم دنیا کی رنگینیوں اور عیش و عشرت میں پڑ کر اللہ تعالیٰ سے غافل نہ ہو جاؤ، اور آخرت کو بھول بیٹھو۔ ۲؎: کہ اس نے مجھے ناحق حاصل کیا تھا۔
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعَلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ أُمِّ الرَّائِحِ، عَنْ سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِنَّ الصَّدَقَةَ عَلَى الْمِسْكِينِ صَدَقَةٌ، وَعَلَى ذِي الرَّحِمِ اثْنَتَانِ صَدَقَةٌ وَصِلَةٌ".
سلمان بن عامر رضی الله عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "مسکین کو صدقہ کرنا صرف صدقہ ہے، اور رشتہ دار مسکین کو صدقہ کرنا صدقہ بھی ہے، اور صلہ رحمی بھی"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الصیام ۲۱ (۲۳۵۵)، سنن الترمذی/الزکاة ۲۶ (۶۵۸)، الصوم ۱۰ (۶۹۵)، سنن ابن ماجہ/الصیام ۲۵ (۱۶۹۹)، الزکاة ۲۸ (۱۸۴۴)، (تحفة الأشراف: ۴۴۸۶)، مسند احمد ۴/۱۸، ۲۱۴، سنن الدارمی/الزکاة۳۸ (۱۷۲۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْزَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلنِّسَاءِ: "تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ"، قَالَتْ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدِ فَقَالَتْ لَهُ: أَيَسَعُنِي أَنْ أَضَعَ صَدَقَتِي فِيكَ وَفِي بَنِي أَخٍ لِي يَتَامَى، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: سَلِي عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا عَلَى بَابِهِ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يُقَالُ لَهَا زَيْنَبُ تَسْأَلُ عَمَّا أَسْأَلُ عَنْهُ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا بِلَالٌ فَقُلْنَا لَهُ: انْطَلِقْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ عَنْ ذَلِكَ وَلَا تُخْبِرْهُ مَنْ نَحْنُ، فَانْطَلَقَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "مَنْ هُمَا ؟"، قَالَ: زَيْنَبُ، قَالَ: "أَيُّ الزَّيَانِبِ ؟"، قَالَ: "زَيْنَبُ امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، وَزَيْنَبُ الْأَنْصَارِيَّةُ، قَالَ: "نَعَمْ لَهُمَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ".
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی بیوی زینب رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: "تم صدقہ دو اگرچہ اپنے زیوروں ہی سے سہی"، وہ کہتی ہیں: عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (میرے شوہر) تنگ دست و مفلس تھے، تو میں نے ان سے پوچھا: کیا میرے لیے یہ گنجائش ہے کہ میں اپنا صدقہ آپ کو اور اپنے یتیم بھتیجوں کو دے دیا کروں؟ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اس بارے میں تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھو۔ زینب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ انصار کی ایک عورت اسے بھی زینب ہی کہا جاتا تھا آپ کے دروازے پر کھڑی ہے، وہ بھی اسی چیز کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی جس کے بارے میں میں پوچھنا چاہتی تھی۔ اتنے میں بلال رضی اللہ عنہ اندر سے نکل کر ہماری طرف آئے، تو ہم نے ان سے کہا: آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائیں، اور آپ سے اس کے بارے میں پوچھیں، اور آپ کو یہ نہ بتائیں کہ ہم کون ہیں، چنانچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے (اور آپ سے پوچھا) آپ نے پوچھا: یہ دونوں کون ہیں؟ انہوں نے کہا: زینب، آپ نے فرمایا: کون سی زینب؟ انہوں نے کہا: ایک زینب تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی، اور ایک زینب انصار میں سے ہیں۔ آپ نے فرمایا: "ہاں (درست ہے) انہیں دوہرا ثواب ملے گا ایک رشتہ داری کا اور دوسرا صدقے کا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۴۸ (۱۴۶۶)، صحیح مسلم/الزکاة ۱۴ (۱۰۰۰)، سنن الترمذی/الزکاة ۱۲ (۶۳۵، ۶۳۶)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۴ (۱۸۳۴)، (تحفة الأشراف: ۱۵۸۸۷)، مسند احمد (۳/۵۰۲، و۶/۳۶۳)، سنن الدارمی/الزکاة۲۳ (۱۶۶۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَزْهَرَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَأَنْ يَحْتَزِمَ أَحَدُكُمْ حُزْمَةَ حَطَبٍ عَلَى ظَهْرِهِ فَيَبِيعَهَا، خَيْرٌ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ رَجُلًا فَيُعْطِيَهُ أَوْ يَمْنَعَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم میں سے کوئی لکڑیوں کا ایک گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے، پھر اسے بیچے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے مانگے، تو اسے دے یا نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۴۷۰)، ۵۳ (۱۴۸۰)، والبیوع ۱۵ (۲۰۷۴)، والمساقاة ۱۳ (۲۳۷۴)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۵ (۱۰۴۲)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۳۱، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة ۳۸ (۶۸۰)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۵ (۱۸۳۶)، مسند احمد (۲/۴۵۵) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الْحَكَمِ، عَنْ شُعَيْبٍ، عَنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: سَمِعْتُ حَمْزَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَسْأَلُ حَتَّى يَأْتِيَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَيْسَ فِي وَجْهِهِ مُزْعَةٌ مِنْ لَحْمٍ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدمی برابر مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ قیامت کے روز ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر کوئی لوتھڑا گوشت نہ ہو گا"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۵۲ (۱۴۷۴)، صحیح مسلم/الزکاة۳۵ (۱۰۴۰)، (تحفة الأشراف: ۶۷۰۲)، مسند احمد (۲/۱۵، ۸۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي صَفْوَانَ الثَّقَفِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ بِسْطَامَ بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَلِيفَةَ، عَنْ عَائِذِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَأَلَهُ فَأَعْطَاهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رِجْلَهُ عَلَى أُسْكُفَّةِ الْبَاب: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَوْ تَعْلَمُونَ مَا فِي الْمَسْأَلَةِ مَا مَشَى أَحَدٌ إِلَى أَحَدٍ يَسْأَلُهُ شَيْئًا".
عائذ بن عمرو رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے آپ سے مانگا تو آپ نے اسے دیا۔ جب (وہ لوٹ کر چلا اور) اس نے اپنا پیر دروازے کے چوکھٹ پر رکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم لوگ جان پاتے کہ بھیک مانگنے میں کیا (برائی) ہے تو کوئی کسی کے پاس کچھ بھی مانگنے نہ جاتا"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۵۰۶۰)، مسند احمد (۵/۶۵) (حسن) (تراجع الالبانی ۴۸۶، صحیح الترغیب والترہیب ۷۹۶)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ، عَنْ بَكْرِ بْنِ سَوَادَةَ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ مَخْشِيٍّ، عَنِ ابْنِ الْفِرَاسِيِّ، أَنَّ الْفِرَاسِيّ، قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَسْأَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ ؟ قَالَ: "لَا، وَإِنْ كُنْتَ سَائِلًا لَابُدَّ فَاسْأَلِ الصَّالِحِينَ".
فراسی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! میں مانگوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، اور اگر تمہیں مانگنا ضروری ہو تو نیکو کاروں سے مانگو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۲۸ (۱۶۴۶)، (تحفة الأشراف: ۱۵۵۲۴)، مسند احمد (۴/۳۳۴) (ضعیف) (اس کے راوی ’’مسلم‘‘ لین الحدیث ہیں، اور ’’ابن الفراسی‘‘ مجہول ہیں)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّ نَاسًا مِنَ الْأَنْصَارِ سَأَلُوا رَسُولَ اللَّهِ فَأَعْطَاهُمْ، ثُمَّ سَأَلُوهُ فَأَعْطَاهُمْ، حَتَّى إِذَا نَفِدَ مَا عِنْدَهُ قَالَ: "مَا يَكُونُ عِنْدِي مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ أَدَّخِرَهُ عَنْكُمْ، وَمَنْ يَسْتَعْفِفْ يُعِفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ يَصْبِرْ يُصَبِّرْهُ اللَّهُ، وَمَا أُعْطِيَ أَحَدٌ عَطَاءً هُوَ خَيْرٌ وَأَوْسَعُ مِنَ الصَّبْرِ".
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انصار میں سے کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے انہیں دیا، ان لوگوں نے پھر سوال کیا، تو آپ نے انہیں پھر دیا یہاں تک کہ آپ کے پاس جو کچھ تھا ختم ہو گیا، تو آپ نے فرمایا: "میرے پاس جو ہو گا اسے میں ذخیرہ بنا کر نہیں رکھوں گا، اور جو پاک دامن بننا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے پاک دامن بنا دے گا، اور جو صبر کرے گا اللہ تعالیٰ اسے صبر کی توفیق دے گا، اور صبر سے بہتر اور بڑی چیز کسی کو نہیں دی گئی ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۴۶۹)، الرقاق ۲۰ (۶۴۷۰)، صحیح مسلم/الزکاة ۴۲ (۱۰۵۳)، سنن ابی داود/الزکاة ۲۸ (۱۶۴۴)، سنن الترمذی/البر ۷۷ (۲۰۲۵)، (تحفة الأشراف: ۴۱۵۲)، موطا امام مالک/الصدقة ۲ (۷)، مسند احمد (۳/۹۳)، سنن الدارمی/الزکاة۱۸ (۱۶۸۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ شُعَيْبٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَعْنٌ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ فَيَحْتَطِبَ عَلَى ظَهْرِهِ، خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَأْتِيَ رَجُلًا أَعْطَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ فَضْلِهِ، فَيَسْأَلَهُ أَعْطَاهُ أَوْ مَنَعَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، ایک شخص کا اپنی رسی لے کر لکڑیوں کا گٹھا باندھ کر پیٹھ پر لادنا اس سے بہتر ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کے پاس جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل (مال) سے نوازا ہو، وہ اس سے مانگے، تو وہ اسے دے یا نہ دے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة (۱۴۷۰)، (تحفة الأشراف: ۱۳۸۳۰)، موطا امام مالک/الصدقة ۲ (۱۰)، مسند احمد (۲/۲۴۳) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ، عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ يَضْمَنْ لِي وَاحِدَةً وَلَهُ الْجَنَّةُ"، قَالَ يَحْيَى: هَاهُنَا كَلِمَةٌ مَعْنَاهَا"أَنْ لَا يَسْأَلَ النَّاسَ شَيْئًا".
ثوبان رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو اس کے لیے جنت ہے" (یحییٰ کہتے ہیں: یہاں ایک لفظ تھا جس کا مفہوم یہ ہے کہ) "وہ لوگوں سے کچھ نہ مانگے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة۲۵ (۱۸۳۷)، (تحفة الأشراف: ۲۰۹۸)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة۲۷ (۱۶۴۳)، مسند احمد (۵/۲۷۷، ۲۷۹، ۲۸۱) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ حَمْزَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا تَصْلُحُ الْمَسْأَلَةُ إِلَّا لِثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ أَصَابَتْ مَالَهُ جَائِحَةٌ، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُصِيبَ سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُؤَدِّيَ إِلَيْهِمْ حَمَالَتَهُمْ ثُمَّ يُمْسِكُ عَنِ الْمَسْأَلَةِ، وَرَجُلٍ يَحْلِفُ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ مِنْ ذَوِي الْحِجَا بِاللَّهِ لَقَدْ حَلَّتِ الْمَسْأَلَةُ لِفُلَانٍ، فَيَسْأَلُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ مَعِيشَةٍ ثُمَّ يُمْسِكُ عَنِ الْمَسْأَلَةِ، فَمَا سِوَى ذَلِكَ سُحْتٌ".
قبیصہ بن مخارق رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: تین شخصوں کے علاوہ کسی اور کے لیے سوال کرنا درست نہیں ہے: ایک وہ شخص جس کا مال کسی آفت کا شکار ہو گیا ہو تو وہ مانگ سکتا ہے یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ حاصل کر لے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، پھر رک جائے، (دوسرا) وہ شخص جو کسی کا قرض اپنے ذمہ لے لے تو وہ قرض لوٹانے تک مانگ سکتا ہے، پھر (جب قرض ادا ہو جائے) تو مانگنے سے رک جائے۔ اور(تیسرا) وہ شخص جس کی قوم کے تین سمجھدار افراد اللہ کے نام کی قسم کھا کر اس کی محتاجی و تنگ دستی کی گواہی دیں کہ فلاں شخص کے لیے مانگنا جائز ہے تو وہ مانگ سکتا ہے، یہاں تک کہ وہ گزارے کا کوئی ایسا ذریعہ نہ حاصل کر لے جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہو سکیں، ان (تین صورتوں) کے علاوہ مانگنا حرام ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۸۰ (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَأَلَ وَلَهُ مَا يُغْنِيهِ، جَاءَتْ خُمُوشًا أَوْ كُدُوحًا فِي وَجْهِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، قِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ! وَمَاذَا يُغْنِيهِ أَوْ مَاذَا أَغْنَاهُ ؟ قَالَ: "خَمْسُونَ دِرْهَمًا، أَوْ حِسَابُهَا مِنَ الذَّهَبِ"، قَالَ يَحْيَى، قَالَ: سُفْيَانُ، وَسَمِعْتُ زُبَيْدًا يُحَدِّثُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو مانگے اور اس کے پاس ایسی چیز ہو جو اسے مانگنے سے بے نیاز کرتی ہو، تو وہ قیامت کے دن اپنے چہرے پر خراشیں لے کر آئے گا"، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! کتنا مال ہو تو اسے غنی (مالدار) سمجھا جائے گا؟ آپ نے فرمایا: "پچاس درہم، یا اس کی قیمت کا سونا ہو"۔ یحییٰ بن آدم کہتے ہیں: سفیان ثوری نے کہا کہ میں نے زبید سے بھی سنا ہے، وہ محمد بن عبدالرحمٰن بن یزید کے واسطہ سے (یہ حدیث) بیان کر رہے تھے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۲۳ (۱۶۲۶)، سنن الترمذی/الزکاة ۲۲ (۶۵۱)، سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۶ (۱۸۴۰)، (تحفة الأشراف: ۹۳۸۷) مسند احمد (۱/۳۸۸، ۴۴۱)، سنن الدارمی/الزکاة ۱۵ (۱۶۸۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، عَنْ أَخِيهِ، عَنْ مُعَاوِيَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تُلْحِفُوا فِي الْمَسْأَلَةِ، وَلَا يَسْأَلْنِي أَحَدٌ مِنْكُمْ شَيْئًا، وَأَنَا لَهُ كَارِهٌ، فَيُبَارَكَ لَهُ فِيمَا أَعْطَيْتُهُ".
معاویہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چمٹ کر مت مانگو، اور تم میں سے کوئی مجھ سے کوئی چیز اس لیے نہ مانگے کہ میں اسے جو دوں اس میں اسے برکت دی جائے، اور حال یہ ہو کہ میں اسے نہ دینا چاہوں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۳۳ (۱۰۳۸)، (تحفة الأشراف: ۱۱۴۴۶)، مسند احمد (۴/۹۸)، سنن الدارمی/الزکاة ۱۷ (۱۶۸۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "مَنْ سَأَلَ وَلَهُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا فَهُوَ الْمُلْحِفُ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس کے پاس چالیس درہم ہوں اور وہ مانگے تو وہ «ملحف» (چمٹ کر مانگنے والا) ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۸۶۹۹) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنْأَبِيهِ، قَالَ: سَرَّحَتْنِي أُمِّي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَتَيْتُهُ، وَقَعَدْتُ فَاسْتَقْبَلَنِي وَقَالَ: "مَنِ اسْتَغْنَى أَغْنَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنِ اسْتَعَفَّ أَعَفَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنِ اسْتَكْفَى كَفَاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَمَنْ سَأَلَ وَلَهُ قِيمَةُ أُوقِيَّةٍ فَقَدْ أَلْحَفَ"، فَقُلْتُ: نَاقَتِي الْيَاقُوتَةُ خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ.
ابو سعید خدری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میری ماں نے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (کچھ مانگنے کے لیے) بھیجا، میں آیا، اور بیٹھ گیا، آپ نے میری طرف منہ کیا، اور فرمایا: "جو بے نیازی چاہے گا اللہ عزوجل اسے بے نیاز کر دے گا اور جو شخص سوال سے بچنا چاہے گا اللہ تعالیٰ اسے بچا لے گا، اور جو تھوڑے پر قناعت کرے گا اللہ تعالیٰ اسے کافی ہو گا۔ اور جو شخص مانگے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (یعنی چالیس درہم) کے برابر مال ہو تو گویا اس نے چمٹ کر مانگا"، تو میں نے(اپنے دل میں) کہا: میری اونٹنی یاقوتہ ایک اوقیہ سے بہتر ہے، چنانچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے واپس چلا آیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۲۳ (۱۶۲۸)، (تحفة الأشراف: ۴۱۲۱)، مسند احمد (۳/۹) (حسن صحیح)
قَالَ: الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقْيعِ الغَرْقَدِ، فَقَالَتْ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ"، فَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ، وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّهُ لَيَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا، فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا"، قَالَ الْأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ: لَلَقْحَةٌ لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ، فَقَسَّمَ لَنَا مِنْهُ حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں بقیع الغرقد میں اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز مانگ کر لائیے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا جو آپ سے مانگ رہا تھا، اور آپ اس سے فرما رہے تھے: "میرے پاس (اس وقت) تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے"۔ وہ شخص آپ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا چلا: قسم ہے میری زندگی کی! آپ تو اسی کو دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "(خواہ مخواہ) مجھ پر اس بات پر غصہ ہو رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، (ہوتا تو اسے دیتا ویسے تم لوگ جان لو کہ) تم میں سے جس کے پاس چالیس درہم ہو یا چالیس درہم کی قیمت کے برابر کا مال ہو، اور اس نے مانگا تو اس نے چمٹ کر مانگا"، اسدی (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: میں نے (دل میں) کہا: ہماری دو دھاری اونٹنی ایک اوقیہ سے تو بہتر ہی ہے، اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، چنانچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے لوٹ آیا۔ پھر آپ کے پاس جَو اور کشمش آئے، تو آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ہم کو مالدار کر دیا۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۲۳ (۱۶۲۷)، (تحفة الأشراف: ۱۵۶۴۰)، مسند احمد (۴/۳۶ و۵/۴۳۰) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، عَنْ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَحِلُّ الصَّدَقَةُ لِغَنِيٍّ وَلَا لِذِي مِرَّةٍ سَوِيٍّ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ کسی مالدار، طاقتور اور صحیح سالم شخص کے لیے درست نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة۲۵ (۱۸۳۹)، (تحفة الأشراف: ۱۲۹۱۰)، مسند احمد (۲/۳۷۷، ۳۸۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: حَدَّثَنِيعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَدِيِّ بْنِ الْخِيَارِ، أَنَّ رَجُلَيْنِ حَدَّثَاهُ، أَنَّهُمَا أَتَيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلَانِهِ مِنَ الصَّدَقَةِ، فَقَلَّبَ فِيهِمَا الْبَصَرَ، وَقَالَ مُحَمَّدٌ: بَصَرَهُ فَرَآهُمَا جَلْدَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ شِئْتُمَا، وَلَا حَظَّ فِيهَا لِغَنِيٍّ، وَلَا لِقَوِيٍّ مُكْتَسِبٍ".
عبیداللہ بن عدی بن خیار رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ دو شخصوں نے ان سے بیان کیا کہ وہ دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، دونوں آپ سے صدقہ مانگ رہے تھے، تو آپ نے نگاہ الٹ پلٹ کر انہیں دیکھا (محمد کی روایت میں (نگاہ کے بجائے) اپنی نگاہ ہے تو دونوں کو ہٹا کٹا پایا، تو آپ نے فرمایا: "اگر چاہو تو لے لو، (لیکن یہ جان لو) کہ مالدار اور کما سکنے والے شخص کے لیے اس میں کوئی حصہ نہیں ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۲۳ (۱۶۳۳)، (تحفة الأشراف: ۵۶۳۵)، مسند احمد (۴/۲۲۴، و۵/۳۶۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الْمَسَائِلَ كُدُوحٌ يَكْدَحُ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، فَمَنْ شَاءَ كَدَحَ وَجْهَهُ، وَمَنْ شَاءَ تَرَكَ، إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ ذَا سُلْطَانٍ، أَوْ شَيْئًا لَا يَجِدُ مِنْهُ بُدًّا".
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مانگنا خراش (زخم کی ہلکی لکیر) ہے جسے آدمی اپنے چہرے پر لگاتا ہے، تو جو چاہے اپنے چہرے پر (مانگ کر) خراش لگائے، اور جو چاہے نہ لگائے، مگر یہ کہ آدمی حاکم سے مانگے، یا کوئی ایسی چیز مانگے جس سے چارہ نہ ہو"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة ۲۶ (۱۶۳۹)، سنن الترمذی/الزکاة ۳۸ (۶۸۱)، (تحفة الأشراف: ۴۶۱۴)، مسند احمد ۵/۱۹، ۲۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "الْمَسْأَلَةُ كَدٌّ يَكُدُّ بِهَا الرَّجُلُ وَجْهَهُ، إِلَّا أَنْ يَسْأَلَ الرَّجُلُ سُلْطَانًا، أَوْ فِي أَمْرٍ لَا بُدَّ مِنْهُ".
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مانگنا خراش ہے جس سے آدمی اپنے چہرے کو زخمی کرتا ہے مگر یہ کہ آدمی حاکم سے مانگے، یا کوئی ایسی چیز مانگے جس کے بغیر چارہ نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ماقبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْجَبَّارِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الْجَبَّارِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ، لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے دیا، پھر مانگا تو پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: "یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے دل کی پاکیزگی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت ملے گی، اور جو شخص اسے نفس کی حرص و طمع سے لے گا تو اس میں اسے برکت نہیں دی جائے گی۔ وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ (جان لو) اوپر والا (یعنی دینے والا) ہاتھ نیچے والے (یعنی لینے والے) ہاتھ سے بہتر ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۰ (۱۴۷۲) مطولا، (تحفة الأشراف: ۳۴۳۱)، مسند احمد (۳/۴۳۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا مِسْكِينُ بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، مَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ النَّفْسِ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى".
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا، پھر آپ نے فرمایا: "حکیم! یہ مال ہری بھری اور میٹھی چیز ہے۔ جو اسے طبیعت کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت دی جائے گی، اور جو نفس کی حرص و لالچ کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھاتا ہو لیکن آسودہ نہ ہوتا ہو، اور اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے ہاتھ سے"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنِي الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ بْنِ دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ بَكْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنِابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ حَكِيمَ بْنَ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِسَخَاوَةِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ، وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى"، قَالَ حَكِيمٌ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ، لَا أَرْزَأُ أَحَدًا بَعْدَكَ حَتَّى أُفَارِقَ الدُّنْيَا بِشَيْءٍ.
حکیم بن حزام رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا تو آپ نے مجھے دیا، میں نے پھر مانگا تو آپ نے پھر دیا۔ پھر آپ نے فرمایا: "اے حکیم! یہ مال میٹھی چیز ہے، جو شخص اسے نفس کی فیاضی کے ساتھ لے گا تو اس میں اسے برکت دی جائے گی، اور جو شخص اسے حرص و طمع کے ساتھ لے گا تو اسے اس میں برکت نہیں دی جائے گی۔ اور وہ اس شخص کی طرح ہو گا جو کھائے تو لیکن اس کا پیٹ نہ بھرے۔ اور (جان لو) اوپر والا ہاتھ بہتر ہے نیچے والے سے"۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ کے بعد اب کسی سے کچھ نہ لوں گا یہاں تک کہ دنیا سے رخصت ہو جاؤں۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۵۳۲ (صحیح)
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ، قَالَ: اسْتَعْمَلَنِيعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا فَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَقَالَ: خُذْ مَا أَعْطَيْتُكَ فَإِنِّي قَدْ عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ، فَكُلْ وَتَصَدَّقْ".
عبداللہ بن ساعدی مالکی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے صدقہ پر عامل بنایا، جب میں اس سے فارغ ہوا اور اسے ان کے حوالے کر دیا، تو انہوں نے اس کام کی مجھے اجرت دینے کا حکم دیا، میں نے ان سے عرض کیا کہ میں نے یہ کام صرف اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے، اور میرا اجر اللہ ہی کے ذمہ ہے، تو انہوں نے کہا: ـ میں تمہیں جو دیتا ہوں وہ لے لو، کیونکہ میں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک کام کیا تھا، اور میں نے بھی آپ سے ویسے ہی کہا تھا جو تم نے کہا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: "جب تمہیں کوئی چیز بغیر مانگے ملے تو (اسے) کھاؤ، اور (اس میں سے) صدقہ کرو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة۵۱ (۱۴۷۳)، الأحکام۱۷ (۷۱۶۳)، صحیح مسلم/الزکاة۳۷ (۱۰۴۵)، سنن ابی داود/الزکاة۲۸ (۱۶۴۷)، الخراج والإمارة۱۰ (۲۹۴۴)، (تحفة الأشراف: ۱۰۴۸۷)، مسند احمد ۱/۱۷، ۴۰، ۵۲، ۲/۹۹، سنن الدارمی/الزکاة ۱۹ (۱۶۸۸، ۱۶۸۹)، وسیأتی بعد ھذا بأرقام۲۶۰۶-۲۶۰۸ (صحیح)
أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَبُو عُبَيْدِ اللَّهِ الْمَخْزُومِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ حُوَيْطِبِ بْنِ عَبْدِ الْعُزَّى، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ السَّعْدِيِّ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الشَّامِ فَقَالَ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَعْمَلُ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ الْمُسْلِمِينَ، فَتُعْطَى عَلَيْهِ عُمَالَةً فَلَا تَقْبَلُهَا، قَالَ: أَجَلْ إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْمَالَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَفْقَرُ إِلَيْهِ مِنِّي، وَإِنَّهُ أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِهِ مَنْ هُوَ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ: "مَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ هَذَا الْمَالِ مِنْ غَيْرِ مَسْأَلَةٍ وَلَا إِشْرَافٍ، فَخُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
عبداللہ بن السعدی القرشی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ شام سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم مسلمانوں کے کاموں میں سے کسی کام پر عامل بنائے جاتے ہو، اور اس پر جو تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو اسے تم قبول نہیں کرتے، تو انہوں نے کہا: ہاں یہ صحیح ہے، میرے پاس گھوڑے ہیں، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (اللہ کا شکر ہے کوئی کمی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جو تم چاہتے ہو وہی میں نے بھی چاہا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مال دیتے تو میں عرض کرتا: اسے آپ اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، ایک بار آپ نے مجھے مال دیا تو میں نے عرض کیا: آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو، تو آپ نے فرمایا:"اللہ عزوجل اس مال میں سے جو تمہیں بغیر مانگے اور بغیر لالچ کئے دے، اسے لے لو، چاہو تم (اسے اپنے مال میں شامل کر کے) مالدار بن جاؤ، اور چاہو تو اسے صدقہ کر دو۔ اور جو نہ دے اسے لینے کے پیچھے مت پڑو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح)
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، أَنَّحُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: أَلَمْ أُحَدَّثْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا، فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ رَدَدْتَهَا، فَقُلْتُ: بَلَى، فَقَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ ؟ فَقُلْتُ: لِي أَفْرَاسٌ وَأَعْبُدٌ وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: فَلَا تَفْعَلْ، فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ مِثْلَ الَّذِي أَرَدْتَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ مَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس ان کی خلافت کے زمانہ میں آئے، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: کیا مجھے یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے ذمہ دار ہوتے ہو اور جب تمہیں مزدوری دی جاتی ہے تو قبول نہیں کرتے لوٹا دیتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں(صحیح ہے) اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: میرے پاس گھوڑے، غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں (مجھے کسی چیز کی محتاجی نہیں ہے) میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: ایسا نہ کرو کیونکہ میں بھی یہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو (لیکن اس کے باوجود)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیہ (بخشش) دیتے تھے تو میں عرض کرتا تھا: اسے میرے بجائے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ فرماتے: "اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو، یا صدقہ کر دو، سنو! تمہارے پاس اس طرح کا جو بھی مال آئے جس کا نہ تم حرص رکھتے ہو اور نہ تم اس کے طلب گار ہو تو وہ مال لے لو، اور جو اس طرح نہ آئے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۶۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، وَإِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، عَنِ الْحَكَمِ بْنِ نَافِعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي السَّائِبُ بْنُ يَزِيدَ، أَنَّ حُوَيْطِبَ بْنَ عَبْدِ الْعُزَّى أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ السَّعْدِيِّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَدِمَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي خِلَافَتِهِ فَقَالَ عُمَرُ: أَلَمْ أُخْبَرْ أَنَّكَ تَلِي مِنْ أَعْمَالِ النَّاسِ أَعْمَالًا فَإِذَا أُعْطِيتَ الْعُمَالَةَ كَرِهْتَهَا، قَالَ: فَقُلْتُ: بَلَى، قَالَ: فَمَا تُرِيدُ إِلَى ذَلِكَ، فَقُلْتُ: إِنَّ لِي أَفْرَاسًا وَأَعْبُدًا وَأَنَا بِخَيْرٍ، وَأُرِيدُ أَنْ يَكُونَ عَمَلِي صَدَقَةً عَلَى الْمُسْلِمِينَ، فَقَالَ عُمَرُ: فَلَا تَفْعَلْ فَإِنِّي كُنْتُ أَرَدْتُ الَّذِي أَرَدْتَ، فَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، فَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ، وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
عبداللہ بن السعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کے پاس آئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا مجھے یہ خبر نہیں دی گئی ہے کہ تم عوامی کاموں میں سے کسی کام کے والی ہوتے ہو تو جب تمہیں اجرت دی جاتی ہے تو تم اسے ناپسند کرتے ہو؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: کیوں نہیں (ایسا تو ہے) انہوں نے کہا: اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا: میرے پاس گھوڑے اور غلام ہیں اور میں ٹھیک ٹھاک ہوں، میں چاہتا ہوں کہ میرا کام مسلمانوں پر صدقہ ہو جائے، اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ایسا نہ کرو، کیونکہ میں بھی وہی چاہتا تھا جو تم چاہتے ہو۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطایا (بخشش) دیتے تھے، تو میں عرض کرتا تھا: آپ اسے دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا، میں نے کہا: آپ اسے اس شخص کو دے دیں جو مجھ سے زیادہ اس کا ضرورت مند ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لے کر اپنے مال میں شامل کر لو، نہیں تو صدقہ کر دو۔ (سنو!) اس مال میں سے جو بھی تمہیں بغیر کسی لالچ کے اور بغیر مانگے ملے اس کو لے لو، اور جو نہ ملے اس کے پیچھے نہ پڑو"۔
تخریج دارالدعوہ: انظر حدیث رقم: ۲۶۰۵ (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي فَقَالَ: "خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ وَتَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے عطیہ دیتے تو میں کہتا: آپ اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو۔ یہاں تک کہ ایک بار آپ نے مجھے کچھ مال دیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اسے اس شخص کو دے دیجئیے جو مجھ سے زیادہ اس کا حاجت مند ہو، تو آپ نے فرمایا: "تم لے لو، اور اس کے مالک بن جاؤ، اور اسے صدقہ کر دو، اور جو مال تمہیں اس طرح ملے کہ تم نے اسے مانگا نہ ہو اور اس کی لالچ کی ہو تو اسے قبول کر لو، اور جو اس طرح نہ ملے اس کے پیچھے اپنے آپ کو نہ ڈالو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۱ (۱۴۷۳)، الأحکام ۱۷ (۷۱۶۴)، صحیح مسلم/الزکاة ۳۷ (۱۰۴۵)، تحفة الأشراف: ۱۰۵۲۰)، مسند احمد (۱/۲۱، سنن الدارمی/الزکاة ۱۹ (۱۶۸۸) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، قَالَ: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَالْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ اسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ، فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَهُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ حَتَّى أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَنَا: "إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبدالمطلب بن ربیعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، اور آپ سے کہو کہ اللہ کے رسول! آپ ہمیں صدقہ پر عامل بنا دیں، ہم اسی حال میں تھے کہ علی رضی اللہ عنہ آ گئے تو انہوں نے ان دونوں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم دونوں میں سے کسی کو بھی صدقہ پر عامل مقرر نہیں فرمائیں گے۔ عبدالمطلب کہتے ہیں: (ان کے ایسا کہنے کے باوجود بھی) میں اور فضل دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو آپ نے ہم سے فرمایا: "یہ صدقہ جو ہے یہ لوگوں کا میل ہے، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل کے لیے جائز نہیں"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح مسلم/الزکاة۵۱ (۱۰۷۲)، سنن ابی داود/الخراج والإمارة۲۰ (۲۹۸۵)، (تحفة الأشراف: ۹۷۳۷)، مسند احمد ۴/۱۶۶ (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي إِيَاسٍ مُعَاوِيَةَ بْنِ قُرَّةَ، أَسَمِعْتَأَنَسَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْ أَنْفُسِهِمْ"؟ قَالَ: نَعَمْ.
شعبہ کہتے ہیں کہ میں نے ابوایاس معاویہ بن قرہ سے پوچھا: کیا آپ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے"، انہوں نے کہا: جی ہاں (میں نے سنا ہے)۔
تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۸)، مسند احمد (۳/۱۱۹، ۱۷۱، ۲۲۲، ۲۳۱، سنن الدارمی/السیر ۸۲ (۲۵۶۹) (صحیح)
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا وَكِيعٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "ابْنُ أُخْتِ الْقَوْمِ مِنْهُمْ".
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لوگوں کا بھانجا بھی انہیں میں سے ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المناقب۱۴ (۳۵۱۶)، الفرائض۲۴ (۶۷۶۱)، صحیح مسلم/الزکاة۴۶ (۱۰۵۹) مطولا، سنن الترمذی/المناقب ۶۶ (۳۹۰۱) (تحفة الأشراف: ۱۲۴۴)، مسند احمد (۳/۱۷۲، ۱۷۳، ۱۸۰، ۲۲۲، ۲۷۵، ۲۷۶، ۲۷۷) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنِ ابْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَأَرَادَ أَبُو رَافِعٍ أَنْ يَتْبَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ الصَّدَقَةَ لَا تَحِلُّ لَنَا، وَإِنَّ مَوْلَى الْقَوْمِ مِنْهُمْ".
ابورافع رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی مخزوم کے ایک شخص کو صدقہ پر عامل مقرر فرمایا، تو ابورافع نے بھی اس کے ساتھ جانا چاہا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "صدقہ ہمارے لیے حلال نہیں ہے، لوگوں کا غلام بھی انہیں میں سے شمار ہوتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۲۹ (۱۶۵۰)، سنن الترمذی/الزکاة۲۵ (۶۵۷)، (تحفة الأشراف: ۲۰۱۸)، مسند احمد (۶/۸، ۱۰، ۳۹۰) (صحیح)
وضاحت: ۱؎: ابورافع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے۔
أَخْبَرَنَا زِيَادُ بْنُ أَيُّوبَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ وَاصِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: "كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أُتِيَ بِشَيْءٍ سَأَلَ عَنْهُ أَهَدِيَّةٌ أَمْ صَدَقَةٌ، فَإِنْ قِيلَ صَدَقَةٌ لَمْ يَأْكُلْ، وَإِنْ قِيلَ هَدِيَّةٌ بَسَطَ يَدَهُ".
بہز بن حکیم کے دادا (معاویہ بن حیدہ) رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (کھانے کی) کوئی چیز لائی جاتی تو آپ پوچھتے: "یہ ہدیہ ہے یا صدقہ؟" اگر کہا جاتا کہ یہ صدقہ ہے تو آپ نہ کھاتے اور اگر کہا جاتا یہ ہدیہ ہے تو آپ (کھانے کے لیے) اپنا ہاتھ بڑھاتے۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة۲۵ (۶۵۶)، (تحفة الأشراف: ۱۱۳۸۶)، مسند احمد (۵/۵) (حسن صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ يَزِيدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَكَمُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنِالْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ فَتُعْتِقَهَا، وَإِنَّهُمُ اشْتَرَطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا وَأَعْتِقِيهَا، فَإِنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ أَعْتَقَ وَخُيِّرَتْ حِينَ أُعْتِقَتْ"، وَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَقِيلَ: هَذَا مِمَّا تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ: "هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ وَلَنَا هَدِيَّةٌ"، وَكَانَ زَوْجُهَا حُرًّا.
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے بریرہ رضی اللہ عنہا کو خرید کر آزاد کر دینا چاہا، لیکن ان کے مالکان نے ولاء (ترکہ) خود لینے کی شرط لگائی۔ تو انہوں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ نے فرمایا: "اسے خرید لو، اور آزاد کر دو، ولاء (ترکہ) اسی کا ہے جو آزاد کرے"، اور جس وقت وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں اختیار دیا گیا کہ وہ اپنے شوہر کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں۔ (اسی درمیان) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گوشت لایا گیا، کہا گیا کہ یہ ان چیزوں میں سے ہے جو بریرہ رضی اللہ عنہا پر صدقہ کیا جاتا ہے، تو آپ نے فرمایا: "یہ اس کے لیے صدقہ ہے، اور ہمارے لیے ہدیہ ہے"، ان کے شوہر آزاد تھے۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۶۱ (۱۴۹۳)، العتق ۱۰ (۲۵۳۶)، الھبة ۷ (۲۵۷۸)، النکاح ۱۸ (۵۰۹۷)، الطلاق ۱۴ (۵۲۷۹)، ۱۷ (۵۲۸۴)، والأطعمة ۳۱ (۵۴۳۰)، الکفارات ۸ (۶۷۱۷)، الفرائض ۱۹ (۶۷۵۱)، ۲۰ (۶۷۵۴)، ۲۲ (۶۷۵۷)، ۲۳ (۶۷۵۹)، (تحفة الأشراف: ۱۵۹۳۰)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الزکاة۵۲ (۱۰۷۵)، العتق ۲ (۱۵۰۴)، سنن ابی داود/الفرائض ۱۲ (۲۹۱۶)، الطلاق ۱۹ (۲۲۳۳)، سنن الترمذی/البیوع ۳۳ (۱۲۵۶)، الولاء ۱ (۲۱۲۵)، سنن ابن ماجہ/الطلاق ۲۹ (۲۰۷۴)، موطا امام مالک/الطلاق ۱۰ (۲۵)، مسند احمد ۶/۴۲، ۴۶، ۱۱۵، ۱۲۳، ۱۷۰، ۱۷۲، ۱۷۵، ۱۷۸، ۱۸۰، ۱۹۱، ۲۰۷، ۲۰۹، ویأتي عند المؤلف ۳۴۸۰ (صحیح) (یہ روایت ’’وکان زوجھا عبدا‘‘ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، اور ’’کان حرا‘‘ کا لفظ صرف ’’ الحکم عن الأسود عن عائشة ‘‘ کے طریق میں ہے، جو بقول امام بخاری راوی ’’حکم‘‘ کا ارسال ہے)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قراءة عليه وأنا أسمع، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ يَقُولُ: حَمَلْتُ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَأَضَاعَهُ الَّذِي كَانَ عِنْدَهُ وَأَرَدْتُ أَنْ أَبْتَاعَهُ مِنْهُ، وَظَنَنْتُ أَنَّهُ بَائِعُهُ بِرُخْصٍ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: "لَا تَشْتَرِهِ وَإِنْ أَعْطَاكَهُ بِدِرْهَمٍ، فَإِنَّ الْعَائِدَ فِي صَدَقَتِهِ كَالْكَلْبِ يَعُودُ فِي قَيْئِهِ".
اسلم کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے (ایک آدمی کو) ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا تو اسے اس شخص نے برباد کر دیا، تو میں نے سوچا کہ میں اسے خرید لوں، خیال تھا کہ وہ اسے سستا ہی بیچ دے گا، میں نے اس بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، تو آپ نے فرمایا: "تم اسے مت خریدو گرچہ وہ تمہیں ایک ہی درہم میں دیدے، کیونکہ صدقہ کر کے پھر اسے لینے والا کتے کی طرح ہے جو قے کر کے اسے چاٹتا ہے"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۹ (۱۴۹۰)، الھبة ۳۰ (۲۶۲۳)، ۳۷ (۲۶۳۶)، الوصایا ۳۱ (۲۹۷۰)، الجھاد ۱۱۹ (۲۹۷۰)، ۱۳۷ (۳۰۰۳)، صحیح مسلم/الھبات ۱ (۱۶۲۰)، سنن ابن ماجہ/الصدقات ۱ (۲۳۹۰)، ۲ (۱۳۹۲)، ما/الزکاة ۲۶ (۴۹)، (تحفة الأشراف: ۱۰۳۸۵)، مسند احمد (۱/ ۲۵، ۳۷، ۴۰، ۵۴) (صحیح)
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عُمَرَ، أَنَّهُ حَمَلَ عَلَى فَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَرَآهَا تُبَاعُ، فَأَرَادَ شِرَاءَهَا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَعْرِضْ فِي صَدَقَتِكَ".
عمر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں سواری کے لیے دیا، پھر دیکھا کہ وہ گھوڑا بیچا جا رہا ہے، تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تم اپنے صدقے میں آڑے نہ آؤ"۔
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الزکاة ۳۲ (۶۶۸)، (تحفة الأشراف: ۱۰۵۲۶) (صحیح)
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا حُجَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ عُمَرَ تَصَدَّقَ بِفَرَسٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَوَجَدَهَا تُبَاعُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَأَرَادَ أَنْ يَشْتَرِيَهُ، ثُمَّ أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتَأْمَرَهُ فِي ذَلِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَعُدْ فِي صَدَقَتِكَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے ایک گھوڑا اللہ کی راہ میں صدقہ کیا، اس کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بیچا جا رہا ہے۔ تو انہوں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، اور آپ سے اس بارے میں اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: "اپنا صدقہ واپس نہ لو"۔
تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/الزکاة ۵۹ (۱۴۸۹)، (تحفة الأشراف: ۶۸۸۲) (صحیح)
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا بِشْرٌ، وَيَزِيدُ قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"أَمَرَ عَتَّابَ بْنَ أَسِيدٍ أَنْ يَخْرُصَ الْعِنَبَ، فَتُؤَدَّى زَكَاتُهُ زَبِيبًا كَمَا تُؤَدَّى زَكَاةُ النَّخْلِ تَمْرًا".
تابعی سعید بن مسیب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتاب بن اسید کو (درخت پر لگے) انگور کا تخمینہ لگانے کا حکم دیا تاکہ اس کی زکاۃ کشمش سے ادا کی جا سکے، جیسے درخت پر لگی کھجوروں کی زکاۃ پکی کھجور سے ادا کی جاتی ہے ۱؎۔
تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/الزکاة۱۳ (۱۶۰۳)، سنن الترمذی/الزکاة۱۷ (۶۴۴)، سنن ابن ماجہ/۱۸ (۱۸۱۹)، (تحفة الأشراف: ۹۷۴۸) (حسن الإسناد) (حدیث کی سند میں ارسال ہے، اور یہ سعید بن مسیب کی مرسل ہے، اور یہ بات معلوم ہے کہ سب سے صحیح مراسیل سعید بن مسیب ہی کی ہیں)
وضاحت: ۱؎: بظاہر اس حدیث کا تعلق اس کے باب "صدقہ خریدنے کا بیان" سے نظر نہیں آتا، ممکن ہے کہ مؤلف کی مراد یہ ہو کہ "جب درخت پر لگے پھل کا تخمینہ لگا کر مالک کے گھر میں موجود کھجور سے اس کی زکاۃ لے لی گئی تو گویا یہ بیع ہو گئی"، اور تب عمر رضی الله عنہ کے واقعہ میں ممانعت تنزیہ پہ محمول کی جائے گی، واللہ اعلم۔